تقسیمِ ہند
اسیم کاویانی
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یوں روز انقلاب آئے
فیضؔ
متحدہ ہندُستان بہت سوں کا سپنا تھا لیکن شاید گاندھی جی اور مولانا آزاد کی طرح کسی کا نہیں !
گاندھی جی نے کہا تھا: ’’اگر کانگریس تقسیم کو تسلیم کرے گی تو وہ صرف میری لاش کو روند کر کرے گی۔ جب تک میرے جسم میں جان ہے، میں تقسیم پر کبھی راضی نہ ہوؤں گا۔ ‘‘ 1؎ اور مولانا آزاد نے دعوا کیا تھا: ’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں میں سے اُتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندستان ہندومسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جاؤں گا، مگر اس (اتحاد) سے دست بردار نہ ہوؤں گا۔ ‘‘ 2؎
لیکن جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے اور جغرافیہ بھی کہ ہندُستان تقسیم ہو گیا۔ ان دونوں دل فگاروں نے متحدہ ہندُستان یا متحدہ قومیت کے اپنے مقصد کی ایک عقیدے کی طرح پرورش کی تھی لیکن انجام کار اُنھوں نے اپنے خواب کو چکنا چور ہوتے دیکھا اور اس کی کرچیاں چنتے ہوئے اس جہاں سے گزر گئے۔
سیاسی تقسیم کی اس بساط پر جناح اور پٹیل فیصلہ کُن مہرے ثابت ہوئے، جو خود اس بازی کے آغاز میں اپنی destiny سے قطعی انجان تھے۔ شاطر کھلاڑی (انگریز)نے بڑی مہارت سے اس کھیل کو اپنے مطلوبہ انجام تک پہنچایا۔ تقریباً اسّی لاکھ ہندوؤں اور سکھوں نے ہندُستان میں بسنے کے لیے پاکستان کو تیاگا اور ساٹھ سے ستّر لاکھ مسلمانوں نے ہندُستان سے نکل کر ’مملکتِ خداداد‘‘ کا رُخ کیا، 3؎ تقریباً پانچ لاکھ انسان یہاں اور وہاں کے مارے گئے۔ تاریخ ہند کا ایک خوں چکاں باب ختم ہوا اور تماشا دکھا کر کھلاڑی گیا۔
گاندھی جی سے زیادہ ہندو دھرم کی روح سے نزدیک شاید ہی کوئی رہا ہو اور مولانا آزاد کے دینی تبحّر کا بھی ایک عالم معترف ہے، پھر کیا اسباب تھے کہ مذہب سے کوسوں دور اسلام کے ایک بے پروا پیرو جناح نے امام الہند کے ہاتھوں سے مسلمانوں کی قیادت چھین لی اور ہندو دھرم کے ایک رسمی مقلّد سردار پٹیل نے ہندستان کے مہاتما کو اپنے فیصلے کے تابع کر لیا!
تاریخ کے پنّوں میں جنگِ آزادی کے تین اہم کرداروں کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈال کر ہم نے ان ہی سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے اور اس میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد
مولانا آزاد کی شخصیت اور زندگی کے حالات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن کا تذکرہ تو ملتا ہے پر تفصیلات تاریخ کے دھندلکوں میں گُم ہیں۔ مثلاً: 1905ء میں تقریباً اٹھارہ برس کی عمر میں اُن کا شیام سندر چکرورتی اور بنگال کے دوسرے انقلابیوں سے ربط ضبط، اُن کی عملی شرکت سے بمبئی اور شمالی ہند کے کئی شہروں میں خفیہ انجمنوں کا قائم ہونا، اغلباً 1906-07ء کے درمیان اُن کی عیش کوشیوں کا 17ماہ کا وہ دور جسے اُن کی انشا نے ’فسق و فجور‘ سے تعبیر کیا ہے۔ 1908ء میں اُن کا مصر، ترکی، عراق اور فرانس کا سفر اور وہاں پر ترک اور عرب انقلابیوں سے ملاقاتیں ، اپریل 1913ء کے ’الہلال‘ میں اُن کے صریرِ خامہ کی ’امن انصاری الی اللہ‘ (خدا کی راہ میں کون ہیں جو میرے ساتھ ہیں !) کی پُراسرار پُکار، اور پھر ’حزب اللہ‘ کا اعلان اور ممبر سازی، اور 1925ء میں یورپ کے سفر کے لیے اُن کے پاسپورٹ کی درخواست کے ساتھ کلکتے کے نیشنل آرکائیوز میں رکھی سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹس میں اُن کے (1921ء تا 1924ء کے دوران میں ) پان اسلام ازم تحریک، سبھاش بوس کے انقلابی منصوبوں اور ینگ ٹرکس کی سرگرمیوں سے کسی نہ کسی طرح کے روابط کے انکشافات وہ سربستہ مضامین ہیں جن کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ 4؎
ہمارے سامنے ’الہلال‘ کی فائلوں میں اُن کی مسلمانانِ ہند کو دین کی راہ سے وطنی تحریک سے جوڑنے کی فراست و حکمت اور رہ نمایانِ علی گڑھ کی سرکار پرست پالیسیوں پر تند و تلخ تنقیدوں کا دفتر ضرور کھلا ہوا ہے۔ یہیں سے وہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر اس طرح اُبھرتے ہیں کہ روایتی رہ نمائی کے بُت لرزہ بر اندام نظر آتے ہیں۔ ’الہلال‘ میں اُنھوں نے مسلم علما کی قومی تحریک سے دوری اور سیاسی رہ نمائی میں ناکامی اور دینی رہ بری کی وسعت کے غافلوں کی تقلیدی روش پر اُنھیں جھنجھوڑتے ہوئے لکھا تھا:
’’۔ ۔ ۔ بہتر ہے کہ سرے سے اسلام ہی کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ دنیا کو ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے جو صرف خطبۂ نکاح میں چند آیتیں پڑھ دینے یا بسترِ نزع پر سورۂ یاسین کو دہرا دینے ہی کے لیے کارآمد ہوسکتا ہے؟‘‘ (’الہلال‘ ، 9؍اکتوبر 1912ء ، ص :6)
یہ حقیقت مشہور ہے کہ وہ قومی رہ نمائی کے لیے مسلمانوں کے امام الہند بننا چاہتے تھے لیکن اُن کی راہ میں فرنگی محل اور مولانا عبدالباری جیسے قدامت پسند علما رکاوٹ بنے ہوئے تھے، لیکن کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس سے پیشتر انھیں کلکّتے کی عید گاہ تک میں امامت اور عیدین کے خطبوں سے دست بردار ہو جانا پڑا تھا غالباً اس لیے کہ وہاں کے حورو قصور کی جستجو میں غرق مصلیّوں کی عبادت گزاری میں مولانا آزاد کی فکرِ دنیا کی باتیں حارج ہو رہی تھیں۔
اپنوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں 5؎ اور حکومت کی طرف سے ’الہلال‘ کو ضبط کرنا، مولانا کا اپنی نوائے سروش کو ’البلاغ ‘کے پردۂ ساز پر بلند کرنا، پھر حکومت برتانیا کا ڈیفنس آف انڈیا ریگولیشنز کے تحت بنگال سے اُن کے اخراج کا اعلان اور اسی قانون کے تحت پنجاب، دہلی، یوپی اور بمبئی میں بھی اُن کے داخلے کی پابندی۔ بالآخر رانچی (بہار) کے ایک دور افتادہ خرابے میں اپریل 1916ء سے یکم جنوری 1920ء تک کا قید و نظر بندی کا صعوبت آزما دور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ (حکومت کی نظر میں ) ’الہلال‘ کی شورش انگیزیاں اور اُس کے معاصر ’پانیر‘ کی افترا پردازیاں تو مولانا آزاد کی سزا کا معلوم و معروف سبب ہیں ہی، حکومت اُن کی ماضی کی کچھ سرگرمیوں سے بھی متشکک اور خوف زدہ رہی ہو گی!
مولانا آزاد سے گاندھی جی کا پہلا رابطہ یوں ہوا تھا کہ 1908ء میں مولانا کے والد کی وفات کے سانحے پر اُنھیں ٹرانسوال سے گاندھی جی کا تعزیتی تار ملا تھا، اگرچہ مولانا نے اس کی وجہ یہ باور کرائی ہے کہ ’بمبئی اور ٹرانسوال میں اُن کے والد کے عقیدت مند پائے جاتے تھے‘، 6؎ لیکن ظاہر ہے کہ گاندھی جی اُن میں نہ رہے ہوں گے۔ ہاں ! یہ ممکن ہے کہ وہ مولانا کی سرگرمیوں کی سُن گُن رکھتے ہوں !
1918ء میں جب گاندھی جی چمپارن گئے تھے تو اُنھوں نے رانچی میں نظر بند مولانا آزاد سے ملنے کی کوشش کی تھی لیکن حکومت نے اجازت نہ دی تھی۔ آخر جنوری 1920ء میں دہلی میں دونوں رہ نماؤں کی پہلی ملاقات ہوئی اور ستمبر 1920ء میں مولانا، گاندھی جی کی ’تحریک عدم تعاون‘ سے عملی طور پر وابستہ ہو گئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بہت پہلے ’الہلال‘ میں وہ خود اس طرح کا لائحہ عمل پیش کر چکے تھے۔ یہیں سے ایک طرح سے ’الہلال‘ کے بعد، مولانا کی سیاسی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا اور اُنھوں نے گاندھی جی کی سربراہی قبول کر لی۔ دسمبر 1920ء کے کانگریس کے ناگپور سیشن میں تحریک عدم تعاون کی کام یابی اور تحریک خلافت سے کانگریس کے اشتراک سے انگریزوں کے خلاف گرمائے ہوئے ماحول کا جائزہ لیا گیا۔ یہ دل چسپ اتفاق دیکھیے کہ کانگریس کے اسی سیشن سے جناح نے کانگریس سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ اس موقع کو یاد کرتے ہوئے مولانا نے کبھی اپنے دل میں کہا تو ہو گا ع مرا آنا نہ تھا ظالم تری تمہید جانے کی!
یہاں اس حقیقت کا اظہار کرنا بے جا نہ ہو گا کہ 1920ء میں تحریکِ خلافت کے دوش پر مولانا محمد علی مسلم لیڈر شپ کے علم بردار بنے ہوئے تھے اور اس تحریک میں گاندھی جی ان کے رفیق اور کچھ وقت تک مولانا آزاد اُن کے حلیف بنے رہے تھے۔ اُس زمانے میں مولانا محمد علی کی مذہبی جذباتیت، جوشیلی صحافت اور ہنگامی سیاست پر مبنی لیڈری کے سامنے مولانا آزاد کی فراست و متانت کی حامل سیاست کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا لیکن تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات نے کم سنی ہی میں دم توڑ دیا تھا اور جنوری 1931ء میں مولانا محمد علی نے میدانِ سیاست ہی نہیں عرصۂ حیات ہی سے وداع لے لی تھی۔
اگر ہم یہ حقیقت بھی دھیان میں رکھیں کہ حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری جیسے مسلم رہ نما بالترتیب 1927ء اور 1936ء ہی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے تو یہ احساس اور شدید ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کی مشترکہ قومیت کی بنیاد پر وطن کی آزادی کی جدوجہد میں مولانا آزاد کتنے تنہا پڑ گئے تھے اور اُنھیں کیسے کیسے جاں گسل اور صبر آزما حالات سے لوہا لینا پڑا تھا۔
اور پھر یہ باتیں تو سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ آزادی ہند کی تاریخ میں مولانا آزاد کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بنے اور سب سے طویل مدت تک صدر رہے۔ انھوں نے کانگریس کو کیسے کیسے سیاسی بحرانوں سے نکالا۔ خود پارٹی میں تغیر پسند اور روایت پسند، ترقی پسند اور قدامت پسند کا ٹکراؤ کبھی کبھی کانگریس کو تقسیم کے دہانے پر لے گیا لیکن مولانا نے ہر بار کام یابی سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا راہ نکالی۔ اُ ن کی معاملہ فہمی، تدّبر اور متحدہ قومیت میں اٹل وشواس کی وجہ سے اُنھیں گاندھی جی کے بعد اہم مقام حاصل تھا۔
ملک کی آزادی اور اتحاد کی جدوجہد میں مولانا عزم و استقامت کی چٹان بنے رہے اگرچہ انگریزوں نے کوئی طرزِ ستم چھوڑی نہ اپنوں سے کوئی تیر ملامت چھُوٹا۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کی تقریباً ایک دہائی قید و بند میں گزاری۔ احمد نگر کی اُن کی اسیری کے دور میں کلکتے میں اُن کی بیوی اور بھوپال میں اُن کی ہمشیرہ (آبرو بیگم) اپنی اپنی بیماری سے جان بر نہ ہوسکیں۔ اُن کے ساتھیوں نے فقر و فاقے میں بھی اُن کے صبر و استغنا کی شہادتیں دی ہیں اور یہ رنج و ابتلا اُنھوں نے اپنے امیری و کبیری کے ماحول کو وطن کے لیے تج کر منتخب کیا تھا۔
مسلم لیگ، جس کے پالن ہار نواب اور زمین دار تھے، زندگی بھر مولانا کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی۔ جب جناح نے اُس کی قیادت سنبھالی تو مسلم لیگیوں نے مولانا کو سدا اتہام اور دشنام کا نشانہ بنائے رکھا۔ پنڈت سندر لال نے لکھا ہے کہ ’۔ ۔ ۔ کبھی کبھی اُن کی جان بچانے کے لیے خاص انتظام کرنے پڑتے تھے۔ ایسے موقع پر مہاتما گاندھی آہیں بھر کر یہ کہتے تھے کہ ’’آہ، ہمیں مولانا کے لیے یہ انتظام بھی کرنا پڑتا ہے!‘‘ 7؎
سنگ ہیں ، ناوکِ دشنام ہیں ، رسوائی ہے
یہ ترے شہر کا اندازِ پذیرائی ہے
رضی اختر شوقؔ
ابوسعید بزمی نے مولانا آزاد سے یہ جاننا چاہا تھا کہ قلم روئے علم و ادب اور مذہب وفلسفے کی تاج داری اُنھیں زیب دیتی ہے، پھر وہ سیاست کے خارزار سے اپنا دامن چھُڑا کیوں نہیں لیتے! اور مولانا کی باتوں سے اُنھوں نے اندازہ لگایا تھا کہ چند بار اُنھوں نے ایسا چاہا تھا لیکن گاندھی جی، جواہر لال اور بھولا بھائی ڈیسائی کی دوستی اور محبت نے انھیں سیاست سے الگ نہ ہونے دیا تھا۔ 8؎
مولانا آزاد اور جواہر لال ایک دوسرے کے گہرے رفیق، مزاج داں اور قدر شناس تھے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ نہرو ایک وسیع نظر، با اُصول، روادار انسان اور ہندُستان کی مشترکہ تہذیب کا پیکر تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے نہرو کو جذباتی، حساس اور تصوّر پسند بھی پایا تھا۔ مولانا کا نہرو کے متعلق جہاں یہ دل چسپ تبصرہ ملتا ہے کہ ’نہرو ہر مسئلے کو جس طرح دیکھتے ہیں وہ قومی سے زیادہ بینُ الاقوٰامی ہوتا ہے، وہیں پنڈت نہرو کے رجحان طبع کو دیکھتے ہوئے شایستگی سے کیا گیا یہ اشارہ بھی کہ ’لیڈی ماؤنٹ بیٹن‘ اُن لوگوں کی بھی ہم نوائی حاصل کر لیتی ہیں جو اُن کے شوہر سے پہلے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ ‘ 9؎
مولانا آزاد ، نہرو کی دو بڑی غلطیاں کبھی معاف نہیں کر پائے۔ ایک تو یہ کہ 1937ء کے انتخاب کے بعد یوپی کی وزارت میں لیگ کو شامل نہ کرنا کانگریس کی وہ غلطی تھی جسے جناح نے یوپی میں فرقہ ورانہ ڈھنگ سے اُچھال کر لیگ میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اُنھیں کیبینٹ مشن کی ناکامی کا ذمے دار بھی سمجھتے تھے۔
مولانا آزاد نے کِرپس سے لے کر شملہ کانفرنس ، لارڈ ویول، اور کیبینٹ مشن تک کی ہر گفتگو میں رہ نمائی کی تھی یا شریک رہے تھے۔ 1946ء میں اُنھوں نے کانگریس کی صدارت چھوڑی تو اکثریت کا رُخ سردار پٹیل کی طرف ہوتے ہوئے بھی اُنھوں نے نہرو کو اپنا جا نشیں مقرر کیا تھا، لیکن آزادی کے دس برس بعد اپنی سیاسی سرگذشت لکھواتے ہوئے اُنھوں نے اعتراف کیا کہ اگر اُنھوں نے سردار پٹیل کو اپنا جا نشیں مقرر کیا ہوتا تو وہ جناح کو یہ موقع فراہم نہ کرتے کہ وہ تقسیم کے مطالبے کی طرف مراجعت کریں۔ اس کے علاوہ اُن کی رائے میں جناح کی جارحانہ سیاست کے جواب میں گاندھی جی کا تحمل اور مفاہمت پسندی رویّہ بھی جناح کے حوصلے بڑھانے کا سبب بنا تھا اور گاندھی جی کا اپنے آشرم کی ایک مسلم خاتون کے منہ سے جناح کے لیے ’قائد اعظم‘ کے لفظ سن کر جناح کو لکھے اپنے ایک خط میں اُنھیں ان ہی القاب سے خطاب کرنا بھی غیر دانش مندانہ تھا، لیکن سچ پوچھیے تو 1940ء میں مسلم لیگ کی قرار دادِ پاکستان کے بعد جناح کی فرقہ ورانہ سیاست نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور وہ مولانا آزاد کے متحدہ قومیت کے پیغام کو کانگریس کی سیاسی حکمت عملی سمجھ کر اَن سُنا کرنے لگتے تھے۔
مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ ’پاکستان‘ کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اُترتا۔ کیا دنیا میں کچھ حصّے پاک ہیں کچھ ناپاک!‘ 10؎ اُن کا کہنا تھا کہ ’تقسیم اتنے مسائل حل نہیں کرے گی جتنے کہ پیدا کرے گی۔ ‘ اور سب نے دیکھا کہ اس تقسیم نے مسلمانوں کو وہ نقصانِ عظیم پہنچایا کہ ع کسی صورت کسی عنوان تلافی نہ ہوئی! مغربی اور مشرقی پاکستان کی تشکیل دیکھ کر اُنھوں نے جو پیشین گوئی کی تھی کہ:
’’یہ دونوں علاقے کسی مقام پر ایک دوسرے سے متصل نہیں ہیں۔ یہاں کے باشندے مذہب کے سوا ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ کہنا عوام کو ایک بڑا فریب دینا ہے کہ صرف مذہبی یگانگت دو ایسے علاقوں کو متحد کرسکتی ہے جو جغرافیائی، معاشی، لسانی اور معاشرتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل جُدا ہوں۔ ‘‘ 11؎
کیا ہم نے اُسے مولانا کی تحریر کے صرف 25برسوں میں بنگلا دیش کی صورت میں حقیقت بنتے نہیں دیکھ لیا! اپنی اسی تحریر میں اُنھوں نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہ کیا تھا کہ:
’’اس میں شک نہیں کہ اسلام نے ایک ایسے معاشرے کے قیام کی کوشش کی جو نسلی، معاشی اور سیاسی حد بندیوں سے بالاتر ہو لیکن تاریخ شاہد ہے کہ شروع کے چالیس برسوں یا زیادہ سے زیادہ پہلی صدی کو چھوڑ کر اسلام کبھی سارے مسلمان ممالک کو صرف مذہب کی بنیاد پر متحد نہ کرسکا۔ ‘‘ کیامولانا کی اس تحریر کے مزید 55برسوں بعد بھی اس حقیقت میں کوئی فرق آیا ہے!
مولانا آزاد فطری طور پر ایک دانش ور تھے اور دروغ آمیز سیاست کی زبان نہیں جانتے تھے۔ اُنھوں نے بے لاگ لپیٹ ’الہلال‘ کے صفحات پر اس ’بدبخت و زبوں طالع قوم کو ملکی ترقی کے لیے ایک رُکاوٹ، ملک کی فلاح کے لیے ایک بدقسمتی، راہِ آزادی میں سنگِ گراں ، حاکمانہ طمع کا کھلونا اور ہندستان کی پیشانی پر ایک گہرا زخم بتایا تھا۔ 12؎ اور طفیل احمد منگلوری نے لکھا تھا کہ ’رجعت پسند مسلمان نئے نئے مطالبات پیش کر کے آزادیِ ہند کی راہ میں ’سنگِ گراں نہیں مثل کوہِ گراں ثابت ہوئے تھے۔ 13؎ یہ تلخ نوائیاں سید حامد جیسے بہت سے مخلصانِ قوم کے گلے میں صبر و حنظل گھول جاتی ہیں ، لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی! دیکھیے’سچی باتیں ‘ لکھنے والے مولانا عبدالماجد دریابادی نے جو خود بھی پاکستان کی تحریک کے حامی تھے ، اپنی ’آپ بیتی‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔
’’جب میں نے اپنے ہوش کی آنکھیں کھولیں ، مسلمانوں کی پالیسی سرکار انگریزی کی تائید و وفاداری کی پائی۔ علی گڑھ تو خیر اس کے لیے مشہور ہی تھا۔ باقی دیوبند، ندوہ، فرنگی محل، بریلی، بدایوں ، کیا علما و مشائخ اور کیا قومی لیڈر، اردو اخبار سب اسی خیال و عقیدے کے تھے کہ سرکار کی وفاداری کا دم بھرے جائیے، مفادِ ملّی کا عین یہی تقاضا ہے۔ ‘‘ (ص:260)
آزادی کے بعد عدم تشدّد کے پیروؤں کی دہشت گردی اور دلّی میں مسلمانوں کی ہلاکتیں دیکھ کر مولانا نہ جانے کس قیامت سے گزرے ہوں گے! سردار پٹیل کہتے تھے کہ دونوں طرف کی اقلیتیں ایک جیسے انجام سے گزر رہی ہیں۔ بیگم انیس قدوائی نے اپنی ایک کتاب میں اُس دور کی داستانِ اشک و خوں کا مرقّع کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اُنھوں نے کتنی پُر مغز بات لکھی ہے: ’’افراد کا کردار حکومت کا کردار بن جاتا ہے اور اُن کا اخلاقی زوال ملک و قوم کا تنزّل!‘‘14؎
مولانا نے اپنی زندگی ہی میں نومولود ’مملکتِ خداداد‘ میں یہاں سے زیادہ بدامنیوں اور شورش انگیزیوں کا دور دورہ دیکھا تھا اور مہاجروں کے ناگفتہ بہ حالات بھی۔ اُس وقت اُن کے دلِ حزیں میں ضرور یہ سوال آیا ہو گا ؎
بُجرم عشق اگر کُشتی مرا، ممنونِ احسانم
گناہِ زاہدے بیچارہ یارب چیست! حیرانم
(حزیں ؔ)
(ترجمہ: اگر عشق کے جرم میں تُو نے مجھے ہلاک کیا تو مَیں (اس) احسان کا ممنون ہوں ، لیکن یارب! بے چارے زاہد نے کون سا گناہ کیا ہے؟ میں (اس پر) حیران ہوں !)
اور یہاں اپنی جامع مسجد کی 23؍اکتوبر 1947ء کی تقریر میں اُنھوں نے ’سات کروڑ انسانوں کے غول‘ کو مخاطب کر کے اپنے دلِ پُر درد کی جو داستاں سُنائی تھی، اس کے بعد کہنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچتا۔
مولانا کی نوائے سروش دراصل صحرا کی اذان تھی، جسے کوئی گوشِ شنوا نہ ملا اور اُن کے فکر و نظر کی روشنی ’سُونے مکان کا دِیا‘ تھی، جسے کوئی دیدۂ بینا میسّر نہ ہوا، دراصل برِّصغیر کے مسلمانوں نے مولانا آزاد کی بجائے جناح کا ساتھ دے کر 15؎ اپنی ہزار سالہ مشترکہ تہذیب کی بربادی کے اُسی سفر میں ایک اور جست لگائی تھی جس کا آغاز انھوں نے 300برس قبل دارا شکوہ کی بجائے اورنگ زیب کا ساتھ دے کر شروع کیا تھا۔ تب سے بحیثیت ِ مجموعی برِّ صغیر کا مسلمان، وہ چاہے یہاں کا ہو یا وہاں کا، اس مصرعے کی تصویر بنا ہوا ہے :
ع مَیں ہوں لفظِ ’درد‘ جس پہلو سے اُلٹو درد ہے۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل
مرارجی ڈیسائی نے اِنڈین نیشنل کانگریس کے صد سالہ یادگاری مجلّے1؎ میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تعارف لکھا ہے۔ اُس کا ملخص یوں ہے کہ ’وہ ناڈیاڈ کے ایک کاشت کار خاندان میں 1875میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ گودھرا میں وکالت کرنے لگے تھے پھر وہاں سے بورسد (ضلع کھیڈا) منتقل ہو گئے، جہاں جرائم کا گراف کافی بڑھا ہوا تھا۔ وہاں وکیل دفاع کی حیثیت سے اُن کا بڑا شہرہ ہوا۔ 1909 ء میں جب اُن کی بیوی کسی بیماری میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھی اور وہ آنند میں کسی قتل کے مقدمے میں ایک گواہ سے جرح کر رہے تھے، اُنھیں کاغذ کے ایک پرزے پر یہ المیہ خبر دی گئی کہ اسپتال میں آپریشن کے دوران اُن کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ ‘ اُنھوں نے کسی طرح کے تاثرات ظاہر کیے بِنا جرح کی کارروائی مکمل کی اور بعد میں دوسروں کو اس سانحے سے مطلع کیا۔ آگے چل کر آہنی انسان کہلانے والے ولبھ بھائی کے مزاج کے استقلال اور جذبات پر قابو رکھنے کا یہ پہلا نقش تھا جو وہاں لوگوں کے دلوں پر ثبت ہو گیا تھا۔ 1910ء میں وہ وکالت کی مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے تھے، اور1913ء میں وہاں سے بیرسٹر بن کر لوٹنے کے بعد اُنھوں نے احمد آباد میں پریکٹس شروع کر دی تھی۔
1918ء میں اُنھوں ضلع کھیڈا کے مفلوک الحال کاشت کاروں پر سے لگان کی موقوفی کے لیے تحریک چلائی تھی اور اُسی دور میں وہ گاندھی جی کی تحریک سے وابستہ ہوئے تھے۔ جب 1928ء میں باردولی میں اُن کی قیادت میں محصول اراضی کا اضافہ ختم کرانے کی تحریک کامیاب ہوئی تھی تو وہاں کے کسانوں نے خوش ہو کر اُنھیں ’سردار‘ کہنا شروع کر دیا تھا جو بالآخر اُن کے نام کا جُز بن گیا۔ ہم بھی آیندہ سطروں میں اُنھیں سردار سے خطاب کریں گے۔
جیسا کہ مولانا آزاد نے لکھا ہے، سردار پوری طرح گاندھی جی کے ساختہ پرداختہ لیڈر تھے۔ 1931ء میں گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد جب کانگریسی رہ نماؤں کو داخلِ زنداں کیا گیا توسردار سولہ ماہ تک گاندھی جی کے ساتھ یروڈا جیل میں رہے تھے۔
ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب ’سردار پٹیل اور ہُندستانی مسلمان‘ 2؎ میں اُن کی شخصیت اور کردار کے کئی پہلو روشن کیے ہیں۔ مثلاً اُنھوں نے گاندھی جی کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد وکالت کے دور کا مغربی لباس، کلب کی زندگی کا لطف و انبساط اور شام ڈھلے کی برج پارٹیاں ساری چیزیں ترک کر دی تھیں اور فکری ہی نہیں ظاہری اعتبار سے بھی پکّے ہندستانی بن گئے تھے۔ وہ ایک سخت مزاج، قوی جُثّہ اور کھردرے لب و لہجے کے انسان تھے۔ اُن کے سلسلے میں مشہور تھا کہ ’اُن کا بھونکنا کاٹنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ‘ بقول مینومسانی وہ بہت ذہین تھے نہ ذوقِ نظر کے حامل۔ اُن کے بارے میں یوسف مہر علی کی کہی ہوئی یہ بات بھی مشہور ہے کہ ’اگر سردار پٹیل کسی کلچر سے واقف ہیں تو وہ صرف ایگری کلچر ہوسکتا ہے۔ 3؎ دوسرے مذاہب تو دُور رہے اُن کا ہندو مذہب کا مطالعہ بھی رسمی نوعیت کا تھا۔ اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ اُنھوں ’رامائن‘ اور ’مہابھارت‘ کا مطالعہ کیا تھا، لیکن ان رزمیہ قومی داستانوں کے مطالعے سے تو ملک کے 90% پڑھے لکھے لوگ (مسلمان بھی) محظوظ ہوتے رہتے ہیں ! ایک بار گاندھی جی کے سکریٹری مہادیو ڈیسائی سردار کا یہ سوال سُن کر دنگ رہ گئے تھے کہ ’سوامی وویکا نند کون تھے؟‘ اور سردار کو خجل ہونا پڑا تھا۔
مجموعی طور پر سردار ایک نڈر، مصلحت ناپسند اور (تقسیم ملک سے قبل تک) غیر متعصب شخص تھے۔ اُنھوں نے دھرم کے ڈھکوسلوں اور فضول رسموں کا کبھی دفاع نہیں کیا تھا۔ کانگریس کے پرچار کے جلسوں میں بھی اُنھوں نے لوگوں کے مذہبی جذبات کی پروا نہیں کی تھی۔ ایک بار بچپن کی شادی کی مخالفت میں اُنھوں نے ہندوؤں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسی مضحکہ خیز شادیاں رچانے والے ماں باپ اور پنڈتوں کو گولی مار دینے والے قانون پر عمل کریں گے۔ یہ جو مذہب کے خطرے میں ہونے کا واویلا مچایا جاتا ہے تو دراصل ان ہی والدین اور پنڈتوں نے مذہب کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ اسی طرح اُنھوں نے مسلمانوں کو پردے کے رواج پر یُوں لتاڑا تھا کہ ’’عورتوں کو پردے میں رکھتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آتی! یہ عورتیں تمھاری مائیں ، بہنیں ، بیویاں ہی تو ہیں ، اُن پر شک کرنے کا تمھیں کیا حق ہے؟ کیوں اُنھیں غلاموں کی طرح قید کر رکھا ہے؟ میرا جی چاہتا ہے کہ میں عورتوں سے کہوں کہ ایسے بزدل شوہروں کے ساتھ زندگی گزارنے سے تو بہتر ہے کہ وہ اُنھیں طلاق دے دیں۔ ‘‘
لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی جدید طرزِ فکر کے حامل تھے۔ اُن کے سوانح نگاروں نے اُنھیں قدامت پسند پایا ہے۔ مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ احمد نگر کی جیل میں جب قیدیوں کو ہیضے کے مدافعتی ٹیکے لگائے جا رہے تھے تو سردار پٹیل اور چند ساتھیوں نے ٹیکے لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔ سیکولرزم کے نظریے کی ’بِنا مذہبی‘ تعریف اُنھیں ناپسند تھی اور وہ نہروئن سوشلزم کے بھی حامی نہ تھے۔ اس کے برخلاف وہ آزاد معیشت کے زبردست مویّد ہونے کی وجہ سے سرمایہ داروں میں مقبول تھے اور کانگریس پارٹی کے لیے فنڈ جمع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بھی۔ 4؎عبوری حکومت کے دنوں میں مسلم لیگی وزیر خزانہ لیاقت علی خاں کے بجٹ کے ٹیکسوں نے تاجروں پر آفت ڈھا دی تھی، جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، اُس وقت سردار تِلملا کر رہ گئے تھے۔
مولانا آزاد اور سردار پٹیل کا تقریباً تیس برسوں کا ساتھ رہا تھا۔ مولانا آزاد نے ’ہماری آزادی‘ میں ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے، جِن سے اقلیتوں کے سلسلے میں سردار کے منافرانہ نہیں تو غیر دوستانہ اور غیر ہم دردانہ رویّے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً 1935-36ء میں بمبئی کی صوبائی حکومت کی تشکیل کے وقت وہاں کے ممتاز پارسی رہ نما مسٹر نریمان کا حق ہوتے ہوئے بھی سردار نے بی جی کھیر کو بمبئی کا پہلا چیف منسٹر بنا دیا تھا، اُس کے بعد مسٹر نریمان کا سیاسی کرئیر پھر پنپ نہ سکا تھا، اس پر مستزاد بی جی کھیر ہی کے عہد میں کانگریس کی نافذ کردہ شراب بندی نے اس کاروبار کے اجارہ دار پارسیوں کی تجارت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اُن کی تالیف ِ قلب کے خیال سے دہلی میں 1946ء کی عبوری حکومت میں مولانا آزاد نے سردار کو صلاح دی تھی کہ وہ کسی پارسی کو بھی کابینہ میں شامل کر لیں۔ وہ اس چھوٹی سی جماعت کی حسنِ معاشرت و طرز معیشت اور اُس کی کانگریس سے وفاداری کے پیش نظر مخلصانہ جذبات رکھتے تھے۔ سردار نے غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بیٹے کے ایک دوست ایچ سی بھابا کو شامل کیا تھا، جو کسی بھی اعتبار سے پارسیوں کے نمائندے نہیں تھے اور اپنی نااہلی کی بِنا پر کابینہ میں ٹِک بھی نہ سکے تھے۔ اس کے علاوہ بمبئی کے کامیاب وکیل بھولا بھائی ڈیسائی نے اپنی فرض شناسی اور حسنِ کارکردگی کی بِنا پر مختصر سی مدت میں پارٹی میں جو عروج حاصل کر لیا تھا وہ بہت سے پرانے کانگریسیوں (بشمول سردار پٹیل) کے لیے رشک و حسد کا سبب بن گیا تھا۔ 1945ء میں ایک بے بنیاد تنازعہ کھڑا کر کے اُن کی اس حد تک کردار کُشی کی گئی وہ مردِ شریف دل کے مرض میں مبتلا ہوکے لقمۂ اجل بن گیا تھا۔
بنگال کے کرن شنکر رائے اور کئی کانگریسی لیڈروں کو تقسیم ملک کے سمجھوتے کی یہ شق بہت وحشیانہ لگی تھی کہ تقسیم کے بعد ایک طرف کی اقلیت کے تحفظ کی ضمانت دوسری طرف کی اقلیت کی سلامتی سے مشروط ہو گی۔ گویا انھوں نے اپنی اپنی اقلیتوں کو یرغمال کی حیثیت دے دی تھی۔ رائے کی دُہائی صدر کانگریس نہرو نے سُنی نہ ہی سردار پٹیل نے۔ کرن شنکر رائے نے اپنی زندگی ہی میں اپنے اندیشوں کو خوں چکاں مناظر میں بدلتے دیکھا تھا اور آبدیدہ ہوتے رہے تھے۔
نہرو اور سردار دونوں ہی گاندھی جی کے قریب تھے اور اُن میں کچھ نہ کچھ مسابقت کا جذبہ بھی موجود تھا۔ 1950ء کے کانگریس کے ناسک سیشن میں ان میں ٹکراؤ کی نوبت آ گئی تھی جب سردار نے کانگریس کی صدارت کے لیے مسلم دشمنی میں مشہور پرشوتم داس ٹنڈن کو نام زد کر دیا تھا۔ ٹنڈن، پنڈت نہرو کے لیے شخصی اور نظریاتی ہر اعتبار سے ایک ناپسندیدہ شخص تھے۔ اُنھوں نے نسبتاً کم ناپسندیدہ اچاریہ کرپلانی کے نام پر مصالحت کرنا چاہی تھی۔ سردار نے ہوا کا رُخ جاننے کے لیے فخرالدین علی احمد اور دوسرے لیڈروں کے پاس مخبر دوڑایا۔ اُن لوگوں کا رجحان نہرو کی حمایت میں دیکھ کر اُنھوں نے فخرالدین علی احمد سے کہا تھا کہ ’کیا تم لوگوں کی مت ماری گئی ہے! یاد رکھو، نہرو وہ شخص ہے جو نہ کسی دشمن کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی دوست کی مدد کرسکتا ہے۔ مگر میں نہ تو کبھی اپنے دوست کو بھولتا ہوں اور نہ ہی دشمن کو معاف کرتا ہوں۔ ‘ آخر ٹنڈن جیت گئے تھے اور نہرو کو سخت صدمہ ہوا تھا۔ جب ٹنڈن کی سوشلزم مخالف اور غیر روادارانہ پالیسیاں اُن کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی تھیں تو نہرو نے ورکنگ کمیٹی سے استعفا دے دیا تھا۔ اُس وقت سردار کے ہوا خواہوں نے اُنھیں اُکسایا تھا کہ وہ خود وزیر اعظم بن جائیں۔ سردار بہرکیف حقیقت پسند تھے، اُنھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ پارٹی میرے ساتھ ہے، لیکن عوام نہرو کے ساتھ ہیں۔ ‘ آخر نہرو کے بِنا ورکنگ کمیٹی کے ممبران کے عدم تعاون کے اندیشے سے ٹنڈن مستعفی ہو گئے تھے اور نہرو نے صدارت سنبھال لی تھی۔
جب 1946ء میں مولانا آزاد نے کانگریس کی صدارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تو 16 میں سے 13ریاستی نمائندوں کی حمایت سردار کو حاصل تھی، لیکن مولانا نے نہرو کو ترجیح دی تھی اور گاندھی جی کو بھی ہم نوا بنا لیا تھا۔ اُس کے باوجود سردار نے کشادہ دلی کے ساتھ شکریہ کی تحریک پیش کر کے مولانا آزاد کی کانگریس کے صدر کی حیثیت سے انجام دی گئی خدمات کو سراہا تھا۔ سردار کو اس بات کا ہمیشہ افسوس رہا تھا مسلمان گاندھی جیسے مخلص انسان کی بات نہیں سنتے تھے اور حیرت رہی تھی کہ مولانا آزاد جیسا راست باز اور عالمِ دین، جناح جیسے بے عمل اور صرف نام کے مسلمان کے اثر کو زائل کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ وہ خان عبدالغفار خان کے زیادہ قائل تھے، جنھوں نے پٹھانوں میں جناح کو کبھی پنپنے نہیں دیا تھا اور اُن کا صوبہ سرحد مسلم لیگ کے لیے ناقابلِ تسخیر رہا تھا۔ نجانے سردار نے یہ بات کیسے نظر انداز کر دی کہ علاقائی یا قبائلی سطح کی کامیابی الگ چیز ہے جب کہ ملک گیر سطح پر لوگوں کا رجحان بدلنا آسان نہیں !
بقول راج موہن گاندھی سردار کی دنیا میں مسلمانوں کا کوئی گزر نہیں رہا سوائے اپنے کانگریسی ساتھیوں ، علی برادران اور چند اور مسلمانوں کے۔ ایک بار گاندھی جی نے اُنھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی تہذیب و روایات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے اردو زبان سیکھ لیں۔ سردار نے اپنی بڑھتی عمر کا عذر کرتے ہوئے اُن پر یہ طنز کیا تھا کہ ’آپ کے اردو سیکھ لینے سے کون سے خاطر خواہ نتائج نکلے ہیں ! آپ جتنا اُن کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ اتنا ہی آپ سے دور بھاگتے ہیں۔ ‘
تقسیم کے بعد ہندُستان میں اردو کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ پاکستان نے اردو کو اپنی قومی زبان بنا لیا تھا اور ہندی حکومتِ ہند کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے لگی تھی۔ سردار نشر و اشاعت اور معلومات عامّہ کے بھی وزیر تھے۔ اردو زبان سے اگر اُن کے تعصّب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو محبت کا بھی نہیں ملتا۔ ڈاکٹر زکریا نے جو چند مثالیں پیش کی ہیں وہ اُن کی اردو کی حمایت کی نہیں حکمت عملی کی مظہر ہیں۔ وہ ملک کی زبان کے لیے گاندھی جی کی تقریروں کی زبان کو مثالی مانتے تھے۔ اُنھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں سنسکرت آمیز ہندی کے بڑھتے استعمال پر ایک بار آر آر دیواکر کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’آل انڈیا ریڈیو کی زبان عام فہم ہونی چاہیے، یہ کوئی ادبی کلب نہیں ہے۔ ‘ اسی خط میں انھوں نے مشورہ دیا تھا کہ آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کا کچھ حصہ اردو میں پبلسٹی اور مسلمانوں اور پناہ گزینوں میں سیکولر تہذیب و ثقافت کو عام کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ‘ سردار کی ایما پر پبلی کیشن ڈیویزن سے جریدہ ’آج کل‘ جاری ہوا تو مقصد یہی تھا کہ حبِ وطنی اور قومی ہم آہنگی کے جذبات کو فروغ دیا جائے جیسا کہ انھوں نے جوشؔ کو مشورہ دیا تھا۔ جوشؔ کو سروجنی نائیڈو کی سفارش پر اڈیٹر بنایا گیا تھا، لیکن اُن کی تقرری سے پہلے سردار نے اپنے سکریٹری وی شنکر کی زبانی جوش کی نظمیں سُن کر اُن کے فِکری پہلو سے اپنی تسلی کر لی تھی اور وہ جوشؔ کی انقلابی اور وطنی جذبے کی نظمیں سُن کر واقعی بہت خوش ہوئے تھے۔
کانگریسی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ڈاکٹر زکریا کی کتاب کا 75%حصّہ سردار پر لگے فرقہ پرستی کے الزامات کی صفائی میں صرف ہوا ہے۔
سردار کی رواداری کی مثال میں زکریا نے لکھا ہے کہ انھوں نے فسادات کے دنوں میں بھی دہلی کے مسلم چیف کمشنر خورشید احمد کو اُن کے عہدے پر برقرار رکھا تھا۔ جب کہ مولانا آزاد کے بموجب صاحب زادہ آفتاب احمد کے صاحب زادے خورشید احمد محض نام کے افسر اعلا تھے۔ کہیں اُن پر مسلمانوں کی طرف داری کا الزام نہ لگ جائے ، اس ڈر سے اُنھوں نے فساد روکنے کے ضروری قدم بھی نہ اُٹھائے تھے۔
1949ء میں جب اُتر پردیش میں گوند ولبھ پنت وزیر اعلا تھے، بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئی تھی۔ ڈاکٹر زکریا نے پنت کے نام لکھے سردار کے اس پیغام کو بھی کافی سراہا ہے کہ ’’اگر ہم اس معاملے میں کسی خاص گروہ کی طرف داری کرتے ہیں تو یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہو گی۔ ‘‘ لیکن اُنھوں نے خط کے بینِ سطور پیغام پر غور نہیں کیا جس میں ’طے شدہ اُمور‘ کو بھی اقلیتوں کو پرچا کر حل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اُس واقعے کے تناظر میں بھاجپا کو لتاڑتے ہوئے ڈاکٹر زکریا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’جمہوریت اور سیکولرزم کے عہدِ جدید میں فاشسٹوں نے بابری مسجد کو پیشگی علم و اطلاع کے ساتھ دن کے اُجالے میں منہدم کر کے ملک اور قوم کا وقار ملیا میٹ کر دیا تھا۔ لیکن اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کانگریس ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم پر عمل پیرا رہی تھی اور مشہور صحافی شمس کنول کے لفظوں میں ’چوکی دار ہی چور سے مل گیا تھا۔ ‘
گاندھی جی نے دہلی میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کے لیے سردار کو ذمے دار مانا تھا اور اُن کی بے عملی کو دیکھ کر اُنھیں فسادات رکوانے کے لیے اپنی ضعیفی میں برت رکھنا پڑا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب گاندھی جی قتل کر دیے گئے تو جے پرکاش نرائن نے اپنے غم و غصّے کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہندُستان کا وزیر داخلہ اس قتل کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا۔ جب گاندھی جی کے خلاف کھلے عام زہریلا پروپیگنڈا ہو رہا تھا اور اُن کی پرارتھنا سبھا میں ایک بم پھینکا بھی جا چکا تھا تو اُن کے تحفظ کا خاص انتظام کیوں نہیں کیا گیا!‘
آج اس بات کا ذکر ایک کارنامے کی طرح کیا جاتا ہے کہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ راشٹر پتا کے قتل پر اگر اتنا بھی نہ کیا جاتا تو اس سے بڑی نااہلی اور کیا ہوتی! طرفہ تماشا یہ کہ صرف سولہ سترہ ماہ میں گوالکر کی اس یقین دہانی پر پابندی ہٹا لی گئی تھی کہ اس تنظیم کی سرگرمیاں تہذیب و ثقافت تک محدود رہیں گی۔ وہ ملک کے دستور کی پابند ہو گی اور قومی پرچم کا احترام کرے گی۔ 15دسمبر 1950کو سردار کی آنکھیں مُندتے ہی اس تنظیم نے اپنے عہد کی دھجیاں اس طرح اُڑائیں کہ 26جنوری 2002ء تک 52برسوں میں اپنے ہیڈ کوارٹر ’اسمرتی بھون‘ (ناگپور) پر کبھی قومی پرچم نہیں لہرایا اور وہاں آج بھی گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ایک شہید کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد سردار مسلم لیگ کی فرقہ پرستی کا عملی جواب ثابت ہوئے تھے۔ اُنھوں نے مسلمانوں پر اعتبار نہ کرنے کی پالیسی اپنائی تھی، اس لیے کہ وہ انھیں تقسیم کا ذمے دار سمجھتے تھے۔ اُنھوں نے ’پرمٹ سسٹم‘ کے ذریعے 15؍اگست 1947ء سے قبل پاکستان گئے ہر ہندُستانی مسلمان کی ہندُستانی شہریت ختم کر دی تھی، چاہے وہ سیر و تفریح کے لیے یا کسی رشتے دار ہی کے پاس کیوں نہ گیا ہو۔ اس کے علاوہ ’قانون ضبطیِ جائیداد‘ کا نفاذ کر کے ہندُستان سے جانے والے مسلمانوں کے کاروبار، صنعتیں ، دکانیں ، زمینیں ہر طرح کی منقولہ غیر منقولہ جائیداد ضبط کر کے اُنھیں تباہی کے غار میں ڈھکیل دیا تھا۔ پھر بھی اُنھیں اس بات کی خلش رہی تھی کہ اس سے دس گنا جائیدادیں ہندوؤں اور سکھوں کی پاکستان نے ہڑپ کر لی ہیں۔ ڈاکٹر زکریا نے لکھا ہے کہ ہندُستانی مسلمانوں کی اس تباہی کے ذمے دار بھی جناح تھے، جن کی زندگی ہی میں پاکستان نے ان سیاہ قوانین کے نفاذ کی پہل کی تھی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے اس عہد میں سردار پر بھی فرقہ پرستی کا رنگ چڑھ رہا تھا۔ بقول راج موہن گاندھی اُنھیں پچاس مسلمانوں کی موت پر اتنا غم نہ ہوتا تھا جتنا پانچ ہندوؤں یا سکھوں کی موت پر!
نہرو کی بار بار کی فہمائش اور مسلمانوں سے ہم دردی پر خفا ہو کر اُنھوں نے ایک بار کہہ دیا تھا کہ ’ہندُستان میں صرف ایک محب وطن مسلمان ہے اور وہ نہرو ہے۔ ‘ یہ فقرہ آگ کی طرح پھیل گیا تھا اور گاندھی جی نے پریشان ہو کر اُنھیں متنبہ کیا تھا کہ ’وہ اپنی ذہانت کی نمائش میں اتنے بے احتیاط نہ ہوں۔ ‘ لیکن اُنھوں نے گاندھی جی کو بھی نہیں بخشا تھا اور اُن کی بار بار کی تنبیہوں پر یہ گستاخانہ جواب دیا تھا، ’’مسلمانوں کے ساتھ نرمی برتنے کی وجہ سے آپ کا دماغ پلپلا ہو گیا ہے۔ ‘‘
شمس کنول نے اُن کے بارے میں لکھا تھا کہ ’سردار سیاست داں ہونے کے باوجود دوغلے اور ریاکار نہ تھے، اس لیے اُن کا یہ کہنا مسلمانوں کو بُرا لگتا تھا کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے دو کشتیوں میں سوار ہونا خطرناک ثابت ہو گا، جِن کو ہندُستان سے زیادہ پاکستان عزیز ہے اُن کو چاہیے کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ ‘
پھر اُنھیں کچھ واقعات اور ساتھیوں کے تجربوں نے بھی سخت گیر بنا دیا تھا۔ جب سردار کو بتایا گیا کہ حیدرآباد کے مسلمانوں نے لائق علی (نظام حیدر آباد اور قاسم رضوی کے قریبی ساتھی) کے پولس کی نگرانی سے نکل بھاگنے کا جشن منایا ہے تو اُنھوں نے کہا تھا: ’’کیا مسلمانوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اُن کا مستقبل ہندُستان سے وابستہ ہے!‘‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر سیّد محمود، ہندُستانی فضائیہ کے ایک سبک دوش مسلمان افسر اعلا اور چودھری خلیق الزماں جیسے لوگوں کے کردار و عمل نے بھی اُن کے مزاج کو عدم رواداری کی طرف پھیر دیا تھا۔
ڈاکٹر سید محمود جو کانگریس کے ایک ممتاز لیڈر اور ’ہندستان چھوڑ دو‘ تحریک کے گرفتاروں میں سے تھے۔ احمد نگر کی اسیری میں اُنھوں نے اپنے آزاد اور نہرو جیسے ساتھیوں سے چھپا کر وائسراے کو خط لکھا تھا اور تحریک سے اپنی علاحدگی کا یقین دلا کر اپنی رہائی کا سودا کر لیا تھا۔ اُن کی رہائی کا راز کھلنے پر سردار نے کہا تھا کہ ’اگر اُنھوں نے یہ نہ کیا ہوتا اور مر گئے ہوتے توہم اُن کی زندگی کو خوش گوار ڈھنگ سے یاد رکھتے!‘ اس کے علاوہ ہندُستان میں رہ گئے مسلم لیگ کے قد آور لیڈر چودھری خلیق الزماں نے 15؍اگست کو ہندستان کی پارلی منٹ میں ہندستان سے اپنی وفاداری کا ایسا جذباتی اظہار کیا تھا کہ پنڈت نہرو نے اُ ٹھ کر اُنھیں گلے لگا لیا تھا۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک خیر سگالی وفد لے کر پاکستان گئے تھے اور اُسی کو پیارے ہو گئے تھے۔ خیر گزری کہ سردار نے اپنی زندگی میں اپنے پسندیدہ شاعر جوشؔ کو پاکستان سدھارتے نہیں دیکھا۔
آزادی کے بعد وہ صرف تین برس چار ماہ زندہ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ گاندھی جی کی ناراضی جو نفرت میں بدل گئی تھی نہ سہہ پائے تھے اور اُن کے قتل کے سانحے کے چند ماہ بعد دل کے مریض بن گئے تھے۔
آزاد ہند کی تاریخ میں سردار کا سب سے بڑا کارنامہ ایک ہی سال میں 562دیسی ریاستوں (جن میں 366گجرات میں تھیں ) کا ہندستان سے انضمام کرانا تھا، جس کے لیے اُنھوں نے سام دام ڈنڈ بھید ہر حکمت عملی سے کام لیا تھا۔ اُسی دوران اُنھوں نے کانگریس کی تنظیم کو مضبوط کرنے اور ملک کے حالات کو معمول پر لانے میں بھی کام یابی حاصل کر لی تھی۔ سردار ایک انتہائی فعال اور les tractableلیڈر تھے۔ مولانا آزاد نے اُن کی انتظامی صلاحیت اور اپنے مقاصد کے لیے جو عزم دیکھا تھا وہ سردار کے بعد اُنھوں نے شاید ہی کسی میں پایا ہو! رہی تقسیم کے بعد کی خوں ریزیاں اور فسادات تو وہ سب اِس تقسیم کا لازمی نتیجہ تھا جسے مولانا جانتے تھے اور لوگوں کو خبردار کرتے رہے تھے لیکن سات کروڑ انسانوں کا گلّہ اُن کی بات ماننا نہیں چاہتا تھا۔ آخر دس برس بعد پٹیل کو اپنا جا نشیں منتخب نہ کرنے کے فیصلے پر اُن کے اظہارِ افسوس سے کیا یہ اشارہ نہیں ملتا کہ مولانا نے اُنھیں اُن پر لگے الزامات سے بری کر دیا تھا!
محمد علی جناح
مہاتما گاندھی، سردار پٹیل اور محمد علی جناح، گجراتی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ان تینوں سپوتوں نے ایک ہی عہد میں چند برس کے فرق سے جنم لیا تھا اور بالترتیب 75,78اور 71 برس کی زندگی پائی تھی۔ ان تینوں ہی نے برتانیا میں قانون کی اعلا تعلیم حاصل کی تھی اور ہندستان کی آزادی کی تاریخ میں اپنے امٹ نقوش چھوڑ کر بیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے، مختصر سے وقفے کے فرق سے اس دنیا سے گزر گئے تھے۔
مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل نے وطنی جدوجہد کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح وقف کرنے کے لیے وکالت کو خیرباد کہہ دیا تھا، جب کہ جناح نے اس پیشے میں اپنی مہارت کی دھاک بٹھانے کی ٹھان لی تھی اور وہ واقعی ایک اچھے بیرسٹر ثابت ہوئے تھے۔ 1900ء میں جب ایک بار بمبئی پریسی ڈنسی مجسٹریٹ کا عہدہ خالی ہوا تو عبوری مدت کے لیے جناح کا تقرر کیا گیا تھا۔ چھ ماہ کی مدت گزر جانے پر جب اُنھیں پندرہ سوروپیے مشاہرے کی مجسٹریٹی مستقل کیے جانے کی پیش کش کی گئی تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ’اتنی رقم وہ یومیہ کمانا پسند کریں گے‘ اور اُنھوں نے یہ کر دکھایا تھا۔
سردار نے وکالت ترک کرنے کے ساتھ اپنے مغربی لباس و اطوار کو بھی ترک کر دیا تھا اور گاندھی جی نے ملک کے طول و عرض کا دورہ کرنے کے بعد غریب ہند ستانیوں کے ساتھ اپنی زندگی کو یوں وابستہ کیا تھا کہ اپنے ہتھ کرگھے پر بنی دھوتی کو اپنا کُل لباس بنا لیا تھا۔ جناح ولایت میں مغربی نظریات، اندازِ فکر کے ساتھ ساتھ وہاں کی طرزِ معاشرت کے رنگ میں رنگ چکے تھے اور وہ لندن سے دو سو سوٹ مع گہرے کلف شدہ قمیصوں اور بدلی جانے والی کالروں سے لدے پھندے آئے تھے۔ اُنھیں ایسا بیرسٹر ہونے کا فخر بھی حاصل ہے جس نے اپنی زندگی میں کوئی سلک ٹائی دو بار استعمال نہیں کی! جب کنگ جارج نے دوسری گول میز کانفرنس میں آئے ہندستانی وفد کو بکنگھم پیلس میں ڈنر پر مدعو کیا تھا تو گاندھی جی نے واضح کر دیا تھا کہ وہ ڈنر کے روایتی لباس میں جانے کا تکلف نہیں کریں گے اور وہ اپنی دھوتی اور چپل پہنے ہوئے بکنگھم پیلس میں داخل ہوئے تھے۔ (1) لندن کی سردیوں کی وجہ سے اُنھوں نے اپنے کندھوں پر ایک شال ضرور ڈال لی تھی، جب کہ تقسیم ہند کے دنوں میں ایک غیر ملکی نامہ نگار نے جناح کا انٹرویو لیتے وقت یہ محسوس کیا تھا کہ اُن کا دھیان انٹرویو میں کم اور اپنی آستین کی طرف زیادہ مرکوز ہے ، آخر وہ دو منٹ کی مہلت لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے تھے اور لوٹنے کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ سوالوں کے جواب دینے لگے تھے اس لیے کہ اُن کا کف لنک جو پہلے کچھ ترچھا لگا ہوا تھا، سیدھا کیا جا چکا تھا۔ جناح کی مغرب زدگی پر بلراج پوری کا یہ فقرہ مشہور ہے کہ ’جناح نے مرتے وقت بھی اصرار کیا تھا کہ ’اُنھیں اُن کا Formalلباس پہنایا جائے، وہ پائجامے میں نہیں جائیں گے۔ ‘ 2؎
بہرکیف وہ صرف بیس سال کی عمر میں بیرسٹر بن جانے والے بمبئی کے پہلے مسلم نوجوان تھے۔ وہ دادا بھائی نوروجی اور فیروز شاہ مہتا جیسے مثالی پارسی رہ نماؤں سے متاثر تھے۔ اُن میں غضب کی خود اعتمادی تھی اور جب اڈوکیٹ جنرل آف بمبئی John Molesworth Mac Phasronنے اُنھیں اپنے لیگل چیمبر میں شامل کیا تو گویا وہاں سے اُن کے روشن مستقبل کے سفر کا آغاز ہو گیا تھا۔ جب وہ 1910ء میں بمبئی پریسی ڈنسی وائسراے کی قانون ساز کونسل میں مسلم نمائندے کی حیثیت سے منتخب ہوئے تو وہاں بھی اُن کی جرّت و ذہانت کے مظاہرے دیکھے گئے تھے۔ جناح نے انڈین کونسل میں ہندستانی نمائندوں کی تعداد بڑھانے اور اُن کی موجودگی کو موثر بنانے کی تجویزیں پیش کی تھیں اور اُن کی کوششوں کا کچھ نہ کچھ اثر 1919ء کی لارڈ مانٹیگو چیمسفورڈ کی اصلاحات میں دیکھا بھی گیا تھا۔ جناح 1906ء میں کانگریس کے رُکن بن چکے تھے اور 1913ء میں کچھ لیگی دوستوں کے اصرار پر اُنھوں نے مسلم لیگ کی ممبری بھی قبول کر لی تھی، حالاں کہ اُس وقت تک مسلم لیگ کی حیثیت طبقۂ اشرافیہ کے لوگوں کے مل بیٹھنے کی بزم سے زیادہ نہ تھی۔ اس طبقۂ اشرافیہ پر ’الہلال‘ میں چھپی اپنی ایک نظم میں مولانا شبلی نے یوں چٹکی لی تھی: ع سال بھر حضرتِ والا کو کوئی کام بھی ہے!
جب جنوری 1915ء میں گاندھی جی جنوبی افریقا سے لوٹے تھے تو اُس وقت تک جناح کا شمار چند کل ہند سطح کے لیڈروں میں ہونے لگا تھا۔ گاندھی جی کی واپسی پر گوجر سبھا نے جو استقبالیہ تقریب منعقد کی تھی اُس کی صدارت جناح ہی نے کی تھی۔ اسی سال دسمبر میں جب اتفاق سے ایک ہی شہر ممبئی میں کانگریس اور لیگ کے اجلاس ہوئے تھے تو جناح نے کمال و کامیابی کے ساتھ ہندو و مسلم قائدین کے مابین پُل کا کام انجام دیا تھا اور اشتراک مقاصد اور اشتراکِ فکر کی زمین ہموار کی تھی۔ اُس موقع پر گوپال کرشن گوکھلے نے اُنھیں ’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر‘ قرار دیا تھا۔ جناح کے بارے میں سروجنی نائیڈو کی کہی ہوئی یہ بات بھی مشہور ہے کہ ’وہ ذات سے ہندو اور مذہب سے مسلمان ہیں۔ ‘ 1916ء میں لکھنؤ میں کانگریس اور لیگ کے در میان انتظامیہ اور قانون سازی میں شرکت داری کے سمجھوتے ’لکھنؤ پیکٹ‘ کی تیاری کا سہرا بھی اُن کے سر ہے۔ مختصر یہ کہ 1920ء تک جناح بلاشبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کی علامت بنے ہوئے تھے اور دونوں فرقوں میں مقبول تھے اگرچہ وہ کوئی عوامی لیڈر نہیں تھے۔
1915ء میں گوکھلے اور فیروز شاہ مہتا جیسے قدردانوں کے گزر جانے پر جناح نے اپنے آپ کو بڑا تنہا محسوس کیا تھا۔ دادا بھائی نوروجی لندن میں تھے اور اُنھوں نے وہیں 1917میں آخری سانس لی تھی۔ گاندھی جی نے 1920ء تک محض پانچ برسوں میں ملک بھر کا دورہ کر کے عام لوگوں سے تعلق جوڑ کر اور ’ہندستانی‘ زبان کے وسیلے سے اُن کے دُکھ سکھ سمجھ کر جو مقبولیت حاصل کر لی تھی، وہ جناح اپنی پندرہ برس کی سیاسی زندگی میں حاصل نہ کرسکے تھے۔ جناح کا اپنی زندگی میں صرف انگریزی زبان سے واسطہ رہا تھا۔ گاندھی جی کی ’عدم تعاون‘ کی تحریک وہ نیا حربہ تھی جس سے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ تمام نئے اور پرانے لیڈر وابستہ ہوتے جا رہے تھے۔ جناح اپنے دلائل کے پینتروں سے کونسل ہال میں عدم تعاون کرنا جانتے تھے، عوام کو متحرک کرنا نہیں۔ اُنھیں آئینی طریقۂ کار سے روگردانی گوارا نہ تھی۔ ستیہ گرہ اُن کی نظر میں سیاسی انار کی کی طرح تھی اور وہ تحریکِ خلافت کے بھی حامی نہ تھے، جس کی حمایت کانگریس کر رہی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ دسمبر 1920ء کے ناگپور سیشن میں کانگریس پوری طرح گاندھی جی کی پشت پر کھڑی تھی، مزید برآں یہ کہ ’الہلال‘ کی اڈیٹری اور رانچی کی اسیری کے شہرت یافتہ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کانگریس سے پیمانِ وفا باندھ لیا تھا۔ ماحول کا یہ رنگ جناح نے اپنے مرتبے کے لیے ہمت فرسا پایا تھا اور گاندھی جی کا طرزِ سیاست نامانوس۔ شاید ان کے دل نے کہا ہو ع جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی ! آخر جناح کانگریس کے اس سیشن سے اُٹھ کر کبھی نہ لوٹنے کے لیے چلے گئے تھے۔
اس کے بعد اگرچہ جناح نے ایک فاصلے سے کانگریس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا، راشٹریہ سوئم سنگھ، تبلیغی جماعت اور شدھی سنگھٹن جیسی کئی فرقہ پرست تنظیموں نے جنم لیا تھا، اس سے جہاں ہندستان کا تکثیری کلچر مکدّر ہو چلا تھا وہیں فرقہ وارانہ خلیج گہری ہوتی جا رہی تھی۔ موتی لال اور جواہر لال کے اشتراک سے بنی ’نہرو رپورٹ‘ میں ایک مجوزہ وحدانی حکومت کا خاکہ اور فرقہ پرستی سے لڑنے کا عزم موجود تھا لیکن مسلمانوں کے لیے اُس میں کوئی کشش نہ تھی۔ سیاسی اختلافات کے باوجود جناح نے موتی لال نہرو سے اپنے تعلقات خوش گوار رکھے تھے اگر چہ اُس وقت وہ اپنی زندگی کے ایک دوراہے پر کھڑے تھے، جہاں ایک طرف کانگریس کا قومی نقطۂ نظر اور انگریزوں سے مقاومت کی راہ تھی اور دوسری طرف مسلم لیگ کی مسلم اکثریتی صوبوں اور زمین داروں اور تعلقہ داروں کے مفادات پر مبنی انگریزوں سے مفاہمت کی راہ۔ کانگریس سے دوریاں بڑھنے کے باوجود مسلم لیگ کو جائے قرار ماننے کے لیے اُن کا دل پوری طرح آمادہ نہ ہوا تھا۔
1930-34ء کے درمیان جناح برتانیا کی پریوی کونسل میں پریکٹس کر رہے تھے اور برصغیر میں بھی اُن کی آمدورفت جاری تھی۔ مسلم لیگ نے اُنھیں 1933ء میں پارٹی کی کمان سنبھالنے کے لیے بُلایا تھا لیکن اُنھوں نے انکار کر دیا تھا۔ اس دور میں چودھری رحمت علی کے نظریہ ء پاکستان پر بحث چھڑ چکی تھی۔
چوں کہ ایک آزاد مسلم ریاست کے بِنا اسلامی شریعت کا نفاذ نہ ہو سکتا تھا اس لیے اس غم میں غلطاں علامہ اقبال جناح کو اپنے 1937میں لکھے خطوں میں انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہندوستان کی اکثریت کی نمائندہ جماعت ہندو مہا سبھا ہے جس کا یقین مشترکہ قومیت پر نہیں بلکہ ہندوہندُستان پر ہے اور وہ خود بھی مہا سبھائی طر ز پر مسلمانوں کے مسائل کا حل ’ مسلم اکثریت کے ایک یا ایک سے زائد صوبوں کی دوبارہ تقسیم ‘ کی صورت میں پیش کر رہے تھے۔ اقبال کا کہنا تھا کہ جناح کی طرف سے جواہر لال نہرو کے ’ملحدانہ سوشلزم‘ کا یہی بہترین جواب ہو گا۔ 3 ؎ ہمیں 1937 میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ جناح نے علامہ اقبال کے خیالات سے اتفاق کیا ہو، اگر انھیں اس وقت بھی ہندوستان کی قومی قیادت میں مناسب جگہ مل جاتی تو ہم جناح کو اس طرح نہیں جانتے ، جس طرح کہ آج جانتے ہیں۔
1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو کراری شکست ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ یوپی کی وزارت میں مولانا آزاد کی تجویز پر دو مسلم لیگی لیڈروں کو وزارت میں لے لیا جاتا تو کانگریس کا یہ ایثار مسلم لیگ کی شکست کا کرب کم کرنے اور دونوں پارٹیوں میں مفاہمت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ سیاست کی دنیا میں حریف کے لیے خیر خواہانہ جذبات ذرا کم ہی پائے جاتے ہیں ، کانگریس نے اسے ضروری نہیں سمجھا تھا۔
مسلم لیگ نے اپنی ہزیمت کی تلافی کے لیے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیا۔ 1938ء میں جناح سے پھر درخواست کی گئی اور وہ مسلم لیگ کے مستقل صدر بنا دیے گئے۔ اُنھوں نے صدر بننے کے بعد مسلم لیگ کی تمام صوبائی اِکائیوں کی لگام کسی اور مرکزی تنظیم کو مضبوط کیا۔
اب مسلم لیگ نے اُنھیں اپنا خضر و مسیحا مان لیا تھا ، جب مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علاحدہ قوم قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ’پاکستان‘ کے مطالبے کی قرار داد منظور کی گئی تو جناح نے کہا تھا کہ ’اقبال آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ ہم نے قطعی طور پر وہی کیا ہے جو وہ چاہتے تھے۔ ‘ اس کے بعد جناح نے پاکستان کے حصول کو اپنا مقصدِ زندگی بنا لیا۔ وہی جناح جنھوں نے 1906ء میں مذہبی بنیاد پر جداگانہ انتخاب کی مذمت کی تھی، اب مذہبی بنیاد پر تقسیم ملک کی وکالت کر رہے تھے۔ کبھی ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہلانے والے جناح کی بعد کی تمام سیاست ہندو مسلم اختلافات اور منافرت کو نمایاں کرنے پر مرکوز رہی تھی تاکہ کسی طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں۔
جب مسیحا دشمنِ جاں ہو تو ہو کیوں کر علاج؟
کون رہ بتلائے جب خضر بہکانے لگے!
(قدرت اللہ قدرت)
آر۔ ٹی۔ ایلی (R.T.Ely) کے مقولے : ’ہر سیاسی سوال سماجی سوال بن جاتا ہے اور سماجی سوال مذہبی سوال۔ ‘ کی جناح نے اس طرح تقلیب کی تھی کہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص کا سوال اُن کے سماجی تحفظ کے سوال میں بدل دیا تھا اور اُن کے سماجی تحفظ کے سوال کو اُن کے سیاسی اقتدار پر منحصر کر دیا تھا۔
دراصل انا گزیدہ جناح کو کسی کو متابعت گوارا نہ تھی اور وہ خود کو گاندھی جی سے کم حیثیت سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ گاندھی جی نے جس طرح ملک گیر عوامی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور لوگ انھیں ’مہاتما‘ کہنے لگے تھے، ہندستان کے سیاسی منظر نامے پر جناح کی شبیہ دھندلا کر رہ گئی تھی۔ تب اُنھوں نے مسلم لیگ کے اسٹیج سے پاکستان کا مطالبہ بلند کرنا اور خود کو برّ صغیر کے مسلمانوں کے قائد کی حیثیت سے منوانا بہتر سمجھا۔ جَس ونت سنگھ نے لکھا ہے کہ سرتیج بہادر سپرو نے فروری 1941ء میں ہندو مسلم مسئلے پر گاندھی جی اور جناح کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، جو جناح کی اس شرط پر ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئی تھی کہ گاندھی جی اُنھیں مسلمانوں کا واحد نمائندہ لیڈر تسلیم کرتے ہوئے خود ایک مسلّمہ ہندو لیڈر کی حیثیت سے گفتگو کریں۔ دراصل اس طرح وہ اپنا یہ مسلم لیگی پروپیگنڈا سچ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ’کانگریس صرف ایک ہندوؤں کی پارٹی ہے۔ ‘ گاندھی جی نے اُن کی شرط ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ (4)
جناح نے اتنا تو تسلیم کیا تھا کہ گاندھی جی ایک عظیم انسان ہیں اور عوام میں ایک خاص اثر رکھتے ہیں ، لیکن اُنھیں اُن کا یہ دعوا بُرا لگتا تھا کہ وہ ہندستان کے تمام باشندوں کی ترجمانی کرتے ہیں ، اور اُن کے مسائل و مصائب کو سمجھتے ہیں۔ جناح کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ مولانا آزاد کو ہندستان کے مسلمانوں کا ترجمان سمجھا جائے۔ صاف بات یہ ہے کہ برّ صغیر کے مسلمانوں کی لیڈر شپ کی جناح کی تنہا دعوے داری کے لیے بھی مولانا آزاد کا وجود ایک چیلنج تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جناح نے اُنھیں کانگریس کا ’شو بوائے‘ کہا تھا اور ایک دو موقعوں پر مولانا کی تحقیر بھی کی تھی۔ سیاسی اختلاف تو خیر جو تھا سو تھا، وہ اُن کے علمی مرتبے کو بھی سمجھنے کے اہل نہ تھے۔
جب مارچ 1941ء میں جناح کان پور کے مسلم طلبا کی فیڈریشن سے خطاب کر رہے تھے تو مطالبۂ پاکستان پر جوشِ جذبات میں اُنھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’ وہ اکثریت والے سات کروڑ مسلمانوں کو آزاد کرنے کے لیے دو کروڑ مسلمانوں کی شہادت دینے کے لیے تیار ہیں۔ ‘1947 میں صرف پانچ لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر ’پاکستان‘ حاصل کر لینے کے بعد شاید یہ کہہ اُنھوں نے اپنی پیٹھ تھپتھپائی ہو گی کہ سودا سستے میں پٹ گیا!(5)
جولائی 1944ء میں گاندھی جی نے جناح کو گجرات کے ہندوؤں ، اسماعیلی خوجوں اور پارسیوں کی عام زبان گجراتی میں ایک خط سیاسی سمجھوتے کے لیے لکھا تھا۔ ’برادر جناح‘ کے القاب سے شروع کیے گئے اس خط کے خاتمے پر گاندھی جی نے ’تمھارا بھائی‘ کی حیثیت سے دست خط کیے تھے۔ اس خط کا جواب ’برادر جناح‘ نے سر ی نگر کے ایک شکارے ’کوئن الزبتھ‘ میں بیٹھ کر اُنھیں ’مائی ڈیر گاندھی‘ سے خطاب کرتے ہوئے انگریزی میں لکھ بھیجا تھا۔ اس مکاتبت کے نتیجے میں جناح کے ممبئی کے مالابار ہل کے بنگلے میں 9؍ستمبر سے ان رہ نماؤں کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوا تھا۔ اگلے دن ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ 11؍ستمبر کی شام کو جب گاندھی جی جناح کے یہاں جانے کے لیے تیار ہوئے تو چونکہ اُنھیں وہیں ڈنر بھی کرنا تھا، اُن کے ملازم نے اُن کے باسکٹ میں ٹفن بکس اور ایک بوتل اُبلے ہوئے پانی کی بھی رکھ دی تھی۔ گاندھی جی نے یہ کہہ کر پانی کی بوتل نکلوا دی تھی کہ کہیں جناح یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ ایک مسلمان کے گھر میں گنگا جل جیسی چیز استعمال کر رہے ہیں ! وہاں پہنچنے پر جناح نے گذشتہ روز ملاقات نہ کرسکنے کا سبب اُنھیں یہ بتایا تھا کہ ’اکیسواں رمضان مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ‘ بعد میں گاندھی جی پر جناح ہی کے ایک دوست نے منکشف کیا تھا کہ ’اتوار کا دن اُن کے لیے کسی بھی مقدس دن سے زیادہ اہم اور آرام کا دن ہوتا ہے اور اُس دن اتوار ہی تھا۔ ‘(6)
اُن کی دو ہفتے تک چلی گفتگو بے نتیجہ ہی رہی تھی۔ نہ تو جناح گاندھی جی کو قائل کرسکے تھے کہ پاکستان کس اعتبار سے مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا نہ ہی گاندھی جی جناح کو متحد ہندستان کے اقتدار میں مسلمانوں کی محفوظ شرکت داری کی بابت اطمینان دلا سکے تھے۔ آخر میں گاندھی جی نے مشورہ دیا تھا کہ وہ گفتگو کی ناکامی کا اعلان کرنے کی بجائے صرف ایک بار اُنھیں مسلم لیگ کی کونسل یا اجلاس سے خطاب کرنے دیں ، شاید وہ اُن لوگوں کو قائل کرسکیں ! یا پھر جناح کسی کو ثالث بنا لیں ! جناح نے کچھ اس طرح جواب دیا تھا کہ ’وہ خود ہی مسلم لیگ ہیں اور اُنھیں کسی کی ثالثی بھی منظور نہیں۔ ‘ (7)کہتے ہیں کہ قطعیت (finality) سیاست کی زبان نہیں ہوتی، لیکن جناح اسی زبان میں بات کرتے تھے۔
پاکستان کا تصور جناح کا ایک خوابِ پریشاں تھا یا پھر اقتدار میں مسلمانوں کی حصّے داری کے لیے سودے بازی کا حربہ! اس بات کی اُنھوں نے کبھی بھی اطمینان بخش وضاحت نہیں کی تھی۔ ایک بار مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نے اُن سے پاکستان کے نظریے کو سمجھنا چاہا تھا تو جناح نے اُن کی سیاسی پختگی کو بھانپتے ہوئے لاپروائی سے جواب دیا تھا کہ ’پہلے مسلم لیگ میں آ جائیں پھر خود سمجھ جائیں گے۔ ‘ وہ اکابر غالباً ع ہم نہیں دام میں تیرے یوں ہی آنے والے! کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دراصل انگریزوں کے چلے جانے کی صورت میں ہندوستان میں مسلمانوں کو لاحق اکثریت کے خطرے کا ایک ہوّا کھڑا کر دیا گیا تھا اور اُن کے درد کے در ماں کے طور پر پاکستان کا نسخہ پیش کیا جا رہا تھا۔
دوسری جنگ عظیم (1939-1945) کے دوران کانگریسی لیڈروں نے یہ سوچ کر کہ برتانوی اقتدار جرمنی اور جاپان کے حملوں کے دباؤ میں ہے، برتانیا کی جنگ میں ہندستانیوں کی شرکت اس بات سے مشروط کر دی تھی کہ برتانیا جنگ کے بعد ہندستان کو آزاد کرنے کا اعلان کرے، لیکن جب اُنھیں اس بات کا تیقن نہ ملا تو 1942ء میں کانگریس نے ’ہندستان چھوڑ دو‘ تحریک شروع کر دی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں کانگریس کے تمام لیڈروں اور تقریباً ایک لاکھ کارکنوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا تھا اور کانگریس پارٹی کی ساری سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی تھیں۔ کانگریسیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے پر کہیں 1945ء میں جا کے ہو پائی تھی اور اُس وقت وہ خستہ و ناتواں ہو چکے تھے۔ اس دوران میں جناح نے مسلم لیگ کو طاقت ور بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلم لیگ نے سول نافرمانی کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اس کے لیڈر بھی آزاد تھے۔ ہمارے ترقی پسند شعرا اُس دور میں وار پروپیگنڈے کی نظمیں لکھ رہے تھے۔ آگے چل کر پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے والے حفیظ جالندھری بھی ’اے پڑوسن! میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے‘ جیسی نظمیں لکھ رہے تھے۔ مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست برگ و بار لارہی تھی۔ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے اور کانگریس کو زک پہنچانے کے لیے یہ مناسب سمجھا تھا کہ جناح کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو تقویت پہنچائیں اور اُن کے مطالبات کو اہمیت بخشیں۔ اپنے اپنے مقصد کے لیے یہ غیر اعلان شدہ گٹھ جوڑ اپنا کام کر رہا تھا۔
جناح نے 1945ء میں جب ’پاکستان‘ کی تشکیل کو مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ قرار دے دیا تو فرقہ پرستی کا ماحول اتنا گرم ہو چکا تھا کہ 1945-46ء کی عبوری حکومت کے انتخابات میں مسلم لیگ ہندستانی مسلمانوں کے 90% ووٹ حاصل کر کے مرکزی اسمبلی کی تمام مسلم نشستوں پر اور سواے صوبہ سرحد کے تمام صوبوں میں فتح سے ہم کنار ہو گئی تھی۔ کرپس مشن سے لے کر کیبنیٹ مشن تک کی ساری کوششیں عالمی جنگ کے ماحول میں ہندستانی معاملات کو قابو میں رکھنے اور کانگریس اور لیگ میں اشتراکِ عمل کے تحت اختیارات منتقل کرنے کی بے نتیجہ ثابت ہوئی تھیں۔ (8) جناح کے ڈائرکٹ ایکشن کے اعلان سے کلکتہ کے فسادات میں ایک ہی دن میں پانچ ہزار لوگ ہلاک کر دیے گئے تھے اور اس کے ردِّ عمل میں دوسری ریاستوں میں بھی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
آزادی سے قبل کانگریس اور لیگ کی ساجھے داری کی عبوری حکومت کے عہد (1946-47) میں سردار پٹیل نے یہ تلخ ترین سبق سیکھا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ اشتراکِ عمل ممکن نہیں۔ دراصل مسلم لیگی وزیر خزانہ لیاقت علی خان نے کانگریسیوں کے چھوٹے چھوٹے بلوں کی منظوری کے لیے بھی ناک میں دم کر کے رکھ دیا تھا اور ہندستان کے ہوم منسٹر نے اپنے آپ کو اتنا لاچار پایا تھا کہ وہ وزیر خزانہ کی منظوری کے بنا ایک چپراسی تک رکھنے کا اہل نہ تھا۔
آخر ملکۂ وکٹوریا کے پڑپوتے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہر قیمت پر منتقلیِ اقتدار کا تہیہ کر کے ہندستان وارد ہوئے۔ یوں بھی جنگِ عظیم کے محاربوں سے نڈھال برتانیا اب اپنے مقبوضات پر تسلط جمائے رکھنے کا متحمل نہ رہا تھا۔ اُنھوں نے پایا کہ جناح مصالحت کی ہر تجویز کو ’پاکستان‘ کی رٹ سے رد کیے جا رہے ہیں اور عبوری حکومت میں سردار پٹیل عاجز و پریشان ہو کر چھٹکارے کے متمنی ہیں۔ اُنھوں نے دونوں کا علاجِ غم تقسیم کے منصوبے کی صورت میں پیش کر دیا۔ یُوں بھی اب برتانیا کو ہندستان کو ایک متحد و مستحکم ملک کی صورت میں چھوڑنے کی کیا غرض پڑی تھی! ماؤنٹ بیٹن نے بالکل صحیح مہرے چُنے تھے اور بالکل درست چال چلی تھی۔ اُن کی منشا کے عین مطابق جب سردار جیسا مردِ آہن موم ہو گیا اور اُنھوں نے مُصر ہو کر گاندھی جی کو رام کر لیا تو برسہا برس کی جدوجہد سے تھکی ہاری کانگریس پارٹی نے بھی سپر ڈال دی اور مبینہ طور پر اگر جناح نے مطالبۂ پاکستان کو مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اقتدار کے حصول کی سودے بازی اور کانگریس کو ناکوں چنے چبوانے کا حربہ بنا رکھا تھا تو اب وہ اس مقام پر تھے کہ جسے کہتے ہیں ، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن!
اگرچہ برتانوی حکومت نے ماؤنٹ بیٹن کو منتقلیِ اقتدار کے لیے پندرہ مہینے کی مدّت دی تھی، لیکن اُنھوں نے یہاں کے ابتر حالات کو وبالِ دوش بنائے رکھنا غیر نفع بخش سمجھا اور صرف تین مہینے میں برتانوی اقتدار کا بوریا بستر سمیٹ لیا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں مچی تباہی و بربادی تاریخ کا حصّہ بن چکی ہے۔ لاکھوں کے گھر اُجڑے، لاکھوں ہی قتل ہوئے، لیکن وہ جو کہتے ہیں ناکہ ایک فرد کی موت تو ایک المیہ ہوتی ہے، لیکن لاکھوں کی موت اعداد و شمار بن کر رہ جاتی ہے، وہ ہلاکتیں بھی اعداد و شمار بن کر رہ گئیں۔
مشہور ہے کہ جناح نے بطور بیرسٹر بہت کم کیسوں میں ناکامی کا منہ دیکھا تھا۔ بطور سیاست دان بھی وہ کامیاب رہے۔ بہرکیف تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ سردار اور جناح جیسے سیکولر اور فعّال رہ نما پنی زندگی کے آخری برسوں میں مکمل طور پر فرقہ پرست ثابت ہوئے۔ جناح تقسیم سے قبل کی آخری دہائی میں اور پٹیل تقسیم کے بعد کے تین برسوں میں۔
انگلستان میں قانون کی تحصیل کے دور میں ایک بار جناح اپنی تعلیم چھوڑ کر شیکسپئیرین تھیٹر کمپنی سے وابستہ ہو گئے تھے لیکن اپنے والد کا ایک سخت انتباہ کا خط آنے پر اُنھوں نے اسٹیج چھوڑ دیا تھا، (9) شاید اس لیے کہ مستقبل میں برصغیر کے اسٹیج پر انھیں ایک ناقابلِ فراموش رول ادا کرنا تھا۔ اگرچہ نوجوانی میں ان کے دھڑکتے ہوئے دل میں رومیو کا رومان انگیز کردار ادا کرنے کی بڑی چاہ تھی جس کا انھیں موقع نہ مل سکا، لیکن قضا و قدر نے ان کی زندگی کے آخر ی دور میں شیکسپیئر کے ڈراموں کے نفرت و انتقام ، بے رحمی و غارت گری اور جدال و قتال کے عناصر بّرِ صغیر کے اسٹیج پر بڑی فیاضی سے بکھیر کر رکھ دیے تھے ، جن کے اثرات سے دونوں آزاد ملکوں کی بعد کی نسلین تک آزاد نہیں ہو سکی ہیں۔
؎ اگر جرأتِ قاتل سے بخشو ا لائے
تو دل سیاست چارہ گراں کی نذر ہوا
مصادر؍ حواشی
مولانا ابوالکلام آزاد
(1) ’ہماری آزادی‘، پہلا اڈیشن: 1961ء ص: 375
(2) خطباتِ آزاد
(3) ’اتحاد سے انتشار کی طرف‘ از: مشیر الحسن، ص: 267
(4) اِن اشاروں کا اجمالی تذکرہ مولانا آزاد کی تحریروں اور محققینِ آزاد کی کتابوں میں بکھرا پڑا ہے۔ یہاں ان مصادر کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
(5) ’الہلال‘ کی 1912ء کی فائل میں 22؍ستمبر اور 9؍ اکتوبر کے شماروں میں چھپی لکھنؤ کی گم نام مراسلتیں ملاحظہ کیجیے۔
(6) ص: 347، ’خطباتِ آزاد‘ ، مرتبۂ مالک رام، ساہتیہ اکاڈمی، پہلا اڈیشن 1974ء
(7) مضمون مشمولہ : ’اردو ادب‘ (آزاد نمبر) 1959ء ، ص: 21
(8) ابوسعید بزمی کی یادداشتیں ’مولانا آزاد تنقید و تبصرہ کی نگاہ میں ‘ مرتبۂ ایم اے صمد، پہلا اڈیشن 1959ء
(9) لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سوانح نگار زیگلر فلپ (Zeigler Philip) نے بھی ذکر کیا ہے کہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے پنڈت نہرو پر ڈورے ڈالے تھے۔
اگرچہ شریمتی کملا نہرو کی حیات میں جواہر لال غیر عورتوں کی طرف مائل نہیں رہے تھے، لیکن کملا نہرو کی موت کے بعد جب پنڈت نہرو کی عمر تقریباً پچاس برس تھی، کالج کی ایک جوان طالبہ کی طرف اُن کی رغبت اور اُس سے شادی کرنے کے اِمکان کی خبر ’امرت بازار پتریکا‘ میں آئی تھی۔ اسی اخبار کے حوالے سے اس کا تذکرہ ایم جے اکبر نے The Making of Indiaمیں بھی کیا تھا۔ خش ونت سنگھ کا خیال ہے کہ وہ طالبہ کملا دیوی چٹوپادھیائے تھی۔ پدمجا نائیڈو سے نہرو کا عشق، نہرو کے اُن خطوط سے ظاہر ہے جنھیں پدمجا نائیڈو نے شائع کر دیا تھا۔ ایم او متھائی نے My days with Nehruمیں لکھا ہے کہ 1948ء میں شردھا ماتا نامی ایک حسین جوگن نے بھی کچھ مدت کے لیے پنڈت نہرو کی زندگی کو رنگین بنایا تھا۔ (یہ تفصیلات ’ہندستان ٹائمز‘ میں چھپے خش ونت سنگھ کے ایک کالم سے ماخوذ ہیں )
(10) ’ہماری آزادی‘ ، ص: 288، 287
(11) ایضاً، ص: 453,455
12) ( تفصیل کے لیے دیکھیے ’الہلال‘ 18؍دسمبر 1912ء (ص:5) پر لیڈنگ آرٹیکل ’الجہاد فی سبیل الحریت‘
(13) ’نئی زندگی‘ (مدیر : ڈاکٹر سید محمود) کا ’پاکستان نمبر‘ 1946ء ص : 48
(14) ’آزادی کی چھاؤں میں ‘، ص: 4
(15) 1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ صرف ایک لفظی نعرے ’پاکستان‘ پر ہندُستانی مسلمانوں کے 90%ووٹ حاصل کر کے مرکزی اسمبلی کی تمام مسلم نشستوں پر اور سواے صوبہ سرحد کے تمام صوبوں میں فتح مند ہوئی تھی اور اُسی وقت مسلمانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد ملک کی سالمیت کو بچانے کی تمام کوششیں بے دِلانہ تھیں۔ (اسیم)
سردار ولبھ بھائی پٹیل
1- 100 GLORIOUS YEARS – 1885 – 1985
2- 1997ء میں چھپی انجمن ترقی اردو (ہند) کی یہ کتاب اس حصۂ مضمون کا ایک اہم ماخذ اور نشانہ ہے۔
3- اُنھیں آزادی کے بعد جو عزت و شوکت اور آسایشیں اُن کے عہدہ و منصب کے لحاظ سے حاصل تھیں ، اس پر اُنھوں نے کہا تھا کہ میرے دہقانی مزاج کو یہ تکلفات راس نہیں آتے۔
4- ’جامع العلوم انسائیکلوپیڈیا -تاریخ‘ (قومی کونسل ، نئی دہلی)، ص: 102 (پہلا اڈیشن)
محمد علی جناح
1 ؎ برتانیا کے سکریٹری آف اسٹیٹ سر سیموئیل کو شاہِ برتانیا (کنگ جارج پنجم) نے ناگواری سے کہا تھا کہ، کیا مدعوئین میں سول نافرمانی کے مرتکب اس ننگے فقیر کی موجودگی ضروری ہے ؟ سر سیموئیل ہورے نے مؤدبانہ جواب دیا تھا کہ ، کیا یور میجسٹی پرنس آف ڈنمارک کے بغیر ’ہیملیٹ ‘ پڑھنا پسند کریں گے ! شاہ نے فیصلہ سنایا کہ ’ اُس کے لیے محل کے ڈنر کے آداب نہیں بدلے جائیں گے۔ ‘ سکریٹری نے حل پیش کیا کہ وہ لوگ ’ڈنر پارٹی‘ کی بجائے ’ گارڈن پارٹی‘ میں مدعو کیے جا سکتے ہیں ( جہاں کسی خاص لباس کی پابندی نہیں ہوتی۔ ) آخر شاہ نے رضا مندی دے دی۔ اس دور کے نامہ نگار نے لکھا تھا کہ نومبر کی سردیوں میں شاہی محل کے باہر لوگوں کی بھیڑ اُس ننگے فقیر کو دیکھنے کے لیے اُمڈ پڑی تھی جو ایک ایسی حکومت سے ٹکّر لے رہا تھا جس کی حدود میں سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ نامہ نگار کے لفظوں میں ’’ملاقات کے وقت دونوں لال ہو رہے تھے۔ شاہ کا چہرہ غصّے سے اور گاندھی کی ناک سردی سے ‘‘ ! (اسیم)
2؎ Page No.34 "Clues to understanding Jinnah” Printed in "Economics and Political Weekly” (Mumbai) 1-7 March, 2008.
3 ؎ ؎ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے 1937ء میں لکھے ہوئے 28 مئی اور 21 جون کے خط ملاحظہ کیجیے۔ اول الذکر خط میں انھوں نے جناح کو لکھا تھا کہ :
….. But as I have said above in order to make it possible for Muslim India to solve the problems it is necessary to redistribute the country and to provide one or more Muslim states with absolute majorities. Don’t you think that the time for such a demand has already arrived? Perhaps this is the best reply you can give to the ‘ atheistics socialism’ of Jawahar Lal Nehru.
5 ؎ پاکستانی ادیب و صحافی مولانا عبدالمجید سالک نے ایک انگریزی کتاب کا چربہ کچھ پاکستانی اور اسلامی مشاہیر کے اضافے کے ساتھ ’’ سو بڑے آدمی‘‘ کے نام سے پیش کیا تھا۔ ان کے ظلام ِ ذہنی کا یہ حال ہے کہ اُنھوں نے جناح کے تعارف کی سُرخی یُوں جمائی تھی ! ’ ایک قطرۂ خون بہائے بغیر مُلک حاصل کرنے والا‘ اور اُن کے مارو گھُٹنا پھوٹے آنکھ تعارف کا نمونہ یہ ہے۔ ’’زمانۂ حاضر میں محمد علی جناح کی شخصیت اس اعتبار سے بے نظیر ہے کہ اُنھوں نے محض اپنے تدبّر سے کام لے کر خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر دنیا میں ایک نئی اور آزاد ریاست قائم کی۔ یہ ریاست پاکستان ہے۔ ‘‘ (ص: 91 ، فیروز سنز لیمیٹیڈ لاہور ، پہلا ایڈیشن) ایک اور احمق الذی مصنف نے لکھا تھا کہ جناح نے صرف ایک ٹائپ رائٹر اور کلرک کی مدد سے پاکستان حاصل کر لیا تھا۔ اردو کا بے چارہ سادہ لوح قاری ہمارے بزرگوں کی ایسی تاریخ پڑھ کر سر دھنتا رہتا ہے اور کبھی بھی ہاتھ روک کر غور و فکر کرنے کی زحمت نہیں کرتا ! (اسیم)
4 ؎ 6 ؎ 7؎’جناح اتحاد سے تقسیم تک’ از : جس ونت سنگھ، اڈیشن: روپا اینڈ کو 2009ء
8 ؎ یہ بات جچتی نہیں کہ محض نہرو کے ایک بیان نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا اور جناح کو کیبنیٹ مشن مسترد کرنے کا بہانہ مل گیا۔ خوے بد را بہانۂ بسیار۔ جناح بڑی مشکلوں سے با دِل نخواستہ آئین ساز اسمبلی میں لیگ کی شمولیت پر راضی ہوئے تھے، اُنھیں اپنی کوتاہی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ وہاں سے پنڈ چھڑانے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے۔ (اسیم)
9؎ Page No. 14, 15 "Jinnah of Pakistan” by: Wolpert Stanley (Oxford Press – NY. 1984)
٭٭٭
مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید