فہرست مضامین
- تفسیر ابنِ کثیر
- سورۂ توبہ
- حج اکبر کے دن اعلان
- عہدہ نامہ کی شرف
- جہاد اور حرمت والے مہینے
- امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن ماردہ
- پابندی عہد کی شرائط
- کافروں کی دشمنی
- جہاد ہی راہ اصلاح ہے
- وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو
- ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ
- مسلمان بھی آزمائے جائیں گے
- مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟
- سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے
- ترک موالات و مودت کا حکم
- نصرت الٰہی کا ذکر
- مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو
- بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے
- کفارہ کی دلی مذموم خواہش
- احترام آدمیت کا منشور
- احکامات دین میں رد و بدل انتہائی مذموم سوچ ہے
- غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ
- آغاز ہجرت
- جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے
- عیار عیار لوگوں کو بے نقاب کر دو
- نہ ادھر کے نہ ادھر کے
- غلط گو غلط کار کفار و منافق
- فتنہ و فساد کی آگ منافق
- جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر
- بد فطرت لوگوں کا دوغلا پن
- شہادت ملی تو جنت، بچ گئے تو غازی
- کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے
- جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی حقیقت
- مال و دولت کے حریص منافق:
- زکوٰۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے؟
تفسیر ابنِ کثیر
سورۂ توبہ
آیت 1 تا 60
عماد الدین ابن کثیر
سورۂ توبہ
۱
یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر آیت یسفتونک الخ، اتری اور سب سے آخری سورت سورہ برأۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہے کہ اصحاب نے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ برأہ کو مومئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی ساتھ لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک ساتھ کوئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاح سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔ سورۃ انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ براہ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں دونوں سورتوں کو متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور ساتھ پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت ترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ حج کا کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں اختلاف ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کو امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عالم لوگوں میں اعلان کر دیں۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیل بیان آ رہا ہے۔ انشاء اللہ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلق ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمب عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔ جیسے فرمان ہے کہ فاتمو الیھم عہد ہو الی مدتھم ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذار جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الاخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں یہ واقعہ ۹ھ کا ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مد لج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔ تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اُس سال حضرت ابوبکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الا خر کے۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟
۳
حج اکبر کے دن اعلان
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی برے حج کے دن۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار ہے اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو، شرک و کفر چھوڑ دو اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بی عذاب کرے گا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے یے بھیجے گئے تھے بھیجا۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ سورہ برأۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منیٰ میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی۔ حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجۃ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا۔ حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت الصدیق کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ برات کا اعلان کر دیں امیر حج حضرت اعلیٰ کے آنے کے بعد بھی حضرت الصدیق ہی رہے رضی اللہ عنہما لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابوبکر تو سنہ ٩ ھ میں امیر حج تھے۔ مسند کی روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سال حضرت علی کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے، اس مدت کے گزر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں۔ حضرت ابو ہرہرہ فرماتے ہیں۔ یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پر گیا۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں۔ مسند میں ہے کہ برأۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا حضرت علی فرماتے ہیں سورہ برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابوبکر کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابوبکر سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جا کر انہیں پڑھ سنانا میں چلا حجفہ میں جا کر ملاقات ہوئی۔ میں ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم پور نور سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو۔ اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابوبکر اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی سے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں آپ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے حضرت علی نے کہا اگر یہی ہے تو لیجے میں جاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے۔ پھر اپنا ہاتھ ان کے منہ پر رکھا۔ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابوبکر کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا؟ آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں۔ مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا اور حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ احکام پہنچائے۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا۔ اور روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برات کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا۔ پھر حضرت علی سے فرمایا اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے۔ پس حضرت علی نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ پھر لوٹ کر منیٰ میں آ کر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تنے اس لیے میں ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا۔ ابو اسحٰق کہتے ہیں میں نے ابو حجیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے؟ آپ نے فرمایا عرفے کا دن۔ میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا صحابہ سے سنا ہوا۔ فرمایا سب کچھ یہی ہے۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں حضرت عمر بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے۔ راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤ وہ مرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے۔ کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن۔ حضرت علی یہی فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کر لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے۔ عبد اللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی اک دن یوم الاضحیٰ ہے آج ہی کا دن یوم المخر ہے۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔ صحیح بخاری کے ھوالے سے پہلے حدیث گزر چکی ہے۔ کہ حضرت ابوبکر سے منادی کرنے والوں کو منیٰ میں عید کے دن بھیجا تھا۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حجۃ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج کا اکبر کا دن ہے اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخ رکگن کی تھی آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہوں؟ آج کیا دن ہے؟ لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو؟ ہم اس خیال سے خاموش ہو گئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں۔ آپ نے فرمایا یہی حج اکبر کا دن نہیں؟ اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے۔ سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہی بھی ہے۔ حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا۔
۴
عہدہ نامہ کی شرف
پہلے جو حدیثیں بیان ہو چکی ہیں ان کا اور اس آیت مضمون ایک ہی ہے اس سے صاف ہو گیا کہ جن میں مطلقاً عہد و پیمان ہوئے تھے انہیں تو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس میں وہ اپنا جو چاہیں کر لیں اور جن سے کسی مدت تک عہد پیمان ہو چکے ہیں وہ سب عہد ثابت ہیں بشرطیکہ وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمان کو خود کوئی ایذا پہنچائیں نہ ان کے دشمنوں کی کم اور امداد کریں اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے پورے لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔
۵
جہاد اور حرمت والے مہینے
حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر آیت منھا اربعۃ حرم الخ، میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چنانچہ خود اسی سرت میں اس اک بیان اور آیت میں آ رہا ہے۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، جہاں بھی پاؤ پس یہ عامل ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی جیسے فرمان ہے ولا تقاتلو ھم عند المسجد الحرام الخ، یعنی مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے۔ چاہو قتل کرو، چاہو قید کر لو، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لا کر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کر دو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں پابند نماز ہو جائیں زکوٰۃ دینے کا مانعین سے جہد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرف پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلیٰ پھر ادنیٰ پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بین اسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کر لیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر لیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے۔ ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو اس وس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہو گا۔ حضرت انس فرماتے ہیں یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی اُمتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان تابوا واقاموا السلوۃ واتو الزکوٰۃ فخلوا سبیلھم پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ضحاک فرماتے ہیں یہ تلور کی آیت ہے اس نے ان تمام عہدو پیمان کو چاک کر دیا، جو مشرکوں سے تھے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ برات کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہدو ذمہ باقی نہیں رہا۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے قاتلو الذین لا یومنون باللّٰہ الخ، اللہ تابرک و تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کر لیں۔ تیری تلوار منافقوں میں فرمان ہے یا ایھالنبی جاہد الکفار والمنافقین الخ، اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے وان طائفتان من المومنین اقتتلو الخ، اگر مسلمانو کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑوں جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آ جائے۔ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار آیت فما منا بعد واما فداء سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔ قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔
۶
امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن ماردہ
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے آپ کی بائیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کر لے حجت ربانی پوری ہو جائے۔ پھر اپنے امن میں ہی اے اس کے وطن پہنچا دو بے خوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کر لے۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ بے علم لوگ ہیں انہیں دینی بائیں سننے سمجھنے کے لئے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں با امن پہنچ جائے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو جو دین سمجھنے اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو سننے کے لئے آتے انہیں امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ عروہ بن مسعود، مکرزبن حفص، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ یہاں آ کر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ رویہ بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟ اس نے کہاں ہاں آپ نے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود کوفی کی امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا اے ابن النواحہ کہا جاتا تھا آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا مانے والا ہے تو آپ نے بلوایا اور فرمایا اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا اللہ کی لعنت اس پر ہو۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن و امان دے دیا ہو تو جب تک وہ دار الاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دار الاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہیں ٹھہر سکتا ہے پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر دو قول ہیں امام شافعی وغیرہ علماء کے ہیں رحمہم اللہ تعالیٰ۔
۷
پابندی عہد کی شرائط
اوپر والے حکم کی حکمت تم بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرف و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہدو پیمان پر قاء رہنے والے ہی نہیں۔ ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ اسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شرف ٨ ہجر میں حضور نے ان پر چڑھائی کی۔ رب العالمیں مکہ آپ کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ کے بس کر دیا۔ وللّٰہ الحمد المنہ لیکن آپ نے باوجود غلطہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا سب کو آزاد کر دیا نہیں لوگوں کو مطلقاً کہتے ہیں۔ یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہو گئے رحمۃ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں میں صفوان اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے کی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے۔
۸
کافروں کی دشمنی
اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔ یہ تو وقت کے منظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔
۹
جہاد ہی راہ اصلاح ہے
مشرکوں کی مذمت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ترغیب جہاد دی جا رہی ہے کہ ان کافروں نے دنیائے خسیس کو آخرت نفیس کے بدلے پسند کر لیا ہے خود راہ رب سے ہٹ کر مومنوں کو بھی ایمان سے روک رہے ہیں ان کے اعمال بہت ہی بد ہیں یہ تو مومنوں کو نقصان پہنچانے کے ہی درپے ہیں نہ انہیں رشتے داری کا خیال نہ معاہدے کا پاس۔ ہے جو دنیأاے کو اس حال میں چھوڑے کہ اللہ کی عبادتیں خلوص کے ساتھ کر رہا ہو اس کے ساتھ کسی کو شریف نہ بناتا ہو نماز و زکوٰۃ کا پابند ہو تو اللہ اس سے خو ہو کر ملے گا یہی اللہ کا وہ دین ہے جسے انبیاء علیہم السلام لاتے رہے اور اسی کی تبلیغ اللہ کی طرف سے وہ کرتے رہے اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں بڑھ جائیں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں یعنی بتوں کو اور بہت پرستی کو چھوڑ دیں اور نمازی اور زکواتی بن جائیں تو تم ان کے رستے چھوڑ دو اور آیت میں ہے کہ پھر تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال سے تو مرفوع حدیث وہیں یہ ختم ہے کہ اللہ اس سے رضامند ہو کر ملے گا اس کے بعد کا کلام راوی حدیث ربیع بن انس رحمۃ اللہ علیہ کا ہے واللہ اعلم۔
۱۲
وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو
اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دے، دین میں عیب جوئی کرے، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر یا جائے۔ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عباد سے روکنے کا ہے۔ ابوجہل عتبہ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سرداران کفر تھے۔ ایک خارجی نے حضرت سعد بن وقاص کو کہا کہ یہ کر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں۔ اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے۔ حضرت علیٰ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماء یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابوبکر نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہو گی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ان میں سے ایک کا قتل دوسرے ستر لوگوں کے قتل سے بھی مجھے زیادہ پسند ہے اس لیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو (ابن ابی حاتم)
۱۳
ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ
مسلمانوں کو پوری طرف جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وہد شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول ٪ کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کر لیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مگر کہیں بہتر تھا۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کر تے رہے بھڑ بھڑا کر اُٹھ کھرے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہو گئے جیسے کہ پورا واقع اسے پہلے بیان ہو چکا ہے۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے سال کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا فالحمد اللہ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ، میری سلطنت میری سزا، میری قدرت، میری ملکیت، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لرزتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گزرتا ہوں۔ میری منشا کے بغیر کچھ بنی نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑا اس نل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑح دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو الھم رب البنی محمد اغفر ذنب اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچا لے۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شروع احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے۔
۱۶
مسلمان بھی آزمائے جائیں گے
یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر دینا ضروری ہے ولیجہ کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ رسول کی خیر خواہی اور حمایت کریں ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لگوں کا بیان چھوڑ دیا۔ ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں ایک جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ سچے جھوٹوں کو ضرور الگ الگ کر دے گا اور آیت میں اسی مضمون کو ام حسبتم ان تدخلو الجنتہ الخ، کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔ اور آیت میں ہے ماکان اللّٰہ لیذر المومنین الخ، اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟ جو ہو گا وہ بھی اسے ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا، تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا سچا جھوٹا ظاہر کر دے اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضا و قدر وار ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔
۱۷
مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟
یعنی اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں (کی تعمیر) کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ مساجد کو مسجد بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد حرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دنوں اعتبار سے تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں نصرانی ہوں، یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے، صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا، مشرک بھی اپنے مشرک ہونے کے لیے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں۔ یہ تو مسجد حرام سے اور اللہ کی راہ روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ کے اولیاء نہیں اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں۔ ہاں بیت اللہ کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن ہوا ہے۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہادت دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے۔ اور حدیث میں ہے اللہ عز و جل فرماتا ہے مجھے اپنے عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہت ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں۔ ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکھری بکری کو پکڑ کر لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور عوام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں جو ان میں داخل ہو اللہ کا ان پر حق ہے کہ وہ مساجد کا احترام کریں۔ ابن عباس فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آ کر با جماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ کا نافرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ کے اور قیامت کے ماننے ہیں ہی ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا نمازی بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہیں ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے یے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے یے بھی ہوتی ان کے دل اللہ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور با مقصد ہیں۔ یہ یاد رہے کہ بقول حضرت ابن عبس قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ عسی وہاں یقین کے معنی میں ہے اُمید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے عسی ان یبعثک ربک مقام محمود تو مقام محمود میں پہنچانا یقینی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک شبہ نہیں۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں،، عسی کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے
۱۹
سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانے پلانے کی سعادت ایمان و جہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجامدے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ سے پھیرنے کو بے نقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بے پرواہی سے منہ مور کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہار غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ نے جب ان سے پرلے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس اور حضرت علی میں ہوئی تھی۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب علی، بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔ علی نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری۔ عباس رضٰ اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانے پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا ممبر سول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقع جمع کے دن کا ہے جمع کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حجر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔
۲۳
ترک موالات و مودت کا حکم
اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں بہت بھائی ہوں۔ بشرطیکہ وہ کر کو اسلام پر ترجیح دیں اور آیت میں ہے لا تجد قوما یومنیون باللہ الخ، اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ رسول کے دشمنوں سے دوستی کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان کھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ انہیں نہروں ولایت میں پہنچائے گا۔ بیہقی میں ہے حضرت ابو عبید ابن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہوئی گئی آپ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر آیت لا تجد نازل ہوئی۔ پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر وہ رشتے دار اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ اور رسول سے اور جہاد سے بھی یادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ کے عذاب کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایسے بدکاروں کو اللہ بھی راستہ نہیں دکھاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے ساتھ جا رہے تھے حضرت عمر کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت عمر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ مجھے ہر چیز شے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مومن نہ ہو گا جب تک کہ وہ مجھے اپنے جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے۔ حضرت عمر بنے فرمایا اللہ کی قسم اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ آپ نے فرمایا اے عمر (تو مومن ہو گیا) (بخاری شریف) صحیح حدیث میں آپ کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولا اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں مسند احمد اور ابو داؤد میں ہے آپ فرماتے تے ہیں جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کرے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔
۲۵
نصرت الٰہی کا ذکر
مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی۔ یاد کر لو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ٹھہرے اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گرہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ واقع ہم عن قریب تفصیل وار بیان کریں، انشاء اللہ تعالیٰ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سوکا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعدد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی۔ یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی رحمت اللہ علیہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے۔ ابن ماجہ اور بیہقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حنین ہوئی تھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سے انجام دے چکے اور عموماً مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمدہ ہے۔ ان کا سردار ملک بو عوف نصری ہے۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن امر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمیں گاہ میں چھپے ہوئے تھے انہوں نے بے خبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بے پنا تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے اور حضرت ابو بن حارث بن عبد المطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیز کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے، میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب اصحاب رہ گئے تھے۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر، حضرت عباس، حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت ابو سفیان بن حارث حضرت ایمان بن ام ایمن، حضرت اسامہ بن زید وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی تھے پھر آ]پ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے و الے سورہ بقرہ کے حاملوں پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک بیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پرے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آ کر کھڑ ہو گئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا جب کچھ جماعت آپ کے ارد گر جمع ہو گئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الٰہی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھر اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فون حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دھیر کر دیا مسند احمد میں ہے حضرت عبد الرحمن فہری جن کا نام یزید بنی اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوائیں نؤ ٹھنڈی ہو گئی ہیں آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخت کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گزری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے آنکھوں اور منہ پہ یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا زمین وہ آسمان کے درمیان لوہا کسے لوہے کے طشت پر بج رہا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس پنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیا دیا اول تو ماندی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کوفے میں دلا دیں۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے؟ آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی۔ سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہچاننے والے بھی پہچان لیں۔ خیال فرمایئے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کر ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا ہے تھا۔ ایک مشرک بکا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائیے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جنے نہیں دیا فورا بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوب صورت نورانی چہرے والے چھ لوگ ان کے ادر گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہر بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہو گئے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار وہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرم فرما دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کر کھائی آپ زین پر سے نیچے کر طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے آپ نے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں میں نے کہا یہیں ہیں فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سوتتے ہوئے لپک لپک کر آ گئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بیہقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بد والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا اور کہ وہ حضرت علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفیدی چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنے کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیچھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آیا، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے۔ اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ شیبہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں؟ میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا جو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا شیبہ وہ تو سوا کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے۔ پھر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی۔ یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافروں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہو گئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بے طرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا۔ باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گزر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی۔ آپ نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ میں نے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بے مثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں۔
۲۸
مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو
اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیتا اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں یہ آیت سنہ ۹ ہجری میں نازل ہوئی اسی سال آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر و قیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف کیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بناتے ہیں۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے۔ لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے۔ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد حرام کے ہے۔ یہاں آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل واثق ہے۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا۔ باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں؟ پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔ بعض ظاہر یہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی۔ حسن فرماتے ہیں جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہو جائے گا۔ ہمارے بازار بے رونق ہو جائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی و حمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے۔ یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دیتا۔ ان اہل کتاب سے جو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی پر بھی ضرور ایمان لاتے ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی دور کا سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لئے بے سود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین سے کفر کرتے ہیں اس لئے ان سے بھی جہاد کرو۔ ان سے جہاد کے حکم کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہو چکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کر لی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا۔ سنہ ۹ ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے اردگرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا۔ بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا۔ تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا پھر اللہ سے استخارہ کر کے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ انشاء اللہ تعالیٰ بیان ہو گا۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں چنانچہ ہجر کے مجوسیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جزیہ لیا تھا۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یا بت پرست وغیرہ ہوں۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم۔ پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو۔ یہی وجہ تھی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر کو دیا تھا کہ اہل شام کو فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہ جب آپ کے لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہروں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔ مندر اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے رہ گزر اور مسافروں کے لئے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے، ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے، مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے، شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے، ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے، مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے، ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے، تلواریں نہ لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے، شراب فروشی نہیں کریں گے، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو ترشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالے رہیں گے، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔ اپنی مذہب کتابیں مسلمانوں کی گزر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے بچائیں گے نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔ جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی۔ انہی شرائط پر ہمیں امن ملا ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام مستحق ہم بھی ہو جائیں گے۔
۳۰
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے
ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ ان لوگوں کو حضرت عزیز کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیز علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی چھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیز پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھا لو چنانچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیز علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیز علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بے دلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چنانچہ یہ مدینہ شریف آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے اسی آیت اتخذوا کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بے خبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے، اس جیسا اس کا شریک، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔
۳۲
کفارہ کی دلی مذموم خواہش
فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ نور الٰہی بجھا دیں ہدایت ربانی اور دین حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح یہ لوگ بھی نور رب کے بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوشش کریں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے۔ ضروری بات ہے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بول بالا ہو گا۔ تم مٹانا چاہتے ہو اللہ اس کو بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی۔ تم گو نا خوش رہو لیکن آفتاب ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا۔ عربی لعنت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے۔ کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے جیسے فرمان ہے یعجب الکفار نباتہ اسی اللہ نے اپنے سول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی خبروں اور صحیح ایمان اور نفع والے علم پہ مبنی یہ ہدایات ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں ان کا مجموعہ یہ دین حق ہے۔ یہ تمام اور مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا آنحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میرے لئے مشرق و مغرب زمین کی لپیٹ دی گئی میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا۔ فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا تمہارے سردار جہنمی ہیں۔ بجز ان کے جو متقی پرہیزگار اور امانت دار ہوں۔ فرماتے ہیں یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی حضرت یتیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اس سے خیر و برکت عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت نفرت و لعنت نصیب ہوئی۔ پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے نہیں مانیں گے لیکن اس کی ماتحتی ہیں انہیں آنا پڑے گا۔ حضرت عدی فرماتے ہیں میرے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا اسلام قبول کرتا کہ سلامتی ملے میں نے کہا میں تو ایک دین کو مانتا ہوں آپ نے فرمایا تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے میں نے کہا سچ؟ آپ نے فرمایا بالکل سچ۔ کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے؟ کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا؟ میں نے کہا یہ تو سچ ہے۔ آپ نے فرمایا تیرے دین میں یہ تیرے لئے حلال نہیں پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا آپ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے؟ سن صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن حیرہ کا تجھے علم ہے؟ میں نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر اکیلے امن کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے گا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرے گا۔ واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ نے فرمایا ہاں کسریٰ بن ہرمز کے تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان پورا ہوا۔ یہ دیکھو آج جہرہ سے سواریاں چلتی ہیں بے خوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ و سلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دن رات کا دور ختم نہ ہو گا جب تک پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آیت ھو الذی ارسل کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے آپ نے فرمایا ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ پاک کو منظور ہو گا پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر وخوبی نہ ہو گی پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے۔
۳۴
یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ آیت لولاینھا ھم الریانیون والاحبار الخ، میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قیس اس آیت میں کہا گیا ہے ذالک بان منھم قسسین ورھبانا آیت کا مقصود لوگوں کو بڑے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں میں صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے۔ ایسی پوری مشابہت ہو گی کہ ذرا بھی فرق نہ رہے گا لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟ آپ نے فرمایا ہاں انہی کی روش پر اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟ آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں؟ پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اس وجاہت سے ریاست و منصب حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کا مال غصب کرنا چاہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے، ہدیئے، خراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہو گئے۔ یہ حرام خور جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل سے خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے۔ جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بے یارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے۔ عالموں اور صوفیوں یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کرنے کے بعد اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
۳۵
یعنی دین واعظوں، عالموں، صوفیوں اور درویشوں کے ناپاک طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔ کنز اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہو۔ حضرت ابن عمر سے یہی مروی ہے بلکہ فرماتے ہیں جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے۔ حضرت ابن عباس حضرت جابر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں بغیر زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا۔ خلیفہ برحق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور عراک بن مالک نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی خذمن اموالھم الخ، نے منسوخ کر دیا ہے۔ حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیادہ کنز ہے۔ لیکن یہ قول غریب ہے۔ مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں سونے چاندی والوں کے لئے ہلاکت ہے تین مرتبہ آپ کا یہی فرمان سن کر صحابہ پر شاق گزرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں؟ حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی۔ مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ نے آپس میں چرچا کیا تو حضرت عمر نے کہا لو میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کر آتا ہوں اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے جا ملے اور روایت میں ہے کہ صحابہ نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لئے کیا چھوڑ جائیں؟ اس میں ہے کہ حضرت عمر کے پیچھے ہی پیچھے حضرت ثوبان بھی تھے۔ آپ نے حضرت عمر کے سوال پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے۔ میراث کے مقرر کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت عمر یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے۔ آپ نے فرمایا لو اور سنو میں تمہیں بہترین خزانہ بتاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی ناموس کی حفاظت کرے۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں مجھے برا معلوم ہو آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو۔ (ترجمہ) یعنی یا اللہ میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکر اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس کی پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب جاننے والا ہے۔ آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والے اور اسے بچا بچا کر رکھنے والے درد ناک عذاب دیئے جائیں گے۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب پتا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ گرم پانی کا تریڑا دوزخیوں کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے ہو بدلہ اس کا یہ ہے۔ ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ کی اطاعت سے اسے مقدم رکھے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لئے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور وہ اس میں جلتا رہے گا۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے۔ بلکہ ایک ساتھ سب کے سب۔ مرفوعاً بھی یہ روایت آئی ہے لیکن اس کے سند صحیح نہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے جو عضو سامنے آ جائے گا اسی کو چبا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑا جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ۔ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ امام بخاری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو؟ آپ نے فرمایا ہم شام میں تھے وہاں میں نے آیت والذین یکنزون الخ، کی تلاوت کی تو حضرت معاویہ نے فرمایا یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا ہماری اور ان کے سب کے حق میں ہے۔ اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ جب مدینے پہنچا تو چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا۔ غرض میں مدینے میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا۔ آخر میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے۔ اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے۔ حضرت معاویہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلافت سے شکایت کی امیر المومنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا آپ وہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے۔ حضرت معاویہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے قبل سب ادھر ادھر راہ اللہ خرچ کر ڈالیں۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لئے بھجوائی تھیں میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں وہ واپس کیجئے آپ نے فرمایا تم پر آفرین ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا۔ ابن عباس بھی اس آیت کا حکم عام بتاتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے۔ احنف بن قیس فرماتے ہیں میں مدینے میں آیا دیکھا کہ قریشیوں کی ایک جماعت محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حالت میں اور آتے ہی کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے سب لوگ سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گزرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لئے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔ غالباً اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابوذر کا یہ مذہب تھا۔ جو آپ نے اوپر پڑھا واللہ اعلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابوذر کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات فراہم کرنا شروع کیا۔ سامان کی خرید کے بعد سات درہم بچ رہے حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو حضرت عبد اللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو ان کے آپ نے فرمایا نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ و سلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سر بند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لئے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے۔ ابن عساکر میں ہے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل۔ انہوں نے پوچھا یہ کس طرح؟ فرمایا سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھے انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکے گا آپ نے فرمایا یہی ہے ورنہ آگ ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا وہ دینار یا دو درہم پس انداز کئے ہوئے نکلے آپ نے فرمایا یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہمد کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا آپ نے فرمایا ایک داغ آگ کا پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ دو داغ آگ کے ہیں فرماتے ہیں جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے، ایک ایک تختی آگ کی بنائی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کر ٹھوڑی تک اس کے جسم میں اس آگ سے داغ کئے جائیں گے۔ آپ کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور پہلو اور کمر پر اس سے داغ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لئے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو اس کا راوی ضعیف کذاب و متروک ہے۔
۳۶
احترام آدمیت کا منشور
مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔ تین پے درپے ذوالقعدہ ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔ آپ نے سکوت فرمایا ہم سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا ہاں پھر پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا اللہ جانے اور اس کا رسول آپ نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاہد آپ اس مہینے کا نام کوئی اور رکھیں گے آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا یہ کونسا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم خوب جاننے والے ہیں؟ آپ پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ کو اس کا کوئی اور ہی نام رکھنا ہے پھر فرمایا یہ بلدہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے کہا بیشک۔ آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو میرے بعد گمراہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں منیٰ میں حجۃ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے۔ ابوحرہ رقاشی کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا۔ آپ کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہو گئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ شہر ابتداء مخلوق سے با حرمت و با عزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا پس عربوں میں جو رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے آیت انما النسی الخ، کی تفسیر میں اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔ ٭ فصل ٭ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشہور فی اسماء الایام و المشہور میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع محرمات حارم محاریم۔ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے۔ جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں صفر المکان اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے ارتباع کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع اربعا ہے جیسے نصیب کی جمع انصبا اور جمع اس کی اربعہ ہے جیسے رغیف کی جمع ارغفہ ہے۔ ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔ جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ جچتی نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو۔ چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہ ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے اس کی جمع جمادیات ہے۔ جیسے حباری حباریات۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔ جمادی الاول اور جمادی الاخر بھی کہا جاتا ہے۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لئے اسے رجب کہتے ہیں اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے۔ شعبان کا نام شعبان اس لئے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے۔ شعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا اس کی جمع شعابین شعبانات آتی ہے۔ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں رمضت الفصال اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں اس کی جمع رمضانات اور ماضین اور رمامضہ آتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے لیکن وہ ضعیف ہے۔ میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے۔ شوال ماخوذ ہے شالت الابل سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا اس کی جمع شواویل شواول شوالات آتی ہے۔ ذوالقعدہ یا ذوالقعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لئے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لئے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔ ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لئے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا ہے۔ اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔ یہ تو ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ تھی۔ اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع احاد اوحاد اور وحود آتی ہے۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔ منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثات اور اثالث آتی ہے۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اخمسہ اخامس آتی ہے۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع جمع اور جماعات آتی ہے۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ ہفتے کی دنوں کی گنتی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اس لئے اسے سبت کہتے ہیں۔ قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول، رھون جبار، دبار، مونت، عروبہ، شبار۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار کے عربوں میں دنوں کے نام پائے جاتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا۔ جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے درپے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے درمیانہ سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کر لیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آ مد و رفت کریں یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔ پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے درد ناک عذاب دیں گے اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت امام شافعی اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے اسی طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی دیت سخت ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں فیھن سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لئے اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔ امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔ پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں۔ حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کا ذکر فرمایا۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں گئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گزر جان کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہی جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ہوازن قبیلے کی طرف ماہ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے افراد بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے پس ثابت ہے کہ آپ نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہیہ کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور فرمان ہے واذا نسلخ الا شہر الحرم فاقتلوا المشرکین الخ، حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو۔ یہ پہلے بیان گزر چکا ہے کہ یہ ہر سال میں چار مہینے ہیں۔ نہ کہ تیسرے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔ پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے کہ وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لئے وہ مڈ بھیڑ آپس میں مل کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو۔ جیسے آیت الشھر الحرام میں ہے اور جیسے آیت ولاتقاتلوھم عندالسجد الحرام حتی یقاتلو کم فیہ الخ، میں بیان ہے کہ ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔ یہی جواب حرمت والے مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل یہ لڑائی تتمہ تھی ہوازن اور تقفی حلیفوں کے ساتھ جنگ کا۔ انہوں نے ہی جنگ کی ابتداء کی تھی ادھر ادھر سے آپ کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں جا چھپے اور وہاں قلعہ بند ہو گئے آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لئے اور آگے بڑھے انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا یا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ادھر محاصرہ جاری رہا منجیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں ہوئی تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا جب چند دن گزر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتداء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں واللہ اعلم۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں وارد کرتے ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم۔
۳۷
احکامات دین میں رد و بدل انتہائی مذموم سوچ ہے
مشرکوں کے کفر کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کس طرح اپنی فاسد رائے کو اور اپنی ناپاک خواہش کو شریعت ربانی میں داخل کر کے اللہ کے دین کے احکام میں رد و بدل کر دیتے تھے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیتے تھے۔ تین مہینے کی حرمت کو تو ٹھیک رکھا پھر چوتھے مہینے محرم کی حرمت کو اس طرح بدل دیا کہ محرم کو صفر کے مہینے میں کر دیا اور محرم کی حرمت نہ کی۔ تاکہ بظاہر سال کے چار مہینے کی حرمت بھی پوری ہو جائے اور اصلی حرمت کے مہینے محرم میں لوٹ مار قتل و غارت بھی ہو جائے اور اس پر اپنے قصیدوں میں مبالغہ کرتے تھے اور فخریہ اپنا یہ فعل اچھالتے تھے۔ ان کا ایک سردار تھا جنادہ بن عمرو بن امیہ کنانی یہ ہر سال حج کو آتا اس کی کنیت ابوثمامہ تھی یہم نادی کر دیتا کہ نہ تو ابو ثمامہ کے مقابلے میں کوئی آواز اٹھا سکتا ہے نہ اس کی بات میں کوئی عیب جوئی کر سکتا ہے سنو پہلے سال کا صفر مہینہ حلال ہے اور دوسرے سال کا حرام۔ پس ایک سال کے محرم کی حرمت نہ رکھتے دوسرے سال کے محرم کی حرمت منا لیتے۔ ان کی اسی زیادتی کفر کا بیان اس آیت میں ہے۔ یہ شخص اپنے گدھے پر سوار آتا اور جس سال یہ محرم کو حرمت والا بنا دیتا لوگ اس کی حرمت کرتے اور جس سال وہ کہہ دیتا کہ محرم کو ہم نے ہٹا کر صفر میں اور صفر کو آگے بڑھا کر محرم میں کر دیا ہے اس سال عرب میں اس ماہ محرم کی حرمت کوئی نہ کرتا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی کنانہ کے اس شخص کو علمس کہا جاتا تھا یہ منادی کر دیتا کہ اس سال محرم کی حرمت نہ منأای جائے اگلے سال محرم اور صفر دونوں کی حرمت رہے گی پس اس کے قول پر جاہلیت کے زمانے میں عمل کر لیا جاتا اور اب حرمت کے اصلی مہینے میں جس میں ایک انسان اپنے باپ کے قاتل کو پا کر بھی اس کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا تھا اب آزادی سے آپس میں خانہ جنگیاں اور لوٹ مار ہوتی۔ لیکن یہ قول کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ گنتی میں وہ موافقت کرتے تھے اور اس صورت میں گنتی کی موافقت بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک سال میں تین مہینے رہ جاتے ہیں اور دوسرے سال میں پانچ ماہ ہو جاتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے تو حج فرض تھا ذی الحجہ کے مہینے میں لیکن مشرک ذی الحجہ کا نام محرک رکھ لیتے پھر برابر گنتی گنتے جاتے اور اس حساب سے جو ذی الحجہ آتا اس میں حج ادا کرتے پھر محرم کے نام سے خاموشی برت لیتے اس کا ذکر ہی نہ کرتے پھر لوٹ کر صفر نام رکھ دیتے پھر رجب کو جمادی الاخر پھر شعبان کو رمضان اور رمضان کو شوال پھر ذوالقعدہ کو شوال ذی الحجہ کو ذی القعدہ اور محرم کو ذی الحجہ کہتے اور اس میں حج کرتے۔ پھر اس کا اعادہ کرتے اور دو سال تک ہر ایک مہینے میں برابر حج کرتے۔ جس سال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا اس سال مشرکوں کی اس گنتی کے مطابق دوسرے برس کا ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔ آنضحور صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے موقعہ پر ٹھیک ذوالحجہ کا مہینہ تھا اور اسی کی طرف آپ نے اپنے خطبے میں اشارہ فرمایا اور ارشاد ہوا کہ زمانہ گھوم پھر کر اسی ہئیت پر آ گیا ہے جس ہئیت پر اس وقت تھا جب زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے بنائے لیکن یہ قول بھی درست نہیں معلوم ہوتا۔ اس وجہ سے کہ اگر ذی القعدہ میں حضرت ابوبکر کا حج ہوا تو یہ حج کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے واذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر الخ، یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے آج کے حج اکبر کے دن مشرکوں سے علیحدگی اور بیزاری کا اعلان ہے۔ اس کی منادی حضرت صدیق کے حج میں ہی کی گئی پس اگر یہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو حج کا دن نہ فرماتا اور صرف ہینوں کی تقدیم و تاخیر کو جس کا بیان اس آیت میں ہے ثابت کرنے کے لئے اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ تو اس کے بغیر بھی ممکن ہے۔ کیونکہ مشرکین ایک سال تو محرم الحرام کے مہینے کو حلال کر لیتے اور اس کے عوض ماہ صفر کو حرمت والا کر لیتے سال کے باقی مہینے اپنی جگہ رہتے۔ پھر دوسرے محرم کو حرام سمجھتے اور اس کی حرمت و عزت باقی رکھتے تاکہ سال کے چار حرمت والے مہینے جو اللہ کی طرف سے مقرر تھے ان کی گنتی میں موافقت کر لیں پس کبھی تو حرمت ولیت ینوں مہینے جو پے درپے ہیں ان میں سے آخری ماہ محرم کی حرمت رکھتے کبھی اسے صفر کی طرف موخر کر دیتے۔ رہا حضور کا کا فرمان کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلی حالت پر آ گیا ہے یعنی اس وقت جو مہینہ ان کے نزدیک ہے وہی مہینہ صحیح گنتی میں بھی ہے اس کا پورا بیان ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں واللہ اعلم۔ ابن ابی اتم میں ہے کہ عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ٹھہرے مسلمان آپ کے پاس جمع ہو گئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثناء بیان فرما کر فرمایا کہ مہینوں کی تاخیر شیطان کی طرف سے کفر کی زیادتی تھی کہ کافر بہکیں۔ وہ ایک سال محرم کو حرمت والا کرتے اور صفر کو حلت والا پھر محرم کو حلت والا کر لیتے یہی ان کی وہ تقدیم تاخیر ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السیرت میں اس پر بہت اچھا کلام کیا ہے جو بے حد مفید اور عمدہ ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اس کام کو سب سے پہلے کرنے والا علمس حذیفہ بن عبید تھا۔ پھر قیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حارث بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ پھر اس کا لڑکا عباد پھر اس کا لڑکا قلع پھر اس کا لڑکا امیہ پھر اس کا لڑکا عوف پھر اس کا لڑکا ابو ثمامہ جناوہ اسی کے زمانہ میں اشاعت اسلام ہوئی۔ عرب لوگ حج سے فارغ ہو کر اس کے پاس جمع ہوتے یہ کھڑا ہو کر انہیں لیکچر دیتا اور رجب ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کی حرمت بیان کرتا اور یاک سال تو محرم کو حلال کر دیتا اور محرم صفر کو بنا دیتا اور ایک سال محرم کو ہی حرمت والا کہہ دیتا کہ اللہ کی حرمت کے مہینوں کی گنتی موافق ہو جائے اور اللہ کا حرام حلال بھی ہو جائے۔
۳۸
غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ
ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے۔ ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہو گئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شرع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو۔ کیا دنیا کی ان فنی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس انگلی کو کئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوت دیتا ہے آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گزر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے۔ ایک قبیلے کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت انفروا اخفافا و ثقالا اور آیت ماکان لاھل المدینتہ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسولہ للہ الخ، یہ سب آیتیں آیت وما کان المومنون لینفروا کافتہ الخ، سے منسوخ ہیں لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم۔
۴۰
آغاز ہجرت
تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں۔ یاد رکھو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ کے قتل، قید یا دیس نکالا دینے کی سازش کی تھی اور آپ اپنے سچے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ تن تنہا مکہ شریف سے بحکم الٰہی تیز رفتاری سے نکلے تھے تو کون ان کا مددگار تھا؟ تین دن غار میں گزارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ شریف کا راستہ لیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو کوئی ایذا پہنچائے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابوبکر ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابوبکر ابن ابوقحافہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا آپ نے فرمایا ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہے۔ الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔ ابن عباس وغیرہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں۔ اس لئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا۔ شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لئے۔ دوسرا حمیت قومی کے لئے، تیسرا لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو کلمہ حق کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ راہ حق کا مجاہد ہے اللہ تعالیٰ انتقال لینے پر غالب ہے۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی کوئی روک سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے۔ کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے۔ اس کے سب اقوال افعال حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ۔
۴۱
جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے
کہتے ہیں کہ سورہ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لئے تمام مسلمانوں کو ہادی ام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نکل کھڑے ہونا چاہئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لئے تمام مومنوں کو چلنا چاہئے خواہ دل مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا طبیعت پر گراں گزرے۔ ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری۔ بوڑھے جو ان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام حکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا حضرت ابوطلحہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے اور نصرانیوں سے جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ جان بخشنے والے اللہ کو اپنی جان سپرد کر دی۔ رضی اللہ عنہ وارضاء اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہد کے لئے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لئے ضرور جاؤں گا بچوں نے کہا ابا جی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات تک آپ نے حضور کی ماتحتی میں جہاد کیا۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے۔ خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں۔ اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہو گئے سمندر پار جانے کے لئے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو سمندر کے عین درمیان روح پروردگار کو سونپ دی۔ نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یا ٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ اور بھی بہت سے بزرگوں سے حفافاً و ثقالاً کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے۔ الغرض جوان ہوں، بوڑھے ہوں، امیر ہوں، فقیر ہوں، فارغ ہوں، مشغول ہوں، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں، حاجت مند ہوں، کاری گر ہوں، آسانی والے ہوں سختی والے ہوں پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں، قوی ہوں یا کمزور جس حالت میں بھی ہوں بلا عذر کھڑے ہو جائیں اور راہ حق کے جہاد کے لئے چل پڑیں۔ اس مسئلہ کی تفصیل کے طور پر ابو عمرو اور زاعی کا قول ہے کہ جب اندرون روم حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے بوجھل سوار پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ آیت فلولانفرالخ، سے یہ حکم منسوخ ہے۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے انشاء اللہ تعالیٰ مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری۔ لیکن یہ حکم صحابہ پر سخت گزرا پھر جناب باری نے اسے آیت لیس علی الضعفاء، الخ، سے منسوخ کر دیا یعنی ضعیفوں بیماروں تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ اللہ کے دین اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ خفیف و ثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی۔ حضرت ابو راشد حرانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود سوار سرکار رسالت مآب کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہود میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں ڈ آپ نے فرمایا سنو سورۃ البعوث یعنی سورہ برات ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ۔ حضرت حیان بن زید شرعی کہتے ہیں کہ صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لئے چلے، میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں میں نے پاس جا کر کہا چچا صاحب آپ تو اب اللہ کے نزدیک بھی معذور ہیں یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا بھتیجے سنو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے۔ سنو جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے وہاں اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ کی رحمت برستی ہے۔ سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے۔ جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے خود الہ العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کترا کھا رہے ہو۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بے حد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے۔ حضور نے ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہو جا اس نے کہا جی تو چاہتا نہیں آپ نے فرمایا گو نہ چاہے (مسند احمد)
۴۲
عیار عیار لوگوں کو بے نقاب کر دو
جو لوگ غزوہ تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر اپنے جھوٹے اور بناوٹی عذر پیش کرنے لگے تھے۔ انہیں اس آیت میں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دراصل انہیں کوئی معذوری نہ تھی اگر کوئی انسان غنیمت اور قریب کا سفر ہوتا تو یہ ساتھ ہو لیتے لیکن شام تک کے لمبے سفر نے ان کے گھٹنے توڑ دیئے اور مشقت کے خیال نے ان کے ایمان کمزور کر دیئے۔ اب یہ آ کر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اللہ کے رسول کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتا تو بھلا ہم شرف ہم رکابی چھوڑنے والے تھے؟ ہم تو جان و دل سے آپ کے قدموں میں حاضر ہو جاتے اللہ فرماتا ہے ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انہوں نے تو اپنے آپ کو غارت کر دیا۔
۴۳
نہ ادھر کے نہ ادھر کے
سبحان اللہ اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورہ نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے فاذا استاذنوک لبعض شانھم فاذن لمن شئت منھم الخ، یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی۔ اطاعت گذار تو حاضر ہو جاتے۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں۔ اسی لئے جناب باری نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے۔ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا۔
۴۶
غلط گو غلط کار کفار و منافق
عذر کرنے والوں کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گزرنے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا دراصل اللہ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور قدرتی طور پر ان سے کہہ دیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو۔ ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا۔ یہ ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر لگا بکر بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے۔ ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شرر انگیزیوں سے بے خبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے۔ مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کے حامی اور ہمدرد ہیں یہ لوگ تمہاری جاسوسی کرتے رہتے ہیں اور تمہاری پل پل کی خبریں انہیں پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ کو اس لئے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعضے وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لئے جاسوسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ نے انہیں دور ڈال دیا اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کے سامنے ان کی بات مان لینے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ چاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتوں تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی۔ یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے۔ اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو! ان کا نہ نکلنا ہی غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے نہ خود جہاد کرتے نہ کرنے دیتے۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن ابتو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلا وطن ہو جاؤ تو سوائے بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے۔ حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جانئے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں۔ ایسی آیتیں اور بھی بہت ساری ہیں۔
۴۸
فتنہ و فساد کی آگ منافق
اللہ تعالیٰ منافقین سے نفرت دلانے کے لئے فرما رہا ہے کہ کیا بھول گئے مدتوں تو یہ فتنہ و فساد کی آگ سلگاتے رہے ہیں اور تیرے کام کے الٹ دینے کی بیسیوں تدبیریں کر چکے ہیں مدینے میں آپ کا قدم آتے ہی تمام عرب نے ایک ہو کر مصیبتوں کی بارش آپ پر برسا دی۔ باہر سے وہ چڑھ دوڑے اندر سے یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے بغاوت کر دی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں سب کی کمانیں توڑ دیں ان کے جوڑ ڈھیلے کر دیئے ان کے جوش ٹھنڈے کر دیئے بدر کے معرکے نے ان کے ہوش حواس بھلا دیئے اور ان کے ارمان ذبح کر دیئے۔ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے صاف کہہ دیا کہ بس اب یہ لوگ ہمارے بس کے نہیں رہے اب تو سوا اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر میں اسلام کی موافقت کی جائے دل میں جو ہے سو ہے وقت آنے دو دیکھا جائے گا اور دکھا دیا جائے گا۔ جیسے جیسے حق کی بلندی اور توحید کا بول بالا ہوتا گیا یہ لوگ حسد کی آگ میں جلتے گئے آخر حق نے قدم جمائے، اللہ کا کلمہ غالب آ گیا اور یہ یونہی سینہ پیٹتے اور ڈنڈے بجاتے رہے۔
۴۹
جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر
جد بن قیس سے حضور نے فرمایا اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا؟ تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بے طرح شیدائی ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے۔ رسول اللہ کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کہ کیا کم فتنہ ہے یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا۔ حضور نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ تو انہوں نے کہا جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے۔ آپ نے فرمایا بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے؟ سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت حضرت بشر بن برا بن معرور ہیں۔ جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں۔
۵۰
بد فطرت لوگوں کا دوغلا پن
ان بد باطن لوگوں کی اندرونی خباثت کا بیان ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت سے، ان کی بھلائی اور ترقی سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور اگر اللہ نہ کرے یہاں اس کے خلاف ہوا تو بڑے شور و غل مچاتے ہیں گا گا کر اپنی چالاکی کے افسانے گائے جاتے ہیں کہ میاں اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچے رہے مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دے کر رنج راحت اور ہم خود اللہ کی تقدیر اور اس کی منشا کے ماتحت ہیں وہ ہمارا مولیٰ ہے وہ ہمارا آقا ہے وہ ہماری پناہ ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اسی پر ہوتا ہے وہ ہمیں کافی ہے بس ہے وہ ہمارا کار ساز ہے اور بہترین کار ساز ہے۔
۵۲
شہادت ملی تو جنت، بچ گئے تو غازی
مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح اچھے ہیں اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے اور اگر فتح ملی تو غنیمت و اجر ہے۔ پس اے منافقو تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک کا ہے اور ہم جس بات کا انتظار تمہارے بارے میں کر رہے ہیں وہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یا تو یہ کہ اللہ کا عذاب براہ راست تم پر آ جائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر اللہ کی مار پڑے کہ قتل و قید ہو جاؤ۔ اچھا اب تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ منتظر رہیں دیکھیں پر وہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تمہارے خرچ کرنے کا اللہ بھوکا نہیں تم خوشی سے دو تو اور ناراضگی سے دو تو وہ تو قبول فرمانے کا نہیں اس لئے کہ تم فاسق لوگ ہو۔ تمہارے خرچ کی عدم قبولیت کا باعث تمہارا کفر ہے اور اعمال کی قبولیت کی شرط کفر کا نہ ہونا بلکہ ایمان کا ہونا ہے ساتھ ہی کسی عمل میں تمہارا نیک قصد اور سچی ہمت نہیں۔ نماز کو آتے ہو تو بھی بجھے دل سے، گرتے پڑتے مرتے پڑتے سست اور کاہل ہو کر۔ دیکھا دیکھی مجمع میں دو چار دے بھی دیتے ہو تو مرے جی سے دل کی تنگی سے۔ صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاؤ اللہ پاک ہے وہ پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے متقیوں کی اعمال قبول ہوتے ہیں تم فاسق ہو تمہارے اعمال قبولیت سے گرے ہوئے ہیں۔
۵۵
کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے
ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو۔ قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم موخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت و وجاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا۔
۵۶
جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی حقیقت
ان کی تنگ دلی ان کی غیر مستقل مزاجی ان کس سراسیمگی اور پریشانی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ تمہارے پاس آ کر تمہارے دل میں گھر کرنے کے لئے اور تمہارے ہاتھوں سے بچنے کے لئے بڑی لمبی چوڑی زبردست قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہم تمہارے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے یہ صرف خوف و ڈر ہے جو ان کے پیٹ میں درد پیدا کر رہا ہے۔ اگر آج انہیں اپنے بچاؤ کے لئے کوئی قلعہ مل جائے اگر آج یہ کوئی محفوظ غار دیکھ لیں یا کسی اچھی سرنگ کا پتہ انہیں چل جائے تو یہ تو سارے کے سارے دم بھر میں اس طرف دوڑ جائیں تیرے پاس ان میں سے ایک بھی نظر نہ آئے کیونکہ انہیں تجھ سے کوئی محبت یا انس تو نہیں ہے یہ تو ضرورت مجبوری اور خوف کی بناء پر تمہاری چاپلوسی کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں اسلام ترقی کر رہا ہے یہ جھکتے چلے جا رہے ہیں مومنوں کو ہر خوشی سے یہ جلتے تڑپتے ہیں ان کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ موقعہ مل جائے تو آج بھاگ جائیں۔
۵۸
مال و دولت کے حریص منافق:
بعض منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر تہمت لگاتے کہ آپ مالِ زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سیکسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا؟ پھر آپ نے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری امت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ نے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہوں گی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوا دیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا۔ ہماری امیدیں ذات الٰہی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔ پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے۔ توکل ذات واحد پر رکھے، اسی کو کافی وافی سمجھے، رغبت اور توجہ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سر مو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجا لانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑی دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے۔
۶۰
زکوٰۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے؟
اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں۔ امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے۔ گو امام ابو حنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو۔ ابن علیۃ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کا لفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا۔ قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں۔ فقراء۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں۔ کچھ شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے صدقے کا مال مانگا آپ بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا گر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ مساکین، حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکن کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو بے پرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے۔ صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جن کے دل بہلائے جاتے ہیں۔ ان کی کئی قسمیں ہیں بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفی کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سے سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا۔ بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے۔ ایک مرتبہ حضرت علی نے یمن سے کچھا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا۔ اقراع بن حابس عینیہ بن بدر، علقمہ بن علاثہ اور زیدخیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں۔ بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام و فروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر و اللہ اعلم۔ حضرت عمر اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرف کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تکہ کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔ اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی وہ تم نے کیا ہو گا۔ حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو کسی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے۔ اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے۔ قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا اپنا ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے پس انہیں بی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہیں دیں گے پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضایع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہو جائے۔ تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گزرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہو جائں کہ ہاں بے شک فلاں شخص پر فاقے گزرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے۔ اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے (مسلم شریف) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الٰہی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں۔ (مسلم) آپ فرماتے ہیں کہ ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا (مسند احمد)۔ راہ الٰہی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا۔ حج بھی راہ الٰہی میں داخل ہے۔ مسافر جو سفر میں بے سر و سامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمدورفت کے لئے کافی ہو۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے تیسرا قرض دار چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے۔ زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقریر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا۔ اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے۔