فہرست مضامین
- تفہیم و تحسین
- انتساب
- دیباچہ
- تخلیقی تنقید اور کلیم
- زبان اور ہمارا قومی تشخص
- اردو زبان کا مستقبل
- اشارات مثنوی سحر البیان
- علی گڑھ تحریک
- اردو میں رومانوی تنقید
- ضمیر جعفری کی سنجیدہ غزل
- احمد ندیم قاسمی کی غالب شناسی
- نئے موسموں کی بشارت
- بیدار حسیات کی شاعری
- روشنی، دیا اور خواب
- کلکتے کی ادبی داستانیں
- صہبا لکھنوی بطور مدیر افکار
تفہیم و تحسین
(تحقیقی و تنقیدی مطالعات)
کلیم احسان بٹ
(اس کتاب سے غالبؔ کے بارے میں چھ مضامین علیحدہ کر کے "غالب کی تفہیم و تحسین” کے عنوان سے ایک الگ ای بک بنا دی گئی ہے)
انتساب
پیارے بھتیجے بھتیجیوں
آیت، رباب اور احمر وسیم کے نام
دیباچہ
کتاب میں شامل مضامین مختلف علمی و ادبی جریدوں میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ میری ذاتی خواہش تھی کہ ان تمام مضامین کو یکجا کر دیا جائے۔غالب میرا پسندیدہ موضوع ہے اور اس موضوع پر میرے مضامین کی تعداد بھی زیادہ تھی لہذا خیال یہی تھا کہ کچھ مضامین غالب پر مزید جمع ہو جائیں تو غالب پر ایک باقاعدہ کتاب بن جائے گی۔چونکہ مجھے ایسی چیزوں کو خواہش کے باوجود سنبھالنے کی قدرت حاصل نہیں ہے اس لیے میرے کچھ مضامین اب مجھے بھی تلاش کے باوجود دستیاب نہیں ہوتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے خوف پیدا ہوا کہ کہیں آنے والے وقت میں زیادہ تر مضامین ضائع نہ ہو جائیں اس لیے اگر انہیں جلد سے جلد کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔
شامل کتاب مضامین میں سے بعض کی نوعیت محض اشارات کی سی ہے، بعض تنقیدی نوعیت کے ہیں اور بعض خالص تحقیقی مضامین ہیں۔تحقیقی مضامین میں نے اپنے شوق اور ذوق نقد و نظر سے مجبور ہو کر لکھے ہیں۔ تنقیدی مضامین کی تخلیق کا سبب میری مجلسی سرگرمیاں ہیں اور ایسے اکثر مضامین میں نے احباب کی کتب کی تقریب رونمائی میں پڑھنے کے لیے لکھے ہیں۔اس قسم کے اور بہت سے مضمون میں نے لکھ رکھے ہیں لیکن میں نے کتاب میں صرف ان مضامین کو شامل کیا ہے جن میں احباب کی تخلیقات کا یک طرفہ مطالعہ نہیں کیا بلکہ ان کے فن کو سمجھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ تیسری قسم کے مضامین اپنے طالب علموں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔میں نے یہ تمام مضامین ایک کتاب میں جمع کر دیے ہیں تاکہ یہ کتاب نہ صرف ادب کے طالب علموں کے لیے مفید ثابت ہو بلکہ اس میں ایسا تنقیدی و تحقیقی مواد بھی موجود ہو جو ان کی اس میدان میں مزید رہنمائی کا سبب بن سکے۔مجھے اعتراف ہے کہ اس کتاب میں ناقدین اور محققین کے افادہ کی کوئی چیز نہیں ہو گی اور نہ یہ میرا علمی مرتبہ ہے کہ میں اس قسم کا کوئی دعوی کر سکوں۔تاہم ایک امید ضرور ہے کہ سنجیدہ طبع ناقد بھی میری کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ اس کتاب میں علم و ادب کے کوئی چراغ تو روشن نہیں کر سکا لیکن اندھیرے میں جگنو سی ناتواں اور نا پائیدار روشنی تو ضرور پیدا کی ہے
کلیم احسان بٹ
گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجویٹ
کالج، بھمبر روڈ، گجرات
تخلیقی تنقید اور کلیم
تخلیقی تنقید کی بقا کا راز محض تنقید کے بدلتے ہوئے معیارات، رجحانات اور نظریات کے تحت کی گئی پرکھ میں مضمر نہیں۔۔۔اگرچہ ہر ادبی تخلیق کو کسی بھی تنقیدی نقطہ نظر کی میزان پر تول کر اپنا من چاہا فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے لیکن ادبی تاریخ کے اوراق پر وہی ادب اپنی جگہ بنا پاتا ہے جو ہر آن بدلتی ہوئی زندگی سے مربوط ہو کر ادبی تسلسل میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔جو ادب زندگی کی آفاقی معنویت سے نابلد ہوتا ہے اس کی داخلی ساختوں میں ناپید کسی فکری اکائی یا وحدت کی تلاش کا کام محض بیکار ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ اچھے اور بامعنی انتقادی طریق کار کی اساس ہمیشہ ناقد کے سلجھے ہوئے ادبی ذوق، سنجیدہ ادبی مطالعہ اور تحقیقی شعور پر استوار ہوتی ہے۔ادبی ناقد کے جہاں بہت سے فرائض ہیں وہاں اس کا بنیادی فرض یہ ہے کہ زندگی اور فن کے درمیان پہلے سے قائم شدہ رشتے میں کسی نئی معنویت کو دریافت کرے اور وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے طرز احساس میں فن پارے کی تخلیقیت کا جواز یا عدم جواز دلائل کی روشنی میں دریافت کرے۔۔۔۔ انتقادیات کے ذریعے نئے ذہنی رویوں کا فروغ اسی طرح ممکن ہے۔
عموماً عملی تنقید کے ضمن میں دو طریقہ ہائے کار بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں : ایک تو یہ کہ روایتی انداز میں فن پارے پہلے سے قائم شدہ تنقیدی آرا کو اسلوب کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ پیش کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ کسی نئے اور اچھوتے تنقیدی نظریے کے تحت تخلیقات پر تنقید کا تجربہ کیا جائے۔پہلی صورت میں اکثر نقاد کی وجہ سے قارئین کا ذہن فن پارے کے بارے میں پہلے سے قائم شدہ آرا تک محدود رہتا ہے اور دوسری صورت میں بیش تر الجھے ہوئے اور بے معنی نتائج سامنے آتے ہیں۔۔۔کسی نئے تنقیدی نظریے یا انداز فکر کو سمجھنے یا سمجھانے کی حد دتک تو یہ عمل ٹھیک ہے لیکن کسی فن پارے پر سنجیدہ تنقیدی فیصلے صادر کر نے سے پیشتر ضروری ہے کہ ان نئے تنقیدی ضوابط کو پہلے ان تہذیبی اور ثقافتی رویوں کے درمیان رکھ کر پرکھا جائے جن کے اثر و نفوذ سے کوئی فن پارہ تخلیق کار کے ذہن میں ترتیب پا کر منظر عام پر آتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کوشش کرنے سے ہر تخلیق کو ہر طرح کے تنقیدی رجحانات کی کسوٹی پر پرکھ کر کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور حاصل کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ انتقادی طریق کار قارئین کو فن پارے کی اصل خصوصیت کے ادراک سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ عملی تنقید کے لیے روایتی اور غیر روایتی دونوں طریق ہائے کار سود مند ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے نقاد کسی بھی تنقیدی اسلوب کو اپناتے وقت سنجیدگی کے ساتھ فن پارے کے تہذیبی و ثقافتی سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نئی معنوی تنظیم، ترتیب اور وحدت کو دریافت کرے۔
کلیم احسان بٹ کی متنوع ادبی موضوعات پر لکھی گئی زیر نظر تنقیدی کتاب ’’تفہیم و تحسین‘‘ میں روایتی اور غیر روایتی دونوں انداز سے کسی فن پارے کے اندر موجود نئی معنوی جہتوں کی تلاش کا عمل نظر آتا ہے۔جن موضوعات پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے وہ بھی اس کتاب میں کلیم کے سنجیدہ ادبی مطالعہ اور کسی نئی معنوی ترتیب اور وحدت کی بدولت عملی تنقید کے نئے اشاریے دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے اس کے تحریر کردہ یہ مضامین ، اشارات مثنوی سحر البیان، غالب کا نظریہ عشق اور علی گڑھ تحریک روایتی باتوں کے اعادے کے باوجود نقاد کی ذہنی بلوغت کے آئینہ دار ہیں۔اس ضمن غالب کے نظریہ عشق پر لکھا جانے والا تنقیدی مضمون خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مضمون میں کلیم نے دیوان غالب میں موجود بعض اشعار اور مصرعوں کو توڑ کر ایک خاص نثری ترتیب اور تنظیم کے ساتھ موضوع کی پہلے سے طے شدہ فکر ی وحدت کو تازہ معنویت کے احساس سے ہم کنار کیا ہے۔مثلاً:
’’غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں۔خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود شیوہ تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک انا اور خود داری ہے۔اگر محبوب بزم میں بلانے کا تکلف گوارا نہیں کرتا تو سر راہ ملنے پر وہ بھی تیار نہیں۔اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑتا تو وہ اپنی وضع بدلنے پر راضی نہیں۔وہ محبوب سے سرگرانی کا سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے۔یہاں تک کہ در کعبہ بھی گر وا نہ ہو تو الٹے پھر آتے ہیں ‘‘
(غالب کا نظریہ عشق )
اسی طرح مثنوی سحر البیان کا تجزیہ کرتے ہوئے کلیم جب یہ کہتا ہے :
’’ میر حسن جس معاشرت یا جس طرز معاشرت کے قریب رہے وہ طبقہ امرا کی معاشرت تھی۔اس لحاظ سے اگر ہم مثنوی سحر البیان میں معاشرت کی جھلکیاں دیکھنا چاہیں تو ہمیں نواب آصف الدولہ کے عہد کا عمومی تمدنی ڈھانچہ اور بالخصوص طبقہ امرا کی معاشرت نظر میں رکھنا چاہیے ‘‘
تب وہ ’’سحر البیان ‘‘ کی داستانوی فضا کو اس عہد کے سماجی منظر نامے سے جوڑ کر مثنوی کے داستانوی کینو س کو زندگی سے وابستہ کرتے ہوئے، خیال اور حقیقت کے ابعاد کو یکجا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف ادبی موضوعات پر لکھے گئے تنقیدی مضامین میں ناقد کے کسی ادبی نقطہ نظر کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔اگرچہ کلیم نے تنقید کے مختلف نظریات اور دبستانوں سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے یہ مضامین تحریر کیے ہیں لیکن جو بات ان تمام مضامین کو کسی نہ کسی انداز سے باہم مربوط کیے ہوئے ہے وہ کلیم کا ادب کے حوالے سے عصری شعور اور جدید طرز احساس ہے۔کلیم خود کہتا ہے :
’’ادب کے بارے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ خیال اور زبان ہر دو سطح پر اس عصری شعور سے ہم آہنگ اور جدید طرز احساس کا حامل ہونا چاہیے‘‘ (نئے موسموں کی بشارت)
کلیم اپنی اس کتاب کے تقریباً ہر مضمون میں اسی زاویہ نگاہ سے انتقادی تجزیے کرتا ہو ا نظر آتا ہے۔مثلاً
’’روش کی غزل میں۔۔اپنے ارد گرد اور بالخصوص کراچی کے حالات کا عکس صاف نظر آتا ہے مگر ان حالات کو دیکھنے یا ان کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ مریضانہ ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور نہ شاعری کو سیاسی نعرہ بازی میں تبدیل ہونے دیتے ہیں۔‘‘
(روشنی، دیا اور خواب)
اسی طرح کلیم جب شاہین مفتی کی نظم پر بات کرتے ہوئے اس میں موجود داستانوی فضا اور علامتوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اصل میں وہ اس کی نظمیہ شاعری میں موجود داستانوی علامتوں اور فضا کے فکری تسلسل کو عہد جدید کے ثقافتی و تہذیبی منظر نامے سے منسلک کر کے تفہیم کی ایسی جہتیں تلاش کرتا ہے جو آج کے جدید طرز احساس سے جڑی ہوئی ہیں مثلاً :
’’شاہین ایک اساطیری لڑکی ہے۔اس کے ہاں پلک جھپکنے میں سال بیت جاتے ہیں، سونی اور سنسان گلیاں ہیں جن میں انجانی چاپ ہے، مڑ کر دیکھنے والے پتھر ہو جاتے ہیں، کربل کتھا ہے، جان عالم کا تذکرہ ہے ‘‘
(بیدار حسیات کی شاعری )
کلیم احسان کے شاعرانہ تنقیدی تجزیات کے پس منظر میں اس کا شاعرانہ ذوق اور شعر فہمی کا شعور اس کی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شعرا پر لکھے گئے مضامین میں وہ فن پارے کے اندر موجود ان اشعار اور نظمیہ لائنوں کا انتخاب کرتا ہے جو ایک تو اس کے تنقیدی موضوع سے ہم آہنگ ہوں اور دوسرا فن اور فکر کی سطح پر وہ شاعر کی تخلیق کا بہترین مظہر ہوں۔اس طرح سے ایک طرف تو وہ اپنے موضوع کی وضاحت کرتا ہے اور دوسری طرف فن پارے کے اندر موجود اس کے مضبوط فنی اور فکری پہلوؤں کو اعلی شعری انتخاب کی صورت میں منظر عام پر بھی لاتا ہے۔
تنقید کا عمل تحقیقی شعور کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ہمارے بہت بڑ ے بڑے ناقدین نے تحقیق کی کٹھن راہوں سے صرف نظر کرنے کی وجہ سے ٹھوکریں کھائی ہیں۔کلیم احسان کے انتقادی طریق کار میں اس کے تحقیقی ذہن کی کار فرمائی متعدد مضامین میں نظر آتی ہے۔خصوصاً غالب پر لکھے گئے اس کے درج ذیل مضامین ’’ غالب کے غیر جانبدارانہ مطالعہ کی ضرورت‘‘، ’’غالب کی نثر میں انگریزی الفاظ‘‘، ’’ غالب کی تعلیم ‘‘، ’’غالب اور یوسفی‘‘ اس حوالے سے توجہ کے متقاضی ہیں۔
اس کتاب میں شامل کلیم کے غالب پر لکھے گئے چھ مضامین غالبیات سے اس کی خصوصی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ان مضامین میں غالب کے ادبی مقام و مرتبے پر فیصلے صادر نہیں کیے گئے بلکہ اردو زبان و ادب سے ارتقائی تسلسل پر غالب کے فنی و فکری اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ تخلیقی پہلوؤں کی اثر انگیزی کو موجودہ عہد کی تخلیقات میں تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔مثلاً :
’’نثر نگاروں میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی کی نثر اعلیٰ سطح کے مزاح کا عمدہ نمونہ ہے۔ہر دو پر غالب کے اثرات شاید دوسرے تمام مزاح نگاروں کی نسبت زیادہ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مزاح نگار غالب کے اثر سے باہر نہیں۔اس حوالے سے غالب کا مطالعہ ابھی نامکمل ہے۔ضرورت ہے کہ مختلف مزاح نگاروں پر ان کے اثرات کی وجوہات کا سراغ لگا کر غالب کی شخصیت کے اس پہلو کو روشن تر کیا جائے۔‘‘ (غالب اور یوسفی)
کلیم کے تنقیدی شعور کی اساس اس کی شاعرانہ تخلیقی صلاحیتوں پر استوار ہے۔خود شاعر ہونے کی وجہ سے وہ جانتا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار کی تخلیقی فعلیت کے پس منظر سے ابھرنے والے فکری و احساساتی عناصر کن کن صورتوں میں اس کی تخلیق کے اجزائے ترکیبی بنتے ہیں اور ان کو کس طرح بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔۔اس لیے شعرا کے فن پر بات کرتے ہوئے اس کا تخلیقی ادراک اس کے تنقیدی فہم کی راہنمائی کرتا ہو ا دکھائی دیتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ لفظوں کی موسیقی اور ان کا رنگ کس طور پر اور کیونکر شاعر کے وجدان کو متاثر کرتے ہیں۔اسے یہ بھی خبر ہے کہ بیدار تخلیق کار کس طرح اپنے گرد و پیش کے ثقافتی، تہذیبی اور سیاسی منظر نامے سے اپنی تخلیق کا وجود اٹھاتا ہے۔کسی فن پارے کو پڑھتے ہوئے وہ اپنی تخلیقی حساسیت کو فن پارے کے خالق سے ہم آہنگ کرنے کے بعد اس کی تخلیق کا تجزیہ تنقیدی اوزاروں کی مدد سے کرتا ہے لیکن اس دوران میں وہ اپنے تخلیقی تجربات کی باز آفرینی کی بجائے سامنے موجود تخلیق کے ساختیاتی ڈھانچوں میں مضمر شاعر کے پیچیدہ تخلیقی نظام سے تخلیق ہونے والی فکری اکائیوں کی بازیافت کرتا ہے۔۔۔اگرچہ وہ جانتا ہے کہ تنقید کے لیے معروضی مطالعہ ضروری ہے لیکن وہ اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ کلی معروضیت بھی ممکن نہیں۔زیر نظر کتاب میں موجود ایک مضمون میں وہ کہتا ہے :
’’تنقید بطور اصول ادب کا معروضی مطالعہ ہے۔یہ معروضیت کلی طور پر ممکن نہیں۔ماضی کی طویل ادبی روایت اور ہمارے نظریات کے مابین جو مساوات تشکیل پاتی ہے اسے ہم غیر جانب داری کا نام دے دیتے ہیں۔‘‘ (نئے موسموں کی بشارت)
کلیم کا تنقیدی اسلوب تحقیق اور دلیل کی روشنی کا مظہر ہے۔اس کے جملوں کی ساخت براہ راست ابلاغی وسیلوں پر قائم ہے۔کسی بھی فن پار ے یا ادبی رجحان کے بارے میں اس کا واضح اور منظم نقطہ نظر اس کے اسلوب کو مبہم اور گنجلک ہونے سے بچاتا ہے۔۔۔وہ کسی بھی تنقیدی اصول کو عملی طور پر اپناتے ہوئے متوازن اور غیر جانبدارانہ انداز میں تجزیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے قارئین کی توجہ فن پارے کے زیر بحث پہلوؤں کی طرف دلاتا ہے۔۔۔۔یہ ایک ایسا انتقادی طریق کار ہے جو تخلیقی ادب کے آفاقی پہلوؤں کی بازیافت کے سفر کو بڑی حد تک آسان بنا دیتا ہے۔
سید وقار افضل
گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات
۵دسمبر ۲۰۰۷
زبان اور ہمارا قومی تشخص
زبان کسی بھی قوم کی انفرادیت اور تشخص کے اظہار کا ذریعہ ہو سکتی ہے مگر بد قسمتی سے ہماری قومی زبان اس افتخار سے محروم ہے۔ اس محرومی کے اسباب کا تجزیہ کشادہ دلی اور وسعت نظری سے کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی تعصب یا جانبداری کا مظاہرہ درست نتائج تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت نہیں ہو سکتا۔
اگرچہ اسلام کے اثرات بہت پہلے ہندوستان کی سر زمین تک پہنچ چکے تھے تاہم بر صغیر میں اسلام ، ایران اور افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمان صوفیائے کرام اور افواج کے ذریعے، بہت تیزی سے پھیلا۔یہ صوفیائے کرام انفرادی سطح پر بھی تبلیغ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ بھی یہاں پر وارد ہوئے۔اسلام کا پیغام چونکہ عربی زبان میں تھا اور ہم تک فارسی زبان رکھنے والوں کے ذریعے پہنچا اس لیے ہمارے لیے باعث افتخار یہی دو زبانیں قرار پائیں حالانکہ صوفیائے کرام نے تبلیغ کی غرض سے مقامی زبان اور مزاج کا بھی خیال رکھا۔
انگریزوں کی بر صغیر میں آمد جہاں عسکر ی و سیاسی محاذ پر اہل ہندوستان کی شکست پر منتج ہوئی وہاں ثقافتی سطح پر بھی انگریزوں نے اہم ترین کامیابیاں حاصل کیں۔انہوں نے ایک ایسی زبان کی سر پرستی شروع کر دی جو نہ ہندوؤں اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے کسی تفاخر یا اعزاز کا باعث تھی۔ اس سلسلے میں فورٹ ولیم کا لج کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کے کم سن پودے کی آبیاری انگریزوں نے کچھ اس طرح کی کہ ۱۸۵۷ تک یہ ایک تناور درخت بن چکا تھا۔ اس میں عربی و فارسی الفاظ کی کثرت تھی لہٰذا ہندو اسے مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے اور مسلمان بھی بزعمِ خود انہی وجوہات کی بنا پر اسے اپنی زبان سمجھنے لگے۔
دوسری طرف انگریزی زبان کے فروغ اور عربی و فارسی کی بیخ کنی کی حکمت عملی اختیار کی گئی اور اس سلسلے میں علی گڑھ کالج کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں اردو زبان ایک ایسے لشکر کی مانند ہو گئی جس کی رسد کے راستے مسدود ہوں اور اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔لہٰذا اردو زبان انگریزی تسلط میں سانس لینے پر مجبور ہو گئی۔
قیام پاکستان کے بعد اردو ہی ایک ایسی زبان تھی جو ہمارے لیے رابطے کا کام سر انجام دے سکتی تھی لہٰذا اسے ہی قومی زبان قرار دیا گیا۔اردو ہندی تنازع کی بنا پر مسلمان اب اس سے تھوڑا بہت جذباتی لگاؤ بھی رکھتے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جس طرح تخت و تاج چھین کر مسلمانوں کو در بدری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا اسی طرح ثقافتی سطح پر بھی وہ اب در بدر ہو چکے تھے۔ضرورت صرف ایک رابطے کی زبان کی تھی۔ وہ انگریزی سمیت کوئی بھی دوسری زبان ہو سکتی تھی۔ اردو کو صرف یہی برتری حاصل تھی کہ اس کی جڑیں بہر حال ہماری ثقافت میں پیوست تھیں۔
تاہم اردو کو بطور قومی زبان اپنانے سے اس کی ترقی کے لیے نئے در وا ہو گئے۔ اس کا تحفظ اور فروغ ہماری قومی ذمہ داری بن چکا ہے۔اس لیے یہ ہمارا جذباتی مسئلہ بھی ہونا چاہیے۔ اب یہ لگاؤ ہی اسے ہمارے لیے وجہ افتخار بنا سکتا ہے۔
پاکستان ایک مضبوط ملک اور پاکستانی ایک عظیم قوم کی طرح دنیا کے نقشے پر ابھر رہے ہیں۔ایٹمی دھماکوں کے اثرات سیاسی و عسکری ہی نہیں بلکہ ثقافتی محاذ پر بھی اردو زبان کے تحفظ اور ارتقا کی ضمانت بن گئے ہیں۔انگریز کی سیاسی و ذہنی غلامی کا دور ختم ہوتے ہی ہم انگریزی کا جوا اتار پھینکیں گے۔ ہمیں پہلے ایک قوم بننا ہے اس کے بعد جو بھی ہماری قومی زبان ہو گی وہی ہمارا افتخار ہو گی۔ یہی وہ وقت ہو گا جب ہمیں از سر نو سوچنا ہو گا کہ کیا
۱۔ہمیں اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لیے عربی و فارسی زبانوں سے از سر نو
اپنے تعلق کو استوار کرنا ہو گا۔
۲۔دیگر بین الاقوامی زبانوں سے اخذ و استفادہ کے عمل سے گزرنا ہو گا
یا
۳۔مقامی زبانوں کو اردو کی بھٹی سے اس طرح گزارنا ہو گا کہ ہم ایک قوم بن کر ایک قومی زبان پر فخر کر سکیں۔شاید اسی طرح اردو ہمارے قومی تشخص کے اظہار کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
٭٭٭ (اردو نامہ شمارہ ستمبر ۱۹۹۹)
اردو زبان کا مستقبل
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔اس کی تشکیل میں دو بنیادی عناصر کار فرما ہیں۔اول جغرافیائی عوامل جن پر زبان کا بنیادی ڈھانچہ قائم ہے اور اس کے علاوہ مقامی زبانوں سے وہ رشتہ اشتراک قائم ہوتا ہے جس کی بنا پر اردو کو قومی اور رابطے کی زبان قرار دیا گیا ہے۔
دوم تہذیبی عوامل، جن پر زبان کی ساری عمارت کھڑی ہے۔ارد و زبان پر عربی اور فارسی کے اثرات اسی ذیل میں آتے ہیں۔اردو زبان کا بیشتر ذخیرہ زبان کی تہذیبی جہت کا علم بردار اور متذکرہ بالا زبانوں سے ماخوذ و مصنوع ہے۔
انگریزوں کے طویل عرصہ اقتدار اور زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان کے ارتقا کے عمل میں بعض دوسرے عناصر بھی حصہ لیتے رہے مگر ہمارے مضبوط جغرافیائی، قومی اور اسلامی تشخص کی وجہ سے دیگر عوامل بالاخر نامانوس اور ناقابل قبول ہی ٹھہرے۔
سر سید کا اردو کا محسن کہا جا سکتا ہے۔مگر اردو زبان میں عربی و فارسی اسما کی طرح انگریزی اسما کے استعمال نے ان کی تحریر میں ناہمواری، نا مانوسیت اور بے ڈھنگا پن پیدا کر دیا۔ اس غیر ضروری مبحث کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اردو زبان کی تشکیل میں جغرافیائی اور تہذیبی عوامل کے علاوہ دیگر عناصر کی شمولیت قدرے غیر اہم اور غیر ضروری ثابت کی جا سکے
زندہ زبان جامد نہیں ہو سکتی۔ اور اس میں غیر اعلان شدہ تبدیلیاں خود بخود معرض وجود میں آتی رہتی ہیں۔اس لحاظ سے اردو کا ڈھانچہ بڑا نرم اور لچکدار ہے۔ اس میں تبدیل ہونے اور تبدیلی قبول کرنے کا بڑا واضح سلیقہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس زبان کے مٹ جانے کا امکان محل نظر ہے۔ مگر موجودہ اردو زبان کا زندہ رہنا بہر حال مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ یہ لازمی نتیجہ ہے اردو زبان کی متذکرہ بالا خصلت کا۔ یعنی اس میں تبدیل ہونے اور تبدیلی قبول کرنے کا بڑا واضح سلیقہ پایا جاتا ہے۔
اردو ہماری قومی زبان ہے لہٰذا ضروری ہے کہ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار بھی ہو۔ ہماری تمام تر توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ زبان میں تبدیلی کی رفتار اور سمت کیا ہے ؟ مگر عجیب بات ہے کہ ہمارے محقق اور نقاد اس جانب سے بالکل لا تعلق صرف اس کی جغرافیائی حدود کو تنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔بنگال میں اردو، پنجاب میں اردو، بلوچستان میں اردو، دلی میں اردو، دکن میں اردو۔۔۔ علی ہذالقیاس خاص جغرافیائی حدود میں اردو کی آفرینش سے ہم اردو کے لیے جس محبت کا اظہار کرتے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ بالغ نظری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا جائے
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہماری تمام تر توجہ اس جانب ہونا چاہیے کہ اردو زبان کی رفتار اور سمت قومی امنگوں اور تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں۔اس سوال پر تھوڑا سا غور کرنے سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ اردو زبان مر چکی ہے، مرنے کے قریب ہے یا بہت جلد مر جائے گی اگر اس سوال کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا کہ زبان میں تبدیلیوں کے عمل کو کیسے سست کیا اور مطلوبہ سمت میں لے جایا جا سکتا ہے۔
زبان میں تیز رفتار تبدیلیوں کی کئی وجوہات ہیں۔ ذرائع آمد و رفت اور ذرائع ابلاغ کی تیز رفتاری نے زبانوں میں تبدیلی کے عمل کو بھی انگیخت کیا ہے۔ ارد و بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد دیگر ممالک میں مقیم ہے۔ اور وہاں کی مقامی زبانوں کے اثرات زبان میں توسیع کا باعث بن رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ پر دوسری زبانوں اور قوموں کی اجارہ داری سے اردو زبان کے ڈھانچے میں نت نئے الفاظ داخل ہو رہے ہیں۔ ہماری مقامی یا محدود سوچ کے نتیجے میں اردو زبان میں علاقائی زبانوں کے نفوذ زبردستی کیا جا رہا ہے۔اور بزعم خویش ہم ایسا کر کے اہم قومی فریضہ سرانجام د ے رہے ہیں۔ علوم و فنون کی ترقی میں دوسری اقوام ہم سے بہت آگے ہیں۔ ان اقوام کی زبانوں کی دوسری زبانوں پر اثر فطری ہے۔اردو اس لحاظ سے بڑی غیر محفوظ زبان ہے۔
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ زبان میں تبدیلی مثبت پیش رفت ہے۔اس تبدیلی کو روکنا حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔مگر تبدیلی کا عمل اگر اس قدر تیز ہو گا تو اردو زبان کا معیار کہاں رہ جائے گا ؟یہ رفتار اگر درست سمت میں ہو تو اس پر قابو پانا شاید آسان بھی ہو مگر بغائر مطالعہ ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ یہ سمت بھی درست نہیں۔
اردو کا تہذیبی رشتہ عربی و فارسی سے ہے۔اسلام کے حوالے سے ہمارا رشتہ عربی زبان سے ہے مگر موجودہ صورت حال میں
۱۔اسلامی تعلیمات سے دوری اور بے راہ روی کے سبب عربی زبان ہمارے ملک میں زوال کا شکار ہے۔
۲۔نظام تعلیم میں عربی کی حفاظت اور ترقی کا کوئی بندوبست نہیں۔
عربی کا تعلق چونکہ ہمارے دین سے ہے لہٰذا اس کی حفاظت کا کسی حد تک امکان موجود ہے مگر فارسی کے لیے یہ گنجائش بھی موجود نہیں۔ جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
۱۔فارسی دنیا میں بہت کم لوگوں کی زبان ہے لہٰذا اس کی بین الاقوامی ترویج مشکل ہے
۲۔فارسی سے ہمارا وہ قلبی تعلق برقرار نہیں رہا جو اردو کی آفرینش کے زمانے میں موجود تھا۔
۳۔فارسی کی تدریس بھی تعلیمی اداروں میں بتدریج کم ہو گئی ہے اور اس کی جگہ دوسرے مضامین نے لے لی ہے۔
مندرجہ بالا اور ایسی ہی کئی وجوہات کی بنا پر عربی اور فارسی کا نفوذ اردو زبان میں تقریباً رک چکا ہے۔ بلکہ زبان میں موجود عربی اور فارسی الفاظ آہستہ آہستہ ہمارے لیے نامانوس ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف اردو زبان میں ان زبانوں کے الفاظ بڑی تیزی سے داخل ہو رہے ہیں جن کا ہمارے مذہب اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ زبان میں اس تیز رفتار تبدیلی سے اردو زبان کو کوئی خطرہ نہیں مگر اس اردو زبان کو ضرور خطرہ ہے جو ہماری قومی امنگوں کی ترجمان ہے۔
ہمارے جدید ادب میں سینکڑوں الفاظ عام استعمال ہو رہے ہیں۔جن کا مستند لغات معانی بتانے سے قاصر ہیں۔ اسما کی ایک بڑی تعداد ترکی، عربی اور فارسی کی بجائے ایسی زبانوں سے درآمد ہو رہی ہے جن کا ہماری تہذیب اور ثقافت سے کوئی رشتہ نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے محققین اس جانب متوجہ ہوں۔زبان میں تبدیلی کے عمل کی رفتار اور سمت درست کی جائے۔ اور اردو کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان کے طور پر زندہ رکھا جائے، اس کی حفاظت کی جائے اور اس کی شناخت قائم رکھی جائے۔
٭٭٭ (اردو نامہ۔دسمبر ۱۹۹۷)
اشارات مثنوی سحر البیان
اردو ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سب سے پہلے جو صنف اردو میں ترقی کرتی نظر آتی ہے وہ اردو مثنوی ہے۔اس کا آغاز شاہان دکن کے زمانے میں ہو گیا تھا۔محمد علی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ اور ابو الحسن قطب شاہ خود بھی شاعر تھے اور شاعروں کے بڑے مربی اور قدر دان تھے۔اس زمانے میں مثنوی کے مقبولیت کی خاص وجوہات تھیں جو اس وقت موضوع سے خارج ہیں مگر بحیثیت صنف سخن اس کی مقبولیت کو دکنی عہد میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
میر حسن کی سحر البیان تک پہنچتے پہنچتے مثنوی کو ایک طویل تاریخ سے گذرنا پڑتا ہے مگر جو شہرت اور مقبولیت سحر البیان کے حصے میں آئی وہ کسی مثنوی کو حاصل نہیں۔اگر مثنوی بحیثیت صنف سخن آج زندہ ہے تو اس میں سحر البیان کا احسان بھی شامل ہے۔
میر حسن تھوڑے سے زمانی تفرق کے ساتھ میر و سودا کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ دور اردو ادب کی تاریخ کا سنہری دور ہے۔میر نے غزل میں خدائے سخن کی سند حاصل کی۔سودا نے قصائد میں وہ نام پیدا کیا کہ آج تک کوئی ان کے مقابلے میں دعوی سخن نہیں کر سکا۔درد نے تصوف کے میدان میں قدم رکھا اور ان کا کلام سراسر انتخاب ٹھہرا۔میر حسن مذکورہ اصناف میں سے کسی میں طبع آزمائی کرتے تو شاید انہیں اردو ادب میں وہ اہمیت حاصل نہ ہوتی جو انہیں مثنوی سحر البیان کے سبب حاصل ہے۔حسن نے اور بھی مثنویاں لکھی ہیں مگر ان کی شہرت کا تمام تر دارومدار سحر البیان پر ہی ہے۔مثنوی منظوم داستان ہے اور اس میں تمام تر انہی روایات سے کام لیا گیا ہے جو اس سے پہلے کی داستانوں میں موجود تھیں۔داستان حقیقت کی بجائے مثالیت کا نمونہ ہوتی ہے۔یہ چیز داستان کے عناصر ترکیبی میں شامل ہے۔ساری دنیا کے ادب میں داستان کے کردار خیر و شر کے مثالی نمونے ہوتے ہیں۔سحر البیان کی داستان بھی روایتی اور مثالی ہے اور اس کے کردار بھی۔
ہماری داستانیں عموماً ایسے بادشاہوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں جن کے اولاد نہیں ہوتی۔پھر نجومی اولاد کی خوش خبری دیتے ہیں۔یہ خوش خبری مشروط ہوتی ہے۔عمر کے ایک خاص حصے میں شہزادے پر آفتوں کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔نجومی کی جنم پتری سچ ثابت ہوتی ہے۔ شہزادہ جنوں، پریوں یا کسی بزرگ کے ذریعے تمام آفتوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور کامیابی و کامرانی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
یہی سب کچھ سحر البیان میں بھی ہے۔عام ڈگر سے ہٹ کر اس میں کچھ بھی نہیں۔ اس لیے سحر البیان کے شہرت میں اس کی داستان کا کردار مرکزی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ دوسری منظوم داستانوں کے مقابلے میں اس داستان میں بعض خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً داستان زیادہ طویل نہیں ہے۔اس میں تسلسل اور روانی ہے۔اس کی درمیانی کڑیاں کسی بھی موقع پر قاری کے ذہن سے محو نہیں ہوتیں۔اس میں کسی نہ کسی حد تک ناول اور افسانہ جیسی وحدت تاثر کی خوبی بھی پائی جاتی ہے۔مگر اس کے باوجود اس میں جدت یا نیا پن نہیں۔
مثنوی چونکہ ایک منظوم داستان ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم داستان کے وہ عناصر جن پر اس کی خوبی یا خرابی کا دارومدار ہوتا ہے سحر البیان میں تلاش کریں۔
داستانوں میں واقعات اور عناصر بعید از عقل اور مافوق الفطرت ہوتے ہیں۔ داستانوں میں ان عناصر کا مطالعہ آج انسان کو بیزار و متنفر کر دیتا ہے اور وہ پرانے کلاسیک ادب کو بے کار محض سمجھ کر پھینک دیتا ہے۔سحر البیان کی داستان بھی جنوں اور پریوں کے عناصر موجود ہیں لیکن یہ عناصر نہ صرف تعداد میں کم ہیں بلکہ اپنے خصائص میں بھی فطرت سے زیادہ دور نہیں اور مثنوی کا مجموعی تاثر فطری حقیقی اور انسانی زندگی سے قریب نظر آتا ہے۔سحر البیان کے مافوق الفطرت کردار اپنے خصائص اور حرکات و سکنات سے بالکل ہماری طرح کے انسان معلوم ہوتے ہیں۔کسی جگہ بھی بعید از عقل کارناموں کے ذریعے مثنوی کے ارتقا میں مدد نہیں لی گئی۔اگر کسی موقعہ پر یہ کردار اہمیت اختیار کر جاتے ہیں تو ان کی سیرت و کردار کا اظہار انسانوں جیسا ہی نظر آتا ہے۔
مثلاً پر ی رقابت میں شہزادے کو قید کر دیتی ہے۔یہ عنصر انسانی سیرت کے بالکل قریب ہے۔شہزادے کی رہائی کے لیے وزیر زادی نجم النسا پرستان جاتی ہے۔دیوؤں کا شہزادہ اس پر فدا ہو جاتا ہے۔اور اس کی مدد سے شہزادے کو رہائی نصیب ہوتی ہے۔یہاں دیوؤں کا شہزادہ کردار ہے لیکن وہ پھونک مار کر یا چراغ رگڑ کر کسی ماتحت دیو کو حکم دے کر شہزادے کی رہائی کا بندو بست نہیں کرتا بلکہ شہزادی کو ڈراتا دھمکاتا ہے کہ وہ اس کے باپ کو آدم زاد کے ساتھ عشق کے متعلق بتا دے گا۔
تیرے باپ کو گر لکھوں تیرا حال
تو کیا حال ہو ترا پھر اے چھنال
ترا رنگ غیرت سے اڑتا نہیں
تجھے کیا پری زاد جڑتا نہیں
ہمارا گئی بھول خوف و خطر
لگی رکھنے انسان پر تو نظر
بھلا چاہتی ہے تو اس کو نکال
کنوئیں میں جسے تو نے رکھا ہے ڈال
اور اس کی قسم کھا کہ پھر گر کہیں
لیا نام اس کا تو پھر تو نہیں
شہزادہ جب بدر منیر کو پر ی کے متعلق بتاتا ہے تو شہزادی کے احساسات ملاحظہ ہوں۔
مرو تم پری پہ وہ تم پہ مرے
بس اب تم ذرا مجھ سے بیٹھو پرے
میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ داستان میں مافوق الفطرت عناصر اول تو ارتقائی لحاظ سے اتنے اہم نہیں۔اگر کسی موقع پر اہم ہو جاتے ہیں تو ان کا اظہار انسانی فطرت کے بالکل قریب ہے۔
داستانوں میں کرداروں کی بھر مار ہوتی ہے۔جو نہایت تیزی سے ہمارے سامنے سے گذر جاتے ہیں۔اس لئے یہ کردار اپنا کوئی تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔تاہم مرکزی کردار پر کافی توجہ صرف کی جاتی ہے۔کردار نگاری کا فنی تقاضا ہے کہ ذیلی کردار مرکزی کردار کی شخصیت کے اظہار، نمو اور ارتقا میں حصہ لیں۔داستانوں میں اس قسم کے ارتقائی کردار عموماً ناپید ہوتے ہیں مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سحر البیان میں میر حسن نے کردار نگاری پر کافی توجہ صرف کی ہے اور یہ کاوش شعوری نظر آتی ہے۔
کردار نگاری سے کہانی کے ارتقا میں مدد ملتی ہے۔کردار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلیت کے قریب ہو۔وہ اپنے اعمال کی تکذیب نہ کرے اور اس کی زبان اپنے طبقہ کی نمائندہ زبان ہو۔کردار نگاری میں جزئیات سے بہت کام لیا جاتا ہے۔کردار کی اصلی تصویر سامنے لانے کے لیے کردار کی چھوٹی چھوٹی جزئیات پر بھی فنکار کی نظر ہوتی ہے۔
پروفیسر احتشام حسین کی نظر میں سحر البیان کی سب سے بڑی خصوصیت یقیناً یہ ہے کہ اس کا انداز بیان، اس کی تفصیلات اور اختصار، محاوروں کا استعمال، اس کی رنگینی اور دل کشی دوسری مثنویوں میں نہیں پا ئی جاتی مگر اس کی یہ خصوصیت بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ اس میں کردار نگاری کا ایک اعلی نمونہ موجود ہے۔کردار کے تعارف کا سلیقہ ملاحظہ فرمائیں۔
تھی ہمراہ اک اس کے دخت وزیر
نہایت حسین اور قیامت شریر
ز بس تھی ستارہ سی وہ دلربا
اسے لوگ کہتے تھے نجم النسا
دیکھئے دو شعروں میں کردار کو اس کی تمام قابل لحاظ خصوصیات کے ساتھ کس سلیقہ سے متعارف کروایا۔کردار کی معمولی جزئیات اس کے انداز، لباس، تکلم، ماحول اور دوسری ذیلی تفصیلات کا نمونہ داستان ـــ ’’تعریف بدر منیر اور عاشق ہونا بے نظیر کا ‘‘میں آپ کو نظر آئے گا۔ طوالت سے اجتناب کی خاطر مثال میں تلخیص سے کام لیا جا رہا ہے۔
برس پندرہ ایک کا سن و سال
نہایت حسین اور صاحب جمال
دیے کہنی تکیے پہ اک ناز سے
سر نہر بیٹھی تھی اک انداز سے
کروں اس کی پوشاک کا کیا بیاں
فقط ایک پشوازِ آب رواں
اور اک اوڑھنی جوں ہوا یا حباب
جسے دیکھ شبنم کو آوے حجاب
وہ ترکیب اور چاند سا وہ بد ن
وہ بازو پہ ڈھلکے ہوئے نورتن
سب اعضا بدن کے موافق درست
ہر اک کام میں اپنے چالاک چست
کرشمہ، ادا، غمزہ، ہر آن میں
غرض دل بری اس کے فرمان میں
تغافل، حیا اور شوخی، غرور
ہر اک اپنے موقعے پہ وقت ضرور
الغرض شہزادی کے حسن و جمال اور لباس وغیرہ کی تفصیلات میں میر حسن نے صرف ساٹھ اشعار سے کام لیا۔اس سے کردار کی جزئیات پر ان کی نظر کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ زبان کے حوالے سے بھی میر حسن نے کردار نگاری کا حق بخوبی اد ا کیا ہے۔ شہزادی کی زبان، عورتوں کی زبان، پنڈتوں اور رمالوں کی زبان، ان سب میں تفاوت و تفریق کرداروں کے لحاظ سے برابر موجود ہے۔ مثلاً ایک برہمن کی زبان کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
جنم پترا شاہ کا دیکھ کر
تلا اور برچھیک پر کر نظر
کہا رام جی کی ہے تجھ پر دیا
چندر ماں سا اک بالک ترے ہوئیگا
نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن
نہ ہو گر خوشی تو نہیں برہمن
مہاراج کے ہوں گے مقصد شتاب
کہ آیا ہے اب پانچویں آفتاب
نصیبوں نے کی آپ کے یاوری
کہ آئی ہے اب ساتویں مشتری
مقرر ترے چاہیے ہو پسر
کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر
ان اشعار میں ہند ی الفاظ کی ملاوٹ اور لب و لہجہ سے ایک برہمن کا کردار ہی ہمارے سامنے آئے گا۔ اسی طرح سب کرداروں کی زبان ان کے طبقہ کے مطابق ہے۔جہاں تک کردار کے اصلیت کے قریب ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی سحر البیان کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ارسطو نے قرین قیاس ناممکن کو ممکن بعید از قیاس پر ترجیح دی ہے۔ کر دار نگاری میں مبالغے سے کردار کی تصویر مسخ ہو جاتی ہے۔لہٰذا فن کار کردار کو ایسی فنکارانہ چابک دستی سے پیش کرتا ہے کہ وہ اصل کے زیادہ سے زیادہ قریب رہے۔ ہماری مثنویوں میں عام طور پریہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔گلزار نسیم میں زین الملوک کے فرزندوں کے اوصاف مندرجہ ذیل گنوائے گئے ہیں۔
خالق نے دیے تھے چار فرزند
دانا، عاقل، ذکی، خردمند
لیکن ان خوبیوں کے عملی اظہار کی نوبت پور ی مثنوی میں نہیں آتی۔رشید احمد صدیقی نے کہا ہے کہ داستان میں ہیرو ووٹ ڈالنے کی عمر سے کم عمر تک پہنچنے سے بھی پہلے مجموعہ کمالات بن جاتا ہے۔ حسنؔ نے بھی شہزادے کی کردار نگاری پر کافی زور صرف کیا ہے۔وہ چھوٹی سی عمر میں ہی ہر فن میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔مگر پور ی مثنوی میں ان خوبیوں سے کہیں کام نہیں لیا گیا۔
دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا
کئی سال میں علم سب پڑھ چکا
معانی و منطق، بیان و ادب
پڑھا اس نے منقول و معقول سب
خبردار حکمت کے مضمون سے
غرض جو پڑھا اس نے قانون سے
لگا ہئیت و ہندسہ تا نجوم
زمین آسماں میں پڑی اس کی دھوم
الغرض
سوا ان کمالوں کے کتنے کمال
مروت کی خو، آدمیت کی چال
رذالوں سے نفروں سے نفرت اسے
سدا قابلوں سے تھی صحبت اسے
گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر
ہر اک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر
مگر پوری مثنوی میں شہزادے نے ان علوم سے دلچسپی کا کوئی عملی اظہار نہیں کیا۔اور سچ تو یہی ہے کہ پور ی مثنوی میں شہزادے کا کردار جامد اور غیر عملی ہے۔
یہ درست ہے کہ شہزادے کا کردار جامد اور حقیقت سے زیادہ قریب نہیں مگر شہزادی کی سہیلی وزیر نجم النسا کا کردار بڑا جاندار اور متحرک ہے اور کردار نگاری کے فنی تقاضوں کو پورا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔کہانی کے ارتقا میں اس کی اہمیت بنیادی ہے۔اس کے علاوہ شہزادی کے کردار میں بھی جان محسوس ہوتی ہے۔اور حسنؔ نے ان کرداروں میں کردار نگاری کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ ان کرداروں کی پیشکش، ان کی تصویر، گفتگو، لب و لہجہ کی تشکیل میں حسنؔ نے کمال فنکارانہ موقلم سے کام لیا ہے۔شاعری نام ہے جذبات و احساسات کی فن کارانہ ترجمانی کا۔ شاعری میں جذبات کی عکاسی اور داخلی نفسیاتی کیفیات کی ترجمانی معراج فن کی نشاندہی کرتی ہے۔سحر البیان میں کردار کی داخلی کشمکش، شکست و ریخت اور شادی و غم کے جذبات قاری نہ صرف محسوس کر تا ہے بلکہ ان کے حلقہ اثر میں آئے بغیر نہیں رہتا۔
سحر البیان میں جذبات نگاری کے اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں۔یہ مرقعے پوری مثنوی میں جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔مثلاً شہزادہ بدر منیر کو پری کے متعلق بتاتا ہے تو بدر منیر کے جذبات کا اظہار بڑا نیچرل ہے۔
مرو تم پری پہ، وہ تم پہ مرے
بس اب تم ذرا مجھ سے بیٹھو پرے
میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
شہزادے کے غم میں شہزادی کی کیفیت
خفا زندگانی سے ہونے لگی
بہانے سے جا جا کے رونے لگی
نہ اگلا سا ہنسنا نہ وہ بولنا
نہ کھانا نہ پینا نہ لب کھولنا
جہاں بیٹھنا پھر نہ اٹھنا اسے
محبت میں دن رات گھٹنا اسے
کہا گر کسی نے کہ بی بی چلو
تو اٹھنا اسے کہہ کے ہاں جی چلو
جو پوچھا کسی نے کہ کیا حال ہے
تو کہنا یہی ہے جو احوال ہے
کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے
کہا خیر بہتر ہے منگوائیے
جو پانی پلانا تو پینا اسے
غرض غیر کے ہاتھ جینا اسے
نہ کھانے کی سدھ اور نہ پینے کا ہوش
بھرا اس کے دل میں محبت کا جوش
اس قسم کے نمونے پوری مثنوی میں بکھرے ہوئے ہیں اور احساسات کی تصویر کشی کا رنگ بڑا فطری اور داخلی نفسیاتی کیفیات کی ترجمانی بھر پور ہے۔
مثنوی کی ایک اور بڑی خوبی جس نے اسے بام کمال تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ منظر نگاری ہے۔جدید شاعری میں منظر نگاری کا نکتہ آغاز انجمن پنجاب کے مشاعروں سے ہوا۔حالی اور آزاد نے ہالرائیڈ کی تحریک پر فطرت اور فطرت کے مناظر کی تصویر کشی کے لیے شعوری طور پر کوشش کی۔اور اس تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں فطرت کے مناظر کی تصویر کشی کو عالمی ادب میں رومانوی ادب کی تحریک سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔آگے چل کر اختر شیرانی اس تحریک کے سب سے بڑے علم بردار بنتے ہیں لیکن حالی، آزاد اور اختر سے صدیوں پہلے منظر نگاری کے جو نمونے سحر البیان میں ملتے ہیں وہ ساری جدید شاعری میں کم یاب ہیں۔
عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں کہ میر باوجود سادگی کے محاکات سے زیادہ تخیل سے کام لیتے ہیں۔ سودا کا مزاج اگرچہ بیرون بین تھا مگر اس کے باوجود ان کی شاعری میں مناظر کی ایسی سچی تصاویر موجود نہیں۔یعنی حسن کے سامنے محاکات یا منظر نگاری کا کوئی مثالی نمونہ موجود نہ تھا۔ اس کے باوجود ساری مثنوی میں منظر نگاری کی روح سرایت کیے ہوئے ہے۔مولانا شبلی نعمانی نے سحر البیان کی اس خوبی کا اعتراف مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
’’اس مثنوی کا خاص وصف واقعات اور کیفیات کا سین دکھانا ہے۔ وہ جس واقعہ یا کیفیت کو لکھتے ہیں اس کا سماں باندھ دیتے ہیں۔‘‘
مولانا عبدالباری آسی نے مثنوی کی اس خوبی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’محاکات کا کمال میر حسن سے زیادہ کسی مثنوی نگار کے یہاں نظر نہیں آتا۔‘‘
میر حسن کی اس خوبی کا احسا س ہمیں مثنوی کے مطالعے کے دوران ہر صفحے پر ہوتا ہے۔’’داستان باغ کی تیاری میں ‘‘ باغ کا نقشہ جن الفاظ اور جس تفصیل سے کھینچا ہے قابل داد ہے۔
وہ گل کا لب نہر پر جھومنا
اسی اپنے عالم میں منہ چومنا
وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر
نشے کا سا عالم گلستان پر
چمن آتش گل سے دہکا ہوا
ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا
محفل رقص کا منظر دیکھیے:
کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
وہ پاؤں میں گھنگھرو چھنکتے ہوئے
وہ بالے چمکتے ہوئے کان میں
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں
وہ مہندی کا عالم وہ توڑے چھڑے
وہ پاؤں میں سونے کے دو دو کڑے
چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی
وہ گھٹنا وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ
دکھانا وہ ر کھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
کبھی دل کو پاؤں سے مل ڈالنا
نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا
بدر منیر شرم و حیا کی تصویر بنی بیٹھی ہے:
وہ بیٹھی عجب ایک انداز سے
بدن کو چرائے ہوئے ناز سے
منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے
لجائے ہوئے، شرم کھائے ہوئے
مناظر کی تصویر کشی میں حسن کا قلم عام طور پر اس وقت زیادہ حسین مرقعے تیار کرتا ہے جب کسی مجلس یا تقریب کی تصویر کشی مقصود ہو۔مثلاً محفل رقص و سرود، شادی کے واقعات وغیرہ۔تا ہم منظر نگاری ایسی خصوصیت ہے جس کا احساس تسلسل کے ساتھ پوری مثنوی میں موجود ہے۔قاری ان کی اس خوبی کے طلسم میں گرفتار ہو جاتا ہے۔حسن نے عیش و ترنگ کے مناظر، عشق میں بے قراریوں کے مناظر، راگ رنگ کی باتیں اور ہجر و وصال کے مناظر کمال خوبی سے بیان کیے مگر طویل جدائی کے بعد شہزادے کی باپ سے ملاقات کے منظر کی تصویر ایسی نہیں کھنچ سکی جیسی قاری حسنؔ کے قلم سے توقع کرتا ہے۔بہر حال
شعر اگر اعجاز باشد بے بلند و پست نیست
سید انشا اللہ خان دریائے لطافت میں رقم طراز ہیں :
’’ہر چند مرحوم کو بھی کچھ شعور نہ تھا۔بدر منیر کی مثنوی نہیں کہی گویا سانڈے کا تیل بیچتے ہیں۔ بھلا اسے شعر کیونکر کہیے۔ سارے دلی لکھنو کے رنڈی سے لے کر مرد تک پڑھتے ہیں۔‘‘
شعر مندرجہ ذیل نقل کیا ہے۔
چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی
انشا کے بیان سے جو بات پایہ ء ثبوت کو پہنچتی ہے وہ مثنوی کی ہمہ گیر شہرت ہے کہ دلی لکھنو کے رنڈیوں سے مرد تک سب پڑھتے ہیں۔اس لیے انشا کی تنقیص بے معنی ہے۔ جہاں تک شعر کا تعلق ہے تو اس میں منظر کی ایسی سچی اور بھر پور تصویر موجود ہے کہ اسے منظر نگاری کے کسی بھی مرقعے کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
سحر البیان کی نمایاں خوبیوں میں ایک اور خوبی مکالموں کی برجستگی، حسن ادا او ران کا ڈرامائی انداز ہے۔مکالمہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو اور بول چال کے نزدیک ہو۔طویل مکالمے تقریر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔اول تو نظم میں طویل مکالمہ ایسی بدیہی خامی ہے کہ کوئی شاعر اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔حسن چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں مکالموں کا ایسا جاندار نمونہ پیش کرتے ہیں کہ زبان تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
شہزادہ بدر منیر ملنے نہیں آیا۔نجم النسا اور بدر منیر کے درمیان دو اشعار پر مشتمل مکالمہ ملاحظہ ہو۔
لگی کہنے نجم النسا سے بوا !
خدا جانے اس شخص کو کیا ہوا
کہا اس نے بی تم کو سودا ہے کچھ
وہ معشوق ہے اس کو پروا ہے کچھ
یا مثنوی کے آغاز میں بادشاہ پنڈتوں، رمالوں اور نجومیوں سے سوال کرتا ہے۔
نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں
کسی سے بھی اولاد ہے کہ نہیں
بدر منیر کے غم و اندوہ کو دور کرنے کے لیے عیش بائی کو طلب کیا جاتا ہے۔
اری ہے کو ئی یاں ذرا جائیو
مری عیش بائی کو لے آئیو
شہزادی بدر منیر شہزادے کے فراق میں
نہ ملنے کے دکھ اس کے سب میں سہے
بھلا اپنے جی سے وہ جیتا رہے
مرو تم پری پہ وہ تم پہ مرے
بس اب تم ذرا مجھ سے بیٹھو پرے
میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
غرض میر حسن نے مکالموں کے اختصار اور کردار کی زبان کے قدرتی لب و لہجہ سے مثنوی میں فطری اور حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اب ہم اس خوبی کی طرف آتے ہیں جس پر مثنوی کی تمام تر نہیں تو زیادہ تر شہرت کا انحصار ہے۔اور یہ خوبی ہے حسن کا انداز بیاں۔مولانا شبلی نے انداز بیاں کی سادگی سے متاثر ہو کر کہا کہ میر درد کا رنگ ہے۔یعنی روز مرہ کی صفائی، گھلاوٹ اور درد۔شیر علی افسوس نے دیباچہ میں لکھا :
’’ مثنوی سحر البیان اسم با مسمیٰ ہے۔اس کا انداز سراپا اعجاز ہے۔فصاحت و بلاغت کا اس میں دریا بہا ہے۔‘‘
میر حسن کے روز مرہ کو دیکھ کر آزاد نے حیرت سے پوچھا
’’کیا اس کو سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں۔کہ جو کہا صاف وہی محاورہ اور گفتگو ہے جو ہم تم بول رہے ہیں۔‘‘
بیان کی سادگی و سلاست، روز مرہ کی خوبی ، محاورہ و ضرب الامثال کی برجستگی، الفاظ و تراکیب کی شیرینی۔۔۔ یہ تمام خوبیاں میر حسن کی قادر الکلامی اور پختہ جمالیاتی ذوق کی بین شاہد ہیں۔سحر البیان سادگی اور بے تکلفی کا عمدہ نمونہ ہے۔جہاں اشعار کا بے ساختہ پن اور سادگی دل پر اثر کرتی ہے وہاں شعریت بھی دماغ کو مسحور کرتی ہے۔موسیقیت اور ترنم کا یہ عالم ہے کہ اشعار دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔بیان کی سادگی میں اتنی پر کاری ہے کہ قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔محاوروں کا استعمال ایسا بر محل اور خوب صورت ہے کہ کسی اور مثنوی میں نہیں پایا جاتا۔الفاظ کا انتخاب بلا کا خوبصورت ہے اور سادگی میں روکھے پن کی بجائے ایک جاندار کیفیت ہے۔
سادگی سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ حسن نے شعر کو خوب صورت بنانے کے لیے کسی خارجی ذریعے کا استعمال نہیں کیا بلکہ سادگی سے مراد ان تمام ذرائع کا ایسا برمحل اور جچا تلا استعمال ہے کہ کہیں بھی آورد کا شبہ نہیں ہوتا۔اشعار اس بے ساختہ پن سے کہے گئے ہیں جیسے ان کے لیے کسی خاص تکلف اور فنکارانہ عمل کی ضرورت ہی نہیں تھی۔حالانکہ مثنوی لکھنے میں جو خون جگر حسنؔ نے صرف کیا اس کا اظہار انہوں نے خود مثنوی میں بھی کیا۔
ز بس عمر کی اس کہانی میں صرف
تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف
نئی طرز ہے اور نیا ہے بیاں
نہیں مثنوی، یہ ہے سحر البیاں
ہر اک شعر پہ دل کو میں خوں کیا
تب اس طرح رنگیں یہ مضموں کیا
ان اشعار کو فقط شاعرانہ تعلی نہ سمجھنا چاہیے۔اس کی مثالیں مثنوی کے ہر ورق پر موجود ہیں۔الفاظ کے انتخاب پر غور کریں۔
نکالا مرادوں کا آخر سراغ
لگائی ادھر لو تو پایا چراغ
کہا شہ نے واں کا مجھے تو پتا
عزیزو! جہاں سے وہ یوسف گیا
قلم گو زباں لاوے اپنی ہزار
نہیں لکھ سکے حمد پروردگار
کہا زیر نے بم سے بہر شگوں
کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں
لٹیں منہ پہ چھوٹی ہوئیں سر بسر
کہ بدلی ہو جوں مہ کے ایدھر ادھر
پسینہ پسینہ ہوا سب بدن
کہ جوں شبنم آلودہ ہو یاسمن
وہ حسن و جوانی اور اس پہ یہ غم
ستم ہے ستم ہے ستم ہے ستم
وہ رو رو کے دو ابر غم یوں ملے
کہ جس طرح ساون سے بھادوں ملے
مندرجہ بالا تمام امثال سرسری مطالعہ کا نتیجہ ہیں۔ان میں بیان و بدیع کی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور کمال سادگی بھی۔اگر آپ ذرا غائر مطالعہ سے کام لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حسن کا جگر ہر مضمون پہ کیسے خون ہوا ہو گا۔
زبان و بیان کی اس خوبی کو ان کی معلومات عامہ سے اور بھی زیادہ تقویت پہنچی ہے۔ نجومیوں، رمالوں اور برہمنوں کا ذکر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ساری عمر رمل اور جوتش کے فن کے حاصل کرنے میں صر ف کی۔بزم عشرت کا سماں دکھاتے ہیں تو موسیقی کے ماہر کامل سے کم نظر نہیں آتے۔آلات موسیقی اور سروں سے مکمل واقفیت معلوم ہوتی ہے۔کنیزوں کے نام اور ان کے دلچسپ مشغلے بتانے پر آتے ہیں تو خود بھی محل کے ایک راز دار اتالیق سے کم نہیں رہتے۔غم و الم کی کیفیات کے بیان، پرستان کی جادوگری اور جوگن بننے کا عمل اس طرح بیان ہوا ہے جیسے انہوں نے یہ بہروپ خود بھرے ہوں۔یہ سب اس لیے ممکن ہوا کیونکہ ان کا انداز بیان کردار کے موافق، زبان میں سلاست و روانی کے دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ کی بجائے اس میں مزید تیزی اور قوت پیدا کرتا ہے۔ان کی معلومات کا اظہار یوں تو بہت سے مواقع پر ہوا ہے مگر ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں جس میں وہ شہزادے کے مختلف علوم کی تحصیل کے مراحل بیان کر تے ہیں۔خوش نویسی کے متعلق لکھنے پر آتے ہیں تو مندرجہ ذیل اشعار میں خوش نویسی کے متعلق ان کی معلومات کا اندازہ ایک عام قاری بھی بخوبی لگا سکتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حسنؔ خود بھی بڑے پائے کے خوش نویس تھے۔
عطارد کو آنے لگی اس کی ریس
ہوا سادہ لوحی میں وہ خوش نویس
ہوا جب کہ نو خط وہ شیریں رقم
بڑھا کے لکھے سات سے نو قلم
لیا ہاتھ جب خامۂ مشک بار
لکھا نسخ و ریحان و خطِ غبار
عروس الخطوط اور ثلث و رقاع
خفی اور جلی مثلِ خطِ شعاع
شکستہ لکھا اور تعلیق جب
رہے دیکھ حیراں اتالیق سب
یہی حال ان کی موسیقی کے متعلق معلومات کا ہے۔اور ایسی ہی تفصیل کے ساتھ آرائشی اشیا اور پھولوں وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔الغرض ان کی معلومات کی گہرائی اور گیرائی بے مثل ہے۔
معلومات کی وسعت کے علاوہ بیان و اظہار کی اس تصویر میں حکیمانہ نکتوں کے رنگ بھی ملتے ہیں۔حکیمانہ نکتوں سے مراد کوئی فلسفیانہ عمل نہیں بلکہ قوت متخیلہ کی رنگ آمیزی کا وہ عمل ہے جس نے حسن کے کئی اشعار کو ضرب المثل کی درجہ دے دیا ہے۔
٭گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
٭سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں
٭کہ دنیا میں توام شادی و غم
٭مروت کی خو آدمیت کی چال
٭جو بھیگتی جائے صحبت میں رات
٭جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
٭ کوئی آپ سے آپ مرتا نہیں
٭ہیں یہ آدمی زاد کل بے وفا
٭ رکے کوئی جو اس سے رک جائیے
٭جو جھکے آپ سے اس سے جھک جائیے
٭گیا ہو جو اپنی ہی جیوڑا نکل
٭کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
اس کے علاوہ فارسی کے اشعار کو اس خوب صورتی سے اور اتنا بر محل کھپایا ہے کہ وہ اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔شیر علی افسوس کا بیان کہ فصاحت اور بلاغت کا اس میں دریا بہا ہے ان کے تنقیدی شعور کا پتا دیتا ہے۔چند فارسی اشعار ملاحظہ ہوں۔
دریغا کہ عہدِ جوانی گزشت
جوانی نگو زندگانی گزشت
زہے بے تمیزی و بے حاصلی
کہ از فکرِ دنیا و دیں غافلی
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
غنیمت شمر صحبتِ دوستاں
کہ گل پنج روز ست در بوستاں
کداہ بادہ عیش در جام ریخت
کہ صد شام بر افق صبحش نہ ریخت
بیان کی خوبی اور صفائی کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ ایک بیان دوسرے کی تکذیب نہ کرے۔طویل نظم میں اس امر کا خدشہ رہتا ہے۔
طلسم الفت میں شہزادی عالم آرا کا بیان اس طرح ہوا ہے۔
دیکھنا بھی تو اسے مشکل ہے
کہ وہ لیلیٰ میانِ محمل ہے
آدمی کیا ؟ فلک سے پردہ ہے
بلکہ چشمِ ملک سے پردہ ہے
مگر بعد کے اشعار میں نہ صرف اس کی بے پردگی ظاہر ہوتی ہے بلکہ انتہا درجے کا بیسوا پن پایا جاتا ہے۔یہ تکذیب معائب میں شامل ہے مگر مثنوی میر حسن ان معائب سے پاک نظر آتی ہے۔حالی نے کلام کی ایک خو بی یہ بھی بتائی کہ کوئی بات تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف نہ ہو۔حالانکہ داستان میں اس کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور مثنوی منظوم داستان ہے۔اس لیے حالی کا یہ بیان مثنوی کے سلسلے میں زیادہ وقیع نہیں لیکن حالی کے تنقیدی شعور اور قوت مشاہدہ کی داد دینا پڑتی ہے جس نے مندرجہ ذیل شعر میں خلاف مشاہدہ عناصر کی طرف توجہ مبذول کروائی۔
وہ گانے کا عالم وہ حسن بتاں
وہ گلشن کی خوبی وہ دن کا سماں
درختوں کی کچھ چھاؤں اور کچھ وہ دھوپ
وہ دھانوں کی سبزی وہ سرسوں کا روپ
آخر میں دھان اور سرسوں کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے۔یہ بات خلاف واقعہ ہے۔کیونکہ دھان خریف میں ہوتا ہے اور سرسوں ربیع میں بوئی جاتی ہے۔لیکن اس بات کی طرف حالی نے توجہ نہیں کی کہ حسنؔ نے سرسوں کا استعمال دھوپ کی مناسبت سے کیا ہے۔پیلا رنگ دونوں میں مشترک ہے۔
دھوپ اور سرسوں میں وجہ شبہ ظاہر ہے اور یوں بھی شاعری میں سچائی واقعاتی نہیں بلکہ شاعرانہ ہوتی ہے۔بہرحال حالی کی باریک بینی قابل داد ہے۔اس مثال سے مثنوی میر حسنؔ میں تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا البتہ حالی کے تنقیدی شعور کی پختگی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔
مثنوی کو زندہ جاوید بنانے میں ایک اہم کردار معاشرت کی عکاسی نے بھی کیا ہے۔ بڑا ادب ہمیشہ اپنے معاشرے کا عکاس اور نقاد ہوتا ہے۔مثنوی میر حسن اس معاشرے کی بھر پور ترجمان ہے جس میں اس نے جنم لیا۔اور اس طرح بڑے ادب کے تقاضوں کو بڑی حد تک پورا کرتی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مثنوی کا اس حوالے سے تجزیہ کریں چند دوسرے عناصر کی طرف دیکھ لینا ضروری ہے۔یعنی معاشرہ کیا ہے ؟ اس کی تشکیل میں کون کون سے عناصر بروئے کار آتے ہیں ؟ اور میر حسن کی معاشرت کا رنگ کیسا تھا؟
معاشرہ افراد سے مرکب ہے اور افراد کے مذہب، رہن سہن، بول چال، لباس اور طرز بود و باش سے اس کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔مذکورہ عناصر ایک خاص جغرافیے کے اندر بہت سے افراد کے درمیان مشترک ہوں تو اس سے جغرافیائی، ثقافتی، لسانی، مذہبی اور گروہی وحدت پیدا ہوتی ہے اور اسی کو ہم عرف عام میں معاشرت کہتے ہیں۔اور اس گروہ انسانی کو معاشرہ کا نام دیا جاتا ہے۔
میر حسن کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔تاہم آپ۱۸ ویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی سے قبل پیدا ہوئے۔جب دلی تباہ ہوئی تو ان کی والد نے فیض آباد کا رخ کیا۔ ۱۷۷۵ء میں جب آصف الدولہ نے فیض آباد کی بجائے لکھنؤ کو اپنا پایہ تخت بنایا تو میر حسن بھی لکھنو آ گئے اور یہیں انتقال فرمایا۔
میر حسن اپنے زمانے کے نامی گرامی جید فاضل اور مشہور خوش نویس تھے۔عربی کم جانتے تھے لیکن فارسی میں کمال حاصل تھا۔نواب سالار جنگ بہادر اور بہو بیگم صاحبہ کی ملازمت میں رہے اور ان کے بیٹے مرزا نوازش علی خان کی مصاحبت میں بھی چند دن رہے۔
مندرجہ بالا معلومات کی روشنی میں ایک بات آشکار ہے کہ میر حسن جس معاشرت یا طرز معاشرت کے قریب رہے وہ طبقہ امرا کی معاشرت تھی۔اس لحاظ سے اگر ہم مثنوی سحر البیان میں معاشرت کی جھلکیاں دیکھنا چاہیں تو ہمیں نواب آصف الدولہ کے عہد کا عمومی تمدنی ڈھانچہ اور بالخصوص طبقہ امرا کی معاشرت نظر میں رکھنا چاہیے۔سب سے پہلے ہم مذہب کو لیتے ہیں۔ بادشاہ کا مذہب چونکہ اثنا عشری تھا لہٰذا امرا اور عوام میں اس کی مقبولیت اور پرچار لازمی تھا۔ اس کے علاوہ ہندو معاشرت کے اثرات بھی ہندوؤں کی کثیر آبادی کے سبب واضح رہے۔ایک نظر سحر البیان کو دیکھیں۔
بادشاہ کا سوال
نصیبوں میں میرے تو دیکھو کہیں
کسی سے بھی اولاد ہے کہ نہیں
پنڈت کا جواب
کہا رام جی کی ہے تجھ پہ دیا
چندر ماں سا بالک ترے ہوئیگا
اثنا عشری کے عقائد اور رسوم کے حوالے سے بھی مثنوی میں اشعار عام ہیں۔مثلاً علی اور آلِ رسول ﷺ کا ذکر:
مرا عذر تقصیر ہووے قبول
بحق علی و بہ آلِ رسولﷺ
دم درود اور دیگر رسوم:
شہزادے کی پیدائش سے قبل بادشاہ
خدا سے لگا کرنے وہ التجا
لگا آپ مسجد میں رکھنے دیا
شہزادے کو چھت پر سونے کی اجازت ملتی ہے مگر شرط:
لب بام پر جب وہ سوئے صنم
کریں سورہ نور کو اس پہ دم
پری شہزادے کو اٹھا کر لے گئی۔ اب شہزادہ پرستان میں پریشان ہے
کبھی اپنی تنہائی پر غم کرے
کبھی اپنے اوپر دعا دم کرے
بے نظیر بدر منیر کے باغ میں ہے۔اور شہزادی بے نظیر کی کنیزیں ہمراہ ہیں :
کئی ہمدمیں تھیں جو کچھ کچھ پڑھیں
دعائیں وہ پڑھ پڑھ کے آگے بڑھیں
ان عقائد کا بھر پور اظہار منقبت حضرت امیر المومنین میں ہوتا ہے:
نہیں ہمسر اس کا کوئی جز علیؓ
کہ بھائی کا بھائی وصی کا وصی
جہاں فیض سے ان کے ہے فیضیاب
نبی آفتاب و علیؓ ماہتاب
علیؓ دین و دنیا کا سردار ہے
کہ مختار کے گھر کا مختار ہے
علیؓ راز دار خدا و نبیﷺ
خبردار سر خفی و جلی
یہاں بات کی اب سمائی نہیں
نبیﷺ اور علیؓ میں جدائی نہیں
علیؓ کا عدو دوزخی دوزخی
علیؓ کا محب جنتی جنتی
نبیﷺ و علیؓ فاطمہؓ و حسنؓ
حسینؓ ابن حیدرؓ یہ ہیں پنجتن
علیؓ سے لگا تا بہ مہدی دیں
یہ ہیں ایک نور خدائے بریں
انہوں سے ہے قائم امامت کا گھر
کہ بارہ ستوں ہے یہ اثنا عشر
صغیرہ کبیرہ سے یہ پاک ہیں
حساب عمل سے یہ بے باک ہیں
یہ عقائد یہ رسوم اس معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھیں۔یہی وجہ ہے کہ مرثیہ بھی اودھ، لکھنو اور فیض آباد کی فضاؤں میں پروان چڑھا۔مذہب کے حوالے سے جہاں تک مثنوی کے موضوع میں گنجائش تھی۔اس کے معاشرتی خد و خال کی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ تصویر اتنی واضح اور مکمل ہے کہ اس کے تمام خطوط قاری پر نقش ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہندو مت کے اثرات بھی آپ شیڈ کے طور پر واضح محسوس کرتے ہیں۔ مذہب معاشرت کا سب سے اہم حصہ ہے اور اس کی عکاسی اس لحاظ سے بھر پور بھی ہے اور جان دار بھی۔
مذہب کے بعد رہن سہن کے طریقوں کا ذکر آتا ہے۔یعنی اس معاشرے کا طرز زندگی، مذاق اور دلچسپیاں کیا تھیں۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ مثنوی جس ماحول کی ترجمان ہے وہ نشاط و مسرت، خوش وقتی اور فارغ البالی کا ماحول ہے۔کیونکہ اس کا تعلق بادشاہوں، امرا اور اہل ثروت افراد کے ماحول کے ساتھ ہے۔جس اودھ کے دربار اور مثنوی میں پیش کردہ ماحول کا ہم ذکر کر رہے ہیں و ہ دراصل لکھنوی اہل نشاط کا دور ہے۔میر حسن کو چونکہ خود بادشاہوں اور امرا کی صحبت ملی اس لیے وہ اس ماحول کے قریبی جاننے والوں میں سے ہیں۔اور اس کا ذکر وہ بڑی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔
چونکہ حسن کا زمانہ بادشاہوں اور درباروں کا زمانہ تھا یا کم از کم ان کے ارد گرد کا ماحول یہی تھا اس لیے قصہ لکھتے ہوئے ایسے ہی کردار معاشرت کی سب سے زیادہ صحیح عکاسی کر سکتے تھے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عہد کے سارے نابغہ روزگار افراد ہی نہیں مفت خورے بھانڈ اور بھگتیے بھی ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔سحر البیان میں اس تمدن کا پتہ چلتا ہے جو دربار اور اس کے ارد گرد پایا جاتا ہے۔ وہی مسرت کی ترنگ وہی عشق و عاشقی کی امنگ وہی شان و شوکت وہی تزک و احتشام وہی سخاوت اور وہی لونڈیوں کی بھر مار اور۔۔۔ان کا کام
ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں
پھریں اپنے جوبن کو دکھلاتیاں
کہیں اپنے پٹے سنوارے کوئی
اری او رسیلی پکارے کوئی
کوئی حوض میں جا کے غوطے لگائے
کوئی نہر پہ بیٹھی پاؤں ہلائے
ان کے نام اور تعداد
کنیزان مہ رو کی ہر طرف ریل
چنبیلی کوئی اور کوئی رائے بیل
رنگیلی کوئی اور کوئی شام روپ
کوئی چت لگن اور کوئی کام روپ
کوئی کٹیلی اور کوئی گلاب
کوئی مہر تن اور کوئی ماہتاب
کوئی سیوتی اور ہنس مکھ کوئی
کوئی دل لگن اور تن سکھ کوئی
قصے میں بادشاہوں کی داد و دہش نواب آصف الدولہ کی داد و دہش سے کم نہیں۔جس کے متعلق عوام میں مشہور تھا کہ ’’جسے نہ دے مولا ـ ـ: اسے دے آصف الدولہ‘‘
شہزادے کی پیدائش پر:
دیے شاہ نے شہزادے کے ناؤں
مشائخ کو اور پیر زادوں کو گاؤں
امیروں کو جاگیر لشکر کو زر
وزیروں کو الماس و لعل و گہر
خواصوں کو فوجوں کو جوڑے دیے
پیادے جو تھے ان کو گھوڑے دیے
خوشی میں کیا یاں تلک زر نثار
جسے ایک دینا تھا بخشے ہزار
مجالس اہل نشاط عام ہیں۔شہزادے کی پیدائش پر :
خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط
لگے ناچنے اس پر اہل نشاط
کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
وہ پاؤں میں گھنگھرو چھنکتے ہوئے
وہ بالے چمکتے ہوئے کان میں
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں
یہ مجالس نہ صرف خوشی کے مواقع پر عام ہیں بلکہ اس معاشرت میں اس کو اندوہ ربا کہتے ہیں۔اور غم کا تدارک یا غم بھلانے کے لیے بھی اس قسم کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مثنوی میں بدر منیر اپنا غم غلط کرنے کے لیے عیش بائی کو طلب کرتی ہے۔
ارے ہے کوئی یاں ذرا جائیو
میری عیش بائی کو لے آئیو
عجب وقت ہے اور عجب ہے سماں
کرے دو گھڑی آ کے مجرا یہاں
پھر بادشاہوں کے مشاغل ہیں۔باغات کی تیاریاں ہیں۔ریل پیل ہے اور ایک ایسی معاشرت کی بھرپور تصویر ہے جس میں اودھ کے گلی کوچوں کی باس آتی ہے۔
حسن نے معاشرت کی چلتی پھرتی تصویروں کے لیے تمام ضروری ر نگوں کا استعمال کیا ہے۔مثلاً اس عہد کے علوم کا ذکر شہزادے کی تربیت کی ذیل میں ، اس عہد کے سنگار کا ذکر شہزادی کی چوٹی کی تعریف کی ذیل میں ، اس عہد کے لباسوں کا ذکر، اس عہد کے کھانوں کا ذکر، اس عہد کے مختلف پیشوں کا ذکر۔۔۔ الغرض معاشرت کے ہر پہلو کی ضروری تفاصیل اور ان کے مناسب مقام پر استعمال سے اس عہد کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔
حسن کی مثنوی سے جہاں اس معاشرت کے ظاہری رنگ و روپ کا پتہ چلتا ہے وہاں اس کے باطنی خدو خال بھی واضح ہوتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس حوالے سے مثنوی کا بڑا کار آمد مطالعہ کیا ہے۔ان کے نزدیک یہ مثنوی اس ڈوبتی تہذیب کا ایسی ترجمان ہے کہ اس کی مدد سے اس دور کو دوبارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔یہ تہذیب عمل اور جدوجہد سے عاری تھی۔ایسی ہی تصویریں ہمیں مثنوی کے کرداروں میں بھی نظر آتی ہیں۔شہزادہ بے نظیر کو مہ رخ پری اٹھا کر لے جاتی ہے۔تو شہزادہ آزادی کی جدوجہد کرنے کے بجائے آنسو بہانے کا کام کرنے لگتا ہے۔
بہانے سے دن رات سویا کرے
نہ ہو جب کوئی تب وہ رویا کرے
خواصیں بھی بے نظیر کے غائب ہونے پر یہی عمل کرتی ہیں۔
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
بادشاہ کے ہاں بھی مردانہ پن نظر نہیں آتا اور ہائے پسر کہہ کر خاک پر گر جاتا ہے۔اس کے وزیر بھی جدوجہد اور کوشش کا مشورہ نہیں دیتے۔لیکن خدائی سے چارہ نہیں۔
ادھر عاشق پری یعنی ماہ رخ بھی فیروز شاہ کی ایک ہی دھمکی پر شہزادہ بے نظیر کو قید سے آزاد کر دیتی ہے۔یہاں عشق میں وہ شدت مفقود ہے جو کوہکن سے جوئے شیر نکلواتی ہے۔ماہ رخ بھی فیروز شاہ سے اسی طرح مرعوب ہے جیسے انگریزوں کی طاقت سے سہمی ہوئی مقامی تہذیب۔موسیقی کا اثر بھی رجزیہ نہیں رونے رلانے کا ہے۔رونا اس تہذیب کے بے بس ہونے اور مجہول و بے عمل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔جس نے ہر موقع پر تہذیب کی ایسی عکاسی کی ہے کہ آج ہم اس کی مدد سے اس کے باطنی خدوخال کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔
دوسری طرف اگر مثنوی میں عشق کے معاملات و روایات پر غور کیا جائے تو اس میں جسم کی لذت حاوی نظر آتی ہے۔عشق کا جذباتی پہلو مفقود ہے۔جبکہ جسم لذت پرستی کی طرف مائل ہے۔پری کا شہزادے پر عاشق ہونا اور پھر شہزادے کا شہزادی پر عاشق ہونا ، نجم النسا اور فیروز شاہ کا تعلق کہیں بھی عشق مقصود بالذات نہیں ہے۔بلکہ مراد اس لذت کا حصول ہے۔جو ایک جسم سے دوسرے جسم کو حاصل ہو سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہجر میں تڑپنے والا عاشق جب وصل کی حالت میں ہوتا ہے تو حسن کا قلم اس تلذذ کی روایت کا امین نظر آتا ہے جو طوائف الملوکی اور طبقہ امرا کی عیاشی کے سبب اودھ کے گلی کوچوں میں سرایت کیے ہوئے تھی۔
اور سب سے بڑھ کر حسن کا مثنوی کی صنف اور داستان کے موضوع کا انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاشرت عمل سے عاری اور تخیل کی پرستار ہے۔افیم کے نشے میں ڈوبی ہوئی یہ تہذیب انگریز کے مقابلے میں صف بستہ ہونے کی صلاحیت تو نہیں رکھتی تھی مگر اپنے خیالوں کی اڑان میں جنوں اور پری زادوں سے ٹکرا جاتی تھی۔
جب نیزہ بازی اور تیغ زنی کی جگہ بٹیر بازی اور مرغ لڑانا فن ٹھہرے تو انگریزوں کو سلطنت اودھ پر قبض کرنے کے لیے کسی ایک آدمی کا خون بہانے کی زحمت بھی گوارا نہ کرنا پڑی۔ یہ تہذیب اغیار کے لیے ایک ایسا پکا ہوا پھل ثابت ہوئی جس کے لیے سنگ زنی غیر ضروری تھی۔ اس ماحول میں پسرم سلطان بود کی گنجائش تو تھی مگر یہ تہذیب خوئے سلطانی سے عاری ہو چکی تھی۔ مثنوی کا ماحول لکھنو کے ماحول کی بھر پور عکاسی ہے اور حسن اس کے بے مثل عکاس۔
مختلف حوالوں سے مثنوی کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو مثنوی کی تاریخ میں سحر البیان کی ہم پلہ اور ہم پایہ مثنوی تلاش کرنا لا حاصل کاوش ہو گی۔
٭٭٭
علی گڑھ تحریک
علی گڑھ تحریک بنیادی طور پر مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف مائل کرنے کی تحریک تھی تا کہ مسلمان اس سیاسی پستی سے بلندی کا سفر شروع کر سکیں جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں ان کا مقدر ہو چکی تھی۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سر سید نے جو ذرائع استعمال کیے ان سے اس عہد کا ادب نہ صرف متاثر ہوا بلکہ انقلابی تبدیلیوں کا ایسا عمل شروع ہوا جس نے اردو زبان و ادب کا دامن قیمتی ادب پاروں سے مالا مال کر دیا۔
علی گڑھ کی علمی تحریک سے پہلے اردو نثر ارتقا کی بہت کم منازل عبور کر سکی تھی۔فور ٹ ولیم کالج کی نثر اور غالب کی نثر ٹھہرے ہوئے پانی میں چند دائرے بنانے کے سوا کو ئی اور خدمت سر انجام نہ دے سکی۔عامۃ الناس مسجع و مقفٰی نثر ہی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس بات کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ رجب علی بیگ سرورؔ نے فسانہ ء عجائب اسی عہد میں لکھی اور غالب جیسے نابغہ روزگار نے بھی ا س نثر کی تعریف و توصیف کی۔
ان براہین سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ فورٹ ولیم کالج اور غالب کی نثر کی اہمیت مسلم لیکن اس کے زیر اثر اردو ادب کسی نئے تخلیقی تسلسل سے آشنا نہ ہوا۔یہ کام سر سید احمد خاں نے اپنے رفقائے کار کی مدد سے علی گڑھ کے پلیٹ فارم سے کیا۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ اس تحریک کے زیر اثر اردو ادب میں کس قسم کا انقلاب بر پا ہوا ؟ زبان و ادب نے کون سا راستہ اختیار کیا؟ ہمیں سر سید اور ان کے رفقائے کار کی تحریروں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
سر سید کے رفقا میں مولانا الطاف حسین حالیؔ، مولانا شبلی نعمانی، مولوی نذیر احمد دہلوی، سید مہد ی علی، مولوی چراغ علی، مولوی ذکا اللہ جیسے اصحابِ علم و دانش شامل تھے۔ ان افراد کی عملی و علمی کاوشوں نے اردو ادب کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور موضوع اور اسلوب ہر د و حوالے سے اردو ادب کو ایک نئے شعور سے آشنا کیا۔بقول افتخار احمد صدیقی
’’سر سید کی تمام قومی خدمات اور خود علی گڑھ تحریک کی بنیاد قومی ہمدردی کا وہ شدید جذبہ تھا جو غدر کے ہولناک نتائج سے ان کے دل میں ابھرا ‘‘ (۱)
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے قبل سر سید کی تصانیف پر ایک نظر ڈالیں تو ان میں جام جم، انتخاب الاخوین، جلاء القلوب، تحفہ ء حسن، آثار الصنادید، فوائد الافکار فی اعمال الفرجار، کلمۃالحق، راہ سنت و ردِ بدعت، نمیقہ در بیان مسئلہ تصور شیخ، قول متین در ابطال حرکت زمین، تاریخ ضلع بجنور اور تصحیح آئین اکبری شامل ہیں۔ سر سید کے خیالات میں انقلاب ۱۸۵۷ ء کے بعد آیا۔ جس میں اول اول تو انگریزوں سے معذرت اور مفاہمت کا دور ہے۔ اس دور کی نمائندہ تصانیف اسبابِ بغاوتِ ہند، رسالہ لائل محمڈنز آف انڈیا، تحقیق لفظ نصاریٰ، تبئین الکلام اور رسالہ احکام طعام اہل کتاب وغیرہ ہیں۔ جبکہ اپنے سفر لندن کے بعد وہ ایک قومی مفکر اور دانشور کے روپ میں سامنے آئے۔ڈاکٹر عبدالقیوم لکھتے ہیں :
’’ سر سید نے زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کا آغاز کیا۔ چنانچہ سیاست، معاشرت، تعلیم اور اخلاق کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اصلاحات تجویز کیں۔۔۔ وہ ادب کی اہمیت سے واقف تھے اور جانتے تھے اس جادو سے قومی فلاح و بہبود کے کیا کیا کام لیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے وہ اسے مخصوص حلقوں سے نکال کر عوامی رنگ میں رنگنا چاہتے تھے۔‘‘(۲) اس مقصد کے لیے منشی عبدالرحمان خاں کے الفاظ میں سر سید نے ساتھیوں کی مدد سے منصوبہ بنایا کہ
’’۱۔فارسی کی جگہ ایک نئی زبان رائج کی جائے، نیا لٹریچر پیدا کیا جائے جو شاندار ماضی اور موجودہ بد حالی کا قوم کے سامنے نقشہ کھینچے۔
۲۔ایک ایسی نثر تیار کی جائے جو روز مرہ کے کام چلانے میں ممد و معاون ہو۔
۳۔مسلمانوں کی انگریزی تعلیم دلائی جائے تا کہ یہ سرکاری ملازمتوں کے حقدار بن سکیں۔‘‘ (۳)
اس وقت ہماری توجہ کا مرکز منصوبے کا وہ حصہ ہے جس میں نیا لٹریچر تیار کرنے اور روزمرہ کے کاموں میں کام آنے والی نثر تیار کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ کار آمد تہذیب الاخلاق کا مطالعہ ہے۔
لندن سے واپسی پر سر سید نے ’’ مسلمانوں کے مذہبی خیالات کی اصلاح اور ان کو ترقی کی طرف مائل کرنے کے لیے پرچہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔انہوں نے پرچہ نکالنے کا ارادہ ولایت ہی میں کر لیا تھا۔کیونکہ تہذیب الاخلاق کی پیشانی پر جو اس کا نام اور بیل چھپتی تھی اس کا ٹائپ وہ لندن ہی سے بنوا کر اپنے ساتھ لائے تھے۔‘‘(۴)
سر سید مقاصد اجرائے تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں :
’’علم و ادب کی خوبی صرف لفظوں کے جمع کرنے اور ہم وزن اور قریب التلفظ کلموں کے تک ملانے اور دور از کار خیالات بیان کرنے اور مبالغہ آمیز باتوں کے لکھنے پر منحصر ہے یہاں تک کہ دوستانہ خط و کتابت اور چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے رقعوں میں بھی یہ برائیاں بھری ہوئی ہیں۔۔۔ پس ایسی تحریر نے تحریر کا اثر ہمارے دلوں سے کھو دیا ہے اور ہم کو جھوٹی اور بناوٹی تحریر کا عادی کر دیا ہے ‘‘(۵)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سر سید بناوٹ، تصنع اور ایسے طرز تحریر کے خلاف تھے جس میں صرف لفظی مو شگافیوں سے کام لیا گیا ہو اور دلی جذبات اور اخلاص کا عمل دخل موجود نہ ہو۔ وہ یہ بات بخوبی سمجھتے تھے کہ’’ فطری جذبات اور ان کی قدرتی تحریک اور ان کی جبلی حالت کا بیان کسی پیرایہ یا کنایہ یا اشارہ یا تشبیہ و استعارہ میں بیان کرنا کیا کچھ اثر کرتا ہے‘‘ (۶)اس لیے انہوں نے پرچہ تہذیب الاخلاق کے ذریعے
’’ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان نے یاری دی الفاظ کی درستی اور بول چال کی صفائی پر کوشش کی۔ رنگینی عبارت سے جو تشبیہات و استعارات خیالی سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا۔ تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی، ہاتھ اٹھایا۔ جہاں تک ہو سکا سادگی عبارت پر توجہ کی۔اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو ، جو اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘ (۷)
افتخار احمد صدیقی نے لکھا ہے :
’’مذہبی و معاشرتی اصلاح کے سلسلے میں سر سید نے تقلید سے کنارہ کش ہو کر تحقیق کی راہ اختیار کی اور مسائل کو عقل اور سائنسی تجزیہ و مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھنے لگے۔‘‘(۸)
سر سید نے اپنے مضمون ’’ تکمیل ‘‘ میں اس بت شکنی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ارسطو کچھ ہمارا مذہبی پیشوا نہ تھا۔ جو ہم اس کی علوم اور ا س کے فلسفہ اور اس کی الہیات کو ناقابل غلطی سمجھیں۔ بوعلی کچھ صاحب وحی نہ تھا کہ اس کی طب کے سوا اور کسی کو نہ مانیں۔ جو علوم دنیوی ہم مدت دراز سے پڑھتے آئے تھے اور جو اپنے زمانے میں ایسے تھے کہ اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے انہی پر پابند رہنے کے لیے ہم پر کوئی خدا کا حکم نہیں آیا تھا۔پھر کیوں ہم اپنی آنکھ نہ کھولیں ؟ اور نئے نئے علوم اور نئی نئی چیزیں، جو خدا تعالیٰ کے عجائبات اور قدرت کے نمونے ہیں ، اور جو روز بروز انسان پر ظاہر ہوتی جاتی ہیں ان کو کیوں نہ دیکھیں ؟‘‘ ( ۹)
سر سید چاہتے تھے کہ انواع و اقسام کے علوم کی کتابیں ہماری زبان میں موجود ہوں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مضمون ’’ہماری خدمات ‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’وہ سامان ہمارے پاس موجود نہیں ہے جس سے ہماری معلومات زیادہ ہوں اور ہمارے خیالات کو وسعت ہو۔ جو مضمون ہم لکھنا چاہیں ان کے مآخذ اور ان کے حالات اور جو بحثیں ان پر ہو چکی ہیں اور جو مواد ان کی نسبت متحقق ہو چکے ہیں، ان سے آگاہی ہو اور یہی سبب ہے کہ بعض دفعہ ہماری قوم کے آرٹیکلوں میں غلطی ہو جاتی ہے اور جن امور کا تصفیہ ہو چکا ہے انہی کو پھر کہے جاتے ہیں۔یہ نقص اس وقت رفع ہو گا جبکہ انواع و اقسام علوم و فنون کی ہماری زبان میں موجود ہو جاویں گی۔‘‘(۱۰)تہذیب الاخلاق میں سر سید نے مختلف موضوعات پر مضامین لکھے۔تہذیب الاخلاق کے متعلق مولانا الطاف حسین حالیؔ سر سید کی سوانح عمری ’’ حیات جاوید ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ تہذیب الاخلاق ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تقریباً ویسا ہی پرچہ تھا جیسے اسٹیل اور ایڈیسن نے دو میگزین ٹیٹلر اور سپیکٹیٹر نوبت بہ نوبت لندن سے نکالے تھے۔‘‘(۱۱)
تہذیب الاخلاق میں شائع ہونے والے مضامین میں سے تقریباً تین چوتھائی سر سید نے خود لکھے۔ سر سید نہ صرف باقاعدہ ادبی مضمون کے فنی تقاضوں سے باخبر تھے بلکہ ان فنی تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مطابق اردو ادبیات میں مضمون نگاری انگریزی ادبیات کے زیر اثر انیسویں صدی میں شروع ہوئی۔اور سر سید احمد خاں اس صنف کا باقاعدہ آغاز کرنے والے تھے۔(۱۲) خود سر سید نے اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا :
’’ مضمون نگاری جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی یہ اسی زمانہ میں بیدار ہوئی‘‘(۱۳)
سر سید کے مضامین اپنی روح کے اعتبار سے ایک ادبی مضمون کی زیادہ تر خصوصیات کی حامل ہیں۔ محمد عبداللہ خاں خویشگی نے سر سید کی مضمون نگاری کے متعلق مضامین سر سید کے دیباچے میں لکھا:
’’سر سید کے مضامین میں بعض باتیں ایسی ہیں جو مضمون کے معیار کے مطابق ہیں مثلاً ان مضامین کا اختصار، دوسرے ان مضامین کی ناتمامی اور جزویت، سر سید کی ان مضامین میں کسی مسئلہ کے جملہ پہلوؤں کی بجائے کسی ایک رخ پر سرسری نظر ڈالی گئی ہے جو ادبی مضمون کا عام وصف ہے۔۔۔امید کی خوشی، گزرا ہوا زمانہ، بحث و تکرار، سر اب حیات کسی نہ کسی جذباتی تحریک سے ابھرے ہیں۔ان میں معلومات یقینی کی بجائے تخیلات کا غلبہ ہے۔اور ان میں خیالات کی تہیں بڑے بے تکلفانہ انداز میں کھلتی چلی گئی ہیں۔‘‘(۱۴)
ڈاکٹر سید عبداللہ سر سید کی مضمون نویسی کے بارے میں رقم طراز ہیں ’’مضامین میں اختصار ان کی قدر مشترک ہے۔جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔سر سید کے بعض مضامین میں essayکی سی جزویت اور ناتمامی پائی جاتی ہے۔‘‘ (۱۵)
علی گڑھ تحریک کی عطا یہ ہے کہ اس نے اردو ادب کا دامن مختلف اصناف نظم و نثر اور اسالیب سے بھر دیا۔ ان میں سے اکثر کے پیش رو یا محرک سر سید احمد خاں ہیں۔ یہ علی گڑھ تحریک یا با الفاظ دیگر سر سید احمد خاں ہی کا فیض ہے جہاں سے سب فیض یاب ہوئے۔ اگرچہ ان کے رفقائے کار انفرادی خصوصیات کے بھی حامل ہیں مگر ہم ان کی نثر کا مطالعہ صرف علی گڑھ تحریک کے تناظر ہی میں کریں گے۔
شبلی نعمانی:
ڈاکٹر شیخ محمد اکرام کے بقول شبلی پر سر سید کے بعض اثرات واضح اور بدیہی ہیں لیکن بعض کے متعلق مزید تحقیق و غور خوض کی ضرورت ہے۔(۱۶)باقیات شبلی کے مرتب مشتاق حسین کے بقول علی گڑھ سے شبلی کا رابطہ ۱۸۸۳ میں ہوا۔ اس وقت شبلی کی عمر صرف ۲۵ سال اور چند مہینوں کی تھی۔ اس وقت تک نہ شبلی کی شخصیت کے جوہر نمایاں ہوئے تھے اور نہ شبلی کے قلم میں کوئی قابل اعتنا حرکت اور روانی پیدا ہوئی تھی۔(۱۷)مفتون احمد کا خیال ہے کہ اگر شبلی کا قیام کچھ دنوں تک علی گڑھ میں نہ ہوتا اور اس زمانے میں براہ راست انہیں سر سید احمد خاں سے استفادہ کرنے کا موقع نہ ملا ہوتا تو وہ ایک ماڈرن اور روشن خیال مولوی نہ بن پاتے۔(۱۸)
سر سید سے قومی تاریخ پر کتابیں لکھوانے کا کام سر سید احمد خاں نے ہی لیا۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ شبلی کو قومی تاریخ سے روشناس کرانے، اس ذوق کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے اور ان سے قومی تاریخ پر کتابیں لکھوانے کے لیے سر سید نے یہ کیا۔۔۔۔(۱۹)
شبلی نے دیگر علمی و ادبی مضامین کے علاوہ ’’المامون‘‘ اور ’’ الفاروق‘‘ کے نام سے سوانح عمریاں لکھیں۔ اور ’’سیرت النبیﷺ‘‘ کے نام سے آنحضور ﷺ کی سوانح بھی قلم بند کی۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق ’’المامون‘‘ ۱۸۹۹ء میں بزمانہ قیام علی گڑھ میں مرتب ہوئی۔ اس لیے اس پر سر سید کے اثرات نمایاں ہیں۔اس کا دیباچہ سر سید کا لکھا ہوا ہے جس میں انہوں نے اچھی تاریخ اور اچھی سوانح عمری کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ (۲۰) بے شک شبلی علمی و تحقیقی ذوق رکھتے تھے لیکن اس ذوق کی آبیاری علی گڑھ تحریک کے ذریعے ہوئی۔’’یاد گار شبلی‘‘ میں رقم ہے
’’مغرب میں اسلام یا مشرقی ممالک کی نسبت جو کارآمد کتابیں چھپتیں وہ ہندوستان میں سب سے پہلے یہاں (علی گڑھ) پہنچتیں۔ان مطبوعات میں بعض اسلامی جواہر ریزے تھے جو ہندوستان اور مصر و شام کے کتب خانوں میں نگہ عام سے چھپے ہوئے تھے اور جنہیں اہل مغرب نے قالب طباعت میں ڈھال کر ہر ایک کو ان سے نظر افروز ہونے کا موقع بہم پہنچا دیا تھا۔بعض میں مستشرقین نے اسلامی تاریخ و مذہب یا علوم کے مختلف پہلوؤں کے نسبت اپنی معلومات جمع کی تھیں۔سر سید نے قیام انگلستان اور اس کے بعد ان کتابوں کا اچھا ذخیرہ حاصل کر لیا تھا اور عام علما ان کتابوں کے وجود ہی سے بے خبر تھے۔‘‘ (۲۱)
ڈاکٹر شیخ محمد اکرام نے لکھا ہے کہ
’’شبلی جب سر سید کے قریب آ گئے تو انہوں نے اپنا کتب خانہ ہی انہیں سونپ دیا اور یہ سلسلہ سر سید کی موت تک قائم رہا۔‘‘(۲۲)
سر سید کی عطا کردہ اس تحقیق و جستجو ہی کا اثر تھا کہ ’’الفاروق۱۸۹۹ء میں علی گڑھ سے فراغت حاصل کر لینے کے بعد زمانہ آزادگی و علالت میں لکھی گئی۔ اس کے لیے مصنف نے نہ صرف ہندوستان کے سارے ذخیرہ معلومات کو استعمال کیا بلکہ روم و مصر و شام کے کتب خانوں کی سیر بھی کی۔ ‘‘(۲۳)
جب ’’الفاروق ‘‘ کے چھپنے میں تاخیر ہوئی تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود شبلی نے لکھا کہ ’’ بعض کتابیں جو اس تصنیف کے لیے انتہائی ضروری ہیں اور یورپ میں چھپ رہی ہیں ابھی تک پوری چھپ کر نہیں آ چکیں۔۔۔‘‘(۲۴)
شبلی کے اس ذوق تحقیق پر علی گڑھ تحریک یا سر سید کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اور شبلی کے علمی مرتبے کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر شیخ محمد اکرام نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے :
’’قیامِ علی گڑھ سے صرف یہی نہیں ہوا کہ شبلی کی صلاحیتوں کے استعمال کا رخ بدل گیا اور وہ اس سراب سے بچ گئے جس میں بعض بڑے بڑے قابل اور مخلص علما کی زندگیاں تلف ہوئی تھیں بلکہ جو علوم یعنی تاریخ و سیر شبلی کا طرہ امتیاز ہیں وہ انہوں نے غازی پور یا اعظم گڑھ یا لاہور یا سہارن پور نہیں بلکہ پہلی مرتبہ علی گڑھ میں سیکھے۔‘‘(۲۵)
شبلی کی شخصیت میں ایک جامعیت ہے۔ ان کے سماجی اور ادبی کردار پہلو دار ہیں اور ان میں ایک طرح کا تنوع ہے۔ باقیات شبلی کے مرتب کے بقول
’’شبلی نے ہمارے اس احساس کم تری کو جو یورپ کی بدولت ہم میں
پیدا ہو گیا تھا، دور کیا۔‘‘(۲۶)
شبلی کی علی گڑھ سے وابستگی کی نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کہ’’ سر سید کے تصنیفی اور دوسرے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے علاوہ شبلی نے اس زمانے کی اکثر تصانیف کالج کو ہبہ کر دیں اور ان کی اشاعت سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘( ۲۷)
مشتاق حسین نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ
’’شبلی ہماری زبان کے ان ادیبوں میں سے ہیں جن کو پسند کرنا یا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے لیکن ان کی شخصیت کو نظر انداز کر کے ہماری فکری اور تہذیبی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔‘‘(۲۸)
یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا بے جا نہ ہو گا کہ سر سید نے تاریخ سے اپنی دلچسپی کا اظہار ’’آئین اکبری‘‘ کی تصحیح، ’’آثار الصنادید‘‘ اور ’’ تاریخ ضلع بجنور‘‘ سے کیا تھا اور دراصل شبلی سر سید کے اسی ذوق کی تسکین کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں اور ہر دو کا مقصد بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی گم شدہ عظمتوں کا احیا ہے مگر طریقے مختلف ہیں۔اس اختلاف کی طرف ہمارے موضوع کا گذر نہیں۔ لہٰذا ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ:
علی گڑھ تحریک کے سب سے اہم رکن مولانا الطاف حسین حالیؔ ہیں۔سر سید سے ان کی عقیدت کا ثبوت سر سید کی سوانح عمری ’’حیات جاوید ‘‘ ہے۔جس میں انہوں نے سر سید کی زندگی اور مقصد سے اپنی محبت اور عقیدت کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ شبلی نے اسے سر سید کی مدلل مداحی کہا۔حالیؔ کی اہمیت ان کے موضوعات کی وسعت کے لحاظ سے اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے شاعری، تنقید، سوانح عمری تینوں میدانوں میں پیش رو کی حیثیت حاصل کی۔
حالیؔ نے جدید قسم کی شاعری بھی علی گڑھ تحریک کے زیر اثر شروع کی۔ڈاکٹر انور سدید کے بقول ’’انہوں نے شاعری کا جو معیار وضع کیا تھا اس کے لیے سب سے پہلے اپنی شاعری کی قربانی دی‘‘( ۲۹) ڈاکٹر عبدالسلام نے لکھا ہے کہ ’’ اگر مولانا حالیؔ کی سر سید سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی اور وہ ان کے حلقہ اثر میں نہ آئے ہوتے تو شاید مسدس لکھا جاتا نہ مقدمہ ‘‘(۳۰)
یہ وہی مسدس ہے جسے سر سید اپنے لیے باعث نجات سمجھتے تھے اور مقدمہ ان کے دیوان کا مقدمہ ہے جو مقدمہ شعر و شاعری کے نام سے مشہور ہے۔اس میں حالیؔ نے شاعری کے اصول اور نظریوں سے بحث کی ہے اور اردو شاعری کے لیے بعض اصلاحات تجویز کی ہیں۔اور ڈاکٹر عبدالسلام کے بقول ’’ ادب کی اصلاح کے بارے میں حالیؔ کے بنیادی خیالات وہی تھے جو سر سید ان سے پہلے بیان کر چکے تھے۔‘‘ (۳۱)اور انہی اثرات کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے مسدس میں شعرا کے متعلق لکھا :
وہ شعر اور قصائد کے ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بد تر
زمیں جس سے ہے زلزلے میں برابر
ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم دیں جس سے تاراج سارا
وہ ہے ہف نظر علم انشا ہمارا
برا شعر کہنے کی کچھ گر سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقرر جہاں نیک و بد کی جزا ہے
گناہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے(۳۲)
حالیؔ نے چونکہ سب سے الگ دکان کھولی تھی لہٰذا اپنے دیوان کے مقدمے میں مغربی شعر ا کی طرز پر شاعری کے متعلق اپنے خیالات نہایت مبسوط انداز میں پیش کیے۔جس طرح کولرج اور ورڈزورتھ وغیرہ نے نئی طرز کی شاعری شروع کی تو اس کے لیے قاری کو تیار کرنے کے لیے تمہید بھی لکھی۔
حالیؔ کا یہ مقدمہ اتنا مشہور ہوا اور اس پر اس قدر لے دے ہوئی کہ حالیؔ کی نئی شاعری غالباً پس منظر میں چلی گئی۔ تاہم کدورت کے غبار چھٹنے پر تقریباً ہر نقاد نے تسلیم کیا کہ حالیؔ کے خیالات حقیقت پر مبنی ہیں اور اردو شاعری میں اصلاح کی کافی گنجائش موجود ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کے میلانات‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’جدید اردو ادب کا آغاز سر سید سے ہوتا ہے۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نئے ادب کا سنگ میل تصور کی جاتی ہے اس سال کے گرد و پیش سر سید کے رفقا کی ادبی سر گرمیوں کا آغاز ہوا۔یہ سرگرمیاں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہوئیں۔معاشرہ ایک نئی علمی اور ذہنی سرگرمی سے روشناس ہوا۔مذہب، سیاست اور تعلیم کے علاوہ ارد و ادب کی کایا پلٹ بھی انہی عظیم اصحاب کی مرہون منت ہے۔ مذہب اور سائنس کی آویزش، آقا اور غلام کے تعلقات ، مشرقی اور مغربی علوم کا اختلاف دور سر سید کا خمیر انہی عناصر سے اٹھا ہے۔اس تحریک نے دو بڑے نقاد عطا کیے مولانا حالیؔ اور علامہ شبلی۔‘‘(۳۳)
ڈاکٹر حسن اختر نے ’’تنقیدی اور تحقیقی جائزے‘‘ میں لکھا:
’’حالیؔ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کیا۔۔۔ حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری اصول تنقید پر پہلی اور آخر ی مبسوط تصنیف ہے۔نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر تنقید کے میدان میں ایسی کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی۔یہ کتاب اپنی بعض خامیوں کے باوجود دائمی اثر رکھتی ہے۔‘‘(۳۴)
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے لکھا کہ ’’ حالیؔ سے تنقید کا وہ دور شروع ہوتا ہے جسے جدید تنقید کا عہد کہتے ہیں۔(۳۵) ڈاکٹر وحید قریشی کے مطابق ’’ اب تک اردو تنقید کا جو سرمایہ جمع ہوا ہے اس میں نقد و نظر کے بنیادی مسائل پر بہترین کتاب بھی یہی ہے۔۔۔ مقدمہ شعر و شاعری کے بعد حالیؔ ہماری نظری تنقید کو جہاں چھوڑ گئے تھے ہم اس پر کوئی قابل قدر دستاویزی اضافہ نہیں کر پائے ‘‘(۳۶)
طرز نو کی شاعری اور نظری تنقید کے علاوہ حالیؔ کی تیسری ادبی جہت سوانح نگاری ہے۔ حالیؔ اس میدان کے بھی مرد قرار پائے اور انہوں نے اپنے وقت کی عظیم شخصیات سر سید اور غالب کے علاوہ شیخ سعد ی کی سوانح عمری بھی لکھی۔وہ سوانح نگاری کے تقاضوں سے آگاہ تھے۔’’ حیات جاوید‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔
’’ہندوستان ، جہاں ہیرو کے ایک عیب یا خطا کا معلوم ہونا اس کی تمام خوبیوں اور فضیلتوں پر پانی پھیر دیتا ہے ، ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کسی شخص کی بائیوگرافی کرٹیکل طریقہ سے لکھی جائے۔اس کی خوبیوں کے ساتھ اس کی کمزوریاں بھی دکھائی جائیں۔اور اس کے عالی خیالات کے ساتھ اس کی لغزشیں بھی ظاہر کی جائیں۔‘‘ ( ۳۷)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ
’’اس دور کی سوانح نگاری کا سرچشمہ تحریک جذبہ احیائے قومی ہے چنانچہ عمدہ ترین سوانح عمریاں، بزرگوں اور ناموروں کی یادگار کی بجائے، قومی ترقی کے خیال سے لکھی گئی ہیں ۔ مولانا حالیؔ نے غالبؔ کی لائف اس لیے لکھی ہے کہ غالبؔ کی خوش طبعی اور ظرافت سے قوم میں زندہ دلی اور شگفتگی پیدا ہو۔حیات جاوید اور حیات سعدی کا نصب العین بھی یہی ہے‘‘(۳۸)
حالیؔ کے فن سوانح نگاری پر سر سید کے اثرات کے حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی رائے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
حالیؔ کے فن سوانح نگاری میں سر سید کے اثرات براہ راست نہیں بالواسطہ ہیں۔ یعنی حالیؔ سر سید کے تیار کیے ہوئے نمونے کے متبع نہیں۔مگر جو نمونہ انہوں نے خود تیار کیا اس کی روح وہی ہے۔جو سید صاحب کے سب کاموں میں پائی جاتی ہے۔حالیؔ کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں میں جو روح کام کر رہی ہے وہ سر سید ہی کی پیدا کردہ ہے۔سر سید نے امر واقعہ یا fact کو اپنی تحریروں میں جو اہمیت دی حالیؔ شاید رفقا سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔‘‘ (۳۹)
اسی لیے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے لکھا ہے کہ ’’حالیؔ کو تحریک سر سید کا ادبی مبلغ کہنا چاہیے۔ ان کے مضامین اور مقالات کے موضوع بھی زیادہ تر تعمیری ہیں اور تحریک سر سید کی تائید کرتے ہیں۔‘‘(۴۰)تاہم ڈاکٹر عبد القیوم کے خیال میں حالیؔ سر سید سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ ’’ انہوں نے مغربی افکار و خیالات کی تائید کی ہے لیکن انگریزوں کی نقالی کوکسی جگہ نہیں سراہا ہے۔نہ خود انگریزی لباس و طعام کیا نہ قوم کی اس کی تلقین کی بلکہ بار بار یہی کہا ہے کہ دنیا میں زندہ رہنے کا گر سیکھو۔‘‘(۴۱)
مولوی نذیر احمد دہلوی:
مولوی نذیر احمد دہلوی سر سید تحریک کے ایسے کار کن ہیں جنہوں نے اردو ادب کو ناول کی صنف سے روشناس کروایا۔ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے بقول ’’نذیر احمد کی سیرت کے روشن اور تاریک پہلو، ان کی شخصیت کے جملہ خط و خال بڑی وضاحت سے علی گڑھ تحریک کے پس منظر میں ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ ‘‘(۴۲)ڈاکٹر صاحب کے مطابق’’ جزئی اختلافات کے باوجود انہیں سر سید کے خلوص پر کامل اعتماد تھا اور ان کی تحریک کو وہ قومی ترقی کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے۔‘‘(۴۳)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے:
’’یوں تو سر سید کے رفقا میں سے ہر ایک شخص غیر معمولی قابلیتوں کا مالک تھا اور اپنے اپنے خاص شعبوں میں ان میں سے کسی کی نظیر آج بھی موجود نہیں مگر مولوی نذیر احمد جنہیں بعض لوگ ڈپٹی نذیر احمد کہنا پسند کرتے ہیں ، ایک ایسے مصنف تھے جن کی شخصیت اور جن کا رنگ تصنیف دوسروں سے منفرد تھا۔یہ انفرادیت ان کے اکثر کارناموں کی اس روح میں مضمر ہے کہ انہوں نے سر سید کے بعد شاید سب سے زیادہ عام زندگی اور عام مسائل سے رابطہ رکھا۔‘‘(۴۴)یوں تو انہوں نے سر سید کے عام مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے متعدد علوم کی کتب کے تراجم اردو میں قلم بند کیے جن میں قانون بھی شامل ہے مگر جس نئے شعور کا ذکر ہم لے کر چل رہے ہیں اس کے پس منظر میں ان کا خاص کارنامہ ناول نگاری ہے۔ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے رسالہ تہذیب نسواں کے شمارہ ۲۷جولائی۱۹۱۲ کے حوالے سے لکھا ہے
’’شمس العلما مولوی نذیر احمد کے احسانات اپنی قوم پر اس کثرت سے ہیں کہ شمار میں نہیں آ سکتے۔خصوصاً سب سے زیادہ علی گڑھ پر ‘‘(۴۵)
انہوں نے مزید لکھا کہ
’’اگر مقاصد تحریک کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو سر سید کے بعد دو ہی نام سب سے پہلے آئیں گے۔نذیر احمد اور حالیؔ‘‘ (۴۶)
بلکہ ڈاکٹر صاحب نے یہاں تک لکھا ہے کہ
’’وہ علی گڑھ تحریک کے سب سے زیادہ بلند آہنگ مبلغ اور مخلص ترین مبصر تھے۔‘‘ ( ۴۷)
نذیر احمد نے متعدد ناول لکھے۔جن میں ’’ مراۃ العروس‘‘، ’’ابن الوقت‘‘، ’’فسانہ مبتلا‘‘، ’’ توبۃ النصوح ‘‘، ’’ ایامی‘‘ اور ’’ رویائے صادقہ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ان کے ناولوں پر بہت سے اعتراض فنی حوالے سے کیے گئے مگر اس امر میں ایک بات ضرور مد نظر رکھنی چاہیے کہ نذیر احمد سے پہلے محیر العقول واقعات پر مبنی داستانیں تو موجود تھیں مگر ہماری حقیقی زندگی کی نمائندگی کرنے والا قصہ گو موجود نہیں تھا۔لہٰذا ہمیں آج کے معیار نذیر احمد ناولوں میں تلاش نہیں کرنا چاہیں۔اس لیے ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا :
’’ وہ فن کے پرستار نہ تھے اور نہ فن کار ہونا ان کے لیے کوئی بڑی کشش کی چیز تھی۔ وہ تو مصلح اور ریفارمر ہونے میں ہی اپنی عزت سمجھتے تھے‘‘ (۴۸)
نذیر احمد کی قصہ گوئی کا محرک قومی اصلاح کا جذبہ تھا۔ان کے تمام ناولوں میں مقصدی اور اصلاحی پہلو نمایاں ہے۔افتخار احمد صدیقی کے بقول
’’مراۃ العروس اور بنات النعش کی تصنیف براہ راست تعلیم نسواں کی اس تحریک سے وابستگی کا نتیجہ ہے جو انگریزی حکام اور محکمہ تعلیم کے ارکان کے باہمی تعاون سے شروع ہوئی تھی‘‘ (۴۹)
اس مقصدیت نے ان کے فن پر کیا اثرات مرتب کیے اس حوالے سے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی رقم طراز ہیں :
’’نذیر احمد کے مقاصد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اصلاح و تبلیغ کے جذبہ بے اختیار نے ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو پوری طرح ابھرنے نہیں دیا‘‘( ۵۰)
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے نذیر احمد کے ناولوں کے بعض پلاٹ انگریزی قصوں سے ماخوذ بتائے ہیں۔ مثلاً توبۃ النصوح Daniel Defoe کے ناولthe family instructor سے ماخوذ ہے تاہم بقول سید عبداللہ ’’ نذیر احمد کے ناولوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے اہم دور کی معاشرت کی تصویریں ملتی ہیں۔ اس عہد کی ذہنیت، سماجی تصورات، معاشرتی نظریات کے بہترین مرقعے جتنے نذیر احمد کے ناولوں میں ہیں اور کہاں دستیاب ہوں گے ‘‘ (۵۱)بقول ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ’’ نذیر احمد نے جب پہلے پہل ایک جدید ادبی روایت کی بنیاد ڈالی تو قدیم داستانوں میں خصوصی اور تخیلی فضا کی جگہ حقیقی اور واقعاتی فضا پیدا کی اور ایسا اسلوب بیان اختیار کیا جو ناول کی واقعاتی فضا سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ اس اسلوب میں سادگی کے باوجود اتنی توانائی تھی کہ وہ انسانی فطرت کی رنگا رنگ کیفیتوں اور سماج کے گونا گوں پہلوؤں کو اپنی گرفت میں لا سکے۔‘‘(۵۲)
نذیر احمد کی ناول نگاری اگرچہ تفصیلی ذکر چاہتی ہے تا ہم اس وقت ہم صرف اس بات پر قناعت کریں گے کہ علی گڑھ نے جو ہمیں ایک نیا شعور دیا اس میں نذیر احمد کا حصہ ناول نگاری کا آغاز ہے۔
گذشتہ صفحات میں سر سید کے جن رفقائے کار کا ذکر کیا گیا ہے انہوں نے ادب کی سطح پر فعال کر دار ادا کیا اور سر سید کے بعض رفقا ادب سے زیادہ عملی میدان میں سر سید کے زیادہ معاون کار ثابت ہوئے۔اگرچہ انہوں نے مذہبی اور اصلاحی مضامین بھی لکھے مثلاً وقار الملک، محسن الملک وغیرہ، ان کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔
اسلوب کی سطح پہ مذکور ہ ادبا کی انفرادی خصوصیات سے پہلو تہی کی گئی۔تاہم علی گڑھ تحریک کے زیر اثر سادگی اور مقصدیت ہر ایک کے مد نظر تھی۔ ’’دل سے نکلے اور دل میں اترے‘‘ ہر ایک کا مطمع نظر۔
اب ہم سرسری نظر میں علی گڑھ تحریک کا جائزہ نیا ادبی شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے لیتے ہیں :
۱۔اسلوب کی سطح پر نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور متنوع اسالیب بیاں پیدا ہوئے اور ادب پرانی مصنوعی نثر سے آز اد ہو گیا۔
۲۔علی گڑھ تحریک کے کارکنان نے اردو ادب کا دامن متعدد نئی اصناف سخن سے بھر دیا جن میں مضمون نگاری، سوانح عمری، تنقید، ناول نگاری وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔
۳۔علی گڑھ نے ادب کا تعلق معاشرے سے قائم کیا اور تخلیق کے لیے مقصد کی افادیت ظاہر کی۔
۴۔علی گڑھ تحریک نے اردو ادب کا رخ اس سمت میں موڑ دیا جہاں سے نئی عظمتوں کے دروازے اس کے لیے منتظر تھے۔ورنہ جس نہج پر ادب اس وقت چل رہا تھا بہت جلد مردہ حالت میں پایا جاتا
۵۔ ادب میں اجتماعی طرز احساس اور تحریک صحیح معنوں میں صرف علی گڑھ یا سر سید کے رفقا کا کارنامہ ہے۔ اس سے پہلے یا بعد میں بہ استثنائے ترقی پسند تحریک یہ اجتماعی طرز احساس مفقود ہے
المختصر علی گڑھ تحریک نے اردو ادب کو ایک نئے اور تازہ شعور سے روشناس کرایا اور اردو ادب اس قابل ہوا کہ آج اسے اپنی تاریخ سے شرمندگی اٹھانے کی ضرورت نہیں رہی۔
حوالہ جات
۱۔افتخار احمد صدیقی(ڈاکٹر)، مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۱، ص۱۵۸
۲۔عبدالقیوم (ڈاکٹر)، حالی کی اردو نثر نگاری، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۴، ص۵۳
۳۔عبدالرحمن خان (منشی)، معماران پاکستان، لاہور، شمع اکیڈمی، ۱۹۷۶، ص۳۹
۴۔الطاف حسین حالیؔ، حیات جاوید، لاہور، ہجرہ انٹرنیشنل پبلشرز، ۱۹۸۴، ص۱۶۶
۵۔احمد خاں (سر سید)، مقالات سر سید (م۔عبداللہ خان خویشگی)، علی گڑھ، نیشنل پرنٹرز، س ن، ص۴۷
۶۔ایضاً، ص۴۶
۷۔ایضاً، ص۲۲۷
۸۔افتخار احمد صدیقی(ڈاکٹر)، مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار، ص۱۳۸
۹۔احمد خاں ( سر سید)، مقالات سر سید، ص۵۱
۱۰۔ایضاً، ص۲۲۸
۱۱۔الطاف حسین حالیؔ، حیات جاوید، ص۱۹۷
۱۲۔احمد خاں ( سر سید)، مقالات سر سید، ص۳
۱۳۔ایضاً، ص۲۲۸
۱۴۔ایضاً، ص ع
۱۵۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، لاہور، سنگ میل، ۱۹۹۸، ص۳۶
۱۶۔محمد اکرام( ڈاکٹر، شیخ )، یادگار شبلی، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۷۱، ص۹۰
۱۷۔مشتاق حسین (م)، باقیات شبلی، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۵، ص۷
۱۸۔مفتون احمد، مولانا شبلی نعمانی ایک مطالعہ، کراچی، مکتبہ اسلوب، ۱۹۸۶، ص۱۰
۱۹۔محمد اکرام ( ڈاکٹر، شیخ)، یادگار شبلی، ص۹۰
۲۰۔عبداللہ ( ڈاکٹر، سید )، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، ص۱۰۶
۲۱۔محمد اکرام (ڈاکٹر، شیخ )، یادگار شبلی، ص۸۴
۲۲۔ایضاً، ص۸۹
۲۳۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، ص۱۱۰
۲۴۔شبلی نعمانی، امام اعظم، لاہور، سنگ میل پبلیکیشنز، س ن، ص۱۳
۲۵۔محمد اکرام ( ڈاکٹر، شیخ)، یادگار شبلی، ص۸۳
۲۶۔ایضاً، ص۵، ۶
۲۷۔ایضاً، ص۱۰۰
۲۸۔مشتاق حسین (م)، باقیات شبلی، ص۳
۲۹۔انور سدید (ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۹۱اشاعت دوم، ص۴۷۴
۳۰۔عبدالسلام (ڈاکٹر)، جدید اردو تنقید کے معمار، کراچی، رائل بک کمپنی، ۱۹۹۷، ص۱
۳۱۔ایضاً، ص ۲
۳۲۔الطاف حسین حالیؔ، مسدس حالی(م۔ڈاکٹر سید عابد حسین)، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۸۵ پانچواں ایڈیشن، ص۱۳۳، ۱۳۴
۳۳۔وحید قریشی (ڈاکٹر)، اردو نثر کے میلانات، لاہور، مکتبہ عالیہ، ۱۹۸۶، ص۸۶
۳۴۔حسن اختر(ڈاکٹر)، تنقیدی اور تحقیقی جائزے، لاہور، سنگ میل، ۱۹۸۳، ص۲۲۳
۳۵۔ابو اللیث صدیقی(ڈاکٹر)، آج کا اردو ادب، لاہور، فیروز سنز، ۱۹۷۰، ص۳۰۲
۳۶۔وحید قریشی (ڈاکٹر)، اردو نثر کے میلانات، ص۸۷
۳۷۔الطاف حسین حالیؔ، حیات جاوید، ص۱۰
۳۸۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، ص۶۷
۳۹۔ایضاً، ص۶۹
۴۰۔ابو اللیث صدیقی (ڈاکٹر)، آج کا اردو ادب، ص۳۰۵
۴۱۔عبدالقیوم (ڈاکٹر) حالیؔ کی اردو نثر نگاری، ص۵۶
۴۲۔افتخار احمد صدیقی(ڈاکٹر)، مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار، ص۱۳۸
۴۳۔ایضاً، ص۱۳۸
۴۴۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، ص۱۶۹
۴۵۔افتخار احمد صدیقی (ڈاکٹر)، مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار، ص۱۹۸
۴۶۔ ایضاً، ص۱۹۹
۴۷۔ ایضاً، ص۲۰۰
۴۸۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، ص۱۷۱
۴۹۔افتخار احمد صدیقی (ڈاکٹر)، مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار، ص۳۲۸
۵۰۔ایضاً، ص۳۳۶
۵۱۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار، ص۱۷۲
۵۲۔افتخار احمد صدیقی (ڈاکٹر)، مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار، ص۴۳۵
٭٭٭
اردو میں رومانوی تنقید
رومانویت کیا ہے ؟
رومانیت یا رومانویت اردو ادب کی بیسیوں اصطلاحات میں سے ایک ہے جس کی کوئی مستند اور مکمل تعریف دشوار ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول ـ’’ ایف۔ایل۔ لوکس نے اپنی معروف تالیف C IDEAL DECLINE AND FALL OF ROMANTIمیں رومانویت کی ۱۱۳۶۹ تعریفیں گنوائی ہیں ‘‘(۱) یہ کثرت تعبیر دراصل رومانویت کی موہوم شکل کی طرف اشارہ ہے۔ڈاکٹر انور سدید کے خیال میں ’’ رومانویت کا تعلق چونکہ شعور کی بجائے لاشعور سے ہے اس لیے یہ بے حد پیچیدہ اور نفسیاتی کیفیت ہے‘‘(۲)یہی وجہ ہے کہ رومانویت کی مکمل اور جامع تعریف آسان نہیں۔
لاطینی میں رومانس کا لفظ مقامی اور غیر ترقی یافتہ بولیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں یہ لفظ ان زبانوں کے ادب کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ انسائیکلو پیڈیا برطانیکا میں رومانس کے ضمن میں لکھا ہے
Originally a composition written in romance languages i.e. in one of the phases on which the Latin tongue entered after or during the dark ages (3)
لیکن رومانس کا لفظا ان معنوں میں شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے۔سوائے سپین کے جہاں اب بھی یہ لفظ بعض اوقات اپنے پرانے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا نے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ
Romance has long since lost its original signification in every country except Spain, where it is still occasionally used in speaking of vernacular as it was in the middle ages when Latin was the language of the lettered clanes and of documents and writing of all kinds (40)
لہٰذا رومانویت کی تعریف میں اگرچہ رومانس کا لفظ اپنی پرانی معنویت کو استعمال میں لاتا ہے مگر اب اس کے معانی میں بڑی گیرائی اور وسعت پیدا ہو گئی ہے۔اور اب یہ ایک ایسی تحریک کا نام ہے جس نے بہت سی قوموں کے علم و ادب میں فکر و احساس کی روشنی منتقل کی ہے۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا میں (Theodore Watts Dunton) نے اسے شاعر ی میں فن اور حیرت کے جوہر کی نشاۃ ثانیہ کہا (۵)
رومانویت کی تعریف کرتے ہوئے مختلف اہل الرائے اصحاب نے اس کے مختلف عناصر سے بحث کی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب ’’ ارسطو سے ایلیٹ تک ‘‘ میں آزادی، جذبات اور عوام کو رومانویت کے بنیادی خد و خال میں شمار کیا ہے۔(۶)ڈاکٹر انور سدید کے مطابق ـ’’ یوٹوپیا کی تخلیق اور عینیت پسندی رومانویت کے اہم رجحان شمار ہوتے ہیں ‘‘(۷) ڈاکٹر سلیم اختر نے ارونگ بیسٹ کے حوالے سے لکھا nacular as it was in the middllہے کہ’’ عجیب و غریب، عام ڈگر سے ہٹی، شدید، اعلیٰ تر اور انفرادیت جیسے خواص کی حامل تحریر رومانی ہے جبکہ اس کے بر عکس ہر وہ تحریر کلاسیکی ہو گی جو منفرد نہ ہو بلکہ ایک عمومی گروہ کی نیابت کرتی ہو‘‘ ( ۸) ان کے خیال میں موضوع کے حوالے سے رومانوی تحریک کی انفرادیت یہ ہے کہ’’ ادیب موضوع کو تخلیق کے بطن سے دریافت کرتا ہے۔چنانچہ رومانوی ادبا کے لیے کوئی موضوع شجر ممنوعہ نہیں۔اساسی اہمیت تخلیقی لمس کو حاصل ہے اور یہی موضوع کو تازگی اور توانائی عطا کرتا ہے‘‘(۹)ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی انفرادیت رومانویت کے ساتھ پہلی شرط قرار دی (۱۰)
مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں رومانویت کے کچھ کچھ خدوخال ہمارے سامنے مرتب ہوتے ہیں۔ رومانوی تحریک کا مطلع اول روسو کی منفرد آواز کو قرار دیا گیا جب اس نے کہا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو وہ پا بہ زنجیر ہے۔(۱۱)لیکن ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول ’’ ورڈز ورتھ اور کولرج کی قد آور شخصیات نے رومانویت کو بطور شاعرانہ مسلک اور تصور نقد مقبول بنا کر بطور تنقید رویہ کے قدیم اور مروج مفہوم سے جدا گانہ حیثیت سے متعارف کرایا۔(۱۲)
ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں :
’’ورڈز ورتھ کی تمہید اس اعلان سے شروع ہوتی ہے کہ شاعری بادشاہوں اور امرا و نوابین کے لیے نہیں۔اب وہ دور ختم ہو چکا ہے۔۔۔ ورڈزورتھ نے لکھا کہ اس کا مقصد عام زندگی سے موضوعات حاصل کر کے انہیں شاعری کے روپ میں پیش کرنا ہے۔وہ دیہاتیوں کو معیار بناتا ہے۔ان کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔اور ان کی زبان کو شاعری کی زبان بنانا چاہتا ہے۔‘‘(۱۳)
ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول شاعری کے اجتماعی افادیت کے لیے ورڈز ورتھ نے اصول و قواعد بھی قائم کیے۔لکھتے ہیں :
’’ شاعری صرف انسانی نیچر کے لیے حفاظتی قلعہ ہی نہیں بلکہ شاعر علم اور جذبات کی مشترکہ امداد سے انسانی اجتماع کی وسیع دنیا کو باہم متحد بھی رکھتا ہے۔۔۔۔۔اس اتحاد کا وسیلہ وہی انسان اور فطرت کی قرابت داری اور باہمی محبت ہے ‘‘ (۱۴)
کولرج نے ورڈزورتھ کے عام خیالات سے اتفاق کیا لیکن ان کی توضیح سے اختلاف کیا۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی کولرج نے بتایا کہ ’’دیہاتیوں کی زبان کے بارے میں جو کچھ ورڈزورتھ کہتا ہے غلط ہے۔۔۔بہترین زبان صرف ان کی زبان کو صاف کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘(۱۵)کولرج کے نزدیک ’’ اگر شاعر ی کو جسم قرار دیا جائے تو سلیقے کی حس good sense کو اس کا بدن، fancyکو اس کا لباس اور آرائش، اس کی حرکت و روانی کو اس کی زندگی اور تخیل کو اس کی روح قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘(۱۶)کولرج کی تخیل کی بحث بہت الجھی ہوئی ہے۔شاعری کو وہ تخیل ہی کا کرشمہ سمجھتا ہے۔
اردو میں رومانوی تنقید کی صورت حال کا جائزہ لینے سے پیشتر ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ’’ تنقیدی دبستان ‘‘ سے ایک اقتباس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ لکھتے ہیں :
’’اردو میں رومانی تحریک کی بے بضاعتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے رومانوی تنقید پر ۲۴ صفحات کا مقالہ مشمولہ تنقید اور اصول تنقید، میں اردو کے ایک بھی رومانی نقاد کا نام درج نہیں کیا‘‘(۱۷)
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کی تنقیدی روایت بہت دیر میں حالیؔ کی مقدمہ شعر و شاعری سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مشاعروں کی واہ واہ اور تذکرہ نگاری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ حالانکہ اس قسم کے دعوے بھی کیے گئے کہ
’’ اردو ادب کو جس سماج نے پیدا کیا وہ تہذیب یافتہ اور نفاست پسند تھا اس کا نظام اخلاق منظم اور معیار انسانیت واضح تھا۔ایسے افراد کا تنقیدی شعور بھی بیدار ہوتا ہے۔‘‘(۱۸)
تاہم حقیقت یہی ہے کہ اردو میں جدید تنقید بہت دیر بعد شروع ہوئی۔اس وقت تک مغرب کے تنقیدی شعور کی عمر صدہا برسوں تک پہنچ چکی تھی۔بہر حال حالیؔ نے اردو تنقید میں سب سے پہلے اصول اور معیار مقرر کیے۔اصول اور لگے بندھے معیار سے گریز رومانویت کا امتیاز ہے۔ تنقید میں حالی کے معیارات کے خلا ف سب سے پہلا رد عمل مہدی افادی کی طرف سے ہوا۔
بقول ڈاکٹر انور سدید:
’’اس کے خلاف اولین رد عمل رومانوی تحریک کے ہراول کے ادیب مہد ی افادی کی طرف سے ہوا۔ مہدی افادی نے تنقیدی عمل سے اس مسرت کو تلاش کرنے کی سعی کی جسے ادبا نے اپنے ادب پاروں میں چھپا رکھا تھا۔اور فیصلے میں انشا پردازی کو یوں استعمال کیا کہ ان کا فرمایا ہوا اب ضرب المثل کی طرح مشہور ہو گیا ہے۔‘‘(۹!)
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی کتاب ’’اشارات تنقید ‘‘ میں مہدی افادی کے بارے میں رقم طراز ہیں :
’’مہدی افادی بھی ایک رومانوی نقاد ہیں مگر ان کا انداز بجنوری سے مختلف ہے۔ان کے مضامین ’’افادات‘‘ میں مبالغہ کی وہ شدت نہیں جس اکا اظہار مقدمہ بجنوری میں ہوا ہے ‘‘(۲۰)
ڈاکٹر انور سدید کے خیال میں
’’ مہدی افادی اپنی تنقیدی رائے کے لیے وجدان کو ہی راہنما بناتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ذوقی کیفیت نے ایک آزاد فضا تخلیق کی اور قاری کے دل کو مسخر کر لیا۔ مہدی اردو تنقید میں آزادی اظہار کی اولین رومانی آواز ہے ‘‘(۲۱)
ڈاکٹر سید عبداللہ کے مہدی افادی کے تنقیدی رویوں کو ’’اشارات تنقید ‘‘ میں ترتیب وار اس طرح بیان کیا ہے :
’’۱۔مہدی افادی میں مبالغہ نہ سہی مگر ہیجان انگیزی کی صورتیں موجود ہیں
۲۔تنقید میں ان کا ادبی اسلوب نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
۳۔افادات مہدی میں تخلیقی ادب کی شان پائی جاتی ہے۔‘‘(۲۲)
رومانوی تنقید کا ایک اور معتبر نام عبدالرحمن بجنوری ہیں۔بجنوری کا تنقیدی کارنامہ محاسن کلام غالب ہے جو دراصل غالب کے دیوان نسخہ حمیدیہ کا مقدمہ ہے۔ڈاکٹر انور سدید انہیں رومانوی تنقید کا ایک روشن زاویہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’انہوں نے غالب کو والہانہ شیفتگی سے دریافت کرنے کی کوشش کی بجنوری ایک فطری رومانی کی طرح ان سر چشموں کو تلاش کرتے ہیں جن سے خود تخلیق کار کا ذوق سیراب ہوا تھا۔‘‘ (۲۳)
ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک
’’ بجنوری کے یہاں مبالغہ بہت ہے۔ اور نتیجہ میں عجلت کے آثار بھی ملتے ہیں۔پھر بھی بجنوری کا یہ مقدمہ ایک اہم تحریر ہے۔ بجنوری کا انداز تاثراتی رومانی ہے۔ وہ ایسے زمانے کے مصنف ہیں جس میں شدت جذبات کے تحت افراط اور مبالغہ کا رجحان عام تھا۔ مغرب سے مرعوبیت کے باوجود مغرب کے مقابلے میں سر کشیدہ چلنے کا جذبہ یا میلان بجنوری کا خاص وصف ہے‘‘ (۲۴)
بقول ڈاکٹر انور سدید :
’’بجنوری اردو کے اہم ترین رومانی نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی آواز بر صغیر کے طول و عرض میں سنی گئی ۔ اور ان کا وجدانی جملہ کہ’ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں : ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب‘ شائع ہوتے ہی زبان زد عام ہو گیا اور اس نے بجنوری کو بقائے دوام عطا کر دی ‘‘ (۲۵)
رومانوی تنقید کا تیسرا اہم نام امداد امام اثرؔ ہیں۔امدا د امام اثرؔ کی کتاب کا نام ’’کاشف الحقائق‘‘ ہے۔اس کتاب کا دائرہ بحث بہت وسیع ہے اور اس میں اہم ترین اقوام عالم کی شاعری کے علاوہ مختلف اصناف کی گفتگو کی ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک
’’امداد امام اثرؔ مغربی اور مشرقی نقطہ نظر میں پیوند قائم کرنے والے نقادوں میں ہیں ‘‘ (۲۶)
ان کا کہنا ہے کہ
’’ ا ثرؔ کے نزدیک شاعری ایک فطری چیز ہے اور اس کی تخلیق سلسلہ الہام سے تعلق رکھتی ہے ‘‘ (۲۷)
ڈاکٹر سید عبداللہ مزید رقم طراز ہیں :
’’اثرؔ نیچر پر زور دینے کے باوجود اور شاعری کو الہام کہنے کے باوجود اس کے عملی فائدے اور اجتماعی پہلو کا اثبات کرتے ہیں۔‘‘ (۲۸)
رومانوی تنقید کے سلسلے میں لیے جانے وا لا ایک اہم نام آل احمد سرورؔ کا بھی ہے لیکن کلیم الدین احمد نے آل احمد سرورؔ پر اس لیے اعتراض کیا ہے کہ ان کی کوئی مستقل کتاب نہیں ہے۔(۲۹)لیکن ڈاکٹر سید عبداللہ سرورؔ کی نثر کے دل دادہ ہیں۔ان کے خیال میں ’’ سرورؔ کی تنقید بڑی مزے دار تنقید ہے اور اسے تخلیقی ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے مگر کلیم نے اس پر بے جا تنقیص کی ہے ‘‘ (۳۰)ڈاکٹر سلیم اختر نے مذکورہ بالا تمام نقادوں کی رومانویت کو بیک جنبش قلم مشکوک قرار دے دیا۔ اپنی کتاب’’ تنقیدی دبستان‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ اس ضمن میں مہدی افادی ، امداد امام اثرؔ ، عبدالرحمن بجنوری اور بعض اوقات آل احمد سرورؔ کے اسما گنوائے جاتے ہیں حالانکہ ان میں سے ایک بھی ایسا نقاد نہیں جس کا رومانویت کے قریب سے بھی گذر ہوا ہو۔
امدا د امام اثرؔ کی استثنائی مثال سے قطع نظر باقی تینوں ناقدین کے اسلوب میں کچھ شاعرانہ عناصر ملتے ہیں جبکہ بجنوری کے ہاں جذباتیت بھی ملتی ہے۔۔۔ مگر اسلوب میں شاعرانہ عناصر اور انداز نقد میں جذباتیت رومانیت تو نہیں۔‘‘ (۳۱)
مجنوںؔ گورکھپوری اور فراقؔ گورکھپوری کو بھی رومانی نقادوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر محمد حسن نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی رومانی تحریک ‘‘میں بجنوری کے ساتھ مجنوںؔ گورکھپوری کو رومانی تحریک کا نمائندہ قرار دیا ہے۔(۳۲)ڈاکٹر عبدالسلام نے مجنوںؔ کو اردو کا پہلا جمالیاتی نقاد قرار دیا ہے۔(۳۳)سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ’’ مجنوںؔ کی تنقید نے اردو تنقید پر گہر ا اثر ڈالا‘‘ (۳۴)اس سلسلے میں انہوں نے مجنوںؔ کے ساتھ فراقؔ کا نام بھی لکھا ہے۔مگر ڈاکٹر سلیم اختر انہیں تاثراتی نقاد تسلیم کرتے ہیں۔ڈاکٹر انور سدید نے اپنی کتاب ’’ اردو ادب کی تحریکیں ‘‘میں بطور رومانی نقاد مجنوںؔ اور فراقؔ کا ذکر تک نہیں کیا۔جبکہ عبدالماجد دریا آبادی کو رومانی نقاد تسلیم کیا ہے۔
اردو میں رومانوی تنقید کا ایک مسلم نام نیاز فتح پوری کا ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول ’’ اردو تنقید میں نیاز کی حیثیت منفرد ہے اور اس کی انفرادیت کی بنیاد لفظیاتی تنقید ہے‘‘(۳۵) ڈاکٹر انور سدید کے بقول ’’نیاز فتح پوری کی تنقید جذبے کی صداقت اور شعر کی خشت بندی میں امتیاز پیدا کرنے کی کوشش ہے۔اور وہ اس کے لیے رومانوی نقاد کی بنیادی آزادی سے دستبردار نہیں ہوتے۔‘‘ (۳۶)ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک ’’ نیاز کا انداز تنقید رومانی تاثراتی ہے۔ اور اس پر بلاغت کے دبستان کا بھی اثر ہے۔‘‘ (۳۷) ڈاکٹر سلیم اختر انہیں بھی رومانی نقاد تسلیم نہیں کرتے تا ہم فرماتے ہیں :
’’نیاز فتح پوری رومانی نقاد ہو سکتے تھے کہ وہ اردو میں رومانیت کی تحریک ( اگر اسے واقعی تحریک تسلیم کر لیا جائے ) میں اہم مقام کے حامل ہیں مگر وہ جمالیات کے ذریعہ تاثراتی انداز نقد کی جانب متوجہ رہے‘‘( ۳۸)
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انہیں اپنی کتاب میں بطور شاعر تو موضوع بنایا ہے مگر بطور نقاد ان پر کچھ نہیں لکھا۔حالانکہ نگار کے نمبروں اور نگار میں ان کے مضامین کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے۔ حوالے کے لیے ان کی کتاب ’’دیدہ و شنیدہ‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔تاہم نگار کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ’’ اردو ادب میں آزادی خیال، کشادہ نظری، بے لاگ تنقید اور بے باک اظہار خیال کو فروغ دینے میں مدد کی ‘‘(۳۹)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ’’ وہ رومانی تحریک کے ممتاز رکن ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے زمانے کے ایک بڑے عقل پسند ادیب بھی ہیں۔‘‘ (۴۰)انور سدید کے الفاظ میں ’’ انہوں نے تنقید کے لیے وہی اسلوب اختیار کیا جو ان کے افسانوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر پر جو الہام شعر کی صورت میں نازل ہو ا تھا اب انکشاف شعر کی ضمن میں نیاز پر اتر رہا ہے ‘‘ (۴۱)
گذشتہ صفحات میں اردو کے جن رومانی نقادوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے شاید کوئی بھی پورے معنی میں رومانوی نقاد نہیں۔ اردو میں رومانوی تنقید تاثر کی پیدا وار ہے۔ اور ایک طرح کے تعصب کو بھی تاثر ہی کا نام دے دیا گیا ہے۔ ہم جدید عہد میں جدید اصطلاحات کے ساتھ اپنی پرانی تنقید کے ڈگر پر ہی چل رہے ہیں اور کسی نقطہ نظر یا اصول کی بجائے ذاتی رائے کو ہی تنقید کا اصول مانتے چلے آرہے ہیں۔آزادی اظہار کا یہ پہلو یقیناً رومانی ہے مگر جیسا کہ پہلے صفحات میں ذکر کیا گیا کہ رومانویت کثیر الابعاد اور مختلف مفاہیم پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن رومانی نقادوں کا ذکر کیا گیا ایک نقاد انہیں رومانی تسلیم کرتا ہے تو دوسرا تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ اردو میں جس کسی کو بھی کسی بھی بعد کی بنیاد پر رومانی نقاد کہا گیا اس کا ذکر کر دیا جائے۔ اور اگر انگریزی اردو تنقید کا موازنہ رومانی نقادوں کے حوالے سے کیا جائے تو جس وقت کولرج نے قوت تخیل پر اپنا مضمون قلم بند کیا (۱۸۸۷) ہم اس وقت تک حالی کی خشک اور سپاٹ تنقید سے بھی آگاہ نہیں ہوئے تھے۔
بہرحال اس تحریک کا انجام بخیر ہوا اور بقول ڈاکٹر سلیم اختر
’’ اب تو عالمی سطح پر نہ رومانویت کی ادبی تحریک زندہ ہے اور نہ رومانی ناقدین نظر آتے ہیں ‘‘(۴۲)
اور ہمیں ان کے خیال سے مکمل اتفاق ہے۔
حوالہ جات
۱۔سلیم اختر (ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، لاہور، سنگ میل پبلیکیشنز، ۱۹۹۷، ص۸۶
۲۔انور سدید (ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۹۱ اشاعت دوم، ص ۱۰۴
۳۔Encyclopaedia Britanica(vol.19),USA,1949,Pg.424
۴۔Chamber’s Encyclopaedia(Vol viii),Calcutta,The India Publishing Company,1930,Page 756
۵۔ایضاً۔ص۷۶۰
۶۔جمیل جالبی (ڈاکٹر)، ارسطو سے ایلیٹ تک، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۹۳ اشاعت پنجم، ص ۴۵
۷۔انور سدید (ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص۱۰۶
۸۔سلیم اختر (ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، ص ۹۰
۹۔انور سدید(ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص۱۱۶
۱۰۔جمیل جالبی(ڈاکٹر)، ارسطو جات:سے ایلیٹ تک، ص۴۵
۱۱۔انور سدید(ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص ۱۰۳
۱۲۔سلیم اختر(ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، ص۹۵
۱۳۔جمیل جالبی(ڈاکٹر)، ارسطو سے ایلیٹ تک، ص۴۶
۱۴۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، لاہور، خیابان ادب، ۱۹۷۲ دوسرا ایڈیشن، ص۸۳
۱۵۔جمیل جالبی (ڈاکٹر)، ارسطو سے ایلیٹ تک )، ص۴۸
۱۶۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۸۸
۱۷۔سلیم اختر(ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، ص۱۰۱
۱۸۔ایضاً، ص۱۰۰
۱۹۔مسیح الزماں، اردو تنقید کی تاریخ جلد اول، الہ آباد، خیابان، ۱۹۵۴، ص۷
۲۰۔انور سدید (ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص۴۷۴
۲۱۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۱۸۰
۲۲۔انور سدید(ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص۴۷۵
۲۳۔عبداللہ(ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۱۸۰
۲۴۔انور سدید(ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص۴۷۵
۲۵۔عبداللہ(ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۱۷۹
۲۶۔انور سدید(ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص۲۷۶
۲۷۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۱۶۸
۲۸۔ایضاً، ص۱۶۶
۲۹۔ایضاً، ص۱۶۷
۳۰۔ایضاً، ۱۶۸
۳۱۔عبدالسلام (ڈاکٹر)، اردو تنقید کے معمار، کراچی، رائل بک کمپنی، ۱۹۹۷، ۱۲۵
۳۲۔عبداللہ(ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۲۰۵
۳۳۔سلیم اختر(ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، ص۱۰۰
۳۴۔عبدالسلام (ڈاکٹر)، جدید اردو تنقید کے معمار، ص۲۷
۳۵۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۲۰۵
۳۶۔ایضاً، ص۱۹۹
۳۷۔انور سدید (ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص ۴۷۶
۳۸۔عبداللہ(ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۱۹۷
۳۹۔سلیم اختر(ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، ص۱۰۰
۴۰۔فرمان فتحپوری(ڈاکٹر)، نیاز فتحپوری دیدہ و شنیدہ، لاہور، فیروز سنز، ۱۹۹۱، ص۹۷
۴۱۔عبداللہ (ڈاکٹر، سید)، اشارات تنقید، ص۱۹۸
۴۲۔انور سدید(ڈاکٹر)، اردو ادب کی تحریکیں، ص ۴۷۷
۴۳۔سلیم اختر (ڈاکٹر)، تنقیدی دبستان، ص۸۵
٭٭٭
ضمیر جعفری کی سنجیدہ غزل
میر نے غزل کو وہ آہنگ دیا کہ سوز و گداز غزل کے مزاج کا حصہ بن گیا۔ اعترافِ عظمتِ میر کے باوجود غالب نے غزل میں ایک قسم کی خوش مزاجی اور ایسی ظرافت کو داخل کیا جس کی جڑیں سوزشِ باطن سے پھوٹتی ہیں۔اقبال نے غزل کو فلسفہ بنا دیا اور غزل کے سوز و گداز سے کام لیتے ہوئے ہر درد مند دل میں اپنے پیغام کے لیے جگہ پیدا کر لی۔
تاہم غزل کی تاریخ کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ میر سے ناصر تک غزل ـ’ماضی کی یاد‘، ’حال کی بے اطمینانی‘، ’مستقبل سے مایوسی‘ اور حالات و واقعات کے سامنے سینہ سپر یا تیغ آزما ہونے کی بجائے سپردگی کا مزاج رکھتی ہے۔اور یہی سپردگی اس کی اصل قوت ہے۔
غزل کو اس کی high seriousnessسے نکالنے کے لیے موجودہ عہد میں بھی کافی کوشش کی گئی۔اور غزل کی ہیئت میں طنز و مزاح پر مشتمل شاعری کافی مقدار میں معرض وجود میں آئی۔ان شعرا میں ایک نمایاں اور ممتاز نام سید ضمیر جعفری کا بھی ہے۔
سید ضمیر جعفری یکم جنوری ۱۹۱۶ کو جہلم سے چودہ میل دور ایک گاؤں چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا اسم گرامی سید حیدر شاہ تھا۔جو قلعہ روہتاس میں واقع ایک مدرسے میں استاد تھے۔
ضمیر جعفری نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے سے حاصل کی۔ثانوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے پائی۔گورنمنٹ کالج اٹک سے ایف اے کیا اور بی اے کی ڈگری اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔
کالج کے زمانے میں ہی ان کا کلام اخبارات و ادبی رسائل میں چھپنا شروع ہو گیا۔اسی دوران میں آپ نے صحافت کے کوچے میں قدم رکھا۔۱۹۴۴ میں فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ میں تعینات ہوئے۔اسی دور میں آپ نے فوج میں کمیشن حاصل کر لیا۔اور دوسری جنگ عظیم میں شریک ہوئے۔۱۹۴۸ میں وطن واپس آ گئے۔اور دوبارہ صحافت کی زندگی اختیار کر لی۔فوج نے دوبارہ طلب کیا تو پھر وردی پہن لی۔بعد میں آپ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل سنٹر، مشیر برائے تعلقات عامہ مرکزی وزارت امور مہاجرین اور مدیر اعلیٰ ادبیات مقرر ہوئے۔
انہوں نے کل اٹھاون کتابیں لکھیں۔جن میں نعتیہ کلام، سنجیدہ کلام، مزاحیہ شاعری، شگفتہ نثر، ادبی خاکے، سفر نامے، منظر نامے وغیرہ شامل ہیں۔آپ کی ادبی خدمات کے پیش نظر آپ کو ۱۹۳۸ میں ہمایوں گولڈ میڈل، ۱۹۶۷ میں تمغہ قائد اعظم اور ۱۹۸۵ میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔علم و ادب کا یہ چراغ ۱۲ مئی ۱۹۹۹ کو امریکہ کے ایک ہسپتال میں ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔
یوں تو سید ضمیر جعفری کا سنجیدہ کلام بھی مقدار میں کم نہیں لیکن ان کی شہرت ان کے مزاحیہ کلام کی بدولت ہوئی۔ قریہ جاں کی اشاعت کے بعد یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سنجیدہ کلام کی طرف بھی رجوع کیا جائے اور اس کی پرکھ پڑتال کے بعد اس کا معیار مقرر کرنے کی کوشش کی جائے۔تمہید سے ظاہر ہو گیا ہو گا کہ میں اس وقت ان کے سنجیدہ کلام میں سے صرف غزل کو موضوع بنا رہا ہوں۔
’’قریہ جاں ‘‘کا حصہ غزل کھلیان کے نام سے صفحہ۲۵۷ سے شروع ہو کر کتاب کے صفحہ آخر ۴۱۳ یعنی ۱۵۶ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔اور ان صفحات کے مطالعے سے جو پہلی حیرت قاری کو اپنی گرفت میں لیتی ہے وہ سید ضمیر جعفری کی بطور مزاح نگار شہرت ہے۔کیونکہ غزل میں مثبت یا رجائی نکتہ نظر کے باوجود اس میں مزاح یا ظرافت کی چاشنی بالکل نظر نہیں آتی۔بلکہ ہنستے مسکراتے جس ضمیر جعفری کی تصویر ہم نے دیکھی ہے۔وہ ہمیں دھوکا معلوم ہوتی ہے۔
میرا چہرہ دیکھنے والوں کو کیا معلوم ہے
کتنے آنسو پی گیا ہوں مسکرانے کے لیے
(قریہ جاں۔ص۳۸۵)
ہنسنے والوں سے کہہ دو
فتح ہمیشہ غم کی ہے
(قریہ جاں۔ص۳۶۹)
ظرف ہو تو غم بھی اک نعمت ہے اک سوغات ہے
جو سکوں رونے میں ہے وہ مسکرانے میں نہیں
(قریہ جاں۔ص۳۰۷)
ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے
یہ نہ ہو پھر عمر بھر روتا رہے
(قریہ جاں۔ص۲۱۴)
یہ وہ ضمیر جعفری تو نہیں جن کا ہنستا چہرہ دیکھنے کے ہم عادی تھے۔بلکہ انتہائی سنجیدہ اور فلسفہ غم سے پور ی طرح آگاہ ایک دانش مند شاعر ہے۔اس کے قہقہے مشہور ہیں لیکن خود وہ انجمن میں بھی تنہائی محسوس کرتا ہے۔وہ ہنستا مسکراتا رہتا ہے اور اپنا پہلا اشک صرف اس خوف سے گرنے نہیں دیتا کہ پھر یہ تار نہ ٹوٹ سکے گا۔وہ بوڑھا جو لڑکوں جیسی اٹھکیلیاں کرتا نظر آتا ہے اس کے شعر بڑے دکھیارے ہیں۔
دکھ کی یہ سوغات کہاں سے آئی ہے۔یہ وہی غزل کا مزاج ہے۔جو ماضی سے محبت، حال کی بے اطمینانی، مستقبل سے مایوسی اور حالات و واقعات کے سامنے سینہ سپریا تیغ آزما ہونے کی بجائے سپردگی کو ترجیح دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ضمیر جعفری کی شاعری میں بچپن کی یاد، ماں باپ اور بزرگوں کی شفقت، دیہات اور شہر کی زندگی کا موازنہ، وطن سے محبت، عہد حاضر کی بد امنی، نا انصافی، معاشی ناہمواری، طبقاتی کشمکش، بے حسی، حکام اور رعایا میں فاصلہ جیسے موضوعات تکرار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
اب بھی دل میں سنتا ہوں چاپ اپنے بچپن کی
جیسے دور جنگل میں گونج آبشاروں کی
(قریہ جاں۔ص۳۴۴)
گم ہوئی تھی جو میرے بچپن میں
وہ ہنسی لوٹ کر نہیں آئی
(قریہ جاں۔ص۳۳۶)
رحمتیں خدا کی ہیں صورتیں بزرگوں کی
ان سفید با لوں سے سارا گھر چمکتا ہے
(قریہ جاں۔ص۴۰۵)
امن— ایٹم میں کہاں
آگ سے شبنم نہ مانگ
(قریہ جاں۔ص۲۹۱)
کیا ستم ہے آدمی کے سامنے
آدمی کو دست بستہ دیکھنا
(قریہ جاں۔ص۲۶۷)
یہ بے حسی کہ جیسے لوگوں میں لہو نہ ہو
یہ بے دلی کہ موت کا بھی ڈر نہیں رہا
(قریہ جاں۔ص۲۷۷)
لیکن غم کی اس سوغات نے انہیں دل شکستہ نہیں کیا اور نہ ان کا حوصلہ ٹوٹا ہے۔یہی ان کی غزل کی انفرادیت ہے۔وہ مثبت تبدیلیوں پر یقین رکھتے ہیں۔اور عظمت آدم کے قائل ہیں۔وہ ایک خوب صورت دنیا کی تشکیل کے لیے اقبال کی طرح کوئی فلسفہ یا راہ عمل نہیں دیتے۔بلکہ ایک سادہ دیہاتی کی طرح کسی منطق و فلسفہ کے بغیر ایمان رکھنے والوں میں ہیں۔ روایتی غزل سے وہ یہیں آ کر وہ نئی راہ اختیار کرتے ہیں۔انہیں مستقبل مایوس کن نظر نہیں آتا۔ اور نہ خوبصورت مستقبل کے لیے وہ کو ئی فکری و تخیلاتی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔
شرط ہے رستے سے پیمانِ نظر
گلستاں کیا دشت بے منظر نہیں
(قریہ جاں۔ص۳۱۳)
مٹی میں بہت پھول تھے موتی تھے گہر تھے
ہنسنا مگر اس دشت کو انسان سے آیا
(قریہ جاں۔ص۲۷۸)
دھوپ میں بھی خوش رہے
تیرے داماں آشنا
(قریہ جاں، ص۲۶۸)
ضمیرؔ اس کے کرم سے زندگی اس وضع سے گزری
ضرورت ہم نہیں رکھتے شکایت ہم نہیں کرتے
(قریہ جاں، ص۳۴۹)
اس مقام پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نظریہ شعر سے آشنا ہونے کی کوشش کریں۔ان کے اشعار ثابت کر تے ہیں کہ وہ شاعری کو محض ہنر کاری یا فن کا مظاہرہ نہیں سمجھتے بلکہ اصل میں خلوص اور محبت کو شاعری کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں شاعر چند جامد الفاظ کا غلام نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل کے دروازے پر دستک ہوتی ہے تو پھر اس کی باتوں میں تاثیر آتی ہے۔محض اظہار ہنر کو انہوں نے بار بار اپنی شاعر ی میں ٹھکرایا ہے
نہ ہو شعر میں کچھ بھی ہنر کے سوا
اتنی بھی بے ہنری نہ کرو
(قریہ جاں۔ص۳۲۹)
جتنا بڑھتا گیا شعورِ ہنر
خود کو اتنا ہی بے ہنر جانا
(قریہ جاں۔ص۲۷۶)
تمام بڑے شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی تنہائی اور دل شکستگی سے پھوٹتی ہے۔
شعر کی غایت نہیں معلوم لیکن ایں قدر
گفتگو کرتے رہے خود اپنی تنہائی سے ہم
(قریہ جاں۔ص۲۹۵)
ضمیرؔ اک تمہی دل شکستہ نہیں ہو
زمانے میں اہل کمال اور بھی ہیں
(قریہ جاں۔ص۳۲۵)
لیکن انہوں نے ہجوم عام (غزل کی عمومی روایت) کی آسان راہ اختیار نہیں کی۔بلکہ اپنی الگ شناخت قائم کی۔یہ شناخت روایت سے منسلک بھی ہے اور اس سے فیض یاب بھی۔ لیکن پھر بھی انفرادی شان رکھتی ہے۔
منزلوں پر مشکلیں کچھ غیر معمولی نہ ہوں
راستہ تو نسبتاً آساں نظر آیا مجھے
(قریہ جاں۔ص۳۶۷)
میرے بیٹے تجھ کو کیا تاکید کر سکتا ہوں میں
تو نے دیکھا ہے محاذِ جنگ سے پسپا مجھے
(قریہ جاں۔ص۳۶۴)
یہ بھی اچھا ہوا تکان کے بعد
کوئی دیوار تو نظر آئی
( قریہ جاں۔ص۳۳۶)
باہر کوئی چیز نہیں ہے
سارے ڈر اندر کے ہیں
(قریہ جاں۔ص۳۲۰)
غزل کی عمومی روایت سے جہاں انہوں نے موضوعات کے حوالے سے نئی راہ تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے وہاں ڈکشن اور اسلوب کی سطح پر بھی اپنی انفرادیت کا اظہار کیا ہے۔غزل میں مقامی زبان کی آمیزش کا تجربہ اگرچہ نیا نہیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے شاعروں نے مقامی زبانوں کے الفاظ غزل کی ڈکشن میں شامل کیے ہیں لیکن ضمیر جعفری کے ہاں یہ الفاظ غزل کی ڈکشن کا حصہ بن جاتے ہیں اور اجنبی معلوم نہیں ہوتے۔یہ الفاظ اردو کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے والی زبان ہندی سے بھی ہیں اور اردو کی سر پرستی کرنے اور اپنا دودھ پلانے والی زبان پنجابی سے بھی۔اس طرح جہاں غزل اور گیت کا سنگم ہوتا ہوا نظر آتا ہے وہاں زبان کا دامن بھی وسعت پذیر ہوتا ہے۔
اب نیم گلابی چیت کہاں ؟
ابھی سارا بھادوں سہنا ہے
(قریہ جاں۔ص۳۹۱)
دھنباد کہو ان کھیتوں کو
یہ شہر جوان ہیں گاؤں سے
(قریہ جاں۔ص۳۵۶)
پورن ماشی کی چھم چھم یا کنک کٹن کا ڈھول بجے
گوری گھونگھٹ کاڑھ نہ ہم سے یہ قسمت کے میلے ہیں
(قریہ جاں۔ص۳۲۷)
شب کو سر نیہوڑائے دیکھی صحن کی بیر ی بور بغیر
جیسے کوئی راجکماری گم سم سوگ سراؤں میں
(قریہ جاں۔ص۳۰۴)
شالا پھر لوٹ آئیں وہ آغازِ سفر کی شبھ گھڑیاں
جھومر جن کے ماتھے پر تھے جھانجھر جن کے پاؤں میں
(قریہ جاں۔ص۳۰۵)
لشکتی دھوپ میں رستے کے پتھر توڑنے والو
جہاں تک تم اسے لے آؤ گے آ جائے گی دنیا
(قریہ جاں۔ص۲۷۵)
باہم لقمہ توڑ کے کھاؤ مل ورتن کی لذت چکھو
اپنا دکھ بھی کم کرے گا جس کو پیڑ پرائی ہو گی
( قریہ جاں۔ص۳۳۹)
سید ضمیر جعفری کی موسیقی سے دلچسپی نے اشعار میں ترنم کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اور مقامی الفاظ کے استعمال نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔موسیقی کے لیے جن دیگر حربوں سے سید ضمیر جعفری نے کام لیا ہے اس میں حروف کی تکرار اور نرم آوازوں کا انتخاب بھی شامل ہے۔محولہ بالا اشعار کا تجزیہ سے اس بات کو با آسانی ثابت کیا جا سکتا ہے۔مثلاً
باہم لقمہ توڑ کے کھاؤ مل ورتن کی لذت چکھو
اپنا دکھ بھی کم کرے گا جس کو پیڑ پرائی ہو گی
کے حروف توڑ کر دیکھتے ہیں
پہلا مصرع :ب ا ہم۔ل قم ہ۔ت و ڑ۔ ک ے۔ ک ھ ا ء و۔ مل۔ ورت ن۔ک ی۔
ل ذت۔ چ ک ھ و
دوسرا مصرع :ا پن ا۔د ک ھ۔ب ھ ی۔ک م۔کر ے۔ گ ا۔ ج س۔ ک و۔ پ ی ڑ
پر ا ء ی۔ہ و۔ گ ی
کا ف کی آواز ایک کھردری آواز ہے۔ لیکن اس کو تکرار اور حروف علت کے تال میل کے ساتھ موسیقی میں کس طرح ڈھالا ہے۔
تکرار : ۱۱۱۱۱ق۱۱۱۱۱ک۱ک۱۱۱۱۱۱۱۱۱ک۱۱۱۱۱ک۱۱
۱۱۱۱۱ک۱۱۱۱ک۱ک۱۱۱۱۱۱ک۱۱۱۱۱۱۱۱۱۱۱۱
مترنم آوازیں : ۱م م۱۱۱۱م م۱م ۱۱م۱مم مم ۱۱م۱۱۱۱م۱۱۱۱۱م م
م۱۱م۱۱م ۱مم ۱۱۱۱م ۱م ۱۱۱م ۱م۱۱۱مم مم ۱م
مندرجہ بالا تجزیہ میں کاف کی کھردری آواز کی تکرار اور میم (مترنم آواز) کی تکرار کا تال میل ملاحظہ کریں۔کھردری آوازوں کے درمیانی وقفوں کو مترنم آوازوں سے بھر دیا گیا ہے۔ ڑے کی کھردری آواز کی نشست بھی ملاحظہ فرمائیں۔مصرع اولیٰ کی ابتدا اور مصرع ثانی کے آخر میں۔ پہلی ڑے کی آواز کو واؤ کے ساتھ اور دوسری ڑے کی آواز کو یے کی آواز کے ساتھ نرم کیا گیا ہے۔ اور درمیان میں نرم آوازوں کا ایک پورا جال پھیلا دیا گیا ہے۔ دوسرے مصرع میں پے کی تکرار بھی موجود ہے۔اس طرح دو مصرعوں میں موسیقیت کا ایک دریا موجزن ہے۔
چھوٹی بحر کی غزلوں میں بھی ضمیر جعفری نے مہارت کا ثبوت دیا ہے۔اور ان بحروں میں ایسے شعر نکالے ہیں جن کو بلا شبہ ضمیر جعفری کے نشتر کہا جا سکتا ہے۔
کوئی آواز درد ناک آئی
چلنے والے ذرا ٹھہر جانا
(قریہ جاں۔ص۲۷۶)
مختصر ہے یہ داستانِ سفر
رات آئی سحر نہیں آئی
(قریہ جاں۔ص۳۳۶)
باہر کوئی چیز نہیں ہے
سارے ڈر اندر کے ہیں
(قریہ جاں۔ص۳۲۰)
یہ بھی اچھا ہوا تکان کے بعد
کوئی دیوار تو نظر آئی
(قریہ جاں۔ص۳۳۴)
پیڑوں کی آواز سنو
پتوں میں اکتارے ہیں
(قریہ جاں۔ص۳۲۴)
سید ضمیر جعفری کے قوافی اور ردیفوں کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔دیکھنا، کر دیا، نہیں ہوتا، گزارے گا، جائے گی دنیا، بھی نہیں رہا، سے آیا، بھی ہو گا، نہ کر، کر، کر، کر، مانگ، چل علی ھذا القیاس۔ ردیفوں کی کافی بڑی مقدار افعال پر مبنی ہے۔جس سے ان کے متخیلہ کی حرکی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔اور ایک عملی آدمی ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔یہ مطالعہ اگر چہ بڑا دلچسپ ہے لیکن اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
٭٭٭ (قومی زبان، ۲۰۰۶)
احمد ندیم قاسمی کی غالب شناسی
وفات سے کچھ عرصہ قبل احمد ندیم قاسمی کی ایک کتاب ’’ پس الفاظ ‘‘ کے نام سے اساطیر نے شائع کی۔اس کتاب کے موضوع کا تعین خود کر دیا گیا ہے۔اور قوسین میں تنقید کے الفاظ مرقوم ہیں۔کتاب میں دیگر مضامین کے علاوہ ’’خصوصی مطالعہ۔۔۔غالب ‘‘ بھی شامل ہے۔اس عنوان کے تحت نو مضامین شامل کتاب ہیں۔یہ تمام مضامین ۱۹۶۶ سے ۱۹۷۰ کے عرصہ میں اشاعت پذیر ہوئے۔ دو مضامین کے ساتھ ان کا سن اشاعت درج نہیں تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں مضامین بھی مرتب کے خیال میں اسی عرصہ میں لکھے گئے یا شائع ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان مضامین کو دوسرے مضامین کے درمیان کھپایا گیا ہے۔ مضامین کو ترتیب زمانی سے شامل نہیں کیا گیا بلکہ ترتیب مرتب کی ساختہ ہے اور موجودہ ترتیب کی کوئی توجیح بھی بیان نہیں کی گئی۔
تمام مضامین غالب کی صد سالہ برسی کے آس پاس کے عرصہ میں تخلیق کیے گئے ہیں اور اشاعت پذیر ہوئے ہیں۔ امکان غالب ہے کہ انہوں نے بعد ازاں بھی اکثر غالب کو موضوع بنایا ہو گا۔ اگر ایسے مزید مضامین مل جائیں تو قاسمی کی غالب شناسی کا اندازہ بہتر طور سے لگایا جا سکتا ہے۔ تا ہم منصور ہ احمد نے جس قدر کاوش کا ذکر ’’ کچھ اپنی طرف سے ‘‘ میں کیا ہے، لگتا ہے کہ غالب کے حوالے سے کوئی اور مضمون لکھا نہیں گیا یا کم از کم ان کی نظر سے نہیں گزرا۔
احمد ندیم قاسمی ۱۹۱۶ میں پیدا ہوئے۔اور نوے سال کی عمر میں ۱۰ جولائی۲۰۰۶ کو وفات پائی۔اس عرصہ میں انہوں نے بھر پور ادبی زندگی گزاری۔ سناٹا، کپاس کے پھول، بگولے، بازار حیات، آنچل، آبلے، برگ حنا، چوپال، در و دیوار، گھر سے گھر تک، سیلاب و گرداب، طلوع و غروب، آس پاس، کوہ پیما اور نیلا پتھر جیسے افسانوی مجموعے لکھے، محیط، جلال و جمال، دشت جمال، لوح خاک، شعلہ گل، دوام، رم جھم، بسیط اور جمال جیسے شعری مجموعے تخلیق کیے، اخبارات کی ادارت کی، بے شمار کالم لکھے ، جیلوں میں گئے ، رسائل جاری کیے، مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے عہدے دار رہے، ایوارڈ حاصل کیے ، ایوارڈ تقسیم کیے ، الغرض انہوں نے نہ صرف اپنی تخلیقات کے ذریعے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ حاصل کی بلکہ اپنی طرز حیات اور ہمہ گیر شخصیت کے دائمی اثرات بھی جریدہ عالم پر ثبت کیے۔ آپ کی پہلی کتاب ۲۳ سال کی عمر میں شائع ہوئی۔ اس طرح ۶۷ سال کا طویل عرصہ آپ نے دنیائے ادب پر حکومت کی۔
زیر نظر کتاب میں ’’ خصوصی مطالعہ۔۔غالب ‘‘میں شامل مضامین میں زمانی ترتیب سے پہلا ۱۹۶۶ میں تحریر کیا گیا ہے۔ یعنی اس وقت تک قاسمی پچاس سال کی عمر میں تھے اور ۱۷ سالہ ہنگامہ خیز ادبی زندگی گزار چکے تھے۔تاہم قاسمی صاحب کو کسی بھی حوالے سے موضوع بحث بناتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم موضوع کے حوالے سے نتائج کے استخراج میں جہاں تک ممکن ہو سکے غیر جانبداری اور عدم تعصب کا مظاہر ہ کریں اور کسی ذاتی یا تاریخی مغالطے کا شکار نہ ہوں۔
زیر نظر کتاب میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کتاب میں شامل زیادہ تر مضامین کالم کے طور پر لکھے گئے ہیں اور انہیں سنجیدہ علمی مضامین کا بدل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تا ہم اس کے باوجود بعض کالم سنجیدہ علمی مضمون کی شان رکھتے ہیں اور قاسمی کی علمی قدو قامت کی دلالت کرتے ہیں۔
پہلے کالم کی تحریک قاسمی کو لاہور کے اخباروں میں ’’ خبر وحشت اثر ‘‘ کی اشاعت سے ہوئی جس کے مطابق ۲۷ فروری ۱۹۹۶ کو غالب کی صد سالہ برسی تھی جو کہیں منائی نہیں گئی۔قاسمی نے ’’غالب خستہ کے بغیر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھ کر تمام اہل قلم بالخصوص غالب شناسوں اور غالب شناسی کے لیے قائم کیے گئے اداروں کو نشانہ تنقید بنایا ہے یہ تحقیق کیے بغیر کہ نہ تو غالب ۲۷ فروری کو فوت ہوئے اور نہ ۱۹۹۶ میں ان کی وفات کو سو سال کا عرصہ مکمل ہوا تھا۔حالانکہ اسی مضمون میں قاسمی نے لکھا ہے ’’ غالب کی تاریخ وفات ادیبوں اور شاعروں کے ذہنوں پر نقش ہونی چاہیے تھی‘‘( پس الفاظ۔ ص ۳۷) اس سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ قاسمی کے مطابق ۲۷ فروری کو کراچی کے اخباروں نے غالب کی تصویریں شائع کیں، ان کی تحریریں زیر طباعت آئیں ، ان کے فن کے جائز ے لکھے گئے اور وہ سب کچھ کیا گیا جو اتنے بڑے شاعر کی صد سالہ برسی کی تقریب میں ہونا چاہیے تھا۔ اور انہوں نے ۲۷ فروری کی اشاعتیں غالب کے لیے مختص کر دیں۔(یقیناً ۲۷ فروری کے اخبارات میں وہ سب کچھ نہیں ہو گا جس کا ذکر قاسمی نے کیا ہے کیونکہ اس دن غالب کی صد سالہ برسی تھی ہی نہیں )
اس مضمون کے مطالعہ کے بعد قاسمی کی غالب کے ساتھ دلچسپی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور ۲۰۰۶ کے قاری کے ذہن میں موجود ان کی شخصیت کے نقوش دھندلانے لگتے ہیں۔
دوسرا مضمون بھی غالب کی صد سالہ برسی کے حوالے سے ہے۔ یہ مضمون ۱۹۶۸ میں لکھا گیا۔تیسرا مضمون بھی غالب کی صد سالہ برسی کے حوالے سے ہے اور یہ ۱۹۶۷ میں لکھا گیا۔ مضمون کا موضوع اور سن اشاعت ہر دو تقاضا کرتے ہیں کہ مرتب اسے دوسرے نمبر پر رکھتا۔ اس مضمون کا عنوان ہے ’’ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟‘‘ اس مضمون میں قاسمی اپنی جہالت کا اعتراف کرتے ہیں اور سابقہ مضمون کا حوالہ دینے کے بعد لکھتے ہیں۔’’اخباری رپورٹروں نے غالب کی برسی کی تاریخ کے سلسلے میں غلطی کی تو انہیں معاف کیا جا سکتا تھا۔ مگر اسے میری جہالت کہہ لیجیے کہ میں نے بھی کوئی تحقیق کیے بغیر ۲۷ فروری کو ہی غالب کا یوم وفات تسلیم کر لیا۔‘‘( پس الفاظ۔ ص۴۷)
اس کے بعد ۱۵ فروری کو لاہور میں دیگر ادبی تقاریب کی اطلاع دے کر اپنی بات کو پھر دہرایا۔کہ
’’لاہور کی روایتی تہذیبی سر گرمیاں ۱۵ فروری کو بھی عروج پر تھیں مگر غالب غائب تھا۔‘‘(پس الفاظ۔ص۴۸)
اور ظاہر ہے کہ صورتحال افسوس ناک ہے۔
۱۹۶۸ میں لکھے گئے مضمون کا عنوان ہی’’ غالب کی صد سالہ برسی ‘‘ ہے۔ اور اسی برسی کے حوالے سے اس وقت ہونے والے اعتراضات اور اقدامات کو موضوع بنایا ہے۔ اور اس سلسلے میں بعض مثبت تجاویز بھی دی گئی ہیں۔معترضین کا خیال تھا کہ غالب اس حد تک پاکستانی قوم کا نہیں جتنا اسے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن قاسمی صاحب نے معترضین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ غالب ہماری تہذیب، ثقافت اور معاشرت میں ، ہماری موسیقی اور مصوری میں ، ہماری روزمرہ کی گفتگو تک میں سانس لے رہا ہے۔ وہ تو ہماری نفسیات میں رچا ہوا ہے۔وہ تو ہمارے خون میں رواں ہے۔(پس الفاظ۔۔ص۴۳)۔ظاہر ہے غالب فراموشی اپنی تہذیبی شناخت سے انکار ہے۔
چوتھے مضمون کا عنوان ’’ جیتا جاگتا غالب‘‘ ہے۔اس کے آخر میں تاریخ اشاعت نہیں دی گئی لیکن مضمون کے پہلے جملے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ مضمون قاسمی صاحب نے کہیں آخری عمر میں لکھا ہے۔ اور لگتا ہے اس وقت تک وہ غالب کی تاریخ وفات دوبارہ بھول چکے تھے۔لکھتے ہیں۔
’’مرزا غالب کی وفات کو کم و بیش ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ‘‘
اگر ۱۸۶۹ میں ڈیڑھ صدی کا عرصہ جمع کریں تو ۲۰۱۹ بنتا ہے اور اگر اس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے تو ۲۰۱۹ سے بھی زیادہ۔ جبکہ اس وقت ہم ۲۰۰۶ میں سانس لے رہے ہیں۔
اس مضمون کا موضوع غالب کے فنی دوام کے اسباب تلاش کرنا ہے اور جس طرح موضوع کو نبھایا گیا ہے اس لحاظ سے یہ کالم نظر نہیں آتا بلکہ ایک سنجیدہ علمی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔قاسمی صاحب کے نزدیک غالب کے فنی دوام کے اسباب متعدد ہیں۔ لیکن سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ’’وہ خیال و اظہار دونوں کے معاملے میں تازہ کار ہے‘‘(پس الفاظ۔ ص۵۲)۔یہ جدت طرازی اور تازہ کاری ’’ محض اسلوب بیان پر یا اس کی طرز اظہار پر منحصر نہ تھی ‘‘(پس الفاظ۔ص۵۵)۔ بلکہ وجہ یہ ہے کہ ’’ غالب تو عقل و دانش اور مشاہدہ و فکر کا شاعر ہے‘‘(پس الفاظ۔ص۵۹)
پانچواں مضمون ’’ فکر و فن کا بے مثال امتزاج۔۔غالب‘‘ فروری ۱۹۶۸ کا نوشتہ ہے اور اس کی تحریک ایک مرتبہ پھر غالب کی صد سالہ برسی کی وجہ سے ہوئی۔ترتیب کے لحاظ سے یہ مضمون بھی تقدیم و تاخیر کا شکار ہے۔لگتا ہے مرتب نے مضامین بڑی محنت و جستجو تلاش کیے ہیں مگر ان کے مطالعہ باریک بینی سے نہیں کیا۔
یہ تحریر بھی ایک کالم کی بجائے عالمانہ مضمون کی شان رکھتی ہے۔اور اس میں نہ صرف غالب کی فکر کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے بلکہ فنی تقاضوں کے ساتھ اس فکر کی ہم آہنگی اور امتزاج کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اور فکر کو شعر میں رچانے اور شعر کو فکر میں بسانے (پس الفاظ۔ص۶۴) کی متعدد مثالیں جمع کی گئی ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں۔
’’غالب کے زمانے میں فکر کی انتہا تصوف تھی۔ چنانچہ اس کے کلام کا فکری عنصر بھی زیادہ تر مسائل تصوف ہی کے شاعرانہ اظہار پر مشتمل ہے‘‘( پس الفاظ۔۔ص۶۱)۔’’ مگر غالب اپنے عصر کے مسائل سے نہ صرف آگے بڑھ کر سوچتا ہے بلکہ وہ ترک دنیا کی بجائے اپنے عصر کے حقائق سے نمٹنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔‘‘(پس الفاظ۔۔۶۱)
چھٹا مضمون ’’ غالب کی حسرت تعمیر ‘‘ ہے۔ اس کے آخر میں بھی تاریخ اشاعت نہیں دی گئی۔ موضوع کے حوالے سے اس مضمون میں تنوع و ندرت پائی جاتی ہے اور اشارہ موجود ہے کہ مضمون کا عرصہ غالب کی صد سالہ برسی کے قریب کا ہے۔
’’مومن اور ذوق کی صد سالہ برسیاں گزر بھی گئیں مگر اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والوں کو کانوں کان پتہ بھی نہ چلا ‘‘(پس الفاظ۔۔ص ۶۷) قاسمی صاحب کے خیال میں ’’فن محض سے بھی ایک خاص سطح کی دلاویز شاعری تخلیق کی جا سکتی ہے مگر فکر محض شاعری کی نفی ہے‘‘(پس الفاظ۔۔ص۶۰)غالب کی شاعری کو جو چیز پہلو دار بناتی ہے وہ غالب کے ہاں فکر و فن کا خوبصورت امتزاج ہے۔وہ عصر نو میں اپنی حسرت تعمیر سے دست کش نہیں ہوتے۔’’ غالب نے شکست پر ماتم ضرور کیا ہے مگر شکست کو تسلیم کبھی نہیں کیا۔ غالب نے آشوب کی انتہا میں بھی حسرت تعمیر سے دست کشی اختیار نہیں کی اور نغمہ زن رہا۔‘‘( پس الفاظ۔۔ص۷۱)قاسمی صاحب کے خیال میں ’’غالب کی یہی حسرت تعمیر ہے جو اسے پہلو دار اور تہہ دار شاعر بناتی ہے‘‘(پس الفاظ۔۔ص۶۷)
متذکرہ بالا تحریر میں قاسمی صاحب کی عالمانہ شان کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کالم محض نہیں بلکہ ایک علمی نوعیت کا مضمون ہے اور اسے قاسمی کی یاد گار تحریروں میں جگہ دی جانی چاہیے۔
اگلا مضمون ’’غالب کی گل افشانی گفتار ‘‘ ۱۹۷۰ میں لکھا گیا۔ یہ مضمون گذشتہ مضامین کا چربہ ہے۔ اور جا بجا گذشتہ مضامین میں موجو د پیراگراف کے پیرا گراف نقل کیے گئے ہیں۔اضافہ اس قدر ہے کہ اس میں غالب کے زاید از ضرورت اشعار بھی نقل کیے گئے ہیں
آٹھواں مضمون ’’ غالب کی جستجوئے جمال‘‘ فروری ۱۹۶۹ میں لکھا گیا۔ اس میں قاسمی صاحب نے گلہ کیا ہے کہ’’ لو گ غالب کا سطحی اور رسمی مطالعہ کیوں فرماتے ہیں ‘‘(پس الفاظ۔۔ص۸۵)اور اپنے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’ غالب کا معیار جمال اپنا ہے اور اس معیار تک وہ محض جذبے اور واردات کے واسطے سے نہیں پہنچا بلکہ اس میں اس کے شعور و دانش کو بھی دخل حاصل ہے ‘‘(پس الفاظ۔۔ ص ۸۳)۔
آخری مضمون ’’سخن نا شناسی ‘‘ جلیل قدوائی کی کتاب انتخاب شعرائے بدنام پر تبصرہ ہے۔ یہ مضمون ۱۹۶۸ میں لکھا گیا اور طوالت کے لحاظ سے سب سے زیادہ طویل مضمون ہے۔ جلیل قدوائی نے بعض بدنام شعرا کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کو شش میں میر و غالب کی شاعر ی سے بھی وہ تمام عناصر ڈھونڈ نکالے ہیں جو ان شعر ا کی بدنامی کا باعث ہیں۔ قاسمی نے اس مضمون میں غالب کا کامیاب دفاع کیا ہے۔ اور جہاں جلیل قدوائی نے غالب کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہاں غالب کا اصل رنگ نمایاں کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں غالب کے بعض اشعار کی شرح بھی کی ہے۔
ان تمام نو مضامین کے مطالعہ سے ایک قاری با آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ قاسمی صاحب نے غالب کی بہتر تفہیم رکھنے کے باوجود غالب پر کوئی سنجیدہ علمی کام نہیں کیا لیکن غالب کی طرف داری میں اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کا مناسب اور بھر پور استعمال کیا ہے۔
٭٭٭ (ماہنامہ بیاض، نومبر ۲۰۰۶)
نئے موسموں کی بشارت
ادب کے بارے میں میرا نظریہ ہے کہ خیال اور زبان ہر د و سطح پر اسے عصری شعور سے ہم آہنگ اور جدید طرز احساس کا حامل ہونا چاہیے۔کلاسیکی ادب کا عمرانی مطالعہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ زندہ شاعری کی اساسی خصوصیت اپنے عصر سے ہم آہنگ ہونا اور آنے والے زمانوں سے مربوط ہو نا ہے۔
ہماری روایتی ثقافتی اقدار اور جدید معاشرتی اسلوب میں عدم مطابقت پائی جاتی ہے۔ زندگی کرنے کا فن آج سے سوسال پہلے کیا تھا ؟اور آج کے عہد میں زیست کرنا کیا ہے؟ خوف کل بھی تھا آج بھی ہے۔ مگر کل ہم کن چیزوں سے خوفزدہ تھے اور آج ہمیں کن چیزوں کا ڈر ہے؟ یہاں تک کہ محبوب کا تصور آج وہ نہیں ہے جو آج سے کچھ برس پہلے موجود تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر ادب کے معروضی مطالعے کے لیے بڑی گنجلک صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
بعض اوقات ہم اپنی ادبی روایت کا ناروا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر گئے وقتوں کے خیالات کی جگالی اور زبان کے استعمال سے ہم شعر و ادب کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔نئی تخلیق کو جدید تخلیقی تجربوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔اور ثقافت کی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں انہیں اپنے محسوسات کا حصہ بنائے بغیر ہم زندہ رہ جانے والی شاعری تخلیق نہیں کر سکتے۔
ہمارا جدید ادب لسانی و فکری مطابقت سے ظہور پذیر ہونے والی افراط و تفریط کا شکار ہے۔ غزل کے خصوصی حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور غزل کا عبور ی دور ہے۔ غزل اپنا پرانا چولا اتار رہی ہے۔ اور جدید معاشرتی اسلوب سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایک طرف روایتی سوز و گداز اور تغزل ہے تو دوسری طرف جدید طرز احساس سے پھوٹنے والے الفاظ و خیالات۔
یوں محسوس ہوتا ہے۔ کہ غزل میر اور غالب کے بعد ایک نئے کلاسیک کی تلا ش میں ہے۔ اس نئے کلاسیک کی آمد اب قریب ہے۔آج کی غزل اس نئے کلاسیک کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔
میری مندرجہ بالا گذارشات کے بعد اگر آپ نئے موسموں کی بشارت کا غیر جانبدارانہ مطالعہ فرمائیں تو اس میں آپ کو روایتی غزل اور جدید طرز احسا س باہم بر سر پیکار نظر آئیں گے۔اس کشمکش میں مختلف لسانی و فکری نمونے مرتب ہوئے ہیں جن کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے اور ادب میں آئندہ ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے مفید بھی۔
صابر آفاقی نے جہاں روایتی سوز و گداز سے کام لیا ہے وہاں وہ اردو زبان و ادب کے استاد نظر آتے ہیں۔ایسا استاد جو ادب پڑھانے کا طویل تجربہ رکھتا ہے اور اقبال کے زیر اثر ایک پیغام گو ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔ایسی غزلوں کی حیثیت زیادہ تر تخلیقی نہیں۔ بلکہ یہ وہ غزلیں ہیں جو پڑھنے اور لکھنے کے طویل تجربے کا ثمر ہیں۔حالانکہ ان میں بعض جگہ عمدہ اور اچھوتے اشعار بھی تخلیق ہوئے ہیں۔مثلاً
میں کیا بتاؤں کہ کیونکر کٹا سفر میرا
نفس نفس تری خوشبو قدم قدم ترا غم
٭
بتلاتے ہوئے راز مجھے خوف نہ کھا تو
ہے کون مرا جس سے تری بات کہوں گا
صابر آفاقی کے کلام کا دوسرا حصہ ایسے اشعار پر مشتمل ہے جہاں روایتی سوز و گداز جدید طرز احساس و اسلوب سے دست و گریباں ہے۔اس حوالے سے نذر میر کی جانے والی غزل کا مطالعہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔اس غزل میں شعوری سطح پر میر کے تتبع میں غزل کی وہ ڈکشن اور اسلوب اختیار کیا ہے جو اب متروک ہو چکا ہے مگر طرز احساس نیا ہے۔
بچ بچا کر ہی گھوم کیا معلوم؟
کس جگہ کوئی بم رکھا ہووے
٭
’ ہو‘ کی جگہ ’ ہووے ‘ کا استعمال، گھوم اور معلوم کے اندرونی قافیے بچ بچا میں ’چ‘ کی آواز کی تکرار اور اس کے علاوہ نرم آوازوں کی ترکیب و ترتیب ہمیں میر کے لب و لہجے کی یاد دلاتی ہے مگر ایک لفظ ’بم‘ نے اسے میر کے عہد سے موجودہ دور کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور مسلسل و متواتر دہشت گردی کے شکار آج کے زمانے کے احساس کو شعر کی پوری فضا پر حاوی کر دیا ہے۔اس قسم کے اشعار صابر آفاقی کے کلام میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
تجھے یہ آس کہ اخبار کا لباس ملے
مجھے یہ خوف کہ میری خبر نہ لگ جائے
٭
مجھ کو کچھ یاد نہیں تلخ حقائق کے سوا
میرا بیٹا کوئی دلچسپ کہانی مانگے
٭
رہتے ہیں جس حال میں کچی بستی والے لوگ
تجھ پہ روشن ہوتا تو وہ حال نہ سونے دیتا
اس قسم کے اشعار کہیں مزا دے جاتے ہیں تو کہیں بد مزا بھی ہونا پڑتا ہے۔
صابر آفاقی کی غزل کا تیسرا اور معتبر حصہ جدید طرز احساس کا غماز ہے۔اور میرا خیال ہے کہ آگے چل کر یہی غزل نئی غزل کی کلاسیک قرار پائے گی۔اس حوالے سے ان کے متعدد اشعار قابل ذکر ہیں۔
بلائیں گھومتی پھرتی ہیں باہر
مرے بچے نہ نکلیں اب گھروں سے
٭
دوستی اپنی جگہ پر صحن سے رستہ نہ دو
ایک کو آنے دیا تو دوسرا بھی آئے گا
٭
ہر اک شے کی ضرورت کے مطابق قدر و قیمت ہے
خزاں میں اپنے آنگن کا شجر اچھا نہیں لگتا
٭
کرایہ دار کو دیوار و در سے تھی الفت
نکل سکا نہ وہ خالی مکان کر کے بھی
٭
اک کر بِ مسلسل میں گرفتار ہیں ہم لوگ
اب پیٹ کو پالیں کہ ترے حسن کو چاہیں
٭
آنکھوں میں بس رہے ہیں کئی دن سے رتجگے
جو ہو گیا ہے حادثہ ڈر بھی اسی کا تھا
مندرجہ بالا اشعار کا تجزیہ کر کے دیکھیں تو طرز احساس اور اسلوب آج کی ثقافت اور عہد کا ہے۔بعض جگہوں پر تو پرانے طرز احساس سے اس کا رشتہ معکوس یا تضاد کا ہے۔ نمونے کے طور پر صرف ایک شعر کا تجزیہ حاضر ہے۔
دوستی اپنی جگہ پر صحن سے رستہ نہ دو
ایک کو آنے دیا تو دوسرا بھی آئے گا
اس شعر میں آپ کو عہد جدید کی ثقافت کی جھلک صاف دکھائی دے گی۔اور روایت سے اس کا رشتہ معکوس کا ہے۔ہماری روایت میں دوست کے لیے گھر اور دل کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔بلکہ ایک ایسی سپردگی اور سرشاری کا عالم پایا جاتا ہے کہ اس کا موازنہ یا مقابلہ کسی دوسرے شخص سے کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ہم اپنے اس ذاتی تاثر کو منطق اور میزان مانتے ہیں۔مگر عہد حاضر اشیا کو معروض حالت میں دیکھتا ہے۔جو ایک شخص کا حق ہے وہ ہر شخص کا حق ہے۔مگر ہر شخص کو ہم اپنی privacyمیں داخل ہونے نہیں دے سکتے۔لہٰذا طے یہ پایا کہ دوستی اپنی جگہ، ہماری ذات، انا اورprivacy اپنی جگہ۔اس لیے دوست کو بھی دل، مکان یا رستے میں داخل ہونے نہ دو۔اس طرح دوسرے لوگوں کا حق از خود ختم ہو جائے گا۔اور دوست بھی ہماری سچی اور اصلی شکل سے واقف نہ ہو سکے گا۔دوستی اپنی جگہ قائم رہے گی اور ذاتی مفادات اپنی جگہ پر رہیں گے۔اور ہم لوگوں کی نظروں میں نہ آ سکیں گے۔یہ رویہ بڑا غیر دوستانہ ہے مگر آج کے عہد میں روح کی طرح دوڑ رہا ہے۔ہم منافقوں کی بستی میں آئینے لے کر کیوں پھریں۔۔۔اپنا چہرہ ہی دیکھ لیں۔
اگر یہ آج کا معاشرتی رویہ اور اسلوب حیات ہے تو اسے ہمارے طرز احساس کا حصہ بننا چاہیے اور اسے شعر و ادب میں ڈھلنا چاہیے۔بعض لوگوں کی عدم قبولیت کے خدشے کے باوجود اسے کھلے دل سے تسلیم کر لینے میں ہمیں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے۔
تنقید بطور اصول ادب کا معروضی مطالعہ ہے۔یہ معروضیت کلی طور پر ممکن نہیں۔ماضی کی طویل ادبی روایت اور ہمارے نظریات کے مابین جو مساوات تشکیل پاتی ہے اسے ہم غیر جانبداری کا نام دے دیتے ہیں۔صابر آفاقی کی غزل کا معروضی مطالعہ میرے لیے یوں بھی مشکل ہے کہ میں بطور قاری ایسے ہی اشعار پسند کرتا ہوں اور بطور شاعر جدید طرز احساس یا جدیدیت کی طرف مائل ہوں اور ایسے ہی اشعار لکھنا پسند کرتا ہوں جس قسم کے اشعار کا میں نے اوپر حوالہ دیا ہے۔لہٰذا میں صابر آفاقی کی غزل کو نئی کلاسیک غزل کی طرف اہم پیش رفت قرار دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خیال اور الفاظ ہر د و سطح پر تبدیلی کا یہ عمل ہمارے نقاد جلد قبول کر لیں گے۔
٭٭٭ مطبوعہ :روزن انٹرنیشنل شمار ہ ستمبر ۲۰۰۴
بیدار حسیات کی شاعری
ہماری معاشرتی زندگی میں مرد اور عورت کی تقسیم اتنی مستحکم اور مستقل ہے کہ مادی و جسمانی سطح سے لے کر باطنی و ذہنی سطح تک یہ مختلف منطقوں کی مخلوق نظر آتے ہیں۔آج اکیسویں صدی کی خشت اول پر کھڑے ہو کر بھی بطور انسان ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے کا رویہ ہمارے درمیان موجود نہیں۔
یہ تقسیم زندگی کے ہر شعبے کی طرح ادب میں بھی نمایاں ہے۔شاعرات کی ایک معقول تعداد مختلف رسائل و جرائد میں بڑی کثرت سے چھپ رہی ہے۔شاعرات کی شاعری پڑھتے ہوئے سہاگن، سوتن، بیاہ، داج، گھونگھٹ، کجرا، گجرا، لالی، ہار، ڈنڈیاں، چوڑا، جوڑا، ہنڈیا، سسرال، میکہ، چنری، کوکھ وغیرہ جیسے الفاظ آپ کو عام مل جائیں گے۔بلکہ ہیند لوشن، بلش آن، نیل پالش، لپ اسٹک، شیمپو اور ٹیوزر جیسے الفاظ بھی شاعرات کی شاعری میں موجود ہیں۔لیکن شاہین مفتی ایک ایسی شاعرہ ہے جس کی ڈکشن عورت کے محدود کینوس سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس نے تمام قدیم و جدید تنقیدی و تخلیقی رجحانات کو اپنی شخصیت میں جذب کیا ہے۔
شاہین کی شاعری میں قدیم داستانوں کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ آسیب، مرگھٹ، بھو ت، تعویذ، منتر، اسم، ورد، سائے، ہزار پائے، بیاباں، بوڑھے برگد، اژدہے، ناگ، آقا، کنیزیں، خواجہ سرا، فاتحین، غلام، اجاڑ جنگل، مہیب صحرا، بے چہرہ صورتیں، اور لوح محفوظ اس کے ہاں عام ہیں۔شاہین ایک اساطیری لڑکی ہے۔اس کے ہاں پلک جھپکنے میں سال بیت جاتے ہیں ، سونی اور سنسان گلیاں ہیں جن میں انجانی چاپ ہے، مڑ کر دیکھنے والے پتھر ہو جاتے ہیں ، کربل کتھا ہے ، جان عالم کا تذکرہ ہے، دوسرا جنم اور حیرت کی ایک نظم ہے۔
اسرار، خوف، حیرت اور دہشت کے اعتبار سے منیر نیازی کی شاعری ایک حوالہ ہے۔لیکن اگر آپ شاہین کی شاعری کا مطالعہ کریں تو آپ کو اسی حیرت سے دوچار ہونا پڑے گا اور آپ شاہین کی شاعری کے طلسم میں گرفتار ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ داستانوی فضا ’’مسافت‘‘ کی نسبت ’’ امانت‘‘ میں زیاد ہ گہر ی اور عام ہے۔ یہ نظمیں وادی طلب سے ابھری ہیں۔شام ڈھلے کسی الاؤ کے گرد جمع ہونے والوں کو سنائی جانے والی کہانیوں کی طرح، خواب اور بیراگ سے سجی ہوئی۔
شاہین زندگی کے چھوٹے چھوٹے تجربات کو اپنی نظم کا موضوع بناتی ہے۔اس کی متخیلہ اور ساری کی ساری حسیات بیدار اور فعال ہیں۔میں یہاں صرف دو حسیات باصرہ اور لامسہ کے استعمال کا ذکر کروں گا۔کیونکہ یہ دونوں حسیات شاہین کی شاعری میں زیادہ سے زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔باصرہ نے خواب، آنکھ، چھت، رنگ اور تصویر کے استعارے جنم دیے ہیں تو لامسہ نے حرارت و یخ بستگی اور لمس کی علامتی ابعاد روشن کی ہیں۔
باصرہ اپنے تفاعل کے انتہائی مدارج طے کرتے ہوئے حقیقت کو لباس مجاز میں دیکھنے کی خواہش مند ہے۔
خداوندا
زمیں پہ آ
کہ دنیا لمس کی خواہش میں ایسی مضطرب ہے
ہر اک شے
دوسری سے
اس کے ہونے کی گواہی چاہتی ہے
(شہادت)
باصرہ کے حوالے سے قابل غور استعارہ چھت ہے۔ہماری معاشرتی قیود میں عورت کے بیرونی دنیا سے ابتدائی رابطے کا واحد ذریعہ چھت ہے۔چھت بلندی و رفعت کی بھی علامت ہے اور خواہش، تمنا یا حسرت کی بھی ، یہ تحفظ کی بھی علامت ہے اور عدم تحفظ کا خوف بھی ، یہ والدین، بھائیوں، خاندان یا ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں اور ملک، ریاست، قانون اور تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کا بھی۔
شاہین کی شاعری میں چھت کا استعارہ اپنی تمام ممکن ابعاد کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔
جانے کیوں گوش بر آواز ہے وہ
دل کوئی ٹین کی چھت ہے
جس پر
اشک گرنے کی صدا آئے گی
( ابھی تک)
میں واپس جو لوٹی تو میں نے یہ دیکھا
میرے گھر کی ہر چھت
ٹپکنے لگی تھی۔
( ہجرت کی ایک نظم)
پہلی نظم میں چھت ایک قسم کے تحفظ کی علامت ہے تو دوسری نظم میں چھت سے نکل کر جس عدم تحفظ کا احساس گھیرتا ہے وہ واپس چھت کے نیچے آ کر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ایک اور نظم’’ آنکھوں کا عذاب‘‘ میں حفاظت کا حصار ایک بوجھ بن گیا ہے۔ضرورت سے زیادہ تحفظ نے ایک عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔
کبھی تم نے
شہروں کی گلیوں میں ایسے مکانوں کو دیکھا ہے جن کی چھتیں
اپنے ہی بوجھ سے دب گئی ہوں
(آنکھوں کا عذاب)
شاہین اپنی والدہ کے ساتھ تنگ گلی کے ایک پرانے مکان میں رہتی رہی ہے۔ بقول شریف کنجاہی اسے کوئی گاڈ فادر (God Father) بھی نہیں مل سکا۔ اس تناظر میں مسافت کی ایک نظم میں چھت کا استعمال ملاحظہ فرمائیں۔
جس گھر کی چھتیں بوسیدہ ہوں
اس کی کچی دیواروں پر
ساون کے اندھے موسم میں
یہ آنکھ مچولی
ٹھیک نہیں
(آنکھ مچولی)
’’میں موسم کے معنی نہیں جانتی ہوں ‘‘ میں چھت آزادی کی خواہش کی علامت ہے۔’’ محاصرہ‘‘ اور ’’فقط ایک اندھیرا‘‘ ٭٭ت قرار دباب متعد میں چھت کی علامت سیاسی تناظر رکھتی ہے۔
ذرا سی دیر کو
سو لیں
بہت ممکن ہے کل یہ چھت بھی
ہم سے اجنبی ٹھہرے
(محاصرہ)
فلک اپنی اندھی مسافت سے تھک کر
مرے گھر کی چھت پر
بہت دیر سے چپ کھڑا ہے
(فقط ایک اندھیرا)
’’ جواب گم ہے‘‘ میں چھت تقدیر کے جبر کی علامت ہے۔
ہوا نے اس
آسماں کی قدیم چھت پر
خود اپنا مسکن بنا لیا ہے
(جواب گم ہے )
باصرہ کے حوالے سے رنگوں کے فنکارانہ استعمال میں شاہین فیض، ناصر اور منیر نیازی کے ہم پلہ نظر آتی ہے۔اس کی مصوری کی طرف رغبت یا دلچسپی معلوم ہوتی ہے۔اس نے رنگ کے علاوہ خط، لکیر، دائرہ، حاشیہ وغیرہ کا استعمال بھی کیا ہے۔اس کی نظموں میں منظر کو قلم بند کرنے کی بجائے فلم بند کرنے کا رجحان عام ہے۔ کبھی وہ چلتے پھرتے منظر کو بالکل ساکت کر دیتی ہے۔یہاں وہ still photographer کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اور کبھی جامد وساکت اشیا کو اپنے قلم کے زور سے متحرک اور جاندار بنا دیتی ہے۔
شاخ کی کلائی پر
چاند اپنا سر رکھ کر
بس ابھی ہی سویا ہے
(اے ہوا دبے پاؤں )
آنکھ کے سنگھاسن پر
ایک پھول سی ساعت
بن سنور کے بیٹھی ہے
(روشنی کی ایک نظم)
وداع شام کا لمحہ
دیوار سے لگ کر
بہت چپ چا پ بیٹھا ہے
(پروٹوکول)
شاہین نے رنگوں کی طرف میلان کا واضح اعلان ’’ہوا محل ‘‘میں کیا تھا۔
نیل گگن کا
الھڑ بادل
رنگوں کی پچکاری بھر بھر
پورب پچھم
ہولی کھیلے
(ہوا محل)
اس نے جا بجا اپنی نظموں میں کاسنی، سرخ، سبز، کالا، سنہری، نیلا، پیلا اور زرد رنگ استعمال کیا ہے۔لیکن زرد رنگ شاہین کی شاعری کو سمجھنے کے لیے Master Keyکا کام دے سکتا ہے۔شاہین نے اس رنگ کا استعمال شعوری اور لا شعوری دونوں سطحوں پر کیا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’فیض کی شاعری میں رنگ کی اہمیت‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے۔
’’قدیم اساطیر میں بعض رنگ دیوی دیوتاؤں سے مخصوص رہے ہیں۔
جیسے سرخ رنگ جنگ وجدل۔۔۔‘‘
(شاہین ایک اساطیری لڑکی ہے)
شاہین نے ایک جگہ ایک تجربہ بیان کیا ہے جس کے مطابق بچے زرد، سفید اور گلابی رنگ کو زیادہ دیکھتے ہیں۔شاہین کی شاعری میں زر د اور سیاہ رنگ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔جبکہ سفید رنگ بالکل مفقود ہے۔امانت کی نظموں سوئمبر، دوسری خواہش، آنکھوں کا عذاب، امر بیل، گواہ رہیے، لمس ناآشنا، نئے سال کی پہلی نظم اور آپ کے نام میں زرد اور لمحے کا روگ، قبلہ جاں کا ایک منظر، آکٹوپس، عافیت کی ایک نظم، دوسری کرن، ہوا محل اور اک بات ٹھہر جائے میں کالا رنگ جس طرح استعمال ہوا ہے اس کی تفہیم اور تجزیے کی ضرورت موجود ہے۔
زرد رنگ آگ اور دھوپ سے مشابہت کے باعث حرارت بخش اور حرارت افروز خیال کیا جاتا ہے۔جبکہ اسے زوال، موت، مایوسی و نامرادی، زود رنجی، نفرت اور رہبانیت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ناصر کاظمی کی شاعری کا مطالعہ اس بات کی تصدیق کرے گا۔ فیض اور منیر نیازی کی شاعر ی میں بھی زرد رنگ اپنی علامتی ابعاد کے ساتھ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔شاہین کے ہاں زرد رنگ کے استعمال کے نمونے دیکھیں۔
دکھوں کے زرد پہاڑوں کو کاٹ کر ان سے
خوشی کی جوئے رواں لا سکو تو لے آؤ
(سوئمبر)
نارسائی کا دکھ
میرے چاروں طرف
اجنبی رنگ کے
پھول بکھرائے گا
جن کی شاخیں بہت زرد ہوں گی۔۔۔ادھر
(امربیل)
آپ نے
نہیں دیکھا
اس کے برف ہاتھوں میں
میرا زرد سا چہرہ
( گواہ رہیے)
آنکھ کے کاسہ گدائی میں
دھوپ کے زرد رنگ سکے ہیں
(آپ کے نام)
یہ استعمال تو شعوری ہے۔ اب لا شعوری استعمال کی طرف آئیں۔برق کے مطابق جو حرف ہم ادا کرتے ہیں وہ خاص رنگ اور طاقت کا حامل ہوتا ہے۔الف کا رنگ سرخ، ’’ب‘‘ کا نیلا، ’’د‘‘ کا سبز اور ’’س‘‘ کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ شاہین کی شاعری میں ’’س ‘‘کی آواز کثرت سے استعمال ہوئی ہے۔آپ صرف دونوں مجموعوں میں اس کی نظموں کے عنوانات کی فہرست پر نظر دوڑائیں۔امانت کی ۷۴ نظموں میں سے ۲۳ نظموں اور مسافت کی کل ۹۴ نظموں میں سے ۳۴ کے عنوانات میں ’’س‘‘ کی آواز موجود ہے۔یعنی تقریباً ایک تہائی نظموں کے عنوانات اس آواز کے حامل ہیں۔مزید برآں امانت کی ایک نظم ’’عجیب رت‘‘ کل تیرہ سطروں پر مشتمل ہے جن میں سے نو سطروں میں ’’س‘‘ کی آواز ہے۔ دوسرے مجموعے مسافت کا نام ہی میں ’’س‘‘ موجود ہے۔جبکہ اس میں موجود ایک نظم’’ سفر میں مشورہ اچھا نہیں ہوتا‘‘ میں کل گیارہ کی گیارہ سطروں میں ’’س‘‘ کی آواز تکرار کے ساتھ استعمال ہوئی ہے۔
زرد رنگ کا شعوری اور لاشعوری استعمال شاہین کی شاعری کا نہاں خانہ ہے۔ا س پر مستزاد کالا رنگ جو رات، گناہ، جرم، موت، جادو وغیرہ جیسی علامتی ابعاد رکھتا ہے۔
باصرہ کے حوالے سے آلہ بصارت کا ذکر بھی کثرت سے ہوا ہے۔اسما و افعال کی معقول تعداد کا تعلق دیکھنے کی حس سے ہے۔چشم و نظر یا ان کے متبادلات شاہین کی شاعری میں فراوانی سے استعمال ہوئے ہیں۔
میری انگلی پکڑ
مجھ کو رستہ دکھا
مصطفی مصطفی
(مناجات)
اشک کو لہو کر لوں
حسن روبرو ہو جب
آنکھ با وضو کر لوں
(عبادت)
جہاں تک بھی نظر جائے
فقط تیرا اجالا ہے
تو میری ذات کا روشن حوالہ ہے
(ندیم صاحب کے لیے)
لمحے کی اک ننھی تتلی
دھیان کے روشندان سے ایسے جھانک رہی ہے
جیسے تیری اچھی آنکھیں
( ایک دن )
یہ مسافت کی پہلی چار نظموں سے اقتباسات ہیں۔یہ رجحان لگاتار اور مستقل ہے۔اور سارے شعری سفر میں باصرہ شاہین کے ساتھ ساتھ ہے۔
دوسری حس جس سے شاہین نے زیادہ کام لیا ہے وہ لامسہ کی ہے۔شاہین لمس کی خواہش میں مضطرب نظر آتی ہے۔اس کی شاعری میں بدن، رات اور خواب ہمیں اس کی خواہشات کی تفہیم کے لیے تناظر مہیا کرتے ہیں۔بدن کے ساتھ جو اسما و افعال استعمال ہوئے ہیں ان کا زیادہ تر تعلق حرارت و یخ بستگی کے مختلف درجات سے ہے۔صلیب بدن، خیمہ تن، فصیل جسم جیسی تراکیب عام ہیں۔ افعال میں لپٹنا، چمٹنا، چھونا، چومنا، چاٹنا، پکڑنا لمس کا حوالہ رکھتے ہیں اور شاہین کی شاعری میں بار بار استعمال ہوئے ہیں۔
کہ اس گلی کا
کوئی نرم جھونکا
مجھے چھو کے گزرے
تویہ
فصل گل ہے
(میں موسم کے معنی نہیں جانتی ہوں )
بس ایک دکھ کا ہزار پایہ
دل حزیں سے
چمٹ گیا ہے
نہ کاٹتا ہے
نہ چھوڑتا ہے
(اساطیری لڑکی)
دل درماندہ سے لپٹی ہوئی تنہائی ہے
(کیسہ خواب میں کچھ بھی نہیں )
باصر اور لامسہ کے ساتھ دیگر حواس خمسہ کا استعمال بھی شاہین کی شاعری میں عام ہے۔ یہ رجحان تفصیلی مطالعہ کا متقاضی ہے۔ تاہم شاہین کی شاعری کا سرسری مطالعہ سے بھی یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاہین کی شاعری بیدار حسیات کی شاعری ہے۔
٭٭٭ (روزن انٹرنیشنل )
روشنی، دیا اور خواب
ذرائع ابلاغ کی کثرت کے اس عہد میں information اور disinformation میں امتیاز مشکل ہو گیا ہے۔روشنیوں کی چکا چوند پستہ قد بونوں کو دیو قامت دکھلا سکتی ہے اور دیو قامت شخصیات کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح رینگتی ہوئی مخلوق۔ چشم بصیرت سرابوں میں گرفتار ہے اور سچ کا سرا ہاتھ سے کھسکتا چلا جاتا ہے۔
شمیم روش کی شاعری کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ محترم جناب ڈاکٹر وفا راشدی نے جب ان کے شعری مجموعے ’’پلکوں کے درمیان‘‘ اور ’’رنگ سے تصویر تک‘‘ مجھے ارسال کیے تو میرے لیے روش کا نام بالکل نیا تھا مگر ان کی خوبصورت شاعری پڑھ کر اب یہ نام میرے دل و دماغ سے چپک کر رہ گیا ہے اور اس شاعری میں یقیناً کسی بھی قاری کے ذہن سے چپک جانے کی صلاحیت موجود ہے۔
روش کے کلام کی خوبصورتی کا دارومدار ان کے جذبے کی سچائی پر ہے۔ان کا کلام کسی راجا یا رانی کی کہانی نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے شخص کے درد کا قصہ ہے۔شاعری کے پیکر روش نے زندگی سے تراشے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ زندگی کی ضرورتیں اور ہی کچھ ہیں اور صرف شعر کہنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔
مرے خدا مری اپنی ضرورتیں بھی ہیں
مجھے کچھ اور بھی دینا تھا شاعری دے کر
اس بھوکی، ننگی اور خوف کی ماری زندگی نے ہمیں جو کچھ دیا روش نے اپنی شاعری میں سمو دیا۔
مجھ کو لگتا ہے میرے لٹنے میں
ہاتھ شامل ہے شاعری کا بھی
لٹنے کی یہ کہانی ان کے چہرے پر لکھی ہے۔اور جو کچھ روش کے چہرے پر لکھا ہے وہی ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کی کہانی ہے۔
میرے چہرے پہ کیا نہیں لکھا
وہ بڑا رحم کرنے والا ہے
ان چہروں پر ملال ہے یا پھر سوال۔اس لیے روش کی شاعری میں دکھ درد کے ساتھ ساتھ استفہام کی فضا بڑی عام ہے۔وہ حروف استفہام سے کثرت اور عمدگی سے کام لیتے ہیں۔وہ فیصلے صادر نہیں کرتے صرف سوال پیدا کرتے ہیں۔
سوال قاری کے ذہن میں بھی ہیں اور ان سوالوں کے کچھ نہ کچھ جواب اس نے اپنے طور پر تلاش کر رکھے ہیں۔یہ سوال روش اور قاری کا مشترکہ ذہنی سرمایہ ہیں۔شاید اسی لیے روش کی شاعری قاری کے ذہن میں تحریک پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔لفظوں کے نقوش بڑے متحرک ہیں۔’’رنگ سے تصویر تک ‘‘ کا عمل قاری اپنی ذہنی استعداد سے پورا کرتا ہے۔قاری کی شاعری میں شرکت سے لفظ اپنی پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہو جاتا ہے۔ اور مفہوم قاری کے ذہن سے چپک کر رہ جاتا ہے۔
سوال سے منظر ابھارنے کا عمل روش کا خاص وصف ہے۔ان کی تصویر سازی میں لفظ اور منظر کا رشتہ تجریدی نہیں۔ وہ استفہامیہ یا ہلکے اشارے سے خیال کی حرکی قوت کو مہمیز دیتے ہیں اور تصویر قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی بچے کو آڑھی ترچھی لکیریں دے کر اسے تصویر مکمل کرنے اور اس میں رنگ بھرنے کو کہا جائے۔
جانے کس نے روش دریچے میں
برسوں پہلے چراغ رکھا تھا
گہری ہوتی ہوئی شام، جب دیا جلانے کا وقت تھا، اجڑے ہوئے ویران دریچے میں، بجھے ہوئے چراغ سے ماحول کی اداسی کا منظر جو قاری بنائے گا وہ اس کے خیال کی اپنی حرکی قوت بنائے گی۔ایک اور منظر کی طرف اشارہ۔
یہ نہ ہو گھر کو آگ لگ جائے
کھڑکیوں میں دِیا جلانے سے
روش کی شاعری میں ایسے اشعار کی کمی نہیں
کتنا مشکل ہے خالی جیب لیے
لوٹ کر شب کو اپنے گھر جانا
٭
ہر روز کوئی زندہ اٹھا دیتا ہے مجھ کو
ہر روز میں کہتا ہوں کہ مر جاؤں گا اب کے
٭
تمھاری آنکھ میں آنسو کبھی نہیں آتے
تو کیا تمھیں کوئی اپنا نظر نہیں آتا
تصویر بنانے کے عمل میں روشنی کا کردار بڑا اہم ہے۔ روشنی ہی منظر کو ابھارتی اور روشنی ہی منظر میں ابہام پیدا کرتی ہے۔اس لیے روشنی روش کی شاعری کا مرکزی استعارہ ہے۔
خواب رکھ دے کوئی خوشی شاید
کچھ اتر آئے روشنی شاید
٭
تجھ سے اے تیرگی شب میرا
ایک رشتہ تھا روشنی کا بھی
٭
میرا یہ حال ہے کہ آنکھوں کو
روشنی امتحان لگتی ہے
٭
بعض اوقات یہ روشنی نا دیدہ ہے اور یہاں اس کا رشتہ خواب سے جڑ جاتا ہے۔ایسی روشنی جو آج تک ہم نے دیکھی نہیں لیکن جس کے خواب ہماری آنکھوں میں جان بن کر ٹھہر گئے ہیں۔روش کے ہاں بعض اوقات خواب اور روشنی ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر آتے ہیں۔
خواب ہے یا دِیا ہے آنکھوں میں
جانے کیا جل رہا ہے آنکھوں میں
٭
خواب رکھ دے کوئی خوشی شاید
کچھ اتر آئے روشنی شاید
اور بعض جگہ سوال کی صورت میں
سوال یہ نہیں تاروں میں روشنی کیوں ہے؟
سوال یہ ہے کہ تاریک زندگی کیوں ہے؟
خواب یا مستقبل کی یہ امید روش کو اتنی عزیز ہے کہ
میں اپنے خواب کسی اور کو نہیں دوں گا
کہ میری ڈوبتی آنکھوں میں جان کافی ہے
روشنی، دیا اور خواب روش کا خاص استعارے ہیں۔جو شاعر کے مثبت ذہنی رجحان کی طرف ایک اشارہ ہے
آندھیوں سے کہو کہ رک جائیں
میرے گھر میں دِیا ہی سب کچھ ہے
٭
عجب نہیں کہ کسی برف پوش وادی میں
میں آگ لینے بڑھوں اور روشنی مل جائے
٭
کل خواب تھے آنکھوں میں
اب آنکھ میں پانی ہے
قاری کو شاعری میں شریک رکھنے کے لیے استفہام کے بعد ان کا دوسرا بڑا حربہ مکالمے کی فضا پیدا کرنا ہے۔مکالمے کی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور تحریر میں ڈرامائی عنصر پیدا کر دیتا ہے۔ اس طرح تحریر بوجھل نہیں ہوتی اور قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔یوں تو استفہام بذات خود مکالمے ہی کی ایک شکل ہے مگر روش قاری کو شریک گفتگو رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
بعض اوقات یہ مکالمہ براہ راست دوسرے شخص سے ہے۔ضمیر واحد حاضر کا استعمال ان کی شاعری میں بڑا عام ہے۔وہ در و دیوار سے گفتگو کرنے کے قائل معلوم نہیں ہوتے۔اگرچہ بے جان اشیا سے بھی مکالمہ ملتا ہے مگر عموماً ً مکالمہ جیتے جاگتے اپنے ہی جیسے شخص سے ہے۔
پوچھ مت کیسے اپنی سانسوں کا
ہم نے رشتہ بحال رکھا ہے
ان کے ہاں کثرت سے ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں دردو غم کے ساتھ ساتھ مکالمے کی فضا پائی جاتی ہے۔مثلاً
یادوں کو آنسوؤں میں بہانے سے فائدہ؟
تم ہی بتاؤ خود کو رلانے سے فائدہ؟
٭
تم تو سب راستوں سے واقف ہو
پاؤں رکھتے ہوئے گزر جانا
٭
آنکھ پتھر کی پاؤں پتھر کے
تم تو قائل نہ تھے مقدر کے
٭
تجھ کو شاید خبر نہ ہو لیکن
وقت اور فاصلہ ہی سب کچھ ہے
٭
ملے ہو سوچو ذرا کتنے ماہ و سال کے بعد
کوئی کمال نہ کرنا اب اس کمال کے بعد
بعض اوقات ندائیہ یا تخاطب کے کلموں سے مکالمہ تخلیق کیا ہے۔
دیکھنا اس سکوت شب میں کہیں
کوئی خوشبو مکان سے نکلی
بعض اوقات مکالمہ براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ہے
اس سے کہنا مرے چہرے سے یہ آنکھیں لے جائے
اس سے کہنا کہ کہاں تک کوئی رستہ دیکھے
٭
بعض اوقات وہ اپنے آپ کو غیر ذات تسلیم کر کے مکالمہ پیدا کیا ہے۔یہاں ہمدردی کا جذبہ وافر ہے۔بعض جگہ خود کلامی ملتی ہے۔بہر حال جو بھی ہو وہ قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔اور ان کی شاعری پڑھتے ہوئے کہیں بھی فضا بوجھل نہیں ہوتی۔
قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کا تیسرا بڑ ا حربہ کلام میں نرمی اور شائستگی ہے۔وہ دم گفتگو نرم ہیں۔لفظوں میں صرفی و نحوی ترتیب کو بہت کم توڑتے ہیں۔نرم آوازوں کے استعمال اور حروف کی خوشگوار تکرار سے کلام میں موسیقیت پیدا ہو گئی ہے۔طول کلام سے بچنے کے لیے صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔’’ک‘‘ کی آواز بذات خود کو ئی نرم آواز نہیں مگر اس کے شاعرانہ استعمال نے اسے کس قدر گوارا بلکہ دلکش بنا دیا ہے۔
وہ بھی کمال کا تھا مصور کہ شام تک
آنکھیں نہ بن سکیں تو سمندر بنا دیا
٭
کیا بتائیں کہ کیا چرا لائے
اس کی محفل سے چشم تر کے لیے
٭
دل کی کھڑکی پہ دستکیں مت دو
یہ تو اپنی خوشی سے کھلتی ہے
مندرجہ بالا اشعار پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ ’’ک‘‘ کی نسبتاً ناگوار آواز کو نرم آوازوں کے ساتھ اس طرح مکرر استعمال کیا ہے کہ شاعرانہ حسن پیدا ہو گیا ہے۔
روش کی شاعری کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں شاعرانہ اعتماد کی کمی نہیں۔وہ غالب سے لے کر ناصر تک کی زمین میں غزل کہنے سے نہیں گھبراتے۔غالب کی زمین
دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
میں شعر کہنے کی کوشش کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ وہ یہ حوصلہ کر گزرے ہیں۔اسی طرح ناصر کی زمین
دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
میں شعر کہنا اور اس میں جوہر کو نمایاں کرنا آسان بات نہیں ہو سکتی لیکن اس زمین میں روش کے کم از کم دو شعر ان کے شاعرانہ اعتماد کی مضبوطی کا باعث ضرور شمار کیے جا سکتے ہیں۔
تیرگی کا اسے پتہ کیا ہے
اس نے دیکھی ہی روشنی ہے ابھی
٭
دن نکل آئے تو چلے جانا
رات دیوار پر کھڑی ہے ابھی
اساتذہ سے اخذ فیض کرتے ہوئے روش کی شاعرانہ خلاقی اپنے جوہر دکھاتی رہتی ہے۔ وہ قافیہ و ردیف یا بحر کے معمولی تغیر و تبدل سے اپنی اختراعی طبیعت کا اظہار کرتے ہیں تو کہیں اساتذہ کے مضامین کو اپنے اسلوب میں پیش کرنے کی کاوش۔مثلاً غالب کے دیوان کی پہلی غزل ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا ‘‘ اور ’’ رنگ سے تصویر تک‘‘ کی پہلی غزل ’’ عشق ہی پھیلا ہوا ہے رنگ سے تصویر تک‘‘ بحر اور قافیہ میں یکساں ہے مگر ردیف ’’کا‘‘ کو ’’تک ‘‘ سے بدل دیا گیا ہے۔ اس طرح غالب کی غزل
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
ہو گیا رقیب آخر جو تھا راز داں اپنا
کا ردیف قافیہ روش نے بحر میں معمولی تبدیلی کے ساتھ استعمال کیا ہے
زمین اپنی تراشو اور آسماں اپنا
پرائے خواب سے بنتا نہیں جہاں اپنا
فیض کی غزل ’’ دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے ‘‘روش کی غزل ’’ یہ رات رو پڑے گی مجھے خود گزار کے ‘‘، اصغر گونڈوی کی غزل’’ آلام روزگار کا آساں بنا دیا ‘‘ اور روش کی غزل ’’کچھ تو نے دل کو درد کا دفتر بنا دیا ‘‘، مصطفی زیدی کی غزل ’’ اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو ‘‘ اور روش کی غزل ’’ اے دوست مرے ان آنکھوں میں چھپا لے مجھ کو‘‘ کا تقابلی مطالعہ ہمیں روش کے شاعرانہ اعتماد کا ثبوت دیتا ہے۔
روش کی غزل میں یوں تو داخلیت کر رنگ زیادہ نمایاں ہے مگر وہ اپنے خارج سے بھی بے خبر نہیں رہے۔اپنے ارد گرد اور بالخصوص کراچی کے حالات کا عکس ان کی شاعری میں صاف نظر آتا ہے۔مگر ان حالات کو دیکھتے یا ان کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ مریضانہ ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور نہ شاعری کو سیاسی نعرہ بازی میں تبدیل ہونے دیتے ہیں۔وہ خوابوں اور روشنیوں کے شاعر ہیں اس لیے یہاں بھی ان کا رجحان مثبت اور ہمدردانہ ہے۔
شہر سارا ہی ننگے سر ہے روش
کتنے ٹکڑے کرو گے چادر کے
٭
آندھیوں سے کہو کہ رک جائیں
میرے گھر میں دیا ہی سب کچھ ہے
٭
کتنے کچے مکان ٹوٹ گئے
ایک پکی سڑک بنانے سے
٭
آباد ایسے شہر میں کیوں ہو گئے روش
کھڑکی سے جھانکنا بھی جہاں ڈر کی بات ہے
مجھے خوشی ہے کہ محترم وفا راشدی کے توسط سے میں ایک ایسے شاعر کی شاعری سے
لطف اندوز ہو سکا جو disinformationکے اس عہد میں شاید بہت بڑا شاعر نہیں لیکن مستقبل کا ادنی سے ادنی مورخ بھی اسے کسی طور نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
٭٭٭ مشمولہ: شمیم روش، شخصیت اور فن، مرتبہ: ڈاکٹر وفا راشدی
کلکتے کی ادبی داستانیں
ڈاکٹر وفا راشدی علم و ادب کی دنیا کا ایک معروف نام ہیں۔ان کی کتابیں ’’بنگال میں اردو‘‘، ’’حیات وحشت‘‘، اور ’’داستان وفا‘‘ دنیائے ادب سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
’’بنگال میں اردو‘‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔’’دکن میں اردو ‘‘، ’’پنجاب میں اردو‘‘ اور اس جیسی دیگر کئی کتب میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے یہ کتاب اہم اضافہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے بعض یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل کیا جا چکا ہے۔’’ حیات وحشت‘‘ معروف شاعر وحشت کلکتوی کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک وقیع تصنیف ہے۔ وفا راشدی کو وحشت کے تلمیذ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اور وہ عقیدت و محبت جو ایک تلمیذ کو استاد سے ہوتی ہے، اس تصنیف کی روح ہے۔’’داستان وفا ‘‘ ڈاکٹر وفا راشدی کی خود نوشت ہے۔اور خود نوشت سوانح عمریوں میں ایک منفرد اعزاز کی حامل کتاب ہے۔کیونکہ یہ نہ صرف وفا راشدی کی نجی زندگی کی داستان ہے بلکہ اس میں مختلف علمی واد بی شخصیات کے خاکے بھی بڑی چابکدستی سے سمو دیے گئے ہیں۔ان تصانیف کی شہرت و مقبولیت کے بعد ’’ کلکتے کی ادبی داستانیں ‘‘ ان کے گزشتہ ادبی کارناموں میں ایک معتبر اضافہ ہے۔
اردو ادب کی تاریخ میں کلکتہ کوئی ایسا مقام نہیں جس کی خدمات کو فراموش کیا جا سکے۔ اردو ادب میں فورٹ ولیم کالج کے ادبی کارنامے اور اردو ڈرامہ کی روایت اسی تاریخی شہر کی دین ہیں۔یوں اردو نثر میں بالخصوص اور اردو نظم میں بالعموم کلکتہ نسبتاً زیادہ پر جوش و سر گرم نظر آتا ہے۔اسی زرخیز مٹی سے وفا راشدی نے بھی جنم لیا ہے۔آج وہ ایک تن آور ادبی درخت بن کر مٹی کا قرض چکانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔’’ بنگال میں اردو‘‘ ہو یا ’’ حیات وحشت‘‘، ’’ داستان وفا‘‘ ہو یا ’’ کلکتے کی ادبی داستانیں ‘‘ ان سب کا مرکز و محور کلکتہ کی ادب پرور سر زمین اور اس سے ڈاکٹر وفا راشدی کی انمول محبت ہے۔محترم وفا راشدی مسلسل اس سعی و کاوش میں مصروف ہیں کہ کلکتہ کی اردو ادب کے حوالے سے خدمات کو اجاگر کیا جائے۔ اور ان کی یادداشتیں اوراق پارینہ بن کر تاریخ کی گرد میں بوسیدہ ہو جانے کی بجائے اس طرح تاریخ کا حصہ بن جائیں کہ کلکتہ کی سرزمین امر ہو جائے۔یہ کاوش خود ڈاکٹر صاحب کا نام امر کرنے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔اس کا اندازہ ان کی تصنیف ’’ کلکتے کی ادبی داستانیں ‘‘ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اس کتاب کے اکثر ابواب ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔او ران میں معلومات کا ذخیرہ مصنف کی وسعت علمی کی دلیل ہے۔بالخصوص ’’ کلکتہ۔۔۔۔تاریخ علم و ادب کے تناظر میں ‘‘ تاریخی، علمی اور ادبی خدمات کا ایسا احاطہ ہے جو صرف ڈاکٹر وفا راشدی کا قلم ہی قلم بند کر سکتا ہے۔
غالب کی ادبی زندگی میں غالب کے سفر کلکتہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔غالب کی زندگی کا یہ حصہ ادبی معرکہ آرائیوں سے بھر ا پڑا ہے۔غالب کی قد آور شخصیت سے اختلاف و بحث و تکرار کا یہ محاذ سوائے کلکتہ کے ارباب علم و دانش کے کبھی کسی نے نہیں کھولا۔غالب کے خطوط میں کثرت سے اور ان کی شاعری میں اجمالا اس سفر کے واقعات اور اثرات کا سراغ ملتا ہے۔ڈاکٹر وفا راشدی نے اس سارے نزع کو تحقیقی حوالوں کے ساتھ اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ کلکتہ کے ارباب علم و دانش کی تصویر کشی بھی ہو گئی اور غالب کی عظمت بھی کہیں داغ دار نہیں ہوئی۔
غالب کے علاوہ اکبر الہ آبادی اور اقبال کے حوالے سے بھی ڈاکٹر وفا راشدی نے مختلف ابواب میں کلکتہ کے ادبی حیثیت کے نقش قاری کے ذہن میں اتارنے کی بھر پور سعی کی ہے۔ڈاکٹر وفا ر اشدی نے کتاب میں جس ترتیب و ترکیب سے کام لیا ہے اس کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔یہ کتاب کلکتہ کے نابغین کی ایک تاریخ بن گئی ہے۔غالب، اکبر اور اقبال ان شعرا میں سے ہیں جنھوں نے اردو ادب کو نیا مزاج دیا۔جدید اردو شاعری کا سلسلہ انہی تین نابغین سے شروع ہو کر ہمارے عہد تک پھیل جاتا ہے۔غالب، اکبر الہ آبادی اور اقبال کلکتہ سے کیسے اثر پذیر ہوئے ؟ انہوں نے کلکتہ پر کیا اثرات چھوڑے؟ ان کے شاگردوں کی خدمات اور اس حوالے سے ادبی تاریخ کا مطالعہ کلکتہ کی مرکزی ادبی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہی ڈاکٹر وفا راشدی کا منتہائے مقصود ہے۔یہ اعزاز کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی علم و ادب کے حوالے سے خدمات کو تاریخ کا حصہ بنا دیں۔
’’ داغ اور کلکتہ ‘‘، ’’ داغ اور نساخ‘‘، ’’ معاشقہ داغ و حجاب‘‘ اور ’’تلامذہ داغ بنگال میں ‘‘ ایسے ابواب ہیں جن میں قاری کی ذہنی کشادگی کا سامان موجود ہے۔ علمی حلقوں میں متذکرہ بالا موضوعات کے بارے میں تشنگی کا احساس موجود تھا۔ اس کتاب کے ذریعے اس تشنگی کو دور کرنے کا خاطر خواہ سامان کیا گیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ان حوالوں سے قارئین کی معلومات کا دائرہ بہت حد تک وسیع ہو گا۔
نثر میں فورٹ ولیم کالج اور سر سید کے تحریک کے اثرات کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔اردو ڈرامہ کے حوالہ سے کلکتہ کی خدمات کو اس موقر کتاب میں جگہ نہیں مل سکی۔ ڈاکٹر وفا راشدی کے خیال میں اس سے خواہ مخواہ تکرار پیدا ہوتی اور کتاب کی ضخامت میں بے جا اضافہ ہوتا۔ کیونکہ اس بارے میں وہ اپنی کتاب ’’ بنگال میں اردو‘‘ میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔مگر اُسی باب کی اس کتاب میں شمولیت سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو سکتا تھا۔اس طرح کلکتہ کی ادبی خدمات کے حوالے سے کسی دوسری کتاب کی طرف رجوع کی حاجت نہیں رہتی۔ تاہم ’’ بنگال میں اردو‘‘ میں اس باب کی تفصیل دیکھنے سے ڈاکٹر وفا راشدی کی اس تصنیف سے بھی مستفید ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مزاج میں انتھک محنت کا جذبہ، بے لوث خدمت کی لگن، اساتذہ اور
بزرگوں سے عقیدت و محبت، ساتھیوں کے لیے نیک دلی، نئی نسل کے استقبال کا حوصلہ اور منکسر المزاجی ایسی صفات ہیں جو ان کی تحریروں میں شامل ہو کر ان کے حرف کو اعتبار بخشتی ہیں۔ ان کے لہجے میں نرمی اور ان کی باتوں میں دانش موجود ہے۔علم و دانش کے یہ موتی قاری کی علمی وسعت اور ذہنی کشادگی کا باعث بن کر ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔
٭٭٭ مجلہ شاہین۱۹۹۸۔۱۹۹۹
صہبا لکھنوی بطور مدیر افکار
صہبا لکھنوی مرحوم ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے۔ان کی اولین شناخت شاعری تھی اور ’’مہ پارے ‘‘ کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ شائع بھی ہوا۔شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید، تحقیق، سفر نامہ نگاری، ترتیب و تدوین وغیرہ کے شعبوں میں بھی ان کی مہارت قابل داد ہے۔
’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے نام سے ۱۹۷۶ میں چھپنے والی تحقیقی کتاب پر انہیں اکیڈمی پاکستان نے انعام سے نوازا۔یہ کتاب اقبال اکیڈمی نے چھاپی۔اور یہ اکیڈمی پاکستان سے انعام پانے والی پہلی کتاب تھی۔صہبا کی یہ ہر شناخت اپنی جگہ۔۔۔ لیکن یہ تمام ان کی شخصیت کے دبے دبے پہلو ہیں۔اور ان کے نام اور کام کی پہچان ’’افکار‘‘ بن کر رہ گیا۔ صہبا کا نام لیتے ہی ہمارے ذہن میں مدیر افکار کا خیال آتا ہے۔خود صہبا نے اپنے لیے جس حوالے کو پسند کیا اور اپنی پہچان بنایا وہ افکار کی ادارت ہی ہے۔
افکار کی اشاعت کا آغاز مارچ ۱۹۴۶ میں بھوپال سے ہوا۔اس کے نگران سید قمر الحسن تھے۔جبکہ ادارے میں کوثر چاند پوری، صہبا لکھنوی اور رشدی شامل تھے۔اشاریہ افکار مارچ ۲۰۰۲ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد افکار کی ادارت میں صرف صہبا رہ گئے۔ اور ساتویں شمارے سے مدیر صہبا لکھنوی شائع ہونے لگا۔اس وقت سے ۲۰۰۲ میں اپنے انتقال تک صہبا کی یہ شناخت قائم رہی۔نصف صدی سے زائد افکار کے لیے صہبا کی خدمات ایک ناقابل فراموش واقعہ ہیں۔اور اب ادب کے قاری کے ذہن سے ان کی یہ شناخت محو کرنا آسان نہیں۔
بطور مدیر افکار صہبا نے کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔افکار ہمیشہ ہاتھ کی کتابت کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔خوشنویسی اور کتابت کا تعلق بہت پرانا ہے۔وقت کی رفتار نے اب یہ فن کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔کمپیوٹر کی سہولت کے بعد بعض دوست اعتراض بھی کرتے تھے لیکن افکار اپنی روایت کو نبھاتا ہوا خوش نویسی کے فن کا قدر دان رہا۔
افکار کی پروف ریڈنگ پر صہبا خصوصی توجہ دیتے تھے۔کاتب کی غلطی سے جو لطیفے معرض وجود میں آتے ہیں، افکار ہمیشہ ان سے پاک رہا۔اس سلسلے میں سارا کمال صہبا کی ذات کا تھا
صہبا کی ادارت کا ایک اور بڑا کمال افکار کی اشاعت میں تسلسل اور پابندی رہا۔افکار ناقابل یقین حد تک پابندی اور تسلسل سے شائع ہوتا رہا۔رسالے کے لیے مواد کی فراہمی سے لے کر اشاعت و تقسیم تک کے مراحل وسائل کی بھر پور دستیابی کے باوجود کافی دشوار ہیں لیکن وسائل کی کمیابی کے باوجود صہبا کی ادارت میں افکار ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو مستقل خریداروں کے ہاتھ میں ہوتا۔یہ پابندی اور تسلسل مختصر عرصے کے لیے تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن طویل عرصے تک اس تسلسل کو ممکن بنانا ایک معجزے سے کم نہیں۔
رسالے کی ترتیب میں بھی صہبا کی ادارت میں مہارت کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ قد آور اور نامور شخصیات کے ہمراہ نئے اور نو آموز تخلیق کاروں کی تخلیقات افکار میں پہلو بہ پہلو شائع ہوتی رہیں۔افکار کے پرانے رفیقوں کو اس بات کا اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی کہ جن نئے تخلیق کاروں کو افکار نے متعارف کروایا وہ بعد میں علم و ادب کے میدان میں کار ہائے نمایاں سر انجام دینے والے ثابت ہوئے۔ٹیلنٹ کی شناخت کا جیسا ملکہ صہبا لکھنوی میں تھا بہت کم مدیروں میں پایا جاتا ہے۔نجانے کتنے ادبی سورج جو آج آسمان ادب پر چمک رہے ہیں ، افکار کے انہی صفحات سے طلوع ہوئے۔
صہبا کی ادارت میں افکار نئے ادبی رجحانات اور تازہ تر ادبی و شعر ی تحریکوں کا نمائندہ رہا۔ ’’ زندہ افکار، زندہ دوستوں اور صحت مند رجحانات کا علم بردار ماہنامہ‘‘ ان کا سلوگن رہا۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں افکار نے اسے پوری تقویت دی۔لیکن اس میں کسی سیاسی مسلک یا ذاتی منفعت کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔صہبا کی وفات تک یہ اعلان اس کی پیشانی پر واضح اور نمایاں لفظوں میں موجود ہے کہ یہ نئے ادب کا ترجمان رسالہ ہے۔
افکار اور صہبا کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ افکار نے زندہ شاعروں اور ادیبوں کی بھر پور انداز میں تحسین کی۔اور یاد گار نمبر شائع کیے۔یہ خاص نمبر ان شاعروں اور ادیبوں پر ابتدائی انتقاد کا نمونہ قرار پائے ہیں۔اور وقت نے ان کی عظمت کو ان کے بعد بھی تسلیم کیا۔ اس سلسلے میں جوش، فیض، اور ندیم نمبر خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے علاوہ بھی صہبا کی ادارت میں افکار کی مرتب کردہ خاص اشاعتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔صہبا کی ادارت کے اس پہلو کو ہر کس و ناکس نے سراہا ہے۔اور کسی قسم کے مفاد، تعصب یا جانبداری کا الزام نہیں لگایا۔
صہبا کی ادارت کا سب سے بڑا کمال ان کی پیشہ ورانہ دیانت داری اور ادب سے ان کی بے لوث محبت ہے۔
فی زمانہ ادبی جرائد اور اخبارات کی اشاعت کا فوری مقصد ناشر کی ادبی خدمات کی تشہیر اور شخصیت کی نمود و نمائش ہے۔اس طرز عمل کو مطعون قرار دے دینا بھی میرے خیال میں سو فی صد جائز نہیں۔لیکن صہبا نے افکار کو کبھی بطور آلہ استعمال نہیں کیا۔ایک تخلیق کار ہوتے ہوئے بھی انہوں نے افکار کو اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کیا۔یہی نہیں بلکہ اپنے تخلیقی مرتبے کے نقصان پر افکار کی ادارت کا فریضہ سر انجام دیا۔صہبا کی ادارت کا یہ اعزا
ز ہے کہ انہوں نے افکار کو کبھی ادبی گروہ بندی، ذاتی تشہیر، سرکاری منصب یا اعزاز کے حصول کے لیے کسی زینے یا آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ان کی دلچسپی اور لگن (commitment) ادب کے ساتھ تھی اور وہ تمام عمر ادب کی بے لوث خدمت میں مصروف رہے۔اس پیشہ ورانہ دیانت داری کے سبب افکار ہمیشہ انفرادی وقار اور متانت کا حامل ادبی جریدہ رہا۔
میری دعا ہے کہ صہبا کے روشن کیے ہوئے افکار کو ان کے احباب صہبا کے راستے پر چلتے ہوئے روشن رکھ سکیں۔جب تک افکار زندہ رہے گا ، ہر اشاعت کے ساتھ صہبا کی یاد بھی تازہ ہو گی۔اور اپنی قوم کے نابغہ افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں کہ ہم ان کی یاد کو لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھال لیں۔
٭٭٭ افکار۔مارچ اپریل ۲۰۰۴، (صہبا لکھنوی نمبر)
٭٭٭٭
مصنف کی اجازت اور فائل فراہمی کے تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید