FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ترجمہ و تفسیر قرآن

 

حصہ ۱۲: جاثیہ تا  حدید

 

                ترجمہ: حافظ نذر احمد

 

 

اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے ، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے ، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے ، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔

 

 

 

 

۴۵۔ سُوْرَۃُ الْجَاثِیَۃِ

 

                تعارف

 

اس سورت میں بنیادی طور پر تین باتوں پر زور دیا گیا ہے ، ایک یہ کہ اس کائنات میں ہر طرف اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی اتنی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ ایک انسان اگر معقولیت کے ساتھ اُن پر غور کرے تواس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کے خالق کو اپنی خدائی کے انتظام میں کسی شریک کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، لہذا اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر اس کی عبادت کرنا سراسر بے بنیاد بات ہے ، دوسرے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ آپ کو شریعت کے کچھ ایسے احکام دئے گئے ہیں جو پچھلی امتوں کو دئے ہوئے احکام سے کسی قدر مختلف ہیں، چونکہ یہ سارے احکام اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، اس لئے اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے ، تیسرے اس سورت میں قیامت کے ہولناک مناظر کا نقشہ کھینچا گیا ہے ، اسی سلسلے میں آیت نمبر:۲۸ میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے ، جاثیہ عربی زبان میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو گھٹنے کے بل بیٹھتے ہوں، اسی لفظ کو سورت کا نام بنا دیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات۳۷         رکوعات:۴

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حا۔ میم۔ (۱) یہ نازل کی ہوئی کتاب ہے ، غالب حکمت والے اللہ کی طرف سے۔ (۲)

بیشک آسمانوں اور زمین میں اہل ایمان کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۳)

تشریح: یعنی آدمی ماننا چاہے تو اسی آسمان و زمین کی پیدائش اور ان کے محکم نظام میں غور کر کے مان سکتا ہے کہ ضرور کوئی ان کا پیدا کرنے والا اور تھامنے والا ہے۔ جس نے کمال حکمت و خوبی سے ان کو بنایا اور لامحدود قدرت سے ان کی حفاطت کی۔ ”البعرۃ تدل علی البعیروالاقدام تدل علی المسیر فکیف لا یدل ہذا النظام العجیب الغریب علی الصانع اللطیف الخبیر۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہاری پیدائش میں اور جو جانور وہ پھیلاتا ہے ان میں یقین کرنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۴)

تشریح: یعنی انسان خود اپنی بناوٹ اور دوسرے حیوانات کی ساخت میں غور کرے۔ تو درجہ عفان و ایقان تک پہنچانے والی ہزارہا نشانیاں اس کو ملیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رات دن کی تبدیلی میں اور اس رزق میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس سے زندہ کیا زمین کو اس کے خشک ہونے کے بعد اور ہواؤں کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۵)

تشریح: ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو معلوم ہو جائے کہ یہ امور بجز اس زبردست قادر حکیم کے اور کسی کے بس میں نہیں۔ جیسا کہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی تقریر گزر چکی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اللہ کے احکام ہیں ہم آپ پر حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) پڑھتے ہیں، پس اللہ کے اور اس کی آیات کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔ (۶)

تشریح: یعنی اللہ کو چھوڑ کر دوسرا کون ہے اور اس کی باتیں چھوڑ کر کس کی بات ماننے کے قابل ہے۔ جب اس بڑے مالک کی ایسی سچی اور صاف باتیں بھی کوئی بدبخت قبول نہ کرے تو آخر کس چیز کا منتظر ہے جسے قبول کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

خرابی ہے ہر جھوٹ باندھنے والے گنہگار کے لئے۔ (۷) وہ اللہ کی آیات کو سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں، پھر تکبر کرتا ہوا اڑا رہتا ہے گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں، پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دو۔ (۸)

تشریح: یعنی ضد اور غرور کی وجہ سے اللہ کی بات نہیں سنتا۔ اس کی شیخی اجازت نہیں دیتی کہ اپنی جہالت سے ہٹے۔ حق کو سن کر اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا سنا ہی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب وہ ہماری آیات میں سے کسی شے پر واقف ہو تو وہ اس کو پکڑتا (بناتا ہے ) ہنسی مذاق، یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب۔ (۹)

تشریح: یعنی جس طرح وہ آیات اللہ کے ساتھ اہانت و استخاف کا معاملہ کرتا ہے ، سزا بھی سخت اہانت و ذلت کی ملے گی۔ جو آگے آ رہی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کے آگے جہنم ہے ، اور ان کے کچھ کام نہ آئے گا جو انہوں نے کمایا اور نہ وہ جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز ٹھہرایا، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی اموال و اولاد وغیرہ کوئی چیز اس وقت کام نہ آئے گی۔ نہ وہ کام آئیں گے جن کو اللہ کے سوا معبود یا رفیق و مددگار بنا رکھا تھا اور جن سے بہت کچھ اعانت و امداد کی توقعات تھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ قرآن (سراسر) ہدایت ہے ، اور جن لوگوں نے کفر کیا اپنے رب کی آیات کا، ان کے لئے دردناک عذاب میں سے ایک بڑا عذاب ہو گا۔ (۱۱)

تشریح: یعنی یہ قرآن عظیم الشان ہدایت ہے جو سب طرح کی برائی بھلائی انسان کو سمجھانے کے لیے آتی ہے جو اس کو نہ مانیں وہ سخت غلیظ اور دردناک عذاب بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے دریا کو مسخر کیا تاکہ چلیں اس میں اس کے حکم سے کشتیاں، اور تاکہ اس کے فضل سے (روزی) تلاش کرو، اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۱۲)

تشریح: یعنی سمندر جیسی مخلوق کو ایسا مسخر کر دیا کہ تم بے تکلف اپنی کشتیاں اور جہاز اس میں لیے پھرتے ہو۔ میلوں کی گہرائیوں کو پایاب کر رکھا ہے۔ بحری تجارت کرو، یا شکار کھیلو، یا اس کی تہ میں سے موتی نکالو۔ اور یہ سب منافع و فوائد حاصل کرتے وقت منعم حقیقی کو نہ بھولو۔ اس کا حق پہچانو، زبان  و دل اور قلب و قالب سے شکر ادا کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے تمہارے لئے مسخر کیا جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے ، بے شک اس میں غور وفکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۳)

تشریح: یعنی اپنے حکم اور قدرت سے سب کو تمہارے کام میں لگا دیا۔ یہ اسی کی مہربانی ہے کہ ایسی ایسی عظیم الشان مخلوقات انسان کی خدمت گزاری میں لگی ہوئی ہیں۔ آدمی دھیان کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ یہ چیز اس کے بس کی نہ تھی محض اللہ کے فضل اور اس کی قدرت کاملہ سے یہ اشیاء ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ تو لامحالہ ہم کو بھی کسی کے کام میں لگنا چاہیے وہ کام یہی ہے کہ اس منعم حقیقی اور محسن علی الاطلاق کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری میں اپنی حیاتِ مستعار کے لمحات صرف کر دیں تاکہ آئندہ چل کر ہمارا انجام درست ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ ان لوگوں کو جو ایمان لائے (مؤمنوں کو) فرما دیں، وہ ان لوگوں سے در گزر کریں جو اللہ کے ایام کی امید نہیں رکھتے ، تاکہ اللہ ان لوگوں کو بدلہ دے ان کے اعمال کا۔ (۱۴)

تشریح:  يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ أَيَّامَ اللہِ:درگزر کرنے کا مطلب یہاں یہ ہے کہ ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچائی جائیں ان کا بدلہ نہ لیں، یہ حکم مکی زندگی میں دیا گیا تھا جہاں مسلمانوں کو مسلسل صبر کی تلقین کی جا رہی تھی، اور ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ کافر لوگ ان پر جو ستم ڈھا رہے ہیں تم ان کا فی الحال بدلہ نہ لو، کیونکہ اللہ تعالی خود ہی ان کا بدلہ لے لے گا، چاہے وہ اسی دنیا میں ہو یا آخرت میں، اور ساتھ ہی یہ مطلب بھی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کے اس حکم کی تعمیل میں صبر سے کام لیں گے ، اور بدلہ نہیں لیں گے ، اللہ تعالی ان کی اس نیکی کا بدلہ آخرت کی نعمتوں کی صورت میں ضرور عطا فرمائے گا۔

أَيَّامَ اللہِ:اللہ کے ایام سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالی لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا یا جزا دے ، چاہے دنیا میں یا آخرت میں، اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس بات سے بے فکر ہیں، بلکہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی ایسے دن آنے والے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

جس نے نیک عمل کیا اپنی ذات کے لئے (کیا) اور جس نے بُرا کیا تو (اس کا وبال ) اسی پر (ہو گا) پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی بھلے کام کا فائدہ کام کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ اللہ کو اس کی کیا ضرورت؟ اور بدی کرنے والا خود اپنے حق میں برا بیج بو رہا ہے۔ ایک کی برائی دوسرے پر نہیں پڑتی۔ غرض ہر شخص اپنے نفع نقصان کی فکر کر لے۔ اور جو عمل کرے یہ سمجھ کر کرے کہ اس کا سود و زیاں اسی کی ذات کو پہنچے گا۔ وہاں پہنچ کر سب برائی بھلائی سامنے آ جائے گی۔ اور ہر ایک اپنی کرتوت کا پھل چکھے گا۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (توریت) اور حکومت اور نبوت دی اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں، اور ہم نے انہیں جہان والوں پر فضیلت دی۔ (۱۶)

تشریح: یعنی تورات دی اور سلطنت یا قوتِ فیصلہ یا دانائی کی باتیں یا دین کی سمجھ عطا کی، اور کس قدر کثرت سے پیغمبر ان میں سے اٹھائے یہ تو روحانی غذا ہوئی، جسمانی غذا دیکھو تو وہ بھی بہت افراط سے دی گئی حتی کہ من و سلوی اتارا گیا۔ اس زمانہ میں سارے جہان پر ان کو فضیلت کلی حاصل تھی اور بعض فضائل جزئیہ کے اعتبار سے تو ”اس زمانہ” کی قید لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے انہیں دین کے بارے میں واضح نشانیاں دیں، تو انہوں نے اختلاف نہ کیا، مگر اس کے بعد جبکہ ان کے پاس علم آ گیا آپس میں ضد کی وجہ سے ، بیشک تمہارا رب ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا قیامت کے دن جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۱۷)

تشریح: یعنی نہایت واضح اور مفصل احکام، کھلے کھلے معجزات جو دین کے باب میں بطور حجت و برہان کے پیش کیے جاتے ہیں۔

آپس کی ضد اور نفسانیت سے اصل کتاب کو چھوڑ کر بیشمار فرقے بن گئے۔ جن کا عملی فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا اس وقت پتہ لگے کہ ان کا منشاء نفس پروری اور ہوا پرستی کے سوا کچھ نہ تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک خاص طریقے پر کر دیا تو آپ اس کی پیروی کریں، ا ور جو لوگ علم نہیں رکھتے ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ (۱۸)

تشریح: یعنی ان اختلافات اور فرقہ وارانہ کشمکش کی موجودگی میں ہم نے آپ کو دین کے صحیح راستہ پر قائم کر دیا تو آپ کو اور آپ کی امت کو چاہیے کہ اس راستہ پر برابر مستقیم رہے۔ کبھی بھول کر بھی جاہلوں اور نادانوں کی خواہشات پر نہ چلے۔ مثلاً ان کی خواہش یہ ہے کہ آپ ان کے طعن و تشنیع اور ظلم و تعدی سے تنگ آ کر دعوت و تبلیغ ترک کر دیں، یا مسلمانوں میں بھی ویسا ہی اختلاف و تفریق پڑ جائے جس میں وہ لوگ خود مبتلا ہیں۔ اندریں صورت واجب ہے کہ ان کی خواہشات کو بالکل پامال کر دیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اللہ کے سامنے وہ آپ کے کام نہ آئیں گے کچھ بھی، اور بیشک ظالم ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور اللہ پرہیزگاروں کا رفیق ہے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی ان کی طرف جھکنا تم کو خدا کے ہاں کچھ کام نہ دے گا۔ منصف اور راستی پسند مسلمان، ظالم اور بے راہ و کافروں کے رفیق نہیں ہو سکتے۔ وہ تو اللہ کے مطیع بندے ہیں اور اللہ ہی ان کا رفیق و مددگار ہے۔ لازم ہے کہ اسی کی راہ چلیں اور اسی پر بھروسہ رکھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ لوگوں کے لئے دانائی کی باتیں ہیں اور ہدایت و رحمت یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے۔ (۲۰)

تشریح: یعنی قرآن بڑی بڑی بصیرت افروز حقائق پر مشتمل ہے۔ لوگوں کو کام کی باتیں اور کامیابی کی راہ سجھاتا ہے۔ اور جو خوش قسمت اس کی ہدایات و نصائح پر یقین کر کے عمل پیرا ہوتے ہیں ان کے حق میں خصوصی طور پر قرآن رحمت و برکت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں جنہوں نے بُرائیاں کیں کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، تاکہ برابر (ہو جائے ) ان کا جینا اور مرنا، بُرا ہے جو وہ حکم لگاتے ہیں۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ کی شؤن حکمت پر نظر کرتے ہوئے کیا کوئی عقلمند یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک بدمعاش آدمی، اور ایک مرد صالح کے ساتھ خداوند تعالیٰ یکساں معاملہ کرے گا۔ اور دونوں کا انجام برابر کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ نہ ان کی زندگی میں دونوں برابر ہو سکتے ہیں نہ مرنے کے بعد، جو حیاتِ طیبہ مومن صالح کو یہاں نصیب ہوتی ہے اور جس نصرت اور علو و رفعت کے وعدے دنیا میں اس سے کیے گئے وہ ایک کافر بدکار کو کہاں میسر ہیں۔ اس کے لیے دنیا میں معیشت ضنک اور آخرت میں لعنت و خسران کے سوا کچھ نہیں۔ الغرض یہ دعویٰ بالکل غلط اور یہ خیال بالکل مہمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکوں اور بدوں کا مرنا اور جینا برابر کرے گا۔ اس کی حکمت اس کو مقتضی نہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ دونوں کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک نتیجہ ظاہر ہو کر رہے۔ اور ہر ایک کی نیک یا بدی کے آثار فی الجملہ یہاں بھی مشاہد ہوں اور ان کا پوری طرح مکمل معائنہ موت کے بعد ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا حکمت کے ساتھ، اور تاکہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۲۲)

تشریح:یعنی زمین و آسمان کو یوں ہی بیکار پیدا نہیں کیا۔ بلکہ نہایت حکمت سے کسی خاص مقصد کے لیے بنایا ہے تاکہ ان کے احوال میں غور کر کے لوگ معلوم کر سکیں کہ بیشک جو چیز بنائی گئی ٹھیک موقع سے بنائی اور تاکہ اندازہ کر لیا جائے کہ ضرور ایک دن اس کارخانہ ہستی کا کوئی عظیم الشان نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اسی کو آخرت کہتے ہیں۔ جہاں ہر ایک کو اس کی کمائی کا پھل ملے گا اور جو بویا تھا وہ بھی کاٹنا پڑے گا۔ گندم از گندم بروید جواز جواز مکافاتِ عمل غافل مشو۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے بنا لیا اپنی خواہشوں کو اپنا معبود، اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا، اور مہر لگا دی اس کے کان اور اس کے دل پر اور ڈال دیا اس کی آنکھ پر پردہ، تو اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے گا، تو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ (۲۳)

تشریح:جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے ، جدھر اس کی خواہش لے چلے ادھر چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اس کے پاس یہی خواہش نفس رہ جائے ، اللہ تعالی بھی اسے اس کی اختیار کردہ گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ پھر اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ نہ کان نصیحت کی بات سنتے ہیں، نہ دل سچی بات کو سمجھتا ہے ، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ جس کو اس کے کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے ، کون سی طاقت ہے جو اس کے بعد اس کو راہ پر لے آئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے کہا یہ (اور کچھ) نہیں صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے ، ہم مرتے ہیں اور ہم جیتے ہیں، اور ہمیں صرف زمانہ ہلاک کر دیتا ہے ، اور انہیں اس کا کوئی علم نہیں، وہ صرف اٹکل دوڑاتے ہیں۔ (۲۴)

تشریح: وَقَالُوْا مَا ہِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا :یعنی اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی دوسری زندگی نہیں۔ بس یہ ہی ایک جہان ہے جس میں ہمارا مرنا اور جینا ہے۔ جیسے بارش ہونے پر سبزہ زمین سے اگا، خشکی ہوئی تو سوکھ کر ختم ہو گیا۔ یہی حال آدمی کا سمجھو، ایک وقت آتا ہے پیدا ہوتا ہے۔ پھر معین وقت تک زندہ رہتا ہے۔ آخر زمانہ کا چکر اسے ختم کر دیتا ہے۔ یہی سلسلہ موت و حیات کا دنیا میں چلتا رہتا ہے۔ آگے کچھ نہیں۔

وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ :زمانہ نام ہے دہر کا۔ وہ کچھ کام کرنے والا نہیں۔ کیونکہ ان میں حس نہ شعور نہ ارادہ، لامحالہ وہ کسی اور چیز کو کہتے ہوں گے جو معلوم نہیں ہوتی لیکن دنیا میں اس کا تصرف چلتا ہے۔ پھر اللہ ہی کو کیوں نہ کہیں جس کا وجود اور متصرف علی الاطلاق ہونا دلائل فطریہ اور براہین عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہو چکا ہے۔ اور زمانہ کا الٹ پھیر اور رات دن کا ادل بدل کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی معنی سے حدیث میں بتلایا گیا کہ دہر اللہ ہے اس کو برا نہ کہنا چاہیے۔ کیونکہ جب آدمی دہر کو برا کہتا ہے اسی نیت سے کہتا ہے کہ حوادثِ دہر اس کی طرف منسوب ہیں حالانکہ تمام حوادثِ دہر اللہ کے ارادے اور مشیت سے ہیں تو دہر کی برائی کرنے سے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہوتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کی حجت (دلیل) نہیں ہوتی، اس کے سوا کہ وہ کہتے ہیں ہمارے باپ دادا کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (۲۵)

تشریح: یعنی جب قرآن کی آیات، بعث بعد الموت کے دلائل اس کو سنائی جاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں کسی دلیل کو نہیں مانوں گا۔ بس اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ہمارے مرے ہوئے باپ دادوں کو زندہ کر کے دکھلا دو۔ تب ہم تسلیم کریں گے کہ بیشک موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اللہ (ہی) تمہیں جِلاتا ہے (وہی) پھر تمہیں موت دے گا، پھر (وہی) تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۲۶)

تشریح: یعنی جس نے ایک مرتبہ زندہ کیا پھر مارا، اسے کیا مشکل ہے کہ دوبارہ زندہ کر کے سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ (ہی) کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی، اور جس دن قیامت قائم (بپا) ہو گی اس دن باطل پرست خسارہ پائیں گے۔ (۲۷)

تشریح: اس دن ذلیل و خوار ہو کر پتہ لگے گا کہ کس دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیکھو گے ، ہر امت اپنے نامۂ اعمال کی طرف پکاری جائے گی، آج تمہیں بدلہ دیا جائے گا اس کا جو تم کرتے تھے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی اعمالنامہ کی طرف بلایا جائے گا کہ آؤ اس کے موافق حساب دو۔ آج ہر ایک کو اسی کا بدلہ ملے گا۔ جو اس نے دنیا میں کمایا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ہماری تحریر ہے جو تمہارے متعلق حق کے ساتھ بولتی ہے ، بے شک ہم لکھاتے تھے جو تم کرتے تھے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی جو کام کیے تھے یہ اعمالنامہ ٹھیک ٹھیک و ہی بتلاتا ہے۔ ذرہ بھر کمی بیشی نہیں۔ ہمارے علم میں تو ہر چیز ازل سے ہے۔ مگر ضابطہ میں ہمارے فرشتے لکھنے پر مامور تھے ان کی لکھی ہوئی مکمل رپورٹ آج تمہارے سامنے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جو لوگ ایمان لائے ا ور انہوں نے نیک عمل کئے اور انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا یہی ہے کھلی کامیابی۔ (۳۰)

تشریح: یعنی جنت میں جہاں اعلیٰ درجہ کی رحمت اور ہر قسم کی مہربانیاں ہوں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (انہیں کہا جائے گا) سو کیا تم پر میری آیات نہ پڑھی جاتی تھیں؟تو تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے۔ (۳۱)

تشریح: یعنی ہماری طرف سے نصیحت و فہمائش اور تمام حجت کا کوئی دقیقہ اٹھا کر نہ رکھا گیا۔ اس پر بھی تمہارے غرور کی گردن نیچی نہ ہوئی۔ آخرت کے پکے مجرم بن کر رہے۔ یا ”وکنتم قومًا مجرمین۔ ” کا مطلب یہ لیا جائے کہ تم پہلے ہی سے جرائم پیشہ تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب (تم سے ) کہا جاتا تھا کہ بے شک اللہ کا وعدہ سچ ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں، تو تم نے کہا ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے ! (ہاں) ہم صرف ایک تو ہم گمان کرتے تھے ، اور ہم نہیں ہیں یقین کرنے والے۔ (۳۲)

تشریح: یعنی ہم نہیں جانتے قیامت کیسی ہوتی ہے۔ تم جو کچھ قیامت کے عجیب و غریب احوال بیان کرتے ہو ہم کو کسی طرح ان کا یقین نہیں ہوتا۔ یوں سنی سنائی باتوں سے کچھ ضعیف سا امکان اور دھندلا سا خیال کبھی آ جائے وہ دوسری بات ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان پر ان کے اعمال کی بُرائیاں کھل گئیں ا ور انہیں اس (عذاب نے ) گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۳۳)

تشریح: یعنی جب قیامت آئے گی ان کی تمام بد کاریاں اور ان کے نتائج سامنے آ جائیں گے اور عذاب وغیرہ کی دھمکیوں کا جو مذاق اڑایا کرتے تھے وہ خود ان پر ہی الٹ پڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہا جائے گا آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے جیسے تم نے اس دن کے ملنے کو بھلا دیا تھا، اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ، اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔ (۳۴)

تشریح: یعنی دنیا میں تم نے آج کے دن کو یاد نہ رکھا تھا۔ آج ہم تم کو مہربانی سے یاد نہ کریں گے۔ ہمیشہ کے لیے اسی طرح عذاب میں پڑا چھوڑ دیں گے۔ جیسے تم نے اپنے کو دنیا کے مزوں میں پھنسا کر چھوڑ دیا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ تم نے بنا لیا تھا اللہ کی آیات کو ایک مذاق اور تمہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا تھا، سو آج وہ اس سے نہ نکالے جائیں گے اور نہ انہیں رضا مندی حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ (۳۵)

تشریح: یعنی دنیا کے مزوں میں پڑ کر خیال ہی نہ کیا کہ یہاں سے کبھی جانا اور خدا کے سامنے پیش ہونا بھی ہے اور اگر کبھی کچھ خیال آیا بھی تو یوں سمجھ کر دل کی تسلی کر لی کہ جس طرح دنیا میں ہم مسلمانوں سے مقابل ہیں، وہاں بھی ہمارا یہی زور رہے گا۔

فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُوْنَ مِنْہَا وَلَا ہُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ :نہ ان کو دوزخ سے نکالا جائے گا نہ موقع دیا جائے گا کہ وہ اب خدا کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو رب ہے آسمانوں کا اور رب ہے زمین کا اور رب ہے تمام جہانوں کا۔ (۳۶)

اور اسی کے لئے ہے کبریائی (بڑائی) آسمانوں میں اور زمین میں اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (۳۷)

تشریح: چاہیے آدمی اسی کی طرف متوجہ ہو۔ اس کے احسانات و انعامات کی قدر کرے۔ اسی کی ہدایت پر چلے ، سب کو چھوڑ کر اسی کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر رکھے۔ اور اس کی بزرگی و عظمت کے سامنے ہمیشہ باختیار خود مطیع و منقاد رہے۔ کبھی سرکشی و تمرد کا خیال دل میں نہ لائے۔ حدیث قدسی میں ہے ”الکبریاء ردائی وعظمۃ ازاری فمن نازعنی واحدًا منہما قذفتہ فی النار” (کبریائی میری چادر اور عظمت میرا تہ بند ہے۔ لہٰذا جو کوئی ان دونوں میں سے کسی میں مجھ سے منازعت اور کشمکش کرے گا، میں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا) اللہم اجعلنا مطیعین لامرک وجنبنا غضبک وقناعذاب النار۔ انک سمیع قریب مجیب الدعوات۔   تم سورۃ الجاثیۃبعونہ وصونہ فللہ والمنہ وبہ التوفیق والعصمۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

٭٭

 

 

 

۴۶۔ سُوْرَۃُ الْاَحْقَافِ

 

                تعارف

 

اس سورت کی آیت نمبر ۲۹ اور ۳۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب جنات کی ایک جماعت نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم سنا تھا، معتبر روایات کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے پہلے اس وقت پیش آیا تھا جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے اور نخلہ کے مقام پر فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے ، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو دلائل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے ، اسی زمانہ میں اس قسم کے واقعات پیش آرہے تھے کہ ایک ہی گھرانے میں والدین مسلمان ہو گئے اور اولاد مسلمان نہیں ہوئی، اور اس نے اپنے والدین کو ملامت شروع کر دی کہ وہ کیوں اسلام لائے ، اس کے برعکس بعض گھرانوں میں اولاد مسلمان ہو گئی اور والدین مسلمان نہیں  ہوئے ، اور انہوں نے اولاد پر تشدد شروع کر دیا، اس سورت کی آیات ۱۶ و۱۷ میں اسی قسم کی صورت حال کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اور اسی پس منظر میں اولاد پر ماں باپ کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اس کے علاوہ ماضی میں جن قوموں نے کفر اور نافرمانی کی روش اختیار کی ان کے بُرے انجام کا حوالہ دیا گیا ہے ، اور قوم عاد کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے ، جس جگہ یہ قوم آباد تھی وہاں بہت سے ریت کے ٹیلے تھے جنہیں عربی زبان میں احقاف کہا جاتا ہے ، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام احقاف ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات۳۵         رکوعات:۴

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حا میم۔ (۱) کتاب کا نازل کرنا غالب حکمت والے اللہ (کی طرف) سے ہے۔ (۲)

ہم نے نہیں پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان ہے مگر حق (حکمت) کے ساتھ اور ایک مقررہ میعاد (کے لئے ) اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ جس سے ڈرائے جاتے ہیں (اس سے ) روگردانی کرنے والے ہیں۔ (۳)

تشریح: یعنی آسمان و زمین، اور یہ سب کارخانہ اللہ تعالیٰ نے بیکار نہیں بنایا۔ بلکہ کسی خاص غرض و مقصد کے لیے پیدا کیا ہے جو ایک معین میعاد اور ٹھہرے ہوئے وعدہ تک یوں ہی چلتا رہے گا تاآنکہ اس کا نتیجہ ظاہر ہو اسی کو آخرت کہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بھلا تم دیکھو (سوچو) تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ، انہوں نے زمین سے کیا پیدا کیا؟یا ان کے لئے آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے ؟ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لے آؤ، یا کوئی علمی آثار (نشانات) لے آؤ، اگر تم سچے ہو۔ (۴)

تشریح: ان آیتوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ مشرکین کے پاس اپنے شرک والے عقیدوں کو ثابت کرنے کے لئے نہ کوئی عقلی دلیل ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ جن معبودوں کو یہ پوجتے ہیں، انہوں نے اللہ تعالی کی خدائی میں کوئی حصہ لیا ہے ، اور نہ کوئی نقلی دلیل ہے ، نقلی دلیل دوقسم کی ہو سکتی ہے ایک یہ کہ اللہ تعالی کی طرف سے پہلے کوئی ایسی کتاب  نازل ہو ئی ہو جس میں ان معبودوں کو اللہ تعالی کی خدائی میں شریک قرار دیا گیا ہو، مشرکین سے کہا جا رہا ہے کہ اگر ایسی کوئی کتاب ہے تو لا کر دکھاؤ، نقلی دلیل کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کسی پیغمبر نے کوئی بات کہی ہو، اور اس بات پر کوئی علمی سند موجود ہو کہ واقعی انہوں نے ایسا کہا ہے ، کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو سے مراد یہی ہے خلاصہ یہ کہ مشرکین کے پاس اپنے عقیدے کے ثبوت میں نہ کوئی آسمانی کتاب ہے اور نہ کسی پیغمبر کا کوئی قول جو مستند طریقہ پر ثابت ہو۔

(توضیح القرآن)

 

اور اس سے بڑا گمراہ کون ہے ؟جو اللہ کے سوا اس کو پکارتا ہے جو اسے جواب نہ دے گا قیامت کے دن تک اور وہ ان کے پکارنے سے (بھی) بے خبر ہیں۔ (۵)

تشریح: یعنی اس سے بڑی حماقت اور گمراہی کیا ہو گی کہ خدا کو چھوڑ کر ایک ایسی بے جان یا بے اختیار مخلوق کو اپنی حاجت برآری کے لیے پکارا جائے جو اپنے مستقل اختیار سے کسی کی پکار کو نہیں پہنچ سکتی۔ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو پکارنے کی خبر بھی ہو۔ پتھر کی مورتیوں کا تو کہنا ہی کیا، فرشتے اور پیغمبر بھی و ہی بات سن سکتے اور و ہی کام کر سکتے ہیں جس کی اجازت اور قدرت حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور جب لوگ (میدان حشر) میں جمع کئے جائیں گے وہ ان کے دشمن ہوں گے اور وہ ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔ (۶)

تشریح: یعنی جن جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے ، آخرت میں وہ سب ان مشرکین سے براءۃ ظاہر کر کے یہ کہہ دیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ، یہ بات سورۂ قصص (۶۳:۲۸) میں بھی گزری ہے ، اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مشرکین کئی قسم کے ہوتے ہیں، بعض مشرکین نے کچھ دنیا سے گزرے ہوئے انسانوں کو معبود بنارکھا ہے ، ان انسانوں کو بسا اوقات یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی عبادت کی جا رہی ہے ، اس لئے وہ انکار کر دیں گے ، اور جن کو پتہ ہے وہ یہ کہیں گے کہ درحقیقت یہ ہماری نہیں، بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی عبادت کرتے تھے ، دوسرے بعض مشرکین وہ ہیں جو فرشتوں کو معبود بنائے ہوئے تھے ، ان کے بارے میں سورۂ سبا (۴۱، ۴۰:۳۴) میں گزرا ہے کہ جب اللہ تعالی ان سے پوچھیں گے کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو جنات اور شیاطین کی عبادت کیا کرتے تھے ، کیونکہ انہوں نے ہی انہیں بہکایا تھا، مشرکین کی تیسری قسم وہ ہے جو پتھر کے بتوں کو پوجتی ہے ، بعض روایات میں یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالی ان مشرکین کو دکھانے کے لئے ان بتوں کو بھی زبان دے دیں گے اور چونکہ وہ دنیا میں بے جان پتھر تھے اس لئے انہیں واقعی یہ پتہ نہیں ہو گا کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے ، اس لئے وہ بھی یہی کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ، اور اگر یہ روایت ثابت نہ ہو تو پھر یہ بت زبان حال سے یہ کہیں گے کہ ہم تو بے جان پتھر ہیں ہمیں کیا پتہ کہ ہماری عبادت کی جاتی تھی۔

(روح المعانی از توضیح القرآن)

 

اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں جنہوں نے انکار کیا حق کا، جب وہ ان کے پاس آ گیا کہ: یہ کھلا جادو ہے۔ (۷)

تشریح: یعنی ان لوگوں کو فی الحال انجام کی کچھ فکر نہیں کسی نصیحت و فہمائش پر کان نہیں دھرتے بلکہ جب قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اسے جادو کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود بنا لیا ہے ، آپ فرما دیں اگر میں نے اسے خود بنا لیا ہے تو تم مجھے اللہ سے (بچانے کا) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ، وہ خوب جانتا ہے جو تم اس (کے بارے ) میں باتیں بناتے ہو، وہ اس کا گواہ کافی ہے میرے اور تمہارے درمیان، اور وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (۸)

تشریح: اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کر کے اللہ تعالی کی طرف کوئی من گھڑت کلام منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے دنیا ہی میں رسوا فرما دیتے ہیں، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر میں نے یہ کلام (معاذاللہ) خود گھڑا ہے تو اللہ تعالی اس دنیا میں میری پکڑ کر لے گا اور مجھے کوئی بچا نہیں سکے گا۔

(توضیح القرآن)

 

جو باتیں تم نے شروع کر رکھی ہیں اللہ ان کو بھی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا لغو اور دور از کار خیالات چھوڑ کر اپنے انجام کی فکر کرو۔ اگر خدا کے سچے رسول کو جھوٹا اور مفتری کہا تو سمجھ لو اس کا حشر کیا ہو گا۔ خدا پر میری اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ وہ اپنے علم صحیح و محیط کے موافق ہر ایک کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ میں اسی کو اپنے اور تمہارے درمیان گواہ ٹھہراتا ہوں وہ اپنے قول و فعل سے بتلا رہا ہے اور آئندہ بتلا دے گا کہ کون حق پر ہے اور کون جھوٹ بول رہا، افتراء کر رہا ہے۔

اب بھی باز آؤ تو بخشے جاؤ۔ اور یہ بھی اس کی مہربانی اور بردباری سمجھو کہ باوجود جرائم پر مطلع ہونے اور کامل قدرت رکھنے کے تم کو فوراً ہلاک نہیں کر دیتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں میں رسولوں میں نیا نہیں ہوں، اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، میں صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے ، اور میں صرف صاف صاف ڈر سنانے والا ہوں۔ (۹)

تشریح: اس جملے کو اگلے جملے کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہئیے ، اور مطلب یہ ہے کہ نہ میں کوئی انوکھا پیغمبر ہوں کہ مجھ سے پہلے دوسرے پیغمبر نہ آئے ہوں، اور نہ میں کوئی ایسا غیر معمولی دعوی کر رہا ہوں کہ میں عالم الغیب ہوں، کیونکہ مجھے جو کچھ علم ملا ہے ، وہ وحی کے ذریعے ملا ہے ، یہاں تک کہ وحی کے بغیر مجھے ذاتی طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں بھلا تم دیکھو تو اگر (یہ قرآن) اللہ کے پاس سے ہے ، اور تم نے اس کا انکار کیا، اور گواہی دی ایک گواہ نے بنی اسرائیل میں سے اس جیسی کتاب پر، اور وہ ایمان لے آیا، اور تم نے تکبر کیا (تم اڑے رہے ) بیشک اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو۔ (۱۰)

تشریح: یہ پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ بنو اسرائیل میں سے کچھ یہودی اور عیسائی لوگ قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں، جیسا کہ بعد میں یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور عیسائیوں میں سے حضرت عدی بن حاتم اور نجاشی رضی اللہ عنہما ایمان لائے ، اور انہوں نے گواہی دی کہ اس جیسی کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، اور قرآن کریم بنیادی عقائد میں اسی کتاب جیسا ہے ، مکہ مکرمہ کے بت پرستوں سے کہا جا رہا ہے کہ جو لوگ پہلے سے آسمانی کتاب رکھتے تھے وہ تو ایمان لانے میں تم سے آگے نکل جائیں اور تم اپنے گھمنڈ میں بیٹھے رہو تو یہ کتنے ظلم کی بات ہو گی۔

(توضیح القرآن)

 

اور کافروں نے مؤمنوں کے لئے (کے بارے میں) کہا، اگر (یہ) بہتر ہوتا تو وہ اس کی طرف ہم پر پہل نہ کرتے ، اور جب انہوں نے اس سے ہدایت نہ پائی تو اب کہیں گے یہ پرانا جھوٹ ہے۔ (۱۱)

تشریح: یہ تھا ان کافروں کا گھمنڈ کہ ہر قسم کی خوبیاں ہم میں پائی جاتی ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، وہ ہم سے کم حیثیت ہیں، اس لئے اگر اسلام کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توریت) تھی، رہنما اور رحمت، اور یہ کتاب (اس کی) تصدیق کرنے والی ہے ، عربی زبان میں ہے ، تاکہ ظالموں کو ڈرائے ، اور خوشخبری ہے نیکو کاروں کے لئے۔ (۱۲)

تشریح: عربی زبان میں ہونے کا خاص طور پر ذکر کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ پچھلی کوئی آسمانی کتاب عربی زبان میں نہیں آئی، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عربی کے سوا کسی اور زبان سے واقف نہیں ہیں، اس کے باوجود وہ عربی زبان میں ان پچھلی کتابوں کی باتیں بتا رہے ہیں جن کا علم حاصل ہونے کا آپ کے پاس وحی کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ، پھر وہ (اس پر) قائم رہے ، تو کوئی خوف نہیں ان پر، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۱۳)

تشریح: پھر وہ قائم رہے (ثابت قدم رہے ) ثابت قدم رہنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ مرتے دم تک اس ایمان پر قائم رہے اور یہ بھی کہ اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کی۔

(توضیح القرآن)

 

یہی لوگ اہل جنت ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے (یہ) اس کی جزا ہے جو وہ عمل کرتے تھے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی اپنے نیک کاموں کے سبب حق تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ بہشت میں رہیں گے۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، اس کی ماں اسے تکلیف کے ساتھ (پیٹ میں) اٹھائے رہی، اور اس نے اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا حمل اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے میں (ہوا) یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا، اور ہوا چالیس سال کا تو اس نے عرض کی، اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تو نے مجھ پر انعام فرمائی، اور میرے ماں باپ پر، اور یہ کہ میں نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے ، اور میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر دے (نیک بنا دے ) بیشک میں نے تیری طرف (تیرے حضور) توبہ کی ا ور بیشک میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ (۱۵)

تشریح: قرآن میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ ماں باپ کا حق بیان فرمایا ہے۔ کیونکہ موجد حقیقی تو اللہ ہے لیکن عالم اسباب میں والدین اولاد کے وجود کا سبب ظاہری اور حق تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا مظہر خاص بنتے ہیں۔ یہاں بھی پہلے ”اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اَسْتَقَامُوْا۔ ” میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کا ذکر تھا۔ اب والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، ان کی تعظیم و محبت اور خدمت گزاری کو اپنی سعادت سمجھے۔ دوسری جگہ بتلایا ہے کہ اگر والدین مشرک ہوں تب بھی ان کے ساتھ دنیا میں معاملہ اچھا رکھنا چاہیے۔ خصوصاً ماں کی خدمت گزاری کے بعض وجوہ سے اس کا حق باپ سے بھی فائق ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر دال ہیں۔

حَمَلَتْہُ أُمُّہٗ كُرْہًا :یعنی حمل جب کئی مہینہ کا ہو جاتا ہے اس کا ثقل محسوس ہونے لگتا ہے اس حالت میں اور تولد کے وقت ماں کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔ پھر دودھ پلاتی اور برسوں تک اس کی ہر طرح نگہداشت رکھتی ہے۔ اپنی آسائش و راحت کو اس کی آسائش و راحت پر قربان کر دیتی ہے۔ باپ بھی بڑی حد تک ان تکلیفوں میں شریک رہتا اور سامانِ تربیت فراہم کرتا ہے۔ بیشک یہ سب کام فطرت کے تقاضے سے ہوتے ہیں۔ مگر اسی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کی شفقت و محبت کو محسوس اور ان کی محنت و ایثار کی قدر کرے۔ (تنبیہ) حدیث میں ماں کی خدمت گزاری کا تین مرتبہ حکم فرما کر باپ کی خدمت گزاری کا ایک مرتبہ حکم فرمایا ہے۔ لطف یہ ہے کہ آیہ ہذا میں والد کا ذکر صرف ایک مرتبہ لفظ ”والدیہ” میں ہوا۔ اور والدہ کا تین مرتبہ ذکر لفظ ”وَالدَیْہِ”میں، پھر ”حَمَلَتْہُ اُمُّہُ” میں، پھر ”وَضَعَتْہُ ” میں۔

وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَہْرًا :شاید یہ بطور عادت اکثریہ کے فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”لڑکا اگر قوی ہو تو اکیس مہینہ میں دودھ چھوڑتا ہے اور نو مہینے ہیں حمل کے۔ ” یا یوں کہو کہ کم از کم مدتِ حمل چھ مہینے ہیں اور دو برس میں عموماً بچوں کا دودھ چھڑا دیا جاتا ہے اس طرح کل مدت تیس مہینے ہوئے۔ مدت رضاع کا اس سے زائد ہونا نہایت قلیل و نادر ہے۔

وَبَلَغَ أَرْبَعِيْنَ سَنَۃً :چالیس برس کی عمر میں عموماً انسان کی عقلی اور اخلاقی قوتیں پختہ ہو جاتی ہیں اسی لیے انبیاء علیہم السلام کی بعثت چالیس برس سے پہلے نہ ہوتی تھی۔

قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِيْ :یعنی سعادت مند آدمی ایسا ہوتا ہے کہ جو احسانات اللہ تعالیٰ کے اس پر اور اس کے ماں باپ پر ہو چکے ان کا شکر ادا کرنے اور آئندہ نیک عمل کرنے کی توفیق خدا سے چاہے اور اپنی اولاد کے حق میں بھی نیکی کی دعا مانگے۔ جو کوتاہی حقوق اللہ یا حقوق العباد میں رہ گئی ہو، اس سے توبہ کرے اور از راہِ تواضع و بندگی اپنی مخلصانہ عبودیت و فرمانبرداری کا اعتراف کرے۔

(تنبیہ) صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، بڑے ہی خوش قسمت تھے کہ خود ان کو، ان کے ماں باپ کو اور اولاد کو ایمان کے ساتھ صحبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف میسر ہوا۔ دیگر صحابہ میں یہ خصوصیت کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہی وہ لوگ ہیں جن کے بہترین کام جو انہوں نے کئے ہم قبول کرتے ہیں اور ہم ان کی بُرائیوں سے درگزر کرتے ہیں، (یہ) اہل جنت میں سے (ہوں گے ) سچا وعدہ ہے جو انہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔ (۱۶)

تشریح: یعنی ایسے بندوں کی نیکیاں قبول اور کوتاہیاں معاف ہوتی ہیں۔ اور ان کا مقام اللہ کے سچے وعدہ کے موافق جنت میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس نے اپنے ماں باپ کے لئے کہا تم پر تف! کیا تم مجھے یہ خبر دیتے ہو کہ میں (روزِ حشر) نکالا جاؤں گا، حالانکہ بہت سے گروہ گزر چکے ہیں مجھ سے پہلے ، اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہیں (اور اس کو کہتے ہیں) تیرا بُرا ہو، تو ایمان لے آ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، تو وہ کہتا ہے یہ تو صرف پہلوں (اگلوں) کی کہانیاں ہیں۔ (۱۷)

تشریح: وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَيْہِ:سعات مند اولاد کے مقابلہ میں یہ بے ادب، نافرمان، اور نالائق اولاد کا ذکر فرمایا کہ ماں باپ اس کو ایمان کی بات سمجھاتے ہیں، وہ نہیں سمجھتا نہایت گستاخانہ خطاب کر کے ایذاء پہنچاتا ہے۔

أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِيْ أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِيْ: یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی دھمکیوں سے میں نہیں ڈرتا۔ بھلا کتنی قومیں اور جماعتیں مجھ سے پہلے گزر چکی ہیں۔ کوئی شخص بھی ان میں سے اب تک دوبارہ زندہ ہو کر واپس آیا؟ لوگ ہمیشہ سے یونہی سنتے چلے آتے ہیں مگر آج تک تو اس خبر کا تحقق ہوا نہیں۔ پھر میں کیونکر اعتبار کر لوں۔

وَہُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللہَ وَيْلَکَ اٰمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ: یعنی اس کی گستاخیوں پر ایک طرف اللہ سے فریاد کرتے اور دعا مانگتے ہیں کہ اسے قبولِ حق کو توفیق ملے اور دوسری طرف اس کو سمجھاتے ہیں کہ کم بخت تیرا ستیاناس! اب بھی باز آ جا! دیکھ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے بعث بعد الموت کی جو خبر اس نے دی ہے ضرور اپنے وقت پر پوری ہو کر رہے گی۔ اس وقت تیرا یہ انکار رنگ لائے گا۔

فَيَقُوْلُ مَا ہٰذَآ إِلَّا أَسَاطِيْرُ الْأَوَّلِيْنَ :یعنی ایسی کہانیاں بہت سنی ہیں۔ پرانے وقتوں کے قصے اسی طرح مشہور ہو جاتے ہیں اور واقع میں ان کا مصداق کچھ نہیں ہوتا۔

 

یہی لوگ ہیں جن پر عذاب کی بات ثابت ہو گئی (ان) امتوں میں جو ان سے قبل گزر چکی جنات میں سے اور انسانوں میں سے ، بیشک وہ خسارہ پانے والوں میں سے تھے۔ (۱۸)

تشریح: ”عذاب کی بات” و ہی ہے۔ ”لَاَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔ ” (السجدہ، رکوع٢’آیت ١٣) یعنی جس طرح بہت سی جماعتیں جنوں اور آدمیوں کی ان سے پہلے جہنم کی مستحق ہو چکی ہیں، یہ بدبخت بھی ان ہی میں شامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہر آدمی کے دل میں فطری طور پر جو بیج ایمان و سعادت کا بکھیرا تھا وہ بھی ان بدبختوں نے ضائع کر دیا۔ اس سے زیادہ ٹوٹا اور خسارہ کیا ہو گا کہ کوئی شخص تجارت میں بجائے منافع حاصل کرنے کے راس المال کو بھی اپنی غفلت اور حماقت سے ضائع کر بیٹھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہر ایک کے لئے درجے ہیں، اس (کے مطابق) جو انہوں نے کیا تاکہ وہ ان کے اعمال کا پورا (بدلہ) دے ، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۱۹)

تشریح: یعنی اعمال کے تفاوت کی وجہ سے اہل جنت کے کئی درجے ہیں اور اسی طرح اہل دوزخ کے بھی۔ نہ کسی نیکی کا ثواب کم کیا جائے گا نہ کسی جرم کی سزا حد مناسب سے زائد کی جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن لائے جائیں گے کافر آگ کے سامنے (کہا جائے گا) تم اپنی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں حاصل کر چکے ہو اور ان کا فائدہ (بھی) اٹھا چکے ہو، پس آج تمہیں رسوائی کے عذاب کا بدلہ دیا جائے گا، اس لئے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے ، اور اس لئے کہ تم نافرمانیاں کرتے تھے۔ (۲۰)

تشریح: کافر کے کسی نیک کام میں ایمان کی روح نہیں ہوتی۔ محض صورت اور ڈھانچہ نیکی کا ہوتا ہے۔ ایسی فانی نیکیوں کا اجر بھی فانی ہے جو اسی زندگی میں مال، اولاد، حکومت، تندرستی، عزت و شہرت وغیرہ کی شکل میں مل جاتا ہے۔ اس کو فرمایا کہ تم اپنی صوری نیکیوں کے مزے دنیا میں لے چکے اور وہاں کی لذتوں سے تمتع کر چکے۔ جو عیش و آرام ایمان لانے کی تقدیر پر آخرت میں ملتا، گویا اس کی جگہ بھی دنیا میں مزے اڑا لیے۔ اب یہاں کے عیش میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جن لوگوں نے آخرت نہ چاہی فقط دنیا ہی چاہی ان کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں مل چکا۔ ”

آج تمہاری جھوٹی شیخی اور نافرمانیوں کی سزا میں ذلیل و رسوا کرنے والا عذاب دیا جائے گا۔ یہی ایک چیز تمہارے لیے یہاں باقی ہے۔ آگے بعض زور آور اور متکبر قوموں کا حال بیان فرماتے ہیں کہ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں ان کا انجام کیا ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (قومِ ) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کرو، جب اس نے اپنی قوم کو (سرزمین) احقاف میں ڈرایا، اور گزرچکے ہیں ڈرانے والے (نبی) اس سے پہلے اور اس کے بعد (بھی) ، کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب (کے آنے ) سے۔ (۲۱)

تشریح:  ہود علیہ السلام سے پہلے اور پیچھے بہت ڈرانے والے آئے۔ سب نے و ہی کہا جو حضرت ہود علیہ السلام نے کہا تھا، یعنی ایک خدا کی بندگی کرو اور کفرو معصیت کے برے انجام سے ڈرو۔ ممکن ہے قوم عاد میں بھی حضرت ہود علیہ السلام کے علاوہ اور نذیر آئے ہوں۔ واللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دے ، پس تو جو کچھ ہم سے وعدہ کرتا ہے ہم پر لے آ، اگر تو سچوں میں سے ہے (سچا ہے )۔ (۲۲)

تشریح: یعنی ہم اپنے آبائی طریقہ سے ہٹنے والے نہیں۔ اگر تو اپنی دھمکیوں میں سچا ہے تو دیر کیا ہے۔ جو زبان سے کہتا ہے ، کر کے دکھلا دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا اس کے سوا نہیں کہ علم اللہ کے پاس ہے اور میں جس (پیغام) کے ساتھ بھیجا گیا ہوں وہ تمہیں پہنچاتا ہوں، لیکن میں دیکھتا ہوں تم لوگ جہالت کرتے ہو۔ (۲۳)

تشریح: یعنی اس قسم کا مطالبہ کرنا تمہاری نادانی اور جہالت ہے۔ میں خدا کا پیغمبر ہوں جو پیام میرے ہاتھ بھیجا گیا وہ پہنچا رہا ہوں۔ اس سے زائد کا نہ مجھے علم نہ اختیار۔ یہ علم خدا ہی کو ہے کہ منکر قوم کس وقت دنیاوی سزا کی مستوجب ہوتی ہے اور کس وقت تک اسے مہلت ملنی چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب انہوں نے اس کو دیکھا کہ ایک ابر ان کی وادیوں کی طرف چلا آرہا ہے ، تو وہ بولے یہ ہم پر ایک بارش لانے والا بادل ہے (نہیں) بلکہ یہ وہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے ، ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی سامنے سے بادل اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ سمجھے کہ سب ندی نالے بھر جائیں گے۔ کہنے لگے کہ بہت برساؤ گھٹا اٹھی ہے اب کام بن جائے گا۔ اس وقت طویل خشک سالی کی وجہ سے پانی کی بہت ضرورت تھی۔

بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖ:یہ برساؤ بادل نہیں بلکہ عذاب الٰہی کی آندھی ہے و ہی جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ تہس نہس کر دے گی ہر شے کو اپنے رب کے حکم سے ، پس (ان کا یہ حال ہو گیا کہ) ان کے مکانوں کے سوا کچھ نہ دکھائی دیتا تھا، اسی طرح ہم مجرم لوگوں کو بدلہ دیا کرتے تھے۔ (۲۵)

تشریح: سات رات اور آٹھ دن مسلسل ہوا کا وہ غضب ناک طوفان چلا جس کے سامنے درخت، آدمی اور جانوروں کی حقیقت تنکوں سے زیادہ نہ تھی۔ ہر چیز ہوا نے اکھاڑ پھینکی اور چاروں طرف تباہی نازل ہو گئی۔ آخر مکانوں کے کھنڈرات کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ دیکھ لیا! اللہ کے مجرموں کا حال یہ ہوتا ہے۔ چاہیے کہ ان واقعات کو سن کر ہوش میں آؤ۔ ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے انہیں ان (باتوں) میں اس قدر قدرت دی تھی کہ تمہیں اس پر اس قدر قدرت نہیں دی، اور ہم نے ان کو دئیے کان، اور آنکھیں اور دل، تو نہ ان کے کان، اور نہ ان کی آنکھیں، اور نہ ان کے دل ان کے کچھ بھی کام آئے ، جب وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا، اور ان کو اس (عذاب) نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی مال، اولاد، جتھے ، اور جسمانی طاقت جو ان کو دی گئی تھی، تم کو نہیں دی گئی۔ مگر جب عذاب آیا، کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر تم کس بات پر مغرور ہو۔

وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّأَبْصَارًا وَّأَفْئِدَۃً:نصیحت سننے کے لیے کان اور قدرت کی نشانیاں دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سمجھنے بوجھنے کے لیے دل دیے گئے تھے۔ پر وہ کسی قوت کو کام میں نہ لائے۔ اندھے ، بہرے اور پاگل بن کر پیغمبروں کے مقابل ہو گئے۔ آخر انجام یہ ہوا کہ یہ قوتیں سب موجود ہیں اور عذاب الٰہی نے آ گھیرا۔ کوئی اندرونی یا بیرونی قوت اس کو دفع نہ کر سکی۔ جس عذاب کی ہنسی اڑایا کرتے تھے وہ ان پر واقع ہوا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ان کو دل اور کان اور آنکھ دی تھی۔ یعنی دنیا کے کام میں عقلمند تھے۔ وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت بھی درست ہو۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے ہلاک کر دیا تمہارے اردگرد کی بستیاں، اور ہم نے بار بار اپنی نشانیاں دکھائیں تاکہ وہ لوٹ آئیں۔ (۲۷)

تشریح: یعنی ”عاد” کے سوا ”قوم ثمود” اور ”قوم لوط” وغیرہ کی بستیاں بھی اسی طرح تباہ کی جا چکی ہیں۔ جو تمہارے آس پاس واقع تھیں۔ یہ مکہ والوں کو فرمایا کیونکہ سفروں میں ان کا گزر ان مقامات کی طرف ہوتا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر انہوں نے کیوں نہ ان کی مدد کی جنہیں انہوں نے بنا لیا تھا اللہ کا قرب حاصل کرنے کو اللہ کے سوا معبود، بلکہ وہ ان سے غائب ہو گئے اور یہ ان کا بہتان تھا جو وہ افترا کرتے (گھڑتے تھے )۔ (۲۸)

تشریح: یعنی جن بتوں کی نسبت کہا کرتے تھے کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے نزدیک کر دیں اور بڑے بڑے درجے دلائیں وہ اس آڑے وقت میں کیوں کام نہ آئے۔ اب ذرا ان کو بلایا ہوتا۔ آج ان کا کہیں پتہ نہیں۔ نہ عذاب کے وقت ان کو پکارا جاتا ہے آخر وہ گئے کہاں جو ایسی مصیبت میں بھی کام نہیں آتے۔

ظاہر ہوا کہ بتوں کو خدا بنانا اور ان سے امیدیں قائم کرنا، محض جھوٹی اور من گھڑت باتیں تھیں۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے پھر وہ چلے کیسے۔ (ربط) اوپر کی آیات میں انسانوں کے تمرد وسرکشی کی داستان تھی۔ آگے اس کے مقابل جنوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا حال سناتے ہیں۔ تاکہ معلوم ہو کہ جو قوم طبعی طور پر سخت متمرد اور سرکش واقع ہوئی ہے اس کے بعض افراد کس طرح اللہ کا کلام سن کر موم ہو جاتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ہم آپ کی طرف جنات کی ایک جماعت پھیر لائے ، وہ قرآن سنتے تھے ، پس وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے (ایک دوسرے کو) کہا چپ رہو، پھر جب پڑھنا تمام ہوا تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈر سناتے ہوئے لوٹے۔ (۲۹)

تشریح: حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے انسانوں کے علاوہ جنات کے لئے بھی پیغمبر بنایا تھا، چنانچہ یہ واقعہ جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے ، اس وقت پیش آیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف والوں کو تبلیغ فرمانے اور ان سے دکھ اٹھانے کے بعد مکہ مکرمہ واپس تشریف لے جا رہے تھے ، راستے میں ایک مقام کا نام نخلہ ہے وہاں آپ نے قیام فرمایا اور فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کی، اس وقت جنات کی ایک جماعت وہاں سے گزر رہی تھی، اس نے یہ کلام سنا تو وہ اسے سننے کے لئے رک گئے ، اور توجہ سے سننے کے لئے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کی، قرآن کریم کا پُر اثر کلام، اور فجر کے وقت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی، اس نے ان جنات پر ایسا اثر کیا کہ وہ اپنی قوم کے پاس بھی اسلام کے داعی بن کر پہنچے اور پھر ان کے کئی وفود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف اوقات میں آئے ، آپ نے ان کی تبلیغ اور تعلیم کا فریضہ انجام دیا، جن راتوں میں جنات سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ہر ایک کو لیلۃ الجن کہا جاتا ہے ، اور ان میں سے بعض راتوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے ، جنات کے اسلام قبول کرنے کی مزید تفصیل انشاءاللہ سورۂ جن میں آئے گی۔

(توضیح القرآن)

 

انہوں نے کہا کہ اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو نازل کی گئی ہے موسیٰ کے بعد، اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی، وہ رہنمائی کرنے والی (دین) حق کی طرف، اور راہِ راست کی طرف۔ (۳۰)

تشریح: کتب سابقہ میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی کتاب (تورات) کے برابر کوئی کتاب احکام و شرائع کو حاوی نہیں تھی۔ اسی پر انبیائے بنی اسرائیل کا عمل رہا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی یہ ہی فرمایا کہ میں تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کے لیے آیا ہوں۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت سے جنوں میں تورات ہی مشہور چلی آتی تھی۔ اس لیے اس موقع پر انہوں نے اسی کی طرف اشارہ کیا۔ خود تورات میں بھی جو پیشین گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آئی ہے اس کے لفظ یہ ہیں کہ (اے موسیٰ) ”تیرے مانند ایک نبی اٹھاؤں گا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے (کی بات) قبول کر لو، اور اس پر ایمان لے آؤ (اللہ) تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا، اور وہ تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔ (۳۱)

تشریح: یعنی اس کی بات مانو جو اللہ کی طرف بلا رہا ہے اور اس کی رسالت پر یقین کرو۔ جو گناہ حالت کفر میں کر چکے ہو، اسلام کی برکت سے سب معاف ہو جائیں گے۔ آئندہ سے نیا کھاتہ شروع ہو گا۔ لیکن یاد رہے کہ یہاں ذنوب کا ذکر ہے۔ حقوق العباد کا معاف ہونا اس سے نہیں نکلتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو اللہ کی طرف بلانے والے (کی بات) کو قبول نہ کرے گا وہ زمین میں (اللہ) کو عاجز کرنے والا نہیں، اور اس (اللہ) کے سوا اس کے لئے کوئی حمایتی نہیں، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۳۲)

تشریح: یعنی نہ خود بھاگ کر خدا کی مار سے بچ سکے نہ کوئی دوسرا بچا سکے ، حضرت شاہ صاحب ”فی الارض” کی قید پر لکھتے ہیں کہ ” (شیاطین کو) اوپر سے فرشتے مارتے ہیں تو زمین ہی کو بھاگتے ہیں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا ؟کہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا، اور وہ ان کے پیدا کرنے سے نہیں تھکا، وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ہاں! بے شک وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۳۳)

تشریح: اس لفظ میں ”یہود” کے عقیدے کا رد ہے جو کہتے تھے کہ چھ دن میں اللہ نے زمین و آسمان پیدا کیے۔ ”ثم استراح” (پھر ساتویں دن آرام کرنے لگا) العیاذ باللہ۔

بِقَادِرٍ عَلٰی أَنْ يُّحْيِيَ الْمَوْتٰى :بڑا عذاب مرنے کے بعد ہو گا اور اس دھوکے میں نہ رہیں کہ مر کر کہاں زندہ ہوتے ہیں۔ اللہ کو یہ کچھ مشکل نہیں۔ جو آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے نہ تھکا، اس کو تمہارا دوبارہ پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن کافر (جہنم) کے سامنے پیش کئے جائیں گے (پوچھا جائے گا) کیا یہ حق (امر واقعی) نہیں؟ وہ کہیں گے ہمارے رب کی قسم ہاں (یہ حق ہے ) اللہ تعالی فرمائے گا، پس تم عذاب چکھو جس کا تم انکار کرتے تھے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ دوزخ کا وجود اس کا عذاب کیا واقعی چیز نہیں؟آخر سب ذلیل ہو کر اقرار کریں گے کہ بیشک واقعی ہے۔ (ہم غلطی پر تھے جو اس کا انکار کیا کرتے تھے ) ، اس وقت کہا جائے گا کہ اچھا اب اس انکار و تکذیب کا مزہ چکھتے رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ صبر کریں جیسے اولوالعزم (با ہمت) رسولوں نے صبر کیا، اور ان کے لئے (عذاب کی) جلدی نہ کریں گویا کہ وہ جس دن دیکھیں گے (وہ عذاب) جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے (انہیں ایسا معلوم ہو گا) کہ وہ دنیا میں صرف دن کی ایک گھڑی ٹھہرے تھے (یہ پیغام) پہنچانا ہے ، پس ہلاک نہ ہوں گے مگر نافرمان لوگ۔ (۳۵)

تشریح: یعنی جب معلوم ہو چکا کہ منکرین کو سزا ضرور ملتی ہے۔ آخرت میں ملے یا دنیا میں بھی، تو آپ ان کے معاملہ میں جلدی نہ کریں۔ بلکہ ایک میعادِ معین تک صبر کرتے رہیں، جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔

(تنبیہ) بعض سلف نے کہا کہ سب رسول اولوالعزم (ہمت والے ) ہیں، اور عرف میں پانچ پیغمبر خصوصی طور پر اولوالعزم کہلاتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت عیسٰی علیہ السلام، اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

کَأَنَّہُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ: یعنی آخرت میں پہنچ کر جب وہ عذاب سامنے آئے گا جس سے انہیں مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا تھا، تو اس کی شدت دیکھ کر انہیں دنیا کی ساری زندگی اتنی مختصر محسوس ہو گی جیسے وہ صرف ایک دن کا کوئی حصہ ہو۔

(توضیح القرآن)

 

بَلَاغٌ     فَہَلْ يُہْلَکُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ :یعنی ہم نے نصیحت کی بات پہنچا دی اور سب نیک و بد سمجھا دیا۔ اب جو نہ مانیں گے و ہی تباہ و برباد ہوں گے۔ ہماری طرف سے حجت تمام ہو چکی، اور کسی کو بے قصور ہم نہیں پکڑتے ، اسی کو غارت کرتے ہیں جو غارت ہونے ہی پر کمر باندھ لے۔ تم سورۃ الاحقاف بفضل اللہ وحسن توفیقہ۔ وللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۴۷۔ سُوْرَۃُ مُحَمَّدٍ

 

                تعارف

 

یہ سورت مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں، اور بیشتر مفسرین کی رائے میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی، یہ وہ وقت تھا جب عرب کے کفار مدینہ منورہ کی ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کو کسی نہ کسی طرح زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے ، اور اس پر حملے کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے ، اس لئے اس سورت میں بنیادی طور پر جہاد و قتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، اور جو لوگ اللہ تعالی کے دین کا کلمہ بلند رکھنے کے لئے جہاد کرتے ہیں، ان کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے ، مدینہ منورہ میں ایک بڑی تعداد ان منافقوں کی تھی جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے ، لیکن دل سے وہ کافر تھے ، ایسے لوگوں کے سامنے جب جہاد اور لڑائی کی بات کی جاتی تو اپنی بزدلی اور دل کے کھوٹ کی وجہ سے لڑائی سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے تھے ، اس سورت میں ان کی مذمت کر کے ان کا بُرا انجام بتایا گیا ہے ، جنگ کے دوران جو قیدی گرفتار ہوں ان کے احکام بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، چونکہ اس سورت کی دوسری ہی آیت میں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام لیا گیا ہے ، اس لئے اس کا نام سورۂ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے ، چونکہ اس میں جہاد و قتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں اس لئے اس کو سورۂ قتال بھی کہا جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات۳۸         رکوعات:۴

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

جو لوگ کافر ہوئے اور انہوں نے اللہ کے راستے سے روکا، ان کے اعمال (اللہ نے ) اکارت کر دئیے۔ (۱)

تشریح: کافر لوگ جو کوئی اچھے کام دنیا میں کرتے ہیں، جیسے غریبوں کی امداد وغیرہ، اس کا بدلہ اللہ تعالی انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں، لیکن آخرت میں ثواب حاصل کرنے کے لئے ایمان شرط ہے ، اس لئے آخرت کے لحاظ سے وہ اعمال اکارت چلے جاتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

یعنی جن اعمال کو وہ نیک سمجھ رہے ہیں بوجہ عدم ایمان کے وہ مقبول نہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض کام اور الٹے موجب عتاب ہوتے ہیں۔ جیسے لوگوں کو اسلام سے روکنے میں پیسہ خرچ کرنا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے ، اس (اللہ) نے ان سے ان کے گناہ دور کر دئیے ، اور ان کا حال درست کر دیا۔ (۲)

تشریح: یعنی برائیوں کی عادت چھڑا کر اللہ تعالیٰ ان کا حال سنوار دیتا ہے کہ یوماً فیوماً نیکی میں ترقی کرتے رہتے ہیں۔ اور آخرت میں ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر اچھے حال میں رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”پہلے زمانہ میں ساری مخلوق ایک شریعت کی مکلف نہ تھی۔ اس وقت سب جہان کو ایک حکم ہے ، اب سچا دین یہی ہے اور برے بھلے کام مسلمان بھی کرتے ہیں اور کافر بھی، لیکن سچا دین ماننے کو یہ قبولیت ہے کہ نیکی ثابت اور برائی معاف، اور نہ ماننے کی یہ سزا ہے کہ نیکی برباد گناہ لازم۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہوا کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی، اور یہ کہ جو لوگ ایمان لائے ، انہوں نے اپنے رب کی طرف سے حق کی پیروی کی، اسی طرح اللہ لوگوں کے لئے ان کی مثالیں (احوال ) بیان کرتا ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی اس طرح کھول کھول کر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے بھلے برے احوال پر متنبہ کرتا ہے۔ تاکہ باطل پرستی کی نحوست و شامت اور حق پرستی کی برکت ان کو پوری طرح ذہن نشین ہو جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ ت ان کی گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب ان کی خونریزی کر چکو تو ان کی قید مضبوط کر لو (مشکیں کس لو) پس اس کے بعد یا احسان کر دو (بلا معاوضہ رہا کر دو) یا معاوضہ (لے کر چھوڑ دو) یہاں تک کہ لڑنے والے اپنے ہتھیار (ڈال دیں) یہ ہے (حکم الہی ) اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے ضرور انتقام لیتا، لیکن (وہ چاہتا ہے ) کہ تم میں سے بعض (ایک) کو دوسرے سے آزمائے ، اور جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے گئے تو وہ ان کے عمل ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (۴)

تشریح: جنگ بدر میں ستر آدمی گرفتار ہوئے تھے ، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اکثریت کے مشورے سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا تھا، ان پر سورۂ انفال (۸۔ ۲۲، ۲۳) میں اللہ تعالی نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تک کافروں کی طاقت اچھی طرح کچلی نہیں جاتی، اس وقت تک قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا صحیح فیصلہ نہیں تھا، کیونکہ ان حالات میں دشمنوں کو چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی طاقت کو اور مضبوط کیا جائے ، سورۂ انفال کی ان آیتوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا کہ شاید آئندہ بھی جنگی قیدیوں کو چھوڑ نا جائز نہ ہو، اس آیت نے یہ وضاحت فرما دی کہ اس وقت قیدیوں کو چھوڑ نے پر اللہ تعالی نے ناراضگی کا جو اظہار فرمایا تھا وہ اس لئے کہ دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچلے بغیر انہیں رہا کر دیا گیا، لیکن جب ان کی طاقت کچلی جاچکی ہو تو اس وقت انہیں چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور مسلمان حاکم کے لئے دونوں صورتیں جائز ہیں چاہے کوئی فدیہ یعنی معاوضہ لئے بغیر احسان کے طور پر انہیں چھوڑ دیا جائے یا کوئی فدیہ لے کر چھوڑا جائے ، چنانچہ اس آیت کی روشنی میں اسلامی حکومت کو چارقسم کے اختیار حاصل ہیں، ایک یہ کہ قیدیوں کو بلا معاوضہ احسان کے طور پر چھوڑ دے ، دوسرے یہ کہ ان سے کوئی فدیہ یا معاوضہ لے کر چھوڑے جس میں جنگی قیدیوں کا تبادلہ بھی داخل ہے ، تیسرے یہ کہ اگر ان کو زندہ چھوڑنے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ مسلمانوں کے لئے خطرہ بنیں گے تو انہیں قتل کرنے کی بھی گنجائش ہے جیسا کے سورۂ انفال (۸۔ ۲۲، ۲۳) میں بیان فرمایا گیا ہے ، اور چوتھے یہ کہ اگر ان میں یہ صلاحیت محسوس ہو کہ وہ زندہ رہ کر مسلمانوں کے لئے خطرہ بننے کے بجائے اچھی خدمات انجام دے سکیں گے تو انہیں غلام بنا کر رکھا جائے ، ا ور ان اسلامی احکام کے مطابق رکھا جائے جو غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہیں، اور انہیں بھائیوں کا سادرجہ دیتے ہیں، ان چار صورتوں میں سے کوئی صورت لازمی نہیں ہے ، بلکہ اسلامی حکومت حالات کے مطابق کسی بھی صورت کو اختیار کرسکتی ہے ، لیکن یہ اس وقت ہے جب دشمنوں سے جنگی قیدیوں کے بارے میں کوئی معاہدہ نہ ہو، اگر کوئی ایسا معاہدہ ہو تو مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم ہے ، آج کل بین الاقوامی طور پر اکثر ملکوں نے جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ وہ قیدیوں کو نہ قتل کریں گے اور نہ غلام بنائیں گے ، جو ممالک اس معاہدے میں شریک ہیں اور جب تک شریک ہیں ان کے لئے اس کی پابندی شرعاً لازم ہے۔

حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا: اس کا مطلب یہ ہے کہ غیرمسلموں کو قتل کرنا یا گرفتار کرنا صرف حالت جنگ میں جائز ہے ، جب حالت جنگ ختم ہو گئی ہو، اور امن کا کوئی معاہدہ ہو گیا ہو تو قتل یا گرفتار کرنا جائز نہیں ہے۔

وَلَوْ يَشَآءُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ:یعنی اللہ تعالی خود براہ راست ان پر کوئی عذاب نازل کر کے ان سے انتقام لے سکتا تھا، لیکن اس نے تم پر جہاد کا فریضہ اس لئے عائد فرمایا ہے کہ تمہارا امتحان مقصود ہے کہ اللہ تعالی کے دین کی خاطر تم میں سے کون ثابت قدمی سے اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے ، اور ان کافروں کا بھی امتحان مقصود ہے کہ وہ اللہ تعالی کی نصرت دیکھ کر ایمان کی طرف مائل ہوتے ہیں یا نہیں۔

وَّالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِيْلِ اللہِ: جو لوگ جہاد میں شہید ہو جائیں ان کے بارے میں یہ خیال ہو سکتا تھا کہ وہ فتح کی منزل تک پہنچے بغیر دنیا سے چلے گئے ، اس لئے شاید ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی ہو، آیت نے واضح فرمایا کہ انہوں نے جو قربانی دی اللہ تعالی اس کو ضائع نہیں کرے گا، اور ان کو اصلی منزل یعنی جنت تک پہنچا دے گا

(توضیح القرآن)

 

وہ جلد ان کو ہدایت دے گا اور ان کا حال سنوار دے گا۔ (۵) اور انہیں جنت میں داخل کرے گا، اس نے انہیں اس سے شناسا کر دیا ہے۔ (۶)

تشریح: اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا ہی میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے مسلمانوں کو جنت کا تعارف کرا دیا ہے ، یہ جنت اسی تعارف کے مطابق ہو گی، اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن  ہے اور زیادہ تر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ ہر جنتی کو جنت میں اپنی جگہ تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی، بلکہ اللہ تعالی نے اس کی پہچان کرانے کا ایسا آسان انتظام کر رکھا ہے کہ ہر جنتی اپنی مقررہ جگہ پر کسی دشواری اور تفتیش کے بغیر بے تکلف پہنچ جائے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اے مؤمنو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم جما دے گا (تمہیں ثابت قدم کر دے گا)۔ (۷)

تشریح: یعنی جہاد میں اللہ کی مدد سے تمہارے قدم نہیں ڈگمگائیں گے اور اسلام و طاعت پر ثابت قدم رہو گے جس کے نتیجہ میں ”صراط” پر ثابت قدمی نصیب ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”اللہ چاہے تو خود ہی کافروں کو مسلمان کر ڈالے پر یہ بھی منظور نہیں کہ ”جانچنا منظور ہے۔ سو بندہ کی طرف سے کمر باندھنا اور اللہ کی طرف سے کام بنانا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے تباہی ہے اور اس (اللہ) نے ان کے عمل ضائع کر دئیے۔ (۸)

تشریح: یعنی جس طرح مومنین کے قدم جما دیے جاتے ہیں اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا دیا جاتا ہے۔ اور جیسے خدا کی طرف سے مومنین کی مدد کی جاتی ہے ، اس کے خلاف کافروں کے کام برباد کر دیے جاتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ جو اللہ نے نازل کیا انہوں نے اسے ناپسند کیا تو اس (اللہ) نے ان کے عمل اکارت کر دئیے۔ (۹)

تشریح: یعنی جب انہوں نے اللہ کی باتوں کو ناپسند کیا تو اللہ ان کے کام کیوں پسند کرے گا۔ اور جو چیز خدا کو ناپسند ہو وہ محض اکارت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں؟تو وہ دیکھ لیتے کیسا انجام ہوا؟ان سے پہلے لوگوں کا، اللہ نے ان پر تباہی ڈال دی، اور کافروں کے لئے ان کی مانند (سزا ہو گی)۔ (۱۰)

تشریح: یعنی دنیا ہی میں دیکھ لو منکروں کی کیسی گت بنی اور کس طرح ان کے منصوبے خاک میں ملا دیے گئے۔ کیا آجکل کے منکروں کو ایسی سزائیں نہیں مل سکتیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا کارساز ہے جو ایمان لائے اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں۔ (۱۱)

تشریح: یعنی اللہ مومنین صالحین کا رفیق ہے جو وقت پر ان کی مدد کرتا ہے۔ کافروں کا ایسا رفیق کون ہے۔ جو اللہ کے مقابلہ میں کام آسکے ”غزوہ احد” میں ابو سفیان نے پکارا تھا۔ لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پکارو ”اللّٰہُ مَوْلَانَا وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک اللہ داخل کرتا ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ، باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور (اس طرح) وہ کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں، اور آگ (جہنم) ان کا ٹھکانا ہے۔ (۱۲)

تشریح: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَأْكُلُوْنَ :یعنی دنیا کا سامان برت رہے ہیں اور مارے حرص کے بہائم کی طرح اناپ شناپ کھاتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ کی خبر نہیں کہ کل یہ کھایا پیا کس طرح نکلے گا۔ اچھا چند روز مزے اڑا لیں آگے ان کے لیے آگ کا گھر تیار ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بہت سی بستیاں (تھیں) ، وہ بہت ہی سخت تھیں قوت میں آپ کی بستی سے ، جن کے رہنے والوں نے آپ کو نکال دیا، ہم نے انہیں ہلاک کر دیا تو کوئی ان کا مدد کرنے والا نہ ہوا۔ (۱۳)

تشریح: مکہ مکرمہ کے کافروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گھر بار چھوڑ کر مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا، اس کی طرف اشارہ ہے ، اور فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی اس کاروائی سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ لوگ طاقتور ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آ گئے ہیں، اللہ تعالی ان سے زیادہ طاقت ور قوموں کو ہلاک کر چکا ہے ، ان کی توا ن کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس لئے آخر کار غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس کیا جو کوئی اپنے پروردگار کے روشن راستے پر ہو اس کی طرح ہے جسے اس کے بُرے عمل آراستہ کر دکھائے گئے ، اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ (۱۴)

تشریح: یعنی ایک شخص نہایت شرح صدر اور فہم و بصیرت کے ساتھ سچائی کی صاف اور کشادہ سڑک پر بے کھٹکے چلا جا رہا ہے ، اور دوسرا اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھاتا ہے ، جس کو سیاہ و سفید یا نیک و بد کی کچھ تمیز نہیں، حتیٰ کہ اپنی بد تمیزی سے برائی کو بھلائی سمجھتا ہے اور خواہشات کی پیروی میں اندھا ہو رہا ہے ، کیا ان دونوں کا مرتبہ اور انجام برابر ہو جائے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حق تعالیٰ کی شان حکومت و عدل کے منافی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جنت کی کیفیت جو پرہیزگاروں کو وعدہ کی گئی (یہ ہے ) کہ اس میں نہریں ہیں بدبو نہ کرنے والے پانی کی، نہریں ہیں دودھ کی جس کا ذائقہ متغیر ہونے (بدلنے والا) نہیں، اور نہریں ہیں شراب کی جو پینے والوں کے لئے سراسر لذت ہے ، اور نہریں ہیں مصفی (صاف کئے ہوئے ) شہد کی، اور اس میں ان کے لئے ہرقسم کے پھل ہیں، اور ان کے رب (کی طرف سے ) بخشش، (کیا وہ) اس کی طرح ہے ؟ جو ہمیشہ آگ میں رہنے والا ہے ، اور انہیں گرم (کھولتا ہوا) پانی پلایا جائے گا، جوان کی انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ (۱۵)

تشریح:  وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ :یعنی سب خطائیں معاف کر کے جنت میں داخل کریں گے وہاں پہنچ کر کبھی خطاؤں کا ذکر بھی نہ آئے گا جو ان کی کلفت کا سبب بنے۔ اور نہ آئندہ کسی بات پر گرفت ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف (کان لگا کر) سنتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو وہ اہل علم سے کہتے ہیں کہ اس (حضرت) نے ابھی کیا کہا ہے ؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے ، اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ (۱۶)

تشریح: اوپر مومنوں اور کافروں کا حال مذکور تھا۔ ایک قسم کافروں کی وہ ہے جسے منافق کہتے ہیں۔ یعنی ظاہر میں اسلام کا دعویٰ اور باطن میں اس سے انحراف۔ اس آیت میں اس کا ذکر ہے۔ یعنی یہ لوگ بظاہر پیغمبر کی بات سننے کے لیے کان رکھتے ہیں۔ مگر نہ دلی توجہ ہے نہ سمجھ، نہ یاد، جب مجلس سے اٹھ کر جاتے ہیں تو اہل علم سے کہتے ہیں کہ اس شخص (یعنی پیغمبر علیہ السلام) نے ابھی ابھی کیا بیان کیا تھا۔ شاید اس دریافت کرنے سے مقصود ادھر تعریض کرنا ہو گا کہ ان کی بات کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے نہ توجہ سے سنتے ہیں۔ ایسی نالائق حرکتوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر کر دیتا ہے۔ پھر نیکی کی توفیق قطعاً نہیں ہوتی۔ محض خواہشات کی پیروی رہ جاتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے ہدایت پائی (اللہ نے ) انہیں اور زیادہ ہدایت دی، اور انہیں عطا کی ان کی پرہیزگاری۔ (۱۷)

تشریح: یعنی سچائی کے راستہ پر چلنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی روز بروز ہدایت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی سوجھ بوجھ اور پرہیزگاری بڑھتی جاتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس وہ منتظر نہیں مگر قیامت (کی آمد) کے ، کہ ان پر اچانک آ جائے ، سو اس کی علامات تو آ چکی ہیں تو جب وہ ان کے پاس آ گئی تو انہیں نصیحت قبول کرنا کہاں (نصیب) ہو گا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی قرآن کی نصیحتیں، گذشتہ اقوام کی عبرتناک مثالیں اور جنت و دوزخ کے وعدہ و وعید سب سن چکے اب ماننے کے لیے کس وقت کا انتظار ہے۔ یہی کہ قیامت کی گھڑی ان کے سر پر اچانک آ کھڑی ہو۔ سو قیامت کی کئی نشانیاں تو آ چکیں، اور جب خود قیامت آ کھڑی ہو گی، اس وقت ان کے لیے سمجھ حاصل کرنے اور ماننے کا موقع کہاں باقی رہے گا۔ یعنی وہ سمجھنا اور ماننا بے کار ہے کیونکہ اس پر نجات نہیں ہو سکتی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النبیین کی راہ دیکھتے تھے۔ جب وہ آ چکے (مقصود تخلیق عالم کا حاصل ہو چکا) اب قیامت ہی باقی ہے۔ ” حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ” (میں اور قیامت اس طرح ہیں) گویا میں قیامت سے اتنا آگے نکل آیا ہوں جتنا بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے آگے نکلی ہوئی ہے۔ شرح صحیح مسلم میں ہم نے اس کی مفصل تقریر کی ہے۔ یہاں گنجائش نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

سوجان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ بخشش مانگیں اپنے اوپر لگائے گئے الزام کے لئے ، اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے لئے ، اور اللہ جانتا ہے تمہارا چلنا پھرنا اور تمہارے رہنے سہنے کے مقام کو۔ (۱۹)

تشریح: ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدودِ جواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ ”حسنات الابرار سیأت المقربین” کے یہی معنی ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) ایک سورۃ کیوں نہ اتاری گئی ؟ سو جب صاف صاف معانی والی سورۃ اتاری جاتی ہے اور ذکر کیا جاتا ہے اس میں جنگ کا، تو تم دیکھو گے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے ، وہ آپ کی طرف دیکھتے ہیں (اس شخص کے ) دیکھنے کی طرح بیہوشی طاری ہو گئی ہو جس پر موت کی، سو خرابی ہے ان کے لئے۔ (۲۰)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”مسلمان سورت مانگتے تھے یعنی کافروں کی ایذاء سے عاجز ہو کر آرزو کرتے کہ اللہ جہاد کا حکم دے تو جو ہم سے ہو سکے کر گزریں۔ جب جہاد کا حکم آیا تو منافق اور کچے لوگوں پر بھاری ہوا، خوفزدہ اور بے رونق آنکھوں سے پیغمبر کی طرف دیکھنے لگے کہ کاش ہم کو اس حکم سے معاف رکھیں۔ بیحد خوف میں بھی آنکھ کی رونق نہیں رہتی۔ جیسے مرتے وقت آنکھوں کا نور جاتا رہتا ہے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

(صحیح تو یہ تھا کہ وہ) اطاعت کرتے اور معقول بات کہتے ، پھر جب کام پختہ ہو جاتا تو اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے ہوتے ت البتہ ان کے لئے بہتر ہوتا۔ (۲۱)

تشریح: یعنی ظاہر میں یہ لوگ فرمانبرداری کا اظہار اور زبان سے اسلام و احکام اسلام کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر کام کی بات یہ ہے کہ عملاً خدا و رسول کا حکم مانیں اور بات اچھی اور معقول کہیں، پھر جب جہاد وغیرہ میں کام کی تاکید اور زور آ پڑے اس وقت اللہ کے سامنے سچے ثابت ہوں تو یہ صورت ان کی بہتری اور بھلائی کی ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

سوتم تو اس کے نزدیک ہو کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ، تو تم فساد مچاؤ زمین میں، اور اپنے رشتے توڑ ڈالو۔ (۲۲)

تشریح: یعنی حکومت و اقتدار کے نشہ میں لوگ عموماً اعتدال و انصاف پر قائم نہیں رہا کرتے۔ دنیا کی حرص اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر جاہ و مال کی کشمکش اور غرض پرستی میں جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ جن کا آخری نتیجہ ہوتا ہے عام فتنہ و فساد اور ایک دوسرے سے قطع تعلق۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یعنی جان سے تنگ ہو کر جہاد کی آرزو کرتے ہو اور اگر اللہ تم ہی کو غالب کر دے تو فساد نہ کرنا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، پھر انہیں بہرا کر دیا اور اندھا کر دیا ان کی آنکھوں کو۔ (۲۳)

تشریح: یعنی حکومت کے غرور میں اندھے بہرے ہو کر ظلم کرنے لگے۔ پھر کسی کا سمجھایا نہ سمجھے۔ خدا کی پھٹکار نے بالکل ہی سنگدل بنا دیا۔ اور یہ سب کچھ ان ہی کے سوء اختیار اور قصور استعداد سے ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟کیا ان کے دلوں پر تالے (پڑے ہیں) ؟ (۲۴)

تشریح: یعنی منافق قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کی شرارتوں کی بدولت دلوں پر قفل پڑ گئے ہیں کہ نصیحت کے اندر جانے کا راستہ ہی نہیں رہا۔ اگر قرآن کے سمجھنے کی توفیق ملتی تو باآسانی سمجھ لیتے کہ جہاد میں کس قدر دنیاوی و اخروی فوائد ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ اپنی پشت پھیر کر پلٹ گئے اس کے بعد جبکہ ان کے لئے ہدایت واضح ہو گئی، شیطان نے ان کے لئے آراستہ کر دکھایا، اور ان کو ڈھیل دی۔ (۲۵)

تشریح: یعنی منافقین اسلام کا اقرار کرنے اور اس کی سچائی ظاہر ہو چکنے کے بعد وقت آنے پر اپنے قول و قرار سے پھرے جاتے ہیں۔ اور جہاد میں شرکت نہیں کرتے۔ شیطان نے ان کو یہ بات سجھا دی ہے کہ لڑائی میں نہ جائیں گے تو دیر تک زندہ رہیں گے۔ خواہ مخواہ جا کر مرنے سے کیا فائدہ۔ اور نہ معلوم کیا کچھ سجھاتا اور دور دراز کے لمبے چوڑے وعدے دیتا ہے۔ ”وما یعدہم الشیطان الاغرورًا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے کہ انہوں نے ان لوگوں سے کہا جنہوں نے اس (کتاب) کو ناپسند کیا ہے جو اللہ نے نازل کی کہ عنقریب ہم تمہارا کہنا مان لیں گے بعض کاموں (باتوں) میں، اور اللہ ان کی خفیہ باتوں کو جانتا ہے۔ (۲۶)

تشریح: منافقوں نے یہود وغیرہ سے کہا کہ گو ہم ظاہر میں مسلمان ہو گئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ ہرگز تم سے نہ لڑیں گے بلکہ موقع ملا تو تم کو مدد دیں گے اور اس قسم کے کاموں میں تمہاری بات مانیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس کیسا (حال ہو گا) جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے (اور ) مارتے ہوں گے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر۔ (۲۷)

تشریح: یعنی اس وقت موت سے کیونکر بچیں گے۔ بیشک اس وقت نفاق کا مزہ چکھیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے اس کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کیا اور انہوں نے اس کی رضا کو پسند نہ کیا، تو اس (اللہ) نے ان کے اعمال اکارت کر دئیے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی اللہ کی خوشنودی کا راستہ پسند نہ کیا۔ اسی راہ چلے جس سے وہ ناراض ہوتا تھا۔ اس لیے موت کے وقت ہی بھیانک سماں دیکھنا پڑا۔ اور اللہ نے ان کے کفرو طغیان کی بدولت سب عمل بیکار کر دیے۔ کسی عمل نے ان کو دوسری زندگی میں فائدہ نہ پہنچایا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ ہرگز ظاہر نہ کرے گا ان کی دلی عداوتوں کو۔ (۲۹)

تشریح: یعنی منافقین اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جو حاسدانہ عداوتیں اور کینے رکھتے ہیں، کیا یہ خیال ہے کہ وہ دلوں میں پنہاں ہی رہیں گے ؟ اللہ ان کو طشت از بام نہ کرے گا؟ اور مسلمان ان کے مکر و فریب پر مطلع نہ ہوں گے ؟ ہرگز نہیں۔ ان کا خبث باطن ضرور ظاہر ہو کر رہے گا اور ایسے امتحان کی بھٹی میں ڈالے جائیں گے جہاں کھوٹا کھرا بالکل الگ ہو جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم چاہیں تمہیں ان لوگوں کو دکھا دیں، سو البتہ تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان لو گے اور تم ضرور انہیں ان کے طرزِ کلام سے پہچان لو گے اور اللہ تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔ (۳۰)

تشریح: یعنی اللہ چاہے تو تمام منافقین کو باشخاصہم معین کر کے آپ کو دکھلا دے ، اور نام بنام مطلع کر دے کہ مجمع میں فلاں فلاں آدمی منافق ہیں، مگر اس کی حکمت بالفعل اس دو ٹوک اظہار کو مقتضی نہیں۔ ویسے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ درجہ کا نورِ فراست دیا ہے کہ ان کے چہرے بشرے سے آپ پہچان لیتے ہیں۔ اور آگے چل کر ان لوگوں کے طرز گفتگو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید شناخت ہو جائے گی۔ کیونکہ منافق اور مخلص کی بات کا ڈھنگ الگ الگ ہوتا ہے ، جو زور، شوکت، پختگی اور خلوص کا رنگ مخلص کی باتوں میں جھلکتا ہے ، منافق کتنی ہی کوشش کرے اپنے کلام میں پیدا نہیں کر سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے ، یہاں تک کہ ہم معلوم کر لیں تم میں سے ( کون ہیں) مجاہد اور صبر کرنے والے ، اور ہم جانچ لیں تمہارے حالات۔ (۳۱)

تشریح: یعنی جہاد وغیرہ کے احکام سے آزمائش مقصود ہے۔ اسی سخت آزمائش میں کھلتا ہے کہ کون لوگ اللہ کے راستہ میں لڑنے والے اور شدید ترین امتحانات میں ثابت قدم رہنے والے ہیں اور کون ایسے نہیں۔

ہر ایک کے ایمان اور اطاعت و انقیاد کا وزن معلوم ہو جائے اور سب کے اندرونی احوال کی خبریں عملاً محقق ہو جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اور انہوں نے رسول کی مخالفت کی اس کے بعد جبکہ ان پر ہدایت واضح ہو گئی، وہ ہرگز اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اور وہ (اللہ) جلد ان کے اعمال اکارت کر دے گا۔ (۳۲)

تشریح: یعنی اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، اللہ کا کیا نقصان ہے۔ نہ اس کے دین اور پیغمبر کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ وہ قدرت والا ان کے سارے منصوبے غلط اور تمام کام اکارت کر دے گا اور سب کوششیں خاک میں ملا دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے مؤمنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال باطل نہ کرو۔ (۳۳)

تشریح: یعنی جہاد، یا اللہ کی راہ میں اور کوئی محنت و ریاضت کرنا اس وقت مقبول ہے جب اللہ و رسول کے حکم کے موافق ہو۔ محض اپنی طبیعت کے شوق یا نفس کی خواہش پر کام نہ کرو۔ ورنہ ایسا عمل یوں ہی بیکار ضائع جائے گا۔ مسلمان کا کام نہیں کہ جو نیک کام کر چکا یا کر رہا ہے اس کو کسی صورت سے ضائع ہونے دے۔ نیک کام کو نہ بیچ میں چھوڑو، نہ ریاء و نمود اور اعجاب و غرور وغیرہ سے ان کو برباد کرو۔ بھلا ارتداد کا تو ذکر کیا ہے جو ایک دم تمام اعمال کو حبط کر دیتا ہے۔ العیاذ باللہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، پھر وہ کافر (کفر ہی کی حالت میں) مر گئے تو اللہ ہرگز نہ بخشے گا ان کو۔ (۳۴)

تشریح: یعنی کسی کافر کی اللہ کے ہاں بخشش نہیں۔ خصوصاً ان کافروں کی جو دوسروں کو خدا کے راستہ سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تم سستی (کم ہمتی) نہ کرو اور (خود) صلح کی طرف نہ بلاؤ، اور تم ہی غالب رہو گے ، اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز کمی نہ کرے گا تمہارے اعمال میں۔ (۳۵)

تشریح: یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے مقابلہ میں سست اور کم ہمت نہ بنیں اور جنگ کی سختیوں سے گھبرا کر صلح کی طرف نہ دوڑیں۔ ورنہ دشمن شیر ہو کر دباتے چلے جائیں گے ، اور جماعت اسلام کو مغلوب و رسوا ہونا پڑے گا۔ ہاں کسی وقت اسلام کی مصلحت اور اہل اسلام کی بھلائی صلح میں نظر آئے تو اس وقت صلح کر لینے میں مضائقہ نہیں جیسا کہ آگے سورہ ”فتح” میں آتا ہے۔ بہرحال صلح کی بناء اپنی کم بختی اور نامردی پر نہ ہونی چاہیے۔

گھبرانے کی کچھ بات نہیں، اگر صبر و استقلال دکھاؤ گے اور خدا کے احکام پر ثابت قدم رہو گے تو خدا تمہارے ساتھ ہے وہ تم کو آخرکار غالب کرے گا اور کسی حالت میں بھی تم کو نقصان اور گھاٹے میں نہ رہنے دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں دنیا کی زندگی (محض) کھیل کود ہے اور تم اگر ایمان لے آؤ، اور تقوی اختیار کرو، تو وہ تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہ کرے گا۔ (۳۶)

تشریح: یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت ایک کھیل تماشا جیسی ہے۔ اگر تم ایمان و تقویٰ اختیار کرو گے اور اس کھیل تماشہ سے ذرا بچ کر چلو گے تو اللہ تم کو اس کا پورا بدلہ دے گا اور تمہارا مال بھی تم سے طلب نہیں کرے گا۔ اسے کیا حاجت ہے۔ وہ تو خود دینے والا ہے کما قال ‘مَااُرِیْدُ مِنْہُمْ مِنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُونِ اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیّْنُ” (ذاریات، رکوع:۳’آیت ٥٧’٥٨) اگر طلب بھی کرے تو مالک حقیقی وہ ہے تمام مال اس کا ہے۔ مگر اس کے باوجود دین کے معاملہ میں جب خرچ کرنے کو کہتا ہے تو سارے مال کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ ایک تھوڑا سا حصہ طلب کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے لیے نہیں بلکہ تمہارے فائدہ کو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”حق تعالیٰ نے ملک فتح کرا دیے مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن (اپنی گرہ سے ) پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ پھر جتنا خرچ کیا تھا اس سے سو گنا ہاتھ لگا۔ اس مطلب سے (قرآن کریم میں کئی جگہ) فرمایا ہے کہ اللہ کو قرض دو۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اگر وہ تم سے مال طلب کرے اور تم سے چمٹ جائے (طلب ہی کرتا رہے ) تو تم بخل کرو، اور ظاہر ہو جائیں تمہاری (دلی) عداوتیں۔ (۳۷)

تشریح: یعنی اگر اللہ تعالیٰ سختی کے ساتھ کل مال طلب کرنے لگے جو تم کو دے رکھا ہے تو کتنے مردان خدا ہیں جو کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے اس حکم پر لبیک کہیں گے۔ اکثر تو وہی ہوں گے جو بخل اور تنگدلی کا ثبوت دیں گے مال خرچ کرنے کے وقت ان کے دل کی خفگی باہر ظاہر ہو جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہاں! تم ہی وہ لوگ ہو تمہیں پکارا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو، پھر تم میں سے کوئی ایسا ہے جو بخل کرتا ہے ، اور جو بخل کرتا ہے تو اس کے سوا نہیں کہ وہ اپنے آپ سے بخل کرتا ہے ، اور اللہ بے نیاز ہے ، اور تم (خود اس کے ) محتاج ہو اور اگر تم روگردانی کرو گے تو وہ تمہارے سوا (تمہاری جگہ) کوئی دوسری قوم بدل دے گا اور وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے۔ (۳۸)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ یعنی ”مال خرچ کرنے کی جو تاکید سنتے ہو یہ نہ سمجھو کہ اللہ یا اس کا رسول مانگتا ہے۔ نہیں یہ تمہارے بھلے کو فرماتا ہے۔ پھر ایک کے ہزار ہزا ر پاؤ گے۔ ورنہ اللہ کو اور اس کے رسول کو کیا پروا ہے۔

اللہ تعالیٰ جس حکمت و مصلحت سے بندوں کو خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اس کا حاصل ہونا کچھ تم پر منحصر نہیں۔ فرض کیجیے تم اگر بخل کرو اور اس کے حکم سے روگردانی کرو گے وہ تمہاری جگہ کوئی دوسری قوم کھڑی کر دے گا۔ جو تمہاری طرح بخیل نہ ہو گی بلکہ نہایت فراخ دلی سے اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی راہ میں خرچ کرے گی۔ بہرکیف اللہ کی حکمت و مصلحت تو پوری ہو کر رہے گی۔ ہاں تم اس سعادت سے محروم ہو جاؤ گے۔ حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ”اس کی قوم ”اور فرمایا” خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔ ”الحمد للہ صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بے نظیر ایثار اور جوش ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علم اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔ رضی اللہ عنہ وارضاء۔ تم سورۃ ”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بتوفیقہ واعانتہ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۴۸۔سُوْرَۃُالْفَتْحِ

 

                تعارف

 

 

یہ سورت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا فرمائیں ،آپ نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں اپنے صحابہ کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں، چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ،جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ قریش کے مشرکین نے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے ،اس خبر کے ملنے پر آپ نے اپنی پیش قدمی روک دی ،اور مکہ مکرمہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، (یہ جگہ آج کل شمیسی کہلاتی ہے) وہاں سے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا ایلچی بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ وہاں کے سرداروں کو بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں، وہ صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں اور عمرہ کر کے پر امن طور پر واپس چلے جائیں گے ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ گئے تو ان کے جانے کے کچھ ہی بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ مکرمہ کے کافروں نے انہیں قتل کر دیا ہے ،اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع کر کے ان سے یہ بیعت لی،(یعنی ہاتھ میں ہاتھ لے کر یہ عہد لیا) کہ اگر کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو وہ ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خزاعہ کے ایک سردار کے ذریعے قریش کے سرداروں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ایک مدت تک جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہیں تو آپ ا س کے لئے تیار ہیں، جواب میں مکہ مکرمہ سے کئی ایلچی آئے ،اور آخر کار ایک معاہدہ لکھا گیا ،جس میں محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ طے ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش آئندہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ نہیں کریں گے،(سیرت ابن ہشام ۲:۳۱۷ و فتح الباری ۸۔۲۸۳)اسی معاہدے کو صلح حدیبیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے،صحابہ کرام اس موقع پر کافروں کے طرز عمل سے بہت غم و غصے کی حالت میں تھے ،اور کافروں نے صلح کی یہ شرط رکھی تھی کہ اس وقت مسلمان واپس مدینہ منورہ چلے جائیں اور اگلے سال آ کر عمرہ کریں ،تمام صحابہ احرام باندھ کر آئے تھے ،اور کافروں کی ضد کی وجہ سے  احرام کھولنا ا ن کو بہت بھاری معلوم ہو رہا تھا، اس کے علاوہ کافروں نے ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ   اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسے واپس مکہ مکرمہ بھیجیں،اور اگر کوئی شخص مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش کے ذمے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اسے واپس مدینہ منورہ بھیجیں،یہ شرط بھی مسلمانوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھی ،اور ا س کی وجہ سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بجائے ان کافروں سے ابھی ایک فیصلہ کن معرکہ ہو جائے،لیکن اللہ تعالی کو یہ منظور تھا کہ اسی صلح کے نتیجے میں آخر کار قریش کا اقتدار ختم ہو ،ا س لئے اللہ تعالی کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط منظور کر لیں،صحابہ کرام اس وقت جہاد کے جوش سے سرشار تھے اور موت پر بیعت کر چکے تھے ؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے آگے انہوں نے سر جھکا دیا اور صلح پر راضی ہو کر واپس مدینہ منورہ چلے گئے ،اور اگلے سال عمرہ کیا، ا س کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) تھا ،مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے مطابق انہیں واپس بھیج دیا، انہوں نے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے ایک درمیانی جگہ پڑاؤ ڈال کر قریش کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کر دی، کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پابند نہیں تھے ،اس چھاپہ مار جنگ سے قریش اتنے پریشان ہوئے کہ خود انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ اب ہم وہ شرط واپس لیتے ہیں جس کی رو سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو واپس بھیجنا ضروری قرار دیا گیا تھا، قریش نے کہا کہ اب جو کوئی مسلمان ہو کر آئے تو آپ اسے مدینہ منورہ ہی میں رکھیں ،اور ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیں ،چنانچہ آپ نے انہیں مدینہ منورہ بلا لیا، دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قریش کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام بھیجا کہ یا تو وہ اس کی تلافی کریں یا معاہدہ ختم کریں ،قریش نے اس وقت غرور میں آ کر کوئی بات نہ مانی، جس کی وجہ سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پیغام بھیج دیا کہ اب ہمارا آپ کا معاہدہ ختم ہو گیا ہے، اس کے بعد آپ نے ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزار صحابہ کرا م کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی   فرمائی، اس وقت قریش کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص خونریزی کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، اور قریش کے لوگوں نے شہر آپ کے حوالے کر دیا۔

سورۂ فتح میں صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے اور صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے ہر مرحلے پر بڑی بہادری سرفروشی اور اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا،دوسری طرف منافقین کی بد اعمالیوں اور ان کے بُرے انجام کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۲۹        رکوعات:۴

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

بے شک ہم نے آپ کو کھلی فتح دی۔(۱)

تشریح: صحیح روایات کے مطابق یہ آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی جس کا واقعہ سورت کے تعارف میں گزر چکا ہے،اگرچہ بظاہر صلح کی شرائط ایسی نظر نہیں  آ رہی تھیں جنہیں کھلی فتح کہا جائے لیکن اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ جن حالات میں یہ صلح ہوئی ہے ان میں یہ ایک بڑی کھلی فتح کا پیش خیمہ ہے اور آخر کار ا سی کے نتیجے میں مکہ مکرمہ فتح ہوگا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ اللہ آپ کے لئے بخش دے ،جو پہلے آپ پر ذنب گزرے(الزام لگے) اور جو پیچھے ہوئے،اور وہ آپ پر اپنی نعمت مکمل کر دے،اور آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی کرے۔(۲)

تشریح: ”حدیبیہ” کی صلح بظاہر ذلت و مغلوبیت کی صلح نظر آتی ہے اور شرائط صلح پڑھ کر بادی النظر میں یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کفار قریش کے حق میں ہوا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی صلح کی ظاہری سطح دیکھ کر سخت محزون و مضطرب تھے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام کے چودہ پندرہ سو سرفروش سپاہیوں کے سامنے قریش اور ان کے طرفداروں کی جمعیت کیا چیز ہے۔ کیوں تمام نزاعات کا فیصلہ تلوار سے نہیں کر دیا جاتا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ان احوال و نتائج کو دیکھ رہی تھیں جو دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ سخت سے سخت ناخوشگوار واقعات پر تحمل کرنے کے لیے کھول دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمثال استغناء اور توکل و تحمل کے ساتھ ان کی ہر شرط قبول فرماتے رہے اور اپنے اصحاب کو ”اللہُ وَرَسُولُہ اعْلَمُ” کہہ کر تسلی دیتے رہے۔ یعنی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ تاآنکہ یہ سورت نازل ہوئی اور خداوند قدوس نے اس صلح اور فیصلہ کا نام ”فتح مبین” رکھا لوگ اس پر بھی تعجب کرتے تھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے فرمایا ہاں بہت بڑی فتح۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کی بیعت جہاد اور معمولی چھیڑ چھاڑ کے بعد کفار معاندین کا مرعوب ہو کر صلح کی طرف جھکنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باوجود جنگ اور انتقام پر کافی قدرت رکھنے کے ہر موقع پر اغماض اور عفو و درگزر سے کام لینا اور محض تعظیم بیت اللہ کی خاطر ان کے بیہودہ مطالبات پر قطعاً برافروختہ نہ ہونا۔ یہ واقعات ایک طرف اللہ کی خصوصی مدد و رحمت کے استجلاب کا ذریعہ بنتے تھے اور دوسری جانب دشمنوں کے قلوب پر اسلام کی اخلاقی و روحانی طاقت اور پیغمبر علیہ السلام کی شان پیغمبری کا سکہ بٹھلا رہے تھے۔ گو عہد نامہ لکھتے وقت ظاہر بینوں کو کفار کی جیت نظر آتی تھی۔ لیکن ٹھنڈے دل سے فرصت میں بیٹھ کر غور کرنے والے خوب سمجھتے تھے کہ فی الحقیقت تمام تر فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ”فتح مبین” رکھ کر متنبہ کر دیا کہ یہ صلح اس وقت بھی فتح ہے اور آئندہ کے لیے بھی آپ کے حق میں بیشمار فتوحات ظاہری و باطنی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اس صلح کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور بے تکلف ملنے جلنے کا موقع ہاتھ آیا۔ کفار، مسلمانوں کی زبان سے اسلام کی باتیں سنتے اور ان مقدس مسلمانوں کے احوال و اطوار کو دیکھتے تو خود بخود ایک کشش اسلام کی طرف ہوتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صلح ”حدیبیہ” سے فتح مکہ تک یعنی تقریباً دو سال کی مدت میں اتنی کثرت سے لوگ مشرف با اسلام ہوئے کہ کبھی اس قدر نہ ہوئے تھے۔ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص جیسے نامور صحابہ اسی دوران میں اسلام کے حلقہ بگوش بنے۔ یہ جسموں کو نہیں، دلوں کو فتح کر لینا اسی صلح حدیبیہ کی اعظم ترین برکت تھی۔ اب جماعت اسلام چاروں طرف اس قدر پھیل گئی اور اتنی بڑھ گئی تھی کہ مکہ معظمہ کو فتح کر کے ہمیشہ کے لیے شرک کی گندگی سے پاک کر دینا بالکل سہل ہو گیا۔ ”حدیبیہ” میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف ڈیڑھ ہزار جانباز تھے لیکن دو برس کے بعد مکہ معظمہ کی فتح عظیم کے وقت دس ہزار لشکر جرار آپ کے ہمرکاب تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ صرف فتح مکہ اور فتح خیبر، بلکہ آئندہ کی کل فتوحات اسلامیہ کے لیے صلح حدیبیہ بطور اساس و بنیاد اور زرین دیباچہ کے تھی۔ اور اس تحمل و توکل اور تعظیم حرمات اللہ کی بدولت جو صلح کے سلسلہ میں ظاہر ہوئی، جن علوم و معارف قدسیہ اور باطنی مقامات و مراتب کا فتح باب ہوا ہوگا اس کا اندازہ تو کون کر سکتا ہے، ہاں تھوڑا سا اجمالی اشارہ حق تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے یعنی جیسے سلاطین دنیا کسی بہت بڑے فاتح جنرل کو خصوصی اعزازو اکرام سے نوازتے ہیں، خداوند قدوس نے اس فتح مبین کے صلہ میں آپ کو چار چیزوں سے سرفراز فرمایا۔ جن میں پہلی چیز غفران ذنوب ہے (ہمیشہ سے ہمیشہ تک کی سب کوتاہیاں جو آپ کے مرتبہ رفیع کے اعتبار سے کوتاہی سمجھی جائیں بالکلیہ معاف ہیں) یہ بات اللہ تعالیٰ نے اور کسی بندہ کے لیے نہیں فرمائی مگر حدیث میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر عبادت اور محنت کرتے تھے کہ راتوں کو کھڑے کھڑے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اور لوگوں کو دیکھ کر رحم آتا تھا۔ صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما چکا۔ فرماتے۔ ”اَفَلاَاکُونُ عَبْدًا شَکُورًا۔” (تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں) ظاہر ہے۔ اللہ بھی ایسی بشارت اسی بندہ کو سنائیں گے جو سن کر نڈر نہ ہو جائے بلکہ اور زیادہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے لگے۔ شفاعت کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مخلوق جمع ہو کر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس جائے گی تو وہ فرمائیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جو خاتم النبیین ہیں اور جن کی اگلی پچھلی سب خطائیں اللہ تعالیٰ معاف کر چکا ہے (یعنی اس مقام شفاعت میں اگر بالفرض کوئی تقصیر بھی ہو جائے تو وہ بھی عفو عام کے تحت میں پہلے ہی آ چکی ہے (بجز ان کے اور کسی کا یہ کام نہیں۔

وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْکَ :صرف تقصیرات سے درگزر نہیں بلکہ جو کچھ ظاہری و باطنی اور مادی و روحی انعام و احسان اب تک ہو چکے ہیں ان کی پوری تکمیل و تمیم کی جائے گی۔

وَيَهْدِيَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا :تجھ کو ہدایت و استقامت کی سیدھی راہ پر ہمیشہ قائم رکھے گا۔ معرفت و شہود کے غیر محدود و مراتب پر فائز ہونے اور ابدان و قلوب پر اسلام کی حکومت قائم کرنے کی راہ میں تیرے لیے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے گی۔ لوگ جوق در جوق تیری ہدایت سے اسلام کے سیدھے راستہ پر آئیں گے۔ اور اس طرح تیرے اجور و حسنات کے ذخیرہ میں بیشمار اضافہ ہوگا۔

وَيَنْصُرَکَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِيْزًا: یعنی اللہ کی ایسی مدد آئیگی جسے کوئی نہ روک سکے گا نہ دبا سکے گا۔ اور اسی کی مدد سے فتح و ظفر تیرے قدموں کے ساتھ ساتھ ہوگی۔ سورہ ”نصر” میں فرمایا کہ جب خدا کی طرف سے مدد اور فتح آ جائے اور لوگ دین الٰہی میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اللہ کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار کیجیے۔ ظاہر ہے کہ اس فتح مبین پر بھی آپ نے استغفار کیا ہوگا، تو اس کے جواب میں ”لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ ” الخ کا مضمون اور بھی زیادہ صاف ہو جاتا ہے۔ نبہ علیہ ابن جریر رحمہ اللہ تعالٰی۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جس نے مؤمنوں کے دلوں میں تسلی اتاری،تاکہ وہ (ان کا) ایمان بڑھائے ان کے (پہلے) ایمان کے ساتھ،اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں،اور اللہ جاننے والا،حکمت والا ہے۔(۴)

تشریح: (تسلی اتاری)اطمینان اتارا۔ یعنی باوجود خلاف طبع ہونے کے رسول کے حکم پر جمے رہے۔ ضدی کافروں کے ساتھ ضد نہیں کرنے لگے۔ اس کی برکت سے ان کے ایمان کا درجہ بڑھا اور مراتب عرفان و ایقان میں ترقی ہوئی۔ انہوں نے اول بیعت جہاد کر کے ثابت کر دیا تھا کہ ہم اللہ کی راہ میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایمان کا ایک رنگ تھا اس کے بعد جب پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کے جذبات کے خلاف اللہ کے حکم سے صلح منظور کر لی تو ان کے ایمان کا دوسرا رنگ یہ تھا کہ اپنے پر جوش جذبات و عواطف کو زور سے دبا کر اللہ و رسول کے فیصلہ کے آگے گردن انقیاد خم کر دی۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم ورضوانہ۔

وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ :یعنی و ہی جانتا ہے کہ کس وقت قتال کا حکم دینا تمہارے لیے مصلحت ہے اور کس موقع پر قتال سے باز رکھنا اور صلح کرنا حکمت ہے۔ تم کو اگر قتال کا حکم ہو تو کبھی کفار کی کثرت کا خیال کر کے پس و پیش نہ کرنا کیونکہ آسمان و زمین کے لشکروں کا مالک وہ ہی ہے جو تمہاری قلت کے باوجود اپنے غیبی لشکروں سے مدد کر سکتا ہے جیسے ”بدر”، ”احزاب” اور ”حنین” وغیرہ میں کی۔ اور اگر صلح کرنے اور قتال سے رُکنے کا حکم دے تو اسی کی تعمیل کرو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ افسوس صلح ہو گئی اور کفار بچ نکلے ان کو سزا نہ ملی اگر قتال کا حکم ہو جاتا تو ہم ان کو ہلاک کر ڈالتے۔ کیونکہ ان کا ہلاک ہونا کچھ تم پر موقوف نہیں۔ ہم چاہیں تو اپنے دوسرے لشکروں سے ہلاک کر سکتے ہیں۔ بہرحال زمین و آسمان کے لشکروں کا مالک اگر صلح کا حکم دے گا تو ضرور اسی میں بہتری اور حکمت ہوگی۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ وہ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ان باغات میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ،وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،اور ان سے ان کی بُرائیاں دور کر دے گا،اور یہ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔(۵)

تشریح: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْنًا۔” الخ پڑھ کر صحابہ کو سنائی تو انہوں نے آپ کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا، یا رسول اللہ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوا۔ ہمارے لیے کیا ہے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں یعنی اللہ نے اطمینان و سکینہ اتار کر مومنین کا ایمان بڑھایا۔ تاکہ انہیں نہایت اعزازو اکرام کے ساتھ جنت میں داخل کرے اور ان کی برائیوں اور کمزوریوں کو معاف فرما دے۔ حدیث میں ہے کہ جن اصحاب نے حدیبیہ میں بیعت کی ان میں سے ایک بھی دوزخ میں داخل نہ ہوگا۔ (تنبیہ) مومنات کا ذکر تعمیم کے لیے ہے۔ یعنی مرد ہو یا عورت کسی کی محبت اور ایمانداری ضائع نہیں جاتی۔ احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ عذاب دے گا منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور اللہ پر بُرے گمان کرنے والے مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو، ان پر بُری گردش ہے ،اور اللہ نے ان پر غضب کیا ،اور اُن پر لعنت کی(رحمت سے محروم کر دیا) اور ان کے لئے جہنم تیار کیا اور یہ بُرا ٹھکانا ہے۔(۶)

تشریح: یعنی مومنین کے دلوں میں صلح کی طرف سے اطمینان پیدا کر کے اسلام کی جڑ مضبوط کر دی اور اسلامی فتوحات و ترقیات کا دروازہ کھول دیا جو انجام کار سبب ہے کافروں اور منافقوں پر مصیبت ٹوٹنے اور ان کو پوری طرح سزا ملنے کا۔

ظَنَّ السَّوْٓءِ : مدینے سے چلتے وقت منافق (بجز ایک جد بن قیس کے) مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئے، بہانے کر کے بیٹھ رہے۔ دل میں سوچا کہ مڈ بھیڑ ضرور ہو کر رہے گی۔ یہ مسلمان لڑائی میں تباہ ہوں گے۔ ایک بھی زندہ واپس نہ آئے گا۔ کیونکہ وطن سے دور، فوج کم، اور دشمن کا دیس ہوگا ہم کیوں ان کے ساتھ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں اور کفار مکہ نے یہ خیال کیا کہ مسلمان بظاہر ”عمرے” کے نام سے آرہے ہیں اور فریب و دغا سے چاہتے ہیں کہ مکہ معظمہ ہم سے چھین لیں۔

عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ السَّوْٓءِ :زمانہ کی گردش اور مصیبت کے چکر میں آ کر رہیں گے کہاں تک احتیاطیں اور پیش بندیاں کریں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کے لشکر اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔(۷)

تشریح: یعنی وہ سزا دینا چاہے تو کون بچا سکتا ہے۔ خدائی لشکر ایک لمحہ میں پیس کر رکھ دے۔ مگر وہ زبردست ہونے کے ساتھ حکمت والا بھی ہے۔ حکمت الٰہی مقتضی نہیں کہ فوراً ہاتھوں ہاتھ ان کا استیصال کیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ۔(۸)

تشریح: یعنی آپ اللہ کے فرمانبرداروں کو خوشی اور نافرمانوں کو ڈر سناتے ہیں اور خود اپنے احوال بتلاتے ہیں جیسے ”انا فتحنا” سے یہاں تک تینوں قسم کے مضامین آ چکے۔ اور آخرت میں بھی اپنی امت پر نیز انبیاء علیہم السلام کے حق میں گواہی دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور اللہ کی تسبیح (پاکیزگی بیان) کرو صبح و شام۔(۹)

بے شک(حدیبیہ میں) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں اوراس کے سوا نہیں کہ وہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ،ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے ،پھر جس نے عہد توڑ دیا تو اس کےسوا نہیں کہ اس نے اپنی ذات (کے بُرے) کو توڑا،اور جس نے وہ عہد پورا کیا جو اس نے اللہ سے کیا تھا تو وہ (اللہ )اسے عنقریب دے گا اجر عظیم۔(۱۰)

تشریح: لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بیعت کرتے تھے ،اس کو فرمایا کہ نبی کے ہاتھ پر بیعت کرنا گویا خدا سے بیعت کرنا ہے ؛کیونکہ حقیقت میں نبی خدا کی طرف سے بیعت لیتا ہے ،اور اسی کے احکام کی تعمیل و تاکید بیعت کے ذریعہ سے کراتا ہے۔ فہذا کما قال ”مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہُ ” (نساء۔۸۰) وَکَمَا قَالَ۔ ”وَمَا رَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی۔” (انفال۔۱۷) جب بیعت نبوی کی حقیقت یہ ہوئی تو یقیناً خدا تعالیٰ کا دست شفقت و حمایت ان کے ہاتھوں کے اوپر ہوگا۔

(تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے کبھی اسلام پر کبھی جہاد پر کبھی کسی دوسرے امر خیر پر بیعت لیتے تھے۔صحیح مسلم میں و علی الخیر کا لفظ آیا ہے،مشائخ طریقت کی بیعت  اگر بطریق مشروع ہو تو اسی لفظ کے تحت میں مندرج ہوگی۔ ”حدیبیہ” میں اس بات پر بیعت لی گئی کہ مرتے دم تک میدان جہاد سے نہیں بھاگیں گے۔

بیعت کے وقت جو قول و قرار کیا ہے، اگر کوئی اس کو توڑے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ و رسول کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا۔ اسی کو عہد شکنی کی سزا ملے گی۔ اور جس نے استقامت دکھلائی اور اپنے عہد و پیمان کو مضبوطی کے ساتھ پورا کیا تو اس کا بدلہ بھی بہت پورا ملے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اب پیچھے رہ جانے والے دیہاتی آپ سے کہیں گے کہ ہمیں ہمارے مالوں اور ہمارے گھر والوں نے مشغول رکھا (رخصت نہ دی) سو ہمارے لئے بخشش مانگئے ، وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں، آپ فرما دیں تمہارے لئے اللہ کے سامنے کون اختیار رکھتا ہے کسی چیز کا، اگر وہ تمہیں نقصان (پہنچانا) چاہے ، یا تمہیں نفع (پہنچانا) چاہے ، بلکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔ (۱۱)

تشریح: حدیبیہ کے سفر میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے ارادے سے روانہ ہوئے تو تمام مخلص صحابہ کرام تو خود ہی بڑے شوق کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو گئے تھے ، لیکن چونکہ یہ اندیشہ شروع ہی سے تھا کہ شاید قریش کے کافر لوگ راستہ روکیں، اور لڑائی کی نوبت آ جائے ، اس لئے آپ نے ایک بڑی جمعیت کے ساتھ سفر کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ کے آس پاس کے دیہات میں بھی یہ اعلان فرما دیا تھا کہ وہاں کے لوگ بھی ساتھ چلیں، ان میں سے جو حضرات مخلص مسلمان تھے ، وہ تو آپ کے ساتھ آ گئے ، لیکن ان میں سے جو لوگ منافق تھے ، انہوں نے یہ سوچا کہ جنگ کی صورت میں ہمیں لڑائی میں حصہ لینا پڑے گا، اس لئے مختلف بہانے کر کے رک گئے ، اس آیت میں پیچھے رہنے والوں سے وہی منافق مراد ہیں، اور فرمایا جا رہا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس پہنچیں گے تو یہ لوگ یہ بہانہ کریں گے کہ ہم اپنے گھر بار کی مصروفیت کی وجہ سے آپ کے ساتھ نہیں جا سکے تھے۔

قُلْ فَمَنْ يَّمْلِکُ لَكُمْ مِّنَ اللہِ شَيْئًا:یعنی تم یہ سوچ کر اپنے گھروں میں رک گئے تھے کہ گھر میں رہنا فائدہ مند ہے ، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے میں نقصان ہے ، حالانکہ فائدہ اور نقصان تو تمام تر اللہ تعالی کے قبضے میں ہے ، وہ نفع یا نقصان پہنچانے کا ارادہ فرما لے تو کسی کی مجال نہیں ہے کہ اسے روک سکے۔

(توضیح القرآن)

 

بلکہ تم نے گمانِ (باطل) کیا کہ رسول اور مؤمن ہرگز اپنے اہل خانہ کی طرف کبھی واپس نہ لوٹیں گے ، اور یہ بات بھلی لگی تمہارے دلوں کو، اور تم نے گمان کیا، ایک بُرا گمان، اور تم ہلاک ہونے والی قوم ہو گئے۔ (۱۲)

تشریح: ان منافقین کا خیال یہ تھا کہ مسلمان چاہے عمرے کے ارادے سے جا رہے ہوں، لیکن جنگ ضرور ہو گی، اور قریش کی طاقت اتنی بڑی ہے کہ مسلمان وہاں سے زندہ واپس نہیں آسکیں گے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو ایمان نہیں لاتا اللہ پر اور اس کے رسول پر تو بیشک ہم نے کافروں کے لئے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (۱۳)

اور اللہ (ہی) کے لئے آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہت، وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے ، اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۱۴)

عنقریب کہیں گے پیچھے بیٹھ رہنے والے ، جب تم (خیبر کی) غنیمتوں کی طرف انہیں لینے کے لئے چلو گے :کہ ہمیں اجازت دو کہ تمہارے پیچھے چلیں، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا فرمودہ بدل ڈالیں، آپ فرما دیں تم ہرگز ہمارے پیچھے نہ آؤ، اسی طرح اللہ نے اس سے قبل کہا تھا، پھر اب وہ کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو جبکہ (حقیقت یہ ہے ) کہ وہ بہت تھوڑا سمجھتے ہیں۔ (۱۵)

تشریح: صحابہ کرام نے حدیبیہ کے سفر میں جس جاں نثاری اور اطاعت کے جذبے سے کام لیا تھا، اللہ تعالی نے اس کے صلے میں یہ وعدہ فرمایا تھا کہ مکہ مکرمہ کی فتح سے پہلے انہیں ایک اور فتح حاصل ہو گی، جس میں بہت سا مال غنیمت بھی حصے میں آئے گا، اس سے مراد خیبر کی فتح تھی، چنانچہ سن ۷ ہجری میں جب آپ خیبر کے لئے روانہ ہو رہے تھے تو صحابہ کرام کو یقین تھا کہ اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق خیبر ضرور فتح ہو گا اور وہاں سے مال غنیمت بھی حاصل ہو گا، اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ جب یہ موقع آئے گا تو جو منافق حدیبیہ کے سفر میں حیلے بہانے کر کے پیچھے رہ گئے تھے ، وہ خیبر کے سفر میں تمہارے ساتھ چلنا چاہیں گے کیونکہ انہیں یقین ہو گا کہ اس سفر میں فتح ہو گی اور مال غنیمت بھی ملے گا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ کریں اور انہیں ساتھ لے جانے سے انکار کر دیں۔

(توضیح القرآن)

 

کَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ:اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی یہ حکم دیا تھا کہ خیبر کے سفر میں صرف ان حضرات کو شرکت کی اجازت دیں جو حدیبیہ کے سفر میں آپ کے ساتھ تھے ، اسی حکم کی طرف اس آیت میں اللہ کی بات فرما کر اشارہ کیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالی کا یہ حکم اس سے پہلے قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں ہے کہ خیبر کی جنگ میں صرف وہ لوگ شریک ہوں جو حدیبیہ میں شامل تھے ، بلکہ یہ حکم اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، اور آپ نے لوگوں تک پہنچایا، اس سے صاف واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے احکام آیا کرتے تھے ، اور وہ بھی اللہ تعالی ہی کے احکام ہوتے تھے ، لہذا منکرین حدیث جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے علاوہ کسی اور وحی کا کوئی ثبوت نہیں ہے یہ آیت اس کی واضح تردید کر رہی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ دیہاتیوں میں سے پیچھے رہ جانے والوں سے فرما دیں عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑتے رہو یا وہ اسلام قبول کر لیں، سو اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر گئے ، جیسے تم اس سے قبل پھر گئے تھے ، تو وہ تمہیں عذاب دے گا، عذاب دردناک۔ (۱۶)

تشریح: دیہات کے ان لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کا خیبر کی جنگ میں شامل ہونا تو اللہ تعالی کو منظور نہیں ہے ، البتہ اس کے بعد ایک وقت آئے گا جب آپ لوگوں کو سخت جنگجو قوموں سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی، اس وقت اگر آپ نے سچا مؤمن بن کر اسقامت سے کام لیا تو آپ کا یہ گناہ دھل جائے گا، اور اللہ تعالی آپ کو ثواب عطا فرمائیں گے ، اس میں وہ تمام جنگیں داخل ہیں جن میں کسی بڑی طاقت سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا، اور دیہات کے ان لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی، صحابہ کرام سے منقول ہے کہ دیہات کے لوگوں کو یہ دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس وقت دی گئی جب مسلمانوں کا مقابلہ مسیلمہ کذاب اور قیصر وکسرٰی کی طاقتوں سے ہوا، اس موقع پر دیہات کے ان لوگوں میں کچھ حضرات تائب بھی ہو گئے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

نہیں ہے اندھے پر کوئی گناہ، اور نہیں ہے لنگڑے پر کوئی گناہ اور  نہ مریض پر، کوئی گناہ ا ور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ا ور جو پھر جائے گا وہ اسے دردناک عذاب دے گا۔ (۱۷)

تشریح: یعنی جہاد ان معذور لوگوں پر فرض نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تحقیق اللہ مؤمنوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے ، سو اس نے معلوم کر لیا جو ان کے دلوں میں (خلوص تھا) تو اس نے ان پر تسلی اتاری، اور بدلہ میں انہیں قریب ہی ایک فتح عطا کی۔ (۱۸)

اور بہت سی غنیمتیں انہوں نے حاصل کیں، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۱۹)

تشریح: لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ :یہ اسی بیعتِ رضوان کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پر ببول کے ایک درخت کے نیچے لی تھی، اور جس کا ذکر سورت کے تعارف میں آ چکا ہے ، اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ ان حضرات نے یہ بیعت دل سے پورے عزم کے ساتھ کی تھی، وہ منافقوں کی طرح جھوٹا عہد کرنے والے نہیں تھے۔

وَأَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا :اس سے مراد خیبر کی فتح ہے ، اس سے پہلے مسلمان دو طرفہ خطرے سے دوچار تھے ، جنوب میں قریشِ  مکہ کی طرف سے ہر وقت حملوں کا خطرہ رہتا تھا جس کا سد باب حدیبیہ کی صلح کے ذریعے ہوا، اور شمال میں خیبر کے یہودی تھے جو ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہتے تھے ، اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں نے حدیبیہ کے موقع پر جس جاں نثاری اور پھر اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، اس کے صلے میں اللہ تعالی نے انہیں خیبر کی فتح عطا فرما دی جس سے ایک طرف شمالی خطرے کا سد باب ہو گا اور دوسری طرف بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا، اور اس کے نتیجے میں معاشی خوش حالی حاصل ہو گی۔

(توضیح القرآن)

 

اور اللہ نے تم سے وعدہ کیا غنیمتوں کا کثرت سے جنہیں تم لو گے ، تو اس نے یہ تمہیں جلد دے دی، اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تاکہ (یہ) ہو مؤمنوں کے لئے ایک نشانی، اور تمہیں ایک سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ (۲۰)

تشریح: یعنی آگے چل کے بیشمار غنیمتیں ملنے والی ہیں۔ ان میں کا یہ ایک حصہ غزوہ خیبر میں دلوا دیا۔

عام لڑائی نہ ہونے دی۔ اور حدیبیہ یا خیبر میں کفار کے ہاتھوں سے تم کو کچھ ضرر نہ پہنچنے دیا اور تمہاری غیبت میں تمہارے اہل و عیال وغیرہ پر کوئی دست درازی نہ کر سکا۔ مسلمان سمجھیں کہ اللہ کی قدرت کیسی ہے اور ان کا درجہ اس کے ہاں کیا ہے اور یہ کہ اسی طرح آئندہ کے وعدہ بھی پورے ہو کر رہیں گے۔ اللہ کے وعدوں پر وثوق اور اس کی لامحدود قدرت پر بھروسہ ہو گا تو اور زیادہ طاعت و فرمانبرداری کی ترغیب ہو گی۔ یہی سیدھی راہ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ایک اور فتح بھی تم نے (ابھی) اس پر قابو نہیں پایا، گھیر رکھا ہے اللہ نے اس کو، اور اللہ ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اس بیعت کے انعام میں فتح خیبر دی۔ اور مکہ کی فتح جو اس وقت ہاتھ نہ لگی وہ بھی مل ہی چکی ہے۔ کیونکہ اللہ نے اس کا وعدہ کر لیا اور فی الحقیقت عالم اسباب میں وہ نتیجہ اسی صلح حدیبیہ کا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم سے کافر لڑتے تو وہ پیٹھ پھیرتے ، پھر وہ نہ کوئی دوست پاتے اور نہ کوئی مددگار۔ (۲۲)

تشریح: یعنی حدیبیہ کے مقام پر کافروں سے جو صلح کرائی گئی، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزور تھے ، اور جنگ کی صورت میں انہیں شکست اٹھانی پڑتی، بلکہ اگر مقابلہ ہو جاتا تو یہ کافر ہی شکست کھاتے ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگتے ، لیکن اس وقت کئی مصلحتوں کی وجہ سے اللہ تعالی جنگ کو روکا تھا، ان میں سے ایک مصلحت کا بیان آگے آیت نمبر۲۵ میں آ رہا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ کا دستور ہے جو اس سے قبل گزر چکا ہے (چلا آ رہا ہے ) اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۲۳)

تشریح: اللہ تعالی کا دستور شروع سے یہ چلا آتا ہے کہ جو لوگ حق پر ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی کی مدد کی شرائط پوری کرتے ہیں، تو اللہ تعالی ان کو باطل والوں پر غلبہ عطا فرماتا ہے ، اور جہاں کہیں باطل والوں کو غلبہ حاصل ہو، وہاں سمجھ لینا چاہئیے کہ حق والوں کے طرز عمل میں کوئی خرابی تھی، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی مدد سے محروم رہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے ، اور تمہارے ہاتھ ان سے وادیِ مکہ میں روکے ، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح مند کیا، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھنے والا ہے۔ (۲۴)

تشریح: جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ جا کر قریش کے لوگوں کو صلح کا پیغام دے رہے تھے ، اس وقت مکہ مکرمہ کے کافروں نے پچاس آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس غرض سے بھیجے تھے کہ وہ خفیہ طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے (معاذاللہ) آپ کو شہید کر دیں، لیکن اللہ تعالی نے انہیں مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار کرا دیا، دوسری طرف جب قریش نے ان آدمیوں کی گرفتاری کی خبر سنی تو انہوں نے حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو روک لیا، اس وقت اگر مسلمان ان پچاس آدمیوں کو قتل کر دیتے تو جواب میں قریش کے لوگ حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرتے ، اور مکمل جنگ چھڑ جاتی، اللہ تعالی نے مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ان قیدیوں کو قتل نہ کریں، اور مسلمانوں کے ہاتھوں کو ان کے قتل سے روک دیا، حالانکہ وہ ان کے قابو میں آچکے تھے ، اور دوسری طرف قریش کے ہاتھوں کو مسلمانوں سے لڑنے سے اس طرح روک دیا کہ ان کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ صلح پر راضی ہو گئے ، حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے وہ صاف انکار کرچکے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا، اور تمہیں مسجد حرام سے روکا، اور رکے ہوئے قربانی کے جانوروں کو ان کے مقام پر پہنچنے سے روکا، اور اگر (شہر مکہ میں) کچھ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں نہ ہوتیں ( تو ہم تمہیں قتال کی اجازت دیتے ) تم انہیں نہ جانتے تھے کہ تم انہیں پامال کر دیتے ، پس ان سے تمہیں پہنچ جاتا نقصان نادانستہ، (تاخیر اس لئے ہوئی) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے ، اگر وہ جدا ہو جاتے تو ہم عذاب دیتے ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب۔ (۲۵)

تشریح: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام چونکہ عمرے کے ارادے سے تشریف لائے تھے ، اس لئے حرم میں قربانی کے لئے جانور بھی ساتھ لائے تھے جنہیں حرم میں پہنچ کر قربان ہونا تھا، وہ ان کافروں کے رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے حدیبیہ ہی میں کھڑے رہ گئے ، اور جس جگہ لے کر انہیں قربان کرنے کا ارادہ تھا وہاں نہیں پہنچ پائے۔

(توضیح القرآن)

 

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ :کچھ مسلمان مرد و عورت جو مکہ میں مظلوم و مقہور تھے اور مسلمان ان کو پوری طرح جانتے نہ تھے وہ لڑائی میں بے خبری سے پیس دیے جائیں گے۔ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو فی الحال لڑائی کا حکم دے دیا جاتا۔ لیکن ایسا ہوتا تو تم خود اس قومی نقصان پر متاسف ہوتے۔ اور کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ دیکھو! مسلمان مسلمانوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اس خرابی کے باعث لڑائی موقوف رکھی گئی تاکہ وہ مسلمان محفوظ رہیں۔ اور تم پر اس بیمثال صبر و تحمل کی بدولت خدا اپنی رحمت نازل فرمائے نیز کافروں میں سے جن لوگوں کا اسلام لانا مقدر ہے ان کو بھی لڑائی کی خطرناک گڑ بڑ سے بچا کر اپنی رحمت میں داخل کر لے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”اس تمام قصے میں ساری ضد اور کعبہ کی بے ادبی ان ہی (مشرکین) سے ہوئی۔ تم با ادب رہے۔ انہوں نے عمرہ والوں کو منع کیا اور قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچنے دی۔ بیشک وہ جگہ اس قابل تھی کہ اسی وقت تمہارے ہاتھ سے فتح کرائی جاتی مگر بعض مسلمان مردو زن مکہ میں چھپے ہوئے تھے اور بعض لوگ جن کا مسلمان ہونا اب مقدر تھا، اس وقت کی فتح مکہ میں وہ پیسے جاتے۔ آخر دو برس کی صلح میں جتنے مسلمان ہونے کو تھے ہو چکے اور نکلنے والے نکل آئے تب اللہ نے مکہ فتح کرا دیا۔ ”

لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ کَفَرُوْا: یعنی اگر کفار مسلمانوں سے الگ ہوتے اور مسلمان ان میں رلے ملے نہ ہوتے تو تم دیکھ لیتے کہ ہم مسلمانوں کے ہاتھوں سے کافروں کو کیسی دردناک سزا دلواتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی، ضد (ہٹ) زمانۂ جاہلیت کی تو اللہ نے اپنے رسول پر اور مؤمنوں پر اپنی تسلی اتاری اور انہیں لازم فرمایا (قائم رکھا) تقوی کی بات پر، اور وہی اس کے زیادہ حقدار اور اس کے اہل تھے اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۲۶)

تشریح: نادانی کی ضد یہی کہ امسال عمرہ نہ کرنے دیا اور یہ کہ جو مسلمان مکہ سے ہجرت کر جائے اسے پھر واپس بھیج دو۔ اگلے دو سال عمرہ کو آؤ تو تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہرو۔ اور ہتھیار کھلے نہ لاؤ صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نہ لکھو اور بجائے محمد رسول اللہ کے صرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بن عبداللہ تحریر کرو۔ حضرت نے یہ سب باتیں قبول کیں اور مسلمانوں نے سخت انقباض و اضطراب کے باوجود پیغمبر کے ارشاد کے آگے سر تسلیم جھکا دیا اور بالآخر اسی فیصلہ پر ان کے قلوب مطمئن ہو گئے۔

اللہ سے ڈر کر نافرمانی کی راہ سے بچے اور کعبہ کے ادب پر مضبوطی سے قائم رہے۔ اور کیوں نہ رہتے۔ وہ دنیا میں خدائے واحد کے سچے پرستار اور کلمہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کے زبردست حامل تھے۔ ایک پکا موحد اور پیغمبر کا مطیع و وفادار ہی اپنے جذبات و رجحانات کو عین جوش و خروش کے وقت اللہ کی خوشنودی اور اس کے شعائر کی تعظیم پر قربان کر سکتا ہے۔ حقیقی توحید یہی ہے کہ آدمی اس اکیلے مالک کا حکم سن کر اپنی ذلت و عزت کے سب خیالات بالائے طاق رکھ دے۔ شاید اسی لیے حدیث میں ”کلمۃ التقویٰ” کی تفسیر لا الہ الا اللہ سے کی گئی ہے۔ کیونکہ تمام تر تقویٰ و طہارت کی بنیاد یہی کلمہ ہے۔ جس کے اٹھانے اور حق ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چن لیا تھا۔ اور بلاشبہ اللہ کے علم میں و ہی اس کے مستحق اور اہل تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب حقیقت کے مطابق دکھایا کہ اللہ نے چاہا تو تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ (کچھ) اپنے سر منڈاتے ہوئے (کچھ) بال کتراتے ہوئے ، تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا، پس اس نے معلوم کر لیا جو تم نہیں جانتے تھے ، پس اس نے کر دی اس (فتح مکہ) سے پہلے ہی ایک قریبی فتح۔ (۲۷)

تشریح: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے سفر سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام مسجد حرام میں عمرے کی غرض سے داخل ہوئے ہیں، اسی خواب میں احرام کھولنا پڑا اور عمرہ ادا نہ کیا جا سکا، تو بعض حضرات کو یہ خیال ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب تو وحی ہوتا ہے ، اور عمرہ کئے بغیر واپس جانا اس خواب کے مطابق نہیں ہے ، اس آیت میں اس خیال کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ وہ خواب یقیناً سچا تھا لیکن اس میں مسجد حرام میں داخلے کا کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا تھا، اب بھی وہ خواب سچا ہے ، اور اگر چہ اس سفر میں عمرہ نہیں ہو سکا لیکن ان شاء اللہ وہ خواب عنقریب پورا ہو گا، چنانچہ اگلے سال وہ پورا ہوا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا فرمایا۔

فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِيْبًا :اس سے مراد خیبر کی فتح ہے جس کا ذکر آیت نمبر ۱۸ اور اس کے حاشیہ میں گزر چکا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے ، اور اللہ گواہ کافی ہے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی اصول و فروع اور عقائد و احکام کے اعتبار سے یہی دین سچا اور یہی راہ سیدھی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔

اس دین کو اللہ نے ظاہر میں بھی سینکڑوں برس تک سب مذاہب پر غالب کیا اور مسلمانوں نے تمام مذاہب والوں پر صدیوں تک بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ اور آئندہ بھی دنیا کے خاتمہ کے قریب ایک وقت آنے والا ہے جب ہر چہار طرف دین برحق کی حکومت ہو گی۔ باقی حجت و دلیل کے اعتبار سے تو دین اسلام ہمیشہ ہی غالب رہا اور رہے گا۔

اللہ اس دین کی حقانیت کا گواہ ہے اور وہ ہی اپنے فعل سے اس کو حق ثابت کرنے والا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بڑے سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے ، سجدہ ریز ہوتے ، وہ تلاش کرتے ہیں اللہ کا فضل، اور (ا س کی) رضامندی، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے اثر (نشانات) ہیں، یہ ان کی صفت توریت میں (مذکور) ہے ، اور ان کی یہ صفت انجیل میں ہے ، جیسے ایک کھیتی اس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اسے قوی کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر وہ اپنی نال پر کھڑی ہو گئی وہ کسانوں کو بھلی لگتی ہے ، تاکہ ان کافروں کو غصہ میں لائے ( ان کے دل جلائے ) اللہ نے وعدہ کیا ہے ان سے جو ایمان لائے ، اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، مغفرت اور اجر عظیم کا۔ (۲۹)

تشریح: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ :کافروں نے صلح نامہ لکھواتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک محمد رسول اللہ لکھوانے سے انکار کیا تھا، اور صرف محمد بن عبداللہ لکھوایا تھا، اللہ تعالی نے اس آیت میں آپ کو محمدرسول اللہ فرما کر اشارہ دیا ہے کہ کافر لوگ اس حقیقت سے چاہے کتنا انکار کریں، اللہ تعالی نے اس کو قیامت تک قرآن کریم میں ثبت فرما دیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ أَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّار:یعنی کافروں کے مقابلہ میں سخت مضبوط اور قوی، جس سے کافروں پر رعب پڑتا اور کفر سے نفرت و بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ قال تعالٰی ”وَلْیَجِدُوْ افِیْکُمِْ غلْظَۃً” (توبہ، رکوع١٦’) وقال تعالٰی ”وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ ” (توبہ، رکوع١٠) وقال تعالٰی ”اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ۔ ” (مائدہ، رکوع، آیت ٥٤) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جو تندی اور نرمی اپنی خو ہو وہ سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ۔ ” علماء نے لکھا ہے کہ کسی کافر کے ساتھ احسان اور حسن سلوک سے پیش آنا اگر مصلحت شرعی ہو کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر دین کے معاملہ میں وہ تم کو ڈھیلا نہ سمجھے۔

رُحَمَآءُ بَيْنَہُمْ :یعنی اپنے بھائیوں کے ہمدرد مہربان، ہر ایک کے سامنے نرمی سے جھکنے والے اور تواضع و انکساری سے پیش آنے والے ”حدیبیہ” میں صحابہ کی یہ دونوں شانیں چمک رہی تھیں۔ ”اَشِدّآءُ عَلیَ الْکُفّارِ رُحَمَآءُ بینھم،

تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا :یعنی نمازیں کثرت سے پڑھتے ہیں۔ جب دیکھو رکوع و سجود میں پڑے ہوئے اللہ کے سامنے نہایت اخلاص کے ساتھ وظیفہ عبودیت ادا کر رہے ہیں۔ ریاء و نمود کا شائبہ نہیں۔ بس اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش ہے۔

سِيْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ: یعنی نمازوں کی پابندی خصوصاً تہجد کی نماز سے ان کے چہروں پر خاص قسم کا نور اور رونق ہے۔ گویا خشیت و خشوع اور حسن نیت و اخلاص کی شعاعیں باطن سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر کو روشن کر رہی ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اپنے چہروں کے نور اور متقیانہ چال ڈھال سے لوگوں میں الگ پہچانے جاتے تھے۔

ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃ  ِ  ۚ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِيْلِ: یعنی پہلی کتابوں میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی ایسی ہی شان بیان کی گئی تھی۔ چنانچہ بہت سے غیر متعصب اہل کتاب ان کے چہرے اور طورو طریق دیکھ کر بول اٹھتے تھے کہ واللہ یہ تو مسیح علیہ السلام کے حواری معلوم ہوتے ہیں۔

کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰی سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ: حضرت شاہ صاحب کھیتی کی مثال کی تقریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”یعنی اول اس دین پر ایک آدمی تھا۔ پھر دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ قوت بڑھتی گئی۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں پھر خلفاء کے عہد میں” بعض کہتے ہیں کہ ”اَخْرَجَ شَطْاَہ، ” میں عہد صدیقی ”فَاٰزَرُہ، ” میں عہد فاروقی ”فَاسْتَغْلَظَ” میں عہدعثمانی اور ”فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ” میں عہد مرتضوی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بعض دوسرے بزرگوں نے ”وَالَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّآءُ عَلیَ الْکُفَّارِ، رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ، تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا” کو علی الترتیب خلفائے اربعہ پر تقسیم کر دیا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ آیت تمام جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہیت مجموعی مدح و منقبت پر مشتمل ہے خصوصاً اصحاب بیعت الرضوان کی جن کا ذکر آغاز سورت سے برابر چلا آ رہا ہے واللہ اعلم۔

کھیتی کرنے والے چونکہ اس کام کے مبصر ہوتے ہیں اس لیے ان کا ذکر خصوصیت سے کیا۔ جس ایک چیز کا مبصر اس کو پسند کرے دوسرے کیوں نہ کریں گے۔

لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ : یعنی اسلام کھیتی کی یہ تازگی اور رونق و بہار دیکھ کر کافروں کے دل غیظ و حسد سے جلتے ہیں۔ اس آیت سے بعض علماء نے یہ نکالا کہ صحابہ سے جلنے والا کافر ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّأَجْرًا عَظِيْمًا: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان والے ہیں اور بھلے کام کرتے ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اصحاب ایسے ہی تھے۔ مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا حق تعالیٰ بندوں کو ایسی صاف خوشخبری نہیں دیتا کہ نڈر ہو جائیں۔ ” تم سورۃ الفتح بفضل اللہ و رحمۃ فللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۴۹۔ سُوْرَۃُ الْحُجُراتِ

 

                تعارف

 

اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعظیم کا کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئیے ، اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لئے کن اصولوں پر عمل کرناضروری ہے ، اس سلسلے میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اگرمسلمانوں کے دو گروہوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو دوسرے مسلمانوں پر کیا فریضہ عائد ہوتا ہے ، اور اس کے بعد وہ اسباب بیان فرمائے گئے ہیں جو عام طور سے رہن سہن کے دوران آپس کے لڑائی جھگڑے پیدا کرتے ہیں، مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، غیبت کرنا، دوسروں کے معاملات میں ناحق مداخلت کرنا، بدگمانی کرنا وغیرہ، نیز یہ حقیقت پوری وضاحت اور تاکید کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے کہ خاندان قبیلے زبان اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی بڑائی جتانے کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے ، تمام انسان برابر ہیں، اور اگر کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت ہو سکتی ہے تو وہ صرف اپنے کردار اور تقوی کی بنیاد پر   ہو سکتی ہے ، سورت کے آخر میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے صرف زبان سے اسلام کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام کو دل سے ماننا بھی ضروری ہے ، اس کے بغیر اسلام کا دعوی معتبر نہیں ہے۔

حجرات عربی میں حجرۃ کی جمع ہے جو کمرے کو کہتے ہیں، اس سورت کی چوتھی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رہائشی حجروں کے پیچھے سے آپ کو آواز دینے سے منع فرمایا گیا ہے اس وجہ سے اس سورت کا نام سورۂ حجرات رکھا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۸         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اے مؤمنو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سننے والا، جاننے و الا ہے۔ (۱)

تشریح: سورت کی یہ ابتدائی پانچ آیتیں ایک خاص موقع پر نازل ہوئی تھیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرب کے قبائل کے بہت سے وفد آتے رہتے تھے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو آئندہ کے لئے قبیلے کا امیر مقرر فرما دیتے تھے ، ایک مرتبہ قبیلہ تمیم کا ایک وفد آپ کی خدمت میں آیا، ابھی آپ نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تھا، اور نہ اس سلسلے میں کوئی بات کی تھی، لیکن آپ کی موجودگی میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے یہ مشورہ شروع کر دیا کہ ان میں سے کس کو امیر بنایا جائے ، حضرت ابوبکر نے ایک نام لیا اور حضرت عمر نے دوسرا، پھر ان دونوں بزرگوں نے اپنی اپنی رائے کی تائید اس طرح شروع کر دی کہ کچھ بحث کاسا انداز پیدا ہو گیا، اور اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، اس پر پہلی تین آیتیں نازل ہوئیں، پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا ہو اور آپ نے ان کے بارے میں کوئی مشورہ بھی طلب نہ فرمایا ہو ان معاملات میں آپ سے پہلے ہی کوئی رائے قائم کر لینا اور اس پر اصرار یا بحث کرنا آپ کے ادب کے خلاف ہے ، اگرچہ یہ پہلی آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی لیکن الفاظ عام استعمال فرمائے گئے ہیں تاکہ یہ اصولی ہدایت دی جائے کہ کسی بھی معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے ، اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنا ہو تو آپ سے آگے نہ بڑھنا چاہئیے ، نیز آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو حدود مقرر فرمائے ہیں ان سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے ، اس کے بعد دوسری اور تیسری آیتوں میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آواز آپ کی آواز سے بلند نہیں کرنی چاہیے ، اور آپ سے کوئی بات کہنی ہوتو وہ بھی بلند آواز سے نہیں کہنی چاہئیے ، بلکہ آپ کی مجلس میں آواز پست رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اے مؤمنو! نبی کی آواز پر اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، اور ان کے سامنے زور سے نہ بولو، جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز میں گفتگو کرتے ہو، کہیں تمہارے عمل اکارت (نہ) ہو جائیں، اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ (۲)

تشریح: یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بے تکلف چہک کر یا تڑخ کر بات کرتے ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلافِ ادب ہے۔ آپ سے خطاب کرو تو نرم آواز سے تعظیم و احترام کے لہجہ میں ادب و شائستگی کے ساتھ۔ دیکھو ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے ، لائق شاگرد استاد سے ، مخلص مرید پیرو مرشد سے ، اور ایک سپاہی اپنے افسر سے کسی طرح بات کرتا ہے پیغمبر کا مرتبہ تو ان سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھنی چاہیے۔ مبادا بے ادبی ہو جائے اور آپ کو تکدر پیش آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانا کہاں ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت اکارت جانے کا اندیشہ ہے۔

(تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہ ہی ادب چاہیے اور جو قبر شریف کے پاس حاضر ہو وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء علمائے ربانیین اور اولوالامر کے ساتھ درجہ بدرجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہیے تاکہ جماعتی نظام قائم رہے۔ فرق مراتب نہ کرنے سے بہت مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ اللہ کے رسول کے نزدیک (سامنے ) اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے آزمایا ہے ، ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تواضع اور ادب و تعظیم سے بولتے اور نبی کی آواز کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ادب کی تخم ریزی کے لیے پرکھ لیا اور مانجھ کر خالص تقویٰ و طہارت کے واسطے تیار کر دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ چار چیزیں اعظم شعائر اللہ سے ہیں۔ قرآن، پیغمبر، کعبہ، نماز۔ ان کی تعظیم و ہی کرے گا جس کا دل تقویٰ سے مالا مال ہو۔ ”وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ۔ ” (الحج:۳۲) یہاں سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ آواز بلند کرنا خلاف ادب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات سننے کے بعد ان کے خلاف آواز اٹھانا کس درجہ کا گناہ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ آپ کو پکارتے ہیں حجروں کے باہر سے ، ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ (۴)

اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ (خود) ان کے پاس نکل آتے تو ان کے لئے البتہ بہتر ہوتا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۵)

تشریح: بنی تمیم ملنے کو آئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مبارک میں تشریف رکھتے تھے ، وہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے کہ ”یا محمد اخرج الینا” (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئیے ) یہ بے عقلی اور بے تہذیبی کی بات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں سمجھتے تھے۔ کیا معلوم ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ یا کسی اور اہم کام میں مشغول ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات منبع البرکات تو مسلمانوں کے تمام دینی و دنیاوی امور کا مرکز و ملجاء تھی۔ کسی معمولی ذمہ دار آدمی کے لیے بھی کام کرنا سخت مشکل ہو جائے اگر اس کا کوئی نظام الاوقات نہ ہو۔ اور آخر پیغمبر کا ادب و احترام بھی کوئی چیز ہے ، چاہیے تھا کہ کسی کی زبانی اندر اطلاع کراتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر تشریف لانے تک صبر کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لا کر ان کی طرف متوجہ ہوتے اس وقت خطاب کرنا چاہیے تھا۔ ایسا کیا جاتا تو ان کے حق میں بہتر اور قابل ستائش ہوتا۔ تاہم بے عقلی اور نادانستگی سے جو بات اتفاقاً سرزد ہو جائے اللہ اس کو اپنی مہربانی سے بخشنے والا ہے۔ چاہیے کہ اپنی تقصیر پر نادم ہو کر آئندہ ایسا رویہ اختیار نہ کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی وہ نقطہ ہے جس پر قوم مسلم کی تمام قوتیں اور منتشر جذبات جمع ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ ایمانی رشتہ ہے جس پر اسلامی اخوت کا نظام قائم ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے مؤمنو!اگر تمہارے پاس کوئی بدکار آئے خبر لے کر، تو خوب تحقیق کر لیا کرو کہیں نادانی سے تم کسی قوم کو ضرر پہنچاؤ، پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ (۶)

تشریح: اکثر نزاعات و مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے۔ اس لیے اول اختلاف و تفریق کے اسی چشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی یعنی کسی خبر کو یوں ہی بے تحقیق قبول نہ کرو۔ فرض کیجیے ایک بے راہرو اور تکلیف دہ آدمی نے اپنے کسی خیال اور جذبہ سے بے قابو ہو کر کسی قوم کی شکایت کی۔ تم محض اس کے بیان پر اعتماد کر کے اس قوم پر چڑھ دوڑے ، بعدہٗ ظاہر ہوا کہ اس شخص نے غلط کہا تھا، تو خیال کرو اس وقت کس قدر پچھتانا پڑے گا۔ اور اپنی جلد بازی پر کیا کچھ ندامت ہو گی اور اس کا نتیجہ جماعت اسلام کے حق میں کیسا خراب ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ اکثر کاموں میں تمہارا کہا مانیں، تو تم ایذا میں پڑ جاؤ، لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی، اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ (مزین) کر دیا، اور تمہارے سامنے ناپسند کر دیا کفر اور گناہ کو اور نافرمانی کو، یہی لوگ (راہِ) ہدایت پانے والے ہیں۔ (۷)

تشریح: یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری کسی خبر یا رائے پر عمل نہ کریں تو برا نہ مانو۔ حق لوگوں کی خواہشوں یا رایوں کے تابع نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہو تو زمین و آسمان کا سارا کارخانہ ہی درہم برہم ہو جائے کما قال تعالیٰ ‘ وَلَوِاتَّبَع الْحَقُّ اَہْوَآءَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۔ ” (المومنون:۷۱) الغرض خبروں کی تحقیق کیا کرو اور حق کو اپنی خواہش اور رائے کے تابع نہ بناؤ، بلکہ اپنی خواہشات کو حق کے تابع رکھو۔ اس طرح تمام جھگڑوں کی جڑ کٹ جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی تمہارا مشورہ قبول نہ ہو تو برا نہ مانو، رسول عمل کرتا ہے اللہ کے حکم پر، اسی میں تمہارا بھلا ہے ، اگر تمہاری بات نہ مانا کرے تو ہر کوئی اپنے بھلے کی کہے ، پھر کس کس کی بات پر چلے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ کے فضل اور نعمت سے ، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۸)

تشریح: یعنی اگر تم یہ چاہتے ہو کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام تمہاری ہر بات مانا کریں تو بڑی مشکل ہوتی ،لیکن اللہ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل و احسان سے مومنین قانتین کے دلوں میں ایمان کو محبوب بنا دیا۔ اور کفر و معصیت کی نفرت ڈال دی، جس سے وہ ایسی بیہودگی کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔ جس مجمع میں اللہ کا رسول جلوہ افروز ہو وہاں کسی کی رائے و خواہش کی پیروی کہاں ہو سکتی ہے۔ آج گو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں نہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے وارث و نائب یقیناً  موجود ہیں اور رہیں گے۔

وہ سب کی استعداد کو جانتا ہے اور ہر ایک کو اپنی حکمت سے وہ احوال و مقامات مرحمت فرماتا ہے جو اس کی استعداد کے مناسب ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ باہم لڑ پڑیں، تو تم ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر زیادتی کرے ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر، تو تم اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے ، یہاں تک کہ وہ حکم الہی کی طرف رجوع کر لے ، پھر جب وہ رجوع کر لے تو تم ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور تم انصاف کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (۹)

تشریح: یعنی ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اگر اتفاق سے مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو پوری کوشش کرو کہ اختلاف رفع ہو جائے۔ اس میں اگر کامیابی نہ ہو اور کوئی فریق دوسرے پر چڑھا چلا جائے اور ظلم و زیادتی ہی پر کمر باندھ لے تو یکسو ہو کر نہ بیٹھ رہو، بلکہ جس کی زیادتی ہو سب مسلمان مل کر اس سے لڑائی کریں۔ یہاں تک کہ وہ فریق مجبور ہو کر اپنی زیادتیوں سے باز آئے اور خدا کے حکم کی طرف رجوع ہو کر صلح کے لیے اپنے کو پیش کر دے۔ اس وقت چاہیے کہ مسلمان دونوں فریق کے درمیان مساوات و انصاف کے ساتھ صلح اور میل ملاپ کرا دیں۔ کسی ایک کی طرف داری میں جادہ حق سے ادھر ادھر نہ جھکیں۔

(تنبیہ) آیت کا نزول صحیحین کی روایت کے موافق ”انصار” کے دو گروہ اوس و خزرج کے ایک وقتی ہنگامے کے متعلق ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان اسی آیت کے ماتحت صلح کر ادی۔ جو لوگ خلیفہ کے مقابلہ میں بغاوت کریں وہ بھی عموم آیت میں داخل ہیں۔ چنانچہ قدیم سے علمائے سلف بغاوت کے مسئلہ میں اسی سے استدلال کرتے آئے ہیں۔ لیکن جیسا کہ شان نزول سے ظاہر ہوتا ہے یہ حکم مسلمانوں کے تمام جماعتی مناقشات و مشاجرات کو شامل ہے۔ باقی باغیوں کے متعلق احکام شرعیہ کی تفصیل فقہ میں دیکھنی چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ سب مؤمن بھائی (بھائی) ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو، اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی صلح اور جنگ کی ہر ایک حالت میں یہ ملحوظ رہے کہ دو بھائیوں کی لڑائی دو بھائیوں کی مصالحت ہے۔ دشمنوں اور کافروں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے۔ جب دو بھائی آپس میں ٹکرا جائیں تو یوں ہی ان کے حال پر نہ چھوڑ دو، بلکہ اصلاح ذات البین کی پوری کوشش کرو۔ اور ایسی کوشش کرتے وقت خدا سے ڈرتے رہو کہ کسی کی بیجا طرفداری یا انتقامی جذبہ سے کام لینے کی نوبت نہ آئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے مؤمنو! (تم سے ) ایک گروہ (کچھ مرد) دوسرے گروہ (مردوں) کا مذاق نہ اڑائیں، کیا عجب! کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق) اڑائیں کیا عجب! کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ، اور باہم بُرے القاب سے نہ چڑاؤ (نام نہ بگاڑو) ایمان کے بعد گناہ (کا نام) بُرا نام ہے ، اور جو باز نہ آیا تو یہی لوگ ظالم ہیں۔ (۱۱)

تشریح: اول مسلمانوں میں نزاع و اختلاف کو روکنے کی تدابیر بتلائی تھیں۔ پھر بتلایا کہ اگر اتفاقاً اختلاف رونما ہو جائے تو پر زور اور موثر طریقہ سے اس کو مٹایا جائے ، لیکن جب تک نزاع کا خاتمہ نہ ہو کوشش ہونی چاہیے کہ کم از کم جذبات منافرت و مخالفت زیادہ تیز اور مشتعل نہ ہونے پائیں۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جہاں دو شخصوں یا دو جماعتوں میں اختلاف رونما ہوا۔ بس ایک دوسرے کا تمسخر اور استہزاء کرنے لگتا ہے۔ ذرا سی بات ہاتھ لگ گئی اور ہنسی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید جس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو بلکہ بسا اوقات یہ خود بھی اختلاف سے پہلے اس کو بہتر سمجھتا ہوتا ہے۔ مگر ضدو نفسانیت میں دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ اس طریقہ سے نفرت و عداوت کی خلیج روز بروز وسیع ہوتی رہتی ہے۔ اور قلوب میں اس قدر بعد ہو جاتا ہے کہ صلح و ائتلاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی، آیت ہذا میں خداوند قدوس نے اسی قسم کی باتوں سے منع فرمایا ہے۔ یعنی ایک جماعت دوسری جماعت کے ساتھ نہ مسخراپن کرے ، نہ ایک دوسرے پر آوازیں کسی جائیں، نہ کھوج لگا کر عیب نکالے جائیں، اور نہ برے ناموں اور برے القاب سے فریق مقابل کو یاد کیا جائے ، کیونکہ ان باتوں سے دشمنی اور نفرت میں ترقی ہوتی ہے ، اور فتنہ و فساد کی آگ زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ سبحان اللہ! کیسی بیش بہا ہدایات ہیں۔ آج اگر مسلمان سمجھیں تو ان کے سب سے بڑے مرض کا مکمل علاج اسی ایک سورہ حجرات میں موجود ہے۔

کسی کا برا نام ڈالنے سے آدمی خود گنہگار ہوتا ہے۔ اسے تو واقع میں عیب لگایا نہ لگا لیکن اس کا نام بد تہذیب، فاسق، گنہگار اور مردم آزار پڑ گیا۔ خیال کرو۔ ”مومن” کے بہترین لقب کے بعد یہ نام کیا اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک شخص ایمان لا چکا اور مسلمان ہو گیا اس کو مسلمانی سے پہلے کی باتوں پر طعن دینا یا اس وقت کے بدترین القاب سے یاد کرنا مثلاً یہودی یا نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ اسی طرح جو شخص کسی عیب میں مبتلا ہو اور وہ اس کا اختیاری نہ ہو، یا ایک گناہ سے فرض کیجیے توبہ کر چکا ہے ، چڑانے کے لیے اس کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں۔

جو پہلے ہو چکا اب توبہ کر لو۔ اگر یہ احکام و ہدایات سننے کے بعد بھی ان جرائم سے توبہ نہ کی تو اللہ کے نزدیک اصلی ظالم یہی ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے مؤمنو! بہت سی بد گمانیوں سے بچو، بیشک بعض بدگمانیاں گناہ   ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی ٹٹول میں نہ رہا کرو، اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نے کرے ، کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟تو تم اس سے گھن کرو گے ، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ (۱۲)

تشریح: اختلاف و تفریق باہمی کے بڑھانے میں ان امور کو خصوصیت سے دخل ہے ، ایک فریق دوسرے فریق سے ایسا بدگمان ہو جاتا ہے کہ حسن ظن کو کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو اس کا محل اپنے خلاف نکال لیتا ہے۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں، اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو، ہمیشہ اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مقابل پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کر دے گا۔ پھر نہ صرف یہی کہ ایک بات حسب اتفاق پہنچ گئی، بدگمانی، سے اس کو غلط معنی پہنا دیے گئے ، نہیں، اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر ہم خوب حاشیے چڑھائیں اور اس کی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو جو اختلافات بدقسمتی سے پیش آ جاتے ہیں وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں اور ان کا ضرر بہت محدود ہو جائے۔ بلکہ چند روز میں نفسانی اختلافات کا نام و نشان باقی نہ رہے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”الزام لگانا اور بھید ٹٹولنا اور پیٹھ پیچھے برا کہنا کسی جگہ بہتر نہیں۔ مگر جہاں اس میں کچھ دین کا فائدہ ہو اور نفسانیت کی غرض نہ ہو۔ ” وہاں اجازت ہے جیسے رجال حدیث کی نسبت ائمہ جرح و تعدیل کا معمول رہا ہے کیونکہ اس کے بدون دین کا محفوظ رکھنا محال تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں بنایا ذاتیں اور قبیلے ،تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو، بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، اللہ بیشک جاننے والا خبردار ہے۔ (۱۳)

تشریح: اکثر غیبت، طعن و تشنیع اور عیب جوئی کا منشاء کبر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ، اس کو بتلاتے ہیں کہ اصل میں انسان کا بڑا چھوٹا یا معزز و حقیر ہونا ذات پات اور خاندان و نسب سے تعلق نہیں رکھتا۔ ، بلکہ جو شخص جس قدر نیک خصلت، مودب اور پرہیز گار ہو اسی قدر اللہ کے ہاں معزز و مکرم ہے۔ نسب کی حقیقت تو یہ ہے کہ سارے آدمی ایک مرد اور ایک عورت یعنی آدم علیہ السلام و حوا کی اولاد ہیں شیخ، سید، مغل، پٹھان اور صدیقی، فاروقی، عثمانی، انصاری سب کا سلسلہ آدم و حوا پر منتہی ہوتا ہے یہ ذاتیں اور خاندان اللہ تعالیٰ نے محض تعارف اور شناخت کے لیے مقرر کیے ہیں۔ بلاشبہ جس کو حق تعالیٰ کسی شریف اور بزرگ و معزز گھرانے میں پیدا کر دے وہ ایک موہوب شرف ہے ، جیسے کسی کو خوبصورت بنا دیا جائے ، لیکن یہ چیز ناز اور فخر کرنے کے لائق نہیں کہ اسی کو معیار کمال اور فضیلت کا ٹھہرا لیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے۔ ہاں شکر کرنا چاہیے کہ اس نے بلا اختیار و کسب ہم کو یہ نعمت مرحمت فرمائی۔ شکر میں یہ بھی داخل ہے کہ غرور و تفاخر سے باز رہے اور اس نعمت کو کمینہ اخلاق اور بری خصلتوں سے خراب نہ ہونے دے۔ بہرحال مجدو شرف اور فضیلت و عزت کا اصلی معیار نسب نہیں تقویٰ و طہارت ہے اور متقی آدمی دوسروں کو حقیر کب سمجھے گا؟

تقویٰ اور ادب اصل میں دل سے ہے اللہ ہی کو خبر ہے کہ جو شخص ظاہر میں متقی اور مودب نظر آتا ہے وہ واقع میں کیسا ہے اور آئندہ کیسا رہے گا۔ انما العبرۃ للخواتیم۔

(تفسیرعثمانی)

 

دیہاتی کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ، آپ فرما دیں تم ایمان نہیں لائے ہو، بلکہ تم کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں، اور ابھی داخل نہیں ہوا تمہارے دلوں میں ایمان، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال سے کمی نہ کرے گا کچھ بھی، بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۱۴)

تشریح: دیہات کے کچھ لوگ دل سے ایمان لائے بغیر ظاہری طور پر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے تھے ، جس کا مقصد مسلمانوں جیسے حقوق حاصل کرنا تھا، مدینہ منورہ میں آ کر انہوں نے راستوں پر گندگی بھی پھیلائی تھی، ان آیات میں ان کی حقیقت واضح فرمائی گئی ہے ، اور یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سچا مسلمان ہونے کے لئے صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے ، بلکہ دل سے اسلامی عقائد کو ماننا اور اپنے آپ کو اسلامی احکام کا پابند سمجھنا ضروری ہے۔

(توضیح القرآن)

 

ا س کے سوا نہیں مؤمن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر وہ شک میں نہ پڑے ، اور انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ ہیں سچے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی سچے مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ اللہ و رسول پر پختہ اعتقاد رکھتا ہو۔ اور ان کی راہ میں ہر طرح جان و مال سے حاضر رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں کیا تم اللہ کو اپنا دین (دینداری) جتلاتے ہو؟اور اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے ، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (۱۶)

تشریح: یعنی اگر واقعی سچا دین اور پورا یقین تم کو حاصل ہے تو کہنے سے کیا ہو گا جس سے معاملہ ہے وہ آپ خبردار ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ آپ پر احسان رکھتے ہیں کہ وہ اسلام لائے ، آپ فرما دیں تم مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی طرف ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔ (۱۷)

تشریح: بعض گنوار آ کر کہتے تھے کہ دیکھئے ہم تو بدون لڑے بھڑے مسلمان ہو گئے۔ گویا احسان جتلاتے تھے۔ اس کا جواب آگے دیتے ہیں۔

اگر واقعی تم دعوائے اسلام و ایمان میں سچے ہو تو یہ تمہارا احسان نہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ایمان کی طرف آنے کا راستہ دیا اور دولت اسلام سے سرفراز کیا اگر سچی بات کہو تو واقعہ اس طرح ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”نیکی اپنے ہاتھ سے ہو، اپنی تعریف نہیں۔ رب کی تعریف ہے جس نے وہ نیکی کروائی۔ ” گویا خاتمہ سورت پر متنبہ کر دیا کہ اگر تم کو قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات پر کاربند ہونے کی توفیق ہو تو احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ کے احسان و انعام کا شکر ادا کرو جس نے ایسی توفیق ارزانی فرمائی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہے ، اور اللہ وہ (سب کچھ) دیکھنے والا جو تم کرتے ہو۔ (۱۸)

تشریح: یعنی دلوں کے بھید اور ظاہر کا عمل سب کو خدا جانتا ہے۔ اس کے سامنے باتیں نہ بناؤ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۵۰۔ سُوْرَۃُ قٓ

 

 

                تعارف

 

اس سورت کا اصل موضوع آخرت کا اثبات ہے ، اسلام کے عقائد میں عقیدۂ آخرت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کے قول و فعل میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے ، اور اگر یہ عقیدہ دل میں پیوست ہو جائے تو وہ ہر وقت انسان کو اس بات کی یاد دلاتا رہتا ہے کہ اسے اپنے ہر کام کا اللہ تعالی کے سامنے جواب دینا ہے ، اور پھر یہ عقیدہ انسان کو گناہوں، جرائم اور ناانصافیوں سے دور رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ، اس لئے قرآن کریم نے آخرت کی زندگی کو یاد دلانے پر بہت زور دیا ہے ، اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابۂ کرام ہر وقت آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگے رہتے تھے ، اب جو مکی سورتیں آ رہی ہیں، ان میں زیادہ تر اسی عقیدے کے دلائل اور قیامت کے حالات اور جنت اور دوزخ کی منظر کشی پر زور دیا گیا ہے ، سورۂ ق کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت فجر اور جمعہ کی نمازوں میں اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ، سورت کے آغاز حروف مقطعات میں حرف ق سے کیا گیا ہے ، جس کے معنی اللہ تعالی ہی کو معلوم ہیں، اسی حرف کے نام پر سورت کا نام رکھا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۴۵        رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

قاف۔ قسم ہے قرآن مجید کی۔ (۱) بلکہ انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس ان میں سے ایک ڈر سنانے والا آیا، تو کافروں نے کہا یہ عجیب بات ہے۔ (۲)

کیا جب ہم مر گئے اور مٹی ہو گئے (پھر جی اٹھیں گے ) یہ دوبارہ لوٹنا دور (از عقل) ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی قرآن کی بزرگی اور عظمت شان کا کیا کہنا جس نے آخر سب کتابوں کو منسوخ کر دیا اور اپنی اعجازی قوت اور لامحدود اسرار و معارف سے دنیا کو محو حیرت بنا دیا۔ یہ ہی بزرگی والا قرآن بذاتِ خود شاہد ہے کہ اس کے اندر کوئی نقص و عیب نہیں نہ کہیں انگلی رکھنے کی جگہ ہے ، لیکن منکرین پھر بھی اس کو قبول نہیں کرتے اس لیے نہیں کہ ان کے پاس اس کے خلاف کوئی حجت و برہان ہے بلکہ محض اپنے جہل اور حماقت سے اس پر تعجب کرتے ہیں کہ ان ہی کے خاندان اور نسل کا ایک آدمی ان کی طرف رسول ہو کر آیا اور بڑا بن کر سب کو نصیحتیں کرنے لگا۔ اور بات بھی ایسی عجیب کہی جسے کوئی باور نہ کر سکے۔ بھلا جب ہم مر کر مٹی ہو گئے۔ کیا پھر زندگی کی طرف واپس کیے جائیں گے ؟ یہ واپسی تو عقل سے بہت دور اور امکان و عادت سے بالکل بعید ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تحقیق ہم جانتے ہیں جو کچھ کم کرتی ہے ان (کے اجسام) میں سے زمین اور ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی کتاب (لوح محفوظ) ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی ساری مٹی نہیں ہو جاتی، جان سلامت رہتی ہے اور بدن کے اجزاء تحلیل ہو کر جہاں کہیں منتشر ہو گئے ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ اس کو قدرت ہے کہ ہر جگہ سے اجزائے اصلیہ کو جمع کر کے ڈھانچہ کھڑا کر دے اور دوبارہ اس میں جان ڈال دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا، جب وہ ان کے پاس آیا، پس وہ الجھی ہوئی بات میں (پڑے ہیں)۔ (۵)

تشریح: یعنی صرف تعجب نہیں بلکہ کھلی ہوئی تکذیب ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قرآن اور بعث بعد الموت، ہر چیز کو جھٹلاتے ہیں۔ اور عجب الجھی ہوئی باتیں کرتے ہیں۔ بیشک جو شخص سچی باتوں کو جھٹلاتا ہے۔ اسی طرح شک و اضطراب اور تردد و تحیر کی الجھنوں میں پڑ جایا کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا وہ اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھتے ؟ کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا!اور اس کو (ستاروں سے ) آراستہ کیا، اور اس میں کوئی شگاف تک نہیں۔ (۶)

تشریح: یعنی آسمان کو دیکھ لو، نہ بظاہر کوئی کھمبا نظر آتا ہے ، نہ ستون، اتنا بڑا عظیم الشان جسم کیسا مضبوط و مستحکم کھڑا ہے ، اور رات کو جب اس پر ستاروں کی قندیل اور جھاڑ فانوس روشن ہوتے ہیں تو کس قدر پر رونق اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں برس گزر گئے نہ اس چھت میں کہیں سوراخ ہوا، نہ کوئی کنکرہ گرا، نہ پلاسٹر ٹوٹا، نہ رنگ خراب ہوا، آخر کون سا ہاتھ ہے جس نے یہ مخلوق بنائی اور بنا کر اس کی ایسی حفاظت کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور زمین کو ہم نے پھیلایا، اور اس میں پہاڑ جمائے ، اور اس میں اگائیں ہر قسم کی خوشنما (چیزیں)۔ (۷)

ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے ذریعہ بینائی و نصیحت۔ (۸)

تشریح: یعنی جو آدمی خدا کی طرف رجوع کرتا ہو محض ان ہی محسوسات کے دائرہ میں الجھ کر نہ رہ جائے اس کے لیے آسمان و زمین کی تخلیق و تنظیم میں دانائی و بینائی کے کتنے سامان ہیں، جن میں ادنیٰ غور کرنے سے صحیح حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ اور بھولے ہوئے سبق اس کو یاد آسکتے ہیں۔ پھر خدا جانے ایسی روشن نشانیوں کی موجودگی میں بھی یہ لوگ کیونکر حق کو جھٹلانے کی جرأت کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی اتارا پھر ہم نے اس سے باغات اگائے اور کھیتی کا غلہ۔ (۹)

اور بلند و بالا کھجور کے درخت، جن کے تہ بہ تہ (خوب گندھے ہوئے ) خوشے ہیں۔ (۱۰)

رزق بندوں کیلئے ، اور ہم نے اس سے مردہ زمین کو زندہ کیا، اسی طرح (قبرسے ) نکلنا ہو گا۔ (۱۱)

تشریح: جس طرح ایک مردہ پڑی ہوئی زمین کو اللہ تعالی بارش کے ذریعے زندگی عطا کر دیتے ہیں کہ اس میں ڈالے ہوئے بیج سے طرح طرح کی سبزیاں، پھل اور اناج وجود میں آ جاتا ہے ، اسی طرح جو لوگ قبروں میں مٹی ہو چکے ہیں ان کو بھی اللہ تعالی نئی زندگی دینے پر قادر ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

ان سے قبل جھٹلایا نوح کی قوم، اور اہل رس اور ثمود نے۔ (۱۲) اور عاد اور فرعون اور لوط کے بھائیوں نے۔ (۱۳) اور بن کے رہنے والوں نے ، اور قوم تبع نے ، سب رسولوں کو جھٹلایا، پس وعدۂ عذاب ثابت ہو گیا۔ (۱۴)

تشریح: ان اقوام کے قصے سورہ حجر، فرقان، دخان وغیرہ میں گزر چکے ہیں۔

 

توکیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گئے ہیں، بلکہ وہ ازسر نو پیدا کرنے (کی طرف) سے شک میں ہیں۔ (۱۵)

تشریح: کسی بھی چیز کو پہلی بار پیدا کرنا اسے عدم سے وجود میں لانا ہمیشہ زیادہ مشکل ہوتا ہے ، بہ نسبت اس کے کہ اسے دوبارہ ویسا ہی بنا دیا جائے ، جب اللہ تعالی کو پہلی بار پیدا کرنے میں کوئی دشواری یا تھکن لاحق نہیں ہوئی تو دوبارہ پیدا کرنے میں کیوں کوئی مشکل ہو گی۔

(توضیح القرآن)

 

اور تحقیق ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسے گزرتے ہیں اس کے جی میں، اور ہم اس کی رگِ جان سے (بھی) بہت قریب ہیں۔ (۱۶)

جب (وہ کوئی کام کرتا ہے ) تو لکھنے والے لکھ لیتے ہیں (ایک) دائیں سے اور (ایک) بائیں سے بیٹھا ہوا۔ (۱۷)

اور کوئی بات (زبان سے ) نہیں نکالتا مگر اس کے پاس (لکھنے کو) ایک نگہبان تیار بیٹھا ہے۔ (۱۸)

تشریح: یعنی اللہ تعالی نے انسان کے تمام اچھے بُرے کاموں کو ریکارڈ کرنے کے لئے دو فرشتے مقرر فرما رکھے ہیں جوہر وقت اس کے دائیں اور بائیں موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ انتظام صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انسان کے اعمال نامے کو قیامت کے دن خود اس کے سامنے حجت کے طور پر پیش کیا جا سکے ، ورنہ اللہ تعالی کو انسان کے اعمال جاننے کے لئے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ وہ ہر انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے خوب واقف ہے ، اور انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور حق کے ساتھ موت کی بیہوشی آ گئی، یہ وہ ہے جس سے تو بدکتا تھا۔ (۱۹)

تشریح:  یعنی آدمی نے موت کو بہت کچھ ٹلانا چاہا۔ اور اس ناخوشگوار وقت سے بہت کچھ بھاگتا اور کتراتا رہا پر یہ گھڑی ٹلنے والی کہاں تھی۔ آخر سر پر آ کھڑی ہوئی کوئی تدبیر اور حیلہ دفع الوقتی کا نہ چل سکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور صور پھونکا گیا یہ وعید کا دن ہے۔ (۲۰)

تشریح: چھوٹی قیامت تو موت کے وقت ہی آ چکی تھی۔ اس کے بعد بڑی قیامت حاضر ہے۔ بس صور پھونکا گیا اور وہ ہولناک دن آ موجود ہوا۔ جس سے انبیاء و رسل برابر ڈراتے چلے آتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہر شخص (ہمارے حضور) حاضر ہو گا، اس کے ساتھ ایک چلانے والا اور ایک گواہی دینے والا ہو گا۔ (۲۱)

تشریح: یعنی جب قبروں سے نکل کر انسان میدان حشر کی طرف جائیں گے تو دو فرشتے ہر ایک کے ساتھ ہوں گے ، ان میں سے ایک تو انہیں میدان حشر کی طرف ہانک کر لے جائے گا، اور ایک فرشتہ اس لئے ہو گا کہ وہ حساب و کتاب کے وقت اس کے اعمال کی گواہی دے ، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ وہی دو فرشتے ہوں گے جو دنیا میں اس کا اعمال نامہ لکھا کرتے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

تحقیق تو اس سے غفلت میں تھا تو ہم نے تجھ سے تیرا (غفلت کا) پردہ ہٹا دیا، پس تیری نظر آج بڑی تیز ہے۔ (۲۲)

تشریح: یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ دنیا کے مزوں میں پڑ کر تو آج کے دن سے بے خبر تھا اور تیری آنکھوں کے سامنے شہوات و خواہشات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پیغمبر جو سمجھاتے تھے۔ تجھے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ آج ہم نے تیری آنکھ سے وہ پردے ہٹا دیے اور نگاہ خوب تیز کر دی۔ اب دیکھ لے جو باتیں کہی گئی تھیں، صحیح ہیں یا غلط۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہے گا اس کا ہم نشین (فرشتہ) جو میرے پاس (اعمال نامہ تھا) یہ حاضر ہے (حکم ہو گا) تم دونوں جہنم میں ڈال دو ہر ناشکرے سرکش کو۔ (۲۴) منع کرنے والے کو (بخیلی کرنے والے ) مال میں، حد سے گزرنے والے ، اور شبہات ڈالنے والے کو۔ (۲۵)

تشریح: یہاں (ہم نشین) ساتھی سے مراد وہی فرشتہ ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہ کر اس کے اعمال لکھا کرتا تھا اور قبر سے اس کے ساتھ گواہ بن کر آیا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

أَلْقِيَا فِیْ جَہَنَّمَ كُلَّ کَفَّارٍ عَنِيْدٍ : بارگاہِ ایزدی سے یہ حکم دو فرشتوں کو ہو گا کہ ایسے لوگوں کو جہنم میں جھونک دو (اعاذنا اللہ منہا)۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہرایا، پس اسے ڈال دو سخت عذاب میں۔ (۲۶)

اس کا ہم نشین (شیطان) کہے گا، اے ہمارے رب! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا، بلکہ وہ پرلے درجے کی گمراہی میں تھا۔ (۲۷)

تشریح: یہاں (ہم نشین) ساتھی سے مراد شیطان ہے ، کیونکہ وہ بھی ہر وقت انسان کو بہکانے کے لئے اس کے ساتھ رہتا تھا، کافر لوگ چاہیں  گے کہ اپنے حصے کی سزا یہ کہہ کر اپنے سرداروں پر اور خاص طور سے شیطان پر ڈالیں کہ اس نے ہمیں گمراہ کیا تھا، اس کے جواب میں شیطان یہ کہے گا کہ میں نے گمراہ نہیں کیا، کیونکہ مجھے کوئی ایسا اختیار نہیں تھا کہ اسے زبردستی گمراہی کے راستے پر ڈالوں، زیادہ سے زیادہ میں نے انہیں ترغیب دی تھی، گمراہی میں تو یہ خود اپنے اختیار سے پڑا تھا، شیطان کے اس جواب کی تفصیل سورۂ ابراہیم (۱۴۔ ۲۲) میں ملاحظہ فرمائیے۔

(توضیح القرآن)

 

ارشاد ہو گا تم میرے سامنے نہ جھگڑو، اور میں تمہاری طرف پہلے وعدۂ عذاب بھیج چکا ہوں۔ (۲۸)

تشریح: یعنی بک بک مت کرو۔ دنیا میں سب کو نیک و بد سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اب ہر ایک کو اس کے جرم کے موافق سزا ملے گی۔ جو گمراہ ہوا اور جس نے اغواء کیا سب اپنی حرکتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

میرے پاس بات نہیں بدلی جاتی، اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (۲۹)

تشریح: یعنی ہمارے یہاں ظلم نہیں۔ جو کچھ فیصلہ ہو گا عین حکمت اور انصاف سے ہو گا۔ ”اور بات نہیں بدلتی۔ ” یعنی کافر بخشا نہیں جاتا۔ بھلا شیطان اکفر کی بخشش تو کہاں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی ؟اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے۔ (۳۰)

تشریح: یعنی دوزخ کا پھیلاؤ اس قدر لوگوں سے نہ بھرے گا اور شدتِ غیظ سے اور زیادہ کافروں اور نافرمانوں کو طلب کرے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جنت پرہیزگاروں کے نزدیک کر دی جائے گی، نہ ہو گی دور۔ (۳۱)

تشریح: یعنی جنت اس سے دور نہ ہو گی۔ بہت قریب سے اس کی تر و تازگی اور بناؤ سنگار دیکھیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ہے جو تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر رجوع کرنے والے ، نگہداشت کرنے والے کے لئے۔ (۳۲)

جو اللہ رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آیا۔ (۳۳)

(ہم فرمائیں گے ) اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی جنہوں نے دنیا میں خدا کو یاد رکھا اور گناہوں سے محفوظ ہو کر اس کی طرف رجوع ہوئے ، اور بے دیکھے اس کے قہرو جلال سے ڈرے ، اور ایک پاک و صاف رجوع ہونے والا دل لے کر حاضر ہوئے ، اس جنت کا وعدہ ایسے لوگوں سے کیا گیا تھا وقت آ گیا ہے کہ سلامتی و عافیت کے ساتھ اس میں داخل ہوں۔ فرشتے ان کو سلام کریں اور ان کے پروردگار کا سلام پہنچائیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”اس دن جس کو جو کچھ ملا سو، ہمیشہ کے لیے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں ان کے لئے جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے۔ (۳۵)

تشریح: جنت کی نعمتوں کی کچھ اجمالی جھلک تو اللہ تعالی نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں بیان فرمائی ہے ، لیکن جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے ، اللہ تعالی نے جنت میں وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی نہیں، کسی کان نے سنی نہیں، اور کسی شخص کے دل میں اس کا خیال بھی پیدا نہیں ہوا، یہاں بڑے بلیغ انداز میں اللہ تعالی نے ان نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کچھ اور زیادہ بھی ہے ، انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اللہ تعالی کا دیدار بھی ہے ، مزید دیکھیے سورۂ یونس (۱۰۔ ۲۶)

(توضیح القرآن)

 

اور ہم نے ان (اہل مکہ) سے قبل کتنی (ہی) ہلاک کیں امتیں، وہ پکڑ (قوت) میں ان سے زیادہ سخت تھیں، پس وہ شہروں میں گشت کرنے لگے ، کیا کہیں بھاگنے کی جگہ ہے ؟ (۳۶)

تشریح: پہلے کفار کی تعذیب اخروی کا بیان تھا۔ درمیان میں ان کے مقابلہ پر اہل جنت کے تنعم کا ذکر آ گیا۔ اب پھر کفار کی سزا دہی کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی آخرت سے پہلے دنیا ہی میں ہم کتنی شریر و سرکش قوموں کو تباہ کر چکے ہیں جو زور و قوت میں موجود اقوام کفار سے بڑھ چڑھ کر تھیں۔ اور جنہوں نے بڑے بڑے شہر چھان مارے تھے۔ پھر جب عذاب الٰہی آیا تو بھاگ جانے کو روئے زمین پر کہیں ٹھکانہ نہ ملا۔ یا یہ مطلب ہے کہ عذاب کے وقت اپنی بستیوں میں کھوج لگانے لگے کہ کہیں پناہ ملے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اس میں نصیحت (بڑی عبرت) ہے اس کے لئے جس کا دل (بیدار ) ہو، یا کان لگائے ، اور وہ متوجہ ہو۔ (۳۷)

تشریح: یعنی ان عبرتناک واقعات میں غور و فکر کر کے و ہی لوگ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں جن کے سینہ میں سمجھنے والا دل ہو کہ از خود ایک بات کو سمجھ لیں، یا کم از کم کسی سمجھانے والے کے کہنے پر دل کو حاضر کر کے کان دھریں۔ کیونکہ یہ بھی ایک درجہ ہے کہ آدمی خود متنبہ نہ ہو، تو دوسرے کے متنبہ کرنے پر ہوشیار ہو جائے۔ جو شخص نہ خود سمجھے نہ کسی کے کہنے پر توجہ کے ساتھ کان لگائے اس کا درجہ اینٹ پتھر سے زیادہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور جو ان کے درمیان ہے چھ دن میں، اور ہمیں کسی تکان نے نہیں چھوا۔ (۳۸)

پس جو وہ کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرو، سورج کے طلوع اور غروب سے قبل۔ (۳۹)

تشریح: یعنی ایسی موٹی باتوں کو یہ لوگ نہ سمجھیں تو آپ غمگین نہ ہوں۔ بلکہ ان کی بیہودہ بکواس پر صبر کرتے رہیں۔ اور اپنے پروردگار کی یاد میں دل لگائے رکھیں جو تمام زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کے بنانے اور بگاڑنے پر قدرت رکھتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رات میں پس اس کی پاکیزگی بیان کرو، اور نمازوں کے بعد (بھی)۔ (۴۰)

تشریح: سجدوں سے مراد فرض نمازیں ہیں، اور ان کی بعد تسبیح سے مراد نفلی نمازیں ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے۔

(روح المعانی)

 

اور کان لگا کر سنو جس دن پکارنے والا قریب جگہ سے پکارے گا۔ (۴۱)

تشریح: کہتے ہیں صور پھونکا جائے گا بیت المقدس کے پتھر پر۔ اس لیے نزدیک کہا۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس کی آواز ہر جگہ نزدیک لگے گی اور سب کو یکساں سنائی دے گی۔ باقی صور پھونکنے کے سوا اور بھی ندائیں حق تعالیٰ کی طرف سے اس روز ہوں گی۔ بعض نے آیت سے وہ مراد لی ہے۔ مگر ظاہر نفخ صور ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن وہ حق کے ساتھ چیخ سنیں گے ، یہ (قبروں سے ) باہر نکلنے کا دن ہو گا۔ (۴۲)

تشریح: یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زمین سے نکل کھڑے ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم ہی مارتے ہیں، اور ہماری طرف (ہی) لوٹ کر آنا ہے۔ (۴۳)

تشریح: یعنی بہرحال موت و حیات سب خدا کے ہاتھ میں ہے اور پھر کر آخرکار اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ بچ کر کوئی نہیں نکل سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن زمین ان سے شق ہو جائے گی جلدی کرتے ہوئے نکلیں گے ، یہ حشر ہمارے لئے آسان ہے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی زمین پھٹے گی اور مردے اس سے نکل کر میدان حشر کی طرف جھپٹیں گے۔ خدا تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو ایک میدان میں اکٹھا کر دے گا اور ایسا کرنا اس کو کچھ مشکل نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو وہ کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں، اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں، پس آپ قرآن سے نصیحت کریں جو میری وعید (وعدۂ عذاب) سے ڈرتا ہے۔ (۴۵)

تشریح: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر مجبور کریں، آپ کا فریضہ صرف یہ ہے کہ نصیحت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں، جس کے دل میں کچھ خدا کا خوف ہو گا وہ آپ کی بات مان لے گا ا ور جو نہ مانے اس کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

٭٭

 

 

 

 

۵۱۔ سُوْرَۃُ الذّٰرِیٰتِ

 

                تعارف

 

یہاں سے سورۂ حدید (سورت نمبر:۴۷) تک تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان سب کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد کی تعلیم اور خاص طور پر آخرت کی زندگی، جنت اور دوزخ کے حالات اور پچھلی قوموں کے عبرت ناک انجام کا نہایت فصیح  و بلیغ اور انتہائی مؤثر تذکرہ ہے ، اس تاثیر کو کسی بھی ترجمے کے ذریعے کسی اور زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۶۰        رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

قسم ہے (خاک) اُڑا کر پراگندہ کرنے والی ہواؤں کی۔ (۱) پھر (بارش کا) بوجھ اٹھانے والی ہواؤں کی۔ (۲) پھر نرمی سے چلنے والی ( کشتیوں کی)۔ (۳) پھر حکم سے تقسم کرنے والے (فرشتوں کی)۔ (۴)

تشریح: یہاں دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے ، ایک یہ کہ اللہ تعالی کو اپنی کسی بات کا یقین دلانے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ اس بات سے بے نیاز ہے کہ اپنی کسی بات پر قسم کھائے ، البتہ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی کی طرف سے جو قسمیں کھائی گئی ہیں وہ کلام میں فصاحت و بلاغت کا زور پیدا کرنے کے لئے آئی ہیں، اور بسا اوقات ان میں یہ پہلو مد نظر ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی جا رہی ہے اگر اس پر غور کیا جائے تو وہ اس بات کی دلیل اور گواہ ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہے ، چنانچہ یہاں قسم کے بعد جو بات بیان فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور جزا وسزا کا فیصلہ ضرور ہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

اول زور کی ہوائیں اور آندھیاں چلتی ہیں جن سے غبار وغیرہ اڑتا ہے اور بادل بنتے ہیں، پھر ان میں پانی بنتا ہے۔ اس بوجھ کو اٹھائے پھرتی ہیں۔ پھر برسنے کے قریب نرم ہوا چلتی ہے پھر اللہ کے حکم کے موافق بارش میں جس جگہ کہ جتنا حصہ ہوتا ہے وہ تقسیم کرتی ہیں۔ ان ہواؤں کی اللہ قسم کھاتا ہے۔ بعض علماء نے ”ذاریات، سے ہوائیں۔ ”حاملات” سے بادل، ”جاریات” سے ستارے اور ”مقسمات” سے فرشتے مراد لیے ہیں۔ گویا مقسم بہ کی ترتیب نیچے سے اوپر کو ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ وغیرہ سے منقول ہے کہ ”ذاریات” ہوائیں۔ ”حاملات”۔ بادل، ”جاریات” کشتیاں، اور ”مقسمات ”فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے رزق وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے البتہ سچ ہے۔ (۵) اور بیشک جزا وسزا البتہ واقع ہونے والی ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی یہ ہواؤں اور بارش وغیرہ کا نظام شاہد ہے کہ آخرت کا وعدہ سچا، اور انصاف ہونا ضروری ہے۔ جب اس دنیا میں ہوا تک بے نتیجہ نہیں چلتی تو کیا اتنا بڑا کارخانہ یوں ہی بے نتیجہ چل رہا ہے ؟ یقیناً اس کا کوئی عظیم الشان انجام ہو گا۔ اسی کو آخرت کہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

قسم ہے راستوں والے آسمانوں کی۔ (۷) بے شک تم البتہ جھگڑنے والی بات میں ہو۔ (۸) اس (قرآن) سے وہی پھیرا جاتا ہے جو (اللہ کی طرف سے ) پھیرا جاتا ہے۔ (۹)

تشریح: یعنی صاف و شفاف، خوبصورت، مضبوط اور پر رونق آسمان کی قسم جس پر ستاروں کا جال بچھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور جس پر ستاروں کی اور فرشتوں کی راہیں پڑی ہوئی ہیں۔

قیامت اور آخرت کی بات میں خواہ مخواہ جھگڑے ڈال رکھے ہیں۔ اس کو و ہی تسلیم کرے گا جسے بارگاہ ربوبیت سے کچھ تعلق ہو۔ جو شخص راندہ درگا ہے اور خیر و سعادت کے راستوں سے پھیر دیا گیا ہے وہ اس چیز کے تسلیم اور قبول کرنے سے ہمیشہ باز رہے گا۔ حالانکہ اگر صرف آسمان کے نظم و نسق میں غور کرے تو یقین ہو جائے کہ اس مسئلہ میں جھگڑنا محض حماقت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اٹکل دوڑانے والے مارے گئے۔ (۱۰) وہ غفلت میں بھولے ہوئے ہیں۔ (۱۱) وہ پوچھتے ہیں جزا وسزا کا دن کب ہو گا۔ (۱۲)

تشریح: یعنی دین کی باتوں میں اٹکلیں دوڑاتے ہیں اور محض اپنے ظن و تخمین سے قطعیات کو رد کرتے ہیں۔ دنیا کے مزوں نے آخر سے اور خدا سے غافل کر رکھا ہے۔ انکار اور ہنسی کے طور پر پوچھتے ہیں کہ ہاں صاحب! وہ انصاف کا دن کب آئے گا؟ آخر اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے ؟

(تفسیرعثمانی)

 

(ہاں) اس دن وہ آگ پر الٹے سیدھے پڑیں گے۔ (۱۳) (اب) تم اپنی شرارت (کا مزہ) چکھو، یہ ہے وہ جس کی تم جلدی کرتے تھے۔ (۱۴)

تشریح: یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کو جواب دیا گیا۔ یعنی ذرا صبر کرو۔ وہ دن آیا چاہتا ہے۔ جب تم آگ میں الٹے سیدھے کیے جاؤ گے۔ اور خوب جلا تپا کر کہا جائے گا کہ لو اب اپنی شرارت اور استہزاء کا مزہ چکھو۔ جس دن کی جلدی مچا رہے تھے وہ آ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک متقی باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (۱۵) جو ان کے رب نے انہیں دیا وہ اس کے لینے والے ہوں گے ، بیشک وہ اس سے قبل نیکو کار تھے۔ (۱۶)

وہ رات میں تھوڑاسوتے تھے۔ (۱۷) اور وقت صبح وہ استغفار کرتے (بخشش مانگتے ) تھے۔ (۱۸)

تشریح: یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گزارتے اور سحر کے وقت جب رات ختم ہونے کو آتی اللہ سے اپنی تقصیرات کی معافی مانگتے کہ الٰہی حق عبودیت ادا نہ ہو سکا۔ جو کوتاہی رہی اپنی رحمت سے معاف فرما دیجیے۔ کثرت عبادت ان کو مغرور نہ کرتی تھی۔ بلکہ جس قدر بندگی میں ترقی کرتے جاتے خشیت و خوف بڑھتا جاتا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے مالوں میں حق ہے سوالی اور غیر سوالی (تنگدست) کے لئے۔ (۱۹)

تشریح: سائل سے مراد تو وہ حاجت مند ہے جو زبان سے اپنی ضرورت کا اظہار کر دے ، اور محروم سے مراد وہ ہے جو حاجت مند ہونے کے باوجود کسی سے کچھ مانگتا نہیں، اس آیت میں حق کا لفظ استعمال کر کے بتا دیا گیا ہے کہ انسان ان لوگوں پر زکوٰۃ وغیرہ کی شکل میں جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو انہیں پہنچانا ہی چاہئیے تھا، کیونکہ مال و دولت اللہ تعالی کی عطا ہے ، اور اس کا یہ حکم ہے کہ اس میں حاجت مند لوگوں کا بھی حصہ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۲۰)

اور تمہاری ذات میں (بھی) ، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ (۲۱)

تشریح: یعنی یہ شب بیداری، استغفار اور محتاجوں پر خرچ کرنا اس یقین کی بناء پر ہونا چاہیے کہ خدا موجود ہے اور اس کے ہاں کسی کی نیکی ضائع نہیں جاتی۔ اور یہ یقین وہ ہے جو آفاقی و انفسی آیات میں غور کرنے سے بسہولت حاصل ہو سکتا ہے۔ انسان اگر خود اپنے اندر یا روئے زمین کے حالات میں غور و فکر کرے تو بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ ہر نیک و بد کی جزاء کسی نہ کسی رنگ میں ضرور مل کر رہے گی۔ جلد یا بدیر۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آسمانوں میں تمہارا رزق ہے ، اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ (۲۲)

تشریح: یعنی سائلوں اور محتاجوں پر خرچ کرنے سے اس لیے نہیں ڈرنا چاہیے کہ خرچ کر کے ہم کہاں سے کھائیں گے اور نہ خرچ کر کے ان مساکین پر احسان جتلائے کیونکہ تمہاری سب کی روزی اور اجر و ثواب کے جو وعدے کیے گئے ہیں آسمان والے کے ہاتھ میں ہیں۔ ہر ایک کی روزی پہنچ کر رہے گی کسی کے روکے نہیں رک سکتی۔ اور خرچ کرنے والوں کو ثواب بھی مل کر رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

قسم ہے رب کی آسمانوں اور زمین کے ، بیشک یہ (قرآن) حق ہے جیسے تم بولتے ہو۔ (۲۳)

تشریح: یعنی جیسے اپنے بولنے میں شبہ نہیں، ویسا ہی اس کلام میں شبہ نہیں۔ یقیناً روزی پہنچ کر رہے گی، قیامت قائم ہو گی، آخرت آ کر رہے گی، اور خدا کے وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ آگے ”وَفِی اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِل وَالْمَحْرُوْم۔ ” کی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا قصہ سناتے ہیں جو تمہید ہے لوط علیہ السلام کے قصہ کی۔ دونوں قصوں سے یہ بھی ظاہر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ دنیا میں محسنین کے ساتھ کیا ہے اور مکذبین کے ساتھ اس نے کیسا برتاؤ کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا آپ کے پاس خبر آئی ابراہیم کے معزز مہمانوں کی؟ (۲۴)

تشریح: یعنی فرشتے تھے جن کو ابراہیم علیہ السلام اول انسان سمجھے ان کی بڑی عزت کی اور اللہ کے ہاں تو فرشتے معزز و مکرم ہیں ہی۔ کما قال ”بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

جب وہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کہا، اس (ابراہیم) نے (بھی) کہا سلام، وہ لوگ ناشناسا تھا۔ (۲۵)

تشریح: یعنی سلام کا جواب سلام سے دیا اور دل میں یا آپس میں کہا کہ یہ لوگ کچھ اوپرے سے معلوم ہوتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر وہ اپنے اہل خانہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک فربہ گوسالہ (کے کباب) لے آئے۔ (۲۶) پھر ان کے سامنے رکھا (اور ) کہا کیا تم کھاتے نہیں؟ (۲۷)

تشریح: یعنی نہایت اہتمام سے مہمانی شروع کر دی اور نہایت مہذب و شائستہ پیرایہ میں کہا کہ کیوں حضرات! تم کھانا نہیں کھاتے ؟ وہ فرشتے تھے ، کھاتے کس طرح۔ آخر ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ آدمی نہیں ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اس (ابراہیم) نے ان سے (دل میں) ڈر محسوس کیا، وہ بولے تم ڈرو نہیں، اور انہوں نے اسے ایک دانشمند بیٹے کی بشارت دی۔ (۲۸)

یہ قصہ سورہ ”ہود” اور ”حجر” میں گزر چکا ہے۔ وہاں تفصیل ملاحظہ کر لی جائے۔

 

پھر اس کی بیوی آگے آئی حیرت سے بولتی ہوئی، اس نے اپنے چہرہ پر (ہاتھ) مارا، اور بولی (میں) بڑھیا (اور اوپر سے ) بانجھ۔ (۲۹)

تشریح: حضرت سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ایک طرف گوشہ میں کھڑی سن رہی تھیں۔ لڑکے کی بشارت سن کر چلاتی ہوئی دوسری طرف متوجہ ہوئیں اور تعجب سے پیشانی پر ہاتھ مار کر کہنے لگیں کہ (کیا خوب) ایک بڑھیا بانجھ جس کی جوانی میں اولاد نہ ہوئی۔ اب بڑھاپے میں بچہ جنے گی؟

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے کہا یوں ہی فرمایا ہے تیرے رب نے ، بیشک وہ حکمت والا، جاننے والا ہے۔ (۳۰)

تشریح:  یعنی ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ و ہی جانتا ہے کہ کس کو کس وقت کیا چیز دینا چاہیے۔ (پھر تم بیت نبوت سے ہو کر اس بشارت پر تعجب کیا کرتی ہو) (تنبیہ) مجموعہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکا حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں جن کی بشارت ماں اور باپ دونوں کو دی گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس (ابراہیم) نے کہا اے فرشتو!تمہارا مقصد کیا ہے۔ (۳۱)

تشریح: یعنی ابراہیم نے فرشتوں سے پوچھا کہ آخر تم کس مہم کے لیے آئے ہو۔ انداز سے سمجھے ہوں گے کہ ضرور کسی اور اہم مقصد کے لیے ان کا نزول ہوا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے جواب دیا، بیشک ہم مجرموں کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۳۲) تاکہ ہم ان پر سنگِ گل کے پتھر (سنگریزے ) برسائیں۔ (۳۳) تمہارے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے نشان کئے ہوئے۔ (۳۴)

تشریح:  یعنی قوم لوط کی سزا دہی کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تاکہ کنکر کے پتھر برسا کر ان کو ہلاک کریں۔ ”من طینٍ” کی قید سے معلوم ہو گیا کہ یہ اولوں کی بارش نہ تھی جس کو توسعاً پتھر کہہ دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پتھروں پر نشان کر دیئے گئے ہیں۔ یہ عذاب کے پتھر خاص ان ہی کو لگیں گے جو عقل، دین اور فطرت کی حد سے نکل چکے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے نکال لیا (انہیں) جو اس (شہر) میں ایمان والے تھے۔ (۳۵) پس ہم نے اس (شہر) میں مسلمانوں کا (کوئی) گھر ایک (لوط) کے سوا نہ پایا۔ (۳۶)

تشریح: یعنی اس بستی میں صرف ایک حضرت لوط کا گھرانا مسلمانی کا گھرانا تھا۔ اس کو ہم نے عذاب سے محفوظ رکھا اور صاف بچا نکالا۔ باقی سب تباہ کر دیئے گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے چھوڑ دی دردناک عذاب سے ڈرنے والوں کے لئے اس شہر میں ایک نشانی۔ (۳۷)

تشریح: یعنی اب تک وہاں تباہی کے نشان موجود ہیں اور ان کی غیر معمولی ہلاکت کے قصہ میں ڈرنے والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور موسیٰ میں (بھی ایک نشانی) ہے ، جب ہم نے اسے فرعون کی طرف بھیجا روشن معجزے کے ساتھ۔ (۳۸)

تو اس نے (فرعون نے ) (ارکان سلطنت) کے ساتھ سرتابی کی اور کہا یہ جادوگر یا دیوانہ ہے۔ (۳۹)

تشریح: یعنی زور و قوت پر مغرور ہو کر حق کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اور اپنی قوم اور ارکان سلطنت کو بھی ساتھ لے ڈوبا۔ کہنے لگا کہ موسٰی یا تو چالاک جادوگر ہے اور یا دیوانہ ہے۔ دو حال سے خالی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے اسے ا ورا س کے لشکر کو پکڑا پھر ہم نے انہیں پھینک دیا دریا میں، اور وہ ملامت زدہ (رہ گیا)۔ (۴۰)

تشریح: یعنی ہم نے زیادتی نہیں کی۔ الزام اسی پر ہے کہ اس نے کفر اور سرکشی اختیار کی، سمجھانے پر بھی باز نہ آیا۔ آخر جو بویا تھا و ہی کاٹا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور عادکی سرگزشت میں بھی ایک نشانی ہے ، جب ہم نے ان پر نا مبارک آندھی بھیجی۔ (۴۱)

تشریح: یعنی عذاب کی آندھی آئی جو خیر و برکت سے یکسر خالی تھی۔ اس نے مجرموں کی جڑ کاٹ ڈالی اور جس چیز پر گزری اس کا چورا کر کے رکھ دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کسی چیز کو نہ چھوڑتی تھی جس پر وہ آتی، مگر اسے ایک گلی سڑی ہڈی کی طرح کر دیتی۔ (۴۲)

اور ثمود میں (بھی ایک نشانی ہے ) جب انہیں کہا گیا ایک (تھوڑی) مدت اور فائدہ اٹھا لو۔ (۴۳)

تشریح: یعنی حضرت صالح نے فرمایا کہ اچھا کچھ دن اور دنیا کے مزے اڑا لو، اور یہاں کا سامان برت لو۔ آخر عذاب الٰہی میں پکڑے جاؤ گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی، پس انہیں بجلی کی کڑک نے آ پکڑا، اور وہ دیکھتے تھے۔ (۴۴)

پس ان میں کھڑا ہونے کی سکت نہ رہی اور وہ ہم سے بدلہ لینے والے نہ تھے۔ (۴۵)

تشریح: یعنی ان کی شرارت روز بروز بڑھتی گئی۔ آخر عذاب الٰہی نے آ لیا ایک کڑک ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب ٹھنڈے ہو گئے۔ وہ سب زور و طاقت اور متکبرانہ دعوے اور طنطنے خاک میں مل گئے ، کسی سے اتنا بھی نہ ہوا کہ پچھاڑ کھانے کے بعد ذرا اٹھ کھڑا ہوتا۔ بھلا بدلہ تو کیا لے سکتے تھے اور اپنی مدد پر کسے بلاتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور نوح کی قوم کو اس سے قبل (ہم نے ہلاک کیا) بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔ (۴۶)

تشریح: یعنی ان اقوام سے پہلے نوح کی قوم اپنی بغاوت اور سرکشی کی بدولت تباہ کی جا چکی ہے وہ لوگ بھی نافرمانی میں حد سے نکل گئے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے آسمان کو بنایا قوت سے ، اور بیشک ہم وسیع القدرت ہیں۔ (۴۷)

تشریح: یعنی آسمان جیسی وسیع چیز اپنی قدرت سے پیدا کی اور اس سے بھی بڑی چیزیں پیدا کرے تو کیا مشکل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے زمین کو (بطور) فرش بنایا، اور ہم کیسا اچھا بچھانے والے ہیں۔ (۴۸)

تشریح: یعنی زمین و آسمان سب خدا کے پیدا کیے ہوئے اور اسی کے قبضہ میں ہیں۔ پھر اس کا مجرم بھاگ کر کہاں پناہ لے سکتا ہے۔ نیز خالق کائنات کی عجیب و غریب کاریگری میں آدمی غور کرے تو اسی کا ہو رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہر شے سے ہم نے دوقسم پیدا کیں تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ (۴۹)

تشریح: قرآن کریم نے یہ حقیقت کئی جگہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز میں (نر اور مادہ) جوڑے پیدا فرمائے ہیں، یہ بات پہلے سائنس کو دریافت نہیں ہوئی تھی، لیکن اب سائنس نے بھی اس قرآنی حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

پس تم اللہ کی طرف دوڑو، بیشک میں تمہارے لئے اس (کی طرف) سے واضح ڈرانے والا ہوں۔ (۵۰)

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ ٹھہراؤ، بیشک میں تمہارے لئے اس (کی طرف) سے واضح ڈر سنانے والا ہوں۔ (۵۱)

تشریح: یعنی جب زمین و آسمان اور تمام کائنات ایک اللہ کی پیدا کی ہوئی اور اسی کے زیر حکومت ہے تو بندہ کو چاہیے ہر جانب سے ہٹ کر اسی کی طرف بھاگے۔ اگر اس کی طرف نہ بھاگا اور رجوع نہ ہوا تو یہ بہت ڈر کی چیز ہے۔ یا کسی اور ہستی کی طرف رجوع ہو گیا تو یہ بھی ڈر کی بات ہے ان دونوں صورتوں کے خوفناک انجام سے میں تم کو صاف صاف ڈراتا ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی طرح (ان کے پاس) نہیں آیا کوئی رسول جو ان سے پہلے تھے مگر انہوں نے (اسے ) جادوگر یا دیوانہ کہا۔ (۵۲)

تشریح: یعنی ایسی صاف تنبیہ و انذار پر اگر یہ منکرین کان نہ دھریں تو غم نہ کیجیے۔ ان سے پہلے جن کافر قوموں کی طرف کوئی پیغمبر آیا، اسی طرح جادوگر یا دیوانہ کہہ کر اس کی نصیحتوں کو ہنسی میں اڑا دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے ایک دوسرے کو اس کی وصیت کی ہے ؟بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں۔ (۵۳)

تشریح: یعنی ہر زمانے کے کافر اس بات میں ایسے متفق اللفظ رہے کہ گویا ایک دوسرے کو وصیت کر مرے ہیں کہ جو رسول آئے اسے ساحر یا مجنون کہہ کر چھوڑ دینا۔ اور واقع میں وصیت تو کہاں کرتے ، البتہ شرارت کے عنصر میں سب شریک ہیں۔ اور یہی اشتراک پچھلے شریروں سے وہ الفاظ کہلاتا جو اگلے شریروں نے کہے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ ان سے منہ موڑ لیں تو آپ پر کوئی الزام نہیں۔ (۵۴)

اور آپ سمجھائیں، بیشک سمجھانا ایمان لانے والوں کو نفع دیتا ہے۔ (۵۵)

تشریح: یعنی آپ فرض دعوت و تبلیغ کما حقہ ادا کر چکے ، اب زیادہ پیچھے پڑنے اور غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ماننے کا جو کچھ الزام رہے گا ان ہی معاندین پر رہے گا۔ ہاں سمجھانا آپ کا کام ہے۔ سو یہ سلسلہ جاری رکھیے جس کی قسمت میں ایمان لانا ہو گا اس کو یہ سمجھانا کام دے گا جو ایمان لا چکے ہیں ان کو مزید نفع پہنچے گا اور منکروں پر خدا کی حجت تمام ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور میں نے پیدا کئے جن اور انسان صرف اس لئے کہ وہ میری عبادت (بندگی اور فرمانبرداری) کریں۔ (۵۶)

تشریح: یعنی ان کے پیدا کرنے سے شرعاً بندگی مطلوب ہے۔ اسی لیے ان میں خلقۃً ایسی استعداد رکھی ہے کہ چاہیں تو اپنے اختیار سے بندگی کی راہ پر چل سکیں، یوں ارادہ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے تو ہر چیز اس کے حکم تکوینی کے سامنے عاجز اور بے بس ہے۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب سب بندے اپنے ارادہ سے تخلیق عالم کی اس غرض شرعی کو پورا کریں گے بہرحال آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سمجھاتے رہیے کہ سمجھانے سے ہی یہ مطلوب شرعی حاصل ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

میں ان سے کوئی رزق نہیں مانگتا، اور نہیں چاہتا کہ وہ مجھے کھلائیں۔ (۵۷)

بیشک اللہ ہی رزاق ہے ، قوت والا، نہایت قدرت والا۔ (۵۸)

تشریح: یعنی ان کی بندگی سے میرا کچھ فائدہ نہیں، ان ہی کا نفع ہے۔ میں وہ مالک نہیں جو غلاموں سے کہے میرے لیے کما کر لاؤ، یا میرے سامنے کھانا لا کر رکھو۔ میری ذات ان تخیلات سے پاک اور برتر ہے۔ میں ان سے اپنے لیے روزی کیا طلب کرتا، خود ان کو اپنے پاس سے روزی پہنچاتا ہوں، بھلا مجھ جیسے زور آور اور قادر و توانا کو تمہاری خدمات کی کیا حاجت ہو سکتی ہے ، بندگی کا حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ تم میری شہنشاہی و عظمت و کبریائی کا قولاً فعلاً اعتراف کر کے میرے خصوصی الطاف و مراحم کے مورد مستحق بنو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس بیشک جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے لئے (عذاب کے ) پیمانے ہیں، جیسے پیمانے ان کے ساتھیوں کے لئے تھے ، پس وہ جلدی نہ کریں۔ (۵۹)

تشریح: یعنی اگر یہ ظالم بندگی کی طرف نہیں آتے تو سمجھ لو کہ دوسرے ظالموں کی طرح ان کا ڈول بھی بھر چکا ہے۔ بس اب ڈوبا چاہتا ہے۔ خواہ مخواہ سزا میں جلدی نہ مچائیں۔ جیسے دوسرے کافروں کو خدائی سزا کا حصہ پہنچا، ان کو بھی پہنچ کر رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو ان لوگوں کے لئے بربادی ہے جنہوں نے اس دن کا انکار کیا، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ (۶۰)

تشریح: یعنی قیامت کا دن یا اس سے پہلے ہی کوئی دن سزا کا آ جائے۔ چنانچہ مشرکین مکہ کو ”بدر” میں خاصی سزا مل گئی۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۵۲۔ سُوْرَۃُ الطُّوْرِ

 

                تعارف؟

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات ۴۹         رکوعات:۲

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

قسم ہے طور سینا کی۔ (۱) اور لکھی ہوئی کتاب کی۔ (۲) کھلے اوراق میں۔ (۳) اور بیتِ معمور (فرشتوں کے کعبۂ آسمانی) کی۔ (۴) اور بلند چھت کی۔ (۵) اور جوش مارتا دریا کی۔ (۶) بیشک تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے۔ (۷) اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔ (۸)

تشریح: پچھلی سورت کے شروع میں قرآن کریم کی قسموں پر جو حاشیہ ہم نے دیا ہے ، اسے یہاں بھی ملاحظہ فرما لیا جائے ، یہاں اللہ تعالی نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے ، پہلے کوہِ طور کی جس کی طرف اشارہ ہے کہ آخرت میں نافرمانوں کو عذاب ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ، بلکہ کوہِ طور پر جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی، وہ بھی اس بات کی گواہ ہے ، دوسری قسم ایک کتاب کی کھائی گئی ہے جو ایک صحیفے میں لکھی ہوئی ہے اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک تورات ہے ، اس صورت میں اس قسم کا بھی آخرت کے عذاب سے وہی تعلق ہے جو کوہِ طور کا عرض کیا گیا، البتہ بعض مفسرین نے اس سے مراد نامۂ اعمال   لیا ہے ، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ انسانوں کا جو نامۂ اعمال ہر آن لکھا جا رہا ہے ، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی وقت حساب و کتاب ہو گا اور نافرمانوں کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی، تیسری قسم بیت معمور کی کھائی گئی ہے ، یہ عالم بالا میں ایک ایسا ہی گھر ہے جیسا دنیا میں بیت اللہ ہے ، عالم بالا کا یہ گھر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے اس کی قسم کھا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ فرشتے اگرچہ انسانوں کی طرح مکلف نہیں، لیکن وہ پھر بھی عبادت میں لگے ہوئے ہیں، انسان تو مکلف اسی لئے بنایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرے ، اور اگر نہیں کرے گا تو سزا کے لائق ہو گا، چوتھی قسم اونچی چھت یعنی آسمان کی اور پانچویں قسم بھرے ہوئے سمندر کی کھائی گئی ہے ، اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگر جزا وسزا نہ ہو تو اس کائنات کا جس کے اوپر آسمان اور نیچے سمندر اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں، پیدا کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہتا، نیز یہ کہ جو ذات اتنی عظیم چیزیں پیدا کرنے پر قادر ہے وہ یقیناً انسانوں کو دوسری زندگی دینے پر بھی قادر ہے۔

(توضیح القرآن)

 

جس دن تھرتھرائے گا آسمان (بُری طرح) تھر تھرا کر، اور پہاڑ چلنے کی طرح چلیں گے (اڑے پھریں گے )۔ (۱۰)

سو اس دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہے۔ (۱۱) وہ جو مشغلے میں (بیہودگی سے ) کھیلتے ہیں۔ (۱۲)

تشریح: یعنی جو آج کھیل کود میں مشغول ہو کر طرح طرح کی باتیں بناتے اور آخرت کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کے لیے اس روز سخت خرابی اور تباہی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن وہ جہنم کی آگ کی طرف دھکے دے کر دھکیلے جائیں گے۔ (۱۳) یہ ہے وہ آگ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی فرشتے ان کو سخت ذلت کے ساتھ دھکیلتے ہوئے دوزخ کی طرف لے جائیں گے اور وہاں پہنچا کر کہا جائے گا کہ یہ وہ آگ حاضر ہے جس کو تم جھوٹ جانتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا یہ جادو ہے ؟یا تم کو دکھائی نہیں دیتا۔ (۱۵)

تشریح: یعنی تم دنیا میں انبیاء کو جادوگر اور ان کی وحی کو جادو کہا کرتے تھے۔ ذرا اب بتلاؤ کہ یہ دوزخ جس کی خبر انبیاء نے دی تھی کیا واقعی جادو یا نظر بندی ہے یا جیسے دنیا میں تم کو کچھ سوجھتا نہ تھا، اب بھی نہیں سوجھتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں داخل ہو جاؤ، پھر تم صبر کرو، یا نہ صبر کرو، تمہارے لئے برابر ہے ، اس کے سوا نہیں کہ جو تم کرتے تھے تمہیں (اس کا) بدلہ دیا جائے گا۔ (۱۶)

تشریح: یعنی دوزخ میں پڑ کر اگر گھبراؤ اور چلاؤ گے ، تب کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ اور بفرض محال صبر کر کے چپ ہو رہو تب تم پر کوئی رحم کھانے والا نہیں۔ غرض دونوں حالتیں برابر ہیں۔ اس جیل خانہ سے نکلنے کی تمہارے لیے کوئی سبیل نہیں۔ جو کرتوت دنیا میں کیے ان کی سزا یہی حبس دوام اور ابدی عذاب ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک متقی (بہشت کے ) باغوں اور نعمت میں ہوں گے۔ (۱۷) اس کے ساتھ خوش ہوں گے جو ان کے رب نے انہیں دیا، اور ان کے رب نے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے تھے۔ وہاں بالکل مامون اور بے فکر ہوں گے۔ ہر قسم کے عیش و آرام کے سامان ان کے لیے حاضر رہیں گے اور یہ ہی انعام کیا کم ہے کہ دوزخ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم کھاؤ اور پیئو رچتے بچتے (جی بھر کر) اس کے بدلے میں جو تم کرتے تھے۔ (۱۹)

تختوں پر صف بستہ تکیہ لگائے ہوئے ، اور ہم نے ان کی زوجیت میں دیا بڑی آنکھوں والی حوروں کو۔ (۲۰)

تشریح: یعنی جنتیوں کی مجلس اس طرح ہو گی کہ سب جنتی بادشاہوں کی طرح اپنے اپنے تخت پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے اور ان کی ترتیب نہایت قرینہ سے ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی، ہم نے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیا، اور ہم نے ان کے عمل سے کچھ کمی نہیں کی، ہر آدمی اپنے اعمال میں گروی ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی نیک لوگوں کی اولاد اگر مؤمن ہو تو اگرچہ وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے جنت میں اس اونچے درجے کی مستحق نہ ہو جواس کے والد کو ملا ہے ، لیکن اللہ تعالی والد کو خوش کرنے کے لئے اولاد کو بھی وہی درجہ دے دیں گے اور والد کے درجے میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔

كُلُّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَہِيْنٌ: رہن اس سامان کو کہتے ہیں جو کسی ادھار دینے والے نے اپنے ادھار کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر مقروض سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہو، اللہ تعالی نے ہر انسان کو جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، وہ انسان کے پاس ادھار ہیں، یہ ادھار اسی صورت میں اترسکتا ہے جب انسان اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ان صلاحیتوں کو استعمال کرے جس کا مظاہرہ دنیا میں ایمان لانے اور نیک عمل کرنے سے ہوتا ہے ، اس ادھار کے لئے ہر انسان کی جان اس طرح رہن رکھی ہوئی ہے ، اگر وہ ایمان اور نیک عمل کے ذریعے اپنا ادھار اتار دے گا تو آخرت میں اس کی جان کو آزادی حاصل ہو گی، اور وہ جنت میں اطمینان سے خوش حالی کے ساتھ رہے گا، اور اگر اس نے یہ قرض نہ اتارا تو پھر اس کو دوزخ میں قید رہنا ہو گا، اس فقرے کو یہاں لانے کا مطلب یہ ہے کہ جن ایمان والوں کے متعلق اس آیت میں کہا گیا ہے کہ انہیں ثواب ملے گا اور ان کی مؤمن اولاد بھی ان کے ساتھ ہو گی، انہوں نے اللہ تعالی کا حکم پورا کر کے اپنا اُدھار اُتار دیا، اور اپنی جان کو آزاد کرا لیا ہے ، لیکن اگر کسی کی اولاد مؤمن ہی نہ ہو تو اسے اپنے ماں باپ کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ اس نے وہ مطالبہ پورا نہیں کیا جس کے لئے اس کی جان رہن رکھی ہوئی تھی، اس لئے اسے دوزخ میں جا کر قید رہنا ہو گا، نیز اس فقرے کا یہاں ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ باپ کی نیکی کی وجہ سے اس کی مؤمن اولاد کا درجہ بڑھا دیا جائے گا، لیکن اولاد کی بد عملی کی کوئی سزا باپ کو نہیں ملے گی، کیونکہ ہر شخص کی جان خود اپنی کمائی کے لئے رہن ہے دوسرے کی کمائی کے لئے نہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہم پھلوں کے ساتھ ان کی مدد کریں گے اور گوشت (سے ) جو ان کا جی چاہے گا۔ (۲۲)

تشریح: یعنی جس قسم کا گوشت مرغوب ہو اور جس جس میوے کو دل چاہے بلا توقف لگاتار حاضر کیے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں اس پیالے کی چھینا جھپٹی کریں گے جس میں نہ بکواس ہو گی نہ گناہ کی بات۔ (۲۳)

تشریح: چھینا جھپٹی سے مراد وہ چھینا جھپٹی ہے جو بے تکلف دوستوں میں کسی لذیذ چیز سے لطف لینے کے لئے ہوا کرتی ہے ، اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی، بلکہ مجلس کا لطف بڑھ جاتا ہے ، چنانچہ فرمایا گیا ہے اس جام شراب میں اس طرح کی بے ہودگی یا گناہ کی کوئی بات نہیں ہو گی جو دنیا کے شرابیوں میں پائی جاتی ہے ، اس شراب میں وہ نشہ ہی نہیں ہو گا جو انسان کو بے ہودگیوں پر آمادہ کر دے۔

(توضیح القرآن)

 

ا ور ان کے ارد گرد پھریں گے خدمت گار لڑکے ، گویا وہ چھپا کر رکھے ہوئے موتی ہیں۔ (۲۴)

تشریح: یعنی جیسے موتی اپنے غلاف کے اندر بالکل صاف و شفاف رہتا ہے گردو غبار کچھ نہیں پہنچتا۔ یہ ہی حال ان کی صفائی اور پاکیزگی کا ہو گا۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور ان میں سے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو گا آپس میں پوچھتے ہوئے۔ (۲۵)

وہ کہیں گے بیشک ہم اس سے پہلے اپنے اہل خانہ میں ڈرتے تھے۔ (۲۶)

تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں بچا لیا گرم ہوا کے عذاب سے۔ (۲۸)

بیشک اس سے قبل ہم اس کو پکارتے تھے ، بے شک وہی احسان کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی جنتی اس وقت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کریں گے اور غایت مسرت و امتنان سے کہیں گے کہ بھائی ہم دنیا میں ڈرتے رہتے تھے کہ دیکھیے مرنے کے بعد کیا انجام ہو۔ یہ کھٹکا برابر لگا رہتا تھا۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ آج اس نے کیسا مامون و مطمئن کر دیا کہ دوزخ کی بھاپ بھی ہم کو نہیں لگی۔ ہم اپنے رب کو ڈر کر اور امید باندھ کر پکارا کرتے تھے۔ آج دیکھ لیا کہ اس نے اپنی مہربانی سے ہماری پکار سنی اور ہمارے ساتھ کیسا اچھا سلوک کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آ پ نصیحت کرتے رہیں، پس آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں نہ دیوانے۔ (۲۹)

تشریح: کفار، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی دیوانہ کہتے ، کبھی کاہن، یعنی جنوں اور شیطانوں سے کچھ جھوٹی سچی خبریں لے کر دیتے ہیں۔ اتنا نہیں سمجھتے تھے کہ آج تک کسی کاہن اور دیوانے نے ایسی اعلیٰ درجہ کی نصیحتیں اور حکیمانہ اصول، اس طرح کے صاف، شستہ اور شائستہ طرز میں بیان نہیں کیے ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کو بھلا برا سمجھاتے رہیے اور پیغمبرانہ نصیحتیں کرتے رہیے۔ ان کی بکواس سے دل گیر نہ ہوں۔ جب اللہ کے فضل و رحمت سے نہ آپ کاہن ہیں نہ مجنون بلکہ اس کے مقدس رسول ہیں تو نصیحت کرتے رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ کہتے ہیں یہ شاعر ہے ، ہم اس کے ساتھ حوادث زمانہ کے منتظر ہیں۔ (۳۰)

تشریح: یعنی پیغمبر جو اللہ کی باتیں سناتا اور نصیحت کرتا ہے۔ کیا یہ لوگ اس لیے قبول نہیں کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض ایک شاعر سمجھتے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ جس طرح قدیم زمانہ کے بہت سے شعراء گردش زمانہ سے یونہی مر مرا کر ختم ہو گئے ہیں، یہ بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ کوئی کامیاب مستقبل ان کے ہاتھ میں نہیں۔ محض چند روز کی وقتی واہ واہ ہے اور بس۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں تم انتظار کرو، بیشک میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (۳۱)

تشریح: یعنی اچھا تم میرا انجام دیکھتے رہو۔ میں تمہارا دیکھتا ہوں۔ عنقریب کھل جائے گا کہ کون کامیاب ہے ، کون خائب و خاسر۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان کی عقلیں انہیں یہ سکھاتی ہیں ؟یا وہ سرکش لوگ ہیں۔ (۳۲)

تشریح: یعنی پیغمبر کو مجنون کہہ کر گویا اپنے کو بڑا عقلمند ثابت کرتے ہیں۔ کیا ان کی عقل و دانش نے یہی سکھلایا ہے کہ ایک انتہائی صادق، امین، عاقل و فرزانہ اور سچے پیغمبر کو شاعر یا کاہن یا دیوانہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے۔ اگر شاعروں اور پیغمبروں کے کلام میں تمیز بھی نہیں کر سکتے تو کیسے عقلمند ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دل میں سمجھتے سب کچھ ہیں مگر محض شرارت اور کجروی سے باتیں بناتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو گھڑ لیا ہے ، (نہیں) بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۳۳)

تو چاہئیے کہ وہ اس جیسی ایک بات لے آئیں۔ اگر وہ سچے ہیں۔ (۳۴)

تشریح: یعنی کیا یہ خیال ہے کہ پیغمبر جو کچھ سنا رہا ہے وہ اللہ کا کلام نہیں؟ بلکہ اپنے دل سے گھڑ لایا؟ اور جھوٹ موٹ خدا کی طرف منسوب کر دیا؟ سو نہ ماننے کے ہزار بہانے۔ جو شخص ایک بات پر یقین نہ رکھے اور اسے تسلیم نہ کرنا چاہے وہ اسی طرح کے بے سروپا احتمالات نکالا کرتا ہے ورنہ آدمی ماننا چاہے تو اتنی بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ وہ دنیا کی تمام طاقتوں کو اکٹھا کر کے بھی اس قرآن کا مثل نہیں لا سکتے۔ اور جیسے خدا کی زمین جیسی زمین، اور اس کے آسمان جیسا آسمان بنانا کسی سے ممکن نہیں، اس کے قرآن جیسا قرآن بنا لانا بھی محال ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ پیدا کئے گئے ہیں بغیر کسی شے (بنانے والے ) کے ، یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں۔ (۳۵)

کیا انہوں نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو؟ (نہیں) بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے۔ (۳۶)

تشریح: یعنی پیغمبر خدا کی بات کیوں نہیں مانتے۔ کیا ان کے اوپر کوئی خدا نہیں جس کی بات ماننا ان کے ذمہ لازم ہو۔ کیا بغیر کسی پید ا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا خود اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں؟ یا یہ خیال ہے کہ آسمان و زمین ان کے بنائے ہوئے ہیں لہٰذا اس قلم رو میں جو چاہیں کرتے پھریں، کوئی ان کو روکنے ٹوکنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ سب خیالات باطل اور مہمل ہیں۔ وہ بھی دلوں میں جانتے ہیں کہ ضرور خدا موجود ہے جس نے ان کو اور تمام زمین و آسمان کو نیست سے ہست کیا۔ مگر اس علم کے باوجود جو ایمان و یقین شرعاً مطلوب ہے اس سے محروم اور بے بہرہ ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان کے پاس تیرے رب (کی رحمت) کے خزانے ہیں، یا وہ داروغے ہیں؟ (۳۷)

تشریح: مکہ مکرمہ کے کافر لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالی کو پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو مکہ مکرمہ یا طائف کے کسی بڑے سردار کو پیغمبر کیوں نہیں بنایا گیا؟ (دیکھئے سورۂ زخرف۴۳۔ ۳۱) اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ کیا اللہ تعالی کی رحمت کے خزانے ، جن میں کسی کو پیغمبر بنانے کا اختیار بھی شامل ہے ، ان کی خواہشات کے تابع ہیں کہ وہ جسے چاہیں اسے پیغمبر بنا دیا جائے ؟۔

(توضیح القرآن)

 

کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے ؟جس پر (چڑھ کر) وہ سنتے ہیں، تو چاہئیے کہ ان کا سننے والا کوئی کھلی سند لائے۔ (۳۸)

تشریح: یعنی کیا یہ دعویٰ ہے کہ وہ زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جاتے اور وہاں سے ملاء اعلیٰ کی باتیں سن آتے ہیں۔ پھر جب ان کی رسائی براہ راست اس بارگاہ تک ہو تو کسی بشر کا اتباع کرنے کی کیا ضرورت رہی۔ جس کا یہ دعویٰ ہو تو بسم اللہ اپنی سند اور حجت پیش کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا اس کے لئے بیٹیاں اور تمہارے لئے بیٹے ہیں؟ (۳۹)

کیا آپ ان سے مانگتے ہیں کوئی اجر؟کہ تاوان (کے بوجھ) سے دبے جاتے ہیں۔ (۴۰)

تشریح: یعنی کیا یہ لوگ آپ کی بات اس لیے نہیں مانتے کہ خدا نکردہ آپ ان سے اس ارشاد و تبلیغ پر کوئی بھاری معاوضہ طلب کر رہے ہیں جس کے بوجھ سے وہ دبے جاتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان کے پاس (علم) غیب ہے کہ وہ لکھ لیتے ہیں۔ (۴۱)

کیا وہ ارادہ رکھتے ہیں کسی داؤ کا؟ تو جن لوگوں نے کفر کیا وہی داؤ میں گرفتار ہوں گے۔ (۴۲)

یعنی ان میں سے کوئی بات نہیں تو کیا پھر یہی ارادہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ داؤ پیچ کھیلیں اور مکر و فریب اور خفیہ تدبیریں گانٹھ کر حق کو مغلوب یا نیست و نابود کر دیں۔ ایسا ہے تو یاد رہے کہ یہ داؤ پیچ سب ان ہی پر الٹنے والے ہیں عنقریب پتہ لگ جائے گا کہ حق مغلوب ہوتا ہے یا وہ نابود ہوتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان کے لئے اللہ کے سوا کوئی معبود ہے ؟اللہ اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی کیا خدا کے سوا کوئی اور حاکم اور معبود تجویز کر رکھے ہیں جو مصیبت پڑنے پر ان کی مدد کریں گے ؟ اور جن کی پرستش نے خدا کی طرف سے ان کو بے نیاز کر رکھا ہے ؟ سو یاد رہے کہ یہ سب اوہام و وساوس ہیں۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک و مثیل یا مقابل و مزاحم ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں تو وہ کہتے ہیں تہ بہ تہ جما ہوا بادل ہے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی حقیقت میں ان میں سے کوئی بات نہیں۔ صرف ایک چیز ہے ”ضد اور عناد” جس کی وجہ سے سے یہ لوگ ہر سچی بات کے جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی کیفیت تو یہ ہے کہ اگر ان کی فرمائش کے موافق فرض کیجیے آسمان سے ایک تختہ ان پر گرا دیا جائے تو دیکھتی آنکھوں اس کو بھی کوئی تاویل کر دیں گے۔ مثلاً کہیں گے کہ آسمان سے نہیں آیا۔ بادل کا ایک حصہ گاڑھا اور منجمد ہو کر گر پڑا ہے جیسے بڑے بڑے اولے کبھی کبھی گرتے ہیں بھلا ایسے متعصب معاندوں سے ماننے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ ملیں (دیکھ لیں) اپنا وہ دن جس میں وہ بیہوش کر دئے جائیں گے۔ (۴۵)

جس دن ان کا داؤ کچھ بھی ان کے کام نہ آئے گا، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (۴۶)

تشریح: یعنی ایسے معاندوں کے پیچھے پڑنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔ چھوڑ دیجیے کہ چند روز اور کھیل لیں اور باتیں بنا لیں۔ آخر وہ دن آتا ہے جب قہر الٰہی کی کڑک بجلی سے ان کے ہوش و حواس جاتے رہیں گے۔ اور بچاؤ کی کوئی تدبیر کام نہ دے گی، نہ کسی طرف سے مدد پہنچے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے لئے اس کے علاوہ عذاب ہے ، لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (۴۷)

تشریح: یعنی آخرت کا جو عذاب ہونے والا ہے اس سے پہلے دنیا میں بھی کافروں کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چنانچہ ان میں سے بہت سے جنگ بدر وغیرہ میں مارے گئے ، اور آخر کار جزیرۂ عرب میں ان کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں رہی۔

(توضیح القرآن)

 

اور آپ اپنے رب کے حکم پر صبر کریں، بیشک آپ ہماری حفاظت میں ہیں، اور آپ اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کریں جس وقت آپ اٹھیں۔ (۴۸)

تشریح: یعنی صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم تکوینی و تشریعی کا انتظار کیجیے جو عنقریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفین کی طرف سے کچھ بھی نقصان نہ پہنچے گا۔ کیونکہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے زیر حفاطت ہیں۔

صبر تحمل اور سکون و اطمینان کے ساتھ ہمہ وقت اللہ کی تسبیح و تحمید اور عبادت گزاری میں لگے رہیے۔ خصوصاً جس وقت آپ سو کر اٹھیں یا نماز کے لیے کھڑے ہوں، یا مجلس سے اٹھ کر تشریف لے جائیں۔ ان حالات میں تسبیح وغیرہ کی مزید ترغیب و تاکید آئی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رات میں (بھی) ، پس اس کی پاکیزگی بیان کریں اور ستاروں کے پیٹھ پھیرتے (غائب ہوتے ) وقت (بھی)۔ (۴۹)

تشریح:”رات کے حصہ” سے مراد شاید تہجد کا وقت ہو، اور تاروں کے پیٹھ پھیرنے کا وقت صبح کا وقت ہے۔ کیونکہ صبح کا اجالا ہوتے ہی ستارے غائب ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ تم سورۃ الطور وللّٰہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۵۳۔ سُوْرَۃُ النَّجْم

 

                تعارف

 

یہ سورت مکی زندگی کی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ، بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو آپ نے علی الاعلان ایسے مجمع میں پڑھ کر سنائی جس میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، نیز یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی، اور جس وقت آپ نے سجدے کی آیت اس مجمع کے سامنے تلاوت فرمائی تو یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا کہ آپ نے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے سجدہ کیا ہی تھا، اس وقت جو مشرکین موجود تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا، غالباً اس سورت کے پر شکوہ اور مؤثر مضامین نے انہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ سجدہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا، اس سورت کا اصل موضوع حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرنا ہے اور یہ کہ جو وحی آپ پر نازل ہوتی ہے وہ کسی شک و شبہ کے بغیر اللہ تعالی ہی کی طرف سے آتی ہے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام لے کر آتے ہیں، اور اس ضمن میں یہ حقیقت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو مرتبہ اپنی اصل صورت میں دیکھا ہے ، ان میں سے ایک اس وقت دیکھا جب آپ معراج پر تشریف لے گئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اثبات کے ساتھ اس میں مشرکین مکہ کے غلط عقائد اور ان کے بعض بے ہودہ دعووں کی تردید بھی ہے اور پچھلی امتوں پر ناز ل ہونے والے عذاب کے حوالے سے انہیں حق کو تسلیم کرنے کی موثر دعوت بھی دی گئی ہے ، نجم عربی میں ستارے کو کہتے ہیں، اور چونکہ اس سورت کی پہلی ہی آیت میں ستارے کی قسم کھائی گئی ہے ، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ نجم ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۶۲  رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

ستارے کی قسم! جب وہ غائب ہونے لگے۔ (۱) تمہارے رفیق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نہ بہکے اور نہ بھٹکے۔ (۲)

تشریح: ستارے کے گرنے سے مراد اس کا غائب ہونا ہے ، جیسا کہ سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، اس سورت کا اصل موضوع حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرنا ہے ، اس لئے سورت کے شروع میں آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد فرشتہ آپ کے پاس لے کر آتا ہے ، شروع میں ستارے کی قسم کھانے سے اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ستارہ روشنی کی ایک علامت ہے اور عرب کے لوگ اس سے صحیح راستے کا پتہ لگاتے تھے ، اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت کا پیکر ہیں، اس کے علاوہ ستارے کے سفر کے لئے اللہ تعالی نے جو راستہ مقرر فرمایا ہے وہ اس سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا، اور نہ اس سے بھٹکتا ہے ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ وہ نہ راستہ بھولے ہیں، نہ بھٹکے ہیں، پھر جب ستارہ غائب ہونے والا ہوتا ہے تو اس کے ذریعے راستہ زیادہ آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے ، اس کے علاوہ مسافروں کو اس کا زبان حال سے یہ پیغام ہوتا ہے کہ میں رخصت ہونے والا ہوں مجھ سے راستہ معلوم کرنے میں جلدی کرو، اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں زیادہ عرصے مقیم نہیں رہیں گے ، اس لئے آپ سے ہدایت حاصل کرنے والوں کو جلدی کرنی چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

صَاحِبُكُمْ:تمہارے ساتھ رہنے والے صاحب سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور آپ کے لئے یہ لفظ استعمال کر کے اللہ تعالی نے اس حقیقت کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ آپ نے کہیں باہر سے آ کر نبوت کا دعوی نہیں کر دیا، بلکہ وہ شروع سے تمہارے ساتھ رہتے ہیں، اور ان کی پوری زندگی کھلی ہوئی کتاب کی طرح تمہارے سامنے ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، اور نہ کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہے ، اس کے برعکس آپ صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہیں، اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عام زندگی میں تو جھوٹ سے اتنا پرہیز کریں اور اللہ تعالی پر اتنا بڑا بہتان لگا دیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور وہ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے۔ (۳) وہ صرف وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی کوئی کام تو کیا۔ ایک حرف بھی آپ کے دہن مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دین کے باب میں ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں وحی متلو کو ”قرآن” اور غیر متلو کو ”حدیث” کہا جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کو سکھایا اس سخت قوت والے (۵) طاقتوں والے (فرشتہ) نے ، پھر اس نے قصد کیا (رسول کے سامنے آیا)۔ (۶)

تشریح: اس سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر تشریف لاتے تھے ، ان کی اطاعت کا خاص طور سے ذکر فرما کر اس بات کی تردید کی گئی ہے جو کافروں کے دل میں آسکتی تھی کہ اگر کوئی فرشتہ ہی وحی لاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ درمیان میں کوئی شیطانی تصرف نہیں ہوا ؟آیت نے بتا دیا کہ وحی لانے والا فرشتہ اتنا طاقت ور ہے کہ کوئی دوسرا اسے اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکتا۔

(توضیح القرآن)

 

اور وہ سب سے بلند کنارہ پر تھا۔ (۷)

تشریح: کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو فرشتہ وحی لاتا ہے وہ انسان ہی کی شکل میں آتا ہے ، اس لئے آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ فرشتہ ہی ہے ، ان آیتوں میں اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرشتے کو کم از کم دو مرتبہ اپنی اصل صورت میں بھی دیکھا ہے ، ان میں سے ایک واقعے کا اس آیت میں تذکرہ فرمایا گیا ہے ، اور وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اپنی اصلی صورت میں آپ کے سامنے آئیں، چنانچہ وہ اپنی اصلی صورت میں افق پر ظاہر ہوئے ، اور آپ نے انہیں دیکھا۔

(توضیح القرآن)

 

پھر وہ نزدیک ہوا، پھر اور نزدیک ہوا۔ (۸) تو کمان کے دو کناروں کے (فاصلے کے ) برابر رہ گیا یا اس سے بھی کم۔ (۹) تو اس نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔ (۱۰)

تشریح: یعنی جبرائیل علیہ السلام اپنے اصلی مستقر سے تعلق رکھنے کے باوجود نیچے اترے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر نزدیک ہو گئے کہ دونوں کے درمیان دو ہاتھ یا دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر وحی بھیجی۔ غالباً اس سے مراد سورہ ”مدثر” کی یہ آیات ہیں۔ ”یَاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ” یا کچھ اور احکام ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو اس نے (آنکھوں سے ) دیکھا (اس کے ) دل نے تصدیق کی۔ (۱۱)

تشریح: یعنی جبرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ سے دیکھا اور اندر سے دل نے کہا کہ اس وقت آنکھ ٹھیک ٹھیک جبرائیل کو دیکھ رہی ہے ، کوئی غلطی نہیں کر رہی کہ کچھ کا کچھ نظر آتا ہو۔ ایسا کہنے میں آپ کا دل سچا تھا۔ حق تعالیٰ اسی طرح پیغمبروں کے دلوں میں فرشتہ کی معرفت ڈال دیتے ہیں ورنہ رسول کو خود اطمینان نہ ہو تو دوسروں کو اطمینان کہاں سے دستیاب ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا جو اس نے دیکھا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو؟ (۱۲)

تشریح: وحی بھیجنے والا اللہ، لانے والا فرشتہ جس کی صورت و سیرت نہایت پاکیزہ اور فہم و حفظ وغیرہ کی تمام قوتیں کامل، پھر اتنا قریب ہو کر وحی پہنچائے ، پیغمبر اس کو اپنی آنکھ سے دیکھے ، اس کا صاف اور روشن دل اس کی تصدیق کرے ، تو ایسی دیکھی بھالی چیز میں تم کو کیا حق ہے کہ اس سے فضول بحث و تکرار کرو اور جھگڑے نکالو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق اس نے اسے دوسری مرتبہ دیکھا ہے۔ (۱۳) سدرۃ المنتہی کے نزدیک۔ (۱۴) اس کے نزدیک جنت الماویٰ (آرام گاہِ بہشت) ہے۔ (۱۵)

تشریح: یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا دوسرا واقعہ ہے جو معراج کے سفر میں پیش آیا، اس موقع پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی اصلی صورت میں دیکھا، سدرۃ المنتہی عالم بالا میں ایک بیر کا بہت بڑا درخت ہے اور اسی کے پاس جنت واقع ہے جسے جنت المأوی ٰاس لئے کہا گیا ہے کہ مأویٰ کے معنی ہیں ٹھکانا اور وہ مؤمنوں کا ٹھکانا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ (۱۶)

تشریح: یہ آیت بھی ایک عربی محاور ے کے مطابق ہے جس کا ٹھیک ٹھیک  ترجمہ اس کے صحیح تا ثر کے ساتھ بہت مشکل ہے ، مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں اس بیر کے درخت پر چھائی ہوئی تھیں وہ بیان سے باہر ہیں، احادیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لاتعداد فرشتے سونے کے پروانے کی شکل میں اس درخت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے جمع ہو گئے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

آنکھ نے نہ کجی کی اور نہ حد سے بڑھی۔ (۱۷) تحقیق اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ (۱۸)

تشریح: یعنی نہ تو نگاہ نے دیکھنے میں کوئی دھوکا کھایا، اور نہ وہ اس حد سے آگے بڑھی جو اللہ تعالی نے اس کے لئے مقرر فرما دی تھی کہ اس سے آگے نہ دیکھے۔

(توضیح القرآن)

 

کیا تم نے دیکھا لات اور عزّٰی کو۔ (۱۹) اور تیسری آخری منات کو؟۔ (۲۰)

تشریح: لات، عزی اور منات تینوں بتوں کے نام جو عرب کے مختلف قبائل نے مختلف جگہوں پر بنا رکھے تھے ، اور ان کو خدا مان کر ان کی عبادت کی جاتی تھی، قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کی حقیقت بے جان پتھروں کے سوا کیا ہے ، پھر ان کو خدا ماننا کتنی بڑی جہالت کی بات ہے۔

(توضیح القرآن)

 

کیا تمہارے لئے مرد (بیٹے ) ہیں اور اس کے لئے عورتیں (بیٹیاں) ؟ (۲۱) یہ بانٹ تقسیم بے ڈھنگی ہے۔ (۲۲)

تشریح: مشرکین مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ، یہ ان کے اس عقیدے کی طرف اشارہ ہے کہ تم خود تو بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ تعالی کی طرف بیٹیاں منسوب کر رکھی ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

یہ (کچھ) نہیں صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے نہیں اتاری اس کی کوئی سند، وہ نہیں پیروی کرتے ، مگر صرف گمان اور خواہش نفس کی، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت ہے پہنچ چکی ہے۔ (۲۳)

تشریح: یعنی پتھروں اور درختوں کے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کی خدائی کی کوئی سند نہیں۔ بلکہ اس کے خلاف پر دلائل قائم ہیں۔ ان کو اپنے خیال میں خواہ بیٹیاں کہہ لو۔ یا بیٹے یا اور کچھ، محض کہنے کی بات ہے جس کے نیچے حقیقت کچھ نہیں۔

باوجودیکہ اللہ کے پاس سے ہدایت کی روشنی آ چکی اور وہ سیدھی راہ دکھا چکا۔ مگر یہ احمق ان ہی اوہام و اہواء کی تاریکیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اٹکل پچو ذہن میں آ گیا اور دل میں امنگ پیدا ہو کر گزرے۔ تحقیق و بصیرت کی راہ سے کچھ سروکار نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انسان کو وہ (سب کچھ مل جاتا ہے ) جس کی وہ تمنا کرے۔ (۲۴) پس اللہ ہی (کے ہاتھ میں ہے بھلائی) آخرت اور دنیا کی۔ (۲۵)

تشریح: یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ بت ہمارے سفارشی بنیں گے۔ یہ خالی خیالات اور آرزوئیں ہیں۔ کیا انسان جو تمنا کرے و ہی مل جائے گا۔ یاد رہے دنیا اور آخرت کی سب بھلائی اللہ کے ہاتھ ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یعنی بت پوجنے سے کیا ملتا ہے ، ملے و ہی جو اللہ دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں ان کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دیتی مگر اس کے بعد اللہ جس کے لئے اجازت دے ، اور پسند فرمائے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی جب فرشتے بھی اللہ تعالی کی اجازت اور مرضی کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے تو یہ من گھڑت خدا کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ البتہ فرشتوں کے نام عورتوں جیسے رکھتے ہیں۔ (۲۷)

اور انہیں اس کا کوئی علم نہیں وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان یقین کے مقابلے میں کچھ نفع نہیں دیتا۔ (۲۸)

تشریح: یعنی جن کو آخرت کا یقین نہیں وہ سزا کی طرف سے بے فکر ہو کر ایسی گستاخیاں کرتے ہیں۔ مثلاً فرشتوں کو زنانہ قرار دے کر خدا کی بیٹیاں کہہ دیا۔ یہ ان کی محض جہالت ہے۔ بھلا فرشتوں کو مرد اور عورت ہونے سے  کیاواسطہ۔ اور خدا کے لیے اولاد کیسی۔ کیا سچی اور ٹھیک بات پر قائم ہونا ہو تو ایسی اٹکلوں اور پا در ہوا اوہام سے کام چل سکتا ہے۔ اور کیا تخمینے اور اٹکلیں حقائق ثابتہ کے قائم مقام ہو سکتی ہیں؟

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ ان سے منہ پھیر لیں جو ہماری یاد سے روگرداں ہوا، اور وہ دنیا کی زندگی کے سوا نہیں چاہتا۔ (۲۹)

یہ ان کے علم کی رسائی (کی حد ) ہے ، بیشک تیرا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ   ہوا اور وہ اسے خوب جانتا ہے جس نے ہدایت پائی۔ (۳۰)

تشریح: یعنی جس کا اوڑھنا بچھونا یہی دنیا کی چند روزہ زندگی ہو کہ اس میں منہمک ہو کر کبھی خدا کو اور آخرت کو دھیان میں نہ لائے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی بکواس کو دھیان میں نہ لائیں۔ وہ خدا سے منہ موڑتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی شرارت اور کجروی کی طرف سے منہ پھیر لیں۔ سمجھانا تھا سو سمجھا دیا۔ ایسے بد طینت اشخاص سے قبول حق کی توقع رکھنا اور ان کے غم میں اپنے کو گھلانا بیکار ہے۔ ان کی سمجھ تو بس اسی دنیا کے فوری نفع نقصان تک پہنچتی ہے اس سے آگے ان کی رسائی نہیں۔ وہ کیا سمجھیں کہ مرنے کے بعد مالک حقیقی کی عدالت میں حاضر ہو کر ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے۔ ان کی تمام تر علمی جدوجہد صرف بہائم کی طرح پیٹ بھرنے اور شہوت فرو کرنے کے لیے ہے۔

جو گمراہی میں پڑا رہا اور جو راہ پر آیا، ان سب کو اور ان کی مخفی استعدادوں کو اللہ تعالیٰ ازل سے جانتا ہے۔ اسی کے موافق ہو کر رہے گا۔ ہزار جتن کرو، اس کے علم کے خلاف ہرگز واقع نہیں ہو سکتا۔ نیز وہ اپنے علم محیط کے موافق ہر ایک سے ٹھیک ٹھیک اس کے احوال کے مناسب معاملہ کرے گا۔ لہٰذا آپ یکسو ہو کر ان معاندین کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے ، تاکہ جن لوگوں نے بُرائی کی انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے اور انہیں جزا دے جن لوگوں نے بھلائی کے ساتھ نیکی کی۔ (۳۱)

تشریح: یعنی ہر شخص کا حال اس کو معلوم اور زمین و آسمان کی ہر چیز پر اس کا قبضہ۔ پھر نیک و بد کا بدلہ دینے سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے۔ بلکہ غور سے دیکھو تو زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں زندگی کا ایک دوسرا غیر فانی سلسلہ قائم کیا جائے جہاں بروں کو ان کی برائی کا بدلہ ملے اور نیکوں کے ساتھ ان کی بھلائی کے صلہ میں بھلائی کی جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو چھوٹے گناہوں کے سوا بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں، بے شک تمہارا رب وسیع مغفرت والا ہے ، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، اور جب تم اپنے ماؤں کے پیٹوں میں بچے تھے ، پس اپنے آپ کو پاکیزہ نہ سمجھو، وہ اسے خوب جانتا ہے جس نے پرہیزگاری کی۔ (۳۲)

تشریح: قرآن کریم میں اصل لفظ لمم استعمال ہوا ہے ، اس کے لفظی معنی ہیں تھوڑاسا، چنانچہ عام طور سے مفسرین نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ جو کبھی سرزد ہو جائیں، اور لمم کے معنی قریب ہونے کے بھی ہوتے ہیں، اس لحاظ سے بعض مفسرین نے اس لفظ کی تشریح یہ کی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی گناہ کے قریب چلا جائے مگر اس کا ارتکاب نہ کرے۔

اس آیت میں اپنے آپ کو مقدس ا ور متقی سمجھنے اور اپنی تعریفیں کرتے رہنے سے منع کیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

تو کیا تو نے دیکھا جس نے روگردانی کی۔ (۳۳) اور تھوڑا (مال) دیا اور (پھر) بند کر دیا۔ (۳۴)

کیا اس کے پاس علم غیب ہے ؟تو وہ دیکھ رہا ہے۔ (۳۵)

کیا وہ خبر نہیں دیا گیا (کیا اسے خبر نہیں) جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہے۔ (۳۶) اور ابراہیم جس نے (اپنا قول) پورا کیا۔ (۳۷)

تشریح: ان آیتوں کا پس منظر حافظ بن جریر وغیرہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک کافر شخص قرآن کریم کی کچھ آیتیں سن کر اسلام لانے کی طرف مائل ہو گیا تھا، اس کے ایک دوست نے کہا کہ تم اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ رہے ہو ؟اس نے جواب دیا کہ میں آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہوں، دوست نے کہا کہ اگر تم مجھے کچھ پیسے دو تو میں یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ اگر آخرت میں تمہیں عذاب ہونے لگا تو وہ میں اپنے سر لے کر تمہیں بچا لوں گا، چنانچہ اس شخص نے کچھ پیسے دے دئیے ، کچھ عرصے کے بعد اس نے مزید پیسے مانگے   تو اور دے دئیے ، لیکن پھر دینا بند کر دیا، اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک دستاویز لکھ کر دے دی، یہ آیات ان دونوں کی حماقت بتا رہی ہے ہیں کہ اول تو جو شخص یہ کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں آخرت کے عذاب سے بچا لوں گا کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اس پر قادر ہو گا ؟دوسرے اللہ تعالی یہ عام قاعدہ بیان فرما رہے ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، یہ بات آج پہلی بار نہیں کہی جا رہی ہے بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام پر جو صحیفے نازل ہوئے تھے ان میں بھی لکھ دی گئی تھی۔

(توضیح القرآن)

 

کوئی بوجھ اٹھانے والا نہیں اٹھاتا کسی دوسرے کا بوجھ۔ (۳۸) اور یہ کہ کسی انسان کے لئے نہیں (کسی کو نہیں ملتا) مگر اسی قدر جتنی اس نے سعی کی۔ (۳۹)

تشریح: یعنی انسان کو صرف اپنے عمل کے ثواب کا حق پہنچتا ہے ، کسی اور کے عمل کا ثواب لینے کا حق نہیں ہے ، لیکن اللہ تعالی اپنے کرم سے اس کو اس کے استحقاق کے بغیر کسی اور عمل کا ثواب عطا فرما دیں تو یہ ان کی رحمت ہے جس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کو ایصال ثواب کیاجا سکتا ہے ، اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے وہ ثواب مردے کو پہنچاتے ہیں، کیونکہ عام طور سے کوئی شخص دوسرے کو اسی وقت ایصال ثواب کرتا ہے جب اس نے اس کے ساتھ کوئی نیکی کی ہو یا اور نیک اعمال کئے ہوں۔

(توضیح القرآن)

 

اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔ (۴۰) پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (۴۱)

تشریح: یعنی ہر ایک کی سعی و کوشش اس کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ اور اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ تمہارے رب (ہی) کی طرف انتہا ہے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی تمام علوم و افکار اور سلسلہ وجود کی انتہاء اسی پر ہوتی ہے اور سب کو آخرکار اسی کے پاس پہنچنا ہے۔ وہیں سے ہر ایک کو نیکی بدی کا پھل ملے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بے شک وہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔ (۴۳) اور بیشک وہی مارتا ہے اور جِلاتا ہے۔ (۴۴) اور بیشک وہی جس نے دو جوڑے پیدا کئے مرد اور عورت۔ (۴۵) نطفہ سے جب وہ (رحم میں) ڈالا جاتا ہے۔ (۴۶) اور یہ کہ اسی پر (اسی کے ذمے ہے ) دوبارہ جی اٹھانا۔ (۴۷)

تشریح: یعنی اس عالم میں تمام متضاد و متقابل احوال اسی نے پیدا کیے ہیں۔ خیر و شر کا خالق و ہی ہے جو خوشی یا غم کی کیفیات بھیجتا ہنساتا رلاتا، مارتا، جِلاتا اور کسی کو نر کسی کو مادہ بنانا اسی کا کام ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

نطفہ تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن اسی سے کبھی نر پیدا ہوتا ہے اور کبھی مادہ، جو اللہ تعالی نطفے کی چھوٹی سی بوند میں نر اور مادہ پیدا کرنے کے لئے الگ الگ خصوصیات پیدا فرماتا ہے کیا وہ اسی نر اور مادہ کے بعد دوبارہ زندگی دینے پر قادر نہیں ہے ؟

(توضیح القرآن)

 

اور بیشک اس نے غنی کیا اور سرمایہ دار کیا۔ (۴۸)

تشریح: یعنی مال، خزانہ، جائیدادیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں اور بعض نے ”اَقْنٰی” کے معنی ”اَفْقَرَ” کیے ہیں۔ یعنی اسی نے کسی کو غنی اور کسی کو فقیر بنا دیا۔ یہ معنی پہلے سیاق کے مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ متقابل چیزوں کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اور اگر پہلا مطلب لیا جائے تو اس کے مقابل اہلاک کو رکھا جائے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ یعنی خزانے اور مال و دولت دے کر و ہی بڑھاتا ہے اور و ہی بڑی بڑی دولتمند اور طاقتور قوموں کو تباہ و برباد کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک وہی شعریٰ ستارے کا رب ہے۔ (۴۹)

تشریح: ”شعریٰ” ایک بہت بڑا ستارہ ہے جس کو بعض عرب پوجتے تھے اور سمجھتے تھے کہ عالم کے احوال میں اس کی بہت بڑی تاثیر ہے۔ یہاں بتلا دیا کہ ”شعریٰ” کا رب بھی اللہ ہے۔ دنیا کی تمام الٹ پھیر اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ ”شعریٰ” غریب بھی ایک ادنیٰ مزدور کی طرح اس کا حکم بجا لاتا ہے۔ اس میں مستقل تاثیر کچھ بھی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک اس نے قدیم عاد کو ہلاک کیا۔ (۵۰) اور ثمود کو، اس نے باقی نہ چھوڑا۔ (۵۱)

اور قوم نوح کو اس سے قبل، بیشک وہ بڑے ظالم اور بہت سرکش تھے۔ (۵۲)

اور (قوم لوط) کی الٹنے والی بستیوں کو دے مارا۔ (۵۳) تو اس نے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا (پتھروں نے )۔ (۵۴)

تشریح: اس سے مراد اس قوم کی بستیاں ہیں جن کی طرف حضرت لوط علیہ السلام کو بھیجا گیا تھا، اور ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان بستیوں کو الٹ دیا گیا تھا، تفصیل کے لئے دیکھیے سورۂ ہود (۷۷ تا ۸۲)۔

(توضیح القرآن)

 

پس تو اپنے رب کی کس کس نعمت میں شک کرے گا۔ (۵۵)

تشریح: یعنی اے انسان ! اللہ تعالی نے تجھے ان عذابوں سے بچا کر جن نعمتوں میں رکھا ہوا ہے ، پھر تیری ہدایت کے لئے یہ قرآن کریم جن مختلف طریقوں سے تجھے متنبہ کر رہا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس محبت سے تجھے سمجھا کر تجھے عذاب سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان عظیم نعمتوں میں سے کس کس نعمت میں شک کرے گا۔

(توضیح القرآن)

 

یہ پہلے ڈرانے والو ں میں سے ایک ڈرانے والا ہے۔ (۵۶) قریب آنے والی (قیامت) قریب آ گئی۔ (۵۷) اللہ کے سوا اس کا کوئی کھولنے والا نہیں۔ (۵۸)

تشریح: یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجرموں کو اسی طرح برے انجام سے ڈرانے والے ہیں جیسے ان سے پیشتر دوسرے نبی ڈرا چکے ہیں۔

یعنی قیامت قریب ہی آ لگی ہے جس کا ٹھیک وقت اللہ کے سوا کوئی کھول کر نہیں بتا سکتا۔ اور جب وقت معین آ جائے تو کوئی طاقت اس کو دفع نہیں کر سکتی۔ اللہ ہی چاہے تو ہٹے ، مگر وہ چاہے گا نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟ (۵۹) اور تم ہنستے ہو روتے نہیں۔ (۶۰) اور تم غافل ہو۔ (۶۱) پس تم اللہ کے آگے سجدہ کرو، اور اسی کی عبادت کرو۔ (۶۲)

یعنی قیامت اور اس کے قرب کا ذکر سن کر چاہیے تھا خوف خدا سے رونے لگتے اور گھبرا کر اپنے بچاؤ کی تیاری کرتے۔ مگر تم اس کے برخلاف تعجب کرتے اور ہنستے ہو۔ اور غافل و بے فکر ہو کر کھلاڑیاں کرتے ہو۔

یعنی غافل کو زیبا نہیں کہ انجام سے غافل ہو کر نصیحت و فہمائش کی باتوں پر ہنسے اور مذاق اڑائے۔ بلکہ لازم ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرے۔ اور مطیع و منقاد ہو کر جبین نیاز خداوند قہر کے سامنے جھکا دے۔ (تنبیہ) روایات میں ہے سورہ نجم پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور تمام مسلمان اور مشرک جو حاضر تھے سجدہ میں گر پڑے۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ’ لکھتے ہیں کہ ”اس وقت سب کو ایک غاشیہ الٰہیہ نے گھیر لیا تھا۔ گویا ایک غیبی اور قہری تصرف سے طوعاً و کرہاً سب کو سربسجود ہونا پڑا۔ صرف ایک بدبخت جس کے دل پر سخت مہر تھی اس نے سجدہ نہ کیا مگر زمین سے تھوڑی سی مٹی اٹھا کر اس نے بھی پیشانی کو لگا لی اور کہا مجھے اسی قدر کافی ہے۔ ” (تم سورۃ النجم وللہ الحمد والمنہ)۔

(تفسیرعثمانی) ٭٭

 

 

 

 

۵۴۔ سُوْرَۃُ الْقَمَر

 

                تعارف

 

 

 

یہ سورت مکہ مکرمہ میں اُس وقت نازل ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ دکھلایا، اسی لئے اس کا نام سورۂ قمر ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی، اس وقت میں بچی تھی، اور کھیلا کرتی تھی، سورت کا موضوع دوسری مکی سورتوں کی طرح کفار عرب کو توحید رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے ، اور اسی ضمن میں عاد و ثمود، حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوموں اور فرعون کے دردناک انجام کا مختصر لیکن بہت بلیغ انداز میں تذکرہ فرمایا گیا ہے ، اور بار بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کو بہت آسان بنا دیا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۵۵        رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

قیامت قریب آ گئی او چاند شق ہو گیا۔ (۱)

تشریح: قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ بھی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ظاہر ہوا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک چاندنی رات میں مکہ مکرمہ کے کافروں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا، اس پر اللہ تعالی نے یہ کھلا معجزہ دکھایا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ، جن میں سے ایک ٹکڑا  پہاڑ کی مشرقی جانب چلا گیا اور دوسرا مغربی جانب، اور پہاڑ ان کے درمیان آ گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ لو دیکھ لو ! جب سارے لوگوں نے جو وہاں موجود تھے یہ حیرت انگیز نظارہ کر لیا تو یہ دونوں ٹکڑے دوبارہ آپس میں مل گئے ، جو کافر لوگ اس وقت موجود تھے وہ اس مشاہدے کا تو انکار نہیں کرسکتے تھے ، لیکن انہوں نے یہ کہا کہ یہ کوئی جادو ہے ، بعد میں مکہ مکرمہ کے باہر سے آنے والے قافلوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا تھا، ہندوستان کی تاریخ فرشتہ میں بھی مذکور ہے کہ گوالیار کے راجہ نے یہ واقعہ دیکھا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں (یہ) جادو ہے ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ (۲)

تشریح: یعنی اس طرح کے جادو مدعیانِ نبوت نے پہلے بھی کیے ہیں، پھر جس طرح وہ جاتے رہے یہ بھی جاتا رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی، اور ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی ان کا عذاب بھی اپنے وقت پر آئے گا۔ اور اللہ کے علم میں ان کی گمراہی اور ہلاکت ٹھہر چکی ہے وہ کسی صورت سے ٹلنے والی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ان کے پاس آ گئیں (وہ) خبریں جن میں عبرت ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی قرآن کے ذریعہ سے ہر قسم کے احوال اور تباہ شدہ قوموں کے واقعات معلوم کرائے جا چکے ہیں جن میں اگر غور کریں تو خداوند قہار کی طرف سے بڑی ڈانٹ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کامل دانشمندی کی باتیں تو   انہیں ڈرانے والوں نے فائدہ نہ دیا۔ (۵)

سو تم ان سے منہ پھیر لو جس دن بلائے گا ایک بلانے والا (فرشتہ) ناگوار شے کی طرف۔ (۶)

تشریح: یعنی قرآن کریم پوری حکمت اور عقل کی باتوں کا مجموعہ ہے۔ کوئی ذرا نیک نیتی سے توجہ کرے تو دل میں اترتی چلی جائیں مگر افسوس اتنے سامان ہدایت کی موجودگی میں اس پر کچھ اثر نہیں۔ کوئی نصیحت و فہمائش وہاں کام نہیں دیتی۔ کتنا ہی سمجھاؤ پتھر پر جونک نہیں لگتی۔ لہٰذا ایسے سنگدل بدبختوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی منہ نہ لگائیے۔ آپ فرض تبلیغ و دعوت باحسن اسلوب ادا کر چکے۔ اب زیادہ تعاقب کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کو ان کے ٹھکانے کی طرف چلنے دیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی (ہوں گی) وہ قبروں سے (اس طرح) نکلیں گے گویا کہ وہ پراگندہ ٹڈیاں ہیں۔ (۷)

تشریح: یعنی اس وقت خوف و ہیبت کے مارے ذلت و ندامت کے ساتھ آنکھیں جھکائے ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پکارنے والے کی طرف لپکتے ہوئے کافر کہیں گے یہ بڑا سخت دن ہے۔ (۸)

تشریح: یعنی تمام اگلے پچھلے قبروں سے نکل کر ٹڈی دَل کی طرح پھیل پڑیں گے۔ اور خداوند قدوس کی عدالت میں حاضری دینے کے لیے تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوں گے۔

اس دن کے ہولناک احوال و شدائد اور اپنے جرائم کا تصور کر کے کہیں گے کہ یہ دن بڑا سخت آیا ہے ، دیکھئے آج کیا گزرے گی، آگے بتلاتے ہیں کہ قیامت اور آخرت کا عذاب تو اپنے وقت پر آئے گا، بہت سے مکذبین کیلئے اُس سے پہلے دنیا ہی میں ایک سخت دن آ چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جھٹلایا ان سے قبل قوم نوح نے ، تو انہوں نے ہمارے بندے (نوح) کو جھٹلایا، ا ور انہوں نے کہا دیوانہ ہے ، ڈرایا دھمکایا گیا ہے۔ (۹)

تشریح: کہنے لگے اے نوح! اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو تم کو سنگسار کر دیا جائے گا۔ گویا دھمکیوں ہی میں اس کی بات رلا دی۔ اور بعض نے ”وازدجر” کے معنی یوں کیے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے آسیب زدہ۔ جن اس کی عقل لے اڑے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

(تفسیرعثمانی)

 

پس اس نے اپنے رب کو پکارا میں مغلوب ہوں پس (اُن سے ) میرا انتقام لے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی سینکڑوں برس سمجھانے پر بھی جب کوئی نہ پسیجا تو بددعا کی، اور کہا اے پروردگار! میں ان سے عاجز آ چکا ہوں۔ ہدایت و فہمائش کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ اب آپ اپنے دین اور پیغمبر کا بدلہ لیجیے اور زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو ہم نے کثرت سے برسنے والے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دئیے۔ (۱۱)

اور ہم نے زمین سے چشمے جاری کر دئیے ، پس (زمین آسمان کا) پانی اس کام پر مل گیا جو (علم الہی میں) مقرر ہو چکا تھا۔ (۱۲)

تشریح: یعنی پانی اس قدر ٹوٹ کر برسا، گویا آسمان کے دہانے کھل گئے اور نیچے سے زمین کے پردے پھٹ پڑے۔ اتنا پانی ابلا گویا ساری زمین چشموں کا مجموعہ بن کر رہ گئی۔ پھر اوپر اور نیچے کا یہ سب پانی مل کر اس کام کے لیے اکٹھا ہو گیا۔ جو پہلے سے اللہ کے ہاں ٹھہر چکا۔ یعنی قوم نوح کی ہلاکت اور غرقابی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے اسے تختوں والی اور کیلوں والی (کشتی پر) سوار کیا۔ (۱۳) اپنی آنکھوں کے سامنے (اپنی نگرانی میں) اس کے بدلے کے لئے جس کی ناقدری کی گئی۔ (۱۴)

تشریح: یعنی اس ہولناک طوفان کے وقت نوح کی کشتی ہماری حفاظت اور نگرانی میں نہایت امن چین سے چلی جا رہی تھی۔

جَزَآءً لِّمَنْ کَانَ كُفِرَ :حضرت نوح علیہ السلام کی بے قدری کی اور اللہ کی باتوں کا انکار کیا، یہ اس کی سزا ملی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے اسے (بطور) ایک نشانی رہنے دیا، تو کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (۱۵) پس (دیکھو) کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔ (۱۶)

تشریح: یعنی سوچنے والوں کے لیے اس واقعہ میں عبرت کی نشانیاں ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ آج کشتی کا وجود دنیا میں اس کشتی کے قصہ کو یاد دلانے والا اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا نشان ہے۔ اور بعض نے کہا کہ بعینہ و ہی کشتی نوح کے بعد مدت تک رہی۔ ”جودی” پہاڑ پر نظر آتی تھی۔ اس امت کے لوگوں نے بھی دیکھی۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے نصیحت کے لئے قرآن کو آسان کر دیا تو کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (۱۷)

تشریح: یعنی قرآن سے نصیحت حاصل کرنا بالکل آسان ہے ، کیونکہ جو مضامین ترغیب و ترہیب اور انذار و تبشیر سے متعلق ہیں وہ بالکل صاف، سہل اور موثر ہیں۔ پر کوئی سوچنے سمجھنے کا ارادہ کرے تو سمجھے۔ (تنبیہ) آیت کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن محض ایک سطحی کتاب ہے جس کے اندر کوئی دقائق و غوامض نہیں۔ اس علیم و خبیر کے کلام کی نسبت ایسا گمان کیونکر کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ جب اللہ بندوں سے کلام کرتا ہے تو معاذ اللہ اپنے غیر متناہی علوم سے کورا ہو جاتا ہے ؟ یقیناً اس کے کلام میں وہ گہرے حقائق اور باریکیاں ہوں گی جن کا کسی دوسرے کلام میں تلاش کرنا بیکار ہے۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے ”لا تنقضی عَجَآئِبَہ، ” (قرآن کے عجائب و اسرار کبھی ختم ہونے والے نہیں) علمائے امت اور حکمائے ملت نے اس کتاب کے دقائق و اسرار کا پتہ لگانے اور ہزارہا احکام مستنبط کرنے میں عمریں صرف کر دیں، تب بھی اس کی آخری تہ تک نہیں پہنچ سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

عاد نے جھٹلایا تو کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا؟ (۱۸) بیشک ہم نے نصیحت کے دن ان پر تند وتیز ہوا بھیجی (جو) چلتی ہی گئی۔ (۱۹)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی نحوست نہ اٹھی جب تک تمام نہ ہو چکے۔ اور یہ نحوست کا دن ان ہی کے حق میں تھا، یہ نہیں کہ ہمیشہ کو وہ دن منحوس سمجھ لیے جائیں جیسا کہ جاہلوں میں مشہور ہے۔ اور اگر وہ دن عذاب آنے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے منحوس بن گیا ہے۔ تو مبارک دن کون سا رہے گا۔ قرآن کریم میں تصریح ہے کہ وہ عذاب سات رات اور آٹھ دن برابر رہا۔ بتلائیے اب ہفتہ کے دنوں میں کون سا دن نحوست سے خالی رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ لوگوں کو اکھاڑ پھینکتی تھی گویا کہ وہ جڑ سے اکھڑی ہوئی کھجور کے تنے ہیں۔ (۲۰) سو کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا؟ (۲۱)

تشریح: ”قوم عاد” کے لوگ بڑے تنو مند اور قد آور تھے ، لیکن ہوا کا جھکڑ ان کو اٹھا کر اس طرح زمین پر پٹکتا تھا جیسے کھجور کا تنہ جڑ سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے نصیحت کے لئے قرآن کو آسان کر دیا ہے ، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ (۲۲)

ثمود نے ڈرانے والوں (رسولوں) کو جھٹلایا۔ (۲۳) پس انہوں نے کہا کیا ہم اپنے میں سے ایک آدمی کی پیروی کریں؟ بیشک اس صورت میں ہم البتہ گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا۔ اور ایک نبی کا جھٹلانا سب کا جھٹلانا ہے۔ کیونکہ اصولِ دین میں سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔

فَقَالُوْا أَبَشَرًا مِّنَّا :یعنی کوئی آسمان کا فرشتہ نہیں، بلکہ ہم ہی جیسا ایک آدمی اور وہ بھی اکیلا جس کے ساتھ کوئی قوت اور جتھا نہیں، چاہتا ہے کہ ہمیں دبا لے اور سب کو اپنا تابع بنا لے۔ یہ کبھی نہ ہو گا۔ اگر ہم اس پھندے میں پھنس جائیں تو ہماری بڑی غلطی اور حماقت بلکہ جنون ہو گا۔ وہ تو ہم کو ڈراتا ہے کہ مجھے نہ مانو گے تو آگ میں گرو گے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم اس کے تابع ہو جائیں تو گویا خود اپنے کو آگ میں گرا رہے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ہم میں سے اسی پر وحی نازل کی گئی ہے ؟ (نہیں) بلکہ وہ بڑا جھوٹا، خود پسند ہے۔ (۲۵)

تشریح: یعنی پیغمبری کے لیے بس یہی رہ گیا تھا؟ سب جھوٹ ہے۔ خواہ مخواہ بڑائی مارتا ہے کہ خدا نے مجھے اپنا رسول بنا دیا۔ اور ساری قوم کو میری اطاعت کا حکم دیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جلد کل (ہی) جان لیں گے کون بڑا جھوٹا خود پسند ہے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی بہت جلد معلوم ہو جائے گاکہ دونوں فریق میں جھوٹا اور بڑائی مارنے والا کون ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

(اے صالح) بیشک ہم بھیجنے والے ہیں اونٹنی ان کی آزمائش کے لئے ، سو تو ان کا انتظار کر، اور صبر کر۔ (۲۷)

تشریح: یعنی ان کی فرمائش کے موافق ہم پتھر سے اونٹنی نکال کر بھیجتے ہیں۔ اس کے ذریعہ سے جانچا جائے گا کہ کون اللہ و رسول کی بات مانتا ہے اور کون نفس کی خواہش پر چلتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہیں خبر دے کہ پانی ان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے اور ہر ایک کو (اپنی) پینے کی باری پر حاضر ہونا ہے۔ (۲۸)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”وہ اونٹنی جس پانی پر جاتی سب جانور بھاگتے ، تو اللہ نے باری ٹھہرا دی۔ ایک دن وہ جائے ، اور ایک دن سب جانور۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

تو انہوں نے اپنے ساتھی کو پکارا سو اس نے دست درازی کی اور (اونٹنی کی) کونچیں کاٹ دیں۔ (۲۹) تو کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔ (۳۰)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”وہ اونٹنی جس پانی پر جاتی سب جانور بھاگتے ، تو اللہ نے باری ٹھہرا دی۔ ایک دن وہ جائے ، اور ایک دن سب جانور۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے ان پر ایک ہی چنگھاڑ بھیجی سو وہ ہو گئے باڑ لگانے والے کی سوکھی روندی ہوئی باڑ کی طرح۔ (۳۱)

تشریح: فرشتے نے ایک چیخ ماری، کلیجے پھٹ گئے۔ اور سب چورا ہو کر رہ گئے۔ جیسے کھیت کے گرد کانٹوں کی باڑ لگا دیتے ہیں۔ اور چند روز کے بعد پائمال ہو کر اس کا چورا ہو جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے نصیحت کے لئے قرآن کو آسان کر دیا ہے ، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ (۳۲)

لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۳۳) (تو) بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی آندھی بھیجی، لوط کے اہل خانہ کے سوا، ہم نے صبح سویرے انہیں بچا لیا۔ (۳۴)

تشریح: یعنی حضرت لوط علیہ السلام کو جھٹلایا اور ایک نبی کی تکذیب سب انبیاء کی تکذیب ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اپنی طرف سے فضل فرما کر، اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں (اس کو) جو شکر کرے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی وہ پچھلی رات میں اپنے گھر والوں کو لے کر صاف نکل گئے۔ ان کو ہم نے عذاب کی ذرا بھی آنچ نہ لگنے دی۔ اور یہ ہی ہماری عادت ہے۔ حق شناس اور شکر گزار بندوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ( لوط نے ) انہیں ہماری پکڑ سے ڈرایا تو وہ ڈرانے میں جھگڑنے (شک کرنے ) لگے۔ (۳۶)

تشریح: یعنی اس کی باتوں میں واہی تباہی شبہے اور جھگڑے کھڑے کر کے جھٹلانے لگے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق انہوں نے لوط سے ان کے مہمانوں کو (بُری نیت سے ) لینا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں (چوپٹ کر دیں) پس میرے عذاب اور میرے ڈرانے ( کا مزہ) چکھو۔ (۳۷)

تشریح: یعنی فرشتے جو حسین لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ ان کو آدمی سمجھ کر اپنی خوئے بد کی وجہ سے قبضانا چاہا۔ ہم نے ان کو اندھا کر دیا کہ ادھر ادھر دھکے کھاتے پھرتے تھے۔ کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اور کہا لو! پہلے اس عذاب کا مزہ چکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق صبح سویرے ان پر دائمی عذاب آ پڑا۔ (۳۸)

پس میرے عذاب اور ڈرانے (کے مزے ) کو چکھو۔ (۳۹)

تشریح: یعنی اندھا کرنے کے بعد ان کی بستیاں الٹ دی گئیں۔ اور اوپر سے پتھر برسائے گئے۔ اس چھوٹے عذاب کے بعد یہ بڑا عذاب تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے نصیحت کے لئے قرآن کو آسان کر دیا ہے ، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ (۴۰)

اور تحقیق فرعون والوں (قومِ فرعون) کے پاس ڈرانے والے (رسول) آئے۔ (۴۱)

انہوں نے ہماری آیتوں (احکام اور نشانیوں) کو جھٹلایا تمام (کی تمام) ، تو ہم نے انہیں پکڑا ایک غالب اور صاحب قدرت کی پکڑ (کی صورت میں)۔ (۴۲)

تشریح: النُّذُرُ: حضرت موسٰی اور ہارون اور ان کے ڈرانے والے نشان۔

عَزِيزٍ مُّقْتَدِرٍ :خدا کی پکڑ بڑے زبردست کی پکڑ تھی۔ جس کے قابو میں نکل کر کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ دیکھ لو! تمام فرعونیوں کا بیڑہ کس طرح بحر قلزم میں غرق کیا کہ ایک بچ کر نہ نکل سکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان سے تمہارے کافر بہتر ہیں؟ یا تمہارے لئے معافی نامہ ہے (قدیم) صحیفوں میں؟ (۴۳)

کیا وہ کہتے ہیں ہم ایک جماعت ہیں بدلہ لینے والے (ہم بدلہ لے کر رہیں گے )۔ (۴۴)

تشریح: گذشتہ اقوام کے واقعات سنا کر موجودہ لوگوں کو خطاب ہے یعنی تم میں سے کافر کیا ان پہلے کافروں سے کچھ اچھے ہیں جو کفر و طغیان کی سزا میں تباہ نہیں کیے جائیں گے ؟ یا اللہ کے ہاں سے کوئی پروانہ لکھ دیا گیا ہے کہ تم جو چاہو شرارت کرتے رہو، سزا نہیں ملے گی؟ یا یہ سمجھتے ہوئے ہیں کہ ہمارا مجمع اور جتھا بہت بڑا ہے۔ اور سب مل کر جب ایک دوسرے کی مدد پر آ جائیں گے تو سب بدلہ لے کر چھوڑیں گے اور کسی کو اپنے مقابلہ میں کامیاب نہ ہونے دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور وہ بھاگیں گے پیٹھ (پھیر کر)۔ (۴۵)

تشریح: یعنی عنقریب ان کو اپنے مجمع کی حقیقت کھل جائے گی جب مسلمانوں کے سامنے سے شکست کھا کر اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ چنانچہ ”بدر” اور ”احزاب” میں یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔ ”سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ قیامت ان کی وعدہ گاہ ہے ، اور قیامت (کی گھڑی) بہت سخت اور بڑی تلخ ہو گی۔ (۴۶)

تشریح: یعنی یہاں کیا شکست کھائیں گے ، ان کی شکست کا اصلی وقت تو وہ ہو گا جب قیامت سر پر آ کھڑی ہو گی۔ وہ بہت سخت مصیبت کا وقت ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک مجرم گمراہی اور جہالت میں ہیں۔ (۴۷) جس دن وہ اپنے مونہوں کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) تم جہنم (کی آگ) لگنے کا مزہ چکھو۔ (۴۸)

تشریح: یعنی اس وقت غفلت کے نشہ میں پاگل بن رہے ہیں۔ یہ سودا دماغ میں سے اس وقت نکلے گا جب اوندھے منہ دوزخ کی آگ میں گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لو! اب ذرا اس کا مزہ چکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک ہم نے ہر  شے کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا۔ (۴۹)

تشریح: یعنی ہر چیز جو پیش آنے والی ہے اللہ کے علم میں پہلے سے ٹھہر چکی ہے دنیا کی عمر اور قیامت کا وقت بھی اس کے علم میں ٹھہرا ہوا ہے اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہمارا حکم تو صرف ایک (اشارہ ہوتا ہے ) جیسے آنکھ کا جھپکنا۔ (۵۰)

یعنی ہم چشم زدن میں جو چاہیں کر ڈالیں کسی چیز کے بنانے یا بگاڑنے میں ہم کو دیر نہیں لگتی نہ کچھ مشقت ہوتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم ہلاک کر چکے ہیں تمہارے ہم مشربوں کو، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ (۵۱)

تشریح: یعنی تمہاری قماش کے بہت سے کافروں کو پہلے تباہ کر چکے ہیں۔ پھر تم میں کوئی اتنا سوچنے والا نہیں کہ ان کے حال سے عبرت حاصل کر سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہر بات جو انہوں نے کی ہے صحیفوں میں ہے۔ (۵۲)

تشریح: یعنی ہر ایک نیکی بدی عمل کے بعد ان کے اعمال ناموں میں لکھی گئی ہے۔ وقت پر ساری مسل سامنے کر دی جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہر چھوٹی بڑی (بات) لکھی ہوئی ہے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی اس سے قبل ہر چھوٹی بڑی چیز کی تفصیل ”لوح محفوظ” میں لکھی جا چکی۔ تمام دفاتر باقاعدہ مرتب ہیں کوئی چھوٹی موٹی چیز بھی ادھر ادھر نہیں ہو سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک متقی باغات اور نہروں میں ہوں گے۔ (۵۴) صاحب قدرت بادشاہ کے نزدیک سچائی کے مقام میں۔ (۵۵)

تشریح: مجرمین کے بعد یہ متقین کا انجام بیان فرما دیا کہ وہ اپنی سچائی کی بدولت اللہ و رسول کے سچے وعدوں کے موافق ایک پسندیدہ مقام میں ہوں گے جہاں اس شہنشاہ مطلق کا قرب حاصل ہو گا۔ ”اللّٰہُمَّ اِنَّکَ مَلِیْکٌ مَقْتَدِرٌ۔ مَاتَشَآءُ مِنْ اَمْرٍیَّکُونُ فَاسْعِدْنِیْ فِیْ الدَّارَیْنِ وَکُنْ لِّیْ وَلَا تَکُنْ عَلیَّ وَاَتِنِی فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنِی عَذَابَ النَّارِ۔ ” تم سورۃ القمر وللّٰہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

۵۵۔ سُوْرَۃُ الرَّحْمٰنِ

 

                تعارف

 

یہ سورت وہ واحد سورت ہے جس میں بیک وقت انسانوں اور جنات دونوں کو صراحت کے ساتھ مخاطب فرمایا گیا ہے ، دونوں کو اللہ تعالی کی وہ بیشمار نعمتیں یاد دلائی گئی ہیں جو اس کائنات میں پھیلی پڑی ہیں، اور بار بار یہ فقرہ دہرایا گیا ہے کہ اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ اپنے اسلوب اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی یہ ایک منفرد سورت ہے ، جس کی تأ ثیر کو کسی اور زبان میں ترجمہ کر کے منتقل نہیں کیا جا سکتا، اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی، عام طور سے قرآن کریم کے نسخوں میں اس کو مدنی قرار دیا گیا ہے ، لیکن علامہ قرطبی نے کئی روایتوں کی بنا پر یہ رجحان ظاہر کیا ہے کہ یہ مکی سورت ہے ، واللہ اعلم۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۷۸        رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اللہ نے (۱) قرآن سکھایا۔ (۲) اس نے انسان کو پیدا کیا۔ (۳) اس نے اسے بات کرنا سکھایا۔ (۴) سورج اور چاند ایک حساب سے (گردش میں ہیں)۔ (۵) اور جھاڑیاں اور درخت سربسجود ہیں۔ (۶)

تشریح: مشرکینِ مکہ اللہ تعالی کے نام رحمن کو نہیں مانتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے ؟جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵۔ ۶۰) میں گزرا ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رحمن کے نام سے ان لوگوں کو چڑ تھی، وہ اس لئے کہ اگر ہر طرح کی رحمت اللہ تعالی ہی کے ساتھ خاص مان لی جائے تو پھر ان من گھڑت خداؤں کے حصے میں کچھ نہیں آتا جن سے یہ لوگ اپنی مرا دیں مانگا کرتے تھے ، اور اس طرح اللہ تعالی کو رحمن مان لینے سے خود بخود ان کے شرک کی نفی ہو جاتی ہے ، اس سورت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ رحمن اسی اللہ تعالی کا نام جس کی رحمتوں سے یہ ساری کائنات بھری ہوئی ہے ، اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں رزق، اولاد یا کوئی اور نعمت دے سکے،  اس لئے عبادت کا حق دار صرف وہی ہے کوئی اور نہیں۔

(توضیح القرآن)

 

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ :یعنی دونوں کا طلوع و غروب، گھٹنا بڑھنا، یا ایک حالت پر قائم رہنا، پھر ان کے ذریعہ سے فصول و مواسم کا بدلنا اور سفلیات پر مختلف طرح سے اثر ڈالنا، یہ سب کچھ ایک خاص حساب اور ضابطہ اور مضبوط نظام کے ماتحت ہے۔ مجال نہیں کہ اس کے دائرہ سے باہر قدم رکھ سکیں اور اپنے مالک و خالق کے دیے ہوئے احکام سے روگردانی کر سکیں۔ اس نے اپنے بندوں کی جو خدمات اور دنوں کے سپرد کر دی ہیں۔ ان میں کوتاہی نہیں کر سکتے۔ ہمہ وقت ہماری خدمت میں مشغول ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ: یعنی علویات کی طرح سفلیات بھی اپنے مالک کی مطیع و منقاد ہیں۔ چھوٹے جھاڑ، زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں اور اونچے درخت سب اس کے حکم تکوینی کے سامنے سربسجود ہیں۔ بندے ان کو اپنے کام میں لائیں تو انکار نہیں کر سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو رکھی۔ (۷) کہ تول میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ (۸)

اور تول (وزن) انصاف سے قائم کرو اور تول نہ گھٹاؤ (کم نہ تولو)۔ (۹)

تشریح: اوپر سے دو دو چیزوں کے جوڑے بیان ہوتے چلے آرہے تھے۔ یہاں بھی آسمان کی بلندی کے ساتھ آگے زمین کی پستی کا ذکر ہے۔ درمیان میں میزان (ترازو) کا ذکر شاید اس لیے ہو کہ عموماً ترازو کو تولتے وقت آسمان و زمین کے درمیان معلق رکھنا پڑتا ہے۔ یہ اس تقدیر پر ہے کہ میزان سے مراد ظاہری اور حسی ترازو ہو۔ چونکہ اس کے ساتھ بہت سے معاملات کی درستی اور حقوق کی حفاظت وابستہ تھی۔ اس لیے ہدایت فرما دی کہ وضع میزان کی یہ غرض جب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ نہ لیتے وقت زیادہ تولو، نہ دیتے وقت کم، ترازو کے دونوں پلے اور باٹ بٹی میں کمی بیشی نہ ہو۔ نہ تولتے وقت ڈنڈی ماری جائے ، بلکہ بدون کم بیشی کے دیانتداری کے ساتھ بالکل ٹھیک ٹھیک تولا جائے۔

(تنبیہ) اکثر سلف نے وضع میزان سے اس جگہ عدل کا قائم کرنا مراد لیا ہے یعنی اللہ نے آسمان سے زمین تک ہر چیز کو حق و عدل کی بنیاد پر اعلیٰ درجہ کے توازن و تناسب کے ساتھ قائم کیا۔ اگر عدل و حق ملحوظ نہ رہے تو کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بندے بھی عدل و حق کے جادہ پر مستقیم رہیں۔ اور انصاف کی ترازو کو اٹھنے یا جھکنے نہ دیں، نہ کسی پر زیادتی کریں نہ کسی کا حق دبائیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ عدل ہی سے زمین و آسمان قائم ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے زمین کو مخلوق کے لئے بچھایا (۱۰) اس میں میوے ہیں اور غلاف والی کھجوریں۔ (۱۱) اور غلہ بھوسے والا، اور خوشبو کے پھول۔ (۱۲)

وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ :یعنی پھل میوے بھی زمین سے نکلتے ہیں اور غلہ اناج بھی۔ پھر غلہ میں دو چیزیں ہیں۔ دانہ، جو انسانوں کی غذا ہے اور بھوسہ جو جانوروں کے لیے ہے۔ اور بعض چیزیں زمین میں وہ پیدا ہوتی ہیں جو کھانے کے کام نہیں آتیں لیکن ان کی خوشبو وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۱۳)

یعنی اے جن و انس! اوپر کی آیات میں تمہارے رب کی جو عظیم الشان نعمتیں اور قدرت کی نشانیاں بیان کی گئیں تم میں سے کس کس کے جھٹلانے کی جرأت کرو گے ؟ کیا یہ نعمتیں اور نشانیاں ایسی ہیں جن میں سے کسی کا انکار کیا جا سکے ؟ علماء نے ایک حدیث صحیح کی بناء پر لکھا ہے کہ جب کوئی شخص یہ آیت ”فبای الاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن” سنے تو جواب دے ”لَا بِشَیْ ءٍ مِّنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ۔ ” (اے ہمارے رب! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمدو ثنا تیرے ہی لیے ہے )

(تنبیہ) گو جن کا ذکر تصریحاً پہلے نہیں ہوا۔ لیکن ”انام” میں وہ شامل ہیں۔ اور ”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُونِ” میں دونوں کا عبادت کے لیے پیدا ہونا مذکور ہے۔ یہ اس آیت کے بعد متصل ہی آدمی اور جن کی کیفیت تخلیق بتلائی گئی ہے ، اور چند آیات کے بعد ”سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّہَ الثَّقَلَانِ” اور ”یَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْاِنْسِ” میں صریحاً جن و انس کو مخاطب کیا گیا ہے ، یہ قرائن دلالت کرتے ہیں کہ یہاں مخاطب و ہی دونوں ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے انسان کو پیدا کیا کھنکھناتی مٹی سے ٹھیکری جیسی۔ (۱۴) اور جنات کو شعلے والی آگ سے پیدا کیا۔ (۱۵)

تشریح: یعنی سب آدمیوں کے باپ آدم کو مٹی اور جنوں کے باپ کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۱۶)

تشریح: ”اٰلَآءِ” کا ترجمہ عموماً ”نعمت” کیا گیا ہے۔ لیکن ابن جریر نے بعض سلف سے ”قدرت” کے معنی نقل کیے ہیں۔ اس لیے جس مقام پر جو معنی زیادہ چسپاں ہوں وہ اختیار کیے جائیں۔ یہاں اس سے پہلی آیت میں دونوں مطلب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ انس و جن کو خلعت وجود سے سرفراز فرمانا اور جمادلایعقل سے عاقل بنا دینا اللہ کی بڑی نعمت ہے اور اس کی لامحدود قدرت کی نشانی بھی ہے۔

(تنبیہ) یہ جملہ ”فَبِاَیِّ اٰلآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ” اس سورت میں اکتیس مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ کسی خاص نعمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا شؤون عظمت و قدرت میں سے کسی خاص شان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس قسم کی تکرار عرب و عجم کے کلاموں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

رب ہے (چاند سورج کے ) دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا۔ (۱۷)

تشریح: جاڑے اور گرمی میں جس جس نقطہ سے سورج طلوع ہوتا ہے وہ دو مشرق اور جہاں جہاں غروب ہوتا ہے وہ دو مغرب ہوئیں۔ ان ہی مشرقین اور مغربین کے تغیر و تبدیل سے موسم اور فصلیں بدلتی ہیں۔ اور طرح طرح کے انقلابات ہوتے ہیں۔ زمین والوں کے ہزار ہا فوائد و مصالح ان تغیرات سے وابستہ ہیں تو ان کا ادل بدل بھی خدا کی بڑی نعمت اور اس کی قدرت عظیمہ کی نشانی ہوئی۔ (تنبیہ) آیت سے پہلے اور پیچھے دور تک دو دو چیزوں کے جوڑے بیان ہوئے ہیں اس لیے یہاں مشرقین و مغربین کا ذکر نہایت ہی لطف دیتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۱۸)

اس نے دو دریا بہائے ایک دوسرے سے ملے ہوئے۔ (۱۹) ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے ، وہ ( ایک دوسرے سے ) نہیں ملتے۔ (۲۰)

تشریح: اللہ تعالی کی قدرت کا یہ نظارہ دو دریاؤں یا دوسمندروں کے سنگم پر ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دونوں دریاؤں یا سمندروں کے پانی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، پھر بھی دونوں کے درمیان ایک لکیر جیسی ہوتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ دریا یا سمندر ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۲۱)

ان دونوں سے نکلتے ہیں موتی اور مونگے۔ (۲۲)

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۲۳)

اور اسی کے لئے ہیں چلنے والیاں کشتیاں دریا میں پہاڑوں کی طرح۔ (۲۴)

تشریح: یعنی کشتیاں اور جہاز گو بظاہر تمہارے بنائے ہوئے ہیں مگر خود تم کو اللہ نے بنایا اسی نے وہ قوتیں اور سامان عطا کیے جن سے جہاز تیار کرتے ہو۔ لہٰذا تم اور تمہاری مصنوعات سب کا مالک وہ خالق و ہی خدا ہوا۔ اور یہ سب اسی کی نعمتیں اور قدرت کی نشانیاں ہوئیں۔

(تنبیہ) یہ جملہ پہلے جملہ ” یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّوْلُؤُ الخ”کے مقابل ہے ، یعنی دریا کے نیچے سے وہ نعمتیں نکلتی ہیں اور اوپر یہ نعمتیں موجود ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۲۵)

زمین پر جو کوئی ہے فنا ہونے والا ہے۔ (۲۶) اور باقی رہے گی صاحب عظمت احسان کرنے والے تیرے رب کی ذات۔ (۲۷)

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۲۸)

جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے ، اسی سے مانگتا ہے ، وہ ہر روز کسی نہ کسی کام (نئے حال میں) ہے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق زبان حال و قال سے اپنی حا جات اسی خدا سے طلب کرتی ہے۔ کسی کو ایک لمحہ کے لیے اس سے استغناء نہیں۔ اور وہ بھی سب کی حاجت روائی اپنی حکمت کے موافق کرتا ہے۔ ہر وقت اس کا الگ کام اور ہر روز اس کی نئی شان ہے۔ کسی کو مارنا، کسی کو جِلانا، کسی کو بیمار کرنا، کسی کو تندرست کر دینا، کسی کو بڑھانا، کسی کو گھٹانا کسی کو دینا، کسی سے لینا اس کی شؤن میں داخل ہیں۔ وقس علیٰ ہذا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۳۰)

اے جن وانس! (سب سے فارغ ہو کر) ہم جلد تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ (۳۱)

تشریح: اصل عربی لفظ ثقلان ہے جس کے معنی ہیں دو بھاری چیزیں، اور اس سے مراد جنات اور انسان ہیں، کیونکہ یہی دو مخلوقات ہیں جنہیں اس کائنات میں عقل و شعور کے علاوہ مکلف بننے کی صلاحیت بخشی گئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

یہاں فارغ ہونا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تو اللہ تعالی کائنات کے دوسرے امور انجام دے رہے ہیں اور ابھی حساب لینے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ، لیکن وہ وقت عنقریب آنے والا ہے جب اللہ تعالی حساب کی طرف متوجہ ہوں گے۔

واضح رہے کہ آگے آیت نمبر ۴۴ تک دوزخیوں کے عذاب کا تذکرہ ہے ، اور اس کے ساتھ بھی یہ فقرہ ہر جگہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالی تمہیں اس ہولناک انجام کی جو پہلے سے خبر دے رہا ہے وہ بذات خود ایک نعمت ہے اس کو مت جھٹلاؤ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کو جھٹلانے کا یہ انجام ہونے والا ہے ، کیا اس انجام سے باخبر ہونے کے بعد بھی تم نعمتوں کو جھٹلانے کا رویہ جاری رکھو گے۔

(توضیح القرآن)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۳۲)

تشریح: مجرموں کو سزا دینا بھی وفاداروں کے حق میں انعام ہے اور اس سزا کا بیان کرنا تاکہ لوگ سن کر اس جرم سے باز رہیں، یہ مستقل انعام ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ہر آیت میں نعمت جتائی کوئی اب نعمت ہے اور کسی کی خبر دینا نعمت ہے ، کہ اس سے بچیں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اے گروہ جن اور انس! اگر تم سے ہو سکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل بھاگو تو نکل بھاگو (نکل دیکھو) تم زور کے سوا نہ نکل بھاگو گے (اور وہ نہ ہے ، نہ ہو گا)۔ (۳۳)

تشریح: یعنی اللہ کی حکومت سے کوئی چاہے کہ نکل بھاگے تو بدون قوت اور غلبہ کے کیسے بھاگ سکتا ہے کیا خدا سے زیادہ کوئی قوی اور زور آور ہے۔ پھر نکل کر جائے گا کہاں، دوسری قلمرو کون سی ہے جہاں پناہ لے گا۔ نیز دنیا کی معمولی حکومتیں بدون سند اور پروانہ راہداری کے اپنی قلمرو سے نکلنے نہیں دیتیں تو اللہ بدون سند کے کیوں نکلنے دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۳۴)

تم پر بھیج دیا جائے گا ایک شعلہ آگ کا اور دھواں تو مقابلہ نہ کرسکو گے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی جس وقت مجرموں پر آگ کے صاف شعلے اور دھواں ملے ہوئے شرارے چھوڑے جائیں گے کوئی ان کو دفع نہ کر سکے گا۔ اور نہ وہ اس سزا کا کچھ بدلہ لے سکیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۳۶)

پھر جب پھٹ جائے گا آسمان تو وہ سرخ چمڑے جیسا گلابی ہو جائے گا۔ (۳۷)

تشریح: یعنی قیامت کے دن آسمان پھٹے گا اور رنگ میں لال تری کی طرح ہو جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۳۸)

پس اس دن نہ پوچھا جائے گا اس کے گناہوں کے متعلق (خود) کسی انسان سے اور نہ جن سے (کیونکہ سب علم الہی میں ہے )۔ (۳۹)

تشریح: یعنی سوال و جواب اور حساب و کتاب کا مرحلہ تو اس وقت گزر چکا ہو گا جس میں ان لوگوں سے حجت قائم کرنے کے لئے سوالات بھی کئے گئے تھے ، لیکن اب ان کو دوزخ میں ڈالنے کے لئے نہ تو اللہ تعالی کو کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہو گی کہ اس نے کیا گناہ کیا تھا، کیونکہ اسے خود ہی معلوم ہے ، اور نہ فرشتوں کو ضرورت ہو گی کیونکہ جیسا اگلی آیت میں آ رہا ہے ، مجرم لوگ اپنے چہرے کی علامتوں ہی سے پہچان لئے جائیں گے۔

(توضیح القرآن)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۴۰)

مجرم پہچانے جائیں گے اپنی پیشانی سے ، پھر وہ پیشانیوں (کے بالوں) سے اور قدموں سے پکڑے جائیں گے۔ (۴۱)

تشریح: یعنی چہروں کی سیاہی اور آنکھوں کی نیلگونی سے مجرم خود بخود پہچانے جائیں گے جیسے مومنین کی شناخت سجدہ اور وضو کے آثار و انوار سے ہو گی۔

کسی کے بال اور کسی کی ٹانگ پکڑ کر جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا۔ یا ہر ایک مجرم کی ہڈیاں پسلیاں توڑ کر پیشانی کو پاؤں سے ملا دیں گے اور زنجیر وغیرہ سے جکڑ کر دوزخ میں ڈالیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۴۲)

یہ ہے وہ جہنم، جسے گنہگار جھٹلاتے ہیں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ یہ و ہی دوزخ ہے جس کا دنیا میں انکار کیا کرتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان پھریں گے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی کبھی آگ کا اور کبھی کھولتے پانی کا عذاب ہو گا۔ (اعاذنا اللہ منہما ومن سائر انواع العذاب)۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۴۵)

اور جو اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا، اس کے لئے دو باغ ہیں۔ (۴۶)

تشریح: یعنی جس کو دنیا میں ڈر لگا رہا کہ ایک روز اپنے رب کے آگے کھڑا ہونا اور رتی رتی کا حساب دینا ہے۔ اور اسی ڈر کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی سے بچتا رہا اور پوری طرح تقویٰ کے راستوں پر چلا اس کے لیے وہاں دو عالیشان باغ ہیں جن کی صفات آگے بیان کی گئی ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۴۷)

بہت سی شاخوں والے (۴۸)

تشریح: یعنی مختلف قسم کے پھل ہوں گے اور درختوں کی شاخیں نہایت پر میوہ اور سایہ دار ہوں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۴۹)

ان (باغوں میں) دو چشمے جاری ہیں۔ (۵۰)

تشریح: یعنی جو کسی وقت تھمتے نہیں۔ نہ خشک ہوتے ہیں۔

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۵۱)

ان دونوں (باغوں) میں ہر میوے کی دو، دوقسمیں ہیں۔ (۵۲)

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۵۳)

ایسے فرشتوں پر تکیہ لگائے ہوئے (ہوں گے ) جن کے استر ریشم کے ہوں گے ، دونوں باغوں کے میوے نزدیک ہوں گے۔ (۵۴)

تشریح: جب ان کا استر دبیز ریشم کا ہو گا تو ابرے کو اسی سے قیاس کر لو۔ کیسا کچھ ہو گا۔ (دونوں باغوں کے میوے نزدیک ہوں گے ) جس کے چننے میں کلفت نہ ہو گی۔ کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ، ہر حالت میں بے تکلف متمتع ہو سکیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۵۵)

ان میں نگاہیں نیچی رکھنے والیاں ہیں، انہیں ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان نے ان سے قبل، اور نہ کسی جن نے۔ (۵۶)

تشریح: یعنی ان کی عصمت کو کسی نے بھی چھوا، نہ انہوں نے اپنے ازواج کے سوا کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۵۷)

گویا وہ یاقوت اور مونگے ہیں۔ (۵۸)

یعنی ایسی خوش رنگ اور بیش بہا۔ تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۵۹)

احسان کا بدلہ احسان کے سوا نہیں۔ (۶۰)

تشریح: یعنی نیک بندگی کا بدلہ نیک ثواب کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ ان جنتیوں نے دنیا میں اللہ کی انتہائی عبادت کی تھی۔ گویا وہ اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ اللہ نے ان کو انتہائی بدلہ دیا۔ ”فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌّ مَّااُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعُیُنٍ”

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۶۱)

اور ان دونوں کے علاوہ دو باغ اور بھی ہیں۔ (۶۲)

تشریح: شاید پہلے دو باغ مقربین کے لیے تھے اور یہ دونوں اصحاب یمین کے لیے ہیں۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۶۳)

نہایت گہرے سبز رنگ کے (۶۴)

تشریح: سبزہ جب خوب گھنا اور گہرا ہو جائے تو وہ دور سے سیاہی مائل نظر آتا ہے یہ اسی کیفیت کی طرف اشارہ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۶۵)

ان دونوں (باغات) میں بشدت جوش مارنے والے دو چشمے ہیں۔ (۶۶)

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۶۷)

ان دونوں (باغات) میں میوے اور کھجور کے درخت اور انار ہوں گے۔ (۶۸)

تشریح: مگر یہاں کے انار اور کھجوروں پر قیاس نہ کیا جائے۔ ان کی کیفیت اللہ ہی جانے۔ (تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۶۹)

ان میں خوب سیرت، خوبصورت (حوریں) ہوں گی۔ (۷۰)

تشریح: یعنی اچھے اخلاق کی خوبصورت اور خوب سیرت۔

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۷۱)

خیموں میں پردہ نشین عورتیں۔ (۷۲)

تشریح: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت ذات کی خوبی گھر میں رُکے رہنے ہی سے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۷۳)

اور ان سے قبل انہیں ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان نے ا ورنہ کسی جن نے۔ (۷۴)

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۷۵)

سبز، خوب صورت، نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے۔ (۷۶)

تشریح: رفرف نقش و نگار والے قالین کو کہتے ہیں، یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ جنت کی نعمتوں میں سے جن جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ، اگرچہ دنیا میں بھی ان کے وہی نام ہیں جو ان آیات میں مذکور ہیں، لیکن ان کی حقیقت ان کا حسن ا ور ان کی لذت دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی ،کیونکہ صحیح حدیث کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار فرمائی ہیں جو آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں، اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزرا ہے ، اللہ تعالی ہم سب کو ان سے بہرہ ور فرمائیں، آمین۔

(توضیح القرآن)

 

تو اپنے رب کی کونسی نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے۔ (۷۷)

تمہارے صاحب عظمت، احسان کرنے والے رب کا نام برکت والا ہے۔ (۷۸)

تشریح: یعنی جس نے ا پنے وفاداروں پر ایسے احسان و انعام فرمائے اور غور کرو تو تمام نعمتوں میں اصلی خوبی اسی کے نام پاک کی برکت سے ہے۔ اسی کا نام لینے سے یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں پھر سمجھ لو جس کے اسم میں اس قدر برکت ہے مسمی میں کیا کچھ ہو گی۔ ”وَنَسْئَالُ اللہَ الْکَرِیْمَ الْوَہَابَ ذَالْجَلَالِ وَاْلِاکْرَامِ اَنْ یَّجْعَلَنَا مِنْ اَہْلِ الْجَنَّتَیْنِ الْاَوْلَیَیْنِ۔ ” اٰمین۔ تم سورۃ الرحمن وللّٰہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۵۶۔ سُوْرَۃُ الْوَاقِعَۃ

 

                تعارف

 

یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور کی سورتوں میں سے ہے ، اور اس میں معجزانہ فصاحت وبلاغت کے ساتھ پہلے تو قیامت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں، اور بتایا گیا ہے کہ آخرت میں تمام انسان اپنے انجام کے لحاظ سے تین مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ، ایک گروہ اللہ تعالی کے مقرب بندوں کا ہو گا جو ایمان اور عمل صالح کے لحاظ سے اعلی ترین مرتبے کے حامل ہیں، دوسرا گروہ ان عام مسلمانوں کا ہو گا جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے ، اور تیسرا گروہ ان کافروں کا ہو گا جن کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے ، پھر ان تینوں گروہوں کو جن حالات سے سابقہ پیش آئے گا اس کی ایک جھلک بڑے مؤثر انداز میں دکھائی گئی ہے ، اس کے بعد انسان کو خود اس کے اپنے وجود اور ان نعمتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی عطا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اسی کا شکر بجا لا کر اس کی وحدانیت کا اعتراف کرے ، اور توحید پر ایمان لائے ، پھر آخری رکوع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان فرماتے ہوئے انسان کو اس کی موت کا وقت یادلایا گیا ہے کہ اس وقت وہ کتنا ہی بڑا آدمی سمجھا جاتا ہو، نہ تو خود اپنی موت سے چھٹکارا پا سکتا ہے نہ اپنے کسی محبوب کو موت سے بچا سکتا ہے ، لہذا جو پروردگار موت اور زندگی کا مالک ہے وہی مرنے کے بعد بھی انسان کے انجام کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے ، اور انسان کا کام یہ ہے کہ اس کی عظمت کے آگے سر بسجود ہو۔

سورت کی پہلی ہی آیت میں واقعہ کا لفظ آیا ہے جس سے مراد قیامت کا واقعہ ہے اور اسی کے نام پر اس سورت کو سورۂ واقعہ کہا جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۹۶         رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

(یاد کرو) جب واقع ہو جائے گی واقع ہونے والی (قیامت)۔ (۱) اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں۔ (۲) (کسی کو) پست کرنے والی، (کسی کو) بلند کرنے والی۔ (۳) جب زمین سخت زلزلہ سے لرزنے لگے گی۔ (۴)

تشریح: إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ: اس آیت میں قیامت کو واقعہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ آج تو یہ کافر لوگ اس کا انکار کر رہے ہیں، لیکن جب وہ واقعہ پیش آ جائے گا تو کوئی اسے جھٹلا نہیں سکے گا۔

(توضیح القرآن)

 

خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ :یعنی ایک گروہ کو نیچے لے جاتی ہے اور ایک گروہ کو اوپر اٹھاتی ہے۔ بڑے بڑے متکبروں کو جو دنیا میں بہت معزز اور سربلند سمجھے جاتے تھے اسفل السافلین کی طرف دھکیل کر دوزخ میں پہنچا دے گی، اور کتنے ہی متواضعین کو جو دنیا میں پست اور حقیر نظر آتے تھے ، ایمان و عمل صالح کی بدولت جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز کرے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ (۵) پھر پراگندہ غبار ہو جائیں گے۔ (۶) اور تم ہو جاؤ گے تین قسم۔ (۷)

تشریح: وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَۃً :یعنی وقوعِ قیامت کے بعد کل آدمیوں کی تین قسمیں کر دی جائیں گی۔ دوزخی، عام جنتی، اور خواص مقربین جو جنت کے نہایت اعلیٰ درجات پر فائز ہوں گے۔ آگے تینوں کا مجملاً ذکر کرتے ہیں۔ پھر ان کے احوال کی تفصیل بیان ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو دائیں ہاتھ والے (سبحان اللہ) کیا ہیں دائیں ہاتھ والے ! (۸) اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) کیا ہیں بائیں ہاتھ والے۔ (۹)

تشریح: یعنی جو لوگ عرشِ عظیم کی داہنی طرف ہوں گے جن کو اخذ میثاق کے وقت آدم کے داہنے پہلو سے نکا لا گیا تھا اور ان کا اعمال نامہ بھی داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور فرشتے بھی ان کو داہنی طرف سے لیں گے۔ اس روز ان کی خوبی و برکت کا کیا کہنا، شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی نسبت دیکھا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنی دا ہنی طرف نظر کر کے ہنستے ہیں، اور بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں، یہ لوگ آدم کے بائیں پہلو سے نکالے گئے ، عرش کے بائیں جانب کھڑے کیے جائیں گے۔ اعمالنامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور فرشتے بائیں طرف سے ان کو پکڑیں گے ، ان کی نحوست اور بدبختی کا کیا ٹھکانہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور سبقت لے جانے والے (ماشاءاللہ) سبقت لے جانے والے ہیں! (۱۰) یہی ہیں (اللہ کے ) مقرب۔ (۱۱) نعمت والے باغات میں۔ (۱۲)

تشریح: اس سے مراد انبیاء کرام اور وہ اعلی درجے کے پاکباز حضرات ہیں جنہوں نے تقوی کاسب سے اونچا مقام پایاہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

بڑی جماعت پہلوں میں سے۔ (۱۳) اور تھوڑی جماعت پچھلوں میں سے۔ (۱۴) سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر۔ (۱۵) تکیہ لگائے ہوئے اس پر، آمنے سامنے (بیٹھے ہوئے )۔ (۱۶)

تشریح: وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ:یعنی اس اعلی درجے کے لوگوں میں اکثریت قدیم زمانے کے انبیاء کرام وغیرہ کی ہو گی اور بعد کے زمانوں میں بھی اگرچہ اس درجے کے لوگ ہوں گے مگر کم۔

(توضیح القرآن)

 

مُتَّكِئِيْنَ عَلَيْہَا مُتَقَابِلِيْنَ :یعنی نشست ایسی ہو گی کہ کسی ایک کی پیٹھ دوسرے کی طرف نہ رہے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کے ارد گرد لڑکے پھریں گے ہمیشہ (لڑکے ہی) رہنے والے۔ (۱۷) آبخوروں اور آفتابوں کے ساتھ، اور صاف شرابوں کے پیالوں (کے ساتھ)۔ (۱۸) نہ اس سے انہیں دردِ سر ہو گا اور نہ ان کی عقلوں میں فتور آئے گا۔ (۱۹)

تشریح: لَا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ :یعنی نتھری اور صاف شراب جس کے قدرتی چشمے جاری ہوں گے اس کے پینے سے نہ سرگرانی ہو گی نہ بکواس لگے گی، کیونکہ اس میں نشہ نہ ہو گا۔ خالص سرور اور لذت ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس قسم کے میوے جو وہ پسند کریں گے۔ (۲۰) اور پرندوں کا گوشت جو وہ چاہیں گے۔ (۲۱)

اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں۔ (۲۲) جیسے موتی (کے دانے ) سیپی میں چھپے ہوئے۔ (۲۳) اس کی جزا جو وہ کرتے تھے۔ (۲۴)

وہ اس میں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ (۲۵) مگر (وہاں) کلام سلا م سلام ہو گا۔ (۲۶)

تشریح: یعنی لغو اور واہیات باتیں وہاں نہیں ہوں گی، نہ کوئی جھوٹ بولے گا، نہ کسی پر جھوٹی تہمت رکھے گا۔ بس ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آئیں گی۔ یعنی جنتی ایک دوسرے کو اور فرشتے جنتیوں کو سلام کریں گے۔ اور رب کریم کا سلام پہنچے گا، جو بہت ہی بڑے اعزاز و اکرام کی صورت ہے ، اور سلام کی یہ کثرت اس کی طرف اشارہ ہے کہ اب یہاں پہنچ کر تم تمام آفات اور مصائب سے محفوظ اور صحیح و سالم رہو گے نہ کسی طرح کا آزار پہنچے گا نہ موت آئے گی نہ فنا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور دائیں ہاتھ والے (سبحان اللہ) کیا ہیں دائیں ہاتھ والے۔ (۲۷)  بیریوں میں بے خار والی۔ (۲۸) اور (ان کے لئے ہوں گے ) تہہ در تہہ کیلے۔ (۲۹) اور دراز سایہ۔ (۳۰) اور گرتا ہوا پانی (جھرنے )۔ (۳۱) اور کثیر میوے۔ (۳۲) نہ ( وہ) ختم ہوں گے اور نہ (انہیں) کوئی روک ٹوک (ہو گی)۔ (۳۳) اور اونچے اونچے فرشوں میں۔ (۳۴)

تشریح: جنت کے پھلوں کے نام تو ہمارے سمجھانے کے لئے وہی ہیں جنہیں ہم دنیا میں جانتے ہیں، لیکن ان کی کیفیت ان کی لذت اور ان کا حجم ہر چیز یہاں سے کہیں زیادہ خوشنما اور لذیذ ہو گی، چنانچہ ایک حدیث میں ہے  کہ ایک دیہاتی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیری کا درخت تو عام طور سے تکلیف دہ ہی ہوتا ہے قرآن کریم نے اس کا تذکرہ کیسے فرمایا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کانٹوں سے پاک ہو گا ؟درحقیقت اللہ تعالی ہر کانٹے کی جگہ ایک پھل پیدا فرمائیں گے اور اس ایک پھل میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے اور کوئی ذائقہ دوسرے سے ملتا جلتا نہیں ہو گا۔

(روح المعانی بحوالہ حاکم، و بیہقی و صحیح الحاکم از توضیح القرآن)

 

وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ :یعنی نہ دھوپ ہو گی نہ گرمی سردی لگے گی۔ نہ اندھیرا ہو گا۔ صبح کے بعد اور طلوع شمس سے پہلے جیسا درمیانی وقت ہوتا ہے ایسا معتدل سایہ سمجھو اور لمبا پھیلا ہوا اتنا کہ بہترین تیز رفتار گھوڑا سو برس تک متواتر چلتا رہے تو ختم نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک ہم نے انہیں خوب اٹھان دی۔ (۳۵) پس ہم نے انہیں کنواری بنایا۔ (۳۶) محبوب، ہم عمر بنایا۔ (۳۷) دائیں ہاتھ والوں کے لئے۔ (۳۸)

تشریح: قرآن کریم نے ان خواتین کا ذکر بڑے لطیف انداز میں فرمایا ہے کہ بس ضمیر سے ان کی طرف اشارہ فرما دیا ہے ، صراحت کے ساتھ نام نہیں لیا، اس میں بڑی بلاغت بھی ہے اور ان خواتین کی پردہ داری بھی، بعض مفسرین نے اس سے مراد حوریں لی ہیں جو جنتیوں کے لئے خاص طور پر پیدا کی گئی ہیں یا پیدا کی جائیں گی، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد نیک لوگوں کی وہ نیک بیویاں ہیں جو دنیا میں ان کی شریک حیات تھیں، آخرت میں ان کو نئی اٹھان دینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وہ کیسی ہی رہی ہوں جنت میں انہیں اپنے شوہروں کے لئے بہت خوبصورت بنا دیا جائے گا، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصریح فرمائی ہے ، اسی طرح جو خواتین دنیا میں بن بیاہی رہ گئی تھیں انہیں بھی نئی اٹھان دے کر کسی نہ کسی جنتی سے ان کا نکاح کر دیا جائے گا، حدیث کی متعدد روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت دونوں قسم کی عورتوں کو شامل ہے ، حوروں کو بھی اور دنیا کی نیک خواتین کو بھی

(تفصیل کے لئے دیکھئے روح المعانی)۔

 

عُرُبًا أَتْرَابًا :اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی، کیونکہ اپنی ہم عمر کے ساتھ ہی رفاقت کا صحیح لطف حاصل ہوتا ہے ، اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ وہ سب آپس میں ہم عمر ہوں گی، بعض احادیث میں ہے کہ جنتیوں کی عمر ۳۳ سال کر دی جائے گی جو شباب کا زمانہ ہوتا ہے (ترمذی عن معاذ)۔

(توضیح القرآن)

 

بہت سے اگلوں میں سے۔ (۳۹) اور بہت سے پچھلوں میں سے۔ (۴۰)

تشریح: یعنی اصحاب یمین پہلوں میں بھی بکثرت ہوئے ہیں اور پچھلوں میں بھی ان کی بہت کثرت ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) کیا ہیں بائیں ہاتھ والے۔ (۴۱)

گرم ہوا اور کھولتے ہوئے پانی میں۔ (۴۲) اور دھوئیں کے سائے میں۔ (۴۳) نہ کوئی ٹھنڈک اور نہ فرحت۔ (۴۴) بے شک وہ اس سے قبل نعمت میں پلے ہوئے تھے۔ (۴۵)

تشریح: یعنی دوزخ کے آگے سے کالا دھواں اٹھے گا۔ اس کے سائے میں رکھے جائیں گے۔ جس سے کوئی جسمانی یا روحانی آرام نہ ملے گا۔ نہ ٹھنڈک پہنچے گی۔ نہ وہ عزت کا سایہ ہو گا۔ ذلیل و خوار اس کی تپش میں بھنتے رہیں گے۔ یہ ان کی دنیاوی خوشحالی کا جواب ہوا جس کے غرور میں اللہ و رسول سے ضد باندھی تھی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ بھاری گناہ پر اڑے ہوئے تھے۔ (۴۶)

تشریح: وہ بڑا گناہ کفرو شرک ہے اور تکذیب انبیاء یا جھوٹی قسمیں کھا کر یہ کہنا کہ مرنے کے بعد ہرگز کوئی زندگی نہیں۔ کما قال تعالٰی ”وَاَقْسَمُوا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لاَ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوتُ” (نحل:۳۸)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے تھے کیا جب ہم مر گئے اور (مٹی میں مل کر) مٹی ہو گئی، اور ہڈیاں (ہو گئے ) کیا ہم دوبارہ ضرور اٹھائے جائیں گے ؟ (۴۷) کیا ہمارے باپ دادا بھی۔ (۴۸)

کہہ دو بیشک پہلے اور پچھلے۔ (۴۰) ایک مقررہ دن کے وقت پر ضرور جمع کئے جائیں گے۔ (۵۰)

پھر بیشک تم اے جھٹلانے والے گمراہ لوگو!۔ (۵۱) البتہ تم تھوہر کے درخت سے کھانے والے ہو (کھانا ہو گا)۔ (۵۲)

تشریح: دوزخ کے اس درخت کا ذکر پیچھے سورۂ صافات (۳۷:۶۲) اور سورۃ دخان (۴۴:۴۳) میں گزر چکا ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

پس اس سے پیٹ بھرنا ہو گا۔ (۵۳) سو اس پر پینا ہو گا کھولتا ہوا پانی۔ (۵۴) سوپینا ہو گا پیاسے اونٹ کی طرح پینا۔ (۵۵) یہ روزِ جزا ان کی مہمانی ہو گی۔ (۵۶)

تشریح: شُرْبَ الْہِيْمِ:اس سے مراد وہ اونٹ ہیں جو استسقاء کی بیماری کی وجہ سے پیتے چلے جائیں، اور ان کی پیاس نہ بجھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم نے تمہیں پیدا کیا سو تم کیوں تصدیق نہیں کرتے ؟ (۵۷) بھلا دیکھو تو! جو (نطفہ) تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو۔ (۵۸) کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ (۵۹)

تشریح: اس سے مراد خود نطفے کی تخلیق بھی ہو سکتی ہے کہ اسے پیدا کرنے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے ، اور اس نطفے سے جو بچہ پرورش پاتا ہے ، اس کی تخلیق بھی مراد ہو سکتی ہے ، کیونکہ نطفے کے اس قطرے کو کئی مرحلوں سے گزار کر انسان کی شکل دینا، اس میں جان ڈالنا اور پھر اسے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی طاقت عطا فرمانا سوائے اللہ تعالی کے کس کا کام ہے۔

(توضیح القرآن)

 

ہم نے تمہارے درمیان موت (کا وقت) مقرر کیا ہے ، اور ہم اس سے عاجز نہیں۔ (۶۰) کہ ہم (تمہاری جگہ) تم جیسی (اور قوم) بدل دیں، اور ہم تمہیں ایسے عالم میں پیدا کر دیں جو تم نہیں جانتے۔ (۶۱)

تشریح: یہاں بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح انسان کی تخلیق اللہ تعالی ہی کا کام ہے اسی طرح اسے موت دینا بھی اسی کا کام ہے ، اور اس کے بعد اس کو کسی بھی ایسی صورت میں دوبارہ پیدا کر دینا بھی اسی کی قدرت میں ہے جس سے اس کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔

(توضیح القرآن)

 

اور یقیناً تم پہلی پیدائش جان چکے ہو، تو تم کیوں غور نہیں کرتے۔ (۶۲) بھلا تم دیکھو تو جو تم بوتے ہو۔ (۶۳) کیا تم اس کی کاشت کرتے ہو، یا ہم کاشت کرنے والے ہیں۔ (۶۴)

تشریح: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَۃَ الْأُوْلٰی :یعنی کم از کم اتنی بات تو تم بھی جانتے ہو کہ تمہاری پہلی پیدائش میں اللہ تعالی کے سوا کسی اور کا دخل نہیں تھا، پھر اسی کو تنہا معبود ماننے اور اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کی تصدیق کرنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟

أَفَرَأَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ :یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی توہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو، اس بیج کو پروان چڑھا کر کونپل کی شکل دینا اور اسے درخت یا کھیتی بنا دینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرنا کیا تمہارے اپنے بس میں تھا اللہ تعالی کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے ؟

(توضیح القرآن)

 

اگر ہم چاہیں تو البتہ ہم اسے کر دیں ریزہ ریزہ، پھر تم باتیں بناتے ہو جاؤ (رہ جاؤ)۔ (۶۵) کہ بیشک ہم تاوان پڑ جانے والے ہو گئے۔ (۶۶) بلکہ ہم محروم رہ جانے والے ہیں۔ (۶۷)

بھلا تم دیکھو تو پانی جو تم پیتے ہو۔ (۶۸) کیا تم نے اسے بادل سے اتارا، یا ہم اتارنے والے ہیں۔ (۶۹)

اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کڑوا (کھاری) کر دیں، تو تم کیوں شکر نہیں کرتے ؟ (۷۰)

بھلا تم دیکھو تو جو آگ تم سلگاتے ہو۔ (۷۱) کیا تم نے اس کے درخت پیدا کئے ہیں یا ہم پیدا کرنے والے ہیں؟ (۷۲)

تشریح: عرب میں کئی درخت سبز ایسے ہیں جن کو رگڑنے سے آگ نکلتی ہے جیسے ہمارے ہاں بانس، پہلے سورہ ”یس” میں اس کا بیان ہو چکا۔ یعنی ان درختوں میں آگ کس نے رکھی ہے۔ تم نے یا ہم نے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم نے اسے نصیحت بنایا، اور مسافروں کے لئے منفعت۔ (۷۳) پس تو اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکیزگی بیان کر۔ (۷۴)

تشریح: نصیحت کا سامان اس لئے کہ اول تو اس پر غور کر کے انسان اللہ تعالی کی قدرت کو یاد کرتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک درخت کو آگ پیدا کرنے کا ذریعہ بنا دیا، اور دوسرے اس سے دوزخ کی آگ بھی یاد آتی ہے تو اس سے بچنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ، اور اگرچہ یہ درخت سبھی کے لئے آگ جلانے کے کام آتے ہیں، لیکن صحرا میں سفر کرنے والوں کے لئے یہ خاص طور پر بڑی نعمت تھی کہ چلتے چلتے یہ درخت مل جائے اور مسافر اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے ، اس لئے مسافروں کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

سو میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں۔ (۷۵) اور بیشک یہ ایک قسم ہے اگر تم جانو غور کرو بڑی (قسم)۔ (۷۶)

تشریح: یہاں قرآن کریم کی حقانیت اور اس کے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا بیان فرمانا مقصود ہے ، مکہ مکرمہ کے کافر لوگ بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (معاذاللہ) دراصل کاہن ہیں، اور یہ قرآن کاہنوں کا کلام ہے ، کاہنوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیشین گوئیوں میں جنات اور شیطانوں سے مدد لیتے تھے ، اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ  شیطانوں کو آسمان کے قریب جا کر وہاں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے ، اور اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو شہاب ثاقب سے مار بھگایا جاتا ہے (دیکھئے سورۂ حجر۱۵:۱۸ اور سورۂ صافات ۳۷:۱۰) شہاب ثاقب کو چونکہ عام بول چال میں تارے ٹوٹنے سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس لئے قرآن کریم نے ستاروں کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو شیاطین سے حفاظت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے (دیکھئے سورۂ صافات ۳۷:۷ اور سورہ ملک ۶۷:۵) لہذا جب جنات اور شیاطین کی آسمان تک رسائی نہیں ہے تو وہ کبھی ایسا مستحکم اور سچا کلام پیش نہیں کرسکتے جیسا قرآن کریم ہے ، اس مناسبت سے یہاں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے کہ اگر ان کی حقیقت پر غور کروتو صاف پتہ چل جائے گا کہ قرآن کریم ایسا باوقار کلام ہے جو کوئی کاہن بنا کر نہیں لا سکتا، کیونکہ یہ ستارے اسے عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک یہ قرآن گرامی قدر ہے۔ (۷۷) یہ ایک پوشیدہ کتاب (لوح محفوظ) میں ہے۔ (۷۸)

اسے پاک لوگوں کے سوا ہاتھ نہیں لگاتے۔ (۷۹)

تشریح: راجح تفسیر کے مطابق اس سے مراد فرشتے ہیں، اور کافروں کے اس اشکال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ ہم یہ کیسے یقین کر لیں کہ اللہ تعالی کا کلام کسی کمی زیادتی کے بغیر اپنی اصلی صورت میں ہمارے پاس پہنچ رہا ہے اور کسی شیطان وغیرہ نے اس میں کوئی تصرف نہیں کیا؟ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اور اسے پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو بھی نہیں سکتا، اگرچہ یہاں خوب پاک سے مراد فرشتے ہیں، لیکن اس میں ایک اشارہ اس طرف بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عالم بالا میں پاک فرشتے ہی اسے چھوتے ہیں، اسی طرح دنیا میں بھی انہی لوگوں کو چھونا چاہئیے جو پاک حالت میں ہوں، چنانچہ احادیث میں قرآن کریم کو بغیر وضو کے چھونے سے ممانعت آئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

تمام جہانوں کے رب (کی طرف) سے اتارا ہوا ہے۔ (۸۰)

تو کیا تم اس بات کے منکر ہو؟ (۸۱) اور تم بناتے ہو جھٹلانے کو اپنا وظیفہ۔ (۸۲)

تشریح: یعنی کیا یہ ایسی دولت ہے جس سے منتفع ہونے میں تم سستی اور کاہلی کرو۔ اور اپنا حصہ اتنا ہی سمجھو کہ ان کو اور اس کے بتلائے ہوئے حقائق کو جھٹلاتے رہو، جیسے بارش کو دیکھ کر کہہ دیا کرتے ہو کہ فلاں ستارہ فلاں برج میں آ گیا تھا، اس سے بارش ہو گئی۔ گویا خدا سے کوئی مطلب ہی نہیں۔ اسی طرح اس بارانِ رحمت کی قدر نہ کرنا جو قرآن کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور یہ کہہ دینا کہ وہ اللہ کی اتاری ہوئی نہیں، سخت بدبختی اور حرماں نصیبی ہے۔ کیا ایک نعمت کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کو جھٹلایا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر کیوں نہیں! جب (کسی کی جان) حلق کو پہنچتی ہے۔ (۸۳) اور اس وقت تم تکتے ہو۔ (۸۴)

اور ہم تم سے بھی زیادہ اس سے قریب (ہوتے ہیں) لیکن تم نہیں دیکھتے۔ (۸۵)

تو کیوں نہیں؟اگر تم خود مختار ہو۔ (۸۶) اسے (روح کو) لوٹا لو اگر تم سچے ہو۔ (۸۷)

تشریح: کافر لوگ قرآن کریم پر ایمان لانے سے جو انکار کرتے تھے ، اس کا ایک بڑا حصہ ان کا یہ دعوی تھا کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے ، جیسا کہ اسی سورت کی آیت نمبر ۴۵ میں گزرا ہے ، اللہ تعالی اب اس طرف توجہ دلارہے ہیں کہ اتنی بات تو تم بھی مانتے ہو کہ اس دنیا میں جو کوئی آتا ہے ایک نہ ایک دن اسے موت ضرور آتی ہے ، اور ایسی حالت میں آتی ہے کہ اس کے عزیز رشتہ دار، دوست احباب اور اس کے معالج ہر قسم کے جتن کر گزرتے ہیں کہ کسی طرح وہ موت سے بچ جائے ، لیکن موت اس طرح آ جاتی ہے کہ وہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر مرنے کے بعد دوسری زندگی میں حساب و کتاب ہونا نہیں ہے تو آخر ہر انسان کسی نہ کسی وقت موت کے منہ میں کیوں جا رہا ہے اور تم اس کو موت سے بچانے میں اتنے بے بس کیوں ہو؟ دنیا میں موت اور زندگی کا جو یہ نظام کارفرما ہے ، وہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ موت اور زندگی کے مالک نے یہ کائنات اس مقصد کے لئے پیدا کی ہے کہ انسان کو عمر بھر کی مہلت دے کر آخر میں اس سے حساب لیا جائے کہ اس نے اس مہلت سے کیا فائدہ اٹھایا؟

(توضیح القرآن)

 

پس جو (مرنے والا) اگر مقرب لوگوں میں ہو۔ (۸۸) تو (اس کے لئے ) راحت اور خوشبودار پھول اور نعمتوں کے باغات ہیں۔ (۸۹)

اور البتہ اگر دائیں ہاتھ والوں میں سے ہو۔ (۹۰) تو تیرے لئے سلامتی ہے دائیں ہاتھ والوں سے۔ (۹۱)

تشریح: یعنی تم ایک منٹ کے لیے نہیں روک سکتے۔ اس کو اپنے ٹھکانے پر پہنچنا ضروری ہے۔ اگر وہ مردہ مقربین میں سے ہو گا تو اعلیٰ درجہ کی روحانی و جسمانی راحت و عیش کے سامانوں میں پہنچ جائے گا۔ اور ”اصحاب یمین” میں سے ہو تب بھی کچھ کھٹکا نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ” یعنی خاطر جمع رکھ ان کی طرف سے۔ ” یا یہ مطلب ہے کہ اصحابِ یمین کی طرف سے اس کو سلام پہنچے گا۔ یا اس کو کہا جائے گا کہ تیرے لیے آئندہ سلامتی ہی سلامتی ہے ، اور تو ”اصحابِ یمین” میں شامل ہے۔ بعض احادیث میں ہے کہ موت سے پہلے ہی مرنے والے کو یہ بشارتیں مل جاتی ہیں۔ اور اسی طرح مجرموں کو ان کی بدحالی کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ اگر گمراہ جھٹلانے والوں میں سے ہو۔ (۹۲) تو (اس کی) مہمانی کھولتا ہوا پانی ہے۔ (۹۳) اور اسے دوزخ میں ڈال دینا ہے۔ (۹۴)

بیشک یہ البتہ یقینی بات ہے۔ (۹۵) پس آپ پاکیزگی بیان کریں اپنے عظمت والے رب کے نام کی۔ (۹۶)

تشریح: یعنی تسبیح و تحمید میں مشغول رہو کہ یہ ہی وہاں کی بڑی تیاری ہے ، اس نیک مشغلہ میں لگ کر مکذبین کی دل آزار بیہودگیوں سے بھی یکسوئی رہتی ہے ، اور ان کے باطل خیالات کا رد بھی ہوتا ہے۔ یہاں سورت کے خاتمہ پر جی چاہتا ہے کہ وہ حدیث نقل کر دی جائے جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم فرمایا ہے۔ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَۃَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِيمِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ۔ تم سورۃ الواقعہ وللّٰہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

٭٭٭

 

 

 

 

۵۷۔ سُوْرَۃُ الْحَدِیْدِ

 

                تعارف

 

اس سورت کی آیت نمبر:۱۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی، اس موقع پر چونکہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی دشمنی کی کاروائیاں بڑی حد تک دھیمی پڑ گئی تھیں اور جزیرۂ عرب پر مسلمانوں کا تسلط بڑھ رہا تھا، اس لئے اس سورت میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان صفات سے آراستہ کرنے پر زیادہ توجہ دیں جو ان کے دین کو مطلوب ہیں، اور اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں پر مغفرت مانگیں نیز ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے راستے میں اپنا مال خرچ کریں اور آخرت کی بہبود کو دنیا کے مال و دولت پر ترجیح دیں جس کے نتیجے میں انہیں آخرت میں ایک ایسا نور عطا ہو گا جو انہیں جنت تک لے جائے گا، جبکہ منافق لوگ اس نور سے محروم کر دئیے جائیں گے ، سورت کے آخر میں عیسائیوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ جو رہبانیت (ترک دنیا) انہوں نے اختیار کی تھی، وہ اللہ تعالی کے حکم سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ دنیا کو بالکل چھوڑ کر بیٹھ جاؤ، بلکہ یہ تاکید فرمائی تھی کہ اسی دنیا میں رہ کر اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرو اور تمام حقوق اسی کی ہدایت کے مطابق ادا کرو، نیز عیسائیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالی کی رضا چاہتے ہیں تو اس کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے ، اس سورت کی آیت نمبر:۲۵ میں لوہے کا ذکر آیا ہے ، لوہے کو عربی میں حدید کہتے ہیں، اس لئے سورت کا نام سورۃ الحدید ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۲۹        رکوعات:۴

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اللہ کو پاکیزگی سے یاد کرتا ہے جو (بھی) آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۱)

اللہ کو پاکیزگی سے یاد کرتا ہے جو (بھی) آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۱)

وہی اول ہے (وہی آخر) ہے ، اور (وہی) ظاہر اور باطن ہے ، اور وہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۳)

تشریح: اللہ تعالی اول اس معنی میں ہے کہ ا  س سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اور وہ ہمیشہ سے موجود ہے ، وہ آخراس معنی میں ہے کہ جب اس کائنات کی ہر چیز فنا ہو جائے گی تو وہ اس وقت بھی موجود رہے گا، وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ اس کے وجود اس کی قدرت اور اس کی حکمت کی نشانیاں اس کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں، جو اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ وہ موجود ہے ، اور چھپا ہوا اس معنی میں ہے کہ یہاں دنیا میں وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔

(توضیح القرآن)

 

وہی جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو چھ دن میں، پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا، وہ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے ، اور جو اس سے نکلتا ہے ، اور جو آسمانوں سے اترتا ہے ، اور جو اس میں چڑھتا ہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے ، جہاں کہیں (بھی) تم ہو، اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھنے والا ہے۔ (۴)

تشریح: ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ :اس کا بیان سورۂ اعراف میں آٹھویں پارے کے ختم سے کچھ پہلے گزر چکا ہے۔

يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْہَا:مثلاً بارش کا پانی اور بیج زمین کے اندر جاتا ہے۔ اور کھیتی درخت وغیرہ اس سے باہر نکلتے ہیں۔ اس کا بیان سورہ ”سبا” میں گزر چکا۔

وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِیْہَا :آسمان کی طرف سے اترتے ہیں فرشتے ، احکام، قضاء و قدر کے فیصلے ، اور بارش وغیرہ اور چڑھتے ہیں بندوں کے اعمال اور ملائکۃ اﷲ۔

وَہُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۚ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ :یعنی کسی وقت تم سے غائب نہیں۔ بلکہ جہاں کہیں تم ہو اور جس حال میں ہو وہ خوب جانتا ہے اور تمام کھلے چھپے اعمال کو دیکھتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت، اور اللہ کی طرف ہے تمام کاموں کی بازگشت۔ (۵)

تشریح: یعنی اس کی قلمرو سے نکل کر کہیں نہیں جا سکتے۔ تمام آسمان و زمین میں اسی اکیلے کی حکومت ہے اور آخرکار سب کاموں کا فیصلہ وہیں سے ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے ، اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، اور وہ جاننے والا ہے دلوں کی بات (تک) کو۔ (۶)

تشریح: یعنی کبھی دن کو گھٹا کر رات بڑی کر دیتا ہے اور کبھی اس کے برعکس رات کو گھٹا کر دن بڑا کر دیتا ہے۔

دلوں میں جو نیتیں اور ارادے پیدا ہوں یا خطرات و وساوس آئیں، وہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس (مال) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں جانشین بنایا ہے ، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ، اور انہوں نے خرچ کیا، ان کے لئے بڑا اجر ہے۔ (۷)

تشریح: یعنی جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے اس کا مالک اللہ ہے تم صرف امین اور خزانچی ہو۔ لہٰذا جہاں وہ مالک بتلائے وہاں اس کے نائب کی حیثیت سے خرچ کرو۔ اور یہ بھی ملحوظ رکھو کہ پہلے یہ مال دوسروں کے ہاتھ میں تھا ان کے جانشین تم بنے۔ ظاہر ہے تمہارا جانشین کوئی نہ کوئی اور بنایا جائے گا۔ پھر جب معلوم ہے کہ یہ چیز نہ پہلوں کے پاس رہی نہ تمہارے پاس رہے گی، تو ایسی زائل و فانی چیز سے اتنا دل لگانا مناسب نہیں کہ ضروری اور مناسب مواقع میں بھی آدمی خرچ کر نے سے کترائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہیں کیا ( ہو گیا ہے ) کہ تم ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور اس کے رسول پر، جبکہ وہ تمہیں بلاتے ہیں کہ تم اپنے رب کے ساتھ ایمان لے آؤ، اور وہ یقیناً تم سے عہد لے چکا ہے ، اگر تم ایمان والے ہو۔ (۸)

تشریح: یعنی اللہ پر ایمان لانے یا یقین و معرفت کے راستوں پر چلنے والے سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے۔ اور اس معاملہ میں سستی یا تقاعد کیوں ہو جبکہ خدا کا رسول تم کو کسی اجنبی اور غیر معقول چیز کی طرف نہیں بلکہ تمہارے حقیقی پرورش کرنے والے کی طرف دعوت دے رہا ہے جس کا اعتقاد تمہاری اصل فطرت میں ودیعت کر دیا گیا اور جس کی ربوبیت کا اقرار تم دنیا میں آنے سے پہلے کر چکے ہو۔ چنانچہ آج تک اس اقرار کا کچھ نہ کچھ اثر بھی قلوب بنی آدم میں پایا جاتا ہے۔ پھر دلائل و براہین اور ارسالِ رسل کے ذریعہ سے اس ازلی عہد و پیمان کی یاد دہانی اور تجدید بھی کی گئی۔ اور انبیائے سابقین نے اپنی امتوں سے یہ عہد بھی لیا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کریں گے۔ اور تم میں بہت سے وہ بھی ہیں جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر سمع و اطاعت اور انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ امور ایمانیہ پر کاربند رہنے کا پکا عہد کر چکے ہیں۔ پس ان مبادی کے بعد کہاں گنجائش ہے کہ جو ماننے کا ارادہ رکھتا ہو وہ نہ مانے اور جو مان چکا ہو وہ اس سے انحراف کرنے لگے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتا ہے ، تاکہ وہ تمہیں نکالے اندھیروں سے روشنی کی طرف، اور اللہ بے شک تم پر شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ (۹)

تشریح: یعنی قرآن اتارا اور صداقت کے نشان دیے تاکہ ان کے ذریعہ سے تم کو کفر و جہل کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و علم کے اجالے میں لے آئے۔ یہ اللہ کی بہت ہی بڑی شفقت اور مہربانی ہے ، اگر سختی کرتا تو ان ہی اندھیروں میں پڑا چھوڑ کر تم کو ہلاک کر دیتا۔ یا ایمان لانے کے بعد بھی پچھلی خطاؤں کو معاف نہ کرتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہیں کیا ہو گیا ہے ، کہ تم خرچ نہیں کرتے اللہ کے راستے میں، اور آسمانوں اور زمین کی میراث (باقی رہ جانے والا سب) اللہ کے لئے ہے ، تم میں سے برابر نہیں، وہ جس نے خرچ کیا پہلے فتح (مکہ) سے اور قتال کیا، یہ لوگ درجے میں (ان سے ) بڑے ہیں جنہوں نے بعد میں خرچ کیا، اور قتال کیا اور اللہ نے ہر ایک سے اچھا وعدہ کیا ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (۱۰)

تشریح: فتح مکہ (سن ۸ھ) سے پہلے مسلمانوں کی تعداد اور ان کے وسائل کم تھے اور دشمنیاں زیادہ، اس لئے اس زمانہ میں جن حضرات نے جہاد کیا اور اپنا مال اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کیا ان کی قربانیاں زیادہ تھیں، اس لئے اللہ تعالی نے ثواب میں بھی ان کا زیادہ بڑا درجہ رکھا ہے اور فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی تعداد اور وسائل میں بھی اضافہ ہو گیا تھا، اور دشمنیاں بھی کم ہو گئی تھیں، اس لئے جن حضرات نے فتح مکہ کے بعد جہاد اور صدقات وغیرہ میں حصہ لیا ان کو اتنی قربانی دینی نہیں پڑی، اس لئے ان کا درجہ وہاں تک نہیں پہنچا، لیکن اگلے ہی فقرے میں اللہ تعالی نے وضاحت فرما دی ہے کہ بھلائی یعنی جنت کی نعمتیں دونوں ہی کو ملیں گی۔

(توضیح القرآن)

 

کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟قرض حسنہ (اچھا قرض) اور وہ اس کو اس کا دوچند دے ، اور  اس کے لئے بڑا عمدہ اجر ہے۔ (۱۱)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”قرض کے معنی یہ کہ اس وقت جہاد میں خرچ کرو۔ پھر تم ہی دولتیں برتو گے (اور آخرت میں بڑے مرتبے پاؤ گے ) یہی معنی ہیں دونے کے۔ ورنہ مالک میں اور غلام میں سود بیاج نہیں۔ جو دیا سو اس کا جو نہ دیا سو اس کا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن تم مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو دیکھو گے ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑتا ہو گا، تمہیں آج خوشخبری ہے باغات کی جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۱۲)

تشریح: میدانِ حشر میں جس وقت پل صراط پر جائیں گے سخت اندھیرا ہو گا، تب اپنے ایمان اور عمل صالح کی روشنی ساتھ ہو گی۔ شاید ایمان کی روشنی میں جس کا محل قلب ہے آگے ہو اور عمل صالح کی داہنے . کیونکہ نیک عمل داہنی طرف جمع ہوتے ہیں۔ جس درجہ کا کسی کا ایمان و عمل ہو گا اسی درجہ کی روشنی ملے گی۔ اور غالباً اس امت کی روشنی اپنے نبی کے طفیل دوسری امتوں کی روشنی سے زیادہ صاف اور تیز ہو گی۔ بعض روایات سے بائیں جانب بھی روشنی کا ہونا معلوم ہوا ہے۔ اس کا مطلب شاید یہ ہو گا کہ روشنی کا اثر ہر طرف پہنچے گا۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن کہیں گے منافق مرد اور منافق عورتیں، ان لوگوں کو جو ایمان لائے ، ہماری طرف نگاہ کرو، ہم تمہارے نور سے (کچھ) حاصل کر لیں، کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پس (وہاں) نور تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی، اس کا ایک دروازہ ہو گا، اس کے اندر رحمت اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہو گا۔ (۱۳)

تشریح: یعنی مومنین اور منافقین کے بیچ میں دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا۔ اس دروازے سے مومن جنت کی طرف جا کر منافقوں کی نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ دروازہ کے اندر پہنچ کر جنت کا سماں ہو گا اور ادھر دروازہ سے باہر عذاب الٰہی کا منظر دکھائی دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ (منافق) انہیں (مسلمانوں) کو پکاریں گے :کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟وہ کہیں گے ہاں (کیوں نہیں) لیکن تم نے اپنی جانوں کو فتنہ میں ڈالا، اور تم ( مسلمانوں پر آفت کا) انتظار کرتے ، اور شک کرتے تھے اور تمہیں تمہاری جھوٹی آرزوؤں نے دھوکہ میں ڈالا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا اور اللہ کے بارے میں تمہیں دھوکہ دینے والے (شیطان) نے دھوکہ میں ڈالا۔ (۱۴)

تشریح: قصہ یہ ہے کہ کھلے ہوئے کافر پل صراط پر نہیں چلیں گے پہلے ہی دوزخ میں اس کے دروازوں سے دھکیل دیے جائیں گے ، ہاں جو کسی نبی کی امت میں ہیں سچے یا کچے انہیں پل صراط سے گزرنے کا حکم ہو گا۔ اس پر چڑھنے سے پہلے ایک سخت اندھیری لوگوں کو گھیر لے گی۔ اس وقت ایمان والوں کے ساتھ روشنی ہو گی۔ منافق بھی ان کی روشنی میں پیچھے پیچھے چلنا چاہیں گے ، لیکن مومن جلد آگے بڑھ جائیں گے ، اس لیے ان کی روشنی منافقین سے دور ہوتی جائے گی، تب وہ پکاریں گے کہ میاں ذرا ٹھہرو، ہم کو اندھیرے میں پیچھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ تھوڑا انتظار کرو کہ ہم بھی تم سے مل جائیں اور تمہاری روشنی سے استفادہ کریں۔ آخر ہم دنیا میں تمہارے ساتھ ہی رہتے تھے اور ہمارا شمار بھی بظاہر مسلمانوں میں ہوتا تھا، اب اس مصیبت کے وقت ہم کو اندھیرے میں پڑا چھوڑ کر کہاں جاتے ہو کیا رفاقت کا حق یہ ہی ہے۔ جو اب ملے گا کہ پیچھے لوٹ کر روشنی تلاش کرو اگر مل سکے تو وہاں سے لے آؤ۔ یہ سن کر پیچھے ہٹیں گے اتنے میں دیوار دونوں فریق کے درمیان حائل ہو جائے گی۔ یعنی روشنی دنیا میں کمائی جاتی ہے وہ جگہ پیچھے چھوڑ آئے ، یا پیچھے سے وہ جگہ مراد ہو جہاں پل صراط پر چڑھنے سے پہلے نور تقسیم کیا گیا تھا۔

قَالُوْا بَلٰی وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ :بیشک دنیا میں بظاہر تم ہمارے ساتھ تھے اور زبان سے دعویٰ اسلام کا کرتے تھے۔ لیکن اندرونی حال یہ تھا کہ لذات و شہوات میں پڑ کر تم نے نفاق کا راستہ اختیار کیا اور اپنے نفس کو دھوکا دے کر ہلاکت میں ڈالا۔ پھر توبہ نہ کی بلکہ راہ دیکھتے رہے کہ کب اسلام اور مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑتی ہے اور دین کے متعلق شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنسے رہے۔ یہ ہی دھوکا رہا کہ آگے ان منافقانہ چالوں کا کچھ خمیازہ بھگتنا نہیں۔ بلکہ یہ خیالات اور امیدیں پکا لیں کہ چند روز میں اسلام اور مسلمانوں کا یہ سب قصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ آخر ہم ہی غالب ہوں گے۔ رہا آخرت کا قصہ سو وہاں بھی کسی نہ کسی طرح چھوٹ ہی جائیں گے۔ ان ہی خیالات میں مست تھے کہ اللہ کا حکم آ پہنچا اور موت نے آ دبایا اور اس بڑے دغا باز (شیطان) نے تم کو بہکا کر ایسا کھو دیا کہ اب سبیل رستگاری کی نہیں رہی۔

(تفسیرعثمانی)

 

سوآج نہ تم سے کوئی فدیہ لیا جائے گا، نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا، تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ، یہ تمہارا رفیق ہے اور بُری جائے باز گشت۔ (۱۵)

تشریح: یعنی بالفرض اگر آج تم (منافق) اور جو کھلے بندوں کافر تھے کچھ معاوضہ وغیرہ دے کر سزا سے بچنا چاہو تو اس کے منظور کیے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ بس تم سب کو اب اسی گھر میں رہنا ہے۔ یہ ہی دوزخ کی آگ تمہارا ٹھکانا ہے اور یہ ہی رفیق ہے۔ کسی دوسرے سے رفاقت کی توقع مت رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا مؤمنوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے جھک جائیں اور (اس کے لئے ) جو حق تعالی کی طرف نازل ہوا ہے ، اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے قبل کتاب دی گئی، تو ان پر مدت دراز ہو گئی پھر ان کے دل سخت ہو گئے ، اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ (۱۶)

تشریح: یعنی وقت آ گیا ہے کہ مومنین کے دل قرآن اور اللہ کی یاد اور اس کے سچے دین کے سامنے جھک جائیں۔ اور نرم ہو کر گڑگڑانے لگیں۔

ایمان و ہی ہے کہ دل نرم ہو۔ نصیحت اور خدا کی یاد کا اثر جلد قبول کرے۔ شروع میں اہل کتاب یہ باتیں پیغمبروں کی صحبت میں پاتے تھے۔ مدت کے بعد غفلت چھاتی گئی۔ دل سخت ہو گئے وہ بات نہ رہی، اکثروں نے سخت سرکشی اور نافرمانیاں شروع کر دیں۔ اب مسلمانوں کی باری آئی ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی صحبت میں رہ کر نرم دلی، انقیاد کامل اور خشوع لذکر اللہ کی صفات سے متصف ہوں اور اس مقام بلند پر پہنچیں جہاں کوئی امت نہ پہنچی تھی۔

(تفسیرعثمانی)

 

(خوب) جان لو اللہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ، تحقیق ہم نے تمہارے لئے نشانیاں بیان کر دی ہیں تاکہ تم سمجھو۔ (۱۷)

تشریح: یعنی عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ سچی توبہ کر لے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح حیات پھونک دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ (اچھا قرض) دیا وہ ان کے لئے دوچند کر دیا جائے گا، اور ان کے لئے بڑا عمدہ اجر ہے۔ (۱۸)

تشریح: یعنی جو اللہ کے راستہ میں خالص نیت سے اس کی خوشنودی کی خاطر خرچ کریں اور غیر اللہ سے کسی بدلہ یا شکریہ کے طلبگار نہ ہوں گویا وہ اللہ کو قرض دیتے ہیں۔ سو اطمینان رکھیں کہ ان کا دیا ہوا ضائع نہ ہو گا۔ بلکہ کئی گناہ کر کے لوٹایا جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے یہی لوگ ہیں اپنے رب کے نزدیک صدیق (سچے ) اور شہید ان کے لئے ان کا اجر ہے ، اور ان کا نور ہے ، اور جنہوں نے کفر کیا، اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ (۱۹)

تشریح: صدیق کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنے قول و فعل کا سچا ہو اور یہ انبیائے کرام کے بعد پرہیزگاری کا سب سے اونچا درجہ ہے ، جیسا کہ سورۂ نساء (۴:۷۰) میں گزرا ہے ، اور شہید کے لفظی معنی تو گواہ کے ہیں، اور قیامت میں امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کے پرہیز گار افراد پچھلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے حق میں گواہی دیں گے جیسا کہ سورۂ بقرۃ (۱۴۳) میں گزرا ہے ، نیز شہید اُن حضرات کو بھی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی پیش کریں، یہاں یہ بات منافقوں کے مقابلے میں فرمائی جا رہی ہے کہ صرف زبان سے ایمان کا دعوی کر کے کوئی شخص صدیق اور شہید کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا ،بلکہ وہی لوگ یہ درجہ حاصل کرسکتے ہیں جو دل سے سچا اور پکا ایمان لائے ہوں، یہاں تک کہ اس ایمان کے آثار ان کی عملی زندگی میں پوری طرح ظاہر ہوں۔

(توضیح القرآن)

 

تم (خوب) جان لو اس کے سوا نہیں کہ دنیا کی زندگی (محض) کھیل کود ہے ، اور ایک زینت، اور باہم فخر (خود ستائی) کرنا اور کثرت کی خواہش کرنا مالوں میں اور اولاد میں، بارش کی طرح کہ کاشتکار کو اس کی پیداوار بھلی لگی، پھر وہ زور پکڑتی ہے پھر تو اس کو دیکھتا ہے زرد، پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے ، اور آخرت میں سخت عذاب بھی ہے ، اور مغفرت بھی ہے اللہ کی (طرف) سے اور رضا مندی، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔ (۲۰)

تشریح: یہاں اللہ تعالی نے اُن دلچسپوں کا ذکر فرمایا ہے ، جن سے انسان اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں دل لگاتا ہے ، بچپن میں ساری دلچسپی کھیل کود سے ہوتی ہے ، اور جوانی کے دور میں زیب و زینت اور سجاوٹ کا شوق پیدا ہوتا ہے ، اور اس زیب و زینت اور دنیا کے ساز وسامان میں ایک دوسرے کے سامنے اپنی برتری جتانے اور اس پر فخر کرنے کا ذوق ہوتا ہے ، پھر بڑھاپے میں مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کو ہی انسان دلچسپی کا مرکز بنا لیتا ہے ، اور ہر مرحلے میں انسان جس چیز کو اپنی دلچسپی کی معراج سمجھتا ہے اگلے مرحلے میں وہ بے حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے ، بلکہ بعض اوقات انسان اس پر ہنستا ہے کہ میں نے کس چیز کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھا ہوا تھا، آخرت میں پہنچ کر انسان کو پتہ چلے گا کہ یہ ساری دلچسپیاں بے حقیقت تھیں اور اصل حاصل کرنے کی چیز تو یہ آخرت کی خوش حالی تھی۔

(توضیح القرآن)

 

تم دوڑو مغفرت کی طرف اپنے رب کی، اور اس جنت کی طرف، جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت جیسی (برابر ) ہے ، اور ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر، یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ اس کو دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی موت سے پہلے وہ سامان کر لو جس سے کوتاہیاں معاف ہوں اور بہشت ملے۔ اس کام میں سستی اور دیر کرنا مناسب نہیں۔

عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ :آسمان اور زمین دونوں کو اگر ملا کر رکھا جائے تو اس کے برابر جنت کا عرض ہو گا۔ طول کتنا ہو گا؟ یہ اللہ ہی جانے۔

ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ :ایمان و عمل بیشک حصول جنت کے اسباب ہیں۔ لیکن حقیقت میں ملتی ہے اللہ کے فضل سے۔ اس کا فضل نہ ہو تو سزا سے چھوٹنا ہی مشکل ہے۔ جنت ملنے کا تو ذکر کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کوئی مصیبت نہیں پہنچتی زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر کتاب (لوح محفوظ) میں (درج) ہے ، اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں، بیشک یہ اللہ پر آسان ہے۔ (۲۲)

تشریح: جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ اسی تقدیر کے مطابق ہو رہا ہے ، جو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے ، اسے کسی ناگوار واقعے پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جو اسے دائمی پریشانی اور حسرت میں مبتلا رکھے ، بلکہ یہ چیز اس کی تسلی کا باعث ہوتی ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا، اور یہ کہ اس دنیا کی تکلیفیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس طرح اگر کوئی خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے تو انسان اس پر اترا کر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ واقعہ اللہ تعالی کی تخلیق اور تقدیر کے مطابق ہے ، اور اس پرانسان کو اترانے کے بجائے اللہ تعالی کا شکر گزار ہونا چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

تاکہ تم اس پر غم نہ کھاؤ جو تم سے جاتی رہے ، اور نہ خوش ہو اس پر جو اس نے تمہیں دیا، اور اللہ کسی اترانے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (۲۳)

تشریح: یعنی اس حقیقت پر اس لیے مطلع کر دیا کہ تم خوب سمجھ لو کہ جو بھلائی تمہارے لیے مقدر ہے ضرور پہنچ کر رہے گی، اور جو مقدر نہیں وہ کبھی ہاتھ نہیں آسکتی۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے علم قدیم میں ٹھہر چکا ہے ، ویسا ہی ہو کر رہے گا۔ لہٰذا جو فائدہ کی چیز ہاتھ نہ لگے اس پر غمگین و مضطرب ہو کر پریشان نہ ہو، اور جو قسمت سے ہاتھ لگ جائے اس پر اکڑو اور اتراؤ نہیں، بلکہ مصیبت و ناکامی کے وقت صبر و تسلیم اور راحت و کامیابی کے وقت شکرو تحمید سے کام لو۔ (تنبیہ) پہلے ”اِعْلَمُوآ اِنَّمَا الْحَیَوۃَ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ” الخ میں بتلایا تھا کہ دنیا کے سامان عیش و طرب میں پڑ کر آدمی کو آخرت سے غافل نہ ہونا چاہیے۔ آیت ہذا میں متنبہ فرما دیا کہ یہاں کی تکالیف و مصائب میں گھر کر چاہیے کہ حد اعتدال سے تجاوز نہ کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ بخل کرتے ہیں اور ترغیب دیتے ہیں لوگوں کو بخل کی ا ور جو منہ پھیر لے تو بے شک اللہ بے نیاز، سزا وارا حمد (ستودہ صفات) ہے۔ (۲۴)

تشریح: چونکہ اس سورت میں لوگوں کو اللہ تعالی کے راستے میں اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اس لئے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ تقدیر پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ اپنے مال کو تنہا اپنی کوشش کا پھل سمجھ کر شیخی بگھارتے ہیں اور نیک کاموں کے لئے کچھ خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

تحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا واضح دلائل کے ساتھ اور ہم نے ان کے ساتھ اتاری کتاب اور میزان عدل تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں، اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت خطرہ (بلا کی سختی) ہے اور لوگوں کے لئے کئی منافعے ہیں، اور تاکہ اللہ معلوم کر لے کون اس کی مدد کرتا ہے ، اور اس کے رسولوں می، بن دیکھے ، بیشک اللہ قوی، غالب ہے۔ (۲۵)

تشریح: لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ : کتاب اور ترازو۔ شاید اسی تولنے کی ترازو کو کہا کہ اس کے ذریعہ سے بھی حقوق ادا کرنے اور لین دین میں انصاف ہوتا ہے۔ یعنی کتاب اللہ اس لیے اتاری کہ لوگ عقائد اور اخلاق و اعمال میں سیدھے انصاف کی راہ چلیں۔ افراط و تفریط کے راستہ پر قدم نہ ڈالیں اور ترازو اس لیے پیدا کی کہ بیع و شراء وغیرہ معاملات میں انصاف کا پلہ کسی طرف اٹھا، یا جھکا نہ رہے۔ اور ممکن ہے ”ترازو” شریعت کو فرمایا ہو۔ جو تمام اعمالِ قلبیہ و قالبیہ کے حسن و قبح کو ٹھیک جانچ تول کر بتلاتی ہے۔ واللہ اعلم۔

وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ :یعنی اپنی قدرت سے پیدا کیا اور زمین میں اس کی کانیں رکھ دیں۔

فِیْہِ بَأْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ :یعنی لوہے سے لڑائی کے سامان (اسلحہ وغیرہ) تیار ہوتے ہیں۔ اور لوگوں کے بہت سے کام چلتے ہیں۔

وَلِيَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ يَنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ:یعنی جو آسمانی کتاب سے راہ راست پر نہ آئیں اور انصاف کی ترازو کو دنیا میں سیدھا نہ رکھیں، ضرورت پڑے گی کہ ان کی گوشمالی کی جائے اور ظالم و  کجرو معاندین پر اللہ و رسول کے احکام کا وقار و اقتدار قائم رکھا جائے۔ اس وقت شمشیر کے قبضہ پر ہاتھ ڈالنا اور ایک خالص دینی جہاد میں اسی لوہے سے کام لینا ہو گا۔ اس وقت کھل جائے گا کہ کون سے وفادار بندے ہیں جو بن دیکھے خدا کی محبت میں آخرت کے غائبانہ اجر و ثواب پر یقین کر کے اس کے دین اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں۔

إِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ: یعنی جہاد کی تعلیم و ترغیب اس لیے نہیں دی گئی کہ اللہ کچھ تمہاری امداد و اعانت کا محتاج ہے۔ بھلا اس زور آور اور زبردست ہستی کو کمزور مخلوق کی کیا حاجت ہو سکتی تھی۔ ہاں تمہاری وفاداری کا امتحان مقصود ہے تاکہ جو بندے اس میں کامیاب ہوں ان کو اعلیٰ مقامات پر پہنچایا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے نوح ا ور ابراہیم کو بھیجا اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی، سو ان میں سے کچھ ہدایت یافتہ ہیں، اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ (۲۶)

تشریح: یعنی پیغمبر اور کتاب کے لیے ان دونوں کی نسل کو چن لیا کہ ان کے بعد یہ دولت ان کی ذریت سے باہر نہ جائے گی۔

جن لوگوں کی طرف وہ بھیجے گئے تھے یا یوں کہو کہ ان دونوں کی اولاد میں سے بعضے راہ پر رہے اور اکثر نافرمان ثابت ہوئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ہم ان کے قدموں کے نشانات پر ان کے پیچھے ہم اپنے رسول لائے اور ان کے پیچھے ہم عیسیٰٰ ابن مریم کو لائے اور ہم نے اسے انجیل دی، ا ورجن لوگوں نے اس کی پیروی کی ان کے دلوں میں نرمی اور محبت ڈال دی، اور ترک دنیا (جس کی رسم) خود انہوں نے نکالی ہم نے ان پر واجب نہ کی تھی، مگر (انہوں نے ) اللہ کی رضا چاہنے کے لئے (اختیار کی) تواس کو نہ نباہا (جیسے ) اس کے نباہنے کا حق تھا، تو ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ہم نے انہیں ان کا اجر دیا، اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں۔ (۲۷)

تشریح: ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰی اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا:یعنی پچھلے رسول ان ہی پہلوں کے نقش قدم پر تھے اصولی حیثیت سے سب کی تعلیم ایک تھی۔

وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاٰتَيْنَاہُ الْإِنْجِيْلَ :یعنی آخر میں انبیائے بنی اسرائیل کے خاتم حضرت عیسٰی علیہ السلام کو انجیل دے کر بھیجا۔

وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ رَأْفَۃً وَّرَحْمَۃً :یعنی حضرت مسیح کے ساتھ جو واقعی ان کے طریقہ پر چلنے والے تھے ان کے دلوں میں اللہ نے نرمی رکھی تھی۔ وہ خلق خدا کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وَّرَہْبَانِيَّۃً ابْتَدَعُوْہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَيْہِمْ إِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ :رہبانیت کا مطلب ہے دنیا کی لذتوں سے الگ رہنا، حضرت عیسیٰٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے کافی عرصے بعد عیسائیوں نے ایک خانقاہی نظام ایسا بنایا تھا کہ جو لوگ اس میں داخل ہو جاتے ، وہ دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے ، نہ شادی کرتے تھے ، نہ دنیا کی کسی لذت میں حصہ لیتے تھے ، ان کے اس خانقاہی نظام کو رہبانیت کہا جاتا ہے ، اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ حضرت عیسیٰٰ علیہ السلام کے سچے پیروکاروں پر مختلف بادشاہوں نے بڑے ظلم ڈھائے تو انہوں نے اپنے دین کو بچانے کے لئے شہروں سے دور رہنا شروع کر دیا، جہاں دنیا کی عام سہولیات میسر نہیں تھیں، اور رفتہ رفتہ اسی مشکل طرز زندگی کو بذات خود عبادت سمجھ لیا، اور بعد کے لوگوں نے وسائل دستیاب ہونے کے باوجود ان کو چھوڑ دیا، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس مشکل طرز زندگی کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَايَتِہَا :مطلب یہ ہے کہ شروع میں انہوں نے رہبانیت کا طریقہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہی اپنایا تھا، لیکن بعد میں وہ اس کی پوری رعایت نہیں رکھ سکے ، رعایت نہ رکھنے کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ جس چیز کو اللہ تعالی نے ان پر لازم نہیں کیا تھا انہوں نے اسے لازم سمجھ لیا، حالانکہ دین میں اپنی طرف سے کسی ایسی بات کو لازم سمجھنا جائز نہیں ہے جو اللہ تعالی نے لازم نہ فرمائی ہو، اور دوسرے یہ کہ جو باتیں انہوں نے اپنے ذمے لازم کی تھیں، ان کی عملی طور پر پابندی نہ کرسکے ، چونکہ یہ پابندیاں انسانی فطرت کے خلاف تھیں اس لئے رفتہ رفتہ بشری تقاضوں نے زور دکھایا، اور مختلف حیلوں بہانوں سے یا خفیہ طور پر ان لذتوں کا حصول شروع ہو گیا، پابندی تو نکاح پر بھی تھی ،لیکن اس پابندی کے نتیجے میں بدکاری کی وبائیں پھوٹ پڑیں اور جس مقصد سے رہبانیت شروع کی گئی تھی وہ سراسر ناکام ہو کر رہ گیا۔

(توضیح القرآن)

 

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے (ثواب کے ) دو حصے عطا کرے گا اور تمہارے لئے ایسا نور کر دے گا کہ تم اس کے ساتھ چلو گے اور وہ بخش دے گا تمہیں، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲۸)

تشریح: یہ ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ، ان کے بارے میں سورۂ قصص (۲۸:۵۴) میں بھی گزرا ہے کہ ان کو اللہ تعالی دوہرا ثواب عطا فرمائیں گے ، کیونکہ انہوں نے حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰٰ علیہما السلام پر بھی ایمان رکھا، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے۔

وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ:اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ نور جہاں تم جاؤ گے تمہارے ساتھ رہے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پل صراط پر وہ تمہارے لئے روشنی پیدا کرے گا جس میں تم چل سکو گے۔

(توضیح القرآن)

 

تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی شئے پر قدرت نہیں رکھتے ، اور یہ کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہ اسے دیتا ہے ، جس کو وہ چاہے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (۲۹)

تشریح: اس فقرے میں اہل کتاب کا تذکرہ فرماتے ہوئے دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، ایک یہ کہ جو یہودی یا عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے ، ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو صرف اس حسد کے مارے ایمان سے محروم رہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسرائیل کے بجائے بنو اسماعیل میں کیوں بھیج دئیے گئے ، ان سے کہا جا رہا ہے کہ نبوت اللہ تعالی کا فضل ہے ، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ، یہ تمہارے اختیار کا معاملہ نہیں ہے کہ جس کو تم چاہو اسی کو دیا جائے ، دوسری حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں میں ایک زمانے میں یہ طریقہ عام ہو گیا تھا کہ عیسائی پادری پیسے لے کر لوگوں کے لئے مغفرت نامے جاری کر دیتے تھے ، وہ مغفرت نامہ مرنے والے کے ساتھ ہی دفن کیا جاتا، اور یہ سمجھا جاتا کہ مغفرت کے اس پروانے سے مردے کی بخشش ہو جائے گی، آیت کریمہ نے بتایا کہ اللہ تعالی کا فضل کسی بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا، یہ تمام تر اللہ تعالی کے اختیار میں ہے کہ وہ کس کو اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازے ، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (تم سورۃ الحدید فللہ الحمد والمنہ)۔

(توضیح القرآن)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید