فہرست مضامین
تزک چنگیزی
ایک فکاہیہ
پروفیسر غلام شبیر رانا
پس منظر
کچھ عرصہ قبل سر راہ ایک صبح خیزیا کرم کتابی ناصف کھبال خان نظر آیاجس نے پرانی، نادر و نایاب کتب اور مخطوطات کی چوری میں متعدد نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ سرقہ، توارد، چربہ سازی اور کفن دزدی اس متفنی کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہی اہل علم لا حول پڑھتے ہیں۔ ابھی میں اسے دیکھ کر جھٹ پٹ کہیں نکل جانے کی فکر کر رہا تھا کہ یہ بگٹٹ بھاگتا اور ہنہناتا ہوا میری راہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے جل تو جلال تو، آئی بلا ٹال تو کا مسلسل ورد کیا لیکن ابلیس نژاد موذی درندے کب جان چھوڑتے ہیں وہ نہایت ڈھٹائی سے زمین کا بوجھ بنا رہا اور اپنی عرق آلود پیشانی اور گرد آلود ملبوس کو صاف کرتے ہوئے دم ہلا کر غرایا:
’’ کئی دنوں سے ابن بطوطہ کی جستجو میں بھٹک رہا تھا۔ میرے پاؤں میں ایک ایسا چکر ہے جو مجھے کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ پرانے مخطوطات کی تلاش میں گرد چھانتا پھرتا ہوں۔ کل ایک ردی والے کے کباڑ خانے سے جو مال مسروقہ ہاتھ لگا ہے وہ گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ایسا ورق ہے جو سب کے لیے عبرت کا سبق ہے۔ مجھے چنگیز خان کی خود نوشت ’’تزک چنگیزی‘‘ مل گئی ہے۔ میں آسمان کے تارے توڑ کر لایا ہوں۔ میں یہ مخطوطہ فروخت کر نا چاہتا ہوں۔ کہیے آپ اس کے کتنے دام لگاتے ہیں ؟‘‘
میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا:’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے چنگیز خان کے ساتھ سرے سے کوئی دل چسپی ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قدیم مخطوطات کی فروخت کے لیے آپ کسی عجائب گھر یا کتب خانے سے رجوع کریں۔ یہ جو اوراق پارینہ آپ نے تھام رکھے ہیں ان کرم خوردہ اور فرسودہ اوراق کا مطالعہ میرے بس سے باہر ہے۔ تم جو رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہو اگر تم میں اتنا دم خم ہے تو ارسطو کا تصور طربیہ لے کر آؤ۔ دنیا تم کو عطائی فلسفی کے بجائے حقیقی فلسفی مان لے گی۔ اس وقت تمھاری حیلہ سازی، بہتان طرازی اور چربہ سازی نے تمھیں نکو بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ تم پر تین حرف بھیجتے ہیں۔ ‘‘
’’اف !اس قدر آسان کام ‘‘ ناصف کھبال خان نے منمناتے ہوئے کہا ’’لوگ کہتے ہیں کہ میں کوڑے کے ڈھیر کو سونگھتا پھرتا ہوں تا کہ جاہ و منصب کی ہڈیاں نوچ کر کھاؤں۔ کس قدر کوتاہ اندیش لوگ ہیں۔ میں تو عفونت زدہ کوڑے کے ڈھیر میں ہاتھ اس لیے ڈالتا ہوں کہ شاید کوئی گم گشتہ مخطوطہ ہاتھ لگ جائے۔ اب رہ گیا ارسطو کا تصور طربیہ تو وہ میں نے خود لکھا تھا جس کا اصل مخطوطہ میرے پاس محفوظ ہے۔ ارسطو میں اتنی تاب کہاں کہ وہ طربیہ پر کچھ لکھ سکتا اس کا تصور المیہ بھی میر ا چربہ ہے۔ سقراط اور افلاطون کو بھی میں کچھ نہیں جانتا۔ میرے خاندان کے جید جاہل بھی ان کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ‘‘
مجھے اس متفنی کی ذہنی صحت کے بارے میں پہلے جو شکوک و شبہات تھے وہ اب یقین میں بدل گئے۔ میں سوچنے لگا ایسے شخص کو تو ذہنی علاج کے لیے فاوئنٹین ہاؤس بھیجنا چاہیے۔ یہ خبطی کس قدر دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے اپنی جہالت پر ڈٹا ہوا ہے۔ میں نے اس کی لاف زنی کو بالکل کوئی اہمیت نہ دی۔ اور اس کی بے سروپا گفتگو کو سنی ان سنی کر دیا اور خاموش رہا۔ میں جزیرۂ جہلا میں گھر گیا تھا نکل کے کس سمت جاتا میرے چاروں جانب مہیب سمندر تھا جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ اعصاب کو شل کر رہا تھا۔ میری عدم دلچسپی کو دیکھ کر ناصف کھبال خان نے تزک چنگیزی کا مخطوطہ مجھے تھما یا۔ مزید تین پانچ کرنے کے بجائے وہ ابلہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ میں نے وہ نام نہاد مخطوطہ اپنے کمرے میں ایک طرف پھینک دیا۔ میں چاہتا تھا کہ جلد ہی یہ چیتھڑے اس جعل ساز مسخرے کو واپس کر دوں اور اس سے نجات حاصل کروں مگر وہ تو ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کئی لوگوں سے اس کا اتا پتا معلوم کیا مگر اس کی خبر نہ ملی۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں اکثر پایا جاتا ہے اور اس کا دماغ بھی چل بے چل ہو گیا ہے۔ چور محل میں جنم لینے والا اور چور دروازے سے گھس کر منفعت بخش منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والاسانپ تلے کا یہ بچھو جس کا انحصار خرچی کی کمائی پر تھا وہ خود کو ہلاکو خان، چنگیز خان، فرعون اور نعمت خان کلاونت کی اولاد بتاتا اور اس ہف وات پر اس قدر اتراتا کہ پھول کر کپا ہو جاتا۔ اپنا پیٹ تو کتا بھی پال لیتا ہے اس نا ہنجار کو لگائی بجھائی سے فرصت نہ تھی بے بس انسانوں کا خون اس کے منہ کو ایسے لگا کہ پرائے مال اور خرچی پر گلچھرے اڑانا اس کرگس زادے کا معمول بن گیا۔ یہ اکثر کہتا خواہ کچھ ہو جائے اپنا الو تو کہیں نہیں گیا۔ کو ن اس استر کو لگام دے
کر اپنے سر آفت لیتا۔
تزک چنگیزی کا یہ نام نہاد مسودہ بغداد سے ایک ہزار سال قبل دریافت ہوا۔ یہ سب گڑے مردے اکھاڑنے والا کام کس نے انجام دیا اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ تزک چنگیزی کا اصل مسودہ کس زبان میں تھا اور اسے اردو کے قالب میں کب اور کس نے ڈھالا۔ ناصف کھبال خان اسے اپنا خاندانی ورثہ بتاتا ہے اور اسے نسل در نسل میراث سے تعبیر کرتا ہے۔ جسے قدر نا شناس اجلاف و ارزال اور اسفال نے ردی کے بھاؤ فروخت کر دیا۔ اس کی بازیافت کو وہ ایک محیر العقول، لرزہ خیز اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعہ کا نام دیتا۔ بادی النظر میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ سب کچھ ناصف کھبال خان کی جسارت سارقانہ اور سہو قلم کی باز گشت ہے۔ اس میں کہیں کہیں رسوائے زمانہ جسم فروش رذیل طوائف شباہت شمر کے من گھڑت اور مہمل اندراجات کا گمان بھی گزرتا ہے جو کہ ایک عرصہ تک اس موذی کی داشتہ رہ چکی ہے۔ اس کی اپنی ہائی اس پورے مخطوطے پر چھائی نظر آتی ہے۔ ان ننگ انسانیت درندوں کے سروں سے جب اتر گئی لوئی تو پھر کیا کرے گا کوئی؟اس مخطوطے سے چند اقتباسات پیش ہیں۔ یہ سب تحریریں قارئین کے تفنن طبع کے لیے پیش کی جا رہی ہیں ان میں اصلیت اور حقیقت کا پرتو ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔
تزک چنگیزی کا پہلا صفحہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ چنگیز خان نے اپنے مشیروں (ساتا روہن)کا تقرر کس طرح کیا۔ وہ لکھتا ہے :
ساتا روہن کی تذلیل نو:میرے سات مشیر جن کو ساتا روہن کے نام سے شہرت ملی ان کے نام یہ ہیں۔ یہ وہ لو گ ہیں جو میرے ساتھ شریک جرم رہے ہیں :
۱۔ ٹلا سوپیازہ :شعبہ قتل عام اور تجہیز و تکفین، ۲۔ کر گس زادہ :شعبہ جبر و استبداد، ۳۔ گوسفند سیاہ:شعبہ تعمیر مینار از کاسہ ء سر مقتولین، ۴۔ بوم بیابانوی:شعبہ کثافت و رذالت، ۶۔ شپر ویرانوی:شعبہ تکذیب و تخریب
۷۔ گرگ باراں دیدہ:شعبہ خونخواری و درندگی
اس کے علاوہ ظل تباہی کے پاس جو شعبے موجود رہیں گے ان کی تفصیل در ج ذیل ہے :
آدم خوری، خون آشامی، آبرو ریزی، لوٹ مار، انصاف کشی، اقربا پروری، رشوت ستانی، غبن اور کمیشن، انسانیت کی توہین، تذلیل اور تحقیر کا شعبہ۔ ما بہ ذلت کی پوری کوشش رہتی ہے کہ بے بس و لاچار انسانیت پر کوہ ستم توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ اس مقصد کے لیے کرائے کے بدمعاش، پیشہ ور قاتل، بھتہ خوروں اور اجرتی دہشت گردوں پر مبنی ایک خصوصی فورس تیار کی جائے گی جو پلک جھپکتے میں علم و ادب اور روشنی کے سفر کے تمام عمل کو ملیا میٹ کر دے گی۔ ما بہ ذلت نے ہمیشہ گدا گری، دادا گیری، رسہ گیری، اور اغوا برائے تاوان کی پشت پناہی کی ہے۔ ریاست کے تمام چور، ٹھگ، اچکے، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لچے، شہدے، رجلے، خجلے اور تلنگے میرے پروردہ ہیں اور میرے اشاروں پر دم ہلاتے اور میرے تلوے چاٹتے پھرتے ہیں۔ عہد چنگیزی میں ضمیر فروشی، منشیات فروشی اور حتیٰ کہ جسم فروشی کی کھلی چھٹی ہے۔ صرف ایک شرط ہے کہ تمام آمدنی کا نوے فیصد حصہ چنگیزی خزانہ میں جمع کرایا جائے۔ چنگیزی راج میں رسہ گیروں ، اٹھائی گیروں ، بردہ فروشوں ، بھتہ خوروں اور ڈرگ مافیا کو چنگیزی سر پرستی حاصل ہے۔
ٹلا سو پیازہ کا قصہ
تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے۔ اس عہد کے مورخین نے تاریخ کو مسخ کرنے کی تحریک چلا رکھی ہے اور اس کے تاریک پہلو سامنے لائے جا رہے ہیں۔ ٹلا سو پیازہ کا معاملہ بھی تاریخ کا ایک ایسا تاریک پہلو پیش کرتا ہے جس میں تمام حقائق پر ایام کے منحوس خر کے سموں کی گرد پڑ گئی ہے اور واقعات پشتارۂ اغلاط بن کر رہ گئے ہیں۔ اک بال خان نامی میرا ایک سنتری ہو ا کرتا تھا جسے میرے محافظوں نے عین اس وقت پکڑ لیا جب وہ پریوں کے اکھاڑے میں راجہ اندر بن کر داد عیش دے رہا تھا۔ اس کا یہ فعل میرے اختیارات میں مداخلت اور اپنے اختیارات سے تجاوز کے مترادف تھا۔ ایک میان میں دو تلواریں اور ایک ریاست میں دو راجہ اندر کیسے رہ سکتے ہیں ؟اک بال خان کو جنسی جنونی، مخبوط الحواس اور فاتر العقل قرار دیا گیا۔ اس کالے دیو نے اسی سبز پری کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جو مابہ ذلت کی منظور نظر تھی۔ معاملہ شعبہ انصاف کشی کو ارسال کیا گیا جس نے فیصلہ دیا کہ اک بال خان یا تو سو پیاز کھائے یا سو جوتے اس کی برہنہ پیٹھ پر جلاد سے لگوائے جائیں۔ اک بال خان نے اقرار جرم کر لیا اور اس کو سزا کے انتخاب کا اختیار دیا گیا۔ اس نے شروع میں کہا کہ وہ سو پیاز کھائے گا۔ جب وہ ایک ایک پاؤ کے دس پیاز کھا چکا تو اس نے کہا وہ پیاز نہیں کھا سکتا وہ جوتے کھانے کو تیا رہے۔ اس کے بعد مولو مسلی نامی جلاد نے پوری قوت سے اس کی پیٹھ پر جوتم پیزار شروع کر دی۔ اس کی برہنہ پیٹھ پر تڑ تڑ جوتے پڑنے لگے۔ ابھی دس جوتے ہی پڑے تھے کہ یہ چیخا وہ مزید جوتے نہیں سہہ سکتا وہ پیاز کھانے کو تیا ر ہے۔ اس کی خواہش کا پورا خیال رکھا گیا اور تازہ چھیلے ہوئے پیاز اس کے سامنے رکھ دئیے گئے مزید دس پیاز کھانے کے بعد اس نے جوتے کھانے کی تمنا کی جس کی تکمیل کر دی گئی۔ رفتہ رفتہ اس کے ساتھ یہ ہوا کہ اس نا بکار اور جید جاہل نے دونوں سزائیں بھگت کر سب کو حیران کر دیا اس نے سو جوتے بھی کھائے اور سو پیاز بھی ڈکار گیا۔ سارے بگلا بھگت، سفید کوے، گندی مچھلیاں ، جو فروش گندم نما اور ضمیر فروش اک بال خان کی اس شرم ناک قوت برداشت اور احمقانہ ڈھٹائی پر ششدر رہ گئے۔ ما بہ ذلت بھی عش عش کر اٹھے اور اس کو ٹلا سو پیازہ کا چنگیزی خطاب دے کر اسے ساتا روہن میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد اس نے راجہ اندر بننے اور حسین و جمیل پریوں کے ساتھ شتر غمزے کرنے اور سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے سے توبہ کر لی۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ما بہ ذلت نے چنگیزی جراح کے ذریعے اس جنسی جنونی راسپوٹین کو مردانہ صلاحیت سے یکسر محروم کر دیا (کہا جاتا ہے کہ یہی سلوک بچپن میں غلام قادر روہیلہ کے ساتھ شاہ عالم نے کیا تھا، جس نے بعد میں شاہ عالم کی آنکھیں نکال لی تھیں ) اور ما بہ ذلت بلا شرکت غیرے راجہ اندر بن کر پریوں کا اکھاڑہ سجاتے رہے۔ ٹلا سو پیازہ آدھا شربت اور آدھا شراب کو معیار طعام سمجھتا ہے۔ ٹلا سو پیازہ اپنی ذات میں ایک عذاب ثابت ہوا۔ اس کی غاصبانہ دستبرد کو دیکھ کر میر ا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ اس نے ہمیشہ میرے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ اس متفنی کی مجنونانہ ایذا رسانیوں ، احمقانہ شقاوت اور شاطرانہ عداوت کو دیکھ کر میں نے اس کواپنا معتمد نائب بنا دیا۔ ہلاکو خان بھی اب شہزادہ گلفام کے روپ میں سامنے آ رہا تھا۔ ٹلا سو پیازہ نے ہر سبز پری پر واضح کر دیا کہ صرف اور صرف چنگیز ہی ان کے حسن و جمال پر اختیار رکھتا ہے۔ باقی سب خیال و خواب ہے۔ اب میں ہوں اور حسن بے پروا کی بے حجابی آخر اس میں ہے کون سی خرابی ؟ٹلا سو پیازہ کو میرا حریف سمجھنا ایک خام خیالی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس کام میں اب میرا حلیف ہے۔ میرے مخالف اسے بھڑوا قرار دیتے ہیں شاید یہی کڑوا سچ ہے۔ اس حمام میں عیوب برہنگی کیسے ڈھانپے جا سکتے ہیں ؟جب مست بند قبا نہ باندھیں تو پروانے آخر کدھر جائیں۔ جفا کے سارے ہنگامے ٹلا سو پیازہ کے دم سے ہیں اس کا جواب کوئی کہاں سے لا سکتا ہے۔
رادھا کے نا چنے کی داستان
ظل تباہی کا یہ معمول ہے کہ جھٹ پٹے کے وقت روزانہ شہر خموشاں کی سیر کو جاتے ہیں۔ یہ جگہ ما بہ ذلت کی تفریح کے لیے بہت موزوں ہے۔ اسی جگہ پر وہ ہزاروں لوگ آسودۂ خاک ہیں جنھیں ہماری شمشیر نے زندگی کے مصائب و آلام سے نجات دلائی اور ابدی نیند سلا دیا۔ یوں تو ما بہ ذلت کی محبت کی لاکھوں داستانیں ہیں مگر رادھا کے رقص کی داستان کے بارے میں جو گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں ان کے بارے میں ناخن پہ قرض ہے گرہ نیم باز کا، پس اس کے متعلق چشم کشا صداقتیں اور قبض کشا سانحات کچھ اس طرح ہیں :
ایک دن جب میں قبرستان میں سیر کر رہا تھا اور کریروں سے ڈیہلے توڑ کر مزے لے لے کر کھا رہا تھا تو اچانک میں نے پکی ہوئی پیلوں دیکھیں۔ میرے منہ سے جھاگ اور پانی مل کر بہنے لگا۔ اس عفونت زدہ ملغوبے کو میں نے اپنی آستین سے صاف کیا۔ یہ تو خیریت گزری کہ اس وقت کوئی مار آستین وہاں موجود نہ تھا ورنہ اسے چھٹی کا دودھ اور نانی دونوں کی یادستانے لگتی اور اسے دن میں تارے دکھائی دینے لگتے۔میں پلک جھپکنے میں پیلوں کے درخت پر چڑھ گیا۔ درخت کا تنا ہو یا انسانی جسم ان پر چڑھنا مجھے بہت پسند ہے۔ پیلوں کے درخت پر بیٹھا پیلوں توڑ کر کھا رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک بوسیدہ اور شکستہ قبر پر پڑی جس میں ایک پری چہرہ عورت لباس کے تکلف سے بے نیاز لیٹی تھی اور مجھے گھو گھور کر دیکھ رہی تھی۔ میں نے بھی آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ حسینہ مجھے آنکھ بھر کے اور آنکھیں مل کر دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں آنکھوں میں سب اشارے ہو گئے۔ میں عالم مد ہوشی میں بلند درخت کی چوٹی سے اس قبر میں کود گیا اور سیدھا اس حسینہ کی آغوش میں پکے ہوئے پھل کی طرح جا گرا۔ اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ ایسے لگا جیسے قریب المرگ بیمار کو قرار آ جائے، قبر کی تاریکی میں دھیرے دھیرے باد نسیم کے معطر جھونکے آنے لگے۔ اس کے بعد باقی جو کچھ ہوا وہ سب نا گفتنی ہے۔ جب میں نے اس حسینہ کو گھر چلنے کے لیے کہا تو یہ دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں کہ اس حسینہ کی ٹانگیں ہی نہ تھیں۔ ناچار میں ایک پانڈی بن کر اسے گھر اٹھا لایا اور اسے چور محل میں ایک الگ کمرہ دیا اور اسے ملکہ ء رقص کا چنگیزی خطاب دیا۔ اس کی لکڑی کی ٹانگیں نورے بڑھئی نے تیار کیں۔ اس لڑکی کا نام رادھا تھا۔ اب درباریوں کی فرمائشوں کا سلسلہ چل نکلا کہ ملکہ ء رقص رادھا کا رقص تمام حاضرین کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہم نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ شرط رکھی کہ پہلے نو من تیل سے چراغ روشن کیے جائیں پھر اس جگمگ جگمگ کرتی رات میں رادھا ناچے گی۔ اس شرط کو سن کر سب بغلیں جھانکنے لگے۔ اس کے باوجود رقص کے شیدائیوں نے کچھ عرصے بعد کھوڑ سے نو من تیل چرا کر یہ شرط پوری کر دی۔ اب مٹی کے تیل سے سیکڑوں چراغ روشن کرنے کا مرحلہ تھا س کام پر ایک ہزار مزدور سارا دن کام میں لگے رہے ان کا لباس مٹی کے تیل سے لت پت ہو گیا۔ سر شام جب یہ لوگ چراغ روشن کر رہے تھے تو اچانک چقماق پتھر سے نکلنے والے شعلے نے پوری محفل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس آتش زدگی کے باعث پانچ ہزار تماشائی اور کارکن جل کر کباب ہو گئے۔ اس کے بعد انسانی سروں کا ایک اور مینار مابہ ذلت کی ہدایت پر تعمیر کیا گیا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے انوکھے کاموں میں۔ رادھا کے رقص کی شرط کسی سے پوری نہ ہو سکی اور اس طرح
ہمارا راز داری کا بھرم قائم رہ گیا۔ اب آئندہ بھی یہ شرط بر قرار ہے اگر کسی کے دل میں رادھا کا رقص دیکھنے کی خواہش چٹکیاں لیتی ہے تو اسے تمام پہلو پیش نظر رکھنا ہوں گے۔ اس تمام قضیے سے ما بہ ذلت کا کوئی تعلق نہیں ما سوائے اس کے کہ رادھا ہمارے چور محل میں مقیم ملکۂ رقص ہے۔ اور ہمارے دل کی دھڑکنوں کے تال اس کی سانس سے وابستہ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ رادھا ما بہ ذلت کو انگلیوں پر نچاتی ہے اور ظل تباہی اس کی آنکھوں کے اشارے پر ثمر قند و بخارہ تک کے علاقے نچھاور کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ قہر چنگیزی کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ کہیں کا بھی نہیں رہے گا اس بات کو سب لوگ گرہ میں باندھ لیں۔ رادھا تو محض ٹانگوں سے معذور ہے یہاں تو ذہنی معذور راج کرتے پھرتے ہیں۔ اس اندھیر نگری اور جنگل میں سب چلتا ہے۔ میرے لیے ایک نہیں سیکڑوں رادھا جیسی پری چہرہ حسینائیں ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ تلوار، دولت اور جبر کے بل سب کو رام کیا جا سکتا ہے۔ اب معیار وفا اور مقیاس محبت سیرت، شخصیت، وجاہت اور جسمانی کشش نہیں بلکہ دولت ہی سب کچھ ہے۔ میں اس عالم پیری میں بھی راجہ اندر بنا رہتا ہوں جس کی دولت پر ہر رنگ کی پریاں قطار اندر قطار اپنا سب کچھ نثار کرنے پر تلی رہتی ہیں۔ اب اگر کوئی مسخرہ نو من تیل بھی لاتا ہے تو رادھا نہیں ناچے گی کیونکہ اب رادھا کو نو من تیل سے کوئی غرض نہیں بلکہ اسے ان گنت دولت درکار ہے۔ یہی وقت کی پکار ہے باقی سب بے کار ہے۔ میں نے رادھا کو طاقت گفتار دی ہے جس کے چشم و ابرو کے اشارے پر فسان اور تیغ بے وقعت ہے۔ رادھا کے ناچنے کے لیے نو من تیل کی شرط اب قصۂ پارینہ بن گئی ہے اب تو رادھا نے اپنے ناچنے کو سو ٹن تیل لانے سے مشروط کر رکھا ہے۔ اب جس کے جی میں آئے وہی رادھا کا رقص دیکھنے کے لیے اس قسم کے پاپڑ بیلنے کے لیے میدان عمل میں کود پڑے اور سب کچھ لٹا کے اور گھر پھونک کے تماشا دیکھے۔
شجرہ نسب کا قضیہ
اکثر کوتاہ اندیش لوگ مجھ سے میرے شجرہ نسب کے بارے میں جاننے کا عزم کرتے ہیں تو راہیِ ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ میں نے واضح کر دیا ہے کہ جو بھی میرے شجرۂ نسب پر انگلی اٹھائے گا وہ دنیا سے اٹھ جائے گا۔ صاف سی بات ہے کہ میرا تعلق شمشیر زن اور رہزن خاندان سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر خوبرو اور پری چہرہ زن ہماری کمزوری رہی ہے۔ یاد رکھیں کہ میں چنگیز خان ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ہوں۔ سو پشت تک میرا شجرہ نسب یہی رہے گا۔ میرا فرمایا ہوا مستند ہے اگر کسی کو اس پر شک ہے تو اپنی گردن اونچی کر کے سامنے آئے۔ ایسے گردن فراز کو اپنے سر آفت لینے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیے۔ ادھوڑی تاننے والے اور اٹھلانے والے یہ نہ بھولیں کہ میں ارژنگ سے بھی قوی ہوں۔ جاننے والے مجھے ایسا افعی خیال کرتے ہیں جس کا کاٹا پھر نہ اٹھا۔ سب بودم بے دال مجھے مشکوک نسب کا درندہ کہتے ہیں اس کے باوجود میری چو کھٹ پر ماتھا رگڑنا اور میرے سامنے دم ہلانا ان کا وتیرہ ہے۔ رقص و سرود اور شراب و شباب کی محفلوں میں کشکول کے بجائے انھیں کاسہ ء سر میں شراب پیش کی جاتی ہے تو میرے یہ ناقد جو بد طینت حاسد ہیں میرے شجرہ نسب پر غور نہیں کرتے بلکہ شراب پیش کرنے والی ان حسیناؤں کے سراپا کو دیکھتے ہیں جو بند قبا سے بے نیا ز ہوتا ہے اور کسی کو یہ شکوہ نہیں ہوتا کہ اچھا مال الگ باندھ کے رکھا ہے۔ سروں کے مینار کو وہ بھول جاتے ہیں اور ایسی محفلوں میں خوشی سے پھول جاتے ہیں۔ مجھے انجب اور وضیع کہنے والے میرے کار ناموں کو بھی یاد رکھیں۔ میرا کو ن حریف ہو سکتا ہے ؟۔ دنیا بھر کی لعنت، ملامت اور پھٹکار و دھتکار کے با وجود تاریخ کے اوراق میں میر ا نام مذکور رہے گا اور کلمۂ خیر مجھے سے بہت دور رہے گا۔
تعمیری کام
عہد چنگیزی کے تعمیری کاموں سے شپرانہ چشم پوشی کو نا معلوم کیوں شعار بنا لیا گیا ہے۔ میرے تعمیر ی کاموں میں بھی کینہ پرور اور جو فروش گندم نما لوگوں کو خرابی کی ایک صورت مضمر دکھائی دیتی ہے۔ چنگیزی اقدامات کو نظر انداز کرنا ایک مہلک غلطی ہے۔ میں نے موت کو ارزاں کر دیا اور قحط الرجال کے زمانے میں اجناس خوردنی کی قلت پر قابو پا لیا گیا۔ انسانی کھوپڑیوں کے متعدد مینار شاہراہوں اور عام گزر گاہوں پر تعمیر کیے گئے۔ اس تعمیری کام سے عبرت سرائے دہر میں کار جہاں کے ہیچ ہونے، دنیا کی بے ثباتی، زندگی کی کم مائیگی اور فرد کی زبوں حالی کے بارے میں کئی کفن پھاڑ واقعات کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ میں نے پوری سلطنت میں عقوبت خانوں ، قحبہ خانوں ، چنڈو خانوں کا جال بچھا دیا۔ ہر شہر میں چور محل تعمیر کیے گئے۔ ان کی وجہ سے عیاش امرا، جنسی جنونی اور راسپوٹین نہایت سکون سے داد عیش دے سکتے ہیں اور جسم فروش رذیل طوائفوں کو تحفظ مل گیا جس کے بعد وہ خرچی سے اپنے روز مرہ اخراجات پورے کر سکتی ہیں۔ بازار کی مٹھائی کی اس قدر فراوانی پہلے کب تھی ؟شباہت شمر کو ان تمام چور محلوں کا نگران مقر کیا جس نے رسد کے خاطر خواہ انتظامات کیے۔ عہد چنگیزی کا یہ منحوس اور قبیح دھندہ تاریخ کے اوراق میں سیاہ جلی حروف میں رقم ہو گا۔ میرے ساتا روہن نے اپنی بے بصری، کور مغزی اور ذہنی افلاس کا بھر پور ثبوت دیا اور قریہ قریہ سر عام پھانسی گھاٹ، بے بس و لاچار انسانوں کی برہنہ پیٹھ پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکی کا انتظام کیا گیا تا کہ لو گ انھیں دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور ان پر ہمارے رعب و دبدبہ کی دھاک بیٹھ جائے۔ چور محل کی حسیناؤں کی دمک سے لطف اندوز ہونے کے لیے صاحب ثروت اور عیاش متمول طبقے نے ہیرے، جواہرات اور دولت کی چمک سے کام لیا اور اس طرح یہ دولت ہمارے خزانے میں آ گئی کیونکہ یہ سب چور محل اور ان میں دعوت گناہ دینے والی جسم فروش رذیل طوائفیں ہماری جاسوس اور خادمائیں تھیں۔ رادھا نے بھی اس کام میں ہماری بھر پور معاونت کی اگرچہ وہ ٹانگوں سے معذور تھی مگر اس کے حسن کے جلوے دیکھ کر گھٹیا عیاش ذہنی معذور بن جاتے اور عقل و خرد کو بارہ پتھر کر کے شرم و حیا کو دریا برد کر دیتے اور سب مال و متاع سے یکسر محروم ہو جاتے پھر در بہ در اور خاک بہ سر ہو جاتے۔ ان اقدامات سے شر پسند عناصر سے نجات مل جاتی اور ان کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔
داستان گو
میرے کفش بردار خادم نے گزشتہ روز مجھے بتایا کہ دو داستان گو کفن بر دوش آئے ہیں اور شر ف حضوری کی التجا کر تے ہیں۔ میں نے کہا کہ انھیں پا بہ جولاں حاضر کیا جائے۔ یہ اس دور میں ما فوق الفطر ت اور بے مقصد کہانیاں لکھ کر چنگیزی عتاب کو دعوت دیتے ہیں۔ دونوں داستان گو حاضر ہوئے۔ ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ سالہا سال کی الم نصیبی اور فاقہ کشی نے ان کی زندگی کو عقوبت کی مثال بنا دیا ہے۔ می یہ لوگ افلاس کے عقدے حل کرنے میں منوں کاغذ سیاہ کر ڈالتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کے مقدر کی سیا ہی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن وہ بے حسی ہے کہ یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ان کو دیکھ کر میں لرز اٹھا کہ ان کا وجود ایک انانی ڈھانچے کی طرح لا غر و ناتواں تھا میں نے سوال کیا ’’کون ہو تم ؟اور تمھارے مشاغل کیا ہیں ؟‘‘
دونوں نے بہ یک زبان کہا ’’ہم داستان گو ہیں ، ہم اپنے جنوں کی خوں چکاں حکایات لکھتے ہیں اور پرورش لوح و قلم ہمارا مشغلہ ہے۔ ہمارا قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔ ‘‘
ما بہ ذلت کو ان کی منطق سمجھ میں نہ آئی قلم اور تلوار میں جو فرق ہے اس کو یہ بے چارے کیا جانیں۔ تلوار سے سر قلم کیا جا سکتا ہے اور قلم سے صرف کاغذ پر کچھ رقم کیا جا سکتا ہے، جسے بعد میں مٹایا بھی جا سکتاہے لیکن تلوار کا کاری وار پلک جھپکتے میں کام تمام کر دیتا ہے۔ پھر بھی ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہا ’’اپنے بچوں کی پرورش بہت ضروری ہے۔ یہ لوح و قلم کو ن ہیں ان سے تمھارا کیا تعلق ہے ؟تم جنونی ہو تو تمھیں کیوں نہ خانہ ء زنجیر میں رکھا جائے ؟ یہاں لوگوں کو اپنے بچوں کو پالنے کے لیے جان کے لالے پڑے ہیں اور تم جیسے کندۂ نا تراش، جید جاہل لوح و قلم کی پرورش میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ یہ لو ح و قلم یقینی طور پر استحصالی اور مفاد پرست عناصر کے مکر کی چال ہے جس کے باعث زندگی وبال ہے۔ مجھے الم غلم تو منظور ہے مگر یہ لوح و قلم کا ذکر سننے سے میرا دماغ معذور ہے اور میرا مزاج مجبور ہے۔ یہ سب تمھارا ہی قصور ہے، تمھارے دماغ میں ضرور کوئی فتور ہے۔ تمھارا انسانوں کی بستی میں کیا کام۔ تم لوگ ہر وقت خیال و خواب کی دنیا میں رہتے ہو۔ تم گزر اوقات کیسے کرتے ہو؟‘‘
ایک بولا’’آنسو پیتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں۔ ہماری زندگی تو ایک جبر مسلسل کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمیں اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا ملی ہے۔ اب اپنے کردہ گناہوں اور پیش آمدہ خطاؤں کی سزا کا عفریت ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔ اب وعدوں کے بجائے وعدہ معافوں اور مضمون کے بجائے محض لفافوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ زنگ، بدبو اور کریہہ و قبیح دھندوں کے سب استعارے اوج پر ہیں۔ ‘‘
’’بہت خوب ‘‘میں نے کہا ’’اچھی غذا کا انتخاب کیا ہے کم خرچ اور بالا نشیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ رہ گیا تمھاری سزا کا معاملہ تو اس میں تمھاری کم نصیبی کا بھی دخل ہے۔ تمھاری تمام حسرتیں دل کی مقتل گاہ میں خوں ہو گئیں۔ رہزن کو دعا دو کہ تمھیں چور ی ڈکیتی اور قتل و غارت سے بچا لے گیا۔ اپنے شہر آرزو کے اجڑنے کا جس قدر ماتم کر سکتے ہو کرو تمھاری زندگی اور قلم کا سفر رائیگاں گیا‘‘
دوسرے داستان گو نے اپنی آستین سے آنسو اور ناک پونچھتے ہوئے کہا ’’تمام عمر کی ایذا نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ ہماری امداد کی جائے۔ ہم فاقہ کش ہیں اور حالات کی ستم ظریفی نے ہمیں تماشا بنا دیا ہے ‘‘
’’ہم تسمہ کش ہیں ‘‘میں نے کہا ’’ابھی تمھارے مسائل حل کر دئیے جائیں گے۔ تمھاری داستاں تک بھی داستانوں میں باقی نہ رہے گی۔ تم نے کیا لکھا ہے ؟کیسے لکھا اور کیوں لکھا؟تم اس کے جواب دہ ہو۔ ‘‘
ایک داستان گو نے گڑ گڑاتے ہوئے کہا ’’میری جان بخشی کی جائے۔ میں نے’’ داستان فقیر ہمزہ ‘‘لکھی ہے۔ یہ داستان میری عمر بھر کی خون پسینے کی کمائی ہے اور اسی میں ساری زیست گنوائی ہے۔‘‘
دوسرا داستان گو روتے ہوئے بولا ’’میں نے ’’لام لیلا کروڑ داستان‘‘ لکھی ہے۔ دہن پر میرے کیسے کیسے گمان ہیں لیکن یہ داستان ہی میری پہچان ہے۔ یہ عاجز کوئی دن کا مہمان ہے۔ ‘‘
مجھے یہ نام انوکھے، دلچسپ اور مجنونانہ سے لگے اس لیے ان کی جان بخشی کر دی گئی۔ ان کے انداز سے ثابت ہوا کہ یہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جو چبائے ہوئے نوالے چبانے کے عادی نہیں اور جو محض مکھی پر مکھی مارنے کی لت میں مبتلا نہیں۔ اگرچہ یہ موضوعات نا مانوس سے لگتے تھے لیکن دل میں اک لہر سی اٹھی کہ شاید کہیں سے حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا آ جائے اور بیمار کو بے وجہ قرار آنے کی کوئی صور ت نکل آئے۔ میں نے داستان فقیر ہمزہ کے مصنف سے موضوع کی وضاحت چاہی اور اس کی چاہت کے جملہ نشیب و فراز کے متعلق استفسار کیا تو وہ بولا:
’’میر ا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔ ہم سب ستم کش سفر ہیں ہم اور ہمارے آبا و اجداد محنت کش اور دانہ کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سب انتہائی جفا کش لوگ تھے۔ اب مقدر ہم سے روکش ہو چکا ہے اور ہم آپ جیسے مطلق العنان حکمرانوں کے منت کش بن چکے ہیں۔ جاہل اپنی جہالت کا انعام پا کر چور محل میں فروکش ہیں ، وقت کے اس حادثے کے بعد جب سے لوگ زمانہ ساز ہوئے ہیں ہم نے فقیری اختیار کر لی ہے اور داستان فقیر ہمزہ اسی ہشت مشت اور کشمکش کی مظہر ہے ‘‘
’’بند کرو یہ کشا کش ‘‘میں نے اسے ٹوکا’’اس کشمکش سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میرے جیسے تسمہ کش اور مے کش کے سامنے یہ دلکش انداز بیان کوئی کشش نہیں رکھتا۔ گو ہاتھ میں جنبش نہیں مگر آنکھوں میں ابھی تک اتنا تو دم ہے کہ حسن یار اور زلف و رخسار کی باتوں سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے ‘‘
پاس ہی ٹلا سو پیازہ بیٹھا تھا اس نے حقے کے کش لگاتے ہوئے اور زور سے کھانستے ہوئے کہا’’ داستان کی پیش کش ظاہر ہے کہ اچھی ہے۔ اس کے با وجود نگاہوں کے تیر نیم کش کی الگ بات ہے۔ یہ وہ تیر ہے جو پلکوں کی ترکش سے نکل جائے تو سیدھا دل میں پیوست ہو جاتا ہے اور جگر کے پار ہو جاتا ہے اور حسن ک غمزے کی کشا کش سے نجات مل جاتی ہے۔ یہ جفا کش لوگ قلم فروشی پر کیوں اتر آئے ہیں ؟انھیں ضمیر فروشی کے لیے کوئی اور ڈھب چننا ہو گا اور اس طرفہ تماشے پر سر دھننا ہو گا۔ ‘‘
ٹلا سو پیازہ جو کہ ایک دھنیے کی نا جائز اولاد تھا ہر بات میں اپنے پیشے کو ضرور گھسیٹ لاتا تھا۔ کئی بار اس کی دھنائی بھی کی لیکن وہ چکنا گھڑا ثابت ہوا۔ اس تھالی کے بینگن کو نظر انداز کرتے ہوئے اب میں نے ’’لام لیلا کروڑ داستان ‘‘کے مصنف سے داستان کے موضوع کے بارے میں دریافت کیا تو وہ گویا ہوا ’’حروف ابجد کے لفظ ’’ل‘‘ سے لیلا بنتا ہے جسے گوسفند کا بیٹا یعنی بھیڈو بھی اسے کہتے ہیں۔ ا س داستان میں بہ ہر حال میں نے یہ کوشش کی ہے کہ دیہاتی علاقوں کی تہذیب و ثقافت اور سماج و معاشرت کو سامنے لایا جائے۔ جس طرح ایک لیلا(مینڈھا) دوسرے لیلے (مینڈھے)کو ٹکریں مارتا ہے اسی طرح انسان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہر وقت ٹکروں کا کھیل مسلسل کھیل رہا ہے۔ یہ ٹکریں اور ٹکراؤ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے۔ معاشرتی زندگی کے تمام رکھ رکھاؤ کو ان ٹکروں اور ٹکراؤ کے الم ناک حالات نے نگل لیا ہے۔ میں نے اسے اگلنے کی سعیِ نا مشکور کی ہے اسی لیے میں مقہور ٹھرا ہوں۔ اس داستان میں جو دور کی کوڑی لانے کی کوشش کی گئی ہے اس نے ہمیں کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا ہے۔ آج تو چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے سر راہ ملاقات ہو جاتی ہے اور سنگلاخ چٹانوں کے رو بہ رو بے بس انسانوں کے مصائب و مسائل بیان کرنے پڑتے ہیں۔ ہم پر ترس کھائیں اور ہمارے لیے نان جویں کا انتظام کیا جائے۔ قلم کی مشقت کے باوجود ہمیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور ہماری جان چار عذاب سہہ رہی ہے ایک تو ستم دیکھتے ہیں پھر سہتے ہیں اور اس کے بعد سوچتے اور کڑھتے ہیں اور آخر میں خون دل میں انگلیاں ڈبو کر ان واقعات کو زیب قرطاس کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ تم تو مجھے آدم خور لگتے ہو۔ ‘‘میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ’’دل اور جگر کے خون میں انگلیاں ڈبو کر لکھا ہی نہیں جاتا بل کہ اس وقت تو انگلیاں چاٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ما بہ دہشت کواس کا وسیع تجربہ ہے۔ جب ایک بار انسانی خون منہ کو لگ جاتا ہے تو پھر آدم خور اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ پھر یہ خون آشامی کبھی نہیں چھوٹ سکتی۔ تم تو میرے ہم نوالہ اور ہم مشرب نکلے۔ اس سے بھی زیادہ شہ رگ کا خون لذیذ ہوتا ہے۔ آج میں تمھیں وہ پلاؤں گا۔ تم انگلیاں اور ہونٹ چاٹتے رہ جاؤ گے۔ اونہہ!خون میں انگلیاں ڈبو کر لکھنے کی بات بڑی احمقانہ ہے کیا روشنائی کا قحط پڑ گیا ہے؟ہمارے ہوتے ہوئے کسی اور کو آدم خوری کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے ؟تمھیں اس حماقت کا خمیازہ اٹھانا ہو گا۔
’’ میں تو مشتاق جفا ہوں ‘‘داستان گو نے کانپتے ہوئے کہا ’’مجھ پہ جتنا چاہو ستم کر لو لیکن مجھے لوح و قلم کی دولت سے محروم نہ کرو۔ ‘‘
’’ میرے جیسے جفا کار اب کہاں ہے ؟‘‘ میں نے اسے جواب دیا ’’ کچھ لوگ مجھے سیاہ کار کہتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میں بد کار ہوں۔ ‘‘
’’سب لوگ جھوٹ بو لتے ہیں ‘‘وہ بولا ’’ظل تباہی جیسا بد گفتار، بد کردار اور خونخوار اس وقت دنیا میں کوئی نہیں۔ ‘‘
اس دوران ٹلا سو پیازہ چار کاسۂ سر جو کہ مے انگبین سے لبریز تھے، اٹھا لایا ساتھ ہی جو کی روٹی اور ستو کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ سب نے بڑے شوق سے اس مشروب کو نوش جاں کیا اور جو کے آٹے سے تیار کی گئی گرم گرم روٹی کھائی۔ میرے لیے ما اللحم سہ آتشہ تھا جو کہ میرا پسندیدہ مشروب ہے۔ اس کی تیاری میں تازہ خون اور گوشت کی بڑی مقدار استعمال ہوتی ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ یہ دونوں داستان گو آئندہ کبھی مافوق الفطرت عناصر کے موضوع پر کچھ نہیں لکھیں گے بل کہ چنگیزی تاریخ کو رقم کریں گے اور اس دوران اسی زندان میں مقیم رہیں گے جہاں ظل تباہی نے منصف قید کیے ہیں۔ ویسے بھی منصف اور مصنف میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ اگر تاریخ لکھتے وقت ان کے جنوں کی شورش کا سلسلہ اختتام کو نہ پہنچا تو پھر ان کی آشفتہ سری کا مداوا سنگ ملامت سے کیا جائے گا۔ انھیں ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ عہد چنگیزی کے بارے میں تمام شکوک و شبہات دور کریں اور اسے ایک سنہری دور کے طور پر لکھیں جس میں گرگ آشتی کا دور دورہ رہا اور ہر بکری شیر کے پنجے کی مدد سے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بجائے آسانی سے موت کے گھاٹ اتر جاتی اور قلزم خوں پار کر کے زینہ ء ہستی سے اتر جاتی۔ اس قلم فروشی کا مناسب معاوضہ بھی ملے گا۔ قوم فروشی اور ضمیر فروشی کے لیے کور مغز اور بے بصر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ یہ تمام ڈھب سکھانے کے لیے آسو بلا اور رنگو رذیل کی خدمات حاصل کی گئیں جو چربہ سازی، سرقہ اور دروغ گوئی میں تمام حدیں عبور کر چکے ہیں اور جو کہ دھرتی کا بوجھ بن چکے تھے۔ جس معاشرے میں عادی دروغ گو، جرائم پیشہ افراد اور جاہل اپنی جہالت اور جرائم کا انعام حاصل کر لیں وہاں جس نوعیت کے حادثات وقت رونما ہوا کرتے ہیں ، انھیں آخر کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ کاش چلو بھر پانی کی جانب توجہ دی جائے جس میں غوطہ زن ہو کر شاید چہرے اور دل کے داغ دھل سکیں۔ عہد چنگیزی کی تاریخ نویسی کا یہ کام صرف اور صرف قلم فروش ہی کر سکتے ہیں۔ ہر عہد میں ایسے لوگ دستیاب ہو جاتے ہیں۔ تاریخ ہر دور میں ایسے لوگوں کے کام اور نام کی تضحیک کرے گی۔
میں اپنی حقیقت کا خود بھی شناسا نہیں میں ہمہ وقت عر ق ندامت میں غوطہ زن رہتا ہوں۔ اتنا معلوم ہے کہ میں نے 1155میں اس دشت پر خار میں قدم رنجہ فرمایا۔ یہ آبلہ پائی 1227 تک جاری رہی۔ اس عرصے میں خون انساں کی ارزانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ایران اور افغانستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنے کی غرض سے پندرہ لاکھ افراد کو بہ زور شمشیر منہا کر دیا۔ مجھے اس بات کا ہمیشہ ملال رہا ہے کہ اس جہاں میں کوئی بھی ایسا مجنوں نہیں جو کہ عالم بیداری کو عالم خواب میں مد غم کر دے۔ جب ایام گزشتہ کی کتاب کے ورق پلٹتا ہوں تو ابلق ایام کے سموں کی گرد میں سارا منظر ہی دھندلا نظر آتا ہے۔ تمام ماحول حد درجہ پر اسرار بن چکا ہے۔ میں تمام لوگوں اور ماحول کی سفاکی کو دیکھ سکتا ہوں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں سب کی آنکھوں سے اوجھل ہو چکا ہوں۔ میں اس عالم حسرت و یاس میں اپنے کاسہ لیسوں ، جی حضوری کرنے والوں ، دم ہلانے والے سگان راہ۔ اجرتی بد معاشوں ، پیشہ ور قاتلوں ، رسوائے زمانہ دہشت گردوں اور ابن الوقت عناصر کو مصروف عمل دیکھ سکتا ہوں۔ طالع آزما مہم جو، قانون اور آئین کے پر خچے اڑانے والے کٹا ر بند جب مجھے ہر طرف دندناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے اور کس کی خاطر ہو رہا ہے۔ اس جہاں کے بے ثبات کارخانے میں ان لوگوں نے کیوں اندھیر مچا رکھا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کرمک و مور کے جبڑے ان کے فربہ جسم کو نوچ کھائیں گے۔ میں ان کور مغز درندوں کو پیہم پکارتا اور متنبہ کرتا ہوں لیکن کوئی میر ی آواز پر کان نہیں دھرتا اور نہ ہی مجھے کہیں سے جواب ملتا ہے۔ ان مہم جو اور طالع آزما لوگوں نے ہوس کو نشاط کا ر کا وسیلہ سمجھ رکھا ہے۔ کاش یہ قصر فریدوں ، بغداد، طرابلس، دہلی اور دیگر مقامات عبرت کو یاد رکھیں۔ میں ان ظالموں کے ہاتھ روکنا چاہتا ہوں لیکن ایک نا دیدہ قوت مجھے کچوکے دے کر کہتی ہے تم تو کب کے جا چکے ہو اب کس کو صدائیں دے رہے ہو؟تمھارا عہد ختم ہوا، اب تمھاری بات کون سنے گا ؟وقت کی مثال بھی سیل رواں کی تند و تیز مہیب موجوں کی سی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی انتہائی کوشش اور تمنا کے باوجود اس تیزی سے بہہ جانے والی لہر کے لمس سے دوبارہ فیض یاب ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اعمال کی سزا ضرور ملتی ہے۔ یہ فطرت کی تعزیروں کے عین مطابق ہوتی ہے۔ ہر قتل کی سزا موت ہے۔ ۔ ۔ مر گ نا گہانی۔ یہی ہے ظلم کا انجام اور اس کی کہانی۔
تزک چنگیزی کے یہ چند اوراق مشتے از خروارے کی ایک شکل ہیں۔ اس نامکمل اور مبہم مخطوطے کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاتح بہ بانگ دہل مکے لہرا کر کہہ رہا ہے ’’دیکھ لی میری قوت ‘‘اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سکندر اور دارا کی قبر کا نشاں تک موجود نہیں۔ تاریخ کا مسلسل عمل ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ دھیان سے سنناتاریخ کے حقائق بول رہے ہیں اور تقدیر جہاں کے متعدد عقدے کھول رہے ہیں۔ فطرت کی تعزیروں سے غافل رہنا بے بصری کی دلیل ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید