فہرست مضامین
تنقیدی نگارشات
حصّہ چہارم
مظفرؔ حنفی
ترتیب و تدوین: فیروز مظفر
(اصل کتاب سے دو مضامین کھنڈوا میں اُردو شعر و ادب کے پچاس سال‘ اور ’مغربی بنگال کا شعری مزاج‘ علیحدہ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں)
قوی صاحب
حکم ہوا ہے کہ میں ’’ مجلۂ سیفیہ‘‘ کی اشاعت خاص کے لیے مادرِ علمی سیفیہ کالج (بھوپال) سے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کروں۔ بھوپال کی اس قابل قدر درسگاہ کی خدمات اور اس کی انفرادیت کے بارے میں گرانڈیل شخصیتوں کی ایک بڑی تعداد نے مختلف اوقات میں اپنے بے لوث تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ میرا اپنا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ۳۳ سال کی عمر میں اس ادارے سے طالب علمانہ وابستگی کا موقع فراہم ہوا۔ مزاج کی پختگی اور سرکاری ملازمت کی مصروفیات نے مہلت ہی نہ دی کہ کالج کے عام طلبہ کی طرح کھیل کود کی دلچسپیوں یا ثقافتی پروگراموں میں نمایاں حصہ لے سکتا صاف بات تو یہ ہے کہ دو سال کے قلیل عرصۂ طالب علمی میں ادارہ سیفیہ میرے تئیں شعبۂ اردو تک محدود تھا اور سیفیہ کے شعبہ اُردو کا دوسرا نام ہے عبد القوی دسنوی۔ چنانچہ میں قوی صاحب سے متعلق جو خامہ فرسائی کروں گا اس کا بالواسطہ تعلق سیفیہ کالج سے بھی ہو گا اور اس طرح میں اپنے قلم کے ساتھ بھی ایمانداری برت سکوں گا۔
غالباً ۱۹۶۴ء کے موسمِ گرما کی ایک شام تھی۔ وقت گزاری کے لیے اپنے دوست واحدؔ پریمی کے فرنیچر کے کارخانے میں جا نکلا۔ کمپاؤنڈ میں واحدؔ پریمی کے قریب کرسی پر کوئی صاحب تشریف فرما تھے۔ پھیکی سی چاندنی میں موصوف کے چہرے کے خد و خال واضح طور پر نظر نہ آتے تھے۔ کھلے پائینچوں کا پاجامہ، گلے تک بند شیروانی، لمبے لمبے بال اور ناک پر موٹے فریم کا چشمہ۔ سو چا شاعر کی گت شاعر جانے، حلیہ بھی شاعرانہ ہے۔ ضرور کوئی شاعر ہوں گے۔ تعارف کرایا گیا تو قوی صاحب نکلے۔ مصافحہ کے وقت رسمی اظہار مسرت کا ایک جملہ بھی نہ کہا بس خفیف سا مسکرا کر رہ گئے، ہاتھ کی گرفت میں بھی کوئی خاص گرمی نہ تھی۔ بعد ازاں تھوڑی دیر تک واحد پریمی سے اپنی الماری اور صوفے کی تیاری سے متعلق دھیمی دھیمی آواز میں کچھ اس طرح سرگوشیاں سی کرتے رہے جیسے کوئی ادبی سازش کر رہے ہوں۔ پھر ہم دونوں سے ہاتھ ملا کر چلے گئے۔ سچ پوچھیے تو پہلی ملاقات میں قوی صاحب نے مجھ پر کوئی زیادہ اچھا اثر نہیں چھوڑا۔
چند سال بعد ریڈیو بھوپال سے میرے مجموعہ کلام ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ پر تبصرہ نشر ہوا۔ مبصر تھے قوی صاحب۔ مذکورہ کتاب میری شاعری کے ابتدائی دور کی غزلوں پر مشتمل ہے اور اس کے خام پہلوؤں کو مجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ تبصرہ سن کر یوں لگا جیسے قویؔ صاحب نے ہمت افزائی کی ہے لیکن ایک بات یہ تھی کہ قوی صاحب نے اس مختصر سے تبصرہ کو صرف ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ تک ہی محدود نہ رکھا تھا بلکہ میری دوسری کتب کے بر محل حوالوں سے ثابت کر دیا تھا کہ کسی کتاب کے مطالعہ سے قبل وہ صاحب کتاب کی دیگر ذہنی وسعتوں کی آگہی بھی فراہم کر لیتے ہیں جو کتاب کو سونگھ کر سطحی، رسمی اور سرسری انداز میں تبصرہ کھینچ دینے کی عام مروجہ روش کے قطعاً برخلاف ہے۔ اس پروگرام میں دو ایک اور کتابوں پر بھی قویؔ صاحب کے تبصرے نشر کیے گئے تھے۔ یہ کتابیں میری نگاہ سے گزر چکی تھیں، ایمان کی تو یہ ہے کہ ایک آدھ معمولی اعتراض کے علاوہ قوی صاحب نے جو کچھ کہا، توصیفی انداز میں حوصلہ افزائی کے طور پر کہا ورنہ کتابیں مبتدیانہ کاوشوں سے زیادہ کچھ نہ تھیں۔ تین چار روز بعد بھوپال میں کئی شاعر اور ادیب دوستوں سے ملاقات ہوئی تو بیشتر کو شکوہ سنج پایا کہ قوی صاحب نے کتابوں کی اتنی مدح سرائی تو کی نہیں جتنی کہ ہونی چاہیے تھی اور تبصروں میں فلاں فلاں ( فرضی) خامیاں تھیں اور قوی صاحب نے نثر و غزلدستہ ‘‘ کا تلفظ غلط طور پر ادا کیا ہے اور یہ اور وہ۔ اسی دن شام کو چوک جامع مسجد پر قوی صاحب مل گئے، واحد پریمی میرے ساتھ تھے ہم تینوں ایک قریبی ریستوراں میں جا بیٹھے۔ اُس دن قوی صاحب کو اندر اور باہر سے ذرا کھل کر دیکھنے کا موقع ملا۔ عمر میں مجھ سے دو چار بہاریں زیادہ دیکھے ہوئے، دراز قد، کشادہ پیشانی، گول چہرہ، کھلتا ہوا گیہواں رنگ، چشمے کے پیچھے سے چمکتی ہوئی ذہین آنکھیں، گدّی تک بڑھے ہوئے خشک بال، کچھ اُلجھے کچھ سلجھے سلجھے، حسب سابق بادامی رنگ کی استری شدہ شیروانی کے بٹن گلے تک لگائے ہوئے، کھلے پائینچوں کے سفید بے داغ پاجامے کی مہریوں سے جھانکتی ہوئی سیاہ چپلیں۔ آدمی جامہ زیب بھی ہیں، وجیہہ اور طرحدار بھی، میں سوچ رہا تھا۔
مٹھائی اور چاٹ کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ چھڑا۔ ان کی باتیں بھی رس دار اور شیریں تھیں لیکن میں نے ہمت افزا تبصرے کے لیے شکریہ ادا کیا تو ان کا لہجہ چاٹ کی طرح کچھ ترش ہو گیا۔ معلوم ہوا مقامی یارانِ طریقت نے تبصروں والے قضیے کو صرف اپنی گفتگو تک ہی محدود نہیں رکھا، فرضی مراسلہ نگاروں کی آڑ لے کر مقامی اخباروں میں خالص ذاتی نوعیت کی سطحی بحثیں بھی چھیڑ دی ہیں۔ بھوپال میں اس ہفت خواں سے آبرو کی سلامتی کے ساتھ گزر جانا اچھے اچھے رستموں کے بس کی بات نہیں۔ مجھے بہت پہلے اس کا تجربہ ہو چکا تھا۔ ڈر لگا، کہیں قوی صاحب ان مراسلوں کے جواب اور جواب الجواب کے چکر میں نہ اُلجھ جائیں۔ عرض کیا کہ معترضین کو لفٹ ہی نہ دیجیے چند روز میں یہ یک طرفہ اُبال خود بیٹھ جائے گا۔ ہنسنے لگے کہ ان کی نیت بخیر تھی اور وہ تو محض تبصروں کا ذکر آ جانے پر بات میں بات نکل آئی ویسے بھی وہ کلیم الدین احمد کے انداز تنقید کے قائل نہیں ہیں جس سے لکھنے والے کی دل آزاری ہو۔ معترضین اگر براہِ راست اُن سے گفتگو کرتے تو بات آسانی سے صاف ہو جاتی وغیرہ وغیرہ۔ الفاظ، انداز، لہجے رویے اور چہرے سے خلوص ٹپک رہا تھا۔ چہرے کی سرخی اور آنکھوں کی چمک سے تجربہ ہوا کہ موصوف خاصے جذباتی بھی ہیں۔ بات کا رُخ بدلنے کے لیے میں نے اُن کی تالیف ’’ علامہ اقبال بھوپال میں ‘‘ کا ذکر چھیڑ دیا جو نئی نئی چھپ کر مارکیٹ میں آئی تھی۔ کتاب کی تعریف سن کروہ کچھ شرماسے رہے تھے۔ ساتھ ہی یہ جان کر بے حد خوش تھے کہ اس شہر میں بھی کچھ لوگ سنجیدہ کتابوں کو غور سے پڑھتے ہیں۔ اقبال سے بھوپال کے تعلق پر کافی دیر تک لطف لے لے کر باتیں کرتے رہے۔ ماحول خوشگوار ہو چلا تھا اس میں اور اضافہ کرنے کی غرض سے میں نے مزاحاً کہا کہ اب ایک اور کتاب ’’ غالبؔ بھوپال میں ‘‘ کے عنوان سے مکمل کر ڈالیے۔ چونک کر بڑی سنجیدگی کے ساتھ فرمایا کہ غالبؔ کبھی بھوپال نہیں آئے۔ خاکسار نے اتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ عرض کیا کہ یہ ثابت کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ غالبؔ کے تلامذہ میں سے کئی ایک بھوپال میں مقیم تھے۔ ان کے طرز تحریر میں چند خطوط اور اسی قسم کا کچھ اور مواد پرانے کاغذ پر منتقل کیے جائیں، اُنھیں زمین میں دبا کر یا کسی اور طرح مخطوطاتی طرز کی چیز بنا لیا جائے اور پھر اس کی برآمدگی کا ڈرامائی انداز میں اعلان کیا جائے، غالبؔ صدی قریب ہے، خاصی سنسنی رہے گی۔ قوی صاحب نے جواباً انکشاف کیا کہ وہ ’’بھوپال اور غالبؔ ‘‘کی داغ بیل ڈال چکے ہیں اور غالب کے ایسے تمام تلامذہ کے بارے میں جو بھوپال سے کسی نہ کسی طور پر تعلق رکھتے تھے خاصا مواد اکٹھا کر چکے ہیں اور یہ کتاب ۱۹۶۹ء میں غالب صدی کے موقع پر شائع ہو گی۔ قصہ مختصر یہ کہ اس ملاقات اور گفتگو سے اندازہ ہوا کہ خواہ قویؔ صاحب جذباتیت کی رو میں ہوں خواہ ان کا مخاطب غیر سنجیدہ موڈ میں ہو، سنجیدگی کا دامن ان کے ہاتھ سے بمشکل ہی چھوٹتا ہے اور وہ گفتگو کو موڑ دے دے کر علم و ادب کے دائرے میں رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات دلچسپی کا موجب ہو گی کہ کچھ آگے چل کر اسی بھوپال سے غالب کے اپنے خط میں اس کے دیوان کا دوسرا قلمی نسخہ برآمد ہوا جس کے اصلی یا نقلی ہونے کے سلسلے میں آج تک بحثیں جاری ہیں۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ ۱۹۶۹ء میں مجھے اُردو میں ایم۔ اے کرنے کی دھُن سمائی۔ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے جیسی بات لگتی تھی۔ اس لیے داخلے کے لیے کسی کالج میں جاتے ہوئے حجاب سا آتا تھا ایک بار بر سبیل تذکرہ اظہر راہی صاحب سے ذکر آ گیا اور انھوں نے مجھے قوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ درخواست لے کر پیش ہوا تو ایک بالکل ہی نئے قوی صاحب سے سابقہ پڑا۔ اُنھیں یہ باور کرانے میں کہ میں سنجیدگی سے پڑھوں گا، مجھے بڑی دقت پیش آئی۔ ایسا ہونا فطری بھی تھا کہ سابقہ ملاقاتوں میں خالص علمی اور ادبی موضوعات پر میں نے غیر سنجیدہ انداز میں گفتگو کی تھی۔ ایم اے سال اول میں داخلے کی سفارش تو بہر حال انھوں نے فارم پر کر دی لیکن ان کی بات چیت سے اندازہ یہ ہوا کہ وہ شاعروں اور ادیبوں سے توقع نہیں رکھتے کہ یہ لوگ اچھے طالب علم بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس دن کی باتیں مجھے چبھ سی گئیں۔ اس کے تیسرے چوتھے دن کا واقعہ ہے کہ قوی صاحب کے ہاں پروفیسر ابو محمد سحرؔ( صدر شعبہ اُردو حمیدیہ کالج) تشریف لے آئے میری موجودگی میں سحرؔ صاحب نے بڑے شکایت آمیز لہجے میں ذکر چھیڑا کہ ان کے ہاں ایک شاعر صاحب نے داخلہ لے رکھا ہے اور بزعم خود اپنے آپ کو فاضل و کامل سمجھتے ہیں۔ غزل کے فارم پر بات کیجیے تو اس کے اوصاف گنائیں گے لیکن مطلع اور عام شعر کا ہیئتی فرق واضح نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔ میری خامی یہ ہے کہ گفتگو اگر اشاریاتی پیرائے میں ہو رہی ہو تو اسے فوراً اپنی ذات سے وابستہ کر لیتا ہوں چنانچہ قویؔ صاحب سے داخلے کے وقت ہونے والی بات چیت کی روشنی میں موجودہ گفتگو کے بارے میں بھی گمان گزرا کہ ہدف ملامت میری اپنی ذات ہے۔ سحرؔ صاحب کی کتاب ’’ انتخاب قصائد اُردو‘‘ تازہ چھپ کر آئی تھی اور سرسری طور پر اُسے دیکھ چکا تھا حفظ ما تقدم کے طور پر میں نے اسی کا ذکر چھیڑ دیا کچھ ترتیب کی الٹ پھیر، دو ایک کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی اور ایسے ہی چند بچکانہ اعتراضات سامنے رکھے۔ باتیں شاعروں کی سہل پسندی سے ہٹ کر محققین کی ذمہ داریوں پر ہونے لگیں۔ سحرؔ صاحب نے اپنے مخصوص محتاط اور بھاری بھرکم لہجے میں برا مانے بغیر میری غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلے گئے تو میں نے قویؔ صاحب سے دریافت کیا کہ اُنھیں میرے داخلے کا علم کیسے ہو گیا؟ وہ میری بد گمانی کو پہلے ہی تاڑ گئے تھے۔ سحرؔ صاحب کی خاصی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ حقیقتاً ان کی گفتگو مجھ سے متعلق نہ تھی بلکہ ایک دوسرے شاعر کے بارے میں تھی جو قبل ازیں سیفیہ میں قویؔ صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔ ساتھ ہی مجھے یہ ہدایت بھی کی گئی کہ کوئی اعتراض کرنے سے قبل کافی سوچ لیا کروں، نیز اعتراض کا لہجہ بھی معترض کی ادبی حیثیت کے مطابق نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے کہ اب میں طالب علم ہوں۔ کہہ نہیں سکتا کہ ان واقعات کی پیشکش میں قوی صاحب کی شعوری کوششوں کو کتنا دخل ہے لیکن بہر حال مجھ پر ان کا بڑا صحت مند اثر ہوا اور میرے اندر کا طالب علم بیدار ہو گیا۔ پھر تو میں نے قویؔ صاحب کو اور قوی صاحب نے مجھے خوب خوب پریشان کیا۔ دفتر اور کالج کا چکر ساتھ ساتھ چل رہا تھا پھر مجھے سیہور سے بھوپال آنا پڑتا تھا اس لیے اکثر ایسا ہوتا کہ میں کلاس کے متعینہ اوقات سے ہٹ کر قوی صاحب کو گھیرتا۔ کبھی کبھی صبح کے چھ بجے یا رات کو گیارہ بجے بھی انھیں تکلیف دینی پڑتی۔ اوّل اوّل ڈر لگا کہ ایسے نا مناسب وقت پر زحمت اٹھانا قوی صاحب کو بار گزرے گا۔ لیکن شاید موصوف میری مجبوریوں کو سمجھ چکے تھے انھوں نے کبھی مجھے محسوس نہ ہونے دیا کہ ایسے کسی موقع پر میری حاضری سے انھیں کوفت ہوئی ہے۔ جلد ٹالنے کی کوشش کے بجائے اصرار کر کے زیادہ دیر بٹھاتے۔ جب کسی موضوع پر کسی مضمون، کتاب یا رسالہ کی ضرورت محسوس کی، متعلقہ مضمون کتاب یا رسالہ قویؔ صاحب نے شعبہ اُردو کی لائبریری سے یا اپنے نجی ذخیرۂ کتب سے یا کسی طالب علم کے توسط سے بر وقت فراہم کیا۔ طرّہ یہ کہ جوابی حملے کے طور پر وہ اسی موضوع پر نصابی اور متعینہ امدادی کتب کے علاوہ درجنوں دوسری کتابوں اور رسالوں کے حوالے دیتے۔ ان کی فراہمی کا بندوبست کرتے، متعلقہ ابواب یا مضامین کی نشاندہی فرماتے، ان کی خامیوں اور خوبیوں پر بحث کر کے مناسب نتیجہ پر پہنچنے میں مدد کرتے اور یہ سب ایسے استادانہ پینتروں سے ہوتا کہ کتاب کو بغور پڑھنا ایک لازمی امر بن جاتا۔ پھر ان کتب اور رسائل کی واپسی کے وقت ایک اور پل صراط سے گزرنا پڑتا، قویؔ صاحب ان کے بارے میں کرید کرید کر سوالات کرتے، ایسے سوال جن کے جواب محض سرسری مطالعہ یا کوری ذہانت کے بل بوتے پر نہیں دیے جا سکتے۔ نتیجہ میں ان سے ملنے والے تمام مواد کو دیمک کی طرح سوچ سوچ کر چاٹنا پڑتا۔ قویؔ صاحب اس دور میں بھی اپنے طلبہ کو ہر موضوع پر اتنا زیادہ پڑھنے کے لیے مجبور کرتے ہیں جتنا عام طور پر لوگ پی۔ ایچ ڈی کے لیے پڑھا کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے مرثیہ کے سلسلے میں انھوں نے ڈاکٹر اکبر حیدری کا ضخیم تحقیقی مقالہ پڑھنے کو دیا، کتاب مکمل کرنے کے بعد میرے کام کی کوئی چیز اس سے برآمد نہ ہوئی تو میں نے شکایتاً قویؔ صاحب سے عرض کیا تھا کہ ایسی بے مصرف چیزیں پڑھنے پر مجبور کر کے وہ ہم طلبہ کے ساتھ ظلم کرتے ہیں، وہ خوش ہوئے تھے اور مسکرا کر جواب دیا تھا کہ زیادہ پڑھنے سے ہی کارآمد اور بے مصرف چیزوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ورنہ وسیع مطالعہ کے بغیر اچھی بُری کتاب کی شناخت ممکن نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے شاگردوں میں یہ صلاحیت اُبھرے۔
کتابوں کے معاملے میں قویؔ صاحب جتنے دریا دل ہیں اتنے ہی بخیل بھی ہیں۔ آپ کو سپرد کرنے سے قبل اس کتاب کی افادیت پر روشنی ڈالیں گے، اس کے خراب ہونے یا گم ہو جانے کی صورت میں ضرورت مند طلبہ کو پہنچنے والے نقصان کے امکانات واضح کریں گے۔ اُس کی اہمیت یا کمیابی سے مطلع کریں گے اور پھر گمنام طالب علموں کے واقعات سنائیں گے کہ ایک صاحب فلاں فلاں کتابیں لے گئے تو امتحان کے بعد ہی واپس کیں اور دوسرے لوگ ان سے مستفیض ہی نہ ہو سکے۔ دوسری صاحبہ نے کافی تاخیر کے بعد فلاں رسالے کا خاص نمبر واپس کیا تو اس کے نا تراشیدہ اوراق تک نہ کٹے تھے۔ تیسرے حضرت نے کتاب یا رسالہ کو سرخ روشنائی سے رنگ دیا اور ذہنی طور پر اگلے پڑھنے والے کو غیر اہم پیراگراف کو اہم سمجھ کر پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب قوی صاحب کے نفسیاتی حربے ہیں۔ اگر آپ ذہین اور حساس ہیں تو لائبریری یا قوی صاحب کی کتابوں کو غور سے پڑھیں گے، ان پر نشانات نہ لگائیں گے، زیادہ طویل مدت تک اُنھیں دوسرے ضرورت مند کی دسترس سے روکے نہ رکھیں گے، اور اس کی پوری پوری حفاظت کریں گے۔ قویؔ صاحب کے لیے یہ احتیاط ضروری بھی ہے۔ شعبہ اُردو کے لیے اُنھوں نے جتنی اور جیسی کتابیں اور رسالے جمع کیے ہیں، اپنی تعداد اور افادیت کے لحاظ سے وہ خاصے وقیع اور بڑے اداروں کی لائبریریوں سے بڑھ چڑھ کر ہیں مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ کئی ہزار کتب اور لا تعداد رسائل کا ذخیرہ رکھنے والی اس لائبریری کو بنانے میں قوی صاحب نے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ کوئی ایک رسالہ ایک مخطوطہ یا ایک کتاب حاصل کرنے کے لیے انھیں میلوں دور بسنے والے صاحب معاملہ کے گھر پر کئی کئی بار حاضری دینی پڑی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ ہر جگہ سے بامراد پلٹے ہوں۔ خود اُن کی نجی لائبریری میں بیشتر کتابیں اور جریدے ایسے ہیں جن کی دوسری کاپی بھوپال میں اور کچھ کی تو ہندوستان میں کہیں نہیں مل سکتی۔ کتابیں سنبھال کر رکھنے کا بھی انھیں سلیقہ ہے۔ احتیاط بعض اوقات تو حد سے گزر جاتی ہے کتاب مجلد ہے۔ اس پر بھی گرد پوش بھی ہے اس کے باوجود قوی صاحب خوبصورت آرٹ پیپر کا ایک اور گردپوش اس پر اپنی طرف سے لگائیں گے۔ کتابوں کے معاملے میں ان کے بخل کی ایک اور صورت پیدا ہوتی ہے جب کم ذہنی استعداد رکھنے والے اپنی سطح سے بلند تر چیز کا مطالبہ کرتے ہیں ایک بار دیکھا ایک بہت کمزور سے طالب علم تنقید کے پرچے کی تیاری کے سلسلے میں قوی صاحب سے فلسفۂ ہندو یونان حاصل کرنے پر بضد تھے اور موصوف نے اُنھیں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ عبادت بریلوی کی ایک کتاب جاری کرانے پر رضامند کیا تھا۔
کلاس میں قوی صاحب بیشتر نوٹس لکھوانے کے قائل ہیں۔ کاروانِ سیفیہ کی نشست میں برادرم متین سید نے دبے الفاظ میں احتجاج کیا کہ لکچر ہونے چاہئیں۔ قوی صاحب نے کہا ایکس صاحب اور زیڈ صاحبہ کے حق میں آپ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ لکچر مفید ہوں گے۔ مجھے کلاس میں گنے چنے ذہین اور با صلاحیت شاگردوں کا مفاد ہی نہیں دیکھنا ہوتا، اوسط درجے کی صلاحیت اور کم استعداد رکھنے والے طالب علموں کی ضرورت کا لحاظ بھی رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے لیے نوٹس کار آمد ہوتے ہیں۔ رہے آپ جیسے با صلاحیت لوگ تو ان کے لیے کلاس کی شرط نہیں جب جی چاہے کسی موضوع پر گفتگو کے ذریعے اپنی تشفی کر سکتے ہیں۔
اپنے شاگردوں کی ذہنی تربیت اور ان کے مستقبل کی جتنی فکر قوی صاحب کو رہتی ہے کم ہی اساتذہ کو ہو گی۔ میرے ہم جماعتوں میں آنسہ خدیجہ افغانی اور افتخار احمد صاحب سیہور میں مقیم تھے۔ میرے باب میں ان سے اور ان کے بارے میں مجھ سے اکثر جانچ پڑتال ہوتی رہتی۔ گھر پر بھی تیاری کرتے ہیں یا نہیں، کتنے گھنٹے پڑھتے ہیں، کون کون سی کتابیں دیکھ چکے ہیں، نوٹس تیار ہیں یا نہیں، کس پرچے میں اطمینان بخش تیاری نہیں ہے اور اس نوع کی باتیں کرید کرید کر پوچھی جاتیں اور کسی کی رفتار سُست پڑنے پر ان معلومات کے حوالے سے تازیانوں کا کام لیا جاتا۔ ذاتی تجربہ کی بُنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ خود طلبہ کو اپنی بابت جتنی تشویش ہوتی ہے قوی صاحب ان کے لیے اس کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ فکر مند رہتے ہیں۔ ایم۔ اے سال اوّل کا نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ ایک مقامی مرد مجاہد نے میرے تعلیمی کیریر کو تہِ تیغ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ زیادہ تفصیل میں جا کر میں اس زخم کو کرید نا نہیں چاہتا لیکن ہوا یہ کہ اس بے انصافی کو جتنا کچھ میں نے محسوس کیا اس سے بدرجہا زیادہ قوی صاحب نے اثر لیا۔ مختلف سنجیدہ لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور تقریباً تین چار ماہ تک اس سلسلے میں اتنے حساس رہے کہ عرض نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے خود ان سے اس حادثہ کو فراموش کر دینے کی درخواست کی کہ آخری سال میں محنت کر کے اس زیادتی کا ازالہ کر لوں گا۔ کہنے لگے یہ تو تمھاری بات ہے عام طلبہ کے ساتھ اس قسم کے حادثے پیش آتے رہے تو ان کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔ ان سطحی حرکتوں کا سد باب ضروری ہے۔ معلمی کے پر وقار پیشے کی تقدیس بھی ایسی باتوں سے مجروح ہوتی ہے۔ اور اساتذہ پر سے طلبہ کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ وہ سیفیہ کے کسی طالب علم کے ساتھ بے انصافی ہوتے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح آگے چل کر ایم۔ اے۔ فائنل میں یونیورسٹی میں میری پہلی پوزیشن آئی تو مختلف راویوں کے بیان کے مطابق قوی صاحب اتنے خوش تھے جیسے اُنھیں قارون کا خزانہ ہاتھ آیا ہو۔ بخدا قوی صاحب خطرناک حد تک مخلص ہیں۔
قویؔ صاحب نہ خود چین لیتے ہیں نہ اپنے شاگردوں کو سکون کی سانس لینے دیتے ہیں۔ خود کا یہ حال ہے کہ درس و تدریس اور لکھنے پڑھنے کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘، ’’ مضامین لسان الصدق‘‘، ’’ ہندوستان جاگ اُٹھا‘‘، ’’ ایک اور مشرقی کتب خانہ‘‘، ’’ علامہ اقبال بھوپال میں ‘‘ کس حال میں لکھی گئیں، عرض نہیں کر سکتا۔ لیکن اپنے مشاہدہ کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ غالبؔ صدی کے ہنگاموں کے دوران انھیں میں نے اور میرے ہم جماعتوں نے بُری طرح گھیر رکھا تھا اور ان کا کافی وقت ہمارے مسائل میں کھپ جاتا تھا، دوسری جانب وہ مقامی ادبی سیاست کا شکار تھے۔ کبھی غالبؔ صدی کے سلسلے میں مشاورتی کمیٹی کے انتخاب میں انھیں نیچا دکھانے کی سازش چل رہی ہے، کہیں ’’ نسخۂ حمیدیہ‘‘ کی ترتیب نو کے ضمن میں اُنھیں دوسرے محققین سے ٹکرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو کبھی سیفیہ کو دوسرے اداروں کے مقابلہ میں نچلے درجہ پر لانے کی سعی ہو رہی ہے اور قوی صاحب ہیں کہ ’’ غالبیات‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر لا رہے ہیں۔ جو پورے ایک ادارے کا کام ہے۔ ’’ بھوپال اور غالب‘‘ پیش کر رہے ہیں جس کی افادیت مسلمہ ہے۔ ’’ قادر نامہ‘‘ مرتب کر رہے ہیں۔ غالبؔ کے ’’ نسخہ بھوپال اور نسخہ بھوپال ثانی‘‘ پر اپنا بھرپور مقالہ مکمل کر رہے ہیں جسے محمد طفیل جیسے جغادری مدیر نے ’’نقوش ‘‘ کے ’’ غالبؔ نمبر‘‘ میں اخذ کیا اور ہند و باک سے معیاری رسائل کے شائع کردہ ہر غالبؔ نمبر میں ان کا کوئی نہ کوئی تازہ اور اہم مضمون چلا آ رہا ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں اپنے طلبہ سے غالبؔ پر متعینہ موضوعات کے تحت مضامین لکھوا کر ’’مجلہ سیفیہ‘‘ کا وہ شاندار ’’ غالب نمبر‘‘ لاتے ہیں کہ آنکھیں چندھیا جائیں۔ بہت کوشش کی گئی کہ مقامی تقریبات میں غالبؔ سے متعلق قوی صاحب اور سیفیہ کالج کی خدمات کا حوالہ تک نہ آ سکے لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ تن تنہا قوی صاحب نے غالبؔ پر اتنا کچھ کام کر ڈالا جو دوسرے لوگ مجموعی طور پر باقاعدہ اداروں کی تشکیل اور لمبے چوڑے دعووں کے بعد بھی نہ کر سکے۔ وہ اپنے شاگردوں میں بھی اپنی جیسی لگن پیدا کرنے کی دھن میں رہتے ہیں ’’ نوائے سیفیہ‘‘ کے لیے یہ لکھو ’’مجلہ سیفیہ‘‘ کے اس موضوع پر قلم اُٹھاؤ۔ ’’ کاروانِ سیفیہ‘‘ کی نشست میں تمھیں یہ پڑھنا ہے اور تمھیں اس مسئلہ پر روشنی ڈالنی ہے۔ اتنی محنت لیتے ہیں قوی صاحب کہ آدمی نیم جان ہو جائے۔ ایم اے کے تحقیقی مقالوں کو ہی اُٹھا لیجیے موصوف کسی چلتے پھرتے موضوع کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ بہت وسیع اور گاڑھا موضوع طالب علم کے پلے باندھا جائے گا۔ ’’ دارالمصنفین اعظم گڑھ کی علمی اور ادبی خدمات‘‘، ’’ علی عباس حسینی شخصیت اور فن‘‘، ’’ علامہ سید سلیمان ندوی‘‘، ’’فسانۂ آزاد کا تنقیدی مطالعہ‘‘، ’’ اُردو غزل کا نیا لہجہ‘‘ اور ’’ شاد عارفی۔ ایک مطالعہ‘‘ وغیرہ کوئی موضوع بھی ایسا نہیں جس پر طالب علم کسی رسالے کا خاص نمبر یا کوئی ایک کتاب اٹھا کر مقالہ مکمل کر لے۔ ایسے ہر مقالے کے لیے پچیسیوں کتابوں کی ورق گردانی لازمی ہوتی ہے، پڑھتے پڑھتے آدمی کا ناک میں دم آ جاتا ہے۔ قوی صاحب قدم قدم پر مقالے کی حدود کو ربر کی طرح تان کر بڑھاتے جائیں گے آپ کو کولھو کا بیل بنا دیں گے لیکن نتیجہ بھی شاندار برآمد ہو گا۔ سیفیہ کے تحقیقی مقالوں میں سب سے کم نمبر پانے والا مقالہ دوسرے اداروں کے سب سے زیادہ نمبر پانے والے مقالے کے مقابلے میں زیادہ نمبر حاصل کرتا آیا ہے۔ عمومی طور پر بھی سیفیہ کے شعبہ اُردو کا نتیجہ ہر سال دوسرے اداروں سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔
ماہنامہ ’’ شب خون‘‘ الٰہ آباد نومبر ۱۹۷۱ء ( ص ۷۶) میں عبد العزیز صاحب کا ایک مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں اس امر کی شکایت کی گئی ہے کہ سوائے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کسی اور ادارے سے اُردو میں ایم۔ اے اور پی ایچ۔ ڈی کرنے والے اصحاب میں سے اچھے شاعر، مصنف اور نقاد نہیں برآمد ہوتے۔ میرا خیال ہے مستثنیات میں سیفیہ کالج کا نام بھی آنا چاہیے یہاں اُردو میں ایم۔ اے کی کلاسیں ابھی تین سال قبل ہی شروع کی گئی ہیں اور تا حال دو گروپ ایم۔ اے فائنل سے نکلے ہیں پہلے سال کے طلبہ میں سے امین راہیؔ، توفیق محمد خاں اور متین سید مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ خصوصاً متین سیدکی اٹھان خاصی امید افزا ہے اور مختلف ادبی رسائل میں ان کے تنقیدی مضامین باقاعدگی سے نظر آتے ہیں۔ دوسرے سال بھی اقبال مسعود اور عمر حیات خاں غوری جیسے طلبہ نکلے جو ادبی میدان میں آگے بڑھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ تہذیب اجازت نہیں دیتی ورنہ اپنا نام بھی آخری گروپ میں شامل کرتا دراصل قوی صاحب مختلف طریقوں سے اپنے طلبہ کے ادبی ذوق کو ابھارنے کے وسائل فراہم کرتے ہیں۔ کسی کے سر ’’ نوائے سیفیہ‘‘ کی ترتیب و تدوین کا بار ڈال کر، کسی کو ’’ مجلہ سیفیہ‘‘ کا مدیر بنا کر، کبھی ’’ کاروانِ سیفیہ‘‘ کی ادبی نشستوں میں طلبہ کی اپنی تخلیقات پر بحث و مباحثہ کا آغاز کر کے۔ مضمون کیسے لکھا جائے، کیونکر پڑھا جائے، اس پر اعتراض کس انداز میں ہو اور جواب کس طریقہ سے دیا جائے۔ نشست و برخاست، گفت و شنید اور جلسوں کا سلیقہ سکھانا قویؔ صاحب خوب جانتے ہیں۔ بھوپال میں کوئی اہم ادبی شخصیت وارد ہو تو سیفیہ کالج میں اس کے سلسلے میں ایک آدھ نشست کا انتظام قویؔ صاحب کسی نہ کسی طرح ضرور کرتے ہیں۔ اپنے طلبہ کو اس کے مرتبے سے آگاہ کرتے ہیں، اسے قریب سے دیکھنے اور استفادہ کرنے کا موقع دیتے ہیں اور درپردہ سیفیہ میں اگلی نسلوں کے ادیب، شاعر اور نقاد ڈھالتے رہتے ہیں۔
اُردو اور سیفیہ کالج قوی صاحب کی دکھتی ہوئی رگیں ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اُنھیں ذاتی طور پر نقصانات پہنچائے ہیں اور تکالیف دی ہیں۔ ایسے اصحاب کے لیے ان کی زبان پر حرف شکایت بہت کم آتا ہے، لیکن کوئی اُردو زبان سے یا سیفیہ کالج سے بے انصافی کرے یا بے اعتنائی برتے یہ قوی صاحب کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اُنھیں اس بات پر بڑی کوفت ہوتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگ جو اُردو کی روٹی کھاتے ہیں اور اُردو کے سلسلے میں مگر مچھ کے آنسو بہا کر ایک آدھ احتجاجی مراسلہ چھپوا کر جنھوں نے اپنی وقتی شہرت کا انتظام کر رکھا ہے در پردہ وہی لوگ اُردو کی جڑوں کو کمزور کرتے رہتے ہیں۔ کبھی طلبہ کے ساتھ بے ایمانیاں کر کے، کبھی ذاتی مفاد کی غرض سے، کبھی کار آمد تحریک کی مخالفت کی شکل میں اور کہیں آگے بڑھنے والوں اور کام کرنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکا کر۔ ایسے لوگوں کے لیے قوی صاحب کی لغت میں نجات کا لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح قوی صاحب سیفیہ کالج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے کئی نام گنا سکتے ہیں جن کی تعلیم کا بندوبست اور روزی کا انتظام اسی ادارے نے کیا تھا اور ان کے نزدیک محسن کش آدمی انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔
لگتا ہے قدرت نے اُنھیں معلمی کی تمام صفات سے متصف کیا ہے۔ مجھے علی گڑھ، لکھنؤ، دہلی، الٰہ آباد اور بھوپال کے بہت سے مشہور اساتذہ سے ملنے کا موقع ملا ہے لیکن باستثنائے چند اپنے شاگردوں سے اتنی انسیت رکھنے اور اُنھیں قریب آنے کے بھرپور مواقع دینے کی زحمت بہت کم لو گ اُٹھاتے ہیں۔ قوی صاحب میں صبر و ضبط کا مادہ بھی بہت ہے۔ نئے طلبہ میں سے بیشتر کے خیالات بے مہار اور زبان دراز ہوتی ہے۔ قوی صاحب ان کی خامیوں کو نظر انداز کر کے بڑے تحمل کے ساتھ اُن کے ذہنوں کو جِلا دیتے ہیں۔ ایک بار میری موجودگی میں میرے ایک ہم جماعت ان سے تقریباً ایک گھنٹہ اس بات پر الجھتے رہے کہ حالیؔ ایک سطحی درجہ کے شاعر اور چھوٹے نقاد ہیں۔ بات یہ تھی کہ وہ سمجھنے کہ جگہ کٹ حجتی کر کے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے ہر چند کہ میں غیر متعلق تھا۔ دو تین بار جھنجھلا سا گیا لیکن مجال ہے کہ قوی صاحب کی پیشانی پر بل تک آیا ہو اسی طرح مُسکرا مسکرا کر چٹخارے لے لے کر پہلو بدل بدل کر ملائمت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کسی شاعر یا مصنف کو سمجھنے کے لیے پہلے اسے ہمدردی کے ساتھ پڑھنا چاہیے اس کی مجبوریوں اور محدود وسائل کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اس کی مختلف خدمات پر غور کرنا چاہیے اور پھر مجموعی حیثیت سے اس کے باب میں کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔ اس بارے میں خود میرا معاملہ یہ تھا کہ سیفیہ میں داخلے سے قبل سولہ سترہ سال تک آزادانہ جو کچھ لکھا اور پڑھا تھا اس کے زیر اثر دل و دماغ تعصبات کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے اور کئی مسائل پر بغیر سوچے سمجھے اُلٹی سیدھی رائیں قائم کر رکھی تھیں۔ خصوصاً ذوق، ناسخؔ، دبیر، حالیؔ، چکبستؔ، حسرتؔ وغیرہ کے بارے میں میری رائیں بے ستون چھت کی طرح تھیں۔ کون کیوں اچھا اور کس لیے خراب ہے یا کسی کو نا پسند کرنے کا میرے پاس کیا جواز ہے۔ ایسے خشک مسائل سے سر پھوڑنے کی فرصت ہی کب تھی۔ قوی صاحب کے فیض سے دلائل و براہین اور توازن و اعتدال کے ساتھ کسی فنکار کا تجزیہ کرنے اور درست نتائج برآمد کرنے کا سلیقہ پیدا ہوا۔ بیشتر پروفیسر حضرات کی طرح اقبال، ؔ قوی صاحب کی کمزوری بھی ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ دوسرے معلمین اقبالؔ کی شان کے خلاف اپنے شاگردوں سے ایک لفظ بھی سُننے کے روادار نہیں ہوتے، قوی صاحب کے رو برو ہم میں سے کوئی معترض ہوتا تو وہ بُرا نہ مانتے تھے اور مختلف طریقوں سے اقبالؔ کی عظمت ہمارے سامنے واضح کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شاگرد کے ذہن پر وہ اپنی چھاپ لگانے اور اس کی آزادیِ فکر سلب کرنے کے قائل نہیں۔ ان کے بھی کچھ پسندیدہ فنکار ہیں۔ غالبؔ، اقبال، حسرتؔ، فیضؔ، محمد حسین آزاد، شبلی، ابو الکلام، سلیمان ندوی اور بہت سے دوسرے۔ میں نے اپنے تخلیقی مقالے میں شاد عارفی سے موازنہ کرتے ہوئے کئی مقامات پر ان کے محبوب فنکاروں کو شادؔ کے مقابلے میں مختلف سطحوں پر کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی، خوف تھا کہ قوی صاحب ایک طالب علم کو ایسی انتہائی رائے رکھنے اور دو ٹوک حکم لگانے سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے اور مقالے کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی، لیکن انھوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ اس مقالے کو پڑھا اور اس میں اپنی ذاتی رایوں کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ’’کاروانِ سیفیہ‘‘ کی نشستوں میں پیش آیا۔ میرے کچھ ساتھی نئی شاعری کے کٹّر مخالف تھے۔ قوی صاحب کا ذہنی جھکاؤ بھی ترقی پسند تحریک کی طرف ہے۔ مباحثوں میں ڈر لگا رہتا تھا کہ ان کی جانب سے نئی شاعری کی مخالفت کو بڑھاوا ملے گا، لیکن انھوں نے ہمیشہ ذہن کے دروازے کھلے رکھنے اور ہمدردانہ مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔
ایسا بھی نہیں کہ قوی صاحب فرشتہ ہوں۔ ان میں بھی کچھ بشری خامیاں ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ مجلۂسیفیہ‘‘ اور ’’ نوائے سیفیہ‘‘ کے لیے وہ لوگوں کو مار باندھ کر لکھنے پر مجبور کر لیتے ہیں لیکن خود یہ عالم ہے کہ تین سال سے میری کئی کتابیں ان کے پاس پڑی ہیں جن پر آج تک تبصرے کہ نوبت نہیں آئی۔ شادؔ عارفی پر ایک مضمون کے لیے کافی عرصہ سے ان کی خوشامد کر رہا ہوں اور ہنوز محروم ہوں۔ واحدؔ پریمی نے اثرؔ قادری کے مجموعے پر پیش لفظ کے لیے ان کے درِ دولت پر کئی پھیرے لگائے اور مایوس پلٹے۔ انھیں سیفیہ کے کاموں، شعبہ کے پروگراموں، تحقیق کی مصروفیتوں اور معلمی کے جھمیلوں سے فرصت ملے تو یہ بیگار جھیلیں۔ شعبہ کی لائبریری کے معاملے میں بے حد خود غرض ہیں۔ آپ کے پاس کوئی اچھی کتاب یا رسالہ نظر آئے تو قوی صاحب اسے شعبۂ اُردو کے لیے حاصل کرنے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ خواہ وہ کتاب آپ نے کیسی ہی دقت سے حاصل کی ہو۔ آپ کو کتنی ہی پسند ہو اور آپ اسے اپنے سے جُدا نہ کرنا چاہتے ہوں، قوی صاحب کی خواہش یہ ہو گی کہ وہ شعبۂ اُردو میں پہنچ جائے۔ ایک زیادتی وہ اپنے گھر میں بھی کرتے ہیں آپ اور۔ چند اصحاب ان کے کمرے میں بیٹھے ہیں اندر سے چائے آئے گی اور اس کے ساتھ لوازمات بھی، تھوڑی دیر بعد کچھ اور لوگ آ گئے۔ دوبارہ یہی سلسلے چلے گا پھر کوئی اور آئے گا تو ایک بار اور خدا جانے بیگم قوی ہم جیسے مفت خوروں سے متعلق کیا خیال رکھتی ہوں گی۔ قوی صاحب بہرحال اپنی متواضع فطرت سے مجبور ہیں۔
خلاف عادت میں نے بہت کچھ لکھ ڈالا۔ قوی صاحب کو میری مختصر نویسی سے گلہ ہے کہ بات اشاریاتی انداز میں کرتا ہوں اور میرے ادیب و شاعردوست ہمیشہ شاکی رہتے ہیں کہ میں کسی کی تعریف میں کچھ نہیں لکھتا، اس مضمون کے سلسلے میں دونوں اصول پٹ ہو گئے۔ ’’ مجلہ سیفیہ‘‘ کی اس اشاعت پر ترس آتا ہے جس میں یہ مضمون شامل ہو گا۔ ورنہ باور کیجیے ابھی قوی صاحب پر لکھنے کے یے میرے ذہن میں بہت کچھ ہے۔
(۱۹۷۱)
٭٭٭
آہ قوی صاحب!
مجلہ سیفیہ کے لیے ’’ کچھ اپنے بارے میں ‘‘ لکھتے ہوئے مضمون کا اختتام میں نے ان سطور پر کیا تھا:
’’ خدا شاد عارفی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے کہ مرحوم سے مزاجی مناسبت اور شدید جذباتی لگاؤ نے دیوانہ وار محنت کر نے کی سکت مجھ میں پیدا کی۔ دسنوی صاحب قیامت تک سلامت رہیں کہ موصوف نے ہر قدم پر میری رہنمائی فرمائی، حالات کا سر اٹھا کر مقابلہ کرنا سکھایا، شب و روز میرے ساتھ مغز پاشی کی، میرے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے سامنے خود سینہ سپر ہوئے، میری فن کارانہ انانیت کو نفسیاتی طریقوں سے متوازن کیا اور مجھ میں طلب علم کی لو جگائی۔ زندگی میں مجھے جن دو شخصیتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ہیں شاد عارفی اور عبد القوی دسنوی۔ ‘‘
افسوس صد افسوس! ۷؍ جولائی ۲۰۱۱ء کو ان کی سناؤنی بھی آ گئی۔ بھوپال سے برادرم نعیم کوثر نے فون پر مطلع کیا کہ آج علی الصبح عبد القوی دسنوی صاحب کا اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ادھر ڈیڑھ دو سال سے ان کی طبیعت نرم گرم چل رہی تھی، کبھی سننے میں آتا کہ اچھے ہیں، گھومنے پھرنے لگے ہیں، کبھی معلوم ہوتا سخت بیمار ہیں۔ اکثر تو اسپتال اور کئی مرتبہ I.C.U. میں داخل کرائے جاتے۔ خطوں کے جواب بھی نہیں لکھ پاتے تھے۔ کبھی کبھار فون پر باتیں ہوتیں، وہ بھی زیادہ تر یک طرفہ۔ سماعت میں خاصا فرق آ گیا تھا اور یادداشت بھی ساتھ چھوڑ دیتی تھی۔ زیادہ تر فون پر گھر والوں سے ہی خیریت طلبی پر اکتفا کرنا پڑتا تھا کیونکہ نقاہت کی وجہ سے ان پر زیادہ تر غنودگی طاری رہتی تھی۔ البتہ ۵؍ ستمبر کو ٹیچرس ڈے کی مبارک باد دینے کے لیے دو تین بار فون کر کے اپنے پیارے اور محترم استاد کی خدمت میں خراجِ عقیدت ضرور پیش کرتا تھا۔
پروفیسر نعمان کی خاطر مجھے بے حد عزیز ہے اور ان کا تقاضا ہے کہ میں ندیم( بھوپال ) کے زیر ترتیب تعزیتی نمبر کے لیے قوی صاحب کے بارے میں دو چار صفحات ضرور لکھوں۔ ایسا بھی نہیں کہ اظہار غم کے لیے الفاظ کی کمی ہو، لفظوں نے تو یلغار بول دی ہے لیکن اتنے البیلے اور اتنے نادر شخص کے لیے باسی جملے اور فقرے استعمال کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ لفظ تو پہلے بھی بہت سے اعزا، اقرا، احباب، شعرا اور اُدبا وغیرہ کی اموات پر تعزیتی تحریروں میں کام آ چکے ہیں۔ ان کی جگالی ایسے مقدس اور منفرد موقع پر نا مناسب ہے۔ صرف اتنا عرض کروں گا کہ میرا غم ان کی بیگم، ان کے صاحبزادگان اور ان کے عزیزوں میں کسی سے کم نہیں ہے۔
۷؍جولا ئی کو صبح تا سہ پہر کوشش کرتا رہا کہ بھوپال کی کسی ٹرین یا پلین میں ریزرویشن مل جائے لیکن ناکامی ہوئی، شام کو نڈھال ہو کر گلوکو میٹر سے چیک کیا تو شکر 120 سے بڑھ کر 350تک جا پہنچی تھی۔ مجبوراً خود سفر کا ارادہ ترک کیا اور عاصمہ ( بیگم) کو فیروز ( فرزند اکبر) کے ساتھ بھوپال بھیجنا طے کیا۔ یہ لوگ بھی کہیں تین چار دن بعد بھوپال پہنچ سکے۔ بھابی محترمہ اور بچوں کو پرسہ دے کر دو دن پہلے واپس آئے ہیں اور گھر میں مسلسل قوی صاحب کی باتیں ہو رہی ہیں یا تلاوتِ کلامِ پاک کے ساتھ ان کی مغفرت کے لیے دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔
قوی صاحب سے آخری بار اواخر جون ۲۰۱۰ء میں ملاقات ہوئی تھی۔ میں اپنی بڑی بہن کی پوتی کے نکاح کی تقریب میں شرکت کے لیے بھوپال پہنچا تھا اور اس کے دوسرے یا تیسرے دن پرنس کالونی میں قدم بوسی کے لیے قوی صاحب کے دولت کدے پر حاضری دی تھی۔ دھان پان ہو رہے تھے۔ خاکسار کو دیکھ کر فرطِ مسرت سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ معذرت کی کہ شادی میں شرکت کی پوری تیاری تھی مگر تیز بارش کی وجہ سے وہ بھابی کولے کر دعوت میں شریک نہیں ہو سکے۔ شفقت کے ساتھ بغل گیر ہوئے تو بدن میں لرزش تھی۔ قبل ازیں ملاقات کے دوران میں مؤدبانہ ان کی باتیں سنا کرتا تھا خود بہت کم بولتا تھا۔ اس مرتبہ انھوں نے خود بہت کم کہا زیادہ تر میں ہی بولتا رہا۔ ان کی سماعت میں خلل آ چکا تھا۔ حافظہ بھی بہت کمزور ہو گیا تھا۔ بات کرتے کرتے بھول جاتے اور جملے ادھورے رہ جاتے۔ ایک بار کوئی کتاب شیلف سے نکال کر دکھانا چاہتے تھے۔ کھڑے ہو کر ڈگمگاتے رہے اور پھر بھول گئے کس لیے اٹھے تھے۔ میں رخصت ہونے لگا تو میرے ہزار منع کرنے کے باوجود اپنے پہاڑی مکان کے نشیب و فراز پر کمزوری سے لڑتے ہوئے لڑکھڑاتے ہوئے گیٹ تک آئے۔ آبدیدہ ہو کر گلے لگایا، کہنے لگے ’’ دیکھو اب کب ملنا ہوتا ہے۔ ‘‘ جب تک گاڑی موڑ پر اوجھل نہیں ہو گئی ہاتھ ہلاتے رہے۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ یہ غالباً آخری ملاقات ہے ہماری۔
میں ۱۹۶۴ء میں قوی صاحب سے پہلی بار ملا تھا۔ اس وقت سے اپنی طالب علمی کے زمانے تک کے احوال مضمون ’’قوی صاحب‘‘ مشمولہ ’’ مجلہ سیفیہ‘‘ (۱۹۷۱) میں تحریر کر چکا ہوں جن کا اعادہ نامناسب ہے۔
اوائل ۱۹۷۴ ء میں قوی صاحب کی نگرانی میں قلم بند کردہ تحقیقی مقالے ’’ شادؔ عارفی: فن اور شخصیت‘‘ پر مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی جو برکت اللہ بھوپالی یونیورسٹی سے پیش کی جانے والی پہلی ڈاکٹریٹ تھی۔ اس کے چند ماہ بعد ہی جون ۱۹۷۴ء میں میں نیشنل کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت( دہلی) میں اپنی ڈیوٹی جوائن کرنے کے لیے بھوپال سے روانہ ہوا تو اسٹیشن پر رخصت کرنے کے لیے ڈاکٹر عبد الودود کے ہمراہ قوی صاحب بھی تشریف لائے اور مشفقانہ ہدایتوں کے ساتھ مجھے پُر نم آنکھوں سے رخصت کیا۔
بھوپال چھوڑنے کے بعد میں ڈیڑھ برسNCERT میں، چودہ سال جامعہ ملیہ اسلامیہ میں، بارہ سال کلکتہ یونیورسٹی میں رہا اور بعد ازاں ملازمت سے سبکدوش ہو کر ۲۰۰۱ء سے تا حال پھر دہلی میں مقیم ہوں۔ ان ۳۷ برسوں میں کوئی ایک مہینہ بھی ایسا نہیں گزرا جب کسی نہ کسی طور پر میرا قوی صاحب سے رابطہ نہ رہا ہو، ابھی دو تین برس پہلے تک باقاعدہ خط و کتابت کا سلسلہ رہا۔ وہ بہت کمزور ہو گئے تو لکھنے میں پریشانی ہوتی تھی اس لیے ہر ہفتے، پندرہ دن میں فون پر باتیں ہونے لگیں۔ اسی اثنا میں برادرِ عزیز پروفیسر نعمان خاں دہلی آ گئے اور ہر ہفتے بچوں سے ملنے بھوپال آنے جانے لگے تو ان سے قوی صاحب کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتیں۔ مجھے جب کبھی کوئی اور کسی بھی قسم کی الجھن یا پریشانی در پیش ہوئی، کبھی اپنے کسی عزیز یاکسی دوست کو بتانے کے بجائے میں نے خط لکھ کر یا فون پر قوی صاحب سے رابطہ قائم کیا اور انھوں نے نہایت ہمدردی اور اپنائیت کے ساتھ صائب مشورے دیے۔ اس مدت میں میری کم و بیش پچاس سے زیادہ کتابیں مختلف اداروں سے شائع ہوئیں اور تقریباً ہر کتاب کا پہلا نسخہ میں نے استاذی محترم کی خدمت میں پیش کیا۔ دو چار مرتبہ یہ سعادت خود حاضر خدمت ہو کر حاصل کی۔ ایسے مواقع پر ان کی مسرت لائق دید ہوتی تھی۔ چہرہ وفورِ جذبات سے سرخ ہو جاتا، گلے لگا کر مبارک باد دیتے، کتاب اُلٹ پلٹ کر دیکھتے، موضوع کی تعریف کرتے، پیش کش اور گٹ اپ کے بارے میں توصیفی تبصرہ فرماتے اور مسلسل کام کرتے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ خود ان کی بہت ساری کتابیں منظرِ عام پر آئیں اور وہ ہر کتاب پر محبت آمیز ترقیمے تحریر فرما کر اولین نسخے مجھے ارسال فرماتے تھے۔ ایک کتاب ملنے کے بعد فون پر تقاضا کیا کہ آپ نے کتاب کی قیمت نہیں بھیجی۔ میں نے شرمندہ ہو کر دریافت کیا کتنی رقم بھیج دوں ؟ کہنے لگے کتاب میں قیمت درج ہے۔ صفحہ پلٹ کر دیکھا تو قیمت کے خانے میں درج تھا:’’ خدمتِ اردو‘‘ آنسو ٹپک پڑے۔ دوبارہ فون کیا اور مودبانہ کہا: ’’ استادِ محترم، یہ قیمت انشاء اللہ زندگی بھر بالاقساط ادا کروں گا۔ ‘‘ دوسری طرف سے بڑی دیر تک لرزتی ہوئی آواز میں دعائیں سنائی دیتی رہیں۔
دہلی آ کر عالم گیر شہرت یافتہ بڑے لوگوں کو قریب سے دیکھا تو پتہ چلا کہ اونچی دکانوں کے پکوان کتنے پھیکے ہیں۔ خفیف الحرکاتی، سطحیت، خوشامد پرستی اور خوشامد پسندی، خود ستائی، جاہ طلبی، بے ایمانی اور بے انصافی کے اوصاف سے متصف اور اقتدار و اختیارات کے اسلحوں سے لیس دیو قامت دانشوروں کے ہجوم کا موازنہ قوی صاحب سے کرتا ہوں تو ان سب پر بھاری پڑتے ہیں۔
جامعہ میں تقرر کے کچھ دن بعد کا واقعہ ہے۔ شعبۂ تعلیمات کے ڈین سے میری جھڑپ ہو گئی۔ موصوف ہمارے صدر شعبہ کے بارے میں چوراہے بر الٹی سیدھی باتیں کر رہے تھے اور میں نے اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوکر انھیں کھری کھری سنائی تھیں۔ شعبے میں ایک ساتھی نے اس واقعے کا ذکر چھیڑا تو صدر شعبہ جوش میں آ کر بولے آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا وہ کہنا چاہیے تھا اور جواباً میں نے عرض کیا کہ ’’ جناب میں خاصا عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ آدمی ہوں، خوب جانتا ہوں مجھے گفتگو کیسے کرنی چاہیے۔ ‘‘ اس دن میں نے دن بھر قوی صاحب کو یاد کیا۔ ایک موقع پر انھیں کے دولت کدے پران کے معاصر پروفیسر ابو محمد سحر سے بد ظن ہو کر میں نے چند نازیبا کلمات کہہ دیے تھے اور قوی صاحب نے میری غلط فہمی رفع کرتے ہوئے سحر صاحب کی خاصی تعریف کی تھی ہر چند کہ سیفیہ کالج اور حمیدیہ کالج کے اردو شعبوں میں جن کے یہ دونوں صدر تھے، معاصرانہ مقابلہ آرائی چل رہی تھی۔
اکابرین جامعہ کی ایک مجلس میں غور کیا جا رہا تھا کہ شعبۂ اردو میں اساتذہ کی اسامیوں کے مناسب امیدوار کون ہوسکتے ہیں۔ میں نے سیہور کے ڈاکٹر عبدالودود کا ذکر چھیڑا جوکئی کتابوں کے مصنف اور تجربہ کار استادتھے لیکن میرے ایک ساتھی نے شد و مد سے مخالفت کی، حالاں کہ چند ماہ قبل وہ میرے ساتھ ودود صاحب کی میزبانی سے فیض یاب ہو چکے تھے۔ میٹنگ کے خاتمے پر انھوں نے خاصی کبیدگی کے ساتھ مجھے اس راز سے باخبر کیا کہ شعبے میں زیادہ قابل افراد کو جمع کر لینے کا نقصان یہ ہو گا کہ ہم لوگوں کے ریڈر بننے میں دشواری پیش آئے گی۔ اس دن بھی قوی صاحب بے تحاشا یاد آئے۔ کتنی کوششیں کی گئیں مختلف لوگوں کی جانب سے، خود میں بھی خواہش مند تھا کہ قوی صاحب کسی نامور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر قبول فرما لیں لیکن وہ سیفیہ کالج کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے جس کے شعبۂ اردو کی تعمیر صد فی صد انھیں کا کارنامہ تھا۔ ہر چند کہ وہاں نہ پروفیسر کا پورا اسکیل تھا نہ پنشن کی سہولت۔
کئی کتابوں کے مصنف اور سینئر آئی اے ایس آفیسر، حسن الدین احمد نے اردو میں پی ایچ۔ ڈی کے لیے جامعہ ملیہ میں رجسٹریشن کرایا تو ان کے نگراں لکچرر نے اپنی میز کے سامنے کھڑے ہوئے ریسرچ اسکالر سے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہا اور کرخت لہجے میں بازپرس کرتے رہے۔ بے ساختہ قوی صاحب کی یاد آئی۔ میرے سامنے ان کے ایک شاگرد ( عمر حیات خاں غوری) جھنجھلاتے ہوئے یزیدی کی برتری اور برگزیدگی کا بکھان کر رہے تھے اور قوی صاحب نے بڑی دیر تک مسکراتے ہوئے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
دہلی، کلکتہ، کراچی، ممبئی وغیرہ میں بار بار مشاہدہ کیا کہ عمائدین ادب اور دانشوری کا دعویٰ کرنے والے حضرات معمولی جلسوں کی صدارت کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ ایک قوی صاحب تھے، اپنے شعبہ کے اکثر جلسوں میں بیرونی حضرات حتیٰ کہ اپنے شاگردوں کو صدر بناتے اور خود سامع کی حیثیت سے یکسوئی کے ساتھ ان کی تقریریں سنتے تھے۔ ٹونک میں کل ہند انجمن اساتذۂ اردو، جامعات ہند کے ایک اجلاس میں نامی گرامی پروفیسر نے ریسرچ اسکالروں کی عدم استعداد اور بے پروائیوں کا شکوہ کیا تو میں نے تقریر کے دوران کہا کہ اجازت ہو تو یہاں صف میں رونق افروز کچھ صدور شعبہ کے نام گناؤں جو ریسرچ اسکالروں سے چھوٹے چھوٹے گھریلو کام کراتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ یاد آیا کہ جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول کی ایک تقریب میں قوی صاحب کو خالد محمود نے بضد ہو کر بھوپال سے دہلی بلایا۔ ہم لوگ اسٹیشن سے قوی صاحب کو لے کر جامعہ آئے۔ دن بھر موصوف نہرو یونی ورسٹی میں مختلف سطحوں پر تعلیم حاصل کرنے والے اپنے پرانے شاگردوں کویاد کرتے رہے اور دوسرے دن ہمیں ساتھ لے کر نہرو یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں پہنچے جہاں اقبال مسعود، خورشید اختر، ریحانہ اور حلیمہ وغیرہ نے استاد سے خوب خوب نخرے اور گلے شکوے کیے کہ وہ ان کے ساتھ کیوں نہیں ٹھہرے۔ میں نے کہا آپ لوگوں کو اسٹیشن پہنچ کر قوی صاحب کا استقبال کرنا چاہیے تھا۔ الٹے خود گلہ مند ہیں لیکن قوی صاحب نے مجھے خاموش کر دیا اوردو دن کے لیے جے این یو کے ہوسٹل میں قیام کر کے اپنے روٹھے ہوئے شاگردوں کو منایا۔
سری نگر کے باغِ نسیم میں واقع کشمیر یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں NCERT نے متعدد پروفیسروں اور نقادوں کو ہندوستان بھر سے مدعو کیا کہ اردو زبان کی تدریس کے لیے نصابی کتب تیار کریں۔ ایک دن رشید حسن خاں نے قوی صاحب سے کہا:
’’ آپ پر رشک آتا ہے۔ اس ورکشاپ میں آپ کے دو شاگرد شریک ہیں، جتنی محبت اورعقیدت کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہیں، آپ کی خدمت کے لیے مستعد رہتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں نے عرض کیا۔ ’’خاں صاحب، مثال تو قوی صاحب کی نہیں ملے گی۔ جن شاگردوں کو د و تین برس پڑھاتے ہیں ان کی فلاح و بہبود کے کے لیے زندگی بھر فکر مند رہتے ہیں۔ ‘‘
ایسے پچاسوں واقعات ہیں کس کس کا ذکر کیا جائے۔ سچے عالم کی پہچان بتائی گئی ہے کہ منکسر المزاج ہوتا ہے اور انعام، اعزاز، منصب وغیرہ کی طلب نہیں رکھتا۔ قوی صاحب اس کی زندہ مثال تھے۔ کلکتہ یونی ورسٹی کے اقبال سیمنار میں صدارت کے لیے ان کا نام تجویز ہوا تو اسلوب احمد انصاری کو آگے بڑھا دیا۔ وہاں کی محمد علی لائبریری میں توسیعی خطبے کے لیے مدعو کیے گئے تومیں نے منتظمین سے انھیں ہوائی جہاز سے بلانے پر زور دیا اور قوی صاحب ہیں کہ لائبریری کی درخواست پر ٹرین سے سلیپر کلاس میں چلے آ رہے ہیں۔ مکتبہ جامعہ سے اپنے خرچ پر کچھ کتابیں چھپوائیں اور کبھی فروخت شدہ جلدوں کی قیمت نہیں وصول کی۔ بے نیازی کا یہ عالم کہ مالک رام نے مولانا ابوالکلام آزاد پر ان کے ساتھ ساہتیہ اکادمی کے ایک پروجیکٹ پر کام کرنے کی پیش کش کی تو لجاجت کے ساتھ معذرت کر لی۔ حکومت مدھیہ پردیش نے اردو اکادمی کی عمارت کا نام ملّا رموزی بھون کی جگہ سنسکرتی بھون رکھنے کا ارادہ کیا تو قوی صاحب نے احتجاجاً اکادمی کے سکریٹری کا عہدہ چھوڑ دیا۔ مولانا آزاد پر تحقیق کے لیے نیشنل فیلو شپ تفویض ہوئی تھی۔ چاہتے تو بر صغیر کے مختلف مقامات کا سرکاری خرچ پر سفر کر سکتے تھے۔ موصوف نے اس زمرے میں ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا بلکہ تین برس تک ملنے والے وثیقے کی رقم آزاد پر اپنی بے حد ضخیم کتاب شائع کرنے میں صرف کر دی۔ میرے حافظے میں اس قسم کی اتنی باتیں ہیں کہ سب کے بیان کرنے میں پوری کتاب بن جائے۔
ان کے علمی اور تحقیقی کارناموں کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ اشاریہ سازی کے فن کو انھوں نے جو معیار اور وقعت عطا کی اردو والے اسے فراموش نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں اشاریہ اقبالیات، اشاریۂ غالبیات، اشاریۂ انیس، اشاریۂ دبیر، اشاریہ پریم چند، اشاریۂ مولانا آزاد، اشاریۂ سلیمان ندوی اور ایسے متعدد کام جس تندہی اور جانفشانی سے موصوف نے انجام دیے اس کی داد ان کا کٹّر سے کٹّر مخالف بھی دے گا۔
بھوپال سے نسخۂ غالب بخط غالب برآمد ہوا تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ مضامین قوی صاحب کے شائع ہوئے۔ اقبال اور بھوپال کے تعلق سے ان کی کتاب اتنی وقیع تھی کہ پاکستان میں افکار کے مدیر صہبا لکھنوی نے اس پر دوسری منزل تعمیر کر لی۔ ’’ نقوش‘‘ (لاہور) جیسے مقتدر جریدوں میں اقبال پر قلم بند کردہ قوی صاحب کے مضامین سرفہرست شائع ہوتے تھے۔
بھوپال کی علمی و ادبی روایت اور وہاں کی شخصیات کی ادبی خدمات پر قوی صاحب زندگی بھر لکھتے رہے۔ اول اول بھوپالیوں نے انھیں غیر بھوپالی سمجھ کر ان کی خدمات سے بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا اور قوی صاحب بجا طور پر اس کے شاکی رہے لیکن ادھر دس پندرہ برسوں میں بھوپال نے ان کی خدمات کا ایسے پرجوش انداز میں اعتراف کیا کہ سارے گلے شکوے دور ہو گئے۔
سید سلیمان ندوی، مولانا آزاد اور علامہ اقبال سے قوی صاحب کو والہانہ لگاؤ تھا۔ ان کے شاگرد اکثر یاد کرتے ہیں کہ اقبال پر گفتگو کرتے ہوئے قوی صاحب پر کیسے وجد کا عالم طاری ہو جاتا تھا اور وہ جھوم جھوم کر علامہ کے شاعرانہ اوصاف بیان کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک پُر لطف واقعہ قلم بند کرتا ہوں :
’ وضاحتی کتابیات‘ کے سلسلے میں پٹنہ جانا ہوا تو دو تین دن لائبریریوں کی دھول پھانکنے کے بعد جی چاہا کہ قاضی عبد الودود سے نیاز حاصل کروں۔ دولت کدے پر حاضری دی تو ملازم نے مجھے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انتظار کرنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد قاضی صاحب اندرون خانہ سے برآمد ہوئے تو مصافحہ کرتے ہوئے بتایا کہ عارضۂ قلب میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹروں نے زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی صلاح دی ہے۔
’’ معاف کیجیے۔ ‘‘ میں نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا ’’ مجھے علم نہیں تھا ورنہ زحمت نہ دیتا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ’’بیٹھیے بیٹھیے۔ ‘‘ قاضی صاحب نے مسکرا کر میرا ہاتھ تھام لیا۔ ’’ ڈاکٹر نے ورزش کرنے کی صلاح بھی دے رکھی ہے۔ ‘‘میں دل ہی دل میں اس طنز لطیف کی داد دیتا رہا۔
اس کے بعد میرے ایک جملے کا سرا پکڑ کر قاضی صاحب نے میر تقی میرؔ کے حسب نسب میں کیڑے ڈالنے شروع کر دیے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ کلیم الدین احمد کے ہمراہ قوی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ اپنے وطن سے لوٹے تھے۔ نہ جانے کیسے گفتگو کا رخ علامہ اقبال کی طرف مڑ گیا۔ اب قاضی صاحب نے اقبال کی شخصی خامیوں پر گل افشانی گفتار کا سلسلہ شروع کیا تو مجھے بڑی پریشانی محسوس ہونے لگی۔ قاضی صاحب کی بزرگی کے پیش نظر قوی صاحب کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے اور اقبال کی برائیاں بھی نہیں سن سکتے تھے۔ آخر میں نے قاضی عبد الودود کی خدمت میں دست بستہ عرض کیا: ’’ اقبال کے بارے میں کوئی دوسرا یہ باتیں کہہ دے تو قوی صاحب اسے برداشت نہیں کر سکتے، آپ کی باتیں مجبوراً سن رہے ہیں۔ ‘‘ استاد محترم نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور قاضی صاحب بات کا رُخ بدل کر دوسرے موضوعات پر دلچسپ واقعات سنانے لگے اور تھوڑی دیر بعد بولے ’’ کلیم الدین تو مسکرانا جانتے ہیں نہ محظوظ ہونا۔ قوی صاحب آپ کا چہرہ اب تک سرخ کیوں ہے ؟ لطیفے اچھے نہیں لگے ؟‘‘
مجبوراً قوی صاحب مسکرائے۔
اسی طرح ایک بار قوی صاحب کو دہلی میں کوفت ہوئی تھی۔ پروفیسر نارنگ نے ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر صاحب خانہ کے ساتھ گیان چند، عبد المغنی، عبد القوی دسنوی اور راقم الحروف موجود تھے۔ ما حضر تناول کرتے ہوئے پروفیسر عبد المغنی کو جانے کیا سوجھی کہ قاب سے مرغ کی ایک ران اٹھا کر پروفیسر گیان چند کی پلیٹ میں رکھ دی۔ موصوف نے نے برا سا منہ بنایا تو عبد المغنی بولے :
’’ کھائیے، جین صاحب کھائیے۔ یہ کوئی مقدس جانور نہیں ہے۔ مرغا ہے مرغا۔ ‘‘
قوی صاحب جھنجھلا کر کہنے لگے۔ ’’ مغنی صاحب، آپ بھی غضب کرتے ہیں۔ جین مذہب میں چراغ جلنے کے بعد کھانا منع ہے۔ گیان چند چین صاحب کٹّر سبزی خور ہیں۔ ہم سب کے ساتھ رات کو کھانے میں شریک ہیں اور آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
قوی صاحب کی آواز غصے کے مارے بھرّا گئی تھی۔
عام طلبا اور اپنے شاگردوں کی دلچسپ کارستانیوں اور بے ضرر شرارتوں سے بردباری اور متانت کے با وصف قوی صاحب خاصے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے سیہور ڈگری کالج کے صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر عبد الودود کے تعاون سے دو روزہ تقریبات کا اہتمام کیا۔ دہلی سے یوسف پاپا، حنیف کیفی، خالد محمود اور میں نے شرکت کی، ممبئی سے شاعر کے مدیر تاجدار احتشام آئے۔ بھوپال سے عشرت قادری، آفاق حسین صدیقی اور قوی صاحب پہنچے۔ خاصا لطف رہا۔ خالد محمود نے شرارتاً سرونج کے سادہ لوح شاعر ضیا اسدی کو صدارت کے لیے بلا لیا۔ اب شام کو جو مشاعرہ ہونا تھا اس کے لیے ڈاکٹر ودود نے میاں سلطان محمد خاں کو پہلے سے مدعو کر رکھا تھا۔ حل یہ نکالا گیا کہ پہلا اور سنجیدہ دور سلطان میاں کی صدارت میں ہو پھر قوی صاحب اور سلطان میاں کو آرام کرنے کے لیے بھیج دیا جائے اور ضیا صاحب کی صدارت میں ہم لوگ رات بھر لطیفے بازی کریں۔ چنانچہ یہی ہوا۔ دوسرے دن ڈاکٹر نسیم شہنوی کے ہاں پوری جماعت ناشتے پر مدعو تھی۔ قوی صاحب نے سنا کہ ضیا اسدی نے رات کو مزیدار خطبۂ صدارت پیش کیا تھا تو کچھ اصرار سے اور کچھ پچکار کر انھیں دوبارہ خطبہ سنانے پر آمادہ کر لیا۔ ناشتے کے بعد حق شاگردی جتاتے ہوئے نسیم شہنوی نے گزارش کی کہ دوپہر کا کھانا بھی ہم سب ان کے گھر ہی پر کھائیں۔ یہ سن کر قوی صاحب زور سے ہنسے اور کہنے لگے :
’’ اتنی جلدی پرموشن نہیں ملے گا۔ ‘‘
ایک بار خواجہ ہال میں قوی صاحب حسن نظامی پر مقالہ پڑھ رہے تھے۔ اس وقت ان کے بال خاصے بڑھے ہوئے تھے۔ سامعین میں میرے بازو میں حسن نعیم بیٹھے ہوئے تھے۔ پڑھتے پڑھتے قوی صاحب نے بالوں پر ہاتھ پھیرا تو حسن نعیم نے مجھ سے سرگوشی میں پوچھا:
’’ یہ خواجہ گیسو دراز کون ہیں ؟‘‘
’’ حیرت ہے آپ انھیں نہیں پہچانتے۔ ‘‘ میں نے بھناّ کر کہا’’ پروفیسر عبد القوی دسنوی ہیں، میرے استاد محترم۔ ‘‘
’ ’ اوہ، مقامِ ادب ہے۔ ‘‘ جسن نعیم نے خفّت سے کہا۔
جلسے کے خاتمے پر میں نے تعارف کرایا:
’’ قوی صاحب، یہ حسن نعیم صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں، مجھ سے پوچھ رہے تھے یہ خواجہ گیسو دراز کون ہیں ؟‘‘
قوی صاحب نے برا مانے بغیر حسن نعیم کو گلے سے لگا لیا۔ اس دن شام کو حسن نعیم بضد ہو کر ہم دونوں کو اپنے گھر لے گئے۔ دعوت کی۔
کشمیر کے دورانِ قیام مظہر امام نے گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، وہاب اشرفی کو اور مجھے ٹیلی ویژن سینٹر پر ریکارڈنگ کے لیے بلایا لیکن میں نے قوی صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گلمرک جانے کو ترجیح دی۔ وہاں تک بس نے پہنچایا آگے کھلن مرگ تک گھوڑوں پر جانا تھا۔ پروفیسر نجم الہدیٰ آلو کے پراٹھے کھانے میں مصروف تھے، سب گھوڑے بُک ہو گئے، بے چارے پیدل چل کر کھلن مرگ پہنچے، وہاں برف آلود پہاڑ پر نوجوان اور بچے برف پر پھسل رہے تھے۔ قوی صاحب نے اس منظر سے لطف لیتے ہوئے نجم الہدیٰ سے دریافت کیا۔ ’’ آپ اتنی دیر سے کیسے آئے ؟ گھوڑا سست رفتار تھا کیا؟‘‘
’’ جی نہیں ‘‘خالد محمود نے کہا۔ ’’ یہ آلو کے پراٹھے پر سوار تھے سر!‘‘
قوی صاحب ہنسنے لگے اتنے میں برف پرپھسلنے والی ڈولی، ایک کارکن کی لا پروائی سے اچھل کر قوی صاحب کی پنڈلی پر لگی۔ خون بہنے لگا۔ ہم سب پریشان ہو گئے۔ خالد محمود نے کارکن کا گلا پکڑ لیا اور ایک ہاتھ جما دیا۔ اب قوی صاحب اپنی چوٹ کو بھول کر خالد کو سمجھانے لگے اور ان کی پنڈلی سے خون بہتا رہا۔ جب میں نے اس طرف متوجہ کیا تب کہیں خالد کا غصہ قابو میں آیا۔
میں نے اپنی دو کتابوں کا انتساب قوی صاحب کے نام کیا ہے۔ فرض تھا میرا، شاگرد ہوں۔ لیکن کہیں استاد بھی اپنی تصنیف شاگردوں کے نام معنون کرتے ہیں۔ قوی صاحب نے اپنی کتاب کئی ایک شاگردوں کو معنون کی ہے جن میں یہ’ ہیچمداں ‘ بھی شامل ہے۔
مجھ پر قوی صاحب کی کرم فرمائیوں کا کوئی شمار نہیں۔ اکثر وہ ایسے کام بھی میری درخواست پر کر ڈالتے تھے جنھیں بصورت دیگر ان کی طبیعت گوارا نہیں کرتی تھی۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ اپنے ادبی کاموں میں اتنے مصروف ہو گئے تھے کہ عموماً پی ایچ۔ ڈی کے مقالات کا ممتحن بننا بھی قبول نہیں کرتے تھے لیکن میری محبت میں انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی کے کئی تحقیقی مقالات کو جانچنے کا ناگوار فریضہ انجام دیا۔ متھلا یونی ورسٹی (دربھنگہ) سے معصوم شرقی کا تھیسس وہ بوجوہ پی ایچ۔ ڈی ڈگری کے لائق نہیں گردانتے تھے۔ میں نے توجیہہ پیش کی کہ اشک امرتسری پر اب دوسری جگہ سے کام ہونے کی توقع نہیں ہے۔ قوی صاحب نے ہفتے بھر کے اندر مثبت رپورٹ بھیج دی۔ میرے بیٹے فضیل کی تقریب نکاح میں شرکت کے لیے گرمیوں کی بھری دوپہر میں سیہور آئے۔ محبوب راہیؔ ناگپور یونی ور سٹی سے میری ناچیز شخصیت اور فن پر پی ایچ۔ ڈی کرنا چاہتے تھے۔ میں بوجوہ اس کے لیے رضا مند نہیں تھا، انھوں نے قوی صاحب کو گھیر لیا۔ استاد نے خط لکھا کہ محبوب نہ تم سے کسی امداد کے خواہاں ہیں نہ تمھاری یونیورسٹی سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ انھیں کام کرنے دو۔ میں نے سپر ڈال دی۔
سکریٹری مدھیہ پردیش اردو اکادمی کی حیثیت سے ایک بار سیمنار میں پرچہ پڑھنے کے لیے طلب کیا تو ایسی خوب صورت عمارت میں گلابوں کے تختے سے ملحق کمرے میں قیام کا بندوبست تھا جو عموماً وزرا اور وی آئی پی لوگوں کا مقدر ہے۔ منتظم، وقار فاطمی نے بتایا کہ قوی صاحب نے بذات خود معائنہ کر کے وہ کمرہ میرے لیے مختص کیا تھا۔
ڈاکٹر شنکر دیال شرما کی صدارت میں سیفیہ کالج بھوپال کا شاندار مشاعرہ ہوا تو قوی صاحب نے مجھے شرکت کا حکم دیا اور میرے ہزار انکار کرنے کے باوجود خاصی بڑی رقم بطور معاوضہ مرحمت فرمائی۔ یہ میری زندگی میں مشاعرے سے ملنے والی پہلی اُجرت تھی۔
ایک مرتبہ بھوپال کے بڑے سیاسی رہنما سارنگ صاحب کے دولت کدے پر اردو والوں کی نشست تھی۔ قوی صاحب کے اشارے پر موصوف نے صدارت کی کانٹوں بھری کرسی پر مجھے براجمان کر دیا۔ جلسے میں اختر بھائی (اختر سعید خاں ) جیسے معتبر اور سینئر شاعر بھی تھے۔ دونوں حضرات سامعین کی صف میں بیٹھ کر میری بیچارگی، خفت اور شرمساری سے محظوظ ہوتے رہے۔
۷؍ جولائی کی صبح بھوپال فون کیا تھا کہ بھابی محترمہ ( بیگم عبد القوی) اور بچوں کو پُرسا دوں۔ ان کے صاحبزادے نے فون پر بتایا کہ بستر مرگ پر بھی قوی صاحب کے سامنے کوئی مظفر حنفی کا ذکر چھیڑتا تو ان کی آنکھیں چمکنے لگتی تھیں۔ اس دن کے بعد سے میری آنکھیں پُر نم ہی رہتی ہیں اور قوی صاحب کا نام سن کر برسنے لگتی ہیں۔ قوی صاحب، آہ قوی صاحب!
٭٭٭
فرمانؔ اور فتح پور
میرے لیے محترمہ حمیرا رحمان کا خط بھائی امراؤ طارق نے ڈاکٹر خلیق انجم کی معرفت بھیجا، جو مجھے آج ۹؍ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ملا۔ حکم ہے کہ فرمان فتح پوری پر اپنا مقالہ ۱۲؍ اکتوبر تک برادر محترم خلیق انجم صاحب تک پہنچا دوں جو اُسے فی الفور طارق صاحب کو بھیجنے کا بندوبست فرما دیں گے۔ معدودے چند کے علاوہ میری ساری کتابیں دہلی والے مکان میں ہیں اور کلکتہ کی لائبریریوں سے کوئی کتاب نکالنے کے لیے کم از کم دو دن صرف ہوتے ہیں پھر یہاں فرمان صاحب کے تعلق سے کتنی کتابیں دستیاب ہوسکتی ہیں ؟ موصوف نے کوئی دو چار کتابیں تو لکھی نہیں، ان کی تعداد تو درجنوں تک پہنچتی ہے۔ ’ جشنِ فرمان‘ کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے میں شرکت اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں فوراً قلم اٹھا لوں اور کسی حوالے یا کتاب کے بغیر مضمون مکمل کر کے آج کل ہی میں پوسٹ کر کے دعا کروں کہ ڈاک والے اسے ۱۲؍ اکتوبر تک خلیق صاحب تک پہنچا دیں۔ چنانچہ چل مِرے خامہ بسم اللہ!
غالباً مہدی افادی نے ایک دلچسپ تقریب کے سلسلے میں کہا تھا کہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی لیکن میں سپاہی تو خیر سے ہوں ہی نہیں، اس قسم کا مومن بھی نہیں ہوں کہ فرمانؔ صاحب کی تصانیف سامنے رکھے بغیر اُن کے فن پر اظہارِ خیال کرنے بیٹھ جاؤں۔ اسی لیے نجات کا صرف ایک ذریعہ یہ نکلتا ہے کہ دیدہ و شنیدہ واقعات کی روشنی میں اُن کی دلنواز شخصیت کا جائزہ لیاجائے۔
ہر علاقہ مزاجاً مخصوص انفرادیت کا حامل ہوتا ہے۔ فتح پور یوں تو یو پی کے دو آبے کا ایک پچھڑا ہوا چھوٹا ساشہرہے لیکن عموماً یہاں کے باشندوں میں ایک نوع کا کرارا پن اور کرختگی پائی جاتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب سے دو تین دہائیوں پہلے تک اس شہر کے ہنٹر اور لاٹھیاں بہت مشہور تھیں اور ان سے بھی زیادہ شہرت حاصل تھی نیازؔ فتح پوری، جو ادبی دنیا میں کھرے انداز اور جرأتِ اظہار کی روشن مثال تھے۔ ہندوستان میں کئی فتحپور ہیں ان میں ہسوہ فتح پور نیازؔ صاحب کے حوالے سے فی الفور پہچانا جاتا تھا لیکن بہر حال یہ ملحوظ رکھنا ہو گا کہ عمر کے آخری چند برسوں کو چھوڑ کر نیاز فتحپوری نے اپنی زندگی فتحپور کے آس پاس ( دہلی، آگرہ، بھوپال، لکھنؤ وغیرہ میں ) رہ کر بسر کی تھی۔ فرمانؔ صاحب نے تو فتحپور ایام شباب میں ہی چھوڑ دیا تھا اور ہندوستانی بھی نہیں رہے تھے۔ بحیثیت ادیب و نقاد اُن کی شناخت بھی پاکستان پہنچنے کے بعد مستحکم ہوئی۔ بایں ہمہ فتحپور سے تقریباً چالیس پینتالیس برسوں کی دوری کے باوجود وہ اس علاقے کی نئی نسل میں نیازؔ صاحب سے کچھ زیادہ ہی مقبول ہیں بلکہ عرض کرنے دیجیے کہ نیازؔ صاحب سے وہاں لوگ مرعوب زیادہ تھے، کچھ مولانا قسم کے بزرگ تو مذہبی امور میں اختلافات کو کبیدگی میں بھی بدل چکے تھے لیکن فرمانؔ صاحب کو آج فتحپور کا ہر اُردو جاننے والا محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ سب کے اپنے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ ایک فتح پوری اتنا خوش اخلاق اور شیریں کلام کیسے نکل گیا کہ ’ گرم کلاموں ‘ کی اس بستی میں کوئی اس کے بارے میں تلخ جملہ کہنا تو کیا سُننا بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ وہ اہلِ قلم جن کا تعلق فتح پور سے ہے خواہ خیلدار کے ابو محمد سحرؔ ہوں یا کُرّہ (سادات) کے مجاہد حسین حسینی، اگر بیک زبان، فرمان صاحب کی گراں قدر ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ایک ہی دریا میں بہنے والی چھوٹی بڑی مچھلیاں ہیں لیکن یہاں تو مچھلیوں کے سوداگر بھی فرمان صاحب کا دم بھرتے ہیں۔ ایرایاں کے ایوب خاں آج کل دہلی میں ناز فش کمپنی کے مالک ہیں۔ چند برس پہلے کراچی سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے، ’’ مظفر صاحب! یقین کیجیے سرحد پار کی ادبی دنیا میں فرمانؔ فتح پوری کا فرمان چلتا ہے !‘‘
میں حیرا ن تھا کہ خاں صاحب جیسے کھُردرے پٹھان کو کیا معلوم کہ فرمان فتحپوری نے ڈھیر ساری علمی و ادبی کتابیں تصنیف کی ہیں، تحقیق و تنقید کے میدان میں کتنے بڑے معرکے سرکیے ہیں، درس و تدریس کے مقدس پیشے میں عمر کھپائی ہے، نیازؔ صاحب کے پاکستان پہنچنے کے بعد سے اب تک ماہنامہ ’’ نگار پاکستان‘‘ کی ادارت کا بوجھ اٹھا رکھا ہے، حکومت پاکستان نے انھیں ’ ستارۂ امتیاز‘ جیسے گرانقدر اعزاز سے نوازا ہے اور وہ دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے ملک کے نمائندے کی حیثیت سے سیمناروں اور مذاکروں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ یقیناً خاں صاحب موصوف کو ان امور کی اطلاع نہیں ہے لیکن بحیثیت مجموعی فرمانؔ صاحب کی قد آور شخصیت کا انھوں نے کیسا صحیح اندازہ لگا رکھا ہے۔ میرے استفسار پر انھوں نے اور ان کے فتح پوری پارٹنر سید حبیب الاسلام نے تقصیل بیان کی کہ کراچی کے چند روزہ دورانِ قیام میں قرمانؔ صاحب نے کس شاندار پیمانے پر ان کی ضیافتیں کیں اور کس طرح ٹوٹ کر ملے۔
ہسوہ کے مشہور صوفی بزرگ مولانا عبد القادرؒ نیازی سے میری عزیز داری تھی، جب تک حیات رہے، مراسلت کا سلسلہ رہا اور اُن کے ہر خط میں فرمان صاحب کی ادبی فتوحات کا ذکر ضرور ہوتا تھا۔ ان کے فرزندِ اکبر اور خلیفہ مولانا مقتضیٰ نیازی نظامی کا حلقۂ ارادت بھی خاصا وسیع ہے، ایسے لوگ جن کے سامنے بڑے بڑے عمائدین دست بستہ بیٹھتے ہیں، دوسروں کی تعریفیں کم کرتے ہیں لیکن اُن سے جب بھی ملاقات ہوئی فرمان فتحپوری کے حق میں کلماتِ خیر سننے کو ملے۔
مکن پور کے طفیل احمد جعفری رشتے میں میرے بھانجے ہیں کراچی سے آئے تو میں نے مزاحاً دریافت کیا کہ فتحپور کے خاندانوں کا شجرہ اور نسب نامے انھیں ابھی یاد ہیں کہ پاکستان جا کر بھول گئے ؟ کہنے لگے اب ہم سے کون پوچھتا ہے اس موضوع پر وہاں فرمان صاحب کی بات سند کا درجہ رکھتی ہے، انھوں نے فتح پور ایجوکیشنل سوسائٹی کا رجسٹریشن کرا لیا ہے۔ ’’ نگار‘‘ اسی ادارے کے تحت شائع ہوتا ہے، وطن سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بڑے کسی بھی فرد کے ہاں شادی بیاہ کی تقریب ہو، فرمانؔ صاحب اس میں شرکت کے لیے وقت ضرور نکالتے ہیں۔ فتحپور کا کوئی شخص ان کے پاس پہنچ جائے تو حتی الامکان اس کی اعانت کرتے ہیں۔
میری ناچیز مطبوعات کی تعداد پچاس سے تجاوز کر گئی ہے اور غالباً ہر کتاب کا ایک نسخہ فرمانؔ صاحب تک پہنچایا ہے خواہ اس کی تین چار جلدیں ہی مجھے ملی ہوں۔ پاکستان میں میری حقیر کتب کا مکمل سٹ شاید فرمانؔ صاحب کے علاوہ مشفق خواجہ کے ہاں نکلے اور ہندوستان میں استاذی عبد القوی دسنوی صاحب کے پاس۔ ایک بار عزیزم احمد نہال کراچی کے لیے ویزا حاصل کرنے آئے تو میں نے اپنی نئی کتاب ’’ جہات و جستجو‘‘ کا ایک نسخہ اور اس کی فلمیں ( یا کیلی گرافی) ان کے سپر د کیں کہ میری جانب سے فرمان صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں۔ تقریباً ایک ماہ بعد لوٹے تو فتح پور جانے سے قبل دہلی رُکے اور فرمانؔ صاحب کی ارسال کردہ کچھ کتابیں میرے سپرد کیں پھر فخر سے کہنے لگے ان سے دوگنی کتابیں فرمان بھائی نے بطور تحفہ ہمیں عطا فرمائی ہیں۔ احباب سے سُنا ہے کہ یہ کتابیں وہ جُز دانوں میں رکھتے ہیں۔
پروفیسر مشیر الحق ( جو آگے چل کر کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اور انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ) کی بیٹی کا بیاہ تھا۔ نکاح کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مسعود حسین، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ساتھ لان پر کھڑے تھے، میں بھی گفتگو میں شریک تھا۔ اچانک پاس کھڑے ایک گروپ میں کوئی صاحب زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ پروفیسر نارنگ نے پوچھا یہ کون حضرت ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ اُدھر نہ دیکھیے ورنہ مغلظات پر اُتر آئیں گے۔ یہ فتحپور کے مشہور زمانہ بانکے اسلام بیگ چنگیزی ہیں۔ مسعود صاحب نے مسکرا کر کہا ہاں بھائی ان سے تو فراقؔ گورکھپوری بھی دبکتے تھے، چلیے کہیں بیٹھتے ہیں۔ سو یہی چنگیزی (مرحوم) ایک دن مجھ پر برس پڑے :
’’ کیوں میاں ! تمھاری کچھ کتابیں آ گئی ہیں تو بہت بڑے آدمی ہو گئے ہو۔ فتحپور والوں نے مشاعرے میں بلایا تو معذرت کر لی۔ وہاں کب سے نہیں گئے ؟‘‘
عرض کیا ’’ پانچ سال ہو گئے، والدین رہے نہیں، بہنیں اپنی اپنی سسرال میں ہیں، کہاں جاؤں ؟‘‘
’’ گویا فتح پور اب آپ کا وطن نہیں رہا۔ خیر تمھیں تو پانچ ہی برس ہوئے کہ وہاں نہیں گئے وہ جو پروفیسر ابو محمد سحرؔ ہیں بھوپال میں اور اشتیاق عارف مدیر ’ افکار‘ ( بھوپال) ہیں پندرہ سال سے فتحپور نہیں آئے کہ کہیں یہاں ان کی عصمت نہ لٹ جائے۔ دیکھو! اگلے مہینے پھر ایک مشاعرہ ہے اجمل اجملی اور تم کو میرے ساتھ چلنا ہے۔ سمجھے۔ ‘‘
دست بستہ کہا ’’ جی سمجھ گیا‘‘تو ہنسنے لگے۔ بولے ’’ برا مت ماننا ہم تمھارے بڑے بھائی ہیں۔ دیکھو فرمانؔ فتحپوری کو، کتنے بڑے آدمی ہیں، اتنے دن ہو گئے ہجرت کو، آج بھی دو دن کے لیے ہندوستان کے کسی کونے میں بلائے جاتے ہیں تو ایک دن کے لیے سہی فتحپور ضرور پہنچتے ہیں۔ ‘‘
ظفر اقبال ظفرؔ پاکستان گئے تو لاہور اور کراچی کے بہت سے ادیبوں شاعروں اور مدیروں کے نام تعارفی خطوط لے گئے، واپس آئے تو بتایا:
’’ مظفر بھائی! ویسے تو سبھی محبت اور خلوص کے ساتھ ملے لیکن دلدار بھائی کی بات ہی اور ہے، وہ سچ مچ دل دار ہیں۔ دعوتیں کیں، لوگوں سے بھائی کہہ کر ملوایا، ادبی تقریبات میں ساتھ لے کر گئے اور تو اور، جانے کیسے انھیں معلوم ہوا کہ پردیس میں میرا ہاتھ تنگ ہے، ایک ادارے سے بہت آسان سا کام مجھے دلا دیا اور اس کا ڈھیر سارا معاوضہ مل گیا۔ واہ فرمانؔ صاحب۔ ‘‘
فتحپوری احباب ان کے حوالے سے اکثر ہم جیسوں کو دباتے رہتے ہیں۔ ایک دن ہمارے بچپن کے دوست حبابؔ ہاشمی ( ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکول‘ الٰہ آباد) رسالہ ’’ نگار‘‘ کا ایک شمارہ جھنڈے کی طرح لہراتے ہوئے بولے :
’’ دیکھو مظفرؔ دیکھو اور سبق حاصل کرو، فرمانؔ فتحپوری نے اپنے سفر نامے میں ہم لوگوں کا ذکر کتنی تفصیل اور کیسی محبت کے ساتھ کیا ہے۔ ایک تم ہو کہ بھولے سے اپنے کسی مضمون میں اپنے دوستوں کا تذکرہ نہیں کرتے۔ ‘‘
’’ یار حبابؔ، خدا سے ڈرو۔ ہم نے کھنڈوہ سے ماہنامہ ’’ نئے چراغ ‘‘ جاری کیا تو تمھیں اس کی مجلسِ ادارت میں نہیں شامل کیا تھا؟‘‘
’’ تو کیا ہوا؟ ہم بھی تمھیں فراقؔ صاحب کی غیر مطبوعہ غزلیں بھیجتے تھے ہر ماہ!‘‘
’’ بھائی تمھارے نام تو ہم اپنے مجموعۂ کلام ’’ طلسم حرف‘‘ کا انتساب بھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ کیا ہو گا انتساب ہمارے نام۔ ‘‘ انھوں نے بات کاٹ دی۔ ‘‘ ہم تو مضمون کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ ‘‘
دل ہی دل میں فرمانؔ صاحب کو آنکھیں دکھانے کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا۔ مقامِ شکر ہے کہ آج انھیں کے طفیل فتحپور کے بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کی یاد آ رہی ہے۔
چند سال پہلے طاہرؔ فتحپوری کا مجموعہ کلام ( مسودے کی صورت میں ) اس پیغام کے ساتھ ملا کہ فرمان صاحب کا فرمان ہے اس پر پیش لفظ مظفر حنفی لکھیں گے۔ اب فرمانؔ صاحب کا حکم اصلی ہو یا فرضی، میری کیا مجال کہ تعمیل نہ کروں۔
تقسیم ہند کے بعد فتح پور میں اُردو جاننے والے ضرور کم ہو گئے لیکن فرمان فتحپوری کو جاننے اور پہچاننے والوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔ لوگ طرح طرح سے اُن کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کرتے اور خوش ہوتے ہیں۔ لیاقت حسین ( ممبر پارلیمنٹ ان دنوں کو یاد کر کے پھولے نہیں سماتے جب دلدار حسین ہیبت پور سے آ کران کے ہاں مقیم ہوئے تھے اور اپنی شخصیت کی تشکیل کر رہے تھے۔ وحید خاں کو ناز ہے کہ مولانا ظہور الاسلام کے قائم کردہ مسلم اسکول میں فرمانؔ صاحب کے ساتھ کچھ دن وہ بھی پڑھتے ( یا پڑھاتے رہے ہیں )۔ فضلؔ کوٹی یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ فرمانؔ فتحپوری نے کبھی ان کی دعوتِ طعام قبول کر لی تھی۔ کوئی اس لیے نازاں ہے کہ دلدار بھائی کا ہم جماعت رہ چکا ہے تو کوئی اس پر مغرور ہے کہ فرمانؔ صاحب سے ٹیوشن پڑھ چکا ہے۔ ایک بار الٰہ آباد میں شاہ آفتاب احمد نے فخر کے ساتھ مطلع کیا کہ ان کے خُسرِ محترم فرمانؔ فتحپوری کے کلاس فیلو تھے۔
اب کچھ باتیں اپنے تعلق سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فرمان صاحب عمر میں مجھ سے غالباً سات آٹھ سال بڑے ہیں۔ خط و کتابت کے وسیلے سے ان کے ساتھ میرے تعلقات کم و بیش تیس سال پہلے استوار ہوئے۔ ذاتی ملاقات اور وہ بھی برائے نام سی، ایک بار ہوئی جس کا ذکر مناسب مقام پر آئے گا۔ غالباً ان کا پہلا خط مجھے نیازؔ فتحپوری کی زندگی میں اس وقت ملا تھا جب فرمانؔ صاحب ’نگار پاکستان‘ کے کام میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ یہ میرے کسی افسانے یا غزل کے بارے میں تھا جو ’ نگار‘ میں اشاعت کے لیے منظور ہوئی تھی یا نا منظور۔
۱۹۶۴ء میں شادؔ عارفی کا انتقال ہوا۔ مرحوم سے مجھے شرفِ تلمّذ حاصل تھا۔ ان کے بارے میں مختلف ناقدین ادب کو مضمون لکھنے کے لیے خط لکھے اور حاصل ہونے والے مقالات کا ضخیم مجموعہ ’’ ایک تھا شاعر: شاد عارفی‘‘ کے نام سے ۱۹۶۷ء میں منظرِ عام پر آیا۔ اس میں شادؔ عارفی کے فن پر نیاز فتحپوری کی اجمالی مثبت رائے بھی شامل تھی۔ کتاب چھپ کر آئی تو شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ فرمانؔ صاحب اور کئی دوسرے ممتاز نقادوں کے مضامین بھی شادؔ عارفی پر آتے تو اچھا تھا۔ دشواری یہ تھی کہ شادؔ مرحوم نے جو نقادوں سے جا و بیجا خفا رہتے تھے، مختلف تحریروں میں اکثر نیازؔ فتحپوری کے بارے میں تلخ و ترش باتیں کہی تھیں۔ اس اثناء میں نیاز صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور مجھے بخوبی علم تھا کہ جتنی عقیدت مجھے شادؔ عارفی سے ہے اتنی ہی فرمانؔ صاحب کو نیازؔ فتحپوری سے ہے اور یقیناً شادؔ کی متذکرہ تحریریں فرمانؔ صاحب کی نگاہ سے بھی گزری ہوں گی۔ بہر حال میں نے کچھ انتخابِ کلام منسلک کرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی کہ شادؔ عارفی پر ایک مضمون قلمبند فرمائیں اور چند ماہ بعد ہی ان کا بہت اچھا مضمون ’’ شادؔ عارفی: ایک طنز نگار غزل گو‘‘ کراچی کے ماہنامہ ’’ الشجاع‘‘ (سالنامہ ۱۹۶۹ئ) میں شائع ہوا۔ جسے کئی سال بعد میرے مرتب کردہ مجموعۂ مضامین ’’ شادعارفی: ایک مطالعہ‘‘ میں بھی شامل کیا گیا۔ ۱۹۶۸ء میں اپنی طنزیہ غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ انھیں بھجوایا تو فرمانؔ صاحب نے اس پر ’’ نگار پاکستان‘‘ ( بابت مارچ اپریل ۱۹۶۹ئ) میں اپنا مفصل اور حوصلہ افزا تبصرہ شائع کیا۔ اس دن کے بعد سے تا حال میری جب بھی کوئی کتاب کہیں سے بھی شائع ہوئی اس کی اولین چند جلدوں میں سے ایک فرمانؔ صاحب کی خدمت میں ارسال کی گئی جن میں سے بعض کی منتخب چیزیں وقتاً فوقتاً فرمان صاحبؔ نے ’نگار پاکستان‘‘ میں شائع کیں۔ اسی طرح اُن کی کئی کتابیں مجھے موصول ہوئیں جن میں سے کئی پر میرے تبصرے ہندوستان کے جریدوں میں چھپے۔
صحیح یادنہیں رہا شاید انجمن ترقی اُردو ہند کی عمارت ’ اُردو گھر‘ کی افتتاحیہ تقریب یا کسی سیمنار میں شرکت کے لیے بارہ تیرہ برس پہلے فرمان صاحب دہلی تشریف لائے بھابی محترمہ (بیگم فرمانؔ) ہمراہ تھیں۔ میں ان دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اُردو سے متعلق تھا جس کے صدر پروفیسر گوپی چند نارنگ ہوا کرتے تھے۔ ہم نے انھیں جامعہ میں استقبالیہ جلسے میں مدعو کیا۔ جلسے میں ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہے۔ تقریب ختم ہوئی تو پروفیسر نارنگ نے اپنے ساتھیوں کو فرداً فرداً فرمانؔ صاحب سے متعارف کرایا میرے قریب آئے تو فرمان صاحب نے فرمایا کہ ان کے تعارف کی ضرورت نہیں، پھر مجھے بھابی محترمہ کے سامنے کرتے ہوئے بولے ’’ یہ ہسوہ کے ہیں اور آپ کا مائکہ ایرایاں ان کا نانہال ہے۔ ‘‘
بھابی نے مسکرا کر شفیق نظروں سے دیکھا تو میں نہال ہو گیا۔ تھوڑی دیر باتیں ہوئیں لیکن ایسے جلسوں میں لوگ تھم کر باتیں کہاں کرنے دیتے ہیں۔ فرمانؔ صاحب بھابی کے ساتھ پرانی دہلی چلے گئے جہاں ڈاکٹر خلیق انجم کے ہاں اُن کا قیام ہوا کرتا ہے۔ چاہتا تھا کہ ایک دن ان کی میزبانی کا شرف میں بھی حاصل کروں، بھرے جلسے میں مدعو کرتے ہوئے اچھا نہیں لگا۔ دورسے دن صبح ہی صبح اس ارادے کے ساتھ چاندنی محل میں خلیق انجم کے دولت کدے پر حاضر 8ئہوا تو پتہ چلا کہ وہ لوگ فتحپور جا چکے ہیں۔
کچھ دن بعد کراچی سے فرمانؔ صاحب کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ اس وقت وہ غالباً کراچی یونیورستی میں صدر شعبۂ اُردو تھے، جہاں نیاز فتحپوری کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر سیمنار تھا۔ اُن دنوں میرے خانگی حالات کچھ ایسے تھے کہ خواہش کے باوجود میں دہلی نہیں چھوڑ سکتا تھا، دل مسوس کر رہ گیا۔ کچھ مہینوں بعد بیگم امراؤ طارق دہلی تشریف لائیں تو پتہ چلا کہ فرمانؔ صاحب مجھ سے کبیدہ خاطر ہیں۔ میں نے انھیں ایک مفصل خط لکھ کر حالات سے آگاہ کیا تو مردِ مومن کی طرح مَن گئے۔ دو ایک برس کے بعد ان کا دعوت نامہ پھر ملا۔ اس بار مجھے ’ نگار‘ کے جشنِ طلائی میں شریک ہونا تھا۔ فوراً منظوری بھیج دی۔ مزید احتیاط کے طور پر فرمان صاحب نے ڈاکٹر خلیق انجم کو بھی لکھا کہ مجھے ضرور ساتھ لائیں اور موصوف نے بھرپور کوشش بھی کی لیکن وائے قسمت کہ اس مرتبہ بھی عین وقت پر باسپورٹ ویزا وغیرہ کے چکر میں پڑ کر میں کراچی نہیں پہنچ سکا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں مواقع پر اخبارات اور پوسٹروں میں میری آمد کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ جشن کے ختم ہونے پر مجھے فرمان صاحب کا عتاب نامہ ملا جس میں غصے کے ساتھ پیار کی زیریں لہر بھی جھلکتی تھی۔ انھیں بجا طور پر شکایت تھی کہ جن ادبی تقریبوں میں شرکت کے لیے خاصے سینئر اور جیّد قسم کے پروفیسرس اور وائس چانسلر وغیرہ دعوت نامے حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں، ان میں با عزّت بلاوے کے باوجود شریک نہ ہونے کا میرے پاس کیا جواز ہے ؟ اس بار فرمانؔ صاحب کو منانے کے لیے مجھے کئی خط لکھنے پڑے۔
درمیان میں ایک دو مواقع پر فرمانؔ صاحب کو دہلی کے ادبی اجتماعوں میں پھر دیکھا۔ لیکن ہنگاموں میں سلام و خیریت پُرسی کے علاوہ کوئی ٹھکانے کی بات نہ ہو سکی البتہ ہر بار یہ ضرور پتہ چلا کہ فرمانؔ صاحب فتحپور تشریف لے گئے ہیں۔ ۱۹۸۹ء کے اواخر میں کلکتہ یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کی نگاہ مجھ خاکسار پر پڑی یہاں کوئی دس گیارہ سال پہلے یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اقبال چیئر کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس پر فیضؔ صاحب کا تقرر ہوا لیکن فیض صاحب تشریف نہیں لائے۔ اب یہ چیئر مجھے پیش کی گئی اور یونیورسٹی نے غیر معمولی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے کئی مطالبات بھی تسلیم کر لیے تومیں نے بحیثیت اقبال پروفیسر شعبۂ اُردو میں آنا قبول کر لیا۔ اخباروں میں خبریں شاید کراچی میں بھی آئی ہوں گی وہاں سے کئی لوگوں کے تہنیت نامے آئے جن میں سب سے پہلا فرمانؔ صاحب کا تھا جس میں فتحپور کی نسبت سے بڑی مسرت کا اظہار کیا گیا تھا اور بڑے بھائی کی حیثیت سے دعائیں دی گئی تھیں، ظاہر ہے میں نے بیحد انکسار کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا اور بہت احترام سے مستقبل میں کام کی بابت ان کے قیمتی مشورے طلب کیے۔ میری شامتِ اعمال کہ یہ اہم خط سرحدکے اِدھر یا اُدھر کہیں ڈاک والوں کی بدنظمی کا شکار ہو گیا اور فرمان صاحب کو نہیں ملا۔ سال بھر تک مراسلت کا سلسلہ بندرہا۔ مجھے بھی یاد دہانی کی توفیق نہ ہوئی اور سمجھتا رہا کہ فرمانؔ صاحب بڑھی ہوئی مصروفیت کی وجہ سے شاید جواب نہیں دے سکے کہ سال بھر بعد اچانک اُ ن کا عتاب نامہ نازل ہوا۔ موصوف نے ترش انداز میں دریافت کیا تھا کہ میں نے ان کی مبارکباد کا جواب کیوں نہیں دیا اور ایسی ہی باتیں لکھی تھیں جن سے خفگی ظاہر ہوتی تھی۔ بوکھلا کر فی الفور وضاحتی خط لکھا اور اصل صورت حال سے واقفیت بہم پہنچائی لیکن شایدفرمانؔ صاحب کو برادرِ خوردکی باتوں پر اعتبار نہیں رہا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں اُن کے عتابِ جاریہ کا نشانہ ہوں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مدت میں جتنے بھی خط میں نے انھیں لکھے کسی ایک کا جواب نہیں ملا حالانکہ کبھی کبھار اطلاع پہنچی کہ میری کوئی غزل یا مضمون انھوں نے ’ ’نگار پاکستان‘‘ میں شائع کیا ہے البتہ رسالے کی ترسیل کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ اس اثناء میں تابڑ توڑ اپنی کئی کتابیں ( دہلی میں اُردو طنز و مزاح، حسرتؔ موہانی، شادؔ عارفی: ایک مطالعہ، انتخابِ غزلیات میر حسن، ادبی فیچر اور تقریریں، روحِ غزل وغیرہ) ان کی خدمت میں روانہ کیں لیکن فرمان بھائی نے کسی ایک کی رسید تک نہیں بھیجی حتیٰ کہ پچھلے دنوں معلوم ہوا موصوف نے ’’نگار پاکستان‘‘ کا پورا ایک شمارہ میری ناچیز کاوش ’ انتخاب غزلیات میرحسن‘ کے لیے وقف کر دیا۔ البتہ کلکتہ یونیورسٹی سے جب کبھی انھیں شعبۂ اردو کے کسی اسکالر کا تحقیقی مقالہ جانچنے کے لیے بھیجا، اُس کی مثبت رپورٹ بہت جلد موصول ہوئی اور اسی قسم کا تعاون ان کی صاحبزادی ڈاکٹر عظمیٰ فرمان سے بھی ملتا رہا جو کراچی یونیورسٹی میں ریڈر تھیں۔
سچ تو یہ ہے کہ فتح پور نے فرمانؔ صاحب کو آدھے نام ( فتحپوری) کے علاوہ کچھ نہیں دیا اور فرمان فتح پوری نے فتح پور کا نام اونچا اور روشن، بہت اونچا اور بہت روشن کیا ہے۔ صدقِ دل سے دُعا ہے کہ :
وہ سلامت رہیں قیامت تک
اور قیامت کبھی نہ آئے شادؔ
(۱۹۹۳ء)
باز نوشت:
افسوس صد افسوس کہ ۳؍ اگست۲۰۱۳ء کو فرمانؔ بھائی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ خداوند قدوس اُن کی لحد کو نور سے لبریز رکھے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ۲۰۰۴ء اور پھر ۲۰۰۶ء میں پاکستان جانا ہوا تو مرحوم نے محض میری خاطر وفاقی یونیورسٹی، کراچی پریس کلب، آرٹ کونسل، انجمن ترقی اردو( پاکستان)، مرکز جماعت اسلامی، کراچی یونیورسٹی، جنگ فورم، انجمن ترقی پسند مصنفین اور دیگر اداروں کے اُن تمام جلسوں میں شرکت کی جو اس نا چیز کے اعزاز میں منعقد کیے گئے تھے، ہر جگہ میری حقیر ادبی اور علمی کار گزاریوں کے بارے میں توصیفی اور حوصلہ افزا تقریریں کیں۔ کراچی یونیورسٹی کے استقبالیہ جلسے میں فرمایا کہ وظیفہ یاب ہونے کے بعد وہ انیس برسوں سے یونیورسٹی نہیں آئے لیکن اپنے چھوٹے بھائی مظفرؔ حنفی کے استقبال کی خاطر یہ اصول توڑنا پڑا۔ وفاقی یونیورسٹی کے اعزازی جلسے میں یہ دلچسپ انکشاف کیے کہ جس آڈیٹوریم میں مظفرؔ حنفی کا استقبال کیا جا رہا ہے اس کا نام عبد القدیر ہال ہے۔ سائنسداں عبدالقدیر خان کا وطن فتحپور ( ہسوہ) تھا، مظفرؔ حنفی کا وطن بھی وہی ہے۔ قدیر خاں کی تعلیم بھوپال میں ہوئی تھی۔ مظفرؔ نے بھی وہیں تعلیم پائی۔ عبدالقدیر خاں کی تاریخ پیدائش یکم اپریل ۱۹۳۶ء ہے اور مظفرؔ حنفی کی تاریخ پیدائش بھی یہی ہے۔ اتنے بہت سے اتفاقات بہت کم یکجا ہوتے ہیں۔ انجمن ترقی اردو کے جلسے میں میرے علمی و ادبی کام کی تفصیلات اس طرح بیان کیں کہ صدر انجمن نے بر سرِ جلسہ میری تین کتابوں کو انجمن کی جانب سے شائع کرنے کا اعلان کیا۔
اُن دنوں فرمانؔ فتح پوری اردو لغت بورڈ ( ترقی اردو بورڈ) کے چیئر مین تھے۔ وہاں میرے اعزاز میں بہت شاندار پروگرام کا بندوبست کیا اور بورڈ کی تیار کردہ ہزاروں صفحات پر مشتمل لغت کی بیس ضخیم جلدیں بطور سوغات مجھ ہیجمداں کو عنایت فرمائیں۔
اپنے عالی شان دولت کدے، واقع گلشنِ اقبال میں مجھے، میری اہلیہ( عاصمہ مظفر)اور اُن کے دس بارہ اعزّا و اقرباء کی نہایت پُر تکلف ضیافت کی جس میں اپنے تمام بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو باصرار شرکت کی ہدایت کی اور ایک ایک سے ہمارا مقصل تعارف کرایا۔ عاصمہ سے کڑہ(مانکپور) کے حالات دریافت کیا تھا اور اُن کا مختصر جواب سُن کر ہنسے تھے پھر تفصیل کے ساتھ اُن کے گھرانے اور مائکے کے بارے میں اتنی باتیں بیان کیں جن کا علم خود عاصمہ کو نہیں تھا۔ مجھے مطلع کیا کہ ہندوستان سے ہجرت کے بعد وہ کافی عرصے تک میرے قریبی عزیز، حبیب احمد صدیقی کے مکان میں قیام پذیر رہے تھے۔ رخصت کے وقت میرے لیے گرم سوٹ اور ٹائی، عاصمہ کے لیے قیمتی ساری اور دہلی میں مقیم بچوں کے لیے بہت سے تحائف گاڑی میں رکھوا دیے۔
۲۰۰۷ء میں میرے بیٹے پرویزؔ مظفر نے انھیں برمنگھم سے براہِ راست فون کیا اور ماہنامہ ’’ پرواز‘‘ ( لندن) کے گوشۂ پرویزؔ کے لیے فرمائش کی تو فرمان بھائی نے اس غیر معروف شاعر کے بارے میں مختصر لیکن جامع مضمون فی الفور ارسال فرمایا جس کی بابت مجھے متعلقہ نمبر موصول ہونے پر معلوم ہوا۔
یاد آتا ہے فرمان فتحپوری سے فون پر آخری بار گفتگو تقریباً تین برس قبل ہوئی۔ ایک دن موصوف نے موبائل پر رابطہ کیا اور فرمایا کہ اُن کی بیٹی عظمیٰ فرمان فاروقی کے سلسلے میں کراچی یونیورستی مجھ سے رجوع کرے تو جواب ذرا جلد بھیج دوں۔ میں نے انھیں مطلع کیا کہ عظمیٰ کے پروفیسر کی حیثیت سے تقرر کی سفارش تو ایک ہفتہ قبل کراچی یونیورسٹی کو بھیج چکا ہوں۔ سن کر ہنسے اور کہنے لگے یہ ہوئی نا فتح پور والی بات۔ ۔ ۔ خوش رہو، جیتے رہو۔
صد افسوس کہ ایسی دعائیں دینے والا مشفق و محترم بھائی اب نہیں رہا۔
٭٭٭
گوپی چند نارنگ۔ کچھ باتیں
یہ کوئی چالیس برس پیشتر کی بات ہے بلکہ شاید کچھ اور بھی پرانی۔ ان دنوں میں کھنڈوا سے ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ نکالتا تھا جس کے تبادلے میں ہند و پاک سے مختلف رسالے میرے پاس پہنچتے تھے۔ ان میں سے کسی پاکستانی رسالے میں، اگر حافظہ دھوکا نہیں دیتا تو غالباً لاہور کے ’’ ادب لطیف‘‘ میں پروفیسر نارنگ کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ صحیح عنوان یاد نہیں لیکن یہ مضمون میرے آبائی وطن ہسوہ فتح پور کے کسی غیرمسلم شاعر کی مثنوی کے بارے میں تھا۔ اس کا گہرا اثر میرے ذہن و دل پر مرتسم ہوا۔ اس لیے نہیں کہ یہ مضمون میرے وطن کے کسی شاعر کے بارے میں تھا بلکہ اس لیے کہ ایک تحقیقی مضمون میں مقالہ نگار نے جیسی شگفتہ اور تخلیقی نثر استعمال کی تھی اور اس کے باوجود تنقید و تحقیق کا حق پوری طرح ادا کر دیا گیا تھا۔ یہی خوبی تھی جس نے مجھے نارنگ صاحب کی آئندہ چھپنے والی نگارشات کو تلاش کر کے دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ پڑھنے پر آمادہ کیا۔
چند برسوں بعد جب ۱۹۶۷ء میں میرے افسانوں کا مجموعہ ’’ اینٹ کا جواب‘‘ طویل طنزیہ نظم ’’ عکس ریز‘‘ نیز جدید شاعری کا ہندوستان میں شائع ہونے والا سب سے پہلا مجموعۂ کلام ’’ پانی کی زبان‘‘ شب خون کتاب گھر الٰہ آباد کے وسیلے سے منظرِ عام پر آیا تو سب سے پہلے جن صاحبان نظر کی خدمت میں یہ کتابیں روانہ کیں ان میں گوپی چند نارنگ کا نام سرِ فہرست تھا اور ان پر جو تاثرات اور حوصلہ افزا کلمات بطور رسید گوپی چند نارنگ نے ارسال فرمائے ان سے مجھے کتنا حوصلہ اور تقویت حاصل ہوئی اس کا بیان حیطۂ تحریرسے باہر ہے اور یہی سبب ہے کہ جب ’’ شب خون‘‘ نے میرا دوسرا شعری مجموعہ ’’ طلسم حرف‘‘ ۱۹۶۹ء میں برائے اشاعت طلب کیا تو میں نے بطور خاص نارنگ صاحب سے اس کا پیش لفظ قلمبند کرنے کی فرمائش کی اور از راہ تلطف موصوف نے میری گزارش قبول بھی کرلی۔ میرے صرف اسی ایک مجموعے میں نارنگ کا پیش لفظ شامل نہیں ہے بلکہ آگے چل کر میرے ایک مجموعۂ مضامین ’’ جہات و جستجو‘‘ کا دیباچہ بھی گوپی چند نارنگ کا ہی قلمبند کردہ ہے۔ میرے تقریباً تین چار شعری مجموعوں کے سر ورق (فلیپ) پر ان کی گرانقدر آرا شامل ہیں اور کئی کتابوں پر موصوف نے ہندو پاک کے مقتدر جریدوں میں طویل و مختصر تبصرے کر کے مجھے ادبی میدان میں تیز رفتاری سے سفر کرنے پر آمادہ کیا۔ انسیت اور رفاقت کے اس سکّے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ میری دو کتابوں کا انتساب گوپی چند نارنگ کے نام ہے اور ان کی متعدد کتابوں پر میں نے ہند و پاک کے مقتدر رسالوں میں کہیں طویل اور کبھی مختصر تبصرے کیے۔ بر سبیل تذکرہ یہ باتیں میں نے سمیٹ کر ایک ہی جگہ بیان کر دیں ورنہ ان کا سلسلہ تقریباً ربع صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ عرض یہ کرنا تھا کہ تقریباً بارہ تیرہ برسوں تک نارنگ صاحب سے میرے تعلق کا ذریعہ خط و کتابت ہی رہا۔
۱۹۷۴ء کے وسط میں حالات نے مجھے بھوپال سے دہلی پہنچا دیا جہاں نیشنل کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت NCERT میں بحیثیت اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر میرا تقرر ہوا۔ NCERT نے مجھے رہائش کے لیے جو فلیٹ تفویض کیا وہ مالویہ نگر کیMMTC کالونی میں واقع تھا۔ اس سے متصل سروودیہ انکلیو کے ایک خوبصورت مکان میں نارنگ صاحب اپنی نئی بیگم منورما نارنگ کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ پہلی بار نارنگ سے میری ملاقات انھیں کے دولت کدے پر ایک بڑی خوبصورت اور پر تکلف تقریب ضیافت کے دوران ہوئی۔ انھیں دنوں نارنگ صاحب کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں پروفیسر کی حیثیت سے نیا نیا کیا گیا تھا اور دہلی کے مختلف علاقوں میں انھیں استقبالیے دیے جا رہے تھے۔ جس تقریب کا میں نے ذکر کیا وہ نارنگ صاحب کی جانب سے منعقد کی گئی تھی جو استقبالیہ جلسوں کے جواب میں تھی اور اس موقع پر موصوف نے مجھے بھی یاد فرمایا تھا۔ دہلی کے بیشتر جونیئر اور سینئر معاصرین اور عمائدین ادب سے میری پہلی ملاقات اسی موقع پر ہوئی تھی۔ ان میں منچندہ بانی، راز نرائن راز، دیوندر اسّر، امیر آغا قزلباش، ابو الفیض سحر، مطیر ہوشیار پوری، شہباز حسین، انور کمال حسینی، خلیق انجم، اسلم پرویز، محمود ہاشمی، حسن نعیم، فکر تونسوی۔ کمار پاشی، بلراج کومل۔ رحمان نیر، مالک رام۔ بلراج مین را، بلراج ورما، کرتار سنگھ دگل، وغیرہ کے نام یاد آتے ہیں۔ ان حضرات کے علاوہ اور متعدد دوسرے اہل قلم بھی اس تقریب میں شریک تھے لیکن یہ وہ افراد تھے جن سے میری ملاقاتیں اس سے پہلے بھی ہو چکی تھیں۔ اس تقریب کے دوران نارنگ صاحب اور شریک محفل اصحاب میں جو بے تکلفی اور یگانگت دیکھنے سننے میں آئی اس سے بخوبی اندازہ ہوا کہ نارنگ صاحب کی شخصیت بے حد ہر دلعزیز ہے۔ NCERT میں میری ملازمت پونے دو سال تک جاری رہی۔ وہاں پبلی کیشن ڈویژن کے اردو یونٹ میں مزاح نگار مجتبیٰ حسین بھی بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر میرے رفیق کار تھے۔ NCERTنے انھیں بھیMMTCکالونی میں ایک رہائشی فلیٹ دے رکھا تھا۔ اکثر چھٹی کے دنوں میں کبھی مجتبیٰ حسین اور کبھی تنہا میں نارنگ صاحب کے دولت کدے پر پہنچ کر تازہ آنے والے رسائل اور کتب کے بارے میں اور دیگر ادبی امور پر ان سے تبادلۂ خیال کا شرف حاصل کرتا۔ چند مہینوں بعد یوں ہوا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں لکچررس کے لیے اخبارات میں اشتہارات شائع ہوئے اور میں نے بھی وہاں درخواست لگا دی لیکن اپنی افتاد طبع کے تحت میں نے اس کے بعد نارنگ صاحب کے ہاں آنا جانا ملتوی کر دیا۔ شاید ان درخواستوں کی اسکریننگ کے دوران نارنگ صاحب کو علم ہوا ہو گا کہ میں بھی وہاں درخواست گزار ہوں۔ چند دن بعد انھوں نے مجتبیٰ حسین سے گلہ مندی کے طور پر کہا ابھی تو مظفر حنفی نے جامعہ میں درخواست ہی دی ہے اور مجھ سے ملنے جلنے کا سلسلہ منقطع کر دیا ہے۔ کہیں جامعہ میں ان کا تقرر ہو گیا تو نہ جانے کیا صورت حال ہو۔ مجتبیٰ نے یہ بات مجھ سے کہی تو میں دوسرے ہی دن نارنگ سے ملنے گیا اور عرض کیا کہ نارنگ صاحب! میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ آپ اپنے شعبے کے لیے ساتھیوں کے انتخاب میں آزادانہ اور غیر جانب دارانہ فیصلہ کر سکیں اور کہیں کسی تکلف میں نہیں پڑ جائیں ورنہ کسی طرح کی دوری اور بیگانگی کے احساس کا تو ہمارے درمیان سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتفاق سے جب جامعہ میں سلکشن کمیٹی کے سامنے امیدواروں کو پیش کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان میں کافی نامور لوگ شامل ہیں مثلاً اجمل اجملی، زبیر رضوی، فضل امام، ذکاء الدین شایاں اور کئی دوسرے اہل قلم وہاں موجود تھے۔ سلکشن کمیٹی کے ممبران میں نورالحسن ہاشمی، گیان چند جین، آل احمد سرور، ڈین کی حیثیت سے ضیاء الحسن فاروقی اور بطور صدر شعبہ نارنگ صاحب شامل تھے۔ کمیٹی کے صدر تھے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر مسعود حسین خاں۔ کافی سوال و جواب کے بعد پروفیسر آل احمد سرورؔ نے جو اتفاق سے NCERT میں بھی میرے انتخاب کے دوران سلکشن کمیٹی کے ممبر تھے، فرمایا کہ مظفر صاحب! ابھی حال میں آپ کا تقرر NCERTمیں اسی پے اسکیل میں ہوا ہے وہاں آپ کو فلیٹ ملا ہے، کار کی سہولت بھی ہے، اتنی جلد آپ اس ملازمت کو کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں اور میں نے عرض کیا تھا کہ حضرات! وہاں لکھنے پڑھنے کا ماحول نہیں ہے، صبح تا شام صرف افسری کرنی پڑتی ہے۔ میں جامعہ میں آ کر تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ خود کچھ لکھنے پڑھنے کا کام بھی جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ قصہ مختصر چند ہی دن کے بعد مجھے جامعہ سے تقرر نامہ موصول ہو گیا اور ۱۲؍ فروری ۱۹۷۶ء سے میں نے وہاں کے شعبۂ اردو میں بحیثیت لکچرر اپنے فرائض منصبی انجام دینے شروع کر دیے۔
جامعہ ملیہ کے کیمپس بٹلہ ہاؤس میں مکان حاصل کرنے کے لیے مجھے سات آٹھ مہینے تگ و دو کرنی پڑی اس اثناء میں میرا قیامNCERT کے فلیٹ ہی میں رہا جہاں سے میں روزانہ صبح آٹھ نو بجے نارنگ صاحب کے ہمراہ جامعہ آتا اور روز رات کے کبھی نو اور کبھی دس بجے ہم دونوں کی گھروں کو ایک ساتھ واپسی ہوتی۔ ان آٹھ دس مہینوں نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا اور ایک دوسرے کا مزاج آشنا بھی بنا دیا۔ ان دنوں جامعہ کے شعبۂ اردو اور انیسؔ صدی تقریبات کمیٹی کے اشتراک سے دہلی میں ایک عظیم الشان سیمینار چل رہا تھا جس کے سرپرست کرنل بشیر حسین زیدی تھے اور بطور کنوینر اس کے روح رواں تھے پروفیسر گوپی چند نارنگ۔ اس موقع پر چند ایسے افراد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جنھیں پہلے میں نے اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا مثلاً پاکستان سے انتظار حسین تشریف لائے تھے اور انھوں نے انیسؔ کی مرثیہ نگاری پر ایک اچھا پرچہ پڑھا تھا۔ سردار جعفری بھی اس سیمینار میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے بالخصوص ایک موقع پر جب انھوں نے فرمایا کہ میر انیسؔ کے مصرعے ’ پڑ جائیں لاکھ آبلے پائے نگاہ میں ‘کا جواب کسی دوسری عالمی زبان میں نہیں ہے۔ اتنی نزاکت اور بلند خیالی دنیا کے کسی شاعر کے ہاں نہیں ملتی، میں چونکہ ایسے مواقع پر خاموش نہیں رہ پاتا، جواباً عرض کیا کہ دنیا کی دوسری زبانوں کو چھوڑیے اردو میں مرزا غالبؔ فرما چکے ہیں :
مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے
پُر گل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا
یہاں نازک خیالی، معنی آفرینی، لطافت انیسؔ کے مصرعے سے کچھ زیادہ ہی ہے اور شعریت کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ زیادہ بلند ہے۔
بات آئی گئی ہوئی لیکن رات کو گھر لوٹتے ہوئے گاڑی میں نارنگ صاحب نے مسکرا کر کہا، سردار جعفری اپنے معاملے میں بہت حساس اور نازک مزاج ہیں شاید آپ کی صاف بات انھیں اچھی محسوس نہ ہوئی ہو گی۔
میرے جوائن کرنے سے قبل شعبے میں نارنگ صاحب کے علاوہ کُل چار لکچرر تھے۔ عنوان چشتی، محمد ذاکر، عظیم الشان صدیقی اور حنیف کیفی۔ میرے آنے کے دو تین ماہ بعد ہی شمیم حنفی بھی لکچرر کی حیثیت سے آ گئے اور بعد ازاں شعبے کے تمام اساتذہ کے مشورے سے نارنگ صاحب نے جن نئے ساتھیوں کے تقرر کا سامان کیا ان میں عبید الرحمان ہاشمی، صغرا مہدی اور عبد الوحید کے نام شامل ہیں۔ آخر الذکر تو بطور خاص میری سفارش پر شعبے میں لائے گئے۔ موصوف NCERT میں پروف ریڈر تھے لیکن تین تین مضامین، فارسی، عربی اور اردو میں ایم۔ اے کر رکھا تھا۔ نارنگ صاحب کے ہی عہد صدارت میں قرۃ العین حیدر بھی وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کچھ دنوں تک جامعہ کے شعبۂ اردو میں رونق افروز رہیں۔ آگے چل کر شعبے میں کچھ دیگر اساتذہ کا اضافہ ہوا جن میں صادقہ ذکی اور شہناز انجم کے نام شامل ہیں۔
جلد ہی نارنگ صاحب کی کوششوں سے پہلے عنوان چشتی اور چند ماہ بعد محمد ذاکر اور شمیم حنفی ریڈر ہو گئے اور کچھ عرصہ گزرنے پر مجھے اور حنیف کیفی کو بھی ریڈر کا عہدہ مل گیا۔
قدرت نے پروفیسر نارنگ کو بعض ایسی خوبیاں عطا کی ہیں جودوسرے اشخاص میں کم پائی جاتی ہیں۔ مثلاً وہ جامہ زیب، خوبرو، وجیہ، خلّاق، خوش اطوار، خوش اخلاق، خوش گفتار اور شیریں مقال تو ہیں ہی، کچھ اتنے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ انتظامی امور میں انھیں کچھ ایسی مہارت حاصل ہے کہ یونیورسٹی کے عہدہ داران سے لے کر مرکزی حکومت کے بڑے سے بڑے افسر اور وزراء تک نہ صرف رسائی رکھتے ہیں بلکہ اپنے مطالبات اور بات اس خوبی سے پیش کرتے ہیں کہ ان کے مطالبات کو رد کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبوں میں عہدۂ صدارت کے لیے روٹیشن سسٹم جاری نہیں ہوا تھا اور نارنگ مستقل صدر تھے۔ جامعہ کی فیکلٹی بلڈنگ میں شعبۂ اردو کے لیے دو کمرے وقف کیے گئے تھے جن میں سے ایک جو قدرے بڑا تھا اس میں نارنگ اپنا دفتر بھی لگاتے تھے اور اسی میں شعبے کی میٹنگیں وغیرہ ہوتی تھیں بلکہ وہ اپنی کلاسس بھی وہیں لیتے تھے۔ دوسرا کمرہ اس سے متصل تھا، چھوٹا سا جس میں دو تین میزیں اور چندکرسیاں پڑی تھیں۔ شعبے کے تین چار استاد وہیں بیٹھ کر اپنے کام کرتے تھے اور وہیں سے مختلف عمارتوں میں اپنی کلاسیں لینے جایا کرتے تھے۔
قدرت کی ودیعت کردہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اور اس وقت کے شیخ الجامعہ مسعود حسین خاں کی اعانت سے نارنگ صاحب نے کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ عبد اللہ کو ایک معقول رقم جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ڈونیٹ کرنے پر آمادہ کیا۔ جامعہ ملیہ کے قلب میں ڈاکٹر ذاکرحسین کے مقبرے کے مقابل ایک چھوٹی سی عمارت مقفل پڑی رہتی تھی، اُسے بھگت نِواس کہا جاتا تھا۔ نارنگ صاحب نے اس عمارت کے مالکوں کو جو کہ غیر مسلم تھے معمولی سی قیمت پر اسے جامعہ ملیہ کو فروخت کرنے پر بھی آمادہ کر لیا اور وائس چانسلر کو اس بات پر کہ یہ عمارت شعبۂ اردوکوسونپ دی جائے۔ عمارت کے ہاتھ آتے ہی انھوں نے اسے اس طرح سجانا اور بنانا شروع کیا جیسے وہ شعبہ نہیں، کوئی عبادت گاہ یا شوروم ہو۔ ایک ایک الماری اور میز خریدنے، تیار کرانے اورمناسب جگہ پر رکھنے کے لیے انھوں نے اپنی اور ہم جیسے ساتھیوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر لیں کارپینٹروں اور کاریگروں ں کے گھروں پر خود جانا، مختلف شاپنگ سنٹروں پر خود جا کر دروازوں کے لیے knobs، ہینڈل، چٹخنیاں وغیرہ کمروں کے لیے کارپٹ، کولر، لیمپس، فانوس، پردے، صوفے اور نہ جانے کیا کیا خریدنا اور سب کاموں کو اپنی نگرانی میں انتہائی خوش سلیقگی، نفاست اور خوبصورتی اور عجلت کے ساتھ اپنی ذاتی نگرانی میں تکمیل کو پہنچانا کہ شعبۂ اردو تین چار ماہ کے اندر ہی اس خوبصورت اور نفیس عمارت میں بلا شرکت غیرے منتقل ہو گیا۔ یہ عمارت اتنی دلکش اور ایسے مرکزی مقام پر واقع تھی کہ یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں کے سربراہوں اور دیگر عمائدین جامعہ کی نگاہوں میں چڑھ گئی اور نارنگ صاحب کے حاسدین کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہو گیا۔ ان لوگوں نے جتھا بنا کر کبھی سیاسی، کبھی مذہبی اور کبھی ذاتی کمیں گاہوں سے نارنگ اور شعبے کو ہدف بنایا اور نارنگ نے اپنے رفقاء کی اعانت سے جس جوانمردی اور کامیابی کے ساتھ مدافعت اور مخالفت کے طوفان کا مقابلہ کیا وہ ایک طویل داستان ہے جو میں اپنی خودنوشت سوانح حیات میں تفصیل سے بیان کروں گا۔ فی الحال اتنا ہی عرض کر دینا کافی ہے کہ مسعود حسین خاں نے بھی بحیثیت وائس چانسلر، نارنگ صاحب کی ہر طرح معاونت کی اور شعبۂ اردو دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ حالانکہ ہمارے شعبے کے ساتھیوں میں سے دو ایک ایسے افراد نے جن کے تقرر اور پھر فوری ترقی میں نارنگ صاحب کا ہاتھ تھا، مخالفین اور حاسدین کا پہلے در پردہ اور پھر کھلم کھلا ساتھ دیا لیکن اس جاں فرسا ماحول میں بھی گوپی چند نارنگ خلوص اور تندہی کے ساتھ شعبے کی ترقی، فلاح اور بہبود کے کاموں میں منہمک رہے۔
وہ بھی کیا مزے کے دن تھے۔ اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد ہم لوگ پلاننگ کرتے کہ اب اور کس موضوع پر کیا کام کیا جا سکتا ہے۔ کس پروجیکٹ کا آغاز کیا جائے اور کون سا سیمینار کیا جائے۔ سمیناروں کی بات چھڑی تو عرض کر دوں کہ دوسری دانش گاہوں میں اور دیگر اداروں میں ویسے اہم سیمینار بہت بڑی رقوم صرف کرنے کے بعد بھی اس عظیم الشان پیمانے پر منعقد نہیں ہو پاتے جیسے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درجنوں سیمینار پروفیسر نارنگ کی سربراہی میں بہت معمولی بجٹ میں آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ ان میں جو رقم صرف ہوتی تھی اس کے بارے میں آج بھی سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ پانچ دس ہزار روپے کی معمولی گرانٹ میں نارنگ کس طرح بین الاقوامی سطح کے اتنے بڑے سیمنار کا بندوبست کر لیتے تھے جن میں شرکت کے لیے سعودی عرب، روس، پاکستان اور برطانیہ وغیرہ سے سات آٹھ مندوبین تشریف لاتے، بہترین ہوٹلوں میں ان کے قیام کا بندوبست کیا جاتا۔ ہندوستان کے کونے کونے سے جو دانشور اور سیمینار ین آتے تھے ان کی بات الگ ہے۔ ظاہر ہے منظور شدہ گرانٹ کی معمولی رقم تو محض شامیانے اور ہال وغیرہ کے کرائے میں صرف ہو جاتی بقیہ اخراجات پروفیسر نارنگ کے تعلقات اور کاوشوں کے نتیجے میں بڑے صنعتی ادارے یا دیگر وزارتیں اور محکمے برداشت کرتے تھے۔ ان سیمیناروں میں جو سات آٹھ برسوں تک باقاعدگی سے شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے آرگنائز کیے گئے، چند کے نام ذہن میں محفوظ ہیں۔ مثلاً تخلیقی زبان کے استعمال کے مسائل سے متعلق ایک شاندار سیمینار جامعہ میں تین روز تک چلا جس میں شرکت کے لیے آل احمد سرور، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد فاروقی، خلیل الرحمان اعظمی، وحید اختر، انور معظم، باقر مہدی، وارث علوی، وہاب اشرفی، مغنی تبسم، حامدی کاشمیری، حکم چند نیّر جیسے اکابرین ادب آئے اور مقالات پڑھے۔ مزید برآں اس عہد کے بہت سے نامور تخلیقی فنکاروں نے بھی، جن میں قاضی عبد الستار، غیاث احمد گدی، عمیق حنفی، جوگندر پال، محمد علوی، شہریار، ندا فاضلی، شہاب جعفری، بلراج مینرا، رام لعل، قاضی سلیم، بشیر بدرؔ، سریندر پرکاش، کلام حیدری، دیویندر ستیارتھی، نیّر مسعود، منچندہ بانی، حسن نعیم، مخمور سعیدی وغیرہ نے اپنے تخلیقی تجربات اور مسائل اس سمینار میں بیان کیے۔ اس کے بعد جلد ہی بہت بڑے پیمانے پر اقبال سیمینار کا ڈول ڈالا گیا جس میں ہند و پاک کے بہت سے نقادوں اور دانشوروں نے شرکت فرمائی، بطور خاص آل احمد سرورؔ، ظ۔ انصاری، قرۃ العین حیدر، شمس الرحمن فاروقی اور حفیظ جالندھری کو نارنگ صاحب نے اپنی ذاتی کوششوں سے سیمینار میں شریک ہونے کے لیے آمادہ کر لیا۔ اسی موقع پر جرمنی کی مشہور ماہر اقبالیات پروفیسر انّامیری شیمل بھی مقالہ پیش کرنے کے لیے آئی تھیں۔ میر تقی میرؔ سیمینار، اردو افسانہ: روایت اور مسائل سیمینار، اردو لغت نویسی کے مسائل سے متعلق سیمینار، ڈاکٹر عابد حسین سیمینار اور نہ جانے کتنے دیگر موضوعات پر مشتمل سیمینار پروفیسر نارنگ کی کوششوں سے جامعہ ملیہ میں ہوئے جن کی باز گشت ہند و پاک بلکہ پوری دنیا کے کونے کونے میں مدتوں سنی جاتی رہی۔
ان میں ہندوستان بھر کی تمام یونیورسٹیوں کے سینیئر اور منتخب پروفیسر، اسکالر، دانشور اور اہل قلم تو شریک ہوتے ہی رہے، بیرون ہند سے بہت سے شہرۂ آفاق عمائدین ادب نے بھی شمولیت فرمائی۔ مثلاً جمیل جالبی، وزیر آغا، انتظار حسین، احمد ہمیش، فرمان فتحپوری، انورسدید، کشور ناہید وغیرہ کے علاوہ روس سے ڈاکٹر لُدمیلا، لِنڈا وینٹنک اور برطانیہ سے ڈیوڈ میتھیوز، ساقی فاروقی وغیرہ تشریف لائے۔
شعبے میں چھوٹے موٹے پروگرام تو ہر آئے دن ہوتے رہتے تھے جن میں طلبہ کو اپنا کلام سنانے اور ان سے مختلف ادبی امورپر گفتگو کرنے کے لیے کبھی جون ایلیا کو زحمت دی گئی، کبھی صلاح الدین پرویز کو طلب کیا گیا، کبھی حسن نعیم کو سنا گیا، کبھی فہمیدہ ریاض نے کلام پیش کیا تو کبھی افتخار عارف نے غزل سرائی کی اور صالحہ عابد حسین، حجاب امتیاز علی، جیلانی بانو وغیرہ سے افسانے پڑھنے کی فرمائش کی گئی۔ دو تین بار فیض احمد فیض نے کلام سنایا۔ ایک موقع پر کلیم الدین احمد نے بھی اپنا پرچہ پڑھا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے جو معروف افسانہ نگار یا شاعر دہلی آتے انھیں شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ سے ملاقات کے لیے ضرور دعوت دی جاتی۔
ان سیمیناروں کے انعقاد کے لیے پیسوں کی فراہمی جیسے بڑے مسئلے سے لے کر دیگر چھوٹے موٹے انتظامی امور میں نارنگ جس تندہی اور دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے اور نبرد آزما ہوتے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ معمولی معمولی کاموں میں ان کی گہری دلچسپی اور انہماک کا جو عالم تھا اس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ جو دعوت نامے ان مواقع پر جاری کیے جاتے ان پر بالکل نئے جاری ہونے والے ڈاک ٹکٹ چسپاں کیے جاتے اور وہ بھی ایسی نفاست کے ساتھ کہ سارے لفافے بالکل یکساں نظر آئیں۔ انھیں موصوف خودکار میں لے کر بعض اوقات تو آدھی رات کو خود جنرل پوسٹ آفس جاتے اور وہاں کسی پیکر کو دس بیس روپے دے کر ٹکٹوں پر مہر ایسی نفاست کے ساتھ لگواتے کہ کسی کارڈ یا لفافے پر ذرا سا دھبہ نہ آنے پائے اور ہر ٹکٹ کے بالکل قلب میں ہی ثبت ہو۔
سیمینار جن ہالوں میں منعقد ہوتے تھے ان کے کونے کونے میں جا کرکرسیوں کو سیدھی قطاروں میں لگوانا، بینر کو صحیح زاویے سی آویزاں کرنا، کھڑکیوں پر دوں کو درست کرنا، گلدانوں کو مناسب جگہوں پر رکھنا اور ایسے ہی معمولی معمولی چھوٹے چھوٹے سے کاموں میں وہ گہری دلچسپی لیتے اور نفاست کا مظاہرہ کرتے تھے۔ مجھے پروفیسر نارنگ کی معیت اور صحبت نے جس حد تک فائدہ پہنچایا اور میری شخصیت کی تشکیل اور تربیت میں حصہ لیا ہے اس کا اعتراف میں مختلف تحریروں اور تقریروں میں کرتا رہتا ہوں۔ چاروں جانب سے منافقین اور حاسدین میں گھرے رہنے کے باوجود اور ان کی سازشوں کا منہ توڑ مقابلہ کرنے کے با وصف اپنی تخلیقی اور تعمیری سرگرمیوں کو نارنگ نے کبھی سست نہیں پڑنے دیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے یہی وہ تربیت تھی جس نے آگے چل کر مجھے کلکتہ یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران بڑی مدد پہنچائی اور میں بھی تقریباً اسی طرح کے حالات سے دوچار رہنے کے باوجود ہمت اور حوصلے کے ساتھ تعمیری اور تخلیقی کاموں میں مصروف رہا لیکن یہ بھی ایک دوسری داستان ہے جو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
اس عہد کو اگر جامعہ کے شعبۂ اردو کا عہد زرّیں کہا جائے تو نا مناسب نہ ہو گا۔ نصاب کی از سرِ نو تیاری، آنرس اور ایم اے کی سطح پر کئی نئے کورسوں کا آغاز، کرسپانڈنس اردوکورس میں ہندی اور انگریزی کی مدد سے اردو سکھانے کے لیے کئی نئی کتابوں کی ترتیب و اشاعت اور ریسرچ کے لیے نئے نئے موضوعات کی تلاش اور انھیں مناسب اساتذہ کی نگرانی میں تکمیل تک پہنچانے کے مسائل سے نارنگ جیسا کوئی شخص ہی عہدہ برآ ہو سکتا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر بڑی طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ جن سیمیناروں کا تذکرہ ابھی کیا گیا ان میں پڑھے جانے والے مقالات کو مرتب کرنے اور کتابی صورت میں شائع کرنے کے سلسلے میں اکثر مجھے نارنگ صاحب کی معاونت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کتابوں میں انیس شناسی، اقبال شناسی، اردو افسانہ: روایت اور مسائل، اقبال: مصنفین جامعہ کی نظر میں، اردو لغت نویسی کے مسائل وغیرہ بطورِ خاص لائق ذکر ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ نارنگ صاحب شعبے کے اتنے اور ایسے قابل اساتذہ کی موجودگی میں ’’ وضاحتی کتابیات‘‘ پر کام کرنے کے لیے خاص طور پر مجھے ہی اپنے شریک کار کی حیثیت سے منتخب کیا۔ اس کام کا آغاز میرے شعبۂ اردو میں آتے ہی کر دیا گیا تھا اور اس کو سر انجام دینے میں ہم دونوں نے جتنے پاپڑ بیلے ان کی تفصیل میں جانا اس وقت مناسب نہیں ہے۔ اس پروجیکٹ کی تین جلدیں ہم نے جامعہ ملیہ میں رہتے ہوئے تیار کیں جنھیں ترقی اردو بورڈ ( بعد ازاں ترقی اردو بیورو) نے شائع کیا۔ اس کے بعد کی انیس جلدیں جو ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۹ء کے دوران ہندوستان میں شائع ہونے والی تمام اردو کتابوں کے تعارفی اندراجات پر مشتمل ہیں، میں نے کلکتہ میں رہ کر مکمل کیں جنھیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان( دہلی) نے شائع کر دیا ہے۔
جامعہ میں نارنگ کا اور ہمارا دن رات کا ساتھ۱۹۸۴ء تک رہا لیکن ان کے واپس دہلی یونیورسٹی چلے جانے کے بعد بھی ہفتے میں دو ایک بار کبھی ادبی تقریبات میں اور کبھی گھر پر برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ جب تک وہ جامعہ میں رہے سارے مسلم تیوہار وہ جامعہ ہی میں مناتے اور ہم ایک ساتھ عمائدین جامعہ اور اس علاقے میں مقیم دوسرے اہل قلم کے گھروں پر جا کر خوشیوں میں شریک ہوتے اور ضیافتیں اڑاتے۔ ہولی، دیوالی، دسہرہ وغیرہ کے مواقع پر ہم سب نارنگ کے دولت کدے پر جمع ہوتے جہاں شہر کے دوسرے ادبا اور شعراء سے ایک ساتھ مل بیٹھنے اور خو ش گپیاں کرنے کا موقع ہاتھ آتا۔
اکثر ہم لوگ اپنے شعبے کے رفقاء، طلبہ اور طالبات کے ساتھ پکنک منانے کے لیے کبھی بدّھا گارڈن تو کبھی سونا لیک کی جانب نکل جاتے اور وہاں کرکٹ کھیلتے، شعر و شاعری ہوتی، ہنسی مذاق، لطیفے بازیوں میں ہنستے کھیلتے دن گزارتے۔ ایسے موقعوں پر ہمارے ساتھ بھابھی منورما نارنگ اور ننھا ترون نارنگ بھی ہوتا تھا( ماشاء اللہ یہ حضرت اب ڈاکٹر ہو گئے ہیں )۔
وہ آئے دن غیر ممالک کے سفر پر جاتے اور واپس آتے تو ہمارے لیے بطور تحفہ کچھ نہ کچھ ضرور لاتے۔ کبھی کوئی اچھی کتاب، کبھی ٹائی، کبھی ایسی ہی کوئی اور چیز۔ نارنگ صاحب کے ساتھ مختلف مواقع پر کئی کئی دن سفر میں رہنے کا موقع بھی ملا ہے۔ کہتے ہیں آدمی کو صحیح طور پر پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کیجیے۔ ایک مرتبہ کل ہند یونیورسٹی اردو ٹیچرس کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ہم لوگ ٹونک گئے اور وہاں چار پانچ دن قیام کیا۔ NCERT کی جانب سے منعقدہ ورکشاپوں میں اردو کی نصابی کتب کی تیاری کے سلسلے میں کئی بار دور دراز کے سفر در پیش ہوئے۔ ایک بار تو شاید سات آٹھ دنوں تک ہم لوگ سری نگر کے نسیم باغ میں مقیم رہ کر متعلقہ کتابوں کی ترتیب و تدوین سے متعلق مباحثوں میں شریک ہوئے اور بیچ بیچ میں گلمرگ، کھلن مرگ، سون مرگ اور دیگر تفریحی مقامات کی سیر کو بھی گئے۔ سفر کے دوران نارنگ صاحب اور زیادہ خوش اخلاق اور شگفتہ مزاج ہو جاتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ خود زحمتیں جھیل کر شریک سفر کو سہولت بہم پہنچانا کوئی ان سے سیکھے۔
ہر چند کہ ۱۹۸۴ء میں نارنگ کے دہلی یونیورسٹی منتقل ہو جانے اور ۱۹۸۹ء میں میرے کلکتہ یونیورسٹی میں اقبال چیئر پر بحیثیت پروفیسر تقرر کی وجہ سے ہمارے درمیان زمینی فاصلہ بڑھ گیا لیکن دلوں کے درمیان کوئی دوری تا حال واقع نہیں ہوئی۔
پچھلے دنوں نارنگ صاحب کو ساہتیہ اکیڈمی کے صدر کی حیثیت سے منتخب کیے جانے پر بڑا شور و غل مچایا گیا۔ سیاسی اور لسانی محاذ بنائے گئے اور ان کی ذات پر رکیک حملے کیے گئے نیز طرح طرح کی الزام تراشیوں سے موصوف کو پریشان کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس ہنگامۂ دار و گیر میں اپنے گوشۂ عزلت سے نکل کر دو تین جلسوں میں مجھے کھل کر کہنا پڑا کہ مہا شویتا دیوی ہوں یا قرۃ العین حیدر، یہ لوگ بہت بڑی تخلیق کار ضرور ہیں اور بحیثیت فنکار وہ نارنگ صاحب سے بلند مرتبے کی حامل ہو سکتی ہیں لیکن ایک دانشور، ایک نقاد اور ایک بہت ہی اعلیٰ پائے کے منتظم کار کے اعتبار سے نارنگ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جس طرح جان کھپا دیتے ہیں، متعلقہ ادارے کی ترقی کے لیے وہ جس اندازسے زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، ہر ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں ہے۔ ساہتیہ اکاڈمی پہلے بھی فعال تھی لیکن نارنگ صاحب کے دور میں تو ہر ہفتے تین چار پروگرام ہو رہے ہیں اور ان میں اردو کی بھرپور نمائندگی ہو رہی ہے۔ ایسا اور کسی دور میں نہیں ہوا۔ انھیں NCPUL میں دوسری بار وائس چیئر مین بنایا گیا تب بھی لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں اور ایسی ہی ایک محفل میں میں نے ان ایک معترض سے کہا کہ حضرت! اس ادارے میں ایک سے ایک نامی گرامی آدمی صدر اور وائس چیئرمین ہوا لیکن پروفیسر نارنگ کی ٹرم میں جتنے بڑے پیمانے پر کام ہوئے، ادارے کا بجٹ کئی گنا بڑھ گیا، آپ لوگوں کی نظر اس طرف کیوں نہیں ہے۔ حال ہی میں نارنگ کو پدم بھوشن سے نواز کر حکومت نے اردو والوں کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔
٭٭٭
’بیسویں صدی ‘اور رحمان نیّر کی یاد میں
بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں تومیں بہت پہلے سے لکھ رہا تھا لیکن پہلی بار میرا افسانہ ’’اونچی دوکان‘‘ ماہنامہ ’’بیسویں صدی‘‘( دہلی) نے غالباً ۱۹۵۳ء کے کسی شمارے میں شائع کیا۔ ویسے میرا پہلا افسانہ ’’ منت کی چادریں‘‘ ماہنامہ ’’ شمع‘‘ (دہلی) نے اس کے چند ماہ بعد شامل اشاعت کیا جسے شائع کرنے کی منظوری مدیر ’’ شمع‘‘ مجھے کئی مہینے پہلے دے چکے تھے۔ اس ادارے کے رسالے ’’ کھلونا‘‘ میں میری کہانیاں اور نظمیں وغیرہ ادبِ اطفال کے ضمن میں چند برس پیشتر سے چھپ رہی تھیں۔ میں نے افسانے ۱۹۶۰ء تک کثرت سے لکھے جو ’’ شاعر‘‘ (بمبئی)، ’’ افکار ’’ کراچی)، ’’ آئینہ ‘‘ (دہلی)، ’’ کردار‘‘ ( بھوپال)، ’’ معیار ‘‘ میرٹھ)، جیسے اس عہد کے معیاری جریدوں میں بھی چھپے مگر زیادہ تر میری کہانیاں ’’ جامِ نو‘‘ ( کراچی)، ’’ نکہت‘‘ ( الٰہ آباد) جو آگے چل کر ابنِ صفی کے عمران سیریز والے جاسوسی ناولوں کے لیے مختص ہو گیا اور ’’ بیسویں صدی‘‘ کے وسیلے سے منظرِ عام پر آئیں۔ مؤخر الذکر میں افسانے اور بعض اوقات غزلیں بھی، تخلیق کاروں کے خطوط کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں اور لکھنے والوں کے نام اُن کی تعلیمی ڈگریوں کے سابقوں سمیت چھپتے تھے، فراقؔ گورکھپوری ایم۔ اے، شبلیؔ بی کام، کرشن چندر بی۔ اے وغیرہ۔ خیر سے اُن دنوں پی ایچ۔ ڈی اتنی فراخدلی کے ساتھ تفویض نہیں کی جا تی تھی۔ ادب کے ڈاکٹر پورے بر صغیر میں دو چار ہی تھے اور اُن میں منوہر سہائے انورؔ کے علاوہ تخلیق کار کوئی نہ تھا۔ میں خیر سے اس وقت محض ہائر سیکنڈری سرٹیفکٹ کے علاوہ اور کوئی سند نہ رکھتا تھا اس لیے اپنے نام کے ساتھ وطن کی رعایت سے ’ ہسوی‘ کا سابقہ جڑتا تھا۔ ہو سکتا ہے ’بیسویں صدی‘ کی اس روش سے لا شعوری طور پر اثر قبول کیا ہو اور ادیب کامل، ایم اے، ال ال۔ بی، پی ایچ۔ ڈی وغیرہ کی اسناد حاصل کرنے کا جذبہ اسی راستے سے آیا ہو۔
۱۹۵۹ء میں میں نے کھنڈوا سے ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ نکالا۔ تجارت اور ادارت کی مصروفیات نے افسانہ نگاری ترک کرنے پر مجبور کیا کچھ یہ بھی تھا کہ جدیدیت کے رجحان کو فروغ دینے والے ناقدین نے رمزیت، علامت اور تجریدیت پر اتنا زور دیا کہ افسانے سے کہانی پن مفقود ہو گیا اور میں نے شاعری کے دامن میں پناہ لی۔ اب ’ بیسویں صدی‘ میں میری کہانیوں کی جگہ غزلیں چھپنے لگیں۔ ملازمت کے پھیر میں پڑ کر میں کھنڈوا سے بھوپال آیا تو وہاں کی ادبی فضا نے شاعری سے میری رغبت کو اور مہمیز کیا۔ محکمہ جنگلات کی ملازمت کے دوران میں ہی میں نے علی گڑھ اور بھوپال کی یونیورسٹیوں سے محولہ بالا ڈگریاں حاصل کیں۔ شادؔ عارفی کے فن اور شخصیت پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کا مستحق بنا اور ۱۹۷۴ء میں نیشنل کونسل آف ایجو کیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ NCERTمیں اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر(اردو) کی حیثیت سے دہلی آ گیا۔
اُدھر کچھ برس بعد خوشتر گرامی ’ بیسویں صدی‘ کی ملکیت سے دستبردار ہو گئے۔ اس کے نئے پروپرائٹر اور ایڈیٹر رحمان نیّر نے اُسے نئی بلندیوں سے روشناس کیا تھا۔ آفسیٹ پر چھپنے کی وجہ سے رسالہ زیادہ خوبصورت ہو گیاتھا۔ چند صفحات ( تیر و نشتر کے کارٹون وغیرہ) رنگین طباعت سے مزین ہونے لگے تھے اور پرچے کے دروازے نئے لکھنے والوں پر بھی وا ہو گئے تھے۔ بہ ایں ہمہ سر ورق پر پہلے کی طرح فیشن ایبل خواتین کی تصویریں لشکارے مارتی تھیں۔ تیر و نشتر کا کالم، طنزیہ کارٹون اور’ سرگوشیاں، کے تحت دلچسپ نوک جھونک کے حامل سوال و جواب، صحت اور گھریلو نسخوں سے متعلق صفحات حسبِ سابق شامل اشاعت ہوتے تھے، تخلیقات کے ساتھ فنکاروں کے خطوط اور تخلیق کاروں کے ساتھ اُن کی تعلیمی ڈگریوں کے سابقے بھی روایتی انداز میں شائع کیے جاتے تھے۔ ہر چھ ماہ بعد’ افسانہ نمبر‘ اور سالنامہ اسی طمطراق سے منظر عام پر آتا تھا اور ہر چند کہ رسالہ نیم ادبی نیم تفریحی تصور کیا جاتا تھا لیکن ہند و پاک کے چوٹی کے شعراء اور اُدباء کی نگارشات اس کے عام اور خاص شماروں میں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ اس پُر آشوب دور ( ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۰ء ) میں اردو کی عوامی مقبولیت کو مستحکم کرنے میں فلموں اور ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کے ساتھ ’ بیسویں صدی‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ غالباً ’ ’شمع‘‘ (دہلی) کے ساتھ ’’ بیسویں صدی‘‘ ہندوستان کا سب سے کثیر الاشاعت اردو جریدہ تھا۔ دو ایک سرکاری اداروں کو چھوڑ کر ’’ بیسویں صدی‘ ‘اور ’’ شمع‘‘ ہی لکھنے والوں، خصوصاً افسانہ نگاروں کو ان کی نگارشات کا معاوضہ ادا کرتے تھے۔
ورودِ دہلی کے بعد ہی رحمان نیرؔ کے دورِ ادارت میں ’بیسویں صدی‘ میں میری قدر و منزلت بڑھ گئی تھی۔ اکثر رسالے میں میری تین چار غزلیں بیک وقت چھپنے لگیں کبھی حالاتِ زندگی تو کبھی ’ میرے شب و روز‘ اور’ قلمی چہرہ‘ جیسے عنوانات کے تحت تصاویر وغیرہ شائع کی گئیں۔ ’ بیسویں صدی‘ کے شانہ بہ شانہ رحمان نیّر نے ’ روبی‘ ( فلمی رسالے ) کی اشاعت کا ڈول ڈالا تھا جو اُن کی ذہانت، تجربے اور محنتِ شاقہ کی بدولت جلد ہی ’ شمع‘ جیسے سب سے زیادہ چھپنے والے فلمی رسالے سے ٹکر لینے لگا۔ ’ بیسویں صدی‘ میں اولاً نشتر خانقاہی اور بعد ازاں مخمورؔسعیدی معاونِ کار تھے اور ’ روبی‘ کے کام میں افسر جمشید، رحمان نیّر کا ہاتھ بٹاتے تھے لیکن بنیادی کام اور نئے نئے طریقوں کی ایجاد کا سہرا مدیر ہی کے سر جاتا ہے۔ ’ روبی‘ میں رحمان نیر نے مجھے روزِ اوّل ہی سے لبیک کہا اور ’بیسویں صدی‘ سے بھی زیادہ چھاپا۔
مجھے این سی ای آر ٹی(NCERT) کی درسی اردو کتب کی تیاری کے لیے مختلف مطبع اور ناشروں وغیرہ کے دفاتر میں جانا ہوتا تھا۔ اسی سلسلے میں دریا گنج روڈ کی ایک عمارت کی بالائی منزلوں میں واقع ’بیسویں صدی‘ کے شاندار دفتر میں رحمان نیرؔ سے دو بدو ملاقات ہوئی جہاں وہ سوٹ بوٹ میں ملبوس، ٹائی لگائے ہوے اپنے کیبن میں متمکن تھے اور بڑے سے ہال میں مختلف میزوں پر مودود صدیقی، نشتر خانقاہی، افسر جمشید، شاہد پرویز اور عملے کے بہت سے افراد اپنے اپنے کام میں منہمک تھے۔ انھیں NCERT سے کنٹریکٹ لینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ دفتر کے اوقات میں وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے اور بڑے سے عملے کو بھی مشین کی طرح مصروف رکھنے میں ماہر تھے۔ ’ بیسویں صدی‘ کے اس دفتر کے علاوہ انصاری مارکٹ میں اُن کا یونانی دوائیں تیار کرنے کا بڑا کارخانہ تھا، ’ روبی‘جیسے کثیر الاشاعت رسالے کا عملہ الگ تھا، ان سب شعبوں پر قابو رکھنے کے لیے بڑی جانفشانی اور ذہانت کی ضرورت تھی۔ انھوں نے ’ عوام‘ جیسا مقبول عام روزنامہ بھی نکالا جس کے مُنہ زور، برہنہ گفتار اور نازک مزاج مدیر سلامت علی مہدی سے نباہ لے جانا اور اپنے مطلب کا کام نکال لینا رحمان نیّر جیسے خداداد صلاحیتوں کے حامل انسان ہی کے بس کی بات تھی۔
فروری ۱۹۷۴ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے لکچرار کی حیثیت سے میرا انتخاب کیا جہاں میں شعبۂ اردو میں لکچرر اور ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء تک ریڈر کے طور پر تدریس کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ اسی زمانے میں شمع افروز زیدی نے ایم۔ اے میں داخلے کے لیے درخواست دی۔ چونکہ بی۔ اے میں اُردو مضمون انھوں نے اختیار نہیں کیا تھا اس لیے سلکشن کمیٹی کو اُن کے داخلے پر اعتراض تھا لیکن میں نے امیدوار کی بے پناہ لگن اور محنت کرنے کی یقین دہانی کے پیش نظر اُس کی پُر زور وکالت کی اور آئندہ دو برسوں میں شمع نے اپنے طرزِ عمل اور جانفشانی سے خود کو اس کا مستحق ثابت کیا اور ایم۔ اے اچھے نمبروں سے پاس کیا۔
ایک دن عنوان چشتی کے ساتھ ’بیسویں صدی‘ میں گزر ہوا تو دیکھا کہ شمع افروز زیدی ایک بڑی سی میز پر متمکن ہیں۔ رحمان نیّر سے معلوم ہوا کہ وہ رسالے کے عملے میں شامل کر لی گئی ہیں اور ’ بیسویں صدی‘ کا حصہ نثر دیکھتی ہیں۔ کچھ دن بعد رحمان نیر نے ایک نئے رسالے ’گلفشاں ‘ کا ڈول ڈالا تو شمع افروز زیدی، مخمورؔ سعیدی کے ساتھ اس کی مجلسِ ادارت میں بھی شریک کی گئیں اور خواتین کے لیے ایک نئے رسالے ’ آنگن‘ کا آزادانہ چارج بھی اُن کے ذمہ کیا گیا۔ وقتاً فوقتاً جب بھی دفتر میں رحمان نیر سے ملنا ہوا موصوف نے شمع کی ذہانت اور مستعدی کی تعریف کی۔ مجھے ایک ایسے شخص کے مُنہ سے جو کسی کی تعریف بہت کم کرتا تھا، اپنی شاگرد کی توصیف سُن کر واقعی خوشی ہوتی تھی۔
پہلے بھی اپنی نصابی ضروریات اور امتحان کی تیاری کے سلسلے میں شمع گاہے بگاہے میرے غریب خانے میں آیا کرتی تھیں۔ اب وہ غالباً رحمان نیر کے ایماء پر آتے ہی میری بیاض پر قبضہ کرتیں اور اپنی پسند کی غزلیں خود ہی نقل کر کے بیاض پر سرخ روشنائی سے نشان لگا دیتیں کہ جب تک وہ ’ بیسویں صدی ‘ میں نہ چھپ جائیں اشاعت کے لیے کہیں اور نہ بھیجی جائیں۔
اس زمانے میں بشیر بدرؔ کی خود اشتہاریت اور خفیف الحرکاتی سے بد حظ ہو کر میں نے ان کے بارے میں ایک طنزیہ مضمون ’’ بشیر بدرم‘‘ لکھا تھا جسے ’ بیسویں صدی‘ نے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔ ان حضرت نے ہندوستان بھر میں مشاعرے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی سطحی حرکتوں سے بے شمار لوگوں کو اپنے خلاف کر رکھا تھا۔ موقع پا کر اُن میں سے اکثر لوگوں نے ’’بشیر بدرم‘‘ پر تاثرات اشاعت کے لیے ’ بیسویں صدی‘ کو بھیجے اور مختلف اوقات میں انھوں نے جو نا زیبا سلوک روا رکھے تھے اُنھیں بھی قلمبند کر دیا۔ ایک دو مہینوں تک یہ سلسلہ جاری رہا پھر میں نے رحمان نیّر سے کہا کہ خطوط یکطرفہ ہو رہے ہیں۔ انھوں نے فائل سے نکال کر پچاس ساٹھ مراسلات کا پلندہ مجھے دکھایا وہ سب خطوط بشیر بدر کے خلاف تھے۔ کہنے لگے کہ اُن کی حمایت میں کوئی خط آتا ہی نہیں تو اس سلسلے کو ’ دو طرفہ ‘ کیسے کریں ؟ میں نے کہا پھر اسے یہیں روک دیجیے۔ دس پندرہ دن بعد اُن کا فون آیاکہ دفتر میں بشیر بدرؔ آئے تھے بے حد غصے میں تھے کہ صرف میرے خلاف جانے والے خط ہی کیوں چھاپے جا رہے ہیں، جب انھیں بتایا گیا کہ ایسے بہت سے خط اور ہیں جنہیں مظفرؔ حنفی نے شائع کرنے سے منع کیا ہے تو وہ اور بپھر گئے اور جب اول فول بکنے لگے تو مجبوراً انھیں دفتر سے نکالنا پڑا۔ بہ ایں ہمہ میں نے اس سلسلے کے مزید خطوط رسالے میں نہیں چھپنے دیے۔
ایک دن رحمان نیّر مجھ سے ملنے آئے تو اُن کے ساتھ بہت سی فائلیں تھیں میں نے دریافت کیا، دفتر ساتھ لے کر کیسے گھوم رہے ہیں۔ معلوم ہوا گزشتہ چند شماروں میں شامل اشاعت تخلیقات کے معیار سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ اُن کی خواہش تھی کہ میں اشاعت کے لیے موصول ہونے والی نگارشات میں سے معیاری غزلوں اور دیگر تحریروں پر صاد کرنے کی ذمہ داری قبول کروں اور شعری تخلیقات کی ترتیب کا تعین بھی کر دوں۔ میری مصروفیت اور معذوری وغیرہ کی باتیں اَن سُنی کر کے انھوں نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے یہ بارِ گراں اُٹھانا پڑا اور اس وقت تک یہ ذمہ داری نبھاتا رہا جب تک اقبال چیئر کے پروفیسر کی حیثیت سے کلکتہ منتقل نہیں ہو گیا۔
کافی عرصے سے شمعؔ میری نگرانی میں پی ایچ۔ ڈی کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں رجسٹریشن کی متمنی تھیں لیکن میں ان کی خانگی ذمہ داریوں اور ملازمت کی مصروفیات کے پیش نظر سمجھتا تھا کہ تحقیقی کام کے لیے انھیں وقت نکالنے میں دشواری ہو گی۔ اس مرتبہ وہ رحمان نیّر کے ساتھ میرے گھر آئیں تو خلافِ عادت ساری زیب تن کر رکھی تھی اور کچھ زیورات بھی پہن رکھے تھے۔ یہ جان کرمسرت ہوئی کہ دونوں رشتہ مناکحت میں بندھ چکے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی گفتگو کے بعد شمعؔ افروز نے پھر تحقیق کے لیے رجسٹریشن کا ذکر چھیڑا تومیں نے انھیں اپنے تذبذب کا سبب بتایا۔ رحمان نیّر نے مجھے یقین دلایا کہ دفتر اور گھر میں ہر طرح شمع کو تحقیقی کاموں کے لیے سہولتیں فراہم کریں گے۔ اب مسئلہ موضوع کے انتخاب کا تھا۔ شمع چاہتی تھیں کہ مشتاق احمد یوسفی کی حیات اور ادبی خدمات پر رجسٹریشن ہو جائے۔ موصوف سے انھوں نے رضا مندی بھی حاصل کر لی تھی میں نے انھیں مطلع کیا کہ جامعہ ملیہ میں ان فنکاروں پر جو بقید حیات ہوں، پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قصہ مختصر کافی غور و خوض کے بعد ان کے لیے ’’اردو ناولوں میں طنز و مزاح‘‘ کا موضوع مناسب سمجھا گیا اور جلد ہی رجسٹریشن وغیرہ کے ضابطوں سے گزر کر انھوں نے تحقیق کا آغاز کر دیا۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
شمع افروز زیدی اپنی تحقیق کا غالباً تیسرا باب مجھے پڑھ کر سنارہی تھیں کہ پاکستان سے آئے ہوئے مشہور محقق و دانشور مشفق خواجہ، پروفیسر شمیم حنفی کے ساتھ ملاقات کے لیے آ گئے۔ شمع نے ہمیں گفتگو کا موقع دینے کے لیے اپنے بکھرے ہوئے کاغذات سمیٹنے شروع کیے تو خواجہ نے دریافت کیا یہ کیسے اوراق ہیں۔ شمع افروز نے انھیں کام کی نوعیت سے آگاہ کیا تو موصوف نے حیرت سے کہا کہ آپ کے ہاں گائڈ مقالے کی تصحیح وغیرہ کے لیے وقت نکال لیتے ہیں، ہمارے ملک میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے ہنس کر کہا ہماری دانشگاہوں میں بھی شاذ و نادر ہی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ میں نے عرض کیا حضرات، معاملہ دو طرفہ ہے، شمع کو داد ملنی چاہیے کہ انھوں نے میری خواہش کے مطابق ہر باب کو تین تین مرتبہ ترمیم و اضافے کے ساتھ از سرِ نو لکھا ہے۔ مشفق خواجہ بہت متاثر ہوئے اور فرمایا آپ لوگوں کو جب کبھی پاکستان کی کسی کتاب یا رسالے کی ضرورت ہو مجھے بے تکلف لکھیے گا اور واقعی انھوں نے زندگی بھر اپنے اس وعدے کو یاد رکھا۔ شمع کو ڈاکٹریٹ ملنے کے بعد ’’بیسویں صدی‘‘ بکڈپو نے ان کے مقالوں کو بڑے اہتمام سے شائع کیا اور آل احمد سرورؔ جیسے جید نقاد کے علاوہ دیگر عمائدین ادب نے بھی اس کی ستائش کی۔
ڈاکٹر شمع افروز زیدی اب تک اپنے سعادتمندانہ اطوار اور خلوص و محبت کی وجہ سے ہمارے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں۔ میری عدم موجودگی میں بھی وہ اکثر گھر آ جاتیں اور میری اہلیہ و دیگر افرادِ خانہ سے بے تکلفانہ روابط رکھتیں۔ اُن کے ساتھ اکثر رحمان نیر بھی آ جاتے اور ہم لوگ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر کبھی ہلدی رام کے لذیذ نمکین مونگ پھلی دانے، کبھی مونگ کے پکوڑے تو کبھی سیخ کباب سے محظوظ ہوتے ہوئے ’ بیسویں صدی‘، ’روبی‘، ’ گلفشاں ‘ وغیرہ کی باتیں کرتے، کبھی اپنے گھریلو مسائل پر ایک دوسرے سے مشورے کرتے۔ میرے تقریباً سبھی بیٹوں اور بیٹی کی شادی میں انھوں نے شمع کے ساتھ بالالتزام شرکت کی اور میں نے بھی شمع اور ان کے بچوں کی تقریبات نکاح میں حاضری دی۔
رحمان نیر بڑے مستقل مزاج اور پختہ کردار کے حامل انسان تھے اور ایک مرتبہ جو بھی ارادہ کر لیتے اُس پر ہر حال میں کار بند رہتے تھے۔ افسانہ نگار واجدہ تبسم کے بیجا مطالبات کے خلاف انھوں نے مقدمے لڑے، فلم اسٹار دلیپ کمار کی دھمکیوں کا دندان شکن جواب دیا۔ دہلی اردو اکادمی کی گورننگ باڑی اور مالی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے وہاں بے ضابطگیوں کی سخت گرفت کی اور احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ کئی بڑے سیاسی لیڈروں ( جن میں اس وقت کے نائب وزیر اعظم دیوی لال جیسے مقتدر افراد شامل تھے ) سے انٹرویو کرتے ہوئے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے باکی سے چُبھتے ہوئے سوالات کیے، اردو صحافت سے متعلق سیمینار میں صحافیوں کو کھری کھری سنائیں، شمع کو دہلی سے باہر سیمیناروں میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور بشیر بدر کا واقعہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ میں نے کچھ اہم ادبی تقریبات اور سیمیناروں میں شمع کی شرکت کو مناسب سمجھاتو میرے مشورے پر رحمان نیر نے یہ صورت نکالی کہ انھیں خود لے کر گئے لیکن ظاہر ہے کہ وہ اپنی تجارتی مصروفیات کے باعث ہر جگہ نہیں جا سکتے تھے۔ اسی طرح وہ شمع کی ملازمت کے حق میں نہ تھے لیکن جب دہلی اردو اکادمی کے رسالہ ’’امنگ‘‘ کے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے شمع کا انتخاب کیا گیا تو میرے سمجھانے پر وہ با دلِ ناخواستہ تیار ہو گئے اور یہی صورت شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مواصلاتی کورس کے ڈائرکٹر کا منصب شمع کو تفویض کیے جانے پر پیش آئی، ہر چند کہ یہ عہدہ شمع کو زیادہ دن تک راس نہیں آیا۔
رحمان نیر کی فرمائش پر میں نے بھی کچھ ایسے کام کیے جو کسی دوسرے رسالے کے مدیر کے لیے ہرگز نہ کرتا مثلاً کسی مخصوص سال کے بارہ شماروں ( بیسویں صدی) میں شائع ہونے والے بہترین افسانے اور سب سے اچھی غزل کی نشاندہی کرنا ( انھیں ادارے کی جانب سے انعامات دیے جاتے تھے ) دفتر میں کئی کئی گھنٹے جم کر بیٹھنا اور فکر تونسوی، حسن نعیم، وزیر آغا، جیلانی بانو، ساحرؔ ہوشیار پوری وغیرہ سے طول طویل انٹرویو لینا ( یہ ’ بیسویں صدی‘ کے خاص نمبروں میں بڑے اہتمام کے ساتھ چھپتے تھے ) ’ بیسویں صدی‘ کے فکر نمبر کی رسمِ اجراء میں شرکت کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم ( راجیو گاندھی) کی قیام گاہ پر جانا وغیرہ۔ لیکن اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی انٹرویو کے لیے انھوں نے مجھ پر موضوع وغیرہ کی پابندی نہیں لگائی اور نہ وقت کا تعین کیا چنانچہ یہ سب انٹرویو ’ بیسویں صدی‘ کے پچیس تیس صفحات پر شائع ہوئے۔ اسی طرح جب تک میں نے پرچے کے لیے ادبی نگارشات کے انتخاب کی ذمہ داری نباہی موصوف نے کسی ایک بھی تخلیق کی اشاعت کے لیے سفارش نہیں کی۔
’’ بیسویں صدی‘‘ کے آخری دور میں انھیں اپنی عاقبت سنوارنے کی دھُن سوار ہو گئی، سوٹ بوٹ پہننا بند، غیر شرعی اشغال سے توبہ، ’ روبی‘ فلمی رسالہ تھا اس لیے افسر جمشید کے حق میں اس سے دستبردار ہو گئے۔ داڑھی بڑھا لی اور ایسی کہ شاید اُس کی تراش خراش سے بھی بے نیاز ہو گئے۔ پاجامہ ٹخنوں سے اونچا اور کرتا گھٹنوں سے نیچا پہنتے، اکثر جماعت اصلاح و تبلیغ کے چِلّوں پر جانے لگے۔ ایک مرتبہ کسی ادیب کی تدفین ( غالباً ظفر احمد نظامی) کے موقع پر اُن کی ریشِ دراز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شاہد علی خاں ( جنرل منیجر مکتبہ جامعہ) نے پوچھا، مظفرؔ صاحب! آپ نے انھیں پہچانا؟ میں نے ہنس کر عرض کیا: جناب شیر جھاڑی کے پیچھے ہو یا داڑھی کے پیچھے، صاف پہچان میں آتا ہے ! قصہ مختصر طاعت و زہد کے وفور میں انھوں نے ’بیسویں صدی‘ سے رفتہ رفتہ اپنی دلچسپی کم کر لی، اور یہ پرچہ ان کی زندگی میں ہی بند ہو گیا اور چند سال بعد وہ بھی ہم سے جُدا ہو گئے۔ خداوندِ قدوس انھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ آمین
٭٭٭
زیبؔ غوری کی یاد میں
زیبؔ غوری سے میری پہلی ملاقات غالباً ۱۹۶۶ء میں ہوئی۔ ویسے ہم دونوں ایک دوسرے کو تحریروں کے وسیلے سے بہت پہلے سے جانتے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہند و پاک کے ادبی رسائل میں جدیدیت کی حمایت اور مخالفت میں دھواں دھار بحثیں چل رہی تھی۔ زیب اس وقت تک کلاسیکی رنگ میں ہی کہتے تھے۔ ہر چند وہ مجھ سے عمر میں پانچ چھ سال بڑے تھے لیکن فطرتاً پُر خلوص اور کھلی ڈلی طبیعت کے حامل تھے، پہلی ہی ملاقات میں کھُل گئے اور کہنے لگے : ’’ مظفرؔ اب تم جیسے لوگ بھی، جو اچھی خاصی شاعری کرتے تھے، غزل میں پرس اور چالیس نئے پیسوں کی باتیں کرنے لگے۔ ‘‘ یہ در اصل اشارہ تھا میری نئی غزل کے ایک مطلع پر:
اب وہاں کیا ہے نئے چالیس پیسوں کے سوا
پرس میں مُنہ دیکھ لیتا ہوں تری تصویر کا
جو غالباً ’’ شب خون‘‘ ( الٰہ آباد) کے تیسرے یا چوتھے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ گفتگو کا آغاز اس اندازمیں ہو تو ظاہر ہے ہم دونوں میں جم کر بحث ہونی تھی، وہ جدیدیت کو فیشن پرستی سے تعبیر کرتے رہے اور میں کہتا رہا کہ اس دَور کا مزاجِ شعر ہی یہ ہے اور تمھیں بھی شاعرانہ حیثیت سے زندہ رہنے کے لیے نئے رنگ و آہنگ کو قبول کرنا ہو گا۔ اس بحث کے دوران میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ یگانہؔ اور شادؔ عارفی جیسے کھُردرے شاعروں کو بہر حال پسند کرتے ہیں۔ ہم لوگ دو تین گھنٹے ایک دوسرے پر فقرے چسپاں کر چکے اور رخصت کا وقت آیا تو انھوں نے مجھے گلے سے لگا لیا اور جذباتی انداز میں کہنے لگے ’’ یار تم شاعر تو جدید ہو لیکن آدمی اچھے ہو۔ ‘‘ واپسی پر میں نے بھی اپنے آپ کو ٹٹولا تو پایا کہ زیبؔ غوری نام کے اُس اونچے پورے، جامہ زیب، وجیہہ اور شائستہ آدمی کو پیار کرنے لگا ہوں۔ شاعری کے معاملے میں انتہاپسند میں اس وقت بھی نہ تھا۔ زیبؔ غوری کی غزلیں ’’ کتاب‘‘ اور ’’ نیا دور‘‘ ( لکھنؤ)، ’’مورچہ ‘‘ (گیا)، ’’تحریک‘‘ ( دہلی)، ’’ شاعر ‘‘ ( بمبئی ) وغیرہ میں دیکھتا اور شوق سے پڑھتا، کبھی کبھار ان روایتی غزلوں میں بھی کوئی ایسا تازہ اور اچھا شعر نکل آتا کہ بے ساختہ زیبؔ کو خط لکھتا اور چھیڑتا کہ اب تو انھیں جدیدیت کو قبول کر لینا چاہیے۔
اس کے دو برس بعد زیبؔ سے ملا ہوں تو میرا پہلا مجموعۂ کلام ’’ پانی کی زبان‘‘ ( شب خون کتاب گھر، ۱۹۶۷ء ) شائع ہو چکا تھا، بھائی نے اس پر جگہ جگہ نشانات قائم کر رکھے تھے۔ ’’بھلا بتاؤ، یہ کوئی شعر ہوا۔ مجھ سے مت بولو میں آج بھرا بیٹھا ہوں۔ سگریٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں۔ ‘‘
’’ استاداور کچھ نہیں تو حُسن تضاد کی داد تو دو‘‘ میں نے چھیڑا۔
’’ اور یہ سگریٹ کے پیکٹ؟‘‘ انھوں نے منہ بنا کر کہا۔
’’ پیارے تم سے زیادہ روشن خیال تو فناؔ ( نظامی) صاحب ہیں جنھیں بقول غلام مرتضیٰ راہیؔ اس مجموعے کے کئی شعر نہ صرف پسند ہیں بلکہ یاد ہیں۔ ‘‘
’’ ہمیں بھی یاد ہیں اس کے کئی اشعار، لیکن وہ تمھارے لیے نہیں ہیں۔ ‘‘ اُن کا جواب تھا اور پھر ہمارے جو شعر انھوں نے ہمیں دکھانے کے لیے نشان زد کر رکھے تھے، سامنے رکھے تو حالانکہ اس وقت میں دھاندلی کرتا رہا لیکن اب تسلیم کرتا ہوں کہ زیبؔ غوری شعری لفظیات کے بہت اچھے پارکھ تھے اور ان کر گرفت اکثر صحیح ہوتی تھی۔ کہتے تھے اس مجموعے کے وہی اشعار اچھے ہیں، جن میں روایت سے استفادہ کیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد بات کا رُخ بدلا تو کہنے لگے۔ ’’ جدیدیے شب خون مارنے میں بڑے ماہر ہیں۔ ‘‘
’’تمھیں بھی ’ شب خون ‘ میں چھپنا چاہیے۔ ‘‘
’’ میں رسالے کی بات نہیں کرتا، خدا بچائے اس سے ‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’ یہ تم نے چُپکے سے فتح پور کے جی۔ ایم۔ راہیؔ کو بھوپال بُلا کر راتوں رات میں جدید شاعر کیوں بنا دیا بھلے آدمی۔ ‘‘
’’ اس دَور کا ہر اچھا شاعر جدیدیت کو قبول کر نے پر مجبور ہو گا زیبؔ۔ تم بھی۔ ‘‘
نیم سنجیدگی کے ساتھ بولے۔ ’’ اور اُن ڈھیروں پرانی غزلوں کا کیا ہو گا جو پچھلے پندرہ بیس برسوں میں کہہ رکھی ہیں ؟‘‘
’’ جلا دو یا پھر اُن کا انتخاب نجمہؔ غوری کے نام سے شائع کر دینا۔ ‘‘
’’ چُپ رہو شریر آدمی۔ ‘‘ انھوں نے مصنوعی خوف کا اظہار کیا۔ ’’ نجمہؔ نے سُن لیا تو چائے بھی نہیں ملے گی۔ ‘‘
بات ٹل گئی لیکن ایسا لگا جیسے مٹی کچھ کچھ نم ہو چلی ہے۔
دو ایک برس کا وقفہ۔ اور پھر کچھ ایسا ہوا کہ شمس الرحمن فاروقی بحیثیت ڈائرکٹر پوسٹل سروسز، تبادلے پر کانپور آ گئے۔ غالباً نیر مسعود کے وسیلے سے زیبؔ کی ملاقات فاروقی سے ہوئی اور پھر وہ مٹی جو دو تخلیق کاروں نے مل کر سالوں میں کچھ نم کی تھی، ایک نقاد کے زیر اثر جدیدیت کی باڑھ میں آ گئی۔ زیبؔ غوری غالباً زود نویس اور پُر گو کبھی نہیں رہے لیکن اس دوران میں تابڑ توڑ ان کی کئی غزلیں میں نے ’’ شب خون‘‘ ( الٰہ آباد) میں مسرت آمیز حیرت کے ساتھ پڑھیں۔ زیبؔ کی غزل نے یکسر اپنا چولا بدل لیا تھا۔ کانپور میں شمس الرحمن فاروقی کے قیام کی مدت دو تین برس سے زیادہ نہیں رہی، اس مختصر سے عرصے میں زیبؔ غوری کی شاعری نے بھرپور اثر قبول کیا، جو بیک وقت مثبت بھی تھا اور منفی بھی۔ اسی دوران میں کانپور پہنچا، قیام اپنی چھوٹی بہن کے ہاں کیا۔ اہلیہ ساتھ تھیں۔ زیبؔ غوری کو غالباً غلام مرتضیٰ راہیؔ سے معلوم ہو گیا، قبل اس کے کہ میں اُن کے گھر پہنچتا، خود آئے اور مجھے، بشارت حسین ( برادر نسبتی) اور عاصمہ (بیگم مظفر) سمیت باصرار اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس دن بیچاری نجمہ بھابی نے خاصا اہتمام کر رکھا تھا لیکن ہم دونوں کو باتوں میں یہ پتہ ہی نہ چلا کہ کیا کھایا اور کتنا کھایا۔ زیبؔ غوری، مسلسل فاروقی کی تعریفیں کرتے رہے، اپنے رویے کی تبدیلی کے اسباب بیان کیے اور فخر کے ساتھ بتایا کہ ان کے زیر اثر محمد احمد رمزؔ اور کانپور کے کئی دوسرے شاعر بھی جدیدیت کو لبیک کہہ رہے ہیں۔
’’ بھائی زیبؔ! اور تو سب ٹھیک ہے ‘‘ میں نے حسبِ عادت اُنھیں چھیڑا’’ لیکن تم نئے مسلمان کی طرح پیاز زیادہ کھا رہے ہو۔ ‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘انھوں نے آنکھیں نکال کر گردن گھمائی۔
’’ مطلب یہ کہ تمھارا رویہ انتہا پسندانہ ہے ‘‘ میں نے سنجیدگی کے ساتھ کہا ’’ کل تک تمھیں ’سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا‘ اور’ سگریٹ کی دونوں ڈبیاں بالکل خالی ہیں ‘ جیسے تصورات، غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نظر نہیں آتے تھے اور اب تمھاری اچھی خاصی غزلوں میں ’ ہوا کے سبز پتھروں پہ زرد زرد اُداسیاں‘ اور ’غبارِ سنگ تھا تیرہ ہوا کے ہاتھ میں زیبؔ‘ جیسے مہمل مصرعے نظر آتے ہیں۔ ‘‘
’’ یار یہ مہمل نہیں ہیں ‘‘ انھوں نے جوشؔ کے ساتھ کہا ’’ صراحت سے ابہام بہتر ہوتا ہے ‘‘۔
’ ’ خدارا مجھے ان کا مطلب سمجھانے کی کوشش نہ کرو زیبؔ بھائی، ، میں نے جواباً عرض کیا ’’ ابہام وہ جو شعر کے مفہوم کو بڑھا دے، تاثر میں اضافہ کرے، یہ تو منہ بند مصرعے ہیں۔ ہمارے متقدمین اور متوسطین ایسے مواقع پر مفہوم در بطنِ شاعر کی پھبتی کستے تھے۔ ‘‘
’’ پھر ہمارے سارے ہی اشعار تو ایسے نہیں ہیں بھائی۔ ‘‘وہ بولے
’’ بے شک دوسری طرح کے اشعار بھی ہیں جن میں کہیں سانپ بولتے ہیں، کہیں بچھّو بولتے ہیں، کہیں اُلّو بولتے ہیں۔ ‘‘
’’ یار اب تم زیادتی کر رہے ہو۔ ‘‘
’’ سچ ہے کہ میری نگاہ معاملے کے ایک ہی پہلو پر مرکوز ہے۔ ‘‘ میں نے اعتراف کیا ’’لیکن یہاں کانپور میں تمھیں تصویر کا یہ رُخ دکھانے والا بھی تو کوئی نہیں ہے۔ رہے فاروقی صاحب تو اُن کے ہاں یہ تمام باتیں حُسن شاعری ہیں۔ ‘‘
اس نشست میں زیبؔ غوری کی شاعری پر بڑی دو ٹوک گفتگو ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ وہ شمس الرحمن فاروقی کی رائے کو حرفِ آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ میں خود بھی فاروقی کا دیرینہ مداح ہوں لیکن اکثر ادبی معاملات میں ان سے مختلف رائے رکھتا ہوں۔ زیبؔ کے نزدیک فاروقی کا قول، قولِ فیصل تھا۔ شمس الرحمن فاروقی کے اتنے ہی شدید، دوسرے پرستار آصف نعیم ہیں لیکن ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ اس دن کافی بحث و تمحیص کے بعد شام کو زیبؔ غوری کی غزل پر فاروقی کی موجودگی میں گفتگو کر نے کے لیے ہم ان کی قیام گاہ پر بھی پہنچے لیکن وہ الٰہ آباد گئے ہوئے تھے اس لیے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس بار اپنے کانپور کے دورانِ قیام میں میں نے زیب سے بار بار کہا کہ نئی غزل پر ہی آنکھ کھولنے والے مبتدی شاعروں کی بات اور ہے، زیبؔ غوری جیسے رچے ہوئے غزل گو سے تجرباتی نہیں، اچھے اور بڑے، نئے اور تازہ اشعار کی توقع کی جاتی ہے اور ان کی انتہا پسندانہ جدت طرازی نے ایسے شعروں کا راستہ روک رکھا ہے۔ یہ بات اس وقت اگر فاروقی نے کہی ہوتی تو زیبؔ ضرور مان لیتے۔ میری بات وہ ہنس کر ٹال گئے۔ انداز وہ تھا جیسے زیبؔ جدیدیت کی راہ پر سب کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
ایک مرتبہ سردیوں میں کانپور جانا ہوا تو حسبِ دستور زیبؔ غوری کی قیام گاہ پر حاضری دی لیکن اس بار دروازے پر خلافِ دستور زیبؔ کی جگہ نجمہ بھابی نے استقبال کیا اور مسکراتے ہوئے اس چھوٹے سے کمرے میں پہنچا دیا جو بیک وقت غوری کے لیے ریڈنگ روم، ڈرائنگ روم، ڈائیننگ روم اور بیڈ روم کا کام دیتا تھا۔ دیکھا کہ زیبؔ فرش پر نیم دراز ہیں، رضائی لپیٹ رکھی ہے، چہرے پر دو دن کا شیو ہے اور ایک جاسوسی ضخیم ناول سے لپٹے ہیں۔ بھابی نے بتایا کہ دفتر کے ساتھ ہر کام سے رخصت لے رکھی ہے کہ جب تک ناول ختم نہیں ہو گا رضائی سے نہیں نکلیں گے۔ ڈھیروں خوبصورت کبوتر پال رکھے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے احباب، کلامِ زیبؔ کے ساتھ ساتھ ان پرندوں کی اقسام و اوصاف پر بھی تبصرے کریں۔ سُننے میں آیا کہ ان کی شاعری میں جگہ پانے والے سانپ اور بچھو بھی پالتو تھے۔ واللہ اعلم بالصّواب۔ البتہ یہ تمام باتیں ثابت کرتی ہیں کہ زیبؔ عام ڈھرّے سے ہٹا ہوا، جذباتی سطح پر زندگی بسر کرنے والا ایک منفرد تخلیق کار تھا۔ اواخر ۱۹۹۶ء میں زیب غوری کا پہلا مجموعہ کلام ’’ زرد زرخیز‘‘ شائع ہوا۔ اس وقت تک میں ( بھوپال) سے دہلی منتقل ہو چکا تھا۔ زیبؔ نے کتاب کا ایک نسخہ بڑی محبت کے ساتھ مجھے بھجوایا۔ مجموعے کا انتساب تو شمس الرحمن فاروقی کے نام تھا ہی، اس کا نام بھی فاروقی کے شعری مجموعے ’’ سبز اندر سبز‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ ’’ زرد زرخیز‘‘ کے انتخاب و ترتیب کا فریضہ ڈاکٹر نیر مسعود نے انجام دیا تھا لیکن کتاب کے ہر ورق سے ’فاروقی جدیدیت‘ جھلکتی تھی۔ آگے چل کر شمس الرحمن فاروقی کے خیالات میں کچھ تبدیلیاں آئیں لیکن اس وقت تک موصوف بیانیہ شاعری کے قائل نہ تھے۔ رمزیت اور اشاریت ہی نہیں اہمال کی حدوں کو چھوتا ہوا ابہام انھیں بیانیہ کی بہ نسبت زیادہ عزیز تھا۔ ’ زرد زرخیز‘ کے ابتدائی صفحے پر ہی فرزدقؔ کا قول ’ الایہام افصح من الصراحۃ‘‘ درج تھا اور مرتب نے بہت سے ایسے شعر بھی اشاعت کے لیے منتخب کر لیے تھے، جنھیں میرے خیال میں نظر انداز کر دینا چاہیے تھا۔ میں آج بھی ایمانداری کے ساتھ یہی رائے رکھتا ہوں کہ اس مجموعے کے اچھے اشعار اس لیے دب گئے کہ اُن کے اِرد گرد بیحد مبہم بلکہ بعض اوقات مہمل اور تجربے کے طور پر کہے گئے اشعار کا انبار لگا دیا گیا تھا۔ فاروقیؔ کو ہمیشہ سے ترکیب سازی، ندرت، نازک خیالی، ابہام حتیٰ کہ زبان سے کھِلواڑ اور جرأتِ اظہار کے اوصاف پسند رہے ہیں، انھیں میں سے بعض خوبیاں انہیں ظفرؔ اقبال میں نظر آئیں اور بعض بانیؔ میں (جو ’’آبِ رواں ‘‘ والے ظفرؔ اقبال کے ہندوستان میں سب سے بڑے مقلد تھے ) اسی لیے یہ دو شاعر، فاروقیؔ کی تنقیدوں میں عصر ساز اور عہد ساز ٹھہرائے گئے، چونکہ زیبؔ غوری کی رسائی شمس الرحمن فاروقی تک اس وقت ہوئی جب فاروقی بانیؔ کو اپنا پسندیدہ شاعر قرار دے چکے تھے ( غالباً بانیؔ کا مرتب کردہ ’’ تخلیق‘‘ ( دہلی) کا تخلیق نمبر ’’ شب خون‘‘ کے اجراء سے قبل شائع ہو چکا تھا، اس لیے انھوں نے زیب غوری کو بانیؔ کی بہ نسبت ثانوی درجہ عطا کیا اور زیبؔ نے بھی اپنی طبیعت کے بھولپن نیز تنقید سے غیر ضروری مرعوبیت کی بنا پر یہ درجہ قبول کر لیا، نتیجتاً وہ خود بھی نہ صرف اپنے آپ کو بانیؔ سے چھوٹا شاعر سمجھتے رہے بلکہ غالباً فاروقی کے زیر اثر بانی کو اپنا آئیڈیل تصور کر کے اپنے ابتدائی کلام میں بانیؔ جیسی ترکیب سازی، ژولیدہ بیانی، مہمل رمزیت وغیرہ پیدا کرنے کی سعی بھی انھوں نے خوب کی، میں نے ۱۹۸۰ء کے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’ زیبؔ غوری جیسا با صلاحیت غزل گو، بانیؔ کی تقلید میں مارا گیا۔ ‘‘ ( جہات و جستحو ص ۶۱) اور آج پھر وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ پیروی بانیؔ نے زیبؔ کو بڑا نقصان پہنچایا، حق تو یہ ہے کہ زیبؔ غوری، بانیؔ سے بدرجہا بہتر اور برتر شاعر ہے۔ میں نے ان دونوں کو قریب سے دیکھا اور برتا بھی ہے اور دونوں کے کلام کا موازنہ بھی کیا ہے، زبان پر گرفت کا مسئلہ ہو یا الفاظ کی مزاج شناسی کا مرحلہ، ندرتِ ادا کا معاملہ ہو یا بلندیِ خیال کی بات، زیبؔ ہر جگہ بانیؔ سے افضل ہیں۔ جہاں تک مشقِ سخن اور قدرتِ کلام کا تعلق ہے زیب ۱۹۵۰ء کے آس پاس سے شاعری کر رہے تھے جب کہ بانی نے کہیں ۱۹۶۷ء کے بعد شعر و ادب کے میدان میں قدم رکھا۔ طبیعت کے رچاؤ، سہار، سبھاؤ اور خلوص جیسی صفات جو اچھی غزل کے لیے تازہ خون کی حیثیت رکھتی ہیں، بانی میں کم کم اور زیبؔ غوری میں بافراط پائی جاتی تھیں۔ زیبؔ اور بانیؔ اکثر ایک ساتھ بریکٹ کیے جاتے اور ایک دوسرے کے دوست سمجھے جاتے تھے۔ ذرا وہ غزل دیکھ جائیے بانیؔ کی جس کی ردیف زیبؔ ہے ( حساب رنگ: ص ۹۳، ۹۲) کاریگری، بناوٹ اور نرگسیت اس میں جتنی زیادہ ہے، خلوص کی اتنی ہی کمی ہے۔ اس کے برعکس زیبؔ کی غزل ’’ مرگ بانیؔ توڑ کر ہر سلسلہ لے جائے گی‘‘( چاک: ص ۸۵ تا ۸۸) ملاحظہ کیجیے تو اندازہ ہو گا کہ بے نفسی اور خلوص جیسی خصوصیات سے زیبؔ کی شخصیت اور شاعری کتنی رچی بسی تھی۔
بات ’’ زرد زرخیز‘‘ کی تھی۔ ۱۹۷۷ء کے اوائل میں یہ مجموعہ مجھے ملا تو اس کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا جو اوپر بیان ہوئے۔ اس زمانے میں ایک رسالے کے مدیر(کمار پاشی/سطور) جنھیں بانیؔ بہت عزیز رکھتے تھے، گوپال متل کے دفتر میں شکوہ کرتے پائے گئے کہ ’’زرد زر خیز‘‘ کا شاعر مہمل اشعار کہتا ہے۔ میں نے زیبؔ غوری کی مدافعت میں عرض کیا کہ وہ کم از کم بیس برس کی مشق سخن رکھنے والا قادر الکلام شاعر ہے، نہایت رچی ہوئی کلاسیکی غزلیں کہتا تھا، اسے جدید بنانے کا سہرا شمس الرحمن فاروقی کے سر ہے اور انھیں کے زیر اثر زیبؔ غوری کے کلام میں ابہام کا رنگ گہرا ہے۔ مدیر موصوف نے اپنے پرچے میں میری گفتگو کو مسخ کر کے اس طرح بیش کیا کہ حقیقت ہی بدل گئی اور ’’ زرد زرخیز‘‘ پر اسی مسخ شدہ قول کی روشنی میں انتہائی جارحانہ تبصرہ کیا۔ پھر کچھ ویسی ہی تلخ و ترش باتیں ظ۔ انصاری نے ’’زرد زرخیز‘‘ کی بابت ’’بلٹز‘‘ ( بمبئی) میں کہہ دیں۔ اُردو کے بعض نقادوں اور اکثر مبصروں کو اینٹ پر اینٹ رکھنے کی عادت ہے۔ ( کہ اس میں سہولت بھی بہت ہے ) چنانچہ اس کے بعد شہر یار کے علاوہ جس نے بھی اس مجموعۂ کلام پر اظہار خیال کیا، گھُما پھرا کر وہی باتیں کہیں۔ میں نے حقیقت حال سے شمس الرحمن فاروقیؔ کو آگاہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ زیبؔ غوری اس مجموعے کے تعلق سے بے حد جذباتی ہیں اور اس کی اشاعت کے بعد مقبولیت اور کامیابی کے نہ جانے کتنے سنہرے خواب انھوں نے بُن رکھے ہیں، جلد ان کی دلدہی کرو ورنہ وہ دل پر بہت اثر لیں گے۔ دو ایک ماہ کے اندر ہی میں موقع نکال کر کانپور پہنچا اور زیب غوریؔ سے ملاقات کی۔ خیال تھا کہ وہ بہت لڑیں گے لیکن دیکھتے ہی لپٹ گئے اور بولے :
’’ مجھے ساری حقیقت کا علم ہے۔ تمھیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
’’ لیکن بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ ارے یار۔ تم میرے مُنہ پر کھل کر کہتے آئے ہو۔ تمھارے بارے میں مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہے اور میں اُس۔ ۔ ۔ ۔ کو اچھی طرح جانتا ہوں، بڑا چالو آدمی ہے۔ اس سے بچ کر رہنا دہلی میں۔ ۔ ۔ اور آج رات کا کھانا ہم ساتھ کھائیں گے۔ ‘‘
چنانچہ رات کا کھانا ہم نے ساتھ کھایا اور اس کے دوران میں ’’ زرد زرخیز‘‘ پر تبصرہ بھی کرتا رہا۔
( بر سبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض کر دوں کہ مدیر موصوف نے اپنی غلط بیانی کے ازالے کے طور پر مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے پرچے کے اگلے شمارے میں میری وضاحتی تحریر جو ’’ زرد زرخیز‘‘ پر تبصرے کی صورت میں تھی ضرور شائع کریں گے لیکن نہ اسے شائع کیا نہ ہی وہ تحریر مجھے واپس عنایت فرمائی)
اوپر میں کہیں لکھ آیا ہوں کہ فاروقی کی صحبت نے زیبؔ غوری کے کلام پر بیک وقت مثبت اور منفی اثرات مرتسم کیے۔ مناسب ہے کہ اس رمز کی بھی صراحت کر دی جائے۔ فاروقی کے نزدیک آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ زیبؔ غوری کو جدید ادبی حلقوں میں Establish ہونے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ فاروقیؔ کی تنقید اور ’’شب خون‘‘ کے صفحات سے انھیں حتی الامکانBoostکیا گیا، اور جیسا کہ عرض کر چکا ہوں زیبؔ کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ اپنے سے کمتر درجے کے شاعر بانیؔ کو اپنا آئیڈیل سمجھ بیٹھے نیز فاروقی کی بعض ان ہدایات پر بھی اپنی شاعری میں کاربند رہے جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔
اگلے چھ سات برسوں میں زیبؔ غوری سے نہ میری ملاقات ہوئی نہ خط و کتابت کا موقع آیا۔ کئی سال وہ پاکستان میں رہے اور پھر بمبئی چلے آئے۔ اس اثناء میں چونکہ اُن کی بہت ہی کم تخلیقات رسائل میں شائع ہوئیں، اس لیے میں سمجھتا رہا کہ ’’ زرد زرخیز‘‘ کے تلخ تجربے نے زیبؔ کو بد دل کر رکھا ہے، اسی لیے وہ تخلیق کی طرف کم مائل ہیں لیکن ان کے دوسرے مجموعۂ کلام ’’ چاک‘‘ کی آمد پر کھُلا کہ وہ مسلسل شعر کہتے رہے ہیں۔ البتہ چھپنے چھپانے سے اس زمانے میں شاید دانستہ گریز کیا۔ ’’ چاک‘‘ کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ اب زیبؔ نے اپنے رنگ کو پا لیا تھا اور شاعری کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں انھوں نے دور کر لی تھیں چنانچہ ’’ چاک‘‘ کے ابتدائی صفحات پر درج دانشوروں کے اقوال ہوں یا خود زیبؔ کا ’حرفِ آخر‘ انھوں نے ہر جگہ زندگی اور شاعری میں تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ ’’ پیش لفظ‘‘ میں جگہ جگہ اعتراف کیا ہے کہ ’’ زرد زرخیز‘‘ کے بعد زبان کے بارے میں اُن کے شعری رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری تبدیلی یہ ہے کہ انھوں نے ابہام کے پردے بدل دیے ہیں، اب وہ پہلے جیسے بھاری نہیں رہے۔ ۔ ۔ ۔ انھوں نے اب ایک پڑھے لکھے قاری کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ( چاک: ص ۲۵) یعنی اگر ’’ زرد زرخیز‘‘ کے ہر صفحے سے فاروقیؔ جدیدیت اور بانیؔ جیسی شاعری کرنے کی شعوری کاوشیں جھلکتی تھیں تو ’’ چاک‘‘ کے ہر صفحے اور ہر سطر سے صرف اور صرف زیبؔ غوری جھانکتے نظر آتے ہیں۔ اچھی اور سچی شاعری کرتے ہوئے، تازہ اور نئے شعر کہتے ہوئے، ہر طرح کی مرعوبیت اور ہر طرح کے نظریات سے پاک صاف، دمکتے ہوئے شعر اس مجموعے میں اس کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کی چمک دمک اور چھوٹ سے معمولی اور خام اشعار بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ پیش لفظ، حرفِ آخر اور ضمیمے میں کہیں بھی شمس الرحمن فاروقی سے اثر قبول کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور نہایت فراخدلی کے ساتھ روایتی شاعری کے دلدادہ اساتذہ ثاقبؔ کانپوری، شارقؔ ایرایانی، کوثر جائسی وغیرہ کی صحبتوں سے استفادہ کرنے کا اعتراف ان تحریروں میں موجود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک سچے فنکار کی طرح اب انھیں اپنے جدید ہونے پر بھی کوئی اصرار نہیں ہے۔ اس مجموعے میں انھوں نے اپنے کلاسیکی رنگ کے حامل اشعار کو پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ یعنی ’’ چاک‘‘ تک پہنچتے پہنچتے زیبؔ غوری پر یہ بھید کھُل چکا ہے کہ سچی شاعری کے لیے ہدایت نامے کوئی بڑے سے بڑا نقاد بھی نہیں جاری کر سکتا۔ یہ فرمان اپنے لیے شاعر خود جاری کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہ شاعری کے ہزار رنگ ہیں۔ شعر ابہام کے ساتھ کہیں یا بالصراحت، بطور رمز کہیں یا براہِ راست، اُسے پہلے شعر ہونا چاہیے بعد میں جدید ہو یا کچھ اور۔ مثالیں میں اس لیے پیش نہیں کر رہا ہوں کہ اس طرح مجھے کم از کم ’’ چاک‘‘ کے نصف صفحات نقل کرنے پڑیں گے۔ یہ مجموعہ آپ خود پڑھ لیں۔
زیب غوری سے میری آخری ملاقات اواخر ۱۹۸۴ء میں ہوئی، لطف الرحمن نے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے بھاگلپور مدعو کیا تھا۔ قیام گیسٹ ہاؤس میں تھا جہاں ’’ نہ پینے والے شاعر‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔ ہم پیالہ شعراء علاحدہ ہوٹل میں مقیم تھے۔ میں اپنے کمرے سے نہا دھو کر برآمدے میں آیا تو وہاں شین کاف نظامؔ، اظہر عنایتی، رؤف خیر، علیم صبا نویدی وغیرہ کے درمیان ایک صاحب براجمان تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ پینے لگا، پھر وہ صاحب کسی سے مخاطب ہوئے تو آواز پہچانی پہچانی لگی۔ غور کیا تو زیبؔ غوری تھے۔ میں نے کہا ’’ یہ کیا تماشہ ہے یار؟ اگر تم زیبؔ ہو تو مشاعرے کب سے پڑھنے لگے ؟‘‘ انھوں نے اٹھ کر گلے سے لگا لیا اور بولے ’’اسی لیے تو میں بھی شک و شبہ میں مبتلا تھا کہ مظفرؔ حنفی یہاں کیوں آئیں گے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ نجمہ بھابی بھی تشریف لائی ہیں، ہم دونوں بقیہ شاعروں سے رخصت لے کر زیبؔ کے کمرے میں چلے گئے، وہاں میں تو بھابی سے باتیں کرتا رہا اور زیبؔ مسلسل کھَولتے رہے کہ منتظمین نے ان کے پسندیدہ برانڈ کی چائے اب تک نہیں پہنچائی۔ خدا خدا کر کے چائے کا مطلوبہ پیکٹ آیا اور خود زیبؔ نے انتہائی نفیس چائے تیار کر کے پلائی۔ اس نشست میں میں نے ان کے ایسے اشعار سُنائے جو مجھے پسند تھے۔ بہت خوش ہوئے۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ میری اور نجمہ بھابی کی پسند اس سلسلے میں ایک تھی۔
رات کو بڑے طمطراق کا مشاعرہ ہوا۔ لق و دق پنڈال، سامعین کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم۔ اسٹیج پر مرکزی حکومت کے دو دو وزیر شاعروں کے درمیان موجود، سننے والوں کی اگلی صف میں وائس چانسلر اور دوسرے عمائدینِ شہر حاضر۔ محفل سخن کے اختتام پر شعرا کو نذرانہ پیش کیا گیا تو عام روایت کے بر عکس جتنا وعدہ تھا اس سے دو تین سو روپے زیادہ لفافے سے نکلے۔ میرے حصے میں ڈیڑھ ہزار آئے تھے۔ زیبؔ کو بھی کم و بیش اتنے پیسے ہی ملے ہوں گے۔ کمرے میں پہنچ کر بولے :
’’ یار مظفرؔ! یہ بشیر بدرؔ وغیرہ تو بڑے ٹھاٹ کرتے ہوں گے۔ ‘‘
’’ کیوں ؟ میں سمجھا نہیں۔ ‘‘
’’ سنتے ہیں ہر ماہ بھائی آٹھ دس مشاعرے پیٹ لیتے ہیں۔ ‘‘
’’ ہاں پیارے بھائی اور بیکلؔ اتساہی، راحتؔ اندوری وغیرہ کا نام سُنا ہے تم نے۔ یہ لوگ پندرہ بیس مشاعرے پڑھتے ہیں ہر ماہ۔ غالباً معاوضہ بھی زیادہ لیتے ہیں۔ ‘‘
’’ کمال ہے بھئی۔ ‘‘ زیب نے آنکھیں گھمائیں۔
دوسرے دن صبح ہی صبح مناظرؔ عاشق ہرگانوی نازل ہو گئے۔ پتہ چلا کہ منسٹروں کی لاگ ڈاٹ چل رہی ہے اور مناظرؔ ان میں سے ایک کے لیے آج رات کو ایک اور مشاعرہ کریں گے۔ کچھ نذرانے کے وعدے پر مجھے روکنا چاہتے تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ کہیں ہمارے اصل میزبان ( ڈاکٹر لطف الرحمن) کو نا گوار نہ ہو، اس لیے صاف انکار کر دیا۔ دوپہر کی ٹرین سے واپسی کے لیے ریزرویشن تھا۔ مخمورؔ سعیدی، کمارؔ پاشی، امیرؔ ؔقزلباش، اظہر عنایتی اور میں ایک ہی ڈبّے میں تھے۔ گاڑی چھوٹنے میں چند ہی منٹ تھے کہ مناظرؔ عاشق، زیبؔ غوری اور شہودؔعالم آفاقی کے ساتھ وارد ہوئے۔ مناظرؔ اور شہود عالم نے میرا اور اظہر عنایتی کا سامان اٹھایا اور زیب غوری نے مجھے کھینچ کر ٹرین سے اُتار لیا۔ کہنے لگے ’’ گیسٹ ہاؤس سے ملے بغیر کیسے چلے آئے۔ میں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ آج کا مشاعرہ ہم دونوں پڑھیں گے اور ایک آدھ روز ٹھہر کر بھاگلپور دیکھیں گے۔ ‘‘پھر جھُک کر کان میں چُپکے سے کہا ’’یہ بھلا آدمی نذرانہ بھی پیش کرے گا۔ ‘‘ میں مسکرا کر چُپ ہو رہا۔ زیبؔ کے ساتھ دو ایک دن قیام کرنے کے معاوضے میں ایک مشاعرہ پڑھنا زیادہ مہنگا سودا نہیں لگا۔
اُس رات زیبؔ غوری مشاعرے میں خوب جمے۔ کچھ نئی غزلیں سنائیں اور کچھ روایتی رنگ کی چیزیں۔ پڑھنے کا انداز بھی خاصا دلکش تھا۔ حالانکہ مشاعرے میں فہمیدہ ریاض اور غلام ربانی تاباںؔ جیسے مقبول لوگ بھی تھے اور افتخار امام اور اظہرؔ عنایتی جیسے مترنم شعراء بھی۔ لیکن زیبؔ ان سب سے زیادہ پسند کیے گئے۔ پڑھ کر آئے تو میں نے چھیڑا۔
’’ تم تو بھائی پکے مشاعرے باز نکلے۔ ‘‘
ہنس کر بولے ’’ جدیدیت کے چکّر میں پڑنے سے پہلے اور کیا کرتا تھا؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’جی نہیں۔ بات یہ ہے کہ آج داد دینے کے لیے ڈائس پر بھابی موجود تھیں۔ ‘‘
مشاعرہ آدھی رات تک چلا۔ واپسی پر میں تو جلد سو گیا۔ زیبؔ نے تمام رات نوجوان شعراء کے ساتھ باتیں کیں۔ دوسرے دن صبح چائے ملنے میں تاخیر ہوئی تو وہ میرے ساتھ باہر نکلے۔ بھاگلپور کا وہ علاقہ (غالباً برہ پور) چائے کی دکانوں سے بہت محفوظ ہے۔ کافی دھول اُڑانے کے بعد ٹاٹ کے پردوں والا ایک ڈھابہ نظر آیا تو زیبؔ لپک کر بنچ پر براجمان ہو گئے، تفصیل کے ساتھ چائے سے متعلق ہدایات جاری کیں اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے۔
مجھ سے کہہ رکھا تھا کہ دوسرے دن شہر گھومیں گے، صبح ہی سے رفیق الزماں مصر ہوئے کہ گھومنے نکلو لیکن زیبؔ کو اسکچنگ کی سنک سوارہوئی۔ میں نے ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ کانپور میں اطمینان سے بیٹھوں گا تب تیار کرنا۔ کہنے لگے۔ ’’ اچھی بات ہے ہم دوسروں کے بنائیں گے۔ ‘‘
علیمؔ صبا نویدی اور شہود عالم آفاقی کی بن آئی۔ دونوں نے جم کر پوز دیے۔ کبھی میں نے نویدیؔ کو ٹوکا کہ کانوں کو ہلائیں نہیں، کبھی زیبؔ نے شہود کو چھیڑا کہ وہ ناک کیوں ٹیڑھی کر رہے ہیں۔ بہر طور کئی گھنٹے اس کارِ خیر میں صرف ہو گئے۔ شام کو کسی طرح زیبؔ غوری کو قیام گاہ سے باہر نکالا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے نجمہ بھابی کی مدد سے کھینچ کر باہر لائے۔ رفیق الزماں نے اپنے گھر لے جا کر عمدہ چائے اور لوازمات سے تواضع کی اور پھر ہم سب بھاگلپوری ساریاں اور چادریں خریدنے گئے۔ واپسی پر سامان کی پوٹلی بیزاری کے ساتھ لٹکائے ہوئے زیبؔ بناوٹی غصہ کرتے رہے کہ مظفرؔ سے ہمارا مشاعرے کا معاوضہ دیکھا نہیں گیا۔ نجمہ کے ساتھ سازش کر کے سب خرچ کرا دیا۔
اس روز مناظرؔ عاشق ہرگانوی تمام دن نظریں بچاتے رہے۔ دوسرے دن مسمسی صورت بنا کر آئے اور معصومیت کے ساتھ ہمیں مطلع کیا کہ ’’ منسٹر صاحب کے بیٹے سخت علیل ہیں اور ایسے میں ان سے نذرانے کی بات نہیں کہی جا سکتی۔ یہ پیسے آپ حضرات کو بذریعہ تار منی آرڈر بھجوا دیے جائیں گے۔ ‘‘مجھے مشاعروں کے اس پہلو کی کچھ کچھ آگاہی تھی اس لیے پی گیا۔ لیکن زیب غوری کو یقین نہ آتا تھا کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔
بھاگلپور سے واپسی کا سفر بھی بڑا دلچسپ اور یادگار تھا۔ کبھی کبھار سفر میں اگر ساتھی بے تکلف ہوں اور طبیعت حاضر ہو تو مجھے الا بلا قسم کی چیزیں کھانے کا ہَوکا اُٹھتا ہے۔ اس بار موڈ تھا اس لیے کبھی جھال دار مڑی( مرچوں والی لائی) سے شغف کیا تو کبھی پانی پھل ( سنگھاڑے ) سے لطف اندوز ہوئے۔ ابھی چینی بادام ( مونگ پھلیاں ) ختم ہوئے تھے کہ چٹنی دار سنبوسے خرید لیے۔ زیبؔ غوری اس بچپنے میں برابر کے شریک تھے۔ بھابی نجمہ بھی محظوظ ہو رہی تھیں لیکن ایک بار چپکے سے انھوں نے مجھے بتا دیا کہ زیبؔ کا پرہیز چلتا ہے۔ میں نے سنبوسے اُن کے سامنے سے کھینچ لیے۔ غالباً زیبؔ بھانپ گئے، بھابی سے بولے۔ ’’ یہ مظفر میاں تو سیدھے دلّی چلے جائیں گے، کانپور میں تم سے سمجھ لوں گا۔ ‘‘
کانپور آنے تک میں بھابی کے ساتھ مل کر زیبؔ کو چھیڑتا رہا اور وہ بن بن کر بگڑتے رہے۔ پھر وہ کانپور میں رہ گئے، میں دہلی چلا آیا۔ اُن کے دو ایک خط بھی آئے جن میں بھاگلپور کے نذرانے کا تذکرہ تھا، وہ خط میں نے مناظر عاشق ہرگانوی کو ری ڈائرکٹ کر دیے لیکن واں ایک خامشی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زیبؔ کا کردار دیکھیے کہ مناظر عاشق کی فرمائش پر انھوں نے اپنے مزاج کے خلاف ایک آزاد غزل بھی لکھ دی۔
جون ۱۹۸۷ء میں نجمہ بھابی کو پُرسہ دینے بیت الرشیدہ پہنچا تو زیبؔ غوری کے انتقال کو تقریباً دو برس ہو گئے تھے۔ میری آنکھوں میں آنسو شاذ و نادر ہی آتے ہیں اور بیت الرشیدہ کا زینہ بہت طویل ہے۔ شاید ہر سیڑھی پر تھم کر مجھے اپنی آنکھیں خشک کرنی پڑی تھیں کہ نجمہ بھابی بھانپ نہ جائیں۔ صد افسوس، زیبؔ غوری بھی یادوں کا ایک حصہ بن گئے۔ خداوند کریم ان کی آخری آرام گاہ کو نور سے لبریز رکھے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید