FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تفسیر

احسن البیان

جلد چہارم (مریم تا لقمان)

               مولانا صلاح الدین یوسف

 

سورۃ مریم

ہجرت حبشہ کے واقعات میں بیان کیا گیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے مصاحبین اور امرا کے سامنے جب سورہ مریم کا ابتدائی حصہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ نے پڑھ کر سنایا تو ان سب کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور نجاشی نے کہا کہ یہ قرآن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو لے کر آئے ہیں، یہ سب ایک ہی مشعل کی کرنیں ہیں (فتح القدیر)۔

٢۔ حضرت زکریا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم)

٣۔ خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع و انابت اور خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہو چکے ہیں۔

٤۔ (۱)یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف و کبر (بڑھاپے ) کا اظہار ہے۔

٤۔ (۲)  اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔

٥۔ (۱)اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ و ارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز و انحراف نہ اختیار کر لیں۔

٥۔ (۲)  ” اپنے پاس سے ” کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہو چکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔

٧۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا

٨۔ عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیّاً کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یحیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)

٩۔ فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کر سکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔

١٠۔ راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہو گی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آ گئے ہیں۔

١١۔ (۱)مِحْرَاب سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْب سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔

١١۔ (۲)  صبح و شام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح و تمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔

١٢۔ (۱)یعنی اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اس اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔

١٢۔ (۲)  حُکْم سے مراد دانائی، عقل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم و عمل کی جامعیت یا نبوت سے مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔

١٣۔ حَنَاناً، شفقت، مہربانی، یعنی ہم نے اس کو والدین اور اقربا پر شفقت و مہربانی کرنے کا جذبہ اور اسے نفس کی آلائشوں اور گناہوں سے پاکیزگی و طہارت بھی عطا کی۔

١٤۔ یعنی اپنے ماں باپ کی یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں والدین کے لئے شفقت و محبت کا اور ان کی اطاعت و خدمت اور حسن سلوک کا جذبہ اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے اور اس کے برعکس جذبہ یا رویہ، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل خاص سے محرومی کا نتیجہ ہے۔

١٥۔ تین مواقع انسان کے لئے سخت و دہشت ناک ہو تے ہیں، ١۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، ٢۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے،٣۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر عید میلاد "کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر عید وفات یا عید ممات "بھی منانی ضروری ہوئی کیوں کہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ "سلام "سے عید میلاد "کا اثبات ممکن ہے تو پر اسی لفظ سے "عید وفات "کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن کہاں وفات کی عید تو کجا سرے سے وفات و ممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ (افتؤمنون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض) (البقرہ) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟

١٧۔ (۱)یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔

١٧۔ (۲)  رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ ایک شخص بے دھڑک اندر آ گیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قرأتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قرت میں ہے ) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتاً نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہو گی۔ (اَ رْسَلَنِیْ، یَقُولُ لَکَ اَرْسَلٰتُ رَسُوْلِیْ اِلَیْکِ الأھَبَ لَکِ) "یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا "اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔

٢١۔ (۱)یعنی یہ بات تو صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے، جائز طریقے سے نہ ناجائز طریقے سے۔ جب کہ حمل کے لئے عادتاً یہ ضروری ہے۔

٢١۔ (۲)  یعنی میں اسباب کا محتاج نہیں ہوں، میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرت تخلیق کے لئے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ آدم کو مرد اور عورت کے بغیر، اور تمہاری ماں حوا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے صرف عورت کے بطن سے، بغیر مرد کے پیدا کر دینا۔ ہم تخلیق کی چاروں صورتوں پر قادر ہیں۔

٢١۔ (۳) اس سے مراد نبوت ہے جو اللہ کی رحمت خاص ہے اور ان کے لئے بھی جو اس نبوت پر ایمان لائیں گے۔

٢١۔(٤) یہ اسی کلام کا ضمیمہ ہے جو جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی طرف سے نقل کیا ہے۔ یعنی یہ اعجازی تخلیق۔ تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت و مشیت میں مقدر ہے۔

٢٣۔ موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو گا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ و زاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔

٢٥۔ سَرِبّاَ چھوٹی نہر یا پانی کا چشمہ۔ یعنی بطور کرامت اور خلاف قانون قدرت، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئے تازہ کھجوروں کا انتظام کر دیا۔ آواز دینے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے، جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور کہا جاتا ہے کہ سَرِیّ بمعنی سردار ہے اور اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور انہی نے حضرت مریم کو نیچے سے آواز دی تھی۔

٢٦۔(۱) یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔

٢٦۔ (۲)  یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔

٢٨۔ ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کر دی، جیسے کہا جاتا ہے، تقویٰ و پاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح انہیں سمجھتے ہوئے، انہیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ابن کثیر)

٣٠۔ یعنی قضا و قدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا

٣١۔ اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہر چیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر)

٣٢۔ (۱)صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی، حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔

٣٢۔ (۲)  اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیوں کہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں۔

٣٤۔ یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صفت کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

٣٥۔ جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کر دینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت و طاقت کے منکر ہیں۔

٣٧۔ (۱) یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور یوسف نجار کے بیٹے ہیں نصاریٰ کے ایک فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثالثُ ثَلَاثلَۃِ(تین خداؤں میں سے تیسرے ) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط و غلو (الیسرا لتفاسیر، فتح القدیر)

٣٧۔ (۲)  ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔

٣٨۔ یہ تعجب کے صیغے ہیں یعنی دنیا میں تو یہ حق کے دیکھنے اور سننے سے اندھے اور بہرے رہے لیکن آخرت میں یہ کیا خوب دیکھنے اور سننے والے ہوں گے ؟ لیکن وہاں یہ دیکھنا سننا کس کام کا؟

٣٩۔(۱) روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں ؟

٣٩۔ (۲)  یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے ؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ اہل جنت! تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو! تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحیح بخاری)

٤١۔ صدیق صدق (سچائی) سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول و عمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلیٰ ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ و طہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔

٤٣۔ (۱)جس سے مجھے اللہ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل ہوا، بعث بعد الموت اور غیر اللہ کے پجاریوں کے لئے دائمی عذاب کا علم ہوا۔

٤٣۔ (۲)  جو آپ کی سعادت کو ابدی اور نجات سے ہمکنار کر دے گی۔

٤٤۔ یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔

٤٥۔ اگر آپ اپنے شرک و کفر پر باقی رہے اور اسی حال میں آپ کو موت آ گئی، تو عذاب الٰہی سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یا دنیا میں ہی آپ عذاب کا شکار نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر ہمیشہ کے لئے راندہ بارگاہ الٰہی ہو جائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے ادب و احترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے، نہایت شفقت اور پیار کے لہجے میں باپ کو توحید کا وعظ سنایا، لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے، مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے کو کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔

٤٦۔ دراز مدت، ایک عرصہ۔ دوسرے معنی اس کے صحیح و سالم کے کئے گئے ہیں۔ یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ تڑوا لینا۔

٤٧۔ یہ سلام دعایہ نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے بلکہ ترک مخاطب کا اظہار ہے جیسے (وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰماً) (الفرقان۔٦٣) "جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے ” اس میں اہل ایمان اور بندگان الٰہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔

٤٧۔ (۲)  یہ اس وقت کہا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشرک کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی ممانعت کا علم نہیں تھا، جب یہ علم ہوا تو آپ نے دعا کا سلسلہ موقوف کر دیا (التوبہ۔١١٤)

٤٩۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انہیں اسحاق و  یعقوب علیہما السلام سے نوازا تاکہ ان کی انس و محبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔

٥٠۔(۱)یعنی نبوت کے علاوہ بھی اور بہت سی رحمتیں ہم نے انہیں عطا کیں، مثلاً مال مزید اولاد اور پھر اسی سلسلہ نسب میں عرصہ دراز تک نبوت کے سلسلے کو جاری رکھنا یہ سب سے بڑی رحمت تھی جو ان پر ہوئی اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیا کہلاتے ہیں۔

٥٠۔ (۲)  لسان صدق سے مراد ثنائے حسن اور ذکر جمیل ہے لسان کی اضافت صدق کی طرف کی اور پھر اس کا وصف علو بیان کیا جس سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ بندوں کی زبانوں پر جو ان کا ذکر جمیل رہتا ہے، تو وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ تمام دیگر مذاہب کو ماننے والے بلکہ مشرکین بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ میں اور نہایت ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ یہ نبوت و اولاد کے بعد ایک اور انعام ہے جو ہجرت فی سبیل اللہ کی وجہ سے انہیں حاصل ہوا۔

٥١۔(۱)مخلص، مصطفیٰ، مجتبیٰ اور مختار،چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے یعنی رسالت و پیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الٰہی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ مقابلہ کرنے والے بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت ٥٢ میں۔

٥٧۔ حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح علیہ السلام کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، بلندی مکان سے مراد؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ اِلَی السَّمَآءِ سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح انہیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انہیں عطا کی گئی۔ واللہ اعلم

٥٨۔ گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہو جانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہو جانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنون دعا یہ ہے (وَ سَجَدَ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہَ بِحَوْلِہِ وَ قُوَّتِہِ) (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحوالہ مشکوٰۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔

٥٩۔ انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت و اعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہو سکتا ہے۔غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

٦٠۔ یعنی جو توبہ کر کے ترک صلوٰۃ اور جنسی خواہش کی پیروی سے باز آ جائیں اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کر لیں تو ایسے لوگ مذکورہ انجام بد سے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے۔

٦١۔ یعنی یہ ان کے ایمان و یقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان و تقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔

٦٢۔ (۱)یعنی فرشتے بھی انہیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔

٦٢۔ (۲)  امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہوں گے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشنی ہی روشنی ہو گی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور بول و بزاز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہو گی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہو گا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہو گا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحیح بخاری)

٦٤۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ مریم)

٦٥۔ یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں

٦٦۔ (۱)انسان سے مراد یہاں کافر با حیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔

٦٦۔ (۲)  استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کر دیا جائے گا؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔

٦٧۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کر دیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہو گا؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔

٦٨۔١جثیی، جاث کی جمع ہے جثا یجثو سے۔جَاثٍ گھٹنوں کے بل گرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ حال ہے یعنی ہم دوبارہ انہیں کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کر دیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کر دیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے، میرے لئے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ) اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے، حالاں کہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ خود جنا گیا ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے (صحیح بخاری۔ تفسیر سورہ اخلاص)

٦٩۔ مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کر لیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیوں کہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا و عقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٧٠۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے کون زیادہ مستحق ہیں، ہم ان کو خوب جانتے ہیں

٧٢۔ اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں ہر مومن و کافر کو گزرنا ہو گا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں  کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کر لیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ” جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے (البخاری) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں حَتْماً مَّقْضِیّاً (قطعی طے شدہ امر) یعنی اس کا در جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہو گا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و ایسر التفاسیر)

٧٣۔ یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقرا مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب رضی اللہ عنہم جیسے فقیر لوگ ہیں، ان کا دار الشوریٰ دار ارقم ہے۔ جب کہ کافروں میں ابوجہل، نفر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ بہت عمدہ ہے۔

٧٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر فخر اور ناز کیا جائے، یا ان کو دیکھ کر حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا گیا، دنیا کا یہ مال و اسباب انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکا۔

٧٥۔ علاوہ ازیں یہ چیزیں گمراہوں اور کافروں کو مہلت کے طور پر بھی ملتی ہیں، اس لئے یہ کوئی معیار نہیں۔ اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی اور اللہ کا عذاب انہیں آ گھیرے گا یا قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم، کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔

٧٦۔(۱) اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک و ضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی و ضلالت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان و ہدایت میں اور پختہ ہو جاتے ہیں۔

٧٦۔ (۲)  اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار و مشرکین جن مال و اسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر و ثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔

٨٠۔ ان آیات کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ کے والد عاص بن وائل، جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا۔ اس کے ذمے حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب رضی اللہ نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا یہ کام تو، تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے تب بھی نہیں کروں گا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا تو میں وہاں رقم ادا کر دوں گا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہو گی؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف تعلی اور آیات الٰہی کا استہزا و تمسخر ہے یہ جس مال و اولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کا تعلق ختم ہو جائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہو گا نہ اولاد اور نہ کوئی جتھہ۔ البتہ عذاب ہو گا جو اس کے لیے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ہم بڑھاتے رہیں گے۔

٨٢۔ عِزّاً کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدّاً کے معنی ہیں، دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہوں گے۔

٨٣۔ یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں

٨٤۔ اور جب وہ مہلت ختم ہو جائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائے گا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے

٨٦۔١وفد وافد کی جمع ہے جیسے رکب راکب کی جمع ہے۔ مطلب یہ کہ انہیں اونٹوں، گھوڑوں پر سوار کرا کے نہایت عزت و احترام سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ وزدا کے معنی پیاسے۔ اس کے برعکس مجرمین کو بھوکا پیاسا جہنم میں ہانک دیا جائے گا۔

٨٧۔ قول و قرار (عہد) کا مطلب ایمان و تقویٰ ہے۔ یعنی اہل ایمان و تقویٰ میں سے جن کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، وہی شفاعت کریں گے، ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔

٩١۔ ادا کے معنی بہت بھیانک معاملہ اور داھیۃ (بھاری چیز اور مصبیت) کے ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے آسمان و زمین پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔

٩٣۔ جب سب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ اور یہ اس کے لائق بھی نہیں ہے

٩٤۔ یعنی آدم سے لے کر صبح قیامت تک جتنے بھی انسان، جن ہیں، سب کو اس نے گن رکھا ہے، سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں، کوئی اس سے چھپا ہے اور نہ چھپا رہ سکتا ہے۔

٩٥۔ یعنی کوئی کسی کا مددگار نہیں ہو گا، نہ مال ہی وہاں کچھ کام آئے گا (یوم لا ینفع مال ولا بنون)”الشعراء”اس دن نہ مال نفع دے گا، نہ بیٹے، ہر شخص کو تنہا اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا اور جن کی بابت انسان دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے وہاں حمایتی اور مددگار ہوں گے، وہاں سب غائب ہو جائیں گے۔ کوئی کسی کی مدد کے لئے حاضر نہیں ہو گا۔

٩٦۔ یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ” جب اللہ تعالیٰ کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے ” (صحیح بخاری)۔

٩٧۔ (۱)قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا۔

٩٧۔ (۲)  لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار و مشرکین ہیں۔

٩٨۔ احساس کے معنی ہیں، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انہیں دیکھ یا چھو سکے یا دیکھ سکے یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔

٭٭٭

 

 

سورۃ طٰہٰ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعدد اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ بیض تاریخ و سیر کی روایات میں اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں سورہ طہ کا سننا اور اس سے متاثر ہونا بھی مذکور ہے۔ (فتح القدیر)

٢۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ (فَلَعَلَّکَ بَاخِع نِّفْسَکَ عَلیٰ اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یَؤمِنُوْا بِھٰذَاالْحَدِیْثِ اَسَقاً) (الکہف) پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں شقآء عنآء اور تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔

٥۔ بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے ؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔

٦۔ ثَرَیٰ کے معنی ہیں السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ

٧۔ یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔

٨۔ یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنیٰ ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اُسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔

١٠۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی دختر نیک اختر تھیں ) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انہیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انہیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہو جائے۔

١١۔ موسیٰ علیہ السلام جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورہ قصص۔٣٠ میں صراحت ہے ) آواز آئی۔

١٢۔ (۱)جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ اور وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ علیہ السلام کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔

١٢۔ (۲)  طُوَی وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر)

١٣۔ یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔

١٤۔ (۱)یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔

١٤۔ (۲)  عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالاں کہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِکْرِیْ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اس لئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے ” (صحیح بخاری)

١٦۔ اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں

٢١۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے

٢٢۔ بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا (فذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِ لیٰ فِرْعَوْ نَ وَ مَلَاْئِہٖ) قَالَ اَلَمْ ١٦ طٰہٰ ٢٠(القصص۔ ٣٢) ” پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے "

٢٤۔ فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی و طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتیٰ کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلیٰ) ” میں تمہارا بلند تر رب ہوں "

٣٢۔ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہو گئی (ا بن کثیر) جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت و جباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے ) بطور معین اور مددگار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے وزیر موازر کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اس کا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون علیہ السلام میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔

٣٤۔ یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کر سکیں۔

٣٥۔ یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔

٣٦۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہو گا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔ باقی رہا فرعون کا یہ کہنا (وَّلَایَکَادُ یُبِیْنُ) ” یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا ” یہ ان کی تحقیق گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔

٣٧۔ قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالیٰ بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کر دیا تھا

٣٩۔ (۱)مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہوا جب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔

٣٩۔ (۲)  یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔

٣٩۔ (۳) چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بے شمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ علیہ السلام سے وصول کر رہی ہے۔

٤٠۔ (۱)یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے ؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیر خوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ علیہ السلام کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ علیہ السلام کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔

٤٠۔ (۲)  یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ علیہ السلام سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا

٤۰۔ (۳) فتون دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابتلیناک ابتلاء یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حجرۃ کی حجور اور بدرۃ کی بدور کی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلاً جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہو گیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔

 ٤٠۔(٤) یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔

٤٠۔(۵) یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔

٤٢۔ اس میں اللہ سے دعا کے لئے بڑا سبق ہے کہ انہیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے

٤٤۔ یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔

٤٦۔ تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

٤٧۔ یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، و اَسْلِمْ، تَسْلَمْ، (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے (وَالسَّلٰمُ عَلیٰ مَنِ اتَبَعَ الْھُدیٰ) بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔

٥٠۔ مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ” راہ سجھائی ” کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔

٥١۔ فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہو گا؟

٥٢۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہر چیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہو سکتی ہے۔ جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرے، علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔

٥٤۔ (۱)یعنی بے شمار اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔

٥٤۔ (۲)  اُولُو النُّھَیٰ عقل والے۔ عقل کو نُھْبَۃ اور عقلمند کو ذُوْ نُھْیَۃٍ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں (فتح القدیر)

٥٥۔ بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے ) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ ١٥٢۔

٥٧۔ جب فرعون کو دلائل واضح کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے ؟

٥٨۔ (۱)موعد مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہو سکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کر لے۔

٥٨۔ (۲)  مکان سوی۔صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔

٥٩۔ اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔

٦٠۔ یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آ گیا۔

٦١۔ جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی مقابلے سے پہلے انہیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انہیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔

٦٢۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔

٦٣۔١مثلیٰ، طریقۃ کی صفت ہے یہ امثل کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے ” جادو ” کے زور سے غالب آ گئے، تو سادات و اشراف اس کی طرف مائل ہو جائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے "بہترین”قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے (کل حزب بما لدیھم فرحون) ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریچھ رہا ہے۔۔

٦٦۔ (۱)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرے، ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں ہوا ہو جائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔

٦٦۔ (۲)  قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کر دی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہو جاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کر سکتا۔

٦٨۔ اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے، بہرحال موسیٰ علیہ السلام کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلام) کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٧١۔ مِنْ خِلَافِ (الٹے سیدھے ) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں

٧٢۔(۱)یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب والذی فطرنا کا عطف ما جاءنا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔

۷۲۔ (۲)  یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کر لے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا و آخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم و ستم سے تو بچ جائیں گے کیوں کہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہو جائے گا لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ و ایمان پر جو تکلیفیں آئیں انہیں جس حوصلہ و صبر اور عزم و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ و منصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب و تحریض انہیں متزلزل کر سکی نہ تشدید و تعذیب کی دھمکیاں انہیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

٧٣۔ (۱)دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ” ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں۔ ” اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہو گا۔

٧٣۔ (۲)  یہ فرعون کے الفاظ، (وَ لَتَعْلَمُنِّ اَیُّنَا اَشَدُّ عَذَاباً وَّ اَبْقیٰ) کا جواب ہے کہ اے فرعون! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں اجر و ثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔

٧٤۔ یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہو گی؟

٧٦۔ جہنمیوں کے مقابلے میں اہل ایمان کو جو جنت کی پر آسائش زندگی ملے گی، اس کا ذکر فرمایا اور واضح کر دیا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ یعنی اعمال صالح اختیار اور اپنے نفس کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں گے۔ اس لئے کہ ایمان زبان سے صرف چند کلمات ادا کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔

٧٧۔(۱) جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دیا۔

٧٧۔ (۲)  اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔

٧٧۔ (۳)  خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔

٧٨۔ یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہو جا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہو گیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہو گیا۔ غشیھم، کے معنی ہیں علاھم وأصابھم سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔ ماغشیھم یہ تکرار تعثیم و تہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں جو کہ مشہور و معروف ہے۔۔

٧٩۔ اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا۔

٨٠۔ (۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ علیہ السلام کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔

٨٠۔ (۲)  من و سلویٰ کے نزول کا واقعہ، سورہ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ من کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انہیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر)

٨١۔ (۱)یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے اور بعض نے کہا کہ طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت و حاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔

٨١۔ (۲)  دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔ ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہو گیا۔

٨٢۔ یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتیٰ کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کر لیا، حتیٰ کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہو گا۔

٨٤۔ سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔

٨٥۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ علیہ السلام کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف با حیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ اضلھم السامری سے واضح ہے۔

٨٦۔ (۱)اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔

٨٦۔ (٢) کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔

٨٦۔ (۳) قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔

٨٧۔ یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہو گئی، آگے اس کی وجہ بیان کی

٨٨۔۱زینۃ سے زیورات اور القوم سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتاً لئے تھے، اسی لئے انہیں بوجھ کہا گیا کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام تو گمراہ ہو گئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا معبود تو یہ ہے۔

٨٩۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت و  نادانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت بر آوری پر قادر ہو۔

٩٠۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی

٩١۔ اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون علیہ السلام کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

٩٣۔ یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔

٩٤۔ (۱)حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، خوش آمد کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر پکڑ کر انہیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔

٩٤۔ (۲)  سورہ اعراف میں حضرت ہارون علیہ السلام کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئی (آیت۔ ۱٤۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہو جائے کیونکہ ہارون علیہ السلام کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بے خبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون علیہ السلام کو انہوں نے سخت سست کہا لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں ) کہ مسلمانوں کے اتحاد و ارفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کر لینا چاہیے کیوں کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔

٩٦۔ مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہو گئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔

٩٧۔(۱) یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہو گی۔

٩٧۔ (۲)  یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہر صورت بھگتنا پڑے گا۔

۹۷۔ (۳)  اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام و نشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس اثرالرسول کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔

٩٩۔ (۱)یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔

٩٩۔ (۲)  نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔

١٠٠۔ (۱)یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔

١٠٠۔ (۲)  یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہو گا۔

١٠١۔ جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا

١٠٢۔ صور سے مراد وہ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی، حضرت اسرافیل علیہ السلام کے پہلے پھونکنے سے سب پر موت طاری ہو جائے گی، اور دوسرے پھونکنے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا پھونکنا مراد ہے۔

١٠٣۔ شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔

١٠٤۔ یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انہیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہو گی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السِّاعَۃُ یَقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَالَبِثوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ) (الروم۔٥٥) جس دن قیامت برپا ہو گی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ فاطر، ۳۷ سورۃ المؤمنون۔،۱۱۲۔۱۱٤ سورۃ النازعات وغیرہ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو پاقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔

١٠٨۔ (۱)یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہو جائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہو جائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئے گی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ بلائے گا، جائیں گے۔

١٠٨۔ (۲)  یعنی اس بلانے والے سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔

١٠٨۔ ٣ یعنی مکمل سناٹا ہو گا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔

١٠٩۔ یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہوں گے ؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورہ نجم،۲ ٦، سورہ انبیاء، ۲۸۔ سورہ سباء،۲۳۔ سورہ النباء ۳۸۔ اور آیت الکرسی۔

۱۱۰۔ گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کر دی گئی ہے کہ چوں کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے ؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے ؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء و صلحا کی سفارش کے مستحق ہیں ؟ کیوں کہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت و کیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔

١١١۔ اس لئے کہ اس روز اللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتیٰ کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہو گا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا”لتؤدن الحقوق الی اھلھا ” ” ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ” ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا۔ دوسری حدیث میں فرمایا (اِیَّاکُمْ و الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُلْمَ ظُلُمَات،ُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا، سب سے نامراد وہ شخص ہو گا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہو گا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔

١١٢۔ بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہوں گی۔

١١٣۔ (۱)یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔

١١٣۔ (۲)  یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔

١١٤۔ (۱)جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔

١١٤۔ (۲)  جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ ق میں آئے گا۔

١١٤۔ (۳) یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتویٰ میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت و حرفت ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط و تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْماً، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ کُلِّ حَال) (ابن ماجہ)

١٥۔ نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استغفار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا) حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم علیہ السلام اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہو گئے۔

١١٧۔یہ شقا، محنت و مشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں صرف آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑ جائے گا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالاں کہ درخت کا پھل کھانے والے آدم علیہ السلام و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ "اعزاز الٰہی "”طوق غلامی "نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بے قرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔

١٢١۔ یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے

١٢٢۔ اس سے بعض لوگ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس ” معصیت ” کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا وعظ و نصیحت، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کر دیا، جو پہلے انہیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔

١٢٤۔ (۱)اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق و اضطراب، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔

١٢٤۔ (۲)  اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔

١٢٩۔ یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اس کے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا! انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔

١٣٠۔ (۱)بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، غروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بد دل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔

١٣٠۔ (۲)  یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہو جائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہو جائے۔

١٣١۔ (۱)یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ عمران ١٩٦۔١٩٧، سورہ حجر، ٨٧۔٨٨ اور سورہ کہف،٧ وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔

١٣١۔ (۲)  اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال و اسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ ” یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہو گا (مسلم بخاری)

١٣٢۔ اس خطاب میں ساری امت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔

١٣٣۔ (۱)یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔

١٣٣۔ (۲)  ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

١٣٤۔ مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

١٣٥۔(۱) یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔

١٣٥۔ (۲)  اس کا علم تمہیں اس سے ہو جائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے ؟ چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہو گیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔

٭٭٭

 

سورۃ الانبیاء

١۔ (۱) وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔

١۔ (۲)  یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔

٢۔ یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔

٣۔ یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔

٤۔ وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔

٥۔ (۱) ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔

٥۔ (۲)  یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ علیہ السلام کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔

 ٦۔ یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب و عناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔

٧۔ (۱) یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔

٧۔ (۲)  اَ ھْلَ الذِّکْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو ہو گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔

٨۔ بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔

 ٩۔ یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کر دیا۔

١١۔ قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ” قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں (سورہ بنی اسرائیل)

١٢۔ احساس کے معنی ہیں، حواس کے ذریعے سے ادراک کر لینا۔ یعنی جب انہوں نے عذاب یا اس کے آثار کو آتے دیکھا یا کڑک گرج کی آواز سن کر معلوم کر لیا، تو اس سے بچنے کے لئے راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ رکض کے معنی ہوتے ہیں آدمی گھوڑے وغیرہ پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے کے لیے ایڑ لگائے یہیں سے یہ بھاگنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

١٣۔ (۱) یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔

١٣۔ (۲)  یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔

١٣۔ (۳) اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی؟ یہ سوال بطور خیال اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے ؟

١٥۔ (۱) یعنی جب تک زندگی کے آثار ان کے اندر رہے، وہ اعتراف ظلم کرتے رہے۔

١٥۔ (۲)  حَصِیْد کٹی ہوئی کھیتی کو اور خُمُوْد آگ کے بج جانے کو کہتے ہیں۔ یعنی بالآخر وہ کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر ہو گئے، کوئی تاب و توانائی اور حس و حرکت ان کے اندر نہ رہی۔

١٦۔ بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر و شکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔

١٧۔ (۱)  یعنی اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں کھیل کے لئے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کر لیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی اور پھر میں ذی روح اور ذی شعور مخلوق بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

١٧۔ (۲)  ” اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے ” عربی اسلوب کے اعتبار سے یہ زیادہ ہے بہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ” ہم کرنے والے ہی نہیں ” صحیح ہے (فتح القدیر)

١٨۔(۱)  یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہو جاتا ہے۔

١٨۔ (۲)  یعنی رب کی طرف سے تم جو بے سرو پا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔

١٩۔ (۱) سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے ؟

١٩۔ (۲)  اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف و اکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔

٢١۔ استفہام انکاری ہے یعنی نہیں کر سکتے۔ پھر وہ ان کو جو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتے، اللہ کا شریک کیوں ٹھہراتے اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟

٢٢۔ یعنی اگر واقع آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، دو کا ارادہ و شعور اور مرضی کار فرما ہوتی اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظمِ کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے، بغیر کسی ادنیٰ توقف کے قائم چلا آ رہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کے مخالف سمت میں استعمال ہوتے۔ جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ و مشیت کار فرما ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے اس کے دئیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔

٢٤۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

٢٥۔ یعنی تمام پیغمبر بھی یہی توحید کا پیغام لے کر آئے۔

٢٧۔ اس میں مشرکین کا کہنا ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرما بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف و بڑھاپا، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

٢٨۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء صالحین کے علاوہ فرشتے بھی سفارش کریں گے۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، لیکن یہ سفارش انہی کے حق میں ہو گی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سفارش اپنے نافرمان بندوں کے لئے نہیں، صرف گناہ گار مگر فرماں بردار بندوں یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے پسند فرمائے گا۔

٢٩۔ یعنی ان فرشتوں میں سے بھی اگر کوئی اللہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہم اسے بھی جہنم میں پھینک دیں گے۔ یہ شرطیہ کلام ہے، جس کا وقوع ضروری نہیں۔ مقصد، شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔ جیسے (قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَ لَد فَانَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ) ” اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں سے ہوں گا ” (لَئِنْ اَشْرَکْت لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ) (الزمر،٦٥) ” اے پیغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے عمل برباد ہو جائیں گے ” یہ سب مشروط ہیں جن کا وقوع غیر ضروری ہے۔

٣٠۔ (۱) یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کر دیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہو گئی۔

٣٠۔ (۲)  اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔

٣١۔ یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کر دیا۔

٣١۔ (۲)  اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہو گیا، دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح و مفادات حاصل کر سکیں۔

٣٢۔ زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ و بالا ہو سکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا (وَ حَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنِ الرَّجِیْمٍ) (الحجر۔١٧)

٣٣۔ (۱) یعنی رات کو آرام اور دن کو معاش کے لئے بنایا، سورج کو دن کی نشانی چاند کو رات کی نشانی بنایا، تاکہ مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جا سکے، جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے۔

٣٣۔ (۲)  جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر تیرتے یعنی رواں دواں رہتے ہیں۔

٣٤۔ یہ کفار کے جواب میں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی مستثنیٰ نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہو گئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء و اولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں فنعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ التی تعارض القرآن۔

٣٥۔ (۱) یعنی کبھی مصائب و رنج و غم سے دو چار کر کے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرہ ور کر کے۔ کبھی صحت و فراخی کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دیکر اور کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا کر کے ہم آزماتے ہیں۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتا ہے اور ناشکری کون؟ صبر کون کرتا ہے اور نا صبری کون؟ شکر اور صبر، یہ رضائے الٰہی کا اور کفران نعمت اور نا صبری غضب الٰہی کا موجب ہے۔

٣٥۔ (۲)  وہاں تمہارے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ اول الذکر لوگوں کے لئے بھلائی اور دوسروں کے لئے برائی۔

٣٦۔  اس کے باوجود یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہنسی و مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَاِ ذ رَ اَوْ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا حُذُ وً اا ھٰذَا لَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلاً) جب اے پیغمبر! یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟

٣٧۔ یہ کفار کے متعلق عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہو سکتا ہے اور صداقت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دلائل و براہین بھی۔

٣٩۔ اس کا جواب علیحدہ ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقیناً جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔

٤٠۔ (۱) یعنی انہیں کچھ سجھائی نہ نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں ؟

٤٠۔ (۲)  کہ وہ توبہ و اعتذار کا اہتمام کر لیں۔

٤١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین کے مذاق اور جھٹلانے سے بد دل نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تجھ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا، بالآخر وہی عذاب ان پر الٹ پڑا، یعنی اس نے انہیں گھیر لیا، جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس کا وقوع ان کے نزدیک ابھی مستبعد تھا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ولقد کذبت رسل من قبلک فصبرواعلی ماکذبوا واوذوا حتی اتھم نصرنا (انعام) تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے پس انہوں نے تکذیب پر اور ان تکلیفوں پر جو انہیں دی گئیں صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تسلی کے ساتھ کفار و مشرکین کے لیے اس میں تہدید و وعید بھی ہے۔

٤٢۔ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آ سکتا ہے ؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کر سکے ؟

٤٣۔ اس معنی ہیں ” وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا ” نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟

٤٤۔ (۱) یعنی ان کی یا ان کے آبا و اجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں ؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہو گا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی زمین کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔

٤٤۔ (۳) یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔

٤٥۔ یعنی قرآن سنا کر انہیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کر دیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

٤٦۔ یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔

٤٧۔ ‏موازین، میزان (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہوں گے یا ترازو تو ایک ہی ہو گی انسان کے اعمال تو بے وزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہو گا؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنا دیا ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بے وزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہو گیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو بے وزن کو دکھلانے کے لئے ان بے وزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے ؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند احمد ٥۔ (۲) ٨٧)۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف ۷ کا حاشیہ القسط مصدر اور الموازین کی صفت ہے معنی ہیں ذوات قسط انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں

٤٨۔ یہ تورات کی صفات بیان کی گئی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ اس میں بھی متقین کے لئے ہی نصیحت تھی۔ جیسے قرآن کریم کو بھی (ھُدَی لِّلْمُتَّقِیْنَ) کہا گیا، کیونکہ جن کے دلوں میں اللہ کا تقویٰ نہیں ہوتا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، تو آسمانی کتاب ان کیلئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ کس طرح بنے، نصیحت یا ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس میں غور و فکر کیا جائے۔

٤٩۔ یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورہ بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔

٥٠۔ یہ قرآن، جو یاد دہانی حاصل کرنے والے کے لئے ذکر اور نصیحت اور خیر و برکت کا حامل ہے، اسے بھی ہم نے ہی اتارا ہے۔ تم اس کے مُنَزَّل مِّنَ اللّٰہِ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو، جب کہ تمہیں اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے ہی نازل کردہ کتاب ہے۔

٥١۔ (۱) مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ علیہ السلام کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کر دی تھی۔

٥١۔ (۲)  یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔

٥٢۔ تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہو بہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم علیہ السلام نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عاکف۔ عکوف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں (مورتیاں اور تصویریں ) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ عطا فرمائے۔جس طرح آج بھی جہالت و خرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات و رسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آباء و اجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب و سنت سے اعراض کر کے علماء و مشائخ کے آراء و افکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔

٥٥۔ یہ اس لئے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل توحید کی آواز ہی نہیں سنی تھی انہوں نے سوچا، پتہ نہیں، ابراہیم علیہ السلام ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔

٥٦۔ یعنی میں مذاق نہیں کر رہا، بلکہ ایک ایسی چیز پیش کر رہا ہوں جس کا علم و یقین (مشاہدہ) مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمہارا معبود مورتیاں نہیں، بلکہ وہ رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔

٥٧۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔

٥٨۔ چنانچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم علیہ السلام نے موقع غنیمت جان کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔

٥٩۔ یعنی جب وہ جشن سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا کہ معبود تو ٹوٹے پڑے ہیں، تو کہنے لگے، یہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔

٦٠۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے یہ اس کی کارستانی ہے۔

٦١۔ یعنی اس کو سزا ملتی ہوئی دیکھیں تاکہ آئندہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔ یا یہ معنی ہیں کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بت توڑتے ہوئے دیکھا یا ان کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔

٦٣۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کر دیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقیناً حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآنحالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہو سکتا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہو سکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات و اظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جا کر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے در آں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت و جلا کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہو گی۔

٦٤۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔

٦٥۔ پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔

٦٧۔ یعنی جب وہ خود ان کی بے بسی کے اعتراف پر مجبور ہو گئے تو پھر ان کی بے عقلی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے بسوں کی تم عبادت کرتے ہو؟

٦٨۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یوں اپنی حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت و حماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لاجواب ہو گئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بے نور کر دیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آ جاتے، الٹا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی، چنانچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے کہ منجیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں ) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ، ٹھنڈی کے ساتھ ” سلامتی ” نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم علیہ السلام کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔

٧١۔ اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔

٧٢۔ نَافِلَۃ، زائد کو کہتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو صرف بیٹے کے لئے دعا کی تھی، ہم نے بغیر دعا مزید پوتا بھی عطا کر دیا۔

٧٥۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زاد (بھتیجے ) تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے شام جانے والوں میں سے تھے۔ اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا۔ یہ جس علاقے میں نبی بنا کر بھیجے گئے، اسے عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے بحیرہ مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا۔ جس کا بڑا حصہ اب بحیرہ مردار کا جزو ہے۔ ان کی قوم لواطت جیسے فعل شفیع، گزر گاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازے کسنا اور انہیں تنگ کرنا روڑے ریزے پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی، جسے اللہ نے یہاں خبائث (پلید کاموں ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ بالآخر حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی رحمت میں داخل کر کے یعنی انہیں اور ان کے پیرو کار کو بچا کر قوم کو تباہ کر دیا گیا۔

٧٩۔ (۱) مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگ گئیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کر دی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کر کے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آ جائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کر دی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہو سکتے، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہو گا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہو گا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر)۔

٧٩۔ (۲)  اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا)

٧٩۔ (۳) یعنی پرندے بھی داؤد علیہ السلام کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے، مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے گئے تھے (فتح القدیر)

٧٩۔ (۳) یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

٨٠۔ یعنی لوہے کو ہم نے داؤد علیہ السلام کے لئے نرم کر دیا تھا، وہ اس سے جنگی لباس، لوہے کی زریں تیار کرتے تھے، جو جنگ میں تمہاری حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے بھی زریں بنتی تھیں۔ لیکن وہ سادہ بغیر کنڈوں اور بغیر حلقوں کے ہوتی تھیں، حضرت داؤد علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے کنڈے دار حلقے والی زریں بنائیں (ابن کثیر)

٨١۔ یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کر کے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر لے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔

٨٢۔(۱)  جنات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوطے لگاتے اور موتی اور جواہر نکال لاتے، اسی طرح دیگر عمارتی کام، جو آپ چاہتے کرتے تھے۔

٨٢۔ (۲)  یعنی جنوں کے اندر جو سرکشی اور فساد کا مادہ ہے، اس سے ہم نے سلیمان علیہ السلام کی حفاظت کی اور وہ ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے تھے۔

٨٤۔ قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے، (سورہ ص۔ ٤٤) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتیٰ کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ ٨ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ملتی ہے، جس کا اظہار حضرت ایوب علیہ السلام نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ” ہم نے قبول کر لی "کے الفاظ استعمال فرمائے۔

٨٥۔ ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں ؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔

٨٧۔ (۱) مچھلی والے سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا، اس کی کچھ تفصیل سورۃ یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورہ صافات میں آئے گی۔

٨٧۔ (۲)  ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس علیہ السلام متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔

٨٨۔ ہم نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایا (جامع ترندی نمبر ٣٥٠٥ و صحیحہ الالبانی)

٩٠۔ (۱) حضرت زکریا علیہ السلام کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورہ آل عمران اور سورہ طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

٩٠۔ (۲)  یعنی وہ بانجھ اور ناقابل اولاد تھی، ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطا فرمایا۔

٩٠۔ (۳) گویا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الحاح و زاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا و مناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، خوف و طمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع خضوع کا اظہار۔

٩١۔ یہ حضرت مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔

٩٢۔ امۃ سے مراد یہاں دین یا ملت یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین ہے دین توحید، جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور ملت، ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” ہم انبیاء کی جماعت اولاد علات ہیں، (جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں ) ہمارا دین ایک ہی ہے ” (ابن کثیر)

٩٣۔ یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہو گیا اور انبیاء و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے، کوئی یہودی ہو گیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور اور بد قسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان سب کا فیصلہ، جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گی۔ تو وہیں ہو گا۔

٩٥۔ جیسا کہ ترجمے میں واضح ہے۔ یا پھر لَا یَرْجِعُوْنَ میں لَا زائد ہے، یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا، اس کا دنیا میں پلٹ کر آنا حرام ہے۔

٩٦۔ یاجوج ماجوج کی ضروری تفصیل سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہو گا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آ جائیں گے حتیٰ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اہل ایمان کو ساتھ کوہ طور پر پناہ گزیں ہو جائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے یہ ہلاک ہو جائیں گے اور ان کی لاشوں کی سڑاند اور بدبو ہر طرف پھیلی ہو گی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائے گی۔ (یہ ساری تفصیلات صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ہو)

٩٧۔ یعنی یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ، جو برحق ہے، بالکل قریب آ جائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہو جائے گی شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

٩٨۔ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزیٰ و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جا رہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔

٩٩۔ یعنی اگر یہ واقع معبود ہوتے تو با اختیار ہوتے اور تمہیں جہنم جانے سے روک لیتے۔ لیکن وہ تو خود جہنم میں بطور عبرت کے جا رہے ہیں۔ تمہیں جانے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ لہذا عابد و معبود دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

١٠٠۔ یعنی سارے کے سارے شدت غم و الم سے چیخ اور چلا رہے ہوں گے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔

١٠١۔ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جا سکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ و عزیز علیہ السلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کر دیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے

١٠٣۔ بڑی گھبراہٹ سے موت یا صور اسرافیل مراد ہے یا وہ لمحہ جب دوزخ اور جنت کے درمیان موت کو ذبح کر دیا جائے گا۔ دوسری بات یعنی صور اسرافیل اور قیام قیامت سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

١٠٤۔ یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ” ” سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔

١٠٥۔ زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پند و نصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہو گا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور اذا فات الشرط فات المشروط کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہو گئے تو اقتدار سے بھی محروم کر دئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود و ضابطوں پر کاربند رہنا۔

١٠٦۔ فی ‌ھذا سے مراد وہ وعظ و تنبیہ ہے جو اس سورت میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے بلاغ سے مراد کفایت و منفعت ہے یعنی وہ کافی اور مفید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بڑا فائدہ اور کفالت ہے عابدین سے، خشوع خضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والے، اور شیطان اور خواہشات نفس پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دینے والے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتاً دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو گا اور اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے ) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت کا ایک حصہ تھا انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (صحیح مسلم) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب و شتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند احمد ) اسی لیے ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انما رحمۃ مھداۃ (صحیح الجامع الصغیر) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔

١٠٨۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔

١٠٩۔ (۱) یعنی جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید و اسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے۔

١٠٩۔ (۲)  اس وعدے سے مراد قیامت ہے یا غلبہ اسلام و مسلمین کا وعدہ یا وہ وعدہ جب اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے گی۔

١١٢۔ (۱) یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔

١١٢۔ (۲)  یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔

٭٭٭

 

سورۃ  الحج

٢۔ آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہو گا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائے گی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہو گا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں ۹۹۹ جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے صرف عذاب کی شدت ہو گی یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہو گئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں ) یہ ۹۹۹ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہو گا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہو گی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورہ حج) پہلی رائے بھی بے وزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے ) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہو گی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہو سکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہو گی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔

٣۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔

٤۔ یعنی شیطان کی بابت تقدیر الٰہی میں یہ بات ثبت ہے۔

٥۔ (۱) یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃٍ گاڑھا خون اور عَلَقَۃٍ سے مُضْغَۃٍ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃٍ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہو جائے، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہو جائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ(لوتھڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحیح بخاری)

٥۔ (۲)  یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔

٥۔ (۳) یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔

٥۔(٤) یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل و کمال قوت و تمیز کی عمر، جو ٣٠ سے ٤٠ سال کے درمیان عمر ہے۔

٥۔(٥) اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہو جانا اور یادداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہو جانا، جسے سورہ یٰسین میں (وَمَنْ نُعَمْرِہُ نُنَکّسْہُ فی الْخَلْقِ) اور سورہ تین میں ( ثم رددنہ اسفل سفلین) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

٥۔(٦) یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے ) پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کر سکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہو جائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کر دینا مشکل ہے ؟ یقیناً جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔

جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کی جی اٹھنا ہو گا۔(مسند احمد جلد ٤)

٩۔١ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ ولی مستکبرا کان لم یسمعھا (سورہ لقمان) لووا رؤوسہم (المنافقون) اعرض ونابجانبہ (بنی اسرائیل)

١١۔ حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)

١٣۔ بعض مفسرین کے نزدیک غیر اللہ کا پجاری قیامت والے دن کہے گا کہ جس کا نقصان، اس کے نفع کے قریب تر ہے، وہ والی اور ساتھی یقیناً برا ہے۔ یعنی اپنے معبودوں کے بارے یہ کہے گا کہ وہاں اس کے امیدوں کے محل ڈھے جائیں گے اور یہ معبود، جن کی بات اس کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے عذاب سے اس بچائیں گے، اس کی شفاعت کریں گے، وہاں خود وہ معبود بھی، اس کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنے ہوں گے مطلب یہ کہ غیر اللہ کو پکارنے سے فوری نقصان تو اس کا ہوا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ قریب نقصان ہے۔ اور آخرت میں تو اس کا نقصان تحقیق شدہ ہی ہے۔

١٥۔ اس کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص، جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ و فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے گھر کی چھت پر رسی لٹکا کر اور اپنے گلے میں اس کا پھندا لے کر اپنا گلا گھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ و غضب سے بچا لے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے۔ اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہو گی۔ دوسرے معنی ہیں کہ ایک رسہ لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے، اس کا سلسلہ ختم کرا دے (اگر وہ کر سکتا ہے ) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہے ؟ امام ابن کثیر نے پہلے مفہوم کو اور امام شوکانی نے دوسرے مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے اور سیاق سے یہی دوسرا مفہوم زیادہ قریب لگتا ہے۔

١٧۔ (۱)  مجوسی سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔

١٧۔ (۲)  ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آ گئے۔

١٧۔ (۳) ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہو جاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہو جائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔

١٧۔(٤) یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہو گا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہو گا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔

١٨۔ (۱) بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کر سکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلاً ( من فی السموات) سے مراد فرشتے ہیں ومن فی الارض سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں (وان من شئی الا یسبح بحمدہ) سورہ بنی اسرائیل۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انہیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے (حم سجدہ ۳۷) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جا کر سجدہ ریز ہو جاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورۃ الرعد اور النحل ٤۷،٤۸ میں بھی کیا گیا ہے۔

١٨۔ (۲)  یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔

١٨۔ (۳) یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کر کے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انہیں بھی مجال انکار نہیں۔

١٨۔(۴) کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔

١٩۔ ھذان خصمن یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آ جاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ رضی اللہ عنہم تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔

٢٢۔ اس میں جہنمیوں کے عذاب کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے جو انہیں وہاں بھگتنا ہو گا۔

٢٣۔ جہنمیوں کے مقابلے میں یہ اہل جنت کا اور ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اہل ایمان کو مہیا کی جائیں گی۔

٢٤۔ (۱) یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہوں گی، وہاں بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہو گی۔

٢٤۔ (۲)  یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہو گی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔

٢٥۔ (۱) روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے ٦ ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔

٢٥۔ (۲)  اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہو گئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابو حنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ ” معارف القرآن جلد ٦ صفحہ ٢٥٣)

٢٥۔ (۳) الحاد کے لفظی معنی تو کج روی ہے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتیٰ کہ بعض عملاً الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کر لے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کر سکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہو گا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہو سکتا ہے۔ (فتح القدیر)

٢٥۔(۴) یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔

٢٦۔ (۱) یعنی بیعت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم علیہ السلام کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السلام کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی "(مسند احمد ٥۔١٥٠،١٦٦، ١٦٧ و مسلم کتاب المساجد)

یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آ کر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔

٢٦۔ (۲)  کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کر لیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ اعاذنا اللہ منہما

٢٧۔ (۱) جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہو جائیں گے۔

٢٧۔ (۲)  یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔

٢٨۔ (۱) یہ فائدے دینی بھی ہیں کہ نماز، طواف اور مناسک حج و عمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت و رضا حاصل کی جائے اور دنیاوی بھی کہ تجارت اور کاروبار سے مال و اسباب دنیا میسر آ جائے۔

٢٨۔ (۲)  بہیمۃ الانعام پالتو جانوروں سے مراد اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ دنبے ) ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا جو اللہ کے نام لے کر ہی کیا جاتا ہے اور ایام معلومات سے مراد، ذبح کے ایام ” ایام تشریق ہیں، جو یوم (١٠ ذوالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔ یعنی ١١،١٢ اور ١٣ ذوالحجہ تک قربانی کی جا سکتی ہے۔ عام طور پر ایام معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لئے جاتے ہیں۔  تاہم یہاں ” معلومات ” جس سیاق میں آیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایام تشریق مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔

٢٩۔ (۱) یعنی ١٠ ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ(یا عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد حاجی تحلل اول (یا اصغر) حاصل ہو جاتا ہے، جس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے اور بیوی سے مباشرت کے سوا، دیگر وہ تمام کام اس کے لئے جائز ہو جاتے ہیں، جو حالت احرام میں ممنوع ہوتے ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پھر وہ بالو، ناخنوں وغیرہ کو صاف کر لے، تیل خوشبو استعمال کرے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لے وغیرہ۔

٢٩۔ (۲)  اگر کوئی مانی ہوئی ہو، جیسے لوگ مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی، تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔

٢٩۔ (۳) عتیق کے معنی قدیم کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق یا تقصیر کے بعد افاضہ کر لے، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا کبریٰ) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جب کہ طواف قدوم بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے اور طواف وداع سنت مؤکدہ (یا واجب) ہے۔ جو اکثر اہل علم کے نزدیک عذر سے ساقط ہو جاتا ہے، جیسے حائضہ عورت سے بالاتفاق ساقط ہو جاتا ہے (ایسر التفاسیر)

٣٠۔ (۱) ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔

٣٠۔ (۲)  جو بیان کئے گئے ہیں ” کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا، جیسے آیت (حُرِّمَتْ عَلَیْکُم الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ الْایٰۃُ) میں تفصیل ہے۔

٣٠۔ (۳) رجس سے مراد گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔

٣٠۔(۴) جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اس کی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلاً اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یا فلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہو گا جیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کر لینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔

٣١۔١(۱) حنفاء حنیف کی جمع ہے جس کے مصدری معنی ہیں مائل ہونا ایک طرف ہونا، یک رخا ہونا یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ یا ایک طرف ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے۔

٣١۔ (۲)  یعنی جس طرح بڑے پرندے، چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر انہیں نوچ کھاتے ہیں یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ سلامت فطرت اور طہارت نفس کے اعتبار سے طہر و صفا کی بلندی پر فائز ہو جاتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے

٣٢۔ شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت اور نشانی کے ہیں جیسے جنگ میں ایک شعار (مخصوص لفظ بطور علامت) اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اس اعتبار سے شعائر اللہ وہ ہیں، جو جو اسلام کے نمایاں امتیازی احکام ہیں، جن سے ایک مسلمان کا امتیاز اور تشخص قائم ہوتا ہے اور دوسرے اہل مذاہب سے الگ پہچان لیا جاتا ہے، صفا، مروہ پہاڑیوں کو بھی اس لئے شعائر اللہ کہا گیا ہے کہ مسلمان حج و عمرے میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ یہاں حج کے دیگر مناسک خصوصاً قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس تعظیم کو دل کا تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دل کے ان افعال سے جن کی بنیاد تقویٰ ہے۔

٣٣۔ (۱) وہ فائدہ، سواری، دودھ، مزید نسل اور اون وغیرہ کا حصول ہے۔ وقت مقرر مراد (ذبح کرنا) ہے یعنی ذبح نہ ہونے تک تمہیں ان سے مذکورہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور سے، جب تک وہ ذبح نہ ہو جائے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا اس پر سوار ہو جا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اس پر سوار ہو جا۔ (صحیح بخاری)

٣٣۔ (۲)  حلال ہونے سے مراد جہاں ان کا ذبح کرنا حلال ہوتا ہے۔ یعنی یہ جانور، مناسک حج کی ادائیگی کے بعد، بیت اللہ اور حرم مکی میں پہنچتے ہیں اور وہاں اللہ کے نام پر ذبح کر دئیے جاتے ہیں، پس مذکورہ فوائد کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے ہی حرم کے لئے قربانی دی جاتی ہے، تو حرم میں پہنچتے ہی ذبح کر دیئے جاتے ہیں اور فقراء مکہ میں ان کا گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

٣٤۔ منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منیٰ اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔

٣٦۔١بدن بدنۃ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لیے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔

۳۶۔(۱) صواف مصفوفۃ (صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے ) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔

٣٦۔ (۲)  یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بے روح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے ” جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ (کاٹا) ہوا گوشت مردہ ہے۔

٣٦۔ (۳) بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھا لیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔

۳۶۔(۴)قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہیں (پہلے ) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کر کے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ

٣٨۔ جس طرح ٦ ہجری میں کافروں نے اپنے غلبے کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ نہیں کرنے دیا، اللہ تعالیٰ نے دو سال بعد ہی کافروں کے اس غلبہ کو ختم فرما کر مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا دیا اور مسلمانوں کو ان پر غالب کر دیا۔

٣٩۔ اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بے وسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ، آیت ٢٥١ کا حاشیہ)۔

صوامع صومعۃ کی جمع) سے چھوٹے گرجے اور بیع (بیعۃ کی جمع) سے بڑے گرجے صلوات سے یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں

٤١۔ (۱) اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والا حکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل و غارت اور ادبار و پستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی مملکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔

٤١۔ (۲)  یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کر کے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔

٤٤۔ (۱) اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ نئی بات نہیں ہے پچھلی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور میں بھی انہیں مہلت دیتا رہا۔ پھر جب ان کا وقت مہلت ختم ہو گیا تو انہیں تباہ برباد کر دیا گیا۔ اس میں تعریض و کنایہ ہے مشرکین مکہ کے لیے کہ تکذیب کے باوجود تم ابھی تک مؤاخذہ الہی سے بچے ہوئے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارا کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے جو وہ ہر قوم کو دیا کرتا ہے لیکن اگر وہ اس اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اطاعت و انقیاد کا راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر اسے ہلاک یا مسلمانوں کے ذریعے سے مغلوب اور ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی کس طرح میں نے انہیں اپنی نعمتوں سے محروم کر کے عذاب و ہلاکت سے دو چار کر دیا۔

٤٦۔ اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل و فہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے (فتح القدیر)

٤٧۔ اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (٢٤ گھنٹے ) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، ٦ گھنٹے (جو ٢٤ گھنٹے کا چوتھائی ہے ) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم و بیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر)

ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم و تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کر کے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہو گا۔

٤٨۔ اسی لئے یہاں قانون مہلت کو پھر بیان کیا ہے کہ میری طرف سے عذاب میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہو جائے، تاہم میری گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، نہ کہیں فرار ہو سکتا ہے۔ اسے لوٹ کر بالآخر میرے ہی پاس آنا ہے۔

٤٩۔ یہ کفار و مشرکین کے مطالبہ پر کہا جا رہا ہے کہ میرا کام تو عذاب بھیجنا، یہ اللہ کا کام ہے، وہ جلدی گرفت فرما لے یا اس میں تاخیر کرے، وہ اپنی حسب و مشیت و مصلحت یہ کام کرتا ہے۔ جس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس خطاب کے اصل مخاطب اگرچہ اہل مکہ ہیں۔ لیکن چونکہ آپ پوری نوح انسانی کے لئے رہبر اور رسول بن کر آئے تھے، اس لئے خطاب یَا اَیُّھَا لنَّاسُ! کے الفاظ سے کیا گیا، اس میں قیامت تک ہونے والے وہ کفار و مشرکین آ گئے جو اہل مکہ کا سا رویہ اختیار کریں گے۔

٥١۔ مُعٰجِزِیْنَ کا مطلب ہے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہمیں عاجز کر دیں گے، تھکا دیں گے اور ہم ان کی گرفت کرنے پر قادر نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے کہ وہ بعث بعد الموت اور حساب کتاب کے منکر تھے۔

٥٢۔تمنی کے ایک معنی ہیں آرزو کی یا دل میں خیال آیا۔ دوسرے معنی ہیں پڑھایا تلاوت کی۔ اسی اعتبار سے امنیۃ کا ترجمہ آرزو، خیال یا تلاوت ہو گا پہلے معنی کے اعتبار سے مفہوم ہو گا اس کی آرزو میں شیطان نے رکاوٹیں ڈالیں تاکہ وہ پوری نہ ہوں۔ اور رسول و نبی کی آرزو یہی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمان لے آئیں، شیطان رکاوٹیں ڈال کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایمان سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مفہوم ہو گا کہ جب بھی اللہ کا رسول یا نبی وحی شدہ کلام پڑھتا اور اس کی تلاوت کرتا ہے۔ تو شیطان اس کی قرأت و تلاوت میں اپنی باتیں ملانے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہے ڈالتا اور مین میخ نکالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیطان کی رکاوٹوں کو دور فرما کر یا تلاوت میں ملاوٹ کی کوشش ناکام فرما کر شیطان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما کر اپنی بات کو یا اپنی آیات کو محکم (پکا) فرما دیتا ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شیطان کی یہ کارستانیاں صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جو رسول اور نبی آئے، سب کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھبرائیں نہیں شیطان کی ان شرارتوں اور سازشوں سے جس طرح ہم پچھلے انبیاء علیہم السلام کو بچاتے رہے ہیں یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی محفوظ رہیں گے اور شیطان کے علی الرغم اللہ تعالیٰ اپنی بات کو پکا کر کے رہے گا۔ یہاں بعض مفسرین نے غرانیق علی کا قصہ بیان کیا ہے جو محققین کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے اس لیے اسے یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھی کی گئی ہے۔

٥٣۔ یعنی شیطان یہ حرکتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور اس کے جال میں لوگ پھنس جاتے ہیں جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہوتا ہے گناہ کر کے ان کے دل سخت ہو چکے ہوتے ہیں۔

٥٤۔ یعنی یہ القائے شیطانی، جو دراصل اغوائے شیطانی ہے، اگر اہل مشرکین اور اہل کفر و شرک کے حق میں فتنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف جو علم معرفت کے حال ہیں، ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بات یعنی قرآن حق ہے۔ جس سے ان کے دل بارگاہ الٰہی میں جھک جاتے ہیں۔

دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں اس طرح کی ان کی راہنمائی حق کی طرف کر دیتا ہے اور اس کے قبول اور اتباع کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے باطل کی سمجھ بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس سے انہیں بچا بھی لیتا ہے اور آخرت میں سیدھے راستے کی راہنمائی یہ ہے کہ انہیں جہنم کے عذاب الیم و عظیم سے بچا کر جنت میں داخل فرمائے گا اور وہاں اپنی نعمتوں اور دیدار سے انہیں نوازے گا۔ اللھم اجعلنا منہم

٥٥۔ یَوْمِ عَقِیْمِ (بانجھ دن) سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اسے عقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد کوئی دن نہیں ہو گا، جس طرح عقیم اس کو کہا جاتا ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یا اس لئے کہ کافروں کے لئے اس دن کوئی رحمت نہیں ہو گی، گویا ان کے لئے خیر سے خالی ہو گا۔ جس طرح باد تند کو، جو بطور عذاب کے آتی رہی ہے الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ کہا گیا ہے۔ اذ ارسلنا علیہم الریح العقیم (الذاریات) جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی۔ یعنی ایسی ہوا جس میں کوئی خیر تھی نہ بارش کی نوید

 ٥٦۔ یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر بطور انعام یا بطور امتحان لوگوں کو بھی بادشاہتیں اور اختیار و اقتدار مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کسی کے پاس بھی کوئی بادشاہت اور اختیار نہیں ہو گا۔ صرف ایک اللہ کی بادشاہی اور اس کی فرمان روائی ہو گی، اسی کا مکمل اختیار اور غلبہ ہو گا (اَلْمُلْکُ یَوْمِئِذ الْحَقُّ لِرَّحْمٰں ِ وَکَانَ یَوْماً عَلَی الکٰفِرِیْنَ عَسِیْراً) ” بادشاہی اس دن ثابت ہے واسطے رحمان کے اور یہ دن کافروں پر سخت بھاری ہو گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا ” آج کس کی بادشاہی ہے ؟ ” پھر خود ہی جواب دے گا ” ایک اللہ غالب کی "۔

٥٨۔ (۱) یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آ گئی یا شہید ہو گئے۔

٥٨۔ (۲)  یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہوں گی نہ فنا۔

٥٨۔ (۳) کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔

٥٩۔ کیونکہ جنت کی نعمتیں ایسی ہوں گی، جنہیں آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا۔ اور دیکھنا سننا تو کجا، کسی انسان کے دل میں ان کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا، بھلا ایسی نعمتوں سے بہرا یاب ہو کر کون خوش نہیں ہو گا؟

٥٩۔ (۲)  عَلِیْم وہ نیک عمل کرنے والوں کے درجات اور ان کے مراتب استحقاق کو جانتا ہے۔ کفر و شرک کرنے والوں کی گستاخیوں اور نافرمانیوں کو دیکھتا ہے۔ لیکن ان کا فوری مؤاخذہ نہیں کرتا۔

٦٠۔ (۱) یعنی یہ کہ مہاجرین بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہو گا۔

٦٠۔ (۲)  کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر برابر ہو چکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کر دینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔

٦٠۔ (۳) اس میں پھر معاف کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہو گا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔

٦١۔ یعنی جو اللہ اس طرح کام کرنے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس کے جن بندوں پر ظلم کیا جائے ان کا بدلہ وہ ظالموں سے لے۔

٦٢۔ اس لئے اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق ہے اس کے وعدے حق ہیں، اس کا اپنے اولیاء کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرنا حق ہے، وہ اللہ عزوجل اپنی ذات میں، اپنی صفات میں اور اپنے افعال میں حق ہے۔

٦٣۔ لَطِیْف (باریک بین) ہے، اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو محیط ہے یا لطف کرنے والا یعنی اپنے بندوں کو روزی پہنچانے میں لطف و کرم سے کام لیتا ہے۔ خَیْر وہ ان باتوں سے باخبر ہے جن میں اس کے بندوں کے معاملات کی تدبیر اور اصلاح ہے۔ یا ان کی ضروریات و حاجات سے آگاہ ہے۔

٦٤۔ پیدائش کے لحاظ سے بھی، ملکیت کے اعتبار سے بھی اور تصرف کرنے کے اعتبار سے بھی۔ اس لئے سب مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ غنی بے نیاز ہے۔ اور جو ذات سارے کمالات اور اختیارات کا منبع ہے، ہر حال میں تعریف کی مستحق بھی وہی ہے۔

٦٥۔ (۱) مثلاً جانور، نہریں، درخت اور دیگر بے شمار چیزیں، جن کے منافع سے انسان بہرہ ور اور لذت یاب ہوتا ہے۔

٦٥۔ (۲)  یعنی اگر وہ چاہے تو آسمان زمین پر گر پڑے، جس سے زمین پر ہر چیز تباہ ہو جائے۔ ہاں قیامت والے دن اس کی مشیت سے آسمان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔

٦٥۔ (۳) اس لئے اس نے مذکورہ چیزوں کو انسان کے تابع کر دیا ہے اور آسمان کو بھی ان پر گرنے نہیں دیتا۔ تابع (مسخر) کرنے کا مطلب ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے ممکن یا آسان کر دیا گیا ہے۔

٦٦۔ یہ بحیثیت جنس کے ہے۔ بعض افراد کا اس ناشکری سے نکل جانا اس کے منافی نہیں، کیونکہ انسانوں کی اکثریت میں یہ کفر و جحود پایا جاتا ہے۔

٦٧۔ (۱) یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ علیہ السلام کے لئے، انجیل امت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔

٦٧۔ (۲)  یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جھگڑیں۔

٦٧۔ (۳) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔

٦٩۔ یعنی بیان اور اظہار حجت کے بعد بھی اگر یہ جھگڑے سے باز نہ آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن فرمائے گا، پس اس دن واضح ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ کیونکہ وہ اس کے مطابق سب کو جزا دے گا۔

٧٠۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم اور مخلوقات کے احاطے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس کی مخلوقات کو جو جو کچھ کرنا تھا، اس کو علم پہلے سے ہی تھا، وہ ان کو جانتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے علم سے یہ باتیں پہلے ہی لکھ دیں۔ اور لوگوں کو یہ بات چاہے، کتنی ہی مشکل معلوم ہو، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ وہی تقدیر کا مسئلہ ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، جسے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا گیا ” اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں (صحیح مسلم) اور سنن کی روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، اور اس کو کہا ” لکھ ” اس نے کہا، کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو کچھ ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔ چنانچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا۔ (ابوداؤد کتاب السنۃ)

٧١۔ یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کر سکیں۔

٧٢۔ (۱) اپنے ہاتھوں سے دست درازی کر کے یا بد زبانی کے ذریعے سے۔ یعنی مشرکین اور اہل ضلالت کے لئے اللہ کی توحید اور رسالت و قیامت کا بیان ناقابل برداشت ہوتا ہے، جس کا اظہار، ان کے چہرے سے اور بعض دفعہ ہاتھوں اور زبانوں سے ہوتا ہے۔ یہی حال آج کے اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کا ہے، جب ان کی گمراہی، قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کی جاتی ہے تو ان کا رویہ بھی آیات قرآنی اور دلائل کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا ہے، جس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے (فتح القدیر)

٧٢۔ (۲)  یعنی ابھی تو آیات الٰہی سن کر صرف تمہارے چہرے ہی حیران ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا، اگر تم نے اپنے اس روئیے سے توبہ نہیں کی، کہ اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات سے تمہیں دو چار ہونا پڑے گا، اور وہ ہے جہنم کی آگ میں جلنا، جس کا وعدہ اللہ نے اہل کفر و شرک سے کر رکھا ہے۔

٧٣۔ (۱) یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بے جان مورتیاں ہیں جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتیں ہیں۔

٧٣۔ (۲)  طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بے بسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے ” (صحیح بخاری)

٧٤۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی بے بس مخلوق کو اس کا ہمسر اور شریک قرار دے لیتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت، اس کی قدرت و طاقت اور اس کی بے پناہی کا صحیح صحیح اندازہ اور علم ہو تو وہ کبھی اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

٧٥۔ (۱) رسل رسول (فرستادہ، بھیجا ہوا قاصد) کی جمع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے بھی رسالت کا یعنی پیغام رسانی کا کام لیا ہے، جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی وحی کے لئے منتخب کیا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں۔ یا عذاب لے کر قوموں کے پاس جائیں اور لوگوں میں سے بھی، جنہیں چاہا، رسالت کے لئے چن لیا اور انہیں لوگوں کی ہدایت و راہنمائی پر مامور فرمایا۔ یہ سب اللہ کے بندے تھے، گو منتخب اور چنیدہ تھے لیکن کسی کے لئے ؟ خدائی اختیارات میں شرکت کے لئے ؟ جس طرح کے بعض لوگوں نے انہیں اللہ کا شریک گردان لیا۔ نہیں، بلکہ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے۔

٧٥۔ (۲)  وہ بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور بصیر ہے۔ یعنی یہ جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے ؟ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ) (سورہ انعام۔١٢٤) ” ” ” اس موقع کو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے "

٧٦۔ جب تمام معاملات کا مرجع اللہ ہی ہے تو پھر انسان اس کی نافرمانی کر کے کہاں جا سکتا ہے اور اس کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے ؟ کیا اس کے لئے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کر کے اس کی رضا حاصل کرے؟  چنانچہ اگلی آیت میں اس کی صراحت کی جا رہی ہے۔

٧٧۔ (۱) یعنی اس نماز کی پابندی کرو جو شریعت میں مقرر کی گئی ہے۔ آگے عبادت کا بھی حکم آ رہا ہے۔ جس میں نماز بھی شامل تھی، لیکن اس کی اہمیت و افضلیت کے پیش نظر اس کا خصوصی حکم دیا۔

٧٧۔ (۲)  یعنی فلاح (کامیابی) اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی افعال خیر اختیار کرنے میں ہے، نہ کہ اللہ کی عبادت و اطاعت سے گریز کر کے محض مادی اسباب و وسائل کی فراہمی اور فراوانی میں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔

٧٨۔ (۱) اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجا آوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی۔

٧٨۔ (۲)  یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کر دیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کر دیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔

٧٨۔ (۳) عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم علیہ السلام عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے ) حضرت ابراہیم علیہ السلام باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔

٧٨۔(۴) مسلم کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔

٧٨۔(٥) یہ گواہی، قیامت والے دن ہو گی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیت ١٤٣ کا حاشیہ۔

٭٭٭

 

 

سورۃ مُومنون

١۔ فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلاً اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔

٢۔ خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔

٣۔ لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انہیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔

٤۔ اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوٰۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔

٧۔ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہو گی۔

٨۔ اَ مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔

٩۔ آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون

١١۔ ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہوں گے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، وکتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی ماء)

١٢۔ مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔

١٣۔ محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔

١٤۔ (۱) اس کی کچھ تفصیل سورہ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مُخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کر دی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسْنِ تَقْوِیْمٍ) (سورۃ التینَ) ” ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا "

١٤۔ (۲)  اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔

١٤۔ (۳) خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔

١٧۔ (۱) طرائق، طریقۃ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انہیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انہیں طرائق قرار ریا۔

١٧۔ (۲)  خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہو گئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہو گئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہر چیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے (ابن کثیر)

١٨۔ (۱) یعنی نہ زیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اور نہ اتنا کم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔

١٨۔ (۲)  یعنی یہ انتظام بھی کیا کہ سارا پانی برس کر فوراً بہہ نہ جائے اور ختم نہ ہو جائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریاؤں اور تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں اسے محفوظ بھی کیا، تاکہ ان ایام میں جب بارشیں نہ ہوں، یا ایسے علاقے میں جہاں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہے، ان سے پانی حاصل کر لیا جائے۔

١٨۔ (۳) یعنی جس طرح ہم اپنے فضل و کرم سے پانی کا ایسا وسیع انتظام کیا ہے، وہیں ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہو جائے۔

١٩۔ یعنی ان باغوں میں انگور اور کھجور کے علاوہ اور بہت سے پھل ہوتے ہیں، جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو اور کچھ کھاتے ہو۔

٢٠۔ اس سے زیتون کا درخت مراد ہے، جس کا روغن تیل کے طور پر اور پھل سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سالن کو صِبْغٍ،ُ رنگ کہا ہے کیوں کہ روٹی، سالن میں ڈبو کر، گویا رنگی جاتی ہے۔ طُوْرِ سَیْنَآءَ (پہاڑ) اور اس کا قرب و جوار خاص طور پر اس کی عمدہ قسم کی پیداوار کا علاقہ ہے۔

٢٢۔ یعنی رب کی ان نعمتوں سے تم فیض یاب ہوتے ہو، کیا وہ اس لائق کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت اور اطاعت کرو۔

٢٤۔ (۱) یعنی یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہو سکتا ہے ؟ اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے تو اصل مقصد اس سے تم پر فضیلت اور بہتری حاصل کرنا ہے۔

٢٤۔ (۲)  اور اگر واقع اللہ اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا نہ کہ کسی انسان کو، وہ ہمیں آ کر توحید کا مسئلہ سمجھاتا۔

٢٤۔ (۳) یعنی اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانے میں تو یہ سنی ہی نہیں۔

٢٥۔ یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بیوقوف اور کم عقل سمجھتا اور کہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے اسے ایک وقت تک ڈھیل دو، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہو جائے گی یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہو جائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔

٢٦۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی، (فدَعارَبَّہ، اَنِّیْ مَغْلُوْب فَانْتَصِرُ) (القمر ١٠) ” نوح علیہ السلام نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر ” اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔

٢٧۔ (۱) یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آ جائے۔

٢٧۔ (۲)  تنور پر حاشیہ سورہ ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین سے مراد ہے ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہو گئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح علیہ السلام کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔

٢٧۔ (۳) یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔

٢٧۔(۴) یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہو چکا ہے، جیسے زوجہ نوح علیہ السلام اور ان کا پسر۔

٢٧۔(٥) یعنی جب عذاب کا آغاز ہو جائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

٢٩۔ (۱) کشتی میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان ظالموں کو بالآخر غرق کر کے، ان سے نجات عطا فرمائی اور کشتی کے خیرو عافیت کے ساتھ کنارے پر لگنے کی دعا کرنا (رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مَنْذَلَا مُّبٰرَ کَا وَّ اَنْتَ خَیْرُالْمُنْزِلِیْنَ)

٢٩۔ (۲)  نبی صلی اللہ علیہ و سلم، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہ اَکْبَرْ،ا للّٰہُ اَکْبَرْ (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَ ا وَمَا کُنَّا لَہ، مُقْرِنِیْنَ وَ اِ نَّا اِلیٰ رَ بِّنَا لْمُنْقَلِمُوْ نَ)

٣٠۔ (۱) یعنی اس سرگزشت نوح علیہ السلام میں اہل ایمان کو نجات اور کفروں کو ہلاک کر دیا گیا، نشانیاں ہیں اس امر پر کہ انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آتے ہیں، ان میں وہ سچے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور کشمکش حق و باطل میں ہر بات سے آگاہ ہے اور وقت آنے پر اس کا نوٹس لیتا ہے اور اہل باطل کی پھر اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے شکنجے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔

٣٠۔ (۲)  اور ہم انبیاء و رسل کے ذریعے سے یہ آزمائش کرتے رہے ہیں۔

٣١۔ اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیوں کہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اہل میں ہیں کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔

٣٢۔ (۱) یہ رسول بھی ہم نے انہی میں سے بھیجا، جس کی نشو و نما ان کے درمیان ہی ہوئی تھی، جس کو وہ اچھی طرح پہچانتے تھے، اس کے خاندان، مکان اور جائے پیدائش ہر چیز سے واقف تھے۔

٣٢۔ (۲)  اس نے آ کر سب سے پہلے وہی توحید کی دعوت دی جو ہر نبی کی دعوت و تبلیغ کا سرنامہ رہی۔

٣٣۔ (۱) یہ سردار قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کو جھٹلاتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔

٣٣۔ (۲)  یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فراوانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انہیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔

٣٣۔ (۳) چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے ؟جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔

٣٤۔ وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت و برتری کو تسلیم کر لو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو مکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف و فضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہو جاتا ہے۔ ھیھات، جس کے معنی دور کے ہیں، دو مرتبہ تاکید کے لیے ہے۔

٣٨۔ یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ، یہ ایک نرا جھوٹ ہے جو یہ شخص اللہ پر باندھ رہا ہے۔

٣٩۔ ١ بالآخر، حضرت نوح علیہ السلام کی طرح، اس پیغمبر نے بھی بارگاہ الٰہی میں، مدد کے لئے، دست دعا دراز کر دیا۔

٤٠۔١عما میں ما زائد ہے جو مجرور کے درمیان، قلت زمان کی تاکید کے لیے آیا ہے جیسے (فبما رحمتہ من اللہ) میں ما زائد ہے یعنی بہت جلد عذاب آنا ہے جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتاوا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ یعنی بہت جلد عذاب آنے والا ہے، جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔

٤١۔ (۱) یہ چیخ کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی چیخ تھی، بعض کہتے ہیں کہ ویسے ہی سخت چیخ تھی، جس کے ساتھ باد صر صر بھی تھی۔ دونوں نے مل کر ان کو چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتار دیا۔

٤١۔ (۲)  غُثْآءَ اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلابی پانی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں درختوں کے پتے، خشک تنے، تنکے اور اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جب پانی کا زور ختم ہو جاتا ہے، تو خشک ہو کر بیکار پڑے ہوتے ہیں، یہی حال ان منکرین اور متکبرین کا ہوا۔

٤٢۔ اس سے مراد حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی قومیں ہیں، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں اسی ترتیب سے ان کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کے نزدیک بنو اسرائیل مراد ہیں۔ قرون، قرن کی جمع ہے اور یہاں بمعنی امت استعمال ہوا ہے۔

٤٣۔ یعنی سب امتیں بھی قوم نوح اور عاد کی طرح، جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا تو تباہ اور برباد ہو گئیں، ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں۔ جیسے فرمایا (اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون) (یونس۔(۴)۹)

٤٤۔ (۱) نَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔

٤٤۔ (۲)  ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔

٤٤۔ (۳) جس طرح اَعَاجِیْبُ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَاحِیْثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلوقات کے واقعات اور قصص۔

٤٥۔ آیات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورہ اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے اور سُلْطَانٍ مُبِیْنٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔

٤٦۔ استکبار اور اپنے کو بڑا سمجھنا، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی عقیدہ آخرت سے انکار اور اسباب دنیا کی فراوانی ہی تھی، جس کا ذکر پچھلی قوموں کے واقعات میں گزرا۔

یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔

٤٩۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔

٥٠۔ (۱) کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم علیہ السلام سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔

٥٠۔ (۲)  رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورہ مریم میں گزرا۔

٥١۔ طِیِّبٰت سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔

دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کر دی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے "کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے ” اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا (صحیح بخاری)

٥٢۔ اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔

٥٤۔ گمراہی کی تاریکیاں بھی اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ اس میں گھرے ہوئے انسان کی نظروں سے حق اوجھل ہی رہتا ہے عُمرۃ، حیرت، غفلت اور ضلالت ہے۔ آیت میں بطور دھمکی ان کو چھوڑنے کا حکم ہے، مقصود وعظ و نصیحت سے روکنا نہیں ہے۔

٦٠۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نا مقبول قرار نہ پائے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا ” ڈرنے والے کون ہیں ؟ وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نا مقبول نہ ٹھہریں ” (ترمذی تفسیر سورہ المومنون۔ مسند احمد ٦۔١٩٥۔١٦٠)۔

٦٢۔ ایسی ہی آیت سورہ بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔

٦٣۔ یعنی شرک کے علاوہ دیگر برائیاں یا اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

٦٤۔ عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔

۶۵۔ یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہو جانے کے بعد کوئی چیخ پکار انہیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انہیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہو گا۔

٦٦۔ (۱) یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔

٦٦۔ (۲)  یعنی آیا احکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔

٦٧۔ (۱) یعنی انہیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم و نگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہو جاتی جو انہیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔

٦٧۔ (۲)  سَمَر کے معنی ہیں رات کی گفتگو یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بے ہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں (فتح القدیر)

٦٨۔ (۱) بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کر لیتے تو انہیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہو جاتی۔

٦٨۔ (۲)  یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔

٦٩۔ یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت و امانت، راست بازی اور اخلاق و کردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔

٧٠۔ (۱) یہ بھی زجر و توبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن و سکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کر سکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو۔

٧٠۔ (۲)  یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسندیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے۔

٧١۔ حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔

٧٤۔ یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔

٧٥۔ اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض و عناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔

٧٦۔ عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی تھی ” اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انہیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما ” چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہو گئے جس پر حضرت سفیان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور انہیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)

۷۷۔ اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہو سکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہو جائیں گی۔

٧٨۔ یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحیتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔

۷۹۔ اس میں اللہ کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پیدا کر کے مختلف اطراف میں پھیلا دیا ہے۔ تمہارے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف، زبانیں بھی مختلف اور عادات و رسومات بھی مختلف۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ تم سب کو زندہ کر کے وہ اپنی بارگاہ میں جمع فرمائے گا۔

٨٠۔ (۱) یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔

٨٠۔ (۲)  جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہر چیز جھکی ہے۔

٨٣۔ یہ سب لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک رو بہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

٨٧۔ یعنی جب تمہیں تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیا کا خالق بھی ایک اللہ ہے آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے، تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے، پھر تم اس کی واحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔

٨٨۔ (۱) یعنی جس کی حفاظت کرنا چاہے اسے اپنی پناہ میں لے لے، کیا اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

٨٨۔ (۲)  یعنی جس کو وہ نقصان پہنچانا چاہے، کیا کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچا لے اور اللہ کے مقابلے میں اپنی پناہ میں لے لے ؟

۸۹۔ یعنی پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اس کی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے۔ انہیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا۔ یعنی عبادت صرف ایک اللہ کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اس لئے نہیں کہ آسمان و زمین کی تخلیق یا تدبیر میں کوئی اور بھی شریک ہے بلکہ صرف اس مغالطے کی بنا پر کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔

٩٤۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دعا فرماتے تھے (وَ اِذَا اَرَدَتَ بِقَوْمِ فِتْنَۃ،ُ فَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنِ) (ترندی تفسیر سورۃ ص و مسند احمد، جلد ٥، ص ٢٤٣)۔ ” اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے۔

٩٦۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ” برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ (٢٤۔٣٥)

٩٧۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے (وَ اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ) (ابو داؤد)

٩٨۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو یعنی بسم اللہ پڑھ کر، کیونکہ اللہ کی یاد، شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اسی لئے آپ یہ دعا بھی مانگتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْحَرَمِ وَ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْغَرَقِ، و اَعُوذُبِکَ اَنْ یَّتَخَبَّطَنِیْ الشَّیْطَانُ عِنْدَالمُوْتِ) (ابو داؤد)

١٠٠۔ (۱) یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔

١٠٠۔ (۲)  کَلَّا، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔

١٠٠۔ (۳) اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انہیں پھر نصیب نہیں ہو گی، کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے (ابن کثیر)

١٠٠۔(۴) دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہو گا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہو گا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہو گا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہو گا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔

١٠١۔ محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ابتداء ایسا ہو گا، بعد میں وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی کریں گے۔

١٠٤۔ (۱) چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ انسانی وجود کا سب سے اہم اور اشرف حصہ ہے، ورنہ جہنم تو پورے جسم کو ہی محیط ہو گی۔

١٠٤۔ (۲)  کَلَحً کے معنی ہوتے ہیں ہونٹ سکڑ کر دانت ظاہر ہو جائیں۔ ہونٹ گویا دانتوں کا لباس ہیں، جب یہ جہنم کی آگ سے سمٹ اور سکڑ جائیں گے تو دانت ظاہر ہو جائیں گے، جس سے انسان کی صورت بدشکل اور ڈراؤنی ہو جائے گی۔

١١١۔ دنیا میں اہل ایمان کے لئے ایک صبر آزما مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دین و ایمان پر عمل کرتے ہیں تو دین سے ناآشنا اور ایمان سے بے خبر لوگ انہیں ہنسی مذاق و ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں کہ وہ ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام اللہ پر عمل کرنے سے کرتے ہیں، جیسے ڈاڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ کی ہندوانہ رسومات سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انہیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ اللَّھُمَّ! اَجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔

١١٣۔ ١ اس سے مراد فرشتے ہیں، جو انسانوں کے اعمال اور عمریں لکھنے پر مامور ہیں یا وہ انسان مراد ہیں جو حساب کتاب میں مہارت رکھتے ہیں۔ قیامت کی ہولناکیاں، ان کے ذہنوں سے دنیا کی عیش و عشرت کو محو کر دیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی جیسے دن یا آدھا دن۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم تو ایک دن یا اس سے بھی کم وقت دنیا میں رہے۔ بیشک تو فرشتوں سے یا حساب جاننے والوں سے پوچھ لے۔

١١٤۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یقیناً دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ لیکن اس نکتے کو دنیا میں تم نے نہیں جانا کاش تم دنیا میں اس کی حقیقت سے دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ ہو جاتے، تو آج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب و کامران ہوتے۔

١١٦۔ (۱) یعنی وہ اس سے بہت بلند کہ وہ تمہیں بغیر کسی مقصد کے یوں ہی ایک کھیل کے طور پر بے کار پیدا کیا اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا۔ اسی لئے آگے فرمایا وہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

١١٦۔ (۲)  عرش کی صفت کریم بیان فرمائی کہ وہاں سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

١١٧۔ اس سے معلوم ہوا کہ فلاح اور کامیابی آخرت میں عذاب الٰہی سے بچ جانا ہے، محض دنیا کی دولت اور آسائشوں کی فراوانی، کامیابی نہیں، یہ دنیا میں کافروں کو بھی حاصل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان سے فلاح کی نفی فرما رہا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اصل فلاح آخرت سے فلاح ہے جو اہل ایمان کے حصے آئے گی، نہ کہ دنیاوی مال و اسباب کی کثرت، جو کہ بلا تفریق مومن اور کافر، سب کو ہی حاصل ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

سُورۃ النُّوْرِ

یہ سورت مدنی ہے اس میں (٦٤) آیات اور (٩) رکوع ہیں۔

١۔ قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

٢۔ (۱) بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت۔١٥ میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحیح مسلم) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔

٢۔ (۲)  اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔

٢۔ (۳) تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درانحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔

٣۔ اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔

٤۔ اس میں (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے اس طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں (١) انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں (٢) ان کی شہادت قبول نہ کی جائے (٣) وہ عند اللہ و عند الناس فاسق ہیں۔

٥۔ توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہو گی، تائب ہو جائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہو جائے گا۔

٧۔ اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہوں بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔

٩۔ یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں ) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔

١٠۔ تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو رب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کر دی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کر لے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کر دی۔

١١۔ (۱) اِ فَک سے مراد وہ واقع افک ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ کی حرمت میں آیت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کر دیا۔ اِفْک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقع میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا کر دیا تھا یعنی حضرت عائشہ تو ثنا تعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔

١١۔ (۲)  ایک گروہ اور جماعت کو عَصْبَۃ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصبیت کا باعث ہوتے ہیں۔

١١۔ (۳) کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ کی حرمت میں ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہو گیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و نصیحت کے اور کئی پہلو ہیں۔

١١۔ (٤)  اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔

١٢۔ یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فورا! اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا؟

١٦۔ دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ پیش نہیں کیا۔ جبکہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشیوں کو جھوٹا نہیں کہا یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہم کو حد قذف لگائی گئی (مسند احمد، جلد۔ ٦) عبد اللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا ہی میں پاک کر دیا گیا۔ دوسرے اس کے پیچھے ایک پورا جتھا تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلحتاً اس سزا دینے سے گریز کیا گیا (فتح القدیر)

١٩۔ فَاحِشَۃ، کے معنی بے حیائی ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔

٢٠۔ جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور شفقت و رحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرما دیا۔

٢١۔ اس مقام پر شیطان کی پیروی سے ممانعت کے بعد یہ فرمانا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، اس سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعہ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے، جس میں بعض مسلمان بہہ گئے تھے۔ اس لئے شیطان کے داؤ اور فریب سے بچنے کے لئے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہو گئے ہیں، ان کو زیادہ ہدف ملامت مت بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔

٢٢۔ حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہو گئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابوبکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ” کے خلاف مہم میں شریک ہو گئے تو ابوبکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چنانچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے ؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے ؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق بے ساختہ پکار اٹھے ” کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ” اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سر پرستی شروع فرما دی (فتح القدیر)، ابن کثیر)

٢٣۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بطور خاص ان پر تہمت لگانے کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ان کے لئے توبہ نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے اسے عام ہی رکھا ہے اور اس میں وہی حد قذف بیان کی گئی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے۔ اگر تہمت لگانے والا مسلمان ہے تو لعنت کا مطلب ہو گا کہ وہ قابل حد ہے اور مسلمان کے لئے نفرت اور بعد کا مستحق اور اگر کافر ہے، تو مفہوم واضح ہی ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں ملعون یعنی رحمت الٰہی سے محروم ہے۔

٢٤۔ جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی اور احادیث میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

٢٦۔ (۱) اس کا ایک مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے۔ اس صورت میں یہ ہم معنی آیت ہو گی، اور خبیثات اور خبیثوں سے زانی مرد و عورت اور طیبات اور رفیون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہوں گے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہو گا کہ ناپاک باتیں وہی مرد عورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے۔ اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں۔

٢٦۔ (۲)  اس سے مراد جنت کی روزی ہے جو اہل ایمان کو نصیب ہو گی۔

٢٧۔(۱) گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اَسْتِیْنَاس کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت طلب فرماتے اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جائے جس بے پردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحیح بخاری) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں (البخاری) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے ؟ تو اس کے جواب میں "میں "”میں "کہا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے (صحیح بخاری)

٢٧۔ (۲)  یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔

٢٩۔ اس سے مراد کون سے گھر ہیں، جن میں بغیر اجازت لئے داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گھر ہیں، جو بطور خاص مہمانوں کے لئے الگ تیار یا مخصوص کر دیئے گئے ہوں۔ ان میں صاحب خانہ کی پہلی مرتبہ اجازت کافی ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرائے ہیں جو مسافروں کے لئے ہی ہوتی ہیں یا تجارتی گھر ہیں، یعنی جن میں تمہارا فائدہ ہو۔

٣٠۔ (۱) جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے ) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔

٣٠۔ (۲)  یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انہیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیونکہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا ذکر کیا کیونکہ اس میں بے احتیاطی ہی، غفلت کا سبب بنتی ہے۔

٣١۔ یہاں پردے کے احکام میں توبہ کا حکم دینے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان احکام کی خلاف ورزی بھی تم کرتے رہے ہو، وہ چونکہ اسلام سے قبل کی باتیں ہیں، اس لئے اگر تم نے سچے دل سے توبہ کر لی اور ان احکام مذکورہ کے مطابق پردے کا صحیح اہتمام کر لیا تو لازمی کامیابی اور دنیا اور آخرت کی سعادت تمہارا مقدر ہے۔

٣٢۔(۱) آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کر دو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مرد و عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اس طرح امر کے صیغے سے بعض نے ثبوت کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ اسے جائز اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت مؤکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے بچنے کی سخت وعید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جس نے میری سنت سے انکار کیا، وہ مجھ سے نہیں۔

٣٢۔ (۲)  یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں بعض نفرت کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (الیسر التفاسیر)

٣٢۔ (۳) یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و رزق میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے ١۔ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے ٢۔ مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے ٣۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔

٣٥۔ (۱) یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بحیثیت صفات کے ) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے، پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔

٣٥۔ (۲)  نور سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔

٣٥۔ ٣ جس طرح اللہ نے مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔

٣٦۔ (۱) جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو اور اس میں جو ایمان و ہدایت اور علم ہے، اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی جو شیشے کی قندیل میں ہو اور جو صاف اور شفاف تیل سے روشن ہو۔ تو اب اس کا محل بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ قندیل ایسے گھروں میں ہیں، جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے مراد مسجدیں ہیں، جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بلندی سے مراد سنگ و خشت کی بلندی نہیں ہے بلکہ اس میں مسجدوں کو گندگی، لغویات اور غیر مناسب اقوال و افعال سے پاک رکھنا بھی شامل ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنا دینا مطلوب نہیں ہے بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زر و نگار اور زیادہ آراستہ و پیراستہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو اسے قرب قیامت کی علامات میں بتلایا گیا ہے۔

٣٦۔ (۲)  تسبیح سے مراد نماز ہے، یعنی اہل ایمان، جن کے دل میں ایمان اور ہدایت کے نور سے روشن ہوتے ہیں، صبح شام مسجدوں میں اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔

٣٧۔ یعنی شدت خوف اور ہولناکی کی وجہ سے جس طرح دوسرے مقام پر ہے ” ان کو قیامت والے دن سے ڈراؤ، جس دن دل، گلوں کے پاس آ جائیں گے، غم بھرے ہوئے "۔ ابتداً دلوں کی یہ کیفیت سب کی ہی ہو گی، مومن کی بھی اور کافر کی بھی۔

٣٨۔ قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کی نیکیوں کا بدلہ (کئی کئی گنا) کی صورت میں دیا جائے گا اور بہت سوں کو بے حساب ہی جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور وہاں رزق کی فراوانی جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

٤٠۔ یعنی دنیا میں ایمان و اسلام کی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی اہل ایمان کو ملنے والے نور سے وہ محروم رہیں گے۔

٤١۔ یعنی اہل زمین و اہل آسمان، جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقیناً وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہو گی۔

٤٢۔ پس وہی اصل حاکم ہے، جس کے حکم کا کوئی تعاقب کرنے والا نہیں اور وہی معبود برحق ہے، جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ اس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں ہر ایک کے بارے میں عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔

٤٤۔ یعنی کبھی دن بڑے، راتیں چھوٹی اور کبھی اس کے برعکس۔ یا کبھی دن کی روشنی، کو بادلوں کی تاریکیوں سے اور رات کے اندھیروں کو چاند کی روشنی سے بدل دیتا ہے۔

٤٥۔ (۱) جس طرح سانپ، مچھلی اور دیگر حشرات الارض کیڑے مکوڑے ہیں۔

٤٥۔ (۲)  جیسے انسان اور پرند ہیں

٤٥۔ (۳) جیسے تمام چوپائے اور دیگر حیوانات ہیں۔

٤٥۔(۴) یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو چار سے بھی زیادہ پاؤں رکھتے ہیں، جیسے کیکڑا، مکڑی اور بہت سے زمینی کیڑے۔

٤٦۔ اللہ تعالیٰ اسے نظر صحیح اور قالب صادق عطا فرما دیتا ہے جس سے اس کے لئے ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ صراط مستقیم سے مراد یہی ہدایت کا راستہ ہے جس میں کوئی کجی نہیں، اسے اختیار کر کے انسان اپنی منزل مقصود جنت تک پہنچ جاتا ہے۔

٤٧۔ یہ منافقین کا بیان ہے جو زبان سے اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن دلوں میں کفر و عناد تھا یعنی اعتقاد صحیح سے محروم تھے۔ اس لئے زبان سے اظہار ایمان کے باوجود ان کے ایمان کی نفی کی گئی۔

٤٩۔ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو فیصلہ صادر ہو گا، اس میں کسی کی رو رعایت نہیں ہو گی، اس لئے وہاں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ ہاں اگر وہ جانتے ہیں کہ مقدمے میں وہ حق پر ہیں اور ان ہی کے حق میں فیصلہ ہونے کا غالب امکان ہے تو پھر خوشی خوشی وہاں آتے ہیں۔

٥٠۔ جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض و گریز کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ یا تو ان کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہے یا انہیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔

٥١۔ یہ اہل کفر و نفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کے کردار و عمل کا بیان ہے۔

٥٢۔ یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقویٰ سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ، جو ان صفات سے محروم ہیں۔

٥٣۔ اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ اطاعت معروف ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہو جاؤ۔ (ابن کثیر)

٥٤۔ (۱) یعنی تبلیغ و دعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔

٥٤۔ (۲)  یعنی تبلیغ و دعوت کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔

٥٤۔ (۳) اس لئے کہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔

٥٥۔ (۱) بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہو گا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا تھا ((ان اللہ زوی لی الارض، فرایت مشارقھا ومغاربھا، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا )) (صحیح مسلم )”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا "پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی "حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس و شام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر و شرک کی جگہ توحید و سنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہو گئیں اور اسلامی تہذیب و تمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔

٥٥۔ (۲)  یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہو جائیں گے۔

٥٥۔ (۳) اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔

٥٦۔ یہ گویا مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔

٥٧۔ یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔

٥٨۔ یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آ جا سکتے ہیں۔

٥٩۔ ان بچوں سے مراد احرار بچے ہیں، بلوغت کے بعد ان کا حکم عام مردوں کا سا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی کے گھر آئیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔

٦٠۔ (۱) ان سے مراد وہ بوڑھی اور راز کار رفتہ عورتیں ہیں جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لئے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے نہ وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں، نہ مرد ہی ان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے ” کپڑے اتار دیں سے مراد جو شلوار قمیض کے اوپر عورت پردے کے لئے بڑی چادر یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بناؤ سنگھار کے ذریعے سے ” اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیف پردہ کے حکم سے مستثنیٰ ہو گی اور اس کے لئے مکمل پردہ کرنا ضروری ہو گا۔

٦٠۔ (۲)  یعنی مذکورہ بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ بھی استعمال کرتی رہیں تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔

٦٢۔ یعنی جمعہ و عیدین کے اجتماعات میں یا داخلی و بیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔

٦٣۔ یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔

٦٤۔ (۱) خلق کے اعتبار سے بھی، ملک کے اعتبار سے بھی اور ماتحتی کے اعتبار سے بھی۔ وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس چیز کا چاہے، حکم دے۔ پس اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کے کسی حکم کی مخالفت نہ کی جائے اور جس سے اس نے منع کر دیا ہے، اس کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اس لئے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بھیجنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔

٦٤۔ (۲)  یہ مخالفین رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو تنبیہ ہے کہ جو کچھ حرکات تم کر رہے ہو، یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ سے مخفی رہ سکتی ہیں۔ اس کے علم میں سب کچھ ہے اور وہ اس کے مطابق قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔

٭٭٭

 

سُوْرۃ الْفُرْقَانِ

یہ سورت مکی ہے اس میں (٧٧) آیات اور (٦) رکوع ہیں۔

١۔ (۱) فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔

١۔ (۲)  اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (قُلْ یِاَیُّھَا النِّاسُ اِ نِّیْ رُسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً) (صحیح مسلم) ” پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ” رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔

٢۔ (۱) یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔

٢۔ (۲)  اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

٢۔ (۳) اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔

٢۔(۴) ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کر دی ہے۔

٣۔ لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کر سکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔

٤۔ مشرکین کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض دوست(مثلاً ابو فکیہہ یسار، عداس اور جبر وغیرہ) سے مدد لی۔ جیسا کہ سورہ النحل آیت ١٠٣ میں اس کی ضروری تفصیل گزر چکی ہے۔

٦۔ یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقیناً نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔

٧۔ قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔

٨۔ (۱) تاکہ طلب رزق سے بے نیاز ہو۔

٨۔ (۲)  تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہو جاتی۔

٨۔ (۳) یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ ہے

٩۔ یعنی اے پیغمبر! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہو جاتے ہیں، انہیں راہ راست کس طرح نصیب ہو سکتی ہے ؟

١٠۔ یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کر دینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کر سکتا ہے جو کہ ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب و عناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔

١١۔ قیامت کا جھٹلانا ہی تکذیب رسالت کا بھی باعث ہے۔

١٢۔ یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (اِذَا القُوْا فِیْھَا سَمِعُوْا لَھَا شَھِیْقاً وَّ ھِیَ تَفُورُ۔ تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ) (سورہ، ملک۔ ٧،٨) ” ” جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے ) اچھلتی ہو گی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑے گی ” جہنم کا دیکھنا اور چلانا ایک حقیقت ہے۔

١٤۔ یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر آرزو کریں گے کہ کاش انہیں موت آ جائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع و اقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے

١٥۔ یہ، اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جو کفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ و اطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ و اطاعت کا راستہ اختیار کر لیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔

١٦۔ یعنی ایسا وعدہ، جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا، جیسے قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ذمے یہ وعدہ واجب کر لیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزا کو اپنے لئے ضروری قرار دے لیا ہے۔

١٧۔ دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں ) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کر کے گمراہ ہوئے تھے ؟

١٨۔ یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کار ساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کی بجائے ہمیں اپنا ولی اور کار ساز سمجھو۔

١٩۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے صفائی کا اعلان کر دیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کر سکو۔

٢٠۔ (۱) یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔

٢٠۔ (۲)  یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب و تجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔

٢٠۔ (۳) یعنی ہم نے انبیاء کو اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھ، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے ؛ اسی لئے آگے فرمایا، کیا تم صبر کرو گے ؟،

٢١۔ (۱) یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے، کسی فرشتے کو بنا کر بھیجا جاتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔

٢١۔ (۲)  یعنی رب آ کر ہمیں کہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری ہے۔

۲۱۔ (۳)  اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے ؟

۲۲۔(۱)  اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہو گی اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ سورۃ الأنفال، ٥۰، سورۃ الانعام،۹۳، میں ہے اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار جان کنی کے وقت یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جاں فزا سناتے ہیں جیسا کہ سورہ حم السجدۃ ۳۰،۳۲ میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے مسند احمد، ابن ماجہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں مومنوں کو رحمت و رضوان الہی کی خوشخبری اور کافروں کو ہلاکت و خسران کی خبر دیتے ہیں۔

۲۲۔ (۲)  حِجْر کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کی بے وقوفی یا کم عمری کی وجہ سے اس کے اپنے مال کو خرچ کرنے سے روک دے تو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِیْ عَلیٰ فُلَانِ قاضی نے فلاں کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے حطیم کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے طواف کرتے وقت اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سے ممتاز کر دیا گیا ہے اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسان کے لائق نہیں ہیں معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوشخبری متقین کو دی جاتی ہے یعنی یہ حراما محرما علیکم کے معنی میں ہے آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پر حرام ہیں اس کے مستحق صرف اہل ایمان و تقویٰ ہوں گے۔

٢٣۔ ھَبَاَء ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کے اندر داخل ہونے والی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے، کیونکہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہوں گے اور موافقت شریعت کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بے حیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ ۲٦٤، سورہ ابراہیم ۱۸۔

٢٤۔ بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہو گا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہو جائیں گے اور جنت میں یہ اہل خاندان اور حور عین کے ساتھ دوپہر کو آرام فرما ہوں گے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے یہ دن اتنا ہلکا ہو گا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کر لینا (مسند احمد ٤۔٧٥)

٢٥۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہو جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلو میں، میدان محشر میں، جہاں ساری مخلوق جمع ہو گی، حساب کتاب کے لئے جلوہ فرما ہو گا، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت ٢١٠ سے واضح ہے۔

٢٨۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیئے، اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لئے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کو ایک بہترین مثال سے واضع کیا گیا ہے۔

٣٠۔ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جا سکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔

٣١۔ (۱) یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہگار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے سورہ انعام آیت ١١٢ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

 ۳۱۔ (۲)  یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے ؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔

٣٢۔ (۱) جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔

٣٢۔ (۲)  اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو ٢٣ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ اے پیغمبر! تیرا اور اہل ایمان کا دل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہو جائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا وقرآنا فرقنٰہ لتقراہ علی الناس علی مکث ونزلنہ تنزیلا۔ (سورہ بنی اسرائیل ١٠٦ ” اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا "۔ اس قران کی مثال بارش کی طرح ہے بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتا فوقتا نازل ہو نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔

٣٣۔ یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کر دیں گے اور یوں انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

٣٨۔ (۱) رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ اَصْحَابُ الرَّس کنوئیں والے۔ اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے (ابن کثیر)

٣٨۔ (۲) قرن کے صحیح معنی ہیں ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہو جائیں تو دوسری نسل دوسرا قدیم زمانہ کہلائے گی۔ (ابن کثیر)، اس کے معنی ہیں ہر نبی کی امت بھی ایک زمانہ ہو سکتی ہے۔

٣٩۔ (۱) یعنی دلائل کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی۔

٣٩۔ (۲)  یعنی تمام حجت کے بعد۔

٤٠۔ (۱) بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہ مراد ہیں اور بری بارش سے پتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کو الٹ دیا گیا تھا اور اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ سورہ ہود۔٨٢ میں بیان ہے۔ یہ بستیاں شام فلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔

٤٠۔ (۲)  اس لئے ان تباہ شدہ بستیوں اور ان کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اور آیات الٰہی اور اللہ کے رسول کو جھٹلانے سے باز نہیں آتے۔

٤١۔ دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا (أھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرْ اٰلِھَتَکُمْ) (انبیاء۔ ٣٦) کیا یہ وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے ؟ یعنی ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کا اظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کے معبودوں کی توہین تھی۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہا جائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔

٤٢۔ (۱) یعنی ہم ہی اپنے آباؤ اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس میں فخر کر رہے ہیں

٤۲۔ (۲)  یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیر اللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انہیں شرک کی وجہ سے عذاب الہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا در در پر اپنی جبینیں جھکانے والے ؟

٤۳۔(۱)  یعنی جو چیز اس کے نفس کو اچھی لگی اسی کو اپنا دین و مذہب بنا لیا کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کر سکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیا گیا پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ یاب پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر۔ فاطر۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں آدمی ایک عرصے تک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آ جاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کر دیتا ابن کثیر۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص جو عقل و فہم سے اس طرح عاری اور محض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کیا تو ان کو ہدایت کے راستے پر لگا سکتا ہے ؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔

٤٣۔ (۱) یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لئے پیدا کیئے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا اور در در پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے چوپائے سے بھی زیادہ بدتر اور گمراہ ہے۔

٤٥۔ (۱) یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو، اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹتا سکڑنا شروع ہوتا جاتا ہے۔

٤٥۔ (۲)  یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کو ختم ہی نہ کرتی۔

٤٥۔ (۳) یعنی دھوپ سے ہی سایہ کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔

۴۶۔ یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبھیر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

٤٧۔ (۱) یعنی لباس، جس طرح لباس انسانی ڈھانچے کو چھپا لیتا ہے، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے۔

٤٧۔ (۲)  سبات کے معنی کاٹنے کے ہوتے ہیں۔ نیند انسان کے جسم کو عمل سے کاٹ دیتی ہے، جس سے اس کو راحت میسر آتی ہے۔ بعض کے نزدیک سبات کے معنی تمدد پھیلنے کے ہیں نیند میں انسان دراز ہو جاتا ہے اس لیے اسے سبات کہا۔ ایسر التفاسیر  و فتح القدیر۔

٤٧۔ (۳) یعنی نیند، جو موت کی بہن ہے، دن کو انسان اس نیند سے بیدار ہو کر کاروبار اور تجارت کے لئے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صبح بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانا بَعْدَ مَا اَمَاتَنا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ) ” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اکٹھے ہونا ہے "۔

٤٨۔ طَھُور فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسی چیزیں جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے جیسے وضو کے پانی کو وضو اور ایندھن کو وقود کہا جاتا ہے اس معنی میں پانی طاہر خود بھی پاک اور مطہر دوسروں کو پاک کرنے والا بھی ہے حدیث میں بھی ہے ان الماء طہور لا ینجسہ شیء ابوداؤد۔ ذائقہ بدل جائے تو ایسا پانی ناپاک ہے کما فی الحدیث

۵۰۔(۱)  یعنی قرآن کریم کو اور بعض نے صٓرفناہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے جس کا مطب یہ ہو گا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں کبھی دوسرے علاقے میں حتی کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت و مشیت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں کبھی کسی اور علاقے میں۔

 ٥٠۔ (۲)  اور ایک کفر ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔

۵۱۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

٥٢۔ جاھدھم بہ میں ھا ضمیر کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں یہ آیت مکی ہے ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرو نواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر و توبیخ اور وعیدیں ہیں وہ واضح کریں۔

٥٣۔ (۱) آپ شیریں کو فرات کہتے ہیں، فَرَات کے معنی کاٹ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کر دیتا ہے۔ اُجَاج، سخت کھاری یا کڑوا۔

۵۳۔ (۲)  جو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتی بعض نے حجرا محجورا کے معنی کیے ہیں حراما محرما ان پر حرام کر دیا گیا ہے کہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہو جائے اور بعض مفسرین نے مرج البحرین کا ترجمہ کیا ہے خلق المائین دو پانی پیدا کیے ایک میٹھا اور دوسرا کھاری میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اور ایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے یہ سمندر ساکن ہیں البتہ ان میں مد و جزر ہوتا رہتا ہے اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے اس کے ذائقے رنگ یا بو میں تبدیلی آ جاتی ہے کھاری پانی خراب نہیں ہوتا نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا تو اس میں بدبو پیدا ہو جاتی جس سے انسانوں اور حیوانوں کا زمین میں رہنا مشکل ہو جاتا اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑ جاتے ہیں لیکن اللہ نے ان میں ملاحت نمکیات کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے حتی کہ ان کا مردار بھی حلال ہے کما فی الحدیث۔ موطا امام مالک۔ ابن ماجہ

٥٤۔ نسب سے مراد رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اور صہرا سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتہ داریوں کی تفصیل آیت حُرِمَتْ عَلَیْکُمْ (النساء۔ ٢٣) (اور النسا، ٢٢) میں بیان کر دی گئی ہے اور رضائی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ البخاری و مسلم۔

٥٧۔ یعنی یہی میرا اجر ہے کہ رب کا راستہ اختیار کر لو۔

٦٠۔ رَ حْمٰن، رَ حِیْم اللّٰہ کی صفات اور اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں لیکن اہل جاہلیت، اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدے کے آغاز پر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھوایا تو مشرکین مکہ نے کہا، ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے۔ بِاسْمِکَ اللَّھُمَّ! لکھو (سیرت ابن ہشام۔ (۲)۔٣١٧) مزید دیکھئے سورہ بنی اسرائیل،١١٠، الرعد۔٣٠ یہاں بھی ان کا رحمٰن کے نام سے بدکنے اور سجدہ کرنے سے گریز کرنے کا ذکر ہے۔

٦١۔ بروج۔ برج کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے لئے گئے ہیں۔ اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے۔ بعد کے مفسرین نے اس سے اہل نجوم کے مطابق بروج مراد لئے اور یہ بارہ برج ہیں، حمل،ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت اور یہ برج سات بڑے سیاروں کی منزلیں ہیں جن کے نام ہیں مریخ، زہرہ، عطارد، قمر، شمس، مشتری اور زحل۔ یہ کواکب (سیارے ) ان برجوں میں اس طرح اترتے ہیں جیسے یہ ان کے لئے عالی شان محل ہیں (ایسرالتفاسیر)

٦٢۔ یعنی رات جاتی ہے تو دن آ جاتا ہے اور دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے۔ دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد و مصالح محتاج وضاحت نہیں۔ بعض نے خِلْفَۃً کے معنی ایک دوسرے کے مخالف کے کئے ہیں یعنی رات تاریک ہے تو دن روشن۔

٦٣۔ سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترک بحث ہے۔ یعنی اہل ایمان، اہل جہالت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقع پر پرہیز اور گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔

٦٥۔ اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آ جائیں، اس لئے وہ عذاب جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کے باوجود اللہ کے عذاب اور اس کے مؤاخذے سے انسان کو بے خوف اور اپنی عبادت و اطاعت الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ والذین یؤتون ما اتوا و قلوبھم وجلۃ انھم الی ربھم رجعون۔ المومنون۔ اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انہیں بارگاہ الہی میں حاضر ہونا ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں ؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انہیں اے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نا مقبول نہ ہو جائیں۔ الترمذی۔

٦٧۔ اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سے تجاوز بھی اسراف میں آ سکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔

٦٨۔(۱)  اور حق کے ساتھ قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں، اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے، جسے ارتداد کہتے ہیں، یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کر دے۔ ان صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔

٦٨۔ (۲)  حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا، کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا۔ یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے در آں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے ؟فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، اس نے پوچھا، پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (البخاری، تفسیر سورۃ البقرۃ)

٧٠۔ (۱)  اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، اور سورہ نساء کی آیت ٩٣ میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر معمول ہو گی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کئے فوت ہو گیا۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نے بھی خالص توبہ کی تو اللہ نے اسے معاف فرمایا (صحیح مسلم)

٧٠۔ (۲)  اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرما دیتا ہے اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلے کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑتا تھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے معنی یہ ہوئے کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے اس کی تائید حدیث میں بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا ہے اور سب آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہو گا۔ یہ وہ آدمی ہو گا کہ قیامت کے دن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے، بڑے ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ ہاں میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہو گی، علاوہ ازیں وہ اس بات سے بھی ڈر رہا ہو گا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کئے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا تیرے لئے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی مہربانی دیکھ کر کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہو گئے (صحیح مسلم)

٧١۔ پہلی توبہ کا تعلق کفر و شرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔

٧٢۔ (۱) زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً، گانا اور دیگر بے ہودہ جاہلانہ رسوم و افعال، سب اس میں شامل ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔

٧٢۔ (۲)  لَغْو ہر وہ بات اور کام ہے، جس میں شرعاً کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت اور وقار سے گزر جاتے ہیں۔

٧٣۔ یعنی وہ ان سے اعراض و غفلت نہیں برتتے جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں یا اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں۔ بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انہیں آویزہ گوش اور حرز جان بناتے ہیں۔

۷٤۔(۱) ۱ یعنی انہیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔

٧٤۔ (۲) یعنی ایسا اچھا نمونہ کہ خیر میں وہ ہماری پیروی کریں۔

٧٧۔ (۱) دعا و التجا کا مطلب، اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے، اگر یہ نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت، اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔

٧٧۔ (۲)  اس میں کافروں سے خطاب ہے کہ تم نے اللہ کو جھٹلا دیا، سو اب اس کی سزا بھی لازماً تمہیں چکھنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں یہ سزا بدر میں شکست کی صورت میں انہیں ملی اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انہیں دو چار ہونا پڑے گا۔

٭٭٭

 

سورۃ شعراء

٣۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لئے جو تڑپ تھی، اس میں اس کا اظہار ہے۔

٤۔ یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہو جاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لئے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیاء و رسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔

 ٦۔ یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزاء و مذاق کرتے ہیں یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں بصورت دیگر آخرت میں تو اس سے کسی صورت چھٹکارا نہیں ہو گا ماکانوا عنہ معرضین نہیں کہا بلکہ ماکانوا بہ یستھزؤن کہا کیوں کہ استہزا ایک تو اعراض و تکذیب کو بھی مستلزم ہے دوسرے یہ اعراض و تکذیب سے زیادہ بڑا جرم ہے۔ فتح القدیر۔

٧۔ زَوْجٍ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کئیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کے لئے بہتر اور فائدے مند ہیں۔ جیسے غلہ جات ہیں پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔

٨۔ (۱) یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کر سکتا ہے، تو کیا انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔

٨۔ (۲)  یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔

٩۔ یعنی ہر چیز پر اس کا غلبہ اور انتقام لینے پر وہ ہر طرح قادر ہے لیکن چونکہ وہ رحیم بھی ہے اس لئے فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ پوری مہلت دیتا ہے اور اس کے بعد مؤاخذہ کرتا ہے۔

١٠۔ یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آ رہے تھے، راستے میں انہیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں نبوت سے سرفراز کر دیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ ان کو سونپ دیا گیا۔

١٣۔ (۱) اس خوف سے کہ وہ نہایت سرکش ہے، میری تکذیب کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ طبع خوف انبیاء کو بھی لا حق ہو سکتا ہے۔

١٣۔ (۲)  یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام زیادہ بول نہیں سکتے تھے۔ یا اس طرف کہ زبان پر انگارہ رکھنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہو گئی تھی، جسے اہل تفسیر بیان کرتے ہیں۔

١٣۔ (۳) یعنی ان کی طرف جبرائیل علیہ السلام کو وحی دے کر بھیج اور انہیں بھی نبوت سے سرفراز فرما کر میرا معاون بنا۔

١٤۔ یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غیر ارادی طور پر ہو گیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لیے فرعوں اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعہ پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینے کی کوشش کرے۔ اس لئے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔

١٥۔ (۱) اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام ان کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے، جیسے یدِ بیضا اور عصا۔

١٥۔ (۲)  یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہوں گے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضہ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بے پرواہ نہیں ہو جائیں گے بلکہ نصرت و معاونت ہے۔

١٧۔ یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے ) بنی اسرائیل غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کر دے تاکہ میں انہیں شام کی سرزمین پر لے جاویں، جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

١٨۔ (۱) فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کی بجائے، ان کی جوابدہی کرنی شروع کر دی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے ؟

١٨۔ (۲)  بعض کہتے ہیں کہ ١٨ سال فرعون کے محل میں بسر کئے، بعض کے نزدیک ٣٠ سال اور بعض کے نزدیک چالیس سال یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزرانے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا؟

١٩۔ پھر ہمارا ہی کھا کر ہماری ہی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ہماری ناشکری بھی کی۔

٢٠۔ یعنی یہ قتل ارادتاً نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا تھا، اس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔

٢١۔ یعنی پہلے جو کچھ ہوا، اپنی جگہ، لیکن اب میں اللہ کا رسول ہوں، اگر میری اطاعت کرے گا تو بچ جائے گا، بصورت دیگر ہلاکت تیرا مقدر ہو گی۔

٢٢۔ یعنی یہ اچھا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہا ہے کہ مجھے تو یقیناً تو نے غلام نہیں بنایا اور آزاد چھوڑے رکھا لیکن میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس ظلم عظیم کے مقابلے میں اس احسان کی آخر حیثیت کیا ہے ؟

٢٣۔ یہ اس نے بطور دریافت کے نہیں، بلکہ جواب کے طور پر کہا، کیونکہ اس کا دعویٰ تو یہ تھا (مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہِ غَیْرِیْ) (القصص۔ ٣٨) ” میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود جانتا ہی نہیں "

٢٥۔ یعنی کیا تم اس کی بات پر تعجب نہیں کرتے کہ میرے سوا بھی کوئی اور معبود ہے ؟

٢٨۔ یعنی جس نے مشرق کو مشرق بنایا، جس سے کواکب طلوع ہوتے ہیں اور مغرب کو مغرب بنایا جس میں کواکب غروب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے، ان سب کا رب اور ان کا انتظام کرنے والا بھی وہی ہے۔

٢٩۔ فرعون نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کامل کی وضاحت کر رہے ہیں جس کا کوئی معقول جواب اس سے نہیں بن پا رہا ہے۔ تو اس نے دلائل سے صرف نظر انداز کر کے دھمکی دینی شروع کر دی اور موسیٰ علیہ السلام کو قید کرنے سے ڈرایا۔

٣٠۔ یعنی ایسی چیز یا معجزہ جس سے واضح ہو جائے کہ میں سچا اور واقعی اللہ کا رسول ہوں، تب بھی تو میری صداقت کو تسلیم نہیں کرے گا؟

٣٢۔ بعض جگہ ثعبان کو حیۃ اور بعض جگہ جان کہا گیا ہے ثعبان وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں او حیۃ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ واللہ اعلم

٣٣۔ یعنی گریبان سے ہاتھ نکالا تو چاند کے ٹکڑے کی طرح چمکتا تھا ؛ یہ دوسرا معجزہ موسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا۔

٣٤۔ فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے جھٹلانے اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بابت کہا کہ یہ کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔

٣٥۔ پھر اپنی قوم کو مزید بھڑکانے کے لئے کہا کہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اب بتلاؤ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔

٣٧۔ یعنی ان دونوں کو فی الحال اپنے حال پر چھوڑ دو، اور تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کر کے ان کا باہمی مقابلہ کیا جائے تاکہ ان کے کرتب کا جواب اور تیری تائید و نصرت ہو جائے۔ اور یہ اللہ ہی کی طرف سے سب انتظام تھا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں اور دلائل کا بہ چشم خود مشاہدہ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے۔

٣٨۔ چنانچہ جادوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد مصر کے اطراف و جوانب سے جمع کر لی گئی، ان کی تعداد ١٢ ہزار، ١٧ ہزار ۱۹ ہزار، ٣٠ ہزار اور ٨٠ ہزار (مختلف اقوال کے مطابق) بتلائی جاتی ہے۔ اصل تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ کسی مستند مأخذ میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات اس سے قبل سورہ اعراف، سورہ طہ میں بھی گزر چکی ہیں گویا فرعون کی قوم قبط نے اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھانا چاہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا چنانچہ کفر و ایمان کے معرکے میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کفر خم ٹھونک کر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے تو ایمان کو اللہ تعالیٰ سرخروئی اور غلبہ عطا فرماتا ہے۔ جس طرح فرمایا، بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق۔ الانبیاء۔ بلکہ ہم سچ کو چھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں پس وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے۔

٣٩۔ یعنی عوام کو بھی تاکید کی جا رہی ہے کہ تمہیں بھی یہ معرکہ دیکھنے کے لئے ضرور حاضر ہونا ہے۔

٤٣۔ حضرت موسیٰ علیہ کی طرف سے جادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کے لئے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کے پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سے خوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہو جائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

٤٤۔ جیسا کہ سورہ اعراف اور طٰہٰ میں گزرا کہ ان جادوگروں نے اپنے خیال میں بہت بڑا جادو پیش کیا،۔ سحروا أعین الناس واسترھبوھم وجاؤا بسحر عظیم۔ سورہ الاعراف۔ حتیٰ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے دل میں خوف محسوس کیا،۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ طہ۔ چنانچہ ان جادوگروں کو اپنی کامیابی اور برتری کا بڑا یقین تھا، جیسا کہ یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔ چنانچہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ اس نے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر لی اور ایک ایک کر کے ان سارے کرتبوں کو نگل گیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٤٩۔ (۱) فرعون کے لئے یہ واقعہ بڑا عجیب اور نہایت حیرت ناک تھا جن جادوگروں کے ذریعے وہ فتح و غلبہ کی آس لگائے بیٹھا تھا وہی نہ صرف مغلوب ہو گئے بلکہ موقع پر ہی وہ اس رب پر ایمان لے آئے، جس نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غور و فکر سے کام لیتا اور ایمان لاتا، اس نے مکابرہ اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا اور کہا کہ تم سب اسی کے شاگرد لگتے ہو اور تمہارا استاد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے ذریعے سے تم ہمیں یہاں سے بے دخل کر دو۔ ان ھذا لمکر مکرتموہ فی المدینۃ لتخرجوا منہا اھلھا۔ الاعراف۔

٤۹۔ (۲)  الٹے طور پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کا مطلب دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر ہے۔ اس پر سولی مستزاد یعنی ہاتھ پیر کاٹنے سے بھی اس کی آتش غضب ٹھنڈی نہ ہوئی مزید اس نے سولی پر لٹکانے کا اعلان کیا۔

٥٠۔ لاضیر۔ کوئی حرج نہیں یا ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ یعنی اب جو سزا چاہے دے لے، ایمان سے نہیں پھر سکتے۔

٥١۔ أوَّلُ الْمُئْومِنِیْنَ اس اعتبار سے کہا کہ فرعون کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور انہوں نے قبول ایمان میں سبقت کی۔

٥٢۔ جب مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قیام لمبا ہو گیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کر دی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔

٥٤۔ یہ بطور تحقیر کے کہا، ورنہ ان کی تعداد چھ لاکھ بتلائی جاتی ہے۔

٥٥۔ یعنی میری اجازت کے بغیر ان کا یہاں سے فرار ہونا ہمارے لئے غیظ و غضب کا باعث ہے۔

۵ ٦۔۱ اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔

٥٨۔ یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا، کہ پلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا نصیب ہی نہیں ہوا، یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت سے انہیں تمام نعمتوں سے محروم کر کے ان کا وارث دوسروں کو بنا دیا۔

٥٩۔ یعنی جو اقتدار اور بادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کر دی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیاوی جاہ جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیونکہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورہ دخان میں فرمایا کہ ” ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا ” (أیسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورہ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آ گئی ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہو گی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ مؤخر کر کے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں واللہ اعلم۔

٦٠۔ یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ نبی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔

٦١۔ یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ، گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے ؟ اب دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہو گی۔

٦٢۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقیناً نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔

٦٣۔ (۱) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ راہنمائی اور نشان دہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں طرف اور بائیں طرف کا پانی بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ راستہ بن گیا کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے واللہ عالم۔

۶۳۔ (۲)  فرق قطعہ بحر، سمندر کا حصہ طور پہاڑ۔ یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم فرعون سے نجات پالے اس تائید الہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔

٦٤۔ اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کر دیا۔

٦٦۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی اور فرعون اور اس کا لشکر جب انہی راستوں سے گزرنے لگا تو ہم نے سمندر کو دوبارہ حسب دستور رواں کر دیا، جس سے فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔

٦٧۔ یعنی اگرچہ اس واقعے میں، جو اللہ کی نصرت و معاونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔

٧١۔ یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔

٧٣۔ یعنی اگر تم ان کی عبادت ترک کر دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں ؟

٧٤۔ جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے تو یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کر لیا۔ کہ ہمارے آبا و اجداد سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔

٧٥۔ افرائیتم کے معنی ہیں فھل أبصٓرتم وتفکرتم کیا تم نے غور و فکر کیا؟

٧٦۔ اس لئے کہ تم سب اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے والے ہو۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جن کی تم اور تمہارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں، وہ سب معبود میرے دشمن ہیں یعنی ان سے بیزار ہوں۔

 ٧٧۔ یعنی وہ دشمن نہیں، بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے۔

٧٨۔ یعنی دین اور دنیا کے مصالح اور منافع کی طرف۔

٧٩۔ یعنی بہت سے اقسام کے رزق پیدا کرنے والا اور جو پانی ہم پیتے ہیں، اسے مہیا کرنے والا وہی اللہ ہے

٨٠۔ بیماری کو دور کر کے شفا عطا کرنے والا بھی وہی ہے یعنی دواؤں میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ ورنہ دوائیں بھی بے اثر ثابت ہوتی ہیں بیماری بھی اگرچہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ہی آتی ہے لیکن اس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی بلکہ اپنی طرف کی یہ گویا اللہ کے ذکر میں اس کے ادب و احترام کے پہلو کو ملحوظ رکھا۔

٨١۔ یعنی قیامت والے دن جب سارے لوگوں کو زندہ فرمائے گا، مجھے بھی زندہ کرے گا۔

٨٤۔ یہاں امید، یقین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہو گی اسی لئے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے عَسَیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خطیئتی، خطیئۃ واحد کا صیغہ ہے لیکن خطایا جمع کے معنی میں ہے انبیاء علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عفو و طلب ہوں گے۔

٨٣۔ حکم یا حکمت سے مراد علم و فہم، قوت فیصلہ، یا نبوت و رسالت یا اللہ کے حدود و احکام کی معرفت ہے۔

٨٤۔ یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں گے، وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثنائے حسن کی صورت میں بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں، کسی کو بھی ان کی عظمت و تکریم سے انکار نہیں ہے۔

٨٦۔ یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے واضح کر دیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کر دیا (التوبہ۔١١٤)

٨٧۔ یعنی تمام مخلوق کے سامنے میرا مؤاخذہ کر کے یا عذاب سے دوچار کر کے حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے، تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کے لئے مغفرت کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ! اس سے زیادہ میرے لئے رسوائی اور کیا ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے۔ پھر ان کے باپ کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا (صحیح بخاری)

٨٩۔ قلب سلیم یا بے عیب دل سے مراد وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔ یعنی کلب مومن۔ اس لئے کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں، بدعت سے خالی اور سنت پر مطمئن دل، بعض کے نزدیک دنیا کے مال متاع کی محبت سے پاک دل اور بعض کے نزدیک، جہالت کی تاریکیوں اور اخلاقی ذلالتوں سے پاک دل۔ یہ سارے مفہوم بھی صحیح ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کہ قلب مومن مذکورہ تمام برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔

٩١۔ مطلب یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے ان کو سامنے کر دیا جائے گا۔ جس سے کافروں کے غم میں اور اہل ایمان کے سرور میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

٩٣۔ یعنی تم سے عذاب ٹال دیں یا خود اپنے نفس کو اس سے بچالیں۔

٩٤۔ یعنی معبودین اور عابدین سب کو مال ڈنگر کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔

٩٥۔ اس سے مراد وہ لشکر ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔

٩٨۔ دنیا میں تو ہر تراشا ہوا پتھر اور، مشرکوں کو خدائی اختیارات کا حامل نظر آتا ہے۔ لیکن قیامت کو پتہ چلے گا کہ یہ کھلی گمراہی تھی کہ وہ انہیں رب کے برابر سمجھتے رہے۔

٩٩۔ یعنی وہاں جا کر احساس ہو گا کہ ہمیں دوسرے مجرموں نے گمراہ کیا۔ دنیا میں انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام گمراہی ہے۔ بدعت ہے شرک ہے تو نہیں مانتے نہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں کہ حق و باطل ان پر واضح ہو سکے۔

١٠١۔ گناہ گار اہل ایمان کی سفارش تو اللہ کی اجازت کے بعد انبیاء صلحاء بالخصوص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرمائیں گے۔ لیکن کافروں اور مشرکوں کے لئے سفارش کرنے کی کسی کو اجازت ہو گی نہ حوصلہ، اور نہ وہاں کوئی دوستی ہی کام آئے گی۔

١٠٢۔ اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اللہ کو خوش کر لیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔

١٠٣۔ (۱) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کے بارے میں اپنی قوم سے مناظرہ اللہ کی توحید کے دلائل، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

١٠٣۔ (۲)  بعض نے اس مرجع مشرکین مکہ یعنی قریش کو قرار دیا ہے یعنی ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔

۱٠٥۔ قوم نوح علیہ السلام نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح علیہ السلام نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

١٠٦۔ بھائی اس لئے کہا کہ حضرت نوح علیہ السلام ان ہی کی قوم کے ایک فرد تھے۔

١٠٧۔ یعنی اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے، وہ بلا کم و کاست تم تک پہنچانے والا ہوں، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا۔

١٠٨۔ یعنی میں تمہیں جو ایمان باللہ اور شرک نہ کرنے کی دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔

١٠٩۔ میں تمہیں جو تبلیغ کر رہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا، بلکہ اس کا اجر رب العالمین ہی کے ذمے ہے جو قیامت کو عطا فرمائے گا۔

١١٠۔ یہ تاکید کے طور پر بھی ہے اور الگ الگ سبب کی بنا پر بھی، پہلے اطاعت کی دعوت، امانت داری کی بنیاد پر تھی اور اب یہ دعوت اطاعت عدم طمع کی وجہ سے ہے۔

١١١۔ الارذلون، ارذل کی جمع ہے، جاہ و مال رکھنے والے، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں

١١٢۔ یعنی مجھے اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے کہ میں لوگوں کے حسب نسب، امارت و غربت اور ان کے پیشوں کی تفتیش کروں بلکہ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ایمان کی دعوت دوں اور جو اسے قبول کر لے، چاہے وہ کسی حیثیت کا حامل ہو، اسے اپنی جماعت میں شامل کر لوں۔

١١٣۔ یعنی ان کے ضمیروں اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔

١١٤۔ یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے دور کر دے، پھر ہم تیری جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔

١١٥۔ پس جو اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، چاہے دنیا کی نظر میں وہ شریف ہو یا رذیل، کمینہ ہو یا حقیر۔

١٢٠۔ یہ تفصیلات کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں اور کچھ آئندہ بھی آئیں گی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے باوجود ان کی قوم کے لوگ بد اخلاقی اور اعراض پر قائم رہے، بالآخر حضرت نوح علیہ السلام نے بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے کشتی بنانے کا اور اس میں مومن انسانوں، جانوروں اور ضروری سازو سامان رکھنے کا حکم دیا اور یوں اہل ایمان کو بچا لیا گیا اور باقی سب لوگوں کو حتیٰ کہ بیوی اور بیٹے کو بھی، جو ایمان نہیں لائے تھے، غرق کر دیا گیا۔

١٢٣۔ عاد، ان کے جد اعلیٰ کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑ گیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کے کَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔

١٢٤۔ ہود علیہ السلام کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے، جس کی طرف اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے انہیں اس قوم کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیاء و رسل کی یہ بشریت بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بے خبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولا ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔

١٢٨۔ ریع، ریعۃ، کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، درہ یا گھاٹی یہ ان گزر گاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو بلندی پر ایک نشانی مشہور ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف کھیل کود ہوتا تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف کھیل کود ہوتا ہے بیکار محض بے فائدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔

١٢٩۔ اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے، جیسے وہ ہمیشہ انہی محلات میں رہیں گے۔

١٣٠۔ یہ ان کے ظلم و تشدد اور قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔

١٣١۔ ١ جب ان کے اوصاف قبیحہ بیان کیئے جو ان کے دنیا میں انہماک اور ظلم و سرکشی پر دلالت کرتے ہیں تو پھر انہیں دوبارہ تقویٰ اور اپنی اطاعت کی دعوت دی۔

١٣٥۔ یعنی اگر تم نے اپنے کفر پر اصرار جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کا شکر ادا نہ کیا، تو تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا جاؤ گے۔ یہ عذاب دنیا میں بھی آ سکتا ہے اور آخرت تو ہے ہی عذاب و ثواب کے لئے۔ وہاں تو عذاب سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں ہو گا۔

١٣٧۔ یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات و روایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آباء و اجداد کار بند رہے، مطلب دونوں سورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔

١٣٨۔ جب انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم تو اپنا آبائی دین نہیں چھوڑیں گے، تو اس میں عقیدہ آخرت کا انکار بھی تھا۔ اس لئے انہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا اندیشہ تو اسے ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا اور روز جزا کو تسلیم کرتا ہے۔

١٣٩۔ قوم عاد، دنیا کی مضبوط ترین اور قوی ترین قوم تھی، جس کی بابت اللہ نے فرمایا (الَّتِیْ لَمْ یخْلَقُ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ) ” اس جیسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی ” یعنی جو قوت اور شدت و جبروت میں اس جیسی ہو۔ اس لئے یہ کہا کرتی تھی (مَنْ اَشد مِنَّا قُوَّہً) (حٰم السجدۃ۔ ١٥) ” کون قوت میں ہم سے زیادہ ہے ” لیکن جب اس قوم نے بھی کفر کا راستہ چھوڑ کر ایمان و تقویٰ اختیار نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کی صورت میں ان پر عذاب فرمایا جو مکمل سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہا۔ باد تند آتی اور آدمی کو اٹھا کر فضا میں بلند کرتی اور پھر زور سے سر کے بل زمین پر پٹخ دیتی۔ جس سے اس کا دماغ پھٹ اور ٹوٹ جاتا اور بغیر سر کے ان کے لاشے اس طرح زمین پر پڑے ہوتے گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ انہوں نے پہاڑوں، کھوؤں اور غاروں میں بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنا رکھی تھیں۔ پینے کے لئے گہرے کنوئیں کھود رکھے تھے، باغات کی کثرت تھی۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا گیا۔

١٤١۔ ١ ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

١٤٦۔ یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، نہ تمہیں موت آئے گی نہ عذاب؟ استفہام انکاری اور توبیخی ہے یعنی ایسا نہیں ہو گا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعے سے، جب اللہ چاہے گا، تم ان نعمتوں سے محروم ہو جاؤ گے اس میں ترغیب ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہے۔

١٤٨۔ یہ ان نعمتوں کی تفصیل ہے جن سے وہ بہرہ ور تھے، طلع، کھجور کے اس شگوفے کو کہتے ہیں جو پہلے پہل نکلتا یعنی طلوع ہوتا ہے، اس کے بعد کھجور کا یہ پھل بلح، پھر بسر، پھر رتب اور اس کے بعد تمر کہلاتا ہے۔ (ایسر التفاسر) باغات میں دیگر پھلوں کے ساتھ کھجور کا پھل بھی آ جاتا ہے لیکن عربوں میں چونکہ کھجور کی بڑی اہمیت ہے اس لیے اس کا خصوصی طور پر بھی ذکر کیا ھضیم کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں مثلاً لطیف اور نرم و نازک۔ تہ بہ تہ وغیرہ

١٤٩۔ فَارِھِیْنَ یعنی ضرورت سے زیادہ فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا فخرو غرور کرتے ہوئے، جیسے آجکل لوگوں کا حال ہے۔ آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخر و غرور کا اظہار بھی۔

١٥١۔ مُسْرِفِیْنَ سے مراد وہ رؤسا اور سردار ہیں جو کفر و شرک کے داعی اور مخالفت میں پیش پیش تھے۔

١٥٥۔ یہ وہی اونٹنی تھی جو ان کے مطالبے پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی ایک دن اونٹنی کے لئے اور ایک دن ان کے لئے پانی مقرر کر دیا گیا تھا، اور ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جو دن تمہارا پانی لینے کا ہو گا، اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی اور جو دن اونٹنی کے پانی پینے کا ہو گا، تمہیں گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔

١٥٦۔ دوسری بات انہیں یہ کہی گئی کہ اس اونٹنی کو کوئی بری نیت سے ہاتھ نہ لگائے، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ یہ اونٹنی اسی طرح ان کے درمیان رہی۔ گھاٹ سے پانی پیتی اور گھاس چارہ کھا کر گزارہ کرتی۔ کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود اس کا دودھ دوہتی اور اس سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

١٥٧۔ (۱) یعنی باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی، اللہ کی قدرت کی ایک نشانی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی، قوم ثمود ایمان نہیں لائی اور کفر و شرک کے راستے پر گامزن رہی اور اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ بالآخر قدرت کی زندہ نشانی ” اونٹنی ” کی کوچیں کاٹ ڈالیں یعنی اس کے ہاتھوں پیروں کو زخمی کر دیا، جس سے وہ بیٹھ گئی اور پھر اسے قتل کر دیا۔

١٥٧۔ (۲)  یہ اس وقت ہوا جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے، چوتھے دن تمہیں ہلاک کر دیا جائے گا اس کے بعد جب واقع عذاب کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئیں تو پھر ان کی طرف سے بھی اظہار ندامت ہونے لگا۔ لیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعد ندامت اور توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔

١٥٨۔ (۲)  یہ عذاب زمین سے زلزلے اور اوپر سے سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا، جس سے سب کی موت واقع ہو گئی۔

١٦٠۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہارون بن آزر کے بیٹے تھے۔ اور ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی زندگی میں نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم ” سدوم ” اور ” عموریہ ” میں رہتی تھی۔ یہ بستیاں شام کے علاقے میں تھیں۔

١٦٦۔ (۱) یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لئے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بد فعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بد فعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کر لیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مزاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد عورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضامندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بد فعلی کرنا کیونکر گناہ اور ناجائز ہو سکتا ہے۔؟ اعاذنا اللہ منہ

 ٦٦۱۔ (۲)  عادون۔ عاد کی جمع ہے عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کو فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے حد سے تجاوز کیا۔

١٦٧۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے وعظ نصیحت کے جواب میں انہوں نے کہا تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہیں دیں گے۔

١٦٨۔ یعنی میں اسے پسند نہیں کرتا اور اس سے سخت بیزار ہوں۔

١٧١۔ اس سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی بوڑھی بیوی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، چنانچہ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کر دی گئی۔

۱۷۴۔ ١ یعنی نشان زدہ کھنگر پتھروں کی بارش سے ہم نے ان کو ہلاک کیا اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا، جیسا کہ سورۃ ہود، ٨٢۔٨٣ میں بیان ہے۔

١٧٦۔ اَیْکَۃَ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اور بستی ” مدین ” کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کے نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لے کر اس کی نواحی آبادی تک تھا جہاں ایک درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب علیہ السلام تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ چونکہ قوم نہیں بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا جس طرح کہ دوسرے انبیاء کے ذکر میں ہے البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے والی مدین اخاھم شعیبا۔ کالاعراف۔ بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ کی طرف لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے اوفوا لکیل والمیزان کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔

١٨١۔ یعنی جب تم لوگوں کو ناپ کر دو تو اسی طرح پورا دو، جس طرح لیتے وقت تم پورا ناپ کر لیتے ہو۔ لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو، کہ دیتے وقت کم دو اور لیتے وقت پورا لو!

۱۸۲۔۱ اسی طرح تول میں ڈنڈی مت مارو بلکہ پورا صحیح تول کر دو!

١٨٣۔ (۱) یعنی لوگوں کو دیتے وقت ناپ یا تول میں کمی مت کرو۔

۱۸۳۔ (۲)  یعنی اللہ کی نافرمانی مت کرو اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے بعض نے اس سے مراد وہ رہزنی لی ہے جس کا ارتکاب بھی یہ قوم کرتی تھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ ولاتقعدوا بکل صراط توعدون۔ الاعراف۔ راستوں میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے مت بیٹھو۔ ابن کثیر۔

۱۸٤۔۱ جبلۃ اور جبل مخلوق کے معنی میں ہے جس طرح دوسرے مقام پر شیطان کے بارے میں فرمایا۔ ولقد اضل منکم جبلا کثیراً۔ سورہ یسین۔ اس نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو گمراہ کیا اس کا استعمال بڑی جماعت کے لیے ہوتا ہے۔ وھو الجمع ذو العدد الکثیر من الناس۔ فتح القدیر۔

١٨٦۔ یعنی تو جو دعوا کرتا ہے کہ مجھے اللہ نے وحی و رسالت سے نوازا ہے، ہم تجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں، کیونکہ تو بھی ہم جیسا انسان ہے۔ پھر تو اس شرف سے مشرف کیونکر ہو سکتا ہے۔

١٨٧۔ یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی تہدید کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تو واقعی سچا ہے تو جا ہم تجھے نہیں مانتے، ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا کر دکھا!

١٨٨۔ یعنی تم جو کفر و شرک کر رہے ہو، سب اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس کی جزا تمہیں دے گا، اگر چاہے گا تو دنیا میں بھی دے دے گا، یہ عذاب اور سزا اس کے اختیار میں ہے۔

١٨٩۔ انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما دیا اور وہ اس طرح کے بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کر دی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس سائے تلے جمع ہو گئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہو گئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انہیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لئے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انہیں پکڑ لیا۔

١٩٣۔ کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے واقعات بیان کر کے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کر سکتا تھا؟ اس لئے یہ قرآن یقیناً اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ جبرائیل علیہ السلام لے کر آئے۔

١٩٤۔ (۱) دل کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ حواس باختہ میں دل ہے سب سے زیادہ ادراک اور حفظ کی قوت رکھتا ہے۔

١٩٤۔ (۲)  یعنی نزول قرآن کی علت ہے۔

١٩٦۔ یعنی جس طرح پیغمبر آخری زمان صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور و بعث کا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔

١٩٧۔ کیونکہ ان کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرح رجوع کرتے تھے۔ اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اور بتلانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟

١٩٩۔ یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے حمٰ السجدہ ٤٤ میں ہے۔

٢٠٠۔ یعنی سَلَکْنَاہُ میں ضمیر کا مرجع کفر و تکذیب اور جحود و عناد ہے۔

٢٠٣۔ لیکن مشاہدہ عذاب کے بعد مہلت نہیں دی جاتی، نہ اس وقت کی توبہ ہی مقبول ہے۔

٢٠٤۔ یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ۔

٢٠٧۔ یعنی اگر ہم نے انہیں مہلت دے دیں اور پھر انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لیں، تو کیا دنیا کا مال و متاع ان کے کچھ کام آئے گا؟ یعنی انہیں عذاب سے بچا سکے گا؟ نہیں یقیناً نہیں۔

٢٠٩۔ یعنی ارسال رسل اور انزار کے بغیر اگر ہم کسی بستی کو ہلاک کر دیتے تو یہ ظلم ہوتا، تاہم ہم نے ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق ہم نے پہلے ہر بستی میں رسول بھیجے، جنہوں نے اہل بستی کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور اس کے بعد جب انہوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو ہم نے انہیں ہلاک کیا۔ یہی مضمون بنی اسرائیل۔ ١٥ اور قصص۔٥٩ وغیرہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

٢١٢۔ ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے محفوظیت کا بیان ہے۔ ایک تو اس لئے کہ شیا طین کا قرآن لے کر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر و فساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سد باب ہے گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے، تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنا دیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر بجلی بن کر گرتے اور بھسم کر دیتے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔

٢١٤۔ پیغمبر کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یَا صَبَاحَا کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعہ سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہو گئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں، یقیناً ہم تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا، تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لئے بلایا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورہ تبت نازل ہوئی (صحیح بخاری) آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ کو بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کر لو میں وہاں تمہارے کام نہیں آ سکوں گا۔

٢١٩۔ یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔

٢٢٢۔ یعنی اس قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ شیطان تو جھوٹوں اور گنہگاروں (یعنی کاہنوں، نجومیوں وغیرہ) پر اترتے ہیں نہ کہ انبیاء صالحین پر۔

٢٢٣۔ یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کاہنوں کو آ کر بتلا دیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور بھی ملا لیتے ہیں۔

٢٢٦۔ شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اصول کی بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں، اسی قسم کے اشعار کے لئے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ "پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کر دے، شعر سے بھر جانے سے بہتر ہے ” (ترمذی و مسلم وغیرہ)

٢٢٧۔ (۱) اس سے ان شاعروں کو مستثنیٰ فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایماندار، عمل صلح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط اور تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سے عاری ہوں۔

٢٢٧۔ (۲)  یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعرا کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت کافروں کی شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کو فرماتے کہ ” ان (کافروں ) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں (صحیح بخاری)

٢٢٧۔ (۳) یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں ؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لئے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ” تم ظلم سے بچو! اس لئے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہو گا (صحیح مسلم)۔

٭٭٭

 

سورۃ نمل

 نَمْل،چیونٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورہ نمل کہا جاتا ہے۔

٣۔ یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہوں گے جو ہدایت کے طالب ہوں گے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کر لیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے، ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، در آں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔

٤۔ (۱) یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔

٤۔ (۲)  یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔

٧۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آ رہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔

٨۔ دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فَی النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَھَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے ) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے، کہ ” اگر اپنی ذات کو بے نقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ” (صحیح مسلم)

٩۔ درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔

١٠۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔

١١۔ (۱) یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرما لے

١١۔ (۲)  یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کر لیتا ہوں۔

١٢۔ (۱) یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیا گیا۔

١٢۔ (۲)  فِیْ تسْعِ آیَاتِ یعنی یہ دو معجزے ان ٩ نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان ٩ نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل، آیت۔١٠١ کا حاشیہ۔

١٣۔ مُبْصِرَۃً، واضح اور روشن یا اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے

١٤۔ یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔

۱۵۔۱ سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا یہ قصہ ہے انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے سچے رسول ہیں علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔

١٦۔ (۱) اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان علیہ السلام قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد)

١٦۔ (۲)  بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)

١٦۔ (۳) جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔

١٧۔ (۱) اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتیٰ کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لئے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔

١٧۔ (۲)  یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کر دیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔

١٨۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔

١٩۔ (۱) چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔

۱۹۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ جنت مومنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا صحابہ رضی اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی۔صحیح بخاری۔

٢٠۔ یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آ رہا  یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔

۲۲۔(۱)  احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا

٢٢۔ (۲)  سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعا (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے (فتح القدیر)

٢٣۔ (۱) یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آجکل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہو سکتی، حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔

٢٣۔ (۲)  کہا جاتا ہے کہ اس کا طول ٨٠ ہاتھ اور عرض ٤٠ ہاتھ اور انچائی ٣٠ ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔

٢٤۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیاء بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بے خبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے یہاں ہدہد نے حیرت و استعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لئے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔

٢٥۔ یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔

٢٧۔ مالک تو اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لئے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا، یہ واضح کرنے کے لئے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے ” چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ” (مسند احمد)

٢٨۔ یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔

٣١۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔

٣٣۔ (۱) یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پا مردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لئے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔

٣٣۔ (۲)  اس لئے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہو گا، بجا لائیں گے۔

٣٤۔ (۱) یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔

٣٤۔ (۲)  یعنی قتل و غارت گری کر کے اور قیدی بنا کر۔

٣٤۔ (۳) بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

٣٥۔ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سلیمان علیہ السلام کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقیناً اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت بغیر چارہ نہیں ہو گا۔

٣٦۔ (۱) یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کر سکتے ہو؟ یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔

٣٦۔ (۲)  یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔

۳۷۔(۱)  یہاں صیغہ واحد سے مخاطب کیا جب کہ اس سے قبل صیغہ جمع سے خطاب کیا تھا کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے کبھی امیر کو۔

 ٣٧۔ (۲)  حضرت سلیمان علیہ السلام نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لئے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طرز عمل اور اسوہ، حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔

٣٨۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے چنانچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کر دی۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انہیں مزید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔

٣٩۔ (۱) اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔

۳۹۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے تین یا چار گھنٹے میں طَے کر لے ایک طاقتور سے طاقتور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔

٣٩۔ (۳)  یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔

٤٠۔ یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔

٤١۔ (۱) یعنی اس کے رنگ روپ یا واضح و شکل شباہت میں تبدیلی کر دو۔

٤١۔ (۲)  یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟ دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں ؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہوتی ہے یا نہیں ؟

٤٢۔ (۱) رد و بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آ گئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور رد و بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا ” گویا یہ وہی ہے ” اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔

٤٢۔ (۲)  یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہو گئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہو گی۔

٤٣۔ یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لئے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی، یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان علیہ السلام نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا ؛ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے (فتح القدیر)

٤٤۔ (۱) یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا، جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہرے دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی دنیاوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلا دی جائے جس میں اللہ نے انہیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے چڑھا لئے۔ شیشے کا فرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لئے اس نے کپڑے سمیٹ لئے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہو گیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو ممرد کہا جاتا ہے اسی سے مراد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی ڈاڑھی مونچھ نہ ہو جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے۔فتح القدیر۔ لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کے معنی میں ہے یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔ ملحوظہ:ملکہ سبا بلقیس کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہو گیا تھا لیکن جب قرآن و حدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

٤٥۔ ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔

٤٦۔ یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح علیہ السلام نے یہ کہا۔

٤٧۔ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بد شگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے

٤۷۔ (۲)  یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا و تقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔فتح القدیر

٤٧۔ (۳)  یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔

٤٩۔ (۱) یعنی صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کا صفایا کر دیں۔

٤٩۔ (۲)  یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انہیں قتل کر گیا ہے۔

٥٠۔ (۱) ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبہ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگا دیں۔

٥٠۔ (۲)  یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ اسے بھی مَکَرْنَا مَکْراً کے طور پر تعبیر کیا گیا۔

٥٠۔ (۳) اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

٥١۔ یعنی ہم نے مذکورہ ٩ سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کر دیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہو سکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو ٩ افراد نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔

٥٤۔ (۱) یعنی لوط علیہ السلام کا قصہ یاد کرو، جب لوط علیہ السلام نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔

٥٤۔ (۲)  یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہوں گے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔

٥٥۔ (۱) یہ تکرار توبیخ کے لئے ہے کہ یہ بے حیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر فطری شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔

٥٥۔ (۲)  یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بے خبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔

٥٦۔ بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔

٥٧۔ یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی جو عذاب سے دو چار ہوں گے۔

٥٨۔ (۱) ان پر عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور کھنگرو کی بارش ہوئی۔

۵۸۔ (۲)  یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کر دی گئی لیکن وہ تکذیب و انکار سے باز نہیں آئے۔

٥٩۔(۱) جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کی رہنمائی کے لئے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔

۵۹۔ (۲)  یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق رازق اور مالک یہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہو سکتا ہے جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک خیر اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے مطلق بہتر کے معنی میں ہے اس لیے کہ معبودان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں۔

۶۰۔ (۱) یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں منفرد ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے با رونق باغات اگانے والا کون ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے ؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (مثلاً سورہ العنکبوت ٦۳)

۶۰۔ (۲)  یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ امن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ؟ (ابن کثیر)

۶۰۔ (۳)  اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔

٦١۔ (۱) یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔

٦١۔ (۲)  اس کی تشریح کے لئے دیکھیں سورہ الفرقان۔٥٣ کا حاشیہ۔

٦٢۔ (۱) یعنی وہی اللہ ہے جسے سختی کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ الا سراء۔ ٦٧ سورہ النمل۔٥٣

٦٢۔ (۲)  یعنی ایک امت کے بعد دوسری، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین تنگ ہونے کا شکوہ کرتی معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور سب کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں ہی مصروف و سرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔

٦٣۔ (۱) یعنی آسمانوں پر ستاروں کو درخشانی عطا کرنے والا کون ہے ؟ جن سے تم تاریکیوں میں راہ پاتے ہو، پہاڑوں اور وادیوں کا پیدا کرنے والا کون ہے جو ایک دوسرے کے لئے سرحدوں کا کام بھی دیتے ہیں اور راستوں کی نشان دہی کا بھی۔

٦٣۔ (۲)  یعنی بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں، جو بارش کی خوشخبری ہی نہیں ہوتیں، بلکہ ان سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں میں خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے۔

٦٤۔ (۱) یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔

٦٤۔ (۲)  یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے چھپے خزانے (غلہ جات اور میوے ) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے۔

٦٥۔ یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ منفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ” (صحیح بخاری) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہو گا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہو گا۔فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہو گا تو ایسا ایسا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)

(۱) یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔

٦٨۔ یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔

۷۱۔یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقیناً سچ ہے۔

 ٧٢۔ اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل اور اسیری کی شکل میں کافروں کو پہنچایا یا عذاب قبر ہے رَدِفَ، قرب کے معنی میں ہے، جیسے سواری کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے کو ردیف کہا جاتا ہے۔

٧٣۔ یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل و کرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے انکار کر کے ناشکری کرتے ہیں۔

 ٧٥۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لئے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لئے لکھ رکھا ہے، تو پھر اسے تباہ کر دیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں ؟

٧٦۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو۔ حتیٰ کہ انہیں، اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن کریم نے ان کے حوالے سے ایسی باتیں بیان فرمائیں، جن سے حق واضح ہو جاتا ہے اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلاف اور تفریق و انتشار کم ہو سکتا ہے۔

 ٧٧۔ ١ مومنوں کا اختصاص اس لئے کہ وہی قرآن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ انہیں میں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں جو ایمان لے آئے تھے۔

 ٧٨۔ یعنی قیامت میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کر کے حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا یا انہوں نے اپنی کتابوں میں جو تعریفیں کی ہیں، دنیا میں ہی ان کا پردہ چاک کر کے ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔

 ٧٩۔ یعنی اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دیں اور اسی پر اعتماد کریں، وہی آپ کا مددگار ہے۔

 ٨٠۔ یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ و نصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔

 ٨١۔ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انہیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔

 ٨٢۔ (۱) یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔

٨٢۔ (۲)  یہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور نکلنا ہے۔ (صحیح بخاری) دوسری روایت میں ہے ” سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہو گی، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہو گی، دوسری اس کے فوراً بعد ظاہر ہو جائے گی (صحیح بخاری)

 ٨٣۔ یا قسم قسم کر دیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔ یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو اِدھر اُدھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

 ٨٤۔ (۱) یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔

٨٤۔ (۲)  جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

 ٨٥۔ یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا کہ جسے وہ پیش کر سکیں۔ یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہوں گے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔

٨٦۔ تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لئے دوڑ دھوپ کر سکیں۔

 ٨٧۔ (۱) صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے پہلی پھونک میں ساری دنیا گھبرا کر بے ہوش اور دوسری پھونک میں موت سے ہم کنار ہو جائے گی اور تیسری پھونک میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکھٹے ہو جائیں گے۔ یہاں کون سا نفحہ مراد ہے ؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفخہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفخہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔

٨٧۔ (۲)  یہ مشتثنیٰ لوگ کون ہوں گے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔

 ٨٨۔ (۱) یہ قیامت والے دن ہو گا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔

٨٨۔ (۲)  یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہو گا جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کر دینے پر قادر ہے۔

 ٨٩۔ یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔

 ٩١۔ اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا ” حرمت والا ” کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا درخت کاٹنا حتّیٰ کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے (بخاری کتاب الجنائز)

 ٩٢۔ یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہو جائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔

٩٣۔ (۱) کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک دلیل قائم نہیں کر دیتا۔

۹۳۔ (۲)  ہم انہیں آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہو جائے اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لئے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔

٩٣۔ (۳)  بلکہ ہر چیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لئے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔

٭٭٭

 

سورۃ  قصص

٣۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کر دینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہو گا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔

٤۔ (۱) یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔

٤۔ (۲)  جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔

٤۔ (۳) اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔

٤۔(۴) جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہو گا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کر دیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقیناً ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے یہ خوش خبری منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہو گا جس کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہو گی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کر دیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کر دیا۔ (ابن کثیر)

 ٥۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق و مغرب کا وارث (مالک و حکمران) بنا دیا نیز انہیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔

 ٦۔ (۱) یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللہ اعلم۔

٦۔ (۲)  یعنی انہیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک و لشکر کی تباہی ہو گی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔

٧۔ (۱) وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیاء پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے موسیٰ علیہ السلام کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آ جاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں واقع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء)

٧۔ (۲)  یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہو جانے سے ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔

٧۔ (۳) یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے اور مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑ جائیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کر دیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں ؛ حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہ کئے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ علیہ السلام قتل والے سال پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سر و سامان پیدا فرما دیا۔ کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آ جائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہو گیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا۔ جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی و القاء کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو سمجھا دیا چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)

 ٨۔ (۱) یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔

٨۔ (۲)  یہ عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کر لیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث، ثابت ہوا۔

٨۔ (۳) یہ اس سے پہلے کی تعلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے ؟ اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کو ہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔

 ٩۔ (۱) یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لئے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔

٩۔ (۲)  کیونکہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔

 ٩۔ (۳) کہ یہ بچہ جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لئے سینکڑوں بچوں کو موت کی نید سلا دیا گیا ہے۔

 ١٠۔ (۱) یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ(خالی) ہو گیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ علیہ السلام کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بے قراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔

١٠۔ (۲)  یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ علیہ السلام کو بخیریت واپس لٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہو گا۔

 ١١۔ (۱) موسیٰ کی بہن کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا مریم بنت عمران تھیں نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔

١١۔ (۲)  چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّیٰ کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔

 ١٢۔ (۱) یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کر دیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

١٢۔ (۲)  یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے۔

۱۲۔ (۳)  چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔

 ١٣۔ (۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدہ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کو صحیح پرورش اور نگہداشت ہو سکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی گھر میں لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی، سبحان اللہ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ علیہ السلام کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ایک مرسل روایت میں ہے۔ اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے۔ (مراسیل ابی داؤد)

۱۳۔ (۲)  یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا (ہو سکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لئے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لئے شر کا پہلو ہو) البقرہ ۲۱٦ دوسرے مقام پر فرمایا (ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے ) (النساء ۱۹) اس لئے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کر لے کہ اسی میں اس کے لئے خیر اور حسن انجام ہے۔

 ١٤۔ حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔

 ١٥۔ (۱) اس سے بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا۔ جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔

١٥۔ (۲)  یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔

١٥۔ (۳) اسے شیطانی فعل اس لئے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقصد اسے ہرگز قتل کرنا نہیں تھا۔

١٥۔(۴) جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے وہ جو جو جتن کرتا ہے وہ بھی مخفی نہیں۔

 ١٦۔ یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاطت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لئے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انہیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انہیں قتل نہ کر دے۔

١٧۔ یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہو گا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔

 ١٨۔(۱) خائفا کے معنی ڈرتے ہوئے، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔

١٨۔ (۲)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو صریح بے راہ، یعنی جھگڑالو ہے۔

 ١٩۔ (۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ قطبی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔

١٩۔ (۲)  فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ علیہ السلام شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسیٰ، جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آ گئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ علیہ السلام ہے، اس نے جا کر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا عزم کر لیا۔

 ٢٠۔ یہ آدمی کون تھا؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم کا تھا جو در پردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ علیہ السلام کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔

 ٢١۔ (۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آ سکیں۔

٢١۔ (۲)  یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا مشورہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے ؟ کیونکہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انہیں راستے کی نشان دہی کی واللہ اعلم (ابن کثیر)

 ٢٢۔ چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔

۲۳۔(۱)  یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے (حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسرالتفاسیر) اور یہی حضرت شعیب علیہ السلام کا مسکن مبعث بھی تھا۔

٢٣۔ (۲)  دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں ؟۔ رعاء راع (چرواہا) کی جمع ہے۔

٢٣۔ (۳)  تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔

٢٣۔(۴) والد صاحب بوڑھے ہیں اس لئے وہ گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے نہیں آ سکتے

 ٢٤۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانوروں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آ کر مصروف دعا ہو گئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادت پر، قوت پر اور مال پر (الیسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔

 ۲۵۔(۱)  اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آ گئی۔ لڑکی کی شرم و حیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیاء و حجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لئے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

٢٥۔ (۲)  بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے وضاحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لئے یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب علیہ السلام کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جا کر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی ہمدردی پیدا ہوئی کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔

٢٥۔ (۳)  یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم و ستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔

 ٢٦۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایمان دار بھی، جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا اسی طرح جب میں اس کو بلا کر ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشان دہی کے لئے پیچھے سے پتھر کی کنکری مار دیا کر، واللہ اعلم (ابن کثیر)

 ٢٧۔ (۱) ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔

٢٧۔ (۲)  اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے

٢٧۔ (۳) یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہو گی۔

٢٧۔(۴) نہ جھگڑا کروں گا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔

 ٢٨۔ (۱) یعنی آٹھ سال بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔

٢٨۔ (۲)  یہ بعض کے نزدیک شعیب علیہ السلام یا برادر زادہ شعیب علیہ السلام کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان رشتہ ازدواجی قائم ہو گیا۔ باقی تفصیلات کا اللہ نے ذکر نہیں کیا۔ ویسے تو اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کے لئے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔

 ٢٩۔ (۱) حضرت ابن عباس نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا۔

٢٩۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔

 ٣٠۔ (۱) یعنی آواز وادی کے کنارے سے آ رہی تھی، جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف تھی، یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے جو دراصل رب کی تجلی کا نور تھا۔

٣٠۔ (۲)  یعنی اے موسیٰ! تجھ سے جو اس وقت مخاطب اور ہم کلام ہے، وہ میں اللہ ہوں رب العالمین۔

 ٣١۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے جب موسیٰ علیہ السلام کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پھنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لئے بطور دلیل یہ معجزہ انہیں عطا فرمایا ہے۔

 ٣٢۔ (۱) یہ ید بیضاء دوسرا معجزہ تھا جو انہیں عطا کیا گیا۔

٣٢۔ (۲)  لاٹھی کا اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کرو یعنی بغل میں دبا لیا کرو جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہو جائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقتداء میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

 ۳۲۔ (۳)  یعنی فرعون اور اس کی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔

 ٣٣۔ یہ خطرہ تھا جو واقع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہو چکا تھا۔

۳٤۔ اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں ؟ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں حضرت ہارون علیہ السلام فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ ردءا کے معنی ہیں معین، مددگار تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون علیہ السلام اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔

 ۳۵۔(۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کر لی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنا دیا گیا۔

۳۵۔ (۲)  یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

٣٥۔ (۳)  یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً، المائدہ۔ ٦٧، الا حزاب۔٣٩ المجادلہ۔ ٢١ المو من۔٥١،٥٢۔

 ٣٦۔ یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے مشرکین مکہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کہا تھا ” اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کر کے ) ایک ہی معبود بنا دیا ہے ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے "۔

 ٣٧۔(۱)  یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لئے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہو گی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی۔

٣٧۔ (۲)  اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا

۳۷۔ (۳)  ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں، کیونکہ ظلم کے معنی ہیں۔ وضع الشئ فی غیر محلہ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوشحالی اور مال و اسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوشحالی و فراوانی۔

 ٣٨۔ (۱) یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر، ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔

٣٨۔ (۲)  یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے۔

۳۸۔ (۳)  یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جو یہ دعوی کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

 ٣٩۔ زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا، یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے دلائل معجزات کا رد کر سکتے لیکن استکبار بلکہ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔

 ٤٠۔ یعنی جب ان کا کفر و طغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا۔

 ٤١۔ یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام و پیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔

٤۲۔ یعنی دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بد حال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔

 ٤٣۔(۱)  یعنی فرعون اور اس کی قوم یا نوح و عاد و ثمود وغیرہ قوم کی ہلاکت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو کتاب (تورات) دی۔

٤٣۔ (۲)  جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔

٤٣۔ (۳) یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر و رشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔

 ٤٤۔ یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور اسے وحی و رسالت سے نوازا، اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تو نہ وہاں موجود تھا اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا۔ بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم نے وحی کے ذریعے سے تجھے بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا پیغمبر ہے۔ کیونکہ نہ تو نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں نہ خود ہی مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ آل عمران۔(۴)٤، سورہ ہود۔ ٤٩۔١٠٠، سورہ یوسف۔١٠٢، سورہ طٰہٰ۔ ٩٩ وغیرہ میں۔

٤٥۔(۱)  قرون، قرن کی جمع ہے، زمانہ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔

٤٥۔ (۲)  یعنی مراد ایام سے شرائع و احکام بھی متغیر ہو گئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور ان کے عہد کو فراموش کر دیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہو گئی کہ ایک نئے بنی کو مبعوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زماں کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لئے آپ کی نبوت پر انہیں تعجب ہو رہا ہے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

٤٥۔ (۳) جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہو جاتے۔

٤٥۔(۴) اور اسی اصول پر ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات و واقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔

٤٦۔ (۱) یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔

٤٦۔ (۲)  یعنی آپ کا علم، مشاہدہ روئیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔

٤٦۔ (۳) اس سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعث بنی اسرائیل کی طرف سے ہی ہوتی رہی بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے نبی تھے اور سلسلہ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے نہیں سمجھی گئی ہو گی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لئے کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لئے باقی نہیں چھوڑا ہے۔

 ٤٧۔ یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لئے ہم نے آپ کو ان کی طرف بھیجا ہے کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہو چکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات (قرآن و حدیث) کو مسخ ہونے اور تغیر و تحریف سے محفوظ رکھا اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس ” ضرورت ” کا  دعویٰ کر کے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔

 ٤٨۔(۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ

٤٨۔ (۲)  یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہو گئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر نہیں کیا۔

٤٨۔ (۳) پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہوں گے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)

٤٩۔ یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ قرآن مجید اور تورات دونوں جادو ہیں، تو تم کوئی اور کتاب الٰہی پیش کر دو، جو ان سے زیادہ ہدایت والی ہو، میں اس کی پیروی کروں گا، کیونکہ میں ہدایت کا طالب اور پیرو ہوں۔

 ٥٠۔ (۱) یعنی قرآن و تورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کر سکیں اور یقیناً نہیں کر سکیں گے۔

٥٠۔ (۲)  یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو ایسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

۵۱۔(۱) یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔

۵۱۔ (۲)  مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کر کے ایمان لے آئیں۔

 ٥٢۔ اس سے مراد یہودی ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام وغیرہ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہو گئے تھے (ابن کثیر)

۵۳۔ یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا اور ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاریٰ وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں ) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیاء کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔

۵٤۔(۱)  صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آ گیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔

۵٤۔ (۲)  یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔

 ۵۵۔(۱)  یہاں لغو سے مراد وہ سب و شتم اور دین کے ساتھ استہزاء ہے جو مشرکین کرتے تھے۔

٥٥۔ (۲)  یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک بول چال اور آمنا سامنا ہی ہے۔

 ٥٦۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمدرد اور غمگسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لاَ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کر سکوں۔ لیکن وہاں پر دوسرے رؤسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور راہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے اوپر چلا دینا یہ ہمارا کام ہے۔ ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں (صحیح بخاری)

۵۷۔ (۱) یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ و پیکار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا۔

٥٧۔ (۲)  یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے جب یہ شہر ان کے کفر و شرک کی حالت میں ان کے لئے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ ان کے لئے امن کی جگہ نہیں رہے گا؟

٥٧۔ (۳) یہ مکے کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکے میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فراوانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔

٥٨۔(۱)  یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لئے سستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔

٥٨۔ (۲)  یعنی ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان مکانوں اور مال و دولت کا وارث ہوتا۔

 ٥٩۔(۱)  یعنی تمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا، ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے زیر اثر میں آ جماتے رہے ہیں۔

٥٩۔ (۲)  یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر و شرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انہیں ہلاک کر دیا جاتا، یہی مضمون سورہ ہود۔١١٧ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

٦٠۔ کیا اس حقیقت سے بھی تم بے خبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے اپنے پاس جو نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی، حدیث میں ہے ” اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہو گا۔ (صحیح بخاری)

٦١۔ یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہو گا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔

 ٦٢۔ یعنی وہ بُت یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انہیں مدد کے لئے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں ؟ یہ تقریع و توبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہو گی؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورہ الانعام، آیت ۹٤ اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔

 ٦٣۔ یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور دعویٰ کفر و شرک وغیرہ وہ کہیں گے۔

۶۳۔ (۲)  یہ جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو دعویٰ کفر نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔

۶۳۔(۳)  یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کئے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنی سے اشارے پر ہماری طرح ہی انہوں نے بھی گمراہی اختیار کر لی۔

 ۶۳۔(۴) یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔

 ۶۳۔۵ بلکہ درحقیقت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کر دیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔

٦٤۔ (۱) یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ پس وہ پکاریں گے، لیکن وہاں کس کو یہ جرت ہو گی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں ؟

۶۴۔ (۲)  یعنی یقین کر لیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔

 ۶۴۔ (۳)  یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ سورہ کہف ٥۲،٥۳ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

 ٦٥۔ اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے ؟ تیرا دین کونسا ہے ؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے لیکن کافر کہتا ہے مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انہیں اس سوال کا جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لئے آگے فرمایا، ان پر تمام حبریں اندھی ہو جائیں گی، یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کر سکیں۔ یہاں دلائل کو احبار سے تعبیر کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لئے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص و حکایات ہیں، جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔

۶۶۔ کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہو گا کہ سب جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔

 ٦٨۔ یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائکہ کوئی مختار کل ہو۔

۷۳۔(۱) دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کر سکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ و دو اور کاروبار جہاں کے لئے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ لوگ جاگ کر مصروف تگ و تاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام و راحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون و تناصر کا محتاج ہے اس لئے اللہ نے رات کو تاریک کر دیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہو سکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کر سکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، اسے ہر شخص باآسانی سمجھتا اور اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اللہ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کر کے ہمیشہ کے لئے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے ؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لئے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کر سکتا ہے، جس میں تم آرام کر سکو؟نہیں یقیناً نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور انسان کسب و محنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔

 ٧٣۔ (۲)  یعنی اللہ کی حمد و ثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے ) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیں کو اس کے احکام و ہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے )

٧٥۔ (۱) اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کر دیں گے۔

٧٥۔ (۲)  یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔

٧٥۔ (۳) یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہوں گے، کوئی جواب اور دلیل انہیں نہیں سوجھے گی۔

۷۵۔(۴) یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔

 ٧٦۔ (۱) اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔

٧٦۔ (۲)  تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔

۷۶۔ (۳) یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔

۷۶۔(۴) یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

٧٧۔ (۱) یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر ثواب ملے گا۔

۷۷۔ (۲)  یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر مباحات دنیا کیا ہیں ؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔

۷۷۔ (۳)  اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر خرچ کر کے ان پر احسان کر۔

۷۷۔(۴) یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔

۷۸۔(۱)  ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب و تجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اس کا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اس کا کیا تعلق ہے ؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ‏، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے (انما أوتیتہ علی علم) (القصص ۷۸) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھذا لی) (حم سجدہ ٥۰) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔

 ٧٨۔ (۲)  یعنی قوت اور مال کی فراوانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اس لئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔

٧٨۔ (۳)  یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔

 ٧٩۔ (۱) یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔

٧٩۔ (۲)  یہ کہنے والے کون تھے ؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہو گئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔

 ٨٠۔ (۱) یعنی جن کے پاس دین کا علم تھا اور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لئے جو اجر و ثواب رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ فرماتا ہے ” میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ان کا ذکر ہوا ” (البخاری کتاب التوحید)

۸۰۔ (۲)  یعنی یلقاھا میں ھا کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہو گی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔

۸۱۔یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ایک آدمی اپنی ازار زمین پر لٹکائے جا رہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا،۔

٨٢۔ (۱) مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔

٨٢۔ (۲)  یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔

٨٢۔ (۳) یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

۸۳۔۱ علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیشی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔

 ٨٤۔ (۱) یعنی کم از کم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لئے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔

۸٤۔ (۲)  یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل و کرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہو گا۔

٨٥۔ (۱) یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔

۸۵۔ (۲)  یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا اور آپ ۸ ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔

۸۵۔ (۳)  یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟

 ٨٦۔ (۱) یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لئے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہو گا۔

٨٦۔ (۲)  یعنی نبوت و کتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی و کاوش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت و رسالت سے مشرف فرماتا رہا، جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سلسلہ الزہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا

٨٦۔ (۳) اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔

۸۷۔ یعنی ان کافروں کی باتیں، ان کی ایذاء رسانی اور ان کی طرف سے تبلیغ و دعوت کی راہ میں رکاوٹیں، آپ کو قرآن کی تلاوت اور اس کی تبلیغ سے نہ روک دیں۔ بلکہ آپ پوری تن دہی اور یکسوئی سے رب کی طرف بلانے کا کام کرتے رہیں۔

 ٨٨۔ (۱) یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر نیاز کے ذریعے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لئے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الا سباب طریقے سے پکارنا، ان سے استغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔

۸۸۔ (۲)  وجھہ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہو جانے والی ہے۔

۸۸۔ (۳)  یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔

۸۸۔(۴) تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دے۔

٭٭٭

 

سورۃ عنکبوت

٢۔ یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انہیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انہیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔

٣۔ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ” (صحیح بخاری) حضرت عمار، ان کی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال و مقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔

٤۔ (۱) یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آ سکیں گے۔

٤۔ (۲)  یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے ؟

۵۔(۱) یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر و ثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقیناً برپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہو گی۔

 ۵۔ (۲)  وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اس کے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقیناً دے گا۔

 ٦۔ یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہو گا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بے نیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہو گا اور سب نافرمان ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہو گی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔

٧۔ یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔

٨۔ (۱) قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انہیں ادا کر سکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

٨۔ (۲)  یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے ) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے "کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں "۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر ان کی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی

۹۔ یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہو گا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہو گا۔

۱۰۔(۱)  اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انہیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ایمان سے پھر جاتے اور دین عوام کو اختیار کر لیتے ہیں۔

 ۱۰۔ (۲)  یعنی مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہو جائے۔

۱۰۔ (۳)  یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (النساء ۱٤۱)

١٠۔(۴) یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔

۱۱۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہو جائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (ولنبلونکم حتی نعلم المجاھدین منکم والصابرین و نبلوأ اخبارکم) (سورہ محمد۳۱( ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ‏،۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا (ماکان اللہ لیذر المومنین علی مآ أنتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب) (سورہ آل عمران۱۷۹) نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔

١٢۔ (۱)  یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔

 ۱۲۔ (۲)  اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔قیامت کا دن تو ایسا ہو گا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔

١٣۔ یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہو گا جو ان کی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورۃ النحل میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہو گا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہو گا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہو گا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہوں گے۔، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہو گا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔

١٤۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ و اللہ اعلم۔

١٧۔ (۱)  اوثان وثن کی جمع ہے۔ جس طرح اصنام، صنم کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ تحلقون افکا کے معنی ہیں تکذبون کذبا، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں تعملونہا وتنحتونہا للافک، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے یہ بت تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں جب کہ ان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ ان میں خدائی اختیارات آ گئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کر کے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔

 ۱۷۔ (۲)  یعنی جب بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لا کر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔

۱۷۔ (۳)  یعنی مر کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟

 ١٨۔ (۱)  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول بھی ہو سکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی ہلاکت و تباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔

۱۸۔ (۲)  اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اس کی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

١٩۔ (۱)  توحید اور رسالت کے اثبات کے بعد یہاں معاد (آخرت) کا اثبات کیا جا رہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مر کر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام و نشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔

١٩۔ (۲)  یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔

٢٠۔ یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی انواع و اقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کئے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے ؟

 ٢١۔ یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی نہیں ہو گی بلکہ اصولوں کے مطابق ہو گی جو اس نے اس کے لئے طے کر رکھے ہیں۔

 ٢٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ” میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے ” لیکن آخر میں چونکہ دار الجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہو گا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہو گی، جیسے عمل کئے ہوں گے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بے لاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک و بد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو ان کی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہو گی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے نا امید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورہ اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ (فسأکتبہا للذین یتقون ویوتون الزکوٰۃ والذین ہم بآیاتنا یومنون) (الأعراف(۱)٥٦) میں یہ رحمت (آخرت میں ) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔

٢٤۔ (۱)  ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔ چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔

٢٤۔ (۲)  یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزرا۔

٢٥۔ (۱)  یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعیت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

٢٥۔ (۲)  یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کی بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔

٢٦۔ (۱)  حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی ” سدوم ” کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔

٢٦۔ (۲)  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط علیہ السلام نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوط علیہ السلام کے لئے اپنے علاقے ” کوٹی ” میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو گئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے، تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ تھیں۔

٢٧۔ (۱)  یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام ہوئے، جن سے بنی اسرئیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیاء ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل ہوا۔

۲۷۔ (۲)  اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتی کہ مشرکین بھی) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کے پیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہوں گے ؟

٢٧۔ (۳)  یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہوں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر بھی بیان کیا گیا ہے

٢٨۔ اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط علیہ السلام نے سب سے پہلے کیا جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔

٢٩۔ (۱)  یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اس کے لئے طبعی طریقے تمہارے لئے ناکافی ہیں اور غیر طبعی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لئے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لئے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر طبعی طریقہ ہے۔

٢٩۔ (۲)  اس کے ایک معنی تو یہ کیے گے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نو واردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بے حیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لئے راستوں سے گزرنا مشکل ہو گیا ہے، قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کئے گئے ہیں، یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کی بجائے مردوں کی دبر استعمال کر کے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئے ہو (فتح القدیر)

۲۹۔ (۳)  یہ بے حیائی کیا تھی؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلاً لوگوں کو کنکریاں مارنا، اجنبی مسافر کا استہزاء و استخفاف، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قمار بازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں،

۲۹۔ (۴) حضرت لوط علیہ السلام نے جب انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا۔

 ٣٠۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام قوم کی اصلاح سے نا امید ہو گئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی۔

٣١۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیج دیا۔ وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے اور انہیں اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط علیہ السلام کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔

٣٢۔ (۱)  یعنی ہمیں علم ہے کہ ظالم اور مومن کون ہیں اور اشرار کون؟

٣٢۔ (۲)  یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی۔ اس لئے اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔

٣٣۔ (۱)  لوط علیہ السلام نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انہیں ہو گیا تو وہ زبردستی بے حیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہو گی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔

٣٣۔ (۲)  فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی اور غم و رنج کی کیفیت کو دیکھا تو انہیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔

٣٤۔ اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے پھر ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبو دار بیحرہ (جھیل) میں تبدیل کر دیا گیا (ابن کثیر)

 ٣٥۔ (۱)  یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبو دار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں مگر کن کے لئے ؟ دانش مندوں کے لئے۔

۳۵۔ (۲)  اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب و عوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج و آثار کو دیکھتے ہیں کہ لیکن جو لوگ عقل و شعور سے بے بہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبح کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل و دانش سے بے بہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔

٣٦۔ (۱)  مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلے مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط علیہ السلام کی بستی کے قریب تھا۔

٣٦۔ (۲)  اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لئے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لئے کہ وہ اسے فراموش کئے ہوئے تھے اور مستیوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فرا موش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔

۳۶۔ (۳)  ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔

٣٧۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل علیہ السلام کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آ گئے اور ان کی موت واقع ہو گئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

٣٨۔ (۱)  قوم عاد کی بستی احقاف، حضرموت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آجکل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لئے یہ بستیاں ان کے لئے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔

٣٨۔ (۲)  یعنی تھے وہ عقلمند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لئے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔

 ٣٩۔ (۱)  یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان و تقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔

٣٩۔ (۲)  یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آ کر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ ” یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے ” بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر و عناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔

٤٠۔ (۱)  یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے گرفت کی۔

٤۰۔ (۲)  یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تند و تیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حصبا کا مصداق قوم لوط علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔

٤۰۔ (۳) حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے ان کی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔

٤٠۔(۴) یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کئے گئے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔

٤۰۔(۵) یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کر کے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا، بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔

٤٠۔ (٦)  یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لئے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لئے ہلاک ہوئیں کہ کفر و شرک اور تکذیب و معاصی کا ارتکاب کر کے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔

٤١۔ یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور نا پائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بے فائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آ سکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر نا پائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔

٤٣۔ (۱)  یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لئے۔

٤٣۔ (۲)  اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات و دلائل کا علم ہے جن پر غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔

 ٤٤۔(۱)   یعنی بے فائدہ اور بے مقصد نہیں۔

٤٤۔ (۲)  یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔

٤٥۔ (۱)  قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔

٤٥۔ (۲)  کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کر لے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کا اہتمام فرماتے۔

٤٥۔ (۳) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقیناً اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ان آداب و شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلاً اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیاً طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثاً با جماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعاً ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامساً خشوع و خضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادساً  مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعاً رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب و شرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بے حیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔

٤٥۔(۴) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلوٰۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔

٤٦۔ (۱)  اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔

٤٦۔ (۲) یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دیں۔

٤٦۔ (۳)  تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔

٤٧۔ (۱)  اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انہیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔

٤٧۔ (۲)  ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔

٤٨۔(۱)   اس لیے کہ ان پڑھ تھے

٤٨۔ (۲) اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔

٤٨۔ (۳) یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

٤٩۔ یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

٥٠۔ یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔

٥۱۔ (۱)  یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی طرح انہیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔

٥۱۔ (۲) یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیوں کہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

٥٢۔ (۱)  اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے یقیناً منجانب اللہ ہے۔

٥٢۔ (۲) یعنی غیر اللہ کی عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کا انکار کرتے ہیں۔

٥٢۔ (۳)  کیوں کہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے سودا کیا ہے کہ ایمان والوں کے بدل کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

٥٣۔ (۱)  یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔

٥٣۔ (۲)  یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقیناً اس لائق ہیں کہ انہیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا عذاب آ جاتا ہے۔

٥٣۔ (۳) یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آ جائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔

٥٤۔پہلا  یستعجلونک بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی یہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟ حالاں کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اسے دور کیوں سمجھتے ہیں ؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔

٥٥۔ یقول کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہو گا تو کہا جائے گا۔

٥٦۔ اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

٥۷۔یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آ جائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مرو گے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہو گے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔

٥٨۔ (۱)  یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہوں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہوں گی، علاوہ ازیں انہیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہو جائے گا۔

٥٨۔ (۲)  ان کے زوال کا خطرہ ہو گا نہ انہیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔

٥٩۔ (۱)  یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل و عیال اور عزیز و اقربا سے دوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔

٥٩۔ (۲)  دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔

٦٠۔ (۱)  کَاَیِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔

٦٠۔ (۲)  کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے، مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو جانے والے صحابہ کرام کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔

٦٠۔ (۳) یعنی کوئی کمزور ہے یا طاقتور، اسباب وسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر فاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔

٦٠۔(۴) وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال و افعال کو اور تمہارے ظاہر و باطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت و کمال ہے اور اسی کی معصیت میں بد بختی و نقصان۔

٦١۔ (۱)  یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے ؟ تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے

٦١۔ (۲)۔ یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔

٦٢۔ (۱)  یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو چاہتا کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضامندی یا غضب سے نہیں ہے۔

 ٦٢۔ (۲)  اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں ؟

٦٣۔ کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کے ساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندر یہ تمیز ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت و ربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔

٦٤۔ (۱)  یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا

٦٤۔ (۲) اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔

٦٤۔ (۳)  کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔

٦٥۔ مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس منافقت کو حضرت عکرمہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہو گئی۔ ان کے متعلق آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہو گئے تاکہ نبی کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ رب سے دعائیں کرو، اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں۔ حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ یعنی مسلمان ہو جاؤ گا چنانچہ یہاں سے نجات پا کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

٦٦۔ یہ لام کئی ہے جو علت کے لیے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

٦٧۔ (۱)  اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل و غارت اسیری لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں۔ جب کہ عرب کے دوسرے علاقے اس امن و سکون سے محروم ہیں قتل و غارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔

٦٧۔ (۲) یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر کی تصدیق کرتے۔

٦٨۔ (۱)  یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے در آں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ تو سراسر جھوٹ ہے۔

٦٨۔ (۲)  یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب ہے یہ دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔

٦٩۔ (۱)   یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں ٦٩۔ (۲) اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

٦٩۔ (۲)  احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔

٭٭٭

 

سُوْرَۃُ الرُّوْمِ

یہ سورت مکی ہے اس میں (٦٠) آیات اور (٦) رکوع ہیں

٥۔ عہد رسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جب کہ مسلمان کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لئے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر یقین رکھتے تھے، ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آ گئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں پیش گوئی کی گئی کہ رومی پھر غالب آ جائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہو جائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق نے ابوجہل سے یہ شرط باندھی کہ رومی پانچ سال کے اندر دوبارہ غالب آ جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا بِضْع کا لفظ تین سے دس تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے ٥ سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کر لو، چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ رومی ٩ سال کی مدت کے اندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آ گئے، جس سے یقیناً مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے، یعنی شام و فلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔

٦۔ یعنی اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آ جائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت مقررہ کے اندر یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔

٧۔ یعنی اکثر لوگوں کو دنیاوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چنانچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کے معاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اور پائیدار ہے۔ یعنی دنیا کے امور کو خوب پہچانتے اور دین سے بے خبر ہیں۔

٨۔ (۱)   یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بے مقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع وعریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقیناً اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک واحساس ہو جاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔

٨۔ (۲) اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔

٩۔ (۱)   یہ آثار کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔

٩۔ (۲)  یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔

٩۔ (۳) یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔

٩۔(۴) یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔

٩۔(٥) اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔

٩۔(٦) لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ لہذا تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔

٩۔(٧) کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا

٩۔(٨) یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کر کے۔

١٠۔ سوآی  بر وزن فعلی سوء سے اسوأ کی تانیث ہے جیسے حسنی احسن کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔

١١۔ (۱)   یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔

١١۔ (۲) یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔

١٢۔ ابلاس کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کر سکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو نا امیدی کے مفہوم سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہو گا جو نا امید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہو گا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہوں گے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرکین ہیں جیسے کہ اگلی آیت میں واضح ہے

١٣۔ (۱)   شریکوں سے مراد معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہو گا

 ١٣۔ (۲) یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہو جائیں گے کیوں کہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کر دیں گے کہ یہ لوگ انہیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بے خبر ہیں۔

١٤۔ اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہو جائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہو گا۔ چنانچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جا رہی ہے۔

١٥۔ یعنی انہیں جنت میں اکرام و انعام سے نوازا جائے گا، جن سے وہ مزید خوش ہوں گے۔

١٦۔ یعنی ہمیشہ اللہ کے عذاب کی گرفت میں رہیں گے

١٨۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح و تحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح و تحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہو جانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقات ہیں۔ تمسون میں مغرب و عشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آ جاتی ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح و شام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

١٩۔ (۱)   جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان اور مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا فرماتا ہے۔

١٩۔ (۲)  یعنی قبروں سے زندہ کر کے۔

٢٠۔١ذا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُو نَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔

٢١۔ (۱)   یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔

٢١۔ (۲) مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔

٢١۔ (۲)  مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔قاتلہم اللہ انی یؤفکون۔

٢٢۔ دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کر دینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتیّٰ کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔

٢٣۔ نیند کا باعث سکون و راحت ہونا چاہیے وہ رات کو ہو یا بوقت قیلولہ، اور دن کو تجارت و کاروبار کے ذریعہ سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے۔

٢٤۔ یعنی آسمان میں بجلی چمکتی ہے اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتیاں برباد نہ ہو جائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہو گی۔

٢٥۔ یعنی جب قیامت برپا ہو گی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہو جائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔

٢٦۔ یعنی اس کے تکوینی حکم کے آگے سب بے بس اور لاچار ہیں۔ جیسے موت و حیات، صحت و مرض، ذلت و عزت وغیرہ میں۔

٢٧۔ یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلیٰ اور برتر (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ)

٢٨۔ (۱)   یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا و صلحا ہوں یا شجر و حجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں ؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہو سکتی، دوسری بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔

٢٨۔ (۲) یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا

 ٢٨۔ (۳) کیوں کہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔

٢٩۔(۱)    یعنی اس حقیقت کا انہیں خیال ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بے بہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بے علمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیروکار ہیں۔

٢٩۔ (۲)  کیونکہ اللہ کی طرف سے ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب اور آرزو ہوتی ہے، جو اس طلب صادق سے محروم ہوتے ہیں، انہیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

٢٩۔ (۳) یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب پھیر دے۔

٣٠۔(۱)    یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور جھوٹے مذاہب کی طرف دھیان ہی نہ کریں

٣٠۔ (۲)  فطرت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔

٣٠۔ (۳) یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل و دماغ میں راسخ ہو جائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔

٣٠۔(۴)یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔

٣٠۔(۵)  اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔

٣١۔ یعنی ایمان تقویٰ اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔

٣٢۔ (۱)   یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کر کے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہو گیا۔

٣٢۔ (۲) یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہو گا۔

٣٤۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورہ عنکبوت کے آخر میں گزرا۔

٣٥۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ جن کو اللہ کا شریک گردانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، یہ بلا دلیل ہے، اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ بھلا اللہ تعالیٰ شرک کے اثبات و جواز کے لئے کس طرح کوئی دلیل اتار سکتا تھا۔ جب کہ اس نے سارے پیغمبر بھیجے ہی اس لئے تھے کہ وہ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات کریں۔ چنانچہ ہر پیغمبر نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید ہی کا وعظ کیا۔ اور آج اہل توحید مسلمانوں کو بھی نام نہاد مسلمانوں میں توحید و سنت کا وعظ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مسلمان عوام کی اکثریت شرک و بدعت میں مبتلا ہے۔

٣٦۔یہ وہی مضمون ہے جو سورہ ہود میں گزرا اور جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے کہ راحت میں وہ خوش ہوتے ہیں اور مصیبت میں نا امید ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ تکلیف میں صبر اور راحت میں اللہ کا شکر یعنی عمل صالح کرتے ہیں۔ یوں دونوں حالتیں ان کے لئے خیر اور اجر و ثواب کا باعث بنتی ہیں۔

٣٧۔ یعنی اپنی حکمت و مصلحت سے وہ کسی کو مال و دولت زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ عقل و شعور میں اور ظاہری اسباب و وسائل میں دو انسان ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں ایک جیسا ہی کاروبار بھی شروع کرتے ہیں لیکن ایک کے کاروبار کو خوب فروغ ملتا ہے اور اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، جب کہ دوسرے شخص کا کاروبار محدود ہی رہتا ہے اور اسے وسعت نصیب نہیں ہوتی۔ آخر یہ کون ہستی ہے جس کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ اس قسم کے تصرفات فرماتا ہے علاوہ ازیں وہ کبھی دولت فراواں کے مالک کو محتاج کر دیتا ہے اور محتاج کو مال و دولت سے نواز دیتا ہے اور یہ سب اسی ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

٣٨۔ (۱)   جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کے دروازے کھول دیتا ہے تو اصحاب ثروت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے ان کا حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں مستحق رشتے داروں، مسکین اور مسافروں کا رکھا گیا ہے۔ رشتہ دار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امداد کر کے ان پر احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔

٣٨۔ (۲)  یعنی جنت میں اس کے دیدار سے مشرف ہونا۔

٣٩۔ (۱)   یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فلایربوا عنداللہ) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہو گا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔

٣٩۔ (۲)  زکوٰۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا (صحیح مسلم)

٤١۔ خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ و بالا ہو جاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ اس لیے اس کا اطلاق معاصی و سیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل و خونریزی عام ہو گئی ہے اور ان ارضی و سماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط، کثرتِ موت، خوف اور سیلاب وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال و کردار کا رخ برائیوں کی جانب پھر جاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن و سکون ختم اور اس کی جگہ خوف و دہشت، سلب و  نہب اور قتل و غارت گری عام ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آ جائیں توبہ کر لیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہو جائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔

٤٢۔ شرک کا خاص طور پر ذکر کیا، کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر برائیوں سیأت و معاصی بھی آ جاتی ہے کیونکہ ان کا ارتکاب بھی انسان اپنے نفس کی بندگی ہی اختیار کر کے کرتا ہے اسی لئے اسے بعض لوگ عملی شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔

٤٣۔ (۱)   یعنی اس دن کے آنے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس لئے اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے پہلے اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کر لیں اور نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔

٤٣۔ (۲)  یعنی دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ایک مومنوں کا دوسرا کافروں کا۔

٤٤۔ مَھْد کے معنی راستہ ہموار کرنا، فرش بچھانا، یعنی یہ عمل صالح کے ذریعے سے جنت میں جانے اور وہاں اعلیٰ منازل حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔

٤٥۔ یعنی محض نیکیاں دخول جنت کے لئے کافی نہیں ہوں گی، جب تک ان کے ساتھ اللہ کا فضل بھی شامل حال نہ ہو گا پس وہ اپنے فضل سے ایک ایک نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے زیادہ بھی دے گا۔

٤٦۔ (۱)   یعنی یہ ہوائیں بارش کی پیامبر ہوتی ہیں۔

٤٦۔ (۲)  یعنی بارش سے انسان بھی لذت و سرور محسوس کرتا ہے اور فصلیں بھی لہلہا اٹھتی ہیں۔

 ٤٦۔ (۳)  یعنی ان ہواؤں کے ذریعے سے کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ مراد بادبانی کشتیاں ہیں اب انسان نے اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے دوسری کشتیاں اور جہاز ایجاد کر لیے ہیں جو مشینوں کے ذریعے سے چلتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے بھی موافق اور مناسب ہوائیں ضروری ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی طوفانی موجوں کے ذریعے سے غرق آب کر دینے پر قادر ہے۔

٤٦۔(۴) یعنی ان کے ذریعے سے مختلف ممالک میں جا کر تجارت و کاروبار کر کے۔

٤٦۔(۵) یعنی ظاہری و باطنی نعمتوں پر جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یعنی یہ ساری سہولتیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس لئے بہم پہنچاتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ کی بندگی و اطاعت بھی کرو!

٤٧۔ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) جس طرح ہم نے آپ کو رسول بنا کر آپ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح آپ سے پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے، ان کے ساتھ دلائل اور معجزات بھی تھے، لیکن قوموں نے ان کی تکذیب کی، ان پر ایمان نہیں لائے بالآخر ان کے اس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پر ہم نے انہیں اپنی سزا کا نشانہ بنایا اور اہل ایمان کی تائید و نصرت کی جو ہم پر لازم ہے یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار و مشرکین کی روش تکذیب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے۔ نیز کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو گذشتہ قوموں کا ہو چکا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی مدد تو بالآخر مومنوں ہی کو حاصل ہو گی، جس میں پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔ حقا کان کی خبر ہے جو مقدم ہے نصر المومنین اس کا اسم ہے۔

٤٨۔ (۱)   یعنی بادل جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں سے ہوائیں ان کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔

٤٨۔ (۲)  کبھی چلا کر کبھی ٹھہرا کر، کبھی تہ بہ تہ کر کے، کبھی دور دراز تک۔ یہ آسمانوں پر بادلوں کی مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں۔

٤٨۔ (۳) یعنی ان کو آسمان پر پھیلانے کے بعد کبھی ان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔

٤٨۔(۴) یعنی ان بادلوں سے اللہ اگر چاہتا ہے تو بارش ہو جاتی ہے جس سے بارش کے ضرورت مند خوش ہو جاتے ہیں

٥٠۔ آثار رحمت سے مراد غلہ جات اور میوے ہیں جو بارش سے پیدا ہوتے اور خوش حالی و فراغت کا باعث ہوتے ہیں۔ دیکھنے سے مراد نظر عبرت سے دیکھنا ہے تاکہ انسان اللہ کی قدرت کا اور اس بات کا قائل جائے کہ قیامت والے دن اسی طرح مردوں کو زندہ فرما دے گا۔

٥١۔ یعنی ان ہی کھیتوں کو جن کو ہم نے بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان کی ہریالی کو زردی میں بدل دیں، یعنی تیار فصل کو تباہ کر دیں تو یہی بارش سے خوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذرا سی ابتلا پر فوراً نا امید اور گریہ کنا ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی۔

٥٢۔ (۱)   یعنی جس طرح مردے فہم شعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ کی دعوت کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں۔

٥٢۔ (۲)  یعنی آپ کا وعظ و نصیحت ان کے لئے بے اثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔

٥٢۔ (۳)  یہ ان کے اعراض کی مزید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل و دماغ میں سما سکتی ہے۔

٥٣۔ (۱)   اس لئے کہ یہ آنکھوں سے کما حقہ فائدہ اٹھانے سے یا بصیرت (دل کی بینائی) سے محروم ہیں۔ یہ گمراہی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے کس طرح نکلیں ؟

٥٣۔ (۲)  یعنی یہی سن کر ایمان لانے والے ہیں، اس لئے کہ یہ اہل تفکر و تدبر ہیں اور آثار قدرت سے مؤثر حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔

٥٣۔ (۳) یعنی حق کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے اور اس کے پیرو کار۔

٥٤۔ (۱)   یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔

٥٤۔ (۲)  یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ ٥٤۔ (۳)  کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہو جاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہو جاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انہیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلاً امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات و اطوار سے گزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جا کر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم و نازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

٥٤۔ (۳) انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

٥٥۔ (۱)   ساعت کے معنی ہیں گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا کہ اس واقعہ کو جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہو جائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہو گی جو دنیا کی آخری گھڑی ہو گی۔

٥٥۔ (۲) دنیا میں یا قبروں میں یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے اس لیے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے ان کے علم میں ہی ہو گا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہو گا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انہیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔

٥٥۔ (۳)  اَفَکَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں۔ سچ سے پھر گیا، مطلب ہو گا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔

٥٦۔ (۱)   جس طرح یہ علماء دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔

٥٦۔ (۲)  کِتَا بِ اللّٰہِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ

 ٥٦۔ (۳) یعنی پیدائش کے وقت سے قیامت کے دن تک۔

٥٦۔(۴) کہ وہ آئے گی بلکہ استہزاء اور تکذیب کے طور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔

٥٧۔ یعنی انہیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ و اطاعت کے ذریعے سے عتاب الٰہی کا ازالہ کر لو۔

٥٨۔ (۱)   جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہے اور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا باطل ہونا نمایاں ہوتا ہے۔

٥٨۔ (۲)  وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ

٥٨۔ (۳) یعنی جادو وغیرہ کے پیروکار، مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سے واضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں ؟ اس کی وجہ آگے بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر و طغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کے تمام راستے ان کے لیے مسدود ہیں۔

٦٠۔ (۱)   یعنی ان کی مخالفت و عناد پر اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے، یقیناً حق ہے جو بہر صورت پورا ہو گا۔

٦٠۔ (۲)  یعنی آپ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کر دیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔

٭٭٭

 

سُوْرَۃُ لُقْمٰنَ

سورت مکی ہے اس میں (٣٤) آیات اور (٤) رکوع ہیں

١۔ اس کے آغاز میں بھی یہ حروف مقطعات ہیں جن کے معنی و مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو فوائد بڑے اہم بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب و تالیف پایا ہے جس کی مثل تالیف پیش کرنے سے عرب عاجز آ گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کا محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ مشرکین اپنے ساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سے فرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ یہ انداز بیان نیا اور اچھوتا تھا (ایسر التفاسیر) واللہ اعلم۔

٣۔١محسنین محسن کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ، دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار، تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اسطرح فرمایا۔

٤۔ نماز زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض و سنت رسول کے مطابق پابندی سے کرتے ہیں۔

٥۔ فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ اور مومنون کا آغاز۔

٦۔ (۱)   اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لھو الحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا ساز و سامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آ جاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آ جاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔

٦۔ (۲) ان تمام چیزوں سے یقیناً انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔

٦۔ (۳)  ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔

٧۔ یہ اس شخص کا حال ہے جو مذکورہ لہو و لعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن جاتا ہے حالاں کہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذاء محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کر دے۔

٩۔ یعنی یہ یقیناً پورا ہو گا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللّٰہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۔

١٠۔ (۱)   تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہوں گے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔

١٠۔ (۲)  رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔

١٠۔ (۳) یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔

١٠۔(۴) زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

١١۔ (۱)   ھٰذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کی ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گذشتہ آیات میں ذکر ہوا۔

١١۔ (۲) یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور انہیں مدد کے لیے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان و زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے ؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لیے پکارا جائے۔

١٢۔ (۱)   حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بے فائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر)

 ١٢۔ (۲)  شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔

١٣۔ (۱)   اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔

١٣۔ (۲)  یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو (الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم۔ کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ظلم عظیم ہے اور آیت (ان الشرک لظلم عظیم) کا حوالہ دیا۔ مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔

١٤۔ (۱)   توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔

١٤۔ (۲)  اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔

١٤۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

١٥۔ (۱)   یعنی مومنین کی راہ۔

١٥۔ (۲) یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی اس لیے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخرو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلہ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جارہی ہیں۔ جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی۔ جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ لقمان نے یہ وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید و عبادت کے بعد والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔

١٦۔ ان تک کا مرجع خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے۔ اور اگر اس کا مرجع خصلۃ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہو گا۔ مطلب یہ کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے چھپا نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کر لے گا، یعنی اس کی جزا دے گا اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا، رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں ترازو کے پلڑے جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں ) مخفی ترین جگہ ہے یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ” اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ” (مسند احمد، ٣۔ (۲) ٨) اس لیے کہ وہ لطیف و باریک بین ہے۔ اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے اور خبیر ہے اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات و سکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔

١٧۔ (۱)   اقامۃ صلوۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔

١٧۔ (۲)  یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم و ہمت پیدا کرنے کی کیوں کہ عزم و ہمت کے بغیر اطاعت مذکورہ عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذَالِکَ کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد و مصائب اور طعن و ملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کر کے واضح کر دیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم و ہمت کا ایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔

١٨۔ (۱)   یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے ؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر)

١٨۔ (۲) یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال و دولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز و حقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہو گا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔

١٩۔ (۱)   یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْناً) اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔

١٩۔ (۲)  یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور بری ہے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ ” گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ)

٢٠۔ (۱)   تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ” یہاں کام سے لگا دیا ” سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)

٢٠۔ (۲)  ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔

٢٠۔ (۳) یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔

٢١۔ یعنی ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی کتاب آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا کہ لڑتے ہیں ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔

٢٢۔ (۱)   یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔

٢٢۔ (۲)  یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔

٢٢۔ (۳)  یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔

٢٣۔ (۱)   اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔

٢٣۔ (۲)  یعنی ان کے عملوں کی جزا دے گا۔

٢٣۔ (۳) پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

٢٤۔ یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہوں گے ؟ یہ دنیا اور اس کی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔

٢٥۔ (۱)   یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمانوں و زمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔

٢٥۔ (۲)  اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہو گئی۔

٢٦۔ (۱)   یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔

٢٦۔ (۲)  بے نیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔

٢٦۔ (۳) اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ذات ہے۔

٢٧۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اگر ان کا شمار کرنا حیطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں (ابن کثیر) اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔

٢٨۔ یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے لفظ کُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آ جاتا ہے۔

٢٩۔ (۱)   یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔

 ٢٩۔ (۲)  ” مقررہ وقت تک ” سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آ کر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہو جاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔

٣٠۔ (۱)   یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے محتاج ہیں کیوں کہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے (ابن کثیر)

٣٠۔ (۲)  اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبہ اور بڑائی کے سامنے ہر چیز حقیر اور پست ہے۔

 ٣١۔ (۱)   یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں، ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔

٣١۔ (۲)  تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔

٣٢۔ (۱)   یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لے لینا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی اللہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔

٣٢۔ (۲) بعض نے مقتصد کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہو گا۔ فمنھم مقتصد ومنھم کافر۔ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں، دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی اعتدال پر رہنے والا اور یہ باب انکار سے ہو گا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی۔ انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نہ کہ اعتدال کا۔ مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

٣٢۔ (۳) ختار غدار کے معنی میں ہے بد عہدی کرنے والا کفور ناشکری کرنے والا۔

٣٣۔ جاز اسم فاعل ہے جَزْی یَجْزِی سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے بدلے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں ممکن نہیں ہو گا، ہر شخص کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہو گی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آ سکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہو گی، اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے۔

٣٤۔١حدیث میں آتا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔قرب قیامت کی علامات تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائیں ہیں لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و علائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ و مشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی؟ لیکن ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہو گا یا کامل، خوب رو ہو گا یا بد شکل، کالا ہو گا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ انسان کل کیا کرے گا؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں ؟ اور اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے ؟ کسی کو معلوم نہیں۔

٭٭٭

تشکر: محمد فرقان، محمد کاشف

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

تفسیر

احسن البیان

جلد چہارم (مریم تا لقمان)

               مولانا صلاح الدین یوسف

 

سورۃ مریم

ہجرت حبشہ کے واقعات میں بیان کیا گیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے مصاحبین اور امرا کے سامنے جب سورہ مریم کا ابتدائی حصہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ نے پڑھ کر سنایا تو ان سب کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور نجاشی نے کہا کہ یہ قرآن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو لے کر آئے ہیں، یہ سب ایک ہی مشعل کی کرنیں ہیں (فتح القدیر)۔

٢۔ حضرت زکریا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم)

٣۔ خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع و انابت اور خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہو چکے ہیں۔

٤۔ (۱)یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف و کبر (بڑھاپے ) کا اظہار ہے۔

٤۔ (۲)  اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔

٥۔ (۱)اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ و ارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز و انحراف نہ اختیار کر لیں۔

٥۔ (۲)  ” اپنے پاس سے ” کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہو چکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔

٧۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا

٨۔ عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیّاً کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یحیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)

٩۔ فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کر سکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔

١٠۔ راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہو گی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آ گئے ہیں۔

١١۔ (۱)مِحْرَاب سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْب سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔

١١۔ (۲)  صبح و شام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح و تمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔

١٢۔ (۱)یعنی اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اس اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔

١٢۔ (۲)  حُکْم سے مراد دانائی، عقل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم و عمل کی جامعیت یا نبوت سے مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔

١٣۔ حَنَاناً، شفقت، مہربانی، یعنی ہم نے اس کو والدین اور اقربا پر شفقت و مہربانی کرنے کا جذبہ اور اسے نفس کی آلائشوں اور گناہوں سے پاکیزگی و طہارت بھی عطا کی۔

١٤۔ یعنی اپنے ماں باپ کی یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں والدین کے لئے شفقت و محبت کا اور ان کی اطاعت و خدمت اور حسن سلوک کا جذبہ اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے اور اس کے برعکس جذبہ یا رویہ، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل خاص سے محرومی کا نتیجہ ہے۔

١٥۔ تین مواقع انسان کے لئے سخت و دہشت ناک ہو تے ہیں، ١۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، ٢۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے،٣۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر عید میلاد "کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر عید وفات یا عید ممات "بھی منانی ضروری ہوئی کیوں کہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ "سلام "سے عید میلاد "کا اثبات ممکن ہے تو پر اسی لفظ سے "عید وفات "کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن کہاں وفات کی عید تو کجا سرے سے وفات و ممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ (افتؤمنون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض) (البقرہ) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟

١٧۔ (۱)یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔

١٧۔ (۲)  رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ ایک شخص بے دھڑک اندر آ گیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قرأتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قرت میں ہے ) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتاً نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہو گی۔ (اَ رْسَلَنِیْ، یَقُولُ لَکَ اَرْسَلٰتُ رَسُوْلِیْ اِلَیْکِ الأھَبَ لَکِ) "یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا "اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔

٢١۔ (۱)یعنی یہ بات تو صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے، جائز طریقے سے نہ ناجائز طریقے سے۔ جب کہ حمل کے لئے عادتاً یہ ضروری ہے۔

٢١۔ (۲)  یعنی میں اسباب کا محتاج نہیں ہوں، میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرت تخلیق کے لئے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ آدم کو مرد اور عورت کے بغیر، اور تمہاری ماں حوا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے صرف عورت کے بطن سے، بغیر مرد کے پیدا کر دینا۔ ہم تخلیق کی چاروں صورتوں پر قادر ہیں۔

٢١۔ (۳) اس سے مراد نبوت ہے جو اللہ کی رحمت خاص ہے اور ان کے لئے بھی جو اس نبوت پر ایمان لائیں گے۔

٢١۔(٤) یہ اسی کلام کا ضمیمہ ہے جو جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی طرف سے نقل کیا ہے۔ یعنی یہ اعجازی تخلیق۔ تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت و مشیت میں مقدر ہے۔

٢٣۔ موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو گا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ و زاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔

٢٥۔ سَرِبّاَ چھوٹی نہر یا پانی کا چشمہ۔ یعنی بطور کرامت اور خلاف قانون قدرت، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئے تازہ کھجوروں کا انتظام کر دیا۔ آواز دینے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے، جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور کہا جاتا ہے کہ سَرِیّ بمعنی سردار ہے اور اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور انہی نے حضرت مریم کو نیچے سے آواز دی تھی۔

٢٦۔(۱) یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔

٢٦۔ (۲)  یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔

٢٨۔ ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کر دی، جیسے کہا جاتا ہے، تقویٰ و پاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح انہیں سمجھتے ہوئے، انہیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ابن کثیر)

٣٠۔ یعنی قضا و قدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا

٣١۔ اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہر چیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر)

٣٢۔ (۱)صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی، حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔

٣٢۔ (۲)  اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیوں کہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں۔

٣٤۔ یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صفت کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

٣٥۔ جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کر دینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت و طاقت کے منکر ہیں۔

٣٧۔ (۱) یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور یوسف نجار کے بیٹے ہیں نصاریٰ کے ایک فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثالثُ ثَلَاثلَۃِ(تین خداؤں میں سے تیسرے ) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط و غلو (الیسرا لتفاسیر، فتح القدیر)

٣٧۔ (۲)  ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔

٣٨۔ یہ تعجب کے صیغے ہیں یعنی دنیا میں تو یہ حق کے دیکھنے اور سننے سے اندھے اور بہرے رہے لیکن آخرت میں یہ کیا خوب دیکھنے اور سننے والے ہوں گے ؟ لیکن وہاں یہ دیکھنا سننا کس کام کا؟

٣٩۔(۱) روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں ؟

٣٩۔ (۲)  یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے ؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ اہل جنت! تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو! تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحیح بخاری)

٤١۔ صدیق صدق (سچائی) سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول و عمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلیٰ ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ و طہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔

٤٣۔ (۱)جس سے مجھے اللہ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل ہوا، بعث بعد الموت اور غیر اللہ کے پجاریوں کے لئے دائمی عذاب کا علم ہوا۔

٤٣۔ (۲)  جو آپ کی سعادت کو ابدی اور نجات سے ہمکنار کر دے گی۔

٤٤۔ یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔

٤٥۔ اگر آپ اپنے شرک و کفر پر باقی رہے اور اسی حال میں آپ کو موت آ گئی، تو عذاب الٰہی سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یا دنیا میں ہی آپ عذاب کا شکار نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر ہمیشہ کے لئے راندہ بارگاہ الٰہی ہو جائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے ادب و احترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے، نہایت شفقت اور پیار کے لہجے میں باپ کو توحید کا وعظ سنایا، لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے، مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے کو کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔

٤٦۔ دراز مدت، ایک عرصہ۔ دوسرے معنی اس کے صحیح و سالم کے کئے گئے ہیں۔ یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ تڑوا لینا۔

٤٧۔ یہ سلام دعایہ نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے بلکہ ترک مخاطب کا اظہار ہے جیسے (وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰماً) (الفرقان۔٦٣) "جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے ” اس میں اہل ایمان اور بندگان الٰہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔

٤٧۔ (۲)  یہ اس وقت کہا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشرک کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی ممانعت کا علم نہیں تھا، جب یہ علم ہوا تو آپ نے دعا کا سلسلہ موقوف کر دیا (التوبہ۔١١٤)

٤٩۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انہیں اسحاق و  یعقوب علیہما السلام سے نوازا تاکہ ان کی انس و محبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔

٥٠۔(۱)یعنی نبوت کے علاوہ بھی اور بہت سی رحمتیں ہم نے انہیں عطا کیں، مثلاً مال مزید اولاد اور پھر اسی سلسلہ نسب میں عرصہ دراز تک نبوت کے سلسلے کو جاری رکھنا یہ سب سے بڑی رحمت تھی جو ان پر ہوئی اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیا کہلاتے ہیں۔

٥٠۔ (۲)  لسان صدق سے مراد ثنائے حسن اور ذکر جمیل ہے لسان کی اضافت صدق کی طرف کی اور پھر اس کا وصف علو بیان کیا جس سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ بندوں کی زبانوں پر جو ان کا ذکر جمیل رہتا ہے، تو وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ تمام دیگر مذاہب کو ماننے والے بلکہ مشرکین بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ میں اور نہایت ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ یہ نبوت و اولاد کے بعد ایک اور انعام ہے جو ہجرت فی سبیل اللہ کی وجہ سے انہیں حاصل ہوا۔

٥١۔(۱)مخلص، مصطفیٰ، مجتبیٰ اور مختار،چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے یعنی رسالت و پیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الٰہی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ مقابلہ کرنے والے بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت ٥٢ میں۔

٥٧۔ حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح علیہ السلام کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، بلندی مکان سے مراد؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ اِلَی السَّمَآءِ سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح انہیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انہیں عطا کی گئی۔ واللہ اعلم

٥٨۔ گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہو جانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہو جانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنون دعا یہ ہے (وَ سَجَدَ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہَ بِحَوْلِہِ وَ قُوَّتِہِ) (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحوالہ مشکوٰۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔

٥٩۔ انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت و اعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہو سکتا ہے۔غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

٦٠۔ یعنی جو توبہ کر کے ترک صلوٰۃ اور جنسی خواہش کی پیروی سے باز آ جائیں اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کر لیں تو ایسے لوگ مذکورہ انجام بد سے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے۔

٦١۔ یعنی یہ ان کے ایمان و یقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان و تقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔

٦٢۔ (۱)یعنی فرشتے بھی انہیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔

٦٢۔ (۲)  امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہوں گے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشنی ہی روشنی ہو گی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور بول و بزاز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہو گی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہو گا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہو گا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحیح بخاری)

٦٤۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ مریم)

٦٥۔ یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں

٦٦۔ (۱)انسان سے مراد یہاں کافر با حیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔

٦٦۔ (۲)  استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کر دیا جائے گا؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔

٦٧۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کر دیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہو گا؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔

٦٨۔١جثیی، جاث کی جمع ہے جثا یجثو سے۔جَاثٍ گھٹنوں کے بل گرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ حال ہے یعنی ہم دوبارہ انہیں کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کر دیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کر دیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے، میرے لئے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ) اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے، حالاں کہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ خود جنا گیا ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے (صحیح بخاری۔ تفسیر سورہ اخلاص)

٦٩۔ مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کر لیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیوں کہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا و عقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٧٠۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے کون زیادہ مستحق ہیں، ہم ان کو خوب جانتے ہیں

٧٢۔ اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں ہر مومن و کافر کو گزرنا ہو گا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں  کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کر لیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ” جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے (البخاری) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں حَتْماً مَّقْضِیّاً (قطعی طے شدہ امر) یعنی اس کا در جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہو گا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و ایسر التفاسیر)

٧٣۔ یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقرا مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب رضی اللہ عنہم جیسے فقیر لوگ ہیں، ان کا دار الشوریٰ دار ارقم ہے۔ جب کہ کافروں میں ابوجہل، نفر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ بہت عمدہ ہے۔

٧٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر فخر اور ناز کیا جائے، یا ان کو دیکھ کر حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا گیا، دنیا کا یہ مال و اسباب انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکا۔

٧٥۔ علاوہ ازیں یہ چیزیں گمراہوں اور کافروں کو مہلت کے طور پر بھی ملتی ہیں، اس لئے یہ کوئی معیار نہیں۔ اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی اور اللہ کا عذاب انہیں آ گھیرے گا یا قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم، کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔

٧٦۔(۱) اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک و ضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی و ضلالت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان و ہدایت میں اور پختہ ہو جاتے ہیں۔

٧٦۔ (۲)  اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار و مشرکین جن مال و اسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر و ثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔

٨٠۔ ان آیات کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ کے والد عاص بن وائل، جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا۔ اس کے ذمے حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب رضی اللہ نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا یہ کام تو، تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے تب بھی نہیں کروں گا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا تو میں وہاں رقم ادا کر دوں گا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہو گی؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف تعلی اور آیات الٰہی کا استہزا و تمسخر ہے یہ جس مال و اولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کا تعلق ختم ہو جائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہو گا نہ اولاد اور نہ کوئی جتھہ۔ البتہ عذاب ہو گا جو اس کے لیے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ہم بڑھاتے رہیں گے۔

٨٢۔ عِزّاً کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدّاً کے معنی ہیں، دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہوں گے۔

٨٣۔ یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں

٨٤۔ اور جب وہ مہلت ختم ہو جائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائے گا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے

٨٦۔١وفد وافد کی جمع ہے جیسے رکب راکب کی جمع ہے۔ مطلب یہ کہ انہیں اونٹوں، گھوڑوں پر سوار کرا کے نہایت عزت و احترام سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ وزدا کے معنی پیاسے۔ اس کے برعکس مجرمین کو بھوکا پیاسا جہنم میں ہانک دیا جائے گا۔

٨٧۔ قول و قرار (عہد) کا مطلب ایمان و تقویٰ ہے۔ یعنی اہل ایمان و تقویٰ میں سے جن کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، وہی شفاعت کریں گے، ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔

٩١۔ ادا کے معنی بہت بھیانک معاملہ اور داھیۃ (بھاری چیز اور مصبیت) کے ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے آسمان و زمین پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔

٩٣۔ جب سب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ اور یہ اس کے لائق بھی نہیں ہے

٩٤۔ یعنی آدم سے لے کر صبح قیامت تک جتنے بھی انسان، جن ہیں، سب کو اس نے گن رکھا ہے، سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں، کوئی اس سے چھپا ہے اور نہ چھپا رہ سکتا ہے۔

٩٥۔ یعنی کوئی کسی کا مددگار نہیں ہو گا، نہ مال ہی وہاں کچھ کام آئے گا (یوم لا ینفع مال ولا بنون)”الشعراء”اس دن نہ مال نفع دے گا، نہ بیٹے، ہر شخص کو تنہا اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا اور جن کی بابت انسان دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے وہاں حمایتی اور مددگار ہوں گے، وہاں سب غائب ہو جائیں گے۔ کوئی کسی کی مدد کے لئے حاضر نہیں ہو گا۔

٩٦۔ یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ” جب اللہ تعالیٰ کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے ” (صحیح بخاری)۔

٩٧۔ (۱)قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا۔

٩٧۔ (۲)  لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار و مشرکین ہیں۔

٩٨۔ احساس کے معنی ہیں، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انہیں دیکھ یا چھو سکے یا دیکھ سکے یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔

٭٭٭

 

 

سورۃ طٰہٰ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعدد اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ بیض تاریخ و سیر کی روایات میں اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں سورہ طہ کا سننا اور اس سے متاثر ہونا بھی مذکور ہے۔ (فتح القدیر)

٢۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ (فَلَعَلَّکَ بَاخِع نِّفْسَکَ عَلیٰ اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یَؤمِنُوْا بِھٰذَاالْحَدِیْثِ اَسَقاً) (الکہف) پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں شقآء عنآء اور تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔

٥۔ بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے ؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔

٦۔ ثَرَیٰ کے معنی ہیں السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ

٧۔ یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔

٨۔ یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنیٰ ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اُسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔

١٠۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی دختر نیک اختر تھیں ) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انہیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انہیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہو جائے۔

١١۔ موسیٰ علیہ السلام جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورہ قصص۔٣٠ میں صراحت ہے ) آواز آئی۔

١٢۔ (۱)جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ اور وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ علیہ السلام کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔

١٢۔ (۲)  طُوَی وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر)

١٣۔ یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔

١٤۔ (۱)یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔

١٤۔ (۲)  عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالاں کہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِکْرِیْ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اس لئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے ” (صحیح بخاری)

١٦۔ اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں

٢١۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے

٢٢۔ بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا (فذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِ لیٰ فِرْعَوْ نَ وَ مَلَاْئِہٖ) قَالَ اَلَمْ ١٦ طٰہٰ ٢٠(القصص۔ ٣٢) ” پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے "

٢٤۔ فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی و طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتیٰ کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلیٰ) ” میں تمہارا بلند تر رب ہوں "

٣٢۔ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہو گئی (ا بن کثیر) جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت و جباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے ) بطور معین اور مددگار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے وزیر موازر کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اس کا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون علیہ السلام میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔

٣٤۔ یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کر سکیں۔

٣٥۔ یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔

٣٦۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہو گا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔ باقی رہا فرعون کا یہ کہنا (وَّلَایَکَادُ یُبِیْنُ) ” یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا ” یہ ان کی تحقیق گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔

٣٧۔ قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالیٰ بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کر دیا تھا

٣٩۔ (۱)مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہوا جب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔

٣٩۔ (۲)  یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔

٣٩۔ (۳) چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بے شمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ علیہ السلام سے وصول کر رہی ہے۔

٤٠۔ (۱)یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے ؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیر خوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ علیہ السلام کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ علیہ السلام کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔

٤٠۔ (۲)  یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ علیہ السلام سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا

٤۰۔ (۳) فتون دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابتلیناک ابتلاء یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حجرۃ کی حجور اور بدرۃ کی بدور کی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلاً جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہو گیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔

 ٤٠۔(٤) یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔

٤٠۔(۵) یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔

٤٢۔ اس میں اللہ سے دعا کے لئے بڑا سبق ہے کہ انہیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے

٤٤۔ یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔

٤٦۔ تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

٤٧۔ یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، و اَسْلِمْ، تَسْلَمْ، (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے (وَالسَّلٰمُ عَلیٰ مَنِ اتَبَعَ الْھُدیٰ) بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔

٥٠۔ مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ” راہ سجھائی ” کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔

٥١۔ فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہو گا؟

٥٢۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہر چیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہو سکتی ہے۔ جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرے، علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔

٥٤۔ (۱)یعنی بے شمار اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔

٥٤۔ (۲)  اُولُو النُّھَیٰ عقل والے۔ عقل کو نُھْبَۃ اور عقلمند کو ذُوْ نُھْیَۃٍ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں (فتح القدیر)

٥٥۔ بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے ) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ ١٥٢۔

٥٧۔ جب فرعون کو دلائل واضح کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے ؟

٥٨۔ (۱)موعد مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہو سکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کر لے۔

٥٨۔ (۲)  مکان سوی۔صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔

٥٩۔ اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔

٦٠۔ یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آ گیا۔

٦١۔ جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی مقابلے سے پہلے انہیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انہیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔

٦٢۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔

٦٣۔١مثلیٰ، طریقۃ کی صفت ہے یہ امثل کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے ” جادو ” کے زور سے غالب آ گئے، تو سادات و اشراف اس کی طرف مائل ہو جائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے "بہترین”قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے (کل حزب بما لدیھم فرحون) ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریچھ رہا ہے۔۔

٦٦۔ (۱)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرے، ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں ہوا ہو جائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔

٦٦۔ (۲)  قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کر دی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہو جاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کر سکتا۔

٦٨۔ اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے، بہرحال موسیٰ علیہ السلام کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلام) کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٧١۔ مِنْ خِلَافِ (الٹے سیدھے ) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں

٧٢۔(۱)یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب والذی فطرنا کا عطف ما جاءنا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔

۷۲۔ (۲)  یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کر لے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا و آخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم و ستم سے تو بچ جائیں گے کیوں کہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہو جائے گا لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ و ایمان پر جو تکلیفیں آئیں انہیں جس حوصلہ و صبر اور عزم و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ و منصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب و تحریض انہیں متزلزل کر سکی نہ تشدید و تعذیب کی دھمکیاں انہیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

٧٣۔ (۱)دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ” ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں۔ ” اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہو گا۔

٧٣۔ (۲)  یہ فرعون کے الفاظ، (وَ لَتَعْلَمُنِّ اَیُّنَا اَشَدُّ عَذَاباً وَّ اَبْقیٰ) کا جواب ہے کہ اے فرعون! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں اجر و ثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔

٧٤۔ یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہو گی؟

٧٦۔ جہنمیوں کے مقابلے میں اہل ایمان کو جو جنت کی پر آسائش زندگی ملے گی، اس کا ذکر فرمایا اور واضح کر دیا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ یعنی اعمال صالح اختیار اور اپنے نفس کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں گے۔ اس لئے کہ ایمان زبان سے صرف چند کلمات ادا کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔

٧٧۔(۱) جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دیا۔

٧٧۔ (۲)  اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔

٧٧۔ (۳)  خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔

٧٨۔ یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہو جا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہو گیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہو گیا۔ غشیھم، کے معنی ہیں علاھم وأصابھم سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔ ماغشیھم یہ تکرار تعثیم و تہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں جو کہ مشہور و معروف ہے۔۔

٧٩۔ اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا۔

٨٠۔ (۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ علیہ السلام کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔

٨٠۔ (۲)  من و سلویٰ کے نزول کا واقعہ، سورہ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ من کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انہیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر)

٨١۔ (۱)یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے اور بعض نے کہا کہ طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت و حاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔

٨١۔ (۲)  دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔ ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہو گیا۔

٨٢۔ یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتیٰ کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کر لیا، حتیٰ کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہو گا۔

٨٤۔ سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔

٨٥۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ علیہ السلام کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف با حیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ اضلھم السامری سے واضح ہے۔

٨٦۔ (۱)اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔

٨٦۔ (٢) کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔

٨٦۔ (۳) قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔

٨٧۔ یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہو گئی، آگے اس کی وجہ بیان کی

٨٨۔۱زینۃ سے زیورات اور القوم سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتاً لئے تھے، اسی لئے انہیں بوجھ کہا گیا کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام تو گمراہ ہو گئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا معبود تو یہ ہے۔

٨٩۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت و  نادانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت بر آوری پر قادر ہو۔

٩٠۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی

٩١۔ اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون علیہ السلام کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

٩٣۔ یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔

٩٤۔ (۱)حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، خوش آمد کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر پکڑ کر انہیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔

٩٤۔ (۲)  سورہ اعراف میں حضرت ہارون علیہ السلام کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئی (آیت۔ ۱٤۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہو جائے کیونکہ ہارون علیہ السلام کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بے خبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون علیہ السلام کو انہوں نے سخت سست کہا لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں ) کہ مسلمانوں کے اتحاد و ارفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کر لینا چاہیے کیوں کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔

٩٦۔ مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہو گئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔

٩٧۔(۱) یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہو گی۔

٩٧۔ (۲)  یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہر صورت بھگتنا پڑے گا۔

۹۷۔ (۳)  اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام و نشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس اثرالرسول کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔

٩٩۔ (۱)یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔

٩٩۔ (۲)  نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔

١٠٠۔ (۱)یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔

١٠٠۔ (۲)  یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہو گا۔

١٠١۔ جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا

١٠٢۔ صور سے مراد وہ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی، حضرت اسرافیل علیہ السلام کے پہلے پھونکنے سے سب پر موت طاری ہو جائے گی، اور دوسرے پھونکنے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا پھونکنا مراد ہے۔

١٠٣۔ شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔

١٠٤۔ یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انہیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہو گی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السِّاعَۃُ یَقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَالَبِثوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ) (الروم۔٥٥) جس دن قیامت برپا ہو گی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ فاطر، ۳۷ سورۃ المؤمنون۔،۱۱۲۔۱۱٤ سورۃ النازعات وغیرہ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو پاقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔

١٠٨۔ (۱)یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہو جائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہو جائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئے گی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ بلائے گا، جائیں گے۔

١٠٨۔ (۲)  یعنی اس بلانے والے سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔

١٠٨۔ ٣ یعنی مکمل سناٹا ہو گا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔

١٠٩۔ یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہوں گے ؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورہ نجم،۲ ٦، سورہ انبیاء، ۲۸۔ سورہ سباء،۲۳۔ سورہ النباء ۳۸۔ اور آیت الکرسی۔

۱۱۰۔ گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کر دی گئی ہے کہ چوں کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے ؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے ؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء و صلحا کی سفارش کے مستحق ہیں ؟ کیوں کہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت و کیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔

١١١۔ اس لئے کہ اس روز اللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتیٰ کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہو گا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا”لتؤدن الحقوق الی اھلھا ” ” ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ” ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا۔ دوسری حدیث میں فرمایا (اِیَّاکُمْ و الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُلْمَ ظُلُمَات،ُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا، سب سے نامراد وہ شخص ہو گا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہو گا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔

١١٢۔ بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہوں گی۔

١١٣۔ (۱)یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔

١١٣۔ (۲)  یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔

١١٤۔ (۱)جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔

١١٤۔ (۲)  جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ ق میں آئے گا۔

١١٤۔ (۳) یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتویٰ میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت و حرفت ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط و تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْماً، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ کُلِّ حَال) (ابن ماجہ)

١٥۔ نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استغفار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا) حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم علیہ السلام اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہو گئے۔

١١٧۔یہ شقا، محنت و مشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں صرف آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑ جائے گا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالاں کہ درخت کا پھل کھانے والے آدم علیہ السلام و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ "اعزاز الٰہی "”طوق غلامی "نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بے قرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔

١٢١۔ یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے

١٢٢۔ اس سے بعض لوگ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس ” معصیت ” کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا وعظ و نصیحت، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کر دیا، جو پہلے انہیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔

١٢٤۔ (۱)اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق و اضطراب، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔

١٢٤۔ (۲)  اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔

١٢٩۔ یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اس کے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا! انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔

١٣٠۔ (۱)بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، غروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بد دل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔

١٣٠۔ (۲)  یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہو جائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہو جائے۔

١٣١۔ (۱)یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ عمران ١٩٦۔١٩٧، سورہ حجر، ٨٧۔٨٨ اور سورہ کہف،٧ وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔

١٣١۔ (۲)  اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال و اسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ ” یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہو گا (مسلم بخاری)

١٣٢۔ اس خطاب میں ساری امت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔

١٣٣۔ (۱)یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔

١٣٣۔ (۲)  ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

١٣٤۔ مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

١٣٥۔(۱) یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔

١٣٥۔ (۲)  اس کا علم تمہیں اس سے ہو جائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے ؟ چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہو گیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔

٭٭٭

 

سورۃ الانبیاء

١۔ (۱) وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔

١۔ (۲)  یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔

٢۔ یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔

٣۔ یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔

٤۔ وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔

٥۔ (۱) ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔

٥۔ (۲)  یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ علیہ السلام کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔

 ٦۔ یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب و عناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔

٧۔ (۱) یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔

٧۔ (۲)  اَ ھْلَ الذِّکْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو ہو گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔

٨۔ بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔

 ٩۔ یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کر دیا۔

١١۔ قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ” قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں (سورہ بنی اسرائیل)

١٢۔ احساس کے معنی ہیں، حواس کے ذریعے سے ادراک کر لینا۔ یعنی جب انہوں نے عذاب یا اس کے آثار کو آتے دیکھا یا کڑک گرج کی آواز سن کر معلوم کر لیا، تو اس سے بچنے کے لئے راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ رکض کے معنی ہوتے ہیں آدمی گھوڑے وغیرہ پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے کے لیے ایڑ لگائے یہیں سے یہ بھاگنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

١٣۔ (۱) یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔

١٣۔ (۲)  یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔

١٣۔ (۳) اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی؟ یہ سوال بطور خیال اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے ؟

١٥۔ (۱) یعنی جب تک زندگی کے آثار ان کے اندر رہے، وہ اعتراف ظلم کرتے رہے۔

١٥۔ (۲)  حَصِیْد کٹی ہوئی کھیتی کو اور خُمُوْد آگ کے بج جانے کو کہتے ہیں۔ یعنی بالآخر وہ کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر ہو گئے، کوئی تاب و توانائی اور حس و حرکت ان کے اندر نہ رہی۔

١٦۔ بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر و شکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔

١٧۔ (۱)  یعنی اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں کھیل کے لئے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کر لیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی اور پھر میں ذی روح اور ذی شعور مخلوق بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

١٧۔ (۲)  ” اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے ” عربی اسلوب کے اعتبار سے یہ زیادہ ہے بہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ” ہم کرنے والے ہی نہیں ” صحیح ہے (فتح القدیر)

١٨۔(۱)  یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہو جاتا ہے۔

١٨۔ (۲)  یعنی رب کی طرف سے تم جو بے سرو پا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔

١٩۔ (۱) سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے ؟

١٩۔ (۲)  اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف و اکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔

٢١۔ استفہام انکاری ہے یعنی نہیں کر سکتے۔ پھر وہ ان کو جو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتے، اللہ کا شریک کیوں ٹھہراتے اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟

٢٢۔ یعنی اگر واقع آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، دو کا ارادہ و شعور اور مرضی کار فرما ہوتی اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظمِ کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے، بغیر کسی ادنیٰ توقف کے قائم چلا آ رہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کے مخالف سمت میں استعمال ہوتے۔ جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ و مشیت کار فرما ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے اس کے دئیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔

٢٤۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

٢٥۔ یعنی تمام پیغمبر بھی یہی توحید کا پیغام لے کر آئے۔

٢٧۔ اس میں مشرکین کا کہنا ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرما بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف و بڑھاپا، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

٢٨۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء صالحین کے علاوہ فرشتے بھی سفارش کریں گے۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، لیکن یہ سفارش انہی کے حق میں ہو گی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سفارش اپنے نافرمان بندوں کے لئے نہیں، صرف گناہ گار مگر فرماں بردار بندوں یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے پسند فرمائے گا۔

٢٩۔ یعنی ان فرشتوں میں سے بھی اگر کوئی اللہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہم اسے بھی جہنم میں پھینک دیں گے۔ یہ شرطیہ کلام ہے، جس کا وقوع ضروری نہیں۔ مقصد، شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔ جیسے (قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَ لَد فَانَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ) ” اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں سے ہوں گا ” (لَئِنْ اَشْرَکْت لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ) (الزمر،٦٥) ” اے پیغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے عمل برباد ہو جائیں گے ” یہ سب مشروط ہیں جن کا وقوع غیر ضروری ہے۔

٣٠۔ (۱) یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کر دیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہو گئی۔

٣٠۔ (۲)  اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔

٣١۔ یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کر دیا۔

٣١۔ (۲)  اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہو گیا، دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح و مفادات حاصل کر سکیں۔

٣٢۔ زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ و بالا ہو سکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا (وَ حَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنِ الرَّجِیْمٍ) (الحجر۔١٧)

٣٣۔ (۱) یعنی رات کو آرام اور دن کو معاش کے لئے بنایا، سورج کو دن کی نشانی چاند کو رات کی نشانی بنایا، تاکہ مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جا سکے، جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے۔

٣٣۔ (۲)  جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر تیرتے یعنی رواں دواں رہتے ہیں۔

٣٤۔ یہ کفار کے جواب میں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی مستثنیٰ نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہو گئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء و اولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں فنعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ التی تعارض القرآن۔

٣٥۔ (۱) یعنی کبھی مصائب و رنج و غم سے دو چار کر کے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرہ ور کر کے۔ کبھی صحت و فراخی کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دیکر اور کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا کر کے ہم آزماتے ہیں۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتا ہے اور ناشکری کون؟ صبر کون کرتا ہے اور نا صبری کون؟ شکر اور صبر، یہ رضائے الٰہی کا اور کفران نعمت اور نا صبری غضب الٰہی کا موجب ہے۔

٣٥۔ (۲)  وہاں تمہارے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ اول الذکر لوگوں کے لئے بھلائی اور دوسروں کے لئے برائی۔

٣٦۔  اس کے باوجود یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہنسی و مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَاِ ذ رَ اَوْ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا حُذُ وً اا ھٰذَا لَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلاً) جب اے پیغمبر! یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟

٣٧۔ یہ کفار کے متعلق عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہو سکتا ہے اور صداقت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دلائل و براہین بھی۔

٣٩۔ اس کا جواب علیحدہ ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقیناً جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔

٤٠۔ (۱) یعنی انہیں کچھ سجھائی نہ نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں ؟

٤٠۔ (۲)  کہ وہ توبہ و اعتذار کا اہتمام کر لیں۔

٤١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین کے مذاق اور جھٹلانے سے بد دل نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تجھ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا، بالآخر وہی عذاب ان پر الٹ پڑا، یعنی اس نے انہیں گھیر لیا، جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس کا وقوع ان کے نزدیک ابھی مستبعد تھا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ولقد کذبت رسل من قبلک فصبرواعلی ماکذبوا واوذوا حتی اتھم نصرنا (انعام) تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے پس انہوں نے تکذیب پر اور ان تکلیفوں پر جو انہیں دی گئیں صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تسلی کے ساتھ کفار و مشرکین کے لیے اس میں تہدید و وعید بھی ہے۔

٤٢۔ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آ سکتا ہے ؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کر سکے ؟

٤٣۔ اس معنی ہیں ” وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا ” نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟

٤٤۔ (۱) یعنی ان کی یا ان کے آبا و اجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں ؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہو گا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی زمین کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔

٤٤۔ (۳) یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔

٤٥۔ یعنی قرآن سنا کر انہیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کر دیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

٤٦۔ یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔

٤٧۔ ‏موازین، میزان (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہوں گے یا ترازو تو ایک ہی ہو گی انسان کے اعمال تو بے وزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہو گا؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنا دیا ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بے وزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہو گیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو بے وزن کو دکھلانے کے لئے ان بے وزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے ؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند احمد ٥۔ (۲) ٨٧)۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف ۷ کا حاشیہ القسط مصدر اور الموازین کی صفت ہے معنی ہیں ذوات قسط انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں

٤٨۔ یہ تورات کی صفات بیان کی گئی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ اس میں بھی متقین کے لئے ہی نصیحت تھی۔ جیسے قرآن کریم کو بھی (ھُدَی لِّلْمُتَّقِیْنَ) کہا گیا، کیونکہ جن کے دلوں میں اللہ کا تقویٰ نہیں ہوتا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، تو آسمانی کتاب ان کیلئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ کس طرح بنے، نصیحت یا ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس میں غور و فکر کیا جائے۔

٤٩۔ یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورہ بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔

٥٠۔ یہ قرآن، جو یاد دہانی حاصل کرنے والے کے لئے ذکر اور نصیحت اور خیر و برکت کا حامل ہے، اسے بھی ہم نے ہی اتارا ہے۔ تم اس کے مُنَزَّل مِّنَ اللّٰہِ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو، جب کہ تمہیں اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے ہی نازل کردہ کتاب ہے۔

٥١۔ (۱) مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ علیہ السلام کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کر دی تھی۔

٥١۔ (۲)  یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔

٥٢۔ تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہو بہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم علیہ السلام نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عاکف۔ عکوف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں (مورتیاں اور تصویریں ) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ عطا فرمائے۔جس طرح آج بھی جہالت و خرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات و رسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آباء و اجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب و سنت سے اعراض کر کے علماء و مشائخ کے آراء و افکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔

٥٥۔ یہ اس لئے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل توحید کی آواز ہی نہیں سنی تھی انہوں نے سوچا، پتہ نہیں، ابراہیم علیہ السلام ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔

٥٦۔ یعنی میں مذاق نہیں کر رہا، بلکہ ایک ایسی چیز پیش کر رہا ہوں جس کا علم و یقین (مشاہدہ) مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمہارا معبود مورتیاں نہیں، بلکہ وہ رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔

٥٧۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔

٥٨۔ چنانچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم علیہ السلام نے موقع غنیمت جان کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔

٥٩۔ یعنی جب وہ جشن سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا کہ معبود تو ٹوٹے پڑے ہیں، تو کہنے لگے، یہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔

٦٠۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے یہ اس کی کارستانی ہے۔

٦١۔ یعنی اس کو سزا ملتی ہوئی دیکھیں تاکہ آئندہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔ یا یہ معنی ہیں کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بت توڑتے ہوئے دیکھا یا ان کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔

٦٣۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کر دیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقیناً حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآنحالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہو سکتا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہو سکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات و اظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جا کر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے در آں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت و جلا کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہو گی۔

٦٤۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔

٦٥۔ پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔

٦٧۔ یعنی جب وہ خود ان کی بے بسی کے اعتراف پر مجبور ہو گئے تو پھر ان کی بے عقلی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے بسوں کی تم عبادت کرتے ہو؟

٦٨۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یوں اپنی حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت و حماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لاجواب ہو گئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بے نور کر دیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آ جاتے، الٹا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی، چنانچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے کہ منجیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں ) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ، ٹھنڈی کے ساتھ ” سلامتی ” نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم علیہ السلام کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔

٧١۔ اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔

٧٢۔ نَافِلَۃ، زائد کو کہتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو صرف بیٹے کے لئے دعا کی تھی، ہم نے بغیر دعا مزید پوتا بھی عطا کر دیا۔

٧٥۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زاد (بھتیجے ) تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے شام جانے والوں میں سے تھے۔ اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا۔ یہ جس علاقے میں نبی بنا کر بھیجے گئے، اسے عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے بحیرہ مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا۔ جس کا بڑا حصہ اب بحیرہ مردار کا جزو ہے۔ ان کی قوم لواطت جیسے فعل شفیع، گزر گاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازے کسنا اور انہیں تنگ کرنا روڑے ریزے پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی، جسے اللہ نے یہاں خبائث (پلید کاموں ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ بالآخر حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی رحمت میں داخل کر کے یعنی انہیں اور ان کے پیرو کار کو بچا کر قوم کو تباہ کر دیا گیا۔

٧٩۔ (۱) مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگ گئیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کر دی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کر کے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آ جائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کر دی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہو سکتے، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہو گا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہو گا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر)۔

٧٩۔ (۲)  اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا)

٧٩۔ (۳) یعنی پرندے بھی داؤد علیہ السلام کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے، مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے گئے تھے (فتح القدیر)

٧٩۔ (۳) یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

٨٠۔ یعنی لوہے کو ہم نے داؤد علیہ السلام کے لئے نرم کر دیا تھا، وہ اس سے جنگی لباس، لوہے کی زریں تیار کرتے تھے، جو جنگ میں تمہاری حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے بھی زریں بنتی تھیں۔ لیکن وہ سادہ بغیر کنڈوں اور بغیر حلقوں کے ہوتی تھیں، حضرت داؤد علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے کنڈے دار حلقے والی زریں بنائیں (ابن کثیر)

٨١۔ یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کر کے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر لے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔

٨٢۔(۱)  جنات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوطے لگاتے اور موتی اور جواہر نکال لاتے، اسی طرح دیگر عمارتی کام، جو آپ چاہتے کرتے تھے۔

٨٢۔ (۲)  یعنی جنوں کے اندر جو سرکشی اور فساد کا مادہ ہے، اس سے ہم نے سلیمان علیہ السلام کی حفاظت کی اور وہ ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے تھے۔

٨٤۔ قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے، (سورہ ص۔ ٤٤) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتیٰ کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ ٨ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ملتی ہے، جس کا اظہار حضرت ایوب علیہ السلام نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ” ہم نے قبول کر لی "کے الفاظ استعمال فرمائے۔

٨٥۔ ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں ؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔

٨٧۔ (۱) مچھلی والے سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا، اس کی کچھ تفصیل سورۃ یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورہ صافات میں آئے گی۔

٨٧۔ (۲)  ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس علیہ السلام متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔

٨٨۔ ہم نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایا (جامع ترندی نمبر ٣٥٠٥ و صحیحہ الالبانی)

٩٠۔ (۱) حضرت زکریا علیہ السلام کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورہ آل عمران اور سورہ طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

٩٠۔ (۲)  یعنی وہ بانجھ اور ناقابل اولاد تھی، ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطا فرمایا۔

٩٠۔ (۳) گویا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الحاح و زاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا و مناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، خوف و طمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع خضوع کا اظہار۔

٩١۔ یہ حضرت مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔

٩٢۔ امۃ سے مراد یہاں دین یا ملت یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین ہے دین توحید، جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور ملت، ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” ہم انبیاء کی جماعت اولاد علات ہیں، (جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں ) ہمارا دین ایک ہی ہے ” (ابن کثیر)

٩٣۔ یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہو گیا اور انبیاء و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے، کوئی یہودی ہو گیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور اور بد قسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان سب کا فیصلہ، جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گی۔ تو وہیں ہو گا۔

٩٥۔ جیسا کہ ترجمے میں واضح ہے۔ یا پھر لَا یَرْجِعُوْنَ میں لَا زائد ہے، یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا، اس کا دنیا میں پلٹ کر آنا حرام ہے۔

٩٦۔ یاجوج ماجوج کی ضروری تفصیل سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہو گا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آ جائیں گے حتیٰ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اہل ایمان کو ساتھ کوہ طور پر پناہ گزیں ہو جائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے یہ ہلاک ہو جائیں گے اور ان کی لاشوں کی سڑاند اور بدبو ہر طرف پھیلی ہو گی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائے گی۔ (یہ ساری تفصیلات صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ہو)

٩٧۔ یعنی یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ، جو برحق ہے، بالکل قریب آ جائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہو جائے گی شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

٩٨۔ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزیٰ و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جا رہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔

٩٩۔ یعنی اگر یہ واقع معبود ہوتے تو با اختیار ہوتے اور تمہیں جہنم جانے سے روک لیتے۔ لیکن وہ تو خود جہنم میں بطور عبرت کے جا رہے ہیں۔ تمہیں جانے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ لہذا عابد و معبود دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

١٠٠۔ یعنی سارے کے سارے شدت غم و الم سے چیخ اور چلا رہے ہوں گے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔

١٠١۔ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جا سکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ و عزیز علیہ السلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کر دیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے

١٠٣۔ بڑی گھبراہٹ سے موت یا صور اسرافیل مراد ہے یا وہ لمحہ جب دوزخ اور جنت کے درمیان موت کو ذبح کر دیا جائے گا۔ دوسری بات یعنی صور اسرافیل اور قیام قیامت سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

١٠٤۔ یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ” ” سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔

١٠٥۔ زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پند و نصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہو گا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور اذا فات الشرط فات المشروط کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہو گئے تو اقتدار سے بھی محروم کر دئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود و ضابطوں پر کاربند رہنا۔

١٠٦۔ فی ‌ھذا سے مراد وہ وعظ و تنبیہ ہے جو اس سورت میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے بلاغ سے مراد کفایت و منفعت ہے یعنی وہ کافی اور مفید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بڑا فائدہ اور کفالت ہے عابدین سے، خشوع خضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والے، اور شیطان اور خواہشات نفس پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دینے والے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتاً دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو گا اور اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے ) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت کا ایک حصہ تھا انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (صحیح مسلم) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب و شتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند احمد ) اسی لیے ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انما رحمۃ مھداۃ (صحیح الجامع الصغیر) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔

١٠٨۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔

١٠٩۔ (۱) یعنی جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید و اسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے۔

١٠٩۔ (۲)  اس وعدے سے مراد قیامت ہے یا غلبہ اسلام و مسلمین کا وعدہ یا وہ وعدہ جب اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے گی۔

١١٢۔ (۱) یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔

١١٢۔ (۲)  یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔

٭٭٭

 

سورۃ  الحج

٢۔ آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہو گا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائے گی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہو گا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں ۹۹۹ جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے صرف عذاب کی شدت ہو گی یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہو گئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں ) یہ ۹۹۹ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہو گا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہو گی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورہ حج) پہلی رائے بھی بے وزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے ) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہو گی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہو سکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہو گی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔

٣۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔

٤۔ یعنی شیطان کی بابت تقدیر الٰہی میں یہ بات ثبت ہے۔

٥۔ (۱) یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃٍ گاڑھا خون اور عَلَقَۃٍ سے مُضْغَۃٍ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃٍ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہو جائے، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہو جائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ(لوتھڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحیح بخاری)

٥۔ (۲)  یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔

٥۔ (۳) یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔

٥۔(٤) یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل و کمال قوت و تمیز کی عمر، جو ٣٠ سے ٤٠ سال کے درمیان عمر ہے۔

٥۔(٥) اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہو جانا اور یادداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہو جانا، جسے سورہ یٰسین میں (وَمَنْ نُعَمْرِہُ نُنَکّسْہُ فی الْخَلْقِ) اور سورہ تین میں ( ثم رددنہ اسفل سفلین) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

٥۔(٦) یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے ) پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کر سکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہو جائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کر دینا مشکل ہے ؟ یقیناً جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔

جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کی جی اٹھنا ہو گا۔(مسند احمد جلد ٤)

٩۔١ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ ولی مستکبرا کان لم یسمعھا (سورہ لقمان) لووا رؤوسہم (المنافقون) اعرض ونابجانبہ (بنی اسرائیل)

١١۔ حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)

١٣۔ بعض مفسرین کے نزدیک غیر اللہ کا پجاری قیامت والے دن کہے گا کہ جس کا نقصان، اس کے نفع کے قریب تر ہے، وہ والی اور ساتھی یقیناً برا ہے۔ یعنی اپنے معبودوں کے بارے یہ کہے گا کہ وہاں اس کے امیدوں کے محل ڈھے جائیں گے اور یہ معبود، جن کی بات اس کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے عذاب سے اس بچائیں گے، اس کی شفاعت کریں گے، وہاں خود وہ معبود بھی، اس کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنے ہوں گے مطلب یہ کہ غیر اللہ کو پکارنے سے فوری نقصان تو اس کا ہوا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ قریب نقصان ہے۔ اور آخرت میں تو اس کا نقصان تحقیق شدہ ہی ہے۔

١٥۔ اس کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص، جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ و فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے گھر کی چھت پر رسی لٹکا کر اور اپنے گلے میں اس کا پھندا لے کر اپنا گلا گھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ و غضب سے بچا لے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے۔ اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہو گی۔ دوسرے معنی ہیں کہ ایک رسہ لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے، اس کا سلسلہ ختم کرا دے (اگر وہ کر سکتا ہے ) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہے ؟ امام ابن کثیر نے پہلے مفہوم کو اور امام شوکانی نے دوسرے مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے اور سیاق سے یہی دوسرا مفہوم زیادہ قریب لگتا ہے۔

١٧۔ (۱)  مجوسی سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔

١٧۔ (۲)  ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آ گئے۔

١٧۔ (۳) ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہو جاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہو جائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔

١٧۔(٤) یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہو گا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہو گا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔

١٨۔ (۱) بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کر سکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلاً ( من فی السموات) سے مراد فرشتے ہیں ومن فی الارض سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں (وان من شئی الا یسبح بحمدہ) سورہ بنی اسرائیل۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انہیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے (حم سجدہ ۳۷) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جا کر سجدہ ریز ہو جاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورۃ الرعد اور النحل ٤۷،٤۸ میں بھی کیا گیا ہے۔

١٨۔ (۲)  یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔

١٨۔ (۳) یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کر کے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انہیں بھی مجال انکار نہیں۔

١٨۔(۴) کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔

١٩۔ ھذان خصمن یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آ جاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ رضی اللہ عنہم تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔

٢٢۔ اس میں جہنمیوں کے عذاب کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے جو انہیں وہاں بھگتنا ہو گا۔

٢٣۔ جہنمیوں کے مقابلے میں یہ اہل جنت کا اور ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اہل ایمان کو مہیا کی جائیں گی۔

٢٤۔ (۱) یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہوں گی، وہاں بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہو گی۔

٢٤۔ (۲)  یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہو گی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔

٢٥۔ (۱) روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے ٦ ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔

٢٥۔ (۲)  اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہو گئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابو حنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ ” معارف القرآن جلد ٦ صفحہ ٢٥٣)

٢٥۔ (۳) الحاد کے لفظی معنی تو کج روی ہے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتیٰ کہ بعض عملاً الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کر لے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کر سکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہو گا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہو سکتا ہے۔ (فتح القدیر)

٢٥۔(۴) یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔

٢٦۔ (۱) یعنی بیعت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم علیہ السلام کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السلام کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی "(مسند احمد ٥۔١٥٠،١٦٦، ١٦٧ و مسلم کتاب المساجد)

یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آ کر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔

٢٦۔ (۲)  کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کر لیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ اعاذنا اللہ منہما

٢٧۔ (۱) جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہو جائیں گے۔

٢٧۔ (۲)  یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔

٢٨۔ (۱) یہ فائدے دینی بھی ہیں کہ نماز، طواف اور مناسک حج و عمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت و رضا حاصل کی جائے اور دنیاوی بھی کہ تجارت اور کاروبار سے مال و اسباب دنیا میسر آ جائے۔

٢٨۔ (۲)  بہیمۃ الانعام پالتو جانوروں سے مراد اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ دنبے ) ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا جو اللہ کے نام لے کر ہی کیا جاتا ہے اور ایام معلومات سے مراد، ذبح کے ایام ” ایام تشریق ہیں، جو یوم (١٠ ذوالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔ یعنی ١١،١٢ اور ١٣ ذوالحجہ تک قربانی کی جا سکتی ہے۔ عام طور پر ایام معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لئے جاتے ہیں۔  تاہم یہاں ” معلومات ” جس سیاق میں آیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایام تشریق مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔

٢٩۔ (۱) یعنی ١٠ ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ(یا عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد حاجی تحلل اول (یا اصغر) حاصل ہو جاتا ہے، جس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے اور بیوی سے مباشرت کے سوا، دیگر وہ تمام کام اس کے لئے جائز ہو جاتے ہیں، جو حالت احرام میں ممنوع ہوتے ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پھر وہ بالو، ناخنوں وغیرہ کو صاف کر لے، تیل خوشبو استعمال کرے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لے وغیرہ۔

٢٩۔ (۲)  اگر کوئی مانی ہوئی ہو، جیسے لوگ مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی، تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔

٢٩۔ (۳) عتیق کے معنی قدیم کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق یا تقصیر کے بعد افاضہ کر لے، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا کبریٰ) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جب کہ طواف قدوم بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے اور طواف وداع سنت مؤکدہ (یا واجب) ہے۔ جو اکثر اہل علم کے نزدیک عذر سے ساقط ہو جاتا ہے، جیسے حائضہ عورت سے بالاتفاق ساقط ہو جاتا ہے (ایسر التفاسیر)

٣٠۔ (۱) ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔

٣٠۔ (۲)  جو بیان کئے گئے ہیں ” کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا، جیسے آیت (حُرِّمَتْ عَلَیْکُم الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ الْایٰۃُ) میں تفصیل ہے۔

٣٠۔ (۳) رجس سے مراد گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔

٣٠۔(۴) جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اس کی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلاً اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یا فلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہو گا جیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کر لینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔

٣١۔١(۱) حنفاء حنیف کی جمع ہے جس کے مصدری معنی ہیں مائل ہونا ایک طرف ہونا، یک رخا ہونا یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ یا ایک طرف ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے۔

٣١۔ (۲)  یعنی جس طرح بڑے پرندے، چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر انہیں نوچ کھاتے ہیں یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ سلامت فطرت اور طہارت نفس کے اعتبار سے طہر و صفا کی بلندی پر فائز ہو جاتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے

٣٢۔ شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت اور نشانی کے ہیں جیسے جنگ میں ایک شعار (مخصوص لفظ بطور علامت) اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اس اعتبار سے شعائر اللہ وہ ہیں، جو جو اسلام کے نمایاں امتیازی احکام ہیں، جن سے ایک مسلمان کا امتیاز اور تشخص قائم ہوتا ہے اور دوسرے اہل مذاہب سے الگ پہچان لیا جاتا ہے، صفا، مروہ پہاڑیوں کو بھی اس لئے شعائر اللہ کہا گیا ہے کہ مسلمان حج و عمرے میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ یہاں حج کے دیگر مناسک خصوصاً قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس تعظیم کو دل کا تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دل کے ان افعال سے جن کی بنیاد تقویٰ ہے۔

٣٣۔ (۱) وہ فائدہ، سواری، دودھ، مزید نسل اور اون وغیرہ کا حصول ہے۔ وقت مقرر مراد (ذبح کرنا) ہے یعنی ذبح نہ ہونے تک تمہیں ان سے مذکورہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور سے، جب تک وہ ذبح نہ ہو جائے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا اس پر سوار ہو جا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اس پر سوار ہو جا۔ (صحیح بخاری)

٣٣۔ (۲)  حلال ہونے سے مراد جہاں ان کا ذبح کرنا حلال ہوتا ہے۔ یعنی یہ جانور، مناسک حج کی ادائیگی کے بعد، بیت اللہ اور حرم مکی میں پہنچتے ہیں اور وہاں اللہ کے نام پر ذبح کر دئیے جاتے ہیں، پس مذکورہ فوائد کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے ہی حرم کے لئے قربانی دی جاتی ہے، تو حرم میں پہنچتے ہی ذبح کر دیئے جاتے ہیں اور فقراء مکہ میں ان کا گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

٣٤۔ منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منیٰ اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔

٣٦۔١بدن بدنۃ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لیے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔

۳۶۔(۱) صواف مصفوفۃ (صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے ) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔

٣٦۔ (۲)  یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بے روح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے ” جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ (کاٹا) ہوا گوشت مردہ ہے۔

٣٦۔ (۳) بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھا لیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔

۳۶۔(۴)قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہیں (پہلے ) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کر کے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ

٣٨۔ جس طرح ٦ ہجری میں کافروں نے اپنے غلبے کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ نہیں کرنے دیا، اللہ تعالیٰ نے دو سال بعد ہی کافروں کے اس غلبہ کو ختم فرما کر مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا دیا اور مسلمانوں کو ان پر غالب کر دیا۔

٣٩۔ اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بے وسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ، آیت ٢٥١ کا حاشیہ)۔

صوامع صومعۃ کی جمع) سے چھوٹے گرجے اور بیع (بیعۃ کی جمع) سے بڑے گرجے صلوات سے یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں

٤١۔ (۱) اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والا حکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل و غارت اور ادبار و پستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی مملکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔

٤١۔ (۲)  یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کر کے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔

٤٤۔ (۱) اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ نئی بات نہیں ہے پچھلی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور میں بھی انہیں مہلت دیتا رہا۔ پھر جب ان کا وقت مہلت ختم ہو گیا تو انہیں تباہ برباد کر دیا گیا۔ اس میں تعریض و کنایہ ہے مشرکین مکہ کے لیے کہ تکذیب کے باوجود تم ابھی تک مؤاخذہ الہی سے بچے ہوئے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارا کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے جو وہ ہر قوم کو دیا کرتا ہے لیکن اگر وہ اس اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اطاعت و انقیاد کا راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر اسے ہلاک یا مسلمانوں کے ذریعے سے مغلوب اور ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی کس طرح میں نے انہیں اپنی نعمتوں سے محروم کر کے عذاب و ہلاکت سے دو چار کر دیا۔

٤٦۔ اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل و فہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے (فتح القدیر)

٤٧۔ اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (٢٤ گھنٹے ) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، ٦ گھنٹے (جو ٢٤ گھنٹے کا چوتھائی ہے ) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم و بیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر)

ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم و تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کر کے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہو گا۔

٤٨۔ اسی لئے یہاں قانون مہلت کو پھر بیان کیا ہے کہ میری طرف سے عذاب میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہو جائے، تاہم میری گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، نہ کہیں فرار ہو سکتا ہے۔ اسے لوٹ کر بالآخر میرے ہی پاس آنا ہے۔

٤٩۔ یہ کفار و مشرکین کے مطالبہ پر کہا جا رہا ہے کہ میرا کام تو عذاب بھیجنا، یہ اللہ کا کام ہے، وہ جلدی گرفت فرما لے یا اس میں تاخیر کرے، وہ اپنی حسب و مشیت و مصلحت یہ کام کرتا ہے۔ جس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس خطاب کے اصل مخاطب اگرچہ اہل مکہ ہیں۔ لیکن چونکہ آپ پوری نوح انسانی کے لئے رہبر اور رسول بن کر آئے تھے، اس لئے خطاب یَا اَیُّھَا لنَّاسُ! کے الفاظ سے کیا گیا، اس میں قیامت تک ہونے والے وہ کفار و مشرکین آ گئے جو اہل مکہ کا سا رویہ اختیار کریں گے۔

٥١۔ مُعٰجِزِیْنَ کا مطلب ہے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہمیں عاجز کر دیں گے، تھکا دیں گے اور ہم ان کی گرفت کرنے پر قادر نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے کہ وہ بعث بعد الموت اور حساب کتاب کے منکر تھے۔

٥٢۔تمنی کے ایک معنی ہیں آرزو کی یا دل میں خیال آیا۔ دوسرے معنی ہیں پڑھایا تلاوت کی۔ اسی اعتبار سے امنیۃ کا ترجمہ آرزو، خیال یا تلاوت ہو گا پہلے معنی کے اعتبار سے مفہوم ہو گا اس کی آرزو میں شیطان نے رکاوٹیں ڈالیں تاکہ وہ پوری نہ ہوں۔ اور رسول و نبی کی آرزو یہی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمان لے آئیں، شیطان رکاوٹیں ڈال کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایمان سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مفہوم ہو گا کہ جب بھی اللہ کا رسول یا نبی وحی شدہ کلام پڑھتا اور اس کی تلاوت کرتا ہے۔ تو شیطان اس کی قرأت و تلاوت میں اپنی باتیں ملانے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہے ڈالتا اور مین میخ نکالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیطان کی رکاوٹوں کو دور فرما کر یا تلاوت میں ملاوٹ کی کوشش ناکام فرما کر شیطان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما کر اپنی بات کو یا اپنی آیات کو محکم (پکا) فرما دیتا ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شیطان کی یہ کارستانیاں صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جو رسول اور نبی آئے، سب کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھبرائیں نہیں شیطان کی ان شرارتوں اور سازشوں سے جس طرح ہم پچھلے انبیاء علیہم السلام کو بچاتے رہے ہیں یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی محفوظ رہیں گے اور شیطان کے علی الرغم اللہ تعالیٰ اپنی بات کو پکا کر کے رہے گا۔ یہاں بعض مفسرین نے غرانیق علی کا قصہ بیان کیا ہے جو محققین کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے اس لیے اسے یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھی کی گئی ہے۔

٥٣۔ یعنی شیطان یہ حرکتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور اس کے جال میں لوگ پھنس جاتے ہیں جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہوتا ہے گناہ کر کے ان کے دل سخت ہو چکے ہوتے ہیں۔

٥٤۔ یعنی یہ القائے شیطانی، جو دراصل اغوائے شیطانی ہے، اگر اہل مشرکین اور اہل کفر و شرک کے حق میں فتنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف جو علم معرفت کے حال ہیں، ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بات یعنی قرآن حق ہے۔ جس سے ان کے دل بارگاہ الٰہی میں جھک جاتے ہیں۔

دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں اس طرح کی ان کی راہنمائی حق کی طرف کر دیتا ہے اور اس کے قبول اور اتباع کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے باطل کی سمجھ بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس سے انہیں بچا بھی لیتا ہے اور آخرت میں سیدھے راستے کی راہنمائی یہ ہے کہ انہیں جہنم کے عذاب الیم و عظیم سے بچا کر جنت میں داخل فرمائے گا اور وہاں اپنی نعمتوں اور دیدار سے انہیں نوازے گا۔ اللھم اجعلنا منہم

٥٥۔ یَوْمِ عَقِیْمِ (بانجھ دن) سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اسے عقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد کوئی دن نہیں ہو گا، جس طرح عقیم اس کو کہا جاتا ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یا اس لئے کہ کافروں کے لئے اس دن کوئی رحمت نہیں ہو گی، گویا ان کے لئے خیر سے خالی ہو گا۔ جس طرح باد تند کو، جو بطور عذاب کے آتی رہی ہے الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ کہا گیا ہے۔ اذ ارسلنا علیہم الریح العقیم (الذاریات) جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی۔ یعنی ایسی ہوا جس میں کوئی خیر تھی نہ بارش کی نوید

 ٥٦۔ یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر بطور انعام یا بطور امتحان لوگوں کو بھی بادشاہتیں اور اختیار و اقتدار مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کسی کے پاس بھی کوئی بادشاہت اور اختیار نہیں ہو گا۔ صرف ایک اللہ کی بادشاہی اور اس کی فرمان روائی ہو گی، اسی کا مکمل اختیار اور غلبہ ہو گا (اَلْمُلْکُ یَوْمِئِذ الْحَقُّ لِرَّحْمٰں ِ وَکَانَ یَوْماً عَلَی الکٰفِرِیْنَ عَسِیْراً) ” بادشاہی اس دن ثابت ہے واسطے رحمان کے اور یہ دن کافروں پر سخت بھاری ہو گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا ” آج کس کی بادشاہی ہے ؟ ” پھر خود ہی جواب دے گا ” ایک اللہ غالب کی "۔

٥٨۔ (۱) یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آ گئی یا شہید ہو گئے۔

٥٨۔ (۲)  یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہوں گی نہ فنا۔

٥٨۔ (۳) کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔

٥٩۔ کیونکہ جنت کی نعمتیں ایسی ہوں گی، جنہیں آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا۔ اور دیکھنا سننا تو کجا، کسی انسان کے دل میں ان کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا، بھلا ایسی نعمتوں سے بہرا یاب ہو کر کون خوش نہیں ہو گا؟

٥٩۔ (۲)  عَلِیْم وہ نیک عمل کرنے والوں کے درجات اور ان کے مراتب استحقاق کو جانتا ہے۔ کفر و شرک کرنے والوں کی گستاخیوں اور نافرمانیوں کو دیکھتا ہے۔ لیکن ان کا فوری مؤاخذہ نہیں کرتا۔

٦٠۔ (۱) یعنی یہ کہ مہاجرین بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہو گا۔

٦٠۔ (۲)  کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر برابر ہو چکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کر دینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔

٦٠۔ (۳) اس میں پھر معاف کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہو گا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔

٦١۔ یعنی جو اللہ اس طرح کام کرنے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس کے جن بندوں پر ظلم کیا جائے ان کا بدلہ وہ ظالموں سے لے۔

٦٢۔ اس لئے اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق ہے اس کے وعدے حق ہیں، اس کا اپنے اولیاء کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرنا حق ہے، وہ اللہ عزوجل اپنی ذات میں، اپنی صفات میں اور اپنے افعال میں حق ہے۔

٦٣۔ لَطِیْف (باریک بین) ہے، اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو محیط ہے یا لطف کرنے والا یعنی اپنے بندوں کو روزی پہنچانے میں لطف و کرم سے کام لیتا ہے۔ خَیْر وہ ان باتوں سے باخبر ہے جن میں اس کے بندوں کے معاملات کی تدبیر اور اصلاح ہے۔ یا ان کی ضروریات و حاجات سے آگاہ ہے۔

٦٤۔ پیدائش کے لحاظ سے بھی، ملکیت کے اعتبار سے بھی اور تصرف کرنے کے اعتبار سے بھی۔ اس لئے سب مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ غنی بے نیاز ہے۔ اور جو ذات سارے کمالات اور اختیارات کا منبع ہے، ہر حال میں تعریف کی مستحق بھی وہی ہے۔

٦٥۔ (۱) مثلاً جانور، نہریں، درخت اور دیگر بے شمار چیزیں، جن کے منافع سے انسان بہرہ ور اور لذت یاب ہوتا ہے۔

٦٥۔ (۲)  یعنی اگر وہ چاہے تو آسمان زمین پر گر پڑے، جس سے زمین پر ہر چیز تباہ ہو جائے۔ ہاں قیامت والے دن اس کی مشیت سے آسمان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔

٦٥۔ (۳) اس لئے اس نے مذکورہ چیزوں کو انسان کے تابع کر دیا ہے اور آسمان کو بھی ان پر گرنے نہیں دیتا۔ تابع (مسخر) کرنے کا مطلب ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے ممکن یا آسان کر دیا گیا ہے۔

٦٦۔ یہ بحیثیت جنس کے ہے۔ بعض افراد کا اس ناشکری سے نکل جانا اس کے منافی نہیں، کیونکہ انسانوں کی اکثریت میں یہ کفر و جحود پایا جاتا ہے۔

٦٧۔ (۱) یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ علیہ السلام کے لئے، انجیل امت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔

٦٧۔ (۲)  یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جھگڑیں۔

٦٧۔ (۳) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔

٦٩۔ یعنی بیان اور اظہار حجت کے بعد بھی اگر یہ جھگڑے سے باز نہ آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن فرمائے گا، پس اس دن واضح ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ کیونکہ وہ اس کے مطابق سب کو جزا دے گا۔

٧٠۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم اور مخلوقات کے احاطے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس کی مخلوقات کو جو جو کچھ کرنا تھا، اس کو علم پہلے سے ہی تھا، وہ ان کو جانتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے علم سے یہ باتیں پہلے ہی لکھ دیں۔ اور لوگوں کو یہ بات چاہے، کتنی ہی مشکل معلوم ہو، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ وہی تقدیر کا مسئلہ ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، جسے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا گیا ” اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں (صحیح مسلم) اور سنن کی روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، اور اس کو کہا ” لکھ ” اس نے کہا، کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو کچھ ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔ چنانچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا۔ (ابوداؤد کتاب السنۃ)

٧١۔ یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کر سکیں۔

٧٢۔ (۱) اپنے ہاتھوں سے دست درازی کر کے یا بد زبانی کے ذریعے سے۔ یعنی مشرکین اور اہل ضلالت کے لئے اللہ کی توحید اور رسالت و قیامت کا بیان ناقابل برداشت ہوتا ہے، جس کا اظہار، ان کے چہرے سے اور بعض دفعہ ہاتھوں اور زبانوں سے ہوتا ہے۔ یہی حال آج کے اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کا ہے، جب ان کی گمراہی، قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کی جاتی ہے تو ان کا رویہ بھی آیات قرآنی اور دلائل کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا ہے، جس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے (فتح القدیر)

٧٢۔ (۲)  یعنی ابھی تو آیات الٰہی سن کر صرف تمہارے چہرے ہی حیران ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا، اگر تم نے اپنے اس روئیے سے توبہ نہیں کی، کہ اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات سے تمہیں دو چار ہونا پڑے گا، اور وہ ہے جہنم کی آگ میں جلنا، جس کا وعدہ اللہ نے اہل کفر و شرک سے کر رکھا ہے۔

٧٣۔ (۱) یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بے جان مورتیاں ہیں جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتیں ہیں۔

٧٣۔ (۲)  طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بے بسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے ” (صحیح بخاری)

٧٤۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی بے بس مخلوق کو اس کا ہمسر اور شریک قرار دے لیتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت، اس کی قدرت و طاقت اور اس کی بے پناہی کا صحیح صحیح اندازہ اور علم ہو تو وہ کبھی اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

٧٥۔ (۱) رسل رسول (فرستادہ، بھیجا ہوا قاصد) کی جمع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے بھی رسالت کا یعنی پیغام رسانی کا کام لیا ہے، جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی وحی کے لئے منتخب کیا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں۔ یا عذاب لے کر قوموں کے پاس جائیں اور لوگوں میں سے بھی، جنہیں چاہا، رسالت کے لئے چن لیا اور انہیں لوگوں کی ہدایت و راہنمائی پر مامور فرمایا۔ یہ سب اللہ کے بندے تھے، گو منتخب اور چنیدہ تھے لیکن کسی کے لئے ؟ خدائی اختیارات میں شرکت کے لئے ؟ جس طرح کے بعض لوگوں نے انہیں اللہ کا شریک گردان لیا۔ نہیں، بلکہ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے۔

٧٥۔ (۲)  وہ بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور بصیر ہے۔ یعنی یہ جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے ؟ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ) (سورہ انعام۔١٢٤) ” ” ” اس موقع کو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے "

٧٦۔ جب تمام معاملات کا مرجع اللہ ہی ہے تو پھر انسان اس کی نافرمانی کر کے کہاں جا سکتا ہے اور اس کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے ؟ کیا اس کے لئے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کر کے اس کی رضا حاصل کرے؟  چنانچہ اگلی آیت میں اس کی صراحت کی جا رہی ہے۔

٧٧۔ (۱) یعنی اس نماز کی پابندی کرو جو شریعت میں مقرر کی گئی ہے۔ آگے عبادت کا بھی حکم آ رہا ہے۔ جس میں نماز بھی شامل تھی، لیکن اس کی اہمیت و افضلیت کے پیش نظر اس کا خصوصی حکم دیا۔

٧٧۔ (۲)  یعنی فلاح (کامیابی) اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی افعال خیر اختیار کرنے میں ہے، نہ کہ اللہ کی عبادت و اطاعت سے گریز کر کے محض مادی اسباب و وسائل کی فراہمی اور فراوانی میں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔

٧٨۔ (۱) اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجا آوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی۔

٧٨۔ (۲)  یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کر دیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کر دیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔

٧٨۔ (۳) عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم علیہ السلام عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے ) حضرت ابراہیم علیہ السلام باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔

٧٨۔(۴) مسلم کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔

٧٨۔(٥) یہ گواہی، قیامت والے دن ہو گی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیت ١٤٣ کا حاشیہ۔

٭٭٭

 

 

سورۃ مُومنون

١۔ فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلاً اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔

٢۔ خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔

٣۔ لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انہیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔

٤۔ اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوٰۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔

٧۔ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہو گی۔

٨۔ اَ مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔

٩۔ آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون

١١۔ ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہوں گے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، وکتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی ماء)

١٢۔ مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔

١٣۔ محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔

١٤۔ (۱) اس کی کچھ تفصیل سورہ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مُخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کر دی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسْنِ تَقْوِیْمٍ) (سورۃ التینَ) ” ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا "

١٤۔ (۲)  اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔

١٤۔ (۳) خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔

١٧۔ (۱) طرائق، طریقۃ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انہیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انہیں طرائق قرار ریا۔

١٧۔ (۲)  خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہو گئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہو گئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہر چیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے (ابن کثیر)

١٨۔ (۱) یعنی نہ زیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اور نہ اتنا کم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔

١٨۔ (۲)  یعنی یہ انتظام بھی کیا کہ سارا پانی برس کر فوراً بہہ نہ جائے اور ختم نہ ہو جائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریاؤں اور تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں اسے محفوظ بھی کیا، تاکہ ان ایام میں جب بارشیں نہ ہوں، یا ایسے علاقے میں جہاں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہے، ان سے پانی حاصل کر لیا جائے۔

١٨۔ (۳) یعنی جس طرح ہم اپنے فضل و کرم سے پانی کا ایسا وسیع انتظام کیا ہے، وہیں ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہو جائے۔

١٩۔ یعنی ان باغوں میں انگور اور کھجور کے علاوہ اور بہت سے پھل ہوتے ہیں، جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو اور کچھ کھاتے ہو۔

٢٠۔ اس سے زیتون کا درخت مراد ہے، جس کا روغن تیل کے طور پر اور پھل سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سالن کو صِبْغٍ،ُ رنگ کہا ہے کیوں کہ روٹی، سالن میں ڈبو کر، گویا رنگی جاتی ہے۔ طُوْرِ سَیْنَآءَ (پہاڑ) اور اس کا قرب و جوار خاص طور پر اس کی عمدہ قسم کی پیداوار کا علاقہ ہے۔

٢٢۔ یعنی رب کی ان نعمتوں سے تم فیض یاب ہوتے ہو، کیا وہ اس لائق کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت اور اطاعت کرو۔

٢٤۔ (۱) یعنی یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہو سکتا ہے ؟ اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے تو اصل مقصد اس سے تم پر فضیلت اور بہتری حاصل کرنا ہے۔

٢٤۔ (۲)  اور اگر واقع اللہ اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا نہ کہ کسی انسان کو، وہ ہمیں آ کر توحید کا مسئلہ سمجھاتا۔

٢٤۔ (۳) یعنی اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانے میں تو یہ سنی ہی نہیں۔

٢٥۔ یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بیوقوف اور کم عقل سمجھتا اور کہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے اسے ایک وقت تک ڈھیل دو، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہو جائے گی یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہو جائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔

٢٦۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی، (فدَعارَبَّہ، اَنِّیْ مَغْلُوْب فَانْتَصِرُ) (القمر ١٠) ” نوح علیہ السلام نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر ” اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔

٢٧۔ (۱) یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آ جائے۔

٢٧۔ (۲)  تنور پر حاشیہ سورہ ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین سے مراد ہے ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہو گئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح علیہ السلام کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔

٢٧۔ (۳) یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔

٢٧۔(۴) یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہو چکا ہے، جیسے زوجہ نوح علیہ السلام اور ان کا پسر۔

٢٧۔(٥) یعنی جب عذاب کا آغاز ہو جائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

٢٩۔ (۱) کشتی میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان ظالموں کو بالآخر غرق کر کے، ان سے نجات عطا فرمائی اور کشتی کے خیرو عافیت کے ساتھ کنارے پر لگنے کی دعا کرنا (رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مَنْذَلَا مُّبٰرَ کَا وَّ اَنْتَ خَیْرُالْمُنْزِلِیْنَ)

٢٩۔ (۲)  نبی صلی اللہ علیہ و سلم، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہ اَکْبَرْ،ا للّٰہُ اَکْبَرْ (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَ ا وَمَا کُنَّا لَہ، مُقْرِنِیْنَ وَ اِ نَّا اِلیٰ رَ بِّنَا لْمُنْقَلِمُوْ نَ)

٣٠۔ (۱) یعنی اس سرگزشت نوح علیہ السلام میں اہل ایمان کو نجات اور کفروں کو ہلاک کر دیا گیا، نشانیاں ہیں اس امر پر کہ انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آتے ہیں، ان میں وہ سچے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور کشمکش حق و باطل میں ہر بات سے آگاہ ہے اور وقت آنے پر اس کا نوٹس لیتا ہے اور اہل باطل کی پھر اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے شکنجے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔

٣٠۔ (۲)  اور ہم انبیاء و رسل کے ذریعے سے یہ آزمائش کرتے رہے ہیں۔

٣١۔ اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیوں کہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اہل میں ہیں کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔

٣٢۔ (۱) یہ رسول بھی ہم نے انہی میں سے بھیجا، جس کی نشو و نما ان کے درمیان ہی ہوئی تھی، جس کو وہ اچھی طرح پہچانتے تھے، اس کے خاندان، مکان اور جائے پیدائش ہر چیز سے واقف تھے۔

٣٢۔ (۲)  اس نے آ کر سب سے پہلے وہی توحید کی دعوت دی جو ہر نبی کی دعوت و تبلیغ کا سرنامہ رہی۔

٣٣۔ (۱) یہ سردار قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کو جھٹلاتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔

٣٣۔ (۲)  یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فراوانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انہیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔

٣٣۔ (۳) چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے ؟جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔

٣٤۔ وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت و برتری کو تسلیم کر لو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو مکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف و فضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہو جاتا ہے۔ ھیھات، جس کے معنی دور کے ہیں، دو مرتبہ تاکید کے لیے ہے۔

٣٨۔ یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ، یہ ایک نرا جھوٹ ہے جو یہ شخص اللہ پر باندھ رہا ہے۔

٣٩۔ ١ بالآخر، حضرت نوح علیہ السلام کی طرح، اس پیغمبر نے بھی بارگاہ الٰہی میں، مدد کے لئے، دست دعا دراز کر دیا۔

٤٠۔١عما میں ما زائد ہے جو مجرور کے درمیان، قلت زمان کی تاکید کے لیے آیا ہے جیسے (فبما رحمتہ من اللہ) میں ما زائد ہے یعنی بہت جلد عذاب آنا ہے جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتاوا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ یعنی بہت جلد عذاب آنے والا ہے، جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔

٤١۔ (۱) یہ چیخ کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی چیخ تھی، بعض کہتے ہیں کہ ویسے ہی سخت چیخ تھی، جس کے ساتھ باد صر صر بھی تھی۔ دونوں نے مل کر ان کو چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتار دیا۔

٤١۔ (۲)  غُثْآءَ اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلابی پانی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں درختوں کے پتے، خشک تنے، تنکے اور اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جب پانی کا زور ختم ہو جاتا ہے، تو خشک ہو کر بیکار پڑے ہوتے ہیں، یہی حال ان منکرین اور متکبرین کا ہوا۔

٤٢۔ اس سے مراد حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی قومیں ہیں، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں اسی ترتیب سے ان کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کے نزدیک بنو اسرائیل مراد ہیں۔ قرون، قرن کی جمع ہے اور یہاں بمعنی امت استعمال ہوا ہے۔

٤٣۔ یعنی سب امتیں بھی قوم نوح اور عاد کی طرح، جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا تو تباہ اور برباد ہو گئیں، ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں۔ جیسے فرمایا (اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون) (یونس۔(۴)۹)

٤٤۔ (۱) نَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔

٤٤۔ (۲)  ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔

٤٤۔ (۳) جس طرح اَعَاجِیْبُ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَاحِیْثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلوقات کے واقعات اور قصص۔

٤٥۔ آیات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورہ اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے اور سُلْطَانٍ مُبِیْنٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔

٤٦۔ استکبار اور اپنے کو بڑا سمجھنا، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی عقیدہ آخرت سے انکار اور اسباب دنیا کی فراوانی ہی تھی، جس کا ذکر پچھلی قوموں کے واقعات میں گزرا۔

یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔

٤٩۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔

٥٠۔ (۱) کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم علیہ السلام سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔

٥٠۔ (۲)  رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورہ مریم میں گزرا۔

٥١۔ طِیِّبٰت سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔

دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کر دی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے "کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے ” اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا (صحیح بخاری)

٥٢۔ اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔

٥٤۔ گمراہی کی تاریکیاں بھی اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ اس میں گھرے ہوئے انسان کی نظروں سے حق اوجھل ہی رہتا ہے عُمرۃ، حیرت، غفلت اور ضلالت ہے۔ آیت میں بطور دھمکی ان کو چھوڑنے کا حکم ہے، مقصود وعظ و نصیحت سے روکنا نہیں ہے۔

٦٠۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نا مقبول قرار نہ پائے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا ” ڈرنے والے کون ہیں ؟ وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نا مقبول نہ ٹھہریں ” (ترمذی تفسیر سورہ المومنون۔ مسند احمد ٦۔١٩٥۔١٦٠)۔

٦٢۔ ایسی ہی آیت سورہ بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔

٦٣۔ یعنی شرک کے علاوہ دیگر برائیاں یا اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

٦٤۔ عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔

۶۵۔ یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہو جانے کے بعد کوئی چیخ پکار انہیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انہیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہو گا۔

٦٦۔ (۱) یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔

٦٦۔ (۲)  یعنی آیا احکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔

٦٧۔ (۱) یعنی انہیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم و نگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہو جاتی جو انہیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔

٦٧۔ (۲)  سَمَر کے معنی ہیں رات کی گفتگو یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بے ہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں (فتح القدیر)

٦٨۔ (۱) بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کر لیتے تو انہیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہو جاتی۔

٦٨۔ (۲)  یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔

٦٩۔ یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت و امانت، راست بازی اور اخلاق و کردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔

٧٠۔ (۱) یہ بھی زجر و توبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن و سکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کر سکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو۔

٧٠۔ (۲)  یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسندیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے۔

٧١۔ حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔

٧٤۔ یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔

٧٥۔ اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض و عناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔

٧٦۔ عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی تھی ” اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انہیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما ” چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہو گئے جس پر حضرت سفیان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور انہیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)

۷۷۔ اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہو سکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہو جائیں گی۔

٧٨۔ یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحیتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔

۷۹۔ اس میں اللہ کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پیدا کر کے مختلف اطراف میں پھیلا دیا ہے۔ تمہارے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف، زبانیں بھی مختلف اور عادات و رسومات بھی مختلف۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ تم سب کو زندہ کر کے وہ اپنی بارگاہ میں جمع فرمائے گا۔

٨٠۔ (۱) یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔

٨٠۔ (۲)  جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہر چیز جھکی ہے۔

٨٣۔ یہ سب لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک رو بہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

٨٧۔ یعنی جب تمہیں تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیا کا خالق بھی ایک اللہ ہے آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے، تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے، پھر تم اس کی واحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔

٨٨۔ (۱) یعنی جس کی حفاظت کرنا چاہے اسے اپنی پناہ میں لے لے، کیا اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

٨٨۔ (۲)  یعنی جس کو وہ نقصان پہنچانا چاہے، کیا کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچا لے اور اللہ کے مقابلے میں اپنی پناہ میں لے لے ؟

۸۹۔ یعنی پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اس کی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے۔ انہیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا۔ یعنی عبادت صرف ایک اللہ کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اس لئے نہیں کہ آسمان و زمین کی تخلیق یا تدبیر میں کوئی اور بھی شریک ہے بلکہ صرف اس مغالطے کی بنا پر کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔

٩٤۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دعا فرماتے تھے (وَ اِذَا اَرَدَتَ بِقَوْمِ فِتْنَۃ،ُ فَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنِ) (ترندی تفسیر سورۃ ص و مسند احمد، جلد ٥، ص ٢٤٣)۔ ” اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے۔

٩٦۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ” برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ (٢٤۔٣٥)

٩٧۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے (وَ اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ) (ابو داؤد)

٩٨۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو یعنی بسم اللہ پڑھ کر، کیونکہ اللہ کی یاد، شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اسی لئے آپ یہ دعا بھی مانگتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْحَرَمِ وَ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْغَرَقِ، و اَعُوذُبِکَ اَنْ یَّتَخَبَّطَنِیْ الشَّیْطَانُ عِنْدَالمُوْتِ) (ابو داؤد)

١٠٠۔ (۱) یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔

١٠٠۔ (۲)  کَلَّا، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔

١٠٠۔ (۳) اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انہیں پھر نصیب نہیں ہو گی، کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے (ابن کثیر)

١٠٠۔(۴) دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہو گا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہو گا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہو گا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہو گا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔

١٠١۔ محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ابتداء ایسا ہو گا، بعد میں وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی کریں گے۔

١٠٤۔ (۱) چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ انسانی وجود کا سب سے اہم اور اشرف حصہ ہے، ورنہ جہنم تو پورے جسم کو ہی محیط ہو گی۔

١٠٤۔ (۲)  کَلَحً کے معنی ہوتے ہیں ہونٹ سکڑ کر دانت ظاہر ہو جائیں۔ ہونٹ گویا دانتوں کا لباس ہیں، جب یہ جہنم کی آگ سے سمٹ اور سکڑ جائیں گے تو دانت ظاہر ہو جائیں گے، جس سے انسان کی صورت بدشکل اور ڈراؤنی ہو جائے گی۔

١١١۔ دنیا میں اہل ایمان کے لئے ایک صبر آزما مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دین و ایمان پر عمل کرتے ہیں تو دین سے ناآشنا اور ایمان سے بے خبر لوگ انہیں ہنسی مذاق و ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں کہ وہ ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام اللہ پر عمل کرنے سے کرتے ہیں، جیسے ڈاڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ کی ہندوانہ رسومات سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انہیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ اللَّھُمَّ! اَجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔

١١٣۔ ١ اس سے مراد فرشتے ہیں، جو انسانوں کے اعمال اور عمریں لکھنے پر مامور ہیں یا وہ انسان مراد ہیں جو حساب کتاب میں مہارت رکھتے ہیں۔ قیامت کی ہولناکیاں، ان کے ذہنوں سے دنیا کی عیش و عشرت کو محو کر دیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی جیسے دن یا آدھا دن۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم تو ایک دن یا اس سے بھی کم وقت دنیا میں رہے۔ بیشک تو فرشتوں سے یا حساب جاننے والوں سے پوچھ لے۔

١١٤۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یقیناً دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ لیکن اس نکتے کو دنیا میں تم نے نہیں جانا کاش تم دنیا میں اس کی حقیقت سے دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ ہو جاتے، تو آج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب و کامران ہوتے۔

١١٦۔ (۱) یعنی وہ اس سے بہت بلند کہ وہ تمہیں بغیر کسی مقصد کے یوں ہی ایک کھیل کے طور پر بے کار پیدا کیا اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا۔ اسی لئے آگے فرمایا وہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

١١٦۔ (۲)  عرش کی صفت کریم بیان فرمائی کہ وہاں سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

١١٧۔ اس سے معلوم ہوا کہ فلاح اور کامیابی آخرت میں عذاب الٰہی سے بچ جانا ہے، محض دنیا کی دولت اور آسائشوں کی فراوانی، کامیابی نہیں، یہ دنیا میں کافروں کو بھی حاصل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان سے فلاح کی نفی فرما رہا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اصل فلاح آخرت سے فلاح ہے جو اہل ایمان کے حصے آئے گی، نہ کہ دنیاوی مال و اسباب کی کثرت، جو کہ بلا تفریق مومن اور کافر، سب کو ہی حاصل ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

سُورۃ النُّوْرِ

یہ سورت مدنی ہے اس میں (٦٤) آیات اور (٩) رکوع ہیں۔

١۔ قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

٢۔ (۱) بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت۔١٥ میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحیح مسلم) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔

٢۔ (۲)  اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔

٢۔ (۳) تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درانحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔

٣۔ اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔

٤۔ اس میں (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے اس طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں (١) انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں (٢) ان کی شہادت قبول نہ کی جائے (٣) وہ عند اللہ و عند الناس فاسق ہیں۔

٥۔ توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہو گی، تائب ہو جائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہو جائے گا۔

٧۔ اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہوں بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔

٩۔ یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں ) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔

١٠۔ تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو رب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کر دی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کر لے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کر دی۔

١١۔ (۱) اِ فَک سے مراد وہ واقع افک ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ کی حرمت میں آیت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کر دیا۔ اِفْک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقع میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا کر دیا تھا یعنی حضرت عائشہ تو ثنا تعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔

١١۔ (۲)  ایک گروہ اور جماعت کو عَصْبَۃ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصبیت کا باعث ہوتے ہیں۔

١١۔ (۳) کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ کی حرمت میں ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہو گیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و نصیحت کے اور کئی پہلو ہیں۔

١١۔ (٤)  اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔

١٢۔ یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فورا! اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا؟

١٦۔ دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ پیش نہیں کیا۔ جبکہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشیوں کو جھوٹا نہیں کہا یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہم کو حد قذف لگائی گئی (مسند احمد، جلد۔ ٦) عبد اللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا ہی میں پاک کر دیا گیا۔ دوسرے اس کے پیچھے ایک پورا جتھا تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلحتاً اس سزا دینے سے گریز کیا گیا (فتح القدیر)

١٩۔ فَاحِشَۃ، کے معنی بے حیائی ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔

٢٠۔ جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور شفقت و رحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرما دیا۔

٢١۔ اس مقام پر شیطان کی پیروی سے ممانعت کے بعد یہ فرمانا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، اس سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعہ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے، جس میں بعض مسلمان بہہ گئے تھے۔ اس لئے شیطان کے داؤ اور فریب سے بچنے کے لئے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہو گئے ہیں، ان کو زیادہ ہدف ملامت مت بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔

٢٢۔ حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہو گئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابوبکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ” کے خلاف مہم میں شریک ہو گئے تو ابوبکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چنانچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے ؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے ؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق بے ساختہ پکار اٹھے ” کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ” اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سر پرستی شروع فرما دی (فتح القدیر)، ابن کثیر)

٢٣۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بطور خاص ان پر تہمت لگانے کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ان کے لئے توبہ نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے اسے عام ہی رکھا ہے اور اس میں وہی حد قذف بیان کی گئی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے۔ اگر تہمت لگانے والا مسلمان ہے تو لعنت کا مطلب ہو گا کہ وہ قابل حد ہے اور مسلمان کے لئے نفرت اور بعد کا مستحق اور اگر کافر ہے، تو مفہوم واضح ہی ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں ملعون یعنی رحمت الٰہی سے محروم ہے۔

٢٤۔ جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی اور احادیث میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

٢٦۔ (۱) اس کا ایک مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے۔ اس صورت میں یہ ہم معنی آیت ہو گی، اور خبیثات اور خبیثوں سے زانی مرد و عورت اور طیبات اور رفیون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہوں گے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہو گا کہ ناپاک باتیں وہی مرد عورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے۔ اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں۔

٢٦۔ (۲)  اس سے مراد جنت کی روزی ہے جو اہل ایمان کو نصیب ہو گی۔

٢٧۔(۱) گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اَسْتِیْنَاس کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت طلب فرماتے اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جائے جس بے پردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحیح بخاری) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں (البخاری) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے ؟ تو اس کے جواب میں "میں "”میں "کہا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے (صحیح بخاری)

٢٧۔ (۲)  یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔

٢٩۔ اس سے مراد کون سے گھر ہیں، جن میں بغیر اجازت لئے داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گھر ہیں، جو بطور خاص مہمانوں کے لئے الگ تیار یا مخصوص کر دیئے گئے ہوں۔ ان میں صاحب خانہ کی پہلی مرتبہ اجازت کافی ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرائے ہیں جو مسافروں کے لئے ہی ہوتی ہیں یا تجارتی گھر ہیں، یعنی جن میں تمہارا فائدہ ہو۔

٣٠۔ (۱) جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے ) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔

٣٠۔ (۲)  یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انہیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیونکہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا ذکر کیا کیونکہ اس میں بے احتیاطی ہی، غفلت کا سبب بنتی ہے۔

٣١۔ یہاں پردے کے احکام میں توبہ کا حکم دینے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان احکام کی خلاف ورزی بھی تم کرتے رہے ہو، وہ چونکہ اسلام سے قبل کی باتیں ہیں، اس لئے اگر تم نے سچے دل سے توبہ کر لی اور ان احکام مذکورہ کے مطابق پردے کا صحیح اہتمام کر لیا تو لازمی کامیابی اور دنیا اور آخرت کی سعادت تمہارا مقدر ہے۔

٣٢۔(۱) آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کر دو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مرد و عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اس طرح امر کے صیغے سے بعض نے ثبوت کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ اسے جائز اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت مؤکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے بچنے کی سخت وعید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جس نے میری سنت سے انکار کیا، وہ مجھ سے نہیں۔

٣٢۔ (۲)  یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں بعض نفرت کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (الیسر التفاسیر)

٣٢۔ (۳) یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و رزق میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے ١۔ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے ٢۔ مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے ٣۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔

٣٥۔ (۱) یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بحیثیت صفات کے ) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے، پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔

٣٥۔ (۲)  نور سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔

٣٥۔ ٣ جس طرح اللہ نے مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔

٣٦۔ (۱) جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو اور اس میں جو ایمان و ہدایت اور علم ہے، اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی جو شیشے کی قندیل میں ہو اور جو صاف اور شفاف تیل سے روشن ہو۔ تو اب اس کا محل بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ قندیل ایسے گھروں میں ہیں، جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے مراد مسجدیں ہیں، جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بلندی سے مراد سنگ و خشت کی بلندی نہیں ہے بلکہ اس میں مسجدوں کو گندگی، لغویات اور غیر مناسب اقوال و افعال سے پاک رکھنا بھی شامل ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنا دینا مطلوب نہیں ہے بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زر و نگار اور زیادہ آراستہ و پیراستہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو اسے قرب قیامت کی علامات میں بتلایا گیا ہے۔

٣٦۔ (۲)  تسبیح سے مراد نماز ہے، یعنی اہل ایمان، جن کے دل میں ایمان اور ہدایت کے نور سے روشن ہوتے ہیں، صبح شام مسجدوں میں اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔

٣٧۔ یعنی شدت خوف اور ہولناکی کی وجہ سے جس طرح دوسرے مقام پر ہے ” ان کو قیامت والے دن سے ڈراؤ، جس دن دل، گلوں کے پاس آ جائیں گے، غم بھرے ہوئے "۔ ابتداً دلوں کی یہ کیفیت سب کی ہی ہو گی، مومن کی بھی اور کافر کی بھی۔

٣٨۔ قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کی نیکیوں کا بدلہ (کئی کئی گنا) کی صورت میں دیا جائے گا اور بہت سوں کو بے حساب ہی جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور وہاں رزق کی فراوانی جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

٤٠۔ یعنی دنیا میں ایمان و اسلام کی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی اہل ایمان کو ملنے والے نور سے وہ محروم رہیں گے۔

٤١۔ یعنی اہل زمین و اہل آسمان، جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقیناً وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہو گی۔

٤٢۔ پس وہی اصل حاکم ہے، جس کے حکم کا کوئی تعاقب کرنے والا نہیں اور وہی معبود برحق ہے، جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ اس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں ہر ایک کے بارے میں عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔

٤٤۔ یعنی کبھی دن بڑے، راتیں چھوٹی اور کبھی اس کے برعکس۔ یا کبھی دن کی روشنی، کو بادلوں کی تاریکیوں سے اور رات کے اندھیروں کو چاند کی روشنی سے بدل دیتا ہے۔

٤٥۔ (۱) جس طرح سانپ، مچھلی اور دیگر حشرات الارض کیڑے مکوڑے ہیں۔

٤٥۔ (۲)  جیسے انسان اور پرند ہیں

٤٥۔ (۳) جیسے تمام چوپائے اور دیگر حیوانات ہیں۔

٤٥۔(۴) یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو چار سے بھی زیادہ پاؤں رکھتے ہیں، جیسے کیکڑا، مکڑی اور بہت سے زمینی کیڑے۔

٤٦۔ اللہ تعالیٰ اسے نظر صحیح اور قالب صادق عطا فرما دیتا ہے جس سے اس کے لئے ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ صراط مستقیم سے مراد یہی ہدایت کا راستہ ہے جس میں کوئی کجی نہیں، اسے اختیار کر کے انسان اپنی منزل مقصود جنت تک پہنچ جاتا ہے۔

٤٧۔ یہ منافقین کا بیان ہے جو زبان سے اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن دلوں میں کفر و عناد تھا یعنی اعتقاد صحیح سے محروم تھے۔ اس لئے زبان سے اظہار ایمان کے باوجود ان کے ایمان کی نفی کی گئی۔

٤٩۔ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو فیصلہ صادر ہو گا، اس میں کسی کی رو رعایت نہیں ہو گی، اس لئے وہاں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ ہاں اگر وہ جانتے ہیں کہ مقدمے میں وہ حق پر ہیں اور ان ہی کے حق میں فیصلہ ہونے کا غالب امکان ہے تو پھر خوشی خوشی وہاں آتے ہیں۔

٥٠۔ جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض و گریز کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ یا تو ان کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہے یا انہیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔

٥١۔ یہ اہل کفر و نفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کے کردار و عمل کا بیان ہے۔

٥٢۔ یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقویٰ سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ، جو ان صفات سے محروم ہیں۔

٥٣۔ اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ اطاعت معروف ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہو جاؤ۔ (ابن کثیر)

٥٤۔ (۱) یعنی تبلیغ و دعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔

٥٤۔ (۲)  یعنی تبلیغ و دعوت کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔

٥٤۔ (۳) اس لئے کہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔

٥٥۔ (۱) بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہو گا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا تھا ((ان اللہ زوی لی الارض، فرایت مشارقھا ومغاربھا، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا )) (صحیح مسلم )”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا "پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی "حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس و شام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر و شرک کی جگہ توحید و سنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہو گئیں اور اسلامی تہذیب و تمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔

٥٥۔ (۲)  یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہو جائیں گے۔

٥٥۔ (۳) اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔

٥٦۔ یہ گویا مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔

٥٧۔ یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔

٥٨۔ یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آ جا سکتے ہیں۔

٥٩۔ ان بچوں سے مراد احرار بچے ہیں، بلوغت کے بعد ان کا حکم عام مردوں کا سا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی کے گھر آئیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔

٦٠۔ (۱) ان سے مراد وہ بوڑھی اور راز کار رفتہ عورتیں ہیں جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لئے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے نہ وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں، نہ مرد ہی ان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے ” کپڑے اتار دیں سے مراد جو شلوار قمیض کے اوپر عورت پردے کے لئے بڑی چادر یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بناؤ سنگھار کے ذریعے سے ” اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیف پردہ کے حکم سے مستثنیٰ ہو گی اور اس کے لئے مکمل پردہ کرنا ضروری ہو گا۔

٦٠۔ (۲)  یعنی مذکورہ بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ بھی استعمال کرتی رہیں تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔

٦٢۔ یعنی جمعہ و عیدین کے اجتماعات میں یا داخلی و بیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔

٦٣۔ یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔

٦٤۔ (۱) خلق کے اعتبار سے بھی، ملک کے اعتبار سے بھی اور ماتحتی کے اعتبار سے بھی۔ وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس چیز کا چاہے، حکم دے۔ پس اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کے کسی حکم کی مخالفت نہ کی جائے اور جس سے اس نے منع کر دیا ہے، اس کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اس لئے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بھیجنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔

٦٤۔ (۲)  یہ مخالفین رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو تنبیہ ہے کہ جو کچھ حرکات تم کر رہے ہو، یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ سے مخفی رہ سکتی ہیں۔ اس کے علم میں سب کچھ ہے اور وہ اس کے مطابق قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔

٭٭٭

 

سُوْرۃ الْفُرْقَانِ

یہ سورت مکی ہے اس میں (٧٧) آیات اور (٦) رکوع ہیں۔

١۔ (۱) فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔

١۔ (۲)  اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (قُلْ یِاَیُّھَا النِّاسُ اِ نِّیْ رُسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً) (صحیح مسلم) ” پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ” رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔

٢۔ (۱) یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔

٢۔ (۲)  اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

٢۔ (۳) اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔

٢۔(۴) ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کر دی ہے۔

٣۔ لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کر سکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔

٤۔ مشرکین کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض دوست(مثلاً ابو فکیہہ یسار، عداس اور جبر وغیرہ) سے مدد لی۔ جیسا کہ سورہ النحل آیت ١٠٣ میں اس کی ضروری تفصیل گزر چکی ہے۔

٦۔ یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقیناً نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔

٧۔ قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔

٨۔ (۱) تاکہ طلب رزق سے بے نیاز ہو۔

٨۔ (۲)  تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہو جاتی۔

٨۔ (۳) یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ ہے

٩۔ یعنی اے پیغمبر! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہو جاتے ہیں، انہیں راہ راست کس طرح نصیب ہو سکتی ہے ؟

١٠۔ یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کر دینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کر سکتا ہے جو کہ ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب و عناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔

١١۔ قیامت کا جھٹلانا ہی تکذیب رسالت کا بھی باعث ہے۔

١٢۔ یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (اِذَا القُوْا فِیْھَا سَمِعُوْا لَھَا شَھِیْقاً وَّ ھِیَ تَفُورُ۔ تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ) (سورہ، ملک۔ ٧،٨) ” ” جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے ) اچھلتی ہو گی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑے گی ” جہنم کا دیکھنا اور چلانا ایک حقیقت ہے۔

١٤۔ یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر آرزو کریں گے کہ کاش انہیں موت آ جائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع و اقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے

١٥۔ یہ، اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جو کفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ و اطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ و اطاعت کا راستہ اختیار کر لیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔

١٦۔ یعنی ایسا وعدہ، جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا، جیسے قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ذمے یہ وعدہ واجب کر لیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزا کو اپنے لئے ضروری قرار دے لیا ہے۔

١٧۔ دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں ) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کر کے گمراہ ہوئے تھے ؟

١٨۔ یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کار ساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کی بجائے ہمیں اپنا ولی اور کار ساز سمجھو۔

١٩۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے صفائی کا اعلان کر دیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کر سکو۔

٢٠۔ (۱) یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔

٢٠۔ (۲)  یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب و تجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔

٢٠۔ (۳) یعنی ہم نے انبیاء کو اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھ، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے ؛ اسی لئے آگے فرمایا، کیا تم صبر کرو گے ؟،

٢١۔ (۱) یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے، کسی فرشتے کو بنا کر بھیجا جاتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔

٢١۔ (۲)  یعنی رب آ کر ہمیں کہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری ہے۔

۲۱۔ (۳)  اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے ؟

۲۲۔(۱)  اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہو گی اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ سورۃ الأنفال، ٥۰، سورۃ الانعام،۹۳، میں ہے اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار جان کنی کے وقت یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جاں فزا سناتے ہیں جیسا کہ سورہ حم السجدۃ ۳۰،۳۲ میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے مسند احمد، ابن ماجہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں مومنوں کو رحمت و رضوان الہی کی خوشخبری اور کافروں کو ہلاکت و خسران کی خبر دیتے ہیں۔

۲۲۔ (۲)  حِجْر کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کی بے وقوفی یا کم عمری کی وجہ سے اس کے اپنے مال کو خرچ کرنے سے روک دے تو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِیْ عَلیٰ فُلَانِ قاضی نے فلاں کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے حطیم کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے طواف کرتے وقت اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سے ممتاز کر دیا گیا ہے اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسان کے لائق نہیں ہیں معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوشخبری متقین کو دی جاتی ہے یعنی یہ حراما محرما علیکم کے معنی میں ہے آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پر حرام ہیں اس کے مستحق صرف اہل ایمان و تقویٰ ہوں گے۔

٢٣۔ ھَبَاَء ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کے اندر داخل ہونے والی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے، کیونکہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہوں گے اور موافقت شریعت کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بے حیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ ۲٦٤، سورہ ابراہیم ۱۸۔

٢٤۔ بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہو گا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہو جائیں گے اور جنت میں یہ اہل خاندان اور حور عین کے ساتھ دوپہر کو آرام فرما ہوں گے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے یہ دن اتنا ہلکا ہو گا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کر لینا (مسند احمد ٤۔٧٥)

٢٥۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہو جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلو میں، میدان محشر میں، جہاں ساری مخلوق جمع ہو گی، حساب کتاب کے لئے جلوہ فرما ہو گا، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت ٢١٠ سے واضح ہے۔

٢٨۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیئے، اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لئے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کو ایک بہترین مثال سے واضع کیا گیا ہے۔

٣٠۔ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جا سکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔

٣١۔ (۱) یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہگار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے سورہ انعام آیت ١١٢ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

 ۳۱۔ (۲)  یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے ؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔

٣٢۔ (۱) جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔

٣٢۔ (۲)  اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو ٢٣ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ اے پیغمبر! تیرا اور اہل ایمان کا دل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہو جائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا وقرآنا فرقنٰہ لتقراہ علی الناس علی مکث ونزلنہ تنزیلا۔ (سورہ بنی اسرائیل ١٠٦ ” اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا "۔ اس قران کی مثال بارش کی طرح ہے بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتا فوقتا نازل ہو نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔

٣٣۔ یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کر دیں گے اور یوں انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

٣٨۔ (۱) رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ اَصْحَابُ الرَّس کنوئیں والے۔ اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے (ابن کثیر)

٣٨۔ (۲) قرن کے صحیح معنی ہیں ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہو جائیں تو دوسری نسل دوسرا قدیم زمانہ کہلائے گی۔ (ابن کثیر)، اس کے معنی ہیں ہر نبی کی امت بھی ایک زمانہ ہو سکتی ہے۔

٣٩۔ (۱) یعنی دلائل کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی۔

٣٩۔ (۲)  یعنی تمام حجت کے بعد۔

٤٠۔ (۱) بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہ مراد ہیں اور بری بارش سے پتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کو الٹ دیا گیا تھا اور اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ سورہ ہود۔٨٢ میں بیان ہے۔ یہ بستیاں شام فلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔

٤٠۔ (۲)  اس لئے ان تباہ شدہ بستیوں اور ان کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اور آیات الٰہی اور اللہ کے رسول کو جھٹلانے سے باز نہیں آتے۔

٤١۔ دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا (أھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرْ اٰلِھَتَکُمْ) (انبیاء۔ ٣٦) کیا یہ وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے ؟ یعنی ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کا اظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کے معبودوں کی توہین تھی۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہا جائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔

٤٢۔ (۱) یعنی ہم ہی اپنے آباؤ اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس میں فخر کر رہے ہیں

٤۲۔ (۲)  یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیر اللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انہیں شرک کی وجہ سے عذاب الہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا در در پر اپنی جبینیں جھکانے والے ؟

٤۳۔(۱)  یعنی جو چیز اس کے نفس کو اچھی لگی اسی کو اپنا دین و مذہب بنا لیا کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کر سکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیا گیا پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ یاب پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر۔ فاطر۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں آدمی ایک عرصے تک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آ جاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کر دیتا ابن کثیر۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص جو عقل و فہم سے اس طرح عاری اور محض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کیا تو ان کو ہدایت کے راستے پر لگا سکتا ہے ؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔

٤٣۔ (۱) یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لئے پیدا کیئے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا اور در در پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے چوپائے سے بھی زیادہ بدتر اور گمراہ ہے۔

٤٥۔ (۱) یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو، اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹتا سکڑنا شروع ہوتا جاتا ہے۔

٤٥۔ (۲)  یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کو ختم ہی نہ کرتی۔

٤٥۔ (۳) یعنی دھوپ سے ہی سایہ کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔

۴۶۔ یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبھیر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

٤٧۔ (۱) یعنی لباس، جس طرح لباس انسانی ڈھانچے کو چھپا لیتا ہے، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے۔

٤٧۔ (۲)  سبات کے معنی کاٹنے کے ہوتے ہیں۔ نیند انسان کے جسم کو عمل سے کاٹ دیتی ہے، جس سے اس کو راحت میسر آتی ہے۔ بعض کے نزدیک سبات کے معنی تمدد پھیلنے کے ہیں نیند میں انسان دراز ہو جاتا ہے اس لیے اسے سبات کہا۔ ایسر التفاسیر  و فتح القدیر۔

٤٧۔ (۳) یعنی نیند، جو موت کی بہن ہے، دن کو انسان اس نیند سے بیدار ہو کر کاروبار اور تجارت کے لئے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صبح بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانا بَعْدَ مَا اَمَاتَنا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ) ” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اکٹھے ہونا ہے "۔

٤٨۔ طَھُور فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسی چیزیں جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے جیسے وضو کے پانی کو وضو اور ایندھن کو وقود کہا جاتا ہے اس معنی میں پانی طاہر خود بھی پاک اور مطہر دوسروں کو پاک کرنے والا بھی ہے حدیث میں بھی ہے ان الماء طہور لا ینجسہ شیء ابوداؤد۔ ذائقہ بدل جائے تو ایسا پانی ناپاک ہے کما فی الحدیث

۵۰۔(۱)  یعنی قرآن کریم کو اور بعض نے صٓرفناہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے جس کا مطب یہ ہو گا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں کبھی دوسرے علاقے میں حتی کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت و مشیت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں کبھی کسی اور علاقے میں۔

 ٥٠۔ (۲)  اور ایک کفر ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔

۵۱۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

٥٢۔ جاھدھم بہ میں ھا ضمیر کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں یہ آیت مکی ہے ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرو نواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر و توبیخ اور وعیدیں ہیں وہ واضح کریں۔

٥٣۔ (۱) آپ شیریں کو فرات کہتے ہیں، فَرَات کے معنی کاٹ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کر دیتا ہے۔ اُجَاج، سخت کھاری یا کڑوا۔

۵۳۔ (۲)  جو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتی بعض نے حجرا محجورا کے معنی کیے ہیں حراما محرما ان پر حرام کر دیا گیا ہے کہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہو جائے اور بعض مفسرین نے مرج البحرین کا ترجمہ کیا ہے خلق المائین دو پانی پیدا کیے ایک میٹھا اور دوسرا کھاری میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اور ایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے یہ سمندر ساکن ہیں البتہ ان میں مد و جزر ہوتا رہتا ہے اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے اس کے ذائقے رنگ یا بو میں تبدیلی آ جاتی ہے کھاری پانی خراب نہیں ہوتا نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا تو اس میں بدبو پیدا ہو جاتی جس سے انسانوں اور حیوانوں کا زمین میں رہنا مشکل ہو جاتا اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑ جاتے ہیں لیکن اللہ نے ان میں ملاحت نمکیات کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے حتی کہ ان کا مردار بھی حلال ہے کما فی الحدیث۔ موطا امام مالک۔ ابن ماجہ

٥٤۔ نسب سے مراد رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اور صہرا سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتہ داریوں کی تفصیل آیت حُرِمَتْ عَلَیْکُمْ (النساء۔ ٢٣) (اور النسا، ٢٢) میں بیان کر دی گئی ہے اور رضائی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ البخاری و مسلم۔

٥٧۔ یعنی یہی میرا اجر ہے کہ رب کا راستہ اختیار کر لو۔

٦٠۔ رَ حْمٰن، رَ حِیْم اللّٰہ کی صفات اور اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں لیکن اہل جاہلیت، اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدے کے آغاز پر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھوایا تو مشرکین مکہ نے کہا، ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے۔ بِاسْمِکَ اللَّھُمَّ! لکھو (سیرت ابن ہشام۔ (۲)۔٣١٧) مزید دیکھئے سورہ بنی اسرائیل،١١٠، الرعد۔٣٠ یہاں بھی ان کا رحمٰن کے نام سے بدکنے اور سجدہ کرنے سے گریز کرنے کا ذکر ہے۔

٦١۔ بروج۔ برج کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے لئے گئے ہیں۔ اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے۔ بعد کے مفسرین نے اس سے اہل نجوم کے مطابق بروج مراد لئے اور یہ بارہ برج ہیں، حمل،ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت اور یہ برج سات بڑے سیاروں کی منزلیں ہیں جن کے نام ہیں مریخ، زہرہ، عطارد، قمر، شمس، مشتری اور زحل۔ یہ کواکب (سیارے ) ان برجوں میں اس طرح اترتے ہیں جیسے یہ ان کے لئے عالی شان محل ہیں (ایسرالتفاسیر)

٦٢۔ یعنی رات جاتی ہے تو دن آ جاتا ہے اور دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے۔ دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد و مصالح محتاج وضاحت نہیں۔ بعض نے خِلْفَۃً کے معنی ایک دوسرے کے مخالف کے کئے ہیں یعنی رات تاریک ہے تو دن روشن۔

٦٣۔ سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترک بحث ہے۔ یعنی اہل ایمان، اہل جہالت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقع پر پرہیز اور گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔

٦٥۔ اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آ جائیں، اس لئے وہ عذاب جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کے باوجود اللہ کے عذاب اور اس کے مؤاخذے سے انسان کو بے خوف اور اپنی عبادت و اطاعت الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ والذین یؤتون ما اتوا و قلوبھم وجلۃ انھم الی ربھم رجعون۔ المومنون۔ اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انہیں بارگاہ الہی میں حاضر ہونا ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں ؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انہیں اے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نا مقبول نہ ہو جائیں۔ الترمذی۔

٦٧۔ اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سے تجاوز بھی اسراف میں آ سکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔

٦٨۔(۱)  اور حق کے ساتھ قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں، اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے، جسے ارتداد کہتے ہیں، یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کر دے۔ ان صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔

٦٨۔ (۲)  حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا، کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا۔ یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے در آں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے ؟فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، اس نے پوچھا، پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (البخاری، تفسیر سورۃ البقرۃ)

٧٠۔ (۱)  اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، اور سورہ نساء کی آیت ٩٣ میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر معمول ہو گی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کئے فوت ہو گیا۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نے بھی خالص توبہ کی تو اللہ نے اسے معاف فرمایا (صحیح مسلم)

٧٠۔ (۲)  اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرما دیتا ہے اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلے کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑتا تھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے معنی یہ ہوئے کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے اس کی تائید حدیث میں بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا ہے اور سب آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہو گا۔ یہ وہ آدمی ہو گا کہ قیامت کے دن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے، بڑے ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ ہاں میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہو گی، علاوہ ازیں وہ اس بات سے بھی ڈر رہا ہو گا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کئے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا تیرے لئے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی مہربانی دیکھ کر کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہو گئے (صحیح مسلم)

٧١۔ پہلی توبہ کا تعلق کفر و شرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔

٧٢۔ (۱) زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً، گانا اور دیگر بے ہودہ جاہلانہ رسوم و افعال، سب اس میں شامل ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔

٧٢۔ (۲)  لَغْو ہر وہ بات اور کام ہے، جس میں شرعاً کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت اور وقار سے گزر جاتے ہیں۔

٧٣۔ یعنی وہ ان سے اعراض و غفلت نہیں برتتے جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں یا اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں۔ بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انہیں آویزہ گوش اور حرز جان بناتے ہیں۔

۷٤۔(۱) ۱ یعنی انہیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔

٧٤۔ (۲) یعنی ایسا اچھا نمونہ کہ خیر میں وہ ہماری پیروی کریں۔

٧٧۔ (۱) دعا و التجا کا مطلب، اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے، اگر یہ نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت، اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔

٧٧۔ (۲)  اس میں کافروں سے خطاب ہے کہ تم نے اللہ کو جھٹلا دیا، سو اب اس کی سزا بھی لازماً تمہیں چکھنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں یہ سزا بدر میں شکست کی صورت میں انہیں ملی اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انہیں دو چار ہونا پڑے گا۔

٭٭٭

 

سورۃ شعراء

٣۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لئے جو تڑپ تھی، اس میں اس کا اظہار ہے۔

٤۔ یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہو جاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لئے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیاء و رسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔

 ٦۔ یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزاء و مذاق کرتے ہیں یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں بصورت دیگر آخرت میں تو اس سے کسی صورت چھٹکارا نہیں ہو گا ماکانوا عنہ معرضین نہیں کہا بلکہ ماکانوا بہ یستھزؤن کہا کیوں کہ استہزا ایک تو اعراض و تکذیب کو بھی مستلزم ہے دوسرے یہ اعراض و تکذیب سے زیادہ بڑا جرم ہے۔ فتح القدیر۔

٧۔ زَوْجٍ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کئیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کے لئے بہتر اور فائدے مند ہیں۔ جیسے غلہ جات ہیں پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔

٨۔ (۱) یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کر سکتا ہے، تو کیا انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔

٨۔ (۲)  یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔

٩۔ یعنی ہر چیز پر اس کا غلبہ اور انتقام لینے پر وہ ہر طرح قادر ہے لیکن چونکہ وہ رحیم بھی ہے اس لئے فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ پوری مہلت دیتا ہے اور اس کے بعد مؤاخذہ کرتا ہے۔

١٠۔ یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آ رہے تھے، راستے میں انہیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں نبوت سے سرفراز کر دیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ ان کو سونپ دیا گیا۔

١٣۔ (۱) اس خوف سے کہ وہ نہایت سرکش ہے، میری تکذیب کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ طبع خوف انبیاء کو بھی لا حق ہو سکتا ہے۔

١٣۔ (۲)  یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام زیادہ بول نہیں سکتے تھے۔ یا اس طرف کہ زبان پر انگارہ رکھنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہو گئی تھی، جسے اہل تفسیر بیان کرتے ہیں۔

١٣۔ (۳) یعنی ان کی طرف جبرائیل علیہ السلام کو وحی دے کر بھیج اور انہیں بھی نبوت سے سرفراز فرما کر میرا معاون بنا۔

١٤۔ یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غیر ارادی طور پر ہو گیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لیے فرعوں اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعہ پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینے کی کوشش کرے۔ اس لئے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔

١٥۔ (۱) اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام ان کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے، جیسے یدِ بیضا اور عصا۔

١٥۔ (۲)  یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہوں گے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضہ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بے پرواہ نہیں ہو جائیں گے بلکہ نصرت و معاونت ہے۔

١٧۔ یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے ) بنی اسرائیل غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کر دے تاکہ میں انہیں شام کی سرزمین پر لے جاویں، جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

١٨۔ (۱) فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کی بجائے، ان کی جوابدہی کرنی شروع کر دی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے ؟

١٨۔ (۲)  بعض کہتے ہیں کہ ١٨ سال فرعون کے محل میں بسر کئے، بعض کے نزدیک ٣٠ سال اور بعض کے نزدیک چالیس سال یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزرانے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا؟

١٩۔ پھر ہمارا ہی کھا کر ہماری ہی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ہماری ناشکری بھی کی۔

٢٠۔ یعنی یہ قتل ارادتاً نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا تھا، اس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔

٢١۔ یعنی پہلے جو کچھ ہوا، اپنی جگہ، لیکن اب میں اللہ کا رسول ہوں، اگر میری اطاعت کرے گا تو بچ جائے گا، بصورت دیگر ہلاکت تیرا مقدر ہو گی۔

٢٢۔ یعنی یہ اچھا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہا ہے کہ مجھے تو یقیناً تو نے غلام نہیں بنایا اور آزاد چھوڑے رکھا لیکن میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس ظلم عظیم کے مقابلے میں اس احسان کی آخر حیثیت کیا ہے ؟

٢٣۔ یہ اس نے بطور دریافت کے نہیں، بلکہ جواب کے طور پر کہا، کیونکہ اس کا دعویٰ تو یہ تھا (مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہِ غَیْرِیْ) (القصص۔ ٣٨) ” میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود جانتا ہی نہیں "

٢٥۔ یعنی کیا تم اس کی بات پر تعجب نہیں کرتے کہ میرے سوا بھی کوئی اور معبود ہے ؟

٢٨۔ یعنی جس نے مشرق کو مشرق بنایا، جس سے کواکب طلوع ہوتے ہیں اور مغرب کو مغرب بنایا جس میں کواکب غروب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے، ان سب کا رب اور ان کا انتظام کرنے والا بھی وہی ہے۔

٢٩۔ فرعون نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کامل کی وضاحت کر رہے ہیں جس کا کوئی معقول جواب اس سے نہیں بن پا رہا ہے۔ تو اس نے دلائل سے صرف نظر انداز کر کے دھمکی دینی شروع کر دی اور موسیٰ علیہ السلام کو قید کرنے سے ڈرایا۔

٣٠۔ یعنی ایسی چیز یا معجزہ جس سے واضح ہو جائے کہ میں سچا اور واقعی اللہ کا رسول ہوں، تب بھی تو میری صداقت کو تسلیم نہیں کرے گا؟

٣٢۔ بعض جگہ ثعبان کو حیۃ اور بعض جگہ جان کہا گیا ہے ثعبان وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں او حیۃ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ واللہ اعلم

٣٣۔ یعنی گریبان سے ہاتھ نکالا تو چاند کے ٹکڑے کی طرح چمکتا تھا ؛ یہ دوسرا معجزہ موسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا۔

٣٤۔ فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے جھٹلانے اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بابت کہا کہ یہ کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔

٣٥۔ پھر اپنی قوم کو مزید بھڑکانے کے لئے کہا کہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اب بتلاؤ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔

٣٧۔ یعنی ان دونوں کو فی الحال اپنے حال پر چھوڑ دو، اور تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کر کے ان کا باہمی مقابلہ کیا جائے تاکہ ان کے کرتب کا جواب اور تیری تائید و نصرت ہو جائے۔ اور یہ اللہ ہی کی طرف سے سب انتظام تھا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں اور دلائل کا بہ چشم خود مشاہدہ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے۔

٣٨۔ چنانچہ جادوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد مصر کے اطراف و جوانب سے جمع کر لی گئی، ان کی تعداد ١٢ ہزار، ١٧ ہزار ۱۹ ہزار، ٣٠ ہزار اور ٨٠ ہزار (مختلف اقوال کے مطابق) بتلائی جاتی ہے۔ اصل تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ کسی مستند مأخذ میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات اس سے قبل سورہ اعراف، سورہ طہ میں بھی گزر چکی ہیں گویا فرعون کی قوم قبط نے اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھانا چاہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا چنانچہ کفر و ایمان کے معرکے میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کفر خم ٹھونک کر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے تو ایمان کو اللہ تعالیٰ سرخروئی اور غلبہ عطا فرماتا ہے۔ جس طرح فرمایا، بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق۔ الانبیاء۔ بلکہ ہم سچ کو چھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں پس وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے۔

٣٩۔ یعنی عوام کو بھی تاکید کی جا رہی ہے کہ تمہیں بھی یہ معرکہ دیکھنے کے لئے ضرور حاضر ہونا ہے۔

٤٣۔ حضرت موسیٰ علیہ کی طرف سے جادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کے لئے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کے پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سے خوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہو جائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

٤٤۔ جیسا کہ سورہ اعراف اور طٰہٰ میں گزرا کہ ان جادوگروں نے اپنے خیال میں بہت بڑا جادو پیش کیا،۔ سحروا أعین الناس واسترھبوھم وجاؤا بسحر عظیم۔ سورہ الاعراف۔ حتیٰ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے دل میں خوف محسوس کیا،۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ طہ۔ چنانچہ ان جادوگروں کو اپنی کامیابی اور برتری کا بڑا یقین تھا، جیسا کہ یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔ چنانچہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ اس نے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر لی اور ایک ایک کر کے ان سارے کرتبوں کو نگل گیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٤٩۔ (۱) فرعون کے لئے یہ واقعہ بڑا عجیب اور نہایت حیرت ناک تھا جن جادوگروں کے ذریعے وہ فتح و غلبہ کی آس لگائے بیٹھا تھا وہی نہ صرف مغلوب ہو گئے بلکہ موقع پر ہی وہ اس رب پر ایمان لے آئے، جس نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غور و فکر سے کام لیتا اور ایمان لاتا، اس نے مکابرہ اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا اور کہا کہ تم سب اسی کے شاگرد لگتے ہو اور تمہارا استاد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے ذریعے سے تم ہمیں یہاں سے بے دخل کر دو۔ ان ھذا لمکر مکرتموہ فی المدینۃ لتخرجوا منہا اھلھا۔ الاعراف۔

٤۹۔ (۲)  الٹے طور پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کا مطلب دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر ہے۔ اس پر سولی مستزاد یعنی ہاتھ پیر کاٹنے سے بھی اس کی آتش غضب ٹھنڈی نہ ہوئی مزید اس نے سولی پر لٹکانے کا اعلان کیا۔

٥٠۔ لاضیر۔ کوئی حرج نہیں یا ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ یعنی اب جو سزا چاہے دے لے، ایمان سے نہیں پھر سکتے۔

٥١۔ أوَّلُ الْمُئْومِنِیْنَ اس اعتبار سے کہا کہ فرعون کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور انہوں نے قبول ایمان میں سبقت کی۔

٥٢۔ جب مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قیام لمبا ہو گیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کر دی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔

٥٤۔ یہ بطور تحقیر کے کہا، ورنہ ان کی تعداد چھ لاکھ بتلائی جاتی ہے۔

٥٥۔ یعنی میری اجازت کے بغیر ان کا یہاں سے فرار ہونا ہمارے لئے غیظ و غضب کا باعث ہے۔

۵ ٦۔۱ اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔

٥٨۔ یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا، کہ پلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا نصیب ہی نہیں ہوا، یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت سے انہیں تمام نعمتوں سے محروم کر کے ان کا وارث دوسروں کو بنا دیا۔

٥٩۔ یعنی جو اقتدار اور بادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کر دی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیاوی جاہ جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیونکہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورہ دخان میں فرمایا کہ ” ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا ” (أیسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورہ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آ گئی ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہو گی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ مؤخر کر کے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں واللہ اعلم۔

٦٠۔ یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ نبی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔

٦١۔ یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ، گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے ؟ اب دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہو گی۔

٦٢۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقیناً نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔

٦٣۔ (۱) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ راہنمائی اور نشان دہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں طرف اور بائیں طرف کا پانی بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ راستہ بن گیا کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے واللہ عالم۔

۶۳۔ (۲)  فرق قطعہ بحر، سمندر کا حصہ طور پہاڑ۔ یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم فرعون سے نجات پالے اس تائید الہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔

٦٤۔ اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کر دیا۔

٦٦۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی اور فرعون اور اس کا لشکر جب انہی راستوں سے گزرنے لگا تو ہم نے سمندر کو دوبارہ حسب دستور رواں کر دیا، جس سے فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔

٦٧۔ یعنی اگرچہ اس واقعے میں، جو اللہ کی نصرت و معاونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔

٧١۔ یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔

٧٣۔ یعنی اگر تم ان کی عبادت ترک کر دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں ؟

٧٤۔ جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے تو یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کر لیا۔ کہ ہمارے آبا و اجداد سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔

٧٥۔ افرائیتم کے معنی ہیں فھل أبصٓرتم وتفکرتم کیا تم نے غور و فکر کیا؟

٧٦۔ اس لئے کہ تم سب اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے والے ہو۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جن کی تم اور تمہارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں، وہ سب معبود میرے دشمن ہیں یعنی ان سے بیزار ہوں۔

 ٧٧۔ یعنی وہ دشمن نہیں، بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے۔

٧٨۔ یعنی دین اور دنیا کے مصالح اور منافع کی طرف۔

٧٩۔ یعنی بہت سے اقسام کے رزق پیدا کرنے والا اور جو پانی ہم پیتے ہیں، اسے مہیا کرنے والا وہی اللہ ہے

٨٠۔ بیماری کو دور کر کے شفا عطا کرنے والا بھی وہی ہے یعنی دواؤں میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ ورنہ دوائیں بھی بے اثر ثابت ہوتی ہیں بیماری بھی اگرچہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ہی آتی ہے لیکن اس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی بلکہ اپنی طرف کی یہ گویا اللہ کے ذکر میں اس کے ادب و احترام کے پہلو کو ملحوظ رکھا۔

٨١۔ یعنی قیامت والے دن جب سارے لوگوں کو زندہ فرمائے گا، مجھے بھی زندہ کرے گا۔

٨٤۔ یہاں امید، یقین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہو گی اسی لئے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے عَسَیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خطیئتی، خطیئۃ واحد کا صیغہ ہے لیکن خطایا جمع کے معنی میں ہے انبیاء علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عفو و طلب ہوں گے۔

٨٣۔ حکم یا حکمت سے مراد علم و فہم، قوت فیصلہ، یا نبوت و رسالت یا اللہ کے حدود و احکام کی معرفت ہے۔

٨٤۔ یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں گے، وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثنائے حسن کی صورت میں بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں، کسی کو بھی ان کی عظمت و تکریم سے انکار نہیں ہے۔

٨٦۔ یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے واضح کر دیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کر دیا (التوبہ۔١١٤)

٨٧۔ یعنی تمام مخلوق کے سامنے میرا مؤاخذہ کر کے یا عذاب سے دوچار کر کے حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے، تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کے لئے مغفرت کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ! اس سے زیادہ میرے لئے رسوائی اور کیا ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے۔ پھر ان کے باپ کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا (صحیح بخاری)

٨٩۔ قلب سلیم یا بے عیب دل سے مراد وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔ یعنی کلب مومن۔ اس لئے کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں، بدعت سے خالی اور سنت پر مطمئن دل، بعض کے نزدیک دنیا کے مال متاع کی محبت سے پاک دل اور بعض کے نزدیک، جہالت کی تاریکیوں اور اخلاقی ذلالتوں سے پاک دل۔ یہ سارے مفہوم بھی صحیح ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کہ قلب مومن مذکورہ تمام برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔

٩١۔ مطلب یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے ان کو سامنے کر دیا جائے گا۔ جس سے کافروں کے غم میں اور اہل ایمان کے سرور میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

٩٣۔ یعنی تم سے عذاب ٹال دیں یا خود اپنے نفس کو اس سے بچالیں۔

٩٤۔ یعنی معبودین اور عابدین سب کو مال ڈنگر کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔

٩٥۔ اس سے مراد وہ لشکر ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔

٩٨۔ دنیا میں تو ہر تراشا ہوا پتھر اور، مشرکوں کو خدائی اختیارات کا حامل نظر آتا ہے۔ لیکن قیامت کو پتہ چلے گا کہ یہ کھلی گمراہی تھی کہ وہ انہیں رب کے برابر سمجھتے رہے۔

٩٩۔ یعنی وہاں جا کر احساس ہو گا کہ ہمیں دوسرے مجرموں نے گمراہ کیا۔ دنیا میں انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام گمراہی ہے۔ بدعت ہے شرک ہے تو نہیں مانتے نہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں کہ حق و باطل ان پر واضح ہو سکے۔

١٠١۔ گناہ گار اہل ایمان کی سفارش تو اللہ کی اجازت کے بعد انبیاء صلحاء بالخصوص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرمائیں گے۔ لیکن کافروں اور مشرکوں کے لئے سفارش کرنے کی کسی کو اجازت ہو گی نہ حوصلہ، اور نہ وہاں کوئی دوستی ہی کام آئے گی۔

١٠٢۔ اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اللہ کو خوش کر لیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔

١٠٣۔ (۱) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کے بارے میں اپنی قوم سے مناظرہ اللہ کی توحید کے دلائل، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

١٠٣۔ (۲)  بعض نے اس مرجع مشرکین مکہ یعنی قریش کو قرار دیا ہے یعنی ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔

۱٠٥۔ قوم نوح علیہ السلام نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح علیہ السلام نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

١٠٦۔ بھائی اس لئے کہا کہ حضرت نوح علیہ السلام ان ہی کی قوم کے ایک فرد تھے۔

١٠٧۔ یعنی اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے، وہ بلا کم و کاست تم تک پہنچانے والا ہوں، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا۔

١٠٨۔ یعنی میں تمہیں جو ایمان باللہ اور شرک نہ کرنے کی دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔

١٠٩۔ میں تمہیں جو تبلیغ کر رہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا، بلکہ اس کا اجر رب العالمین ہی کے ذمے ہے جو قیامت کو عطا فرمائے گا۔

١١٠۔ یہ تاکید کے طور پر بھی ہے اور الگ الگ سبب کی بنا پر بھی، پہلے اطاعت کی دعوت، امانت داری کی بنیاد پر تھی اور اب یہ دعوت اطاعت عدم طمع کی وجہ سے ہے۔

١١١۔ الارذلون، ارذل کی جمع ہے، جاہ و مال رکھنے والے، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں

١١٢۔ یعنی مجھے اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے کہ میں لوگوں کے حسب نسب، امارت و غربت اور ان کے پیشوں کی تفتیش کروں بلکہ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ایمان کی دعوت دوں اور جو اسے قبول کر لے، چاہے وہ کسی حیثیت کا حامل ہو، اسے اپنی جماعت میں شامل کر لوں۔

١١٣۔ یعنی ان کے ضمیروں اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔

١١٤۔ یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے دور کر دے، پھر ہم تیری جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔

١١٥۔ پس جو اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، چاہے دنیا کی نظر میں وہ شریف ہو یا رذیل، کمینہ ہو یا حقیر۔

١٢٠۔ یہ تفصیلات کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں اور کچھ آئندہ بھی آئیں گی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے باوجود ان کی قوم کے لوگ بد اخلاقی اور اعراض پر قائم رہے، بالآخر حضرت نوح علیہ السلام نے بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے کشتی بنانے کا اور اس میں مومن انسانوں، جانوروں اور ضروری سازو سامان رکھنے کا حکم دیا اور یوں اہل ایمان کو بچا لیا گیا اور باقی سب لوگوں کو حتیٰ کہ بیوی اور بیٹے کو بھی، جو ایمان نہیں لائے تھے، غرق کر دیا گیا۔

١٢٣۔ عاد، ان کے جد اعلیٰ کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑ گیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کے کَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔

١٢٤۔ ہود علیہ السلام کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے، جس کی طرف اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے انہیں اس قوم کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیاء و رسل کی یہ بشریت بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بے خبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولا ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔

١٢٨۔ ریع، ریعۃ، کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، درہ یا گھاٹی یہ ان گزر گاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو بلندی پر ایک نشانی مشہور ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف کھیل کود ہوتا تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف کھیل کود ہوتا ہے بیکار محض بے فائدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔

١٢٩۔ اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے، جیسے وہ ہمیشہ انہی محلات میں رہیں گے۔

١٣٠۔ یہ ان کے ظلم و تشدد اور قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔

١٣١۔ ١ جب ان کے اوصاف قبیحہ بیان کیئے جو ان کے دنیا میں انہماک اور ظلم و سرکشی پر دلالت کرتے ہیں تو پھر انہیں دوبارہ تقویٰ اور اپنی اطاعت کی دعوت دی۔

١٣٥۔ یعنی اگر تم نے اپنے کفر پر اصرار جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کا شکر ادا نہ کیا، تو تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا جاؤ گے۔ یہ عذاب دنیا میں بھی آ سکتا ہے اور آخرت تو ہے ہی عذاب و ثواب کے لئے۔ وہاں تو عذاب سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں ہو گا۔

١٣٧۔ یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات و روایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آباء و اجداد کار بند رہے، مطلب دونوں سورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔

١٣٨۔ جب انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم تو اپنا آبائی دین نہیں چھوڑیں گے، تو اس میں عقیدہ آخرت کا انکار بھی تھا۔ اس لئے انہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا اندیشہ تو اسے ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا اور روز جزا کو تسلیم کرتا ہے۔

١٣٩۔ قوم عاد، دنیا کی مضبوط ترین اور قوی ترین قوم تھی، جس کی بابت اللہ نے فرمایا (الَّتِیْ لَمْ یخْلَقُ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ) ” اس جیسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی ” یعنی جو قوت اور شدت و جبروت میں اس جیسی ہو۔ اس لئے یہ کہا کرتی تھی (مَنْ اَشد مِنَّا قُوَّہً) (حٰم السجدۃ۔ ١٥) ” کون قوت میں ہم سے زیادہ ہے ” لیکن جب اس قوم نے بھی کفر کا راستہ چھوڑ کر ایمان و تقویٰ اختیار نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کی صورت میں ان پر عذاب فرمایا جو مکمل سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہا۔ باد تند آتی اور آدمی کو اٹھا کر فضا میں بلند کرتی اور پھر زور سے سر کے بل زمین پر پٹخ دیتی۔ جس سے اس کا دماغ پھٹ اور ٹوٹ جاتا اور بغیر سر کے ان کے لاشے اس طرح زمین پر پڑے ہوتے گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ انہوں نے پہاڑوں، کھوؤں اور غاروں میں بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنا رکھی تھیں۔ پینے کے لئے گہرے کنوئیں کھود رکھے تھے، باغات کی کثرت تھی۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا گیا۔

١٤١۔ ١ ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

١٤٦۔ یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، نہ تمہیں موت آئے گی نہ عذاب؟ استفہام انکاری اور توبیخی ہے یعنی ایسا نہیں ہو گا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعے سے، جب اللہ چاہے گا، تم ان نعمتوں سے محروم ہو جاؤ گے اس میں ترغیب ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہے۔

١٤٨۔ یہ ان نعمتوں کی تفصیل ہے جن سے وہ بہرہ ور تھے، طلع، کھجور کے اس شگوفے کو کہتے ہیں جو پہلے پہل نکلتا یعنی طلوع ہوتا ہے، اس کے بعد کھجور کا یہ پھل بلح، پھر بسر، پھر رتب اور اس کے بعد تمر کہلاتا ہے۔ (ایسر التفاسر) باغات میں دیگر پھلوں کے ساتھ کھجور کا پھل بھی آ جاتا ہے لیکن عربوں میں چونکہ کھجور کی بڑی اہمیت ہے اس لیے اس کا خصوصی طور پر بھی ذکر کیا ھضیم کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں مثلاً لطیف اور نرم و نازک۔ تہ بہ تہ وغیرہ

١٤٩۔ فَارِھِیْنَ یعنی ضرورت سے زیادہ فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا فخرو غرور کرتے ہوئے، جیسے آجکل لوگوں کا حال ہے۔ آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخر و غرور کا اظہار بھی۔

١٥١۔ مُسْرِفِیْنَ سے مراد وہ رؤسا اور سردار ہیں جو کفر و شرک کے داعی اور مخالفت میں پیش پیش تھے۔

١٥٥۔ یہ وہی اونٹنی تھی جو ان کے مطالبے پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی ایک دن اونٹنی کے لئے اور ایک دن ان کے لئے پانی مقرر کر دیا گیا تھا، اور ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جو دن تمہارا پانی لینے کا ہو گا، اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی اور جو دن اونٹنی کے پانی پینے کا ہو گا، تمہیں گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔

١٥٦۔ دوسری بات انہیں یہ کہی گئی کہ اس اونٹنی کو کوئی بری نیت سے ہاتھ نہ لگائے، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ یہ اونٹنی اسی طرح ان کے درمیان رہی۔ گھاٹ سے پانی پیتی اور گھاس چارہ کھا کر گزارہ کرتی۔ کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود اس کا دودھ دوہتی اور اس سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

١٥٧۔ (۱) یعنی باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی، اللہ کی قدرت کی ایک نشانی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی، قوم ثمود ایمان نہیں لائی اور کفر و شرک کے راستے پر گامزن رہی اور اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ بالآخر قدرت کی زندہ نشانی ” اونٹنی ” کی کوچیں کاٹ ڈالیں یعنی اس کے ہاتھوں پیروں کو زخمی کر دیا، جس سے وہ بیٹھ گئی اور پھر اسے قتل کر دیا۔

١٥٧۔ (۲)  یہ اس وقت ہوا جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے، چوتھے دن تمہیں ہلاک کر دیا جائے گا اس کے بعد جب واقع عذاب کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئیں تو پھر ان کی طرف سے بھی اظہار ندامت ہونے لگا۔ لیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعد ندامت اور توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔

١٥٨۔ (۲)  یہ عذاب زمین سے زلزلے اور اوپر سے سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا، جس سے سب کی موت واقع ہو گئی۔

١٦٠۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہارون بن آزر کے بیٹے تھے۔ اور ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی زندگی میں نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم ” سدوم ” اور ” عموریہ ” میں رہتی تھی۔ یہ بستیاں شام کے علاقے میں تھیں۔

١٦٦۔ (۱) یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لئے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بد فعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بد فعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کر لیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مزاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد عورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضامندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بد فعلی کرنا کیونکر گناہ اور ناجائز ہو سکتا ہے۔؟ اعاذنا اللہ منہ

 ٦٦۱۔ (۲)  عادون۔ عاد کی جمع ہے عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کو فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے حد سے تجاوز کیا۔

١٦٧۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے وعظ نصیحت کے جواب میں انہوں نے کہا تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہیں دیں گے۔

١٦٨۔ یعنی میں اسے پسند نہیں کرتا اور اس سے سخت بیزار ہوں۔

١٧١۔ اس سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی بوڑھی بیوی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، چنانچہ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کر دی گئی۔

۱۷۴۔ ١ یعنی نشان زدہ کھنگر پتھروں کی بارش سے ہم نے ان کو ہلاک کیا اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا، جیسا کہ سورۃ ہود، ٨٢۔٨٣ میں بیان ہے۔

١٧٦۔ اَیْکَۃَ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اور بستی ” مدین ” کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کے نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لے کر اس کی نواحی آبادی تک تھا جہاں ایک درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب علیہ السلام تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ چونکہ قوم نہیں بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا جس طرح کہ دوسرے انبیاء کے ذکر میں ہے البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے والی مدین اخاھم شعیبا۔ کالاعراف۔ بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ کی طرف لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے اوفوا لکیل والمیزان کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔

١٨١۔ یعنی جب تم لوگوں کو ناپ کر دو تو اسی طرح پورا دو، جس طرح لیتے وقت تم پورا ناپ کر لیتے ہو۔ لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو، کہ دیتے وقت کم دو اور لیتے وقت پورا لو!

۱۸۲۔۱ اسی طرح تول میں ڈنڈی مت مارو بلکہ پورا صحیح تول کر دو!

١٨٣۔ (۱) یعنی لوگوں کو دیتے وقت ناپ یا تول میں کمی مت کرو۔

۱۸۳۔ (۲)  یعنی اللہ کی نافرمانی مت کرو اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے بعض نے اس سے مراد وہ رہزنی لی ہے جس کا ارتکاب بھی یہ قوم کرتی تھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ ولاتقعدوا بکل صراط توعدون۔ الاعراف۔ راستوں میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے مت بیٹھو۔ ابن کثیر۔

۱۸٤۔۱ جبلۃ اور جبل مخلوق کے معنی میں ہے جس طرح دوسرے مقام پر شیطان کے بارے میں فرمایا۔ ولقد اضل منکم جبلا کثیراً۔ سورہ یسین۔ اس نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو گمراہ کیا اس کا استعمال بڑی جماعت کے لیے ہوتا ہے۔ وھو الجمع ذو العدد الکثیر من الناس۔ فتح القدیر۔

١٨٦۔ یعنی تو جو دعوا کرتا ہے کہ مجھے اللہ نے وحی و رسالت سے نوازا ہے، ہم تجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں، کیونکہ تو بھی ہم جیسا انسان ہے۔ پھر تو اس شرف سے مشرف کیونکر ہو سکتا ہے۔

١٨٧۔ یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی تہدید کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تو واقعی سچا ہے تو جا ہم تجھے نہیں مانتے، ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا کر دکھا!

١٨٨۔ یعنی تم جو کفر و شرک کر رہے ہو، سب اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس کی جزا تمہیں دے گا، اگر چاہے گا تو دنیا میں بھی دے دے گا، یہ عذاب اور سزا اس کے اختیار میں ہے۔

١٨٩۔ انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما دیا اور وہ اس طرح کے بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کر دی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس سائے تلے جمع ہو گئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہو گئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انہیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لئے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انہیں پکڑ لیا۔

١٩٣۔ کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے واقعات بیان کر کے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کر سکتا تھا؟ اس لئے یہ قرآن یقیناً اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ جبرائیل علیہ السلام لے کر آئے۔

١٩٤۔ (۱) دل کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ حواس باختہ میں دل ہے سب سے زیادہ ادراک اور حفظ کی قوت رکھتا ہے۔

١٩٤۔ (۲)  یعنی نزول قرآن کی علت ہے۔

١٩٦۔ یعنی جس طرح پیغمبر آخری زمان صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور و بعث کا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔

١٩٧۔ کیونکہ ان کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرح رجوع کرتے تھے۔ اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اور بتلانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟

١٩٩۔ یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے حمٰ السجدہ ٤٤ میں ہے۔

٢٠٠۔ یعنی سَلَکْنَاہُ میں ضمیر کا مرجع کفر و تکذیب اور جحود و عناد ہے۔

٢٠٣۔ لیکن مشاہدہ عذاب کے بعد مہلت نہیں دی جاتی، نہ اس وقت کی توبہ ہی مقبول ہے۔

٢٠٤۔ یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ۔

٢٠٧۔ یعنی اگر ہم نے انہیں مہلت دے دیں اور پھر انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لیں، تو کیا دنیا کا مال و متاع ان کے کچھ کام آئے گا؟ یعنی انہیں عذاب سے بچا سکے گا؟ نہیں یقیناً نہیں۔

٢٠٩۔ یعنی ارسال رسل اور انزار کے بغیر اگر ہم کسی بستی کو ہلاک کر دیتے تو یہ ظلم ہوتا، تاہم ہم نے ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق ہم نے پہلے ہر بستی میں رسول بھیجے، جنہوں نے اہل بستی کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور اس کے بعد جب انہوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو ہم نے انہیں ہلاک کیا۔ یہی مضمون بنی اسرائیل۔ ١٥ اور قصص۔٥٩ وغیرہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

٢١٢۔ ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے محفوظیت کا بیان ہے۔ ایک تو اس لئے کہ شیا طین کا قرآن لے کر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر و فساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سد باب ہے گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے، تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنا دیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر بجلی بن کر گرتے اور بھسم کر دیتے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔

٢١٤۔ پیغمبر کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یَا صَبَاحَا کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعہ سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہو گئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں، یقیناً ہم تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا، تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لئے بلایا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورہ تبت نازل ہوئی (صحیح بخاری) آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ کو بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کر لو میں وہاں تمہارے کام نہیں آ سکوں گا۔

٢١٩۔ یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔

٢٢٢۔ یعنی اس قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ شیطان تو جھوٹوں اور گنہگاروں (یعنی کاہنوں، نجومیوں وغیرہ) پر اترتے ہیں نہ کہ انبیاء صالحین پر۔

٢٢٣۔ یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کاہنوں کو آ کر بتلا دیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور بھی ملا لیتے ہیں۔

٢٢٦۔ شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اصول کی بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں، اسی قسم کے اشعار کے لئے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ "پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کر دے، شعر سے بھر جانے سے بہتر ہے ” (ترمذی و مسلم وغیرہ)

٢٢٧۔ (۱) اس سے ان شاعروں کو مستثنیٰ فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایماندار، عمل صلح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط اور تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سے عاری ہوں۔

٢٢٧۔ (۲)  یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعرا کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت کافروں کی شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کو فرماتے کہ ” ان (کافروں ) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں (صحیح بخاری)

٢٢٧۔ (۳) یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں ؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لئے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ” تم ظلم سے بچو! اس لئے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہو گا (صحیح مسلم)۔

٭٭٭

 

سورۃ نمل

 نَمْل،چیونٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورہ نمل کہا جاتا ہے۔

٣۔ یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہوں گے جو ہدایت کے طالب ہوں گے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کر لیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے، ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، در آں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔

٤۔ (۱) یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔

٤۔ (۲)  یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔

٧۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آ رہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔

٨۔ دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فَی النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَھَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے ) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے، کہ ” اگر اپنی ذات کو بے نقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ” (صحیح مسلم)

٩۔ درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔

١٠۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔

١١۔ (۱) یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرما لے

١١۔ (۲)  یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کر لیتا ہوں۔

١٢۔ (۱) یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیا گیا۔

١٢۔ (۲)  فِیْ تسْعِ آیَاتِ یعنی یہ دو معجزے ان ٩ نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان ٩ نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل، آیت۔١٠١ کا حاشیہ۔

١٣۔ مُبْصِرَۃً، واضح اور روشن یا اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے

١٤۔ یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔

۱۵۔۱ سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا یہ قصہ ہے انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے سچے رسول ہیں علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔

١٦۔ (۱) اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان علیہ السلام قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد)

١٦۔ (۲)  بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)

١٦۔ (۳) جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔

١٧۔ (۱) اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتیٰ کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لئے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔

١٧۔ (۲)  یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کر دیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔

١٨۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔

١٩۔ (۱) چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔

۱۹۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ جنت مومنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا صحابہ رضی اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی۔صحیح بخاری۔

٢٠۔ یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آ رہا  یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔

۲۲۔(۱)  احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا

٢٢۔ (۲)  سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعا (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے (فتح القدیر)

٢٣۔ (۱) یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آجکل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہو سکتی، حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔

٢٣۔ (۲)  کہا جاتا ہے کہ اس کا طول ٨٠ ہاتھ اور عرض ٤٠ ہاتھ اور انچائی ٣٠ ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔

٢٤۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیاء بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بے خبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے یہاں ہدہد نے حیرت و استعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لئے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔

٢٥۔ یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔

٢٧۔ مالک تو اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لئے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا، یہ واضح کرنے کے لئے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے ” چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ” (مسند احمد)

٢٨۔ یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔

٣١۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔

٣٣۔ (۱) یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پا مردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لئے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔

٣٣۔ (۲)  اس لئے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہو گا، بجا لائیں گے۔

٣٤۔ (۱) یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔

٣٤۔ (۲)  یعنی قتل و غارت گری کر کے اور قیدی بنا کر۔

٣٤۔ (۳) بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

٣٥۔ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سلیمان علیہ السلام کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقیناً اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت بغیر چارہ نہیں ہو گا۔

٣٦۔ (۱) یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کر سکتے ہو؟ یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔

٣٦۔ (۲)  یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔

۳۷۔(۱)  یہاں صیغہ واحد سے مخاطب کیا جب کہ اس سے قبل صیغہ جمع سے خطاب کیا تھا کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے کبھی امیر کو۔

 ٣٧۔ (۲)  حضرت سلیمان علیہ السلام نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لئے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طرز عمل اور اسوہ، حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔

٣٨۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے چنانچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کر دی۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انہیں مزید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔

٣٩۔ (۱) اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔

۳۹۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے تین یا چار گھنٹے میں طَے کر لے ایک طاقتور سے طاقتور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔

٣٩۔ (۳)  یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔

٤٠۔ یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔

٤١۔ (۱) یعنی اس کے رنگ روپ یا واضح و شکل شباہت میں تبدیلی کر دو۔

٤١۔ (۲)  یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟ دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں ؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہوتی ہے یا نہیں ؟

٤٢۔ (۱) رد و بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آ گئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور رد و بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا ” گویا یہ وہی ہے ” اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔

٤٢۔ (۲)  یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہو گئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہو گی۔

٤٣۔ یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لئے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی، یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان علیہ السلام نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا ؛ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے (فتح القدیر)

٤٤۔ (۱) یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا، جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہرے دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی دنیاوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلا دی جائے جس میں اللہ نے انہیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے چڑھا لئے۔ شیشے کا فرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لئے اس نے کپڑے سمیٹ لئے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہو گیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو ممرد کہا جاتا ہے اسی سے مراد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی ڈاڑھی مونچھ نہ ہو جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے۔فتح القدیر۔ لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کے معنی میں ہے یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔ ملحوظہ:ملکہ سبا بلقیس کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہو گیا تھا لیکن جب قرآن و حدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

٤٥۔ ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔

٤٦۔ یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح علیہ السلام نے یہ کہا۔

٤٧۔ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بد شگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے

٤۷۔ (۲)  یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا و تقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔فتح القدیر

٤٧۔ (۳)  یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔

٤٩۔ (۱) یعنی صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کا صفایا کر دیں۔

٤٩۔ (۲)  یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انہیں قتل کر گیا ہے۔

٥٠۔ (۱) ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبہ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگا دیں۔

٥٠۔ (۲)  یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ اسے بھی مَکَرْنَا مَکْراً کے طور پر تعبیر کیا گیا۔

٥٠۔ (۳) اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

٥١۔ یعنی ہم نے مذکورہ ٩ سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کر دیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہو سکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو ٩ افراد نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔

٥٤۔ (۱) یعنی لوط علیہ السلام کا قصہ یاد کرو، جب لوط علیہ السلام نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔

٥٤۔ (۲)  یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہوں گے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔

٥٥۔ (۱) یہ تکرار توبیخ کے لئے ہے کہ یہ بے حیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر فطری شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔

٥٥۔ (۲)  یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بے خبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔

٥٦۔ بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔

٥٧۔ یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی جو عذاب سے دو چار ہوں گے۔

٥٨۔ (۱) ان پر عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور کھنگرو کی بارش ہوئی۔

۵۸۔ (۲)  یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کر دی گئی لیکن وہ تکذیب و انکار سے باز نہیں آئے۔

٥٩۔(۱) جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کی رہنمائی کے لئے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔

۵۹۔ (۲)  یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق رازق اور مالک یہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہو سکتا ہے جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک خیر اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے مطلق بہتر کے معنی میں ہے اس لیے کہ معبودان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں۔

۶۰۔ (۱) یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں منفرد ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے با رونق باغات اگانے والا کون ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے ؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (مثلاً سورہ العنکبوت ٦۳)

۶۰۔ (۲)  یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ امن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ؟ (ابن کثیر)

۶۰۔ (۳)  اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔

٦١۔ (۱) یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔

٦١۔ (۲)  اس کی تشریح کے لئے دیکھیں سورہ الفرقان۔٥٣ کا حاشیہ۔

٦٢۔ (۱) یعنی وہی اللہ ہے جسے سختی کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ الا سراء۔ ٦٧ سورہ النمل۔٥٣

٦٢۔ (۲)  یعنی ایک امت کے بعد دوسری، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین تنگ ہونے کا شکوہ کرتی معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور سب کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں ہی مصروف و سرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔

٦٣۔ (۱) یعنی آسمانوں پر ستاروں کو درخشانی عطا کرنے والا کون ہے ؟ جن سے تم تاریکیوں میں راہ پاتے ہو، پہاڑوں اور وادیوں کا پیدا کرنے والا کون ہے جو ایک دوسرے کے لئے سرحدوں کا کام بھی دیتے ہیں اور راستوں کی نشان دہی کا بھی۔

٦٣۔ (۲)  یعنی بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں، جو بارش کی خوشخبری ہی نہیں ہوتیں، بلکہ ان سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں میں خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے۔

٦٤۔ (۱) یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔

٦٤۔ (۲)  یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے چھپے خزانے (غلہ جات اور میوے ) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے۔

٦٥۔ یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ منفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ” (صحیح بخاری) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہو گا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہو گا۔فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہو گا تو ایسا ایسا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)

(۱) یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔

٦٨۔ یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔

۷۱۔یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقیناً سچ ہے۔

 ٧٢۔ اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل اور اسیری کی شکل میں کافروں کو پہنچایا یا عذاب قبر ہے رَدِفَ، قرب کے معنی میں ہے، جیسے سواری کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے کو ردیف کہا جاتا ہے۔

٧٣۔ یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل و کرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے انکار کر کے ناشکری کرتے ہیں۔

 ٧٥۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لئے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لئے لکھ رکھا ہے، تو پھر اسے تباہ کر دیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں ؟

٧٦۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو۔ حتیٰ کہ انہیں، اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن کریم نے ان کے حوالے سے ایسی باتیں بیان فرمائیں، جن سے حق واضح ہو جاتا ہے اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلاف اور تفریق و انتشار کم ہو سکتا ہے۔

 ٧٧۔ ١ مومنوں کا اختصاص اس لئے کہ وہی قرآن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ انہیں میں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں جو ایمان لے آئے تھے۔

 ٧٨۔ یعنی قیامت میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کر کے حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا یا انہوں نے اپنی کتابوں میں جو تعریفیں کی ہیں، دنیا میں ہی ان کا پردہ چاک کر کے ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔

 ٧٩۔ یعنی اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دیں اور اسی پر اعتماد کریں، وہی آپ کا مددگار ہے۔

 ٨٠۔ یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ و نصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔

 ٨١۔ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انہیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔

 ٨٢۔ (۱) یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔

٨٢۔ (۲)  یہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور نکلنا ہے۔ (صحیح بخاری) دوسری روایت میں ہے ” سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہو گی، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہو گی، دوسری اس کے فوراً بعد ظاہر ہو جائے گی (صحیح بخاری)

 ٨٣۔ یا قسم قسم کر دیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔ یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو اِدھر اُدھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

 ٨٤۔ (۱) یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔

٨٤۔ (۲)  جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

 ٨٥۔ یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا کہ جسے وہ پیش کر سکیں۔ یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہوں گے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔

٨٦۔ تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لئے دوڑ دھوپ کر سکیں۔

 ٨٧۔ (۱) صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے پہلی پھونک میں ساری دنیا گھبرا کر بے ہوش اور دوسری پھونک میں موت سے ہم کنار ہو جائے گی اور تیسری پھونک میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکھٹے ہو جائیں گے۔ یہاں کون سا نفحہ مراد ہے ؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفخہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفخہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔

٨٧۔ (۲)  یہ مشتثنیٰ لوگ کون ہوں گے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔

 ٨٨۔ (۱) یہ قیامت والے دن ہو گا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔

٨٨۔ (۲)  یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہو گا جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کر دینے پر قادر ہے۔

 ٨٩۔ یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔

 ٩١۔ اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا ” حرمت والا ” کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا درخت کاٹنا حتّیٰ کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے (بخاری کتاب الجنائز)

 ٩٢۔ یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہو جائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔

٩٣۔ (۱) کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک دلیل قائم نہیں کر دیتا۔

۹۳۔ (۲)  ہم انہیں آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہو جائے اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لئے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔

٩٣۔ (۳)  بلکہ ہر چیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لئے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔

٭٭٭

 

سورۃ  قصص

٣۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کر دینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہو گا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔

٤۔ (۱) یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔

٤۔ (۲)  جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔

٤۔ (۳) اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔

٤۔(۴) جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہو گا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کر دیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقیناً ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے یہ خوش خبری منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہو گا جس کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہو گی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کر دیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کر دیا۔ (ابن کثیر)

 ٥۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق و مغرب کا وارث (مالک و حکمران) بنا دیا نیز انہیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔

 ٦۔ (۱) یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللہ اعلم۔

٦۔ (۲)  یعنی انہیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک و لشکر کی تباہی ہو گی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔

٧۔ (۱) وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیاء پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے موسیٰ علیہ السلام کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آ جاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں واقع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء)

٧۔ (۲)  یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہو جانے سے ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔

٧۔ (۳) یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے اور مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑ جائیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کر دیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں ؛ حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہ کئے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ علیہ السلام قتل والے سال پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سر و سامان پیدا فرما دیا۔ کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آ جائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہو گیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا۔ جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی و القاء کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو سمجھا دیا چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)

 ٨۔ (۱) یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔

٨۔ (۲)  یہ عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کر لیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث، ثابت ہوا۔

٨۔ (۳) یہ اس سے پہلے کی تعلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے ؟ اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کو ہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔

 ٩۔ (۱) یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لئے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔

٩۔ (۲)  کیونکہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔

 ٩۔ (۳) کہ یہ بچہ جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لئے سینکڑوں بچوں کو موت کی نید سلا دیا گیا ہے۔

 ١٠۔ (۱) یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ(خالی) ہو گیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ علیہ السلام کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بے قراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔

١٠۔ (۲)  یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ علیہ السلام کو بخیریت واپس لٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہو گا۔

 ١١۔ (۱) موسیٰ کی بہن کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا مریم بنت عمران تھیں نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔

١١۔ (۲)  چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّیٰ کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔

 ١٢۔ (۱) یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کر دیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

١٢۔ (۲)  یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے۔

۱۲۔ (۳)  چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔

 ١٣۔ (۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدہ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کو صحیح پرورش اور نگہداشت ہو سکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی گھر میں لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی، سبحان اللہ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ علیہ السلام کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ایک مرسل روایت میں ہے۔ اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے۔ (مراسیل ابی داؤد)

۱۳۔ (۲)  یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا (ہو سکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لئے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لئے شر کا پہلو ہو) البقرہ ۲۱٦ دوسرے مقام پر فرمایا (ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے ) (النساء ۱۹) اس لئے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کر لے کہ اسی میں اس کے لئے خیر اور حسن انجام ہے۔

 ١٤۔ حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔

 ١٥۔ (۱) اس سے بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا۔ جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔

١٥۔ (۲)  یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔

١٥۔ (۳) اسے شیطانی فعل اس لئے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقصد اسے ہرگز قتل کرنا نہیں تھا۔

١٥۔(۴) جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے وہ جو جو جتن کرتا ہے وہ بھی مخفی نہیں۔

 ١٦۔ یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاطت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لئے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انہیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انہیں قتل نہ کر دے۔

١٧۔ یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہو گا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔

 ١٨۔(۱) خائفا کے معنی ڈرتے ہوئے، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔

١٨۔ (۲)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو صریح بے راہ، یعنی جھگڑالو ہے۔

 ١٩۔ (۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ قطبی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔

١٩۔ (۲)  فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ علیہ السلام شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسیٰ، جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آ گئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ علیہ السلام ہے، اس نے جا کر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا عزم کر لیا۔

 ٢٠۔ یہ آدمی کون تھا؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم کا تھا جو در پردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ علیہ السلام کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔

 ٢١۔ (۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آ سکیں۔

٢١۔ (۲)  یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا مشورہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے ؟ کیونکہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انہیں راستے کی نشان دہی کی واللہ اعلم (ابن کثیر)

 ٢٢۔ چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔

۲۳۔(۱)  یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے (حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسرالتفاسیر) اور یہی حضرت شعیب علیہ السلام کا مسکن مبعث بھی تھا۔

٢٣۔ (۲)  دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں ؟۔ رعاء راع (چرواہا) کی جمع ہے۔

٢٣۔ (۳)  تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔

٢٣۔(۴) والد صاحب بوڑھے ہیں اس لئے وہ گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے نہیں آ سکتے

 ٢٤۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانوروں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آ کر مصروف دعا ہو گئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادت پر، قوت پر اور مال پر (الیسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔

 ۲۵۔(۱)  اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آ گئی۔ لڑکی کی شرم و حیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیاء و حجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لئے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

٢٥۔ (۲)  بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے وضاحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لئے یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب علیہ السلام کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جا کر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی ہمدردی پیدا ہوئی کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔

٢٥۔ (۳)  یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم و ستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔

 ٢٦۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایمان دار بھی، جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا اسی طرح جب میں اس کو بلا کر ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشان دہی کے لئے پیچھے سے پتھر کی کنکری مار دیا کر، واللہ اعلم (ابن کثیر)

 ٢٧۔ (۱) ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔

٢٧۔ (۲)  اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے

٢٧۔ (۳) یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہو گی۔

٢٧۔(۴) نہ جھگڑا کروں گا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔

 ٢٨۔ (۱) یعنی آٹھ سال بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔

٢٨۔ (۲)  یہ بعض کے نزدیک شعیب علیہ السلام یا برادر زادہ شعیب علیہ السلام کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان رشتہ ازدواجی قائم ہو گیا۔ باقی تفصیلات کا اللہ نے ذکر نہیں کیا۔ ویسے تو اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کے لئے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔

 ٢٩۔ (۱) حضرت ابن عباس نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا۔

٢٩۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔

 ٣٠۔ (۱) یعنی آواز وادی کے کنارے سے آ رہی تھی، جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف تھی، یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے جو دراصل رب کی تجلی کا نور تھا۔

٣٠۔ (۲)  یعنی اے موسیٰ! تجھ سے جو اس وقت مخاطب اور ہم کلام ہے، وہ میں اللہ ہوں رب العالمین۔

 ٣١۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے جب موسیٰ علیہ السلام کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پھنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لئے بطور دلیل یہ معجزہ انہیں عطا فرمایا ہے۔

 ٣٢۔ (۱) یہ ید بیضاء دوسرا معجزہ تھا جو انہیں عطا کیا گیا۔

٣٢۔ (۲)  لاٹھی کا اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کرو یعنی بغل میں دبا لیا کرو جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہو جائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقتداء میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

 ۳۲۔ (۳)  یعنی فرعون اور اس کی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔

 ٣٣۔ یہ خطرہ تھا جو واقع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہو چکا تھا۔

۳٤۔ اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں ؟ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں حضرت ہارون علیہ السلام فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ ردءا کے معنی ہیں معین، مددگار تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون علیہ السلام اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔

 ۳۵۔(۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کر لی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنا دیا گیا۔

۳۵۔ (۲)  یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

٣٥۔ (۳)  یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً، المائدہ۔ ٦٧، الا حزاب۔٣٩ المجادلہ۔ ٢١ المو من۔٥١،٥٢۔

 ٣٦۔ یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے مشرکین مکہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کہا تھا ” اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کر کے ) ایک ہی معبود بنا دیا ہے ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے "۔

 ٣٧۔(۱)  یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لئے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہو گی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی۔

٣٧۔ (۲)  اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا

۳۷۔ (۳)  ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں، کیونکہ ظلم کے معنی ہیں۔ وضع الشئ فی غیر محلہ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوشحالی اور مال و اسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوشحالی و فراوانی۔

 ٣٨۔ (۱) یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر، ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔

٣٨۔ (۲)  یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے۔

۳۸۔ (۳)  یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جو یہ دعوی کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

 ٣٩۔ زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا، یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے دلائل معجزات کا رد کر سکتے لیکن استکبار بلکہ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔

 ٤٠۔ یعنی جب ان کا کفر و طغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا۔

 ٤١۔ یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام و پیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔

٤۲۔ یعنی دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بد حال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔

 ٤٣۔(۱)  یعنی فرعون اور اس کی قوم یا نوح و عاد و ثمود وغیرہ قوم کی ہلاکت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو کتاب (تورات) دی۔

٤٣۔ (۲)  جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔

٤٣۔ (۳) یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر و رشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔

 ٤٤۔ یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور اسے وحی و رسالت سے نوازا، اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تو نہ وہاں موجود تھا اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا۔ بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم نے وحی کے ذریعے سے تجھے بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا پیغمبر ہے۔ کیونکہ نہ تو نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں نہ خود ہی مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ آل عمران۔(۴)٤، سورہ ہود۔ ٤٩۔١٠٠، سورہ یوسف۔١٠٢، سورہ طٰہٰ۔ ٩٩ وغیرہ میں۔

٤٥۔(۱)  قرون، قرن کی جمع ہے، زمانہ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔

٤٥۔ (۲)  یعنی مراد ایام سے شرائع و احکام بھی متغیر ہو گئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور ان کے عہد کو فراموش کر دیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہو گئی کہ ایک نئے بنی کو مبعوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زماں کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لئے آپ کی نبوت پر انہیں تعجب ہو رہا ہے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

٤٥۔ (۳) جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہو جاتے۔

٤٥۔(۴) اور اسی اصول پر ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات و واقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔

٤٦۔ (۱) یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔

٤٦۔ (۲)  یعنی آپ کا علم، مشاہدہ روئیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔

٤٦۔ (۳) اس سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعث بنی اسرائیل کی طرف سے ہی ہوتی رہی بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے نبی تھے اور سلسلہ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے نہیں سمجھی گئی ہو گی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لئے کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لئے باقی نہیں چھوڑا ہے۔

 ٤٧۔ یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لئے ہم نے آپ کو ان کی طرف بھیجا ہے کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہو چکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات (قرآن و حدیث) کو مسخ ہونے اور تغیر و تحریف سے محفوظ رکھا اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس ” ضرورت ” کا  دعویٰ کر کے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔

 ٤٨۔(۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ

٤٨۔ (۲)  یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہو گئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر نہیں کیا۔

٤٨۔ (۳) پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہوں گے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)

٤٩۔ یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ قرآن مجید اور تورات دونوں جادو ہیں، تو تم کوئی اور کتاب الٰہی پیش کر دو، جو ان سے زیادہ ہدایت والی ہو، میں اس کی پیروی کروں گا، کیونکہ میں ہدایت کا طالب اور پیرو ہوں۔

 ٥٠۔ (۱) یعنی قرآن و تورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کر سکیں اور یقیناً نہیں کر سکیں گے۔

٥٠۔ (۲)  یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو ایسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

۵۱۔(۱) یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔

۵۱۔ (۲)  مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کر کے ایمان لے آئیں۔

 ٥٢۔ اس سے مراد یہودی ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام وغیرہ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہو گئے تھے (ابن کثیر)

۵۳۔ یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا اور ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاریٰ وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں ) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیاء کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔

۵٤۔(۱)  صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آ گیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔

۵٤۔ (۲)  یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔

 ۵۵۔(۱)  یہاں لغو سے مراد وہ سب و شتم اور دین کے ساتھ استہزاء ہے جو مشرکین کرتے تھے۔

٥٥۔ (۲)  یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک بول چال اور آمنا سامنا ہی ہے۔

 ٥٦۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمدرد اور غمگسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لاَ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کر سکوں۔ لیکن وہاں پر دوسرے رؤسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور راہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے اوپر چلا دینا یہ ہمارا کام ہے۔ ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں (صحیح بخاری)

۵۷۔ (۱) یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ و پیکار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا۔

٥٧۔ (۲)  یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے جب یہ شہر ان کے کفر و شرک کی حالت میں ان کے لئے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ ان کے لئے امن کی جگہ نہیں رہے گا؟

٥٧۔ (۳) یہ مکے کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکے میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فراوانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔

٥٨۔(۱)  یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لئے سستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔

٥٨۔ (۲)  یعنی ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان مکانوں اور مال و دولت کا وارث ہوتا۔

 ٥٩۔(۱)  یعنی تمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا، ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے زیر اثر میں آ جماتے رہے ہیں۔

٥٩۔ (۲)  یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر و شرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انہیں ہلاک کر دیا جاتا، یہی مضمون سورہ ہود۔١١٧ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

٦٠۔ کیا اس حقیقت سے بھی تم بے خبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے اپنے پاس جو نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی، حدیث میں ہے ” اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہو گا۔ (صحیح بخاری)

٦١۔ یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہو گا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔

 ٦٢۔ یعنی وہ بُت یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انہیں مدد کے لئے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں ؟ یہ تقریع و توبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہو گی؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورہ الانعام، آیت ۹٤ اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔

 ٦٣۔ یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور دعویٰ کفر و شرک وغیرہ وہ کہیں گے۔

۶۳۔ (۲)  یہ جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو دعویٰ کفر نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔

۶۳۔(۳)  یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کئے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنی سے اشارے پر ہماری طرح ہی انہوں نے بھی گمراہی اختیار کر لی۔

 ۶۳۔(۴) یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔

 ۶۳۔۵ بلکہ درحقیقت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کر دیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔

٦٤۔ (۱) یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ پس وہ پکاریں گے، لیکن وہاں کس کو یہ جرت ہو گی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں ؟

۶۴۔ (۲)  یعنی یقین کر لیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔

 ۶۴۔ (۳)  یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ سورہ کہف ٥۲،٥۳ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

 ٦٥۔ اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے ؟ تیرا دین کونسا ہے ؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے لیکن کافر کہتا ہے مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انہیں اس سوال کا جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لئے آگے فرمایا، ان پر تمام حبریں اندھی ہو جائیں گی، یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کر سکیں۔ یہاں دلائل کو احبار سے تعبیر کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لئے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص و حکایات ہیں، جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔

۶۶۔ کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہو گا کہ سب جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔

 ٦٨۔ یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائکہ کوئی مختار کل ہو۔

۷۳۔(۱) دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کر سکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ و دو اور کاروبار جہاں کے لئے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ لوگ جاگ کر مصروف تگ و تاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام و راحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون و تناصر کا محتاج ہے اس لئے اللہ نے رات کو تاریک کر دیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہو سکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کر سکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، اسے ہر شخص باآسانی سمجھتا اور اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اللہ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کر کے ہمیشہ کے لئے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے ؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لئے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کر سکتا ہے، جس میں تم آرام کر سکو؟نہیں یقیناً نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور انسان کسب و محنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔

 ٧٣۔ (۲)  یعنی اللہ کی حمد و ثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے ) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیں کو اس کے احکام و ہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے )

٧٥۔ (۱) اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کر دیں گے۔

٧٥۔ (۲)  یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔

٧٥۔ (۳) یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہوں گے، کوئی جواب اور دلیل انہیں نہیں سوجھے گی۔

۷۵۔(۴) یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔

 ٧٦۔ (۱) اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔

٧٦۔ (۲)  تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔

۷۶۔ (۳) یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔

۷۶۔(۴) یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

٧٧۔ (۱) یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر ثواب ملے گا۔

۷۷۔ (۲)  یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر مباحات دنیا کیا ہیں ؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔

۷۷۔ (۳)  اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر خرچ کر کے ان پر احسان کر۔

۷۷۔(۴) یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔

۷۸۔(۱)  ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب و تجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اس کا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اس کا کیا تعلق ہے ؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ‏، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے (انما أوتیتہ علی علم) (القصص ۷۸) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھذا لی) (حم سجدہ ٥۰) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔

 ٧٨۔ (۲)  یعنی قوت اور مال کی فراوانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اس لئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔

٧٨۔ (۳)  یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔

 ٧٩۔ (۱) یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔

٧٩۔ (۲)  یہ کہنے والے کون تھے ؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہو گئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔

 ٨٠۔ (۱) یعنی جن کے پاس دین کا علم تھا اور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لئے جو اجر و ثواب رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ فرماتا ہے ” میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ان کا ذکر ہوا ” (البخاری کتاب التوحید)

۸۰۔ (۲)  یعنی یلقاھا میں ھا کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہو گی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔

۸۱۔یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ایک آدمی اپنی ازار زمین پر لٹکائے جا رہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا،۔

٨٢۔ (۱) مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔

٨٢۔ (۲)  یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔

٨٢۔ (۳) یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

۸۳۔۱ علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیشی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔

 ٨٤۔ (۱) یعنی کم از کم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لئے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔

۸٤۔ (۲)  یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل و کرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہو گا۔

٨٥۔ (۱) یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔

۸۵۔ (۲)  یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا اور آپ ۸ ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔

۸۵۔ (۳)  یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟

 ٨٦۔ (۱) یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لئے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہو گا۔

٨٦۔ (۲)  یعنی نبوت و کتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی و کاوش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت و رسالت سے مشرف فرماتا رہا، جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سلسلہ الزہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا

٨٦۔ (۳) اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔

۸۷۔ یعنی ان کافروں کی باتیں، ان کی ایذاء رسانی اور ان کی طرف سے تبلیغ و دعوت کی راہ میں رکاوٹیں، آپ کو قرآن کی تلاوت اور اس کی تبلیغ سے نہ روک دیں۔ بلکہ آپ پوری تن دہی اور یکسوئی سے رب کی طرف بلانے کا کام کرتے رہیں۔

 ٨٨۔ (۱) یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر نیاز کے ذریعے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لئے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الا سباب طریقے سے پکارنا، ان سے استغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔

۸۸۔ (۲)  وجھہ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہو جانے والی ہے۔

۸۸۔ (۳)  یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔

۸۸۔(۴) تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دے۔

٭٭٭

 

سورۃ عنکبوت

٢۔ یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انہیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انہیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔

٣۔ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ” (صحیح بخاری) حضرت عمار، ان کی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال و مقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔

٤۔ (۱) یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آ سکیں گے۔

٤۔ (۲)  یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے ؟

۵۔(۱) یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر و ثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقیناً برپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہو گی۔

 ۵۔ (۲)  وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اس کے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقیناً دے گا۔

 ٦۔ یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہو گا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بے نیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہو گا اور سب نافرمان ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہو گی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔

٧۔ یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔

٨۔ (۱) قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انہیں ادا کر سکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

٨۔ (۲)  یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے ) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے "کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں "۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر ان کی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی

۹۔ یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہو گا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہو گا۔

۱۰۔(۱)  اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انہیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ایمان سے پھر جاتے اور دین عوام کو اختیار کر لیتے ہیں۔

 ۱۰۔ (۲)  یعنی مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہو جائے۔

۱۰۔ (۳)  یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (النساء ۱٤۱)

١٠۔(۴) یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔

۱۱۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہو جائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (ولنبلونکم حتی نعلم المجاھدین منکم والصابرین و نبلوأ اخبارکم) (سورہ محمد۳۱( ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ‏،۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا (ماکان اللہ لیذر المومنین علی مآ أنتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب) (سورہ آل عمران۱۷۹) نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔

١٢۔ (۱)  یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔

 ۱۲۔ (۲)  اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔قیامت کا دن تو ایسا ہو گا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔

١٣۔ یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہو گا جو ان کی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورۃ النحل میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہو گا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہو گا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہو گا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہوں گے۔، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہو گا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔

١٤۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ و اللہ اعلم۔

١٧۔ (۱)  اوثان وثن کی جمع ہے۔ جس طرح اصنام، صنم کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ تحلقون افکا کے معنی ہیں تکذبون کذبا، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں تعملونہا وتنحتونہا للافک، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے یہ بت تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں جب کہ ان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ ان میں خدائی اختیارات آ گئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کر کے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔

 ۱۷۔ (۲)  یعنی جب بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لا کر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔

۱۷۔ (۳)  یعنی مر کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟

 ١٨۔ (۱)  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول بھی ہو سکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی ہلاکت و تباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔

۱۸۔ (۲)  اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اس کی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

١٩۔ (۱)  توحید اور رسالت کے اثبات کے بعد یہاں معاد (آخرت) کا اثبات کیا جا رہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مر کر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام و نشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔

١٩۔ (۲)  یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔

٢٠۔ یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی انواع و اقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کئے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے ؟

 ٢١۔ یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی نہیں ہو گی بلکہ اصولوں کے مطابق ہو گی جو اس نے اس کے لئے طے کر رکھے ہیں۔

 ٢٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ” میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے ” لیکن آخر میں چونکہ دار الجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہو گا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہو گی، جیسے عمل کئے ہوں گے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بے لاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک و بد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو ان کی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہو گی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے نا امید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورہ اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ (فسأکتبہا للذین یتقون ویوتون الزکوٰۃ والذین ہم بآیاتنا یومنون) (الأعراف(۱)٥٦) میں یہ رحمت (آخرت میں ) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔

٢٤۔ (۱)  ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔ چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔

٢٤۔ (۲)  یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزرا۔

٢٥۔ (۱)  یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعیت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

٢٥۔ (۲)  یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کی بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔

٢٦۔ (۱)  حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی ” سدوم ” کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔

٢٦۔ (۲)  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط علیہ السلام نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوط علیہ السلام کے لئے اپنے علاقے ” کوٹی ” میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو گئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے، تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ تھیں۔

٢٧۔ (۱)  یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام ہوئے، جن سے بنی اسرئیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیاء ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل ہوا۔

۲۷۔ (۲)  اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتی کہ مشرکین بھی) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کے پیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہوں گے ؟

٢٧۔ (۳)  یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہوں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر بھی بیان کیا گیا ہے

٢٨۔ اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط علیہ السلام نے سب سے پہلے کیا جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔

٢٩۔ (۱)  یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اس کے لئے طبعی طریقے تمہارے لئے ناکافی ہیں اور غیر طبعی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لئے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لئے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر طبعی طریقہ ہے۔

٢٩۔ (۲)  اس کے ایک معنی تو یہ کیے گے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نو واردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بے حیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لئے راستوں سے گزرنا مشکل ہو گیا ہے، قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کئے گئے ہیں، یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کی بجائے مردوں کی دبر استعمال کر کے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئے ہو (فتح القدیر)

۲۹۔ (۳)  یہ بے حیائی کیا تھی؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلاً لوگوں کو کنکریاں مارنا، اجنبی مسافر کا استہزاء و استخفاف، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قمار بازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں،

۲۹۔ (۴) حضرت لوط علیہ السلام نے جب انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا۔

 ٣٠۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام قوم کی اصلاح سے نا امید ہو گئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی۔

٣١۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیج دیا۔ وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے اور انہیں اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط علیہ السلام کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔

٣٢۔ (۱)  یعنی ہمیں علم ہے کہ ظالم اور مومن کون ہیں اور اشرار کون؟

٣٢۔ (۲)  یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی۔ اس لئے اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔

٣٣۔ (۱)  لوط علیہ السلام نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انہیں ہو گیا تو وہ زبردستی بے حیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہو گی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔

٣٣۔ (۲)  فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی اور غم و رنج کی کیفیت کو دیکھا تو انہیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔

٣٤۔ اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے پھر ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبو دار بیحرہ (جھیل) میں تبدیل کر دیا گیا (ابن کثیر)

 ٣٥۔ (۱)  یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبو دار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں مگر کن کے لئے ؟ دانش مندوں کے لئے۔

۳۵۔ (۲)  اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب و عوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج و آثار کو دیکھتے ہیں کہ لیکن جو لوگ عقل و شعور سے بے بہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبح کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل و دانش سے بے بہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔

٣٦۔ (۱)  مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلے مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط علیہ السلام کی بستی کے قریب تھا۔

٣٦۔ (۲)  اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لئے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لئے کہ وہ اسے فراموش کئے ہوئے تھے اور مستیوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فرا موش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔

۳۶۔ (۳)  ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔

٣٧۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل علیہ السلام کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آ گئے اور ان کی موت واقع ہو گئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

٣٨۔ (۱)  قوم عاد کی بستی احقاف، حضرموت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آجکل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لئے یہ بستیاں ان کے لئے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔

٣٨۔ (۲)  یعنی تھے وہ عقلمند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لئے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔

 ٣٩۔ (۱)  یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان و تقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔

٣٩۔ (۲)  یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آ کر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ ” یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے ” بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر و عناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔

٤٠۔ (۱)  یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے گرفت کی۔

٤۰۔ (۲)  یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تند و تیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حصبا کا مصداق قوم لوط علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔

٤۰۔ (۳) حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے ان کی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔

٤٠۔(۴) یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کئے گئے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔

٤۰۔(۵) یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کر کے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا، بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔

٤٠۔ (٦)  یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لئے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لئے ہلاک ہوئیں کہ کفر و شرک اور تکذیب و معاصی کا ارتکاب کر کے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔

٤١۔ یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور نا پائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بے فائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آ سکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر نا پائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔

٤٣۔ (۱)  یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لئے۔

٤٣۔ (۲)  اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات و دلائل کا علم ہے جن پر غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔

 ٤٤۔(۱)   یعنی بے فائدہ اور بے مقصد نہیں۔

٤٤۔ (۲)  یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔

٤٥۔ (۱)  قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔

٤٥۔ (۲)  کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کر لے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کا اہتمام فرماتے۔

٤٥۔ (۳) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقیناً اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ان آداب و شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلاً اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیاً طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثاً با جماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعاً ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامساً خشوع و خضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادساً  مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعاً رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب و شرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بے حیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔

٤٥۔(۴) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلوٰۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔

٤٦۔ (۱)  اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔

٤٦۔ (۲) یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دیں۔

٤٦۔ (۳)  تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔

٤٧۔ (۱)  اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انہیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔

٤٧۔ (۲)  ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔

٤٨۔(۱)   اس لیے کہ ان پڑھ تھے

٤٨۔ (۲) اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔

٤٨۔ (۳) یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

٤٩۔ یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

٥٠۔ یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔

٥۱۔ (۱)  یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی طرح انہیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔

٥۱۔ (۲) یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیوں کہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

٥٢۔ (۱)  اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے یقیناً منجانب اللہ ہے۔

٥٢۔ (۲) یعنی غیر اللہ کی عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کا انکار کرتے ہیں۔

٥٢۔ (۳)  کیوں کہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے سودا کیا ہے کہ ایمان والوں کے بدل کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

٥٣۔ (۱)  یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔

٥٣۔ (۲)  یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقیناً اس لائق ہیں کہ انہیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا عذاب آ جاتا ہے۔

٥٣۔ (۳) یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آ جائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔

٥٤۔پہلا  یستعجلونک بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی یہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟ حالاں کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اسے دور کیوں سمجھتے ہیں ؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔

٥٥۔ یقول کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہو گا تو کہا جائے گا۔

٥٦۔ اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

٥۷۔یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آ جائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مرو گے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہو گے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔

٥٨۔ (۱)  یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہوں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہوں گی، علاوہ ازیں انہیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہو جائے گا۔

٥٨۔ (۲)  ان کے زوال کا خطرہ ہو گا نہ انہیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔

٥٩۔ (۱)  یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل و عیال اور عزیز و اقربا سے دوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔

٥٩۔ (۲)  دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔

٦٠۔ (۱)  کَاَیِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔

٦٠۔ (۲)  کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے، مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو جانے والے صحابہ کرام کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔

٦٠۔ (۳) یعنی کوئی کمزور ہے یا طاقتور، اسباب وسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر فاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔

٦٠۔(۴) وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال و افعال کو اور تمہارے ظاہر و باطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت و کمال ہے اور اسی کی معصیت میں بد بختی و نقصان۔

٦١۔ (۱)  یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے ؟ تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے

٦١۔ (۲)۔ یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔

٦٢۔ (۱)  یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو چاہتا کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضامندی یا غضب سے نہیں ہے۔

 ٦٢۔ (۲)  اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں ؟

٦٣۔ کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کے ساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندر یہ تمیز ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت و ربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔

٦٤۔ (۱)  یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا

٦٤۔ (۲) اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔

٦٤۔ (۳)  کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔

٦٥۔ مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس منافقت کو حضرت عکرمہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہو گئی۔ ان کے متعلق آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہو گئے تاکہ نبی کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ رب سے دعائیں کرو، اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں۔ حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ یعنی مسلمان ہو جاؤ گا چنانچہ یہاں سے نجات پا کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

٦٦۔ یہ لام کئی ہے جو علت کے لیے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

٦٧۔ (۱)  اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل و غارت اسیری لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں۔ جب کہ عرب کے دوسرے علاقے اس امن و سکون سے محروم ہیں قتل و غارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔

٦٧۔ (۲) یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر کی تصدیق کرتے۔

٦٨۔ (۱)  یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے در آں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ تو سراسر جھوٹ ہے۔

٦٨۔ (۲)  یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب ہے یہ دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔

٦٩۔ (۱)   یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں ٦٩۔ (۲) اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

٦٩۔ (۲)  احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔

٭٭٭

 

سُوْرَۃُ الرُّوْمِ

یہ سورت مکی ہے اس میں (٦٠) آیات اور (٦) رکوع ہیں

٥۔ عہد رسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جب کہ مسلمان کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لئے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر یقین رکھتے تھے، ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آ گئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں پیش گوئی کی گئی کہ رومی پھر غالب آ جائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہو جائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق نے ابوجہل سے یہ شرط باندھی کہ رومی پانچ سال کے اندر دوبارہ غالب آ جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا بِضْع کا لفظ تین سے دس تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے ٥ سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کر لو، چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ رومی ٩ سال کی مدت کے اندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آ گئے، جس سے یقیناً مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے، یعنی شام و فلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔

٦۔ یعنی اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آ جائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت مقررہ کے اندر یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔

٧۔ یعنی اکثر لوگوں کو دنیاوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چنانچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کے معاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اور پائیدار ہے۔ یعنی دنیا کے امور کو خوب پہچانتے اور دین سے بے خبر ہیں۔

٨۔ (۱)   یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بے مقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع وعریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقیناً اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک واحساس ہو جاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔

٨۔ (۲) اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔

٩۔ (۱)   یہ آثار کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔

٩۔ (۲)  یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔

٩۔ (۳) یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔

٩۔(۴) یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔

٩۔(٥) اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔

٩۔(٦) لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ لہذا تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔

٩۔(٧) کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا

٩۔(٨) یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کر کے۔

١٠۔ سوآی  بر وزن فعلی سوء سے اسوأ کی تانیث ہے جیسے حسنی احسن کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔

١١۔ (۱)   یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔

١١۔ (۲) یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔

١٢۔ ابلاس کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کر سکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو نا امیدی کے مفہوم سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہو گا جو نا امید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہو گا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہوں گے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرکین ہیں جیسے کہ اگلی آیت میں واضح ہے

١٣۔ (۱)   شریکوں سے مراد معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہو گا

 ١٣۔ (۲) یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہو جائیں گے کیوں کہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کر دیں گے کہ یہ لوگ انہیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بے خبر ہیں۔

١٤۔ اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہو جائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہو گا۔ چنانچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جا رہی ہے۔

١٥۔ یعنی انہیں جنت میں اکرام و انعام سے نوازا جائے گا، جن سے وہ مزید خوش ہوں گے۔

١٦۔ یعنی ہمیشہ اللہ کے عذاب کی گرفت میں رہیں گے

١٨۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح و تحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح و تحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہو جانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقات ہیں۔ تمسون میں مغرب و عشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آ جاتی ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح و شام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

١٩۔ (۱)   جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان اور مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا فرماتا ہے۔

١٩۔ (۲)  یعنی قبروں سے زندہ کر کے۔

٢٠۔١ذا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُو نَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔

٢١۔ (۱)   یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔

٢١۔ (۲) مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔

٢١۔ (۲)  مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔قاتلہم اللہ انی یؤفکون۔

٢٢۔ دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کر دینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتیّٰ کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔

٢٣۔ نیند کا باعث سکون و راحت ہونا چاہیے وہ رات کو ہو یا بوقت قیلولہ، اور دن کو تجارت و کاروبار کے ذریعہ سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے۔

٢٤۔ یعنی آسمان میں بجلی چمکتی ہے اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتیاں برباد نہ ہو جائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہو گی۔

٢٥۔ یعنی جب قیامت برپا ہو گی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہو جائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔

٢٦۔ یعنی اس کے تکوینی حکم کے آگے سب بے بس اور لاچار ہیں۔ جیسے موت و حیات، صحت و مرض، ذلت و عزت وغیرہ میں۔

٢٧۔ یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلیٰ اور برتر (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ)

٢٨۔ (۱)   یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا و صلحا ہوں یا شجر و حجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں ؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہو سکتی، دوسری بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔

٢٨۔ (۲) یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا

 ٢٨۔ (۳) کیوں کہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔

٢٩۔(۱)    یعنی اس حقیقت کا انہیں خیال ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بے بہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بے علمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیروکار ہیں۔

٢٩۔ (۲)  کیونکہ اللہ کی طرف سے ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب اور آرزو ہوتی ہے، جو اس طلب صادق سے محروم ہوتے ہیں، انہیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

٢٩۔ (۳) یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب پھیر دے۔

٣٠۔(۱)    یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور جھوٹے مذاہب کی طرف دھیان ہی نہ کریں

٣٠۔ (۲)  فطرت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔

٣٠۔ (۳) یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل و دماغ میں راسخ ہو جائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔

٣٠۔(۴)یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔

٣٠۔(۵)  اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔

٣١۔ یعنی ایمان تقویٰ اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔

٣٢۔ (۱)   یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کر کے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہو گیا۔

٣٢۔ (۲) یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہو گا۔

٣٤۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورہ عنکبوت کے آخر میں گزرا۔

٣٥۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ جن کو اللہ کا شریک گردانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، یہ بلا دلیل ہے، اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ بھلا اللہ تعالیٰ شرک کے اثبات و جواز کے لئے کس طرح کوئی دلیل اتار سکتا تھا۔ جب کہ اس نے سارے پیغمبر بھیجے ہی اس لئے تھے کہ وہ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات کریں۔ چنانچہ ہر پیغمبر نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید ہی کا وعظ کیا۔ اور آج اہل توحید مسلمانوں کو بھی نام نہاد مسلمانوں میں توحید و سنت کا وعظ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مسلمان عوام کی اکثریت شرک و بدعت میں مبتلا ہے۔

٣٦۔یہ وہی مضمون ہے جو سورہ ہود میں گزرا اور جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے کہ راحت میں وہ خوش ہوتے ہیں اور مصیبت میں نا امید ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ تکلیف میں صبر اور راحت میں اللہ کا شکر یعنی عمل صالح کرتے ہیں۔ یوں دونوں حالتیں ان کے لئے خیر اور اجر و ثواب کا باعث بنتی ہیں۔

٣٧۔ یعنی اپنی حکمت و مصلحت سے وہ کسی کو مال و دولت زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ عقل و شعور میں اور ظاہری اسباب و وسائل میں دو انسان ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں ایک جیسا ہی کاروبار بھی شروع کرتے ہیں لیکن ایک کے کاروبار کو خوب فروغ ملتا ہے اور اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، جب کہ دوسرے شخص کا کاروبار محدود ہی رہتا ہے اور اسے وسعت نصیب نہیں ہوتی۔ آخر یہ کون ہستی ہے جس کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ اس قسم کے تصرفات فرماتا ہے علاوہ ازیں وہ کبھی دولت فراواں کے مالک کو محتاج کر دیتا ہے اور محتاج کو مال و دولت سے نواز دیتا ہے اور یہ سب اسی ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

٣٨۔ (۱)   جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کے دروازے کھول دیتا ہے تو اصحاب ثروت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے ان کا حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں مستحق رشتے داروں، مسکین اور مسافروں کا رکھا گیا ہے۔ رشتہ دار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امداد کر کے ان پر احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔

٣٨۔ (۲)  یعنی جنت میں اس کے دیدار سے مشرف ہونا۔

٣٩۔ (۱)   یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فلایربوا عنداللہ) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہو گا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔

٣٩۔ (۲)  زکوٰۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا (صحیح مسلم)

٤١۔ خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ و بالا ہو جاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ اس لیے اس کا اطلاق معاصی و سیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل و خونریزی عام ہو گئی ہے اور ان ارضی و سماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط، کثرتِ موت، خوف اور سیلاب وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال و کردار کا رخ برائیوں کی جانب پھر جاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن و سکون ختم اور اس کی جگہ خوف و دہشت، سلب و  نہب اور قتل و غارت گری عام ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آ جائیں توبہ کر لیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہو جائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔

٤٢۔ شرک کا خاص طور پر ذکر کیا، کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر برائیوں سیأت و معاصی بھی آ جاتی ہے کیونکہ ان کا ارتکاب بھی انسان اپنے نفس کی بندگی ہی اختیار کر کے کرتا ہے اسی لئے اسے بعض لوگ عملی شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔

٤٣۔ (۱)   یعنی اس دن کے آنے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس لئے اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے پہلے اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کر لیں اور نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔

٤٣۔ (۲)  یعنی دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ایک مومنوں کا دوسرا کافروں کا۔

٤٤۔ مَھْد کے معنی راستہ ہموار کرنا، فرش بچھانا، یعنی یہ عمل صالح کے ذریعے سے جنت میں جانے اور وہاں اعلیٰ منازل حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔

٤٥۔ یعنی محض نیکیاں دخول جنت کے لئے کافی نہیں ہوں گی، جب تک ان کے ساتھ اللہ کا فضل بھی شامل حال نہ ہو گا پس وہ اپنے فضل سے ایک ایک نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے زیادہ بھی دے گا۔

٤٦۔ (۱)   یعنی یہ ہوائیں بارش کی پیامبر ہوتی ہیں۔

٤٦۔ (۲)  یعنی بارش سے انسان بھی لذت و سرور محسوس کرتا ہے اور فصلیں بھی لہلہا اٹھتی ہیں۔

 ٤٦۔ (۳)  یعنی ان ہواؤں کے ذریعے سے کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ مراد بادبانی کشتیاں ہیں اب انسان نے اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے دوسری کشتیاں اور جہاز ایجاد کر لیے ہیں جو مشینوں کے ذریعے سے چلتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے بھی موافق اور مناسب ہوائیں ضروری ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی طوفانی موجوں کے ذریعے سے غرق آب کر دینے پر قادر ہے۔

٤٦۔(۴) یعنی ان کے ذریعے سے مختلف ممالک میں جا کر تجارت و کاروبار کر کے۔

٤٦۔(۵) یعنی ظاہری و باطنی نعمتوں پر جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یعنی یہ ساری سہولتیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس لئے بہم پہنچاتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ کی بندگی و اطاعت بھی کرو!

٤٧۔ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) جس طرح ہم نے آپ کو رسول بنا کر آپ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح آپ سے پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے، ان کے ساتھ دلائل اور معجزات بھی تھے، لیکن قوموں نے ان کی تکذیب کی، ان پر ایمان نہیں لائے بالآخر ان کے اس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پر ہم نے انہیں اپنی سزا کا نشانہ بنایا اور اہل ایمان کی تائید و نصرت کی جو ہم پر لازم ہے یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار و مشرکین کی روش تکذیب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے۔ نیز کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو گذشتہ قوموں کا ہو چکا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی مدد تو بالآخر مومنوں ہی کو حاصل ہو گی، جس میں پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔ حقا کان کی خبر ہے جو مقدم ہے نصر المومنین اس کا اسم ہے۔

٤٨۔ (۱)   یعنی بادل جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں سے ہوائیں ان کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔

٤٨۔ (۲)  کبھی چلا کر کبھی ٹھہرا کر، کبھی تہ بہ تہ کر کے، کبھی دور دراز تک۔ یہ آسمانوں پر بادلوں کی مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں۔

٤٨۔ (۳) یعنی ان کو آسمان پر پھیلانے کے بعد کبھی ان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔

٤٨۔(۴) یعنی ان بادلوں سے اللہ اگر چاہتا ہے تو بارش ہو جاتی ہے جس سے بارش کے ضرورت مند خوش ہو جاتے ہیں

٥٠۔ آثار رحمت سے مراد غلہ جات اور میوے ہیں جو بارش سے پیدا ہوتے اور خوش حالی و فراغت کا باعث ہوتے ہیں۔ دیکھنے سے مراد نظر عبرت سے دیکھنا ہے تاکہ انسان اللہ کی قدرت کا اور اس بات کا قائل جائے کہ قیامت والے دن اسی طرح مردوں کو زندہ فرما دے گا۔

٥١۔ یعنی ان ہی کھیتوں کو جن کو ہم نے بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان کی ہریالی کو زردی میں بدل دیں، یعنی تیار فصل کو تباہ کر دیں تو یہی بارش سے خوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذرا سی ابتلا پر فوراً نا امید اور گریہ کنا ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی۔

٥٢۔ (۱)   یعنی جس طرح مردے فہم شعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ کی دعوت کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں۔

٥٢۔ (۲)  یعنی آپ کا وعظ و نصیحت ان کے لئے بے اثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔

٥٢۔ (۳)  یہ ان کے اعراض کی مزید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل و دماغ میں سما سکتی ہے۔

٥٣۔ (۱)   اس لئے کہ یہ آنکھوں سے کما حقہ فائدہ اٹھانے سے یا بصیرت (دل کی بینائی) سے محروم ہیں۔ یہ گمراہی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے کس طرح نکلیں ؟

٥٣۔ (۲)  یعنی یہی سن کر ایمان لانے والے ہیں، اس لئے کہ یہ اہل تفکر و تدبر ہیں اور آثار قدرت سے مؤثر حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔

٥٣۔ (۳) یعنی حق کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے اور اس کے پیرو کار۔

٥٤۔ (۱)   یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔

٥٤۔ (۲)  یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ ٥٤۔ (۳)  کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہو جاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہو جاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انہیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلاً امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات و اطوار سے گزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جا کر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم و نازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

٥٤۔ (۳) انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

٥٥۔ (۱)   ساعت کے معنی ہیں گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا کہ اس واقعہ کو جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہو جائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہو گی جو دنیا کی آخری گھڑی ہو گی۔

٥٥۔ (۲) دنیا میں یا قبروں میں یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے اس لیے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے ان کے علم میں ہی ہو گا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہو گا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انہیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔

٥٥۔ (۳)  اَفَکَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں۔ سچ سے پھر گیا، مطلب ہو گا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔

٥٦۔ (۱)   جس طرح یہ علماء دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔

٥٦۔ (۲)  کِتَا بِ اللّٰہِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ

 ٥٦۔ (۳) یعنی پیدائش کے وقت سے قیامت کے دن تک۔

٥٦۔(۴) کہ وہ آئے گی بلکہ استہزاء اور تکذیب کے طور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔

٥٧۔ یعنی انہیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ و اطاعت کے ذریعے سے عتاب الٰہی کا ازالہ کر لو۔

٥٨۔ (۱)   جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہے اور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا باطل ہونا نمایاں ہوتا ہے۔

٥٨۔ (۲)  وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ

٥٨۔ (۳) یعنی جادو وغیرہ کے پیروکار، مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سے واضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں ؟ اس کی وجہ آگے بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر و طغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کے تمام راستے ان کے لیے مسدود ہیں۔

٦٠۔ (۱)   یعنی ان کی مخالفت و عناد پر اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے، یقیناً حق ہے جو بہر صورت پورا ہو گا۔

٦٠۔ (۲)  یعنی آپ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کر دیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔

٭٭٭

 

سُوْرَۃُ لُقْمٰنَ

سورت مکی ہے اس میں (٣٤) آیات اور (٤) رکوع ہیں

١۔ اس کے آغاز میں بھی یہ حروف مقطعات ہیں جن کے معنی و مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو فوائد بڑے اہم بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب و تالیف پایا ہے جس کی مثل تالیف پیش کرنے سے عرب عاجز آ گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کا محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ مشرکین اپنے ساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سے فرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ یہ انداز بیان نیا اور اچھوتا تھا (ایسر التفاسیر) واللہ اعلم۔

٣۔١محسنین محسن کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ، دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار، تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اسطرح فرمایا۔

٤۔ نماز زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض و سنت رسول کے مطابق پابندی سے کرتے ہیں۔

٥۔ فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ اور مومنون کا آغاز۔

٦۔ (۱)   اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لھو الحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا ساز و سامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آ جاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آ جاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔

٦۔ (۲) ان تمام چیزوں سے یقیناً انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔

٦۔ (۳)  ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔

٧۔ یہ اس شخص کا حال ہے جو مذکورہ لہو و لعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن جاتا ہے حالاں کہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذاء محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کر دے۔

٩۔ یعنی یہ یقیناً پورا ہو گا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللّٰہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۔

١٠۔ (۱)   تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہوں گے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔

١٠۔ (۲)  رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔

١٠۔ (۳) یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔

١٠۔(۴) زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

١١۔ (۱)   ھٰذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کی ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گذشتہ آیات میں ذکر ہوا۔

١١۔ (۲) یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور انہیں مدد کے لیے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان و زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے ؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لیے پکارا جائے۔

١٢۔ (۱)   حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بے فائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر)

 ١٢۔ (۲)  شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔

١٣۔ (۱)   اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔

١٣۔ (۲)  یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو (الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم۔ کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ظلم عظیم ہے اور آیت (ان الشرک لظلم عظیم) کا حوالہ دیا۔ مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔

١٤۔ (۱)   توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔

١٤۔ (۲)  اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔

١٤۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

١٥۔ (۱)   یعنی مومنین کی راہ۔

١٥۔ (۲) یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی اس لیے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخرو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلہ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جارہی ہیں۔ جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی۔ جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ لقمان نے یہ وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید و عبادت کے بعد والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔

١٦۔ ان تک کا مرجع خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے۔ اور اگر اس کا مرجع خصلۃ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہو گا۔ مطلب یہ کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے چھپا نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کر لے گا، یعنی اس کی جزا دے گا اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا، رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں ترازو کے پلڑے جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں ) مخفی ترین جگہ ہے یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ” اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ” (مسند احمد، ٣۔ (۲) ٨) اس لیے کہ وہ لطیف و باریک بین ہے۔ اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے اور خبیر ہے اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات و سکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔

١٧۔ (۱)   اقامۃ صلوۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔

١٧۔ (۲)  یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم و ہمت پیدا کرنے کی کیوں کہ عزم و ہمت کے بغیر اطاعت مذکورہ عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذَالِکَ کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد و مصائب اور طعن و ملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کر کے واضح کر دیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم و ہمت کا ایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔

١٨۔ (۱)   یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے ؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر)

١٨۔ (۲) یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال و دولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز و حقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہو گا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔

١٩۔ (۱)   یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْناً) اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔

١٩۔ (۲)  یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور بری ہے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ ” گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ)

٢٠۔ (۱)   تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ” یہاں کام سے لگا دیا ” سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)

٢٠۔ (۲)  ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔

٢٠۔ (۳) یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔

٢١۔ یعنی ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی کتاب آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا کہ لڑتے ہیں ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔

٢٢۔ (۱)   یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔

٢٢۔ (۲)  یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔

٢٢۔ (۳)  یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔

٢٣۔ (۱)   اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔

٢٣۔ (۲)  یعنی ان کے عملوں کی جزا دے گا۔

٢٣۔ (۳) پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

٢٤۔ یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہوں گے ؟ یہ دنیا اور اس کی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔

٢٥۔ (۱)   یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمانوں و زمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔

٢٥۔ (۲)  اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہو گئی۔

٢٦۔ (۱)   یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔

٢٦۔ (۲)  بے نیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔

٢٦۔ (۳) اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ذات ہے۔

٢٧۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اگر ان کا شمار کرنا حیطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں (ابن کثیر) اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔

٢٨۔ یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے لفظ کُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آ جاتا ہے۔

٢٩۔ (۱)   یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔

 ٢٩۔ (۲)  ” مقررہ وقت تک ” سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آ کر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہو جاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔

٣٠۔ (۱)   یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے محتاج ہیں کیوں کہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے (ابن کثیر)

٣٠۔ (۲)  اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبہ اور بڑائی کے سامنے ہر چیز حقیر اور پست ہے۔

 ٣١۔ (۱)   یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں، ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔

٣١۔ (۲)  تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔

٣٢۔ (۱)   یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لے لینا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی اللہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔

٣٢۔ (۲) بعض نے مقتصد کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہو گا۔ فمنھم مقتصد ومنھم کافر۔ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں، دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی اعتدال پر رہنے والا اور یہ باب انکار سے ہو گا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی۔ انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نہ کہ اعتدال کا۔ مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

٣٢۔ (۳) ختار غدار کے معنی میں ہے بد عہدی کرنے والا کفور ناشکری کرنے والا۔

٣٣۔ جاز اسم فاعل ہے جَزْی یَجْزِی سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے بدلے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں ممکن نہیں ہو گا، ہر شخص کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہو گی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آ سکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہو گی، اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے۔

٣٤۔١حدیث میں آتا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔قرب قیامت کی علامات تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائیں ہیں لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و علائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ و مشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی؟ لیکن ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہو گا یا کامل، خوب رو ہو گا یا بد شکل، کالا ہو گا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ انسان کل کیا کرے گا؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں ؟ اور اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے ؟ کسی کو معلوم نہیں۔

٭٭٭

تشکر: محمد فرقان، محمد کاشف

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید