FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

سامعہ

 

 

                   ناصر ملک

 

 

 

 

شاعری، جو ڈائری میں رہی

خطوط، جو پوسٹ نہ ہو سکے

 

 

 

 

انتساب

 

 

تجھے خبر ہے سامعہ !

مرا بھرے جہان میں کوئی نہیں، کوئی نہیں

ترے سوا کوئی نہیں

یہ مختصر سی زندگی، یہ تشنگی، یہ عاشقی

یہ جاں کنی

یہ بے ثمر ریاضتیں، کتابِ دل، یہ شاعری

اگر یہ سب فریب ہے، یہ جھوٹ ہے، سراب ہے

تو میرے زادِ راہ میں لپیٹ دے۔۔۔

اگر یہ سب حقیقتیں ہیں تو سبھی سمیٹ لے

تجھے خبر ہے سامعہ !

سدا یہ انتسابِ دل ترا ہی منتظر رہا

٭٭

 

 

0

 

سامعہ ۔۔۔

میری کتابوں کو ترتیب نہ دو۔

انہیں ایسے ہی بے ترتیب پڑا رہنے دو کیونکہ میرے نزدیک یہی حسن ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے تمہارے اَبرو غیر تراشیدہ ہیں اور تمہارے صحرائی ٹیلے جیسے گالوں پر بلیچ  کریم Bleach Creamنے اپنے گنہ گار پیر نہیں ڈالے۔

چونکو مت ۔۔۔ میں نے ترتیب اور توازن کا مرکزی کردار ایک چمکتے دمکتے متوازن شہر میں دیکھا تھا۔۔۔ اور تائب ہو گیا تھا۔ باوجود کہ دنیا توازن کو حسن قرار دیتی ہے۔

کوئی سال بھر پرانی بات ہے۔

میں نے ایک کتاب کی تلاش میں اسلام آباد کی ایک بڑی سڑک پر ایستادہ شیش محل جیسے ’’کتاب گھر‘‘ کا رخ کیا۔ میری مطلوبہ کتاب وہاں نہیں تھی اور وہاں موجود کتابیں اپنی قیمت کے سبب میری بساط سے باہر تھیں۔ کتابوں کے سرورق دیکھنا، کسی ایک آدھ کو اٹھا کر کھول لینا اور پھر واپس رکھ دینا ’’مفت‘‘ تھا۔ سو یہ کام کافی دیر تک کرتا رہا۔ اس کارِ بے فیض میں بھی لطف پنہاں تھا۔

ایسے ہی وقت جب میں اس شیش محل سے نکلنا چاہ رہا تھا، قدرت کے عطا کردہ توازن کو مکمل طور پر بگاڑنے والی ایک خوش رو خاتون تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی کاؤنٹر پر پہنچی اور بولی ۔۔۔’’ تین سنٹی میٹر موٹی جلد اور سکائی کلر کے ٹائٹل والی دو کتابیں، پنک یا گرے ٹائٹل والی ون پوائنٹ فائیو سنٹی میٹر موٹی ایک کتاب اور ساڑھے سات ضرب ساڑھے نو انچ کے ڈارک بلو ٹائٹل والی ایک کتاب دے دیں۔ جلدی کریں، باہر گاڑی پارک نہیں ہو رہی۔۔۔”

میں حیران رہ گیا۔ ماقبل زندگی میں چند اہم شہروں کے اہم کتاب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ کتابوں کی خریداری ہوتے بھی دیکھی مگر کسی خریدار کو اس طرح کتاب خریدتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ دکاندار نے اِنچ ٹیپ اٹھایا، الماریوں کا رخ کیا او کچھ دیر بعد اپنا کام مکمل کرنے کے بعد کاؤنٹر پر آ گیا۔ کمپیوٹرائزڈ پرنٹرسے بل کا پرنٹ لیا اور خاتون کو تھما دیا۔ خاتون نے کمال لاپروائی سےرقم ادا کی اور کتابوں کو دیکھے بغیر اُٹھا کر باہر کر رخ کیا۔

میں نے کاؤنٹر مین سے پوچھا، ’’بھائی صاحب! میں نے آج تک کتابوں کو یوں پیمائش کے اصول پر بکتے نہیں دیکھا۔ ‘‘

وہ مسکرایااور لاپروائی سے بولا، ’’اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟۔۔۔ اس نے اپنے ڈرائنگ روم یا اسٹڈی روم کی بک شیلف کی پیمائش اور کلر سکیم کے مطابق کتابیں خریدی ہیں۔ ‘‘

میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

’’تو کیا وہ اِن کتابوں کو پڑھنے کے لیے نہیں لے گئی؟‘‘

اس نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا اور نئے آنے والے گاہک سے محوِ کلام ہو گیا۔

ہاں سامعہ ۔۔۔تب سے مجھے ترتیب سے پڑی ہوئی کتابیں اچھی نہیں لگتیں۔

شاید ۔۔۔ آج کے بعد تمہیں بھی یہی نفسیاتی عذاب جھیلنا پڑے کیونکہ اب تم بھی کتابوں کی ترتیب کے فلسفے سے آگاہ ہو گئی ہو۔

٭٭

 

 

 

میں جو اُکتائے ہوئے شام و سحر کاٹ رہا ہوں

یہ کسی اور کے حصے کا سفر کاٹ رہا ہوں

 

میری تنہائی مری تلخ نوائی کے سبب ہے

یعنی میں اپنے گناہوں کا ثمر کاٹ رہا ہوں

 

ہم ہیں اس دیس کی تعمیر و ترقی کے طلب گار

وہ اُدھر توڑ رہا ہے، میں اِدھر کاٹ رہا ہوں

 

میں نے اعراب کی جنگوں کو اُتارا ہے متن پر

کیا گلہ قیدِ ملامت بھی اگر کاٹ رہا ہوں

 

آخری وقت ! ذرا تھم جا، گریبان مرا چھوڑ

بے حسی دیکھ کہ میں اپنا جگر کاٹ رہا ہوں

 

میں نے سیکھا ہے زمانے سے یہی منفی رویہ

سر پہ جو سایہ فگن ہے، وہ شجر کاٹ رہا ہوں

 

گردشِ وقت ! اُٹھا اپنی ترقی کے صحیفے

ورنہ میں آج ترے دستِ ہنر کاٹ رہا ہوں

٭٭

 

 

 

میرا وجود زخم زخم ہو گیا تو کیا

یہ زندگی کا کھیل ختم ہو گیا تو کیا

 

لیلیٰ نے ہجر کو دیا ہے راستہ اگر

قتلِ وفائے قیس رسم ہو گیا تو کیا

 

بکھرے ہوئے حروف کو سمیٹتے ہوئے

اک شخص کا خلوص نظم ہو گیا تو کیا

 

اُس کی ہتھیلیوں میں آفتاب کھو گئے

دُزدِ حنا سے چاند گرم ہو گیا تو کیا

قربت جسے سخن شناس کر نہیں سکی

جاتے ہوئے وہ کور چشم ہو گیا تو کیا

 

دریا اُتر گیا ہے جستجوئے وصل میں

اب ہجر آنسوؤں سے نرم ہو گیا تو کیا

 

ناصر جو تیرے چاک پر بنا تھا خاک سے

وہ آج نورِ ماہ و نجم ہو گیا تو کیا

٭٭٭

 

 

 

 

0

 

’’  ہیپی برتھ ڈے۔۔۔‘‘

یہ تھی تمہارے مسکراتے لبوں کی بخشش ۔۔۔

آج یعنی ۱۵ اپریل ۲۰۰۲ء کے دن ۔۔۔

میرے ہاتھوں سے ایک سال اور سرک گیا

اور۔۔۔میں گزرے ہوئے پورے سال میں، تین سو پینسٹھ دنوں میں کچھ نہیں کر پایا۔ اپنے لیے نہ اپنی ذات سے جڑے ہوئے لوگوں کے لیے۔۔۔

اور بدقسمتی دیکھو کہ مجھے مبارک باد بھی لینا پڑ رہی ہے۔

تو کیا میں اتنا ہی بے حس شخص ہوں کہ اپنی ناکامی پر پشیمان ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے ہنس رہا ہوں ؟

٭٭

 

 

 

 

 

میں اپنے ارادوں میں تو ناکام ہوا ہوں

ہاں ! رات کی آنکھوں کو سحر دے کے چلا ہوں

 

پانا ہے تجھے میں نے، بہر طور یہ طے ہے

تقدیر سے لڑتا ہوا مَیں حرفِ دعا ہوں

 

اک شوق ہی تھا اپنی تگ و دَو کے سفر کا

میں تجھ سے جو بچھڑا تو کہاں خود سے ملا میں

 

اک سانس کے سودے میں خدائی کی غلامی

اک دید کے لالچ میں ترے در پہ کھڑا ہوں

 

اے عشق! تجھے دیکھ لیا دل سے لگا کر

میں تجھ کو بچاتے ہوئے خود ٹوٹ گیا ہوں

 

یہ جسم دَہکتے ہوئے سورج کے حوالے

یہ پیڑ پرندوں کے لیے چھوڑ رہا ہوں

 

دھرتی سے تعلق پہ ندامت نہیں ناصر

اس خاک میں اُترا ہوں تو اوپر کو اُٹھا ہوں

٭٭

 

 

 

 

وہ عمر میرے ہاتھ سے سرک گئی تو کیا ہوا؟

یہ میرے سر میں چاندنی چمک گئی تو کیا ہوا؟

 

نظر میں کرچیاں کسی سراب کی چبھی رہیں

صدا بھی آج راستا بھٹک گئی تو کیا ہوا؟

 

مری اَنا کا افتخار ہو گیا دھُواں دھُواں

یہ سانس حلق میں کہیں اٹک گئی تو کیا ہوا؟

 

مجھے برا نہیں لگا تری شراب کا چلن

کہ جام تھا بھرا ہوا، چھلک گئی تو کیا ہوا؟

کہاں تلک یہ زندگی کڑے عذاب جھیلتی

طویل تر مسافتوں میں تھک گئی تو کیا ہوا؟

 

تمھیں خبر نہیں کہ تم بدل گئے ہو کس قدر

وہ خوش خرام دیکھ کر ٹھٹک گئی تو کیا ہوا؟

 

محاذ ہیں کھلے ہوئے نشیب سے فراز تک

یہاں حیاتِ بے کساں ڈھلک گئی تو کیا ہوا؟

 

چبھے ہوئے ہیں آنکھ میں لہو سے تر وجود بھی

پلک پہ سرخ دھُول سی کھٹک گئی تو کیا ہوا؟

 

جلا کے خاک کر گئی مرے مکان کو مگر

یہ محسنوں کی آگ تھی، بھڑک گئی تو کیا ہوا؟

٭٭

 

 

 

 

سلگتی ریت پر خیمے لگائیں گے، یہی ضد ہے

اگر مقتل بلائے گا تو جائیں گے، یہی ضد ہے

 

ہمیں کب عشق لاحق ہے؟ نہیں، لیکن یقیناً ہے

یہ جھگڑا تو وہی آ کر مٹائیں گے، یہی ضد ہے

 

سیاست کا چلن بدلیں وگرنہ حشر اُٹھے گا

محل ہم لوگ ورنہ سب گرائیں گے، یہی ضد ہے

 

سدا دھرتی لہو پیتی رہی ہے ہم غریبوں کا

مگر رہبر بھی اب خوں میں نہائیں گے، یہی ضد ہے

 

نہیں پینی، نہیں پینی، قسم سے اب نہیں پینی

بھلے وہ اپنے ہاتھوں سے پلائیں گے، یہی ضد ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اے ہجومِ بے کراں ! میں ہوں اکیلی، بس کرو

میری تنہائی مری گہری سہیلی، بس کرو

 

مت کوئی الزام دینا بے وفائی کا مجھے

ہجر کے سانپوں نے میری جان لے لی، بس کرو

 

میری سانسیں بھی اسے لگنے لگی ہیں ناگوار

اس قدر سنسان ہے میری ہتھیلی، بس کرو

 

چاند تھا، بجھتا ہوا اِک دیپ تھا اور خامشی

رات بھر اِک یاد مجھ سے خوب کھیلی، بس کرو

 

آج بستر میں بکھر کے ڈھونڈتی ہی رہ گئی

سلوٹوں میں چھپ گئی پگلی پہیلی، بس کرو

 

روح تک میں گھل گیا ہے زہر سا، شب ڈھل چکی

آخری ہچکی اچانک ہجر نے لی، بس کرو

 

ناتوانی کو سفر درپیش تھا پچھلے پہر

آگ تم نے برف کی جانب دھکیلی، بس کرو

 

اس کی بنیادوں پہ لکھی ہے تمدن کی نمو

نیلگوں بادل میں لپٹی ہے حویلی، بس کرو

 

موتیے کی منصفی کا اجر پایا ہے عجیب

ہنستے ہنستے رو پڑی آخر چنبیلی، بس کرو

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں پلٹ کر زندگی کو دیکھتا ہوں، کیا کروں ؟

ایک اُلجھی ڈور کو تھامے کھڑا ہوں، کیا کروں ؟

 

اک رخِ روشن کو نصب العین کر کے کیا ملا

بے بسی میں منزلوں سے پوچھتا ہوں، کیا کروں ؟

 

جنگ اَب دین و ریاست میں چھڑی ہے آخری

درمیاں لٹکا ہوا میں سوچتا ہوں، کیا کروں ؟

 

سرکٹے سایوں کی شارع عام پر چلتے ہوئے

میں ہی کیوں ہر قافلے کو روکتا ہوں، کیا کروں ؟

 

سامعہ ! لازم نہیں ہے تم مجھے سنتی رہو

میں تو مجبوری سمجھ کے بولتا ہوں، کیا کروں ؟

٭٭

 

 

 

 

اس ترکِ تعلق کا ثمر دیکھ تو لوں میں

درویش! ترا دستِ ہنر دیکھ تو لوں میں

 

پھر لوٹنا ممکن ہی دکھائی نہیں دیتا

اک بار یہ اُجڑا ہوا گھر دیکھ تو لوں میں

 

پوچھیں گے کئی لوگ مرے شہر کا موسم

جلتے ہوئے سر سبز شجر دیکھ تو لوں میں

 

نمناک نگاہوں کا فسوں اور بڑھے گا

جس سمت کھڑا ہے وہ اُدھر دیکھ تو لوں میں

 

اس شب کی عقیدت میں پلٹنا ہے یقیناً

اک لرزہ بر اندام سحر دیکھ تو لوں میں

 

احساس میں جھلسی ہوئی آنکھوں سے ذرا دیر

سہمے ہوئے لوگوں کا نگر دیکھ تو لوں میں

 

میں خون بہا شہر سے لے لوں گا پلٹ کر

نیزے پہ سجایا ہوا سر دیکھ تو لوں میں

٭٭

 

 

0

 

افسوس ۔۔۔

آمریت، جمہوریت یا مطلق العنانیت کے بجائے معاشرتی بگاڑ کی حقیقی ذمہ داری کیپٹل ازم (سرمایہ دارانہ نظام) پر عائد ہوتی ہے جس پر نہ کوئی سیاست دان انگلی اٹھاتا ہے، نہ قلم کار، نہ مذہبی رہنما اور نہ سماجی کارکن۔۔۔

کہیں ان سب مکاتبِ فکر نے غیر اعلانیہ اتحاد تو نہیں کر رکھا ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

منظر پہ کوئی، زیرِ زمیں اور کوئی ہے

اس دیس میں اب تخت نشیں اور کوئی ہے

 

دستار سجائی تو گئی ہے مرے سر پر

مقتل میں مگر فتحِ مبیں اور کوئی ہے

 

آسیب کی صورت نہ لپٹ میری جبیں سے

اے عشق ! ترا سجدہ گزیں اور کوئی ہے

 

تکلیف میں اُوپر کی طرف دیکھتا کیا ہے

مزدور ! ترا عرشِ بریں اور کوئی ہے

 

ہر اینٹ پہ کندہ ہیں مری عمر کے موسم

افسوس کہ اس گھر میں مکیں اور کوئی ہے

 

آئینہ کبھی غور سے دیکھو تو بتا دو

اس شہر میں کیا زہرہ جبیں اور کوئی ہے

 

یہ رات، فلک بوس شجر، جھیل، دسمبر

کیا تو ہے مرے ساتھ ؟ نہیں، اور کوئی ہے

٭٭

 

 

 

 

بے سبب روٹھتی ہے اب مجھ سے

سامعہ ! دشمنی ہے اب مجھ سے؟

 

تیرگی تیری زُلف سے کٹ کر

آخرش آ ملی ہے اب مجھ سے

 

یہ چراغاں ہے قتل کا حاصل

کس قدر روشنی ہے اب مجھ سے

 

ان کہی بات وزن رکھتی ہے

پھر وہ کیوں بولتی ہے اب مجھ سے؟

 

دوستی ہی مجھے غنیمت تھی

کیا تجھے عشق بھی ہے اب مجھ سے؟

 

میرے دیپک بجھا نہیں سکتی

یہ ہوا بھاگتی ہے اب مجھ سے

 

زندگی موت کو اُٹھا لائی

کتنی اُکتا گئی ہے اب مجھ سے

٭٭

 

 

 

 

جس گھڑی تجھ سے بچھڑنے کا خیال آتا ہے

دل کی ہر اوجِ تمنا پہ زوال آتا ہے

 

کیا محبت کے پلٹنے کی روایت ہے یہاں

جیسے سیلاب یہاں سال بہ سال آتا ہے

 

دل کی اس شخص سے نسبت کو خدا سمجھے گا

اُس کے ہر جرم کو تقدیر پہ ڈال آتا ہے

 

کیسا جادو ہے ترے شہر کو جانے والا

فتح کرتا ہے تو خود کو بھی سنبھال آتا ہے

 

خود پرستی کا وہی لمحہ بہت ہے ناصر

تیرے اشعار میں جب اس کا جمال آتا ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

وہ اپنے طور پر سنوار دے مجھے

وگرنہ قبر میں اتار دے مجھے

 

تمھارا شہر معتبر ہے تو یہاں

کوئی تو ہو جو اعتبار دے مجھے

 

سخی کے ظرف کو میں مان لوں، اگر

مری طلب سے بڑھ کے پیار دے مجھے

 

اُسے کہو میں انتہا پسند ہوں

وہ زخم دے تو بے شمار دے مجھے

 

میں ان تعلقات سے بھی خوش نہیں

خدا جو ذوقِ انحصار دے مجھے

 

میں تیرے غم سے جیت جاؤں گا مگر

زمانہ ایک غم گسار دے مجھے

 

تمہاری یاد حوصلے میں رکھتی ہے

وگرنہ تو یہ قید مار دے مجھے

٭٭

 

 

 

 

0

 

سامعہ! کچھ تو کہنا ہو گا۔

ہر کامیابی کا سہرا اپنے سر پر باندھ لینا اتنا مضحکہ خیز عمل نہیں جتنا ہر ناکامی کا ملبہ گرد کی صورت اپنے تن سے جھاڑ کر تقدیر کے سر ڈال دینا حیران کن عمل ہے۔

جب کارِ محبت کا ارادہ محض میرا اور تمہارا تھا۔۔۔

جب پہلی ملاقات کے بطن سے لمحۂ وصال اور عمرِ اشتراک کا خواب کسی کی اجازت کے بغیر محض میری اور تمہاری آنکھوں نے دیکھا تھا۔۔۔

جب ہم دونوں نے عام سے چہروں پر خاص جذبوں اور آشفتہ سریوں کا لیپ کسی بھی بنیادی وجہ کے بغیر کیا تھا۔۔۔

جب ہم نے اپنے والدین سمیت کسی بھی معاشرتی حقیقت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک ساتھ جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔

تب کیا ہمیں زندگی میں درپیش تقدیر کا گمانی علم بھی نہیں تھا؟

ہماری پہلی ملاقات محض اتفاقی تھی کہ ہم اسے تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیں ؟

سچ کہو! کیا تقدیر صرف پیار کرنے اور ہنسنے والوں کو ہی ناپسند کرتی ہے؟

کب خدا نے کہا ہے کہ اسے روتے پیٹتے اور منہ بسورتے انسان پسند ہیں ؟

کیا مطمئن، آسودہ حال اور ہنستے مسکراتے چہرے قدرت کو برے لگتے ہیں ؟

نہیں سامعہ!

یہ چند ناکام لوگوں کی غیر حقیقی اور مایوس فلاسفی تو ہو سکتی ہے مگر سچ یہ نہیں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ قدرت خوبصورتی کو پسند کرتی ہے اور دنیا میں اب تک کسی لکھنے والے اور مشاہدہ کرنے والے نے آنسوؤں، آہوں، لہو، چیخ و پکار، نالہ و فریاد کو خوبصورتی کے خانے میں نصب نہیں کیا۔ یہ کل بھی حسن کی کائنات کے جزو نہیں تھے، آج بھی نہیں اور یقیناً کبھی بھی انہیں ’حسن کے استعارے‘ قرار نہیں دیا جائے گا۔ اور ۔۔۔ کبھی بھی روتا ہوا چہرہ ماہتابی یا آفتابی نہیں لکھا جائے گا۔۔۔

قدرت بچوں کو پسند کرتی ہے۔

بچے ہنستے کھیلتے ہیں، کودتے ہیں، اودھم مچاتیں ہیں، شرارتیں کرتے ہیں ۔۔۔ اور سچ بھی بولتے ہیں۔

یقیناً رونا حسن ہوتا تو ماں کبھی اپنے بچے کو ہنسنے نہ دیتی۔

وہ ہنستا تو ماں بھری محفل میں زور دار چٹکی کاٹ کر اسے رُلا دیتی۔

اور ۔۔۔

کیا مسکرانا حسن نہیں ہے؟

اگر ہے تو ۔۔۔ کیا ادھورا پیار اور تشنہ ملاقات مسکراہٹ کو جنم دے سکتی ہے؟

کیا جدائی اور کرب حقیقی خوشی بن کر چہرے پر سجتی ہے؟

کیا خدا یہ چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق ایک مختصر سی عمر میں بھی کرائسز کا شکار رہے؟

کیا دو ابدان کا اتصال، دو محبت کرنے والوں کی خوشی اور معاشرے میں آسودگی کا عنصر خدا کو پسند نہیں ہے؟

کیا تقدیر کا دنیا میں بس یہی کردار رہ گیا ہے کہ وہ مجھے اور تمہیں تمام عمر رُلاتی رہے اور ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکتی رہے؟

نہیں سامعہ ۔۔۔ اب دنیا کو اتنا چھوٹا سمجھنے کا رویہ دم توڑنے لگا ہے۔

اور ناکامیوں کا ملبہ اپنے سر ڈالنے سے ہی رہِ نصرت میسر آتی ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

اے محبت ! ترے ہر گام پہ افسوس

تیرے مسکن پہ در و بام پہ افسوس

 

مے کدہ دام طلب کرتا رہا اور

دل جلے کہتے رہے جام پہ افسوس

 

اے نگر ! تو نے کیے لوگ زبوں حال

تیری ہر صبح تری شام پہ افسوس

 

چند احسان جدائی کے تھے اور بخت

کر گیا خواہشِ ناکام پہ افسوس

 

واعظا ! تیرے فسادات پہ صد حیف

تیرے اظہارِ سرِ عام پہ افسوس

 

بددعا اور بھی کیا دوں میں سیہ کار

جا ! ترے کوچہ ٔ بدنام پہ افسوس

 

زندگی ! تیرے شب و روز ہیں برباد

عاشقی! تیرے بھی انجام پہ افسوس

٭٭

 

 

 

 

 

 

راستہ میرا ثمر بار نہ تھا

پھر بھی دل پر وہ اثر بار نہ تھا

 

کیوں تو کہتی تھی مجھے خاک بسر

زندگی ! تیرا بھی گھر بار نہ تھا

 

عمر میری تھی کفِ افسردہ

کوئی موسم بھی شجر بار نہ تھا

 

ہوش میں کرنیں گراں گزری ہیں

بے خودی تھی تو قمر بار نہ تھا

 

آج مقتل میں سبھی تھے گم سم

کیوں مگر وہ بھی شرر بار نہ تھا

 

میری ہجرت پہ ترا رونا کیا؟

روک لیتا میں اگر بار نہ تھا

 

روز بدلے ہیں غموں نے پہلو

تذکرہ تیرا بھی ہر بار نہ تھا

 

جرم کرتا تھا سبھی سے چھپ کر

دل مگر راندۂ دربار نہ تھا

٭٭

 

 

 

 

 

پہلے پہلے عشق میں جب رابطہ دل سے ہوا

یاد ہے طے ہجر کا ہر مرحلہ دل سے ہوا

 

اجنبیت نے ہمیں گر روکنا ہی تھا تو کیوں

سامنا اس زندگی میں بارہا دل سے ہوا

 

اس کی آنکھیں ڈھونڈتی رہتی ہیں مجھ کو آج بھی

وہ منافق تھا یقیناً بے وفا دل سے ہوا

 

آندھیوں میں دیکھتے ہی دیکھتے گر جائے گا

یہ تناور پیڑ بھی جب کھوکھلا دل سے ہوا

 

اور کتنی بار پوچھو گے مجھے کیا ہو گیا

عشق لاحق ہو گیا اور با خدا دل سے ہوا

 

دل کو ہی اس شہر میں تھا گھر بنانے کا جنوں

اور ڈھا دینے کا بھی تو فیصلہ دل سے ہوا

 

احترامِ آدمیت جرم ہے، ناصر مگر

ہر تعلق توڑنے میں اور کیا دل سے ہوا

٭٭

 

 

 

 

 

 

رخِ روشن ! اجالوں سے تو نامانوس رہنے دے

شبِ ہجراں کے زنداں میں ابھی محبوس رہنے دے

 

کمالِ ضبطِ غم کو آزمانا بھی ضروری ہے

ابھی غم کے لبادے میں مجھے ملبوس رہنے دے

 

حقیقت میں مرا ہر فن جدائی میں نکھرتا ہے

طلسمِ وصل سے کہہ دے مجھے مایوس رہنے دے

 

کفِ افسوس ملتے ہیں سبھی ٹوٹے ہوئے تارے

محبت آسماں پر کب مہِ ناموس رہنے دے

 

ثبات و بے کلی کی چپقلش نے چھین لی آنکھیں

حیاتِ بے خبر کو ہر گھڑی منحوس رہنے دے

٭٭

 

 

 

 

 

سپر محاذِ عشق پر میں ڈال ہی نہ دوں

سبھی تمھارے خط تمھیں سنبھال ہی نہ دوں

 

زمیں پہ خون تھوکنے کے ساتھ ساتھ میں

فضا میں چند قہقہے اچھال ہی نہ دوں

 

وہ قریۂ جنوں کی آزمائشیں بجا

میں عادتاً تمھیں بھی کل پہ ٹال ہی نہ دوں

 

مطالبہ ہے شوخی ٔ سراج کا کہ میں

کسی اُداس شام کی مثال ہی نہ دوں

 

میں بہرے منصفوں کا تو جواب دہ رہوں

تمھیں مگر میں زحمتِ سوال ہی نہ دوں

٭٭

 

 

 

 

 

تو برباد محبت کے گلے ہار نہ ڈال

کہ اب نامِ خدا مان مجھے مار نہ ڈال

 

یہ انگور میں شبنم کا حیا بار نزول

بھلے کیف نہ دے جام میں پندار نہ ڈال

 

تجھے موت کی پہچان کہاں طرب شناس!

مرے بین کی آواز میں چہکار نہ ڈال

 

ترا شوق مقدس ہے مرے پیر غلیظ

کہا تھا کہ مرے جیسا گنہ گار نہ ڈال

 

تری قبر سے اُٹھے گا نوالوں کا فساد

تو افلاس کی اس آگ میں گھر بار نہ ڈال

٭٭

 

 

 

 

 

 

ڈھل گئی شام گھر اکیلا ہے

اب مرا چارہ گر اکیلا ہے

 

سانس لینے سے چوڑیاں ٹوٹیں

آج وہ اس قدر اکیلا ہے

 

لوٹ جانے کا راستہ ڈھونڈو

اے پرندو ! شجر اکیلا ہے

 

نیلگوں جھیل کے کنارے پر

میں نہیں، دل مگر اکیلا ہے

ایک جگنو فقط دکھائی دے

ورنہ سارا سفر اکیلا ہے

 

پوچھ مت بے قراریاں دل کی

غم زدہ، در بدر، اکیلا ہے

 

سبز قندیل بجھ گئی ناصر

آج سارا نگر اکیلا ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

خالی پڑا ہے زندگی کا جام قتل سے

کتنی اداس ہو گئی ہے شام قتل سے

 

میں دار پر سے زندگی لے کر اُتر گیا

مقتل پہ موت چھا گئی ناکام قتل سے

 

وہ با ضمیر شخص تھا نیزے پہ چڑھ گیا

محشر تلک بپا رہا کہرام قتل سے

 

منزل کفن کو چومتی رہتی ہے آج بھی

قاتل مگر نہ بڑھ سکا دو گام قتل سے

 

اس شہرِ نامراد کے سارے شریف لوگ

بے نام و نسل ہو گئے گم نام قتل سے

٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی جو میں شبِ تاریک سے گزرا

میں اپنے آپ کے نزدیک سے گزرا

 

مرا مقتل بتائے گا زمانے کو

یہی وہ شخص ہے جو ٹھیک سے گزرا

 

کھلا اک بھی نہیں عقدہ محبت کا

اگرچہ دل بڑی تشکیک سے گزرا

 

کوئی الزام مت دو اس بچارے کو

یہ مفلس دوستوں کی بھیک سے گزرا

 

وہ میری زندگی کے دکھ سمیٹے گا

اگر وہ لمحۂ تضحیک سے گزرا

 

زمیں نے خون سے لکھے کئی نوحے

زمانہ جب کسی تحریک سے گزرا

٭٭

 

 

 

 

 

 

زندگی مختصر نہیں بھی ہے

اور یہ بے ثمر نہیں بھی ہے

 

تھام رکھا ہے انتہاؤں نے

فاصلہ اس قدر نہیں بھی ہے

 

سوچتا ہوں کسی مسافر کا

راستا پر خطر نہیں بھی ہے

 

وہ مرے ساتھ ساتھ ہے لیکن

وہ مرا ہم سفر نہیں بھی ہے

 

قید میں ہوں میں چار اینٹوں کی

میرے اطراف گھر نہیں بھی ہے

 

ایک بھی مختلف نہیں مجھ سے

کوئی مجھ سا مگر نہیں بھی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

لازم ہے اگر آنچ پہ جلنا دل کا

دیکھیں گے کسی روز پگھلنا دل کا

 

تقدیر بضد ہے تو بھگتنا ہو گا

پہلو میں تواتر سے اچھلنا دل کا

 

آنکھوں کی شرارت کا ثمر کیسا ہے

اے شوق ! ذرا دیکھ مچلنا دل کا

 

اس عشق کی تمہید میں انجام چھپا ہے

بے فیض نہیں آہ میں ڈھلنا دل کا

 

حیرت سے کھڑا دیکھ رہا ہوں ناصر

اس عمرِ ضعیفی میں بدلنا دل کا

٭٭

 

 

 

 

 

زندگی بے فیض کو ہی مانگتی ہے، لوٹ آ

اک طلسمِ ہجر ہے اور بے بسی ہے، لوٹ آ

 

اس تعفن میں تو سانسیں بھی ہوئی ہیں ناگوار

آرزو کی لاش آنگن میں پڑی ہے، لوٹ آ

 

میں نے دیکھی ہے اُچھلتے پانیوں کی برہمی

پھر سمندر کے لبوں پر تشنگی ہے، لوٹ آ

 

ہر طرف آہ و بکا ہے، خوف ہے اور سسکیاں

پیش رو کی بے حسی بھی دیدنی ہے، لوٹ آ

 

جیتنے کے بعد بھی تنہا کھڑا ہوں شہر میں

سامعہ ! یہ بخت کی تیرہ شبی ہے، لوٹ آ

٭٭

 

 

 

 

 

بھلا اس شہر میں اہلِ نظر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

کسی بے نام آنگن کا شجر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

 

لبِ بامِ تمنا سوچنا اچھا نہیں لگتا

شکستہ مقبروں کی رہ گزر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

 

صدا خاموشیوں کی سرد سی جھیلوں سے جب ابھری

دسمبر کی اداسی تھی، مگر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

 

زمانے سے تنِ تنہا لڑا جو کاغذوں کے بل

قبیلے کا اکیلا چارہ گر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

 

مجھے تو عمر بھر اس نے وجودِ ذات پر اوڑھا

نصابِ وقت میں نا معتبر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

 

جہاں شب کی ردا نے پھر بقا کی جنگ ہاری تھی

وہاں کیا حرمتِ حرفِ سحر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

 

عجب ناصر سکھائے تھے قرینے زندگانی نے

مگر اپنے نگر میں دربدر وہ تھا ؟ نہیں، میں تھا

٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ شخص بھولتا نہیں

جو یاد بھی رہا نہیں

 

میں کس طرح یہ مان لوں

اُسے مرا پتا نہیں

 

کھڑا ہوا ہے برف پر

پلٹ کے دیکھتا نہیں

 

وہی تھا جانِ آرزو

وہی مجھے ملا نہیں

 

شجر مرا ضرور ہے

ثمر مگر مرا نہیں

 

مری ہتھیلیو سنو!

لبوں پہ اَب دعا نہیں

 

دلوں کے درمیان تھا

وہ در ابھی کھلا نہیں

٭٭

 

 

 

 

 

 

o

تمہارے روبرو ہونا۔۔۔

تمہیں سننا ۔۔۔

تمہیں دیکھنا۔۔۔

کتنا پُر اشتیاق اور جنوں خیز مرحلہ تھا جسے عبور کرتے ہوئے میرے حواس تحیر کے دبیز خلا میں معلق ہو گئے۔ تم بولتے ہوئے کیسی لگتی ہو؟ ۔۔۔ تم کیا بولتی ہو ؟ ۔۔۔ اور تمہیں بولتے ہوئے انہماک سے سننا کتنا پُر کیف تجربہ ہے؟ ۔۔۔ تمہیں خبر نہیں ۔۔۔ مجھے بھی اس کے غیر معمولی ہونے کا احساس نہیں تھا۔۔۔ مگر آج آشکار ہوا۔

کڑی دھوپ میں

چہرے کی درخشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے، گویا شبنم، سجائے تم نے کیا کہا۔۔۔ بھول گیا۔

اور میں نے کیا سنا۔۔۔ بھول گیا

مجھے کیا جواب دینا تھا، اور کیا دیا۔۔۔بھول گیا، یعنی کہا سنا بھول گیا۔۔۔

دوپہر کی دیوانی دھوپ، غریب زندگی کی طرح سنسان گلی اور تمہارے شانوں کے اوپر سے جھانکتا ہوا سرکنڈوں کا بنا ہوا سہما سہما چھپر ۔۔۔ کسی شریر بچے کے ہاتھوں چھوٹتی ہوئی ننھی سی دیا سلائی کا منتظر ۔۔۔ بے رنگ دیوار ۔۔۔ گلی کے سالخوردہ چوبی دروازے۔۔۔ اور اس کینوس پر موجود دنیا کی تمام تر توجہ کا محور تمہارا تابندہ ماہتابی چہرہ۔۔۔

ہاں ۔۔۔ ایسے میں اگر میرے لب باہم پیوست رہے، میری آنکھیں لاسوال رہیں اور تمہارے سبھی سوالات تشنۂ جواب رہے تو یقین مانو، یہ انہونا واقعہ نہیں تھا۔

تمہارے حسن کی سطوت ۔۔۔ تمہاری لرزتی ہوئی خمار بار آواز کا طلسم ۔۔۔زندگی کی طرح یک رویہ چلتے چلتے ایک دم رک کر، پلٹ کر قیام کرنے کا فسوں ۔۔۔جنبشِ نظر سے تہِ تیغ کرتا ہوا مقدونی انداز ۔۔۔

میرے زمانے میں سانسیں لیتا ہوا کوئی شخص ایسا بھی ہے کہیں جو اس یورش کے مقابل ٹھہر سکے؟۔۔۔ وہ بھی اس حال میں کہ اس کی زندگی اس کے حصارِ بدن سے نالاں ہو، ذہن اور دل جنوں گرفتہ ہوں اور بابِ جستجو شاکی۔۔۔ نہیں بندہ پرور! اب ایسا بھی کیا؟

زندگی اگر رومانویت اور جذباتیت سےعبارت نہیں تو یہ کم از کم ریاضی کے اصولوں پر استوار بھی نہیں ہے۔ انسان دو اور دو جمع کر کے چار حاصل کر لینے کا ہنر سیکھتے ہیں اور تمام عمر اعداد و شمار کی زد میں رہتے ہیں۔ ’’آنے‘‘ اور ’’جانے‘‘ کے درمیان خواہ ایک صدی حائل ہو جائے، اعداد و شمار کے ہزاروں مرحلے عبور کر لیے جائیں مگر حاصل  ’’صفر‘‘ نکلتا ہے۔ رختِ سفر دکھایا جاتا ہے، نہ دکھایا جا سکتا ہے۔۔۔ اور نہ ہی بشری صلاحیتیں اس کو اعداد و شمار کا پیرہن دے سکتی ہیں ۔۔۔

زندگی نے ریاضی کے اصولوں سے اگر کچھ مستعار لیا بھی ہے تو وہ صرف ’’نفی‘‘ کا قاعدہ ہے۔ ہر صبحِ عصر میں ’’جمع‘‘ ہو جانے والی کرن زندگی کے باب سے ایک ورق ’’نفی‘‘ کر دیتی ہے اور ۔۔۔ نفی در نفی کا عمل صفر پر منتج ہوتا ہے۔

اور ایسے میں میں اپنی زندگی کی ہتھیلی سے سرک جانے والے ان چند لمحات کا نوحہ لکھوں یا ان کو حاصل قرار دوں ؟۔۔۔

اور۔۔۔

کیا میں اپنی زندگی میں تمہارے ان چند لمحات کو ’’جمع‘‘ کر لوں ؟

٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ کہیں روبرو ہوا تھا کیا؟

اُس گھڑی دل دھڑک رہا تھا کیا؟

 

خود سے آنکھیں چرا رہے ہو کیوں

آج رستے میں وہ ملا تھا کیا؟

 

رات سے بھی طویل خاموشی

کان میں اس نے کچھ کہا تھا کیا؟

 

اِک صدا دربدر پھری شب بھر

شبنمی ساز چھڑ گیا تھا کیا؟

 

آنکھ میں کیا چھپائے بیٹھے ہو

اس نے آخر تمھیں دیا تھا کیا؟

 

تتلیاں آج بھی مچلتی ہیں

وہ گلابوں کا دیوتا تھا کیا؟

 

زندگی کیوں اجاڑ دی ناصر

باپ ترکے میں دے گیا تھا کیا؟

٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ میری سال کی کمائی لے گیا ہے آج پھر

مری زمین سے چرا گیا ہے وہ اناج پھر

 

مشین میں کٹا تھا جس کا ہاتھ گزرے سال میں

اسے زمیندار نے دیا ہے کام کاج پھر

 

وہ جس کی خون ریزیاں نگل گئی تھیں بستیاں

اسی کے ساتھ ہی کھڑا ہوا ہے یہ سماج پھر

 

اگر رکھے گی اب ضمیر کو رہینِ ناقصاں

بہت ستائے گی عوام کو یہ احتیاج پھر

 

لہو ابھی چمک رہا تھا مفلسوں کا جا بجا

بپھر کے سانپ کی طرح پلٹ پڑے رواج پھر

 

ہمارے حکمران کم نہیں کسی یزید سے

لہو میں تر دکھائی دے رہا ہے احتجاج پھر

 

یہاں بھی انقلاب راستے تلاش کر چکا

سنو ! یہاں سے اُٹھ چلا ہے یہ نظام راج پھر

٭٭

 

 

 

 

 

کوئی سوال ناں جواب، چائے پیجئے

ابھی نہ کھولئے کتاب، چائے پیجئے

 

نڈھال خوشبوئیں پکارتی ہیں آپ کو

یہ تھام لیجئے گلاب، چائے پیجئے

 

چھپا ہوا ہے ماہتاب زلفِ یار میں

اٹھائیے ذرا نقاب، چائے پیجئے

 

یہیں کہیں خموشیوں نے ڈال دی سپر

نفس نفس بجے رباب، چائے پیجئے

 

مرا بھرم عزیز ہے جو آپ کو تو پھر

کما ہی لیجئے ثواب، چائے پیجئے

 

کوئی بھی رک نہیں سکا ہمارے درمیاں

پلٹ گیا ہے آفتاب، چائے پیجئے

 

شبِ فراق ڈھل گئی کہ دل سنبھل گیا

مجھے نہیں پتا جناب، چائے پیجئے

 

صدا سے بھی بلند بازگشت یوں ہوئی

کہ دھڑکنیں تھیں بے حجاب، چائے پیجئے

 

ہے آپ کی پسند سے بھی آگہی مجھے

مگر نہ دیجئے عذاب، چائے پیجئے

٭٭

 

 

 

 

 

 

شاید بری لگے کوئی ترمیم ہجر کو

سونپی ہے اس لیے تری تجسیم ہجر کو

 

سانسیں شمار کیوں نہ کروں انتظار میں

پل پل میں کر گیا ہے وہ تقسیم ہجر کو

 

صحرا میں ہر طرف ہے ضیا عکسِ یار کی

اس چاندنی نے بخش دی تحریم ہجر کو

 

اس کھیل میں گلہ شبِ ہجراں سے کیا کہ اب

کرتا نہیں ہے شوق بھی تسلیم ہجر کو

 

اشکوں سے کھیلتا ہے وہ اب احتیاط سے

تقصیرِ ذات دے گئی تفہیم ہجر کو

 

مقتل کی بازگشت نے پہنی ہیں سسکیاں

میرے عزا نے کر دیا دو نیم ہجر کو

 

اپنی حیات سے کبھی ناصر یہ پوچھنا

دیتی رہی ہے کس لیے تعظیم ہجر کو

٭٭

 

 

 

 

 

 

آئینے میں جمال خوابیدہ

گویا حسن و کمال خوابیدہ

 

دے رہا ہے جواب میخانہ

جاگتے کیوں سوال خوابیدہ

 

دیکھتا ہوں محاذ پر شب بھر

سیکڑوں احتمال خوابیدہ

 

کیا کروں میرے گھر پہ قابض ہیں

خار، پتھر، ملال خوابیدہ

 

دستکیں جاگتی رہی لیکن

لٹ گئے ماہ و سال خوابیدہ

 

آنکھ میں اوج ہے مگر میری

تاک میں ہے زوال خوابیدہ

 

میں گلہ ہجر سے کروں بھی کیا

بخت میں ہے وصال خوابیدہ

٭٭

 

 

 

 

 

 

بے خودی میں قدم ڈگمگانے لگے ہیں مرے، تھام لو

میں بکھرتا چلا جا رہا ہوں، خدارا مجھے تھام لو

 

میں کہ تشکیل کے مرحلوں سے گزر کر یہاں آ گیا

اس شکستہ بدن پر محبت بڑا بوجھ ہے، تھام لو

 

مختصر سی ملاقات نے زندگی کا احاطہ کیا

ایک پل سے بچھڑتے ہوئے یاد کے قافلے تھام لو

 

راستہ، گفتگو، آگہی، مہلتیں، مختصر مختصر

مختصر سی یہی زندگی کاٹ کر ہم چلے، تھام لو

 

سامعہ! زندگی ایک ہی سانس ہے، اور ہے مختصر

اور یہ پھول بھی سانس ہے، مسکرا کر اسے تھام لو

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آنکھ سے خواب کی تعبیر کہاں تک ہوتی

اَن کہی بات کی تفسیر کہاں تک ہوتی

 

یہ ہزیمت مجھے منظور نہیں تھی لیکن

ایسے حالات میں تدبیر کہاں تک ہوتی

 

ہر طرف خار اُگے، ریت اُڑی، خوں پھیلا

دشت میں خواہشِ تعمیر کہاں تک ہوتی

 

شہر کا شہر اُمڈ آیا ہے پرسا دینے

اور مرے درد کی تشہیر کہاں تک ہوتی

 

آخرش ٹوٹ گیا میرا تعلق اس سے

درمیاں وصل کی زنجیر کہاں تک ہوتی

 

تہمتِ عشق نے مجبور کیا تھا ورنہ

داستاں خون سے تحریر کہاں تک ہوتی

 

میں نہ موسم تھا، نہ خوشبو، نہ متاعِ گلشن

پھر مرے ساتھ وہ تصویر کہاں تک ہوتی

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

عمر بھر دیدۂ نم ناک سے کھیلی

زندگی موجۂ ادراک سے کھیلی

 

وہ صدا کتنی توانا تھی کہ اُٹھ کر

اپنے ہی لہجۂ بے باک سے کھیلی

 

وہ جو آشفتہ سری ہجر نے اُگلی

مجھ سے گزری تو مری خاک سے کھیلی

 

کٹ گئے دستِ ہنر یاب تو مٹی

جھوم کر مجھ سے، مرے چاک سے کھیلی

 

کیا تغافل تھا سرِ بزمِ تمنا

میری وحشت میری پوشاک سے کھیلی

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اشک روکیے نہ داستان ختم کیجئے

آج اپنے درد کو شریکِ بزم کیجئے

 

وصل کے طلسم کی لگی ہے نبض ڈوبنے

کپکپاتے ہاتھ کی گرفت نرم کیجئے

 

دشت کے سفر کی مشکلوں کے باب میں کہیں

چشمِ تر سے ہجر حرف حرف نظم کیجئے

 

جیتنے کے شوق میں قدم بڑھائیے مگر

عشق تو مرض ہے لادوا کہ حزم کیجئے

مقتلِ وفا میں خون سے چراغ جل اٹھیں

آخری طلب کے پوچھنے کی رسم کیجئے

 

دل کی دھڑکنوں سے پھوٹتا ہے یہ مطالبہ

اس فسوں طراز کا جمال نظم کیجئے

 

قربتیں قدم قدم پہ یاد آئیں گی ہمیں

زندگی میں پھر کہیں ملیں گے، عزم کیجئے

٭٭

 

 

 

 

 

 

تنفس توڑ کر رستا بنا دے گی

مری مٹی مجھے اوپر اُٹھا دے گی

 

میں کاغذ پر لکھی تحریر ہوں ایسی

جسے تقدیر بھی پڑھ کر جلا دے گی

 

گماں یہ ہے کہ میرے صبر کی شہ رگ

سنانِ وقت پر تہمت لگا دے گی

 

کسی دن تو مرے دل کی بیابانی

تری دہلیز پر آنکھیں اُگا دے گی

مجھے معلوم ہے فاقہ کشی اِک دن

مری بیٹی مرے گھر سے اُٹھا دے گی

 

جلے گا دل چراغوں میں لہو بن کر

اگر خواہش کوئی مقتل سجا دے گی

 

مری آشفتگی آخر سبھی شکوے

گریباں چاک ہوتے ہی مٹا دے گی

 

طلسمِ ہجر نغمہ ریز ہے ناصرؔ

شبِ تاریک بھی جادو جگا دے گی

٭٭

 

 

 

 

 

وفورِ شوق میں تازہ روانیاں لے کر

ملا بھی کیا مجھے معجز بیانیاں لے کر

 

اُسے دکھا نہ سکا میں صداقتیں اپنی

وہ چل دیا ہے کئی بدگمانیاں لے کر

 

یہ لوگ نفرتوں کے بیج بو چکے کیا کیا

کہ موت چل پڑی لاکھوں جوانیاں لے کر

 

لہو کی فصل اُٹھاتے چلیں زمانے سے

پڑاؤ چھوڑنا ہے لا مکانیاں لے کر

 

اسے نہ روک اے شہرِ نوا ! مچلنے دے

چلا ہے جوش میں دل مہربانیاں لے کر

 

تلاش کر رہا ہوں میں متاعِ گم گشتہ

مجھے فریب نہ دینا نشانیاں لے کر

 

اَنا کے باب میں ناصر لکھا ہے پڑھ لینا

کرے گا عشق بھی کیا سر گرانیاں لے کر

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اَب مرے ضبط کو رُسوا نہیں کر سکتا

وہ سرِ عام تماشا نہیں کر سکتا

 

رات بھر دِیپ جلاتا رہا کیوں کر وہ

چاند کیا گھر میں اُجالا نہیں کر سکتا

 

جو کسی ٹھیس کو خاطر میں نہ لاتا ہو

وہ کبھی غم کا مداوا نہیں کر سکتا

 

ترکِ الفت کا تصور بھی قیامت ہے

میں اُسے چھوڑ دوں، ایسا نہیں کر سکتا

 

لاکھ خوابوں میں، سرابوں میں رکھے لیکن

آئینہ عکس کو سیدھا نہیں کر سکتا

 

بین کرتی ہے فضاؤں کی خموشی بھی

جب کوئی شخص تقاضا نہیں کر سکتا

 

سامعہ ! میرا پتا پوچھ نہ لوگوں سے

خود کو میں اور بھی تنہا نہیں کر سکتا

 

عقل توہینِ مراسم سے گریزاں ہے

عشق توہینِ تمنا نہیں کر سکتا

٭٭

 

 

 

 

 

 

دکھوں کی انجمن آرائیوں سے لرزاں ہے

وہ اپنی ذات کی تنہائیوں سے لرزاں ہے

 

نظر میں جاگتی ہیں بدگمانیاں کیا کیا

یہ دل شعور کی بینائیوں سے لرزاں ہے

 

ہجومِ شہر کے ہاتھوں میں لاکھ پتھر ہوں

یہ شہر آج بھی سودائیوں سے لرزاں ہے

 

تو جس کے نام پہ بیٹھا ہوا ہے مسند پر

وہی غریب تو مہنگائیوں سے لرزاں ہے

 

جواز ڈھونڈتا ہے تہمتوں کے ناصر بھی

وہ کیوں نصیب کی رسوائیوں سے لرزاں ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سماعتوں سے بھی ہوئی مری فغاں بلند

مری نظر سے ہو گیا ہے آسماں بلند

 

اُبھر گیا ہے دل مرا کہ اُٹھ گیا وجود

ہے ثبت اس صلیب پر کس کا نشاں بلند

 

قدم قدم پہ گھٹ رہا ہے میرا اعتماد

جبیں پگھل گئی مگر درِ بتاں بلند

 

جدائیوں کے احتمال کا تھا یہ سلوک

گھٹی گھٹی صدا مگر تھی داستاں بلند

 

شکست نظریات کی تھی یا کوئی فریب

کہ آتشیں عدو سے تھا وہ آشیاں بلند

 

اے حکمران ! احتجاج سے بڑھی ہے بات

فضا میں ہو چلی ہے سرخ تر سناں بلند

٭٭

 

 

 

 

 

 

دیدۂ اشک بار دل بھی ہے

آج تو بے قرار دل بھی ہے

 

دل کی نادانیاں نہیں لکھتے

سامعہ ! سوگوار دل بھی ہے

 

تیرے سچ پر یقین ہے لیکن

قابلِ اعتبار دل بھی ہے

 

واہموں کا جہان ہے، مانا

کچھ تو نا پائیدار دل بھی ہے

 

ناز کر قافلے کے پہلو میں

ایک نیزہ سوار دل بھی ہے

 

اس جنوں کے طفیل برسوں سے

برسرِ روزگار دل بھی ہے

 

دل کا مہمان آ گیا ناصر

آج تو دل نثار دل بھی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

افسوس ! آخری گھڑی کمزور کر گئی

مجھ کو تو میری موت بھی کمزور کر گئی

 

پہلے پہر کے چاند نے مایوس کر دیا

پچھلے پہر کی تیرگی کمزور کر گئی

 

مجھ کو جھکا سکی نہ تھی یہ مفلسی کبھی

لیکن صدا فقیر کی کمزور کر گئی

 

پانی چھڑک رہا ہے وہ اپنے وجود پر

دریا کو اس کی تشنگی کمزور کر گئی

آخر تمھیں جواب دہ ہونا پڑا یہاں

دیکھو ! تمھیں بھی عاشقی کمزور کر گئی

 

پلٹا تو خود کو دیکھ کے حیران رہ گیا

یہ کیا ؟ مجھے بھی زندگی کمزور کر گئی

 

ناصر جو دیکھ بھال کے لوحِ وجود پر

اک آرزو لکھی، وہی کمزور کر گئی

٭٭

 

 

 

 

 

Valentine’s Day

 

احتسابِ زندگی کے ہاتھ پر رکھا ہوا

ایک دن ہے بس شمارِ لازمانی کے لیے

زندگی کے موسموں کے جائزے کا ایک دن

مختصر سا ایک دن ہے مسکرانے کے لیے

 

وقت کے دستِ ہنر کی لغزشوں کا مدعا

تلخیِ حالات کے شرمندۂ جاں واقعے

کارواں در کارواں چلتے ہوئے سب ہم سفر

سانس کے پیچھے چھپے تفسیرِ غم کے مے کدے

چشمۂ صدق و وفا کے دست پر کھینچے ہوئے

شہرِ جاں کے منصفوں کے خون سے تر فیصلے

ایک زنجیرِ جنوں کی ماتمی سی داستاں

التجائے روشنی کے دائروں کے ماجرے

 

استعاروں کی زباں کے مرثیے، تشنہ لبی

آگہی کے جاگتے معجز سخن حیرت کدے

کیسۂ ماہِ وصالِ یار کی رنگینیاں

خونِ دل سے پھوٹتے فکر و سخن کے قافیے

 

چاندنی جو خامشی کی وادیوں میں چھپ گئی

ہمتوں کے نقش جو دل میں اترتے ہی گئے

روٹھنے، پھر ماننے، مل کر بچھڑنے کا فسوں

بے عصا رسموں رواجوں کی اسیری کے صلے

 

ہر شکستِ خواب کے پہلو سے اُٹھتا ہے شرر

کس طرح اب اعتبارِ عشق کا عقدہ کھلے؟

ہر نگاہِ آشنا سے جھانکتی ہے بے رُخی

کس طرح اجڑی ہتھیلی پر گلابِ دل سجے؟

 

کس طرح میں ایک دن پر زندگی کو بانٹ دوں ؟

ایک دن ہے بس شمارِ لامکانی کے لیے

احتسابِ زندگی کے ہاتھ پر رکھا ہوا

ایک دن ہے بس شمارِ لازمانی کے لیے

٭٭

 

 

 

 

 

اگر تم کہو تو میں پردہ ہٹا دوں

سرِ بزمِ جاناں کہانی سنا دوں

 

اُٹھے تھے قدم، رک گئے، ڈگمگائے

اچانک تمھیں کیا ہوا، میں بتا دوں ؟

 

کسی کی جدائی نے بے گھر کیا تھا

کوئی پوچھتا ہے نیا گھر بنا دوں ؟

 

کوئی بھول کر اس طرف آ نہ جائے

مرا بس چلے نقشِ پا تک مٹا دوں

 

ترے سرخ ہونٹوں کی شادابیوں پر

ستارے، کلی، دل یا جگنو سجا دوں ؟

٭٭

 

 

 

 

o

 

سامعہ !

اسلام آباد کی ایک شاعرہ نے مجھے فون پر کہا ہے۔۔۔’’ لیہ پسماندہ لوگوں کا علاقہ ہے۔ ان لوگوں کی سوچ کا کینوس بھی صحرائے تھل کی طرح بے آب و گیاہ اور بنجر ہے۔ ‘‘

ہاں ۔۔۔ اگر زمینی سبزہ اور ہریالی کی حد تک اسلام آباد اور لیہ کا موازنہ کیا جائے تو اس نے غلط نہیں کہا۔

ہاں ۔۔۔ اگر اس نے کشادہ سڑکوں، چم چم پھسلتی گاڑیوں اور فلک بوس ٹاورز کی حد تک یہ موازنہ کیا ہے تو غلط نہیں کہا۔

ہاں ۔۔۔ اگر اس نے منہ بگاڑ کر انگریزی بولتے سٹیچوز اور پگڑی کے بوجھ تلے دبے انسانوں کا تقابل پیش کیا ہے تو غلط نہیں کہا ۔۔۔

مگر۔۔۔ اس نے تہذیبوں کا موازنہ کیا ہے تو اسے خبر کر دو کہ لیہ کی معلوم تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے جبکہ اس کا شہر دورِ ایوبی تک مختصر تاریخ کا حامل ہے۔

اگر۔۔۔ اس نے ادبی قد کاٹھ پر بات کی ہے تو اس سے کہو کہ وہ ڈاکٹر خیال امروہوی، اشو لال اور نسیم لیہ جیسا ایک شاعر یا ادیب اپنے مرغزاروں سے نکال دکھائے ۔۔۔

اگر۔۔۔ اس نے فکری اور تحقیقی عنصر کو پیمانہ کیا ہے تو اس سے کہو کہ وہ ڈاکٹر خیال امروہوی کی سی فکر اپنی سرسبزوشاداب مگر بے تہذیب دھرتی سے نکال کر سامنے لائے ۔۔۔

یہ سچ ہے کہ لیہ پاکستان کے تمام شہروں کی طرح کا ایک شہر ہے جس میں میت اٹھانے والے کاندھے خریدے نہیں جاتے ۔۔۔ جس میں روڈ ایکسیڈنٹ کے لیے لوگ ریسکیو والوں کو فون کر کے اپنے گھروں کی راہ نہیں لیتے بلکہ زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتال پہنچاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی بلا لاتے ہیں ۔۔۔ جس میں ہمسائے کے بارے میں پوچھنے والے کو یہ نہیں کہا جاتا کہ میں اسے نہیں جانتا ۔۔۔ جس میں غریب سے غریب انسان بھی اپنے مہمان سے یہ نہیں کہتا کہ آپ کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، میں شام کو وقت نکال کر آپ سے ملنے آؤں گا۔۔۔ جس میں کوئی بھائی اپنی بہن سے یہ نہیں کہتا کہ تم کیوں اعتراض کرتی ہو، میں نے تو کبھی کچھ نہیں کہا ۔۔۔

سامعہ ۔۔۔ میں اس تک یہ بات پہچانا چاہتا ہوں کہ شہر اور علاقے سبز زمین، بلند عمارتوں اوراجلی سڑکوں کی بنا پر بڑے یا چھوٹے نہیں ہوا کرتے بلکہ انہیں بڑا یا چھوٹا ان میں رہنے والا انسان کرتا ہے۔

اور۔۔۔ اسے یہ بھی کہنا ہے کہ لیہ کو بڑا علاقہ یہاں کے رہنے والوں نے ثابت کر رکھا ہے۔ کیا کوئی ہے جو اسلام آباد کو بڑا شہر ثابت کر سکتا ہو؟

سامعہ۔۔۔ سچ کہوں ۔۔۔ باپ امیر ہو یا غریب ۔۔۔ بادشاہ ساز ہوتا ہے اور مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والا اگر اپنے باپ پر انگلی اٹھانے لگ جائے تو سلطنت برباد ہو جایا کرتی ہے۔

اور یہی سچ ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

سرد پتلوں سے لپٹ جانا بھی

کتنا مشکل ہے پلٹ جانا بھی

 

یاد ہے شعلہ نوائی اپنی

اور چادر میں سمٹ جانا بھی

 

کیا گراں گزرا دلِ ناداں پر

بے سبب راہ سے ہٹ جانا بھی

 

ایک پوشیدہ خبر لایا ہے

تیری آواز کا پھٹ جانا بھی

 

کتنا تکلیف رساں ہے ناصر

اپنی مٹی پہ رپٹ جانا بھی

٭٭

 

 

 

 

 

 

سنا جس نے خموشی سے سزاوارِ نظر ٹھہرا

مگر جو بولتا تھا، کب خطا وارِ نظر ٹھہرا

 

پذیرائی گئی عریاں لبوں کی گفتگو لیکن

حیا کا بانکپن محفل میں پندارِ نظر ٹھہرا

 

تماشائی بہت حیران تھے یہ فیصلہ سن کر

جسے بے کار سمجھا تھا وہ شہکارِ نظر ٹھہرا

 

وہاں ردِّ عمل بھی سرد مہری سے مشابہ تھا

زیاں کاروں کی نگری میں جو اِظہارِ نظر ٹھہرا

 

اُٹھا جب اعتبارِ جاں، جنوں بے کیف، دل مردہ

نظر میں سوختہ آنسو نہ کردارِ نظر ٹھہرا

 

مری تقدیر کرتی ہے مرے جذبوں کی نیلامی

یہ دل کتنا مقدس تھا جو بازارِ نظر ٹھہرا

 

بدل جاتی ہے یوں بھی زندگی اپنا چلن ناصر

وہ جو نورِ نظر تھا آج دیوارِ نظر ٹھہرا

٭٭

 

 

 

 

 

 

جو گھڑی تیرے نام ہوتی ہے

وہ بڑی تشنہ کام ہوتی ہے

 

میں غلط کہہ گیا روانی میں

زندگی خوش خرام ہوتی ہے

 

جتنا مایوس دن اُبھرتا ہے

اتنی بے کیف شام ہوتی ہے

 

کیوں مری سامعہ کی آنکھوں میں

خواہشِ ناتمام ہوتی ہے

 

میرے حالات ہنس پڑے سن کر

خود کشی بھی حرام ہوتی ہے

 

عاشقی میں لگی ہوئی تہمت

واجب الاحترام ہوتی ہے

 

۔۔۔  ق  ۔۔۔

 

پیر، ملّا، درِ سیاست کی

آشنائی حرام ہوتی ہے

 

حکمراں بے ضمیر ہو جائے

قوم ساری غلام ہوتی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہو گئے حرف و سخن بے معنی

جیسے بہروں کے بدن بے معنی

 

بند کمروں کی صدا آوارہ

بھر گئی دل میں گھٹن بے معنی

 

موسمِ دل کے ورق خالی ہیں

ہو گیا رنگِ چمن بے معنی

 

بے یقینی سی اُتر آتی ہے

جب بھی ہوتی ہے تھکن بے معنی

 

ڈال دی شب نے بڑی رغبت سے

میرے بستر پہ شکن بے معنی

 

ان لٹیروں کی سیاست نے تو

کر دیا رختِ وطن بے معنی

 

وقت آیا ہے سفر کا ناصر

یہ زمیں خالی، زَمن بے معنی

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہ شبِ ہجر کبھی عقدہ کشائی دے گی

بخت کے چاند تلک مجھ کو رسائی دے گی

 

حاکمِ وقت فصیلوں میں چھپا بیٹھا ہے

میری آواز کہاں اس کو سنائی دے گی

 

بے حسی اتنی زیادہ ہے کہ ڈر لگتا ہے

آخری سانس ہی مفلس کو رہائی دے گی

 

مجھ پہ الزام لگا سوچ کے دولت والے!

میری غربت بھی عدالت میں صفائی دے گی

موت کے بعد بھی میں زندہ رہوں گا صدیوں

اک صدا روز مری تلخ نوائی دے گی

 

زندگی تجھ سے خدا چھین تو لے گا لیکن

والیِ شہر ! تجھے موت خدائی دے گی

 

ایک لقمے کو ترستی ہوئی غربت اک دن

حکمرانوں کے گھروں میں بھی دکھائی دے گی

٭٭

 

 

 

 

 

 

ہائے کیا عاشقی کما لی ہے

ہجر نے دل کشی چُرا لی ہے

 

میرے قامت کو ماپنے والے

تیری دستار گرنے والی ہے

 

کتنا مایوس ہے یہ دل جس نے

ایک دیوار پھر اُٹھا لی ہے

 

ان فقیروں کے بھیس پر مت جا

ایک دنیا یہاں سوالی ہے

 

مسکرایا نہ جا سکا پھر بھی

ہر خوشی عید کی منا لی ہے

 

زندگی اُونچ نیچ رکھتی ہے

بخت کی جنگ لا اُبالی ہے

 

اے مسیحا ! دوا نہ دے مجھ کو

پیٹ خالی ہے، جیب خالی ہے

 

امن کے داعیوں نے بالآخر

امن کی فاختہ گرا لی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

o

 

اے سامعہ!

تم میرے ارد گرد بسنے والوں کو خدا پرست کہتی ہو۔

کیا ایک خدا کی پرستش کرنے والے لوگ اتنے کمزور، بزدل اور مفاہمت شناس ہوا کرتے ہیں ؟

میرے اردگرد بسنے والے لوگ تو پوری طرح خود پرست بھی نہیں ہیں۔

بلکہ یہ تو پوری طرح مردہ پرست بھی نہیں ہیں۔

یہ تو مردوں کی غیر موجود صفات کی غیر مصدقہ کہانیوں کی تخلیق، اشاعت اور پرستش میں مبتلا لوگ ہیں۔

ان کے نزدیک یہ خوبی نہیں کہ کوئی غریب اپنے حصے کی روٹی کسی دوسرے غریب کے حلق میں اتارے

کوئی بچہ اپنی جمع پونجی بچانے کے عین حتمی وقت میں اپنی نہ دکھائی دیتی ہوئی ماں کا حکم یاد رکھے اور زادِ راہ لٹا دے

کوئی خدا کے نام پر قتل کرتے ہوئے اچانک ذاتی دشمنی پیدا ہونے کو تقدیم دیتے ہوئے ارادہ قتل سے باز آ جائے

کوئی کمر پر رکھ کر گیہوں کی بوریاں غریبوں کے گھروں میں پھینکتا رہے

کوئی اپنے محبوب کی زیارت پر عمر بھر ماں کی خدمت کو ترجیح دیتا رہے اور عمر بھر تڑپتا رہے

نہیں سامعہ ۔۔۔ ان کے نزدیک یہ کوئی خوبیاں نہیں بلکہ ان کے نزدیک خوبی کا معیار یہ ہے کہ کسی بھی آئندہ وقت میں وہ خوبی ثابت کی جا سکے نہ دہرائی جا سکے۔ غیر انسانی اور غیر فطری کام ان کیلئے خوبیوں کے زمرے میں وارد ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ

کہ انسان ہوا میں اڑتا ہوا آئے ۔۔۔

دیوار پر بیٹھے اور وہ بے جان ہوتے ہوئے بھی چل پڑے۔۔۔

سمندر کا پانی غیر فطری انداز میں انسان کو راستہ دے دے ۔۔۔

چلتی ہوئی ہوا رک جائے ۔۔۔

برستی ہوئی بارش رک جائے ۔۔۔

اچانک آندھی آ جائے ۔۔۔

ایک انسان ایک ہی وقت میں دو مختلف جگہوں پر دکھائی دے۔۔۔

زندگی تو زندگی رہی، وہ موت کے بعد بھی لوگوں کے معاملات میں دخل دیتا رہے ۔۔۔

وہ دکھائی دیتے دیتے حصارِ مادیت سے نکلے اور آنکھوں سے اوجھل ہو جائے ۔۔۔

یعنی ہمارے اطراف میں بسنے والے لوگ حق پرست نہیں

اور مردہ پرست بھی نہیں

سچ کہتا ہوں کہ یہ خوبی پرست بھی نہیں ہیں بلکہ خود تراشیدہ واقعات کی پرستش میں مستغرق لوگ ہیں۔ یہ ان واقعات کو ہم سب پر ثابت اور حاوی کرنا چاہتے ہیں جن کی حقانیت کو ثابت تک نہیں کر سکتے۔ نہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعات جب فلاحِ انسانیت کے باب میں غیر اہم ہیں تو ان کو نصابوں کا حصہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟

ہاں ! یہ تو ماورائیت و فوقیت پرست ہیں جنہیں تم خدا پرست قرار دیتی ہو۔

جب بھی کوئی کارنامہ رونما ہوتا ہے تو اس کے عقب میں علم یا عمل، دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک عنصر کارفرما ہوتا ہے۔ کیا لوگوں کی بیان کردہ ان ہزاروں کہانیوں کے عقب میں یہ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک موجود ہے؟

اگر ہے تو پھر وہ بنی نوعِ انسان سے چھپا کیوں لیا گیا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ ان کے گھر، دکانیں، مذہبی مراکز اور تعلیمی درسگاہیں کسی کرامت سے روشن نہیں بلکہ ایک ننھے سے بلب سے روشن ہیں جنہیں یہ ’’کارنامہ‘‘ ماننے سے گریزاں ہیں۔ ان کی اونچی آواز جس ننھے سے پرزے کی محتاج ہے، یہ اس سے ’’انکاری‘‘ ہیں۔

تو کیا یہی سچ ہے سامعہ۔۔۔ کہ یہ فوقیت پرست لوگ تو خود پرست بھی نہیں واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنی پرستش کی نہ خود کو سنوارنے کا کوئی کشٹ اٹھایا۔

اور سامعہ۔۔۔ خدا کی پرستش کا عمل تو خود کو پہچاننے، سنوارنے، خدا کو پہچاننے اور اس پر اس کے تمام اوصاف سمیت ایمان لانے کے بعد ترتیب پاتا ہے۔ کیا تم نے کسی شخص کو زندگی میں ان میں سے کسی مرحلے میں کھڑے پایا؟

اگر تمہارا جواب نہیں میں ہے تو پھر تمہارے لیے بہتر ردِ عمل یہی ہے کہ اپنی تلاش میں نکل پڑو ۔۔۔ خدا شناسی کا عمل نسبتاً آسان ہو جائے گا۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ

موت کے ساتھ چلتا رہا مقبرہ

 

گھر گرے تو سبھی لوگ چپ چاپ تھے

کتنے طوفاں اُٹھے جب گرا مقبرہ

 

میری گستاخیاں حد سے بڑھتی گئیں

تیرے افکار کو لکھ دیا مقبرہ

 

دوستوں کا بھلا ہو کہ جن کے سبب

میرا گھر نہ بنا، بن گیا مقبرہ

 

خانقاہیں ہنر کے عوض دے گئیں

وصل کے خواب، پھونکیں، دیا، مقبرہ

 

بے گھروں کے مقدر پہ ہنستا رہا

ایک مردے پہ سایہ کشا مقبرہ

 

مفلسوں کے لہو سے چراغاں ہوا

رات بھر رقص کرتا رہا مقبرہ

 

تاجرِ شہر پر بابِ زر کھل گیا

زیرِ تعمیر ہے اِک نیا مقبرہ

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

غزل کے ساتھ ساتھ خوشبوئے گلاب گم

شتاب آ کہ زندگی کی ہو چلی ہے تاب گم

 

گلی گلی بھٹک رہا ہوں میں یہ جانتے ہوئے

کہ رتجگوں کی راکھ میں ہوئے ہیں سارے خواب گم

 

وہ زود گوئیاں کہاں، وہ زود فہمیاں کہاں

عجیب گفتگو ہوئی، سوال گم، جواب گم

 

لٹے لٹے سے دیس میں کھڑا ہوں خالی ہاتھ میں

متاع گم، حیات گم، حیات کا نصاب گم

 

یہ حشر کیا بپا کیا ہے وقت نے زمین پر

کہ دن کا آفتاب گم ہے شب کا ماہتاب گم

 

تھکی تھکی سی رات میں عجیب تر وصال تھا

اِدھر میں اپنی کھوج میں رہا اُدھر جناب گم

 

یہ کپکپاتی عمر دو قدم تو میرا ساتھ دے

یہیں غلام گردشوں میں ہے مرا شباب گم

٭٭

 

 

 

 

 

 

فکر بے سود ہے، چارہ گر بانجھ ہے

نفرتوں سے بھرا یہ نگر بانجھ ہے

 

خون سے تر بہ تر لاش ہے کوکھ میں

مامتا آج پھر دربدر بانجھ ہے

 

عمر اِس سلطنت کی ہوئی بے ثمر

موت کی خامشی میں سفر بانجھ ہے

 

اے صحافی! تجھے نوٹ درکار ہیں

ہر خبر بیچ دے، ہر خبر بانجھ ہے

 

مفلسوں کے لیے سرحدیں کیا ہوئیں

ہر زمیں بوجھ ہے ہر شجر بانجھ ہے

 

سج گئیں مسلکی قتل گاہیں یہاں

مسجدیں بند ہیں، راہ بر بانجھ ہے

 

امن محدود ہے قتل سے قتل تک

مذہباً سلطنت کس قدر بانجھ ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ژولیدہ سر جنوں، سکوت، رت جگا بھی تھا

محاذِ عشق پر میں بے سپر کھڑا بھی تھا

 

متاعِ دل لٹا دی میں نے بزمِ غیر میں

یہ کیا کہ میں نظر نظر میں سرپھرا بھی تھا

 

سراجِ رہ گزر نے کرچیاں نہیں چنیں

بجا کہ وہ مرے وجود پر رُکا بھی تھا

 

وہ آج آندھیوں میں لڑکھڑا گیا تو کیا

وہی کڑی مسافتوں میں رہ نما بھی تھا

 

مجھے وصالِ یار لطف دے گیا مگر

وہ لمحہ میری ذات کے لئے سزا بھی تھا

 

بتا دے مجھ کو اے صدائے صبر آزما !

شتاب دل کے پاس کوئی راستا بھی تھا؟

 

رہِ جنوں میں خاک ہو رہا ہوں دم بہ دم

یہ ابتدائے عشق میں اس نے کہا بھی تھا

 

جو ناصر اُٹھ گیا تو رند بول ہی پڑے

یہ مے کدے کی جان تھا اور پارسا بھی تھا

٭٭

 

 

 

 

 

اپنی سامعہ کے نام ایک ادھوری نظم

 

(ا)

بصارت کپکپائے تو مناظر چیخ اُٹھتے ہیں

صدا دم توڑتی ہے تو خموشی شور کرتی ہے

 

محبت تو فقط ٹوٹی ہوئی چُوڑی کا نوحہ ہے

کہا تھا ناں محبت آخرش کمزور کرتی ہے

 

(۲)

تجھے تو سامعہ ! شب بھی سُلا کر ناز کرتی ہے

چمکتی صبح پلکوں سے جگا کر ناز کرتی ہے

 

صبا کی نغمگی جو عنبریں زلفوں سے ٹکرائے

سرِ دربار اپنا سر جھکا کر ناز کرتی ہے

 

ترا حسنِ تلاطم خیز موجوں پر پھسلتا ہے

ترے عارض کو شبنم گدگدا کر ناز کرتی ہے

 

وفورِ شوق سے چھُو لے ترے گرداب سے ڈِمپل

نظر کی تشنگی گھونگھٹ اُٹھا کر ناز کرتی ہے

 

جبینِ ناز پر قربان ہیں مہتاب کی کرنیں

کہا ناں کہکشاں قدموں میں آ کر ناز کرتی ہے

 

مجھے حیران کرتی ہے فضا کی بے بسی کہ وہ

شرارت شوخیاں تیری چُرا کر ناز کرتی ہے

 

گلابیں پیرہن پہنے ہوئے الزام دیتے ہیں

کلی خوشبو تیری زلفوں سے لا کر ناز کرتی ہے

 

 

(۳)

مگر مجھ پر نصابِ وقتِ آخر چیخ اُٹھتا ہے

میں بیٹھا ہوں مگر قدموں کی آہٹ شور کرتی ہے

 

مری قربانیاں سب رائیگاں جاتی ہیں اس لمحے

کہ جب تیری رفاقت بھی مجھے کمزور کرتی ہے

 

(۴)

تجھے تو سامعہ ! آنسو بہانے کی اجازت ہے

سسکتی رات کا قصّہ سنانے کی اجازت ہے

 

تجھے کیسے زمانہ روک سکتا ہے پلٹنے سے

تجھے ہر اِینٹ مرضی سے لگانے کی اجازت ہے

 

جواں لمحے ترے گیسو سنواریں، خواب ہو جائیں

گلابوں کو تری زلفیں سجانے کی اجازت ہے

 

شبِ ہجراں وصالِ یار کے قصّے سنائے تو

تجھے رُخ پھیر کر اس کو ستانے کی اجازت ہے

 

بدلتی شام کا منظر چنے گا کرچیاں کب تک

مگر تجھ کو اُسے بھی آزمانے کی اجازت ہے

 

مری نغمہ سرا آنکھیں جگاتی ہیں بدن تیرا

تجھے نغمے کی ہر لَے کو سُلانے کی اجازت ہے

 

مرا دل توڑنا ہو یا مجھے سرشار کرنا ہو

جلانے کی، ستانے کی، منانے کی اجازت ہے

 

(۵)

مگر میرے تخاطب پر زمانہ چیخ اُٹھتا ہے

میں روتا ہوں، مرے اندر خموشی شور کرتی ہے

 

مرے اندر کا صحرا بھی مجھے رستا نہیں دیتا

مجھے تشنہ لبی کی ہر گھڑی کمزور کرتی ہے

 

(۶)

تری تابندگی میں سامعہ ! نکہت دھڑکتی ہے

تری قسمت کشا آنکھوں سے مَے اب بھی چھلکتی ہے

 

ترے شانوں پہ رقصاں ہے تمدن کی درخشانی

تری زلفوں میں آ کر زندگی رستا بھٹکتی ہے

 

تری رنگت نے یہ فتنہ جگایا ہے سرِ محفل

کرن اپنے مہِ کامل سے کٹ کر بھی چمکتی ہے

 

تری ٹوٹی ہوئی چُوڑی پہ دل قربان ہوتے ہیں

ترے ہونٹوں کو چھو کر سانس کی آتش بھڑکتی ہے

 

نہیں ! تجھ کو نہیں معلوم دل پر کیا گزرتی ہے

ہتھیلی سے دعا جب ریت کے جیسے سرکتی ہے

 

تری پاکیزگی کیا ہے جسے چھونے کی خواہش میں

کلی اپنے معطر ہاتھ سے شبنم جھٹکتی ہے

 

شبِ پر نور کی بانہوں میں ہر دم جھولتی لڑکی!

مرے شعروں کی حیرانی میں تُو ہی تُو جھلکتی ہے

 

(۷)

مگر میری کہانی پر مقدر چیخ اُٹھتا ہے

مرے کمرے میں تنہائی بپھر کر شور کرتی ہے

 

سسکتی زندگی سے روٹھنا چاہوں کہ میرا دل

دھڑکتا ہے مگر دھڑکن مجھے کمزور کرتی ہے

 

(۸)

تعلق سامعہ ! تجھ سے مرا مبہم نہیں تھا ناں

حیاتِ بے خبر میں سوختہ موسم نہیں تھا ناں

 

خموشی اَوڑھ کر تُو نے سنی تھی شاعری میری

مرا جذبہ کسی تحریک سے تو کم نہیں تھا ناں

 

بڑے زوروں کی سردی تھی، بڑے زوروں کی بارش تھی

دسمبر نم، ہوائیں نم، مگر میں نم نہیں تھا ناں

 

ہجومِ بے کراں کیسے نگل جاتا ترا پَیرو

ستارہ بادلوں کی اوٹ میں مدھم نہیں تھا ناں

 

ترے حسنِ بیاں سے پھوٹتے نغموں کی لَے توبہ!

سرِ بزمِ وفا اُس دن کسی میں دم نہیں تھا ناں

 

ترے پیروں تلے دنیا کی ہر خواہش مچلتی تھی

مگر تیرا ارادہ عشق میں محکم نہیں تھا ناں

 

مرے دکھ پر تری آنکھوں کی حیرانی بجا ہی تھی

ترے دامن میں خوشیاں تھیں، کوئی بھی غم نہیں تھا ناں

 

(۹)

مگر میں درد کی شدت سے اکثر چیخ اُٹھتا ہوں

الجھتا ہوں جو قسمت سے تو قسمت شور کرتی ہے

 

بڑا مانوس ہوں رسوائیوں سے آج بھی لیکن

محبت پر لگی تہمت مجھے کمزور کرتی ہے

٭٭

 

 

 

 

O

 

۲۰۱۲ء۔۔۔

یاد ہے۔۔۔ برسوں پہلے۔۔۔’’کوئی آ نہ جائے۔۔۔‘‘کے روایتی خوف سے چند لمحے چرا کر تم نے ایک سوال کیا تھاجس کا میں کوئی جواب دینا آج تک مجھ پر قرض چلا آیا۔۔۔

جہاں تابِ گویائی آسرا نہ دیتی ہو، وہاں میں اپنی قوتِ تحریر کا سہارا لیتا ہوں اور مجھے اس دہلیز نے کبھی مایوس نہیں لوٹایا۔

سو، یہ قرض اتارنے جا رہا ہوں۔

سنو اے نقیبِ جاں ۔۔۔ اے حرزِ جاں ۔۔۔ سنو!

بلاشبہ آج میرا کوئیBackground نہیں ہے۔

مگر یہ بھی طے کیا جائے کہ انگریزی کی اس اصطلاح کا بذاتِ خود کیا مقام ہے؟ ۔۔۔ اور تمہارے لب و لہجے کے تند رخش پر سوار ہونے کے بعد اس نے کس فریب کا چغہ اوڑھ لیا ہے؟

اور۔۔۔اس کی توقیر کیا ہے ؟

حق تو یہ ہے کہ اب یہ لفظ میرے نزدیک بھی بے وقعت نہیں رہا۔

اگر تمہارے سوال سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ میرے عقب میں کوئی غیر معمولی مالدار شخص۔۔۔ ہماری معاشرتی روایات کے سنگھاسن پر بیٹھا ہوا کوئی جاگیر دار۔۔۔عقائد کے لہو پر پلنے والا کریہہ مذہبی کردار۔۔۔ جراثیم آلود پھونکیں بیچنے والا روحانی تاجر۔۔۔ میرے پیسوں پر عیش کوش زندگی بسر کرنے والا سیاست دان ۔۔۔ یا عوامی خدمت کا راگ الاپتے ہوئے گدھ کر طرح معاشرے کو نوچنے والاسرکاری افسر اپنے کروفر سمیت مسند نشین ہے ۔۔۔ تو تم بجا ہو۔۔۔ میرا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس وقت تھا، جب تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔

البتہ جو کچھ ہے، وہ میرے ساتھ ہے، ہر وقت عیاں، ہر وقت موجود ۔۔۔

میرا پس منظر ایک گھنی اور ثمر بار چھاؤں سے ڈھکا ہوا تھا اور اس چھاؤں کا عنوان ’’محمد بخش‘‘ تھا۔ وہ میرا باپ تھا۔ بہت بلند قامت انسان ۔۔۔

اور ۔۔۔اس پہاڑ جیسے قامت والے شخص کو موت کی نادیدگی نے پرسوں شام پانچ بجے نگل لیا۔ وہ اپنا عہد سمیٹ کر جا چکا ہے۔ کبھی نہ لوٹنے کے لیے!!!

میرے باپ کے تھکے تھکے کندھے، سہراب سائیکل اور سالخوردہ چوبی دروازہ۔۔۔کیا تمہیں ایک فوقی پس منظر والے شخص کی نشاندہی نہیں کرتا؟

اور ہاں ! میرے باپ نے اپنی شادی کے دن سہ پہر میں چارہ کاٹ کر مویشیوں کا ڈالا تھا اور میرا دادا میرے باپ کو یتیمی اور میری دادی کو بیوگی ترکے میں دے کر دارِ فانی سے رخصت ہوا تھا۔

یعنی میرا  Back ground  میرا باپ تھا۔ وہ، جس نے واجبی تعلیم حاصل کی مگر مجھے اپنی بساط سے کہیں زیادہ پڑھایا۔ وہ، جس نے اپنی تمام عمر ’رزقِ حلال‘ کے چکر میں نعمتیں گنوانے میں گزار دی مگر مجھے پالتا رہا۔ وہ، جسے ملازمت کے تمام عہد میں کرپشن نہ کرنے، لوٹ مار نہ کرنے اور اپنی دنیا میں گم رہنے کی سزا ملتی رہی، وہ سہتا رہا اور سہراب سائیکل کے پیڈل پر پیڈل مارتا رہا۔ وہ، جسے اس کے ماتحت کہا کرتے تھے کہ آپ ہمارے ساتھ، گاڑی میں، فیلڈ میں ڈیوٹی پر جایا کریں کیونکہ انہیں شرم آتی تھی کہ ان کا آفیسر سائیکل پر میلوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ وہ، جسے زندگی نے پیار سمیت کچھ بھی نہیں دیا مگر وہ دنیا سے، دنیا والوں سے پیار کرتا رہا۔ وہ، جسے یہ فخر تھا کہ اس نے دس ہزار کے قریب لوگوں کو ’’ملا‘‘ نہ ہوتے ہوئے فی سبیل اللہ قرآن کی تعلیم تھی۔ وہ، جسے یہ فخر تھا کہ اس نے ہوش کی زندگی میں نماز اور روزہ قضا نہیں کیا تھا۔ وہ، جسے یہ فخر تھا کہ اس کا بیٹا آفیسر نہیں بنا اور نہ ہی اس نے کوئی نوکری کی۔ وہ، جسے یہ فخر تھا کہ اس نے زندگی بھر ’درخت‘ لگائے ہیں اور ایک بھی درخت کاٹنے کے جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔۔۔

مگر تمہاری دنیا ان خوبیوں سے آراستہ شخص کو کب بڑا مانتی ہے۔

یہاں تو بڑائی کے پیمانے ان خوبیوں سے متصادم ہیں۔

ہاں ۔۔۔ میں اپنی رو میں بہک گیا۔ تم نے ٹھیک کہا کہ میرا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔

اور یقیناً ۔۔۔ ایک اور سامعہ دنیا میں آ چکی ہے

جو

میرے بیٹے کو کہے گی

’’تمہارا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔ ‘‘

٭٭

 

 

 

 

 

 

نزعی بیان

 

عشق کا ہر فلسفہ پڑھنے کے بعد

عشق کو دیکھا ہے بے نَیلِ مرام

ہم سفر تھا یہ نہ میرا ہم مزاج

عشق تو بے فیض تھا، بے فیض ہے

آج اپنے آپ کو سوچا کہ جب

موت کی تلخی لبوں تک آ گئی

اور پچھتاوا مقدر ہو گیا

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اک سانس کو سولی پہ چڑھاتی ہے خدائی

پھر سب کو دکھاتی ہے تعصب کی کمائی

 

اک نسل پسِ پشت کھڑی سوچ رہی ہے

اجداد نے دنیا کی یہ کیا شکل بنائی

 

خاموش در و بام کو سینے سے لگا کر

اِس بار بھی پہلے کی طرح عید منائی

 

انسان کو حاکم یا خدا ماننے والو

انسان نے دھرتی پہ سدا آگ لگائی

 

میں سرد نگاہوں سے کھڑا دیکھ رہا ہوں

مہندی میں رچے ہاتھ سے پھٹی کی چنائی

 

رہبر نے اسے قتل کیا غیظ میں آ کر

جس شخص نے رستے میں کہیں شمع جلائی

 

جینا ہے تو انسان اسے قتل ہی سمجھے

سر سبز درختوں کی بہر طور کٹائی

٭٭

 

 

 

 

 

یہ سچ نہیں سراجِ رہ گزر نے رات کھول دی

حقیقتاً تو نورِ چشمِ تر نے رات کھول دی

 

شمار کر رہا تھا میں عدو کی سازشیں مگر

ہٹا کے زلف میرے چارہ گر نے رات کھول دی

 

عظیم ہے فسوں طراز کرب آشنائے دل

جلا کے اپنے آپ کو شجر نے رات کھول دی

 

عجب مفاہمت شناس گھر میں رہ رہا ہوں میں

جو میں نے اوڑھ لی، وہ بام و در نے رات کھول دی

 

طلسمِ عشق جاگتا رہا مگر یہ کیا ہوا؟

میں تھک گیا تو میرے ہم سفر نے رات کھول دی

٭٭

 

 

 

 

 

o

 

لیہ شہر میں ایک تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔

معمر شاعر شعیب جاذب کی کتاب کی رونمائی کی تقریب۔۔۔

کتاب منقبت پر لکھی گئی تھی۔ کتاب میں شامل مواد سلامِ حسین، شانِ حسین اور فکرِ حسین پر مبنی تھا۔

جبکہ تمام مقالہ نگاروں نے کتاب کو نعتیہ کلام پر مبنی ثابت کیا اور رطب اللسانی کی۔ کسی بھی مقالے کا تعلق کسی بھی طریقے سے کتاب کے مواد سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

اس غلط فہمی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کتاب کے سرورق پر گنبدِ خضرا کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔

یعنی تمام مقالہ نگاروں نے کتاب کو کھولنے کی زحمت ہی نہیں کی اور رٹی رٹائی تقریریں داغ ماریں۔

اور۔۔۔ سامعہ! سچ یہ ہے کہ میں بھی اس کتاب پر مقالہ پڑھنے کے لیے تقریب میں گیا تھا اور میں نے بھی کتاب کا مطالعہ نہیں کر رکھا تھا۔ سوچ رکھا تھا کہ ڈائس پر کھڑے کھڑے کتاب کا عنوان دیکھوں گا اور کچھ نہ کچھ بول دوں گا۔

اور ۔۔۔ تاخیر سے پہنچنے کی بدولت میں اس کارِ خیر میں شامل ہونے سے رہ گیا ۔۔۔ یعنی بچ گیا۔

تم اس رویے کو کیا نام دو گی؟

٭٭

 

 

 

 

 

 

لَوٹنے کا گناہ کر کے بھی

کیا ملا گھر تباہ کر کے بھی

 

خاک ہو کر بکھر گیا ہوں میں

راستوں سے نباہ کر کے بھی

 

ہار بیٹھے مقدّمہ اپنا

دوستوں کو گواہ کر کے بھی

 

شوق تکمیل پا نہیں سکتا

خود کو یوں رُوسیاہ کر کے بھی

 

جنگ لڑتا رہا مقدر سے

دل سپردِ سپاہ کر کے بھی

 

بے دھڑک سو گئے ہیں گھر والے

چور کو سربراہ کر کے بھی

 

لطف ملتا ہے ہجر میں ناصر

درد کو بے پناہ کر کے بھی

٭٭

 

 

 

 

 

 

O

 

عزیز از جاں سامعہ !

تم کیا سمجھتی ہو؟ تمہارا بدن مجھے بلاتا ہے؟

نہیں۔ اس جیسے، اس سے کہیں زیادہ چمکیلے اور آفتابی بدن محض پانچ سات سو میں رات بھر کے لئے مل جاتے ہیں۔ تمہارے بدن کو تو بکنے کا ہنر بھی نہیں آتا ہو گا۔

بتاؤ، تمہارے پاس اس بوسے کے آگے کونسا جہان ہے؟ تمہارے پاس اپنے شکستہ بدن کی خیرات کے سوا بھی کچھ ہے؟ کیا تم ایک رات کی تھکن کے عوض ایک لمبی کفالت کی طلبگار نہیں ہو؟

اور تمہارا یہ کہنا کہ تمہیں محبت ہو گئی ہے۔۔۔ کتنا عجیب سا لگ رہا ہے مجھے۔

محبت سب سے پہلے بچپنا چھنتی ہے۔ اس کا پہلا وار آنکھوں کی چمک، لہجے کی سچائی انگیز کھنک، فطری لاپروائی، بے خوفی، تجسس آمیز خو، برجستگی، شرارت، اپنے جذبات کے اظہار کی بے لاگ عادت، روانی، قناعت۔۔۔ پر ہوتا ہے اور آناً فاناً چاٹ جاتی ہے۔

اور پہلے لمحے میں آنکھوں میں تشویش، دماغ میں مفاہمت اور سیاست کا چلن، جھجک، پروا، خوف اور خوب سے خوب تر کی تلاش بھر دیتی ہے۔۔۔

اب تم جا کر آئینہ دیکھو۔۔۔ پھر اپنے اس بیان کی تلخیوں پر نگاہ ڈالو۔۔۔

کیا میں نے سچ کہا ہے کہ تمہیں محبت نہیں ہوئی؟

٭٭

 

 

 

 

 

؟

 

مہِ کامل ! مقدر سے کبھی شکوے کیے تم نے؟

لرزتی انگلیوں پر بے سبب دن بھی گنے تم نے؟

طلسمِ ہجر نے ٹوٹے بدن کو گدگدایا ہے؟

کبھی بے ربط سے جملے بنا سوچے کہے تم نے؟

کھلی کھڑکی کے پردوں پر لرزتا عکس دیکھا ہے؟

مکمل یا ادھورے خواب آنکھوں کو دیے تم نے؟

کسی کی یاد نے سرگوشیاں کی ہیں شرارت سے؟

فراقِ یار کے چبھتے ہوئے نشتر سہے تم نے؟

ہتھیلی کی لکیروں سے کریدا ہے کوئی سپنا؟

کلی، جگنو، حنا، آنسو ہتھیلی پر رکھے تم نے؟

تمھارے ہونٹ پر جاگی تمازت گرم سانسوں کی؟

گھڑی کی دھڑکنوں سے چند کانٹے ہی چنے تم نے؟

کبھی دل پر لرزتا ہاتھ رکھا ہے اکیلے میں ؟

کھنکتی چوڑیوں سے پھوٹتے قصے سنے تم نے؟

 

نہیں اے سامعہ! تم نے محبت کو نہیں دیکھا

ستم گر زندگی کا ہر چلن تبدیل کرتی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

عمر انسان سے بانٹتی ہے بھی کیا

آخرش رخت میں چھوڑتی ہے بھی کیا

 

کنجِ آشفتہ سر سے تجھے آج تک

کیا ملا؟ تشنگی، تشنگی ہے بھی کیا

 

اس نے جینا سزا کر دیا ہے مگر

وہ نہ ہو تو مری زندگی ہے بھی کیا

 

کب دیا جل اُٹھا، کب دیا بجھ گیا

چشمِ بے نور کو روشنی ہے بھی کیا

 

مسکرانے تلک درد کی تاب ہے

مسکراہٹ مگر قیمتی ہے بھی کیا

 

عمر بھر ڈھونڈنے سے ملی دشت کی

آگہی، ہاں مگر آگہی ہے بھی کیا

 

کچھ نہیں ہاتھ میں، بخت میں کچھ نہیں

وہ اگر ساتھ ہو تو کمی ہے بھی کیا

 

تلخیوں سے بچاتی رہے تابکے؟

زندگی سے مری دوستی ہے بھی کیا

 

سامعہ ! مسکرا کر اسے ٹال دو

مجھ سیہ بخت کی تیرگی ہے بھی کیا

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

سورج کو ہتھیلی پہ اُٹھا اور ضیا کر

یہ کارِ محبت ہے ذرا دل سے دعا کر

 

تسلیم تو کرنا ہے مجھے اس کا بہانا

وہ شخص مگر بات کرے آنکھ ملا کر

 

ناکام عقیدے پہ بھروسا بھی نہیں اور

مقتل کو چلا ہوں میں اسے دل سے لگا کر

 

بے سود ہے اب ذکر ترا جانتا ہوں میں

ملتا ہے مگر کیف مجھے درد جگا کر

 

اب یار کے نامے بھی سنبھالے نہیں جاتے

دفنانے چلا ہوں میں انہیں آج سجا کر

 

مزدور سے کہتے ہیں معاشرتی درندے

اک سانس کما جسم کو سولی پہ چڑھا کر

 

آیا ہے مقابر کی حکومت کا زمانہ

تم پیش کرو اپنا خدا قبر سے لا کر

٭٭

 

 

 

 

 

 

چار سُو شرمگیں اُجالا ہے

نور کیا آپ نے اُچھالا ہے

 

اس اَنا کے مہیب جنگل میں

دل نے اک راستہ نکالا ہے

 

مفلسا ! اب ترے مقدر کے

ہاتھ میں آخری نوالا ہے

 

بے سبب مجھ کو چھوڑنے والے

تم نے کیوں مورچہ سنبھالا ہے

 

اب یہ جانا کہ خامشی دکھ ہے

اور یہ دکھ بھی میں نے پالا ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

انسان گرے بھی تو سنبھل جاتا ہے

اظہارِ محبت سے بہل جاتا ہے

 

ہر بار یہی عشق سے میں نے سیکھا

موسم ہو یا انسان، بدل جاتا ہے

 

دل گود سے نکلے ہوئے بچے کی طرح

اب دور، بہت دور نکل جاتا ہے

 

شبنم سے دھُلی، مست، شرارت کرتی

کلیوں کا بدن چاند مسل جاتا ہے

 

میں روز بچاتا ہوں اسے دنیا سے

دل روز کسی بات پہ جل جاتا ہے

 

برسوں سے سنبھالا ہے مری آنکھوں نے

وہ اشک جو الفاظ میں ڈھل جاتا ہے

 

میں جب بھی کوئی نقش بنانے بیٹھوں

آنکھوں میں ترا عکس پگھل جاتا ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چل پڑا قافلہ، بچھڑ جاؤ

توڑ دو رابطہ، بچھڑ جاؤ

 

بے ثمر سی رفاقتوں کے بعد

اب یہی طے ہوا، بچھڑ جاؤ

 

موت سے اختلاف کیا کرنا

مان کر فیصلہ، بچھڑ جاؤ

 

اے مرے ہم نفس اجازت ہے

درمیاں کیا رہا ؟ بچھڑ جاؤ

 

حاصلِ گفتگو یہی ہے ناں

عشق ہے لا دوا، بچھڑ جاؤ

 

مدتوں کچھ نہیں لکھا میں نے

سامعہ ! اک ذرا بچھڑ جاؤ

 

یہ تو خود سے بچھڑ رہا تھا میں

تم سے کس نے کہا بچھڑ جاؤ

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

کانچ پر میری محبت کو نہ تول اور مجھے دیکھ

شام اب رقص میں ہے زہر نہ گھول اور مجھے دیکھ

 

اب مری لاش اٹھا، بین کی آواز کو بھی روک

پھر ذرا جھوم گلے ڈال کے ڈھول اور مجھے دیکھ

 

رقص کرنا ہے مجھے اور مرے پاس ہے اک رات

گنگنا درد بھرے گیت کے بول اور مجھے دیکھ

 

جو بھی الزام لگا ایک ذرا اِس سے مگر قبل

روح پر زخم بھی گن، راکھ پھرول اور مجھے دیکھ

 

اے سیہ رات ترے ہاتھ میں ہے آج مرا بخت

بے دھڑک ہو کے لگا ہجر کا مول اور مجھے دیکھ

 

میری ہستی کی دراڑوں پہ اُٹھا شوق سے انگشت

ہاں مگر خود سے لپٹتے ہوئے جھول اور مجھے دیکھ

 

آخری وصل کو پر کیف بنا اور کئی بار

چاند بے پردہ دِکھا، زلف بھی کھول اور مجھے دیکھ

٭٭

 

 

 

 

 

o

 

 

دنیا کو فتح کرنے کے لیے مضبوط قوتِ ارادی چاہیے۔

تم بھی ایک بھری پُری دنیا ہو۔۔۔

تمہیں فتح کرنے کے لیے۔۔۔ یا۔۔۔ تم سے دستبردار ہونے کے لیے بھی مضبوط قوتِ ارادی چاہیے۔

مگر میں کیا کروں ؟

بارہا سوچاکہ تمہیں فتح کرنا اگر مجھ سے ممکن نہیں ہوا تو مجھے دست بردار ہو جانا چاہیے۔۔۔ سوچنے کے بعد ارادہ ۔۔۔ اور پھر ارادے کی تکمیل کے لئے قوتِ ارادی ۔۔۔ اور پھر ہار جاتا ہوں۔ سوچتا رہوں مگر تابکے؟

بارہا سوچاکہ سگریٹ نوشی ترک کر دوں۔ سوچنے کے بعد ارادہ ۔۔۔ اور پھر ارادے کی تکمیل کے لیے مضبوط قوتِ ارادی ۔۔۔  اور پھر ہار جاتا ہوں۔ سوچتا رہوں مگر تابکے؟

بارہا سوچا کہ مشاعرے میں شرکت کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ ارادہ ہوا کہ آئندہ اس بے فیض رتجگے کے قریب نہیں جاؤں گا۔ تک بندوں کی صحبت سے بچوں گا۔ جھاڑ جھنکار میں ذہن زخمی نہیں کروں گا مگر جب کوئی دوست مصر ہو جاتا ہے تو اسے انکار نہیں کر پاتا۔ مصمم ارادے کی فصیل میں شگاف پڑ جاتا ہے۔۔۔ اور پھر ہار جاتا ہوں۔ سوچتا رہوں مگر تابکے؟

نرگسیت، داد و تحسین کی طلب، اپنا آپ منوانے کا جذبہ، دیرینہ احباب سے ملنے کی توقع، ہم عصروں کے سفر کا احاطہ، غبارِ دل طشت از بام کرنے کا جنوں ۔۔۔ نجانے مجھے کون اس بازارِ ہنر میں لے جاتا ہے جہاں سیکڑوں سننے والوں کے درمیان کوئی ایک آدھا سامع ایسا ہوتا ہے جو سمجھ رہا ہوتا ہے۔۔۔ اور وہ لب کشائی نہیں کرتا ۔۔۔

میں اپنے ہنر کو تماشا گاہ میں کیوں لے جاتا ہوں ؟

مجھے تحسین کے چند کھوکھلے جملوں کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟

شاعری میں مقابلے کا رجحان کیونکر ممکن ہے؟ کیا سبھی شاعر ایک مقررہ ٹریک میں دوڑ رہے ہیں ؟ کیا فکر کی لغات میں بڑھیا پن اور گھٹیا پن جیسے پیمانے موجود ہیں ؟کیا میر اور غالب کو ایک میزان کے دو پلڑوں میں رکھا جا سکتا ہے؟ کیا فیض اور اقبال کے افکار کا موازنہ ممکن ہے؟ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔

تو پھر یہ بے فیض ریاضت کیوں ؟

آج بھی ایسی بے فیض ریاضت کے نام اپنا رتجگا کر آیا ہوں۔ روشنیوں کی چکا چوند، احباب کا ہجوم، سرگوشیاں، الجھی الجھی نظریں ۔۔۔ ایسے میں ایک ہم عصر اپنی غزل پیش کرنے اسٹیج پر گیا۔ غزل کے پہلے مصرعے نے چونکا دیا۔ وہ کسی مروجہ، کم مستعمل یا غیر مستعمل بحر کا مصرعہ نہیں تھا بلکہ سرے سے غیر موزوں کلام کا حصہ تھا۔۔۔ دوسرے مصرعے نے چودہ طبق روشن کر دیے۔ مطلع میں نہ ردیف تھی، نہ قافیہ ۔۔۔ نہ دونوں مصرعے ہم وزن۔۔۔ چونک کر پہلو میں بیٹھے شاہد بخاری کو دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھی حیرت کا سمندر بنی، ساکت و جامد، اس مجمع باز پر منجمد تھیں۔ ایک طویل سانس لے کر اس نے بڑی لاچارگی سے میری طرف دیکھا۔ وہ بھی کچھ نہ بولا۔ میں بھی گم صم اسے دیکھتا رہا۔

غزل تمام ہوئی۔ اس میں سننے، سمجھنے اور پرکھنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر۔۔۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا بڑا جان لیوا تھا جب پورا ہال واہ، واہ، مکرر اور داد و تحسین کے ڈونگروں سے گونج اٹھا۔۔۔

سامعہ! کیا میں ایسے سامعین کا تعاقب کرتا ہوں ؟

کیا مجھے ایسی ہی داد و تحسین کی طلب ہے؟

٭٭

 

 

 

 

 

ستائش

 

غزل بڑی عجیب تھی، ردیف تھا نہ قافیہ

کسی بھی مصرعے میں دل کی بے کلی عیاں نہ تھی

کسی بھی شعر میں نہ تھی شبِ فراق کی گھٹن

نہ ذکرِ ماہِ من ہوا نہ بات اَن کہی سنی

نہ قصۂ وصال تھا، نہ کوئی ماجرائے دل

نہ گیسوئے دراز کی حکایتیں بیاں ہوئیں

سراجِ رہ گزر جھکا نہ کاکلوں کے بل کھلے

نہ ارد گرد کی خبر، نہ حالِ بے کساں سنا

کھنک تھی چوڑیوں کی اور تھا نہ زلف کا بیاں

حنا، صبا، وفا، صلہ نہ داستانِ عشق تھی

 

مگر یہ کیا کہ ایک دم فغاں بلند ہو گئی

اِدھر وہ واہ واہ ہوئی کہ الحفیظ و الاماں

اُدھر فلک پہ چشمِ میر یوں چھلک پڑی کہ بس!

٭٭

 

 

 

 

 

 

مہتابیِ شب، رنگِ سحر اور سہی

درویش کے جینے کو ہنر اور سہی

 

اب کھینچتے ہیں نقشِ کفِ پا جو مجھے

اس دشت میں دو گام سفر اور سہی

 

اجداد کی توقیر لہو مانگتی ہے

دستار بچا لوں گا کہ سر اور سہی

 

اس خاک میں کیوں دفن کروں اپنا جنوں

بسرام کی غایت کو نگر اور سہی

 

اے شہرِ دل آویز ! مجھے تھام ذرا

فٹ پاتھ پہ اِک خاک بسر اور سہی

٭٭

 

 

 

 

 

یہ حسن و وفا عشق کی تخلیق سے نکلے

اِس خاک سے جوہر بڑی تحقیق سے نکلے

 

تسخیرِ جہاں ان کے ارادوں میں چھپی ہے

وہ لوگ جو طبقات کی تفریق سے نکلے

 

اب پیشِ نظر ضبط نہیں حرف و صدا کو

اس عشق میں ہم درسِ اتالیق سے نکلے

 

زندان میں جو محوِ عبادت تھے ریا کار

وہ ایک سیہ کار کی تصدیق سے نکلے

 

آشفتہ سری حد سے زیادہ ہے وگرنہ

تھم جائے مرا درد جو توفیق سے نکلے

٭٭

 

 

 

 

o

 

سامعہ!

میں ڈرنے لگا ہوں۔

میں اپنے ڈھنگ سے اپنی مختصر سی زندگی گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھ سمیت کسی کو بھی یہ نعمت دوبارہ نہیں ملے گی۔

میں ہر اس وقت دل کھول کر ہنسنا چاہتا ہوں جب میرا دل چاہے، میں پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا ہوں جب میرے دل پر بوجھ پڑتا ہے، میں بلند آواز میں خود کو کوسنا چاہتا ہوں جب ناکامی کا شکار ہوتا ہوں، میں چیخنا چاہتا ہوں جب مجھے تنہائی میں کسی غم گسار یا گفتگو کرنے اور سننے والے کی طلب ستاتی ہے۔۔۔ مگر تمہارے معاشرے سے ڈر جاتا ہوں۔

کبھی کبھی ۔۔۔میرا نہانے کو جی نہیں چاہتا، مگر نہاتا ہوں، میرا کپڑے بدلنے کو جی نہیں چاہتا مگر بدلتا ہوں، میرا بازار جانے کو جی نہیں چاہتا مگر جاتا ہوں ۔۔۔ بعض اوقات تمہیں دیکھنے یا بلانے کو جی نہیں چاہتا مگر ۔۔۔ تمہاری طرف جا نکلتا ہوں۔

کیوں ؟

صرف اس لیے کہ میں معاشرے کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں جبکہ معاشرہ میرے ساتھ چلنے پر تیار نہیں ہے۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میں Misfit قرار دے کر رد کر دیا جاؤں۔ اور تم جانتی ہو کہ اس معاشرے میں رد کر دیے جانے والے کا مستقبل کیا ہوتا ہے؟

٭٭

 

 

 

 

 

انسان کو مقتل سے نکالا جائے

کافر کو نہیں، کفر کو مارا جائے

 

خاموش گواہی بھی سنی جاتی ہے

اس نام کا اک پیڑ لگایا جائے

 

یہ ہجر سحر ہونے تلک ہے لیکن

اِس رات کا انجام نہ دیکھا جائے

 

آئی ہے تعفن سے بچھڑ کر خوشبو

درویش سے ملبہ تو ہٹایا جائے

 

تسلیم کیا جائے بچھڑنا اس کا

اب ریت کو اشکوں سے نہ گوندھا جائے

 

اس گھر کے در و بام پہ لکھ دیتے ہیں

جانا ہے اُسے جائے، نہ روکا جائے

 

مرحوم کا ہونا تھا نہ ہونے جیسا

اس قبر کے کتبے کو اُتارا جائے

٭٭

 

 

 

 

 

زباں دے کر مکر جانا روایت بھی اسی کی ہے

ہمارے خوں پہ جس نے شہر کی بنیاد رکھی ہے

 

مراسم توڑنے کی بات پر میں اور کیا لکھوں

ہمارے چاہنے سے کب کوئی دیوار اُٹھی ہے

 

فقط اک رات کی رانی پہ میں الزام کیوں دیتا

کلی بھی موتیے کے عشق میں ہر رات جاگی ہے

 

یہ تاریخی حقائق ہیں فقط افسانوی قصے

سدا لاچارگی میں زندگی نے خود کشی کی ہے

 

یہاں ہر شخص کو فرعون سازی میں مہارت ہے

کروڑوں عالموں پر جاہلوں کی حکمرانی ہے

 

خدا کے نام کی تشہیر کرتا ہے وہ مجبوراً

یہ مذہب کی دکاں اس نے بڑی مشکل سے کھولی ہے

 

مرا ہونا نہ ہونا اک برابر ہے زمانے میں

مجھے دفنایا جا سکتا ہے گرچہ سانس باقی ہے

 

مجھے تو ظرف نے رکھا ہوا ہے بے لباسی میں

وگرنہ قبر کی چادر بدن کو ڈھانپ سکتی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک ناکارہ بدن میں جو اتارا گیا ہوں

یہ تو میں اپنے لہو سے ہی مٹایا گیا ہوں

 

مجھ کو معلوم نہیں کس کا مقدر ہوں میں

میں تو سکہ ہوں ہواؤں میں اچھالا گیا ہوں

 

میں نے خود اپنے تراشے ہیں خد و خال یہاں

میں کہاں بخت کے ہاتھوں سے نکھارا گیا ہوں

 

دفن ہونا ہے مجھے شہر میں تکریم کے ساتھ

میں تو میت کی طرح گھر سے نکالا گیا ہوں

 

جو مری ذات کی تشکیل میں مصروف رہا تھا

میں اُسی ہجر کی آنکھوں سے چرایا گیا ہوں

٭٭

 

 

 

 

 

o

 

چھوڑنا چاہتی ہو؟

چھوڑ دو۔ ۔ ۔

بھلا تمہارے چھوڑ دینے سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟

یقیناً یہ نہ تو کائنات کا پہلا واقعہ ہو گا اور نہ ہی آخری سانحہ۔ ۔ ۔

یہ جدائی تاریخ کا حصہ بننے کے لائق نہیں ہے

البتہ! تمہاری ذات کیلئے یہ واقعہ آخری واقعہ ثابت ہو گا

کیونکہ جب میرے بعد کسی کو بھی چھوڑنے لگو گی تو تمہارا ضمیر تمہیں

عادی مجرم ٹھہرائے گا۔ ۔ ۔

اور تم بہت کمزور پڑ جاؤ گی۔

(نوٹ: یہ نظم نہیں ہے)

٭٭

 

 

 

 

منعموں سے ملا نہیں ہوتا

عشق، جس کا خدا نہیں ہوتا

 

آج یا کل، ضرور بچھڑیں گے

کیوں مگر فیصلہ نہیں ہوتا

 

عشق دریا ہے اور دریا میں

ہجر کیا ناخدا نہیں ہوتا

 

سوچ لینا قدم اٹھاتے ہوئے

پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا

 

یا کوئی لوٹ کر نہیں آتا

یا کوئی بھی جدا نہیں ہوتا

 

کتنا پیارا دکھائی دیتا ہے

نقش جب تک بنا نہیں ہوتا

 

عشق کے کھیل میں سدا ناصر

دوسرا سر پھرا نہیں ہوتا

٭٭

 

 

 

 

o

 

میری سامعہ!سنو۔۔۔

بس! اب اور کچھ لکھنا باقی نہیں۔

میں جو لکھ چکا ہوں، یہی میرے لیے جان لیوا ثابت ہونے والا ہے۔ لفظ لفظ عذاب گیں، شعر شعر تکلیف رساں ۔۔۔ ہاں !

مختلف ایک بھی نہیں مجھ سے

کوئی مجھ سا مگر نہیں بھی ہے

اور یہاں ’کوئی‘ سے مراد تمہی ہو۔۔۔ بس تمہی!

٭٭

 

 

 

 

 

 

مجھ کو اپنے سانچے میں کیا ڈھالو گے

یا مجھ کو بھی کافر کہہ کر مارو گے

 

لکھ لو جتنی بھی تفسیریں لکھنی ہیں

آخر تم بھی سچی باتیں لکھو گے

٭٭

 

 

 

 

 

 

فیصلہ

 

سنو اے سامعہ! مجھ کو

تمہی نے آ بکھیرا تھا

تمہی آ کر سمیٹو گی

 

(اوراس فیصلے کے ساتھ ہی میرے اشک سوکھ گئے ہیں۔ فی امان اللہ!)

٭٭

 

 

 

 

 

یہ جمہوری حکومت آ رُلاتی ہے

مرے بچے سدا بھوکے سلاتی ہے

 

جبینوں پر کوئی بدقسمتی لکھ کر

سیاست مفلسوں کو بیچ کھاتی ہے

 

لہو دے کر جسے پہنائی تھی وردی

وہ ظالم کوتوالی گھر جلاتی ہے

 

یہ فرعونیں حکومت کا کرشمہ ہے

مری لونڈی مجھے آنکھیں دکھاتی ہے

 

لٹیرے حکمرانوں کو خبر کر دو

بغاوت بوجھ لاشوں کا اٹھاتی ہے

٭٭

 

 

 

 

 

 

کچھ ایسی پڑی ہے عشق کی اُفتاد کہیں سے

دل کو نہ ملی وقت پہ امداد کہیں سے

 

تا عمر مرے ساتھ چلا سازشی بڈّھا

اب گھیر کے لایا غم اولاد کہیں سے

 

تم لاکھ چھپاؤ دلِ بے زار کی باتیں

سن لیں گے سبھی لوگ یہ روداد کہیں سے

 

اپنی تو کہانی کے تھے انداز عجب سے

مایوس کہیں سے ہوئی بے داد کہیں سے

 

اَب دیکھ عدالت میں تری آن کھڑی ہے

آواز اُٹھا لائی ہے فریاد کہیں سے

 

یہ درد کشا ساعتیں مفہوم طلب ہیں

اب ڈھونڈ کے لانا مرا اُستاد کہیں سے

 

اخبار مرے شہر کا دشوار بہت تھا

تحریر کہیں سے پڑھی، اعداد کہیں سے

 

دل تھام  کے عشاق رہے،  آج سنا جب

ناصر کو ملا ہے دلِ آزاد کہیں سے

٭٭

 

 

 

 

 

 

بے آب سر زمین پر اُگنا پڑا مجھے

تا عمر اپنے آپ سے لڑنا پڑا مجھے

 

آنسو جنوں کی آگ کو مہمیز کر گئے

ٹکڑوں میں خود کو بانٹ کے جلنا پڑا مجھے

 

دن ڈھل گیا تو اس گھڑی خود کو سمیٹ کر

اُس بے وفا کے شہر سے جانا پڑا مجھے

 

مایوس کر گئی مجھے بے فیض دوستی

پھر اپنے دشمنوں سے ہی ملنا پڑا مجھے

 

ہر آگہی عذاب کے در کھولتی رہی

گھر کے سخن وروں سے بھی ڈرنا پڑا مجھے

 

یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب سائباں نہیں

اِس دوپہر کی دھوپ میں آنا پڑا مجھے

 

شوقِ سفر کی تاک میں تھیں سرفروشیاں

دستار ہاتھ میں لیے چلنا پڑا مجھے

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید