FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

/

تفسیر

موضح القرآن

شاہ عبد القادر

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں ……

۔ فاتحہ

۱۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا (ہے) ۔

۲۔ سب تعریف اللہ کو ہے، جو صاحب سارے جہان کا۔

۳۔ بہت مہربان نہایت رحم والا۔

۴۔ مالک انصاف کے دن کا۔

۵۔ تجھی کو ہم بندگی کریں، اور تجھی سے ہم مدد چاہیں۔

۶۔ چلا ہم کو راہ سیدھی۔

۷۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے فضل کیا، نہ وہ جن پر غصّہ ہوا، اور بہکنے والے۔ سب تعریف اللہ کو ہے، جو صاحب سارے جہان کا۔ ف

۔۔۔

ف: یہ سورت اللہ جل شانہ نے بندوں کی زبان سے فرمائی کہ اس طرح کہا کریں۔

٭٭٭

۲۔ البقرہ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا (ہے) ۔

۱۔ الف۔ لام۔ میم۔

۲۔ اس کتاب (قرآن) میں کچھ شک نہیں، راہ بتاتی ہے (اللہ سے) ڈر والوں (متقیوں) کو۔

۳۔ جو یقین کرتے ہیں بِن دیکھا (غائب) ، اور درست (قائم) کرتے ہیں نماز،

اور ہمارا دیا کچھ خرچ کرتے ہیں۔

۴۔ اور جو یقین کرتے ہیں جو کچھ اترا (نازل ہوا) تجھ پر، اور جو اترا (نازل ہوا) تجھ سے پہلے۔ اور آخرت کو وہ یقین جانتے ہیں۔

۵۔ انہوں نے پائی ہے راہ (ہدایت) اپنے رب کی۔ اور وہی مراد کو پہنچے۔

۶۔ اور وہ جو منکر ہوئے، برابر ہے تو ان کو ڈرائے یا نہ ڈرائے، وہ نہ مانیں (نہ ایمان لائیں) گے۔

۷۔ مہر کر دی اللہ نے ان کے دل پر اور ان کے کان پر۔ اور ان کی آنکھوں پر ہے پردہ۔ اور ان کو بڑی مار ہے۔

۸۔ اور ایک (بعض) لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں، ہم یقین لائے اللہ پر اور پچھلے دن (آخرت) پر، اور ان کو یقین نہیں۔

۹۔ دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور ایمان والوں سے، اور کسی کو دغا نہیں دیتے مگر آپ کو۔ اور نہیں بوجھتے (شعور رکھتے) ۔

۱۰۔ ان کے دل میں آزار (بیماری) ہے، پھر زیادہ دیا اللہ نے ان کو آزار۔ اور ان کو دکھ کی مار (دردناک عذاب) ہے۔ اس پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔ ف

۔۔۔

ف: ایک آزار یہ تھا کہ جس دین کو دل نہ چاہتا تھا ناچار قبول کرنا پڑا اور دوسرا آزار اللہ نے زیادہ دیا کہ حکم کیا جہاد کا جن کے خیر خواہ تھے ان سے لڑنا پڑا۔

۱۱۔ اور جب کہئے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں۔ کہیں، ہمارا کام تو سنوار (اصلاح کرنا) ہے۔

۱۲۔ سن رکھو! وہی ہیں بگاڑنے والے، پر نہیں سمجھتے (شعور رکھتے) ۔

۱۳۔ اور جب کہئے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ، کہیں، کاج ہم اس طرح ہوں مسلمان جیسے مسلمان ہوئے بیوقوف؟ سنتا ہے وہی ہیں بیوقوف، پر نہیں جانتے۔

۱۴۔ جب ملاقات کریں مسلمانوں سے، کہیں، ہم مسلمان ہوئے۔ اور جب اکیلے جائیں اپنے شیطانوں پاس، کہیں، ہم ساتھ ہیں تمہارے، ہم تو (ان کے ساتھ) ہنسی کرتے ہیں۔

۱۵۔ اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے، اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی شرارت میں بہکے ہوئے۔

۱۶۔ وہی ہیں جنہوں نے خرید کی راہ کے بدلے گمراہی۔ سو نفع نہ لائی ان کی سوداگری، اور نہ راہ پائے۔

۱۷۔ ان کی مثال جیسے ایک شخص نے سلگائی آگ۔ پھر جب روشن کیا اس کے گرد (آس پاس) کو، لے گیا اللہ ان کی روشنی، اور چھوڑا ان کو اندھیروں میں، نظر نہیں آتا۔

۱۸۔ بہرے ہیں، گونگے، اندھے، سو وہ نہیں پھریں (لوٹیں) گے (سیدھے راستے کی طرف) ۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اللہ کے نبی نے دین اسلام روشن کیا، اور خلق نے اس میں راہ پائی اور منافق نے اس وقت اندھے ہو گئے، آنکھ کی روشنی نہ ہو تو مشعل کیا کام آوے کاش کے نرا اندھا ہو تو کسی کو پکارے یا کسی کی بات سنے بہرا بھی ہو اور گوں گا بھی وہ کیونکر راہ پر آوے منافقوں کو نہ عقل کی آنکھ ہے کہ آپ سے پہچانیں نہ مرشد کی طرف رجوع ہے کہ وہ ہاتھ پکڑے نہ حق کی بات کو کان رکھتے ہیں ایسے شخص سے توقع نہیں کہ پھر پاوے۔

۱۹۔ یا (ان کی مثال ایسی) جیسے مینہ پڑتا ہے آسمان سے، اس میں ہیں اندھیرے اور گرج اور بجلی۔ ڈالتے ہیں انگلیاں اپنے کانوں میں مارے کڑک کے، ڈر سے موت کے۔

اور اللہ گھیر رہا ہے منکروں کو۔

۲۰۔ قریب ہے بجلی کہ اچک لے ان کی آنکھیں۔ جس بار چمکتی ہے ان پر، چلتے ہیں اس میں۔ اور جب اندھیرا پڑا کھڑے رہے۔ اور اگر چاہے اللہ لے جائے ان کے کان (سماعت) اور آنکھیں (بصارت) ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی دین اسلام میں آخر سب نعمت ہے اور سب اور اول کچھ محنت ہے جیسے مینہ آخر اسی سے آبادی ہے، اور اول کی کڑک ہے اور بجلی ہے جو منافق ہیں وہ اول کی سختی سے ڈر جاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے آتی ہے اور جیسے بجلی میں کبھی اجالا ہے اور کبھی اندھیرا ہے اسی طرح منافق کے دل میں کبھی اقرار ہے اور کبھی انکار، اللہ صاحب نے سورة کے یہاں تک تین لوگوں کو احوال فرمایا، اول مومن دوسرے کافر جن کے دل پر مہر ہے یعنی قسمت میں ایمان نہیں تیسرے منافق جو دیکھنے میں مسلمان ہیں اور دل ان کا ایک طرف نہیں۔

۲۱۔ لوگو! بندگی کرو اپنے رب کی جس نے بنایا تم کو اور تم سے اگلوں کو، شاید تم پرہیزگاری پکڑو۔

۲۲۔ جس نے بنا دیا تم کو (تمہارے لئے) زمین بچھونا اور آسمان عمارت، اور اتارا آسمان سے پانی، پھر نکالے اس سے میوے، کھانا تمہارا۔ سو نہ ٹھہراؤ اللہ کے برابر کوئی، اور تم جانتے ہو۔

۲۳۔ اور اگر تم ہو شک میں اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس قسم کی۔ اور بلاؤ (حمایتیوں) جن کو حاضر کرتے ہو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔

۲۴۔ پھر اگر نہ کرو اور البتہ نہ کرو گے تو بچو آگ سے، ، جس کی چھپٹیاں (ایندھن) ہیں آدمی اور پتھر۔ تیار ہے منکروں کے واسطے۔

۲۵۔ اور خوشی سنا ان کو جو یقین لائے اور کام نیک کئے، کہ ان کو ہیں باغ، بہتی نیچے ان کے ندیاں۔ جس بار ملے ان کو وہاں کا کوئی میوے کھانے کو، کہیں، یہ وہی ہے جو ملا تھا ہم کو آگے (پہلے) ، اور ان پاس وہ آئے گا ایک طرح کا (ملتا جلتا) ۔ اور ان کو ہیں وہاں عورتیں ستھری، اور ان کو وہاں ہمیشہ رہنا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جنت کے ہر میوے کا مزہ جدا ہے اگرچہ صورت ملتی ہو، صورت دیکھ رہ جائیں گے کہ وہی قسم ہے جو چکھ چکے ہیں اور چکھیں گے تو مزہ جدا پاویں گے۔

۲۶۔ اللہ کچھ شرماتا نہیں کہ بیان کرے کوئی مثال ایک مچھر یا اس سے کچھ اوپر (حقیر تر) ۔ پھر جو یقین رکھتے ہیں سو جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہے ان کے رب کا کہا۔ اور جو منکر ہیں سو کہتے ہیں، کیا غرض تھی اللہ کو اس مثال سے؟ گمراہ کرتا ہے اس سے بہتیرے اور راہ پر لاتا ہے اس سے بہتیرے۔ اور گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔ ف

۔۔۔

ف: قرآن شریف میں کہیں مثال فرمائی ہے مکڑی کی کہیں مکھی کی اس پر کافر عیب پکڑتے تھے کہ اللہ کی شان نہیں، ان چیزوں کا ذکر کرنا یہ کلام اس کا ہوتا تو ایسے مذکور نہ ہوتے، اس پر یہ دو آیتیں فرمائیں۔

۲۸۔ تم کس طرح منکر ہو اللہ سے اور تھے تم مردے (بے جان) ، پھر اس نے تم کو جلایا (زندگی عطا کی) ۔ پھر تم کو مارتا ہے، پھر جلائے (زندہ کرے) گا، پھر اسی پاس الٹے (لوٹائے) جاؤ گے۔

۲۹۔ وہی ہے جس نے بنایا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے، سب۔ پھر چڑھ گیا آسمان کو تو ٹھیک کیا ان کو سات آسمان۔ اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔

۳۰۔ اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو مجھ کو بنانا ہے زمین میں ایک نائب۔ بولے کیا تو رکھے گا اس میں جو شخص فساد کرے وہاں اور کرے خون؟ اور ہم پڑھتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو۔ کہا، مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔

۳۱۔ اور سکھائے آدم کو نام سارے، پھر وہ دکھائے فرشتوں کو، کہا، بتاؤ مجھ کو نام ان کے اگر ہو تم سچے۔

۳۲۔ بولے: تو سب سے نرالا ہے، ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا تو نے سکھایا۔ تو ہی (ہے) اصل دانا پختہ کار۔

۳۳۔ کہا، اے آدم! بتا دے ان کو نام ان کے، پھر جب اس نے بتا دئیے نام ان کے۔ کہا، میں نے نہ کہا تھا تم کو، مجھ کو معلوم ہیں پردے (راز) آسمان زمین کے، اور معلوم ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔

۳۴۔ اور جب ہم نے کہا فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو، تو سجدہ کر پڑے مگر ابلیس نے قبول نہ رکھا، اور تکبّر کیا اور وہ تھا منکروں میں کا۔

۳۵۔ اور کہا ہم نے اے آدم! بَس (رہو) تو اور تیری عورت جنّت میں، اور کھاؤ اس میں محفوظ ہو کر جس جگہ چاہو۔ اور نزدیک نہ جاؤ اس درخت کے، پھر تم بے انصاف ہو گے۔

۳۶۔ پھر ڈگایا (پھسلایا) ان کو شیطان نے اس سے، پھر نکالا ان کو وہاں سے جس آرام میں تھے، اور کہا ہم نے، تم سب اترو! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تم کو زمین میں ٹھہرنا ہے، اور کام چلانا ایک وقت تک۔

۳۷۔ پھر سیکھ لیں آدم نے اپنے رب سے کئی باتیں، پھر متوجہ ہوا اس پر (توبہ قبول کی) ۔ برحق وہی ہے معاف کرنے والا مہربان۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی آدم کے دل میں اللہ نے کئی لفظ ڈال دئیے اس طرح پکارا تو بخشا گیا وہ سورة اعراف میں ہیں۔

۳۸۔ ہم نے کہا تم اترو یہاں سے سارے۔ پھر کبھی پہنچے تم کو میری طرف سے راہ کی خبر (ہدایت) ، تو جو کوئی چلا میرے بتائے پر، نہ ڈر ہو گا ان کو اور نہ ان کو غم۔

۳۹۔ اور جو منکر ہوئے، اور جھٹلائیں ہماری نشانیاں، وہ ہیں دوزخ کے لوگ، وہ اسی میں رہ پڑے۔

۴۰۔ اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرا احسان۔ جو میں نے کیا تم پر، اور پورا کرو قرار (وعدہ) میرا، میں پورا کروں قرار تمہارا، اور میرا ہی ڈر رکھو۔ ف

۔۔۔

ف: بنی اسرائیل کہتے ہیں اولاد حضرت یعقوبؑ کو انہیں میں حضرت موسیٰؑ پیدا ہوئے اور توریت اتری اور فرعون سے خلاص کر کر ملک شام میں بسایا ان سے اللہ تعالیٰ نے قرار کیا تھا کہ حکم توریت پر قائم رہو گے اور جو نبی میں بھیجوں اس کے مدد گار رہو گے تو ملک شام تم کو رہے گا پھر وہ گمراہ ہوئے یعنی بد نیت ہوئے رشوت لیتے اور مسئلہ غلط بتاتے اور خوشامد کے واسطے حق بات چھپاتے اور اپنی ریاست چاہتے پیغمبر کی اطاعت نہ کرتے اور پیغمبر کی صفت جو توریت میں لکھی تھی بدل ڈالی، اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلاتا ہے اپنے احسان اور ان کی نافرمانی۔

۴۱۔ اور مانو جو کچھ میں نے اتارا، سچ بتاتا تمہارے پاس والے کو اور مت ہو تم پہلے منکر اس کے۔ اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔ اور مجھی سے بچتے (ڈرتے) رہو۔ ف

۔۔۔

ف: توریت میں نشان بتایا تھا کہ جو کوئی نبی اٹھے اگر توریت کو سچا کہے تو توریت کو سچا کہے تو جانو وہ سچا ہے نہیں تو جھوٹا ہے اور آیتوں پر تھوڑا ہوں یہ کہ دنیا کی محبت سے دین مت چھوڑو۔

۴۲۔ اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور یہ کہ چھپاؤ سچ کو جان کر۔

۴۳۔ اور کھڑی کرو نماز اور دیا کرو زکوٰۃ اور جھکو ساتھ جھکنے والوں کے۔

۴۴۔ کیا حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا اور بھولتے ہو آپ کو؟ اور تم پڑھتے ہو کتاب۔ پھر کیا نہیں بوجھتے؟

۴۵۔ اور قوت پکڑو محنت سہارنے (صبر) سے اور نماز سے۔ اور البتہ وہ بھاری ہے، مگر انہیں پر جن کے دل پگھلے ہیں (میں ڈر اور عاجزی ہے)۔

۴۶۔ جن کو خیال ہے کہ ان کو ملنا ہے اپنے رب سے اور ان کو اسی طرف الٹے (لوٹ کر) جانا۔ ف

۔۔۔

ف: قوت پکڑو محنت سہارنے سے اور نماز سے یعنی اس کی عادت کرو تو سب کام دین کے آسان رہیں۔

۴۷۔ اے بنی اسرائیل! یاد کرو احسان میرا جو میں نے تم پر کیا، اور وہ جو میں نے تم کو بڑا کیا (فضیلت بخشی) جہان کے لوگوں سے۔

۴۸۔ اور بچو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے ایک ذرّہ، اور قبول نہ ہو اس کی طرف سے سفارش اور نہ لیں اس کے بدلے میں کچھ اور نہ ان کو مدد پہنچے۔ ف

۔۔۔

ف: بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں پکڑے نہ جاویں گے ہمارے باپ دادا پیغمبر ہم کو چھڑا لیں گے۔

۴۹۔ اور جب چھڑایا ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے، دیتے تم کو برے عذاب، ذبح کرتے تمہارے بیٹے اور جیتی رکھتے تمہاری عورتیں۔ اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی۔

۵۰۔ اور جب ہم نے چیرا تمہارے پیٹھنے (گھسنے) کے ساتھ دریا۔ پھر بچا دیا تم کو اور ڈبویا فرعون کے لوگوں کو، اور تم دیکھتے تھے۔

۵۱۔ اور جب ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے چالیس رات کا پھر تم نے بنا لیا بچھڑا اس کے پیچھے، اور تم بے انصاف ہو۔ ف

۔۔۔

ف: اس کا قصہ سورة طہ میں بیان کیا گیا ہے۔

۵۲۔ پھر معاف کیا ہم نے تم کو اس پر بھی، شاید تم احسان مانو۔

۵۳۔ اور جب دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور چکوتی (نصیحت)، شاید تم راہ (ہدایت) پاؤ۔

۔۔۔

ف: چکوتی وہ حکم جن سے معاملتیں فیصل ہوں اور روا ناروا معلوم ہو۔

۵۴۔ اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو، اے قوم! تم نے نقصان کیا اپنا یہ بچھڑا بنا لے کر، اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مار ڈالو اپنی جان۔ یہ بہتر ہے تم کو اپنے خالق کے پاس۔ پھر متوجہ ہوا تم پر۔ بر حق وہی ہے معاف کرنے والا مہربان۔

۵۵۔ اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ! ہم یقین نہ کریں گے تیرا، جب تک نہ دیکھیں اللہ کو سامنے، پھر (آ) لیا تم کو بجلی نے اور تم دیکھتے تھے۔

۵۶۔ پھر اٹھا کھڑا (زندہ) کیا ہم نے تم کو مر گئے پیچھے (مرنے کے بعد)، شاید تم احسان مانو۔

۵۷۔ اور سایہ کیا تم پر ابر کا اور اتارا تم پر من اور سلویٰ۔ کھاؤ ستھری چیزیں جو دیں ہم نے تم کو۔ اور (نا شکری کر کے) ہمارا کچھ نقصان نہ کیا پر اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔ ف

۔۔۔

ف: جب فرعون غرق ہو چکا اور بنی اسرائیل خلاص ہو کر چلے جنگل میں ان کے خیمے پھٹ گئے تو سارے دن ابر رہتا دھوپ کا بچاؤ اور اناج نہ پہنچا تو من اور سلویٰ اترتا کھانے کو من ایک چیز تھی میٹھی دھنیے کے سے دانے رات کو اوس میں برستے لشکر کے گرد ڈھیر ہو رہتے صبح کو ہر آدمی اپنی قوت کے برابر جن لاتا اور سلویٰ ایک جانور کا نام ہے شام کو لشکر کے گرد ہزاروں جانور جمع ہوتے اندھیرا پڑے پکڑ لاتے کباب کر کر کھاتے، مدتوں تک یہی کھایا کیے۔

۵۸۔ اور جب کہا ہم نے داخل ہو شہر میں، اور کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو محفوظ ہو کر، اور داخل ہو دروازوں میں سجدہ کر کر، اور کہو گناہ اتریں، تو بخشیں ہم تم کو تقصیریں تمہاری، اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: اس جنگل میں پھنسے تھے اپنی تقصیر سے کہ سورة مائدہ میں بیان ہے پھر ایک کھانے سے تھک گئے تب ایک شہر میں پہنچایا اور حکم کیا کہ دروازے میں سجدہ کر کر جاؤ اور حطۃ کہو یعنی گناہ اترے۔

۵۹۔ پھر بدل لی بے انصافوں نے بات، سوا اس کے جو کہہ دی تھی ان کو، پھر اتارا ہم نے بے انصافوں پر عذاب آسمان سے ان کی بے حکمی (نافرمانی) پر۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی ٹھٹھے سے حطۃ کے بدلے کہنے لگے حنطہ یعنی گیہوں اور سجدے کے بدلے لگے سرین پر پھسلنے پھر شہر میں جا کر ان پر طاعون پڑا یعنی وبا پھوڑے کی دوپہر میں قریب ستر ہزار آدمی کے مرے۔

۶۰۔ اور جب پانی مانگا موسیٰ نے اپنی قوم کے واسطے تو کہا ہم نے مار اپنے عصا سے پتھّر کو۔ پھر بہ نکلے اس سے بارہ چشمے۔ پہچان لیا ہر قوم نے اپنا گھاٹ۔ (ہم نے کہا) کھاؤ اور پیو روزی اللہ کی۔ اور نہ پھرو ملک میں فساد مچاتے۔ ف

۔۔۔

ف: اسی جنگل میں پانی نہ ملا تو ایک پتھر سے بارہ چشمے نکلے بارہ قوم تھے کسی میں لوگ زیادہ کسی میں کم، ہر قوم کے موافق ایک چشمہ تھا اس سے پہچان لیا، جب لشکر کوچ کرتا تو پتھر ساتھ اٹھا لیتے جب مقام ہوتا تو رکھ دیتے۔

۶۱۔ اور جب کہا تم نے اے موسیٰ! ہم نہ ٹھہریں گے ایک کھانے پر سو پکار ہمارے واسطے اپنے رب کو، کہ نکال دے ہم کو جو اگتا ہے زمین سے، زمین کا ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز، بولا، کیا تم لیا چاہتے ہو ایک چیز جو ادنیٰ ہے بدلے ایک چیز کے جو بہتر ہے؟ اترو کسی شہر میں تو تم کو ملے جو مانگتے ہو۔ اور ڈالی گئی ان پر ذلّت اور محتاجی، اور کما لائے غصہ اللہ کا۔ یہ اس پر کہ وہ تھے نہ مانتے حکم اللہ کے اور خون کرتے نبیوں کا ناحق، یہ اس لئے کہ بے حکم تھے اور حد پر نہ رہتے تھے۔

۶۲۔ یوں ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صائبین، جو کوئی یقین لایا اللہ پر اور پچھلے دن پر اور کام کیا نیک، تو ان کو ہے ان کی مزدوری اپنے رب کے پاس۔ اور نہ ان کو ڈر ہے اور نہ وہ غم کھائیں۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی کسی فرقے پر موقوف نہیں یقین لانا شرط ہے اور عمل نیک اپنے اپنے وقت جس نے یہ کہا ثواب پایا یہ اس واسطے فرمایا کہ بنی اسرائیل اسی پر مغرور تھے کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں ہم ہر طرح خدا کے ہاں بہتر ہیں یہودی کہتے ہیں حضرت موسیٰؑ کی امت کو صائبین بھی ایک فرقہ ہیں حضرت ابراہیمؑ کو مانتے ہیں۔

۶۳۔ اور جب ہم نے لیا قرار تم سے اور اونچا کیا تم پر پہاڑ۔ (حکم دیا کہ) پکڑو جو ہم نے دیا تم کو زور سے، اور یاد کرتے رہو جو اس میں ہے، شاید تم کو ڈر ہو۔ ف

۔۔۔

ف: جب تورات اتری تو کہنے لگے ہم سے اتّے حکم نہ ہوں گے، تب پہاڑ اوپر آیا کہ گر پڑے، تب ڈر کر قبول کیا۔

۶۴۔ پھر تم پھر گئے اس کے بعد۔ سو اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہر (رحمت) تو تم خراب ہوتے۔

۶۵۔ اور جان چکے ہو جنہوں نے تم میں زیادتی کی ہفتے کے دن میں، تو ہم نے کہا ہو جاؤ بندر پھٹکارے۔

۶۶۔ پھر ہم نے وہ دہشت (عبرت) رکھی شہر کے روبرو والوں (اس وقت کے لوگوں) کو، اور پیچھے والوں کو اور نصیحت رکھی ڈر والوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: یہ قصہ سورة اعراف میں ہے۔

۶۷۔ اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ فرماتا ہے تم کو کہ ذبح کرو ایک گائے۔ بولے، کیا تو ہم کو پکڑتا ہے ٹھٹھے (مذاق) میں؟ کہا پناہ اللہ کی اس سے کہ میں ہوں نادانوں میں۔

۶۸۔ بولے، پکار ہمارے واسطے اپنے رب کو کہ بیان کر دے ہم کو وہ کیسی؟ کہا، وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ بیاہی۔ میانہ ہے ان کے بیچ۔ اب کرو جو تم کو حکم ہے۔

۶۹۔ بولے کہ پکار ہمارے واسطے اپنے رب کو کہ بیان کر دے ہم کو کیسا ہے رنگ اس کا؟ کہا، وہ فرماتا ہے وہ ایک گائے ہے زرد ڈہڈا (شوخ) رنگ اس کا، خوش آتی (اچھی لگتی) ہے دیکھنے والوں کو۔

۷۰۔ بولے پکار ہمارے واسطے اپنے رب کو، بیان کر دے ہم کو کس قسم میں ہے وہ؟ گایوں میں شبہ پڑا ہے ہم کو۔ اور ہم اللہ نے چاہا تو راہ پا لیں گے۔

۷۱۔ کہا، وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے محنت والی نہیں کہ باہتی (جوتتی) ہو زمین کو یا پانی دیتی ہو کھیت کو۔ بدن سے پوری ہے، داغ کچھ نہیں اس میں۔ بولے، اب لایا تو ٹھیک بات۔ پھر اس کو ذبح کیا، اور لگتے نہ تھے کہ کریں گے۔

۷۲۔ اور جب تم نے مار ڈالا تھا ایک شخص کو، پھر لگے ایک دوسرے پر دھرنے۔ اور اللہ کو نکالنا ہے جو چھپاتے تھے۔

۷۳۔ پھر ہم نے کہا مارو اس مردے کو اس گائے کا ایک ٹکڑا۔ اس طرح جلا دے (زندہ کرے) گا اللہ مردے، اور دکھاتا ہے تم کو اپنے نمونے، شاید تم بوجھو۔ ف

۔۔۔

ف: بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اس کا قاتل معلوم نہ تھا، اس کے وارث ہر کسی پر دعوی کرتے اللہ تعالیٰ نے اس طرح اس مردے کو جلایا اس نے بتایا کہ ان وارثوں ہی نے مارا۔

۷۴۔ پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اس سب کے بعد، سو وہ جیسے پتھّر یا ان سے بھی سخت۔ اور پتھروں میں تو وہ بھی ہیں جن سے پھوٹتی ہیں نہریں۔ اور ان میں تو وہ بھی ہیں جو پھٹتے ہیں اور نکلتا ہے ان سے پانی۔ اور ان میں تو وہ بھی ہیں، جو گر پڑتے ہیں اللہ کے ڈر سے۔ اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کام سے۔

۷۵۔ اب کیا تم مسلمان توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمہاری بات؟ اور وہ ایک لوگ تھے ان میں کہ سنتے کلام اللہ کا پھر اس کو بدل دیتا ہے بعد خوب سمجھ لینے کے، جانتے بوجھتے۔ ف

۔۔۔

ف: وہ جو ان میں منافق تھے خوشامد کے واسطے اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزماںﷺ کی باتیں مسلمانوں کے پاس بیان کرتے اور وہ جو مخالف تھے ان کو اس پر الزام دیتے کہ اپنے علم میں ان کے ہاتھ سند کیوں دیتے ہو۔

۷۶۔ اور جب ملتے ہیں ان لوگوں سے جو ایمان لا چکے، کہتے ہیں، ہم مسلمان ہوئے، اور جب اکیلے ہوتے ہیں ایک دوسرے پاس، کہتے ہیں، کیوں کہہ دیتے ہو ان سے جو کھولا ہے اللہ نے تم پر؟ کہ جھٹلائیں تم کو اس سے تمہارے رب کے آگے؟ کیا تم کو عقل نہیں؟ ف

۔۔۔

۷۷۔ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو معلوم ہے جو چھپاتے ہیں اور جو کھولتے ہیں۔

۷۸۔ اور ایک ان میں بِن پڑھے (ان پڑھ) ہیں، خبر نہیں رکھتے کتاب کی، مگر باندھ لیں اپنی آرزوئیں، اور ان پاس نہیں مگر اپنے خیال (گمان)۔

۷۹۔ سو خرابی ہے ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے۔ پھر کہتے ہیں، یہ اللہ کے پاس سے ہے، کہ لیں اس پر مول تھوڑا۔ سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھ کے لکھے سے۔ اور خرابی ہے ان کو اپنی کمائی سے۔ ف

ف: یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کو ان کی خوشی موافق باتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور نسبت کرتے ہیں طرف خدا کے یا رسول کے۔

۸۰۔ اور کہتے ہیں ہم کو آگ نہ لگے گی مگر کئی دن گنتی کے۔ تو کہہ، کیا لے چکے ہو اللہ کے ہاں سے اقرار تو البتہ خلاف نہ کرے گا اللہ اپنا اقرار؟ یا جوڑتے ہو اللہ پر جو معلوم نہیں رکھتے؟

۸۱۔ کیوں نہیں؟ جس نے کمایا گناہ اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے، سو وہی ہیں لوگ دوزخ کے۔ وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ۔ ف

ف: گھیر لیا گناہ نے یعنی گناہ کرتا ہے اور شرمندہ نہیں ہوتا۔

۸۲۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور کئے انہوں نے نیک عمل بھی، وہی ہیں (اہل) جنت کے۔ وہ اسی میں رہ پڑے۔

۸۳۔ اور جب ہم نے لیا اقرار بنی اسرائیل کا، بندگی نہ کرنا مگر اللہ کی۔ اور ماں باپ سے سلوک نیک، اور قرابت والوں سے، اور یتیموں سے اور محتاجوں سے، اور کہنا لوگوں کو نیک بات اور کھڑی رکھنا نماز، اور دیتے رکھنا زکوٰۃ۔ پھر تم پھر گئے مگر تھوڑے تم میں اور تم کو دھیان نہیں۔

۸۴۔ اور جب ہم نے لیا اقرار تمہارا نہ کرو گے خون آپس میں اور نہ نکال دو گے اپنوں کو اپنے وطن سے، پھر تم نے اقرار کیا اور تم مانتے (گواہ) ہو۔

۸۵۔ پھر تم ویسے ہی خون کرتے ہو آپس میں، اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو ان کے وطن سے، چڑھائی کرتے ہو ان پر گناہ سے اور ظلم سے۔ اور اگر وہی آئیں تم پاس کسی کی قید میں پڑے، تو ان کی چھڑوائی دیتے ہو، اور وہ بھی حرام ہے تم پر ان کا نکال دینا۔ پھر کیا مانتے ہو تھوڑی کتاب اور منکر ہوتے ہو تھوڑی سے؟ پھر کچھ سزا نہیں اس کی جو کوئی تم میں یہ کام کرتا ہے، مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں۔ اور قیامت کے دن پہنچائے جائیں سخت سے سخت عذاب میں۔ اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کام سے۔ ف

ف: یعنی اپنی قوم غیر کے ہاتھ پھنسے تو چھڑانے کو موجود ہو اور آپ ان کے ستانے میں قصور نہیں کرتے اگر خدا کے حکم پر چلتے ہو تو دونوں جگہ چلو۔

۸۶۔ وہی ہیں جنہوں نے خرید کی دنیا کی زندگی آخرت دے کر (کے بدلے)۔ سو نہ ہلکا ہو گا ان پر عذاب اور نہ ان کو مدد پہنچے گی۔

۸۷۔ اور ہم نے دی موسیٰ کو کتاب اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول۔ اور دئیے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو معجزے صریح (کھلی نشانیاں)، اور قوت دی اس کو روح پاک سے۔ پھر بھلا جب تم پاس لایا کوئی رسول، جو نہ چاہا تمہارے جی نے تم تکبر کرنے لگے؟ پھر ایک جماعت کو جھٹلایا۔ اور ایک جماعت کو مار ڈالتے۔ ف

۔۔۔

ف: روح القدس کہتے ہیں جبرئیل کو ہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے۔

٨٨۔ اور کہتے ہیں، ہمارے دل پر غلاف ہے۔ یوں نہیں، لعنت کی ہے اللہ نے ان کے انکار سے، سو کم یقین لاتے ہیں۔ ف

۔۔۔

ف: یہود اپنی تعریف میں کہتے تھے کہ ہمارے دل پر غلاف ہے یعنی سوا اپنے دین کے کسی کی بات ہم کو اثر نہیں کرتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا حق بات اثر نہ کرے نشان ہے لعنت کا۔

۸۹۔ اور جب ان کو پہنچی کتاب اللہ کی طرف سے، سچا بتاتی ان پاس والی کو، اور پہلے سے فتح مانگتے تھے کافروں پر، پھر جب پہنچا ان کو جو پہچان رکھا تھا اس سے منکر ہوئے۔ سو لعنت ہے اللہ کی منکروں پر۔ ف

۔۔۔

ف: جب غلبہ کافروں کا دیکھتے تو دعا مانگتے کہ نبی آخر الزماںﷺ شتاب پیدا ہو، جب پیدا ہوا تو آپ ہی منکر ہوئے۔

۹۰۔ برے مول خریدا اپنی جان کو، کہ منکر ہوئے اللہ کے اتارے کلام سے، اس ضد پر کہ اتارے اللہ اپنے فضل سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں۔ سو کما لائے غصّے پر غصّہ۔ اور منکروں کو عذاب ہے ذلّت کا۔

۹۱۔ اور جب کہئے ان کو مانو اللہ کا اتارا کلام، کہیں، ہم مانتے ہیں جو اترا ہم پر، اور وہ نہیں مانتے جو پیچھے آیا اس سے۔ اور وہ اصل تحقیق ہے، سچ بتاتا ان پاس والی کو۔ کہہ، پھر کیوں مارتے رہے ہو نبی اللہ کے پہلے سے؟ اگر تم ایمان رکھتے تھے۔

۹۲۔ اور آ چکا تم پاس موسیٰ صریح معجزے (کھلی نشانیاں) لے کر؟ پھر تم نے بنا لیا بچھڑا اس کے پیچھے، اور تم ظالم ہو۔

۹۳۔ اور جب ہم نے لیا اقرار تمہارا اور اونچا کیا تم پر پہاڑ۔ پکڑو جو ہم نے تم کو دیا، زور سے اور سنو۔ بولے، سنا ہم نے اور نہ مانا۔ اور رچ رہا ان کے دلوں میں وہ بچھڑا مارے کفر کے۔ تو کہہ، برا کچھ سکھاتا ہے تم کو ایمان تمہارا، اگر تم ایمان والے ہو۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی ظاہر میں کہا کہ ہم نے مانا اور چھپے کہا کہ نہ مانا۔

۹۴۔ تو کہہ اگر تم کو ملنا ہے گھر آخرت کا اللہ کے ہاں، الگ سوا اور لوگوں کے، تو تم مرنے کی آرزو کرو، اگر سچ کہتے ہو۔ ف

۔۔۔

ف: کہتے تھے کہ جنت میں ہمارے سوا کوئی نہ جاوے گا اور ہم کو عذاب نہ ہو گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر یقیناً بہشتی ہو تو مرنے سے کیوں ڈرتے ہو۔

۹۵۔ اور یہ آرزو کبھی نہ کریں گے، جس واسطے آگے بھیج چکے ہیں ہاتھ ان کے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے گنہگاروں کو۔

۹۶۔ اور تو دیکھے ان کو سب لوگوں سے زیادہ حریص جینے کے۔ اور شریک پکڑنے والوں سے بھی۔ ایک ایک چاہتا ہے کہ عمر پائے ہزار برس۔ اور کچھ اس کو سرکا (ہٹا) نہ دے گا عذاب سے اتنا جینا۔ اور اللہ دیکھا ہے جو کرتے ہیں۔

۹۷۔ تو کہہ، جو کوئی ہو گا دشمن جبریل کا، سو اس نے تو اتارا ہے یہ کلام، تیرے دل پر اللہ کے حکم سے، سچ بتاتا اس کلام کو جو اس کے آگے ہے، اور راہ دکھاتا اور خوشی سناتا ایمان والوں کو۔

۹۸۔ جو کوئی ہو گا دشمن اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا، اور رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا، تو اللہ دشمن ہے ان کافروں کا۔ ف

۔۔۔

ف: یہود نے کہا کہ یہ کلام لاتا ہے جبرئیل اور وہ ہمارا دشمن ہے، کئی ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کر گیا کوئی اور فرشتہ لاتا تو ہم مانتے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے جو کرتے ہیں بے حکم نہیں کرتے جو ان کا دشمن ہو اللہ بیشک اس کا دشمن ہے۔

۹۹۔ اور ہم نے اتاری تیری طرف آیتیں واضح۔ اور منکر نہ ہوں گے ان سے مگر وہی جو بے حکم ہیں۔

۱۰۰۔ کیا؟ اور جس بار باندھیں گے اقرار، پھینک دیں گے اس کو ایک جماعت ان میں۔ بلکہ وہ اکثر یقین نہیں کرتے۔

۱۰۱۔ اور جب پہنچا ان کو رسول اللہ کی طرف سے، سچ بتاتا ان پاس والی کو، پھینک دی ایک جماعت نے کتاب پانے والوں میں، کتاب اللہ کی اپنی پیٹھ کے پیچھے، گویا ان کو معلوم نہیں۔

۱۰۲۔ اور پیچھے لگے ہیں اس علم کے جو پڑھتے شیطان سلطنت میں سلیمان کے۔ اور کفر نہیں کیا سلیمان نے، لیکن شیطانوں نے کفر کیا، لوگوں کو سکھاتے سحر۔ اور اس علم کے جو اترا دو فرشتوں پر بابل میں ہاروت اور ماروت پر۔ اور وہ نہ سکھاتے کسی کو جب تک نہ کہتے کہ ہم تو ہیں آزمانے کو سو مت کافر ہو۔ پھر ان سے سیکھتے جس چیز سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اس کی عورت میں۔ اور وہ اس سے بگاڑ نہیں سکتے کسی کا، بغیر اذن اللہ کے۔ اور سیکھتے ہیں جس سے ان کو نقصان ہے اور نفع نہیں۔

اور جان چکے ہیں، کہ جو کوئی اس کا خریدار ہو، اس کو آخرت میں نہیں کچھ حصّہ۔ اور بہت بری چیز ہے، جس پر بیچا اپنی جان کو۔ اگر ان کو سمجھ ہوتی۔

۱۰۳۔ اور اگر وہ یقین لاتے اور پرہیز رکھتے تو بدلا تھا اللہ کے ہاں سے بہتر۔ اگر ان کو سمجھ ہوتی۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی یہود نے اپنے دین اور کتاب کا علم چھوڑ دیا اور لگے تلاش میں اعمال سحر کے اور سحر لوگوں میں دو طرف سے آیا ہے ایک حضرت سلیمانؑ کے عہد میں آدمی اور شیطان ملے رہتے تھے ان شیطانوں سے سیکھا اور وہ یہود اس کو نسبت کرتے حضرت سلیمانؑ کی طرف کہ ہم کو انہیں سے پہنچا ہے اور ان کو حکم جن اور انس پر اسی کے زور سے تھا سو اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا کہ یہ کام کفر کا ہے سلیمان کا کام نہیں اس کے عہد میں شیطانوں نے سکھایا ہے اور دوسرے ہاروت اور ماروت کی طرف سے وہ شہر بابل میں دو فرشتے تھے بصورت آدمی رہتے تھے ان کو علم سحر معلوم تھا جو کوئی طالب اس کا جاتا اول کہہ دیتے کہ اس میں ایمان جاتا رہے گا پھر اگر وہ چاہتا تو سکھا دیتے اللہ تعالیٰ کو آزمائش منظور تھی سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے علموں سے آخرت کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے اور دنیا میں بھی ضرر پاتے ہیں اور بغیر حکم خدا کے کچھ کر نہیں سکتے اور علم دین اور علم کتاب سیکھتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب پاتے۔

۱۰۴۔ اے ایمان والو! تم نہ کہو ’راعنا‘ اور کہو ’انظرنا‘ اور سنتے رہو۔ اور منکروں کو دکھ کی مار ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یہود پیغمبر کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کلام فرماتے بعضی بات جو نہ سنی ہوتی چاہتے کہ پھر تحقیق کریں تو کہتے راعنا یعنی ہمارے طرف بھی متوجہ ہو، ان سے مسلمان بھی سیکھ کر کسی وقت یہ لفظ کہتے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ یہ لفظ نہ کہو اگر کہنا ہو تو انظرنا کہو اور اس کے بھی معنی یہی ہیں اور آگے سے سنتے رہو کہ پوچھنا ہی نہ پڑے یہود کو اس لفظ کہنے میں دغا تھی اس کو زبان دبا کر کہتے تو راعینا ہو جاتا یعنی ہمارا چرواہا اور ان کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے تھے۔

۱۰۵۔ دل نہیں چاہتا ان لوگوں کا جو منکر ہیں کتاب والوں میں اور شرک والوں میں، یہ کہ اترے تم پر کچھ نیک بات تمہارے رب سے، اور اللہ خاص کرتا ہے اپنی مہر (رحمت) سے جس کو چاہے۔ اور اللہ بڑا فضل رکھتا ہے۔

۱۰۶۔ جو موقوف (منسوخ) کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو پہنچاتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر۔ کیا تجھ کو معلوم نہیں؟ کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یہ بھی یہود کا طعن تھا کہ تمہاری کتاب میں بعضی آیت فسخ ہوتی ہے اگر اللہ کی طرف سے تھی تو پھر کیا عیب دیکھا کہ موقوف کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیب نہ پہلی میں تھا نہ پچھلی میں پر حاکم ہر وقت جو چاہے سو حکم کرے۔

۱۰۷۔ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کو سلطنت ہے آسمان اور زمین کی۔ اور تم کو نہیں اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور مدد والا۔

۱۰۸۔ کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو کہ سوال شروع کرو اپنے رسول سے، جیسے سوال ہو چکے ہیں موسیٰ سے پہلے؟ اور جو کوئی انکار لے بدلے یقین کے، وہ بھولا سیدھی راہ سے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی یہود کے بہکائے سے تم اپنے نبی پاس شب ہے نہ لاؤ جیسے وہ اپنے نبی پاس لاتے تھے شب ہے نکالنے گویا یقین چھوڑ کر انکار پکڑنا ہے۔

۱۰۹۔ دل چاہتا ہے بہت کتاب والوں کا، کسی طرح تم کو پھیر کر مسلمان ہوئے پیچھے کافر کر دیں۔ حسد کر کر اپنے اندر سے، بعد اس کے کہ کھل چکا ان پر حق۔ سو تم درگذر کرو، اور خیال نہ لاؤ جب تک بھیجے اللہ اپنا حکم۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ف

۔۔۔

ف: آخر حکم پہنچا یہود کو مدینے کے نزدیک سے نکال دیا۔

۱۱۰۔ اور کھڑی رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ۔ اور جو آگے بھیجو گے اپنے واسطے بھلائی، وہ پاؤ گے اللہ کے پاس۔ اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے۔

۱۱۱۔ اور کہتے ہیں ہرگز نہ جائیں گے جنّت میں مگر جو ہوں گے یہود یا نصاریٰ۔ یہ آرزوئیں باندھ لیں انہوں نے۔ کہہ، لے آؤ سند اپنی اگر تم سچے ہو۔

۱۱۲۔ کیوں نہیں! جس نے تابع کیا منہ اپنا اللہ کے اور وہ نیکی پر ہے اسی کو ہے مزدوری اس کی اپنے رب کے پاس۔ اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ ان کو غم۔

۱۱۳۔ اور یہود نے کہا، نصاریٰ نہیں کچھ راہ پر۔ اور نصاریٰ نے کہا یہود نہیں کچھ راہ پر، اور وہ سب پڑھتے ہیں کتاب۔ اسی طرح کہی ان لوگوں نے جن پاس علم نہیں، انہیں کی سی بات۔ اب اللہ حکم کرے گا ان میں دن قیامت کے، جس بات میں جھگڑتے تھے۔ ف

۔۔۔

ف: جس پاس علم نہیں وہ عرب کے لوگ کہ آگے حضرت ابراہیمؑ کا دین سیکھتے تھے پھر آخر بہک کر بت بوجنے لگے ایسے شخص کو مشرک کہتے وہ اپنی ہی راہ حق بتاتے تھے۔

۱۱۴۔ اور اس سے ظالم کون جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں کہ پڑھیے وہاں نام اس کا اور دوڑا ان کے اجاڑنے کو؟ ایسوں کو نہیں پہنچتا کہ پیٹھیں (گھسیں) ان میں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کو دنیا میں ذلّت ہے، اور ان کو آخرت میں بڑی مار ہے۔ ف

۔۔۔

ف: نصاریٰ آپ کو منصف جانتے تھے اور یہود کو ظالم کہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ سے دشمنی کی اور ہم نے ان کو مانا، اللہ فرماتا ہے کہ جب نصاریٰ نے غلبہ پایا تو مسجد بیت المقدس کو ویران کیا اور یہود کی مسجدیں اجاڑیں اور یہود کے ضد سے یہ کیا انصاف ہے کہ آدمیوں کی ضد سے اللہ کی مسجدیں ویران کریں اور فرماتا ہے کہ یہ بھی لائق نہیں کہ اس ملک میں حاکم رہیں آخر اللہ تعالیٰ نے وہ ملک شام مسلمانوں کے ہاتھ لگایا۔

۱۱۵۔ اور اللہ ہی کی ہے مشرق اور مغرب۔ سو جس طرف تم منہ کرو، وہاں ہی متوجہ ہے اللہ۔ برحق اللہ گنجائش والا ہے سب خبر رکھتا۔ ف

۔۔۔

ف: یہ بھی یہود اور نصاریٰ کا جھگڑا تھا کہ ہر کوئی اپنے قبیلے کو بہتر بتاتا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ مخصوص ایک طرف نہیں اس کے حکم سے جس طرف منہ کرو وہ متوجہ ہے۔

۱۱۶۔ اور کہتے ہیں، اللہ رکھتا ہے اولاد، وہ سب سے نرالا، بلکہ اس کا مال ہے جو کچھ ہے آسمان اور زمین میں۔ سب اس کے آگے ادب سے ہیں۔

۱۱۷۔ نیا نکالنے والا (موجد) آسمان اور زمین کا، اور جب حکم کرتا ہے ایک کام کو تو یہی کہتا ہے اس کو کہ ہو، وہ ہوتا ہے۔

۱۱۸۔ اور کہنے لگے جن کو علم نہیں، کیوں نہیں بات کرتا ہم سے اللہ یا ہم کو آئے کوئی آیت؟ اسی طرح کہہ چکے ہیں ان سے اگلے انہی کی سی بات۔ ایک سے ہیں دل بھی ان کے۔ ہم نے بیان کر دیں نشانیاں واسطے ان لوگوں کے جن کو یقین ہے۔ ف

۔۔۔۔

ف: یعنی اگلی امت جو یہود تھے وہ بھی اپنے نبی سے یہی کہتے تھے جو اب کے لوگ کہنے لگے۔

۱۱۹۔ ہم نے تجھ کو بھیجا ٹھیک بات لے کر، خوشی اور ڈر سنانے کو، اور تجھ سے پوچھ نہیں دوزخ والوں کی۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی تجھ پر الزام نہیں کہ ان کو مسلمان کیوں نہ کیا۔

۱۲۰۔ اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود اور نصاریٰ، جب تک تابع نہ ہو تو ان کے دین کا۔ تو کہہ، جو راہ اللہ دکھائے وہی راہ ہے۔ اور کبھی چلا تو ان کی پسند پر، بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا، تو تیرا کوئی نہیں اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا اور نہ مددگار۔

۱۲۱۔ جن کو ہم نے دی ہے کتاب، وہ اس کو پڑھتے ہیں، جو حق ہے پڑھنے کا۔ وہ اس پر یقین لاتے ہیں۔ اور جو کوئی منکر ہو گا اس سے، سو انہیں کو نقصان ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی یہود میں کم لوگ با انصاف بھی تھے کہ اپنی کتاب کو پڑھتے تھے سمجھ کر وہ اس قرآن پر ایمان لائے ایک ان کے عالم تھے عبداللہ بن سلام ان کے ساتھ کئی اور بھی مسلمان ہوئے۔

۱۲۲۔ اے بنی اسرائیل یاد کرو احسان میرا، جو میں نے تم پر کیا، اور وہ کہ بڑا کیا تم کو سارے جہان پر۔

۱۲۳۔ اور بچو اس دن سے، کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی شخص کے ایک ذرّہ، اور نہ قبول ہو اس کی طرف سے بدلہ، اور کام نہ آئے اس کو سفارش، اور نہ ان کو مدد پہنچے۔

۱۲۴۔ اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں، پھر اس نے وہ پوری کیں۔ فرمایا، میں تجھ کو کروں گا سب لوگوں کا پیشوا۔ بولا، اور میری اولاد میں بھی؟ کہا، نہیں پہنچتا میرا قرار (وعدہ) بے انصافوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: بنی اسرائیل بہت مغرور اس پر تھے کہ ہم اولاد ابراہیم میں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو وعدہ دیا کہ نبوت اور بزرگی تیرے گھر میں رہے گی اور ہم ابراہیمؑ کے دین پر ہیں اور اس کا دین ہر کوئی مانتا ہے، اب اللہ تعالیٰ ان کو سمجھاتا ہے، اللہ کا وعدہ ابراہیمؑ کی اولاد کو ہے جو نیک راہ پر چلیں اور اس کے دو بیٹے تھے پیغمبر ایک مدت اسحاق کی اولاد میں بزرگی رہی اب اسماعیل کی اولاد میں پہنچی اور اس کی دعا ہے دونوں کے حق میں اور فرماتا ہے کہ دین اسلام ہمیشہ ایک ہے سب پیغمبر اور سب امتیں اسی پر گذریں وہ یہ کہ جو حکم اللہ تعالیٰ بھیجے پیغمبر کے ہاتھ سو قبول کرنا، اب مسلمان ہیں اسی راہ پر اور تم اس سے پھرے ہو۔

۱۲۵۔ اور جب ٹھہرایا ہم نے یہ گھر کعبہ اجتماع کی جگہ لوگوں کی اور پناہ۔ اور کر رکھو، جہاں کھڑا ہوا ابراہیم، نماز کی جگہ۔ اور کہہ دیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو، کہ پاک رکھو گھر میرا واسطے طواف والوں کے اور اعتکاف والوں کے اور رکوع اور سجدہ والوں کے۔

۱۲۶۔ اور جب کہا ابراہیم نے اے رب! کر اس کو شہر امن کا، اور روزی دے اس کے لوگوں کو میوے، جو کوئی ان میں یقین لائے اللہ پر، اور پچھلے دن (آخرت) پر۔ فرمایا، اور جو کوئی منکر ہے اس کو بھی فائدہ دوں گا تھوڑے دنوں، پھر اس کو قید کر بلاؤں گا دوزخ کے عذاب میں۔ اور بری جگہ پہنچ ہے۔

۱۲۷۔ اور جب اٹھانے لگا ابراہیم بنیادیں اس گھر کی اور اسمٰعیل۔ (تو دعا کرتے جاتے تھے) اے رب قبول کر ہم سے۔ تو ہی ہے اصل سنتا جانتا۔

۱۲۸۔ اے رب! اور کر ہم کو حکم بردار اپنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک امت حکم بردار اپنی، اور جتا (آگاہ کر) ہم کو دستور حج کرنے کے اور ہم کو معاف کر۔ تو ہی ہے اصل معاف کرنے والا مہربان۔

۱۲۹۔ اے رب ہمارے! اور اٹھا ان میں ایک رسول انہیں میں کا، پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھائے ان کو کتاب اور پکی باتیں اور ان کو سنوارے۔ تو ہی ہے اصل زبردست حکمت والا۔

۱۳۰۔ اور کون پسند نہ رکھے دین ابراہیم کا؟ مگر جو بیوقوف ہو اپنے جی (آپ) میں۔ اور ہم نے اس کو خاص کیا دنیا میں۔ اور آخرت میں نیک ہے۔

۱۳۱۔ جب اس کو کہا اس کے رب نے، حکم بردار ہو، بولا، میں حکم میں آیا جہان کے صاحب کے۔

۱۳۲۔ اور یہی وصیت کر گیا ابراہیم اپنے بیٹوں کو، اور یعقوب (بھی)۔ اے بیٹو! اللہ نے چن کر دیا تم کو دین، پھر نہ مریو مگر مسلمانی پر۔

۱۳۳۔ کیا تم حاضر تھے؟ جس وقت پہنچی یعقوب کو موت، جب کہا اپنے بیٹوں کو، تم کیا پوجو گے بعد میرے؟ بولے، ہم بندگی کریں گے تیرے رب اور تیرے باپ دادوں کے رب کو، ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق، وہی ایک رب۔ اور ہم اسی کے حکم پر ہیں۔

۱۳۴۔ وہ ایک جماعت تھی گزر گئی۔ ان کا ہے جو کما گئے اور تمہارا ہے جو تم کماؤ۔ اور تم سے پوچھ نہیں ان کے کام کی۔

۱۳۵۔ اور کہتے ہیں، ہو جاؤ یہود یا نصاریٰ، تو راہ پر آؤ۔ تو کہہ، نہیں! ہم نے پکڑی راہ ابراہیم کی، جو ایک طرف کا تھا۔ اور نہ تھا شریک والوں میں۔

۱۳۶ تم کہو، ہم نے یقین کیا اللہ کو اور جو اترا ہم پر، اور جو اترا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر، اور جو ملا موسیٰ کو اور عیسیٰ کو، اور جو ملا سب نبیوں کو، اپنے رب سے۔ ہم فرق نہیں کرتے ایک میں ان سب سے۔ اور ہم اسی کے حکم بردار ہیں۔

۱۳۷۔ پھر اگر وہ یقین لائیں جس پر تم یقین لائے تو راہ پائیں۔ اور اگر پھر جائیں تو اب وہی ہیں ضد پر۔ سو اب کفایت (کافی) ہے تیری طرف سے ان کو اللہ۔ اور وہی ہے سنتا جانتا۔

۱۳۸۔ اور کس کا رنگ ہے اللہ سے بہتر؟ اور ہم اسی کی بندگی پر ہیں۔ ف

۔۔۔

ف: نصاریٰ کے پاس دستور تھا کہ جس کو اپنے دین میں داخل کرتے ایک زرد رنگ بناتے اور اس کے کپڑے بھی رنگ دیتے اور اس پر ڈال بھی دیتے یہ ان کے مقابل فرمایا۔

۱۳۹۔ کہہ، کیا اب تم جھگڑتے ہو ہم سے اللہ میں، اور وہی ہے رب ہمارا اور رب تمہارا، اور ہم کو عمل ہمارا اور تم کو عمل تمہارا۔ اور ہم اسی کے ہیں نرے۔

۱۴۰۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب، اور اس کی اولاد یہود تھے یا نصاریٰ؟ کہہ، تم کو خبر زیادہ ہے یا اللہ کو؟ اور اس سے ظالم کون جس نے چھپائی گواہی، جو تھی اس پاس اللہ کی؟ اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کام سے۔

۱۴۱۔ وہ ایک جماعت تھی گزر گئی۔ ان کا ہے جو کما گئے وہ اور تمہارا ہے جو تم کماؤ۔ اور تم سے پوچھ نہیں ان کے کام کی۔

۱۴۲۔ اب کہیں گے بیوقوف لوگ، کا ہے پر (کیوں) پھر گئے مسلمان اپنے قبلے سے جس پر تھے۔ تو کہہ، اللہ کی ہے مشرق اور مغرب۔ چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ۔ ف

۔۔۔

ف: حضرت جب مکہ سے مدینے میں آئے سوا برس نماز پڑھی بیت المقدس کی طرف پھر حکم آیا پڑھو کعبے کی طرف تب یہود اور بعضے کچے مسلمان ان کے بہکائے سے شہ بے لگے ڈالنے کہ وہ قبلہ تھا سب نبیوں کا اس کو چھوڑنا نشان نبی کا نہیں اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ لوگ یوں ہی کہیں گے۔

۱۴۳۔ اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل، کہ تم ہو بتانے والے (گواہ) لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا (گواہ) ۔ ف ۱۔ اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایا جس پر تو تھا ، نہیں مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کون تابع رہے گا رسول کا ، اور کون پھر جائے گا الٹے پاؤں۔ اور یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کو راہ دی اللہ نے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا یقین لانا۔ البتہ اللہ لوگوں پر شفقت رکھتا ہے مہربان۔ ف ۲

۔۔۔

ف:۱۔ یعنی جس طرح ان دو باتوں میں دیکھا کہ تمہارے پاس ہے پوری بات اور مخالفوں کے پاس ناقص ایک یہ کہ تم سب ناقص ایک یہ کہ تم سب نبیوں کو مانتے ہو اور یہود اور نصاریٰ کسی کو مانتے ہیں کسی کو نہیں، دوسری یہ کہ تمہارا قبلہ کعبہ ہے کہ ابراہیم کے وقت سے مقرر ہوا ہے ابراہیمؑ پیشوا ہے سب کا اور یہود اور نصاریٰ کا قبلہ پیچھے ثابت ہو اسی طرح ہر بات میں تم پورے ہو اور امتیں ناقص ان کو حاجت ہے کہ تم بتاؤ اور تم کو حاجت نہیں کہ کوئی امت بتاوے مگر تمہارا نبی۔

ف:۲۔ یعنی تمہارا قبلہ ابراہیمؑ کے وقت سے کعبہ مقرر ہے اور چند روز بیت المقدس ٹھہرایا ایمان آزمانے کو اور اس میں جو لوگ ایمان پر قائم رہے ان کو بڑا درجہ ہے۔

۱۴۴۔ ہم دیکھتے ہیں پھر جانا تیرا منہ آسمان میں۔ سو البتہ پھیر دیں گے تجھ کو جس قبلے کی طرف تو راضی ہے۔ اب پھیر منہ اپنا طرف مسجد الحرام کے۔ اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منہ اسی طرف۔ اور جن کو ملی ہے کتاب، البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ان کے رب کی طرف سے۔ اور اللہ بے خبر نہیں ان کاموں سے جو کرتے ہیں۔ ف

۔۔۔

ف: جب بیت المقدس کی طرف نماز تھی تو حضرت کا دل چاہتا تھا کعبے کو نماز میں آسمان کی طرف نگاہ کرتے شاید فرشتہ حکم لاتا ہو کعبے کی طرف کا پھر یہ آیت اتری تب سے کعبہ مقرر ہوا۔

۱۴۵۔ اور اگر تو لائے کتاب والوں پاس ساری نشانیاں، نہ چلیں گے تیرے قبلے پر۔ اور تو نہ مانے ان کا قبلہ۔ اور نہ ان میں ایک مانتا ہے دوسرے کا قبلہ۔ اور کبھی تو چلا ان کی پسند پر، بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا۔ تو بیشک تو بھی ہے بے انصافوں میں۔

۱۴۶۔ جن کو ہم نے دی ہے کتاب، پہچانتے ہیں یہ بات، جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو۔ اور ایک فرقہ ان میں چھپاتے ہیں حق کو جان کر۔

۱۴۷۔ حق وہی جو تیرا رب کہے، پھر تو نہ ہو شک لانے والا۔

۱۴۸۔ اور ہر کسی کو ایک طرف ہے، کہ منہ کرتا ہے اس طرف، سو تم سبقت چاہو نیکیوں میں۔ جس جگہ تم ہو گے، کر لائے گا اللہ اکٹھا۔ بیشک اللہ ہر چیز کر سکتا ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی یہ ضد کرنی کہ ہمارا قبلہ بہتر یا تمہارا عبث ہے بہتری اسی کو جو نیکیوں میں زیادہ ہر امت کو ایک ایک قبلے کا حکم دیا تھا آخر سب کو ایک جگہ جمع ہونا ہے۔

۱۴۹۔ اور جس جگہ سے تو نکلے، منہ کر طرف مسجد الحرام کے۔ اور یہی تحقیق (حق) ہے تیرے رب کی طرف سے۔ اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کام سے۔ ف

۔۔۔

ف: اور مسجد الحرام کہتے ہیں مکہ کی مسجد کو حرام کے معنی جس جگہ بند رہنا چاہئے اس مکان میں کئی باتیں منع ہیں اور جانور کو ستانا اور درخت اور گھاس اکھاڑنا اور پڑا مال اٹھانا۔

۱۵۰۔ اور جہاں سے تو نکلے منہ کر طرف مسجد الحرام کے۔ اور جس جگہ تم ہوا کرو منہ کرو اسی کی طرف، کہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جھگڑنے کی جگہ۔ مگر جو ان میں بے انصاف ہیں سو ان سے مت ڈرو، اور مجھ سے ڈرو۔ اور اس واسطے کہ پورا کروں تم پر فضل اپنا، اور شاید تم راہ پاؤ۔

۱۵۱۔ جیسا بھیجا ہم نے تم میں رسول تمہی میں کا، پڑھتا تمہارے پاس آیتیں ہماری اور تم کو سنوارتا، اور سکھاتا کتاب اور تحقیق بات اور سکھاتا تم کو جو تم نہ جانتے تھے۔

۱۵۲۔ تو تم یاد رکھو مجھ کو، میں یاد رکھوں تم کو، اور احسان مانو میرا اور ناشکری مت کرو۔

۱۵۳۔ اے مسلمانو! قوت پکڑو ثابت رہنے (صبر) اور نماز سے۔ بیشک اللہ ساتھ ہے ثابت رہنے (صبر کرنے) والوں کے۔ ف

۔۔۔

ف: یہاں سے اشارات ہے کہ جہاد میں محنت اٹھاؤ اور مضبوطی اختیار کرو۔

۱۵۴۔ اور نہ کہو جو کوئی مارا جائے اللہ کی راہ میں، کہ مردے ہیں۔ بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم کو خبر نہیں۔

۱۵۵۔ اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو کچھ ایک ڈر اور بھوک سے، اور نقصان سے مالوں اور جانوں اور میووں کے۔ اور خوشی سنا ثابت رہنے (صبر کرنے) والوں کو۔

۱۵۶۔ کہ جب ان کو پہنچے کچھ مصیبت، کہیں ہم اللہ کا مال ہیں اور ہم کو اسی طرف پھر (لوٹ) جانا ہے۔

۱۵۷۔ ایسے لوگ انہیں پر شاباشیں ہیں اپنے رب کی اور مہربانی۔ اور وہی ہیں راہ پر۔

۱۵۸۔ صفا اور مروہ جو ہیں، نشان ہیں اللہ کے، پھر جو کوئی حج کرے اس گھر کا، یا زیارت تو گناہ نہیں اس کو کہ طواف کرے ان دونوں میں۔ اور جو کوئی شوق سے کرے کچھ نیکی، تو اللہ قدردان ہے سب جانتا۔ ف

۔۔

ف: صفا اور مروہ دو پہاڑ ہیں مکہ کے شہر میں عرب کے لوگ حضرت ابراہیمؑ کے وقت سے ہمیشہ حج کرتے رہے ہیں لیکن کفر کے وقت میں اکثر غلطیاں پڑ گئی تھیں ان دو پہاڑوں پر دو بت دھرے تھے حج میں وہاں بھی طواف کرتے تھے جب لوگ مسلمان ہوئے جانا کہ یہ بھی کفر کی غلطی تھی اب وہاں نہ جانا چاہئے اس پر یہ آیت اتری۔

۱۵۹۔ جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ ہم نے اتارا صاف حکم اور راہ کے نشان، بعد اس کے کہ ہم ان کو کھول چکے لوگوں کے واسطے کتاب میں، ان کو لعنت دیتا ہے اللہ، اور لعنت دیتے ہیں سب لعنت دینے والے۔ ف

۔۔۔

ف: یہ ان کے حق میں ہے جن کو علم خدا کا پہنچا اور غرض دنیا کے واسطے چھپا رکھا۔

۱۶۰۔ مگر جنہوں نے توبہ کی اور سنوارا اور بیان کر دیا تو ان کو معاف کرتا ہوں، اور میں ہوں معاف کرنے والا مہربان۔

۱۶۱۔ جو لوگ منکر ہوئے اور مر گئے منکر ہی، ان ہی پر ہے لعنت اللہ کی، اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی۔

۱۶۲۔ رہ پڑے اس میں نہ ہلکا ہو گا ان پر عذاب اور نہ ان کو فرصت ملے گی۔

۱۶۳۔ اور تمہارا رب اکیلا رب ہے کسی کو پوجنا نہیں اس کے سوا، بڑا مہربان ہے رحم والا۔

۱۶۴۔ آسمان اور زمین کا بنانا اور رات دن کا بدلتے آنا، اور کشتی جو لے کر چلتی ہے دریا میں جو چیزیں کام آئیں لوگوں کو، اور وہ جو اللہ نے اتارا آسمان سے پانی، پھر جلایا (زندہ کیا) اس سے زمین کو مر گئے پیچھے، اور پیرنے اس میں سب قسم کے جانور، اور پھیرنا باؤں (ہواؤں) کا، اور ابر جو حکم کا تابع ہے درمیان آسمان اور زمین کے، ان میں نمونے ہیں عقلمند لوگوں کو۔

۱۶۵۔ اور بعضے لوگ ہیں جو پکڑتے ہیں اللہ کے برابر اوروں کو، ان کی محبت رکھتے ہیں جیسے محبت اللہ کی۔ اور ایمان والوں کو اس سے زیادہ ہے محبت اللہ کی۔ اور کبھی دیکھیں بے انصاف اس وقت کو، جب دیکھیں گے عذاب، کہ زور سارا اللہ کو ہے، اور اللہ کی مار سخت ہے۔

۱۶۶۔ جب الگ ہو جائیں جن کے ساتھ ہوئے تھے اپنے ساتھ والوں سے، اور دیکھیں عذاب، اور ٹوٹ (منقطع ہو) جائیں ان کے سب طرف کے علاقے (تمام وسائل)۔

۱۶۷۔ اور کہیں گے ساتھ پکڑنے والے، کاش کہ ہم کو دوسری بار زندگی ہو، تو ہم الگ ہو جائیں ان سے، جیسے یہ الگ ہو گئے ہم سے۔ اسی طرح دکھاتا ہے اللہ ان کو کام ان کے افسوس دلانے کو۔ اور ان کو نکلنا نہیں آگ سے۔ ف

۔۔۔

ف: جن کو لوگ پوجتے ہیں سوا اللہ کے اس روز پوجنے والوں کو جواب دیں گے اور ان کی امید سب طرف سے ٹوٹے گی اور افسوس کھاویں گے اس وقت کچھ فائدہ نہیں افسوس کا یہاں سے بت پرستوں کا احوال ہے۔

۱۶۸۔ اے لوگو! کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے جو حلال ہے ستھرا۔ اور نہ چلو قدموں پر شیطان کے، وہ تمہارا دشمن ہے صریح۔ ف

۔۔۔

ف: عرب کے لوگوں نے دین ابراہیم کئی طرح بگاڑا تھا، اول سوائے خدا کے پوجنے لگے تھے اور ان کی نیاز جانور ذبح کرنے لگے کہ وہ مردار ہوتا ہے اور کفر ہے اور مواشی میں سے کئی چیزیں حرام ٹھہرا لیں جو سورة مائدہ اور انعام میں بیان ہے اور گوشت خوک حلال سمجھا ان باتوں پر اللہ تعالیٰ ان کو الزام دیتا ہے۔

۱۶۹۔ وہ تو یہی حکم کرے گا تم کو برے کام اور بے حیائی اور یہ کہ جھوٹ بولو اللہ پر جو تم کو معلوم نہیں۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی مسئلے اپنی طرف سے بنا لو جیسے اب بھی بہت غلط العام ٹھہر رہے ہیں۔

۱۷۰۔ اور جو ان کو کہئیے چلو اس پر جو نازل کیا اللہ نے، کہیں نہیں! ہم چلیں گے اس پر، جس پر دیکھا اپنے باپ دادوں کو۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادے نہ عقل رکھتے ہوں کچھ، نہ راہ کی خبر۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جب معلوم ہوا کہ باپ دادوں کی رسم خلاف حکم خدا کے ہے پھر اس پر نہ چلیے۔

۱۷۱۔ اور مثال ان منکروں کی، جیسے مثال ایک شخص کی، کہ چلّاتا ہے ایک چیز کو جو سنتی نہیں مگر پکارنا اور چِلّانا۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، سو ان کو عقل نہیں۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی ان کافروں کو سمجھانا ویسا ہے جیسا کوئی جنگل کے جانوروں کو بلا دے سو وہ سوائے آواز کچھ نہیں سمجھتے یہ حال ہے جو شخص کہ آپ علم نہ رکھے اور علم والے کی بات قبول نہ کرے۔

۱۷۲۔ اے ایمان والو! کھاؤ ستھری چیزیں، جو تم کو روزی دی ہم نے، اور شکر کرو اللہ کا، اگر تم اسی کے بندے ہو۔

۱۷۳۔ یہی حرام کیا ہے تم پر مردہ اور لہو اور گوشت سؤر کا، اور جس پر نام پکارا اللہ کے سوا کا۔ پھر جو کوئی پھنسا ہو، نہ بے حکمی کرتا ہے نہ زیادتی، تو اس پر نہیں گناہ۔ اللہ بخشنے والا ہے مہربان۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی مواشی میں اتنی ہی چیزیں حرام ہیں سور بھی جب آدمی بھوک سے مرنے لگے تو یہ بھی معاف ہے بشرطیکہ بے حکمی نہ کرے یعنی نوبت اضطرار کی نہیں پہنچی اور کھانے لگے اور زیادتی بھی نہ کرے قدر ضرورت کھاوے۔

۱۷۴۔ جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ نازل کی اللہ نے کتاب اور لیتے ہیں اس پر مول تھوڑا، وہ نہیں کھاتے اپنے پیٹ میں مگر آگ، اور نہ بات کرے گا ان سے اللہ قیامت کے دن، اور نہ سنوارے گا ان کو۔ اور ان کو دکھ کی مار ہے۔

۱۷۵۔ وہی ہیں جنہوں نے خرید کی گمراہی، بدلے راہ کے، اور مار بدلے مہر (رحمت) کے، سو کیا سہار ہے ان کو آگ کی۔

۱۷۶۔ یہ اس واسطے کہ اللہ نے اتاری کتاب سچّی۔ اور جنہوں نے کئی راہیں نکالیں کتاب میں وہ ضد میں دور پڑے ہیں۔ ف

۔۔۔

ف: یہود نے اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزماںﷺ کی صفت چھپا ڈالی اور بہت آیتوں کے معنے بدل ڈالے غرض دنیا کے واسطے۔

۱۷۷۔ نیکی یہی نہیں، کہ منہ کرو اپنے مشرق کی طرف یا مغرب کی، لیکن نیکی وہ ہے جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن (آخرت) پر، اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر۔ اور دے مال اس کی محبت پر ناتے والوں کو، اور یتیموں کو اور محتاجوں کو، اور راہ کے مسافر کو، اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں۔ اور کھڑی رکھے نماز اور دیا کرے زکوٰۃ اور پورا کرنے والا اپنے اقرار کو جب قول کریں۔ اور ٹھیرنے والے سختی میں اور تکلیف میں اور وقت لڑائی کے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہوئے۔ اور وہی بچاؤ میں آئے۔

۱۷۸۔ اے ایمان والو! حکم ہوا تم پر بدلا برابر مارے گیوں میں۔ صاحب کے بدلے صاحب، اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ پھر جس کو معاف ہوا اس کے بھائی کی طرف سے کچھ ایک، تو چاہئیے مرضی پر چلنا موافق دستور کے، اور پہچانا اس کو نیکی سے۔ یہ آسانی ہوئی تمہارے رب کی طرف سے، اور مہربانی۔ پھر جو کوئی زیادتی کرے بعد اس کے تو اس کو دکھ کی مار ہے۔ ف

۔۔۔

ف: صاحب کے بدلے صاحب اور غلام کے بدلے غلام اسی طرح عورت یعنی ہر صاحب دوسرے صاحب کے برابر ہے۔ ہر غلام دوسرے غلام کے برابر ہے۔ اشراف اور کم ذات کا فرق نہیں، دولتمند اور فقیر کا فرق نہیں جیسے کفر میں معمول ہو رہا تھا فائدہ جس کو معاف ہوا یعنی مقتول کے وارث اگر قصاص موقوف کر کے مال پر راضی ہوں تو قاتل کو چاہئے کہ ان کو راضی کر لے اور منت اٹھا کر خون بہا پہنچا دے فائدہ یہ آسانی ہوئی یعنی اگلی امت پر قصاص ہی مقرر تھا اس امت پر معاف کرنا اور مال پر صلح کرنی بھی ٹھہری، فائدہ پھر جو کوئی زیادتی کرے یعنی صلح کر کے مبلغ خون بہا لے کر پھر مارنے کا قصد کرے۔

۱۷۹۔ تم کو قصاص میں زندگی ہے، اے عقلمندو! شاید تم بچتے رہو۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی حاکموں کو چاہئے کہ قصاص دلانے میں قصور نہ کریں تاکہ آئندہ خون بند ہو۔

۱۸۰۔ حکم ہوا تم پر جب حاضر ہو کسی کو تم میں موت، اگر کچھ مال چھوڑے، کہ دلوا مرے (وصیت کرنا) ماں باپ کو اور ناتے والوں کو دستور سے، (یہ) ضرور ہے پرہیزگاروں کو۔ ف

۔۔۔

ف: کفر کی رسم میں مردے کے وارث اولاد کے سوا کوئی نہ تھے، اولاد مین بھی فقط بیٹا سو اول اللہ صاحب نے اولاد ہی وارث رکھی پر مردے کو ضرور ہوا کہ ماں باپ کو اور ناتے والوں کو موافق حاجت اپنے روبرو دلوا جاوے۔

۱۸۱۔ پھر جو کوئی اس کو بدلے، بعد اس کے کہ سن چکا، تو اس کا گناہ انہیں پر جنہوں نے بدلا، بیشک اللہ ہے سنتا جانتا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اگر مردہ کہہ مرا تھا پر دینے والوں نے نہ دیا تو مردے پر گناہ نہیں وہی ہیں گنہگار۔

۱۸۲۔ پھر جو کوئی ڈرا دلوانے والے کی طرفداری سے یا گناہ سے پھر ان میں صلح کروا دی، تو اس پر گناہ نہیں۔ البتہ اللہ بخشنے والا ہے مہربان۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی کسی نے دیکھا کہ مردہ بے انصافی سے دلوا گیا اولاد کو بہت تھوڑا بچا تو اوروں کو سمجھا کر صلح کرا دے ایسا بدلنا گناہ نہیں، فائدہ اول اللہ صاحب نے یہ حکم فرمایا تھا بعد اس کے سورة نساء میں آیت ہے وہ بھیجے کہ وارثوں کے حصے آپ ہی ٹھہرا دئیے اب مردے کا دلوانا موقوف ہوا۔

۱۸۳۔ اے ایمان والو! حکم ہوا تم پر روزے کا، جیسے حکم ہوا تھا تم سے اگلوں پر، شاید تم پرہیزگار ہو جاؤ۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی روزے سے سلیقہ آ جاوے جی روکنے کا تو ہر جگہ روک سکو۔

۱۸۴۔ کئی دن ہیں گنتی کے۔ پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو یا سفر میں، تو گنتی چاہئیے اور دنوں سے۔ اور جن کو طاقت ہے، تو بدلا چاہئیے ایک فقیر کا کھانا۔ پھر جو کوئی شوق سے کرے نیکی، تو اس کو بہتر ہے۔ اور روزہ رکھو تو تمہارا بھلا ہے، اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ ف

۔۔۔

ف: اول یہی حکم تھا کہ مریض و مسافر چاہیں تو پھر قضا کر لیں اور جن کو طاقت ہے یعنی بے عذر ہیں وہ چاہیں کہ پھر قضا کریں تو بالفعل ہر روزے کے بدلے ایک فقیر کو کھلائیں تو بھی بہتر ہے روزہ ہی رکھیں پھر اس کے بعد جو آیت اتری اس میں فقط مریض و مسافر کو رخصت ملی قضا کی اور کسی کو نہیں۔

۱۸۵۔ مہینہ رمضان کا، جس میں نازل ہوا قرآن، ہدایت واسطے لوگوں کے، اور کھلی نشانیاں راہ کی، اور فیصلہ۔ پھر جو کوئی پائے تم میں یہ مہینہ، تو اس کو روزے رکھے، اور جو کوئی ہو بیمار یا سفر میں تو گنتی چاہئیے اور دنوں سے۔ اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی، اور نہیں چاہتا تم پر مشکل۔ اور اس واسطے کہ پوری کرو گنتی اور بڑائی کرو اللہ کی اس پر کہ تم کو راہ بتائی، اور شاید تم احسان مانو۔ ف

ف: اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کا مہینہ اسی سے ٹھہرا کہ اس میں اترا قرآن پس قرآن کی خدمت اس مہینے میں اول چاہئے اسی سبب سے رسول خدا نے تقید کیا تراویح کا اور آپ چند روز جماعت کر کے پھر نہ کروائی کہ قرآن میں اشارات ہیں صریح فرض نہ ہو جاوے۔

۱۸۶۔ اور جب تجھ سے پوچھیں بندے میرے مجھ کو، تو میں نزدیک ہوں۔ پہنچتا ہوں پکارتے کی پکار کو، جس وقت مجھ کو پکارتا ہے، تو چاہئیے کہ حکم مانیں میرا اور یقین لائیں مجھ پر، شاید نیک راہ پر آئیں۔ ف

۔۔۔

ف: اوپر کی آیت میں فرمایا کہ بڑائی کرو اللہ کی یعنی عید کے دن جو تکبیر کہتے ہیں بآواز بلند اس واسطے دوسری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دور نہیں اور بلند آواز اور فائدے کے واسطے ہے ایک شخص نے حضرت سے پوچھا کہ ہمارا رب دور ہے تو ہم اس کو پکاریں یا نزدیک تو ہم آہستہ بات کہیں اس پر یہ آیت اتری۔

۱۸۷۔ حلال ہوا تم کو روزے کی رات میں بے پردہ ہونا اپنی عورتوں سے۔ وہ پوشاک ہیں تمہاری اور تم پوشاک ہو ان کی۔ اللہ نے معلوم کیا کہ تم اپنی چوری کرتے تھے، سو معاف کیا تم کو اور درگذر کی تم سے، پھر اب ملو ان سے (مباشرت کرو)، اور چاہو جو لکھ (مقدور کر) دیا اللہ نے تم کو، اور کھاؤ اور پیو، جب تک کہ صاف نظر آئے تم کو دھاری سفید جدا دھاری سیاہ سے، فجر کی۔ پھر پورا کرو روزہ رات تک۔ اور نہ لگو (مباشرت کرو) ان سے جب اعتکاف بیٹھے ہو مسجدوں میں۔ یہ حدیں باندھی ہیں اللہ کی، سو ان کے نزدیک نہ جاؤ۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ اپنی آیتیں لوگوں کو، شاید وہ بچتے رہیں۔ ف

۔۔۔

ف: جب روزہ فرض ہوا تو مسلمان سارے رمضان میں عورت کے پاس نہ جاتے اور پہلی امت کی طرح رات کو سو کر پھر نہ کھاتے اس بیچ میں بعضے شخص نہ رہ سکے پھر حضرت کے پاس عرض کیا تب یہ آیت اتری یعنی تم اپنی چوری کرتے تھے اللہ نے منع نہ کیا اور کھانا صبح تک رخصت ہے جب دھاری سفید پڑے وہی صبح صادق ہے اور جب تک روشنی اونچی نہ رہے ستون سی وہ صبح کاذب ہے مگر اعتکاف میں رات دن عورت کے پاس نہ جائے۔

۱۸۸۔ اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک، کہ کھا جاؤ کاٹ کر لوگوں کے مال میں سے مارے گناہ کے اور تم کو معلوم ہے۔ ف

۔۔۔

ف: نہ پہنچاؤ حاکموں تک یعنی کسی کے مال کی خبر نہ دو حاکموں کو یا اپنے مال نہ پہنچاؤ رشوت کہ حاکم کو رفیق کر کے کسی کا مال کھا جاؤ۔

۱۸۹۔ تجھ سے پوچھتے ہیں چاند کا نیا نکلنا، تو کہہ، یہ وقت ٹھیرے ہیں واسطے لوگوں کے اور واسطے حج کے۔ اور نیکی یہ نہیں کہ گھروں میں آؤ چھت پر سے، لیکن نیکی وہی جو کوئی بچتا رہے۔ اور گھروں میں آؤ دروازوں سے، اور اللہ سے ڈرتے رہو شاید تم مراد کو پہنچو۔ ف

۔۔۔

ف: لوگوں نے حضرت سے پوچھا کہ کیا سبب ہے چاند ایک حالت پر نہیں رہتا، اللہ تعالیٰ نے جواب فرمایا کہ اس پر حال بدلتے رکھتے ہیں تاکہ مہینے کی حد ٹھہرے پھر مہینوں سے برس ٹھہرے اس پر خلق کی معاملت اور اللہ کی عبادت کا وقت مقرر ہے ایک روزہ ہے جس کا حکم مذکور ہوا دوسری حج ہے اس کا حکم آگے شروع ہوتا ہے کفر کی غلطیوں میں ایک یہ تھا کہ جب گھر سے نکل احرام باندھا حج کا پھر کچھ ضرورت ہوئی کہ گھر میں جانا چاہئے تو دروازے سے نہ جاتے چھت پر چڑھ کر آتے اس کو اللہ نے غلط کیا۔

۱۹۰۔ اور لڑو اللہ کی راہ میں ان سے جو لڑتے ہیں تم سے، اور زیادتی مت کرو، اللہ نہیں چاہتا زیادتی والوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: حج کے ساتھ میں یہ مذکور بھی ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے وقت سے شہر مکہ جائے امان ہے اگر یہاں دشمن کو دشمن پاتا و بھی کچھ نہ کہتا اور حج کے اول اور آخر تین مہینے ذی قعدہ اور ذی الحج اور محرم اور چوتھا رجب کہ وہ بھی وقت زیارت تھا یہ چار مہینے وقت امان تھے کہ تمام ملک عرب میں راہیں جاری ہوتیں اور لڑائی موقوف رہتی اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے۔ اس بیچ میں اور بھی لڑائی کے حکم اور جہاد کے آداب فرماتا ہے یہ جو فرمایا کہ جو تم سے لڑیں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو اس کے معنی یہ کہ لڑائی میں لڑکے اور عورتیں اور بوڑھے قصداً نہ مارئیے لڑنے والوں کو مارئیے۔

۱۹۱۔ اور مارو ان کو جس جگہ پاؤ، اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا، اور دین سے بچلانا (گمراہ کرنا) مارنے سے زیادہ ہے، اور نہ لڑو ان سے مسجد الحرام پاس، جب تک وہ نہ لڑیں تم سے اس جگہ۔ پھر اگر وہ لڑیں تو ان کو مارو۔ یہی سزا ہے منکروں کی۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی مکہ جائے امان ہے لیکن جب انہوں نے ابتدا کی اور تم پر ظلم کیا اور ایمان لانے پر ستانے لگے کہ یہ مار ڈالنے سے زیادہ ہے اب ان کو امان نہ رہی جہاں پاؤ مارو آخر جب مکہ فتح ہوا تو حضرت نے بھی حکم کیا کہ جو ہتھیار سامنے کرے اسی کو مارو اور باقی سب کو امن دیا۔

۱۹۲۔ پھر اگر وہ باز آئیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اس سب پر اگر اب بھی مسلمان ہوں تو توبہ قبول ہے۔

۱۹۳۔ اور لڑو ان سے جب تک نہ باقی رہے فساد اور حکم رہے اللہ کا۔ پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر بے انصافوں پر۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی لڑائی کافروں سے اسی واسطے ہے کہ ظلم موقوف ہو اور دین سے گمراہ نہ کر سکیں اور حکم اللہ کا جا رہی رہے اگر تابع ہو کر رہیں تو لڑائی کی حاجت ہی نہیں اور ایمان تو دل پر موقوف ہے زور سے مسلمان کرنے سے کیا حاصل۔

۱۹۴۔ حرمت کا مہینہ مقابل حرمت کے مہینے کے، اور ادب رکھنے میں بدلا ہے۔ پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو، جیسے اس نے زیادتی کی۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان رکھو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیزگاروں کے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اگر کوئی کافر ماہ حرام کو مانے کہ اس مہینے میں وہ تم سے نہ لڑے تو تم بھی اس سے نہ لڑو اور مکہ کے لوگ اسی ماہ میں ظلم کرتے رہے مسلمانوں پر پھر مسلمان ان سے کیوں قصور کریں بلکہ سفر حدیبیہ میں ماہ ذی قعدہ تھا عمرے کو حضرتﷺ گئے اور کافر لڑنے کو موجود ہوئے یہ آیت اس واسطے اتری کہ مسلمان خطرہ کرتے تھے کہ اگر ماہ حرام میں کافر لگیں لڑنے تو ہم کیا کریں۔

۱۹۵۔ اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں۔ اور نیکی کرو۔ اللہ چاہتا ہے نیکی والوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی چھوڑ کر جہاد نہ بیٹھو اسی میں تمہارا ہلاک ہے۔

۱۹۶۔ اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ کے واسطے، پھر اگر تم روکے گئے تو جو میسّر ہو قربانی بھیجو۔ اور حجامت نہ کرو سر کی، جب تک پہنچ نہ چکے قربانی اپنے ٹھکانے پر۔ پھر جو کوئی تم میں مریض ہو، یا اس کو دکھ دیا اس کے سر نے، تو بدلا دے روزے یا خیرات یا ذبح کرنا۔ پھر جب تم کو خاطر جمع ہو، تو جو کوئی فائدہ لے عمرہ ملا کر حج کے ساتھ، تو جو میسر ہو قربانی پہنچائے۔ پھر جس کو پیدا نہ ہو تو روزہ تین دن کا حج کے وقت میں، اور سات دن جب پھر کر جاؤ۔ یہ دس ہوئے پورے۔ یہ اس کو ہے جس کے گھر والے نہ ہوں رہتے مسجد الحرام پاس۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یہاں سے حکم حج کے ہیں، حج کے طریق یہ کہ احرام باندھے پھر عرفہ کے دن عرفات میں حاضر ہو پھر وہاں سے چلے تو رات رہے مشعر الحرام میں پھر صبح عید منا میں پہنچ کر کنکر پھینکے اور حجامت کرا کر احرام اتارے پھر مکہ میں جا کر طواف کعبہ کرے پھر صفا اور مروہ کے بیچ دوڑے پھر منا میں آوے تین دن رہے ہر روز کنکر پھینکے پھر مکہ جا کر طواف رخصت کرے اور چلا جائے اور عمرے کے طریق یہ کہ احرام باندھے جن دنوں چاہے طواف کعبہ کرے اور صفا اور مروہ کے بیچ دوڑے پھر حجامت کرا کر احرام اتارے اور حج اور عمرہ میں قربانی ضرور نہیں مگر کسی سبب سے یہاں حق تعالیٰ نے تین سبب فرمائے ایک یہ کہ احرام کر کر شخص روکا گیا مرض سے یا دشمن سے تو کسی کے ہاتھ قربانی بھیج دیوے جب مکہ میں قربانی ذبح ہو تب یہ احرام سے نکلے پہلے حجامت نہ کرے، دوسرا یہ کہ آزار سے یاسر کے بالوں سے عاجز ہو کر احرام میں حجامت کرے تو اس کا بدلہ ہے یا تو قربانی پہنچائے یا تین روزے رکھے یا چھ محتاجوں کو کھلا دے تیسرا یہ کہ حج اور عمرہ جدا جدا نہ کرے ایک ہی سفر میں دونوں ادا کرے تو قربانی ضرور ہے پھر قربانی پیدا نہ تو دس روزے تین حج کے دنوں میں اور سات پیچھے اور قربانی کم سے کم ایک بکری ایک شخص کو اور ایک اونٹ یا گائے ساتھ شخص کو حج اور عمرہ ملنے سے جو قربانی آئے سو مکہ کے ساکنوں پر نہیں۔

۱۹۷۔ حج کے کئی مہینے ہیں معلوم۔ پھر جس نے لازم کر لیا ان میں حج، تو بے پردہ ہونا نہیں عورت سے، نہ گناہ کرنا نہ جھگڑا کرنا حج میں۔ اور جو کچھ تم کرو گے نیکی، اللہ کو معلوم ہو گی۔ اور خرچ راہ لیا کرو، کہ خرچ راہ میں بہتر ہے گناہ سے بچنا۔ اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقلمندو۔ ف

۔۔۔

ف: حج کے واسطے احرام باندھنے کا وقت ہے غرہ شوال سے تا شب عید قربان اس سے پہلے بہتر نہیں اور حج اور عمرہ لازم کر لینا احرام سے ہے احرام یہ کہ نیت کرے شروع کرنے کی اور زبان سے کہے لبیک تمام پھر جب احرام میں داخل ہوا تو پرہیز رکھے مرد عورت کی صحبت سے اور ہر گناہ سے اور آپس کے جھگڑے سے اور بدن کے بال اتارنے سے اور ناخن تراشنے اور خوشبو ملنے سے اور شکار مارنا منع ہوا اور مرد بدن پر میلے کپڑے نہ پہنے اور سر نہ ڈھانکے اور عورت کپڑے پہنے اور سر ڈھانکے لیکن منہ پر کپڑا نہ ڈالے اور کفر کی غلطی ایک یہ تھی کہ بغیر خرچ کے حج کو جانا ثواب گنتے تھے اور توکل مقدور ہوتے ہوئے خرچ نہ لیتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مقدور ہو تو خرچ لے کر جاؤ بڑا فائدہ یہ کہ سوال نہ کرو۔

۱۹۸۔ کچھ گناہ نہیں تم پر کہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا۔ پھر جب طواف کو چلو عرفات سے، تو یاد کرو اللہ کو نزدیک مشعر الحرام کے۔ اور اس کو یاد کرو جس طرح تم کو سکھایا۔ اور تم تھے اس سے پہلے راہ بھولے۔ ف

۔۔۔

ف: گناہ نہیں کہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا یعنی حج میں مال تجارت بھی لے جاؤ روزی کمانے کو تو منع نہیں لوگوں نے اس میں شبہ کیا تھا کہ شاید حج قبول نہ ہو اس واسطے منع فرمایا۔

۱۹۹۔ پھر طواف کو چلو جہاں سے سب لوگ چلیں، اور گناہ بخشواؤ اللہ سے۔ اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔ ف

۔۔۔

ف: یہ بھی کفر کی غلطی تھی کہ مکہ کے ساکن عرفات تک نہ جاتے کہ عرفات حرم سے باہر ہے حرم کی حد پر کھڑے رہتے، سو فرمایا کہ جہاں سے سب لوگ چلیں، طواف کو تم بھی چلو اور اگلی تقصیر پر نادم ہو۔

۲۰۰۔ پھر جب پورے کر چکو اپنے حج کے کام تو یاد کرو اللہ کو جیسے یاد کرتے تھے اپنے باپ دادوں کو، بلکہ اس سے زیادہ یاد۔ پھر کوئی آدمی کہتا ہے اے رب ہمارے! دے ہم کو دنیا میں، اور اس کو آخرت میں کچھ حِصّہ نہیں۔

۲۰۱۔ اور کوئی ان میں کہتا ہے، اے رب ہمارے! دے ہم کو دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی، اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔

۲۰۲۔ یہ لوگ! انہی کو ہے کچھ حِصّہ اپنی کمائی سے۔ اور اللہ جلد لیتا ہے حساب۔

۲۰۳۔ اور یاد کرو اللہ کو کئی دن گنتی کے۔ پھر جو کوئی جلدی چلا گیا دو دن میں، اس پر نہیں گناہ اور جو کوئی رہ گیا اس پر نہیں گناہ، جو کوئی ڈرتا ہے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے، اور جان رکھو کہ تم اسی پاس جمع ہو گے۔ ف

۔۔۔

ف: ان آیتوں میں یہ فرمایا کہ کفر کے وقت دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر تین روز عید کے بعد خوشی کرتے اور اپنے باپ دادوں کے سا کے بیان کرتے اب اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تین روز ٹھہرنا مقرر کیا کہ اللہ کو یاد کرو ان دنوں میں دوپہر کو کنکر پھینکتے ہیں اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہتے ہیں اور سوائے نماز ہر وقت اور کوئی چاہے تو وہی دن رہ کر رخصت ہوا تو تین دن رہے تو بہتے اور یہ فرمایا کہ جن کو رغبت نرمی دنیا سے ہے وہ آخرت سے محروم ہیں اب حج کا مذکور ہو چکا۔

۲۰۴۔ اور بعضا آدمی ہے کہ خوش آئے تجھ کو بات اس کی دنیا کی زندگی میں، اور گواہ پکڑتا ہے اللہ کو اپنے دل کی بات پر، اور وہ سخت جھگڑالو ہے۔

۲۰۵۔ اور جب پیٹھ پھیرے دوڑتا پھرے ملک میں کہ اس میں ویرانی کرے اور ہلاک کرے کھیتیاں اور جانیں۔ اور اللہ خوش نہیں رکھتا (پسند نہیں کرتا) فساد کرنا۔

۲۰۶۔ اور جو کہئے اللہ سے ڈر، تو کھینچ لائے اس کو غرور گناہ پر، پھر بس ہے اس کو دوزخ۔ اور بری تیاری ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یہ حال ہے منافقوں کا کہ ظاہر میں خوشامد کرے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ کرے کہ میرے دل میں تمہاری محبت ہے اور جھگڑے کے وقت کچھ کمی نہ کرے اور قابو پاوے تو لوٹ اور مار مچا دے اور منع کرنے سے اور ضد چڑھے زیادہ گناہ کرے، ایک شخص اغنس بن شریق تھا اس نے حضرت سے یہی سلوک کیے۔

۲۰۷۔ اور کوئی آدمی ہے جو بیچتا ہے اپنی جان، تلاش کرتا خوشی اللہ کی۔ اور اللہ شفقت رکھتا ہے بندوں پر۔ ف

۔۔۔

ف: یہ حال صاحب ایمان کا کہ اللہ کی رضا پر جان دیوے۔

۲۰۸۔ اے ایمان والو! داخل ہو مسلمانی میں پورے، اور مت چلو قدموں پر شیطان کے۔ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

۲۰۹۔ پھر اگر ڈگنے (گرنے) لگو، بعد اس کے کہ پہنچے تم کو صاف حکم، تو جان رکھو کہ اللہ زبردست ہے حکمت والا۔

۲۱۰۔ کیا لوگ یہی انتظار رکھتے ہیں؟ کہ آئے ان پر اللہ ابر کے سائبانوں میں، اور فرشتے، اور فیصل ہو وے کام۔ اور اللہ کی طرف رجوع ہیں سب کام۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی پیغمبر اور خدا پر یقین نہیں لاتے تو اب منتظر ہیں کہ خدا آپ آوے اور ہر کسی کو اس کے عمل کے موافق جزا دیوے۔

۲۱۱۔ پوچھ بنی اسرائیل سے، کتنی دیں ہم نے ان کو آیتیں واضح۔ اور جو کوئی بدل ڈالے اللہ کی نعمت، بعد اس کے کہ پہنچ چکی اس کو، تو اللہ کی مار سخت ہے۔

۲۱۲۔ رجھایا ہے منکروں کو دنیا کی زندگی پر، اور ہنستے ہیں ایمان والوں سے! اور پرہیزگار ان سے اوپر ہوں گے قیامت کے دن۔ اور اللہ روزی دے جس کو چاہے بے شمار۔

۲۱۳۔ تھا لوگوں کا دین ایک، پھر بھیجے اللہ نے نبی، خوشی اور ڈر سناتے۔ اور اتاری ان کے ساتھ کتاب سچی، کہ فیصل کرے لوگوں میں، جس بات میں جھگڑا کریں۔ اور کتاب میں جھگڑا ڈالا نہیں مگر انہوں نے جن کو ملی تھی بعد اس کے کہ ان کو پہنچ چکے صاف حکم، آپس کی ضد سے۔ پھر اب راہ دی اللہ نے ایمان والوں کو اس سچی بات کی، جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے۔ اور اللہ چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اللہ نے کتابیں اور نبی متعدد بھیجے اس واسطے نہیں کہ ہر فرقہ کو جدی راہ فرمائی اللہ کے ہاں سے سب خلق کو ایک ہی راہ کا حکم ہے جس وقت اس راہ سے کسی طرف بچلے ہیں اللہ نے نبی بھیجا کہ سمجھاوے اور کتاب بھیجی کہ اس پر چلے جاویں، پھر کتاب والے کتاب میں بچلے تب دوسری کتاب کی حاجت ہوئی سب نبی اور سب کتابیں اسی ایک راہ کے قائم کرنے کو آئے ہیں، اس کی مثال جیسے تندرستی ایک ہے اور مرض بیشمار جب ایک مرض پیدا ہو ایک دو اور پرہیز اس کے موافق فرمایا اب آخر کی کتاب میں ایسی راہ فرمائی کہ ہر مرض سے بچاؤ ہے یہ سب کے بدلے کفایت ہوئی۔

۲۱۴۔ کیا تم کو خیال ہے کہ جنت میں چلے جاؤ گے، اور ابھی تم پر آئے نہیں احوال ان کے جو آگے ہو چکے تم سے۔ پہنچی ان کو سختی اور تکلیف اور جھڑجھڑائے گئے، یہاں تک کہ کہنے لگا رسول، اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے، کب آئے گی مدد اللہ کی؟ سن رکھو! مدد اللہ کی نزدیک ہے۔

۲۱۵۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں؟ تو کہہ، جو چیز خرچ کرو فائدے کی، سو ماں باپ کو اور نزدیک ناتے والوں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور راہ کے مسافر کو۔ اور جو کرو گے بھلائی سو وہ اللہ کو معلوم ہے۔ ف

۔۔۔

ف: لوگوں نے پوچھا تھا کہ مالوں میں کس مال کا خرچ کرنا بہت ثواب ہے جواب فرمایا کہ مال کوئی ہو لیکن جس قدر ٹھکانے پر خرچ ہو تو ثواب زیادہ ہے۔

۲۱۶۔ حکم ہوا تم پر لڑائی کا، اور وہ بری لگتی ہے تم کو۔ اور شاید تم کو بری لگے ایک چیز، اور بہتر ہو تم کو۔ اور شاید تم کو خوش لگے ایک چیز، اور وہ بری ہو تم کو۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

۲۱۷۔ تجھ سے پوچھتے ہیں مہینے حرام کو، اس میں لڑائی کرنی۔ تو کہہ، لڑائی اس میں بڑا گناہ ہے۔ اور روکنا اللہ کی راہ سے، اور اس کو نہ ماننا، اور مسجد الحرام سے روکنا، اور نکال دینا اس کے لوگوں کو وہاں سے، اس سے زیادہ گناہ ہے اللہ کے ہاں۔ اور دین سے بچلانا (گمراہ کرنا) مار ڈالنے سے زیادہ۔ اور وہ تو لگے ہی رہتے ہیں تم سے لڑنے کو، یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے، اگر مقدور پائیں۔ اور جو کوئی پھرے گا تم میں اپنے دین سے پھر مر جائے گا کفر ہی پر، تو ایسوں کے ضائع ہوئے عمل، دنیا میں اور آخرت میں۔ اور وہ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں رہ پڑے۔ ف

۔۔۔

ف: حضر نے ایک فوف بھیجی جہاد پر انہوں نے کافروں کو مارا اور لوٹ لائے مسلمانوں کو خبر رہی کہ وہ دن جمادی الثانی کا ہے اور وہ غرہ رجب تھا کافروں نے اس پر بہت طعن کیا اور مسلمانوں کو شبہ پڑا اس پر آیت اتری یعنی ان مہینوں میں ناحق کی لڑائی اشد گناہ ہے اور جن کافروں نے مسلمانوں سے ان مہینوں میں قصور کیا ان سے لڑنا منع نہیں۔

۲۱۸۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی، اور لڑے اللہ کی راہ میں۔ وہ امیدوار ہیں اللہ کی مہر (رحمت) کے۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۱۹۔ تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب اور جوئے کا۔ تو کہہ، ان میں گناہ بڑا ہے، اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو۔ اور ان کا گناہ فائدے سے بڑا ہے۔ اور وہ پوچھتے ہیں تجھ سے کیا خرچ کریں (اللہ کی راہ میں)؟ تو کہہ، جو افزود (ضرورت سے زیادہ) ہو۔ اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمہارے واسطے حکم، شاید تم دھیان کرو۔

۲۲۰۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور پوچھتے ہیں تجھ سے یتیموں کا حکم۔ تو کہہ، سنوارنا ان کا بہتر ہے۔ اور اگر خرچ ملا رکھو ان کا تو تمہارے بھائی ہیں۔ اور اللہ کو معلوم ہے خرابی کرنے والا اور سنوارنے والا۔ اور اگر چاہتا اللہ تم پر مشکل ڈالتا۔ اللہ زبردست ہے تدبیر والا۔ ف

۔۔۔

ف: شراب اور جوئے کے حق میں کئی آیتیں اتریں ہر ایک میں ان کی برائی ہے آخر سورة مائدہ کی آیت اتری کہ صاف حرام ہو گئے جو چیز نشہ لاوے سب حرام ہے اور جو شرط بدی جاوے اس پر مال لیا جاوے سب حرام ہے،

فائدہ: اور پوچھا لوگوں نے مال کس قدر خرچ کریں حکم ہو اپنی حاجت سے افروز ہو تب خرچ کرو جیسا آخرت کا فکر ضرور ہے سارا مال اٹھا ڈالو تو دنیا کی حاجت میں ناکام رہو۔

فائدہ: اور یتیموں کے حق میں پہلے تو تقید اور ترکہ جو کوئی ان کا مال کھاوے وہ اپنے پیٹ میں آتش بھرے پھر جو کوئی یتیموں کے رکھنے والے تھے ان کے مال اور خرچ کھانے اور پہننے کا جدا رکھنے لگے کہ ہمارے خرچ میں کوئی چیز نہ آ جاوے پھر سخت مشکل پڑی کہ ایک چیز یتیم کے واسطے تیار کی گئی اس کے کام نہ آئی تو ضائع ہوئی تب یہ حکم اترا کہ خرچ اپنا اور ان کا ملا رکھو تو مضائقہ نہیں کہ ایک وقت ان کی چیز آپ خرچ کی تو دوسرے وقت اپنی چیز ان کے کام لگائی لیکن نیت چاہئے سنوارنے کی اللہ نیت دیکھتا ہے۔

۲۲۱۔ اور نکاح میں نہ لاؤ شریک والی عورتیں، جب تک ایمان نہ لائیں۔ اور البتہ لونڈی مسلمان بہتر ہے کسی شرک والی سے، اگرچہ تم کو خوش (پسند) آئے۔ اور نکاح نہ کر دو شرک والوں کو جب تک ایمان نہ لائیں۔ اور البتہ غلام مسلمان بہتر ہے کسی شرک والے سے، اگرچہ تم کو خوش (پسند) آئے۔ وہ لوگ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف، اور اللہ بلاتا ہے جنت کی طرف اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے، اور بتاتا ہے اپنے حکم لوگوں کو، شاید وہ چوکس ہو جائیں۔ ف

۔۔۔

ف: پہلے مسلمانوں اور کافر میں ناتا جاری تھا اس آیت سے حرام ٹھہرا اگر مرد نے عورت نے شرک کیا اس کا نکاح ٹوٹ گیا شرک یہ کہ اللہ کی صفت کسی اور میں جانے مثلاً کسی کو سمجھے کہ اس کو ہر بات معلوم ہے یا وہ جو چاہے سو کر سکتا ہے یا ہمارا بھلا یا برا کرنا اس کے اختیار میں ہے اور یہ کہ اللہ کی تعظیم کسی اور پر خرچ کرے مثلاً کسی چیز کو سجدہ کرے اور اس سے حاجت طلب کرے اس کو مختار جان کر باقی یہود اور نصاریٰ کی عورت سے نکاح درست ہے ان کو مشرک نہیں فرمایا۔

۲۲۲۔ اور پوچھتے ہیں تم سے حکم حیض کا۔ تو کہہ، وہ گندگی ہے، سو تم پرے رہو عورتوں سے حیض کے وقت، اور نزدیک نہ ہو ان سے جب تک کہ پاک نہ ہو جائیں۔ پھر جب ستھرائی کر لیں۔ تو جاؤ ان پاس جہاں سے حکم دیا تم کو اللہ نے۔ اللہ کو خوش (پسند) آتے ہیں توبہ کرنے والے، اور خوش (پسند) آتے ہیں ستھرائی والے۔ ف

۔۔۔

ف: حیض کہتے ہیں خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اور خلاف عادت جو آوے سو آزار ہے حکم ہوا کہ اس وقت پرے رہو، عورت سے رسول خداﷺ نے فرمایا کہ آزار سے آگے نہ چلے پھر جب پاک ہوں تو جاوے جہاں سے حکم دیا اللہ نے یعنی دوسری جگہ جو ناپاک ہے اس کا تو حکم کبھی نہیں۔

۲۲۳۔ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تمہاری، سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو۔ اور آگے کی تدبیر کرو اپنے واسطے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے، اور جان رکھو کہ تم کو اس سے ملنا ہے۔ اور خوشخبری سنا ایمان والوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جس راہ سے چاہو ہو جاؤ لیکن کھیتی ہی میں کھیتی وہی جہاں تخم ڈالے تو آگے اور آگے کی تدبیر کرو یعنی اس صحبت میں نیت چاہئے اولاد کی تا ثواب ہو۔

۲۲۴۔ اور نہ ٹھیراؤ اللہ کو ہتھکنڈا اپنی قسمیں کھانے کا، کہ سلوک نہ کرو اور پرہیزگاری اور صلح درمیان لوگوں کے۔ اور اللہ سنتا ہے جانتا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی خدا کی قسم اچھا کام چھوڑنے پر نہ کھائے مثلاً ماں باپ سے نہ بولوں گا یا اس فقیر کو نہ دوں گا یا اور اگر کھا بیٹھے تو قسم توڑ دے اور کفارہ دے۔

۲۲۵۔ نہیں پکڑتا تم کو اللہ ناکاری قسموں پر تمہاری لیکن پکڑتا ہے اس کام پر جو کرتے ہیں دل تمہارے۔ اور اللہ بخشتا ہے تحمل والا۔ ف

۔۔۔

ف: ناکاری قسم وہ جو منہ سے نکلے اور دل کو خبر نہ ہو۔

۲۲۶۔ جو لوگ قسم کھا رہتے ہیں اپنی عورتوں سے، ان کو فرصت ہے چار مہینے۔ پھر اگر مل گئے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۲۷۔ اور اگر ٹھہرایا رخصت کرنا، تو اللہ سنتا ہے جانتا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جس نے قسم کھائی کہ اپنی عورت پاس نہ جاوے تو چار مہینے میں جاوے اور قسم کی کفارت دے نہیں تو طلاق ٹھہرے۔

۲۲۸۔ اور طلاق والی عورتیں انتظار کروائیں اپنے تئیں تین حیض تک۔ اور ان کو حلال نہیں کہ چھپا رکھیں جو پیدا کیا اللہ نے ان کے پیٹ میں، اگر ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور پچھلے دن (آخرت) پر۔ اور ان کے خاوندوں کو پہنچتا ہے پھیر لینا ان کا اتنی دیر میں، اگر چاہیں صلح کرنی۔ اور عورتوں کو بھی حق ہے جیسا کہ ان پر حق ہے، موافق دستور کے۔ اور مردوں کو ان پر درجہ ہے، اور اللہ زبردست ہے تدبیر والا۔ ف

۔۔۔

ف: جب مرد نے طلاق عورت کو کہی ابھی اس عورت کو اور نکاح روا نہیں جب تک تین بار حیض ہو وے تا حمل ہو تو معلوم ہو جاوے کسی کا بیٹا کسی کو نہ لگ جاوے اسی واسطے عورت پر فرض ہے کہ اس وقت حمل ہو تو ظاہر کر دے اس مدت کا نام ہے عدت اس عدت کو رکھ لے، اگرچہ عورت کی خوشی نہ ہو، اسی واسطے فرمایا کہ عورتوں کے حق بھی مردوں پر بہت سے ہیں۔ لیکن اس جگہ مرد ہی کو درجہ دیا۔

۲۲۹۔ طلاق ہے دو بار تک، پھر رکھنا موافق دستور کے یا رخصت کرنا نیکی سے، اور تم کو روا نہیں، کہ لے لو کچھ اپنا دیا ہوا عورتوں کو، مگر کہ وہ دونوں ڈریں، کہ نہ ٹھیک رکھیں گے قاعدے اللہ کے۔ پھر اگر تم لوگ ڈرو کہ وہ نہ ٹھیک رکھیں گے قاعدے اللہ کے، تو نہیں گناہ دونوں پر جو بدلہ دے کر چھوٹے عورت۔ یہ دستور باندھے ہیں اللہ کے، سو ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو کوئی بڑھ چلے اللہ کے قائدوں سے سو وہی لوگ ہیں گنہگار۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی عدت تک مرد چاہے تو عورت کو پھر رکھ لے یہ بات پہلی طلاق میں ہے اور دوسری طلاق میں ہے اور دوسری میں بعد اس کے نہ پھر سکے گی تو موافق شرع اس کے حق ادا کر سکے تو رکھے کہ پھر قبضہ نہ ہو اور نہ رکھ سکے تو رخصت کرے اس نیت سے نہ اٹکاوے کہ عاجز ہو کہ جو میں نے دیا تھا پھر جاوے یہ جب روا ہے کہ ناچاری ہو اور کسی طرح دونوں کی خو نہ ملے اور مرد کی طرف سے ادائے حق میں قصور نہ ہو اس وقت سب لوگ مل کر عورت سے کچھ پھروا دیں اور مرد کو راضی کر کر طلاق دلوا دیں اس کو خلع کہتے ہیں۔

۲۳۰۔ پھر اگر اس کو طلاق دے، تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا، پھر اگر وہ شخص اس کو طلاق دے تب گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر مل جائیں اگر خیال رکھیں کہ ٹھیک رکھیں گے قاعدے اللہ کے۔ اور یہ دستور باندھے ہیں اللہ کے، بیان کرتا ہے واسطے جاننے والوں کے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی تیسری طلاق کے بعد پھر نہیں سکتی بلکہ دونوں کی خوشی ہو تو بھی نکاح نہیں بندھ سکتا جب تک بیچ میں اور خاوند کی صحبت نہ ہو چکے۔

۲۳۱۔ اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو، پھر پہنچیں اپنی عدّت تک، تو رکھ لو ان کو دستور سے، یا رخصت کرو دستور سے۔ اور مت بند کرو ان کے ستانے کو تا زیادتی کرو۔ اور جو کوئی یہ کام کرے، اس نے برا کیا اپنا۔ اور مت ٹھہراؤ حکم اللہ کے ہنسی۔ اور یاد کرو احسان اللہ کا جو تم پر ہے، اور وہ جو اتاری تم پر کتاب اور کام کی باتیں، کہ تم کو سمجھائے۔ اور ڈرتے رہ اللہ سے، اور جان رکھو کے اللہ سب چیز جانتا ہے۔

۲۳۲۔ اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو، پھر پہنچ چکیں اپنی عدت کو، تو اب نہ روکو ان کو کہ نکاح کر لیں اپنے خاوندوں سے، جب راضی ہو جائیں آپس میں، موافق دستور کے۔ یہ نصیحت ملتی ہے اس کو جو تم میں یقین رکھتا ہے اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ اسی میں سنوار زیادہ ہے تم کو اور ستھرائی۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ف

۔۔۔

ف: یہ حکم ہے عورتوں کے والیوں کو کہ اس کے نکاح میں اسی کی خوشی رکھیں جہاں وہ راضی ہو وہاں کر دیں اگرچہ اپنی نظر میں اور جگہ بہتر معلوم ہو۔

۲۳۳۔ اور لڑکے والیاں دودھ پلائیں اپنے لڑکوں کو دو برس پورے جو کوئی چاہے کہ پوری کرے دودھ کی مدت۔ اور لڑکے والے پر ہے کھانا اور پہننا ان کا موافق دستور کے۔ تکلیف نہیں کسی شخص کو مگر جو اس کی گنجائش ہے، نہ ضرر چاہے ماں اپنی اولاد کا، اور نہ لڑکے والے اپنی اولاد کا۔ اور وارث پر بھی یہی ذمہ ہے۔ پھر اگر دونوں چاہیں دودھ چھڑانا آپس کی رضا سے اور مشورت سے، تو ان کو نہیں گناہ۔ اور اگر تم مرد چاہو، کہ دودھ پلوا لو اپنی اولاد کو تو تم پر نہیں گناہ، جب حوالہ کر دیا جو تم نے دینا ٹھہرایا موافق دستور کے۔ اور ڈرو اللہ سے، اور جان رکھو، کہ اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اگر مرد اور عورت میں طلاق ہوئی اور لڑکا رہا دودھ پیتا تو ماں دو برس بند رہے اس کے دودھ پلانے کو اور باپ اس کا خرچ اٹھاوے اور اگر باپ مر گیا تو لڑکے کے وارث اس کا خرچ اٹھاویں اور جو دو برس سے کم ہیں چھوڑا دیں اپنی خوشی سے تو بھی روا ہے اور باپ کسی اور سے پلوائے ماں کو بند نہ رکھے تو بھی روا ہے لیکن اس کے بدلے میں ماں کا کچھ حق کاٹ نہ رکھے۔

۲۳۴۔ اور جو لوگ مر جائیں تم میں اور چھوڑ جائیں عورتیں، وہ انتظار کروائیں اپنے تئیں چار مہینے اور دس دن۔ پھر جب پہنچ چکیں اپنی عدّت کو، تو تم پر نہیں گناہ، جو وہ اپنے حق میں کریں موافق دستور کے۔ اور اللہ کو تمہارے کام کی خبر ہے۔ ف

۔۔۔

ف: طلاق کی عدت تین حیض فرمائی اور موت کی عدت چار مہینے دس دن یہ دونوں جب ہیں کہ حمل معلوم نہ ہو تو حمل تک۔

۲۳۵۔ اور گناہ نہیں تم پر جو پردے میں کہو پیغام نکاح کا عورت کو، یا چھپا رکھو اپنے دل میں۔ معلوم ہے اللہ کو کہ تم البتہ دھیان کرو گے، لیکن وعدہ نہ کرو ان سے چھپ کر مگر یہی کہ کہہ دو ایک بات جس کا رواج ہے۔ اور نہ باندھو گرہ نکاح کی۔ جب تک پہنچ چکے حکم اللہ کا اپنی مدت کو۔ اور جان رکھو کہ اللہ کو معلوم ہے جو تمہارے دل میں ہے، تو اس سے ڈرتے رہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ بخشتا ہے تحمل والا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی عورت ایک خاوند سے چھوٹی ہے اور عدت میں ہے تب تک کسی اور کو روا نہیں کہ اس سے نکاح باندھ لیوے یا صاف وعدہ کر رکھے مگر دل میں نیت رکھے کہ یہ فارغ ہو گی تو میں نکاح کروں گا یا اس کو پردے میں سنا رکھے تا اس سے پہلے کوئی اس سے پہلے کوئی اور نہ کہہ بیٹھے پر وہ یہ کہ ایک بات کہہ دے مروج سی مثلاً عورت سے کہے کہ تجھ کو ہر کوئی عزیز کر لے گا یا کہے کہ مجھ کو ارادہ نکاح کا ہے۔

۲۳۶۔ گناہ نہیں تم پر اگر طلاق دو عورتوں کو، جب تک یہ نہیں کہ ان کو ہاتھ لگایا ہو۔ یا مقرر کیا ہو ان کا کچھ حق۔ اور ان کو خرچ دو۔ وسعت والے پر اس کے موافق ہے اور تنگی والے پر اس کے موافق جو خرچ دستور ہے، لازم ہے نیکی والوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: اگر نکاح کے وقت مہر کہنے میں نہیں آیا تو بھی نکاح درست ہے مہر پیچھے پہ ٹھہر رہے گا پھر اگر بن ہاتھ لگائے عورت کو طلاق دے تو مہر کچھ لازم نہ آیا لیکن کچھ خرچ دینا ضرور ہے خرچ کیا کہ ایک جوڑا پوشاک کا موافق اپنے حال کے۔

۲۳۷۔ اور اگر طلاق دو ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے، اور ٹھہرا چکے ہو ان کا حق، تو لازم ہوا آدھا جو کچھ ٹھہرایا تھا۔ مگر یہ کہ درگذر کریں عورتیں، یا درگذر کرے جس کے ہاتھ گرہ ہے نکاح کی۔ اور تم مرد درگذر کرو تو قریب ہے پرہیزگاری سے۔ اور نہ بھلا دو بھلائی رکھنی آپس میں۔ تحقیق اللہ جو کرتے ہو سو دیکھتا ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اگر مہر ٹھہر چکا تھا پھر بن ہاتھ لگائے طلاق دے تو آدھا مہر لازم ہوا مگر عورتیں در گزر کریں کہ بالکل چھوڑ دیں یا مرد درگذر کرے جو مختار تھا نکاح رکھنے کا اور توڑنے کا پورا مہر حوالہ کرے پھر فرمایا کہ مرد در گذر کرے تو بہتر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بڑائی دی ہے مرد کی طرف کو اور اس کو مختار کیا ہے نکاح رکھنے کا اور توڑنے کا تو اپنی بڑائی رکھے، فائدہ: چار صورتیں ہو سکتی ہیں یہاں دو کا حکم فرمایا ایک یہ کہ مہر نہ ٹھہرا تھا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دوسرے یہ کہ مہر ٹھہرا تھا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی اور دو صورتیں باقی رہی ایک یہ کہ مہر ٹھہرا تھا اور ہاتھ لگا کر طلاق دے تو پورا مہر لازم ہوا یہ سورة نساء میں مذکور ہے دوسرے یہ کہ مہر نہ ٹھہرا تھا اور ہاتھ لگا کر طلاق دے اس میں مہر مثل دیا چاہئے یعنی جو اس عورت کی قوم میں رواج ہے اور جب خلوت ہو چکی تو گویا ہاتھ لگایا۔

۲۳۸۔ خبردار رہو نمازوں سے، اور بیچ والی نماز سے۔ اور کھڑے رہو اللہ کے آگے ادب سے۔ ف

۔۔۔

ف: بیچ والی نماز عصر ہے کہ دن اور رات کے بیچ میں ہے اس کا تقید زیادہ کیا ہے اور طلاق کے حکموں میں نماز کا حکم فرمایا کہ دنیا کے معاملت میں غرق ہو کر بندگی نہ بھول جاؤ اسی واسطے عصر کا تقید زیادہ ہے کہ وقت دنیا کا شغل ہے، فائدہ۔ فرمایا کہ کھڑے ہو ادب سے تو جو حرکت جس سے آدمی معلوم ہو کہ نماز میں نہیں اس سے نماز ٹوٹتی ہے جیسے کھانا پینا یا کسی سے بات کرنی اور سوا اس کے۔

۲۳۹۔ پھر اگر تم کو ڈر ہو، تو پیادہ پڑھ لو یا سوار۔ پھر جس وقت چین پاؤ تو یاد کرو اللہ کو، جیسا تم کو سکھایا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی لڑائی کا وقت ہو تو ناچاری کو سواری پر بھی اور پیادہ بھی اشارہ سے نماز روا ہے گو کہ قبلے کی طرف بھی نہ ہو۔

۲۴۰۔ اور جو لوگ تم میں مر جائیں اور چھوڑ جائیں عورتیں۔ وصیت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس، نہ نکال دینا۔ پھر اگر وہ نکل جائیں تو گناہ نہیں تم پر، جو کچھ کریں اپنے حق میں دستور کی بات۔ اور اللہ زبردست ہے حکمت والا۔ ف

۔۔۔

ف: یہ حکم تھا جبکہ مردے کے اختیار پر رکھا تھا وارثوں کو دلوانا جو سب کے حصے اللہ صاحب نے ٹھہرا دئیے عورت کا بھی ٹھہرا دیا اب مردے کا دلوانا موقوف ہوا۔

۲۴۱۔ اور طلاق والیوں کو خرچ دینا ہے موافق دستور کے لازم ہے پرہیزگاروں کو۔ ف

۔۔۔

ف: پہلے خرچ فرمایا تھا یعنی جوڑا اس طلاق پر کہ مہر نہ ٹھہرا ہو اور ہاتھ نہ لگایا ہو، یہاں سب پر حکم فرمایا سب طلاق والیوں کو جوڑا دینا بہتر ہے اور اس پہلی کو ضرور ہے۔

۲۴۲۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ تمہارے واسطے اپنی آیتیں شاید تم بوجھ (سمجھ) رکھو۔ ف

۔۔۔

ف: یہاں حکم نکاح اور طلاق کے تمام ہوئے۔

۲۴۳۔ تو نے نہ دیکھے وہ لوگ جو نکلے اپنے گھروں سے، اور وہ ہزاروں تھے، موت کے ڈر سے۔ پھر کہا ان کو اللہ نے، مر جاؤ۔ پیچھے ان کو جلایا (زندہ کیا)۔ اللہ تو فضل رکھتا ہے لوگوں پر، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ ف

۔۔۔

ف: یہ پہلی امت میں ہوا ہے کہ کئی ہزار شخص گھر بار لے کر اپنے وطن کو چھوڑ نکلے ان کو ڈر ہوا غنیم کا اور لڑنے سے جی چھپایا، یا ڈر ہوا وبا کا اور یقین نہ ہوا تقدیر کا پھر ایک منزل میں پہنچ کر سارے مر گئے پھر سات دن کے بعد پیغمبر کی دعا سے زندہ ہوئے کہ آگے کو توبہ کریں یہاں اس واسطے فرمایا جہاد سے جی چھپانا عبث ہے موت نہیں چھوڑتی۔

۲۴۴۔ اور لڑو اللہ کی راہ میں، اور جان لو کہ اللہ سنتا ہے جانتا۔

۲۴۵۔ کون شخص ہے ایسا؟ کہ قرض دے اللہ کو اچھا قرض، کہ وہ اس کو دونا کر دے کتنے برابر؟ اور اللہ تنگی کرتا ہے اور کشائش (خوشحالی)۔ اور اس پاس الٹے (لَوٹ) جاؤ گے۔ ف

۔۔۔

ف: اللہ کو قرض دے یعنی جہاد میں خرچ کرے اس طرح فرمایا مہربانی سے اور تنگی کا اندیشہ نہ رکھے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشائش ہے۔

۲۴۶۔ تو نے نہ دیکھی ایک جماعت بنی اسرائیل میں موسیٰ کے بعد؟ جب کہا اپنے نبی کو، کھڑا کر دے ہم کو ایک بادشاہ، کہ ہم لڑائی کریں اللہ کی راہ میں، وہ بولا کہ یہ بھی توقع ہے تم سے کہ اگر حکم ہو تم کو لڑائی کا، تب نہ لڑو۔ بولے ہم کو کیا ہوا ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں، اور ہم کو نکال دیا ہے ہمارے گھر سے، اور بیٹوں سے۔ پھر جب حکم ہوا ان کو لڑائی کا، پھر گئے، مگر تھوڑے ان میں سے۔ اور اللہ کو معلوم ہیں گنہگار۔ ف

۔۔۔

ف: بعد حضرت موسیٰؑ کے ایک مدت بنی اسرائیل کا کام بنا رہا پھر جب ان کی نیت بری ہوئی ان پر غنیم مسلط ہوا جالوت بادشاہ کافر ان کے اطراف کے شہر چھین لیے اور لوٹا اور بندی پکڑ لے گیا، وہاں کے بھاگے لوگ بیت المقدس میں جمع ہوئے حضرت سموئیل پیغمبر سے چاہا کوئی بادشاہ با اقبال ہم لڑ نہیں سکتے۔

۲۴۷۔ اور کہا ان کو ان کے نبی نے، اللہ نے کھڑا کر دیا تم کو طالوت بادشاہ۔ بولے، کہاں ہو گی اس کی سلطنت ہمارے اوپر؟ اور ہمارا حق زیادہ ہے سلطنت میں اس سے، اور اس کو ملی نہیں کشائش مال کی۔ کہا اللہ نے اس کو پسند کیا تم سے اور زیادہ کشائش (کشادگی) دی عقل میں اور بدن میں۔ اور اللہ دیتا ہے اپنی سلطنت جس کو چاہے۔ اور اللہ کشائش (وسعت) والا ہے سب جانتا۔ ف

۔۔۔

ف: طالوت کی قوم میں آگے سے سلطنت نہ تھی اور کسب کرتا تھا ان کی نظر میں حقیر لگا۔ نبی نے فرمایا کہ سلطنت حق کسی کا نہیں اور بڑی لیاقت ہے عقل اور بدن کی کشائش یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پیغمبر کو ایک عصا بتایا کہ جس کا قد اس کے برابر ہو سلطنت اس کی ہے اس کے برابر قد اسی کا آیا۔

۲۴۸۔ اور کہا ان کو ان کے نبی نے، نشان اس کی سلطنت کا یہ کہ آئے تم کو صندوق، جس میں ہے دل جمعی تمہارے رب کی طرف سے، اور کچھ بچی چیزیں جو چھوڑ گئے موسیٰ اور ہارون کی اولاد، اٹھا لائیں اس کو فرشتے، اس میں نشانی پوری ہے تم کو اگر یقین رکھتے ہو۔ ف

۔۔۔

ف: بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا اس میں تبرکات تھے حضرت موسیٰؑ اور ہارونؑ کے لڑائی کے وقت سردار کے آگے لے چلتے اور دشمن پر حملہ کرتے تو اس کو آگے دھر کر پھر اللہ فتح دیتا، جب یہ بد نیت ہو گئے وہ صندوق ان سے چھینا گیا غنیم کے ہاتھ لگا اب جو طالوت بادشاہ ہوا وہ صندوق خود بخود رات کے وقت اس کے گھر کے سامنے آ موجود ہوا سبب یہ کہ غنیم کے شہر میں جہاں رکھا تھا ان پر بلا پڑی پانچ شہر ویران ہو گئے تب ناچار ہوئے انہوں نے دو بیلوں پر لاد کر ہانک دیا پھر فرشتے بیلوں کو ہانک کر یہاں لے آئے۔

۲۴۹۔ پھر جب باہر ہوا طالوت فوجیں لے کر، کہا، اللہ تم کو آزماتا ہے ایک نہر سے۔ پھر جس نے پانی پیا اس کا، وہ میرا نہیں۔ اور جس نے اس کو نہ چکھا، وہ ہے میرا، پھر جو کوئی بھر لے ایک چلّو اپنے ہاتھ سے۔ پھر پی گئے اس کا پانی مگر تھوڑے ان میں۔ پھر جب پار ہوا وہ اور ایمان والے ساتھ اس کے، کہنے لگے، قوت نہیں ہم کو آج جالوت کی اور اس کے لشکروں کی۔ بولے، جن کو خیال تھا کہ ان کو ملنا ہے اللہ سے، بہت جگہ جماعت تھوڑی غالب ہوئی ہے جماعت بہت پر اللہ کے حکم سے۔ اور اللہ ساتھ ہے ٹھہرنے والوں کے۔ ف

۔۔۔

ف: طالوت کے ساتھ نکلنے کو سب تیار ہوئے ہوس سے اس نے تقید کیا کہ جو شخص جوان اور بے فکر ہو وہی نکلے ایسے بھی اسی ہزار نکلے اس نے چاہا کہ ان کو آزماوے ایک منزل پانی نہ ملا بعد اس کے ایک نہر ملی اس نے تقید کیا کہ ایک چلو سے زیادہ جو کوئی پیوے وہ میرے ساتھ نہ آوے تین سو تیرہ آدمی رہ گئے باقی سب موقوف ہوئے۔

۲۵۰۔ اور جب سامنے ہوئے جالوت کے اور اس کی فوجوں کے، بولے، اے رب ہمارے! ڈال دے ہم میں جتنی مضبوطی ہے اور ٹھہرا ہمارے پاؤں اور مدد کر ہماری اس کافر قوم پر۔

۲۵۱۔ پھر شکست دی ان کو اللہ کے حکم سے، اور مارا داؤد نے جالوت کو، اور دی اس کو اللہ نے سلطنت اور تدبیر، اور سکھایا اس کو جو چاہا۔ اور اگر دفع نہ کروا دے اللہ لوگوں کو ایک کو ایک سے تو خراب ہو جائے ملک، لیکن اللہ فضل رکھتا ہے جہان کے لوگوں پر۔ ف

۔۔۔

ف: تین سو تیرہ آدمیوں میں حضرت داؤدؑ کا باپ اور یہ اور ان کے چھ بھائی تھے ان کو راہ میں تین پتھر ملے اور بولے کہ ہم کو اٹھا لے جالوت کو ہم ماریں گے جب مقابلہ ہوا جالوت خود باہر نکلا کہا تم سب کو میں کفایت ہوں میرے سامنے آتے جاؤ پیغمبر نے حضرت داؤدؑ کے باپ کو بلایا کہ اپنے بیٹے مجھ کو دکھا اس نے چھ بیٹے دکھائے جو قد آور تھے حضرت داؤدؑ کو نہ دکھایا وہ قد آور نہ تھے اور بکریاں چراتے تھے پیغمبر نے ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تو جالوت کو مارے گا انہوں نے کہا ماروں گا پھر اس کے سامنے گئے وہ تین پتھر فلاخن میں رکھ کر مارے اس کا ما تھا کھلا تھا اور تمام بدن لوہے میں غرق تھا ماتھے کو لگے اور پیچھے نکل گئے، فائدہ بعد اس کے طالوت نے اپنی بیٹی ان کو نکاح کر دی بعد طالوت کے یہ یہ بادشاہ ہوئے فائدہ نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنی نبیوں کا کام نہیں اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ رہا ہوا کہ جہاد ہمیشہ رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ ملک کو ویران کر دیں۔

۲۵۲۔ یہ آیتیں اللہ کی ہیں، ہم تجھ کو سناتے ہیں۔ تحقیق۔ اور تو بیشک رسولوں میں ہے۔

۲۵۳۔ یہ سب رسول، بڑائی دی ہم نے ان میں ایک کو ایک سے، کوئی ہے کہ کلام کیا اس سے اللہ نے، اور بلند کئے بعضوں کے درجے، اور دی ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو نشانیاں صریح، اور زور دیا اس کو روح پاک سے۔ اور اگر چاہتا اللہ نہ لڑتے ان کے پچھلے، بعد اس کے کہ پہنچے ان کو صاف حکم، لیکن وہ پھٹ گئے پھر کوئی ان میں یقین لایا، اور کوئی منکر ہوا۔ اور اگر چاہتا اللہ، نہ لڑتے، لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہے۔

۲۵۴۔ اے ایمان والو! خرچ کرو کچھ ہمارا دیا، پہلے اس دن کے آنے سے، جس میں نہ بکنا ہے اور نہ آشنائی ہے اور نہ سفارش۔ اور جو منکر ہیں وہی ہیں گنہگار۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی عمل کا وقت ابھی ہے آخرت میں نہ عمل بکتے ہیں نہ کوئی آشنائی سے دیتا ہے نہ کوئی سفارش سے چھڑا سکتا ہے جب تک پکڑنے والا نہ چھوڑے۔

۲۵۵۔ اللہ! اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، جیتا ہے سب کا تھامنے والا۔ نہیں پکڑتی اس کو اونگھ اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ کون ایسا ہے کہ سفارش کرے اس کے پاس مگر اس کے اذن سے، جانتا ہے جو خلق کے روبرو ہے اور پیٹھ پیچھے۔ اور یہ نہیں گھیر سکتے اس کے علم میں سے کچھ مگر جو وہ چاہے۔ گنجائش ہے اس کی کرسی میں آسمان اور زمین کو۔ اور تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے، اور وہی ہے اوپر سب سے بڑا۔

۲۵۶۔ زور نہیں دین کی بات میں، کھل چکی ہے صلاحیت اور بے راہی، اب جو کوئی منکر ہو مفسد سے اور یقین لائے اللہ پر اس نے پکڑی گہہ (سہارا) مضبوط، جو ٹوٹنے والی نہیں، اور اللہ سنتا ہے جانتا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جہاد کرنا یہ نہیں کہ زور سے اپنا دعوی قبول کرواتے ہیں بلکہ جس کام کو سب نیک کہتے ہیں اور کرتے ہیں۔

۲۵۷۔ اللہ کام بنانے والا ہے ایمان والوں کا، نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے اجالے میں۔ اور وہ جو منکر ہیں، ان کے رفیق ہیں شیطان نکالتے ہیں ان کو اجالے سے اندھیروں میں۔ وہ ہیں دوزخ والے، وہ اسی میں رہ پڑے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جہاد سے کافروں کی ضد توڑنے کو اور ہدایت اللہ کرتا ہے جس کی قسمت میں رکھی ہے ان کو شبہ آیا تو ساتھی ہی اس پر خبر دار کر دیا۔

۲۵۸۔ تو نے نہ دیکھا وہ شخص جو جھگڑا ابراہیم سے اس کے رب پر؟ واسطہ یہ کہ دی تھی اس کو اللہ نے سلطنت، جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو جلاتا (زندگی بخشتا) ہے اور مارتا ہے، بولا میں ہوں جلاتا (زندگی بخشتا) اور مارتا، کہا ابراہیم نے، اللہ تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے، پھر تو لے آ اس کو مغرب سے، تب حیران رہ گیا وہ منکر۔ اور اللہ نہیں راہ دیتا بے انصاف لوگوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: ایک بادشاہ تھا وہ اپنے تئیں سجدہ کرواتا تھا سلطنت کے غرور سے حضرت ابراہیمؑ نے اس کو سجدہ نہ کیا اس نے پوچھا انہوں نے کہا میں اپنے رب ہی کو سجدہ کرتا ہوں تو میں ہوں انہوں نے کہا رب میں حاکم کو نہیں کہتا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اس نے دو قیدی منگائے جس کو جلانا پہنچتا تھا مار ڈالا جس کو مارنا پہنچتا تھا چھوڑ دیا تب انہوں نے آفتاب کی دلیل سے اس کو لاجواب کیا۔

۲۵۹۔ یا جیسے وہ شخص، کہ گزرا ایک شہر پر اور وہ گرا پڑا تھا اپنی چھتوں پر، بولا کہاں جٍلائے (زندہ کرے) گا اس کو اللہ مر گئے پیچھے؟ پھر مار رکھا اس کو اللہ نے سو برس، پھر اٹھایا۔ کہا، تو کتنی دیر رہا؟ بولا میں رہا ایک دن یا دن سے کچھ کم۔ کہا، نہیں بلکہ تو رہا سو برس اب دیکھ کھانا اپنا اور پینا، سڑ نہیں گیا۔ اور دیکھ اپنے گدھے کو اور تجھ کو ہم نمونہ کیا چاہیں لوگوں کے واسطے، اور دیکھو ہڈیاں کس طرح ان کو ابھارتے ہیں، پھر ان پر پہناتے ہیں گوشت۔ پھر جب اس پر ظاہر ہوا، بولا، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یہ ایک شخص حضرت عزیرؑ پیغمبر تھے، بخت نصر ایک بادشاہ تھا کافر بنی اسرائیل پر غالب ہوا شہر بیت المقدس کو ویران کیا تمام لوگ بندی میں پکڑئے گئے تب حضرت عزیرؑ اس شہر پر گذرے تعجب کیا کہ یہ شہر پھر کیونکر آباد ہو اسی جگہ ان کی روح قبض ہوئی سو برس کے بعد زندہ ہوئے ان کا کھانا اور پینا پاس دھرا تھا اسی طرح وہ سواری کا گدھا مر کر ہڈیاں اسی شکل سے دھری تھیں وہ ان کے رو برو زندہ ہوا اس سو برس میں بنی اسرائیل قید سے خلاص ہوئے اور شہر پھر آباد ہوا انہوں نے زندہ ہو کر آباد ہی دیکھا۔

۲۶۰۔ اور جب کہا ابراہیم نے اے رب! دکھا مجھ کو کیوں کر جلائے (زندہ کرے) گا تو مردے؟ فرمایا، کیا تو نے یقین نہیں کیا؟ کہا، کیوں نہیں! لیکن اس واسطے کہ تسکین ہو میرے دل کو۔ فرمایا، تو پکڑ چار جانور اڑتے، پھر ان کو ہلا (مانوس کر) اپنے ساتھ سے، پھر ڈال ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا، پھر ان کو پکار، کہ آئیں تیرے پاس دوڑتے۔ اور جان لے کہ اللہ زبردست ہے حکمت والا۔ ف

۔۔۔

ف: چار جانور لائے ایک مور ایک مرغ ایک کوا اور ایک کبوتر ان کو اپنے ساتھ ہلایا کہ پہچان رہے پھر ذبح کیا ایک پہاڑ پر چاروں کے سر رکھے ایک پر پر ایک پر دھڑ، ایک پر پاؤں، پہلے بیچ میں کھڑے ہو کر ایک کو پکارا اس کا سر اٹھ کر ہوا میں کھڑا ہوا پھر دھڑ ملا پھر پر لگے پھر پاؤں وہ دوڑتا ہوا چلا آیا اسی طرح چاروں آئے فائدہ: یہ تین قصے فرمائے اس پر کہ اللہ آپ ہدایت کرنے والا ہے جس کو چاہے اگر شبہ پڑے تو ساتھ ہی جواب بھیجے اب آگے پھر جہاد کا مذکور ہے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا۔

۲۶۱۔ مثال ان کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، جیسے ایک دانہ، اس سے اگیں سات بالیں، ہر بال میں سو سو دانے۔ اور اللہ بڑھاتا ہے جس کے واسطے چاہے۔ اور اللہ کشائش (وسعت) والا ہے سب جانتا۔

۲۶۲۔ جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال، اللہ کی راہ میں، پھر پیچھے خرچ کر کر نہ احسان رکھتے ہیں نہ ستاتے ہیں، انہیں کو ہے ثواب ان کا، اپنے رب کے ہاں۔ اور نہ ڈر ہے ان پر، اور نہ وہ غم کھائیں گے۔

۲۶۳۔ بات کہنی معقول، اور در گذر کرنی، بہتر (ہے) اس خیرات سے جس کے پیچھے (ہو) ستانا، اور اللہ بے پرواہ ہے تحمل والا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی مانگنے والے کو نرمی سے جواب دینا اور اس کی بد خوئی پر درگذر کرنی بہتر ہے اس سے کہ دیوے پھر اس کو بار بار دبا دے یہ سمجھے کہ میں نے اللہ کو دیا ہے اس کو کیا پرواہ ہے مگر اپنا بھلا کرتا ہوں۔

۲۶۴۔ اے ایمان والو! مت ضائع کرو اپنی خیرات احسان رکھ کر اور ستا کر، جیسے وہ جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو، اور یقین نہیں رکھتا اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ سو اس کی مثال جیسے صاف پتھر، اس پر پڑی ہے مٹی، پھر اس پر برسا زور کا مینہ، تو اس کو کر رکھا سخت۔ کچھ ہاتھ نہیں لگتی ان کو اپنی کمائی۔ اور اللہ راہ نہیں دیتا منکر لوگوں کو۔ ف

۔۔۔

ف: اوپر مثال فرمائی خیرات کی جیسے ایک دانہ بویا اور سات بالیں نکلیں، سات سو دانے ملے یہاں فرمایا کہ نیت شرط ہے اگر دکھاوے کی نیت سے خرچ کیا تو جیسے دانہ بو یا پتھر میں جس پر تھوڑی سی مٹی نظر آتی تھی جب مینہ پڑا وہ صاف رہ گیا اس میں کیا اُگے گا۔

۲۶۵۔ اور مثال ان کی جو خرچ کرتے ہیں مال اپنے اللہ کی خوشی چاہ کر اور اپنا دل ثابت کر کر، جیسے ایک باغ ہے بلندی پر، اس پر پڑا مینہ تو لایا اپنا پھل دونا، پھر اگر نہ پڑا اس پر مینہ، تو اوس ہی پڑی۔ اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے۔ ف

۔۔۔

ف: مینہ سے مراد بہت مال خرچ کرنا، اور اوس سے مراد تھوڑا سا مال سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے جیسے خالص زمین پر باغ جتنا مینہ برسے اس کو فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے اور نیت درست نہیں تو جس قدر خرچ کرے اور ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھاوا بھی زیادہ ہے جیسے پتھر پر دانہ جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر کرے کہ مٹی دھوئی جاوے۔

۲۶۶۔ بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ ہوئے اس کا ایک باغ کھجور اور انگور کا، نیچے اس کے بہتی ہیں ندیاں، اس کو وہاں حاصل سب طرح کا میوہ، اور اس پر بڑھاپا پڑا، اور اس کے اولاد ہیں ضعیف (ناتواں)، تب پڑا اس باغ پر بگولا، جس میں آگ تھی، تو وہ جل گیا۔ یوں سمجھاتا ہے اللہ تم کو آیتیں، شاید تم دھیان کرو۔ ف

۔۔۔

ف: اب مثال فرمائی احسان رکھنے والے کی جو اپنی خیرات اچھی کو ضائع کرے جیسے جوانی کے وقت باغ حاصل کیا توقع سے کہ بڑی عمر میں کام آوے عین کام کے وقت جل گیا۔

۲۶۷۔ اے ایمان والو! خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے، اور جو ہم نے نکال دیا تم کو زمین میں سے، اور نیت نہ رکھو گندی چیز پر کہ خرچ کرو، اور تم آپ وہ نہ لو گے، مگر جو آنکھیں موند لو۔ اور جان رکھو، کہ اللہ بے پرواہ ہے خوبیوں والا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی خیرات قبول ہونے کی بھی یہی شرط ہے کہ مال حلال کمایا ہو حرام نہ ہو اور بہتر چیز اللہ کی راہ میں دیوے یہ نہیں کہ بری چیز خیرات میں لگا دے کہ لینے دینے میں آپ ویسی چیز قبول نہ کرے مگر ناچار ہو کر کیونکہ اللہ بے پرواہ ہے محتاج نہیں اور خوبیوں والا ہے خوب سے خوب پسند کرتا ہے۔

۲۶۸۔ شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگی کا، اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا، اور اللہ وعدہ دیتا ہے اپنی بخشش کا اور فضل کا، اور اللہ کشائش والا ہے سب جانتا۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جب دل میں یہ خیال آوے کہ مال خیرات میں دے ڈالوں تو میں مفلس رہ جاؤں اور ہمت آوے بے حیائی پر کہ اللہ کی تاکید سن کر پھر بھی خرچ نہ کرے تو جان لیوے کہ یہ شیطان کی طرف سے آیا اور جب خیال آوے کہ خیرات سے گناہ بخشے جاویں گے اور اللہ کے ہاں کمی نہ چاہے گا تو اور دے گا تو جان لیوے کہ یہ اللہ کی طرف سے آیا۔

۲۶۹۔ دیتا ہے سمجھ جس کو چاہے اور جس کو سمجھ ملی بہت خوبی ملی۔ اور وہی سمجھیں جن کو عقل ہے۔

۲۷۰۔ اور جو خرچ کرو گے کوئی خیرات یا قبول کرو گے کوئی منّت، سو اللہ کو معلوم ہے، اور گنہگاروں کا کوئی نہیں مددگار۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی منت قبول کی تو واجب ہو گئی اب ادا نہ کرے تو گنہگار ہے نذر اللہ کے سوا کسی کو نہ چاہئے مگر یہ کہے کہ اللہ کے واسطے فلانے شخص کو دوں گا تو مختار ہے۔

۲۷۱۔ اگر کھلی دو خیرات تو کیا اچھی بات، اور اگر چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو تم کو بہتر ہے۔ اور اتارتا ہے کچھ گناہ تمہارے، اور اللہ تمہارے کام سے واقف ہے۔ ف

۔۔۔

ف: اگر نیت دکھاوے کی نہ ہو تو خیرات کھلی بھی بہتر ہے کہ اوروں کو شوق آوے اور چھپی بھی بہتر ہے کہ لینے والا نہ شرماوے۔

۲۷۲۔ تیرا ذمہ نہیں ان کو راہ پر لانا، لیکن اللہ راہ پر لائے جس کو چاہے۔ اور مال جو خرچ کرو گے، سو اپنے واسطے، جب تک خرچ نہ کرو گے مگر اللہ کی خوشی چاہ کر، اور جو خرچ کرو گے خیرات، پوری ملے گی تم کو، اور تمہارا حق نہ رہے گا۔

۲۷۳۔ دنیا ہے ان مفلسوں کو جو اٹک رہے ہیں اللہ کی راہ میں، چل پھر نہیں سکتے ملک میں، سمجھے ان کو بے خبر محفوظ، ان کے نہ مانگنے سے، تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرے سے، نہیں مانگتے لوگوں سے لپٹ کر، اور جو خرچ کرو گے کام کی چیز وہ اللہ کو معلوم ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی بڑا ثواب ہے ان کا دینا جو اللہ کی راہ میں اٹک گئے ہیں کما نہیں سکتے اور اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتے جیسے حضرت کے اصحاب تھے اہل صفہ گھر بار چھوڑ کر حضرت کی صحبت پکڑی تھی علم سیکھنے کو اور جہاد کرنے کو اسی طرح اب بھی جو کوئی حفظ کرے قرآن کو یا علم دین میں مشغول ہو لوگوں کو لازم ہے کہ ان کی مدد کریں۔

۲۷۴۔ جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، رات اور دن چھپے اور کھلے، تو ان کو مزدوری ان کی اپنے رب کے پاس، اور نہ ڈر ہے ان پر نہ وہ غم کھائیں گے۔ ف

۔۔۔

ف: یہاں تک خیرات کا بیان تھا آگے سود کو حرام فرمایا جب خیرات کا تقیُّد ہوا تو قرض دینا اولیٰ ہے قرض پر سود کاہے کو لیا چاہئیے۔

۲۷۵۔ جو لوگ کھاتے ہیں سود، نہ اٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اٹھتا ہے جس کے حواس کھو دئیے جن نے لپٹ کر۔ یہ اس واسطے کہ انہوں نے کہا، سودا کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا سود لینا، اور اللہ نے حلال کیا سودا اور حرام کیا سود۔ پھر جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی، اور باز آیا، تو اس کا ہے جو آگے ہو چکا، اور اس کا حکم اللہ کے اختیار۔ اور جو کوئی پھر کرے، وہی ہیں دوزخ کے لوگ، وہ اسی میں رہ پڑے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی منع سے پہلے جو لیا دنیا میں پھروانا نہیں پہنچتا اور آخرت میں اللہ کا اختیار ہے چاہے تو بخشے باقی بعد منع کے جو لیوے وہ دوزخی ہے اور خدا کے حکم کے سامنے عقل کی دلیل لانی اس کی یہی سزا ہے جو فرمائی۔

۲۷۶۔ مٹاتا ہے اللہ سود اور بڑھاتا ہے خیرات۔ اور اللہ نہیں چاہتا کسی ناشکر گنہگار کو۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی مال دار ہو کر محتاج کو قرض بھی مفت نہ دے جب تک سود نہ رکھ لے یہ نعمت کی ناشکری ہے۔

۲۷۷۔ جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے، اور قائم رکھی نماز اور دی زکوٰۃ، ان کو ہے بدلا ان کا اپنے رب کے پاس، اور ان پر ڈر ہے نہ وہ غم کھائیں گے۔

۲۷۸۔ اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو رہ گیا سود، اگر تم کو یقین ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی منع آنے سے پہلے لے چکے سو لے چکے اور اگلا چڑھا ہوا اب نہ مانگو۔

۲۷۹۔ پھر اگر نہیں کرتے، تو خبردار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے، اور اگر توبہ کرتے ہو، تو تم کو پہنچتے ہیں اصل مال تمہارے، نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ کوئی تم پر۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی اگلا سود لیا ہوا تمہارے اصل مال میں حساب کرے تو تم پر ظلم ہے اور منع کے بعد اگلا چڑھا سود تم مانگو تو تمہارا ظلم ہے۔

۲۸۰۔ اور اگر ایک شخص ہے تنگی والا، تو فرصت دینی چاہئیے جب تک کشائش (خوشحالی) پائے، اور اگر خیرات کر دو تو تمہارا بھلا ہے، اگر تم کو سمجھ ہو۔ ف

۔۔۔

ف: یعنی جب دیکھا سود موقوف ہوا جب دیکھا سود موقوف ہوا اب لگو مفلس سے تقاضا کرنے یہ نہ چاہئیے بلکہ فرصت دو اور اگر توفیق ہو تو بخش دو۔

۲۸۱۔ اور ڈرتے رہو اس دن سے جس میں الٹے (لوٹ کر) جاؤ گے اللہ کے پاس، پھر پورا ملے گا ہر شخص کو جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔

۔۔۔

ف: اس آیت میں دو چیز کا تقید فرمایا ایک تو وعدے کے معاملہ کو لکھنا کہ اس میں پھر قضیہ نہ ہو اور اپنے تئیں شبہ نہ پڑے اور شاہد کو دیکھ کر یاد آوے دوسرے شاہد کر لینا ہر معاملہ پر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں جن کو ہر کوئی پسند رکھے اور تقید فرمایا کہ نویسندہ اور شاہد نقصان کسی کا نہ کریں جو حق واجبی ہے سو ہی ادا کریں اور لکھنے میں جو دینے والا اپنی زبان سے کہے سو لکھیں یا اس کا کوئی بزرگ کہے، اگر اس کو کوئی عقل نہ وہ۔

۲۸۲۔ اے ایمان والو! جس وقت معاملت کرو ادھار کی کسی وعدہ مقررہ تک تو اس کو لکھو۔ اور چاہئیے لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے، اور نہ کنارہ کرے لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس کو اللہ نے سو وہ لکھے۔ اور بتا دے جس پر حق دینا ہے اور ڈرے اللہ سے جو رب ہے اس کا، اور ناقص نہ کرے اس میں سے کچھ۔ پھر اگر جس شخص پر دینا آیا، بے عقل ہے، یا ضعیف ہے، یا آپ نہیں بتا سکتا، تو بتا دے اس کا اختیار والا انصاف سے۔ اور شاہد کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے۔ پھر اگر نہ ہوں دو مرد، تو ایک مرد اور دو عورتیں، جن کو پسند رکھتے ہو شاہدوں میں، کہ بھول جائے ایک عورت تو یاد دلا دے اس کو وہ دوسری۔ اور کنارہ نہ کریں شاہد جس وقت بلائے جائیں، اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے، چھوٹا ہو یا بڑا، اس کے وعدہ تک۔ اس میں خوب انصاف ہے اللہ کے ہاں، اور درست رہتی ہے گواہی، اور لگتا کہ تم کو شبہ نہ پڑے، مگر ایسا کہ سودا ہو روبرو، پھر بدل کرتے ہو آپس میں، تو گناہ نہیں تم پر، کہ نہ لکھو اس کو، اور شاہد کر لو جب سودا کرو، اور نقصان نہ کیا جائے لکھنے والا، نہ شاہد، اور اگر ایسا کرو تو یہ گناہ کی بات ہے تمہارے اندر۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے، اور اللہ تم کو سکھاتا ہے، اور اللہ سب چیز سے واقف ہے۔ ف

۔۔۔

ف: یہاں سے معلوم ہوا کہ دل کے خیال پر بھی حساب ہو گا، یہ سن کر اصحاب نے حضرت سے عرض کیا یہ حکم سخت مشکل ہے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرح انکار مت کرو بلکہ قبول رکھو اور اللہ سے مدد چاہو پھر لوگوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور قبول کیا اللہ کے ہاں یہ بات پسند ہوئی تب اگلی دو آیتیں اتریں ان میں حکم آیا کہ مقدور سے باہر چیز کی تکلیف نہیں اب جو کوئی دل میں خیال گناہ کا کرے اور عمل میں نہ لاوے اس کو گناہ نہیں لکھتے۔

۲۸۳۔ اور اگر تم سفر میں ہو، اور نہ پاؤ لکھنے والا، تو گرد ہاتھ میں رکھیں (با قبضہ پر معاملہ کرنا)۔ پھر اگر اعتبار کرے ایک دوسرے کا، تو چاہئیے پورا کرے جس پر اعتبار کیا اپنے اعتبار کو، اور ڈرتا رہے اللہ سے جو رب ہے اس کا، اور نہ چھپاؤ گواہی کو۔ اور جو کوئی وہ چھپائے تو گنہگار ہے دل اس کا۔ اور اللہ تمہارے کام سے واقف ہے۔

۲۸۴۔ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ اور اگر کھولو گے اپنے جی کی بات یا چھپاؤ گے، حساب لے گا تم سے اللہ۔ پھر بخشے گا جس کو چاہے اور عذاب کرے گا جس کو چاہے، اور اللہ سب چیز پر قادر ہے۔

۲۸۵۔ مانا رسول نے جو کچھ اترا اس کو اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے۔ سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور کتابوں کو اور رسولوں کو، ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے رسولوں میں، اور بولے ہم نے سنا اور قبول کیا، تیری بخشش چاہئیے، اے رب ہمارے! اور تجھی تک رجوع ہے۔

۲۸۶۔ اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی شخص کو مگر جو اس کی گنجائش ہے۔ اسی کو ملتا ہے جو کمایا، اور اسی پر پڑتا ہے جو کیا، اے رب ہمارے نہ پکڑ ہم کو اگر ہم بھولیں یا چوکیں، اے رب ہمارے اور نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری، جیسا رکھا تھا تو نے اگلوں پر، اے رب ہمارے اور نہ اٹھوا ہم سے جس کی طاقت نہیں ہم کو، اور درگذر کر ہم سے، اور بخشش ہم کو، اور رحم کر ہم پر، تو ہمارا صاحب ہے، مدد کر ہماری قوم کافروں پر۔ ف

۔۔۔

ف: یہ دعا اللہ نے پسند فرمائی تو قبول کے حکم بھی ہم پر بھاری نہیں رکھے اور دل کا خیال بھی نہیں پکڑا اور بھول چوک بھی معاف کی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل