فہرست مضامین
تقریباً ہر شے کی مختصر تاریخ
(اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ)
بل برائسن (Bill Bryson)
حصہ چہارم
اردو ترجمہ
منصور محمد قیصرانی
25 ڈارون کی اچھوتی مثال
1859 کی گرمیوں کے آخر یا خزاں کے آغاز میں برطانوی مشہور رسالے Quarterly Review کے ایڈیٹر وائٹ ویل ایلوِن کو نیچرسٹ چارلس ڈارون کی نئی کتاب کا مسودہ ملا۔ ایلوِن نے اس کتاب کو شوق سے پڑھا اور اس کے معیار سے اتفاق کیا لیکن اس کا خیال تھا کہ موضوع اتنا محدود ہے کہ زیادہ لوگ اسے پسند نہیں کریں گے۔ اس نے ڈارون سے درخواست کی کہ اسے کبوتروں پر کتاب لکھنی چاہیے۔ اس کی دلیل تھی کہ ‘ہر کوئی کبوتروں میں دلچسپی لیتا ہے۔ ‘
تاہم اس تجویز کو رد کر دیا گیا اور نومبر 1859 میں On the Origin of Species by Means of Natural Selection, or the Preservation of Favoured Races in the Struggle for Life چھپی۔ اس کی قیمت 15 شلنگ رکھی گئی۔ پہلے ایڈیشن کی تمام یعنی 1250 جلدیں پہلے ہی دن فروخت ہو گئیں۔ اس روز سے یہ کتاب ہمیشہ اشاعت میں رہی ہے اور ہمیشہ ہی اس پر اختلافات رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کتاب ایسے انسان نے لکھی تھی جس کی اصل دلچسپی کیچوے تھے۔ اگر اس نے دنیا کے گرد بحری سفر نہ کیا ہوتا تو اسے کوئی نہ جان پاتا کہ اس نے ساری زندگی کیچووں پر تحقیق میں ہی گزار دینی تھی۔
چارلس رابرٹ ڈارون 12 فروری 1809 میں شیوزبیری میں پیدا ہوا (اسی روز کینٹکی میں ابراہام لنکن پیدا ہوا) جو مغربی مڈلینڈز کا ایک پرسکون قصبہ تھا۔ اس کا باپ امیر اور معزز فزیشن تھا۔ ماں کی وفات کے وقت ڈارون کی عمر آٹھ برس تھی۔
ڈارون نے تربیت کے تمام مواقع پائے لیکن اپنے رنڈوے باپ کو ہمیشہ اپنی نالائقی سے تنگ کرتا رہا۔ اس کے باپ کے یہ الفاظ آج تک دہرائے جاتے ہیں کہ ‘تمہیں شکار، کتوں اور چوہوں کا پیچھا کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ تم اپنے اور خاندان، سب کے لیے بدنامی بنو گے۔ ‘ نیچرل ہسٹری میں فطری دلچسپی کے باوجود اس نے اپنے باپ کی خوشی کی خاطر طب کی تعلیم پانے کے لیے ایڈنبرا یونیورسٹی کا رخ کیا لیکن خون اور تکلیف کو زیادہ دیر نہ دیکھ پایا۔ نشہ آور ادویات سے قبل کے دور میں اس نے ایک بچے کو تکلیف کے عالم میں آپریشن سے گزرتے دیکھا۔ ہمیشہ کے لیے یہ منظر اس کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ اس نے قانون پڑھنے کی کوشش کی مگر اس سے بیزار ہو گیا۔ آخرکار اس نے مذہب میں کیمبرج سے ڈگری لے لی۔
اگر اسے اتفاق سے بحری سفر کی دعوت نہ ملتی تو شاید ساری زندگی وہ پادری بن کر گزار دیتا۔ ڈارون کو ایچ ایم ایس بیگل نامی بحری سروے شپ پر کپتان رابرٹ فٹزرائے کے ساتھی کے طور پر سفر کرنے دعوت ملی کہ کپتان کا تعلق اعلیٰ خاندان سے تھا جو عام افراد سے میل جول نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ فٹزرائے بذاتِ خود انتہائی عجیب انسان تھا کہ اس نے ڈارون کو اس کے ناک کی ساخت کی بنا پر پسند کیا (اس کے خیال میں اس طرح کی ناک کردار کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے )۔ اگرچہ فٹزرائے کی پہلی پسند ڈارون نہیں تھا مگر جب وہ بندہ ساتھ نہ جا پایا تو ڈارون نے اس کی جگہ لے لی۔ آج کے اعتبار سے دونوں کی واحد مماثلت ان کی کم عمری تھی۔ سفر کے وقت فٹزرائے کی عمر 23 اور ڈارون کی 22 سال تھی۔
فٹزرائے کے سرکاری فرائض میں ساحلی علاقوں کا نقشہ بنانا تھا مگر اس کا اصل شوق تخلیق کے متعلق بائبل کے نظریات کی تصدیق کرنا تھا۔ ڈارون کی مذہبی تعلیم اس کے چناؤ کے اہم اسباب میں سے ایک تھی۔ تاہم بعد میں جب پتہ چلا کہ ڈارون کافی آزاد خیال ہونے کے علاوہ شاید سچے دل سے عیسائی بھی نہیں تھا تو دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی گئیں۔
ڈارون نے 1831 تا 1836 بیگل پر سفر کیا جو اس کی زندگی کا اہم ترین تجربہ تھا جو کافی مشکل بھی ثابت ہوا۔ کپتان اور ڈارون کے استعمال میں ایک چھوٹا کیبن تھا جو اتنی اچھی بات نہیں تھی کہ کپتان فٹزرائے پر غصے کے دورے پڑتے تھے اور کبھی خودترسی کے۔ دونوں کے درمیان مسلسل لڑائی ہوتی رہتی تھی جو بعض اوقات دیوانگی کی حد تک چلی جاتی تھی۔ طویل بحری سفروں پر یاسیت کا دورہ پڑنا عام سی بات ہے اور بیگل کے پرانے کپتان نے ایسی ہی کیفیت کے دوران خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ فٹزرائے کے خاندان میں نفسیاتی مسائل عام تھے۔ اس کے چچا نے ایک دہائی قبل اپنا گلا کاٹ کر خودکشی کر لی تھی (فٹزرائے نے 1865 میں اسی طرح خودکشی کر لی تھی)۔ عام حالات میں بھی کپتان بہت ناقابلِ اعتبار تھا۔ سفر کے اختتام پر جب کپتان نے اچانک ایک لڑکی سے شادی کر لی جس سے بہت پہلے وہ شادی کا وعدہ کر چکا تھا تو ڈارون کو شدید حیرت ہوئی۔ پانچ سال کے پورے سفر کے دوران فٹزرائے نے ایک بار بھی اس لڑکی کا نہ تو نام لیا اور نہ ہی کسی طرح اس کا ذکر کیا۔
باقی ہر اعتبار سے بیگل کا سفر شاندار کامیابی ثابت ہوا۔ ڈارون کے لیے یہ سفر ساری زندگی کا بہترین سفر ثابت ہوا اور ساتھ لائے ہوئے نمونے اتنے تھے کہ ڈارون کو برسوں لگے کہ وہ انہیں ترتیب دے سکے۔ ڈارون اپنے ساتھ انتہائی شاندار عظیم الجثہ قدیم فاسلز لایا، چلی میں مہلک زلزلے سے بچا، ڈولفن کی ایک نئی نوع دریافت کی (اس کا نام فٹزرائے پر Delphinus ftzroyi رکھا)، اینڈیز پہاڑوں میں نفیس اور مفید جغرافیائی پیمائشیں کیں اور کورل یعنی مونگے کی چٹانوں کے بارے نظریہ پیش کیا کہ وہ کم از کم دس لاکھ سال پرانی ہوں گی۔ 1836 میں 27 سال کی عمر میں وہ گھر واپس لوٹا۔ اس کاسفر 5 سال اور 2 دن طویل تھا۔ پھر وہ کبھی انگلینڈ سے باہر نہیں نکلا۔
اس سفر پر واحد کام جو اس نے نہیں کیا، وہ ارتقا کا یا کسی قسم کا نظریہ پیش کرنا تھا۔ ارتقا کا تصور 1930 کی دہائی میں پہلے ہی کئی دہائیاں پرانا ہو چکا تھا۔ ڈارون کا اپنا دادا ایراسموس نے ڈارون کی پیدائش سے بھی قبل ایک نظم ارتقائی اصولوں پر لکھا تھا۔ جب ڈارون سفر سے لوٹا تو اس نے Thomas Malthus کی Essay on the Principle of Population (جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاضاتی پیمانے پر بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی بڑھتی ہوئی مقدار ناکافی رہے گی) پڑھی جس کے بعد اس نے سوچنا شروع کیا کہ زندگی ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے اور فطری چناؤ ہی وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے بعض انواع بعض دیگر انواع کی نسبت زیادہ کامیاب یا ناکام رہتی ہیں۔ ڈارون نے یہ بات محسوس کی کہ تمام جاندار خوراک کے ذرائع کی خاطر جد و جہد کرتے ہیں اور جن انواع کو قدرتی طور پر کوئی خوبی ملی ہو، وہ زیادہ بہتر طریقے سے جی کر بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ اس طرح انواع مسلسل بہتری کی جانب مائل رہتی ہیں۔
یہ نظریہ انتہائی سادہ ہے تاہم اس سے بہت ساری وضاحت ہوتی ہے اور ڈارون نے اس پر اپنی زندگی خرچ کر دی۔ ٹی ایچ ہکسلے کو جب On the Origin of Species پڑھنے کو ملی تو اس کے الفاظ یہ تھے، ‘میں بھی کتنا احمق ہوں کہ اتنی سی بات نہ سوچ سکا۔ ‘ یہ رائے تب سے گردش میں ہے۔
مزے کی بات یہ دیکھیے کہ ڈارون نے Survival of the fittest کی اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی (تاہم اسے پسند ضرور کیا)۔ یہ اصطلاح 1864 میں اس کی کتاب On the Origin of Species چھپنے کے بعد Herbert Spencer نے اپنی کتاب Principles of Biology میں متعارف کرائی تھی۔ Evolution یعنی ارتقا کی اصطلاح اس نے اپنی کتاب کے چھٹے ایڈیشن میں متعارف کرائی تھی اور تب تک یہ اصطلاح مقبولِ عام ہو چکی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ڈارون نے اپنا نظریہ ہرگز گیلاپیگوس کی چڑیوں کی چونچ دیکھ کر نہیں پیش کیا تھا۔ عام طور پر کہانی کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ گیلاپیگوس کے مختلف جزائر کی سیر کرتے ہوئے ڈارون نے چڑیوں کی چونچ میں فرق دیکھا جو مقامی خوراک کے لیے بہترین بنی ہوئی ہوتی تھیں، مثلاً ایک جزیرے پر چڑیوں کی چونچ چھوٹی اور سخت تھی تاکہ وہ مختلف پھلیوں کو توڑ سکے تو دوسرے جزیرے پر چڑیوں کی چونچ لمبی اور پتلی تھی تاکہ مختلف دراڑوں سے خوراک نکال سکیں۔ اسی سے ڈارون نے اندازہ لگایا کہ یہ چڑیاں اس طرح نہیں بنائی گئی تھیں بلکہ انہوں نے خود کو اس طرح ڈھال لیا۔
در حقیقت ان پرندوں نے خود کو ایسے بنا لیا تھا لیکن ڈارون نے اسے نہیں محسوس کیا۔ بیگل کے سفر کے موقع پر ڈارون یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا تھا اور ماہرِ فطرت نہیں بنا تھا۔ اس لیے وہ یہ نہ جان سکا کہ گیلاپیگوس کے جزائر کی چڑیاں در اصل ایک ہی نسل کی ہیں۔ ڈارون کے دوست اور پرندوں کے ماہر John Gould نے دیکھا کہ ڈارون کی دریافت کردہ چڑیوں کے پاس مختلف صلاحیتیں ہیں۔ بدقسمتی سے اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ڈارون نے یہ چیز نہ محسوس کی (اس نے یہی غلطی کچھووں کے ساتھ بھی کی تھی)۔ اس مسئلے کو حل ہوتے ہوتے برسوں لگے۔
ایسی بے شمار لا پرواہیوں اور اپنے ساتھ لائے ہوئے بے شمار کریٹوں کو ترتیب دینے میں اتنا عرصہ لگ گیا کہ اپنی واپسی کے پانچ سال بعد 1842 میں ڈارون نے اپنے نئے نظریے کی بنیاد ڈالنا شروع کی۔ پھر اسی بنیاد کو اس نے 230 صفحات تک پھیلانے میں دو سال لگائے۔ پھر اس نے ایک عجیب کام کیا کہ ان تمام چیزوں کو ایک طرف رکھ کر اگلے پندرہ سال دیگر چیزوں پر توجہ دینا شروع کر دی۔ اس کے دس بچے پیدا ہوئے اور اس نے سمندری مخلوق Barnacles پر ایک تفصیلی کتاب لکھی۔ پھر اس پر عجیب سے دورے پڑنا شروع ہو گئے کہ وہ مستقل بے چین ہونے لگا اور خفقان کا شکار ہوتا رہا۔ ان دوروں میں ہمیشہ جی متلانا، بے ترتیب دھڑکن، دردِ شقیقہ، تھکاوٹ، لرزہ، آنکھوں کے سامنے دھبے بننا، سانس پھولنا، سر کا ہلکا ہونا اور مایوسی بھی شامل ہوتے تھے۔
اس بیماری کی اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پائی۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ شاید جنوبی امریکہ کی سیر کے دوران اسے کسی حشرے سے Chagas کی بیماری لگ گئی ہو۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ اس کی بیماری جسمانی سے زیادہ ذہنی تھی۔ خیر، جو بھی ہو، اس کی تکلیف اصل تھی۔ اکثر وہ بیس منٹ سے زیادہ ٹک کر کام نہ کر سکتا تھا اور بعض اوقات تو اتنا بھی بیٹھنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتا۔
اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ عجیب و غریب علاجوں میں گزرا، کبھی وہ یخ بستہ پانی میں ڈبکیاں لگاتا تو کبھی سرکہ سونگھتا اور کبھی اپنے جسم پر دھاتی تاریں لپیٹ کر خود کو بجلی کے ہلکے جھٹکے پہنچاتا۔ اپنے گھر سے اس نے نکلنا چھوڑ دیا۔ نئے گھر منتقلی کے وقت پہلا کام اس نے یہ کیا کہ اپنی کھڑکی کے باہر آئینہ لگایا تاکہ ملاقاتیوں کو دیکھ سکے اور ممکن ہو تو ان سے ملاقات سے بچ سکے۔
ڈارون نے اپنے نظریے کو اپنے تک محدود رکھا کیونکہ اسے علم تھا کہ یہ نظریہ عام ہوتے ہی طوفان کھڑا کر دے گا۔ 1844 میں اس نے اپنے نوٹس ایک جگہ بند کر دیے کیونکہ انہی دنوں ایک کتاب Vestiges of the Natural History of Creation سے پڑھے لکھے طبقے میں بہت لے دے ہوئی کیونکہ اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ کسی خدائی مداخلت کے بغیر انسان دیگر پرائیمیٹس سے نکلا ہے۔ تاہم مصنف کو اس بارے پہلے سے اندازہ تھا اس لیے اس نے کتاب چھپوانے سے قبل اپنے نام کو خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اگلے چالیس برس تک اس کے قریبی دوستوں کو بھی اس کتاب کے اصل مصنف کے بارے پتہ نہ چل سکا۔ کئی لوگوں کو ڈارون پر شبہ تھا تو کئی لوگوں کے خیال میں پرنس البرٹ نے یہ کتاب لکھی تھی۔ تاہم اس کتاب کا اصل مصنف ایک سکاٹش پبلشر تھا جس کا نام رابرٹ چیمبرز تھا۔ اپنا نام چھپانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی کمپنی بائبل چھاپنے میں پیش پیش تھی (ڈارون ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جس نے درست اندازہ لگایا۔ جس دن ڈارون یہ کتاب خریدنے پہنچا، اسی روز اور اسی وقت چیمبرز نے انتہائی بے چینی سے نئے ایڈیشن کو دیکھا جس سے ڈارون نے جانا)۔ اس کتاب پر نہ صرف برطانیہ بلکہ ہر جگہ مشکلات پیدا کیں۔ Edenburgh Review نے اپنا ایک تقریباً پورا شمارہ یعنی 85 صفحات اس کی تردید پر چھاپے۔ ٹی ایچ ہکسلے نے بھی اس بات سے لاعلم ہوتے ہوئے کہ مصنف اس کا دوست ہے، پر کافی زہریلے انداز سے بحث کی۔
ڈارون کا اپنا مسودہ شاید اس کی وفات تک بند رہتا، مگر مشرقِ بعید سے موصول ہونے والے ایک عجیب معاملے نے اسے مجبور کر دیا۔ 1858 میں اسے ایک نیچرلسٹ الفریڈ رسل ولاس نے ایک خط بھیجا اور اس کے ساتھ ایک مقالہ بھی تھا جس کا عنوان On the Tendency of Varieties to Depart Indefinitely from the Original Type تھا۔ اس مقالے کا متن حیران کن حد تک ڈارون کے اپنے مقالے سے مشابہ تھا۔ حتیٰ کہ بعض فقرے من و عن مشترک تھے۔ ڈارون نے مایوسی سے کہا، ‘میں نے کبھی ایسی حیران کن مماثلت نہیں دیکھی۔ اگر ولاس نے 1842 میں میرے مسودے کو دیکھا ہوتا تو اس سے بہتر خلاصہ نہ پیش کر سکتا۔ ‘
عام اندازے کے برعکس ولاس اور ڈارون ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔ دونوں کے درمیان خط و کتابت چل رہی تھی اور کئی بار ولاس نے مختلف نمونے بھی ڈارون کو بھیجے تھے۔ انہی تحریری ملاقاتوں میں ڈارون نے صاف الفاظ میں ولاس کو بتا دیا تھا کہ انواع کی پیدائش کو وہ مکمل طور پر اپنا شعبہ سمجھتا ہے، ‘اس سال گرمیوں میں اس عنوان پر مجھے لکھتے ہوئے بیس برس ہو جائیں گے کہ انواع اوراقسام ایک دوسرے سے کیوں اور کیسے مختلف ہوتی ہیں۔ میں اب اسے چھپوانے کا سوچ رہا ہوں۔ ‘ اس نے بتایا، حالانکہ اس کا چھپوانے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ولاس ڈارون کی بات کو پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ اگر سمجھ بھی لیتا تو بھی اسے کیا علم ہوتا کہ دونوں کے نظریات اتنے مماثل ہوں گے کہ جس پر ڈارون بیس برس سے کام کر رہا ہے۔
ڈارون عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا۔ اگر وہ اپنی تحقیق کو اس لیے چھپواتا کہ اس کی اولیت برقرار رہتی تو شاید وہ اپنے دوست کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہوتا۔ اگر وہ ایک طرف ہو جاتا تو اتنی طویل تحقیق کا سہرا اسے نہ مل پاتا۔ ولاس کے اپنے الفاظ میں اس کا نظریہ محض لمحاتی سوچ کا نتیجہ تھا جبکہ ڈارون نے برسوں تک احتیاط سے اس پر کام کر کے اسے بنایا تھا۔ معاملہ بہت عجیب ہو گیا تھا۔
سونے پر سہاگہ، ڈارون کا سب سے چھوٹا بیٹا جس کا نام چارلس تھا، لال بخار کا شکار ہو گیا۔ 28 جون کو اسی مرض سے اس کی جان چلی گئی۔ بچے کی بیماری اور دیگر پریشانیوں کے باوجود ڈارون کے پاس اتنا وقت تھا کہ اس نے اپنے دوستوں چارلس لائل اور جوزف ہُکر کو خط لکھے کہ وہ ایک طرف ہٹنے کو تیار ہے مگر اس طرح اس کی ساری محنت رائے گاں جائے گی۔ لائل اور ہُکرنے تجویز دی کہ کیوں نہ ڈارون اور ولاس مل کر اس نظریے کو پیش کریں۔ دونوں کی ملاقات کا مقام بھی تجویز ہو گیا جو کہ لینائن سوسائٹی کے اجلاس میں پڑھا جاتا۔ یکم جولائی 1858 کو ڈارون اور ولائس کا نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ڈارون خود نہ آیا کہ اس روز وہ اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے بیٹے کی تدفین میں لگا تھا۔
ڈارون اور ولاس کا نظریہ اس روز کی ملاقات کے سات نکات میں سے ایک تھا۔ اسی طرح ایک اور عنوان انگولا کی نباتات کے بارے تھا۔ کمرے میں 30 کے لگ بھگ لوگوں میں سے کسی کو بھی اندازہ نہ ہو پایا وہ اس صدی کی اہم ترین سائنسی دریافت کو سن رہے ہیں۔ بات ختم ہونے پر کسی نے اس پر بحث نہ کی۔ نہ ہی بعد میں کسی نے اسے توجہ دی۔ ڈارون نے بعد میں خوش ہو کر لکھا کہ ڈبلن میں پروفیسر ہفٹن نے اس پر دو صفحہ کا مضمون لکھا اور کہا کہ ‘جو کچھ نیا ہے وہ غلط ہے اور جو سچ ہے، وہ سب پرانا ہے۔ ‘
ولاس جو کہ اس وقت تک مشرق بعید میں تھا اور اسے ان سب باتوں کا بہت بعد میں علم ہوا، نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس کے خیال میں اتنا بھی بہت تھا کہ اس نظریے میں اس کا نام بھی لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ اس نظریے کو ‘ڈارونزم’ کہتا رہا۔
عجیب بات دیکھیے کہ ڈارون سے بھی بیس برس قبل سکاٹش باغبان پیٹرک میتھیو نے قدرتی چناؤ کے اصولوں کے بارے ایک کتاب میں لکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈارون ابھی بیگل والے سفر پر روانہ ہونے لگا تھا۔ بدقسمتی سے یہ کتاب Naval Timber and Aroboriculture تھا جو نہ صرف ڈارون بلکہ پوری دنیا سے چھپی رہی۔ تاہم جب ڈارون کا نظریہ مشہور ہوا تو میتھیو نے فوراً ہر کسی کو بتانا شروع کر دیا کہ یہ نظریہ اس کا ہے۔ جب ڈارون کو پتہ چلا تو اس نے بلاجھجھک معذرت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا، ‘میرا نہیں خیال کہ میں نے یا کسی اور نے جناب میتھیو کی تحریر پڑھی ہو جو کہ مختصر انداز میں Naval Timber and Arborculture کے ضمیمے میں لکھی گئی تھی۔ ‘
ولاس نے اگلے پچاس سال تک بطور نیچرلسٹ اور مفکر کے طور پر کام جاری رکھا اور بعض اوقات بہت اچھے کام بھی کیے مگر اس کا رجحان بتدریج روحانیت اور غیر ارضی مخلوقات کی جانب ہوتا گیا اور سائنسی دنیا نے اس پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ اس طرح یہ نظریہ محض ڈارون کا ہو کر رہ گیا۔
ڈارون کو اس کے نظریات کی وجہ سے مسلسل مشکلات کا سامنا رہا۔ وہ خود کو شیطان کی دکان کہا کرتا تھا اور یہ بھی کہ اس کا نظریہ پیش کرنا ایسے ہی تھا جیسے کسی قتل کا اقرار کرنا۔ سب سے زیادہ اس کی بیوی کو تکلیف پہنچی جو بہت مذہبی اور نیک خاتون تھی۔ اس کے باوجود بھی اس نے اپنے مسودے کو پھیلا کر کتاب کی شکل دینے پر کام جاری رکھا۔ شروع میں اس نے کتاب کا نام An Abstract of an Essay on the Origin of Species and Varieties through Natural Selection کا نام دیا۔ عنوان اتنا عجیب اور غیر دلچسپ تھا کہ پبلشر نے محض 500 جلدیں چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم بعد میں جب مسودہ اور نسبتاً بہتر عنوان پیش کیا گیا تو اس نے 1250 جلدیں چھاپیں۔
On the Origin of Species تجارتی اعتبار سے کامیاب مگر تنقیدی اعتبار سے زیادہ کامیاب نہ ثابت ہوئی۔ ڈارون کے نظریے میں دو مشکلات تھیں۔ پہلی تو یہ کہ اس کے لیے درکار وقت لارڈ کیلون دینے کو تیار نہیں تھا اور دوسرا اس میں فاسل ثبوت نہ ہونے کے برابر تھے۔ تنقید نگاروں نے ڈارون سے پوچھا کہ اگر انواع مسلسل بہتری کی جانب مائل ہیں تو درمیانی کڑیاں کہاں ہیں (جب یہ ساری بحث ہو رہی تھی تو جرمنی میں بویریا میں مزدوروں کو آرکیوٹیرکس کا ڈھانچہ ملا جو پرندوں اور ڈائنوساروں کے درمیان کی مخلوق سمجھی جاتی ہے۔ اس کے دانت بھی تھے اور پر بھی۔ اگرچہ یہ بہت اہم دریافت تھی مگر محض ایک ڈھانچہ یا فاسل ساری بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے ناکافی تھا)؟ حقیقت میں اس دور کے ریکارڈ کے مطابق جانداروں کا وجود براہ راست کیمبرین انفجار سے شروع ہوتا تھا۔
اب ڈارون کو دیکھیے کہ بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ قدیم سمندروں میں لاتعداد مخلوقات پائی جاتی تھیں جنہیں ہم اس لیے تلاش نہیں کر پا رہے کہ کسی وجہ سے وہ محفوظ نہ رہ پائیں۔ ڈارون کا خیال تھا کہ اور کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔ اس نے غلطی سے یہ سمجھا کہ ‘قبل از کیمبرین دور کے سمندر اتنے صاف تھے کہ ان میں تلچھٹ نہ ہونے کی وجہ سے جاندار محفوظ نہ رہ پائے۔ ‘
ڈارون کے قریبی دوست بھی اس وجہ سے پریشان تھے۔ ایڈم سیج وِک نے کیمبرج میں ڈارون کو پڑھایا تھا اور اسے ویلز کے جغرافیائی دورے پر بھی 1831 میں لے کر گیا تھا، نے بتایا کہ ڈارون کی کتاب سے اسے خوشی سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ لوئیس اگاسیز جو کہ مشہور سوئس ماہرِ متحجرات تھا، کے خیال میں ڈارون کا نظریہ بہت کمزور تھا۔ لائل نے افسوس سے کہا، ‘ڈارون بہت دور نکل گیا ہے۔ ‘
ٹی ایچ ہکسلے کو بھی ڈارون کا نظریہ پسند نہ آیا کہ اس میں بہت زیادہ وقت درکار تھا۔ ہکسلے کا تعلق Saltationist گروہ سے تھا جن کے خیال میں ارتقائی تبدیلیاں بتدریج نہیں بلکہ فوری ہوتی ہیں۔ ان کا سوال یہ ہوتا تھا کہ ارتقائی عمل کے دوران بننے والی آدھی آنکھ یا ایک پر کا جانور کو کیا فائدہ ہوتا؟ ہاں اگر پوری آنکھ یا دو پر ایک ساتھ نمودار ہوں تو متعلقہ جانور کو فائدہ پہنچتا۔
یہ نظریہ ہکسلے جیسے بندے کے لیے عجیب تھا کہ اس سے ملتا جلتا اعتراض ایک مشہور مذہبی عالم ولیم پیلی نے 1802 میں دیا تھا۔ اس اعتراض میں اس نے کہا کہ اگر آپ کو زمین پر پڑی ایک گھڑی ملتی ہے اور چاہے آپ نے پہلے کبھی گھڑی نہ دیکھی ہو، پھر بھی اسے دیکھتے ہی آپ جان لیں گے کہ اس گھڑی کو کسی ذہین مخلوق نے بنایا ہے۔ اسی طرح فطرت میں پائے جانے والے پیچیدہ جاندار اپنی جگہ اپنے خالق کا ثبوت ہیں۔ یہ اعتراض اتنا بھاری تھا کہ اس سے ڈارون کو کافی مشکلات محسوس ہوئیں۔ اس نے اپنی کتاب میں اس بات کا کھلے عام اعتراف کیا کہ ‘فطری چناؤ سے آنکھ جیسی پیچیدہ چیز بتدریج نہیں پیدا ہو سکتی۔ ‘
اس کے باوجود ڈارون نے اصرار جاری رکھا کہ تبدیلی بتدریج ہی آتی ہے مگر اپنی کتاب کے ہر نئے ایڈیشن میں اس نے ارتقا کے دورانیے کو بڑھاتے جانے پر ہی زور دیا۔ نتیجتاً اس کا نظریہ عوامی دلچسپی کھونے لگا۔ سائنس دان اور مؤرخ جیفری شوارٹز کے مطابق ‘ساتھی نیچرل ہسٹورین اور ماہرینِ ارضیات کی بچی کھچی حمایت بھی ڈارون نے کھو دی۔ ‘
طرفہ تماشا دیکھیے کہ اس کی کتاب کا نام On the Origin of Species تھا اور واحد موضوع جس پر کتاب نے روشنی نہیں ڈالی، انواع کی ابتدا تھی۔ اس کتاب میں اس بات کی اچھی وضاحت موجود تھی کہ انواع کیسے بہتر اور برتر بنتی ہیں لیکن اس سے نئی انواع کی ابتدا کیسے ہوتی ہے، پر ڈارون خاموش رہا۔ ایک سکاٹش انجینئر فلیمنگ جینکن نے اس مسئلے کو محسوس کیا اور اس بارے ڈارون کی خاموشی پر اعتراض اٹھایا۔ ڈارون کی سوچ یہ تھی کہ ایک جاندار میں آنے والی اضافی خاصیت اس کی اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی جاتی ہے اور اس طرح نوع مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ جینکن نے بتایا کہ ایک جاندار کی اچھی خوبی ملاپ کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ یعنی اگر شراب کو پانی میں ملایا جائے تو شراب مزید گاڑھی تو نہیں ہو گی۔ اس ملغوبے میں مزید پانی ملایا جائے تو شراب مزید کمزور ہوتی جائے گی اور یہ سلسلہ جاری رہے تو جلد ہی شراب کا نشان تک غائب ہو جائے گا۔ وقتاً فوقتاً آنے والی تبدیلی جلد ہی مٹ جائے گی۔ اس لیے فطری چناؤ کے لیے کوئی اور وجہ بھی ہونی چاہیے جو اس وقت تک نامعلوم تھی۔
ڈارون اور دیگر کی لاعلمی میں 1٫200 کلومیٹر دور وسطی یورپ میں گریگر مینڈل نامی ایک پادری اس مسئلے کے حل کی تیاری میں تھا۔
مینڈل 1822 میں غریب کسان گھرانے میں پیدا ہوا جو آسٹرین سلطنت کے اس حصے میں رہائش پذیر تھا جو آج چیک ریپبلک کا حصہ ہے۔ درسی کتب میں مینڈل کا ذکر ایک مذہبی عالم کے طور پر ملتا ہے جو اپنی رہائش گاہ کے باغیچے میں موجود مٹر کے پودوں کی چند خصوصیات کو دیکھ کر چونکا تھا۔ تاہم حقیقت میں مینڈل باقاعدہ تربیت یافتہ سائنس دان تھا اور اس نے طبعیات اور ریاضی کی تعلیم وی آنا کی یونیورسٹی سے حاصل کی تھی اور اپنے تجربات کو سائنسی انداز سے کرتا تھا۔ اس کے علاوہ برنو میں جہاں وہ 1843 سے رہائش پذیر تھا، مشہور علمی درسگاہ تھی۔ اس کی لائبریری میں 20٫000 کتب موجود تھیں اور یہاں سنجیدہ سائنسی تحقیق ہوتی تھی۔
تجربہ شروع کرنے سے قبل مینڈل نے دو برس لگا کر مطلوبہ بیج جمع کیے جو سات مختلف اور خالص اقسام کے مٹروں پر مشتمل تھے۔ اس کے ساتھ دو مستقل نائبین تھے اور اس نے 30٫000 پودوں کی اپنے ساتھ اور دوسرے پودوں کے ساتھ افزائشِ نسل کی۔ یہ کام بہت نازک تھا کہ انہیں کسی بھی قسم کی غلط افزائشِ نسل سے بچنا تھا اور بیجوں، پتوں، تنوں، پھولوں اور پھلیوں کی شکل و صورت اور ان کی نشو و نما میں آنے والی ہر تبدیلی کا بھی خیال رکھنا تھا۔ مینڈل بخوبی جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
تاہم اس نے لفظ ‘جین’ کبھی استعمال نہیں کیا۔ یہ لفظ 1913 میں سب سے پہلے انگریزی کی طبی ڈکشنری میں پہلے نمودار ہوا۔ تاہم اس نے ‘غالب’ اور ‘مغلوب’ کی اصطلاحات متعارف کرائیں۔ اس نے بتایا کہ ہر بیج میں دو خصوصیات یا عوامل ہوتے ہیں۔ ایک کو غالب اور دوسرے کو مغلوب کہا جاتا ہے۔ جب انہیں ملایا جائے تو اگلی نسل پر ہونے والے اثرات کے بارے پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
ان نتائج کو مینڈل نے ریاضیاتی کلیے میں بدلا۔ ان تجربات پر اس نے کل آٹھ سال خرچ کیے اور اپنے نتائج کو پھولوں، مکئی اور دیگر پودوں پر بھی کامیابی سے آزمایا۔ اس کا طریقہ کار انتہائی سائنسی تھا۔ جب اس نے اپنے نتائج کو فروری اور مارچ 1865 میں نیچرل ہسٹری سوسائٹی کی میٹنگ میں پیش کیے تو سب نے اسے سنا تو سہی مگر توجہ بالکل نہیں دی، حالانکہ پودوں کی افزائشِ نسل ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا اہم ترین مشغلہ تھا۔
جب مینڈل کی رپورٹ چھپی تو اس نے ایک کاپی بطورِ خاص سوئس ماہرِ نباتات کارل ویلہم وون ناگیلی کو بھیجی کہ اس کی مدد سے اس رپورٹ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہونا تھا۔ بدقسمتی سے ناگیلی کو مینڈل کی رپورٹ کی اہمیت کا احساس نہ ہو سکا۔ اس نے مینڈل سے کہا کہ وہ ہاک ویڈ نامی پودے پر یہ تجربات دوبارہ کرے۔ مینڈل نے فرمانبرداری سے اس ہدایت پر عمل کیا مگر اسے فوراً ہی احساس ہو گیا کہ یہ پودا ایسے تجربات کے لیے بالکل غیر موزوں ہے۔ ظاہر ہے کہ یا تو ناگیلی نے مینڈل کی رپورٹ پڑھی ہی نہیں یا پھر اس پر توجہ نہیں دی۔ بددل ہو کر مینڈل نے وراثتی خصوصیات پر کام چھوڑ دیا اور اس نے بہترین اقسام کی سبزیاں اگانا، شہد کی مکھیوں، چوہوں اور سورج کے دھبوں کا مشاہدہ شروع کر دیا۔ آخرکار اسے ایبٹ بنا دیا گیا۔
تاہم عام تصور کے برعکس مینڈل کے نتائج کو یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے مطالعے نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بہت شاندار جگہ پائی کہ اس دور میں سائنسی اعتبار سے یہ انسائیکلوپیڈیا بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جرمن ولہلم اولبرز فوک نے اپنے اہم مقالے میں بار بار اس کا ذکر کیا۔ مینڈل نے نظریات کو کبھی اتنا غیر اہم نہیں سمجھا گیا کہ وہ بالکل ہی بھلا دیے جاتے۔ اس لیے جب حالات سازگار ہوئے تو اس کا نظریہ آسانی سے اوپر آ گیا۔
ایک دوسرے سے لاعلم ہونے کے باوجود ڈارون اور مینڈل نے 19ویں صدی کی حیاتیاتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ ڈارون نے دیکھا کہ تمام جاندار ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور ان سب کی ابتدا ایک ہی جاندار سے ہوئی تھی۔ مینڈل کے کام سے پتہ چلا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ یہ دونوں مل کر بھی کام کر سکتے تھے کہ مینڈل کے پاس ڈارون کی کتاب کا جرمن ترجمہ موجود تھا اور اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اس نے یہ کتاب پوری طرح پڑھی تھی اور اس بات کا واضح امکان ہے کہ اس نے اپنے کام کو ڈارون کے کام کے ساتھ ملا کر بھی دیکھا ہو گا، مگر اس نے رابطے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ڈارون کے بارے بھی علم ہے کہ اس نے فوک کا مقالہ پڑھا تھا کہ جس میں جگہ جگہ مینڈل کے کام کا حوالہ دیا گیا تھا، لیکن اس نے مینڈل کی تحقیق کو اپنی تحقیق سے جوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایک بات جو کہ ڈارون کے حوالے سے ہر جگہ مشہور ہے کہ انسان کی ابتدا بندر سے ہوئی کے بارے محض ایک جگہ اشارہ لکھا تھا۔ تاہم ڈارون کے نظریات سے یہ بات اخذ کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا اور جلد ہی اس پر بحث شروع ہو گئی۔
اصل شغل تب لگا جب 30 جون 1860 کو آکسفورڈ میں برطانوی انجمن برائے ترقی سائنس کی میٹنگ ہوئی۔ رابرٹ چیمبرز نے ہکسلے کو شریک ہونے پر اصرار کیا۔ تاہم ہکسلے کو علم نہیں تھا کہ چیمبرز نے ہی وہ مشہور کتاب لکھی ہے کہ جس پر بحث ہونی تھی۔ ڈارون حسبِ معمول غائب تھا۔ میٹنگ کا مقام آکسفورڈ کا زوآلوجیکل میوزیم تھا۔ ایک ہزار سے زیادہ افراد جمع تھے اور کئی سو افراد کو دروازے سے لوٹا دیا گیا۔ لوگوں کو علم تھا کہ کوئی اہم بات ہونے والی ہے۔ تاہم انہیں پہلے دو گھنٹے نیویارک یونیورسٹی کے جان ولیم ڈریپر کی طویل اور بیزار کر دینے والی تقریر سننی پڑی جس میں اس نے اس نے یورپ کی ذہانت کو ڈارون کے نظریات کی رو سے جانچا۔
آخرکار آکسفورڈ کا بشپ سیموئل ولبرفورس تقریر کو اٹھا۔ ولبرفورس کے کان پہلے سے ڈارون کے مخالف رچرڈ اوون نے اچھی طرح بھر دیے تھے (یا اندازہ یہی ہے ) کہ وہ ایک روز قبل اس سے ملنے ولبرفورس کے گھر گیا تھا۔ اس سے آگے کے واقعات زیادہ واضح نہیں۔ تاہم مقبولِ عام خیال یہ ہے کہ ولبرفورس نے دورانِ تقریر ہکسلے کا رخ کر کے کہا وہ اپنے دادا یا دادی میں سے کس کی نسبت سے بندروں سے رشتہ جوڑنا پسند کرتا ہے۔ اگرچہ یہ محض ایک طنز تھا لیکن ہکسلے نے اسے چیلنج سمجھا۔ ہکسلے کے اپنے الفاظ میں، اس نے اپنے ساتھ بیٹھے بندے کو سرگوشی کی، ‘خدا نے آج اسے میرے حوالے کر دیا ہے۔ ‘
تاہم دیگر لوگوں کے بقول ہکسلے غصے اور رنج سے کانپنے لگا۔ تاہم اس کا جواب یہ تھا کہ وہ کسی ایسے بندے سے نسبت جوڑنے سے کہ جو اپنی ذاتی جہالت کو ایسے سنجیدہ سائنسی مقام پر تماشا بنانے کے لیے استعمال کرے، کی بجائے بندر سے تعلق جوڑنا زیادہ پسند کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ تبصرہ انتہائی بیہودہ سمجھا گیا اور ہلڑ مچ گیا۔ ایک خاتون بیہوش ہو گئی۔ رابرٹ فٹزرائے جو کہ ڈارون کے ساتھ 25 سال قبل بیگل کے سفر پر گیا تھا، نے بائبل اٹھائی اور لوگوں کو بائبل کے واسطے دے کر ٹھنڈا کرنے لگا (فٹزرائے ان دنوں نئے بنے ہوئے موسمیات کے محکمے کے سربراہ کے طور پرطوفانوں کے بارے مقالہ پیش کرنے آیا تھا)۔ بعد میں دونوں جانب نے اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کیا۔
بعد میں 1871 میں ڈارون نے اپنی کتاب The Descent of Man میں انسانوں کا تعلق بندروں سے جوڑا۔ یہ کافی نڈر تبصرہ تھا کہ اس وقت تک اس بارے کوئی بھی فاسل ثبوت نہیں مل سکا تھا۔ اس وقت تک کے قدیم ترین انسان جرمنی سے ملنے والے نیندرتھال کی جبڑے اور کچھ ہڈیاں تھیں۔ زیادہ تر محققین نے ان کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ یہ کتاب پچھلی کتاب سے بھی زیادہ متنازعہ ثابت ہوئی مگر اس وقت تک لوگ اتنے سمجھدار ہو چکے تھے کہ زیادہ شور و غل نہیں مچا۔
اپنے آخری برسوں میں ڈارون نے دیگر موضوعات پر کام جاری رکھا اور فطری چناؤ پر کم ہی بات کی۔ بہت زیادہ عرصے تک وہ پرندوں کی بیٹ کا عمیق معائنہ کرتا رہا تاکہ جان سکے کہ براعظموں کے درمیان کیسے بیج پھیلتے ہیں۔ اس نے کئی سال کیڑوں کو سمجھنے پر خرچ کیے۔ ایک تجربے میں اس نے کیڑوں کو پیانو بجا کر دکھایا تاکہ ان پر تھرتھراہٹ اور آواز کا اثر جان سکے۔ سب سے پہلے اسی نے ثابت کیا کہ کیڑے ہمارے زمین کی زرخیزی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ‘ان سے زیادہ شاید ہی کسی اور جانور نے کرہ ارض کی تاریخ میں اس سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہو’، اس نے اپنی کتاب The Formation of Vegetable Mould Through the Action of Worms (1881) میں لکھا۔ یہ کتاب اس کی پہلی کتاب سے کہیں زیادہ مقبول ہوئی۔ ڈارون کی دوسری کتب On the Various Contrivances by which British and Foreign Orchids Are Fertilised by Insects (1882), Expressions of the Emotions in Man and Animals (1872) شامل ہیں۔ آخری کتاب کی 5٫300 جلدیں پہلے روز فروخت ہوئیں۔ اس کے علاوہ اس نے The Effects of Cross and Self Fertilization in the Vegetable Kingdom (1876) لکھی جس میں اس نے مینڈل کے کام سے ملتے جلتے تجربات کیے لیکن اس کے معیار کو نہ پہنچ سکا۔ اس نے ایک اور کتاب The Power of Movement in Plants بھی لکھی۔ اس کے علاوہ اس نے باہمی افزائشِ نسل پر کافی کام کیا کیونکہ یہ اس کی ذاتی دلچسپی تھی۔ اس کی شادی اس کی اپنی عم زاد سے ہوئی تھی اور اس کے خیال میں اس کے بچوں کے کئی پیدائشی مسائل کی وجہ بھی یہی تھی۔
ڈارون کو اس کی زندگی میں ہی تکریم مل گئی تھی۔ تاہم اس کی وجہ اس کی کتاب On the Origin of Species یا The Descent of Man نہیں بنیں۔ جب رائل سوسائٹی نے اسے کاپلی تمغہ دینے کا فیصلہ کیا تو وہ اس کے ارتقائی نظریات کی بجائے جغرافیہ، علم الحیوانات اور علم النباتات پر کیے گئے کام پر دیا گیا۔ لینائن سوسائٹی نے بھی اسے تمغہ دیا لیکن اس کے نظریات سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔ اسے کبھی نائٹ کا خطاب نہ مل سکا لیکن اسے ویسٹ منسٹر ایبی میں دفن کیا گیا اوراس کے ساتھ والی قبر نیوٹن کی ہے۔ ڈاؤن میں اپریل 1882 کو ڈارون کا انتقال ہوا۔ دو سال بعد مینڈل بھی چل بسا۔
1930 اور 1940 کی دہائی سے قبل ڈارون کے نظریات مقبولِ عام نہ ہو سکے۔ مقبولیت کی وجہ Modern Synthesis کا نظریہ تھا جو ڈارون اور مینڈل کے علاوہ دیگر سائنس دانوں کے نظریات کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ مینڈل کو بھی بعد از مرگ شہرت نصیب ہوئی۔ 1900 میں یورپ میں کام کرنے والے تین سائنس دانوں نے تقریباً بیک وقت مینڈل کے کام کو تلاش کیا۔ اس کی وجہ کچھ یہ تھی کہ ایک ولندیزی ہیوگو ڈی وریز نے مینڈل کے کام کو اپنے نام سے منسوب کیا تو اس کے مخالف سائنس دان نے فوراً بھانڈہ پھوڑ دیا کہ اصل کام مینڈل نے کیا تھا۔
اب دنیا یہ سمجھنے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ انسان کیسے موجودہ حالت تک پہنچا۔ عجیب بات دیکھیے کہ بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا کے ذہین ترین سائنس دان ہمیں یہ نہ بتا سکتے تھے کہ بچے کہاں سے آتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ وہی لوگ تھے جن کے خیال میں سائنس اپنے بامِ عروج کو پہنچ چکی تھی۔
٭٭٭
26 زندگی کا مادہ
اگر آپ کے والدین نے عین اسی لمحے، شاید نینو سیکنڈ کی حد تک درست لمحے جنسی ملاپ نہ کیا ہوتا تو آج آپ یہاں نہ ہوتے۔ اسی طرح ان کے والدین، والدین کے والدین اور اسی طرح ان سے پیچھے تمام تر والدین پر بھی یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔
اب ذرا تاریخ میں پیچھے کی جانب نظر دوڑائیے۔ آپ آج سے آٹھ نسل پیچھے جائیں تو وہ دور چارلس ڈارون اور ابراہم لنکن کی نسل سے ہو گا اور آپ کے شجرے میں موجود کم از کم 250 افراد براہِ راست منسلک ہو چکے ہوں گے کہ ان کے بروقت جنسی ملاپ سے آپ وجود میں آئے۔ شیکسپیئر تک جانے تک آپ کے خاندان میں 16٫384 افراد ملوث ہو چکے ہوں گے جن کے جنسی ملاپ سے آپ کی نسل آپ تک پہنچی۔
بیس نسل پیچھے جائیں تو ایسے افراد کی تعداد 10٫48٫576 ہو چکی ہو گی۔ اس سے 5 نسل مزید پیچھے یہ تعداد 3٫35٫54٫432 ہو چکی ہو گی۔ 30 نسل پیچھے جائیں تو آپ کے آباء و اجداد کی کل تعداد ایک ارب سے زیادہ ہو چکی ہو گی۔ یاد رہے کہ یہ تمام افراد براہ راست آپ کے والدین اور ان کے والدین ہوں گے، ان کے عم زاد، چچا، خالائیں، ماموں وغیرہ جیسے رشتے یہاں شمار نہیں ہو رہے۔ 64 نسل پیچھے جانے کا مطلب ہے کہ ہم رومن دور تک پہنچ رہے ہیں اور اس وقت یہ تعداد کھربوں تک پہنچ جائے گی۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعداد تو کرہ ارض پر پیدا ہونے والے آج تک کے تمام تر انسانوں سے زیادہ ہے۔
اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ آپ کو یہ بات مان لینی ہو گی کہ آپ کی نسل بالکل ہی خالص نہیں۔ محرمات کے ساتھ مباشرت (مغربی معاشرے میں اپنے عم زاد کے ساتھ شادی کو محرمات کے ساتھ مباشرت کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ شاید یہ تصور وہیں سے آیا ہے، مترجم) کے بغیر آپ یہاں تک نہ پہنچ سکتی۔ اتنے لاکھوں یا کروڑوں آباء و اجداد میں سے بہت دفعہ ایسا ہو گا ہو گا کہ مادری جانب کے کسی رشتہ دار نے پدری جانب کے کسی رشتہ دار سے بچے پیدا کیے ہوں گے۔ اگر آپ آج اپنے ہی ملک اور اپنی ہی نسل کے کسی انسان کے ساتھ رہتے ہیں تو اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ آپ دونوں کہیں نہ کہیں سے رشتہ دار ضرور ہوں گے۔ اب اگر آپ کسی بس میں ہوں یا پارک یا کیسے کیفے میں، تو آپ کے آس پاس موجود زیادہ تر لوگ آپ کے کسی نہ کسی طرح ضرور رشتہ دار نکلیں گے۔ جب کوئی بندہ یہ شیخی بگھارے کہ اس کی نسل شیکسپیئر سے نکلی ہے تو آپ بھی بلا جھجھک کہہ دیں کہ آپ کا خاندان بھی اسی سے متعلق ہے۔ بنیادی طور پر ہم سبھی ایک ہی خاندان سے متعلق ہیں۔
اس کے علاوہ ہم ایک دوسرے سے انتہائی حد تک مشابہ ہیں۔ اگر آپ اپنے جینز کو کسی دوسرے انسان سے ملائیں تو 99.9 فیصد جینز ایک ہوں گے۔ 0.1 کا فرق ہی ہے جو ہمیں ہماری انفرادی شخصیت عطا کرتا ہے۔ انسانی جینوم پر حالیہ برسوں میں بہت کام ہوا ہے۔ مگر انسانی جینوم جیسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اگر ہر انسان کا جینوم سو فیصد ایک جیسا ہوتا تو ہم سبھی ایک جیسے دکھائی دیتے۔ جینیاتی اعتبار سے یہ انتہائی چھوٹا سا فرق ہی اصل اہمیت رکھتا ہے جو ہمیں بطور انسان مختلف اور بطور نوع ایک جیسا بناتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ جینوم کیا ہے اور جین کیا ہوتے ہیں؟ چلیے، خلیے سے شروع کرتے ہیں۔ خلیے کے اندر مرکزہ ہوتا ہے اور مرکزے کے اندر کروموسوم۔ انسانی خلیے کے مرکزے میں کروموسومز کی تعداد 46 ہوتی ہے جن میں سے 23 ماں اور 23 باپ کی طرف سے آپ کو ملتے ہیں۔ ہر کروموسوم پیچیدگی کا شاندار نمونہ ہوتا ہے۔ انتہائی معمولی تبدیلیوں کے سوا ہر خلیے میں موجود کروموسوم 99.999 فیصد تک مماثل ہوتے ہیں (استثنائی خلیوں میں خون کے سرخ خلیے، کچھ مدافعتی خلیے اور تولیدی خلیے ہوتے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر پورے جینیاتی مواد کو نہیں اٹھائے پھرتے )۔ کروموسومز میں ہمیں بنانے اور زندہ رکھنے کے سلسلے میں مکمل ہدایات موجود ہوتی ہیں۔ کروموسوم ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ یعنی ڈی این اے کے لمبے لمبے دھاگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اسے عرفِ عام میں ‘کرہ ارض کا سب سے غیر معمولی مالیکیول’ بھی کہا جاتا ہے۔
ڈی این اے کے وجود کا واحد مقصد اپنی نقلیں تیار کرنا ہے۔ ڈی این اے کی بہت بڑی مقدار ہمارے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہر خلیے میں موجود کروموسوم کو اگر سیدھا لکیر کی شکل میں لایا جائے تو دو میٹر طویل لکیر بنے گی۔ ڈی این اے کی ہر لکیر میں 3.2 ارب الفاظ کے برابر ہدایات لکھی ہوتی ہیں۔ ان سے بننے والی ممکنہ اشکال کی تعداد 101,92,00,00,000 ہوتی ہے جو اتنی بڑی تعداد ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے شرطیہ مختلف ہوتا ہے۔ یہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ 1 کے پیچھے 3 ارب صفر لگے ہوئے ہیں۔ ڈی نوو کے الفاظ میں ‘اگر آپ اس ہند سے کو لکھنا چاہیں تو عام حجم کی 5٫000 کتب درکار ہوں گی۔ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو دیکھیں۔ آپ کے جسم میں موجود خلیوں کی تعداد 10٫000 کھرب ہے اور ہر خلیے میں دو میٹر جتنے کروموسوم موجود ہیں۔ شاید آپ کو پھر اندازہ ہو کہ آپ کا وجود بھی ایک معجزہ ہے۔ اگر آپ کے جسم کے تمام تر ڈی این اے کو سیدھی لکیر میں پرویا جائے تو زمین سے چاند تک کئی بار کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کے جسم میں ڈی این اے لگ بھگ 20 ارب کلومیٹر کے برابر ہے۔
آپ کے جسم کو ڈی این اے بنانے سے خاص شغف ہے اور اس کے بغیر آپ زندہ بھی نہیں پاتے۔ تاہم ڈی این اے بذاتِ خود زندہ نہیں۔ کوئی بھی مالیکیول زندہ نہیں ہوتا اور ڈی این اے تو بطورِ خاص زندہ نہیں۔ ماہرِ جینیات رچرڈ لیونٹن کے مطابق، ‘زندہ کائنات میں ڈی این اے ان مالیکیولوں میں سرِفہرست ہے کہ جو کسی قسم کے تعامل کے قابل نہیں ہوتے۔ ‘ اسی لیے ڈی این کو برسوں پرانے خون کے نشانات سے اور نیندرتھال کی قدیم اور بوسیدہ ہڈیوں سے بھی کامیابی سے نکالا جا سکتا ہے۔ شاید اسی لیے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں اتنا طویل عرصہ لگا کہ زندگی کی بنیاد ہی ڈی این اے ہے۔
ڈی این اے کے بارے ہماری معلومات آپ کی توقع سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ 1869 میں جب سوئس سائنس دان جان فریڈریک میشر نے جرمنی کی یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا تو اس نے ڈی این اے دریافت کیا۔ اس وقت وہ جراحی میں استعمال ہونے والی پٹیوں پر لگی ہوئی پیپ کا خورد بینی جائزہ لے رہا تھا کہ اس نے ایسا مادہ دیکھا جو وہ شناخت نہ کر سکا اور اسے نیوکلین کا نام دیا (چونکہ یہ مادہ مرکزے میں تھا)۔ اس وقت تو میشر نے زیادہ توجہ نہیں دی لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس کے ذہن میں موجود رہی۔ 23 سال بعد اپنے چچا کو خط لکھتے ہوئے اس نے خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ مالیکیول ہی وراثت کے ذمہ دار ہوں۔ تاہم یہ خیال اتنا قبل از وقت تھا کہ اُس وقت کسی نے توجہ نہیں دی۔
اگلی نصف صدی کے زیادہ تر حصے میں یہ خیال زوروں پر رہا کہ وراثت میں ڈی این کا کردار انتہائی معمولی ہو گا۔ اس کی وجہ اس کا انتہائی سادہ ہونا تھا۔ اس میں کل چار بنیادی اجزاء ہیں جنہیں نیوکلیوٹائیڈ کہا جاتا ہے۔ یعنی زندگی کی کتاب چار الفاظ سے لکھی گئی ہے۔ اب سوچیں کہ زندگی جیسی پیچیدہ چیز اتنی سادہ زبان سے کیسے لکھی جا سکتی ہے (اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے مورس کوڈ میں آپ نقطوں اور وقفوں کو ملا کر الفاظ بناتے ہیں، ویسے ہی)۔ اس وقت تک ڈی این اے کا کوئی کام معلوم نہیں ہو پایا تھا۔ اس وقت تک سمجھا جاتا تھا کہ ڈی این اے مرکزے میں بیکار بیٹھا کروموسومز سے جڑا رہتا ہے اور شاید ہی کچھ کرتا ہو۔ اس وقت یہ خیال تھا کہ شاید مرکزے میں موجود پروٹین ہی اصل اہمیت کی حامل تھیں۔
تاہم ڈی این اے کو نظرانداز کرنے میں دو قباحتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ اس کی بہت بڑی مقدار، لگ بھگ دو میٹر جتنی طوالت ہر خلیے میں موجود تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ خلیوں کے نزدیک کسی نہ کسی اعتبار سے اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دوسرا یہ بھی کہ بار بار ڈی این اے گھوم پھر کر سامنے آتا تھا۔ اس سلسلے میں بطورِ خاص دو تجربات بہت اہم تھے کہ ایک میں نمونیا اور دوسرے میں بیکٹیریا کو متاثر کرنے والے وائرس استعمال کیے گئے تھے اور دونوں میں ڈی این اے نے اپنی اہمیت کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ جو عام نظریے کے برعکس تھا۔ بہرحال ان تجربات سے واضح ہوا کہ ڈی این اے کسی نہ کسی طرح پروٹین بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زندگی کے لیے پروٹین کی اہمیت انتہائی بنیادی ہے۔ تاہم پروٹین مرکزے کے باہر بنتی ہیں جو کہ ڈی این اے سے اتنا دور ہوتی ہیں کہ ڈی این اے انہیں براہ راست نہیں بنا سکتا۔
کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ ڈی این اے اپنے پیغامات کو کیسے پروٹین تک بھیجتا ہے۔ اب ہمیں اس کا جواب مل چکا ہے کہ یہ کام آر این اے یعنی رائبو نیوکلیک ایسڈ کرتا ہے اور ڈی این اے اور پروٹین کے درمیان ترجمان کا کام کرتا ہے۔ حیاتیات کا یہ بہت عجیب پہلو ہے کہ ڈی این اے اور پروٹین ایک ہی زبان نہیں جانتے۔ لگ بھگ 4 ارب سال سے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے اور مل کر کام کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے، جیسے ایک سپینش بولتا ہو تو دوسرے کی زبان ہندی ہو۔ اس لیے دونوں کے رابطے کی خاطر آر این اے کا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح آر این اے مترجم کی طرح کام کرتے ہوئے ڈی این اے کی ہدایات کو پروٹین کی زبان میں منتقل کرتا ہے تاکہ پروٹین انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو سکیں۔
تاہم واپس اپنی اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں جہاں 1900 کے ابتداء میں ابھی ہمیں ان چیزوں کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں تھی اور نہ ہی وراثت سے منسلک کسی بات کا علم تھا۔
اس سلسلے میں کسی انتہائی ذہین بندے کا تجربات پر آمادہ ہونا لازمی تھا کہ جس کی مدد سے تحقیقات آگے بڑھ پاتیں۔ حسنِ اتفاق سے ایسا ہی ایک شخص اسی دور میں یہ کام کرنے کو تیار ہو رہا تھا اور وہ اس کام کو کرنے کا اہل بھی تھا۔ اس کا نام تھامس ہنٹ مورگن تھا اور 1904 میں کروموسوم پر یادگار تجربات شروع کر دیے۔ چار سال قبل مینڈل کے تجربات دوبارہ منظرِعام پر آئے تھے اور ابھی جین کو بطور لفظ قبول کیے جانے میں دس سال باقی رہتے تھے۔
1888 میں کروموسوم اتفاق سے دریافت ہوئے کہ وہ بڑی آسانی سے رنگ قبول کر لیتے تھے اور خورد بین میں بہ آسانی دکھائی دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کا نام کروموسوم رکھا گیا۔ اس صدی کے آغاز سے سائنس دان اس بارے کافی پر امید تھے کہ کروموسوم ہی وراثتی خصوصیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کسی کو اس بات کا سو فیصد یقین نہیں تھا کہ ایسا ہی ہوتا ہے یا ایسا کیسے ہوتا ہے۔
مورگن نے تجربے کی غرض سے ایک نازک اور ننھی سی مکھی چنی جسے Drosophila melanogaster یعنی عام مکھی کہا جاتا ہے۔ ہم اس مکھی کو اس وجہ سے جانتے ہیں کہ اسے ہمارے مشروبات میں ڈوب مرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لیبارٹری میں اس کے استعمال کو پسند کیا جاتا ہے کہ ان کی افزائشِ نسل اور پرورش پر کوئی خرچہ نہیں آتا اور دودھ کی خالی بوتلوں میں لاکھوں مکھیاں آسانی سے رہ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دس دن میں انڈے سے بالغ ہو جاتی ہیں اور ان میں کل چار کروموسوم پائے جاتے ہیں جس سے تحقیق میں بہت سہولت رہتی ہے۔
ایک چھوٹی سی لیبارٹری (جسے مکھیوں کا کمرہ کہا جاتا تھا) میں کام شروع کیا۔ یہ لیبارٹری نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی میں واقع تھی۔ سو مورگن اور اس کے ساتھیوں نے لاکھوں کی تعداد میں ان مکھیوں کی افزائشِ شروع کر دی۔ ہر مکھی کو پکڑ کر پھر محدب عدسے کی مدد سے جانچا جاتا کہ ان میں کسی قسم کی وراثتی تبدیلیاں تو نہیں ہو رہیں۔ چھ سال تک یہ لوگ ان مکھیوں میں کسی قسم کی میوٹیشن لانے میں مصروف رہے اور ہر ممکن طریقہ اپنایا۔ ان مکھیوں پر تابکاری اور ایکس رے شعاعیں ڈالی گئیں، انہیں تیز روشنی اور تاریکی میں پالا گیا، ان کو بڑے تنوروں میں آہستہ آہستہ گرم کیا گیا، انہیں مرکز گریز مشینوں میں گھمایا گیا، لیکن ہر طرف سے ناکامی ہوئی۔ مایوس ہو کر مورگن اپنے تجربات کو ختم کرنے والا تھا کہ اچانک ایک ایسی میوٹیشن واقع ہوئی جو اگلی نسل کو منتقل ہو سکتی تھی۔ اس مکھی کی آنکھیں سرخ ہونے کی بجائے سفید تھیں۔ اس طرح اس مکھی کو استعمال کرتے ہوئے مورگن اور اس کے ساتھیوں مکھیوں کی مختلف نسلوں میں مختلف تبدیلیاں لائے اور کامیابی سے ان تبدیلیوں کا تجزیہ کیا۔ اس طرح انہوں نے انفرادی کروموسوم اور مخصوص خصوصیات کے مابین تعلق کو دریافت کیا۔ آخرکار انہی کی محنت سے ثابت ہوا کہ وراثت کے عمل میں کروموسوم مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
تاہم اب ایک اور مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ عجیب و غریب جین اور ان کو بنانے والے ڈی این اے کیا ہیں۔ ان کو الگ کر کے ان کا تجزیہ کرنا بہت زیادہ پیچیدہ کام نکلا۔ 1933 میں جب مورگن کو اس کے کام کے لیے نوبل انعام دیا گیا تو اس وقت بہت سارے محققین کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ آیا جین ہیں بھی سہی یا نہیں۔ ایک بار مورگن نے لکھا، ‘اس بات پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہے کہ جین کیا ہیں اور آیا وہ حقیقی ہیں یا فرضی۔ ‘ بظاہر یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ سائنس دان زندگی کے بارے اتنی بنیادی بات کو قبول کرنے میں کتنے متذبذب تھے۔ آج ہم یادداشت اور خیال کے بارے عین اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ تو یقین ہے کہ یادداشت اور خیال موجود ہیں، لیکن ان کی شکل کیا ہو گی، اس بارے کچھ نہیں جانتے۔ طویل عرصے تک جین کے بارے یہی مشکلات تھیں۔ مورگن کے رفقائے کاروں کے نزدیک یہ خیال کہ اپنے جسم سے ایک خلیہ نکال کر اس میں موجود کروموسوم اور جین کا مشاہدہ کرنا اتنا ہی احمقانہ خیال تھا جتنا کہ یہ سوچنا کہ ہم اپنی ایک سوچ کو پکڑ کر خورد بین سے اس کا تجزیہ شروع کر دیں۔
تاہم یہ بات سچ تھی کہ خلوی تقسیم کے علم میں کروموسوم کا کچھ نہ کچھ عمل دخل تھا۔ آخرکار 1944 میں 15 سالہ محنت کے بعد مین ہٹن کے راک فیلر ادارے کی ٹیم نے کینیڈین اوسوالڈ ایوری کی زیرنگرانی ایک انتہائی پیچیدہ تجربے کی مدد سے بے ضر ر بیکٹیریا کا ایک دوسرے نقصان دہ بیکٹیریا کے ڈی این اے سے ملاپ کر کے اسے مستقل طور پر مضر بنا دیا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو گئی کہ ڈی این اے محض ایک بیکار مالیکیول نہیں بلکہ وارثت کے لیے اہم چیز ہے۔ بعد میں آسٹریائی نژاد بائیوکیمسٹ اِروِن چارجیف نے کہا کہ ایوری کی دریافت در اصل دو نوبل انعاموں کی مستحق تھی۔
بدقسمتی سے ایوری کو اپنے ہی ادارے میں ایک رفیقِ کار کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کا نام الفریڈ مرسکی تھا اور اس نے ہر جگہ نہ صرف اس کے کام کو جھٹلایا بلکہ اپنی پوری کوشش کی کہ ایوری کو نوبل انعام نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں اس نے سٹاک ہوم کے کیرولینسکا ادارے میں اپنے تعلقات استعمال کیے۔ اس وقت تک ایوری کی عمر 66 برس ہو چکی تھی اور اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ مرسکی کا سامنا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور منظرِ عام سے غائب ہو گیا۔ تاہم دنیا بھر میں ہونے والے مزید تجربات اس کے نتائج کو درست ثابت کر رہے تھے اور جلد ہی ڈی این اے کے ڈھانچے کو دریافت کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔
1950 کی دہائی میں یہ بات تقریباً یقینی سمجھی جاتی تھی کہ کالٹیک کے لائنس پاؤلنگ نے ہی ڈی این اے کی ساخت کو دریافت کرنا ہے۔ مالیکیولوں کی ساخت جاننے میں مہارتِ تامہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اور ایکس رے کرسٹلوگرافی کا بانی بھی تھا۔ یہی تکنیک ڈی این اے کی ساخت جاننے میں کلیدی اہمیت کی حامل تھی۔ اپنے انتہائی بہترین کیریئر میں اس نے دو نوبل انعام جیتے (پہلا انعام 1954 میں کیمسٹری میں اور دوسرا 1962 میں امن کا) لیکن کسی نامعلوم وجہ سے وہ اس خیال کی جانب مائل ہو گیا کہ ڈی این اے کی ساخت میں دو لڑیاں نہیں بلکہ تین لڑیاں ہیں اور اس طرح وہ اپنے مقصد سے دور ہوتا گیا۔ اس دریافت کا سہرہ برطانیہ کے چار سائنس دانوں کے سر بندھا جو نہ تو ایک ٹیم تھے اور نہ ہی ایک دوسرے سے بات کرتے تھے اور اس شعبے میں زیادہ تر اناڑی بھی تھے۔
ان چاروں میں سے سب سے زیادہ سائنسی پسِ منظر رکھنے والا بندہ ماؤریس ولنکنز تھا جس نے دوسری جنگِ عظیم میں ایٹم بم کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ روزالنڈ فرینکلن اور فرانسز کرک نے برطانوی حکومت کے لیے کام کیا، کرک نے پھٹنے والی بارودی سرنگوں اور فرینکلن نے کوئلے کی کانوں میں کام کیا۔
ان میں سب سے زیادہ عجیب شخصیت جیمز واٹسن کی تھی جو امریکی تھا۔ جیمز نے یونیورسٹی آف شکاگو میں 15 سال کی عمر میں داخلہ لیا اور 22 سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کر لی اور پھر کیمبرج کی مشہورِ زمانہ کیونڈش لیب سے منسلک ہو گیا۔ 1951 میں اس کی عمر 23 سال تھی اور اس کے بال بکھرے ہوتے تھے اور انتہائی شرمیلا بندہ تھا۔
کرک عمر میں 12 سال بڑا اور ابھی تک ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے محروم تھا۔ واٹسن کے بقول کرک ضدی، بات بات پر بحث کرنے والا اور بے صبرا ہونے کے علاوہ زیادہ پسند بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ اس نے بائیوکیمسٹری میں کوئی تعلیم نہیں پائی تھی۔
انہوں نے یہ بات جان لی تھی کہ اگر آپ ڈی این اے کی ساخت کو جان لیتے ہیں تو اس کا کام بھی پتہ چل جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ کام محض سوچنے سے ہی ہو جائے اور اگر کچھ کرنا بھی پڑے تو محض اتنا کیا جائے جو لازم ہو۔ واٹسن نے اپنی سوانح حیات The Double Helix میں لکھا، ‘میری خواہش تھی کہ جین کا حل تلاش کرنے کے لیے مجھے ذرا سی بھی کیمسٹری نہ پڑھنی پڑے۔ ‘ انہیں ڈی این اے پر کام کے لیے کہا تو کیا جاتا البتہ انہیں ایک بار اس کام سے روکا ضرور گیا تھا۔ واٹسن بظاہر کرسٹلوگرافی کی تکنیک پر عبور حاصل کر رہا تھا اور کرک کے ذمے ایکس رے کی مدد سے بڑے مالیکیولوں کی ساخت جاننا تھا۔
اگرچہ ڈی این اے کے اسرار کو حل کرنے کی زیادہ تر شہرت کرک اور واٹسن کو ملتی ہے مگر ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ ان کے مخالفین کا کام تھا۔ ابتدا میں ان سے کہیں آگے ان کے مخالفین تھے جو لندن کے کنگز کالج میں کام کرتے تھے۔ یہاں ہم ولکنز اور فرینکلن کی بات کر رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والا ولکنز خاموش طبعیت اور الگ تھلگ رہنے والا انسان تھا۔ 1998 میں پی بی ایس کی ڈاکومنٹری جو ڈی این اے کی ساخت کی دریافت پر بنائی گئی تھی (اسی کام کی وجہ سے اسے کرک اور واٹسن کے ساتھ نوبل انعام دیا گیا تھا)، نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا۔
ان سب میں فرینکلن انتہائی پراسرار شخصیت تھی۔ واٹسن نے اپنی کتاب The Double Helix میں لکھا کہ فرینکلن انتہائی غیر ذمہ دار، خفیہ رہنے والی، انتہائی حد تک غیر دوستانہ اور انتہائی غیر جاذبِ نظر تھی۔ اس کے خیال میں، ‘اگر فرینکلن اپنے لباس پر ذرا سی بھی توجہ دیتی تو بہت خوبصورت دکھائی دیتی۔’ لیکن فرینکلن اس معاملے میں انتہائی سخت تھی اور سرخی تک نہیں لگاتی تھی۔
لیکن ڈی این کی ممکنہ ساخت کے بارے دنیا بھر میں سب سے بہترین تصاویر فرینکلن کی لی ہوئی تھیں جو اس نے ایکس رے کرسٹلوگرافی کی تکنیک سے بنائی تھیں۔ اس تکنیک کا بانی لائنس پاؤلنگ تھا۔ کرسٹلوگرافی کی مدد سے کرسٹل میں موجود ایٹموں کی تصویر کشی کی جاتی ہے لیکن ڈی این اے کے مالیکیول کا معاملہ بہت ٹیڑھا تھا۔ صرف فرینکلن ہی اس سلسلے میں اچھے نتائج پا رہی تھی لیکن ولکنز کی بیچارگی دیکھیے کہ فرینکلن نے یہ نتائج اسے دکھانے سے یکسر انکار کر دیا۔
اگر فرینکلن اپنے نتائج کو کسی کو دکھانا نہیں چاہتی تھی تو اس کا قصور بھی نہیں تھا۔ 1950 کی دہائی تک کنگز میں خواتین محققین کو ناپسند کیا جاتا تھا۔ چاہے وہ جتنی بھی تجربہ کار ہوں یا کامیاب ہوں، انہیں کالج کے سینئر والے کامن روم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ اپنا کھانا تک جس جگہ کھاتی تھیں، اسے واٹسن نے بدبو دار جیل سے مشابہ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ نہ صرف اسے کہا جاتا بلکہ اس پر کافی دباؤ بھی تھا کہ وہ اپنے نتائج کو دیگر تین مردوں کے ساتھ شیئر کرے۔ کرک کے اپنے الفاظ میں ‘میں ہمیشہ اسے اپنے سے کم تر سمجھتا تھا۔ ‘ ان تین میں سے دو کا تعلق ایک مخالف ادارے سے تھا اور تیسرا کھلے عام ان دو کی حمایت کرتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے فرینکلن اپنے نتائج کو ہمیشہ تالے میں بند رکھتی تھی۔
ولکنز اور فرینکلن کی اس چپقلش کا فائدہ کرک اور واٹسن نے اٹھایا۔ اگرچہ یہ دونوں ولکنز کے شعبے میں بے شرمی سے مداخلت کر رہے تھے لیکن پھر بھی ولکنز نے ان کا ساتھ دیا جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ فرینکلن کا رویہ روز بروز عجیب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے نتائج سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ ڈی این اے کی ساخت ہیلکس یعنی بل دار ہے مگر اس نے ہمیشہ یہی اصرار کیا کہ ایسا نہیں۔ 1952 کے گرما میں ولکنز کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث بننے والا فرینکلن کا نوٹس دیکھیے جو اس نے کالج کے شعبہ طبعیات کے باہر لگایا، ‘افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ آج بروز جمعہ، 18 جولائی 1952 کو ڈی این اے کے ہیلکس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر ایم ایچ ایف ولکنز مرحوم کے بارے بات کریں گے۔ ‘
ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کے بعد جنوری 1953 میں ولکنز نے فرینکلن کی اجازت اور علم کے بغیر واٹسن کو اس کی بنائی ہوئی تصاویر دکھائی۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی اہم مدد تھی جو واٹسن کو ملی۔ کئی سال بعد واٹسن نے کہا کہ یہ کلیدی واقعہ تھا اور اسی سے ہم آگے بڑھے۔ ڈی این اے کی بنیادی ساخت سے واقفیت اور اس کی شکل کے مختلف پہلوؤں سے واقفیت کے بعد واٹسن اور کرک کا کام بہت آسان ہو گیا۔ ہر چیز ان کے سامنے آسان ہوتی گئی۔ ایک بار تو پاؤلنگ انگلینڈ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہو چکا تھا جہاں اگر ان کی ملاقات ہو جاتی تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا اور اس کا کام آسان ہو جاتا مگر یہ میکارتھی دور تھا۔ نیویارک میں ایئرپورٹ پر اسے روک کر اس کا پاس پورٹ ضبط کر لیا گیا کہ اس کی آزاد خیالی کے باعث اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ کرک اور واٹسن کی خوش قسمتی دیکھیے کہ کیونڈش میں پاؤلنگ کا بیٹا کام کرتا تھا جو انتہائی سادگی سے انہیں مستقل اپنے باپ کے کام سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔
تاہم پیچھے رہ جانے کے ڈر سے کرک اور واٹسن نے اپنی کاوشیں مزید تیز کر دیں۔ یہ بات عام ہو چکی تھی کہ ڈی این اے چار اجزا سے بنتا ہے جو ایڈی نین، گوانین، سائٹوسین اور تھائی مین کہلاتے ہیں۔ یہ اجزا ایک مخصوص ترتیب سے جڑتے ہیں۔ ان اجزا کو کارڈ بورڈ پر مختلف شکلوں میں کاٹ کر انہوں نے بالاخر جان لیا کہ یہ تمام اجزا کیسے جڑتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے جو نمونہ بنایا وہ شاید موجودہ سائنس میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس میں دھاتی پلیٹوں کو پیچوں کی مدد سے بل دار شکل میں جوڑا گیا تھا۔ انہوں نے ولکنز، فرینکلن اور دنیا بھر کو دعوت دی۔ ایک نظر میں ہی پتہ چل جاتا تھا کہ انہوں نے معرکہ سر کر لیا ہے۔ بے شک یہ انتہائی ذہین کام تھا چاہے انہیں فرینکلن کی مدد ملتی یا نہ ملتی۔
25 اپریل 1953 کو Nature میں واٹسن اور کرک نے 900 الفاظ کا مضمون بعنوان A Structure of Deoxyribose Nuvcleic Acid لکھا۔ اس کے ساتھ ولکنز اور فرینکلن کے مضامین الگ سے چھپے۔ اس وقت دنیا میں بہت سارے معرکے سر ہو رہے تھے۔ سر اینڈمنڈ ہیلری ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والا تھا اور ملکہ الزبتھ دوم کچھ عرصے بعد ملکہ بنی، اس لیے زندگی کے بنیادی راز کی دریافت کو توجہ نہ مل سکی۔ News Chronicle کے علاوہ اسے ہر جگہ نظر انداز کیا گیا۔
روزالنڈ فرینکلن کو نوبل انعام نہ مل سکا کہ اس کا انتقال 1958 میں محض 37 سال کی عمر میں بیضہ دانی کے کینسر سے ہو گیا تھا۔ نوبل انعام بعد از مرگ نہیں دیے جاتے۔ یہ کینسر یقینی طور پر ایکس رے کی زیادتی سے ہوا تھا جس سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کی سوانحِ حیات کے مطابق فرینکلن نے شاید ہی کبھی سیسے کا لباس استعمال کیا ہو اور وہ بے جھجھک اکثر ایکس رے کی بوچھاڑ کے سامنے چلی جاتی تھی۔ اوسوالڈ ایوری کو بھی نوبل انعام نہ مل سکا مگر وہ اتنا زندہ رہا کہ اپنے کام کی قبولیت کو دیکھ سکے۔ اس کا انتقال 1955 میں ہوا۔
واٹسن اور کرک کی دریافت 1980 کی دہائی میں جا کر مصدقہ بنی۔ کرک نے اپنی ایک کتاب میں لکھا، ‘ہمارے بنائے ہوئے ڈی این اے کے نمونے کے درست ہونے کے امکان سے درست ہونے کے اچھے امکانات اور پھر درست کہلائے جانے میں 25 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ ‘
ڈی این اے کی ساخت کے سمجھے جانے کے بعد جینیات میں ترقی تیز ہو گئی اور 1968 تک سمجھا جانے لگا کہ جینیات پر کام اب ختم ہونے والا ہے۔
جبکہ حقیقت میں یہ کام ابھی شروع ہوا تھا۔ آج بھی ڈی این اے کے بارے بہت کچھ ہمیں معلوم نہیں یا یوں کہہ لیں کہ اس کا بہت بڑا حصہ ہمیں کوئی کام کرتا نہیں دکھائی دیتا۔ ہمارے ڈی این اے کا لگ بھگ 97 فیصد حصہ بے معنی اور طویل لڑیوں پر مشتمل ہے۔ کہیں کہیں ایسے حصے ملتے ہیں جو اہم کاموں کو چلاتے ہیں۔ یہی جینز ہیں جو ابھی تک ہم سے پوشیدہ ہیں۔
جین محض پروٹین بنانے کی ہدایات ہوتے ہیں۔ یہ کام وہ انتہائی باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ اس کی تشبیہ عموماً پیانو سے دی جاتی ہے کہ ہر جین پیانو کے ایک سر کی مانند ہے جس سے ہمیشہ ایک ہی آواز آتی ہے۔ لیکن جیسے پیانو میں مختلف سروں کو ملا کر دھن تیار کی جاتی ہے، اسی طرح مختلف جین کو ملا کر بھی ان گنت نئے مجموعے بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی سے دنیا کی سب سے عجیب دھن بنی ہے جسے ہم انسانی جینوم کہتے ہیں۔
بعض اوقات یہ فرض کیا جاتا ہے کہ جینوم جسم کو بنانے اور چلانے والی ہدایات کا مجموعہ ہے۔ اس طرح کروموسوم ابواب کا کام دیتے ہیں اور جین پروٹین بنانے کی ہدایات۔ جن حروف کی مدد سے یہ ہدایات لکھی جاتی ہیں، وہ چار نیوکلیوٹائیڈ پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں ایڈی نین، تھائی مین، گوانین اور سائٹوسین کہا جاتا ہے۔ اپنے کام کے برعکس یہ کوئی عجوبے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر گوانین پرندوں کی بیٹ میں بکثرت پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام پڑا ہے۔
ڈی این اے کے مالیکیول کے بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ بل دار سیڑھی کی شکل ہے۔ اسے ڈبل ہیلیکس کہا جاتا ہے۔ اس سیڑھی کے اطراف ایک خاص قسم کی چینی سے بنی ہیں جو ڈی آکسی رائبوز کہلاتی ہے۔ سارا ہیلکس ایک نیوکلیک ایسڈ ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ پڑا۔ اس ‘سیڑھی’ پر لگے ڈنڈے دو اساسی نوعیت کے ہوتے ہیں جو سیڑھی کی اطراف کو درمیان میں جوڑتے ہیں۔ ان کے ملاپ کی محض دو صورتیں ہوتی ہیں : گوانین کے ساتھ سائٹوسین اور تھائی مین کے ساتھ ہمیشہ ایڈینین ہوتی ہے۔ جس ترتیب سے یہ سیڑھی پر جڑے ہوتے ہیں، یہی چیز ڈی این اے کوڈ کہلاتی ہے۔ اسی کے تجزیے کا کام انسانی جینوم پراجیکٹ کہلایا۔
ڈی این اے کی اصل اہمیت اس کی اپنی نقلیں تیار کرنا ہے۔ جب بھی نیا ڈی این اے مالیکیول تیار کرنے کا وقت آتا ہے، سیڑھی کے دونوں کنارے درمیان سے ٹوٹ جاتے ہیں جیسے زپ کو کھولا گیا ہو۔ دونوں نصف پھر اپنے لیے جوڑے تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ ہر نیوکلیوٹائڈ ایک مخصوص ساتھی سے مل سکتا ہے، اس لیے نئے ساتھی کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔ اگر ہمارے پاس ڈی این اے کا ایک نصف ہو تو ہم بڑی آسانی سے دوسرا نصف پا سکتے ہیں۔ اگر اس کی پہلی لڑی میں گوانین ہو تو ہمیں علم ہو جائے گا کہ ہماری مطلوبہ دوسرے نصف میں پہلی لڑی سائٹوسین کی ہونی چاہیے۔ اس طرح آپ یکے بعد دیگرے تمام جوڑے بنا سکتے ہیں اور ڈی این اے کا نیا مالیکیول تیار ہو جائے گا۔ یہی چیز قدرتی طور پر خود بخود ہوتی ہے مگر یہ عمل انتہائی سریع ہوتا ہے اور چند سیکنڈ میں پورا ہو جاتا ہے۔
ہمارا ڈی این اے تقریباً ہمیشہ اپنی بالکل درست نقل تیار کرتا ہے مگر بعض اوقات، یعنی دس لاکھ میں سے ایک بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدھ لفظ کہیں غلط ہو جاتا ہے۔ اسے سنگل نیوکلیوٹائڈ پولی مارفزم یا SNP کہا جاتا ہے۔ بائیو کیمسٹ اسے Snip کہتے ہیں۔ عموماً یہ snip بیکار ڈی این اے میں چھپ جاتا ہے اور اس سے کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچتا۔ تاہم بعض اوقات یہ کسی کارآمد جگہ پر واقع ہوتا ہے۔ اسی سے ہمیں بعض اوقات جینیاتی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ تاہم ان سے عین ممکن ہے کہ کوئی اچھی تبدیلی آئے، مثلاً جلد کا رنگ ماحول سے زیادہ ہم آہنگ ہو جائے یا بلندی پر رہنے والے جانور میں خون کے سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلیاں جمع ہوتی رہتی ہیں اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
درستگی اور اغلاط کے درمیان توازن عموماً برقرار رہتا ہے۔ اگر بہت زیادہ اغلاط ہوں تو جاندار زندہ نہیں رہ پائے گا اور اگر ایسی تبدیلیاں بہت کم ہوں تو بھی اس کے آگے بڑھنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح استحکام اور جدت کے درمیان بھی توازن رہنا چاہیے۔ اگر بلندی پر رہنے والے افراد میں خون کے سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ جائے تو انہیں سانس لینے میں سہولت ہوتی ہے کیونکہ خون کے سرخ خلیے آکسیجن کو منتقل کرتے ہیں۔ مگر زیادہ مقدار سے خون گاڑھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر بہت زیادہ سرخ خلیے پیدا ہو جائیں تو خون تیل جتنا گاڑھا ہو جائے گا۔ اس طرح دل پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ اس طرح بلندی پر رہنے والے لوگوں کے لیے سانس لینا تو آسان ہو جاتا ہے مگر ان کے دل کو زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈارون کا فطری چناؤ یہی تھا۔ اسی وجہ سے ہم سب ایک دوسرے سے اتنے مماثل ہیں۔ ارتقا آپ کو بہت زیادہ مختلف نہیں بننے دیتا، یا پھر نئی انواع پیدا ہوتی ہیں۔
میرے اور آپ کے جین میں موجود 0.1 فیصد فرق انہی snips کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ اپنے ڈی این اے کو کسی بھی دوسرے انسان سے ملاتے ہیں تو وہ بھی 99.9 فیصد ایک جیسا ہو گا۔ عموماً یہ snips ہر انسان میں مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں۔ جتنے لوگوں سے آپ اپنے ڈی این اے کو ملاتے جائیں گے، ہر انسان میں مزید مختلف قسم کے snips ہوں گے جو اور بھی مختلف جگہوں پر واقع ہوئے ہوں گے۔ اس لیے انسانی جینوم کا کوئی وجود نہیں۔ ہر انسان کا جینوم دوسرے سے مختلف ہے۔ یعنی ایک انسانی جینوم کی بجائے چھ ارب انسانی جینوم ہیں۔ ہم نہ صرف 99.9 فیصد ایک جیسے ہیں بلکہ بائیو کیمسٹ ڈیوڈ کوکس کے الفاظ میں ‘کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں۔ ‘
تاہم ابھی ہمیں اس بات کا جواب نہیں مل سکا کہ ہمارے ڈی این اے کا کیوں اتنا کم حصہ کارآمد ہے۔ بظاہر یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر سچ یہی ہے کہ زندگی کا مقصد شاید ڈی این اے کی نقلیں تیار کرنا ہے۔ ہمارے ڈی این اے کا 97 فیصد حصہ بیکار ہے اور میٹ رڈلی کے الفاظ میں ‘اس کا مقصد صرف اور صرف اپنی نقلیں تیار کرنا ہے (اس بیکار ڈی این اے کا ایک فائدہ ہے کہ اسے جینیاتی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیسیسٹر یونیورسٹی کے ایلک جیفریز نے اس کا یہ فائدہ حادثاتی طور پر دریافت کیا تھا۔ 1986 میں جب جیفریز جینیاتی بیماریوں کے تجزیے میں مصروف تھا تو پولیس نے اس سے رابطہ کر کے پوچھا کہ کیا وہ دو قتل کے مشتبہ ملزم کی شناخت میں مدد کر سکتا ہے۔ اسے فوراً ہی علم ہو گیا کہ اس کی تکنیک یہ کام بخوبی کر سکتی ہے۔ ایک نوجوان بیکر کولن پچ فورک کو دو قتل کے جرم میں دو بار عمر قید کی سزا دی گئی)۔ ‘ یعنی ہمارے ڈی این اے کا زیادہ تر حصہ ہماری بجائے اپنے لیے زندہ ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ ہم نے پہلے بھی دیکھا تھا کہ زندگی محض ہونے کا نام ہے اور ڈی این اے ہی اسے ایسا کراتا ہے۔
جب ڈی این اے جین بنانے کی ہدایات دیتا ہے تو بھی بقول سائنس دان، یہ کام متعلقہ جاندار کی بھلائی یا اس کے کام کے خیال سے نہیں کرتا۔ سب سے عام جین ایک پروٹین ہے جسے Reverse Transcriptase کہا جاتا ہے، کا انسانوں کے لیے کوئی معلوم فائدہ نہیں ہے۔ البتہ اس کا ایک نقصان ضرور ہے کہ ریٹرو وائرس جیسا کہ ایچ آئی وی کے لیے وائرس کے لیے یہ پروٹین انسانی نظام میں رسائی کا چور راستہ مہیا کرتی ہے۔
یعنی ہماری بہت ساری توانائی ایسی چیز کی تیاری پر لگتی ہے جو ہمارے لیے مفید ہونا تو کجا، بعض اوقات ہمارے لیے خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے جسم اسے بنانے پر مجبور ہیں کہ انہیں ڈی این اے کی طرف سے حکم ملتا ہے۔ ہم ان کی مرضی پر چلنے پر مجبور ہیں۔ انسانی جین کی نصف تعداد جو کہ کسی بھی معلوم جاندار سے زیادہ ہے، اپنی نقلیں تیار کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی ایسا مفید نہیں کرتی جو ہمیں معلوم ہو۔
تمام جاندار کسی نہ کسی حد تک اپنے جین کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے سالمن اور مکڑیاں اور دیگر بہت سارے جاندار جنسی ملاپ کی خاطر مرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اپنی نسل کو آگے بڑھانے اور اپنے جین کو پھیلانے کی خواہش فطرت میں سب سے طاقتور ہے۔ شیرون بی نولینڈ کے مطابق ‘سلطنتیں زوال پذیر ہوتی ہیں، عظیم دھنیں بنائی جاتی ہیں اور اسی طرح کے دیگر کاموں کے پیچھے صرف ایک ہی خواہش کی تکمیل ہوتی ہے۔ ‘ ارتقائی نکتہ نظر سے اپنے جین کو آگے پھیلانے کا انعام جنسی تولید ہے۔
ابھی سائنس دان اس خبر کو قبول کرنے کو تیار ہو رہے تھے کہ ہمارے ڈی این اے کا زیادہ تر حصہ بیکار ہے کہ مزید عجیب خبریں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ پہلے جرمنی اور پھر سوئٹزرلینڈ میں سائنس دانوں نے انتہائی عجیب تجربات شروع کیے جن کے نتائج بالکل بھی عجیب نہیں تھے۔ ایک تجربے میں انہوں نے چوہے کی آنکھ کو بنانے والے جین کو نکال کر عام مکھی کے لاروے میں ڈالا۔ خیال تھا کہ انتہائی عجیب نتائج نکلیں گے۔ عجیب بات دیکھیے کہ چوہے کی آنکھ والے جین نے مکھی میں مکھی کی آنکھ بنائی۔ سوچیے کہ دو جاندار کہ جن کے جین کم از کم 50 کروڑ سال قبل الگ ہو گئے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جین بدلنے کے قابل تھے جیسے دونوں بہنیں ہوں۔
جہاں کہیں بھی محققین نے دیکھا، ہر جگہ یہی ہو رہا تھا۔ انہوں نے انسانی جین کو مکھیوں میں ڈالا اور مکھیوں نے اسے ایسے قبول کیا جیسے وہ ان کا اپنا ہو۔ 60 فیصد سے زیادہ جین ایسے ہیں جو مکھیوں میں پائے جاتے ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ انسانی جین کسی نہ کسی طرح چوہوں میں بھی پائے جاتے ہیں (انسانوں میں دم بنانے والے جین موجود ہیں، صرف انہیں چالو کرنے کی دیر ہے )۔ ہر شعبے میں کام کرنے والے محققین، چاہے وہ کیڑوں پر کام کر رہے ہوں یا انسان پر، اکثر ایک جیسے ہی جین پر کام کر رہے ہوتے تھے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہر قسم کی زندگی ایک ہی بلیو پرنٹ سے نکالی گئی ہے۔
مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ کچھ ماسٹر کنٹرول جین ہوتے ہیں جن کا کام جسم کے مختلف حصوں کو بنانا ہوتا ہے۔ انہیں ہومیوٹک یا ہوکس جین کہا جاتا ہے۔ ہوکس جین سے یہ راز حل ہوا ہے کہ ایک ہی بار آور خلیے سے بننے والے اربوں خلیوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس خلیے نے کہاں جا کر کیا کام کرنا ہے۔ یہ راز بہت طویل عرصے سے سائنس دانوں کو چکرائے ہوئے تھا کہ کیسے ایک خلیہ جگر کا حصہ بنتا ہے تو دوسرا لمبا نیوران اور تیسرا خون کا خلیہ بنتا ہے چوتھا پر کا حصہ بنتا ہے۔ ہوکس جین انہیں بتاتے ہیں کہ کس نے کیا کرنا ہے۔
مزے کی بات دیکھیے کہ جینیاتی مواد کی مقدار یا ترتیب سے ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کوئی جاندار کتنا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ انسان میں کل 46 کروموسوم ہوتے ہیں جبکہ بعض فرن ایسے ہیں جن میں کروموسوم کی تعداد 600 سے زیادہ ہوتی ہے۔ لنگ فش جو پیچیدہ جانوروں میں سب سے کم ترقی یافتہ ہے، میں ہماری نسبت 40 گنا زیادہ ڈی این اے ہے۔ اسی طرح ایک اور خزندے Newt میں ہماری نسبت 5 گنا زیادہ ڈی این اے پایا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جین کی تعداد کی نسبت ان کا کام زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات بہت مفید ہے کیونکہ پہلے سوچا جاتا تھا کہ انسانی جین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور مزید جین دریافت ہو سکتے ہیں، مگر انسانی جینوم پراجیکٹ کے تحت پتہ چلا کہ 35٫000 سے 40٫000 سے جین پائے جاتے ہیں۔ گھاس میں اتنے ہی جین پائے جاتے ہیں۔ یہ بات شاید آپ کے لیے دھچکے کا باعث ہو۔
آپ کے علم میں یہ بات ضرور آئی ہو گی بہت ساری انسانی بیماریاں جین سے منسلک کی جاتی ہیں۔ بہت سارے سائنس دانوں نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے موٹاپے، شیزوفرینیا، ہم جنس پرستی، جرائم، تشدد، الکوہلک، چوری اور بے گھر رہنے کے جین بھی تلاش کر لیے ہیں۔ اس کی انتہائی صورت 1980 میں Science نامی رسالے میں چھپی تھی کہ خواتین جینیاتی اعتبار سے ریاضی میں مردوں سے پیچھے ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ایسی باتیں جاننا اتنا آسان نہیں ہے۔
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر ایک جین قد یا کسی بیماری سے متعلق ہوتا تو اسے الگ کر کے اس کی مرمت کی جا سکتی تھی۔ بدقسمتی سے 35٫000 یا 40٫000 جین اگر الگ الگ کام کر رہے ہوں تو ان سے انسان جیسی پیچیدہ مخلوق نہیں تیار کی جا سکتی۔ جین ایک دوسرے سے مل کر کام کرتے ہیں۔ بعض بیماریاں جیسا کہ ہیموفیلیا، پارکنسنز کی بیماری، ہفنگٹن کی بیماری اور سسٹک فائبروسز جیسی بیماریاں واحد جین کی خرابی سے پیدا ہوتی ہیں مگر اصولی طور پر اس طرح کے خراب جین چھانٹی سے عمل سے گزر کر رد کر دیے جاتے ہیں تاکہ پوری آبادی کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ ہماری قسمت سے لے کر ہماری آنکھوں کے رنگ تک، یہ سب کام واحد جین نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر طے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان سب کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنی مرضی کے بچے پیدا کرنا ابھی مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جتنا بھی اس معاملے میں معلومات پا رہے ہیں، مسائل اتنے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے سوچنے کے انداز سے بھی ہمارے جین کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ کسی آدمی کی داڑھی بڑھنے کی رفتار کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ سیکس کے بارے کتنا سوچتا ہے (جنسیت کے بارے سوچنے سے ٹیسٹیسٹرون کی مقدار بڑھ جاتی ہے )۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ وہ ایمبریو چوہوں سے اہم ترین جین نکال دیں تو بھی نہ صرف چوہے بالکل تندرست پیدا ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ اپنے بہن بھائیوں سے بھی زیادہ آگے نکل جاتے ہیں جن کے جین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہوتی تھی۔ جب کئی اہم جین کو تباہ کر دیا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرے جین لے لیتے ہیں۔ بطور جاندار، یہ بات ہمارے لیے بہت اچھی خبر ہے۔ لیکن خلیوں کے کام کو سمجھنے کے اعتبار سے یہ خبر بری ہے کہ اس طرح جین کے کام کرنے سے متعلق ایک اضافی پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور جین کے کام کو ہم ابھی سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔
انہی پیچیدگیوں کی وجہ سے انسانی جینوم کو ڈی کوڈ کرنے کا کام محض ابتدا ہے۔ ایم آئی ٹی کے ایرک لینڈر کے مطابق ‘جینوم اعضا کی فہرست کا نام ہے کہ جسم کن اعضا سے مل کر بنتا ہے لیکن ان کے کام کے بارے کچھ نہیں بتاتا۔ ہمیں جسم کے کام کرنے کے بارے معلومات درکار ہیں کہ یہ کام کیسے ہوتے ہیں۔ ابھی ہم اس سے بہت دور ہیں۔ ‘
اب سارا زور انسانی پروٹیوم کو جاننے پر لگ رہا ہے۔ پروٹیوم کا تصور ہی اتنا نیا ہے کہ یہ لفظ دس سال قبل موجود ہی نہیں تھا۔ پروٹیوم اس لائبریری کا نام ہے جس میں پروٹین تیار کرنے کی معلومات ہوتی ہیں۔ Scientific American نے 2002 کے موسمِ بہار میں لکھا، ‘بدقسمتی سے پروٹیوم کا تجزیہ انسانی جینوم سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ ‘
تاہم یہ بات کرنے کا انتہائی آسان پہلو ہے۔ پروٹین کے بارے آپ کو یاد ہو گا کہ زندگی کی بنیاد ہیں۔ کسی بھی خلیے میں ایک وقت میں شاید دس کروڑ سے زیادہ پروٹین کام کر رہی ہوں گی۔ اب اندازہ کیجیے کہ ہر خلیے میں کتنی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں۔ مزید مسئلہ یہ بھی ہے کہ جین کی مانند پروٹین کا کام نہ صرف ان کی کیمسٹری بلکہ ان کی ساخت پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ کام کرنے کے لیے پروٹین کو نہ صرف تمام ضروری اجزاء درکار ہوتے ہیں بلکہ انہیں مناسب طریقے سے جڑا ہونا چاہیے اور انتہائی مخصوص شکل میں تہہ بھی ہونا چاہیے۔ تہہ سے شاید آپ کو غلط فہمی ہو، مگر یہ انتہائی پیچیدہ جیومیٹری کی شکل ہوتی ہے جس میں پروٹین بل کھاتی، چکراتی اور ایسی ایسی شکلوں میں ہوتی ہے کہ وہ تہہ شدہ تولیے سے کم اور مڑے تڑے ہینگر سے زیادہ مشابہ ہوتی ہے۔
مزید براں پروٹین حیاتیاتی دنیا کی بے وفا مخلوق ہوتی ہے۔ اپنی مرضی اور میٹابولک حالات کے مطابق وہ فاسفورس، گلائیکوز، ایسیٹائل، سلفیٹ یا دیگر شکلیں اختیار کر سکتی ہیں۔ ان کو ایسا رویہ اپنانے پر مجبور کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اگر آپ تھوڑی سی وائن پی لیں تو پروٹین کی مقدار اور ان کا کام بدل سکتا ہے۔ شرابی کے لیے تو یہ شاید سرور کی بات ہو مگر پروٹین کا کام سمجھنے والے سائنس دانوں کے لیے ان کا کام مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
یہ سب انتہائی ناممکن حد تک پیچیدہ ہے۔ تاہم ان سب کی بنیاد سادہ ہے۔ یہ سب کیمیائی تعامل جو خلیے کو سرگرم رکھتے ہیں، ڈی این اے کے پیغامات کو آر این اے کی مدد سے بدلا جانا اور دیگر چیزیں صرف ایک بار ارتقا سے گزری ہیں اور اس کے بعد ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مرحوم فرانسیسی ماہرِ جینیات جیکوئس مونڈ کے مطابق ‘جو چیز بیکٹیریا کے لیے درست ہے، وہ ہاتھی کے لیے بھی درست ہو گی۔ ‘
ہر زندہ چیز کا بنیادی پلان ایک ہے۔ ہر جاندار جد و جہد، ایڈجسٹمنٹ اور تبدیلیوں کا شاہکار ہوتا ہے جو 3.8 ارب سال کے عمل سے گزر کر آیا ہوتا ہے۔ ہم پھلوں اور سبزیوں سے بھی بہت مشابہ ہیں۔ کے لیے میں ہونے والے نصف کیمیائی تعاملات وہی ہیں جو ہمارے اندر ہوتے ہیں۔
ہر زندہ چیز ایک ہی ہے۔
٭٭٭
حصہ ششم: ہم تک آنے والا راستہ
بندر کی اولاد؟ اف خدایا، میری دعا ہے کہ یہ غلط ہو، تاہم اگر یہ درست ہے تو پھر اسے لوگ نہ جان سکیں۔
ورسسٹر کے بشپ کی بیوی کے تاثرات، جب اسے ڈارون کا نظریہ ارتقاء سمجھایا گیا۔
27 برفانی دور
میں نے خواب دیکھا جو بالکل بھی خواب نہیں تھا۔ دمکتا سورج بجھ چکا تھا اور ستارے آوارہ گھوم رہے تھے۔
بائرن، تاریکی
1815 کو انڈونیشیا کے جزیرے سمباوا میں تمبورا نامی خوبصورت اور پرسکون پہاڑ اچانک پھٹا تو اس کے دھماکے اور اس سے متعلقہ سونامیوں سے ایک لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج تک انسان نے اس سے بڑی تباہی نہیں دیکھی۔ گذشتہ دس ہزار سال کی یہ بدترین تباہی تھی جو آتش فشاں پہاڑ سے ہوئی۔ اس کی تباہی سینٹ ہیلنز سے 150 گنا زیادہ اور ہیروشیما پر گرائے جانے والے 60,000 ایٹم بموں کے برابر تھی۔ اس دور میں خبریں آسانی سے نہیں پھیلتی تھیں اور جب 7 ماہ بعد دی ٹائمز نے خبر دی تو وہ محض ایک تاجر کے خط پر مشتمل تھی۔ تاہم اس وقت تک تمبورا کے اثرات محسوس کیے جانے لگے تھے۔ اس سے نکلنے والی آتش فشانی راکھ، پتھر اور گرد وغیرہ کے 240 مکعب کلومیٹر مقدار نے بالائی فضاء میں پھیل کر سورج کی روشنی کو روکنا شروع کر دیا اور زمین کا درجہ حرارت گرنے لگا۔ غروبِ آفتاب کے مناظر رنگین ہوتے تھے تاہم دنیا بھر میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ اس موت جیسی خاموشی سے متاثر ہو کر بائرن نے مندرجہ بالا اشعار لکھے۔
بہار نہ آئی اور گرمیوں میں بھی درجہ حرارت نہ بڑھا۔ 1816 کو بناء گرمیوں کا سال کہا گیا۔ ہر طرف فصلیں تباہ ہو گئیں۔ آئرلینڈ میں قحط اور پھر ٹائفائیڈ کی وبا سے 65,000 افراد ہلاک ہوئے۔ نیو انگلینڈ میں اس سال کو اٹھارہ سو اور فروز ٹو ڈیتھ کہا گیا۔ جون تک صبح سویرے پالا جما ہوا دکھائی دیتا تھا اور بوئے جانے والے بیج بھی اگنے میں ناکام رہے۔ چارے کی کمی سے مویشی مرنے لگے یا انہیں قبل از وقت ذبح کیا جانے لگا۔ ہر اعتبار سے یہ سال تباہی کا سال تھا۔ کسانوں کے لیے جدید دور کا بھیانک خواب۔ اس کے باوجود پوری دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں ہونے والی کمی ایک درجہ سے بھی کم تھی۔ تب جا کر کہیں سائنس دانوں کا احساس ہوا کہ زمین کے درجہ حرارت کا نظام بہت نازک ہے۔
19ویں صدی بہت سرد تھی۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں پہلے ہی دو سو سال کا عرصہ چھوٹا برفانی دور کہلاتا تھا اور اس دوران دریائے تھیمز بھی جم گیا تھا اور ڈچ نہروں پر لوگ سکیٹنگ کرتے تھے۔ چونکہ لوگوں کو دیر سے سمجھ آتی ہے اس لیے ارضیات دان بھی اس بات کو دیر سے سمجھے کہ ہمارے آس پاس کی سرزمین کی شکل بنانے میں گلیشیئروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور یہ بھی کہ اس وقت کی سردی اتنی ہوتی تھی کہ سرمائی کھیل تک رک جاتے تھے۔
انہیں یہ تو علم تھا کہ ماضی میں کچھ عجیب بات ہوئی تو ہے۔ یورپی سرزمین بے شمار بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ قطبی رینڈیئر کی ہڈیاں فرانس کے جنوبی گرم علاقے سے ملی ہیں۔ ناممکن جگہوں پر بڑی چٹانوں کی موجودگی وغیرہ کے سلسلے میں عجیب عجیب دلیلیں دی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر ڈی لُک نے بتایا کہ اونچی چٹانوں پر موجود دیو قامت پتھر در اصل غاروں کے دہانے پر اٹکے ہوتے تھے اور ہوا کے دباؤ سے اچھل کر اتنی بلندی پر جا گرتے تھے۔
عظیم برطانوی ارضیات دان آرتھر ہلم نے بتایا کہ اگر 18ویں صدی کے بابائے ارضیات جیمز ہٹن نے سوئٹزرلینڈ کا چکر لگایا ہوتا تو وہ فوراً ہی تراشی ہوئی وادیوں، چمکتے پتھریلے راستوں اور دیگر شواہد سے جان لیتا کہ یہ سب برفانی تہوں کے گزرنے سے بنے ہیں۔ بدقسمتی سے جیمز ہٹن کو سفر کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہٹن نے فوراً یہ خیال مسترد کر دیا کہ بڑے بڑے پتھر پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ہزار میٹر بلندی تک جا پہنچے۔ اس کا استدلال تھا کہ پوری دنیا کا پانی بھی اگر جمع ہو جائے تو بھی ایک معمولی سا پتھر نہیں تیر سکتا۔ اسی وجہ سے اس نے پہلے پہل عالمگیر پیمانے پر گلیشیئروں کے وجود کا دعویٰ کیا جبکہ اکثریت کے خیال میں پہاڑوں پر بنی لکیریں در اصل گاڑیوں کے گزرنے یا کیلوں والے جوتے پہن کر گزرنے سے بنے ہیں۔
مقامی کسانوں کو سائنسی نظریات کا علم نہیں تھا اور وہ اس بارے بہتر جانتے تھے۔ ایک نیچرلسٹ جین ڈی کارپینٹر نے بتایا کہ وہ 1834 میں ایک مقامی لکڑہارے کے ساتھ کسی جگہ سے گزر رہا تھا تو راستے میں چٹانی پتھر دکھائی دیے۔ لکڑہارے نے بتایا کہ یہ پتھر تھوڑا آگے موجود ایک اور جگہ سے آئے ہیں۔ جب کارپینٹر نے پوچھا کہ یہ پتھر یہاں پہنچے کیسے تو لکڑہارے نے فوراً جواب دیا کہ گلیشیئر اسے یہاں تک لے آئے ہیں کیونکہ ماضی میں گلیشیئر یہاں تک پھیلے ہوئے تھے۔
کارپینٹر اس جواب سے بہت خوش ہوا کیونکہ اس کا اپنا نظریہ بھی یہی تھا۔ تاہم جب اس نے اس نظریے کو سائنس دانوں کے سامنے رکھا تو سارے ہی اس کے خلاف نکلے۔ کارپینٹر کے قریبی دوست لوئیس اگاسز نے پہلے پہل تو مخالفت کی لیکن پھر اس نظریے پر ایمان لے آیا۔
اگاسز نے پیرس میں تعلیم پائی اور سوئٹزرلینڈ کے ایک کالج میں نیچرل ہسٹری کا پروفیسر لگ گیا۔ اس کا ایک اور دوست ماہرِ نباتات کارل شمپر تھا جس نے 1837 میں پہلے پہل آئس ایج یعنی برفانی دور کا نام متعارف کرایا۔ اس نے نظریہ پیش کیا کہ شواہد کے مطابق قدیم وقتوں میں برف محض سوئس ایلپس تک ہی نہیں بلکہ یورپ، ایشیاء اور شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے تحقیقی کاغذات اگاسز کو دیے اور پھر اس پر جی بھر کر پچھتایا کیونکہ اس کے نظریے کا زیادہ تر سہرہ اگاسز کے سر بندھنے لگا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سائنسی دریافت کے تین مراحل ہوتے ہیں : پہلا تو یہ کہ لوگ اسے غلط سمجھ کر توجہ نہیں دیتے، دوسرا یہ کہ وہ اس کی اہمیت کو جان بوجھ کر جھٹلانے لگتے ہیں اور تیسرا یہ کہ اس کا سہرہ غلط بندے کے سر بندھتا ہے۔
وجہ کچھ بھی ہو، اگاسز نے سائنس کی اس شاخ کو اپنا لیا۔ گلیشیئر کی حرکات کو سمجھنے کی غرض سے اس نے گہری وادیوں، کھائیوں، اونچے اونچے پہاڑوں، غرض ہر جگہ کا چکر لگایا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ وہ اور اس کی ٹیم بہت سارے پہاڑوں کو سب سے پہلے سر کرنے والی بنی۔ اس کے باوجود تقریباً ہر جگہ ہی اس کے نظریے کے خلاف خوب مزاحمت ہوئی۔ اس کے دوست نے مشورہ دیا کہ وہ اسے چھوڑ کر اپنے اصل مضمون یعنی فاسل مچھلیوں کو لوٹ جائے تاہم اگاسز دھن کا پکا تھا۔
اگاسز کے نظریے کو برطانیہ میں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جہاں بلا مبالغہ شاید ہی کسی نے گلیشیئر دیکھا ہو اور اس سے پیدا ہونے والے دباؤ کا مشاہدہ کیا ہو۔
دھن کے پکے اگاسز نے اپنے نظریے کا پرچار جاری رکھا لیکن اس کی مخالفت بھی اسی طرح زور و شور سے جاری رہی۔ 1840 میں اس نے گلاسگو میں سائنس کی ترقی کی میٹنگ میں اپنا نظریہ پیش کیا تو عظیم چارلس لائل نے اس کی کھلی مخالفت کی۔ اگلے سال ایڈنبرا کی جغرافیائی سوسائٹی نے یہ قرار داد منظور کی کہ اس نظریے میں بے شک کوئی جان ہو، لیکن اس کا اطلاق سکاٹ لینڈ پر نہیں ہوتا۔
تاہم بعد میں لائل نے اپنا خیال بدل لیا۔ اپنی آبائی جاگیر سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاس موجود جمع پتھروں کے بارے صرف گلیشیئر والا نظریہ ہی لاگو ہوتا ہے۔ کایا پلٹ ہونے کے بعد اس نے ہمت ہار دی اور عوامی سطح پر اس کی حمایت سے کنارہ کش ہو گیا۔ اگاسز کے لیے وقت بہت دشوار تھا۔ اس کی شادی ناکام ہو رہی تھی۔ شمپر اس پر اپنی تحقیق کی چوری کا الزام کھلے بندوں لگا رہا تھا۔ اس کا قریبی دوست کارپینٹر اس سے بول چال ختم کر چکا تھا اور سب سے عظیم ارضیات دان اس کی حمایت میں کھلے عام نہیں کھڑا ہوا۔
1846 میں اگاسز امریکہ پہنچا جہاں اس نے لیکچر دیے اور جس شہرت کا وہ حقدار تھا، اسے ملی۔ ہارورڈ نے اسے پروفیسر کا عہدہ دیا اور اس کے لیے بہترین عجائب گھر بنوایا۔ یہاں کی طویل سردیوں نے اس کے نظریے کی قبولیت آسان بنائی۔ اس کی آمد کے چھ سال بعد ایک سائنسی مہم گرین لینڈ گئی اور اس نے دریافت کیا کہ گرین لینڈ کا زیادہ تر حصہ اسی طرح کی برفانی تہوں سے ڈھکا ہے جس کے بارے اگاسز نے اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔ آخرکار اس کے نظریے کو قبولیت ملنے لگی۔ تاہم اس نظریے میں ایک بات ناقابلِ فہم تھی کہ آخر یہ برفانی دور کس وجہ سے آئے۔
1860 کی دہائی میں برطانیہ کے رسائل اور جرائد میں مختلف موضوعات پر جیمز کرول نے مضامین بھیجنے شروع کر دیے۔ ان میں سے ایک مضمون میں اس نے بتایا کہ زمین کے مدار میں معمولی سی تبدیلیوں سے زمین پر کیسے برفانی دور آ سکتا ہے۔ سائنسی حلقوں نے فوراً ہی ان مضامین کی سائنسی اہمیت کو پہچان لیا اور شاید ان کے لیے یہ بات باعثِ تعجب اور کسی حد تک شرمندگی کا باعث ہو گی جب انہیں پتہ چلا کہ یہ مضامین لکھنے والا کوئی سائنس دان نہیں بلکہ یونیورسٹی کا خاکروب تھا۔
1821 میں پیدا ہونے والا کرول بہت غریب تھا اور اس کا تعلیمی سلسلہ 13 سال کی عمر میں ختم ہو گیا۔ اس نے بعد میں بڑھئی، انشورنس ایجنٹ، ہوٹل کے رکھوالے وغیرہ جیسی نوکریاں کیں اور آخرکار یونیورسٹی کا خاکروب بنا۔ کسی نہ کسی طرح اس نے اپنے بھائی کو اپنی جگہ کام پر لگایا اور زیادہ تر وقت وہ یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا طبعیات، میکانیات، فلکیات، ہائیڈروسٹیٹکس اور دیگر مقبولِ عام سائنسی علوم پڑھتا رہا۔ اس کا علم اتنا بڑھ گیا کہ اس نے ان موضوعات پر مضامین لکھنے شروع کر دیے اور اس کا زیادہ زور زمین کی گردش اور اس سے پیدا ہونے والی موسمیاتی اثرات پر تھا۔
کرول نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین کی گردشی حرکت کا یکے بعد دیگرے گول سے بیضوی اور بیضوی سے گول ہونا در اصل برفانی دور کی آمد اور رخصت سے متعلق ہے۔ اس سے قبل کسی سائنس دان نے زمینی موسم پر بیرونی اثرات کا جائزہ نہیں لیا تھا۔ کرول کی وجہ سے برطانوی لوگوں کو یہ بات سمجھ آئی کہ ماضی بعید میں زمین پر برف بہت جگہوں پر موجود تھی۔ جب کرول کی ذہانت اور فطانت کے چرچے عام ہوئے تو سکاٹ لینڈ کے جیولاجیکل سروے نے اسے نوکری دی اور ہر طرف سے اس پر اعزازات کی بارش ہونے لگی۔ اسے رائل سوسائٹی آف لندن اور نیو یارک اکیڈمی آف سائنس کا فیلو بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اسے یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز نے اعزازی ڈگری بھی دی اور اعزازات کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
بدقسمتی سے جب اگاسز کا نظریہ یورپ میں قبول ہونا شروع ہوا تو اگاسز نے دنیا بھر میں گلیشیئروں کے ایسے ثبوت تلاش کر لیے جو ممکن ہی نہیں تھے۔ حتیٰ کہ خطِ استوا پر بھی اسے گلیشیئر کے ثبوت ملے۔ یعنی پوری دنیا ہی ایک وقت میں جم گئی اور حیات ختم ہو گئی جسے خدا نے بعد میں دوبارہ بنایا۔ تاہم اس کے پاس موجود شواہد اس کے برخلاف تھے۔ اس کے باوجود امریکہ میں اس کی شہرت اور عزت اتنی بڑھ گئی کہ اسے دیوتا سمجھا جانے لگا۔ 1873 میں اس کی وفات کے بعد ہارورڈ نے اس کی جگہ پوری کرنے کے لیے تین الگ الگ پروفیسر رکھے۔
یہ بات عام ہے کہ نظریات وقت کے ساتھ ساتھ گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگاسز کے مرنے کے دس سال بعد ہارورڈ میں اس کی جگہ آنے والے ایک ارضیات دان نے لکھا، ‘گلیشیئر کے اثرات کے بارے نظریہ چند سال قبل کتنا مشہور تھا اور آج گلیشیئر سے متعلق ارضیات دان اسے بے جھجھک رد کر رہے ہیں ‘۔
مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کرول کی پیمائش کے مطابق آخری برفانی دور 80,000 سال قبل ہونا چاہیے تھا جبکہ جغرافیائی شواہد کے مطابق اس کے بعد بھی کسی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔ برفانی دور کی ابتداء کی معقول وجہ کے بناء یہ پورا نظریہ ہی ایک طرح سے متروک ہو گیا۔ اگر سربیئن نژاد میلوٹن میلانکووچ نامی ایک میکینکل انجینئر نہ ہوتا تو یہ معاملہ مزید لٹکا رہتا۔ اگرچہ میلانکووچ کو فلکیات یا اس کی سائنس کا کچھ علم نہیں تھا لیکن 1900 کے اوائل میں اس نے اس مضمون میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اس نے جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ کرول کا نظریہ غلط نہیں بلکہ انتہائی سادہ ہے۔
جب زمین خلاء میں اپنے محور اور سورج کے گرد گردش کرتی ہے تو نہ صرف مدار کی لمبائی اور شکل فرق ہو سکتی ہے بلکہ اس کے علاوہ سورج کی طرف ہونے والے حصوں میں بھی باقاعدہ ترتیب سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ان سب وجوہات کی بناء پر زمین کے کسی خاص حصے پر سورج کی کرنیں پڑنے کی شدت اور دورانیہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ تین عوامل زمین کا ترچھا پن، سورج کے گرد مدار میں حرکت اور زمین کے اپنے محور پر گردش سے ہونے والی مداخلت اور گردش میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق ہے جو طویل دورانیے میں زمین کے مقام کو متاثر کرتے ہیں۔ میلانکووچ نے اس بارے سوچنا شروع کر دیا کہ کیا یہ سب عوامل برفانی دور کی آمد اور رخصت پر کسی طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ مسئلہ یہ تھا کہ یہ برفانی دور یکساں دورانیے کے نہیں تھے۔ ایک بیس ہزار، دوسرا چالیس ہزار اور تیسرا ایک لاکھ سال بعد تھا اور مزید یہ بھی کہ ہر دور ایک دوسرے سے کئی ہزار سال کم یا زیادہ عرصے پر مشتمل تھا۔ یعنی ان کے بارے درست معلومات کا مطلب انتہائی طویل اور پیچیدہ اعداد و شمار اور حساب کتاب کرنا تھا۔ میلانکووچ نے زمین کے ہر عرض بلد پر سورج سے آنے والی روشنی کی مقدار اور دورانیے کا کم از کم دس لاکھ سال کا حساب کرتے ہوئے مندرجہ بالا تین متغیرات بھی ذہن میں رکھنے تھے۔
خوش قسمتی سے یہ کام میلانکووچ کی طبعیت سے میل کھاتا تھا۔ اگلے 20 سال تک، تعطیلات کے دوران بھی اس نے پنسل اور پیمانے کی مدد سے یہ کام جاری رکھا۔ آج کل کے جدید کمپیوٹر پر یہی کام ایک یا دو دن میں ہو جاتا۔ شروع میں تو اسے یہ سارا حساب اپنے فارغ وقت میں کرنا پڑتا تھا لیکن 1914 میں جب پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی تو سربیائی فوج میں اس کی ریزرو حیثیت کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے 4 سال اس نے بڈاپسٹ میں گھریلو نظربندی میں گزارے۔ تاہم اس نظربندی کا مقصد یہ تھا کہ ہفتے میں ایک بار وہ مقامی پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ کرے۔ باقی سارا وقت فارغ تھا جو اس نے ہنگیرین اکیڈمی آف سائنس کی لائبریری میں گزارا۔ اسے دنیا کا خوش قسمت ترین جنگی قیدی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس ساری جفاکشی کا نتیجہ 1930 میں Mathematical Climatology and the Astronomical Theory of Climatic Changes نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ میلانکووچ کا اندازہ درست نکلا کہ زمین کی گردش اور برفانی ادوار کے مابین تعلق تھا۔ اکثر لوگوں کی مانند اس نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا کہ برفانی ادوار سردیوں کے بتدریج سرد تر اور طویل تر ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ تاہم روسی نژاد جرمن ماہرِ موسمیات ولادیمیر کوپن نے بتایا کہ یہ عمل اس سے کہیں زیادہ نازک اور پریشان کن تھا۔
کوپن کے مطابق برفانی دور کی وجوہات شدید سردیوں کی بجائے ٹھنڈی گرمیوں میں پوشیدہ ہیں۔ اگر ٹھنڈی گرمیوں میں پچھلی سردیوں کی برف نہ پگھل سکے تو ان جگہوں پر موجود برف کی تہہ سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کی بجائے خلاء میں واپس بھیج دے گی جس سے ٹھنڈ بڑھے گی اور اگلی سردیاں شدید تر ہو جائیں گی۔ اس طرح یہ اثر خود بخود بڑھتا چلا جائے گا۔ جب برف کی تہہ جم جائے گی تو وہاں درجہ حرارت مزید گر جائے گا اور زیادہ برف گرے گی۔ گلیشیئروں کے ماہر جیون شلٹز کے مطابق، ‘اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ برفانی تہہ میں کتنی برف ہوتی ہے بلکہ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ برف کی کتنی مقدار باقی بچتی ہے ‘۔ اندازہ ہے کہ ایک سال کی ٹھنڈی گرمیوں سے بھی برفانی دور شروع ہو سکتا ہے۔ جو برف پگھل نہ سکے، وہ سورج کی شعاعیں منعکس کرتی رہتی ہے اور درجہ حرارت مزید گرتا جاتا ہے۔ یہ عمل از خود بڑھوتری والا ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا اور جب ایک بار یہ عمل شروع ہو جائے تو پھر ہمارے پاس بڑھتے گلیشیئر اور برفانی دور کا آغاز ہوتا ہے۔
1950 کی دہائی میں جب قدیم تاریخوں کی جانچ کا علم ابھی اتنا بہتر نہیں ہوا تھا، میلانکووچ کے ادوار کے بارے جاننا ممکن نہ رہا۔ اسی وجہ سے میلانکووچ اور اس کے حساب کتاب لوگوں کے ذہن سے محو ہوتے گئے۔ 1958 میں اپنی وفات کے وقت تک میلانکووچ اپنے حساب کی درستگی کے بارے کسی کو یقین نہ دلا سکا۔ اس دور کے ماہرِ موسمیات یا ارضیات دانوں میں شاید ہی کوئی اس ماڈل پر یقین رکھتا ہو۔ 1970 کی دہائی میں جب پوٹاشیم -آرگان کی مدد سے سمندری تہہ میں جمع مواد کی تاریخ کی جانچ کی گئی تو پھر جا کر میلانکووچ کا ماڈل درست ثابت ہوا۔
تاہم برفانی ادوار کی وضاحت کے لیے میلانکووچ ماڈل کافی نہیں۔ اس میں اور بھی کئی عوامل شامل ہوتے ہیں جن میں براعظموں کی منتقلی، قطبین پر موجود زمین وغیرہ، اور ان کے بارے ہمیں نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ شمالی امریکہ، یوریشیا اور گرین لینڈ کو محض 500 کلومیٹر شمال میں منتقل کر دیں تو مستقل اور یقینی برفانی دور شروع ہو جائے گا۔ اچھا موسم ہماری خوش قسمتی ہوتا ہے۔ برفانی ادوار کے وسط میں ہونے والے بہتر موسم کے بارے اس سے بھی کم معلومات ہیں۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ انسانی تاریخ جس میں زراعت، شہروں کی ابتداء، تحریر، سائنس وغیرہ، سب کے سب برفانی ادوار کے درمیان صرف ایک اچھے موسم میں پروان چڑھے۔ اس سے قبل کے یہ اچھے موسم کم سے کم 8,000 سال طویل تھے۔ ہمارا یہ عرصہ اب 10,000 سال گزار چکا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم آج بھی برفانی دور میں زندہ ہیں۔ اگرچہ یہ برفانی دور بہت سکڑ چکا ہے۔ آج سے 20,000 سال قبل برفانی دور کی انتہاء میں زمین کا 30 فیصد حصہ برف سے ڈھکا تھا۔ آج بھی زمین کا 10 فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہے اور مزید 14 فیصد پرما فراسٹ یعنی مستقل جمی ہوئی حالت میں ہے۔ زمین پر پینے کے پانی کا تین چوتھائی حصہ آج بھی برفانی تہوں میں چھپا ہوا ہے جو دونوں قطبین پر چھائی ہوئی ہے۔ آج بھی ہمیں بے شمار ایسی جگہوں پر مستقل گلیشیئر ملتے ہیں ہیں جو نسبتاً گرم ہیں، مثلاً نیوزی لینڈ۔ بظاہر عام سی دکھائی دینے والی یہ بات ہمارے سیارے کے لیے بہت غیر معمولی ہے۔
زمین کی تاریخ میں کچھ عرصہ قبل تک زمین پر کہیں بھی مستقل برف کا کوئی وجود نہیں تھا۔ موجودہ برفانی دور آج سے 4 کروڑ سال قبل شروع ہوا اس کی شدت بدلتی رہی۔ ہر برفانی دور اپنے سے پہلے والے برفانی دور کے شواہد مٹا دیتا ہے۔ تاہم ابھی ہم جانتے ہیں کہ زمین پر گذشتہ 25 لاکھ سال کے دوران کم از کم 17 شدید نوعیت کے برفانی دور آئے ہیں اور یہ عرصہ افریقہ میں ہومو اریکٹس سے موجودہ انسانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ موجودہ دور کے دو اہم اسباب ملتے ہیں۔ پہلا ہمالیہ کا بلند ہونا اور دوسرا پانامہ کا بلند ہونا۔ ہمالیہ کے بلند ہونے سے ہوا کا بہاؤ رکا تو پانامہ کے بلند ہونے سے سمندروں کے درمیان پانی کا بہاؤ متاثر ہوا۔ ہندوستان کسی زمانے میں جزیرہ ہوتا تھا لیکن 2,000 کلومیٹر دور ایشیائی براعظم میں جا گھسا۔ اس سارے عمل میں ساڑھے چار کروڑ سال لگے۔ اس سے نہ صرف ہمالیہ بلند ہوا بلکہ تبت کی سطح مرتفع بھی اس کے پیچھے بلند ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بلند علاقے کا اپنا درجہ حرارت بھی بلند ہوا اور اس نے ٹھنڈی ہواؤں کا رخ شمالی امریکہ کی طرف موڑ دیا جہاں سردیاں طویل اور شدید ہو گئیں۔ تقریباً 50 لاکھ سال قبل پانامہ سمندر کی سطح کو بلند ہونا شروع ہوا جس سے شمالی اور جنوبی امریکہ کے درمیان خلاء بھر گیا۔ اس کے علاوہ بحر الکاہل اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان گرم پانی کی بحری رو متاثر ہوئی اور کم از کم نصف دنیا میں بارش کا معمول متاثر ہوا۔ اس کا ایک پہلو تو یہ نکلا کہ افریقہ خشک سالی کا شکار ہو گیا جس سے بندروں کو درختوں سے نیچے اترنا اور نئے بننے والے گھاس کے میدانوں میں رہنا سیکھنا پڑا۔
سمندروں اور براعظموں کے موجودہ مقام پر ہونے سے یہ بات واضح ہے کہ برفانی دور ہمارے مستقبل کا حصہ ہو گا۔ جان میکفی کے مطابق مستقل گرم موسم کے آنے سے قبل ہم کم از کم 50 مزید برفانی ادوار سے گزریں گے جن میں سے ہر ایک کا دورانیہ ایک لاکھ سال کے لگ بھگ ہو گا۔
5 کروڑ سال قبل زمین پر برفانی دور بے قاعدہ تھے لیکن وہ بھی عظیم ہوتے تھے۔ 2.2 ارب سال قبل ایک ایسا دور آیا جس کے بعد ایک ارب سال کے لگ بھگ موسم نسبتاً گرم رہا۔ پھر اگلا برفانی دور پچھلے سے بھی شدید تر تھا۔ اس کی شدت کو سائنس دان کرائیو جینین یعنی سپر آئس ایج کہتے ہیں۔ اس دور کی زمین کو برفانی گولا کہا جاتا ہے۔
برفانی گولا کہنے سے شاید اس کی شدت واضح نہ ہو سکے۔ نظریہ یہ کہتا ہے کہ سورج کی تابکاری میں محض 6 فیصد کی کمی اور زمین پر سبز مکانی گیسوں کی پیداوار کے خاتمے یا ان کو محفوظ نہ رکھ سکنے کی وجہ سے زمین سے حرارت خارج ہونے لگی۔ ہر طرف برف چھا گئی۔ درجہ حرارت منفی 45 ڈگری تک گرا۔ شمالی اور جنوبی علاقوں میں سمندر پر 800 میٹر تک جبکہ خطِ استوا پر برف کی تہہ دسیوں میٹر موٹی تھی۔
مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جغرافیائی شواہد پورے یقین سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں برف ہر جگہ بشمول خطِ استوا موجود تھی۔ تاہم حیاتیاتی شواہد بھی اتنے ہی یقین سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں کہیں نہ کہیں پانی سطح پر ضرور موجود تھا۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ سائنو بیکٹیریا اس دور سے آسانی سے گزرے حالانکہ وہ ضیائی تالیف کے عمل سے زندہ رہتے ہیں۔ برف چاہے جتنی بھی شفاف ہو، چند گز کی موٹائی کے بعد اتنی دھندلا جاتی ہے کہ کہ روشنی گزر ہی نہیں سکتی۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ شاید بعض جگہوں پر سمندر اس لیے نہ جم سکا کہ اس کے بالکل نیچے گرم پانی کے اخراجی سوراخ ہوں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ہر طرف برف جمی ہو لیکن انتہائی شفاف ہو۔ قدرتی طور پر اس طرح کی انتہائی شفاف برف ہمیں کئی جگہوں پر ملتی ہے۔
اگر زمین ہر طرح سے جم بھی گئی ہو تو بھی یہ سوال تنگ کرتا ہے کہ پھر دوبارہ کیسے گرم ہوئی؟ برفانی سیارہ اتنی زیادہ شمسی حرارت کو منعکس کرتا ہے کہ اسے ہمیشہ جما رہنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ زمین کے اندر سے مدد ملی ہو جو ٹیکٹانک پلیٹوں پر مشتمل ہے۔ خیال یہ ہے کہ آتش فشانوں کی وجہ سے زمین دوبارہ پگھلی ہو گی۔ آتش فشانی مادہ اور لاوا اور گرم گیسیں وغیرہ جمی ہوئی برفانی تہوں کو توڑ کر اوپر پہنچے ہوں گے اور ان کی حرارت سے برف پگھلی ہو گی اور کرہ فضائی دوبارہ بن گیا ہو گا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس برفانی دور کا اختتام کیمبرین دور پر ہوا جو زمین پر حیات کے لیے بہار کی مانند تھا۔ شاید یہ سب اتنا سہل بھی نہیں تھا۔ جوں جوں زمین گرم ہوتی گئی، موسم وحشیانہ حد تک بدلتا رہا۔ بہت بڑے سمندری طوفان آتے ہوں گے اور فلک بوس عمارتوں جتنی بڑی لہریں بنتی رہی ہوں گی اور بارش کی مقدار انتہائی زیادہ رہی ہو گی۔
اس سارے دور میں چپٹے کیڑے اور سیپیاں گہرے سمندر میں گرم سوراخوں سے ایسے چپکی رہی ہوں گی جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ تاہم خشکی اور پانی کے دیگر جاندار معدومیت کی حد کو پہنچ گئے ہوں گے۔ تاہم ایسا کب ہوا، اس بارے کہنا ممکن نہیں کیونکہ اسے گزرے بہت طویل عرصہ ہو چکا ہے۔
فاس برفانی دور کے مقابلے میں بعد کے برفانی دور بہت چھوٹے تھے تاہم آج کے اعتبار سے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ وسکونسن کی برفانی چادر جس نے یورپ اور شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصے چھپائے ہوئے تھے، بعض جگہوں پر 3 کلومیٹر موٹی تھی اور سالانہ 120 میٹر کی رفتار سے سرک رہی تھی۔ اندازہ کیجئے کہ کیسی دکھائی دیتی ہو گی۔ اس کے اگلے سرے پر برف 800 میٹر موٹی ہو گی۔ سوچیے کہ اتنی اونچی دیوار کے سامنے کھڑے ہونا کیسا لگے گا۔ اس کے پیچھے کروڑوں مربع کلومیٹر جتنی مزید برف ہو گی جو اسے آگے کو دھکیل رہی ہو گی۔ اس برفانی چادر میں سے بمشکل چند بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیاں ہی دکھائی دیتی ہوں گی۔ براعظم اس وزن کے نیچے دبے ہوں گے اور اب برفانی تہہ کے ہٹنے کے 12,000 سال بعد بھی براعظم ابھی واپس اپنی جگہ پر ابھر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے کی برف نے نہ صرف پتھر، چٹانیں اور دیگر اشیاء کو دوسری جگہوں پر پہنچایا بلکہ وادیاں اور کھائیاں بھی بنائیں۔ شاید اسی وجہ سے اگاسز سے پہلے کسی کو اس بات کا خیال تک نہیں آیا۔ اگر برفانی چادریں ایک بار پھر سے حرکت میں آ جائیں تو ہمارے پاس انہیں روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہو گا۔ 1964 میں الاس کا کے علاقے پرنس ولیم ساؤنڈ میں ایک بڑے گلیشیئر کے نیچے زلزلہ آیا جو پورے براعظم شمالی امریکہ میں محسوس کیا گیا۔ اس کی شدت 9.2 تھی۔ فالٹ لائن پر زمین 6 میٹر تک بلند ہو گئی۔ ٹیکساس میں تالابوں سے پانی چھلک گیا۔ پرنس ولیم ساؤنڈ کے گلیشیئر پر کیا اثر پڑا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ اسی رفتار سے چلتے رہے۔
طویل عرصے تک یہ سوچ رہی تھی کہ برفانی دور کے آغاز اور اختتام سینکڑوں یا ہزاروں سال لمبے ہوتے تھے۔ تاہم ایسا نہیں ہے۔ گرین لینڈ کی برفانی تہوں سے لیے گئے نمونوں سے ہم گذشتہ ایک لاکھ سال کے موسم کا جائزہ لے سکتے ہیں اور یہ جائزہ کسی طور بھی خوش آئند نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر عرصہ زمین کا موسم اتنا اچھا اور پرسکون نہیں رہا جیسا کہ ہماری انسانی تہذیب کے وقت رہا ہے۔ موسم میں اچانک ہی گرمی اور سردی کی شدت آتی رہی تھی۔
12,000 سال آخری بڑے برفانی دور کے اختتام پر زمین جب تیزی سے گرم ہونے لگی پھر اچانک دوبارہ شدید سرد ہو گئی۔ یہ عرصہ ہزار سال کے لگ بھگ جاری رہا اور پھر درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگا۔ اس دور میں 20 سال میں دنیا کا اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری بڑھا۔ اس دور کو سائنسی زبان میں ‘ینگر دریا’ کہتے ہیں۔ دریا قسم کے آرکٹک پودے برفانی تہہ ہٹنے کے بعد سب سے پہلے اگتے ہیں۔ 4 ڈگری بظاہر تو زیادہ نہیں لگتا لیکن یہ دو دہائیوں میں سکینڈے نیویا کو بحیرہ روم جیسا بنا سکتا ہے۔ مقامی طور پر تو تبدیلیاں اور بھی تیز تھیں۔ گرین لینڈ کی برفانی تہوں کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض جگہوں پر تو 10 سال میں 8 ڈگری تک بھی فرق پڑا جس سے بارش کی مقدار اور پودوں کے اگنے پر بہت فرق پڑا۔ کم آباد سیارے پر اس کے اثرات بہت زیادہ محسوس ہوئے ہوں گے۔ آج کے دور میں اگر ایسا ہو تو یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کیا ہو گا۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمیں اس بارے بالکل بھی اندازہ نہیں کہ زمین کا درجہ حرارت اتنی تیزی سے بدلنے کے پیچھے کیا عوامل ہو سکتے ہیں۔ الزبتھ کولبرٹ نے نیو یارکر میں لکھا، ‘کوئی بھی بیرونی قوت، حتیٰ کہ ہمارے وہم و گمان میں موجود کوئی قوت بھی اس قابل نہیں کہ وہ زمین کے درجہ حرارت میں اتنی بڑی تبدیلی لا سکے ‘۔
ایک نظریہ کہتا ہے کہ ینگر دریا والے دور کے آغاز میں برف پگھلنے سے سمندر میں میٹھے پانی کی مقدار بڑھی جس سے سمندر کی ترشی کم ہوئی اور نتیجتاً خلیجی بحری رو نے اپنا رخ ایسے بدلا جیسے کوئی ڈرائیور سامنے سے آتی ہوئی گاڑی سے بچنے کے لیے موڑ کاٹتا ہے۔ خلیجی رو سے محروم ہونے کے بعد شمالی علاقوں میں موسم زیادہ سرد ہو گیا۔ تاہم یہ نظریہ اس بارے خاموش ہے کہ جب ہزار سال بعد زمین پھر گرم ہوئی تو خلیجی رو نے اپنا رخ پھر کیوں نہیں بدلا۔ بس ہمیں یہ پتہ ہے کہ اس کا نتیجہ ہمارے موجودہ دور کی شکل میں نکلا جہاں ہم رہ رہے ہیں۔
یہ فرض کرنا ٹھیک نہیں کہ موسم ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔ کچھ سائنس دانوں کا تو یہ خیال ہے کہ ہماری صورتحال اس وقت مزید خراب ہو رہی ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ اگر گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت سامنے آئے تو اس کا فائدہ ملے گا۔ تاہم کولبرٹ کے مطابق، ‘موسم جب اتنا ناقابلِ بھروسہ ہو تو پھر اس پر اتنے بڑے پیمانے کا تجربہ کرنا مناسب نہیں ‘۔ ایک نظریے کے مطابق تو برفانی دور کا آغاز ہوتا ہی اس وقت ہے جب درجہ حرارت بڑھنے لگیں۔ یعنی زیادہ گرمی سے زیادہ پانی بخارات کی شکل میں اڑے گا جس سے بننے والے بادل سورج کی زیادہ شعاعیں روکیں گے اور بالائی اور شمالی علاقوں میں زیادہ برف جمع ہو گی۔ گلوبل وارمنگ سے الٹا شمالی امریکہ اور شمالی یورپ مزید ٹھنڈے ہو جائیں گے۔
موسم بہت سارے متغیرات سے مل کر بنتا ہے جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کم یا زیادہ ہوتی سطح، براعظموں کی حرکت، شمسی تعامل، میلانکووچ کے ادوار وغیرہ اور ان کا ماضی سے مقابلہ کرنا اتنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ان کی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں۔ بہت ساری باتیں تو ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ مثال کے طور پر انٹارکٹیکا جب قطب جنوبی پر پہنچا تو 2 کروڑ سال تک وہاں نباتات اگتی رہی تھیں اور زمین پر برف کا نشان تک نہیں تھا۔ اصولی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں۔
بعض ڈائنو ساروں کا دور بھی عجیب تر ہے۔ برطانوی ارضیات دان سٹیفن ڈروری نے دیکھا کہ قطب شمالی سے 10 ڈگری عرض بلد تک کے جنگلوں میں بہت بڑے ڈائنو سار رہتے تھے۔ ڈروری کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ان علاقوں میں ہر سال تین ماہ تک تاریکی چھائی رہتی ہے۔ یہ بھی شواہد ہیں کہ ان علاقوں میں سردیاں نسبتاً شدید ہوتی تھیں۔ آکسیجن آئسو ٹوپ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ الاس کا کے فیئر بینکس کا موسم Cretaceous دور میں بھی لگ بھگ اسی طرح تھا جیسا کہ اب ہے۔ یا تو ڈائنو سار ہر سال طویل مسافت طے کر کے آتے جاتے تھے یا پھر سال کا زیادہ تر حصہ برف سے ڈھکے علاقے میں رہتے ہوں گے۔ اس دور میں آسٹریلیا زیادہ جنوب میں تھا اور وہاں سے گرم علاقے کو ہجرت کرنا بھی ممکن نہیں۔ عجیب بات ہے کہ وہاں ڈائنو سار کیسے زندہ رہے ہوں گے۔
ایک بات یاد رہے کہ اگر کسی وجہ سے بھی اب برفانی دور شروع ہوا تو اس مرتبہ پہلے سے بہت زیادہ پانی موجود ہے جو برف بنے گا۔ شمالی امریکہ کی عظیم جھیلیں، خلیج ہڈسن، کینیڈا کی لاتعداد جھیلیں وغیرہ سب کی سب پچھلے برفانی دور سے قبل نہیں تھیں کہ اس عمل کو تیز بناتیں، بلکہ برفانی دور کے خاتمے پر بنی ہیں۔
دوسری جانب اگر موجودہ برف پگھلنے لگتی ہے تو ایک اور مسئلہ پیدا ہو گا۔ اگر تمام تر برف پگھل جائے تو سمندروں کی سطح 60 میٹر بلند ہو جائے گی جو 20 منزلہ عمارت کی بلندی ہے۔ دنیا کے تمام تر ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ مغربی انٹارکٹک کی برفانی تہہ پگھل جائے۔ اس کے آس پاس سمندر کا درجہ حرارت پچاس برسوں میں 2.5 ڈگری جتنا بڑھ چکا ہے اور تہہ کے ٹوٹنے کے واقعات بڑھتے جار ہے ہیں۔ برف کے نیچے کی جغرافیائی شکل و صورت کی وجہ سے ایسا ہونے کے مزید امکانات بھی ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو دنیا کے سمندروں کی سطح 4.5 سے 6 میٹر تک بلند ہو جائے گی۔
ہمیں تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ مستقبل میں ہمارے لیے شدید سردی پوشیدہ ہے کہ شدید گرمی۔ البتہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ہم اس وقت تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔
سیارے کے لیے تو برفانی تہیں خوشخبری ہوتی ہیں کہ برفانی تہیں چٹانوں کو پیس کر نئی اور زرخیز مٹی پیدا کرتی ہیں جہاں ہزاروں نئی انواع کی خوراک چھپی ہوتی ہے۔ برفانی تہیں ہجرت کے عمل کو مہمیز کرتی ہیں اور سیارے کو متحرک رکھتی ہیں۔ ٹم فلینلی کے مطابق، ‘کسی بھی براعظم کے لوگوں کی قسمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ماضی میں کتنا شدید برفانی دور رہا ہے۔ آئیے اب ہم بندروں کی ایک نوع کو دیکھتے ہیں۔
٭٭٭
28 حیرت انگیز دو پایہ
1887 کی کرسمس سے ذرا قبل ایک ولندیزی ڈاکٹر ماری یوجین فرانکوئز تھامس ڈبیوس (ولندیزی ہونے کے باوجود اس کی پیدائش فرانسیسی بولنے والے بیلجیم کے ایک شہر میں ہوئی تھی) سماٹرا پہنچا جو ولندیزی ایسٹ انڈیز میں تھا۔ اس کا ارادہ یہاں سے دنیا کے قدیم ترین انسان کی تلاش تھا۔
اس ساری کہانی میں بہت سی باتیں عجیب تھیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس سے قبل کسی نے قدیم انسان کی ہڈیاں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ابھی تک ملنے والے تمام تر شواہد حادثاتی طور پر ملے تھے اور اس کے علاوہ ڈبیوس کے پسِ منظر میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ یہ کام کرنے کا سوچتا۔ اس کی تعلیم علم الابدان سے متعلق تھی نہ کہ متحجرات یعنی فاسلز سے متعلق۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھا کہ اگر قدیم انسان کی ہڈیاں ملیں بھی تو وہ عام جگہوں کے برعکس ایک جزیرے نما سے ملیں گی۔ روزگار، ایسٹ انڈیز کے بارے محض ایک خیال اور یہ علم کہ سماٹرا غاروں سے بھرا ہوا ہے اور ایسی جگہوں سے اب تک کئی قدیم انسانی ڈھانچے ملے ہیں (انسان کو Hominidae خاندان میں رکھا گیا ہے۔ اس کے اراکین کو انسان نما کہا جاتا ہے جس میں موجود ہر مخلوق چمپانزی سے زیادہ ہم سے مشابہ تھی)، ڈبیوس کے یہاں آنے کی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی اور متحیر کن بات دیکھیے کہ اس نے اپنا مقصود پا لیا۔
جب ڈبیوس نے یہ فیصلہ کیا تو اس وقت تک انسانی فاسل ریکارڈ نہ ہونے کے برابر تھا یعنی نیندرتھال کے پانچ ادھورے ڈھانچے، ایک نامعلوم انسان نما مخلوق کا ادھورا جبڑا اور برفانی دور کے انسانوں کے چھ ڈھانچے جو حال ہی میں فرانس میں کرومیگنان کے علاقے سے ریلوے کارکنوں نے ایک غار میں تلاش کیے تھے۔ نیندرتھال کا سب سے بہترین ڈھانچہ لندن میں محفوظ تھا۔ اسے 1848 میں جبرالٹر میں چٹانوں کو دھماکے سے اڑاتے ہوئے مزدوروں کو یہ ڈھانچہ ملا تھا۔ اس کا محفوظ رہ جانا ایک معجزہ تھا مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ جبرالٹر کی سائنٹیفک سوسائٹی میں اس کے بارے مختصر بات ہوئی اور پھر اسے ہنٹیرین میوزم بھیج دیا گیا جہاں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے محفوظ تھا۔ اس پر ہونے والا کام محض وقتاً فوقتاً ہونے والی جھاڑ پونچھ تھا۔ 1907 میں اس کا پہلا رسمی تعارف لکھا گیا جو ایک ماہرِ ارضیات ولیم سولاس نے لکھا اور اس کی علم الابدان سے متعلق تعلیم واجبی تھی۔
اس طرح قدیم انسان کی دریافت کا سہرا جرمنی کی وادی نیندر کو ملا اور عجیب بات دیکھیے کہ یونانی زبان میں نیندر کا مطلب ‘نیا انسان’ ہے۔ یہاں 1856 میں ایک اور جگہ مزدوروں نے ایک چٹان پر کام کرتے ہوئے جو دریائے ڈسل کی جانب تھی کچھ عجیب سی ہڈیاں دکھائی دیں۔ انہوں نے یہ ہڈیاں مقامی سکول کے استاد کو دے دیں۔ اس استاد کو ایسی چیزوں سے خصوصی دلچسپی تھی۔ اس استاد کا نام جان کارل فلروٹ تھا۔ اس نے فوراً ہی پہچان لیا کہ یہ کسی نئی قسم کے انسان کی ہڈیاں ہیں۔ ان کی اہمیت پر کچھ عرصہ کافی بحث ہوتی رہی۔
اکثریت نے تو ان ہڈیوں کو قدیم ماننے سے انکار کر دیا۔ بون یونیورسٹی کے پروفیسر آگسٹ میئر، جو کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا، نے اصرار کیا کہ یہ ہڈیاں محض منگول فوجی کی ہیں جو 1814 میں جرمنی میں جنگ کے دوران زخمی ہو کر ان غاروں میں پہنچ کر مر گیا۔ یہ سن کر ٹی ایچ ہکسلے نے اس پر پھبتی کسی کہ کتنا اچھا فوجی تھا کہ زخمی ہونے کے بعد 60 فٹ اونچی چوٹی پر چڑھا، اپنی وردی اور ہتھیار اتار پھینکے اور غار میں گھس کر اس کا منہ بند کیا اور خود کو دو فٹ مٹی کے نیچے دفن کر دیا۔ نیندرتھال کی ابرو والی اونچی ہڈی سے ایک اور ماہر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شاید یہ بازو کے بمشکل مندمل ہونے والے پرانے زخم کی تکلیف سے ہوا ہو گا (قدیم انسان کے وجود سے انکار کرنے کی خاطر ماہرین کسی بھی قسم کی بکواس پر یقین کرنے کو تیار تھے۔ جب ڈبیوس سماٹرا روانہ ہونے والا تھا، اسی دوران ایک اور قدیم ڈھانچے کے دریافت ہونے پر اسے اس کیمو کا ڈھانچہ قرار دے دیا گیا۔ اب سوچیے کہ جنوب مغربی فرانس میں اس کیمو کہاں سے آیا۔ در حقیقت یہ اولین کرو میگنان انسان کا ڈھانچہ تھا)۔
اس پسِ منظر کے ساتھ ڈبیوس نے قدیم انسانی ہڈیوں کی تلاش شروع کی۔ تاہم اس نے خود کھدائی کرنے کی بجائے ولندیزی حکام کی جانب سے دیے گئے 50 مجرموں سے کھدائی کرائی۔ ایک سال تک وہ لوگ سماٹرا میں کام کرتے رہے اور پھر جاوا منتقل ہو گئے۔ وہاں 1891 میں ڈبیوس کی ٹیم کو قدیم انسانی کھوپڑی کا ایک حصہ ملا کہ ڈبیوس خود کم ہی ایسی جگہوں پر جاتا تھا۔ اسے اب Trinil skullcap کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ پوری کھوپڑی نہیں تھی مگر اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کے نقوش واضح طور پر غیر انسانی تھے مگر دماغ کا حجم کسی بھی بندر نما جانور سے کہیں بڑا تھا۔ ڈبیوس نے اسے Anthropithecus erectus (بعد میں تکنیکی وجوہات کی بنا پر نام بدل کر Pithecanthropus erectus رکھ دیا گیا) کا نام دیا اور اسے انسانوں اور بندروں کے درمیان کی گمشدہ کڑی قرار دے دیا۔ جلد ہی اسے ‘جاوا مین’ کہا جانے لگا۔ آج اسے Homo erectus کہا جاتا ہے۔
اگلے سال ڈبیوس کے مزدوروں کو ایک تقریباً پوری ران کی ہڈی ملی جو بہت حد تک جدید لگتی تھی۔ بہت سارے ماہرین کے خیال میں یہ قدیم نہیں بلکہ جدید ہی ہے اور جاوا مین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ erectus کی ہی ہڈی ہے تو ایسی ہڈی آج تک دوبارہ نہیں ملی۔ تاہم اسی ہڈی کو بنیاد بنا کر ڈبیوس نے نتیجہ نکالا کہ Pithecanthropus سیدھا چلتا تھا۔ بعد میں یہ نتیجہ درست ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ کھوپڑی کے ایک ٹکڑے اور ایک دانت کی مدد سے اس نے پوری کھوپڑی کا خاکہ تیار کیا اور وہ خاکہ بھی حیران کن حد تک درست نکلا۔
1895 میں ڈبیوس یورپ لوٹا تو اسے امید تھی کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا مگر ردِ عمل اس کی توقع کے عین برعکس تھا۔ زیادہ تر سائنس دانوں نے اس کا فخریہ رویہ اور اپنے نتائج پیش کرنے کے انداز کو شدید ناپسند کیا۔ ان کے خیال میں یہ کھوپڑی کا حصہ کسی بندر نما مخلوق کا تھا نہ کہ قدیم انسانی۔ تاہم مدد کی خاطر اس نے سٹراس برگ کی یونیورسٹی کے ایک ماہرِ علم الابدان گستاف شوالب سے اس کھوپڑی کا مکمل نمونہ بنانے کی درخواست کی۔ ڈبیوس کی مایوسی دیکھیے کہ شوالب نے اس پر ایک مختصر مقالہ لکھا اور اس مقالے کو ڈبیوس کی نسبت کہیں زیادہ پذیرائی ملی اور اسے ہر جگہ لیکچر دینے کو بلایا جانے لگا جیسے یہ کھوپڑی اس نے خود تلاش کی ہو۔ شدید مایوس اور افسردہ ہو کر ڈبیوس نے ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں علمِ ارضیات کے پروفیسر کی نوکری کر لی اور اگلے بیس سال تک کسی کو ان فاسلز کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی۔ 1940 میں اپنی موت تک وہ ناخوش رہا۔
اس دوران آدھی دنیا کے فاصلے پر 1924 کے اواخر میں ریمونڈ ڈارٹ کو ایک بچے کی مکمل کھوپڑی بھیجی گئی۔ ڈارٹ آسٹریلیا میں پیدا ہوا اور جوہانسبرگ میں ایک یونیورسٹی میں علم الابدان کے شعبے کا سربراہ تھا۔ یہ کھوپڑی صحرائے کالاہاری میں چونے کی کھدائی سے ملی تھی۔ اس کھوپڑی میں نچلا جبڑا اور چہرے کے نقوش بھی صاف تھے۔ ڈارٹ نے فوراً جان لیا کہ یہ کھوپڑی Homo erectus کی نہیں بلکہ ایک اور بندر نما مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے خیال میں یہ کھوپڑی 20 لاکھ سال پرانی تھی اور اسے Australopithecus africanus یا ‘افریقہ کا جنوبی بندر نما انسان’ کہا۔ Nature میں اس نے لکھا کہ یہ کھوپڑی بڑی حد تک انسانی لگتی ہے اور اس کے لیے ایک نیا خاندان Homo simiadae بنایا جائے۔
تاہم حکام نے ڈارٹ کے ساتھ ڈبیوس سے بھی برا سلوک کیا۔ اس کے نظریے اور اس کی ذات سے منسلک ہر چیز ان کے لیے غصے کا سبب تھی۔ سب سے پہلے تو اس نے یہ تجزیہ خود کیا تھا اور دنیا بھر کے چوٹی کے ماہرین میں سے کسی سے بھی مدد نہیں مانگی۔ دوسرا اس کا چنا ہوا نام Australopithecus لاعلمی پر مبنی تھی کہ اس میں یونانی اور لاطینی جڑیں تھیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ نظریہ اس وقت کے معلوم نظریات کے عین برعکس تھا۔ انسان اور بندر کے بارے یہ طے کیا جا چکا تھا کہ وہ آج سے ڈیڑھ کروڑ سال قبل الگ ہو گئے تھے۔ اب اگر انسان افریقہ سے نکلے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم سبھی سیاہ فام نسل سے نکلے ہیں۔ یہ بات اُس وقت کے علم کے عین متضاد تھی۔
رابرٹ بروم نامی ایک فزیشن اور پیلنٹالوجسٹ ڈارٹ کا اہم اور واحد حامی تھا۔ تاہم بروم اپنی نوعیت کا ایک سنکی تھا۔ اس کی عادت تھی کہ فیلڈ ورک کرتے ہوئے وہ اپنے تمام تر کپڑے اتار دیتا تھا کہ اکثر ایسی جگہیں بہت گرم ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی عادت تھی کہ اپنے غریب مریضوں پر وہ مختلف تجربات کرتا رہتا اور جب اکثر جب مریض مر جاتے تو انہیں اپنے صحن میں دفن کر دیتا تاکہ بعد میں نکال کر ان کا تجزیہ کر سکے۔
بروم کو آثارِ قدیمہ میں باقاعدہ مہارت حاصل تھی اور چونکہ وہ بھی جنوبی افریقہ میں رہتا تھا، اس لیے اس نے خود جا کر یہ کھوپڑی دیکھی۔ اس نے فوراً ہی اس کی اہمیت جان لی اور ڈارٹ کی حمایت میں نکل کھڑا ہوا مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگلے پچاس سال تک سائنس دانوں نے اس کھوپڑی کو انسان کی بجائے بندر کی کھوپڑی ہی مانے رکھا۔ زیادہ تر درسی کتب میں اس کا ذکر تک نہیں ہوا۔ پانچ سال کی محنت کے بعد ڈارٹ نے ایک مقالہ لکھا مگر کوئی اسے چھاپنے پر تیار نہ ہوا۔ آخرکار اس نے مقالہ چھاپنے کی خواہش کو دل سے نکال دیا۔ آج آثارِ قدیمہ کے بڑے خزانوں میں سے ایک یہ کھوپڑی برسوں تک اس کے رفیقِ کار کی میز پر پیپر ویٹ کا کام کرتی رہی۔
1924 میں جب ڈارٹ نے اپنی دریافت کا اعلان کیا تو اس وقت تک قدیم انسانوں کو چار درجات میں بانٹا گیا تھا: Homo heidelbergensis, Homo rhodesiensis، نیندر تھال اور ڈبیوس کا جاوا مین۔ تاہم اب صورتحال بدلنے والی تھی۔
پہلے چین میں ایک کینیڈا نژاد شوقیہ ماہر ڈیوڈسن بلیک نے مقامی مشہور جگہ ڈریگن بون ہل یعنی ڈریگن کی ہڈیوں والی پہاڑی کی چھان بین کی۔ اس جگہ سے پرانی ہڈیوں کا ملنا عام سی بات تھی۔ بدقسمتی سے ان ہڈیوں کو تلاش کرنے کے بعد ان کا مطالعہ کرنے کی بجائے انہیں پیس کر مقامی ادویات میں ملا دیا جاتا تھا۔ سوچیے کہ Homo erectus کی کتنی نایاب ہڈیاں عام سی ادویات میں استعمال ہو چکی ہوں گی۔ بلیک کی آمد سے قبل اس جگہ کی کافی کھدائی ہو چکی تھی پھر بھی اس نے ایک فاسل شدہ دانت تلاش کر لیا اور اسے بنیاد بنا کر اس نے Sinanthropus pekinensis کی دریافت کا اعلان کیا اور اسے جلد ہی پیکنگ مین کہا جانے لگا۔
بلیک کے اصرار پر اس جگہ مزید کھدائی کی گئی اور بہت ساری ہڈیاں ملیں۔ بدقسمتی سے جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر 1941 میں حملہ کیا تو تمام ہڈیاں ضائع ہو گئیں کیونکہ جب وہ ان ہڈیوں کو ملک سے نکال رہے تھے تو جاپانیوں نے انہیں پکڑ لیا۔ جب ان کے سامان سے محض ہڈیاں برآمد ہوئیں تو انہوں نے ہڈیوں والا صندوق وہیں سڑک کنارے چھوڑ دیا اور قیدی ساتھ لے گئے۔ اس دن کے بعد یہ صندوق کبھی نہیں دیکھا گیا۔
اسی دوران جاوا میں ڈبیوس کی کھدائی والی جگہ پر رالف وون کونگز والڈ کی زیرِ نگرانی مزید کھدائی کر کے قدیم انسانوں کی بہت ساری ہڈیاں نکالی گئیں جنہیں سولو لوگ کہا گیا کہ یہ مقام دریائے سولو کے کنارے تھا۔ اس کی دریافتیں اور بھی چشم کشا ہوتیں مگر اس نے ایک بنیادی غلطی کر دی تھی۔ اس نے مقامی لوگوں کو قدیم انسانوں کی ہڈی کے ہر ٹکڑے کے بدلے 10 سینٹ دینے کا وعدہ کیا اور پھر اس نے بعد میں دیکھا کہ لوگ ہڈیوں کے بڑے ٹکڑوں کو پورے جوش و خروش سے توڑ کر کئی چھوٹے ٹکڑے بنا رہے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکیں۔
آئندہ سالوں میں اور بھی کئی قسم کے قدیم انسان دریافت ہوئے اور بہت سارے نام متعارف کرائے گئے : Homo aurignacensis, Australopithecus transvaalensis, Paranthropus crassidens, Zinjanthropus boisei وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ تقریباً ہر ایک ہی نئے جینس اور نئی نوع سے تعلق رکھتا تھا۔ 1950 کی دہائی تک انسان نما مخلوقات کی قسمیں سو سے بڑھ چکی تھیں۔ مزید الجھن دیکھیے کہ اکثر یہ اقسام گڈمڈ ہو جاتی تھیں کہ ماہرین کام کے دوران ان کی تقسیم کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ان میں تبدیلیاں کرتے رہتے تھے۔ سولو لوگوں کو کبھی Homo soloensis, Homo primigenius asiaticus, Homo neanderthalensis soloensis, Homo sapiens soloensis, Homo erectus erectus اور پھر Homo erectus بھی کہا جاتا رہا ہے۔
ترتیب کی خاطر 1960 میں یونیورسٹی آف شکاگو کے ایف کلارک ہوول نے ارنسٹ مائر اور دیگر کے کہنے پر قدیم انسان نما مخلوقات کو دو گروہوں یا جینس میں بانٹ دیا۔ ان کے نام Australopithecus اور Homo تجویز ہوئے اور انواع کو ان میں بانٹ دیا گیا۔ جاوا اور پیکنگ مین دونوں کو Homo erectus میں رکھا گیا۔ کچھ عرصے تک تو یہ ترتیب ٹھیک چلتی رہی۔ مگر پھر اس کا وقت بھی پورا ہو گیا۔
دس سال کے نسبتاً سکون کے بعد پیلیو اینتھراپی میں پھر نت نئی دریافتیں ہونا شروع ہوئیں اور یہ ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ نئی دریافت ہونے والی اقسام میں Homo ergaster, Homo louisleakeyi, Homo rudolfensis, Homo microcranus اور Homo antecessor کے علاوہ Australopithecines کی بھی کئی اقسام دریافت ہوئیں۔ تمام اقسام کو ملا کر آج انسان نما مخلوقات کی کل تعداد لگ بھگ 20 ہے مگر بدقسمتی سے کوئی بھی ان پر متفق نہیں کہ یہ بیس اقسام کون کون سی ہیں۔
اس کے علاوہ ان امور میں کوئی ایسی جماعت نہیں کہ جس کو حرفِ آخر مانا جا سکے۔ اس لیے نام وہی استعمال ہوتا ہے جو زیادہ قابلِ قبول ہو۔ تاہم ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
اس مسئلے کی سب سے اہم وجہ شواہد کی کمی ہے۔ وقت کے آغاز سے اب تک اربوں کی تعداد میں انسان اور انسان نما مخلوقات پیدا ہوئی ہیں اور ہر ایک نے جینیاتی اعتبار سے کچھ نہ کچھ تبدیلی متعارف کرائی ہے۔ ان تمام تبدیلیوں سے ان انسانوں اور انسان نما مخلوقات کے بارے معلومات لینے کے لیے ہمارے پاس موجود شواہد انتہائی محدود ہیں، شاید کل 5٫000 افراد۔ جب میں نے نیو یارک کے امریکی میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ایک ذمہ دار ٹیٹرسال سے پوچھا کہ کل انسانی اور انسان نما مخلوقات کی باقیات کتنی ہیں تو اس نے جواب دیا، ‘ایک پک اپ میں سارے شواہد سما جائیں گے۔ ‘
اگر وقت اور مقام کے اعتبار سے یہ شواہد برابر وقفوں سے پائے جاتے ہوں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ Homo erectus کرہ ارض پر 10 لاکھ سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے لیکن اگر ہم اپنے پاس موجود شواہد کی بنیاد پر ان کی تعداد کا جائزہ لیں تو تیس یا چالیس افراد بنیں گے۔ یاد رہے کہ یہ مخلوق مغربی یورپ سے مشرقی چین تک کے علاقے پر پائی جاتی تھی۔ Homo habilis کے ہمیں کل دو جزوی ڈھانچے اور کچھ ہاتھ پیر کی ہڈیاں ملی ہیں۔ جتنے عرصے سے ہماری تہذیب شروع ہوئی ہے، اس حساب سے تو ہمارے وجود کے کوئی بھی شواہد نہیں ملیں گے۔
‘یورپ میں انسان نما مخلوق کی کھوپڑیاں جارجیا میں ملی ہیں جو 17 لاکھ سال پرانی ہیں اور اس کے بعد اگلے 10 لاکھ سال کے وقفے کے بعد ہمیں اگلے شواہد سپین سے ملے جو کہ براعظم کے عین دوسرے کنارے پر ہے۔ پھر تین لاکھ سال کے وقفے کے بعد جرمنی سے Homo heidelbergensis ملا۔ یہ سب ایک دوسرے سے کم ہی مشابہ ہیں۔ ان بکھرے ہوئے شواہد سے ہم پوری پوری انواع کے بارے تحقیقات کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں ان انواع کے بارے ہمیں شاید ہی کچھ علم ہو کہ کون سی انواع ہم تک پہنچیں اور کون کون سی انواع راستے میں ہی معدوم ہو گئیں۔ ‘ ٹیٹرسال نے بتایا۔
شواہد کی کمی کی وجہ سے ہی جب کوئی نئی دریافت ہوتی ہے تو وہ دیگر شواہد سے اتنا مختلف ہوتی ہے۔ اگر ہمارے پاس ہزاروں کی تعداد میں ان مخلوقات کے ڈھانچے ہوں اور وہ ہر جگہ مناسب وقفوں سے بکھرے ہوئے ہوں تو ہمارا کام آسان ہو سکتا ہے۔ نئی نوع آہستہ آہستہ اور پہلے سے موجود انواع سے بنتی ہے اور اچانک ہی پیدا نہیں ہوتی، حالانکہ ہمارا فاسل ریکارڈ یہی بتاتا ہے۔ جب نئی نوع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہوتی ہے تو اس دورانیے کے جاندار کو پہچاننا آسان نہیں۔ وہ دونوں انواع سے مشابہ ہوتے بھی ہیں اور دونوں سے الگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ Homo erectus کے آخری دور کی مخلوق کا Homo sapiens سے مقابلہ کریں تو کبھی وہ دونوں انواع سے مشابہ لگتا ہے تو کبھی دونوں سے الگ۔ اسی طرح اگر سامنے محض ایک ہڈی ہو تو نر یا مادہ کے علاوہ یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کس نوع سے تعلق رکھتی ہو گی۔
اتنے کم شواہد کی موجودگی کی بنا پر سائنس دان ان ہڈیوں کے آس پاس موجود اشیا کو بنیاد بنا کر اندازے لگاتے ہیں۔ تاہم یہ بھی انتہائی مبہم کام ہے۔ ایلکن واکر اور پیٹ شپ مین نے لکھا ہے کہ اگر کسی نوع کے جاندار کی ہڈیوں کے پاس موجود اوزاروں سے انہیں ملایا جائے تو پتہ چلے گا کہ زیادہ تر قدیم اوزار ہرنوں نے بنائے تھے۔
ان شواہد کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا سب سے بڑا ثبوت Homo habilis ہے۔ ان ہڈیوں کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ ان کی ارتقا دو الگ سمتوں میں ہو رہی تھی۔ ان میں نروں کی ہڈیاں ثابت کرتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ انسان نما اور کم بندر نما ہوتے جا رہے تھے جبکہ مادہ کی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ عین اسی دوران وہ زیادہ سے زیادہ بندر نما اور کم انسان نما ہوتی جا رہی تھیں۔ بعض ماہرین habilis کو الگ سے نہیں مانتے۔ ٹیٹرسال اور جیفری شوارٹز اس شاخ کو ‘ردی کی ٹوکری’ کہتے ہیں کہ جہاں ہر قسم کے غیر متعلقہ فاسلز ڈال دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو ماہرین اسے الگ نوع مانتے ہیں، وہ بھی اس بات پر متفق نہیں کہ آیا یہ ہمارے جینس سے تعلق رکھتی تھی یا کوئی ایسی ذیلی شاخ تھی جو کہ وقت کے ساتھ معدوم ہو گئی۔
اس کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ انسانی فطرت بھی ہے۔ ہر سائنس دان ان دریافتوں کو اپنی مرضی سے ایسے بیان کرتا ہے جو اس کی اپنی تعریف کا سبب بن سکیں۔ شاید ہی کوئی پیلنٹالوجسٹ ہو جو اعلان کرے کہ اس نے قدیم ہڈیاں دریافت کی ہیں کہ جن میں کوئی خاص بات نہیں۔ جان ریڈر نے اپنی کتاب Missing Links میں لکھا ہے کہ ‘یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے نئی دریافتیں در اصل اپنے دریافت کنندہ کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ‘
اس طرح قدیم انسان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا امر ہو کہ جس پر بحث نہ ہوتی ہو۔ ہم صرف ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کسی حد تک معلوم ہے کہ ہم کون ہیں اور بطور نوع کیسے پیدا ہوئے۔
بطور جاندار، اپنی تاریخ کے 99.99999 فیصد وقت ہم اور چمپانزی ایک ہی تھے۔ تاہم چمپانزیوں کی ابتدا کے بارے کچھ بھی علم نہیں، تاہم جو چمپانزیوں کا پسِ منظر ہے، وہی ہمارا بھی ہے۔ پھر 70 لاکھ سال قبل کچھ اہم واقعہ ہوا۔ افریقہ کے استوائی جنگلات سے نئی جانداروں کا ایک گروہ باہر نکلا اور گھاس کے کھلے میدانوں میں پھیل گیا۔
یہ جاندار Australopithecines تھے اور اگلے 50 لاکھ سال تک یہ کرہ ارض کی سب سے غالب نوع بنے رہے (Austral کا سابقہ لاطینی میں جنوب کو ظاہر کرتا ہے )۔ یہ مخلوق کئی اقسام کی تھی جن میں سے بعض نرم و نازک تھے تو بعض سخت جان اور مضبوط، تاہم سب ہی سیدھا چلنے کے قابل تھے۔ ان کی بعض انواع دس لاکھ سال سے زیادہ زندہ رہیں تو بعض انواع محض چند لاکھ سال سال بعد ختم ہو گئیں۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ ان میں سے ناکام ترین نوع بھی ہم سے کئی گنا زیادہ عرصہ زندہ رہی تھی۔
سب سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے والے انسان نما مخلوق کا دورانیہ 31.8 لاکھ سال تھا جس کے بارے 1974 میں ایتھوپیا سے ڈونلڈ جانسن کی زیرِ نگرانی ٹیم نے باقیات دریافت کیں۔ اسے باضابطہ طور پر A.L. (Afar Locality یعنی جہاں دریافت ہوا، اس مقام کا نام) 288-1 کا نام دیا گیا۔ اس ڈھانچے کو عرفِ عام میں لوسی کہا جاتا ہے۔ جانسن کو اس دریافت کی اہمیت پر کبھی شک نہیں ہوا اور اس نے کہا کہ ‘لوسی ہماری قدیم ترین بزرگ ہے اور انسان اور بندر کے درمیان کی گمشدہ کڑی۔ ‘
لوسی پست قامت تھی اور اس کا قد محض ساڑھے تین فٹ تھا۔ اگرچہ وہ سیدھا چل سکتی تھی مگر کتنی آسانی سے، بحث طلب امر ہے۔ بظاہر اسے درختوں پر چڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ اس کی کھوپڑی غائب ہے اور اس کے دماغ کے حجم کے بارے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ زیادہ تر کتب میں درج ہے کہ لوسی کا 40 فیصد ڈھانچہ ملا ہے مگر بعض جگہوں پر نصف اور بعض پر دو تہائی ڈھانچہ بھی لکھا ہے۔ بی بی سی کی ٹی وی ڈاکومنٹری میں غلط طور پر اسے پورا ڈھانچہ کہا گیا۔
انسانی جسم میں 206 ہڈیاں ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری ہڈیاں ایک سے زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس دائیں ران کی ہڈی ہو تو ہمیں بائیں ران کی ہڈی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس طرح ایک سے زیادہ قسم کی ہڈیاں نکال دی جائیں تو کل منفرد ہڈیاں 120 بچ جاتی ہیں۔ اسے نصف ڈھانچہ کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اگر ہم لوسی کی ہر ہڈی کا ریزہ بھی الگ سے ہڈی مان لیں تو ہمارے پاس اس نصف ڈھانچے کا محض 28 فیصد بچتا ہے (پورے ڈھانچے کا محض 20 فیصد)۔
ایلن واکر نے اپنی کتاب The Wisdom of the Bones میں لکھا ہے کہ اس نے ایک بار جانسن سے پوچھا کہ 40 فیصد ڈھانچے کا ہندسہ کہاں سے آیا۔ اس نے بتایا کہ لوسی کے ہاتھ کی 106 ہڈیوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے کیونکہ اس دور کے جاندار کے ہاتھ اور پیر بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ترین عضو تھے۔ بہرحال، لوسی کے بارے ہمیں انتہائی کم معلومات ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے کہ لوسی کو محض اس لیے اس لیے مادہ مانا جاتا ہے کہ اس کی جسامت مختصر تھی۔
لوسی کی دریافت کے دو سال بعد میری لیکی کو تنزانیہ میں دو جانداروں کے پیر کے نشانات ملے جس کے بارے اندازہ ہے کہ وہ ایک ہی نسل کے قدیم انسان تھے۔ جب یہ انسان یہاں سے گزرے تو اس وقت پھٹتے ہوئے آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ بہہ رہی تھی۔ بعد میں جب یہ راکھ سخت ہوئی تو ان کے قدموں کے نشانات لگ بھگ 23 میٹر جتنے رقبے پر محفوظ رہ گئے۔
نیویارک کے امیریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں اس کی نقل تیار کی گئی ہے۔ اس جگہ دو پوری جسامت کے چمپانزی نما اور بالوں سے بھرے جسم والی مخلوقات کو گزرتا دکھایا گیا ہے۔ تاہم ان کے انداز و اطوار انسانوں سے مشابہ ہیں۔ نر نے اپنا بائیاں ہاتھ مادہ کے شانے پر رکھا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان جذباتی لگاؤ تھا۔
یہ منظر اتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے کہ ایک لمحے کو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ قدموں کے نشانات کے سوا باقی سب کچھ فرضی اور تخیلاتی ہے۔ اس مخلوق کے جسم پر بال، چہرے کے نقوش (انسانی ناک یا بندر نما ناک)، چہرے کے تاثرات، جلد کا رنگ، ان کی جسامت اور خاتون کی چھاتیاں بھی، سب کی سب تخیل کی پیداوار ہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ جوڑا تھے۔ خاتون سمجھی جانی والی مخلوق ہو سکتا ہے کہ بچہ ہو۔ یہ بھی محض اندازہ ہے کہ وہ Australopithecines ہوں گے کہ اس جگہ کسی اور انسان نما مخلوق کا کوئی ثبوت نہیں۔
مجھے کسی نے بتایا تھا کہ انہیں اس لیے اس طور پر دکھایا گیا تھا کہ زنانہ مجسمہ بار بار گر رہا تھا۔ مگر ٹیٹرسال نے بتایا کہ ایسا نہیں۔ ‘ہمیں یقین تو نہیں کہ مرد کا بازو عورت کے شانے پر تھا مگر دونوں کے قدموں کی لمبائی سے پتہ چلتا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ایک ساتھ چل رہے تھے کہ ایک دوسرے کو چھو سکتے تھے۔ چونکہ یہ کھلا علاقہ تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہوں۔ اسی وجہ سے ایسا منظر پیدا کیا گیا۔ ‘
جب میں نے پوچھا کہ ایسے مناظر بناتے ہوئے اسے عجیب نہیں لگتا کہ کافی کچھ اپنی طرف سے ڈال دیا جاتا ہے تو اس کا جواب تھا کہ ‘آپ کو علم نہیں کہ چھوٹے چھوٹے امور جیسا کہ نیندرتھال کے ابرو تھے یا نہیں، پر کتنی بحث ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ منظر بناتے ہوئے ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس منظر میں اس مخلوق کی کیفیات کی عکاسی کریں اور یہ بتائیں کہ ممکنہ طور پر وہ ایسے دکھائی دیتے تھے۔ اگر میں یہ منظر دوبارہ بناؤں تو انہیں زیادہ بندر نما دکھاؤں گا کہ یہ مخلوق انسان نہیں بلکہ دو پیر پر چلنے والے بندر تھے۔ ‘
کچھ ہی عرصہ قبل تک یہ بات یقینی تھی کہ ہم لوسی اور اس جیسی دیگر مخلوقات سے نکلے ہیں مگر اب ماہرین کو اس میں شبہ ہے۔ بعض اعضا جیسا کہ دانت وغیرہ سے ہمیں شک ہوتا ہے کہ وہ ہمارے مشترک اجداد تھے مگر دیگر اعضا میں زیادہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً انسانی ران کی ہڈی کا بالائی حصہ بندروں سے مشابہ ہے لیکن لوسی سے بہت مختلف۔ اب اگر لوسی ہمارے اور بندروں کے درمیان کی مخلوق تھی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ارتقا کے درمیان دس لاکھ سال کے لیے ران کی ہڈی کی شکل بدل گئی ہو اور پھر واپس اصل شکل میں آ گئی ہو۔ ‘ ٹیٹرسال اور شوارٹز نے اپنی کتاب Extinct Humans میں لکھا۔ ان کے خیال میں لوسی کا ہمارے آباء و اجداد سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی لوسی زیادہ چل پھر سکتی ہو گی۔
‘لوسی اور اس کی قبیل کی مخلوق انسانوں سے کہیں مختلف انداز سے چلتی ہو گی۔ جب یہ انسان نما مخلوقات ایک درخت سے دوسرے درخت کو جاتی ہوں گی تو انہیں دو پیروں پر چلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہو گا۔ ‘ ٹیٹرسال نے کہا۔ تاہم جانسن کے خیال میں ایسا نہیں۔ ‘لوسی کے کولہے کی ہڈی اور اس سے جڑنے والے پٹھوں کی ترتیب ایسی تھی کہ اس کے لیے درخت پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہو گا۔ ‘ اس نے کہا۔
2001 اور 2002 میں مسائل گھمبیر ہو گئے جب چار انتہائی نئے نمونے دریافت ہوئے۔ ایک کینیا کی جھیل ترکانا کے پاس فاسلز کے لیے مشہور مقام سے دریافت ہوا اور اسے Kenyathropus platyops (کینیا کا چپٹے چہرے والا) کہا گیا اور اس کا دور لوسی والا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ شاید یہ ہمارا جدِ امجد ہو اور لوسی محض ایک ذیلی شاخ، جو ناکام رہی۔ 2001 میں ہی Ardipithecus ramidus kadabba دریافت ہوا جو 52 سے 58 لاکھ سال پرانا تھا۔ Orrorin tugenensis 60 لاکھ سال پرانا نکلا اور اسے کچھ عرصہ تک قدیم ترین انسان نما مانا گیا ہے۔ 2002 کی گرمیوں میں فرانسیسی ٹیم نے چاڈ کے صحرائے جراب میں کام کرتے ہوئے تقریباً 70 لاکھ سال پرانا ڈھانچہ پایا اور اسے Sahelanthropus tchadensis کہا گیا۔ واضح رہے کہ اس جگہ پہلے کبھی کوئی فاسل نہیں ملے تھے (کچھ ناقدین کے مطابق یہ انسان نما نہیں بلکہ بندروں کی ابتدائی شکل تھی اس لیے اسے Sahelipithecus کہا جانا چاہیے )۔ یہ تمام جاندار بہت قدیم اور ابتدائی ساخت والے تھے لیکن یہ سب دو پیروں پر چلتے تھے۔ یعنی دو پیروں پر چلنے کا عمل ہمارے اندازے سے سے بھی پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔
دو پیروں پر چلنے کا عمل بہت مشکل اور خطرناک ہے۔ اس کے لیے کولہے کی ہڈیوں کی ترتیب اور ساخت بدلتی ہے تاکہ سارا وزن سہار سکے۔ مطلوبہ مضبوطی کی خاطر مادہ میں پیدائش کی نالی نسبتاً تنگ ہونی چاہیے۔ اس سے دو فوری اور ایک طویل مدتی اثر پڑتا ہے۔ اول تو یہ کہ اس سے پیدائش کے دوران ماں کو بہت درد سہنا پڑتا ہے اور اس سے زچہ اور بچہ کی جان کو لاحق خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ بچے کی پیدائش کی خاطر اس کا دماغ نسبتاً چھوٹا ہونا چاہیے، مگر اس سے بچہ فوری طور پر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ طویل مدت تک ماں کو بچے کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے نر اور مادہ کے درمیان طویل رفاقت کی ضرورت پڑتی ہے۔
جب آپ اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتے ہوں اور پیدائش کے وقت Australopithecine کے دماغ کا حجم مالٹے کے برابر ہو (دماغ کا کل حجم کافی مبہم اصطلاح ہے۔ ہاتھی اور وہیل کے دماغ ہم سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں مگر ہم سے زیادہ ذہین نہیں۔ اصل اہمیت جسم اور دماغ کی نسبت ہوتی ہے۔ ایک نسل A. africanus کے دماغ کا حجم 450 سی سی تھا جو کہ گوریلا سے کم ہے۔ مگر یاد رہے کہ اس نسل کا جسمانی وزن 45 کلو ہوتا تھا اور گوریلا 150 کلو سے بھی زیادہ وزنی ہو سکتے ہیں ) تو یہ غیر ضروری خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
سو لوسی اور اس کی قبیل کے دیگر انسان نما جاندار درختوں سے نیچے کیوں اترے؟ شاید ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ بچا ہو۔ پاناما کی بتدریج اٹھتی ہوئی سطح سے بحر الکاہل سے بحرِ اوقیانوس کے درمیان پانی کا بہاؤ رک گیا تھا اور اس سے بحرِ منجمد شمالی کو گرم پانی کا بہاؤ تھمنے سے شمالی نصف کرے پر انتہائی تیزی سے برفانی دور نازل ہو گیا تھا۔ افریقہ میں اس کا اثر یہ ہوا کہ موسم سرد اور خشک ہوتے گئے جس سے جنگلات گھاس کے میدانوں میں بدلنے لگے۔ جان گرِبن کے بقول، ‘لوسی اور اس کے ہم نسلوں نے جنگلات کو نہیں چھوڑا بلکہ جنگلات انہیں چھوڑ گئے۔ ‘
تاہم گھاس کے کھلے میدانوں میں آنے سے لوسی اور اس کے ہم نسلوں کو زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیدھا کھڑا انسان نما مخلوق زیادہ بہتر دیکھ سکتا ہے مگر اس کے دشمن بھی اسے زیادہ بہتر دیکھ سکتے ہیں۔ آج بھی بطور نوع ہم لوگ فطرت میں خطرات کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ تقریباً ہر بڑا جانور ہم سے زیادہ طاقتور، زیادہ چست اور زیادہ تیز دانت رکھتا ہے۔ حملے کے وقت جدید انسان کے پاس محض دو فائدے ہیں۔ ہمارے پاس اچھا دماغ ہے جس سے ہم بہتر حکمتِ عملی تیار کر سکتے ہیں۔ دوسرا ہمارے پاس ہاتھ ہیں جس سے ہم تکلیف دینے والی چیزیں پھینک سکتے ہیں۔ ہم واحد مخلوق ہیں جو فاصلے سے بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس طرح جسمانی طور پر ہمارا کمزور ہونا اتنا برا بھی نہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ درخت سے اترنے کے بعد طاقتور دماغ کے ارتقا کا راستہ کھل گیا ہو گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ 30 لاکھ سال تک لوسی اور اس کے قبیلے کے انسان نما Australopithecines نہ ہونے کے برابر تبدیل ہوئے۔ ان کا دماغ بھی نہ بڑھا اور نہ ہی اس بات کے کوئی ثبوت ملے ہیں کہ انہوں نے کوئی اوزار استعمال کرنا سیکھا ہو گا۔ عجیب بات دیکھیے کہ 10 لاکھ سال تک Australopithecines ان انسان نما دیگر انواع کے ساتھ زندہ رہے جو اوزار استعمال کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
20 سے 30 لاکھ سال قبل کے ایک وقت افریقہ میں انسان نما 6 مختلف اقسام آباد تھیں۔ ان میں سے محض ایک باقی بچی جو Homo ہے اور جو اس مرحلے سے 20 لاکھ سال قبل نکلی۔ Australopithecines اور Homo 10 لاکھ سال تک ایک ساتھ پائے جاتے رہے اور پھر اچانک Homo جیسی طاقتور، خوبصورت اور اچھی مخلوق اچانک منظرِعام سے غائب ہو گئی۔ میٹ رڈلے کے خیال میں ‘ہم انہیں کھا گئے۔ ‘
روایتی طور پر مانا جاتا ہے کہ Homo کے سلسلے کی ابتدا Homo habilis (جس کے بارے ہمیں شاید ہی کوئی معلومات ہوں ) سے ہوئی جو Homo sapiens پر آ کر منتج ہوئی۔ اس کا مطلب ‘سوچنے والا انسان’ ہے۔ ان دونوں کے درمیان اس کی لگ بھگ چھ مختلف اقسام آتی ہیں۔
Homo habilis کو یہ نام 1964 میں لوئیس لیکی نے دیا تھا کہ یہ پہلی معلوم مخلوق ہے جس نے سادہ سے اوزار استعمال کیے تھے۔ یہ مخلوق انسان سے زیادہ چمپانزی سے مشابہ تھی۔ تاہم اس کا دماغ لوسی سے 50 فیصد زیادہ بڑا تھا اور اسے اُس دور کا آئن سٹائن کہا جا سکتا ہے۔ اس بارے کوئی علم نہیں کہ انسان نما مخلوقات میں دماغ اچانک کیوں بڑھنے لگا۔ بہت عرصے تک سمجھا جاتا رہا کہ دو پیروں پر چلنا اور دماغ کا بڑا حجم آپس میں براہ راست منسلک ہیں کہ جنگلات سے نکل کر کھلے میدان میں آنے سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر دماغ بڑھنے لگا۔ تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ یکے بعد دیگرے ایسی مثالیں ملتی رہیں کہ دو پیروں پر چلنے والی مخلوقات کا دماغ نہیں بڑھا۔ یعنی ان دو امور کا باہمی کوئی تعلق نہیں۔
‘ہمیں علم نہیں کہ دماغ کا حجم بڑھنے کیا وجہ تھی۔ ‘ ٹیٹرسال نے کہا۔ بڑے دماغ اگرچہ پورے جسم کی کمیت کا محض 2 فیصد ہوتے ہیں مگر جسم کی توانائی کا 20 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم چکنائی کا استعمال چھوڑ دیں تو ہمارا دماغ کبھی اس کی شکایت نہیں کرے گا کہ اسے چکنائی کی ضرورت نہیں۔ تاہم دماغ کو گلوکوز بڑی مقدار میں درکار ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے دوسرے اعضا بھوکے رہ جائیں۔ ‘لالچی دماغ کی وجہ سے جسم کو مسلسل فاقہ کشی کا خطرہ رہتا ہے مگر دماغ کو بھوکا رکھنے کا مطلب موت ہے۔ ‘ گائے براؤن نے لکھا۔ بڑے دماغ کے لیے زیادہ خوراک درکار ہے اور زیادہ خوراک کا مطلب زیادہ خطرات۔
ٹیٹرسال کا خیال ہے کہ دماغ کا بڑا حجم محض ایک ارتقائی حادثہ تھا۔ سٹیفن جے گولڈ کی طرح اس کا بھی خیال ہے کہ اگر ہم وقت میں پیچھے کو جائیں تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ہماری جیسی مخلوق ظہور پذیر ہو۔
‘انسانوں کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ ہم ارتقائی شاہکار نہیں بلکہ محض حادثاتی طور پر پیدا ہونے والی ایک مخلوق ہیں۔ ہماری پیدائش کوئی اٹل امر نہیں تھا۔ اپنی خوشی کی خاطر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ارتقا کا عمل در اصل ہماری پیدائش کی خاطر ہوا ہے۔ 1970 کی دہائی تک ماہرینِ بشریات بھی یہی سوچتے رہے تھے۔ 1991 تک ایک مشہور درسی کتاب The Stages of Evolution میں سی لورنگ بریس نے بتایا کہ Australopithecines کے علاوہ باقی ہر لڑی میں مسلسل بہتری ہوتی جا رہی ہے اور ہر نسل اپنی اگلی نسل کو بہتر سے بہتر بناتی رہی ہے۔ بے شک بہت ساری ذیلی شاخیں کسی اہم موڑ تک پہنچے بنا ہی ختم ہو گئیں۔
خوش قسمتی سے ہماری لڑی نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ہماری لڑی نے اوزار استعمال کرنا سیکھا۔ اسے Homo erectus کہتے ہیں اور اسے یوجین ڈبیوس نے 1891 میں جاوا سے دریافت کیا۔ مختلف ذرائع اس کے دور کو 18 لاکھ سال سے 20٫000 سال قبل تک کا دور مانتے ہیں۔
Java Man مصنفین کے مطابق Homo erectus ہی در اصل حدِ فاضل ہے۔ اس سے قبل کی تمام مخلوقات بندر نما تھیں اور اس کے بعد سے ہر مخلوق انسان نما ہے۔ اسی نے سب سے پہلے شکار کرنا شروع کیا، اسی نے سب سے پہلے آگ استعمال کی، اسی نے سب سے پہلے پیچیدہ اوزار بنانے شروع کیے، اسی نے کیمپ سائٹس کے نشان چھوڑے، اسی نے کمزور اور بیمار ساتھیوں کی دیکھ بھال شروع کی، لمبے بازو اور ٹانگوں کے علاوہ جسمانی اعتبار سے انسانوں سے کہیں زیادہ طاقتور تھے اور ان میں وسیع علاقوں میں کامیابی سے پھیلنے کی خواہش اور ذہانت بھی تھی۔ دیگر انسان نما مخلوقات کے لیے یہ نسل لمبی چوڑی اور خوفناک ہونے کے علاوہ تیز بھی تھی۔ ان کے دماغ اس وقت تک کی کسی بھی دیگر مخلوق سے زیادہ تیز تھے۔
پین سٹیٹ یونیورسٹی کے ایلن واکر کے مطابق ‘اپنے دور کے انتہائی کامیاب شکاری ڈائنو سار کی مانند تھے۔ اگر آپ ان کی آنکھوں میں جھانکیں تو آپ ان کی نظر میں محض ایک شکار تھے۔ ‘ واکر کے خیال میں یہ مخلوق ایک بالغ جسم کے ساتھ بچے کا ذہن رکھتی تھی۔
اگرچہ اس مخلوق کے بارے ایک صدی سے سے معلومات تھیں مگر یہ معلومات محض ادھورے ٹکڑوں سے اخذ کی گئی تھیں جس سے ایک پورا ڈھانچہ بھی نہ بن سکتا تھا اور نہ ہی موجودہ انسان کے جدِ امجد مان کر اسے کوئی اہمیت دی گئی تھی۔ کینیا میں جھیل ترکانا (پرانا نام جھیل رڈولف)کی ایک دور افتادہ وادی اس وقت قدیم انسان نما مخلوق کی باقیات کے حوالے سے بہت مشہور تھی مگر کسی نے اس پر اُس وقت توجہ نہ دی۔ جب رچرڈ لیکی کے جہاز کو اپنا راستہ بدل کر اس وادی کے اوپر سے گزرنا پڑا تو اس نے یہاں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک مہم کو جانچ کے لیے بھیجا گیا جسے شروع میں ناکامی ہوئی۔ مگر پھر لیکی کے سب سے مشہور فاسل تلاش کرنے والے کامویا کیمیو کی نظر جھیل سے کہیں دور ایک پہاڑی پر ایک انسان نما مخلوق کی کھوپڑی کے ابرو والے حصے پر پڑی۔ اگرچہ ایسی جگہوں پر کامیابی کی امید نہیں ہوتی مگر کیمیو کی خاطر انہوں نے کھدائی کی تو حیران کن طور پر وہاں سے Homo erectus کا تقریباً پورا ڈھانچہ ملا۔ یہ شاید 9 سے 12 سال کی عمر کے لڑکے کا ڈھانچہ تھا جو آج سے 15 لاکھ 40 ہزار سال قبل مرا تھا۔ ٹیٹرسال کے مطابق ‘اس ڈھانچے کی ساخت مکمل طور پر جدید انسان کی ساخت سے مماثل تھی۔ یہ ترکانا لڑکا یقیناً ہم میں سے ایک تھا۔ ‘
جھیل ترکانا سے ہی کیمیو کو KNM-ER 1808 بھی ملا جو 17 لاکھ سال پرانا ایک مادہ کا ڈھانچہ ہے۔ اس کی تحقیق سے محققین کو علم ہوا کہ یہ نسل ہماری امیدوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ تھی۔ اس عورت کی ہڈیاں عجیب حالت میں تھیں اور لگتا تھا کہ یہ Hypervitaminosis A کے مرض کا شکار تھی۔ یہ بیماری کسی درندے کے جگر کو کھانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نسل گوشت خور تھی۔ ہڈیوں میں بیماری کے اثرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ عورت شاید کئی ہفتے یا کئی مہینوں تک اس بیماری میں مبتلا رہی تھی۔
اسی نسل کی کھوپڑیوں سے کچھ ماہرین کے خیال میں اس نسل کے دماغ میں بروکا کا حصہ پیدا ہو چکا تھا۔ یہ حصہ دماغ کے سامنے ہوتا ہے اور بولنے کے عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ چمپانزیوں میں یہ حصہ نہیں پایا جاتا۔ ایلن واکر کے خیال میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت کے مطابق اس کا حجم اتنا نہیں تھا کہ یہ مخلوق بول سکتی، شاید یہ مخلوق چمپانزیوں کی طرح کسی اور انداز سے گفتگو کرتی ہو گی۔ تاہم رچرڈ لیکی جیسے ماہرین کے خیال میں یہ مخلوق بات چیت کرتی تھی۔
کچھ عرصے تک یہی خیال رہا کہ یہ مخلوق ہی واحد انسانی مخلوق تھی۔ مہم جوئی کی شائق یہ قوم انتہائی کم وقت میں پورے کرہ ارض پر پھیل گئی۔ کچھ فاسلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مخلوق جس وقت افریقہ سے نکلی، عین اسی وقت یا اس سے ذرا قبل وہ جاوا تک پہنچ چکی تھی۔ اس سے بعض ماہرین کو امید بندھی ہے کہ ہماری نسل افریقہ سے نہیں بلکہ ایشیا سے نکلی ہو گی۔ تاہم یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ آج تک اس سے پرانی کوئی بھی مخلوق افریقہ کے علاوہ اور کہیں نہیں پائی گئی کہ جس سے ارتقا کے عمل سے یہ نسل پیدا ہوئی ہو۔ ایشیائی انسان نما مخلوق اچانک ہی نمودار ہوئی تھی۔ خیر، ایشیا میں اس مخلوق کا وجود محض اس کے پھیلاؤ کی سمت کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جاوا مین اتنی جلدی افریقہ کیسے پہنچے؟
اس بارے کئی ممکنہ وجوہات بتائی گئی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ مخلوق افریقہ میں معلوم دور سے بھی پہلے سے پائی جاتی ہو اور ہمیں محض اس کے شواہد نہیں مل پائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاوا مین کی تاریخ غلط جانچی گئی ہو۔
تاہم یہ بات یقینی ہے کہ آج سے 10 لاکھ سال سے بھی قبل دو پیروں پر چلنے والی ایک مخلوق افریقہ سے نکلی اور تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ ان کی رفتار اتنی تیز تھی کہ شاید ایک دن میں 40 کلومیٹر کا اوسط فاصلہ طے کرتے رہے ہوں گے جبکہ راستے میں پہاڑ، دریا، صحرا اور دیگر رکاوٹیں بھی آتی ہوں گی اور خوراک کا حصول بھی وقت لیتا ہو گا۔ یہ بات خصوصی توجہ کی طالب ہے کہ یہ مخلوق بحرِ احمر کے مغربی جانب کے علاقے کو کیسے عبور کر پائی ہو گی کہ یہ علاقہ اُس وقت آج کی نسبت کہیں زیادہ خشک اور دشوار گزار تھا۔ عجیب بات دیکھیے کہ جن وجوہات کی بنا پر اس مخلوق نے افریقہ کو چھوڑا، اسی وجہ نے ان کے سفر کو مشکل تر بنا دیا۔ تاہم کسی نہ کسی طرح یہ مخلوق ہر رکاوٹ اور ہر مشکل کو عبور کرتی ہوئی بڑھتی رہی۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے مگر اس کے بعد کے واقعات میں اتنی بحث اور اتنی مشکلات ہیں کہ اس کے بارے ہم اگلے باب میں بات کریں گے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ 50 لاکھ سال کی ارتقا سے یہ مخلوق آج کا انسان بنی اور پھر بھی چمپانزی سے اس کے جینیاتی مواد کی مشابہت 98.4 فیصد ہے۔ زیبرے اور گھوڑے کے درمیان زیادہ فرق ہے مگر انسانوں اور چمپانزی میں اس سے کم فرق پایا جاتا ہے۔
٭٭٭
29 بے چین بندر
لگ بھگ آج سے پندرہ لاکھ سال قبل ایک انسان نما مخلوق نے عجیب کام کیا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اس کی مدد سے دوسرے پتھر کو تراشنا شروع کر دیا۔ اس طرح بیضوی شکل کی دستی کلہاڑی بن گئی۔ یہ انتہائی سادہ تو تھی مگر اسے دنیا کا پہلا جدید اوزار مانا جاتا ہے۔
یہ ایجاد اپنے ہم عصر اوزاروں سے اتنا آگے کی چیز تھی کہ جلد ہی دوسروں نے بھی اس کی نقالی کرتے ہوئے اپنے لیے ایسے اوزار بنانے لگے۔ جلد ہی ایسے معاشرے بن گئے جن کا کم ہی یہی اوزار بنانا تھا۔ آئن ٹیٹرسال کے مطابق ‘وہ انہیں ہزاروں کی تعداد میں بناتے تھے ‘۔ افریقہ میں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ ان سے کترائے بنا نہیں گزر سکتے۔ یہ بات حیرت کا سبب ہے کہ اس اوزار کو بنانے پر کافی محنت لگتی ہے۔ ان کی تعداد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ان کے بنانے کے عمل سے انہیں مزہ آتا ہو گا۔
ٹیٹرسال کے کام والے کمرے میں ایک بہت بڑی نقل رکھی ہے۔ اس کی لمبائی شاید آدھا میٹر اور چوڑائی 20 سینٹی میٹر ہے اور اس کی شکل نیزے کی انی سے مشابہ ہے۔ چونکہ یہ نقل فائبر گلاس سے بنائی گئی تھی، اس لیے بہت ہلکی تھی۔ تاہم تنزانیہ سے ملنے والا اصل ہتھیار 11 کلو وزنی تھا۔ ٹیٹرسال نے بتایا کہ ‘بطور ہتھیار تو یہ ناقابلِ استعمال تھا کہ دو افراد مل کر اسے اٹھاتے اور پھر اس کا استعمال بہت تھکا دینے والا ہوتا’۔
‘پھر اس کا کیا استعمال رہا ہو گا؟’
ٹیٹرسال نے کندھے ا چکائے اور مسکراتے ہوئے بولا، ‘معلوم نہیں، شاید اس کی کوئی علامتی اہمیت ہو؟ ہم محض سوچ ہی سکتے ہیں۔ ‘
ان کلہاڑیوں کو آچیولین ٹولز کہا جاتا ہے کہ یہ جنوبی فرانس کے علاقے سینٹ آچیول سے ملی تھیں۔ اس سے پرانے اوزار جو سادہ تر تھے، اولڈوان اوزار کہلاتے ہیں کہ وہ تنزانیہ میں اولڈوائی کے درے سے ملے تھے۔ پرانی درسی کتب میں اولڈوان اوزاروں کے بارے لکھا تھا کہ وہ گول مٹول اور کند ہوتے تھے۔ مگر اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ان کے تیز دھار والے کنارے اس جگہ موجود ہیں جو شاید اصل پتھر سے ٹوٹ کر گر گئے ہوں گے۔
اب یہاں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ جب قدیم انسان افریقہ سے ایک لاکھ سال قبل نکلنا شروع ہوئے اور ان کی نسل سے ہم پیدا ہوئے، تو وہ اپنے ساتھ آچیولین اوزار لائے۔ ان اولین Homo sapiens کو اپنے اوزار بہت پسند تھے اور وہ انہیں بہت طویل فاصلے تک ساتھ لے جاتے تھے۔ بعض اوقات تو اگر انہیں کہیں مناسب پتھر مل جاتا تو اٹھا لیتے کہ بعد میں اس سے اوزار بنا لیں گے۔ انہیں ٹیکنالوجی سے شغف تھا۔ یہ اوزار اب بھی افریقہ، یورپ، وسطی اور مغربی ایشیا میں تو ملتے ہیں لیکن کبھی بھی مشرقِ بعید میں نہیں ملے جو انتہائی حیران کن ہے۔
1940 کی دہائی میں ہارورڈ کے ماہر آثارِ قدیمہ ہالم مویوس نے مویوس خط کھینچا جس کے ایک طرف وہ علاقے تھے جہاں آچیولین اوزار پائے جاتے تھے اور دوسری جانب نہیں۔ یہ لکیر یورپ اور وسطی ایشیا میں جنوب مشرق کی جانب بڑھتی جاتی ہے اور کلکتہ اور بنگلہ دیش کے پاس جا کر رکتی ہے۔ اس لکیر کے دوسری جانب جنوبی مشرقی ایشیا اور چین میں اولڈوان اوزار ہی ملتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ Homo sapiens اس مقام سے بھی بہت آگے تک گئے تھے مگر وہ اپنے پسندیدہ اوزار ساتھ کیوں نہیں لے گئے؟ یہ اوزار ان کے ساتھ اس مقام تک تو تھے۔
تاہم جلد ہی علم ہو گیا کہ یہ اکیلی پریشانی نہیں۔ مزید پریشانیاں سائنس دانوں کی منتظر تھیں۔ آسٹریلیا میں مغربی نیو ساؤتھ ویلز میں ایک ماہرِ ارضیات جم باؤلر 1968 میں گھوم رہا تھا کہ خشک جھیل منگو کی تہہ میں اسے کچھ عجیب سا دکھائی دیا۔ یہ کسی انسان کی ہڈیاں تھیں۔ اس وقت تک یہ عام معلوم تھا کہ انسان آسٹریلیا آج سے لگ بھگ 8٫000 سال پہلے آئے تھے مگر جھیل منگو کو خشک ہوئے 12٫000 سال گزر چکے تھے۔ پھر کوئی انسان یہاں ایسی بنجر اور دشوار جگہ پر کیا کر رہا تھا؟
کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلا کہ ان ہڈیوں کا مالک جب یہاں آیا تھا تو یہ جھیل 20 کلومیٹر طویل تھی اور اس میں پانی اور مچھلیوں کی بہتات تھی اور جھیل کنارے خوب گھنے درخت ہوا کرتے تھے۔ تاہم حیرت کی بات دیکھیے کہ یہ ہڈیاں 23٫000 سال پرانی نکلیں۔ اس کے پاس ایک اور مقام پر موجود دیگر ہڈیاں 60٫000 سال تک پرانی ثابت ہوئیں۔ یہ سب انتہائی حد تک ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ جب سے انسان یا انسان نما مخلوقات پیدا ہوئی ہیں، آسٹریلیا ہمیشہ سے ایک جزیرہ رہا ہے۔ یہاں پہنچنے والے ہر انسان کو کھلے سمندر کو عبور کرنا لازم ہے۔ اب سوچیے کہ کھلے سمندر کی چوڑائی سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے اور نئے جزیرے پر آبادی قائم کرنے کی خاطر کافی تعداد میں لوگوں کو یہ سو کلومیٹر کا کھلا سمندر عبور کرنا لازمی تھا اور یہ بھی کہ انہیں اس بات کا کیا علم، کہ سو کلومیٹر دور ایک جزیرہ ان کا منتظر ہے؟ مزید یہ کہ یہاں اترنے کے بعد ان لوگوں نے 3٫000 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے (فرض کیا جاتا ہے کہ وہ شمالی ساحل پر اترے ہوں گے جہاں سمندر کو عبور کرنا سب سے مختصر تھا) کیا۔ اندازہ ہے کہ یہ لوگ 60٫000 سال سے بھی بہت پہلے شاید یہاں پہنچ گئے ہوں۔
یہ لوگ یہاں کیسے پہنچے اور ان کی آمد کا سبب کیا ہے، کے بارے ہم کچھ نہیں جانتے۔ ماہرینِ بشریات کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ لوگ نہ تو بول سکتے تھے اور نہ ہی مل جُل کر نئے جزیرے پر جانے کے لیے اتنی مضبوط کشتی تیار کرنے کے قابل تھے کہ جا کر نئے جزیرہ پر براعظم کو آباد کر سکیں۔
ایلن تھورن سے جب ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا، ‘قبل از تاریخ کے انسانوں کی ہجرت کے بارے بہت کچھ ہمیں معلوم نہیں۔ جب 18ویں صدی میں ماہرینِ بشریات پاپوا نیو گنی گئے تو انہوں نے انتہائی ناقابلِ عبور جگہوں پر بھی انسان آباد دیکھے جو شکر قندی اگاتے تھے۔ شکر قندی جنوبی امریکہ سے نکلی ہے، مگر یہ پاپوا نیو گنی کیسے پہنچی؟ ہمیں اس بارے کچھ بھی علم نہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندازوں سے بھی کہیں پہلے سے لوگ آزادی اور تیزی سے مختلف جغرافیائی مقامات پر سفر کرتے رہے تھے اور تقریباً یقینی طور پر ایک دوسرے سے جنسی روابط بھی استوار کرتے ہوں گے۔
ہمیشہ کی طرح یہاں بھی فاسل کی کمی بنیادی مسئلہ ہے۔ ‘دنیا کے بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں طویل عرصے کے لیے انسانی باقیات محفوظ رہ سکیں۔ اگر ہدار اور اولدوانی جیسے مقامات مشرقی افریقہ میں نہ ہوتے تو ہمیں نہ ہونے کے برابر معلومات ہوتیں۔ جب آپ ان مقامات کے علاوہ کہیں اور دیکھتے ہیں تو نہ ہونے کے برابر انسانی باقیات ملتی ہیں۔ پورے انڈیا سے تین لاکھ سال پرانے محض ایک انسان کی باقیات ملی ہیں۔ عراق اور ویتنام کے درمیان یہ علاقہ لگ بھگ 5٫000 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور ہمیں اس علاقے میں ایک ڈھانچہ انڈیا سے اور دوسرا ازبکستان سے ملا ہے۔ اب اس سے کیا تحقیقات کی جا سکتی ہیں؟ اس لیے ہمیں ان چند علاقوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جہاں انسانی باقیات کی کثرت ہے، مثلاً عظیم وادئ شق، آسٹریلیا میں منگو۔ اب سوچیں کہ ان نقاط کو ملانے کے لیے ماہرینِ بشریات کو کتنی مشکل ہوتی ہو گی’۔ تھورن نے بتایا۔ اس نے چھوٹی سی سفید گوٹی (نچلے ہونٹ کے نیچے تھوڑے سے بال) رکھی ہوئی تھی اور اطوار دوستانہ تھے۔
انسانی ہجرت کا مقبولِ عام نظریہ جو کہ ماہرین میں بھی یکساں قبول ہے، یہ ہے کہ یورپ اور ایشیا میں انسان دو لہروں کی صورت میں پھیلے۔ پہلی لہر میں Homo erectus نے افریقہ کو بہت پہلے چھوڑا، شاید بطور نوع پیدا ہوتے ہی، شاید بیس لاکھ سال قبل۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ مختلف جگہوں پر آباد ہوتے گئے اور ان سے مزید نئی اقسام پیدا ہوتی گئیں جن میں ایشیا میں جاوا مین اور پیکنگ مین اہم ہیں، Homo heidelbergensis اور پھر Homo neanderthalensis یورپ میں پیدا ہوئے۔
پھر ایک لاکھ سال قبل ایک اور عجیب واقعہ ہوا کہ ہمارے آباء و اجداد افریقی میدانوں سے ابھرے اور افریقہ سے باہر کا رخ کیا۔ یہ دوسری لہر تھی۔ جہاں جہاں یہ نئی نوع پہنچی، انہوں نے پہلے سے موجود نسبتاً کم تر انواع کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ یہ کام ہوا کیسے۔ ہم قتلِ عام کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ پرانی انواع مقابلہ نہیں کر سکیں اور دیگر وجوہات کے ساتھ ان کی معدومیت ہوئی۔ ‘شاید ہماری وجہ سے انہیں چیچک لگی ہو۔ ہم اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ آج ہم موجود ہیں اور وہ نہیں۔ ‘ ٹیٹرسال نے کہا۔
ہمارے اپنے ان ابتدائی آباء و اجداد کے بارے ہمارا علم دیگر انسان نما مخلوقات کی نسبت بہت کم ہے۔ اس بارے ایک جگہ ٹیٹرسال نے لکھا کہ ‘انسانی ارتقا کا آخری مرحلہ یعنی ہماری نوع کی پیدائش ہی سب سے زیادہ خفیہ ہوئی ہے۔ اس بات پر کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا کہ بطور نوع ہم فاسل ریکارڈ میں کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔ بہت ساری کتب میں یہ وقت آج سے 1٫20٫000 سال پہلے کا درج ہے جب جنوبی افریقہ میں دریائے کلاسیز کے منبع سے کچھ باقیات دریافت ہوئی تھیں۔ تاہم اس بارے کوئی اتفاقِ رائے نہیں کہ یہ جدید انسان ہی تھے۔
Homo sapiens کے پہلے غیر متنازعہ ثبوت ہمیں موجودہ دور کے اسرائیل میں ملتے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ میں ہے۔ یہ باقیات لگ بھگ ایک لاکھ سال پرانی ہیں تاہم ان کے بارے ماہرین کا خیال ہے کہ ‘عجیب، مشکل سے شناخت کے قابل اور ان کے بارے کم معلومات ہیں ‘۔ اس علاقے میں نیندرتھال پہلے سے آباد تھے اور ان کا بنایا ہوا ایک اوزار اتنا عمدہ تھا کہ موجودہ انسانوں نے اسے اپنا لیا۔ نیندرتھال کی کوئی بھی باقیات آج تک شمالی افریقہ سے نہیں مل سکیں لیکن ان کا بنایا ہوا یہ اوزار جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی تو ان اوزاروں کو یہاں تک لایا ہو گا، شاید موجودہ انسان لائے ہوں۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کئی ہزاروں سال تک نیندرتھال اور موجودہ انسان ایک ساتھ آباد رہے تھے۔ اسی دوران موجودہ انسانوں نے نیندرتھال کے اوزاروں کا بخوشی استعمال جاری رکھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں کوئی بڑی برتری حاصل نہیں تھی۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ دس لاکھ سال قبل یہ آچیولین اوزار مشرقِ وسطیٰ سے تو ملتا ہے مگر یورپ میں اس کی آمد محض تین لاکھ سال پرانی ہے۔ ان لوگوں کے پاس ٹیکنالوجی تو تھی، پھر اوزار نہ بنانا سمجھ سے باہر ہے۔
طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کرومیگنن (یورپ میں جدید انسانوں کا نام) نیندرتھال کو اپنے آگے آگے بھگاتے رہے اور آخرکار مغربی کنارے پر پہنچ کر انہیں ختم کر دیا کہ ان کے پاس راہِ فرار ختم ہو گئی تھی۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ جب موجودہ انسان مشرق سے آ رہے تھے تو اسی وقت وہ مغربی کنارے پر بھی موجود تھے۔ ‘ان دنوں یورپ بالکل خالی تھا۔ ان کی تمام تر آمد و رفت کے باوجود ان کے باہم ملاقات کا نہ ہونے کے برابر امکان تھا۔ ‘ ٹیٹرسال نے بتایا۔ مزید عجیب بات یہ ہے کہ کرومیگنن لوگوں کی آمد جس وقت ہوئی، اسے Boutellier وقفہ کہا جاتا ہے۔ اس دوران یورپ معتدل موسم کے بعد ایک اور لمبے اور طویل سرمائی دورانیے کو تیار ہو رہا تھا۔ ان کے یورپ آمد کی چاہے جو بھی وجہ ہو، خوشگوار موسم نہیں ہو سکتا۔
خیر، کرومیگنن لوگوں کی وجہ سے نیندرتھال لوگ معدوم ہو کر رہ گئے، اگرچہ اس بارے ہمیں کوئی واضح شواہد نہیں ملتے۔ نیندرتھال بہت سخت جان تھے۔ ہزاروں سال تک وہ ایسے موسمی حالات میں رہتے رہے تھے کہ جہاں موجودہ دور کے انسانوں میں محض قطبی سائنس دان اور قطبی مہم جو زندہ رہ پاتے ہیں۔ شدید ترین برفانی دور میں عام برفانی طوفان ہری کین کی رفتار سے چلتے تھے۔ اکثر درجہ حرارت منفی 45 ڈگری سے بھی نیچے گر جاتا۔ جنوبی انگلینڈ کی برف پوش وادیوں میں قطبی ریچھ دندناتے پھرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ نیندرتھال ایسے علاقوں سے تو پسپا ہو گئے تھے مگر جن علاقوں میں رہتے تھے، وہ موجودہ سائبیریا کے سرمائی موسم جیسے ہوتے تھے۔ نیندرتھال بہت تکالیف سہتے تھے اور 30 برس سے زیادہ تو اکا دکا ہی زندہ رہ پاتا تھا۔ تاہم بطور نوع کے، یہ لوگ انتہائی سخت جان اور ناقابلِ تسخیر تھے۔ ایک یا دو لاکھ سال تک یہ نوع زندہ رہی اور جبرالٹر سے لے کر ازبکستان تک کا علاقہ ان سے بھرا ہوا تھا۔ بطور نوع، یہ بہت کامیاب رہے تھے۔
تاہم یہ کیا تھے اور کیسے دکھائی دیتے تھے، کے بارے بہت بحث ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک عام خیال تھا کہ یہ مخلوق کم عقل، سر اور شانے جھکا کر چلنے والی، پیر گھسیٹنے والی اور بندر نما تھی اور اسے ہم پتھر کے دور کا آدمی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم ایک تکلیف دہ حادثے کے بعد سائنس دانوں کا نظریہ بدل گیا۔ 1947 میں فرانسیسی نژاد الجیرین سائنس دان صحارا میں ایک جگہ کام کر رہا تھا۔ دوپہر کو گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے وہ اپنے جہاز کے پر کے نیچے سائے میں بیٹھ گیا۔ اسی دوران گرمی کی شدت سے جہاز کا ٹائر پھٹا اور پر اس کے بالائی جسم پر بہت زور سے لگا۔ پیرس پہنچ کر جب اس نے اپنی گردن کا ایکس رے کرایا تو اس کے اپنے مہرے عین اسی طرح دکھائی دیے جیسے نیندرتھال کے تھے۔ اب یا تو اس کی جسمانی ساخت بہت پرانی اور نیندرتھال سے مشابہ تھی یا پھر نیندرتھال کے کھڑے ہونے کے انداز کو غلط سمجھا گیا۔ اصل میں دوسری بات درست تھی۔ نیندرتھال کے مہرے بالکل بھی بندروں جیسے نہیں تھے۔ اب بعض اوقات نیندرتھال کے بارے کچھ سائنس دانوں کی رائے بدلنے لگی۔
ابھی تک یہ عام تصور پایا جاتا ہے کہ نیندرتھال نہ تو ذہین تھے اور نہ ہی اس قابل تھے کہ براعظم میں آنے والی نئی مخلوق Homo sapiens کا سامنا کر سکتے۔ ایک نئی کتاب کا اقتباس ملاحظہ کیجیے : ‘Homo sapiens نے نیندرتھال کی جسمانی مضبوطی کا مقابلہ اپنے لباس، بہتر طاقت اور بہتر پناہ گاہوں سے کیا۔ نیندرتھال کی بھاری جسامت کی وجہ سے انہیں زیادہ خوراک درکار ہوتی تھی’۔ یعنی مصنف یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ جن وجوہات کی بناء پر گذشتہ ایک لاکھ سال سے نیندرتھال پھل پھول رہے تھے، اچانک ان کی خامیاں بن گئیں۔
ایک اور بات جس پر شاید ہی کبھی توجہ دی جاتی ہو، وہ نیندرتھال کا دماغی حجم ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق موجودہ انسان کے دماغ کا حجم 1.4 لٹر ہوتا ہے جبکہ نیندرتھال کے دماغ کا حجم 1.8 لٹر تھا۔ Homo erectus اور Homo sapiens کے دماغ کا فرق اس سے کم تھا جبکہ Homo erectus کو ہم بمشکل انسان مانتے ہیں۔ اس بارے کہا جاتا ہے کہ اگرچہ ہمارے دماغ ان سے چھوٹے ہیں مگر ہم ان کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ بطور مصنف، میں نے انسانی ارتقا کے حق میں ایسی دلیل آج تک نہیں دیکھی۔
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہو گا کہ اگر نیندرتھال اتنے مضبوط، تغیر پذیر اور دماغ کے حجم کے اعتبار سے بڑے تھے تو پھر وہ آج زندہ کیوں نہیں؟ ایک ممکنہ (مگر کافی متنازعہ) نظریہ یہ ہے کہ وہ موجود ہیں۔ ایلن تھورن اس نظریے کے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔ اس نظریے کو کثیر العلاقائی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق انسانی ارتقا ایک مسلسل عمل ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے Australipithecines ارتقا کے بعد Homo habilis بنے اور Homo heidelbergensis آگے چل کر Homo neanderthalensis بنے، اسی طرح موجودہ Homo sapiens اسی طرح کی دیگر قدیم Homo مخلوقات سے نکلا ہے۔ اس طرح Homo erectus کوئی الگ سے نوع نہیں تھی بلکہ ایک عارضی مرحلہ تھا۔ اس طرح موجودہ چینی لوگ ایشیائی Homo erectus سے پیدا ہوئے اور موجودہ یورپی لوگ یورپی Homo erectusسے پیدا ہوئے۔ تھورن کے خیال میں ‘افریقہ سے محض ایک نسل کے Homo sapiens نکلے ‘۔
تاہم اس نظریے کے مخالفین کے خیال میں یہ غلط ہے کہ اس طرح ہر جگہ اور ہر جزیرے میں انسانوں کی مختلف اقسام مختلف ارتقائی مراحل سے گزری ہوں گی۔ کچھ کے خیال میں یہ نظریہ نسل پرستانہ ہے اور علم البشریات نسل پرستی سے بہت مشکل سے چھٹکارا پا سکا تھا۔
کُون کو چاہے ذاتی طور پر جیسا بھی لگتا ہو، مگر اس کے نظریے کے مطابق بعض نسلیں دوسروں سے افضل اور بہتر ہیں۔ آج یہ انتہائی متنازعہ سمجھا جانے والا نظریہ ماضی میں بہت معزز سمجھی جانی والی جگہوں پر مقبول رہا ہے۔ ابھی میرے سامنے 1961 کی شائع شدہ ایک کتاب The Epic of Man موجود ہے جس میں لائف میگزین کے مضامین کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کے مطابق ‘رہوڈیشین آدمی آج سے 25٫000 سال قبل تک زندہ تھا اور عین ممکن ہے کہ وہ افریقیوں کا جدِ امجد بھی رہا ہو۔ اس کے دماغ کا حجم Homo sapiens کے آس پاس تھا۔ ‘ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ افریقی جس مخلوق سے ارتقا پذیر ہوئے ہیں، وہ انسان سے مماثل مخلوق تھی۔
تاہم تھورن کے خیال میں اس نظریے میں ذرا برابر بھی نسل پرستی نہیں کیونکہ اس وقت کے انسان مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے تھے۔ اس طرح ان کے آپس میں تعلقات جنسی نوعیت تک بھی پہنچ جاتے ہوں گے۔ سو اس طرح یہ تمام نسلیں ایک ہی تھیں۔ یعنی جب کیپٹن کُک آسٹریلیا پہنچا تو اس نے کسی دوسری نوع کے انسان کو نہیں بلکہ اپنی ہی نوع کے انسان کو دیکھا جو جسمانی طور پر اس سے کچھ مختلف تھے۔
تھورن کے خیال میں، اگر آپ فاسل ریکارڈ دیکھیں تو ایک مسلسل تغیر دکھائی دیتا ہے۔ ‘تین لاکھ سال پرانی ایک کھوپڑی یونان سے ملی ہے۔ اسے ایک پہلو سے دیکھیں تو Homo erectus اور دوسرے پہلو سے دیکھیں تو Homo sapiens کی لگتی ہے۔ یہی چیز ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف انواع ارتقا میں ملتی جلتی ہیں نہ کہ ایک نوع کے دوسری نوع سے بدلے جانے پر۔ ‘
اس سلسلے میں سب سے بہترین شواہد جو ہو سکتے ہیں وہ یہ کہ یہ انواع ایک دوسرے کے ساتھ افزائشِ نسل کرتی تھیں۔ مگر فاسلوں سے ایسا ثابت کرنا یا اسے غلط ظاہر کرنا آسان نہیں۔ 1999 میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے پرتگال سے ایک چار سالہ بچے کا ڈھانچہ دریافت کیا جو 24٫500 سال قبل مر چکا تھا۔ اس کی جسمانی ساخت ویسے تو جدید انسانوں والی تھی مگر اس میں نیندرتھال کی بھی کچھ خصوصیات موجود تھیں، مثلاً اس کی ٹانگیں غیر معمولی طور پر مضبوط تھیں، دانتوں کی ساخت بیلچے نما تھی اور (اس بات پر ہر کوئی متفق نہیں ) اس کی کھوپڑی کے پیچھے ایک ایسی چھوٹا سا گڑھا نما تھا جو نیندرتھال تک محدود ہے۔ سینٹ لوئیس میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی کے ایرک ٹرنکاس، جو کہ نیندرتھال پر حرفِ آخر مانا جاتا ہے، نے اعلان کیا کہ یہ بچہ جدید انسانوں اور نیندرتھال کے مابین جنسی تولید کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم دیگر ماہرین کے مطابق نیندرتھال اور جدید انسانی نقوش زیادہ نہیں ملے ہوئے تھے۔ ایک نے لکھا: ‘اگر آپ خچر کو دیکھیں تو اس کا اگلا حصہ گدھے جیسا نہیں اور نہ ہی پچھلا حصہ گھوڑے جیسا ہے۔ ‘
آئن ٹیٹرسال کے مطابق یہ محض ‘گٹھے جسم کا بچہ تھا’۔ وہ اس بات کو تو مانتا ہے کہ نیندرتھال اور موجودہ انسانوں کے مابین ہلکا پھلکا جسمانی تعلق تو رہا ہو گا مگر اس طرح کے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے افزائشِ نسل نہیں کر سکتے (ایک امکان یہ ہے کہ کرومیگنن اور نیندرتھال کے کروموسوم کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر تب ہوتا ہے جب ایک دوسرے سے مماثل نسلوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہو۔ مثلاً گھوڑے کے 64 اور گدھے کے 62 کروموسوم ہوتے ہیں۔ ان کے ملاپ سے خچر پیدا ہوتا ہے جس کے 63 کروموسوم ہوتے ہیں اور وہ افزائشِ نسل نہیں کر سکتا)۔ اس نے بتایا، ‘میرے علم میں پورے عالمِ حیاتیات میں کوئی بھی دو مخلوقات ایسی نہیں جو ایک ہی نوع سے تعلق رکھتی ہوں، ایک دوسرے سے اتنی مختلف بھی ہوں۔ ‘
فاسل ریکارڈ سے جب کوئی خاص فائدہ نہ ہوا تو سائنس دان اب جینیاتی مطالعے کی طرف بالعموم اور مائٹوکونڈریل ڈی این اے کی طرف بالخصوص رخ کر رہے ہیں۔ مائٹو کونڈریل ڈی این اے کو 1964 میں دریافت کیا گیا اور 1980 کی دہائی میں جا کر پتہ چلا کہ اس کو بطور مالیکیولر کلاک کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ استعمال برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنس دانوں نے دریافت کیا۔ اس کے علاوہ یہ ڈی این اے صرف مادہ سے اپنے بچوں کو منتقل ہوتا ہے اور باپ کے ڈی این اے سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس میں میوٹیشن یعنی تغیر کی شرح عام ڈی این اے سے لگ بھگ 20 گنا زیادہ تیز ہے جس سے اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ آسان ہو جاتا ہے۔ ان تغیرات کی شرح کو جانچ کر ہم پورے انسانی قبائل اور گروہوں کی جینیاتی تاریخ اور ان کے آپس کے تعلق کو جان سکتے ہیں۔
1987 میں برکلے کی ایک ٹیم نے مرحوم ایلن ولسن کی زیرِ نگرانی 147 افراد کے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کا تجزیہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ موجودہ انسان آج سے 1٫40٫000 سال قبل افریقہ میں نمودار ہوئے تھے اور آج موجود تمام تر انسان اسی نسل سے نکلے ہیں۔ یہ نتیجہ کثیر العلاقائی نظریے کے لیے سخت ثابت ہوا۔ تاہم جلد ہی ماہرین نے اس تجربے کے نتائج کی جانچ شروع کر دی۔ اس تجربے کی سب سے بڑی خامی جو سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ اس تجربے میں استعمال ہونے والے افریقی افراد در اصل افریقی امریکی تھے جن کے ڈی این اے میں گذشتہ چند صدیوں کے دوران بہت زیادہ تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔ پھر تغیرات کی شرح اور رفتار پر بھی اعتراضات اٹھنے لگے۔
1992 تک اس مطالعے کو عموماً نظرانداز کیا جانے لگا۔ تاہم جینیاتی تجزیے کی تکنیک میں بہتری لائی جانے لگی اور 1997 میں میونخ کی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اصل نیندرتھال انسان کے بازو کی ایک ہڈی سے ڈی این اے نکال لیا۔ اب ثبوت پکا ہو گیا۔ میونخ والے تجزیے سے پتہ چلا کہ نیندرتھال کا ڈی این اے زمین پر موجود کسی بھی دوسرے ڈی این اے سے یکسر مختلف ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ انسانوں اور نیندرتھال کے مابین کوئی جینیاتی تعلق نہیں رہا۔ کثیر العلاقائی نظریے کو اس سے شدید دھچکا پہنچا۔
2000 کے اواخر میں Nature اور دیگر سائنسی جرائد میں ایک سوئیڈش تحقیق چھپی جس میں 53 افراد کے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے تجزیے سے ثابت کیا گیا تھا کہ موجودہ انسان لگ بھگ ایک لاکھ سال قبل افریقہ میں پیدا ہوئے اور آج کی تمام تر نسل ان دس ہزار افراد سے نکلی ہے۔ کچھ عرصے بعد ایرک لینڈر جو کہ وائٹ ہیڈ انسٹی ٹیوٹ/ایم آئی ٹی کے جینیاتی تحقیق کے مرکز کا سربراہ تھا، نے بتایا کہ موجودہ یورپی افراد ان محض چند سو افریقیوں سے پیدا ہوئے جو شاید 25٫000 سال قبل افریقہ سے یورپ آئے تھے۔
ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ ہماری نسلِ انسانی میں انتہائی کم جینیاتی تغیر ہے۔ ایک ماہر نے لکھا کہ ‘پوری نسلِ انسانی کی نسبت 55 چمپانزیوں کے محض ایک گروہ میں اس سے کہیں زیادہ جینیاتی تغیر ہے۔ ‘ شاید ہماری نسل ایک محدود گروہ سے ماضی قریب میں پیدا ہوئی ہے اور اسی وجہ سے ہمیں جینیاتی تغیر کا زیادہ وقت نہیں مل سکا۔
تاہم منگو افراد، جن کی ہڈیاں آسٹریلیا میں دریافت ہوئی تھیں، کے پاس ہمیں متحیر کرنے کو بہت کچھ تھا۔ 2001 کے اوائل میں تھورن اور اس کے ساتھیوں نے آسٹریلیا کی قومی یونیورسٹی میں ان ہڈیوں سے ڈی این اے نکال کر اس پر تحقیق کی اور ثابت کیا کہ یہ ڈی این اے ‘جینیاتی اعتبار سے مختلف ہے۔ ‘ یہ ہڈیاں 62٫000 سال پرانی تھیں۔
اس تحقیق کے مطابق، منگو افراد دیکھنے میں ہمارے جیسے تھے اور ان کے جسمانی اعضا بھی ہم جیسے تھے، مگر ان کا جینیاتی شجرہ ہم سے مختلف ہے۔ ان کا مائٹوکونڈریل ڈی این اے موجودہ انسانوں میں نہیں پایا جاتا، جن کے بارے یقین ہے کہ وہ افریقہ سے ماضی قریب میں آئے تھے۔
‘اس سے تمام چیزیں ایک بار پھر تلپٹ ہو گئیں ‘، تھورن سے خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔
پھر دیگر مسائل کھڑے ہونے لگے۔ آکسفورڈ کی ماہرِ حیاتیاتی بشریات روزالنڈ ہارڈنگ جب موجودہ انسانوں کے ایک خاص جین کا مطالعہ کر رہی تھی تو اس نے دیکھا کہ ایشیائی اور آسٹریلیائی افراد میں اس کی دو تبدیل شدہ اقسام موجود ہیں۔ اسے اس بات کا یقین ہے کہ یہ جین آج سے دو لاکھ سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل موجودہ شکل میں آ گیا تھا۔ موجودہ Homo sapiens اس وقت تک اس علاقے میں نہیں پہنچے تھے۔ ایشیائی افراد میں یہ جین آنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کے اجداد میں قدیم انسان نما مخلوقات جیسا کہ جاوا مین وغیرہ شامل رہے ہیں۔ دلچسپ بات دیکھیے کہ یہی تبدیل شدہ جین آکسفورڈ شائر کی موجودہ آبادی میں بھی پایا جاتا ہے۔
جب میں اس بات پر الجھا تو میں رہنمائی لینے آکسفورڈ میں مس ہارڈنگ سے ملنے گیا۔ ہارڈنگ کا تعلق برسبن، آسٹریلیا سے ہے۔
‘معلوم نہیں۔ بحیثیتِ مجموعی ریکارڈ سے ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ ایشیا سے باہر ہوا ہے۔ مگر بہت سارے ایسے مسائل ہیں کہ ماہرینِ جینیات ان پر بات کرنا اچھا نہیں سمجھتے۔ اگر ہم سمجھنے کو تیار ہوں تو بہت ساری معلومات سامنے آ سکتی ہیں۔ مگر ہم ابھی اس کے لیے تیار نہیں۔ ابھی ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں۔ ‘ میرے سوال پوچھنے پر اس نے چھوٹتے ہی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جب میں نے سوال پوچھا کہ ایشیائی جین آکسفورڈ شائر کی آبادی میں کہاں سے آئے ہیں تو اس نے جواب گول کر دیا اور کہا، ‘اس موقع پر ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاملہ بہت الجھا ہوا ہے اور ہم اس کی وجہ نہیں جانتے۔ ‘
ہماری ملاقات 2002 میں ہوئی۔ تب آکسفورڈ کے ایک اور سائنس دان برائن سائکس نے مشہور کتاب لکھی جس کا نام The Seven Daughters of Eve اور مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے مطالعے سے اس نے ثابت کیا کہ تقریباً ساری ہی یورپی آبادی کی ابتدا سات خواتین سے ہوئی جو 10٫000 سے 45٫000 سال پہلے کے دور سے تھیں۔ اس دور کو سائنس دان قدیم حجری دور کہتے ہیں۔ سائکس نے ان تمام خواتین کے نام بھی رکھے جو اُرسُلا، زینیا، یاسمین وغیرہ تھے اور ان کی زندگی کی تفصیل بھی بیان کی (مثلاً اُرسُلا اپنی ماں کی دوسری اولاد تھی۔ پہلا بچہ دو سال کا تھا جب اسے ایک تیندوا ہڑپ کر گیا تھا)۔
جب میں نے ہارڈنگ سے اس کتاب کے بارے رائے لی تو اس کی مسکراہٹ خاصی طویل تھی مگر اس نے انتہائی محتاط انداز سے جواب دیا، ‘خیر، اس مشکل مضمون کو عام فہم بنانے کے لیے ہمیں اس کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس بات کا بھی معمولی سا امکان تو ہے کہ وہ درست ہو۔ تاہم ایک جین سے لیا گیا مواد اتنی زیادہ تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ اگر آپ مائٹوکونڈریل ڈی این اے کو پچھلی نسلوں کی طرف لے جائیں تو وہ آپ کو ایک مخصوص مقام تک لے جائے گا چاہے آپ اسے اُرسُلا کہیں یا تارا یا جو بھی دل چاہے۔ لیکن اگر آپ ڈی این اے کا ایک اور حصہ لیں تو وہ آپ کو بالکل ہی دوسری جگہ لے جائے گا۔ ‘
اس بات سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر ہم لندن سے کوئی سڑک پکڑتے ہیں اور وہ شاہراہ ہمیں مثال کے طور پر شمال کو لے جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ لندن آنے والے کچھ اشخاص شمال سے ضرور آئے ہوں گے مگر یہ فرض کرنا بیوقوفی ہو گی کہ لندن آنے والا ہر انسان شمال سے آیا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ سو مختلف مقامات سے لندن آ سکتے ہیں۔ اس طرح ہارڈنگ کے بقول، ہر جین ایک الگ راستے کی نشاندہی کرتا ہے اور ہم ان راستوں کا نقشہ بنانا شروع ہوئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ‘اکیلا جین کبھی بھی پوری کہانی نہیں بتا سکتا۔ ‘
‘یعنی جینیاتی تحقیق پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے؟’
‘عمومی طور پر آپ ان پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ تاہم ان سے اس طرح کے بڑے نتائج اخذ نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ اکثر لوگ کر لیتے ہیں۔ ‘
اس کے خیال میں ‘یہ کہنا بہتر رہے گا کہ 95 فیصد انسان افریقہ سے آئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دونوں فریقین نے سائنس پر ظلم کیا ہے کہ انہوں نے محض اپنے نظریے کو ہی درست مانا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کل کلاں ثابت ہو کہ دونوں ہی جزوی طور پر درست تھے۔ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ افریقہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ لوگ نکلے اور دنیا کے مختلف علاقوں کو منتقل ہوئے اور آپس میں افزائشِ نسل کی۔ ان سب کو ترتیب دینا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ ‘
عین اسی وقت قدیم ترین ہڈیوں سے ڈی این اے کے حصول کی بابت سوال اٹھ رہے تھے۔ ایک ماہر نے Nature رسالے میں لکھا کہ ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ سے اس کے ساتھی نے ایک قدیم کھوپڑی کے بارے پوچھا کہ آیا یہ پالش شدہ ہے یا نہیں تو اس نے کھوپڑی کو زبان سے چاٹ کر جواب دیا کہ ہاں۔ ‘اس عمل میں موجودہ انسانی ڈی این اے کھوپڑی پر لگ گیا’ اور مستقبل میں اس کھوپڑی پر تحقیق کا عمل رک گیا۔ میں نے ہارڈنگ سے اس بارے پوچھا۔ ‘ہاں، یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ یہ کھوپڑی پہلے سے آلودہ ہو چکی ہو گی۔ ‘جب آپ کسی ہڈی کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ آلودہ ہو جاتی ہے۔ اس پر سانس لی جائے تو وہ بھی وہ آلودہ ہو جائے گی۔ ہماری لیبارٹریوں کا زیادہ تر پانی اسے آلودہ کر سکتا ہے۔ سو فیصد یقین کے ساتھ کام کرنے کی خاطر آپ کو اس ہڈی کو نکالنے اور اس پر ٹیسٹ کرنے کا عمل وہیں موقعے پر اور سٹیرائل یعنی پاک و صاف لیبارٹری پر کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کا مشکل ترین کام کسی نمونے کو آلودگی سے بچانا ہے۔ ‘
‘سو یہ سب دعوے بالکل غلط سمجھے جائیں؟’ میں نے پوچھا۔
‘بالکل’۔ اس نے جواب دیا۔
اگر آپ فوری طور پر یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی جڑوں کے بارے اتنا کم کیوں جانتے ہیں تو اس کے لیے ایک جگہ تجویز کرتا ہوں۔ یہ جگہ کینیا میں نیلی نگونگ پہاڑیوں کے سرے پر نیروبی کے جنوب مغرب کی جانب واقع ہے۔ شہر سے جب شاہراہ پر باہر نکلتے ہیں تو سامنے افق تک پھیلے زرد افریقی میدان سامنے آتے ہیں۔
اس جگہ کو عظیم وادئ شق کہا جاتا ہے جو 3٫000 میل طویل اور افریقہ کے مشرق میں ہے۔ یہ ٹیکٹانک حرکت افریقہ کو ایشیا سے دور کر رہی ہے۔ نیروبی سے 65 کلومیٹر دور اور وادی کے تپتے ہوئے پیندے پر ایک جگہ ہے جس کا نام اولورگیزیلی ہے۔ اس جگہ کبھی ایک بہت بڑی جھیل ہوا کرتی تھی۔ جھیل خشک ہونے کے بہت بعد 1919 میں ایک ماہرِ ارضیات جے ڈبلیو گریگری اس علاقے میں معدنیات کی تلاش میں نکلا ہوا تھا کہ اسے ایک کھلا میدان دکھائی دیا جہاں عجیب قسم کے کالے پتھر ایسے ترتیب سے رکھے تھے جیسے کسی انسان نے رکھے ہوں۔ اس نے آچیولین اوزار بنانے کی ایک قدیم ترین جگہ دریافت کر لی تھی جس کے بارے ٹیٹرسال نے مجھے بتایا تھا۔
اتفاق کی بات دیکھیے کہ میں بھی 2002 میں اس جگہ کو دیکھنے گیا۔ ان دنوں میں کینیا ایک بین الاقوامی خیراتی ادارے چیرٹی کے کچھ منصوبوں کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔ میرے میزبانوں کو علم تھا کہ مجھے انسانی ابتداء جاننے میں خاصی دلچسپی ہے، اس لیے انہوں نے دورے میں اس جگہ کی سیر بھی شامل کر دی تھی۔
اس دریافت کے بیس سال بعد مشہورِ زمانہ میاں بیوی لوئیس اور میری لیکی نے اس جگہ دکھائی شروع کر دی جو ابھی تک جاری ہے۔ اس جگہ دس ایکڑ جتنی جگہ پر لاکھوں برس تک بے شمار اوزار بنائے جاتے رہے۔ یہ دورانیہ آج سے بارہ لاکھ سال قبل سے دو لاکھ سال قبل پر محیط تھا۔ اس جگہ موسمی حالات سے بچانے کی خاطر ٹین کی چادریں کھڑی کی گئی ہیں اور اوزاروں کو محفوظ رکھنے کی خاطر باڑ لگا دی گئی ہے۔ مگر تمام تر اوزار عین اسی جگہ موجود ہیں جہاں ان کے خالقین نے چھوڑا تھا۔
کینیا کے قومی عجائب گھر کی جانب سے ایک نوجوان ماہر جیلانی نگالی کو میرے رہنما کے طور پر ساتھ بھیجا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ کلہاڑی بنانے والے کوارٹز اور پگھلے آتش فشاں والے پتھر اس وادی میں نہیں پائے جاتے۔ ‘انہیں یہ پتھر دس کلومیٹر دور دو پہاڑوں سے لانے پڑتے تھے۔ ‘ اس نے بتایا۔
اب یہ لوگ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے تھے، اس کے بارے ہمیں کچھ علم نہیں۔ عجیب بات ہے کہ وہ اتنی دور سے پتھر یہاں لاتے تھے اور یہ بات اس سے بھی عجیب تر ہے کہ کام کے لیے یہ جگہ انہوں نے یہاں خود بنائی۔ لیکی نے وہ جگہیں بھی تلاش کیں جہاں کلہاڑیاں تیار ہوتی تھیں اور وہ جگہیں بھی جہاں کند کلہاڑیوں کو تیز کیا جاتا تھا۔ اس جگہ کو آپ ایک فیکٹری یا کارخانہ سمجھ سکتے ہیں جو لگ بھگ دس لاکھ سال تک چلتا رہا۔
اس عمل کی نقالی کرتے ہوئے یہ بات صاف پتہ چلتی ہے کہ ان کلہاڑیوں کو بنانے کا عمل ماہرین کے لیے بھی کافی پیچیدہ تھا۔ ایک کلہاڑی بنانے پر کئی گھنٹے لگتے ہوں گے اور پھر بھی عجیب بات دیکھیے کہ یہ کلہاڑی کاٹنے کے لیے مناسب نہیں تھی۔ اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دس لاکھ سال تک یہاں ایک ایسا کام ہوتا رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں بے شمار اوزار بنائے گئے جن کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ یاد رہے کہ دس لاکھ سال کا عرصہ اتنا طویل ہے کہ بطور انسان ہمیں ایک نوع کا درجہ اختیار کیے ابھی چند لاکھ سال ہوئے ہیں اور بطور معاشرہ چند ہزار برس سے ہم جمع ہونا شروع ہوئے ہیں۔
یہ لوگ کون تھے؟ اس بارے ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ یہ لوگ Homo erectus تھے کہ اس کے علاوہ اور کوئی نسل ممکن نہیں۔ اپنے عروج کے دور میں ان ماہر کاریگروں کا دماغ آج کے دور کے ایک نوزائیدہ بچے کے برابر رہا ہو گا۔ تاہم اس بارے ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ساٹھ سال سے اس علاقے میں تلاش ہو رہی ہے اور کبھی کسی انسان نما مخلوق کی ایک بھی ہڈی یہاں سے نہیں مل سکی۔ اب پتھروں سے اوزار بنانے پر انہوں نے چاہے جتنا بھی وقت صرف کیا ہو، کہیں اور جا کر مرے ہوں گے۔
‘بہت عجیب بات ہے نا۔ ‘ جیلانی نگالی نے مجھے خوشی خوشی بتایا۔
یہ لوگ آج سے 2 لاکھ سال قبل تب معدوم ہوئے جب جھیل خشک ہو گئی اور عظیم وادئ شق ان کے لیے بہت گرم ہونے لگی۔ تاہم بطور نوع، ان کے دن گنے جا چکے تھے۔ دنیا میں پہلی بار حقیقی اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والی Homo sapiens کا ظہور ہونے والا تھا۔ ہر چیز بدلنے والی تھی۔
٭٭٭
30 خدا حافظ
1680 کی دہائی کے اوائل میں جب ایڈمنڈ ہیلی، کرسٹوفر رن اور رابرٹ ہُک لندن کے کافی ہاؤس میں بیٹھنا شروع ہوئے تو ان کی گفتگو کا نتیجہ آئزک نیوٹن کی مشہورِ زمانہ کتاب Principia، ہنری کیونڈش کی جانب سے زمین کا وزن معلوم کرنے اور پچھلے صفحات میں درج زیادہ تر چیزوں کی صورت میں نکلا۔ تاہم عین اسی وقت بحرِ ہند میں مڈغاسکر سے 1٫300 کلومیٹر دور ماریشس کے جزیرے میں ایک نسبتاً کم اہم سنگِ میل عبور ہو رہا تھا۔
یہاں کوئی ملاح یا اس کے پالتو جانور آخری ڈوڈو پرندوں کے شکار میں مصروف تھے۔ یہ پرندہ بہت بھولا بھالا اور معصوم تھا جس کی وجہ سے اس کا شکار انتہائی آسان تھا۔ لاکھوں سالوں سے اس جزیرے پر باقی دنیا سے الگ تھلگ اور پرامن طور پر رہنے والے اس پرندے کو انسانی فطرت کا اندازہ نہیں تھا۔
ہمیں نہ تو حالات کا علم ہے اور نہ ہی اس سال کا معلوم ہے کہ جب آخری پرندہ بھی شکار ہوا۔ سو ہمیں یقین نہیں کہ پہلے نیوٹن کی کتاب آئی یا پھر آخری ڈوڈو پہلے شکار ہوا۔ البتہ دونوں واقعات لگ بھگ ایک ہی وقت ہوئے۔ اگر آپ اصرار کریں تو انسانی فطرت کی عظمت کے ساتھ ساتھ کمیں گی کی وضاحت کے لیے بہتر مثالیں تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک طرف تو یہ نوع خلا کی وسعتوں کو چھان کر نت نئے انکشافات کرنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب بلا وجہ انتہائی معصوم اور بے ضر ر جانداروں کو بغیر سوچے سمجھے صفحہ ہستی سے مٹا رہی ہے۔ ڈوڈو کتنا معصوم پرندہ تھا، اس کے بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ ایک ڈوڈو کو پکڑ کر کہیں بٹھا دیں تو اس کا شور سن کر آس پاس موجود تمام تر پرندے پہنچ جاتے۔
ڈوڈو کی بے حرمتی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ 1755میں جب آخری معلوم ڈوڈو بھی ہلاک ہو چکا، آکسفورڈ کے ایشمولین میوزیم کے ڈائریکٹر نے فیصلہ کیا کہ بھس بھرے ڈوڈو سے بہت زیادہ بو آ رہی ہے، سو اس نے یہ آتشدان میں ڈال دیا۔ شومئی قسمت، یہ آخری ڈوڈو تھا جو زندہ یا مردہ، ہمارے پاس محفوظ تھا۔ پاس سے گزرتے ہوئے ایک ملازم نے جب یہ منظر دیکھا تو ڈوڈو کو بچانے کی کوشش کی۔ مگر اس کے ہاتھ صرف اس کا سر اور ایک بازو آیا۔
اس نوعیت کی حماقتوں کی بنا پر آج ہمیں سو فیصد یقین سے معلوم نہیں کہ ڈوڈو کیسا دکھائی دیتا ہو گا۔ اس بارے ہمارے پاس انتہائی کم معلومات ہیں۔ ڈوڈو کے بارے زیادہ تر معلومات ملاحوں سے، تین چار آئل پینٹنگ اور ڈوڈو کے چند خشک شدہ ٹکڑے ہی ہمارا کل اثاثہ ہیں۔ نیچرلسٹ ایچ ای سٹرکلینڈ کے مطابق ہمیں بعض قدیم سمندری بلاؤں اور ڈائنوساروں کے بارے ڈوڈو سے کہیں زیادہ علم ہے جبکہ یہ پرندہ ہمارے ماضی قریب تک زندہ تھا اور اس کو بچانے کے لیے محض ہماری عدم موجودگی کافی تھی۔
ڈوڈو کے بارے ہمیں جو معلومات ہیں، وہ یہ ہیں : ڈوڈو ماریشس میں رہتا تھا، فربہہ ہونے کے باوجود لذیذ نہیں تھا اور کبوتر کے خاندان کا سب سے بڑا پرندہ تھا۔ تاہم اس کے وزن کو کبھی سائنسی اعتبار سے نہیں ماپا گیا۔ بچی کھچی باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پرندہ اڑھائی فٹ اونچا اور اڑھائی فٹ لمبا تھا۔ اڑ نہ سکنے کے باعث اس کا گھونسلہ زمین پر ہوتا تھا اور انسانوں کے ساتھ آئے ہوئے بندر، سور اور کتے اس کے انڈوں اور بچوں پر ہاتھ صاف کرتے تھے۔ 1683 میں شاید یہ پرندہ معدوم ہو گیا تھا مگر 1693 تک یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ ہمیں اس کی افزائشِ نسل کے بارے کچھ معلوم نہیں، نہ ہی اس کی خوراک، کن علاقوں میں پایا جاتا تھا، اس کی آواز کیسی ہو گی؟ ہمارے پاس تو اس کا ایک انڈہ تک نہیں بچا۔
اس پرندے کو پہلی بار دیکھے جانے سے لے کر اس کے معدوم ہو جانے تک کا عرصہ کل 70 سال بنتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ ہمارے پاس ناقابلِ تلافی نقصانات پہچانے کا ہزاروں برسوں کا تجربہ ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ حضرتِ انسان کتنا نقصان دہ ہے، مگر پچھلے 50٫000 برسوں میں ہم جہاں بھی گئے ہیں، جانور انتہائی بڑے پیمانے پر ختم ہونے لگے ہیں۔
امریکہ میں بڑے جانوروں کے 30 جنرا، جن میں بہت بڑے جانور بھی شامل ہیں، پچھلے دس سے بیس ہزار سال میں انسان آمد کے ساتھ ہی معدوم ہو گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی امریکہ میں جب سے انسان پتھر کے اوزار اور گروہوں کی شکل میں آنا شروع ہوا، بڑے جانوروں کی تین چوتھائی اقسام ناپید ہو چکی ہیں۔ یورپ اور ایشیا میں جانوروں کو انسان سے خبردار ہونے کا زیادہ وقت ملا تھا، یہ تباہی 80 فیصد سے زیادہ ہے اور آسٹریلیا میں 95 فیصد۔
چونکہ ابتدا میں شکاری گروہ بہت چھوٹے ہوتے تھے اور جانوروں کی تعداد انتہائی زیادہ (بعض ماہرین کے خیال میں محض سائبیریا میں ٹنڈرا کے علاقے میں اندازا 1 کروڑ میمتھ منجمد حالت میں موجود ہیں ) تھی، اس لیے ان کی معدومیت میں انسان کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہونے چاہیں، جیسا کہ موسمی تبدیلیاں یا پھر وبائی بیماریاں۔ امریکی میوزیم برائے نیچرل ہسٹری کے روس میکفی کے مطابق: ‘خطرناک جانوروں کا شکار محض ضرورت کے مطابق کیا جاتا ہے۔ ‘ دیگر ماہرین کے خیال میں جانوروں کی معصومیت کی وجہ سے ان کا شکار انتہائی آسان رہا ہو گا۔
بعض جانوروں کا بچانا تو انتہائی آسان تھا۔ سوچیے، کہ ایسے زمینی سلاتھ جو دو منزلہ اونچے ہوں، چھوٹی کار کی جسامت کے کچھوے، 6 میٹر لمبی گوہ جو مغربی آسٹریلیا میں سڑک کنارے بیٹھی ہوتی، کتنا خوبصورت لگتا؟ افسوس، یہ سب جانور ناپید ہو چکے۔ آج پوری دنیا میں خشکی پر رہنے والے ایک ٹن یعنی ہزار کلو سے زیادہ وزنی جانوروں کی محض چار اقسام باقی ہیں جو کہ ہاتھی، گینڈے، دریائی گھوڑے اور زرافے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان کا وجود دیگر جانوروں کے لیے تباہی کا سبب ہے؟ شاید اس کا جواب ہاں ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے ماہر پیلنٹالوجسٹ ڈیوڈ راپ کے مطابق، زمین پر حیاتاتی تاریخ میں ہر چار سال میں ایک نوع اوسطاً ناپید ہوتی ہے۔ رچرڈ لیکی اور راجر لیون نے اپنی کتاب The Sixth Extinction میں لکھا ہے کہ انسان کے ہاتھوں ناپید ہونے والی انواع کی شرح اس سے 1٫20٫000 فیصد زیادہ ہے۔
1990 کی دہائی کے وسط میں آسٹریلیا کے نیچرلسٹ ٹم فلینری (اب جنوبی آسٹریلیا کے ایڈیلیڈ میوزیم کا سربراہ) یہ جان کر حیران ہوا کہ ہم ماضی قریب کی مختلف اقسام کے ناپید ہونے کے بارے کتنا کم جانتے ہیں۔ ‘ہر جگہ ریکارڈ میں خالی جگہیں موجود ہیں اور جیسا کہ ڈوڈو کے ساتھ ہوا، کئی انواع تو درج ہی نہیں ہو پائیں۔ ‘ اس نے 2002 کے اوائل میں ملاقات پر مجھے بتایا۔
فلینری نے اپنے ایک فنکار دوست پیٹر شوٹن کو اپنے ساتھ ملایا اور دنیا بھر کے عجائب گھروں میں موجود ناپید جانوروں کے بارے مہم پر نکل کھڑا ہوا تاکہ یہ جان سکے کہ کون سے جانور ناپید ہو چکے ہیں، کون سے باقی بچے ہیں اور کن کے بارے ہمیں معلومات ہی نہیں۔ چار سال تک دونوں کھالوں، حنوط شدہ جانوروں، بدبو دار بھس بھرے مجسموں، پرانی تحاریر اور ان سے منسلک تصاویر وغیرہ، غرض ہر ممکن چیز کی چھان بین کرتے رہے۔ شوٹن نے ہر جانور کی اصل حجم کے مطابق تصاویر بنائیں جبکہ فلینری نے ان کے بارے معلومات درج کیں۔ نتیجہ کے طور پر A Gap in Nature نامی مشہور کتاب کے طور پر نکلا۔ اس کتاب میں گذشتہ تین سو سال کے دوران ناپید ہونے والے جانوروں کی تفصیلات درج ہیں۔
بعض جانوروں کے ریکارڈ بہت اچھے تھے کہ کسی نے انہیں کئی برس یا کبھی بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ سٹیلر کی سمندری گائے ناپید ہونے والے آخری انتہائی بڑے جانوروں میں ایک تھی۔ اس کی شکل والرس کی مانند تھی۔ اس کی جسامت بہت بڑی تھی اور اس کی لمبائی 9 میٹر کے قریب اور وزن لگ بھگ 10 ٹن ہوتا تھا۔ تاہم اس کے بارے ہمیں 1741 میں تب پتہ چلا جب ایک روسی جہاز بحیرہ بیرنگ کے دھند والے جزائر کمانڈر کے پاس تباہ ہوا جہاں یہ جانور پائے جاتے تھے۔
خوش قسمتی سے جہاز پر نیچرلسٹ بھی موجود تھا جسے یہ جانور بہت پسند آئے۔ اس نے انتہائی تفصیلی نوٹس لیے اور مادہ کے جنسی اعضا تک کے بارے تفصیل بیان کی تاہم نر کے جنسی اعضا کسی وجہ سے رہ گئے۔ اس نے ایک جانور کی کھال کا ٹکڑا بھی محفوظ کر لیا تاکہ ہمیں اس بارے پوری طرح علم ہو سکے۔ تاہم ہم ہمیشہ اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔
تاہم سٹیلر ان جانوروں کو بچا نہ سکا۔ ان کا بہت زیادہ شکار کیا جاتا تھا اور سٹیلر کی دریافت کے 27 سال بعد اس نسل کا آخری جانور بھی ناپید ہو گیا۔ تاہم بہت سارے جانوروں کے بارے ہمیں کچھ بھی علم نہیں، مثلاً ڈارلنگ ڈاؤنز ہوپنگ ماؤس، چیتھم آئی لینڈ سوان، بڑے کچھووں کی پانچ اقسام اور پتہ نہیں کون کون سے جانور ایسے ہیں کہ ہمیں ان کا محض نام معلوم ہے۔
فلینری اور شوٹن نے یہ بات بھی دیکھی کہ بہت ساری معدومیت کے پیچھے کوئی ظلم یا بیکار کی تباہی نہیں بلکہ نری حماقت تھی۔ 1894 میں نیوزی لینڈ کے دو جزائر کے درمیان ایک جگہ لائٹ ہاؤس بنایا گیا۔ اس کے رکھوالے کی بلی عجیب قسم کے پرندے پکڑ لاتی تھی۔ رکھوالے نے کچھ پرندے ولنگٹن کے عجائب گھر کو بھجوائے تو ان کا نگران یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ یہ انتہائی نایاب اور دنیا کے واحد نہ اڑ سکنے والے پرندے تھے جو درختوں پر گھونسلہ بناتے تھے۔ اس نگران نے فوری طور پر مطلوبہ جگہ کا رخ کیا تو پتہ چلا کہ بلی ان تمام پرندوں کو ہلاک کر چکی تھی۔ آج ہمارے پاس اس پرندے کے کل 12 بھس بھرے نمونے عجائب گھر میں موجود ہیں۔
خیر، ان پرندوں کا کچھ تو نشان باقی ہے۔ بے شمار انواع کے ختم ہونے کے بارے ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب وہ ناپید ہو چکے ہوتے ہیں۔ شمالی امریکہ کے ایک طوطے کی مثال لے لیں۔ زمرد کے رنگ کا یہ طوطا شمالی امریکہ کا سب سے خوبصورت پرندہ تھا اور اپنے عروج کے دور میں اس کی تعداد مسافر کبوتروں کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ تاہم کیرولینا میں اس طوطے کو نقصان دہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا شکار اس لیے آسان تھا کہ ان کا جھنڈ ایک دوسرے کے بالکل قریب اڑتا تھا اور جب کارتوس چلایا جائے تو اوپر جا کر پھر فوراً اپنے مرے ساتھیوں کو دیکھنے لوٹتے تھے۔
18ویں صدی کی مشہورِ زمانہ کتاب American Ornithology میں چارلس ولسن پیل نے لکھا ہے کہ کس طرح اس نے بار بار اپنی بندوق اس درخت پر چلائی جہاں یہ طوطے بیٹھے تھے :
ہر بار جب کارتوس چلانے پر مردہ طوطوں کی بارش ہوتی۔ باقی پرندے اڑ کر چند چکر لگاتے اور پھر اپنے مردہ ساتھیوں کی خبرگیری کو پہنچ جاتے۔ آخرکار مجھے ان پر بہت ترس آیا اور میں نے شکار ختم کر دیا۔
19ویں صدی کی دوسری دہائی تک ان طوطوں کا اتنا بے رحمانہ شکار کیا گیا کہ محض چند پرندے پنجروں میں زندہ رہ گئے۔ آخری طوطے کا نام ان کا تھا جو سنسنیاٹی کے چڑیا گھر میں 1918 میں مرا (اسی چڑیا گھر میں چار سال قبل آخری مسافر کبوتر بھی مرا تھا)۔ انتہائی اکرام کے ساتھ اس میں بھس بھری گئی مگر اس کے بعد علم نہیں کہ ان کا کہاں گیا۔ یہ چڑیا گھر سے ہی غائب ہو گیا۔
اب ذرا غور کیجیے کہ ولسن کو پرندوں سے انتہائی محبت تھی مگر وہ اتنی بڑی تعداد میں طوطوں کا شکار محض اس لیے کرتا تھا کہ اسے اچھا لگتا تھا۔ بہت طویل عرصے تک جو افراد کسی زندہ جانور میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے، وہی اس کے ناپید ہونے کا سبب بھی بنتے۔
اس سلسلے میں سب سے مشہور یا بدنامِ زمانہ کہہ لیں، مثال لیونل والٹر روتھ چائلڈ کی ہے۔ مشہور بینکر خاندان سے اس کا تعلق تھا اور اس نے ساری زندگی 1868 سے 1937 تک اپنے گھر کی نرسری میں گذاری اور ہمیشہ اپنے بچپن والا فرنیچر استعمال کرتا رہا اور 135 کلو وزنی ہوتے ہوئے بھی اپنے بچپنے والے بستر پر سوتا تھا۔
اسے نیچرل ہسٹری سے عشق تھا اور اس سے متعلق نمونے بہت شوق سے جمع کرتا تھا۔ اس نے باقاعدہ تربیت یافتہ بندوں کی فوج بھرتی کی ہوئی تھی (جو چار سو ملازمین تک پہنچ جاتی تھی) جو دنیا بھر سے اسے ہر قسم کے نئے جاندار تلاش کر کے بھیجتی۔ اس کا اصل زور پرندوں پر ہوتا تھا۔ ڈبے بھر بھر کر پرندے اور جانور اسے بھیجے جاتے جہاں وہ اپنے بہت سارے نائبین کے ساتھ مل کر ان کا تفصیلی تجزیہ اور مطالعہ کرتا اور اس بارے مسلسل کتب، مقالے اور مضامین لکھتا جاتا جن کی کل تعداد 1٫200 سے زیادہ تھی۔ اس نے کل 20 لاکھ سے زیادہ جانوروں اور پرندوں کا تجزیہ کیا اور سائنسی فہرست میں 5٫000 انواع کا اضافہ کیا۔
یاد رہے کہ روتھ چائلڈ کی کوششیں نہ تو سب سے زیادہ وسیع تھیں اور نہ ہی سب سے زیادہ مہنگی۔ اس کام پر سب سے زیادہ خرچہ کرنے والا بندہ ہف کمنگ تھا جو بہت دولت مند برطانوی تھا۔ اسے مختلف چیزیں جمع کرنے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے ایک بہت بڑا بحری جہاز بنایا اور اس پر عملہ بھرتی کر کے اسے دنیا کے سفر پر روانہ کر دیا کہ اسے جہاں سے جو چیز بھی ملے، جمع کرتا جائے۔ پرندے، پودے، اور ہر طرح جانور اور بالخصوص خول اس فہرست کا حصہ تھے۔ اس کے بے مثال مجموعے میں شامل بارنیکل کا مجموعہ بعد میں ڈارون کو ملا اور اسی سے اس نے تحقیق شروع کی۔
تاہم روتھ چائلڈ کو سائنسی اعتبار سے برتری حاصل تھی۔ تاہم زیادہ تر یہ برتری جانوروں اور پرندوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ 1890 کی دہائی میں اس نے ہوائی میں دلچسپی لینا شروع کی۔ بدقسمتی سے ہوائی سے زیادہ نازک ماحول پورے کرہ ارض پر کہیں اور نہیں کہ لاکھوں سال سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے یہاں 8٫800 اقسام کے منفرد جانور اور پودے آباد ہیں۔ روتھ چائلڈ کی اہم ترین دلچسپی کا محور جزیرے کے خوبصورت پرندے تھے جن کی آبادی عام طور پر انتہائی محدود اور مخصوص جگہوں پر ہی ہوتی تھی۔
ہوائی کے پرندوں کی بدقسمتی کے اسباب میں ان کی انفرادیت، پسندیدگی اور نایاب ہونے کے علاوہ ان کا انتہائی آسانی سے پکڑا جانا تھا۔ ایک خاص قسم کی چڑیا جو کہ عام حالات میں بہت شرمیلی اور چھپ کر رہنے والی ہوتی ہے، کو جب اپنی آواز سے مماثل آواز سنائی دے تو فوراً ہی زمین پر اتر آتی تھی۔ 1896 میں اس نسل کا آخری پرندہ روتھ چائلڈ کے سب سے بہترین شکاری نے مارا۔ اسی خاندان کا ایک اور پرندہ اس سے پانچ سال قبل ناپید ہو گیا تھا۔ یہ پرندہ اتنا نایاب تھا کہ آج تک اس کا ایک ہی پرندہ دیکھا گیا ہے جو روتھ چائلڈ کے ذخیرے کے لیے شکار کیا گیا تھا۔ روتھ چائلڈ کی اس جزیرے پر دلچسپی کے دس بارہ سالوں کے دوران کم از کم 9 اقسام کے پرندے ناپید ہو گئے۔
اس ظلم میں روتھ چائلڈ اکیلا نہیں تھا۔ کئی دوسرے افراد اس سے کئی ہاتھ آگے تھے۔ 1907 میں ایلنسن برائن نے لکھا کہ جب اسے پتہ چلا کہ Black Mamo نامی پرندے کے آخری تین پرندے اس نے شکار کر لیے ہیں تو اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ یہ پرندہ محض ایک دہائی قبل ہی دریافت ہوا تھا۔
اس دور میں یہ سمجھنا بہت دشوار تھا کہ کسی بھی جانور سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس ہوتا تو اس پر انعام مقر ر کر دیا جاتا تھا۔ 1890 میں نیو یارک ریاست نے پہاڑی شیر پر سو انعام مقر ر دیے، حالانکہ یہ بات صاف ہو چکی تھی کہ یہ جانور پہلے ہی شکار کی کثرت کے سبب ناپید ہونے کے قریب ہے۔ 1940 کی دہائی تک بہت ساری ریاستیں کسی بھی قسم کے شکاری جانور کے شکار پر انعامات دیا کرتی تھیں۔ ویسٹ ورجینیا ہر اس فرد کو کالج کا سالانہ وظیفہ دیا کرتی تھی جو سب سے زیادہ مردہ ‘کیڑے ‘ پیش کرتا۔ یاد رہے کہ ‘کیڑے ‘ سے مراد کوئی بھی ایسی چیز، جسے نہ تو فارموں میں پالا جاتا ہو اور نہ ہی بطور پالتو جانور رکھا جاتا ہو۔
تاہم Bachman’s Warbler نامی ایک انتہائی خوبصورت آواز والی جنوبی امریکہ کی چڑیا اس کی بدترین مثال ہے۔ اس پرندے کی تعداد کبھی زیادہ نہیں رہی اور 1930 کی دہائی میں یہ پرندہ ناپید سمجھا جانے لگا۔ پھر 1939 میں انتہائی دور مقامات پر پرندوں کے دو شوقین افراد کو دو پرندے دکھائی دیے۔ دونوں نے انہیں فوراً ہلاک کر دیا۔
تباہی کا یہ جنون محض امریکہ تک محدود نہیں تھا۔ آسٹریلیا میں تسمانین ٹائگر کی ہلاکت پر انعام کا سلسلہ آخری جانور کی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل روکا گیا تھا۔ یہ جانور کتے جیسا ہوتا ہے اور اس پر شیر کی طرح دھاریاں ہوتی ہیں۔ آخری تسمانین ٹائگر 1936 میں ہوبارٹ کے ایک پرائیوٹ چڑیا گھر میں مرا۔ آپ تسمانین میوزیم اور آرٹ گیلری میں جا کر پوچھیں کہ تسمانین ٹائگر کیسا تھا تو آپ کو چند تصاویر اور 61 سیکنڈ جتنی ایک پرانی وڈیو دکھائی جائے گی۔ یہ واحد تھیلی دار گوشت خور جانور تھا جو جدید دور تک زندہ رہا۔ جب آخری جانور مرا تو ہفتہ وار صفائی کے دوران اس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا۔
اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کوئی جاندار پیدا کر کے اس کائنات میں اس کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہوں تو اس کام کے لیے کبھی کسی انسان کے ذمے مت لگائیے گا۔
بدقسمتی سے انسان کو ہی اسی کام کے لیے چنا گیا ہے۔ اسے آپ قسمت کہہ لیں، مقدر یا کچھ اور۔ جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں، صرف ہم ہی اس کام کے قابل ہیں۔ یعنی ایک طرف تو ہم اس کائنات کی بہترین تو دوسری طرف ہم ہی بدترین مخلوق ہیں۔
ہم نہ صرف دیگر جانداروں کا خیال رکھنے میں ناکام رہتے ہیں بلکہ ہمیں ان کی زندگی میں یا ان کی موت کے بعد بھی ان کا کوئی خیال نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ جان پاتے ہیں کہ فلاں جاندار ناپید کیسے ہوا اور اب کون سا جاندار ناپید ہو گا اور کون سا نہیں۔ نہ ہی ہم یہ جان پاتے ہیں کہ معدومیت کے اس عمل میں ہمارا کیا کردار رہا ہے۔ 1979 میں نورمن میئرز نے اپنی کتاب The Sinking Ark میں بتایا ہے کہ ہر ہفتے دو مختلف انواع انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ناپید ہو رہی ہیں۔ 1990 کی دہائی میں اس نے یہ تعداد بڑھا کر 600 کر دی تھی (اس میں پرندے، جانور، پودے، غرض ہر طرح کے جاندار آ جاتے ہیں )۔ بعض ماہرین نے یہ تعداد 1٫000 فی ہفتہ بتائی ہے۔ 1995 میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 400 سال کے دوران جانوروں کی 500 اور پودوں کی 650 سےز یادہ انواع ناپید ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں اعداد و شمار کے بارے بالعموم اور استوائی خطے کے جانداروں کی تعداد کے درست ہونے کے بارے بالخصوص شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تقریباً سارے ماہرین کے مطابق یہ اندازے انتہائی کم ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بالکل بھی علم نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ ہم نے یہ نقصان دہ سرگرمیاں کب شروع کیں۔ نہ ہی ہمیں اپنی موجودہ سرگرمیوں کے بارے کچھ خبر ہے اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ موجودہ سرگرمیوں سے مستقبل میں کیا اثرات پڑیں گے۔ ہمیں صرف ایک بات کا یقین ہے کہ یہ واحد سیارہ ہے جہاں ہم رہ سکتے ہیں اور ہم واحد نوع ہیں جو کسی قسم کی بہتری لا سکتی ہے۔ ایڈورڈ او ولسن نے اپنی کتاب The Diversity of Life میں لکھا ہے :’ایک سیارہ، ایک تجربہ’۔
اگر اس کتاب سے کوئی سبق سیکھا جا سکتا ہے تو یہ کہ ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ہم موجود ہیں۔ ہم سے مراد تمام جاندار۔ بطور انسان تو ہم دوہرے خوش قسمت ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے وجود سے آگاہ ہیں بلکہ اس کو کئی طرح سے بہتر بنانے کے قابل بھی ہیں۔ اس بات کا ہمیں اب احساس ہونا شروع ہوا ہے۔
اس ‘بامِ عروج’ تک پہنچنے میں ہمیں انتہائی کم وقت لگا ہے۔ موجودہ انسان کو پیدا ہوئے جو وقت گزرا ہے، وہ کائنات کی کل عمر کا 0.01 فیصد سے بھی کم ہے۔ نہ ہونے کے برابر۔ تاہم اس کے لیے ہمیں خوش قسمتی کی انتہائی طویل زنجیر درکار تھی۔
ہم اس کے آغاز پر موجود ہیں۔ تاہم اصل کام اختتام سے بچنا ہے۔ اس کام کے لیے ہمیں خوش قسمتی سے کہیں زیادہ اور چیزیں درکار ہیں۔
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید