FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ترجمہ و تفسیر قرآن

 

حصہ ۱۳: مجادلہ تا   مزمل

 

                ترجمہ: حافظ نذر احمد

 

 

 

اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے ، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے ، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے ، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔

 

 

 

 

۵۸۔ سُوْرَۃُ الْمُجَادَلَۃ

 

                تعارف

 

اس سورت میں بنیادی طور پر چار اہم موضوعات کا بیان ہے ، پہلا موضوع ظہار ہے ، اہل عرب میں یہ طریقہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہہ دیتا تھا کہ انت علی کظہر امی، یعنی تم میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہو، جاہلیت کے زمانے میں اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا کہنے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے ، سورت کی ابتداء میں اسی کے احکام کا بیان ہے جس کی تفصیل ان شاء اللہ   ان آیتوں کی حواشی میں آنے والی ہے ، دوسرا موضوع یہ ہے کہ بعض یہودی اور منافقین آپس میں اس طرح سرگوشیاں کیا کرتے تھے جس سے مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ وہ ان کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں، نیز بعض صحابہ کرام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں کوئی مشورہ یا کوئی بات کرنا چاہتے تھے ، اس سورت میں ان خفیہ باتوں کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، تیسرا موضوع ان آداب کا بیان ہے جو مسلمانوں کو اپنی اجتماعی مجلسوں میں ملحوظ رکھنے چاہئیں، چوتھا اور آخری موضوع ان منافقوں کا تذکرہ ہے جو ظاہر میں تو ایمان کا اور مسلمانوں سے دوستی کا دعوی کرتے رہتے تھے ، لیکن در حقیقت وہ ایمان نہیں لائے تھے ، اور درپردہ وہ مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کرتے رہتے تھے۔

سورت کا نام مجادلہ (یعنی بحث کرنا) اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس میں ایک خاتون کے بحث کرنے کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ، خاتون کا یہ واقعہ نیچے حاشیہ نمبر:۱ میں آ رہا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۲۲        رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

یقیناً اللہ نے اس عورت (خولہ) کی بات سن لی جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کرتی تھی اور اللہ سے اپنے غم کی شکایت کرتی تھی، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سنتا تھا۔ بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۱)

تشریح: اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت خولہ ایک خاتون تھیں جو حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں جو بوڑھے ہو چکے تگے ، اور ایک مرتبہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو یہ کہہ دیا کہ، تم میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہو (یعنی میں نے تم کو اپنے اوپر ماں کی پشت کی طرح حرام کر لیا ہے ) جب کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ جملہ کہہ دے تو اسی کو ظہار کہتے ہیں، اسلام سے پہلے ظہار کے نتیجے میں میاں بیوی ہمیشہ کے لئے جدا ہو جایا کرتے تھے ، ، اور پھر ان کے ملاپ کا کوئی راستہ نہیں رہتا تھا، اگرچہ حضرت اوس بن صامت یہ جملہ جذبات میں آ کر کہہ تو گئے تھے ، لیکن بعد میں شرمندہ ہوئے تو یہ خاتون پریشان ہو کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور آپ سے پوچھا کہ اس صورت حال کا کیا حکم ہے ، آپ نے فرمایا کہ اس سلسلے میں ابھی میرے پاس کوئی حکم نہیں آیا، اور یہ شبہ ظاہر فرمایا کہ شاید تم اپنے شوہر کے لئے حرام ہو چکی ہو، اس پر خاتون نے بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ میرے شوہر نے مجھ سے طلاق کا کوئی لفظ تو نہیں کہا، ان کے اسی بار بار کہنے کو آیت میں بحث کرنے سے تعبیر فرمایا گیا ہے ، اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اللہ تعالی سے فریاد شروع کر دی کہ یا اللہ میں آپ سے فریاد کرتی ہوں کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو ضائع ہو جائیں گے ، پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر بار بار کہتی ہی رہیں کہ یا اللہ میں آپ سے فریاد کرتی ہوں، ابھی وہ یہ فریاد کر ہی رہی تھیں کہ یہ آیات نازل ہو گئیں جن میں ظہار کا حکم اور اس سے رجوع کرنے کا طریقہ بتلایا گیا، خلاصہ از تفسیر ابن کثیر۔

(توضیح القرآن)

 

تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں ماں کہہ دیتے ہیں) تو وہ ان کی مائیں نہیں (ہو جاتیں) ان کی مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے ، اور بے شک وہ ایک نامعقول بات اور جھوٹ کہتے ہیں، اور بے شک اللہ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔ (۲)

اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں مائیں کہہ دیتے ہیں) پھر وہ اپنے قول سے رجوع کر لیں تو (ان پر) لازم ہے آزاد کرنا ایک غلام کو اس سے قبل کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں (باہم اختلاط کریں) یہ جو جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے ، اور اللہ اس سے باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (۳)

تو جو کوئی یہ (غلام) نہ پائے تو لگاتار دو مہینے روزے (رکھے ) اس سے قبل کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں (اختلاط کریں) پھر جس کو ( اس کو بھی ) مقدور نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ، یہ اس لئے ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان رکھو، اور یہ اللہ کی ( مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور نہ ماننے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۴)

تشریح: یہاں سے ظہار کا حکم بیان فرمایا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ ظہار کے بعد میاں بیوی کے لئے اپنے مخصوص تعلقات یعنی جماع بوس و کنار وغیرہ جائز نہیں رہتے ، البتہ ظہار سے رجوع ہو سکتا ہے ، جس کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بحال ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے لئے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے ، ان آیتوں میں کفارہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے لئے ایک غلام کو آزاد کرنا ممکن ہو تو اس کے ذمے واجب ہے کہ وہ غلام آزاد کرنے کی صورت میں کفارہ ادا کرے ، لیکن اگر کسی کو غلام کی قدرت نہ ہو (جیسے کہ آج کل غلاموں کا وجود ہی نہیں رہا) تو اس کو دو مہینے متواتر روزے رکھنے ہوں گے ، اور اگر کوئی شخص بڑھاپے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے بھی نہ رکھ سکے تو وہ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے ، تو اس سے بھی کفارہ ادا ہو جاتا ہے ، کفارہ ادا کرنے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہو جاتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے ، جیسے ذلیل کئے گئے وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے ، اور یقیناً ہم نے واضح آیتیں نازل کی ہیں، اور کافروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی مومنین کا کام نہیں کہ اللہ کی باندھی ہوئی حدود سے تجاوز کریں۔ باقی رہے کافر جو حدود اللہ کی پروا نہیں کرتے اور خود اپنی رائے و خواہش سے حدیں مقرر کرتے ہیں۔ انہیں چھوڑیے کہ ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایسے لوگ پہلے زمانہ میں بھی ذلیل و خوار ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ اللہ کی روشن اور صاف صاف آیتیں سن لینے کے بعد انکار پر جمے رہنا اور خدائی احکام کی عزت و احترام نہ کرنا اپنے کو ذلت کے عذاب میں پھنسا نے کے مترادف ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن (جِلا) اٹھائے گا اللہ ان سب کو، تو جو کچھ انہوں نے کیا وہ انہیں آگاہ کرے گا، اسے اللہ نے گن (محفوظ) رکھا تھا اور وہ اسے بھول گئے تھے اور اللہ ہر شے پر نگران ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی جو کام کیے تھے ان سب کا نتیجہ سامنے آ جائے گا کوئی ایک عمل بھی غائب نہ ہو گا۔ ان کو اپنی عمر بھر کے بہت سے کام یاد بھی نہیں رہے ، یا ان کی طرف توجہ نہیں رہی۔ لیکن اللہ کے ہاں وہ سب ایک ایک کر کے محفوظ ہیں۔ وہ سارا دفتر اس دن کھول کر سامنے رکھ دیا جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہیں دیکھا کہ اللہ جانتا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے ، تین لوگوں میں کوئی سرگوشی نہیں‌ہوتی، مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ (کی سرگوشی) مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے ، اور خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ، مگر جہاں کہیں وہ ہوں وہ (اللہ) ان کے ساتھ ہوتا ہے ، جو کچھ انہوں نے کیا پھر قیامت کے دن وہ انہیں بتلا دے گا، بیشک اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔ (۷)

تشریح: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد وہاں کے یہودیوں سے امن و امان کے ساتھ رہنے کا معاہدہ فرمایا تھا، دوسری طرف یہودیوں کو مسلمانوں سے جو دلی بغض تھا، اس کی بنا پر وہ مختلف ایسی شرارتیں کرتے رہتے تھے جومسلمانوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوں، چنانچہ ایک شرارت یہ تھی کہ بعض اوقات جب وہ مسلمانوں کو دیکھتے تو آپس میں اس طرح کانا پھوسی اور ایسے اشارے شروع کر دیتے تھے جیسے وہ ان کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہوں، بعض منافقین بھی ایسا ہی کرتے تھے ، اس طرز عمل سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی، اس لئے انہیں اس طرح کی سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود وہ اس سے باز نہیں آئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

(توضیح القرآن)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی سے منع کیا گیا (مگر) وہ پھر وہی کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا اور وہ گناہ اور سرکشی کی اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی (کے بارے میں‌) باہم سرگوشی کرتے ہیں، اور جب وہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آتے ہیں تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو سلام دعا دیتے ہیں‌ اس لفظ سے جس سے اللہ نے آپ کو دعا نہیں دی، اور وہ اپنے دلوں ‌میں کہتے ہیں اللہ ہمیں اس کی کیوں ‌سزا نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں۔ ان کے لئے کافی ہے جہنم، وہ اس میں ڈالے جائیں گے ، سو (یہ کیسا) برا ٹھکانا ہے۔ (۸)

تشریح: یہودیوں کی ایک شرارت یہ تھی کہ جب و ہ مسلمانوں سے ملتے تو السلام علیکم کہنے کے بجائے السام علیکم کہتے تھے ، السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو اور السام علیکم کے معنی ہیں کہ تم پر ہلاکت ہو، چونکہ دونوں لفظوں میں صرف ایک لام کا فرق ہے اس لئے بولتے وقت سننے والے خیال بھی نہیں کرتے تھے ، لیکن وہ لوگ اس طرح اپنے بغض کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے تھے ، اس آیت میں ان کی اسی شرارت کی طرف اشارہ ہے۔

وَيَقُوْلُوْنَ فِیْٓ أَنْفُسِہِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ :اپنی مذکورہ شرارتوں کے بعد وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالی ہمیں ان پر سزا کیوں نہیں دیتا اور چونکہ ہم پر کوئی سزا مسلط نہیں ہو رہی ہے ، اس لئے ثابت ہوا کہ ہم برحق ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اے ایمان والو ! جب تم باہم سرگوشی کرو تو گناہ اور سرکشی کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کے (بارے میں) سرگوشی نہ کرو، اور (بلکہ) نیکی اور پرہیزگاری کی سرگوشی کرو، اور اللہ سے ڈرو جس کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے۔ (۹)

تشریح: یعنی سچے مسلمانوں کو منافقین کی خو سے بچنا چاہیے۔ ان کی سرگوشیاں اور مشورے ظلم و عدوان اور اللہ و رسول کی نافرمانی کے لیے نہیں، بلکہ نیکی اور تقویٰ اور معقول باتوں کی اشاعت کے لیے ہونے چاہئیں، جیسا کہ سورہ ”نساء” میں گزرا۔ ”لَاخَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَجْوَاہُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْاِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ” (نساء:۱۱۴) سب کو اللہ کے سامنے جمع ہو کر ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے۔ اس سے کسی کا ظاہر و باطن پوشیدہ نہیں۔ لہٰذا اس سے ڈر کر نیکی اور پرہیزگاری کی بات کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ سرگوشی شیطان (کی طرف) سے ہے ، تاکہ وہ ان لوگوں کو غمگین کر دے جو ایمان لائے ، اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر ان کا کچھ نہیں ‌بگاڑ سکتا، اور مومنوں ‌کو اللہ پر (ہی) بھروسہ کرنا چاہیئے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی منافقین کی کانا پھوسی (سرگوشی) اس غرض سے تھی کہ ذرا مسلمان رنجیدہ اور دلگیر ہوں اور گھبرا جائیں۔ کہ نہ معلوم یہ لوگ ہماری نسبت کیا منصوبے سوچ رہے ہوں گے۔ یہ کام شیطان ان سے کرا رہا تھا۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کے قبضہ میں کیا چیز ہے۔ نفع و نقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا حکم نہ ہو تو کتنے ہی مشورے کر لیں اور منصوبے گانٹھ لیں، تمہارا بال بیکا نہ ہو گا۔ لہٰذا تم کو غمگین و دل گیر ہونے کے بجائے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ (تنبیہ) احادیث میں ممانعت آئی ہے کہ مجلس میں ایک آدمی کو چھوڑ کر دو شخص کانا پھوسی کرنے لگیں۔ کیونکہ وہ تیسرا غمگین ہو گا۔ یہ مسئلہ بھی ایک طرح آیہ ہذا کے تحت میں داخل ہو سکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”مجلس میں دو شخص کان میں بات کریں تو دیکھنے والے کو غم ہو کہ مجھ سے کیا حرکت ہوئی جو یہ چھپ کر کہتے ہیں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اے مومنو ! جب تمہیں کہا جائے کہ تم مجلسوں میں کھل کر بیٹھو، تو تم کھل کر بیٹھ جایا کرو، اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا، اور جب کہا جائے کہ تم اٹھ کھڑے ہو، تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اللہ (ان کے درجے ) بلند کرے گا، اور جن لوگوں کو علم عطا کیا گیا (ان کے ) درجے ہیں، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (۱۱)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ آداب ہیں مجلس کے۔ کوئی آئے اور جگہ نہ پائے تو چاہیے سب تھوڑا تھوڑا ہٹیں ،تاکہ مکان حلقہ کا کشادہ ہو جائے۔ یا (اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں اور ) پرے ہٹ کر حلقہ کر لیں۔ (یا بالکل چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جائیں) اتنی حرکت میں غرور (یا بخل) نہ کریں۔ خوئے نیک پر اللہ مہربان ہے اور خوئے بد سے بیزار۔ ” (تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نور کی مجلس میں ہر شخص آپ کا قرب چاہتا تھا جس سے کبھی مجلس میں تنگی پیش آتی تھی۔ حتی کہ بعض مرتبہ اکابر صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جگہ نہ ملتی۔ اس لیے یہ احکام دیے گئے۔ تاکہ ہر ایک کو درجہ بدرجہ استفادہ کا موقع ملے ، اور نظم و ضبط قائم رہے۔ اب بھی اس قسم کی انتظامی چیزوں میں صدر مجلس کے احکام کی اطاعت کرنا چاہیے۔ اسلام ابتری اور بدنظمی نہیں سکھلاتا بلکہ انتہائی نظم و شائستگی سکھلاتا ہے۔ اور جب عام مجالس میں یہ حکم ہے تو میدان جہاد اور صفوف جنگ میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔

سچا ایمان اور صحیح علم انسان کو ادب و تہذیب سکھلاتا اور متواضع بناتا ہے۔ اہل علم و ایمان جس قدر کمالات و مراتب میں ترقی کرتے ہیں، اسی قدر جھکتے اور اپنے کو ناچیز سمجھتے جانتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ ان کے درجے اور زیادہ بلند کرتا ہے۔ ”مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ۔ ” یہ متکبر بد دین یا جاہل گنوار کا کام ہے کہ اتنی سی بات پر لڑے کہ مجھے یہاں سے کیوں اٹھا دیا اور وہاں کیوں بٹھا دیا۔ یا مجلس سے اٹھ جانے کو کیوں کہا۔ افسوس کہ آج بہت سے بزرگ اور عالم کہلانے والے اسی خیالی اعزاز کے سلسلہ میں غیر مختتم جنگ آزمائی اور مورچہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔ ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ” یعنی ہر ایک کو اس کے کام اور لیاقت کے موافق درجے عطا کرتا ہے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کون واقعی ایماندار اور اہل علم ہیں۔

(تفیسرعثمانی)

 

اے مومنو ! جب تم رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے کان میں بات کرو (سرگوشی کرو) تو تم اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دو، یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے ، پھر اگر تم (مقدور) نہ پاؤ تو بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (۱۲)

تشریح: منافق بے فائدہ باتیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کان میں کرتے کہ لوگوں میں اپنی بڑائی جتائیں اور بعض مسلمان غیر مبہم باتوں میں سرگوشی کر کے اپنا وقت لے لیتے تھے کہ دوسروں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفید ہونے کا موقع نہ ملتا تھا، یا کسی وقت آپ خلوت چاہتے تو اس میں تنگی ہوتی تھی۔ لیکن مروت و اخلاق کے سبب کسی کو منع نہ فرماتے۔ اس وقت یہ حکم ہوا کہ جو مقدرت والا آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہے وہ اس سے پہلے کچھ خیرات کر کے آیا کرے۔ اس میں کئی فائدے ہیں۔ غریبوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، مخلص و منافق کی تمیز، سرگوشی کرنے والوں کی تقلیل، وغیر ذلک۔ ہاں جس کے پاس خیرات کرنے کو کچھ نہ ہو، اس سے یہ قید معاف ہے۔ جب یہ حکم اترا منافقین نے مارے بخل کے وہ عادت چھوڑ دی اور مسلمان بھی سمجھ گئے کہ زیادہ سرگوشیاں کرنا اللہ کو پسند نہیں۔ اسی لیے یہ قید لگائی گئی ہے۔ آخر یہ حکم اگلی آیت سے منسوخ فرما دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم اس سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دو، سو جب تم نہ کر سکے ، اور اللہ نے تم پر درگزر فرمایا تو تم نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو، اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ (۱۳)

تشریح: یعنی صدقہ کا حکم دینے سے جو مقصد تھا، حاصل ہو گیا۔ اب ہم نے یہ وقتی حکم اٹھا لیا ہے ، چاہیے کہ ان احکام کی اطاعت میں ہمہ تن لگے رہو جو کبھی منسوخ ہونے والے نہیں۔ مثلاً نماز و زکوٰۃ وغیرہ اسی سے کافی تزکیہ نفس ہو جائے گا۔ (تنبیہ) ”فَاِذْلَمْ تَفْعَلُوا” سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم پر عام طور سے عمل کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ بعض روایات میں حضرت علی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ اس حکم پر امت میں سے صرف میں نے عمل کیا۔

(تفسیر عثمانی)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جو ان لوگوں سے دوستی کرتے ہیں‌جن پر اللہ نے غضب کیا، وہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں، اور وہ جھوٹ پر قسم کھا جاتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ (۱۴)

تشریح: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا :اس سے مراد منافقین ہیں جنہوں نے یہودیوں سے ایسی دوستی گانٹھی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کیا ہے ، بے شک وہ برے کام کرتے تھے۔ (۱۵)

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا، پس انہوں نے (لوگوں کو) اللہ کے راستہ سے روکا، تو ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ (۱۶)

یعنی جس طرح ڈھال سے تلوار کے وار کو روکا جاتا ہے یہ لوگ سازشیں کرنے کے باوجود قسمیں کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی طرف سے کسی جوابی کاروائی سے بچ سکیں۔

(توضیح القرآن)

 

انہیں ان کے مال اور نہ ان کی اولاد اللہ سے ہر گز ذرا بھی نہ بچا سکیں گے۔ یہی لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۱۷)

تشریح: یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کے ہاتھوں سے اپنی جان و مال کو بچاتے ہیں اور اپنے کو مسلمان ظاہر کر کے دوستی کے پیرایہ میں دوسروں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ لوگ اس طرح کچھ عزت نہیں پا سکتے۔ سخت ذلت کے عذاب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور جب سزا کا وقت آئے گا، اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد، جن کی حفاظت کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے پھرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن اللہ ان سب کو دوبارہ اٹھائے گا تو اس کے لئے (اس کے حضور) قسمیں کھائیں گے جیسے وہ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں، اور وہ گمان کرتے ہیں‌کہ وہ کسی شے پر (بھلی راہ پر) ہیں یاد رکھو ! بیشک وہی جھوٹے ہیں۔ (۱۸)

تشریح: یعنی یہاں کی عادت پڑی ہوئی وہاں بھی نہ جائے گی۔ جس طرح تمہارے سامنے جھوٹ بول کر بچ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں، اور بڑی اچھی چال چل رہے ہیں، اللہ کے سامنے بھی جھوٹی قسمیں کھانے کو تیار ہو جائیں گے کہ پروردگارا! ہم تو ایسے نہ تھے ، ویسے تھے۔ شاید وہاں بھی خیال ہو کہ اتنا کہہ دینے سے رہائی ہو جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

غالب آ گیا ہے ان پر شیطان، تو اس نے انہیں اللہ کی یاد بھلا دی، یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں، خوب یاد رکھو، بے شک شیطان کے گروہ ہی گھاٹا پانے والے ہیں۔ (۱۹)

تشریح: شیطان جس پر پوری طرح قابو کر لے اس کا دل و دماغ اسی طرح مسخ ہو جاتا ہے اسے کچھ یاد نہیں رہتا کہ خدا بھی کوئی چیز ہے۔ بھلا اللہ کی عظمت اور بزرگی و مرتبہ کو وہ کیا سمجھے۔ شاید محشر میں بھی جھوٹ پر قدرت دے کر اس کی بے حیائی اور حماقت کا اعلان کرنا ہو کہ اس ممسوخ کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ کے آگے میرا جھوٹ کیا چلے گا۔

شیطانی لشکر کا انجام یقیناً خراب ہے۔ نہ دنیا میں ان کے منصوبے آخری کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہیں، نہ آخرت میں عذاب شدید سے نجات پانے کی کوئی سبیل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں، یہی لوگ ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں۔ (۲۰)

اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) ضرور غالب آئیں گے ، بیشک اللہ (قوی توانا) غالب ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اللہ و رسول کا مقابلہ کرنے والے جو حق و صداقت کے خلاف جنگ کرتے ہیں سخت ناکام اور ذلیل ہیں۔ اللہ لکھ چکا ہے کہ آخرکار حق ہی غالب ہو کر رہے گا اور اس کے پیغمبر ہی مظفر و منصور ہوں گے۔ اس کی تقریر پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم نہ پاؤ گے ان لوگوں‌ کو جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر کہ وہ اس سے دوستی رکھتے ہوں، جس نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں، یا ان کے بیٹے ہوں، یا ان کے بھائی ہوں، یا ان کے کنبے والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں‌ میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے ، اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیبی فیض سے ، اور وہ انہیں (ان) باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، راضی ہوا ان سے اللہ، اور وہ اس سے راضی، یہی لوگ ہیں اللہ کا گروہ، خوب یاد رکھو ! اللہ کا گروہ ہی (دو جہاں میں) کامیاب ہونے والے ہیں۔ (۲۲)

تشریح: اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْإِيْمَانَ: یعنی ایمان ان کے دلوں میں جما دیا اور پتھر کی لکیر کی طرح ثبت کر دیا۔

رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ :یعنی یہ لوگ اللہ کے واسطے سب سے ناراض ہوئے تو اللہ ان سے راضی ہوا۔ پھر جس سے اللہ راضی ہو اسے اور کیا چاہیے۔

وَأَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ :یعنی غیبی نور عطا فرمایا جس سے قلب کو ایک خاص قسم کی معنوی حیات ملتی ہے یا روح القدس (جبرائیل) سے ان کی مدد فرمائی۔

أَلَآ إِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ:حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹے ہوں وہ ہی سچے ایمان والے ہیں۔ ان کو یہ درجے ملتے ہیں۔ ” صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان یہ ہی تھی کہ اللہ و رسول کے معاملہ میں کسی چیز اور کسی شخص کی پروا نہیں کی، اسی سلسلہ میں ابو عبیدہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ جنگ ”احد” میں ابوبکر صدیق اپنے بیٹے عبدالرحمن کے مقابلہ میں نکلنے کو تیار ہو گئے ، مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو، عمر بن الخطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، علی بن ابی طالب، حمزہ، عبیدۃ بن الحارث نے اپنے اقارب عتبہ، شیبہ، اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے جو مخلص مسلمان تھے ، عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اپنے باپ کا سر کاٹ کر خدمت میں حاضر کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ فَرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ وَرَضُواعَنْہُ ورزقنا اللہ حُبَّہُمْ واتباعہم واماتنا علیہ۔ آمین۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

۵۹۔ سُوْرَۃُ الْحَشْرِ

 

                تعارف

 

یہ سورت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے دوسرے سال نازل ہوئی تھی، مدینہ منورہ میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ آپس میں امن و امان سے رہیں گے ، اور مدینہ منورہ پر حملہ ہونے کی صورت میں مل کر اس کا دفاع کریں گے ، یہودیوں نے اس معاہدے کو قبول تو کر لیا تھا، لیکن ان کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی بغض تھا، اس لئے وہ خفیہ طور پر آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے ، چنانچہ انہوں نے در پردہ مکہ مکرمہ کے بت پرستوں سے تعلقات رکھے ہوئے تھے ، اور ان کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے تھے ، اور ان سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ اگر تم مسلمانوں پر حملہ کرو گے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے ، یہودیوں کا ایک قبیلہ بنو نضیر کہلاتا تھا، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے معاہدے کی کچھ شرائط پر عمل کرانے کے لئے ان کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے یہ سازش کی کہ جب آپ بات چیت کرنے کے لئے بیٹھیں تو ایک شخص اوپر سے آپ پر ایک چٹان گرا دے ، جس سے (معاذاللہ ) آپ شہید ہو جائیں، اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے آپ کو ان کی اس سازش سے باخبر فرما دیا، اور آپ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے ، اس واقعے کے بعد آپ نے بنو نضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ اب آپ لوگوں کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہو گیا ہے ، اور ہم آپ کے لئے ایک مدت مقرر کرتے ہیں کہ اس مدت کے اندر اندر آپ مدینہ منورہ چھوڑ کر کہیں چلے جائیں، ورنہ مسلمان آپ پر حملہ کرنے کے لئے آزاد ہوں گے ، کچھ منافقین نے بنو نضیر کو جا کر یقین دلایا کہ آپ لوگ ڈٹے رہیں، اگر مسلمانوں نے حملہ کیا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے ، چنانچہ بنو نضیر مقررہ مدت میں مدینہ منورہ سے نہیں گئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت گزرنے کے بعد ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا اور منافقین نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، آخر کار ان لوگوں نے ہتھیا ڈال دئیے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ منورہ سے جلاوطن کرنے کا حکم دیا، البتہ یہ اجازت دی کہ ہتھیاروں کے سوا وہ اپنا سارا مال و دولت اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں، یہ سورت اس واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی، اور اس میں اس واقعے پر تبصرہ بھی فرمایا گیا ہے ، اور اس سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی گئی ہیں، حشر کے لفظی معنی ہیں جمع کرنا، چونکہ اس سورت کی آیت نمبر:۲ میں یہ لفظ آیا ہے جس کی تشریح آیت نمبر :۲ کے حاشیہ میں آ رہی ہے ، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ حشر ہے اور بعض صحابہ سے منقول ہے کہ وہ اسے سورۂ بنی نضیر بھی کہا کرتے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۲۴        رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو بھی آسمانوں میں اور جو بھی زمین میں ہے ، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۱)

وہی ہے جس نے نکالا اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے (ان کے ) پہلے ہی اجتماع لشکر پر، تمہیں گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں‌ گے اور وہ خیال کرتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچا لیں گے ، تو ان پر اللہ (کا غضب ایسی جگہ سے آیا) جس کا انہیں گمان (بھی) نہ تھا، اور اللہ نے ان کے دلوں‌ میں رعب ڈالا اور وہ اپنے ہاتھوں سے اور مومنوں کے ہاتھوں ‌سے اپنے گھر برباد کرنے لگے ، تو اے (بصیرت کی) نگاہ والو عبرت پکڑو۔ (۲)

تشریح:  پہلے اجتماع کا مطلب بعض مفسرین نے یہ بتلایا ہے کہ اس سے مسلمانوں کا لشکر مراد ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنی نہیں پڑی، بلکہ پہلے اجتماع ہی پر وہ قابو میں آ گئے ، لیکن بیشتر مفسرین نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس سے مراد جلاوطنی کے لئے بنو نضیر کا اجتماع ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ یہ ان یہودیوں کے لئے پہلا موقع تھا کہ وہ جلا وطنی کے لئے جمع ہوئے ہوں، اس سے پہلے کبھی ان کو ایسے اجتماع کا موقع پیش نہیں آیا تھا، اور اس لفظ میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ یہ بنو نضیر کی پہلی جلا وطنی تھی، اس کے بعد ان کو ایک اور جلا وطنی سے بھی سابقہ پیش آئے گا ،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کو دوبارہ خیبر سے جلا وطن کیا گیا۔

(توضیح القرآن)

 

اہل بصیرت کے لیے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دکھلا دیا کہ کفر، ظلم، شرارت اور بدعہدی کا انجام کیساہوتا ہے۔ اور یہ کہ محض ظاہری اسباب پر تکیہ کر کے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے غافل ہو جانا عقلمند کا کام نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ان پر جلاوطن ہونا لکھ رکھا ہوتا، تو وہ انہیں دنیا میں عذاب دیتا اور ان کے لئے آخرت میں جہنم کا عذاب ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی ان کی قسمت میں جلا وطنی کی سزا لکھی تھی۔ یہ بات نہ ہوتی تو کوئی دوسری سزا دنیا میں دی جاتی۔ مثلاً بنی قریظہ کی طرح مارے جاتے۔ غرض سزا سے بچ نہیں سکتے۔ یہ خدا کی حکمت ہے قتل کے بجائے محض جلا وطنی پر اکتفا کیا گیا۔ لیکن یہ تخفیف صرف دنیاوی سزا میں ہے آخرت کی ابدی سزا کس طرح ان کافروں سے ٹل نہیں سکتی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”جب یہ قوم ملک شام سے بھاگ کر یہاں آئی تھی تو ان کے بڑوں نے کہا تھا کہ ایک دن تم کو یہاں سے ویران ہو کر پھر شام میں جانا پڑے گا۔ چنانچہ اس وقت اجڑ کر (بعض شام میں چلے گئے اور بعض) خیبر میں رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہ میں وہاں سے اجڑ کر شام میں گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی، اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ اس کو سخت سزا دینے والا ہے۔ (۴)

جو تم نے درختوں کے تنے کاٹ ڈالے ، یا انہیں ان کی جڑوں  پر کھڑا چھوڑ دیا، تو (یہ) اللہ کے حکم سے تھا، اور تاکہ وہ نافرمانوں کو رسوا کر دے۔ (۵)

تشریح: جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے قلعے کا محاصرہ فرمایا تو آس پاس کے کچھ کھجور کے درخت کاٹنے پڑے تھے ، اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ پھل دار درخت کاٹنا مناسب نہیں تھا، اس کے جواب میں اس آیت نے فرمایا کہ جو درخت کاٹے گئے ہیں، اللہ تعالی کے حکم سے کاٹے گئے ہیں اور جنگی حکمت عملی کے طور پر اگر کسی برحق جہاد میں ایسا کرنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان (بنو نضیر) سے جو (مال) دلوایا، تو نہ تم نے ان پر گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔ (۶)

تشریح: فئی اس مال کو کہتے ہیں جو کوئی دشمن ایسی حالت میں چھوڑ جائے کہ مسلمانوں کو اس سے باقاعدہ لڑائی کرنی نہ پڑی ہو، بنو نضیر کے یہودیوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مال و دولت ساتھ لے جانے کی اجازت دی تھی، اس لئے وہ جو کچھ ساتھ لے جا سکتے تھے لے گئے ،لیکن ان کی جو زمینیں تھیں ظاہر ہے کہ وہ ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے ، اس لئے وہ چھوڑ کر گئے یہ زمینیں مال فئی کے طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں، اللہ تعالی مسلمانوں کو اپنی یہ نعمت یاد دلا رہے ہیں کہ یہ مال فئی اللہ تعالی نے اس طرح عطا  فرما دیا کہ مسلمانوں کو باقاعدہ لڑائی کی محنت بھی اٹھانی نہیں پڑی، آیت میں گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانے سے مراد لڑائی کی کاروائی ہے ، اگلی آیت میں اللہ تعالی نے اس فئی کے مصارف بیان فرمائے ہیں کہ اُسے کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ نے بستیوں والوں سے جو مال اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دلوائے تو وہ اللہ کے لئے ہے اور رسول  (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے ، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے لئے ، اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ، تاکہ (دولت) نہ رہے تمہارے مال داروں کے ہاتھوں کے درمیان (ہی) گردش کرتی، اور تمہیں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جو عطا فرمائیں وہ لے لو اور وہ تمہیں ‌جس سے منع کریں اس سے تم باز رہو، اور تم اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (۷)

تشریح: فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ :پہلی آیت میں صرف اموال ”بنی نضیر” کا ذکر تھا۔ اب اموال ”فئے ” کے متعلق عام ضابطہ بتلاتے ہیں۔ یعنی ”فئے ” پر قبضہ رسول کا اور رسول کے بعد امام کا اسی پر یہ خرچ پڑتے ہیں۔ باقی اللہ کا ذکر تبرکاً ہوا۔ وہ تو سب ہی کا مالک ہے۔ وہاں کعبہ کا خرچ اور مسجدوں کا بھی جو اللہ کے نامزد ہیں ممکن ہے اس میں درج ہو۔

وَلِذِیْ الْقُرْبٰى: یعنی حضرت کے قرابت والوں کے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ میں اس مال میں سے ان کو بھی دیتے تھے۔ اور ان میں فقیر کی بھی قید نہیں تھی۔ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ کو جو دولت مند تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ عطا فرمایا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حنفیہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابتدار جو صاحب حاجت ہوں امام کو چاہیے کہ انہیں دوسرے محتاجوں سے مقدم رکھے۔

کَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃً بَيْنَ الْأَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ :یعنی یہ مصارف اس لیے بتلائے کہ ہمیشہ یتیموں، محتاجوں، بیکسوں اور عام مسلمانوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور عام اسلامی ضروریات سرا نجام پا سکیں۔ یہ اموال محض دولت مندوں کے الٹ پھیر میں پڑ کر ان کی مخصوص جاگیر بن کر نہ رہ جائیں جن سے سرمایہ دار مزے لوٹیں اور غریب فاقوں پر مریں۔

وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا :یعنی مال و جائداد وغیرہ جس طرح پیغمبر اللہ کے حکم سے تقسیم کرے اسے بخوشی و رغبت قبول کرو، جو ملے لے لو، جس سے روکا جائے رک جاؤ اور اسی طرح اس کے تمام احکام اور اوامر و نواہی کی پابندی رکھو۔

وَاتَّقُوا اللہَ :یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ ڈرتے رہو کہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کوئی سخت عذاب مسلط نہ کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

محتاج مہاجروں کے لئے (خاص طور پر) جو نکالے گئے اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (محروم کئے گئے ) وہ اللہ کا فضل اور (اس کی) رضا چاہتے ہیں اور وہ مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی، یہی لوگ سچے ہیں۔ (۸)

تشریح: یعنی یوں تو اس مال سے عام مسلمانوں کی ضروریات و حوائج متعلق ہیں۔ لیکن خصوصی طور پر ان ایثار پیشہ جاں نثاروں اور سچے مسلمانوں کا حق مقدم ہے۔ جنہوں نے محض اللہ کی خوشنودی اور رسول کی محبت و اطاعت میں اپنے گھر بار اور مال و دولت سب کو خیر باد کہا اور بالکل خالی ہاتھ ہو کر وطن سے نکل آئے تاکہ اللہ و رسول کے کاموں میں آزادانہ مدد کر سکیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ (انصار) اس گھر ( دار الہجرت مدینہ میں) ان سے قبل مقیم رہے اور ایمان (میں پختہ) رہے اور وہ (ان سے ) محبت کرتے ہیں جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی، اور جو (انہیں مہاجرین کو) دیا گیا، اس کی اپنے دلوں ‌میں کوئی حاجت نہیں پاتے۔ اور وہ اختیار کرتے ہیں (وہ انہیں ترجیح دیتے ہیں) اپنی جانوں پر، خواہ (خود) انہیں تنگی (ضرورت) ہو، اور جس نے اپنی ذات کو بخل سے بچایا تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (۹)

تشریح: وَالَّذِیْنَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ: اس گھر سے مراد ہے مدینہ طیبہ اور یہ لوگ انصار مدینہ ہیں جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں سکونت پذیر تھے۔ اور ایمان و عرفان کی راہوں پر بہت مضبوطی کے ساتھ مستقیم ہو چکے تھے۔

يُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَيْہِمْ :یعنی محبت کے ساتھ مہاجرین کی خدمت کرتے ہیں حتی کہ اپنے اموال وغیرہ میں ان کو برابر کا شریک بنانے کے لیے تیار ہیں۔

وَلَا يَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ :یعنی مہاجرین کو اللہ تعالیٰ جو فضل و شرف عطا فرمائے یا اموال فئے وغیرہ میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ عنایت کریں، اسے دیکھ کر انصار دل تنگ نہیں ہوتے نہ حسد کرتے ہیں۔ بلکہ خوش ہوتے ہیں اور ہر اچھی چیز میں ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں۔ خود سختیاں اور فاقے اٹھا کر بھی اگر ان کو بھلائی پہنچا سکیں تو دریغ نہیں کرتے۔ ایسا بے مثال ایثار آج تک دنیا کی کس قوم نے کس کے لیے دکھلایا۔

وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ :یعنی بڑے کامیاب اور با مراد ہیں وہ لوگ جن کو اللہ کی توفیق و دستگیری نے ان کے دل کے لالچ اور حرص و بخل سے محفوظ رکھا۔ لالچی اور بخیل آدمی اپنے بھائیوں کے لیے کہاں ایثار کر سکتا ہے اور دوسروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر کب خوش ہوتا ہے ؟

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ان کے بعد آئے ، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو بخش دے وہ جنہوں نے ایمان میں ہم سے سبقت کی، اور جو ایمان لائے ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے کوئی کینہ نہ ہونے دے ، اے ہمارے رب ! بیشک تو شفقت کرنے والا ہے ، رحم کرنے والا ہے۔ (۱۰)

تشریح: وَالَّذِیْنَ جَآءُوْا مِنْ بَعْدِہِمْ یعنی ان مہاجرین و انصار کے بعد عالم وجود میں آئے ، یا ان کے بعد حلقہ اسلام میں آئے ، یا مہاجرین سابقین کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ والظاہر ہو الاول۔

وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا :یعنی سابقین کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور کسی مسلمان بھائی کی طرف سے دل میں بیر اور بغض نہیں رکھتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ”آیت سب مسلمانوں کے واسطے ہے جو اگلوں کا حق مانیں اور انہی کے پیچھے چلیں اور ان سے بیر نہ رکھیں۔ ” امام مالک نے یہیں سے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بد گوئی کرے اس کے لیے مال فئے میں کچھ حصہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منافقوں کو نہیں دیکھا؟ وہ اپنے بھائیوں کو کہتے ہیں جو کافر ہوئے ، اہل کتاب میں سے ، البتہ اگر تم نکالے (جلاوطن کئے ) گئے تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکل جائیں‌ گے اور تمہارے بارے میں کبھی ہم کسی کا حکم نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی ہوئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے ، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بیشک وہ جھوٹے ہیں۔ (۱۱)

تشریح: عبداللہ بن اُبی وغیرہ منافقین نے یہود ”بنی النضیر” کو خفیہ پیغام بھیجا تھا کہ گھبرانا نہیں اور اپنے کو اکیلا مت سمجھنا۔ اگر مسلمانوں نے تم کو نکالا۔ ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور لڑائی کی نوبت آئی تو تمہاری مدد کریں گے۔ یہ ہمارا بالکل اٹل اور قطعی فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ماننے والے اور پروا کرنے والے نہیں۔

وَاللّٰہُ يَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ :یعنی دل سے نہیں کہہ رہے ہیں۔ محض مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے باتیں بنا رہے ہیں۔ اور جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں ہرگز اس پر عمل نہیں کریں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر وہ جلاوطن کئے گئے تو یہ نہ نکلیں گے ان کے ساتھ، اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو یہ ان کی مدد نہ کریں‌ گے ، اور اگر مدد کریں گے (بھی) تو یقیناً پیٹھ پھیریں گے (بھاگ جائیں گے ) پھر ( کہیں بھی) وہ مدد نہ کئے جائیں گے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی جب یہ منافقین یہودیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اس وقت بھی ان کے دل میں ارادہ نہیں تھا، اور آئندہ بھی اگر کوئی ایسا موقع آئے تو یہ لوگ اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ جنگ میں کسی کی مدد کریں۔

(توضیح القرآن)

 

چنانچہ لڑائی کا سامان ہوا اور ”بنی نضیر” محصور ہو گئے۔ ایسی نازک صورت حال میں کوئی منافق ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ اور آخرکار جب وہ نکالے گئے یہ اس وقت آرام سے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وَلَئِنْ نَّصَرُوْہُمْ لَيُوْلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ :یعنی اگر بفرض محال منافق ان کی مدد کو نکلے بھی تو نتیجہ کیا ہو گا۔ بجز اس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ پھر ان کی مدد تو کیا کر سکتے ، خود ان کی مدد کو بھی کوئی نہ پہنچے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یقیناً ان کے دلوں میں تمہارا ڈر اللہ سے بہت زیادہ ہے ، ایسا اس لئے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔ (۱۳)

تشریح: یعنی اللہ کی عظمت کو سمجھتے اور دل میں اس کا ڈر ہوتا، تو کفر و نفاق کیوں اختیار کرتے۔ ہاں مسلمانوں کی شجاعت و بسالت سے ڈرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے مقابلہ کی تاب نہیں لا سکتے نہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ سب مل کر بھی تم سے نہ لڑیں گے ، مگر بستیوں میں قلعہ بند ہو کر یا دیواروں ( فصیل) کے پیچھے سے ، آپس میں ان کی لڑائی بہت سخت ہے ، تم انہیں اکٹھے گمان کرتے ہو، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لئے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی چونکہ ان لوگوں کے دل مسلمانوں سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں، اس لیے کھلے میدان میں جنگ نہیں کر سکتے۔ ہاں گنجان بستیوں میں قلعہ نشین ہو کر یا دیواروں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر لڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے ، کہ یورپ نے مسلمانوں کی تلوار سے عاجز ہو کر قسم قسم کے آتشبار اسلحہ اور طریق جنگ ایجاد کیے ہیں۔ تاہم اب بھی اگر کسی وقت دست بدست جنگ کی نوبت آ جاتی ہے تو چند ہی منٹ میں دنیا ”لَا یُقَاتِلُونَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِی قُریً مُحَصَّنَۃٍ اَوْمِنْ وَرَآءِ جُدُرٍ” کا مشاہدہ کر لیتی ہے۔ باقی اس قوم کا تو کہنا ہی کیا جس کے نزدیک چھتوں پر چڑھ کر اینٹ پتھر پھینکنا اور تیزاب کی پچکاریاں چلانا ہی سب سے بڑی علامت بہادری کی ہے۔

بَأْسُہُمْ بَيْنَہُمْ شَدِيْدٌ :یعنی آپس میں لڑائی میں بڑے تیز اور سخت ہیں جیسا کہ اسلام سے پہلے ”اوس” و ”خزرج” کی جنگ میں تجربہ ہو چکا، مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی ساری بہادری اور شیخی کِرکری ہو جاتی ہے۔

تَحْسَبُہُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰى ۚ ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ :یعنی مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے ظاہری اتفاق و اتحاد سے دھوکہ مت کھاؤ۔ ان کے دل اندر سے پھٹے ہوئے ہیں، ہر ایک اپنی غرض و خواہش کا بندہ، اور خیالات میں ایک دوسرے سے جدا ہے پھر حقیقی یک جہتی کہاں میسر آسکتی ہے۔ اگر عقل ہو تو سمجھیں کہ یہ نمائشی اتحاد کس کام کا۔ اتحاد اسے کہتے ہیں جو مومنین قانتین میں پایا جاتا ہے کہ تمام اغراض و خواہشات سے یکسو ہو کر سب نے ایک اللہ کی رسی کو تھام رکھا ہے ، اور ان سب کا مرنا جینا اسی خدائے واحد کے لیے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کا حال ان لوگوں جیسا ہے جو قریبی زمانے میں ان سے قبل ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھ لیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی ابھی قریب زمانہ میں یہود ”بنی قینقاع” اپنی غداری کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ جب انہوں نے بدعہدی کی تو مسلمانوں نے ایک مختصر لڑائی کے بعد نکال باہر کیا۔ اور اس سے پیشتر ماضی قریب میں مکہ والے ”بدر” کے دن سزا پا چکے ہیں، وہی انجام ”بنی نضیر” کا دیکھ لو کہ دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں سزا مل چکی اور آخرت کا دردناک عذاب جوں کا توں رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

شیطان کے حال جیسا، جب اس نے انسان سے کہا تو کفر اختیار کر، پھر جب اس نے کفر کیا تو اس نے کہا بیشک میں تجھ سے لا تعلق ہوں، تحقیق میں تمام جہانوں کے رب اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (۱۶)

پس دونوں کا انجام (یہ ہے ) کہ وہ دونوں آگ میں ہوں گے ، وہ ہمیشہ اس میں ‌رہیں گے ، اور یہ سزا ہے ظالموں کی۔ (۱۷)

تشریح: یعنی شیطان اول انسان کو کفرو معصیت پر ابھارتا ہے۔ جب انسان دام اغواء میں پھنس جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے الگ اور تیرے کام سے بیزار ہوں مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے (یہ کہنا بھی ریاء اور مکاری سے ہو گا) نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود بھی دوزخ کا کندہ بنا اور اسے بھی بنایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”شیطان آخرت میں یہ بات کہے گا اور ”بدر” کے دن بھی ایک کافر کی صورت میں لوگوں کو لڑواتا تھا۔ جب فرشتے نظر آئے تو بھاگا۔ جس کا ذکر سورہ ”انفال” میں گزر چکا ہے۔ یہی مثال منافقوں کی ہے۔ وہ ”بنی نضیر” کو اپنی حمایت و رفاقت کا یقین دلا دلا کر بھرے پر چڑھاتے رہے۔ آخر جب وہ مصیبت میں پھنس گئے ، آپ الگ ہو بیٹھے۔ لیکن کیا وہ اس طرح اللہ کے عذاب سے بچ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ دونوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرو اور چاہیئے کہ دیکھے (سوچے ) ہر شخص کہ اس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے ! اور تم اللہ سے ڈرو، بیشک جو تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (۱۸)

تشریح: یعنی اللہ سے ڈر کر طاعات اور نیکیوں کا ذخیرہ فراہم کرو، اور سوچو کل کے لیے کیا سامان تم نے آگے بھیجا ہے ، جو مرنے کے بعد وہاں پہنچ کر تمہارے کام آئے۔

تمہارا کوئی کام اللہ سے پوشیدہ نہیں، لہٰذا اس سے ڈر کر تقویٰ کا راستہ اختیار کرو اور معاصی سے پرہیز رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم نہ ہو جاؤ ان لوگوں کی طرح جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے ( ایسا کر دیا) کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو بھلا دیا یہی نافرمان لوگ ہیں۔ (۱۹)

تشریح: یعنی جنہوں نے اللہ کے حقوق بھلا دیے ، اس کی یاد سے غفلت اور بے پروائی برتی۔ اللہ نے خود کی جانوں سے ان کو غافل اور بے خبر کر دیا کہ آنے والی آفات سے اپنے بچاؤ کی کچھ فکر نہ کی۔ اور نافرمانیوں میں غرق ہو کر دائمی خسارے اور ابدی ہلاکت میں پڑ گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

برابر نہیں دوزخ والے اور جنت والے ، جنت والے ہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ (۲۰)

تشریح: یعنی چاہیے کہ آدمی اپنے کو بہشت کا مستحق ثابت کرے جس کا راستہ قرآن کریم کی ہدایات کے سامنے جھکنے کے سوا کچھ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر ہم نازل کرتے یہ قرآن کسی پہاڑ پر تو تم اس کو اللہ کے خوف سے دبا (جھکا) ہوا ٹکڑے ٹکڑے دیکھتے ، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں ،تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (۲۱)

تشریح: یعنی مقام حسرت و افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر کچھ نہ ہو، حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست اور قوی ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتارا جاتا اور اس میں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلم کی عظمت کے سامنے دب جاتا، اور مارے خوف کے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جاتا۔

حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی کافروں کے دل بڑے سخت ہیں کہ یہ کلام سن کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ اگر پہاڑ سمجھے تو وہ بھی دب جائے۔ ” (تنبیہ) یہ تو کلام کی عظمت کا ذکر تھا۔ آگے متکلم کی عظمت و رفعت کا بیان ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جاننے والا پوشیدہ کا اور آشکارا کا، وہ بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ (۲۲)

وہ اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ حقیقی) بادشاہ ہے ، (ہر عیب سے ) نہایت پاک ہے۔ سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زبردست، بڑائی والا، اللہ پاک ہے ، اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں۔ (۲۳)

وہ اللہ ہے خالق، ایجاد کرنے والا، صورتیں بنانے والا، اسی کے ہیں (سب) اچھے نام، اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب حکمت و ہے۔ (۲۴)

تشریح: ان آیات میں اللہ تبارک و تعالی کے کئی اسمائے حسنی ذکر فرمائے گئے ہیں، یہاں ان کا ترجمہ دیا گیا ہے ، لیکن اصل نام یہ ہیں: الرَّحْمٰنُ، الرَّحِيْمُ، الْمَلِکُ، الْقُدُّوْسُ، السَّلَامُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُہَيْمِنُ، الْعَزِيْزُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَکَبِّرُ، الْخَالِقُ، الْبَارِئُ، الْمُصَوِّرُ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کل نناوے نام بیان فرمائے ہیں، جنہیں اسمائے حسنی کہا جاتا ہے ، وللہ الحمد اولاً وآخراً۔

(توضیح القرآن)

٭٭

 

 

 

 

۶۰۔ سُوْرَۃُ الْمُمْتَحِنَۃ

 

                تعارف

 

یہ سورت صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے ، ان دونوں واقعات کی تفصیل پیچھے سورۂ فتح کے تعارف میں گزر چکی ہے ، اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک صلح حدیبیہ کی شرائط میں جو بات طے ہوئی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے گا تو مسلمان اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے ، اس کا اطلاق مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں پر نہیں ہو گا، اور اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر آئے گی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ کیا واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے تو پھر اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا، اس صورت میں اگر وہ شادی شدہ ہو، اور اس کا شوہر مکہ مکرمہ میں رہ گیا ہو، اس کے نکاح اور مہر وغیرہ سے متعلق کیا احکام ہوں گے ؟وہ بھی اس سورت میں بیان فرمائے گئے ہیں، اور جن مسلمانوں کے نکاح میں ابھی تک بت پرست عورتیں تھیں، ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اب وہ ان کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں، چونکہ اس سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان عورتوں کا امتحان یا جائزہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام ممتحنہ ہے ، یعنی امتحان لینے والی۔

سورت کا دوسرا موضوع جو بالکل شروع میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غیر مسلموں سے کس قسم کے تعلقات رکھنا جائز ہے اور کس قسم کے نا جائز، چنانچہ سورت کو اس حکم سے شروع فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو دشمنوں سے خصوصی دوستی نہیں رکھنی چاہئے ، ان آیتوں کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ سورۂ فتح کے تعارف میں ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مکہ مکرمہ کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر ہی توڑ دیا تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں پر واضح فرما دیا تھا کہ اب وہ معاہدہ باقی نہیں رہا، اس کے بعد آپ نے مکہ مکرمہ کے کفار پر ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کی تیاری شروع فرما دی تھی ،لیکن ساتھ ہی کوشش یہ تھی کہ قریش کے لوگوں کو آپ کی تیاری کا علم نہ ہو، اسی دوران سارہ نام کی ایک عورت جو گانا بجا کر پیسے کماتی تھی، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئی اور اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہو کر نہیں آئی ،بلکہ وہ شدید مفلسی میں مبتلا ہے ، کیونکہ جنگ بدر کے بعد قریشِ مکہ کی عیش و عشرت کی محفلیں ویران ہو چکی ہیں، اب کوئی اسے گانے بجانے کے لئے نہیں بلاتا، اس لئے مالی امداد حاصل کرنے کے لئے آئی ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد المطلب کو اس کی مدد کرنے کی ترغیب دی، اور اس کو کچھ نقدی اور کچھ کپڑے دے کر رخصت کیا گیا۔

دوسری طرف مہاجرین صحابہ کرام میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے بزرگ تھے جو اصل میں یمن کے باشندے تھے اور مکہ مکرمہ آ کر بس گئے تھے ، مکہ مکرمہ میں ان کا قبیلہ نہیں تھا، وہ خود تو ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تھے ، لیکن ان کے اہل و عیال مکہ مکرمہ ہی میں رہ گئے تھے ، جن کے بارے میں انہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں قریش کے لوگ ان پر ظلم نہ کریں، دوسرے مہاجر صحابہ جن کے اہل و عیال مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے ، انہیں تو کسی قدر اطمینان تھا کہ ان کا پورا قبیلہ وہاں موجود ہے جو کافروں کے ظلم سے انہیں تحفظ دے سکتا ہے ، لیکن حضرت حاطب کے اہل و عیال کو یہ تحفظ حاصل نہیں تھا، جب سارہ نامی عورت مکہ مکرمہ واپس جانے لگی تو ان کے دل میں یہ خیال آیا کے اگر میں قریش کے لوگوں کو خفیہ طور پر ایک خط میں یہ اطلاع دے دوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ اللہ تعالی نے آپ سے مکہ مکرمہ کی فتح کا وعدہ فرما رکھا ہے ، لیکن میری طرف سے قریش پر ایک احسان ہو جائے گا، اور اس احسان کی وجہ سے وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے ، چنانچہ انہوں نے ایک خط لکھ کر سارہ کے حوالے کر دیا کہ وہ قریش کے سرداروں کو پہنچا دے ، ادھر اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ سارہ ایک خفیہ خط لے کر گئی ہے اور روضہ خاخ کے مقام تک پہنچ چکی ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت مرثد اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کو اس مہم پر روانہ فرمایا کہ وہ اس عورت کا پیچھا کر کے اس سے وہ خط بر آمد کریں، اور یہاں واپس لے آئیں، یہ حضرات گئے اور  انہوں نے وہ خط برآمد کر لیا، حضرت حاطب سے پوچھا گیا تو انہوں نے معذرت کی، اور اپنی اس غلطی کی وجہ بیان کی جو اوپر ذکر کی گئی ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیک نیتی کی وجہ سے ان کی اس غلطی کو معاف فرما دیا، اسی واقعے پر اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۳         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اے ایمان والو ! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، اور تمہارے پاس جو حق آیا ہے وہ اس کے منکر ہو چکے ، وہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور تمہیں بھی جلاوطن کرتے ہیں (مخض اس لئے ) کہ تم اللہ پر ایمان لاتے ہو، (جو) تمہارا رب ہے ، اگر تم نکلتے ہو میرے راستے میں جہاد کے لئے ، اور میری رضا چاہنے کے لئے ، تم ان کی طرف چھپا کر بھیجتے ہو، دوستی (کا پیغام) اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاتے ہو، اور جو تم ظاہر کرتے ہو، اور تم میں سے جو کوئی یہ کرے گا تو (جان لو) کہ تحقیق وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ (۱)

تشریح: حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے جس واقعے کے پس منظر میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ہیں وہ اوپر سورت کے تعارف میں تفصیل سے عرض کر دیا گیا ہے ، غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کی کیا حد ہونی چاہئیں؟اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورۂ آل عمران (آیت:۲۸) کا حاشیہ۔

(توضیح القرآن)

 

اگر وہ تمہیں پائیں (تم پر دسترس پا لیں) تو یہ تمہارے دشمن ہو جائیں اور تم پر کھولیں برائی کے ساتھ اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں (دست درازی اور زبان درازی کریں) اور وہ چاہتے ہیں کہ کاش تم کافر ہو جاؤ۔ (۲)

تشریح: یعنی ان کافروں سے بحالت موجودہ کسی بھلائی کی امید مت رکھو۔ خواہ تم کتنی ہی رواداری اور دوستی کا اظہار کرو گے۔ وہ کبھی مسلمان کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ باوجود انتہائی رواداری کے اگر تم پر ان کا قابو چڑھ جائے تو کسی قسم کی برائی اور دشمنی سے درگزر نہ کریں۔ زبان سے ، ہاتھ سے ہر طرح ایذا پہنچائیں اور یہ چاہیں کہ جیسے خود صداقت سے منکر ہیں، کسی طرح تم کو بھی منکر بنا ڈالیں۔ کیا ایسے شریر و بد باطن اس لائق ہیں کہ ان کو دوستانہ پیغام بھیجا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تمہیں ہر گز نفع نہ دیں گے تمہارے رشتے اور نہ تمہاری اولاد قیامت کے دن، اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے۔ (۳)

تشریح:  حاطب نے وہ خط اپنے اہل و عیال کی خاطر لکھا تھا۔ اس پر تنبیہ فرمائی کہ اولاد اور رشتہ دار قیامت کے دن کچھ کام نہ آئیں گے ، اللہ تعالیٰ سب کا رتی رتی عمل دیکھتا ہے۔ اسی کے موافق فیصلہ فرمائے گا، اس کے فیصلہ کو کوئی بیٹا، پوتا، اور عزیز و اقارب ہٹا نہیں سکے گا۔ پھر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ایک مسلمان اہل و عیال کی خاطر اللہ کو ناراض کر لے۔ یاد رکھو! ہر چیز سے مقدم اللہ کی رضا مندی ہے۔ وہ راضی ہو تو اس کے فضل سے سب کام ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن وہ ناخوش ہو تو کوئی کچھ کام نہ آئے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک تمہارے لئے ہے بہترین نمونہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان لوگوں میں ہے جو ان کے ساتھ تھے ، جب انہوں نے اپنی قوم کو کہا بیشک ہم تم سے بیزار ہیں، اور ان سے جن کی تم اللہ کے سوا بندگی کرتے ہو، ہم تمہارے منکر ہیں، اور ظاہر ہو گئی ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور دشمنی ہمیشہ کے لئے ، یہاں تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان لے آؤ، مگر ابراہیم ( علیہ السلام) کا اپنے باپ سے یہ کہنا کہ میں ضرور مغفرت مانگوں گا تمہارے لئے ، اور اللہ کے آگے میں تمہارے لئے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا، اے ہمارے رب ! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا، اور تیری طرف ہم نے رجوع کیا، اور تیری طرف بازگشت ہے۔ (۴)

تشریح: مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم اور کنبے سے برأت کا اظہار کر دیا تھا، لیکن شروع میں اپنے والد سے مغفرت کی دعا کا وعدہ ضرور کیا تھا، لیکن جیسا کہ سورۂ توبہ (۹۔ ۱۱۴) میں گزرا ہے ، جب انہیں یہ پتہ چل گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اللہ کا دشمن ہے اور اس کی قسمت میں ایمان نہیں ہے تو انہوں نے اس دعا سے بھی علیحدگی اختیار فرما لی۔

(توضیح القرآن)

 

اے ہمارے رب ! ہمیں کافروں کا تختۂ مشق نہ بنا، اور اے ہمارے رب ! تو ہمیں بخش دے ، بیشک تو ہی غالب، حکمت والا ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی ہم کو کافروں کے واسطے محل آزمائش اور تختہ مشق نہ بنا۔ اور ایسے حال میں مت رکھ جس کو دیکھ کر کافر خوش ہوں، اسلام اور مسلمانوں پر آوازیں کسیں اور ہمارے مقابلہ میں اپنی حقانیت پر استدلال کرنے لگیں۔ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما۔ اور تقصیرات سے درگزر کر۔ تیری زبردست قوت اور حکمت سے یہی توقع ہے کہ اپنے وفاداروں کو دشمنوں کے مقابلہ میں مغلوب و مقہور نہ ہونے دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یقیناً تمہارے لئے ان میں بہترین نمونہ ہے (یعنی) اس کے لئے جو امید رکھتا ہے اللہ (سے ملاقات) کی اور آخرت کے دن کی، اور جس نے روگردانی کی، تو بے شک اللہ بے نیاز ستودہ صفات ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی تم مسلمانوں کو یا بالفاظ دیگر ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور آخرت کے قائم ہونے کے امیدوار ہیں، ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی چال اختیار کرنی چاہیے۔ دنیا خواہ تم کو کتنا ہی متعصب اور سنگدل کہے ، تم اس راستہ سے منہ نہ موڑو، جو دنیا کے موحد اعظم نے اپنے طرز عمل سے قائم کر دیا۔ مستقبل کی ابدی کامیابی اسی راستہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر اس کے خلاف چلو گے اور خدا کے دشمنوں سے دوستانہ گانٹھو گے تو خود نقصان اٹھاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی دوستی یا دشمنی کی کیا پروا ہے وہ تو بذات خود تمام کمالات اور ہر قسم کی خوبیوں کا مالک ہے۔ اس کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچ سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

قریب ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان دوستی کر دے جن سے تم عداوت رکھتے ہو، اور اللہ قدرت رکھنے والا ہے ، اور اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (۷)

تشریح: یعنی اللہ کی قدرت و رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ جو آج بدترین دشمن ہیں کل انہیں مسلمان کر دے اور اس طرح تمہارے اور ان کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم ہو جائیں۔ چنانچہ فتح مکہ میں ایسا ہی ہوا، تقریباً سب مکہ والے مسلمان ہو گئے اور جو لوگ ایک دوسرے پر تلوار اٹھا رہے تھے اب ایک دوسرے پر جان قربان کرنے لگے۔ اس آیت میں مسلمانوں کی تسلی کر دی کہ مکہ والوں کے مقابلہ میں یہ ترک موالات کا جہاد صرف چند روز کے لیے ہے۔ پھر اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ چاہیے کہ بحالت موجودہ تم مضبوطی سے ترک موالات پر قائم رہو۔ اور جس سے کوئی بے اعتدالی ہو گئی ہو اللہ سے اپنی خطا معاف کرائے۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ تمہیں منع نہیں کرتا کہ ان لوگوں سے جو تم سے دین (کے بارے میں) نہیں لڑے اور انہوں نے تمہیں نہیں نکالا تمہارے گھروں سے ، کہ تم ان سے دوستی کرو، اور ان سے انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ (۸)

تشریح: مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی، نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے نہ ان کو ستانے اور نکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے۔ اس قسم کے کافروں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا۔ جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلا دو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر کافروں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسر پیکار ہے تو تمام کافروں کو بلا تمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنا حکمت و انصاف کے خلاف ہو گا۔ ضروری ہے کہ عورت، مرد، بچے ، بوڑھے ، جوان اور معاند و مسالم میں ان کے حالات کے اعتبار سے فرق کیا جائے۔ جس کی قدرے تفصیل سورہ ”مائدہ” اور ”آل عمران” کے فوائد میں گزر چکی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سواہ نہیں کہ اللہ تمہیں منع کرتا ہے کہ جو لوگ تم سے دین (کے بارے ) میں لڑے ، اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، اور تمہارے نکالنے میں (نکالنے والوں کی) مدد کی، تم ان سے دوستی کرو، اور جو ان سے دوستی رکھے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (۹)

تشریح: یعنی ایسے ظالموں سے دوستانہ برتاؤ کرنا بیشک سخت ظلم اور گناہ کا کام ہے۔ (ربط) یہاں تک کفار کے دو فریق (معاند اور مسالم) کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکر تھا۔ آگے بتلاتے ہیں کہ ان عورتوں کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے جو ”دار الحرب” سے ”دارالاسلام” میں آئیں یا ”دار الحرب” میں مقیم رہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ”صلح حدیبیہ” میں مکہ والوں نے یہ قرار دیا کہ ہمارا جو آدمی تمہارے پاس جائے اس کو واپس بھیجنا ہو گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرما لیا تھا۔ چنانچہ کئی مرد آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کر دیا۔ پھر کئی مسلمان عورتیں آئیں۔ ان کو واپس کرتے تو کافر مرد کے گھر مسلمان عورتیں حرام میں پڑتیں۔ اس پر یہ اگلی آیتیں اتریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد عورتوں کی واپسی پر کفار نے اصرار نہیں کیا ورنہ صلح قائم نہ رہتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں تو ان کا امتحان کر لیا کرو، اللہ خوب جانتا ہے ان کے ایمان کو، پس اگر تم انہیں جان لو کہ مومن ہیں تو تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، وہ (مومن مہاجرات) حلال نہیں ہیں ان ( کافروں) کے لئے ، اور وہ (کافر) ان عورتوں کیلئے حلال نہیں، اور تم ان (کافر شوہروں) کو دے دو جو انہوں نے خرچ کیا ہو اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان (مہاجر) عورتوں سے نکاح کر لو، جب تم انہیں ان کے مہر دے دو، اور تم کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو اور تم (کفار سے ) مانگ لو جو تم نے خرچ کیا ہو، اور چاہیئے کہ وہ (کافر) تم سے مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا ہو، یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے ، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی دل کا حال تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ظاہری طور سے ان عورتوں کی جانچ کر لیا کرو۔ آیا واقعی وہ مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں۔ کوئی دنیاوی یا نفسانی غرض تو ہجرت کا سبب نہیں ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کا امتحان کرتے تھے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان سے بیعت لیتے تھے۔ اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس بیعت لیا کرتے تھے جو آگے یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَاءَکَ الْمُوْمِنٰتُ یبَایِعنَکَ الخ میں مذکور ہے۔

یہ حکم ہوا کہ زوجین میں اگر ایک مسلمان اور دوسرا مشرک ہو تو اختلاف دارین کے بعد تعلق نکاح قائم نہیں رہتا۔ پس اگر کسی کافر کی عورت مسلمان ہو کر ”دارالاسلام” میں آ جائے تو جو مسلمان اس سے نکاح کرے اس کے ذمہ ہے کہ اس کافر نے جتنا مہر عورت پر خرچ کیا تھا وہ اسے واپس کر دے۔ اور اب عورت کا جو مہر قرار پائے وہ جدا اپنے ذمہ رکھے تب نکاح میں لا سکتا ہے۔

پہلے حکم کے مقابل دوسری طرف یہ حکم ہوا کہ جس مسلمان کی عورت کافر رہ گئی ہے وہ اس کو چھوڑ دے۔ پھر جو کافر اس سے نکاح کرے اس مسلمان کا خرچ کیا ہوا مہر واپس کرے۔ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے سے اپنا حق طلب کر لیں۔ جب یہ حکم اترا تو مسلمان تیار ہوئے دینے کو بھی اور لینے کو بھی۔ لیکن کافروں نے دینا قبول نہ کیا۔ تب اگلی آیت نازل ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر کفار کی طرف (رہ جانے سے ) تمہاری بیویوں میں سے کوئی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے تو کفار کو سزا دو، پس جن کی عورتیں جاتی رہیں ان کو دو جس قدر انہوں نے خرچ کیا ہو، اور اللہ سے ڈرو، جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ (۱۱)

تشریح: یعنی جس مسلمان کی عورت گئی اور کافر اس کا خرچ کیا ہوا نہیں پھیرتے تو جس کافر کی عورت مسلمان کے ہاں آئے اس کا جو خرچ دینا تھا اس کافر کو نہ دیں۔ بلکہ اسی مسلمان کو دیں جس کا حق مارا گیا ہے ، ہاں اس مسلمان کا حق دے کر جو بچ رہے وہ واپس کر دیں۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافر کا خرچ کیا ہوا واپس نہیں کر سکتا تو بیت المال سے دیا جائے۔ اللہ اکبر! کس قدر عدل و انصاف کی تعلیم ہے۔ لیکن اس پر کار بند وہی ہو گا جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو اور اس پر ٹھیک ٹھیک ایمان رکھتا ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئیں مومن عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اس پر بیعت کرنے لے لئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی، اور نہ چوری کریں گی، اور نہ زنا کریں گی، اور نہ وہ قتل کریں گی اپنی اولاد کو، اور نہ بہتان (کی اولاد) لائیں گی جو انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان باندھا ہو (شوہر کے نطفہ سے ہونے کا دعویٰ کیا ہو) اور نہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کریں گی نیک کاموں (شریعت) میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے بیعت لے لیں، اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت مانگیں، بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (۱۲)

تشریح: جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا کہ رسمی ننگ و عار کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے اور بعض اوقات فقر و فاقہ کے خوف سے لڑکوں کو بھی قتل کر ڈالتے تھے۔

وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُہْتَانٍ: بہتان باندھنا ہاتھ پاؤں میں، یہ کہ کسی پر جھوٹا دعویٰ کریں یا جھوٹی گواہی دیں یا کسی معاملہ میں اپنی طرف سے بنا کر جھوٹی قسم کھائیں، اور ایک معنی یہ کہ بیٹا جنا ہو کسی اور سے اور منسوب کر دیں خاوند کی طرف، یا کسی دوسری عورت کی اولاد لے کر مکر و فریب سے اپنی طرف نسبت کر لیں۔ حدیث میں ہے کہ جو کوئی ایک کا بیٹا دوسرے کی طرف لگائے جنت اس پر حرام ہے۔

پہلے فرمایا تھا کہ مسلمان عورتوں کی (جو ہجرت کر کے آئیں) جانچ کی جائے۔ یہاں بتلا دیا کہ ان کا جانچنا یہی ہے کہ جو احکام اس آیت میں ہیں وہ قبول کر لیں تو ان کا ایمان ثابت رکھو۔ یہ ”آیت بیعت” کہلاتی ہے۔ حضرت کے پاس عورتیں بیعت کرتی تھیں تو یہی اقرار لیتے تھے لیکن بیعت کے وقت کبھی کسی عورت کے ہاتھ نے آپ کے ہاتھ کو مس نہیں کیا۔

وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ :ان امور میں جو کوتاہیاں پہلے ہو چکیں یا امتثالِ احکام میں آئندہ کچھ تقصیر رہ جائے اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں دعائے مغفرت فرمائیں۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ان کی تقصیر معاف فرمائے گا۔

 

اے ایمان والو ! تم ان لوگوں سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ نے غضب کیا، وہ آخرت سے نا امید ہو چکے ہیں، جیسے کافر مردوں (کے جی اٹھنے ) سے مایوس ہیں۔ (۱۳)

تشریح: شروع سورت میں جو مضمون تھا، خاتمہ پر پھر یاد دلا دیا۔ یعنی مومن کی شان نہیں کہ جس پر خدا ناراض ہو اس سے دوستی اور رفاقت کا معاملہ کرے۔ جس پر خدا کا غصہ ہو، خدا کے دوستوں کا بھی غصہ ہونا چاہیے۔

منکروں کو توقع نہیں کہ قبر سے کوئی اٹھے گا اور پھر دوسری زندگی میں ایک دوسرے سے ملیں گے۔ یہ کافر بھی ویسے نا امید ہیں۔ (تنبیہ) بعض مفسرین کے نزدیک ”من اصحب القبور” کفار کا بیان ہے یعنی جس طرح کافر جو قبر میں پہنچ چکے وہاں کا حال دیکھ کر اللہ کی مہربانی اور خوشنودی سے بالکلیہ مایوس ہو چکے ہیں اسی طرح یہ کافر بھی آخرت کی طرف سے مایوس ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۶۱۔ سُوْرَۃُ الصَّفِّ

 

                تعارف

 

یہ سورت مدینہ منورہ میں اس وقت ناز ل ہوئی تھی جب منافقین آس پاس کے یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کر رہے تھے ، اس سورت میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کا یہ کردار خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے خود اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طرح طرح سے تکلیفیں پہنچائیں، جس کے نتیجے میں ان کے مزاج میں ٹیڑھ پیدا ہو گئی، اور جب حضرت عیسیٰٰ علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے ان کی نبوت کا بھی انکار کیا اور انہوں نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی جو بشارتیں دی تھیں ان پر بھی کان نہیں دھرا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی نبوت پر ایمان لانے سے انکار کر دیا، بلکہ آپ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، بنی اسرائیل کے اس کردار کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس سورت میں مخلص مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی اور وہ کام کئے جن کا اللہ تعالی نے اس سورت میں خاص طور پر حکم دیا ہے اور ان میں جہاد خصوصی اہمیت رکھتا ہے تو اللہ تعالی ان کو عنقریب فتح و نصرت عطا فرمانے والے ہیں، جس کے نتیجے میں منافقین اور یہودیوں کی ساری سازشیں خاک میں مل جائیں گی، اس سیاق میں اس سورت کی چوتھی آیت میں اللہ تعالی نے ان مسلمانوں کی تعریف فرمائی ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں صف بنا کر جہاد کرتے ہیں، اس مناسبت سے اس سورت کا نام سورۂ صف ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۴         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے ، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۱)

اے ایمان والو ! تم کیوں کہتے ہو ؟ وہ جو تم کرتے نہیں۔ (۲)

اللہ کے نزدیک بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ (۳)

بے شک اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کے راستے میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں، گویا کہ وہ ایک عمارت ہیں سیسہ پلائی ہوئی۔ (۴)

تشریح: بندہ کو لاف زنی اور دعوے کی بات سے ڈرنا چاہیے کہ پیچھے مشکل پڑتی ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے ، لیکن اس کا نباہنا آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض اور بیزار ہوتا ہے جو زبان سے کہے بہت کچھ اور کرے کچھ نہیں۔ روایات میں ہے کہ ایک جگہ مسلمان جمع تھے ، کہنے لگے ہم کو اگر معلوم ہو جائے کہ کون سا کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے تو وہ ہی اختیار کریں۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ یعنی دیکھو! سنبھل کر کہو، لو ہم بتلائے دیتے ہیں، کہ اللہ کو سب سے زیادہ ان لوگوں سے محبت ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں کے مقابلہ پر ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور میدان جنگ میں اس شان سے صف آرائی کرتے ہیں کہ گویا وہ سب مل کر ایک مضبوط دیوار ہیں جس میں سیسہ پلا دیا گیا ہے ، اور جس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں پڑ سکتا۔ اب اس معیار پر اپنے کو پرکھ لو۔ بیشک تم میں بہت ایسے ہیں جو اس معیار پر کامل و اکمل اتر چکے ہیں مگر بعض مواقع ایسے بھی نکلیں گے جہاں بعضوں کے زبانی دعووں کی ان کے عمل نے تکذیب کی ہے آخر جنگ احد میں وہ بنیان مرصوص کہاں قائم رہی۔ اور جس وقت حکم قتال اترا تو یقیناً بعض نے یہ بھی کہا۔ ”رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْ لَا اَخَّرْتَنَا۔ ” (نساء، رکوع١١’آیت ٧٧) بہرحال زبان سے زیادہ دعوے مت کرو بلکہ خدا کی راہ میں قربانی پیش کرو جس سے اعلیٰ کامیابی نصیب ہو۔ موسٰی کی قوم کو نہیں دیکھتے کہ زبان سے تعلّی و تفاخر کی باتیں بہت بڑھ چڑھ کر بناتے تھے لیکن عمل کے میدان میں صفر تھا۔ جہاں کوئی موقع کام کا آیا فوراً پھسل گئے اور نہایت تکلیف دہ باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ جو کچھ ہو اس کو آگے بیان فرماتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (یاد کرو) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم مجھے کیوں ایذا پہنچاتے ہو اور یقیناً تم جان چکے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، پس جب انہوں نے کج روی کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو کج کر دیا اور اللہ ہدایت نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔ (۵)

تشریح: یعنی روشن دلائل اور کھلے کھلے معجزات دیکھ کر تم دل میں یقین رکھتے ہو کہ میں اللہ کا سچا پیغمبر ہوں۔ پھر سخت نازیبا اور رنجیدہ حرکتیں کر کے مجھے کیوں ستاتے ہو۔ یہ معاملہ تو کسی معمولی ناصح اور خیر خواہ کے ساتھ بھی نہ ہونا چاہیے۔ چہ جائیکہ ایک اللہ کے رسول کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو۔ کیا میرے دل کو تمہاری ان گستاخانہ حرکات سے دکھ نہیں پہنچتا کہ کبھی بے جان بچھڑا بنا کر پوجنے لگے اور اس کو اپنا اور موسٰی کا خدا بتلانے لگے۔ کبھی ”عمالقہ” پر جہاد کرنے کا حکم ہوا تو کہنے لگے ہم تو کبھی نہیں جائیں گے۔ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑ لو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ وغیر ذلک من الخرافات۔ چنانچہ اسی سے تنگ ہو کر حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا۔ ”رَبِّ اِنِّی لَا اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِی وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ۔ ”

بدی کرتے کرتے قاعدہ ہے کہ دل سخت اور سیاہ ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ نیکی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ ہی حال ان کا ہوا۔ جب ہر بات میں رسول سے ضد ہی کرتے رہے اور برابر ٹیڑھی چال چلتے رہے تو آخر مردود ہوئے۔ اور اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا کہ سیدھی بات قبول کرنے کی صلاحیت نہ رہی۔ ایسے ضدی نافرمانوں کے ساتھ اللہ کی یہ ہی عادت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یاد کرو جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے عیسٰی (علیہ السلام) نے کہا اے بنی اسرائیل ! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے توریت (آئی) اور ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کو نام احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہو گا پھر جب وہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے پاس واضع دلائل کے ساتھ آئے تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی اصل تورات کے من اللہ ہونے کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کے احکام و اخبار پر یقین رکھتا ہوں اور جو کچھ میری تعلیم ہے فی الحقیقت ان ہی اصول کے ماتحت ہے جو تورات میں بتلائے گئے تھے۔ (تنبیہ) ابن کثیر وغیرہ نے ”مُصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدیہ” کا مطلب یہ لیا ہے کہ میرا وجود تورات کی باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ میں ان چیزوں کا مصداق بن کر آیا ہوں جن کی خبر تورات شریف میں دی گئی تھی۔ واللہ اعلم۔

پچھلے کی تصدیق کرتا ہوں اور اگلے کی بشارت سناتا ہوں۔ یوں تو دوسرے انبیاء سابقین بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا مژدہ برابر سناتے آئے ہیں۔ لیکن جس صراحت و وضاحت اور اہتمام کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری دی وہ کسی اور سے منقول نہیں۔ شاید قریب عہد کی بناء پر یہ خصوصیت ان کے حصہ میں آئی ہو گی۔ کیونکہ ان کے بعد نبی آخر الزمان کے سوا کوئی دوسرا نبی آنے والا نہ تھا۔ یہ سچ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مجرمانہ غفلت اور معتمدانہ دستبرد نے آج دنیا کے ہاتھوں میں اصل تورات و انجیل وغیرہ کا کوئی صحیح نسخہ باقی نہیں چھوڑا جس سے ہم کو ٹھیک پتہ لگ سکتا کہ انبیائے سابقین خصوصاً مسیح علیٰ نبینا   وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کن الفاظ میں اور کس عنوان سے بشارت دی تھی۔ اور اسی لیے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ قرآن کریم کے صاف و صریح بیان کو اس تحریف شدہ بائبل میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے جھٹلانے لگے۔ تاہم یہ بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ سمجھنا چاہیے کہ حق تعالیٰ نے محرفین کو اس قدر قدرت نہیں دی کہ وہ اس کے آخری پیغمبر کے مطلق تمام پیشین گوئیوں کو بالکلیہ محو کر دیں کہ ان کا کچھ نشان باقی نہ رہے۔ موجودہ بائبل میں بھی بیسیوں مواضع ہیں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر قریب تصریح کے موجود ہے اور عقل و انصاف والوں کے لیے اس میں تاویل و انکار کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اور انجیل یوحنا میں تو فار قلیط (یا پیرکلوطوس) والی بشارت اتنی صاف ہے کہ اس کا بے تکلف مطلب بجز احمد (بمعنی محمود و ستودہ) کے کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ بعض علمائے اہل کتاب کو بھی ناگزیر اس کا اعتراف یا نیم اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس پیشین گوئی کا انطباق پوری طرح نہ روح القدس پر اور نہ بجز سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور پر ہو سکتا ہے۔ علمائے اسلام نے بحمد اللہ بشارات پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ اور تفسیر حقانی کے مولف فاضل نے ”فارقلیط” والی بشارت اور تحریف بائبل پر سورہ ”صف” کی تفسیر میں نہایت مشبع بحث کی ہے۔ اللہ جزائے خیر دے۔

حضرت مسیح کھلی نشانیاں لے کر آئے یا جن کی بشارت دی تھی حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کھلے نشان لے کر آئے تو لوگ اسے جادو بتلانے لگے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے ، جبکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے ، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۷)

تشریح: یعنی جب مسلمان ہونے کو کہا جاتا ہے تو حق کو چھپا کر اور جھوٹی باتیں بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ خدا کو بشر یا بشر کو خدا بنانے کا جھوٹ تو ایک طرف رہا، کتب سماویہ میں تحریف کر کے جو چیزیں واقعی موجود تھیں ان کا انکار کرتے اور جو نہیں تھیں ان کو درج کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو گا۔

ایسے بے انصافوں کو ہدایت کہاں نصیب ہوتی ہے اور ممکن ہے ”لایہدی” میں ادھر بھی اشارہ ہو کہ یہ ظالم کتنا ہی انکار اور تحریف و تاویل کریں، خدا ان کو کامیابی کی راہ نہ دے گا۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جن خبروں کو وہ چھپانا یا مٹانا چاہتے ہیں، چھپ یا مٹ نہ سکیں گی۔ چنانچہ باوجود ہزاروں طرح کی قطع و برید کے آج بھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بشارات کا ایک کثیر ذخیرہ موجود ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کا نور اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کافر ناخوش ہوں۔ (۸)

تشریح: یعنی منکر پڑے برا مانا کریں اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ مشیت الٰہی کے خلاف کوئی کوشش کرنا ایسا ہے جیسے کوئی احمق نورِ آفتاب کو منہ سے پھونک مار کر بجھانا چاہے۔ یہ ہی حال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کا اور ان کی کوششوں کا ہے۔ (تنبیہ) شاید ”’بِاَفْوَاہِہِمْ” کے لفظ سے یہاں اس طرف بھی اشارہ کرنا ہو کہ بشارات کے انکار و اخفاء کے لیے جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں وہ کامیاب ہونے والی نہیں۔ ہزار کوشش کریں کہ ”فارقلیط” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں، لیکن اللہ منوا کر چھوڑے گا کہ اس کا مصداق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اور خواہ مشرک ناخوش ہوں۔ (۹)

اس آیت پر سورہ ”برأۃ” کے فوائد میں کلام ہو چکا ہے ، وہاں دیکھ لیا جائے۔

 

اے ایمان والو ! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتلاؤں ؟ جو تمہیں‌دردناک عذاب سے نجات دے۔ (۱۰)

تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر، اور تم اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے ، اگر تم جانتے ہو۔ (۱۱)

وہ تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا، اور تمہیں باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ اور ہمیشہ کے باغات میں پاکیزہ مکانات میں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا تو اللہ کا کام ہے۔ لیکن تمہارا فرض یہ ہے کہ ایمان پر پوری طرح مستقیم رہ کر اس کے راستہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ یہ سوداگری ہے جس میں کبھی خسارہ نہیں، دنیا میں لوگ سینکڑوں طرح کے بیوپار اور تجارتیں کرتے ہیں اور اپنا کل سرمایہ اس میں لگا دیتے ہیں محض اس امید پر کہ اس سے منافع حاصل ہوں گے اور اس طرح راس المال گھٹنے اور تلف ہونے سے بچ جائے گا۔ پھر وہ بذاتِ خود اور اس کے اہل و عیال تنگدستی و افلاس کی تلخیوں سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن مومنین اپنے جان و مال کا سرمایہ اس اعلیٰ تجارت میں لگائیں گے تو صرف چند روز افلاس سے نہیں، بلکہ آخرت کے دردناک عذاب اور تباہ کن خسارہ سے مامون ہو جائیں گے۔ اگر مسلمان سمجھے تو یہ تجارت دنیا کی سب تجارتوں سے بہتر ہے۔ جس کا نفع کامل مغفرت اور دائمی جنت کی صورت میں ملے گا۔ جس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔

وہ ستھرے مکانات ان باغوں کے اندر ہوں گے جن میں مومنین کو آباد ہونا ہے۔ یہ تو آخرت کی کامیابی رہی۔ آگے دنیا کی اعلیٰ اور انتہائی کامیابی کا ذکر ہے۔

 

اور ایک اور (بات بھی) جسے تم بہت چاہتے ہو (یعنی) اللہ سے مدد اور قریبی فتح، اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مومنون کو خوشخبری دیجئے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی اصل اور بڑی کامیابی تو وہ ہی ہے جو آخرت میں ملے گی جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت کوئی چیز نہیں لیکن دنیا میں بھی ایک چیز جسے تم طبعاً محبوب رکھتے ہو، دی جائے گی وہ کیا ہے ”نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیبٌ” (اللہ کی طرف سے ایک مخصوص امداد اور جلد حاصل ہونے والی فتح و ظفر، جن میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ دامن کا تعلق رکھتی ہے ) دنیا نے دیکھ لیا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے ساتھ یہ وعدہ کیسی صفائی سے پورا ہوا اور آج بھی مسلم قوم اگر سچے معنی میں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ پر ثابت قدم ہو جائے تو یہی کامیابی ان کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! تم ہو جاؤ اللہ کے مدد گار، جیسے مریم کے بیٹے عیسیٰٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو کہا :کون ہے اللہ کی طرف میرا مدد گار ؟ تو کہا حواریوں نے ہم اللہ کے مدد گار ہیں، تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور کفر کیا ایک گروہ نے ، تو ہم نے ان کے دشمنوں پر ایمان والوں کی مدد کی، سو وہ غالب ہو گئے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی اس کے دین اور اس کے پیغمبر کے مددگار بن جاؤ۔ اس حکم کی تعمیل خدا کے فضل و توفیق سے مسلمانوں نے ایسی کی کہ ان میں سے ایک جماعت کا تو نام ہی ”انصار” پڑ گیا۔

”حواریین” (یارانِ مسیح) تھوڑے سے گنے چنے آدمی تھے جو اپنے نسب و حسب کے اعتبار سے کچھ معزز نہیں سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح کو قبول کیا اور ان کی دعوت کو بڑی قربانیاں کر کے دیار و امصار میں پھیلایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعد ان کے یاروں نے بڑی محنتیں کی ہیں ان کا دین نشر ہوا۔ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھی خلفاء نے اس سے زیادہ کیا۔ ” والحمد للہ علی ذلک۔

”بنی اسرائیل” میں دو فرقے ہو گئے۔ ایک ایمان پر قائم ہوا۔ دوسرے نے انکار کیا۔ پھر حضرت مسیح کے بعد آپس میں دست و گریبان رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس بحث و مناظرہ اور خانہ جنگیوں میں مومنین کو منکرین پر غالب کیا۔ حضرت مسیح کے نام لیوا (نصاریٰ) یہود پر غالب رہے اور نصاریٰ میں سے ان کی عام گمراہی کے بعد جو بچے کھچے افراد صحیح عقیدہ پر قائم رہ گئے تھے ان کو حق تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے ذریعہ سے دوسروں پر غلبہ عنایت فرمایا۔ حجت و برہان کے اعتبار سے بھی اور قوت و سلطنت کی حیثیت سے بھی۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۶۲۔ سُوْرَۃُ الجُمُعَۃَ

 

                تعارف

 

اس سورت کے پہلے رکوع میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی بعثت کے مقاصد بیان فرما کر پوری انسانیت کو آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے ، اور خاص طور پر یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے ، کہ وہ جس کتاب یعنی تورات پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتے ہیں، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت موجود ہے ، اس کے باوجود وہ آپ پر ایمان نہ لا کر خود اپنی کتاب کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، پھر دوسرے رکوع میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ان کی تجارتی سرگرمیاں اللہ تعالی کی عبادت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں، چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خرید و فروخت بالکل نا جائز ہے ، نیز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے ہوں   اس وقت کسی تجارتی کام کے لئے آپ کو چھوڑ کر چلے جانا جائز نہیں ہے ، اور اگر دنیوی مصروفیات کا شوق کسی دینی فریضے میں رکاوٹ بننے لگے تو اس بات کا دھیان کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالی نے مؤمنوں کے لئے آخرت میں جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ دنیا کی ان دلفریبیوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے ، اور دینی فرائض کو رزق کی خاطر چھوڑنا سراسر نادانی ہے ، کیونکہ رزق دینے والا اللہ تعالی ہی ہے ، لہذا رزق اس کی نافرمانی کر کے نہیں، بلکہ اس کی اطاعت کر کے طلب کرنا چاہئیے ، چونکہ دوسرے رکوع میں جمعہ کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، اس لئے اس سورت کا نام جمعہ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۱         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو بادشاہ حقیقی، کمال درجہ  پاک، غالب، حکمت والا ہے۔ (۱)

وہی ہے جس نے امی لوگوں میں ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ان ہی میں سے بھیجا، وہ انہیں اس کی آیتیں‌ پڑھ کر سناتا ہے ، اور انہیں (برائیوں سے ) پاک کرتا ہے ، اور انہیں سکھاتا ہے کتاب اور دانشمندی کی باتیں، اور بالتحقیق یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (۲)

تشریح: ”اُمِّیِیْنَ”’ (ان پڑھ) اہل عرب کو کہا۔ جن میں علم و ہنر کچھ نہ تھا نہ کوئی آسمانی کتاب تھی۔ معمولی لکھنا پڑھنا بھی بہت کم آدمی جانتے تھے۔ ان کی جہالت و وحشت ضرب المثل تھی خدا کو بالکل بھولے ہوئے تھے ، بت پرستی، اوہام پرستی، اور فسق و فجور کا نام ”ملت ابراہیمی” رکھ چھوڑا تھا اور تقریباً ساری قوم صریح گمراہی میں پڑی بھٹک رہی تھی۔ ناگہاں اللہ تعالیٰ نے اسی قوم میں سے ایک رسول کو اٹھایا جس کا امتیازی لقب ”نبی اُمی” ہے۔ لیکن باوجود امی ہونے کے اپنی قوم کو اللہ کی سب سے زیادہ عظیم الشان کتاب پڑھ کر سناتا اور عجیب و غریب علوم و معارف اور حکمت و دانائی کی باتیں سکھلا کر ایسا حکیم و شائستہ بناتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے حکیم و دانا اور عالم و عارف اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے ہیں (تنبیہ) اس طرح کی آیت سورہ ”بقرہ” اور ”آل عمران” میں گزر چکی ہے۔ وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے علاوہ (ان کو بھی) جو ابھی ان سے نہیں ملے ، وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی یہی رسول دوسرے آنے والے لوگوں کے واسطے بھی ہے جن کو مبدأ و معاد اور شرائع سماویہ کا پورا اور صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پڑھ ہی کہنا چاہیے۔ مثلاً فارس، روم، چین اور ہندوستان وغیرہ کی قومیں جو بعد کو امیین کے دین اور اسلامی برادری میں شامل ہو کر ان ہی میں سے ہو گئیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”حق تعالیٰ نے اول عرب پیدا کیے اس دین کے تھامنے والے ، پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے۔ ” حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ”وَاَخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ” کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یا دین ثریا پر جا پہنچے گا تو (اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا) شیخ جلال الدین سیوطی وغیرہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفتہ النعمان ہیں۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔

وَہُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ :جس کی زبردست قوت و حکمت نے اس جلیل القدر پیغمبر کے ذریعہ سے قیامت تک کے لیے عرب و عجم کی تعلیم و تزکیہ کا انتظار فرمایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جس کو چاہتا ہے اسے دیتا ہے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی رسول کو یہ بڑائی دی اور اس امت کو اتنے بڑے مرتبہ والا رسول دیا۔ فللہ الحمد والمنۃ علی ما انعم۔ چاہیے کہ مسلمان اس انعام و اکرام کی قدر پہچانیں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تعلیم و تزکیہ سے مستفید و منتفع ہونے میں کوتاہی نہ کریں۔ آگے عبرت کے لیے یہود کی مثال بیان فرماتے ہیں جنہوں نے اپنی کتاب اور پیغمبر سے استفادہ کرنے میں سخت غفلت اور کوتاہی برتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان لوگوں کی مثال جن پر توریت لادی (اتاری) گئی، پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (اس پر کاربند نہ ہوئے ) گدھے کی طرح ہے جو کتابیں لادے ہوئے ہے ، ان لوگوں کی حالت بری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۵)

تشریح: یعنی یہود پر ”تورات” کا بوجھ رکھا گیا تھا اور وہ اس کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے۔ لیکن انہوں نے اس کی تعلیمات و ہدایات کی کچھ پروانہ کی، نہ اس کو محفوظ رکھا، نہ دل میں جگہ دی، نہ اس پر عمل کر کے اللہ کے فضل و انعام سے بہرہ ور ہوئے۔ بلاشبہ تورات جس کے لوگ حامل بنائے گئے تھے حکمت و ہدایت کا ایک ربانی خزینہ تھا مگر جب اس سے منتفع نہ ہوئے تو وہ یہ مثال ہو گئی:نہ محقق شدی نہ دانشمند، چار پائے برو کتابے چند۔

ایک گدھے پر علم و حکمت کی پچاسوں کتابیں لاد دو، اس کو بوجھ میں دبنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ تو صرف ہری گھاس کی تلاش میں ہے۔ اس بات سے کچھ سروکار نہیں رکھتا کہ پیٹھ پر لعل و جواہر لدے ہوئے ہیں یا خزف وسنگریزے۔ اگر محض اسی پر فخر کرنے لگے کہ دیکھو! میری پیٹھ پر کیسی کیسی عمدہ اور قیمتی کتابیں لدی ہوئیں ہیں لہٰذا میں بڑا عالم اور معزز ہوں تو یہ اور زیادہ گدھا پن ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہیں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن وہ آپ پر ایمان نہیں لائے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیں اے یہودیو ! اگر تمہیں گھمنڈ ہے کہ تم دوسرے لوگوں کے علاوہ (بلا شرکت غیر سے ) اللہ کے دوست ہو، تو موت کی تمنا کرو، اگر تم سچے ہو۔ (۶)

اور اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے وہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ (۷)

تشریح: یعنی اس گدھے پن اور جہل و حماقت کے باوجود دعویٰ یہ ہے کہ بلا شرکت غیرے ہم ہی اللہ کے دوست اور ولی، اور تنہا جنت کے حق دار ہیں، بس دنیا سے چلے اور جنت میں پہنچے۔ لیکن اگر واقعی دل میں یہی یقین ہے اور اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ضروری تھا کہ دنیا کے مکدر عیش سے دل برداشتہ ہو کر محبوب حقیقی کے اشتیاق اور جنت الفردوس کی تمنا میں مرنے کی آرزو کرتے۔ جس کو یقیناً معلوم ہو جائے کہ میرا اللہ کے ہاں بڑا درجہ ہے اور کوئی خطرہ نہیں۔ وہ بیشک مرنے سے خوش ہو گا اور موت کو ایک پل سمجھے گا جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے ، اس کی زبان پر تو یہ الفاظ ہوں گے۔ ”غَدًا نَلْقَی اِلَّاحِبَّۃٌ، مُحَمَّدًا وَحِزْبَہ، اور یَا حَبَّذَا الْجَنَّۃُ وَاقترابہا طیبۃ وبارد شرابہا اور حبیب جاء علی فاقۃٍ اور یا بنی لا یُبَالِی ابوک سقط علی الموت ام سقط علیہ الموت” وغیر ذلک۔ یہ ان اولیاء اللہ کے کلمات ہیں جو دنیا کی کسی سختی یا مصیبت سے گھبرا کر نہیں، خالص لقاء اللہ اور جنت کے اشتیاق میں موت کی تمنا رکھتے تھے ، اور ان کے افعال و حرکات خود شہادت دیتے تھے کہ موت ان کو دنیا کی تمام لذائذ سے زیادہ لذیذ ہے۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”لَوَدِدْتُّ اِنِّی اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ” اس کے بالمقابل ان جھوٹے مدعیوں کے افعال و حرکات پر نظر ڈالو کہ ان سے بڑھ کر موت سے ڈرنے والا کوئی نہیں۔ وہ مرنے کا نام سن کر گھبراتے اور بھاگتے ہیں، اس لیے نہیں کہ زیادہ دن زندہ رہیں تو زیادہ نیکیاں کمائیں گے۔ محض اس لیے کہ دنیا کی حرص سے ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور دل میں سمجھتے ہیں کہ جو کرتوت کیے ہیں، یہاں سے چھوٹتے ہی ان کی سزا میں پکڑے جائیں گے۔ غرض ان کے تمام افعال و اطوار سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ وہ ایک لمحہ کے لیے موت کی آرزو نہیں کر سکتے۔ اور ممکن تھا کہ اس زمانہ کے پہلے قرآن کے اس دعویٰ کو جھٹلانے کے لیے جھوٹ موٹ زبان سے موت کی تمنا کرنے لگتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت بھی ان کو نہ دی۔ روایات میں ہے کہ اگر (ان میں سے ) کوئی یہودی موت کی تمنا کر گزرتا تو اسی وقت گلے میں اچھو لگ کر ہلاک ہو جاتا (تنبیہ) اس مضمون کی آیت سورہ ”بقرہ” میں گزر چکی ہے ، اس کے فوائد دیکھ لیے جائیں۔ بعض سلف کے نزدیک ”تمنی موت” کا مطلب مباہلہ تھا۔ یعنی معاند یہود سے کہا گیا کہ اگر وہ واقعی اپنے اولیاء ہونے کا یقین رکھتے ہیں اور مسلمانوں کو باطل پر سمجھتے ہیں تو تمنا کریں کہ فریقین میں جو جھوٹا ہو، مر جائے۔ لیکن وہ کبھی ایسا نہ کریں گے کیونکہ ان کو اپنے کذب و ظلم کا یقین حاصل ہے۔ ابن کثیر اور ابن قیم وغیرہ نے یہ ہی توجیہ اختیار کی ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیں بیشک جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو یقیناً تمہیں ملنے والی ہے (آ پکڑے گی) پھر تم اس کے سامنے لوٹائے جاؤ گے جو جاننے والا ہے پوشیدہ اور ظاہر کا، وہ تمہیں اس سے آگاہ کر دے گا جو تم کرتے تھے۔ (۸)

تشریح: یعنی موت سے ڈر کر کہاں بھاگ سکتے ہو۔ ہزار کوشش کرو، مضبوط قلعوں میں دروازے بند کر کے بیٹھ رہو، وہاں بھی موت چھوڑنے والی نہیں۔ اور موت کے بعد پھر وہی اللہ کی عدالت ہے اور تم ہو (ربط) یہود کی بڑی خرابی یہ تھی کہ کتابیں پیٹھ پر لدی ہوئی ہیں، لیکن ان سے منتفع نہیں ہوتے ، دین کی بہت سی باتیں سمجھتے بوجھتے ، پر دنیا کے واسطے چھوڑ بیٹھتے۔ دنیا کے دھندوں میں منہمک ہو کر اللہ کی یاد اور آخرت کے تصور کو فراموش کر دیتے ، ایسی روش سے ہم کو منع کیا گیا۔ جمعہ کا تقید بھی ایسا ہی ہے کہ اس وقت دنیا کے کام میں نہ لگو بلکہ پوری توجہ اور خاموشی سے خطبہ سنو اور نماز ادا کرو۔ حدیث میں ہے کہ ”جو کوئی خطبہ کے وقت بات کرے وہ اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ ” یعنی اس کی مثال یہود کی سی ہوئی۔ العیاذ باللہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! جب پکارا جائے (اذان دی جائے ) جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لئے تو تم (فوراً) اللہ کی یاد کے لئے لپکو، اور خریدو فروخت چھوڑ دو، یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم جانتے ہو۔ (۹)

تشریح: جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کے لئے روانہ ہونے کی سوا کوئی اور کام جائز نہیں، نیز جب تک نماز جمعہ ختم نہ ہو جائے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ جائز نہیں ہے ، اللہ کے ذکر سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز ہے۔

(توضیح القرآن)

 

پھر جب نماز پوری ہو چکے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور تم تلاش کرو اللہ کا فضل (روزی) اور تم اللہ کو بکثرت یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (۱۰)

تشریح: جیسا کہ بارہا گزر چکا ہے ، اللہ کا فضل تلاش کرنا قرآن کریم کی اصطلاح میں تجارت وغیرہ کے ذریعے روزگار حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے ، لہذا مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت پر جو پابندی اذان کے بعد عائد ہوئی تھی، جمعہ کی نماز ختم ہونے کے بعد وہ اٹھ جاتی ہے اور خرید و فروخت جائز ہو جاتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب وہ دیکھتے ہیں تجارت، یا کھیل تماشہ، تو وہ اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیں جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے کھیل تماشے سے اور تجارت سے ، اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ (۱۱)

تشریح:  حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کے شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو چکی تھی اور آپ خطبہ دے رہے تھے تو ایک قافلہ کچھ سامان لے کر آیا، اور ڈھول بجا کر اُس کے آنے کا اعلان بھی کیا جا رہا تھا، اس وقت مدینہ منورہ میں کھانے پینے کی چیزوں کی کمی تھی، اس لئے صحابہ کی ایک بڑی تعداد خطبہ چھوڑ کر اس قافلے کی طرف نکل گئی، اور تھوڑے سے افراد مسجد میں رہ گئے ، اس آیت میں اس طرح جانے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ خطبہ چھوڑ کر جانا جائز نہیں تھا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کی صرف نماز ہی فرض نہیں  ہے ، بلکہ خطبہ سننا بھی واجب ہے۔

(توضیح القرآن)

٭٭

 

 

 

۶۳۔ سُوْرَۃُ الْمُنَافِقُوْنَ

 

                تعارف

 

یہ سورت ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو المصطلق عرب کا ایک قبیلہ تھا، جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں حملہ کرنے کے لئے لشکر جمع کر رہا ہے ، آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ خود وہاں تشریف لے گئے ، ان سے جنگ ہوئی اور آخر کار ان لوگوں نے شکست کھائی اور بعد میں مسلمان بھی ہوئے ، جنگ کے بعد چند دن آپ نے وہیں ایک چشمے کے قریب پڑاؤ ڈالے رکھا جس کا نام مریسیع تھا، اسی قیام کے دوران ایک مہاجر اور ایک انصار ی کے درمیان پانی ہی کے کسی معاملے پر جھگڑا ہو گیا، جھگڑے میں نوبت ہاتھا پائی کی آ گئی، اور ہوتے ہوتے مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا، اور انصاری نے انصار کو، یہاں تک کہ اندیشہ ہو گیا کہ کہیں مہاجرین اور انصار کے درمیان لڑائی نہ چھڑ جائے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ مہاجر اور انصار کے نام پر لڑائی کرنا وہ جاہلانہ عصبیت ہے جس سے اسلام نے نجات دی ہے ، آپ نے فرمایا کے یہ عصبیت کے بدبو دار نعرے ہیں جو مسلمانوں کو چھوڑنے ہوں گے ، ہاں مظلوم جو کوئی بھی ہو اس کی مدد کرنی چاہئیے ، اور ظالم جو کوئی ہو اسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد جھگڑا فرو ہو گیا، اور جن حضرات میں ہاتھا پائی ہوئی تھی ان کے درمیان معافی تلافی ہو گئی، یہ جھگڑا تو ختم ہو گیا، لیکن مسلمانوں کے لشکر میں کچھ منافق لوگ بھی تھے جو مال غنیمت میں حصہ دار بننے کے لئے شامل ہو گئے تھے ، ان کے سردار عبداللہ بن ابی کو جب اس جھگڑے کا علم ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم نے مہاجروں کو اپنے شہر میں پناہ دے کر اپنے سرپر چڑھا لیا ہے ، یہاں تک کہ اب وہ مدینے کے اصل باشندوں پر ہاتھ اٹھانے لگے ہیں، یہ صورت حال قابل برداشت نہیں ہے ، پھر اس نے یہ بھی کہا کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا، اس کا واضح اشارہ اس طرف تھا کہ مدینے کے اصل باشندے مہاجروں کو نکال باہر کریں گے ، اس موقع پر ایک مخلص انصاری صحابی حضرت زید بن ارقم  رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ، انہوں نے اس بات کو بُرا سمجھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ عبداللہ ابن ابی نے ایسا کہا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا کہ میں نے یہ بات نہیں کہی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درگزر فرمایا کہ شاید حضرت زید بن ارقم کو غلط فہمی ہوئی ہو، حضرت زید بن ارقم کو یہ رنج تھا کہ عبداللہ ابن ابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کو جھوٹا بنایا، اس کے بعد آپ اپنے صحابہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو گئے ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے کہ یہ سورت نازل ہو گئی جس نے حضرت زید بن ارقم کی تصدیق کی اور منافقین کی حقیقت واضح فرمائی۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۱         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

جب منافق آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے بیشک منافق جھوٹے ہیں۔ (۱)

إِذَا جَآءَکَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللہِ :یعنی ہم دل سے اعتقاد رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر۔

وَاللّٰہُ يَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَکَاذِبُوْنَ :یعنی جھوٹ کہتے ہیں کہ ان کو دل سے اعتقاد ہے۔ واقع میں وہ آپ کی رسالت کے قائل نہیں محض اپنی اغراض کے پیش نظر زبان سے باتیں بناتے ہیں اور دل میں سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر اسی ایک بات پر کیا منحصر ہے ، جھوٹ بولنا ان کی امتیازی خصلت اور شعار بن چکا ہے۔ بات بات میں کذب و دروغ سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ اسی سورت میں ایک واقعہ کا ذکر آیا چاہتا ہے جس میں انہوں نے صریح جھوٹ بولا، اور اللہ نے آسمان سے ان کی تکذیب کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے ، پس وہ (دوسروں کو بھی) روکتے ہیں، اللہ کے راستے سے ، بیشک برا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۲)

تشریح: یعنی جھوٹی قسمیں کھا لیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور مجاہدین اسلام کے ہاتھوں سے اپنی جان و مال محفوظ رکھنے کے لیے ان ہی قسموں کی آڑ پکڑتے ہیں۔ جہاں کوئی بات قابل گرفت ان سے سرزد ہوئی اور مسلمانوں کی طرف سے مواخذہ کا خوف ہوا، فوراً جھوٹی قسمیں کھا کر بری ہو گئے۔

اسلام اور مسلمانوں کی نسبت طعن و تشنیع اور عیب جوئی کر کے دوسروں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور لوگ ان کو بظاہر مسلمان دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں، تو ان کی جھوٹی قسموں کا ضرر فساد ان ہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دوسروں تک متعدی ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر برا کام اور کیا ہو گا۔ (لیکن ایک شخص جب تک بظاہر ضروریاتِ دین کا اقرار کرتا ہے خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کیوں نہ ہو، اسلام اس کے قتل کی اجازت نہیں دیتا)۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ وہ ایمان لائے ، پھر انہوں نے کفر کیا، تو مہر لگا دی گئی ان کے دلوں پر پس وہ نہیں سمجھتے۔ (۳)

تشریح: یعنی زبان سے ایمان لائے ، دل سے منکر رہے اور مدعی ایمان ہو کر کافروں جیسے کام کیے اس بے ایمانی اور انتہائی فریب و دغا کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ گئی۔ جن میں ایمان و خیر اور حق و صداقت کے سرایت کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ اب اس حالت پر پہنچ کر ان سے سمجھنے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی کا قلب اس کی بدکاریوں اور بے ایمانیوں سے بالکل مسخ ہو جائے پھر نیک و بد کے سمجھنے کی صلاحیت کہاں باقی رہے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کو خوشنما معلوم ہوں، اور اگر وہ بات کریں تو آپ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) ان باتوں کو (غور سے ) سنیں گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں‌دیوار (کے سہارے ) لگائی ہوئی، وہ ہر بلند آواز کو اپنے اوپر گمان کرتے ہیں، وہ دشمن ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے بچیں، اللہ انہیں غارت کرے ، وہ کہاں پھرے جاتے ہیں۔ (۴)

تشریح: یعنی ان کا ظاہری حلیہ بڑا پر کشش ہے ، اور باتیں بڑی لچھے دار ہیں، کہ آدمی انہیں سنتا ہی رہ جائے ، لیکن اندر سے ان میں نفاق کی نجاست بھری ہوئی ہے ، روایات میں ہے کہ عبداللہ ابن ابی اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے پر کشش شخصیت رکھتا تھا، اور اس کی باتیں بڑی فصاحت و بلاغت کی حامل ہوتی تھیں۔

کَأَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ :لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بے مصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، یہ لوگ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا، لیکن دل و دماغ آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اس لحاظ سے بھی انہیں بے جان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب ان سے کہا جائے آؤ، بخشش کی دعا کریں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لئے ، تو وہ اپنے سروں کو پھیر لیتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں دیکھیں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور وہ بڑے ہی تکبر کرنے والے ہیں۔ (۵)

تشریح: بعض دفعہ جب ان منافقوں کی کوئی شرارت صاف طور پر کھل جاتی اور کذب و خیانت کا پردہ فاش ہو جاتا تو لوگ کہتے کہ (اب بھی وقت نہیں گیا) آؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے اپنا قصور معاف کرا لو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کی برکت سے حق تعالیٰ تمہاری خطا معاف فرما دے گا۔ تو غرور وتکبر سے اس پر آمادہ نہ ہوتے اور بے پروائی سے گردن ہلا کر اور سر مٹکا کر رہ جاتے۔ بلکہ بعض بدبخت صاف کہہ دیتے کہ ہم کو رسول اللہ کے استغفار کی ضرورت نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان پر ان کے حق میں برابر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے لئے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں، اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا، بیشک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۶)

تشریح: یعنی ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غایت رحمت و شفقت سے ان کے لیے بحالت موجودہ معافی طلب کریں۔ مگر اللہ کسی صورت سے ان کو معاف کرنے والا نہیں، اور نہ ایسے نافرمانوں کو اس کے ہاں سے ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اس طرح کی آیت سورہ ”برأت” میں آ چکی ہے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لیے جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر (پریشان) ہو جائیں۔ اور آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ (ہی) کے لئے ہیں اور لیکن منافق سمجھتے نہیں۔ (۷)

تشریح: ایک سفر میں دو شخص لڑ پڑے ایک مہاجرین میں کا اور ایک انصار کا۔ دونوں نے اپنی حمایت کے لیے اپنی جماعت کو پکارا جس پر خاصا ہنگامہ ہو گیا۔ یہ خبر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنچی کہنے لگا اگر ہم ان (مہاجرین) کو اپنے شہر میں جگہ نہ دیتے تو ہم سے مقابلہ کیوں کرتے تم ہی خبر گیری کرتے ہو تو یہ لوگ رسول کے ساتھ جمع رہتے ہیں، خبر گیری چھوڑ دو، ابھی خرچ سے تنگ آ کر متفرق ہو جائیں، اور سب مجمع بچھڑ جائے۔ یہ بھی کہا کہ اس سفر سے واپس ہو کر ہم مدینہ پہنچیں تو جس کا اس شہر میں زور و اقتدار ہے چاہیے کہ ذلیل بے قدروں کو نکال دے (یعنی ہم لوگ جو معزز لوگ ہیں ذلیل مسلمانوں کو نکال دیں گے ) ایک صحابی زید بن ارقم نے یہ باتیں سن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نقل کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی وغیرہ کو بلا کر تحقیق کی تو قسمیں کھا گئے کہ زید بن ارقم نے ہماری دشمنی سے جھوٹ کہہ دیا ہے۔ لوگ زید پر آوازیں کسنے لگے وہ بیچارے سخت محجوب اور نادم تھے۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو فرمایا کہ اللہ نے تجھے سچا کیا۔

وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ :یعنی احمق اتنا نہیں سمجھتے کہ تمام آسمان و زمین کے خزانوں کا مالک تو اللہ ہے کیا جو لوگ خالص اس کی رضا جوئی کے لیے اس کے پیغمبر کی خدمت میں رہتے ہیں وہ ان کو بھوکوں مار دے گا، اور لوگ اگر ان کی امداد بند کر لیں گے تو وہ بھی اپنی روزی کے سب دروازے بند کر لے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ جو بندے ان اللہ والوں پر خرچ کر رہے ہیں وہ بھی اللہ ہی کراتا ہے۔ اس کی توفیق نہ ہو تو نیک کام میں کوئی ایک پیسہ خرچ نہ کر سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہتے ہیں اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو معزز ترین (منافق) نہایت ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنوں کے لئے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔ (۸)

تشریح: یعنی منافق یہ نہیں جانتے کہ زور آور اور عزت والا کون ہے۔ یاد رکھو اصلی اور ذاتی عزت تو اللہ کی ہے۔ اس کے بعد اسی سے تعلق رکھنے کی بدولت درجہ بدرجہ رسول کی اور ایمان والوں کی۔ روایات میں ہے کہ عبداللہ بن اُبی کے وہ الفاظ (کہ عزت والا ذلیل کو نکال دے گا) جب اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبد اللہ کو پہنچے (جو مخلص مسلمان تھے ) تو باپ کے سامنے تلوار لے کر کھڑے ہو گئے۔ بولے جب تک اقرار نہ کر لے گا تو رسول اللہ عزت والے ہیں اور تو ذلیل ہے ، زندہ نہ چھوڑوں گا اور نہ مدینہ میں گھسنے دوں گا۔ آخر اقرار کرا کر چھوڑا۔ رضی اللہ عنہ’۔ منافقین کی توبیخ و تنقیح کے بعد آگے مومنین کو چند ہدایات کی گئی ہیں۔ یعنی تم دنیا میں پھنس کر اللہ کی اطاعت اور آخرت کی یاد سے غافل نہ ہو جانا جس طرح یہ لوگ ہو گئے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، اور جو یہ کرے گا تو وہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ (۹)

تشریح: یعنی آدمی کے لیے بڑے خسارے اور ٹوٹے کی بات ہے کہ باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہو اور اعلیٰ سے ہٹ کر ادنیٰ میں پھنس جائے۔ مال و اولاد وہی اچھی ہے جو اللہ کی یاد اور اس کی عبادت سے غافل نہ کرے۔ اگر ان دھندوں میں پڑ کر خدا کی یاد سے غافل ہو گیا تو آخرت بھی کھوئی اور دنیا میں قلبی سکون و اطمینان نصیب نہ ہوا۔ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ، مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے تمہیں جو دیا ہے اس میں سے اس سے قبل خرچ کرو کہ آ جائے تم میں‌سے کسی کو موت، تو وہ کہے اے میرے رب ! تو نے مجھے کیوں ایک قریبی مدت تک مہلت نہ دی ؟ تو میں صدقہ کرتا اور میں نیکو کاروں میں سے ہوتا۔ (۱۰)

اور جب اس کی اجل آ گئی تو اللہ ہر گز کسی کو ڈھیل نہ دے گا، اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ (۱۱)

تشریح: یہ شاید منافقوں کے قول ”لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی من عند” الخ کا جواب ہوا کہ خرچ کرنے میں خود تمہارا بھلا ہے جو کچھ صدقہ خیرات کرنا ہے جلدی کرو، ورنہ موت سر پر آ پہنچے گی تو پچھتاؤ گے کہ ہم نے کیوں خدا کے راستہ میں خرچ نہ کیا۔ اس وقت (موت کے قریب) بخیل تمنا کرے گا کہ اے پروردگار! چند روز اور میری موت کو ملتوی کر دیتے کہ میں خوب صدقہ خیرات کر کے اور نیک بن کر حاضر ہوتا۔ لیکن وہاں التواء کیسا؟ جس شخص کی جس قدر عمر لکھ دی اور جو میعاد مقرر کر دی ہے ، اس کے پورا ہو جانے پر ایک لمحہ کی ڈھیل اور تاخیر نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ) ابن عباس سے منقول ہے کہ وہ اس تمنا کو قیامت کے دن پر حمل کرتے ہیں۔ یعنی محشر میں یہ آرزو کرے گا کہ کاش مجھے پھر دنیا کی طرف تھوڑی مدت کے لیے لوٹا دیا جائے تو خوب صدقہ کر کے اور نیک بن کر آؤں۔ اس کو یہ بھی خبر ہے کہ اگر بالفرض تمہاری موت ملتوی کر دی جائے یا محشر سے پھر دنیا کی طرف واپس کریں تب تم کیسے عمل کرو گے۔ وہ سب کی اندرونی استعدادوں کو جانتا ہے اور سب کے ظاہری و باطنی اعمال سے پوری طرح خبردار ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۶۴۔ سُوْرَۃُ التَّغَابُنِ

 

                تعارف

 

اگرچہ بعض مفسرین نے اس سورت کی کچھ آیتوں کو مکی اور کچھ کو مدنی کہا ہے ، لیکن اکثر مفسرین نے پوری سورت کو مدنی قرار دیا ہے ، البتہ اس کے مضامین مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت پر مشتمل ہیں، اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کے حوالے سے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی ہے ، اور پچھلی امتوں کی تباہی کے اسباب بتاتے ہوئے توجہ دلائی گئی ہے کہ ہر انسان کو اللہ تعالی کے رسول برحق اور ان پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لا کر آخرت کی تیاری کرنی چاہئیے ، اور اگر انسان کے بیوی بچے اس راستے میں رکاوٹ بنیں تو سمجھنا چاہئے کہ وہ انسان کی خیر خواہی نہیں، دشمنی کر رہے ہیں، سورت کا نام آیت نمبر :۹ سے ماخوذ ہے جس کی تشریح اسی آیت کے ذیل میں آ رہی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۸         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو بھی آسمانوں میں اور جو بھی زمین میں ہے ، اسی کے لئے ہے بادشاہی اور اسی کے لئے ہیں‌ تمام تعریفیں، اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۱)

وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، سو تم میں سے کوئی کافر ہے اور تم میں سے کوئی مومن ہے ، اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو دیکھنے والا ہے۔ (۲)

تشریح: یعنی اسی نے سب آدمیوں کو بنایا۔ چاہیے تھا کہ سب اس پر ایمان لاتے اور اس منعم حقیقی کی اطاعت کرتے۔ مگر ہوا یہ کہ بعض منکر بن گئے اور بعض ایماندار۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے آدمی میں دونوں طرف جانے کی استعداد اور قوت رکھی تھی۔ مگر اولاً سب کو فطرت صحیحہ پر پیدا کیا تھا پھر کوئی اس فطرت پر قائم رہا اور کسی نے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہو کر اس کے خلاف راہ اختیار کر لی، اور ان دونوں کا علم اللہ کو ہمیشہ سے تھا کہ کون اپنے ارادہ اور اختیار سے کس طرف جائے گا۔ اور پھر اسی کے موافق سزا یا انعام و اکرام کا مستحق ہو گا۔ یہی چیز اپنے علم کے موافق اس کی قسمت میں لکھ دی تھی کہ ایسا ہو گا۔ اللہ کا علم محیط اس کو مستلزم نہیں کہ دنیا میں ارادہ و اختیار کی قوت باقی نہ رہے۔ یہ مسئلہ دقیق ہے ، اور ہم اس پر ایک مستقل مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واللہ الموفق والمعین۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے آسمانوں اور زمین کو حق (درست تدبیر) کے ساتھ پیدا کیا اور تمہیں صورتیں دیں تو تمہیں بہت ہی اچھی صورتیں دیں، اور اسی کی طرف بازگشت ہے (لوٹ کر جانا ہے )۔ (۳)

تشریح: سب جانوروں سے انسان کی خلقت اچھی ہے۔ دیکھنے میں بھی خوبصورت، اور ملکات و قویٰ میں بھی تمام عالم سے ممتاز، بلکہ سب کا مجموعہ اور خلاصہ، اسی لیے صوفیہ اسے ”عالمِ صغیر” کہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو، اور اللہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ (۴)

کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تو انہوں نے وبال چکھ لیا اپنے کام کا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی تم سے پہلے بہت قومیں ”عاد” و ”ثمود” وغیرہ ہلاک کی گئیں اور آخرت کا عذاب الگ رہا۔ یہ خطاب اہل مکہ کو ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہوا کہ ان کے پاس رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آتے تھے ، تو وہ کہتے کیا بشر ہمیں ہدایت دیتے ہیں، تو انہوں نے کفر کیا اور پھر گئے ، اور اللہ نے بے نیازی فرمائی اور اللہ بے نیاز ستودہ صفات (سزا وار حمد) ہے۔ (۶)

تشریح: فَقَالُوْا أَبَشَرٌ يَّہْدُوْنَنَا: یعنی کیا ہم ہی جیسے آدمی ہادی بنا کر بھیجے گئے۔ بھیجنا تھا تو آسمان سے کسی فرشتہ کو بھیجتے گویا ان کے نزدیک بشریت اور رسالت میں منافات تھی۔ اسی لیے انہوں نے کفر اختیار کیا اور رسولوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔

(تنبیہ) اس آیت سے یہ ثابت کرنا کہ رسول کو بشر کہنے والا کافر ہے انتہائی جہل و الحاد ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی یہ کہہ دے کہ آیت ان لوگوں کے کفر پر دلالت کر رہی ہے جو رسل بنی آدم کے بشر ہونے کا انکار کریں، تو یہ دعویٰ پہلے دعوے سے زیادہ قوی ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان لوگوں نے دعوی کیا جو کافر ہوئے کہ وہ ہر گز دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیں، ہاں ! کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ، پھر تمہیں جتلا دیا جائے گا جو تم کرتے تھے اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ (۷)

تشریح: یعنی دوبارہ اٹھانا اور سب کا حساب کر دینا اللہ کو کیا مشکل ہے پوری طرح یقین رکھو کہ یہ ضرور ہو کر رہے گا۔ کسی کے انکار کرنے سے وہ آنے والی گھڑی ٹل نہیں سکتی۔ لہٰذا مناسب ہے کہ انکار چھوڑ کر اس وقت کی فکر کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لے آؤ اور اس نور (قرآن) پر جو ہم نے نازل کیا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (۸)

جس دن وہ تمہیں جمع کرے گا (یعنی) قیامت کے دن، یہ ہار جیت کا دن ہے ، اور جو اللہ پر ایمان لائے اور وہ اچھے کام کرے وہ (اللہ) اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا، اور اسے (ان) باغات مین داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۹)

تشریح: قرآن کریم نے یہاں تغابن کا لفظ استعمال فرمایا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نقصان یا حسرت میں مبتلا کریں، قیامت کے دن  کو تغابن کا دن اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن جو لوگ جنت میں جائیں گے دوزخی لوگ انہیں دیکھ کر حسرت کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں ان جنتیوں جیسے عمل کئے ہوتے تو آج ہم بھی جنت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ ہار جیت کا دن کیا ہے ، جو مفہوم کو اختصار کے ساتھ واضح کر دیتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جن لوگوں نے کفر کیا، اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا یہی لوگ دوزخ والے ہیں، اس میں ‌ہمیشہ رہیں ‌گے اور یہ بری جائے بازگشت (برا ٹھکانا) ہے۔ (۱۰)

کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے اذن سے ، اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۱۱)

دنیا میں کوئی مصیبت اور سختی اللہ کی مشیت و ارادہ کے بغیر نہیں پہنچتی۔ مومن کو جب اس بات کا یقین ہے تو اس پر غمگین اور بد دل ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ مومن کے دل کو صبر و تسلیم کی راہ بتلا دیتا ہے۔ جس کے بعد عرفان و ایقان کی عجیب و غریب راہیں کھلتی ہیں۔ اور باطنی ترقیات اور قلبی کیفیات کا دروازہ مفتوح ہوتا ہے۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

وَاللّٰہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ :جو تکلیف و مصیبت اس نے بھیجی عین علم و حکمت سے بھیجی، اور وہی جانتا ہے کہ کون تم میں سے واقعی صبر و استقامت اور تسلیم و رضا کی راہ پر چلا۔ اور کس کا دل کن احوال و کیفیات کا مورد بننے کے قابل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا نہیں‌کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذمے صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی نرمی و سختی اور تکلیف و راحت، غرض ہر حالت میں اللہ و رسول کا حکم مانو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو خود تمہارا نقصان ہے۔ رسول سب نیک و بد سمجھا کر اپنا فرض ادا کر چکا۔ اللہ کو تمہاری اطاعت و معصیت سے کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ (ہے ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس مومنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔ (۱۳)

اے ایمان والو ! بے شک تمہاری بعض بیویاں اور تمہاری بعض اولاد تمہارے (دین کے ) دشمن ہیں، پس تم ان سے بچو، اور اگر تم معاف کر دو، اور درگزر کرو، اور تم بخش دو، تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۱۴)

تشریح: بہت مرتبہ آدمی بیوی بچوں کی محبت اور فکر میں پھنس کر اللہ کو اور اس کے احکام کو بھلا دیتا ہے۔ ان تعلقات کے پیچھے کتنی برائیوں کا ارتکاب کرتا اور کتنی بھلائیوں سے محروم رہتا ہے۔ بیوی اور اولاد کی فرمائشیں اور رضا جوئی اسے کسی وقت دم نہیں لینے دیتی۔ اس چکر میں پڑ کر آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو اہل و عیال اتنے بڑے خسارے اور نقصان کا سبب بنیں۔ وہ حقیقتہً اس کے دوست نہیں کہلا سکتے ،بلکہ بدترین دشمن ہیں۔ جن کی دشمنی کا احساس بھی بسا اوقات انسان کو نہیں ہوتا۔ اسی لیے حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ ان دشمنوں سے ہوشیار رہو، اور ایسا رویہ اختیار کرنے سے بچو جس کا نتیجہ ان کی دنیا سنوارنے کی خاطر اپنا دین برباد کرنے کے سوا کچھ نہ ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں سب بیویاں اور ساری اولاد اسی قماش کی ہوتی ہے ، بہت اللہ کی بندیاں ہیں جو اپنے شوہروں کے دین کی حفاظت کرتی اور نیک کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں، اور کتنی ہی سعادت مند اولاد ہے جو اپنے والدین کے لیے باقیاتِ صالحات بنتی ہے۔ ”جعلنا اللہ منہم بِفَضْلِہٖ وَمَنِّہٖ۔ ”

اگر انہوں نے تمہارے ساتھ دشمنی کی اور تم کو دینی یا دنیاوی نقصان پہنچ گیا تو اس کا اثر یہ نہ ہونا چاہیے کہ تم انتقام کے درپے ہو جاؤ۔ اور ان پر نامناسب سختی شروع کر دو۔ ایسا کرنے سے دنیا کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا۔ جہاں تک عقلاً و شرعاً گنجائش ہو ان کی حماقتوں اور کوتاہیوں کو معاف کرو اور عفو و درگزر سے کام لو۔ ان مکارم اخلاق پر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربانی کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں، اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (۱۵)

تشریح: آزمائش یہ ہے کہ انسان مال و دولت اور اولاد کی محبت میں منہمک ہو کر اللہ تعالی کے احکام سے غافل تو نہیں ہوتا، اور جو شخص ایسی غفلت سے اپنے آپ کو بچا لے اس کے لئے اللہ تعالی کے پاس بڑا اجر و  ثواب ہے۔

(توضیح القرآن)

 

پس جہاں تک ہو سکے تم اللہ سے ڈرو، اور سنو، اور اطاعت کرو، اور خرچ کرو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے ، اور جو اپنی جان (طبعیت) کی بخیلی سے بچا لیا گیا تو یہی لوگ فلاح (دو جہاں‌ میں کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۱۶)

تشریح: اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ انسان کو جو تقوی کا حکم دیا گیا ہے ، وہ اس کی استطاعت کے مطابق ہے ، یعنی کسی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا گیا، یہی مضمون سورۂ بقرہ :۲۲۳، ۲۸۶ سورۂ انعام:۱۵۲، سورہ اعراف:۴۲ سورہ مؤمنون:۶۳ میں گزر چکا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو گے تو وہ تمہارے لئے اسے دو چند کر دے گا، اور وہ تمہیں ‌بخش دے گا، اور اللہ قدر شناس، بردبار ہے۔ (۱۷)

تشریح: اللہ تعالی کو قرض دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر نیک کاموں میں خرچ کیا جائے ، اس تعبیر میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح کسی کو قرض دیتے وقت انسان کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ یہ قرض اسے کسی وقت واپس مل جائے گا، اسی طرح نیک کاموں میں خرچ کرتے وقت انسان کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی اس کے بدل میں بہترین اجر عطا فرمائیں گے ، اور اچھی طرح قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نیک کاموں میں اخلاص سے خرچ کرے ، نام ونمود اور دکھاوا مقصود نہ ہو، نیک کاموں میں خرچ کرنے کو سورۂ بقرہ:۲۲۴، سورہ مائدہ:۱۲، اور سورہ مزمل:۷۳، میں بھی قرض حسن سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہ جاننے والا ہے پوشیدہ اور ظاہر کا، غالب، حکمت والا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی اسی کو ظاہری اعمال اور باطنی نیتوں کی خبر ہے اپنی زبردست قوت اور حکمت سے اس کے مناسب بدلہ دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۶۵۔ سُوْرَۃُ الطَّلاقِ

 

                تعارف

 

پچھلی دو سورتوں میں مسلمانوں کو یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہ ہوں، اب اس سورت اور اگلی سورت میں میاں بیوی کے تعلقات سے متعلق کچھ ضروری احکام بیان فرمائے گئے ہیں، ازدواجی تعلقات کے مسائل میں طلاق ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عملاً بہت افراط و تفریط پائی جاتی ہے ، چنانچہ قرآن کریم نے اس کے بارے میں متوازن طرز عمل اختیار کرنے کے لئے طلاق کے کچھ احکام سورہ بقرۃ:۲۲۶ تا ۲۳۰ میں بیان فرمائے ہیں، اب اس سورت میں طلاق کے وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو وہاں بیان نہیں ہوئے تھے ، چنانچہ بتایا گیا ہے کہ اگر طلاق دینی ہو تو اس کے لئے صحیح وقت اور صحیح طریقہ کیا ہے ، نیز جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو اس کی عدت کتنی ہو گی، عدت کے دوران ان کے سابق شوہروں کو ان کا خرچ کس معیار پر اور کب اٹھانا ہو گا، اگر اولاد ہوچکی ہوتو اس کو دودھ پلانے کی ذمہ داری کس پر ہو گی، اس قسم کے احکام بیان فرماتے ہوئے بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر مرد اور عورت کو اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں، کیونکہ میاں بیوی کا تعلق ایسا ہے کہ ان کی ہر شکایت کا علاج عدالتوں سے نہیں مل سکتا، ایک متوازن خاندانی نظام اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہر فریق اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام نہ دے ، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہی کو دنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۲         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! (امت کو فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت (حالت طہر میں) طلاق دو، اور تم عدت کا شمار رکھو، اور تم ڈرو اللہ سے جو تمہارا رب ہے ، تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، مگر یہ کہ وہ کھلی بے حیائی (کا ارتکاب) کریں، اور یہ اللہ کی حدود ہیں، اور جو اللہ کی حدوں سے آگے نکلے گا (تجاوز کرے گا) تو تحقیق اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، تمہیں خبر نہیں ممکن ہے اللہ اس کے بعد (رجوع کی) کوئی اور بات (سبیل) پیدا کر دے۔ (۱)

تشریح: جب میاں بیوی میں طلاق کے ذریعے علیحدگی ہو جائے تو عورت کو دوسرا نکاح کرنے کے لئے کچھ مدت انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے ، اس مدت کو عدت کہا جاتا ہے ، سورۂ بقرہ (۲:۲۲۸) میں گزر چکا ہے کہ جن عورتوں کو طلاق ہو گئی ہو، ان کی عدت یہ ہے کہ طلاق کے بعد ان کو تین ماہواریاں آ جائیں، اب اس آیت میں طلاق دینے والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر انہیں طلاق دینی ہو تو وہ ایسے وقت طلاق دیں کہ عدت شروع ہونے والی ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح یہ فرمائی ہے کہ ایسے وقت طلاق نہ دی جائے جب بیوی کو ماہواری آ رہی ہو، بلکہ ایسے طہر یعنی پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں بیوی سے جماع بھی نہ کیا ہو، اس حکم میں دو مصلحتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ایک یہ کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اول تو جب میاں بیوی کا رشتہ ایک مرتبہ قائم ہو جائے تو وہ قائم رہے ، اور اگر طلاق کے ذریعے اس کے ٹوٹنے کی نوبت آئے تو وہ بھی اچھی طرح سوچ سمجھ کر شریفانہ طریقہ پر ہو جس میں فریقین میں سے کوئی دوسرے کے لئے نا واجبی تکلیف کا سبب نہ بنے ، اگر ماہواری کی حالت میں طلاق دی جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ وقتی نفرت کی وجہ سے دی جا رہی ہو، یا اگر ایسی پاکی کی حا لت میں دی جائے جس میں دونوں جماع کر چکے ہوں تب بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی کی طرف شوہر کی رغبت کم ہو گئی ہو، اس کے برخلاف اگر ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں ایک مرتبہ بھی جماع نہ ہوا ہو تو عام طور پر یہ وقت ایسا ہوتا ہے جب بیوی کی طرف شوہر کی رغبت اپنے شباب پر ہوتی ہے ، اس کے باوجود اگر وہ طلاق دے رہا ہے تو اس بات کی علامت ہے کہ طلاق کسی وقتی بے رغبتی کا نتیجہ نہیں ہے ، دوسری مصلحت یہ ہے کہ اگر ماہواری کے دوران طلاق دی جائے تو عورت کے لئے عدت کا زمانہ بلا وجہ لمبا ہو جاتا ہے ، کیونکہ جس ماہواری کے دوران طلاق دی گئی ہے ، وہ عدت میں شمار نہیں ہو گی اس لئے عدت اس وقت شروع ہو گی جب عورت اس ماہواری سے پاک ہو جائے ، پھر دوبارہ ماہواری آنے کا انتظار کرے ، اس سے عورت کو تکلیف ہو سکتی ہے ، لہذا حکم یہ دیا گیا ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں جماع نہ ہوا ہو۔

یہ اس آیت کی وہ تفسیر ہے جو اکثر مفسرین نے اختیار کی ہے اور اس کی تائید کچھ صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے ، بعض مفسرین نے اس کی ایک اور تفسیر کی ہے وہ آیت کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ انہیں عدت کے لئے طلاق دو، اور مطلب یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ انسان جب بیوی کو طلاق دے تو رجعی طلاق یعنی ایسی طلاق دے جس سے عدت کے دوران رجوع کرنا ممکن ہو، گویا عدت تک کے لئے طلاق دی جائے ، اس دوران سوچنے سمجھنے کا موقع ہو گا، اور اگر حالات معمول پر آ جائیں تو طلاق سے رجوع کر لیا جائے جیسا کہ اگلی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔

لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُيُوْتِہِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَّأْتِيْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ :عدت کے دوران شوہر کے ذمے واجب ہے کہ جس بیوی کو طلاق دی ہے اس کو اپنے گھر میں رہائش فراہم کرے ، اور عورت کے ذمے بھی یہ واجب ہے کہ وہ شوہر ہی کے گھر میں عدت گزارے ، اور کہیں نہ جائے ، البتہ اللہ تعالی نے وہ صورت اس سے مستثنی فرما دی ہے جب عورت کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے ، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کسی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے ، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ لڑائی جھگڑے میں بدزبانی کرنے لگے ، اس صورت میں بھی اس کا شوہر کے گھر میں رہنا ضروری نہیں ہے۔

لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمْرًا :یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ بعض اوقات باہمی جھگڑے کی وجہ سے لوگ طلاق دے ڈالتے ہیں، لیکن بعد میں اللہ تعالی دونوں کے درمیان صلح صفائی کرا دیتے ہیں، ایسی صورت میں نکاح کا رشتہ دوبارہ قائم ہو سکتا ہے ، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب طلاق رجعی دی گئی ہو، اس لئے اس آیت میں ترغیب یہی دی گئی ہے کہ طلاق دینی بھی ہو تو رجعی طلاق دینی چاہئیے ، کیونکہ طلاق بائن کے بعد شوہر کے ہاتھ سے رجوع کا اختیار نکل جاتا ہے اور طلاق مغلظہ (تین طلاقوں) کے بعد میاں بیوی دونوں کے ہاتھ سے دوسرا نکاح کرنے کا اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

پھر جب وہ اپنی میعاد کے (نزدیک) پہنچ جائیں تو انہیں اچھے طریقے سے روک لو یا جدا (رخصت) کر دو، اور اپنے میں سے دو انصاف پسند گواہ کر لو اور تم (صرف) اللہ کے لئے گواہی دو، یہی ہے جس کی (ہر اس شخص کو) نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ اس کے لئے نجات (مخلص) کی راہ نکال دیتا ہے۔ (۲)

تشریح: یہ اس صورت کا تذکرہ ہو رہا ہے جب شوہر نے طلاق رجعی دی ہو، اس صورت میں جب عدت پوری ہون سے پہلے شوہر کو فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ طلاق سے رجوع کر کے بیوی سے ازدواجی تعلق بحال کرنا چاہتا ہے یا اب بھی علیحدگی ہی مناسب سمجھتا ہے ، دونوں صورتوں میں اسے یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ جو کام بھی کرے بھلے طریقے سے کرے ، اگر نکاح کا رشتہ باقی رکھنا ہے تو طلاق سے رجوع کر لے اور آئندہ بیوی کے س اتھ اچھا سلوک کرے اور اگر علیحدگی چاہتا ہے تب بھی شریفانہ انداز میں بھل منسی کے ساتھ بیوی کو رخصت کرے۔

وَأَشْہِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ :رجوع کی صورت میں ترغیب دی گئی ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں شوہر یہ کہے کہ میں نے طلاق سے رجوع کر لیا، عدل والے گواہوں ے مراد گواہوں کا نیک ہونا ہے ، یہ رجوع کا پسندیدہ طریقہ ہے ، لیکن رجوع کی لازمی شرط نہیں ہے ، اسی طرح اگر شوہر زبان سے کچھ نہ کہے ، لیکن بیوی سے حقوقِ زوجیت ادا کر لے ، بلکہ بوس و کنار ہی کر لے ، تب بھی رجوع ہو جاتا ہے۔

وَأَقِيْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ :یہ ان گواہوں سے خطاب ہے جن کی موجودگی میں شوہر نے طلاق سے رجوع کیا ہو کہ اگر کبھی رجوع کو ثابت کرنے کے لئے گواہی دینی پڑے تو ٹھیک ٹھیک گواہی دیں

(توضیح القرآن)

 

اور وہ اسے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان (بھی) نہیں ہوتا، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے کافی ہے ، بیشک اللہ اپنے کام پورے کرنے والا ہے ، بیشک اللہ نے ہر بات کے لئے اندازہ مقرر کیا ہے۔ (۳)

تشریح :اللہ کا ڈر دارین کے خزانوں کی کنجی اور تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، بے قیاس و گمان روزی ملتی ہے گناہ معاف ہوتے ہیں، جنت ہاتھ آتی ہے ، اجر بڑھتا ہے اور ایک عجیب قلبی سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ جس کے بعد کوئی سختی، سختی نہیں رہتی، اور تمام پریشانیاں اندر ہی اندر کافور ہو جاتی ہیں، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمام دنیا کے لوگ اس آیت کو پکڑ لیں تو ان کو کافی ہو جائے۔

اللہ پر بھروسہ رکھو، محض اسباب پر تکیہ مت کرو۔ اللہ کی قدرت ان اسباب کی پابند نہیں۔ جو کام اسے کرنا ہو، وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اسباب بھی اسی کی مشیت کے تابع ہیں۔ ہاں ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ ہے۔ اسی کے موافق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کسی چیز کے حاصل ہونے میں دیر ہو تو متوکل کو گھبرانا نہیں چاہیے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور جو (پیرانہ سالی کی وجہ سے ) حیض سے ناامید ہو گئی ہوں تمہاری مطلقہ بیبیوں میں سے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے ، اور (کم سنی کی وجہ سے ) جنہیں حیض نہیں آیا۔ اور حمل والیوں کی عدت ان کے وضع حمل (بچہ جننے تک) ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے لئے اس کے کام میں آسانی کر دے گا۔ (۴)

تشریح: سورۂ بقرہ (۲:۲۲۸) میں طلاق یافتہ عورتوں کی عدت تین ماہواری بتائی گئی ہے ، اس پر بعض حضرات کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ جن عورتوں کی ماہواری بڑی عمر میں پہنچنے پر بند ہو جاتی ہے ان کی عدت کیا ہو گی؟ اس آیت نے واضح فرما دیا کہ تین ماہواری کے بجائے ان کی عدت تین مہینے ہو گی، اور اسی طرح وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی ماہواری آنی شروع ہی نہیں ہوئی ان کی عدت بھی تین مہینے ہو گی، اور جن عورتوں کو حمل کی حالت میں طلاق دی گئی ہو اس کی عدت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان کے یہاں بچہ پیدا ہو جائے یا حمل کسی وجہ سے گر جائے ، چاہے وہ تین مہینے سے کم مدت میں ہو یا زیادہ مدت میں۔

(توضیح القرآن)

 

یہ اللہ کے حکم ہیں، اس نے تمہاری طرف اتارے ہیں اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کی برائیاں اس سے دور فرما دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔ (۵)

تشریح: جملہ کے بعد اتقاء اور اللہ کے ڈر کا مضمون مختلف پیرایوں میں دہرایا گیا ہے تاکہ پڑھنے والا بار بار متنبہ ہو کہ عورتوں کے معاملات میں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم جہاں رہتے ہو انہیں تم اپنی استطاعت کے مطابق (وہاں) رکھو اور تم انہیں تنگ کرنے کے لئے ضرر (تکلیف) نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حمل سے ہوں ‌تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وضع حمل ہو جائے (بچہ پیدا ہو جائے ) پھر اگر وہ تمہارے لئے (تمہاری خاطر) دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو، اور تم آپس میں معقول طریقے سے مشورہ کر لیا کرو۔ اور اگر تم باہم کشمکش کرو گے تو اس کو کوئی دوسری (بی بی) دودھ پلا دے گی۔ (۶)

تشریح: مرد کو یہ نہ سوچنا چاہئیے کہ اب بیوی کو رخصت کرنا ہی ہے ، اس لئے اسے ستا کر رخصت کروں، اس کے بجائے اس کے گھر میں رہنے کے دوران اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئیے ، اور اسی آیت سے حنفی حضرات نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ مطلقہ چاہے رجعی ہو یا بائنہ عدت کے دوران اس کا نفقہ شوہر کے ذمے واجب ہے کیونکہ نفقہ نہ دینا ستانے کا ہی ایک طریقہ ہے ، جس سے اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے۔

وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ :عام حالت میں تو عدت تین مہینے کے قریب قریب پوری ہو جاتی ہے ، لیکن چونکہ حمل کی مدت اس سے لمبی بھی ہو سکتی ہے ، اس لئے اس حالت کا خاص طور پر ذکر فرما کر حکم دیا گیا ہے کہ نفقہ بچے کی پیدائش تک جاری رہے گا، چاہے اس میں کتنی دیر لگے۔

فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ :مطلقہ عورت خود اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے اپنے سابق شوہر اور بچے کے باپ سے اجرت کا مطالبہ کرسکتی ہے اور آیت میں ترغیب دی گئی ہے کہ اجرت آپس کی رضا مندی سے طے کر لینی چاہئے ، نہ تو شوہر اس میں بخل سے کام لے ،کیونکہ اگر آپس کی رضامندی سے بات طے نہ ہو سکی تو کسی اور عورت کو رکھنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ وہ رواج کے مطابق اجرت مانگے گی، ، لہذا کیوں نہ بچے کی ماں ہی کو وہ اجرت دے دی جائے ، نیز ماں کو بھی یہ نہ چاہئیے کہ وہ رواج سے زیادہ اجرت کا مطالبہ کرے ،کیونکہ اس صورت میں بچے کا باپ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے پر مجبور ہو گا، اور ماں کے لئے یہ اچھی بات نہیں ہے کہ وہ محض زیادہ پیسوں کے لالچ میں اپنے بچے کو کسی اور سے دودھ پلوائے۔

(توضیح القرآن)

 

چاہیئے کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر تنگ کر دیا گیا ہو اس کا رزق (آمدنی) تو اللہ نے جو اسے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہیئے ، اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا (مکلف نہیں‌ٹھہراتا) ، مگر ( اسی قدر) جتنا اس نے اسے دیا ہے ، جلد کر دے گا اللہ تنگی کے بعد آسانی۔ (۷)

لَا يُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا مَآ اٰتَاہَا:شوہر پر بیوی بچوں کو جو نفقہ واجب ہوتا ہے ، وہ اس کی اپنی مالی حیثیت کے مطابق واجب ہوتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور کئی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی اور ہم نے سختی سے ان کا حساب لیا، اور ہم نے انہیں بڑا عذاب دیا۔ (۸)

تشریح:یعنی احکام شریعت کی (خصوصاً عورتوں کے بارے میں) پوری پابندی رکھو۔ اگر نافرمانی کرو گے تو یاد رہے کہ کتنی ہی بستیاں اللہ و رسول کی نافرمانی کی پاداش میں تباہ کی جا چکی ہیں جس وقت لوگ تکبر کر کے حد سے نکل گئے ہم نے ان کا جائزہ لیا اور سختی سے لیا کہ ایک عمل کو بھی معاف نہیں کیا۔ پھر ان کو ایسی نرالی آفت میں پھنسایا جو آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام خسارا (گھاٹا) ہوا۔ (۹)

تشریح: یعنی عمر بھر جو سودا کیا تھا آخر اس میں سخت خسارہ اٹھایا اور جو پونجی تھی سب کھو کر رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کیا ہے ، پس تم اللہ سے ڈرو اے عقل والو۔

ایمان والو ! تحقیق اللہ نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے۔ (۱۰)

تشریح: یہ قرآن کریم کا خاص اسلوب ہے کہ وہ جو احکام عطا فرماتا ہے ، ان کے آگے پیچھے بار بار یہ یاد دلاتا ہے کہ تمہیں اللہ تعالی کے حضور جواب دہی کے احساس سے ڈرتے رہنا چاہئیے ، یہی وہ احساس ہے جو تمہارے لئے ان احکام پر عمل کرنا آسان بنا دے گا۔

(توضیح القرآن)

 

وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) (بھیجا ہے ) جو تم پر پڑھتا ہے اللہ کی روشن آیتیں، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے وہ انہیں نکالے تاریکیوں سے نور کی طرف اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور اچھے عمل کرے گا تو وہ اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ رہیں گے ان میں ہمیشہ ہمیشہ، بیشک اللہ نے اس کے لئے بہت اچھی روزی رکھی ہے۔ (۱۱)

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے ، اور زمین بھی ان کی طرح، ان کے درمیان حکم اترتا ہے تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے ، اور یہ کہ اللہ نے ہر شے کا علم سے احاطہ کیا ہوا ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی زمینیں بھی سات پیدا کی جیسا کہ ترمذی وغیرہ کی احادیث میں ہے ان میں احتمال ہے کہ نظر آتی ہوں اور ان میں احتمال ہے کہ نظر نہ آتی ہوں مگر لوگ ان کو کواکب سمجھتے ہیں جیسا کہ مریخ وغیرہ کی نسبت آج کل حکمائے یورپ کا گمان ہے کہ اس میں پہاڑ دریا اور آبادیاں ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

 

۶۶۔ سُوْرَۃُ التَّحْرِیْمِ

 

                تعارف

 

جیسا کہ پچھلی سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، اس سورت کا بنیادی موضوع بھی یہ ہے کہ میاں بیوی کو آپس میں اور اپنی اولاد کے ساتھ کس طرح معتدل اور متوازن رویہ اختیار کرنا چاہئیے ، ایک طرف ان سے معقول حدود میں محبت بھی دین کا تقاضا ہے ، اور دوسری طرف ان کی یہ نگرانی بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام سے انحراف نہ کریں، اسی سلسلہ میں ایک واقعہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا کہ اپنی کچھ ازواج مطہرات کی خوشنودی کی خاطر آپ نے یہ قسم کھا لی تھی کہ آئندہ شہد نہیں پیوں گا، جس کی تفصیل آیت نمبر:۱ کی تشریح میں آ رہی ہے ، اس پر اللہ تعالی نے آپ سے یہ فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالی نے آپ کے لئے حلال کی ہے ، اسے آپ اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہیں ؟اس لئے سورت کا نام تحریم ہے ، جس کے معنی ہیں حرام کرنا۔

(توضیح القرآن)

 

مَدَنِیَّۃٌ

آیات:۱۲         رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے تم اسے کیوں حرام ٹھہراتے ہو ؟ اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہوئے ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۱)

تشریح: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عصر کے بعد اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ، اس معمول کے مطابق آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو شہد پیش کیا جو آپ نے پیا، اس کے بعد آپ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے پاس تشریف لے گئے تو دونوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے (مغافیر ایک گھاس کا نام ہے جس میں کچھ بو ہوتی ہے ) آپ نے نفی میں جواب دیا، تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے منہ میں یہ بو کیسی ہے ؟ آپ کو اس سے شبہ ہوا کہ شاید جو شہد میں نے پیا تھا، اس کی مکھی نے مغافیر چوسا ہو، چونکہ آپ کو اپنے مبارک منہ سے کوئی ناگوار بو محسوس ہونا انتہائی ناپسند تھا، اس لئے آپ نے اس وقت یہ قسم کھا لی کہ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(توضیح القرآن)

 

تحقیق اللہ نے تمہارے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے ، اور اللہ تمہارا کار ساز ہے ، اور وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۲)

تشریح: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد نہ پینے کی جو قسم کھا لی تھی، اس پر اس آیت میں ہدایت دی گئی ہے کہ آپ وہ قسم توڑ دیں اور کفارہ ادا کر دیں، چنانچہ ایک حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی نامناسب قسم کھا لے تو اسے قسم توڑ کر کفارہ ادا کر دینا چاہئیے ، کفارہ وہی ہے جو سورہ مائدہ (۵:۸۹) میں بیان فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی ایک بیبی سے ایک راز کی بات کہی، پھر جب اس (بی بی) نے اس بات کی (کسی دوسری بی بی کو) خبر کر دی اور اللہ نے ظاہر کر دیا اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) پر، تو اس نے اس کی کچھ کو خبر دی، اور بعض سے اعراض کیا، پھر اس بی بی کو وہ بات جتلائی تو وہ بولی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کس نے خبر دی ؟ اس (بات کی) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا مجھے علم والے ، خبر رکھنے والے نے خبر دی۔ (۳)

تشریح: راز کی بات آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمائی تھی کہ میں نے شہد نہ پینے کی قسم کھا لی ہے ، مگر یہ بات کسی کو بتانا نہیں تاکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کے گھر میں آپ نے شہد نوش فرماتے تھے ان کا دل نہ ٹوٹے۔

(توضیح القرآن)

 

(اے بیبیو !) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل یقیناً کج ہو گئے اگر اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی (ایذا رسانی) پر تم ایک دوسری کی مدد کرو گی تو بیشک اللہ اس کا رفیق ہے ، اور جبریل (علیہ السلام) اور نیک مومن اور فرشتے (بھی) ان کے علاوہ مدد گار ہیں۔ (۴)

تشریح: یہ عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) کو خطاب ہے کہ اگر تم توبہ کرتی ہو تو بیشک توبہ کا موقع ہے کیونکہ تمہارے دل جادہ اعتدال سے ہٹ کر ایک طرف کو جھک گئے ہیں۔ لہٰذا آئندہ ایسی بے اعتدالیوں سے پرہیز رکھا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ اس کا رب اس کے لئے اور بیبیاں بدل دے تم سے بہتر اطاعت گزار، ایمان والیاں، فرمانبرداری کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار، روزہ دار، شوہر دیدہ، اور کنواریاں۔ (۵)

تشریح: وسوسہ دل میں نہ لانا کہ آخر تو مرد کو بیبیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لیے ناگزیر ہماری سب باتیں سہی جائیں گی۔ یاد رکھو! اللہ چاہے تو تم سے بھی بہتر بیبیاں اپنے نبی کے لیے پیدا کر دے۔ اس کے ہاں کس چیز کی کمی ہے۔ (تنبیہ) ثیبات (بیواؤں) کا ذکر شاید اسی لیے کیا کہ بعض حیثیات سے آدمی ان کو ابکار پر ترجیح دیتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر درشت خو، زور آور فرشتے (معین) ہیں، اللہ جو انہیں حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں‌ کرتے اور وہ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (۶)

تشریح: لفظ اھلیکم میں اہل و عیال سب داخل ہیں، جن میں بیوی، اولاد، غلام، باندیاں سب داخل ہیں، اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں، ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر توسمجھ میں آ گئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الہیہ کی پابندی کریں ) مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل و عیال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا (روح المعانی)۔

(معارف القرآن)

 

اے کافرو ! آج تم عذر نہ کرو (بہانے نہ بناؤ) اس کے سوا نہیں کہ تمہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے۔ (۷)

تشریح: یعنی قیامت کے دن جب جہنم کا عذاب سامنے ہو گا، اس وقت منکروں سے کہا جائے گا کہ حیلے بہانے مت بتلاؤ۔ آج کوئی بہانہ چلنے والا نہیں بلکہ جو کچھ کرتے تھے اس کی پوری پوری سزا بھگتنے کا دن ہے۔ ہماری طرف سے کوئی ظلم زیادتی نہیں۔ تمہارے ہی اعمال ہیں جو عذاب کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو ! تم اللہ کے آگے توبہ کرو خالص (صاف دل سے ) توبہ، امید ہے تمہارا رب تم سے دور کر دے گا تمہارے گناہ اور وہ تمہیں ان باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اس دن اللہ رسوا نہ کرے گا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو، اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ، ان کا نور ان کے سامنے اور ان کا دائیں دوڑتا ہو گا، اور وہ دعا کرتے ہوں گے ، اے ہمارے رب ! ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر دے اور ہماری مغفرت فرما دے ، بیشک تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۸)

تشریح: صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی۔ ”رزقنا اللہ منہا حظا وافرًا بفضلہ وعونہ وہو علٰی کل شئیٍ قدیر۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جہاد کیجئے کافروں اور منافقوں سے ، اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ (بہت) بری جگہ ہے۔ (۹)

بیان کی اللہ نے کافروں کے لئے نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی مثال، وہ دونوں دو بندوں کے گھروں میں تھیں، ہمارے صالح بندوں میں سے ، سو انہوں نے ان دونوں کی خیانت کی تو اللہ کے آگے ان دونوں کے کچھ کام نہ آیا، اور کہا گیا تم دونوں جہنم میں داخل ہو جاؤ داخل ہونے والوں کے ساتھ۔ (۱۰)

تشریح: حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی لوگوں سے اپنے مقدس شوہر کو مجنون کہا کرتی تھی، اور حضرت نوح علیہ السلام کے راز ان کے دشمنوں کو بتا دیا کرتی تھی، اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتی تھی۔ (روح المعانی) یہ مثال دے کر اللہ تعالی متنبہ فرما رہے ہیں کہ کسی قریب ترین رشتہ دار کا ایمان بھی انسان کو فائدہ نہیں دے سکتا جب تک وہ خود ایمان نہ لائے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اللہ نے مومنوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس (بی بی) نے کہا اے میرے رب ! میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے ، اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے ، اور مجھے ظالموں کی قوم سے بچا لے۔ (۱۱)

تشریح: فرعون کی بیوی کا نام آسیہ تھا، اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے جادوگروں پر فتح عطا فرمائی تو ان جادوگروں کے ساتھ وہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی تھیں، جس کے نتیجے میں فرعون نے ان پر بہت ظلم ڈھائے ، اس موقع پر انہوں نے یہ دعا فرمائی اور بعض روایات میں آیا ہے کہ فرعون نے ان کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گاڑ کر اوپر سے ایک پتھر پھینکنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی اللہ تعالی نے ان کی روح قبض فرما لی۔

(روح المعانی)

 

(اور دوسری مثال) عمران (علیہ السلام) کی بیٹی مریم (علیہ السلام) کی، جس نے حفاظت کی اپنی شرمگاہ کی، سو ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی، اور اس نے تصدیق کی اپنے رب کی باتوں کی، اور اس کی کتابوں کی، اور وہ فرمانبرداری کرنے والیوں میں سے تھی۔ (۱۲)

تشریح: یعنی فرشتہ کے ذریعہ سے ایک روح پھونک دی۔ حضرت جبرئیل نے گریبان میں پھونک ماری جس کا نتیجہ استقرار حمل ہوا، اور حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۶۷۔ سُوْرَۃُ الْمُلْکِ

 

                تعارف

 

سورۂ ملک میں بنیادی طور پر تین مضامین بیان ہوئے ہیں:

(۱) ارض وسما پر حقیقی بادشاہت صرف اللہ کی ہے ، اسی کے ہاتھ میں موت و حیات، عزت و ذلت، فقر و غنی اور منع و عطا کا نظام ہے ، وہ علیم و خبیر ہے ، ذرے ذرے کا اسے علم ہے ، زمین میں چلنے پھرنے کے لئے اسی نے راستے بنائے ہیں، فضاؤں میں اڑتے ہوئے پرندوں کو وہی روکے ہوئے ہے ، ہر کسی کو روزی وہی دیتا ہے۔

(۲) رب العالمین کے وجود اور وحدانیت پر تکوینی دلائل ہیں، آسمان کی چھت، اس میں ستاروں کی قندیلیں، زمین کا فرش اور پانی کے بہتے ہوئے چشمے ایک حکیم و خبیر ذات کے وجود کی خبر دے رہے ہیں۔

(۳) قیامت کو جھٹلانے والوں کا انجام، وہ دوزخ جو جوش مار رہی ہو گی، یوں لگے گا کہ غصے کے مارے پھٹ ہی جائے گی، جب اس عذاب کو قریب سے دیکھیں گے تو ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے جسے تم طلب کیا کرتے تھے۔

اس سورت کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہیں، جن میں سے ایک حدیث وہ ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ابن ماجہ، نسائی، ابو داؤد اور ترمذی میں منقول ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں تیس آیات ہیں جو اپنے پڑھنے والے کے لئے سفارش کرتی ہیں، چنانچہ اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے ، اسے مانعہ اور منجیہ بھی کہا گیا ہے ، یعنی عذاب قبر سے بچانے والی، اسی لئے اکثر مشائخ کا معمول رہا ہے کہ وہ اسے نماز عشاء کے بعد بڑے اہتمام سے پڑھتے ہیں۔

(ماخوذ خلاصہ قرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۳۰        رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

بڑی برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں‌ ہے بادشاہی، اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۱)

وہ جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون ہے عمل میں سب سے بہتر۔ اور وہ غالب، بخشنے والا ہے۔ (۲)

تشریح: یعنی مرنے جینے کا سلسلہ اسی نے قائم کیا، ہم پہلے کچھ نہ تھے (اسے موت ہی سمجھو) پھر پیدا کیا، اس کے بعد موت بھیجی، پھر مرے پیچھے زندہ کر دیا۔ کما قال ”وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ” (بقرہ، رکوع٣، آیت:٢٨) موت و حیات کا یہ سارا سلسلہ اس لیے ہے کہ تمہارے اعمال کی جانچ کرے کہ کون برے کام کرتا ہے کون اچھے ، اور کون اچھے سے اچھے۔ پہلی زندگی میں یہ امتحان ہوا اور دوسری زندگی میں اس کا مکمل نتیجہ دکھلا دیا گیا۔ فرض کرو اگر پہلی زندگی نہ ہوتی تو عمل کون کرتا، اور موت نہ آتی تو لوگ مبداء و منتہٰی سے غافل اور بے فکر ہو کر عمل چھوڑ بیٹھتے اور دوبارہ زندہ نہ کیے جاتے تو بھلا برے کا بدلہ کہاں ملتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس نے سات آسمان بنائے تہہ در تہہ۔ تو اللہ کی تخلیق میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ پھر نگاہ لوٹا کر دیکھ، کیا تو کوئی شگاف دیکھتا ہے۔ (۳)

پھر دوبارہ نگاہ لوٹا کر دیکھ، وہ تیری طرف خوار ہو کر تھکی ماندہ لوٹ آئے گی۔ (۴)

تشریح: یعنی ممکن ہے ایک آدھ مرتبہ دیکھنے میں نگاہ خطا کر جائے ، اس لیے پوری کوشش سے بار بار دیکھ، کہیں کوئی رخنہ تو دکھائی نہیں دیتا خوب غور و فکر اور نظر ثانی کر کہ قدرت کے انتظام میں کہیں انگلی رکھنے کی جگہ تو نہیں۔ یاد رکھ! تیری نگاہ تھک جائے گی اور ذلیل و درماندہ ہو کر واپس آ جائے گی۔ لیکن خدائی مصنوعات و انتظامات میں کوئی عیب و قصور نہ نکال سکے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یقیناً ہم نے آراستہ کیا ہے آسمان دنیا کو چراغوں سے ، اور ہم نے اسے شیطانوں کے لیے مارنے کا آلہ بنایا، اور ہم نے ان کے لیے جہنم کا عذاب تیار کیا ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی آسمان کی طرف دیکھو! رات کے وقت ستاروں کی جگمگاہٹ سے کیسی رونق و شان معلوم ہوتی ہے۔ یہ قدرتی چراغ ہیں جن سے دنیا کے بہت سے منافع وابستہ ہیں۔ یہ مضمون سورہ ”حجر” وغیرہ میں کئی جگہ بہت تفصیل سے گزر چکا ہے۔

( تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے ان کے رب کی طرف سے جہنم کا عذاب ہے اور (یہ) بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ (۶)

جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو وہ وہاں سنیں گے چیخنا چلانا اور وہ (جہنم) جوش مار رہی ہو گی۔ (۷)

تشریح: یعنی اس وقت دوزخ کی آواز سخت کریہہ اور خوفناک ہو گی اور بے انتہا جوش و اشتعال سے ایسا معلوم ہو گا گویا غصہ میں آ کر پھٹی پڑتی ہے اعاذنا اللہ منہا بلطفہ وکرمہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

قریب ہے کہ غضب سے پھٹ پڑے۔ جب اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا، ان سے اس کے داروغہ پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ (۸)

تشریح: یہ پوچھنا اور زیادہ ذلیل و محجوب کرنے کے لیے ہو گا یعنی تم جو اس مصیبت میں آ کر پھنسے ہو، کیا کسی نے تم کو متنبہ نہ کیا تھا؟ اور ڈرایا نہ تھا کہ اس راستے سے مت چلو ورنہ سیدھے دوزخ میں گرو گے جہاں ایسے ایسے عذاب ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے ہاں (کیوں نہیں) ہمارے پاس ضرور ڈرانے والا آیا، سو ہم نے جھٹلایا اور ہم نے کہا کہ اللہ نے کچھ نازل نہیں کیا تم صرف بڑی گمراہی میں‌ہو۔ (۹)

تشریح: یعنی کھسیانے ہو کر حسرت و ندامت سے جواب دیں گے کہ بیشک ڈرانے والے آئے تھے مگر ہم نے ان کی بات نہ مانی برابر جھٹلایا کیے کہ تم سب غلط کہتے ہو۔ نہ اللہ نے تم کو بھیجا نہ تم پر وحی اتاری بلکہ تم عقل و فہم کے راستہ سے بہک کر بڑی سخت گمراہی میں جا پڑے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا ہم سمجھتے تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی کیا خبر تھی کہ یہ ڈرانے والے ہی سچے نکلیں گے۔ اگر ہم اس وقت کسی ناصح کی بات سنتے یا عقل سے کام لے کر معاملہ کی حقیقت کو سمجھ لیتے تو آج دوزخیوں کے زمرہ میں کیوں شامل ہوتے اور تم کو یہ طعن دینے کا موقع کیوں ملتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تو لعنت ہے دوزخیوں کے لیے۔ (۱۱)

تشریح: یعنی خود اقرار کر لیا کہ بیشک ہم مجرم ہیں یوں ہی بے قصور ہم کو دوزخ میں نہیں ڈالا جا رہا لیکن اس نا وقت کے اقرار و اعتراف سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ ارشاد ہو گا ”فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ ” (اب دفع ہو جائیں دوزخ والے ) ان کے لیے جوارِ رحمت میں کہیں ٹھکانا نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جو لوگ بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی اللہ کو دیکھا نہیں، مگر اس پر اور اس کی صفات پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اور اس کی عظمت و جلال کے تصور سے لرزتے اور اس کے عذاب کا خیال کر کے تھرتھراتے ہیں۔ یا ”بالغیب” کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے مجمع سے الگ ہو کر خلوت و عزلت میں اپنے رب کو یاد کر کے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم اپنی بات چھپاؤ یا اس کو بلند آواز سے کہو، وہ بیشک جاننے والا ہے دلوں کے بھید کو۔ (۱۳)

تشریح: یعنی گو تم اس کو نہیں دیکھتے مگر وہ تم کو دیکھ رہا ہے اور تمہاری ہر کھلی چھپی بات خلوت میں ہو یا جلوت میں سب کو جانتا ہے بلکہ دلوں میں اور سینوں میں جو خیالات گزرتے ہیں ان کی بھی خبر رکھتا ہے۔ غرض وہ تم سے غائب ہے پر تم اس سے غائب نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ اور وہ بڑا باریک بین، بڑا باخبر ہے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی تمہارا اور تمہارے افعال و اقوال ہر چیز کا خالق و مختار وہ ہے اور خالق و مختار جس چیز کو پیدا کرے ضروری ہے کہ اس کا پورا علم اسے حاصل ہو، ورنہ پیدا کرنا ممکن نہیں، پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جس نے بنایا و ہی نہ جانے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو کیا مسخر تا کہ تم اس کے راستوں میں چلو، اور اس کے رزق میں سے کھاؤ، اور اسی کی طرف جی اٹھ کر جانا ہے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی زمین کو تمہارے سامنے کیسا پست و ذلیل و مسخر و منقاد کر دیا کہ جو چاہو اس میں تصرف کرو تو چاہے کہ اس پر اور اس کے پہاڑوں پر چلو پھرو، اور روزی کماؤ، مگر اتنا یاد رکھو کہ جس نے روزی دی ہے اسی کی طرف پھر لوٹ کر جانا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم (اس سے ) بے خوف ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے ، تو ناگہاں وہ جنبش کرنے لگے۔ (۱۶)

تشریح: پہلے انعامات یاد دلائے تھے۔ اب شانِ قہر و انتقام یاد دلا کر ڈرانا مقصود ہے یعنی زمین بیشک تمہارے لیے مسخر کر دی گئی۔ مگر یاد رہے اس پر حکومت اسی آسمان والے کی ہے وہ اگر چاہے تو تم کو زمین میں دھنسا دے۔ اس وقت زمین بھونچال سے لرزنے لگے اور تم اس کے اندر اترتے چلے جاؤ، لہٰذا آدمی کو جائز نہیں کہ اس مالک مختار سے نڈر ہو کر شرارتیں شروع کر دے اور اس کے ڈھیل دینے پر مغرور ہو جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم (اس سے ) بے خوف ہو؟ جو آسمانوں میں ہے کہ وہ تم پر پتھروں کی بارش بھیجے ؟ سو تم جلد جان لو گے میرا ڈرانا کیسا ہے۔ (۱۷)

تشریح: یعنی بیشک زمین پر چلو پھرو اور روزی کماؤ، لیکن خدا کو نہ بھولو ورنہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر ایک سخت آندھی بھیج دے۔ یا پتھروں کا مینہ برسا دے۔ پھر تم کیا کرو گے ساری دوڑ دھوپ یوں ہی رکھی رہ جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بالتحقیق ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے تو (یاد کرو) کیسا ہوا میرا عذاب!۔ (۱۸)

تشریح: یعنی ”عاد” و ”ثمود” وغیرہ کے ساتھ جو معاملہ ہو چکا ہے اس سے عبرت پکڑو۔ دیکھ لو! ان کی حرکات پر ہم نے انکار کیا تھا تو وہ انکار کیسے عذاب کی صورت میں ظاہر ہو کر رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو پر پھیلاتے اور سکیڑتے نہیں دیکھا؟ انہیں (کوئی) نہیں تھام سکتا اللہ کے سوا۔ بیشک وہ ہر شے کو دیکھنے والا ہے۔ (۱۹)

تشریح: پہلے آسمان و زمین کا ذکر ہوا تھا۔ یہاں درمیانی چیز کا ذکر ہے یعنی خدا کی قدرت دیکھو پرندے زمین و آسمان کے درمیان کبھی پر کھول کر اور کبھی بازو سمیٹے ہوئے کس طرح اڑتے رہتے ہیں۔ اور باوجود جسم ثقیل مائل الی المرکز ہونے کے نیچے نہیں گر پڑتے نہ زمین کی قوت جاذبہ اس ذرا سے پرندے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ بتلاؤ رحمان کے سوا کس کا ہاتھ ہے جس نے انہیں فضاء میں تھام رکھا ہے۔ بیشک رحمان نے اپنی رحمت و حکمت سے ان کی ساخت ایسی بنائی اور اس میں وہ قوت رکھی جس سے وہ بے تکلف ہوا میں گھنٹوں ٹھہر سکیں۔ وہ ہی ہر چیز کی استعداد کو جانتا اور تمام مخلوق کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے۔ شاید پرندوں کی مثال بیان کرنے سے یہاں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ اللہ آسمان سے عذاب بھیجنے پر قادر ہے اور کفار اپنے کفر و شرارت سے اس کے مستحق بھی ہیں۔ لیکن جس طرح رحمان کی رحمت نے پرندوں کو ہوا میں روک رکھا ہے ، عذاب بھی اسی کی رحمت سے رکا ہوا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کرے اللہ کے سوا؟ کافر نہیں مگر دھوکے میں (محض دھوکے میں ہیں)۔ (۲۰)

تشریح: یعنی منکر سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے باطل معبودوں اور فرضی دیوتاؤں کی فوج ان کو اللہ کے عذاب اور آنے والی آفت سے بچا لے گی؟ خوب سمجھ لو! رحمان سے الگ ہو کر کوئی مدد کو نہ پہنچے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا کون ہے وہ جو تمہیں رزق دے اگر وہ اپنا رزق روک لے ؟ بلکہ وہ سرکشی اور بھاگنے میں ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اللہ اگر روزی کے سامان بند کر لے تو کس کی طاقت ہے جو تم پر روزی کا دروازہ کھول دے ؟

دل میں یہ لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ سے الگ ہو کر نہ کوئی نقصان کو روک سکتا ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے۔ مگر محض شرارت اور سرکشی ہے کہ توحید و اسلام کی طرف آتے ہوئے بدکتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جو شخص اپنے منہ کے بل گرتا ہوا (اوندھا) چلتا ہے زیادہ ہدایت یافتہ ہے ؟ وہ جو سیدھے راستہ پر سیدھا چلتا ہے ؟ (۲۲)

تشریح: یعنی ظاہری کامیابی کی راہ طے کر کے وہی مقصد اصلی تک پہنچے گا جو سیدھے راستہ پر آدمیوں کی طرح سیدھا ہو کر چلے۔ جو شخص ناہموار راستہ پر اوندھا ہو کر منہ کے بل چلتا ہو اس کے منزل مقصود تک پہنچنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ یہ مثال ایک موحد اور ایک مشرک کی ہوئی۔ محشر میں بھی دونوں کی چال میں ایسا ہی فرق ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور اس نے بنائے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل۔ تم بہت کم شکر کرتے ہو۔ (۲۳)

تشریح: یعنی اللہ نے سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں، اور سمجھنے کے لیے دل دیئے تھے کہ اس کا حق مان کر ان قوتوں کو ٹھیک مصرف میں لگاتے ، اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کرتے مگر ایسے شکر گزار بندے بہت کم ہیں۔ کافروں کو دیکھ لو کہ ان نعمتوں کا کیسا حق ادا کیا؟ اس کی دی ہوئی قوتیں اسی کے مقابلہ میں استعمال کیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی ابتداء بھی اس سے ہوئی انتہاء بھی اسی پر ہو گی، جہاں سے آئے تھے وہیں جانا ہے۔ چاہیے تھا کہ اس سے ایک دم غافل نہ ہوتے اور ہمہ وقت اس کی فکر رکھتے کہ مالک کے سامنے خالی ہاتھ نہ جائیں مگر ایسے بندے بہت تھوڑے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو؟ (۲۵)

آپ فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ علم اللہ کے پاس ہے۔ اور اس کے سوا نہیں کہ میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ (۲۶)

تشریح: یعنی وقت کی تعیین میں نہیں کر سکتا۔ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ البتہ جو چیز یقیناً آنے والی ہے اس سے آگاہ کر دینا اور خوفناک مستقبل سے ڈرا دینا میرا فرض تھا وہ میں ادا کر چکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب وہ اسے نزدیک آتا دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے جنہوں نے کفر کیا اور کہا جائے گا یہ ہے وہ جو تم مانگتے تھے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی اب تو جلدی مچا رہے لیکن جس وقت وہ وعدہ قریب آ لگے گا، بڑے بڑے سرکشوں کے منہ بگڑ جائیں گے اور چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بھلا دیکھو تو اگر اللہ ہلاک کر دے مجھے اور (انہیں) جو میرے ساتھ ہیں یا ہم پر رحم فرمائے تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا؟ (۲۸)

تشریح: کفار تمنا کرتے تھے کہ کہیں جلد مر مرا کر ان کا قصہ ختم ہو جائے (العیاذ باللہ) اس کا جواب دیا کہ فرض کرو تمہارے زعم کے موافق میں اور میرے ساتھی دنیا میں سب ہلاک کر دیے جائیں یا ہمارے عقیدے کے موافق مجھ کو اور میرے رفقاء کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے کامیاب و  با مراد کرے۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، مگر تم کو اس سے کیا فائدہ ہے۔ ہمارا انجام دنیا میں جو کچھ ہو، بہرحال آخرت میں بہتری ہے کہ اس کے راستہ میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تم اپنی فکر کرو کہ اس کفر و سرکشی پر جو دردناک عذاب آنا یقین ہے ، اس سے کون بچائے گا۔ ہمارا اندیشہ چھوڑ دو، اپنی فکر کرو، کیونکہ کافر کسی طرح بھی خدائی عذاب سے نہیں چھوٹ سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں وہی رحمٰن ہے ہم ایمان لائے اس پر، اور اسی پر ہم نے بھروسہ کیا۔ سو تم جلد جان لو گے کون کھلی گمراہی میں ہے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی جب ہمارا یمان اس پر ہے تو ایمان کی بدولت نجات یقینی ہے اور جب ہم صحیح معنی میں اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں تو مقاصد میں کامیابی یقینی ہے۔ ”وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہ، اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ” تم میں دونوں چیزیں نہیں، نہ ایمان، نہ توکل، پھر تو کیسے بے فکر ہو؟

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بھلا دیکھو تو اگر ہو جائے تمہارا پانی نیچے کو اترا ہوا (خشک) تو کون ہے جو تمہارے پاس (سوت کا) رواں پانی لے کر آئے گا؟ (۳۰)

تشریح: یعنی زندگی اور ہلاکت کے سب اسباب اسی اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ ایک پانی ہی کو لے لو، جس سے ہر چیز کی زندگی ہے ، اگر فرض کرو! چشموں اور کنوؤں کا پانی خشک ہو کر زمین کے اندر اتر جائے جیسا کہ اکثر موسم گرما میں پیش آ جاتا ہے تو اس کی قدرت ہے کہ موتی کی طرح صاف شفاف پانی اس قدر کثیر مقدار میں مہیا کر دے جو تمہاری زندگی اور بقاء کے لیے کافی ہو۔ لہٰذا ایک مومن متوکل کو اسی خالق الکل مالک علی الاطلاق پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ یہیں سے یہ بھی سمجھ لو کہ جب ہدایت کے سب چشمے خشک ہو چکے ، اس وقت ہدایت و معرفت کا خشک نہ ہونے والا چشمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جاری کر دینا بھی اسی رحمانِ مطلق کا کام ہو سکتا ہے۔ جس نے اپنے فضل و انعام سے تمام جانداروں کی ظاہری و باطنی زندگی کے سامان پیدا کیے ہیں اگر فرض محال یہ چشمہ خشک ہو جائے ، جیسا کہ اشقیاء کی تمنا ہے ، تو کون ہے جو مخلوق کے لیے ایسا پاک و صاف نتھرا پانی مہیا کر سکے۔ تم سورۃ الملک وللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۶۸۔ سُوْرَۃُ الْقَلَمِ

 

                تعارف

 

اس سورت کی ابتدا میں اللہ نے قلم کی قسم کھائی ہے اس لئے اسے سورۂ قلم کہا جاتا ہے ، یہ قلم کی عظمت ا ورا س کے عظیم نعمت ہونے کو ظاہر کرتی ہے ، حدیث میں بھی قلم کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے ، سورۂ قلم میں تین مضامین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے :

(۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت اور آپ کے اخلاق و مناقب کا بیان ہے ، سب سے پہلے تو قسم کھا کر فرمایا گیا کہ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں، جیسا کہ آپ کے مخالفین کہتے ہیں، اور آپ کے لئے بے انتہا اجر ہے اور آپ کے اخلاق عظیم ہیں، مسلم، ابو داؤد اور نسائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا خلق قرآن ہے ، اس سورت میں آپ کے اخلاق و مناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مخالفین کی اخلاقی پستی اور کج فکری بھی بیان کی گئی ہے۔

(۲) دوسرا مضمون جسے اس سورت میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ، وہ اصحاب الجنہ (باغ والوں کا قصہ ہے ) یہ قصہ عربوں   میں بہت مشہور تھا، یہ باغ یمن کے قریب ہی تھا، اس کا مالک اس کی پیداوار میں سے غرباء پر بھی خرچ کیا کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس باغ کی وارث بنی تو انہوں نے اپنے اخراجات اور مجبوریوں کا بہانہ بنا کر مساکین کو محروم رکھنے اور ساری پیداوار سمیٹ کر گھر لے جانے کی منصوبہ بندی کی، اللہ نے اس باغ کو تباہ کر دیا، اس قصہ میں ان لوگوں کے لئے عبرت کا بڑا سامان ہے ، جو اپنی ثروت اور غناء سے اکیلے ہی مستفید ہونا چاہتے ہیں، اور ان کا بخل یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کے مال و متاع سے کسی اور کو بھی فائدہ پہنچے ، کفار کے لئے عبرت آموز مثال بیان کرنے کے بعد یہ سورت متقین کا انجام بھی بتاتی ہے ، اور سوا ل کرتی ہے کہ محسن اور مجرم، فرمانبردار اور نافرمان، باغی اور وفادار دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔

(۳) تیسرا اہم مضمون جو سورۂ قلم بیان کرتی ہے وہ آخرت کے بارے میں ہے ، فرمایا گیا کہ جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے ، کشف ساق یعنی پنڈلی کھولے جانے سے علماء نے قیامت کے شدائد اور ہولناکیاں مراد لی ہیں، آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی ایذاؤں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔

(ماخوذ خلاصہ قرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۵۲        رکوعات:۲

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

نون، قسم ہے قلم کی، اور جو وہ (فرشتے ، اہل قلم) لکھتے ہیں۔ (۱) آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں (۲)

تشریح: مشرکین مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو (العیاذ باللہ) دیوانہ کہتے تھے۔ کوئی کہتا کہ شیطان کا اثر ہے جو یک بیک تمام قوم سے الگ ہو کر ایسی باتیں کرنے لگے ہیں جن کو کوئی نہیں مان سکتا، حق تعالیٰ نے اس خیال باطل کی تردید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی فرما دی۔ یعنی جس پر اللہ تعالیٰ کے ایسے ایسے فضل و انعام ہوں جن کو ہر آنکھ والا مشاہدہ کر رہا ہے۔ مثلاً اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور حکمت و دانائی کی باتیں۔ مخالف و موافق کے دل میں اس قدر قوی تاثیر اور اتنے بلند اور پاکیزہ اخلاق کیا اسے دیوانہ کہنا خود اپنی دیوانگی کی دلیل نہیں؟ دنیا میں بہت دیوانے ہوئے ہیں اور کتنے عظیم الشان مصلحین گزرے ہیں جن کو ابتداء ً قوم نے دیوانہ کہہ کر پکارا ہے۔ مگر قلم نے تاریخی معلومات کا جو ذخیرہ بطونِ اوراق میں جمع کیا ہے وہ ببانگ دہل شہادت دیتا ہے کہ واقعی دیوانوں، اور ان دیوانہ کہلانے والوں کے حالات میں کس قدر زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔ آج آپ کو (العیاذ باللہ) مجنون کے لقب سے یاد کرنا بالکل وہی رنگ رکھتا ہے کہ جس رنگ میں دنیا کے تمام جلیل القدر اور اولوالعزم مصلحین کو ہر زمانہ کے شریروں اور بے عقلوں نے یاد کیا ہے۔ لیکن جس طرح تاریخ نے ان مصلحین کے اعلیٰ کارناموں پر بقاء و دوام کی مہر ثبت کی، اور ان مجنون کہنے والوں کا نام و نشان باقی نہ چھوڑا۔ قریب ہے کہ قلم اور اس کے ذریعہ سے لکھی ہوئی تحریریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثال کارناموں اور علوم و معارف کو ہمیشہ کے لیے روشن رکھیں گی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ بتلانے والوں کا وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ کر رہے گا۔ ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و دانائی کی داد دے گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ترین انسان ہونے کو بطور ایک اجماعی عقیدہ کے تسلیم کرے گی۔ بھلا خداوند قدوس جس کی فضیلت و برتری کو ازل الآزال میں اپنے قلم نور سے لوحِ محفوظ کی تختی پر نقش کر چکا، کس کی طاقت ہے کہ محض مجنون و مفتون کی پھبتیاں کس کر اس کے ایک شوشہ کو مٹا سکے ؟ جو ایسا خیال رکھتا ہو پرلے درجہ کا مجنون یا جاہل ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور بے شک آپ کے لیے اجر ہے ختم نہ ہونے والا۔ (۳)

تشریح: یعنی آپ غمگین نہ ہوں۔ ان کے دیوانہ کہنے سے آپ کا اجر بڑھتا ہے ، اور غیر محدود فیض ہدایت بنی نوع انسان کو آپ کی ذات سے پہنچنے والا ہے ، اس کا بے انتہاء اجرو ثواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقیناً ملنے والا ہے ، کیا دیوانوں اور پاگلوں کا مستقبل ایسا پائدار اور شاندار کسی نے دیکھا ہے ؟ یا کسی مجنون کی اسکیم اس طرح کامیاب ہوتے سنی ہے ؟ پھر جس کا رتبہ اللہ کے ہاں اتنا بڑا ہو اس کو چند احمقوں کے دیوانہ کہنے کی کیا پروا ہونی چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بے شک آپ خلق عظیم پر ہیں۔ (۴)

تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ نے جن اعلیٰ اخلاق و ملکات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا، کیا دیوانوں میں ان اخلاق و ملکات کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ ایک دیوانے کے اقوال و افعال میں قطعاً نظم و ترتیب نہیں ہوتی، نہ اس کا کلام اس کے کاموں پر منطبق ہوتا ہے ، برخلاف اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان قرآن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و اخلاق قرآن کی خاموش تفسیر۔ قرآن جس نیکی، جس خوبی اور بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں فطرتًا موجود، اور جس بدی وزشتی سے روکتا ہے آپ طبعاً اس سے نفور و بیزار ہیں۔ پیدائشی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساخت اور تربیت ایسی واقع ہوئی ہے کہ آپ کی کوئی حرکت اور کوئی چیز حد تناسب و اعتدال سے ایک انچ ادھر ادھر ہٹنے نہیں پاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق اجازت نہ دیتا تھا کہ جاہلوں اور کمینوں کے طعن و تشنیع پر کان دھریں، جس شخص کا خلق اس قدر عظیم اور مطمح نظر اتنا بلند ہو، بھلا وہ کسی مجنون کے مجنون کہہ دینے پر کیا التفات کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے دیوانہ کہنے والوں کی نیک خواہی اور درد مندی میں اپنے کو گھلائے ڈالتے تھے جس کی بدولت ”فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ” کا خطاب سننے کی نوبت آتی تھی۔ فی الحقیقت اخلاق کی عظمت کا سب سے زیادہ عمیق پہلو یہ ہے کہ آدمی دنیا کی ان حقیر ہستیوں سے معاملہ کرتے وقت خداوند قدوس کی عظیم ہستی سے غافل و ذاہل نہ ہو۔ جب تک یہ چیز قلب میں موجود رہے گی تمام معاملات عدل و اخلاق کی میزان میں پورے اتریں گے۔ کیا خوب فرمایا شیخ جنید بغدادی نے ”سمی خلقہ عظیما اذلم تکن لہ ہمۃً سوی اللہ تعالٰی عاشر الخلق بِخُلْقِہٖ وزایلہم بقلبہ فکان ظاہرہ مع الخلق وباطنہ مع الحق” وفی وصیتہ بعض الحکماء ”عَلَیْکَ بِالْخُلْقِ مَعَ الْخَلْقِ وَبِالصِّدْقِ مَعَ الْحَقِّ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ جلد دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔ (۵) (کہ) تم میں سے کون دیوانہ ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی دل میں تو پہلے سمجھتے ہیں، لیکن عنقریب فریقین کو آنکھوں سے نظر آ جائے گا، دونوں میں سے کون ہوشیار اور عاقبت اندیش تھا اور کس کی عقل ماری گئی تھی جس کی وجہ سے پاگلوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک آپ کا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہو، ا ور وہ خوب جانتا ہے ہدایت یافتہ لوگوں کو۔ (۷)

تشریح: یعنی پوری طرح علم تو اللہ ہی کو ہے کہ کون لوگ راہ پر آنے والے ہیں اور کون بھٹکنے والے ، لیکن نتائج جب سامنے آئیں گے تو سب کو نظر آ جائے گا کہ کون کامیابی کی منزل پر پہنچا اور کون شیطان کی رہزنی کی بدولت ناکام و نامراد رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ جھٹلانے والوں کا کہا نہ مانیں۔ (۸) وہ چاہتے ہیں کاش آپ نرمی کریں تووہ (بھی) نرمی کریں۔ (۹)

تشریح: یعنی راہ پر آنے والے نہ آنے والے سب اللہ کے علم محیط میں طے شدہ ہیں۔ لہٰذا دعوت و تبلیغ کے معاملہ میں کچھ رعایت کی ضرورت نہیں۔ جس کو راہ پر آنا ہو گا آرہے گا اور جو محروم ازلی ہے ، وہ کسی لحاظ و مروت سے ماننے والا نہیں۔ کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بت پرستی کی نسبت اپنا سخت رویہ ترک کر دیں اور ہمارے معبودوں کی تردید نہ کریں، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی تعظیم کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور و طریق اور مسلک و مشرب سے متعارض نہ ہوں گے۔ ممکن تھا کہ ایک مصلح اعظم کے دل میں جو ”خلق عظیم” پر پیدا کیا گیا ہے۔ نیک نیتی سے یہ خیال آ جائے کہ تھوڑی سی نرمی اختیار کرنے اور ڈھیل دینے سے کام بنتا ہے تو برائے چند نرم روش اختیار کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مکذبین کا کہنا نہ مانیے۔ ان کی غرض محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھیلا کرنا ہے۔ ایمان لانا اور صداقت کو قبول کرنا مقصود نہیں۔ آپ کی بعثت کی اصلی غرض اس صورت میں حاصل نہیں ہوتی۔ آپ تو ہر طرف سے قطع نظر کر کے اپنا فرض ادا کرتے رہیے۔ کسی کو منوا دینے اور راہ پر لے آنے کے آپ ذمہ دار نہیں۔ (تنبیہ) ”مداہنت” اور ”مدارات” میں بہت باریک فرق ہے۔ اول الذکر مذموم ہے۔ اور آخرالذکر محمود۔ فلا تغفل ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ بے وقعت بڑی قسمیں کھانے والے کا کہا نہ مانیں۔ (۱۰) عیب نکالنے والے ، چغلی لیے (چغلیاں لگاتا) پھرنے والے کا۔ (۱۱) مال میں بخل کرنے والے ، حد سے بڑھنے والے گنہگار کا۔ (۱۲) سخت خو، اس کے بعد بد اصل۔ (۱۳)

تشریح: یعنی جس کے دل میں خدا کے نام کی عظمت نہیں، جھوٹی قسم کھا لینا ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور چونکہ لوگ اس کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ اس لیے یقین دلانے کے لیے بار بار قسمیں کھا کر بے قدر اور ذلیل ہوتا ہے۔

ان خصلتوں کے ساتھ بدنام اور رسوائے عالم بھی ہے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”کہ یہ سب کافر کے وصف ہیں آدمی اپنے اندر دیکھے اور یہ خصلتیں چھوڑے۔ ” (تنبیہ) ”زنیم” کے معنی بعض سلف کے نزدیک ولد الزنا اور حرام زادے کے ہیں۔ جس کافر کی نسبت یہ آیتیں نازل ہوئیں وہ ایسا ہی تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس لیے کہ وہ مال والا، ا ور اولاد والا ہے۔ (۱۴) جب اسے ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے یہ اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (۱۵) ہم جلد داغ دیں گے اس کی ناک پر (۱۶)

تشریح: یعنی ایک شخص اگر دنیا میں طالع مند اور خوش قسمت نظر آتا ہے ، مثلاً مال و اولاد وغیرہ رکھتا ہے تو محض اتنی بات سے اس لائق نہیں ہو جاتا کہ اس کی بات مانی جائے۔ اصل چیز انسان کے اخلاق و عادات ہیں، جس شخص میں شرافت اور خوش اخلاقی نہیں، اللہ والوں کا کام نہیں کہ اس کی ابلہ فریب باتوں کی طرف التفات کریں۔

کہتے ہیں قریش کا ایک سردار ولید بن مغیرہ تھا اس میں یہ سب اوصاف مجتمع تھے اور ناک پر داغ دینے سے مراد اس کی رسوائی اور روسیاہی ہے۔ شاید دنیا میں حسی طور پر بھی کوئی داغ پڑا ہو یا آخرت میں پڑے گا۔

مال و اولاد کی کثرت کوئی مقبولیت کی علامت نہیں، نہ اللہ کے ہاں اس کی کچھ قدر و قیمت ہے ، لہٰذا کفار مکہ اس چیز پر مغرور نہ ہوں یہ تو اللہ کی طرف سے ان کی آزمائش اور جانچ ہے جیسے پہلے بعض لوگوں کی جانچ کی گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک ہم نے انہیں آزمایا جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی  کہ ہم صبح ہوتے اس کا پھل ضرور توڑ لیں گے۔ (۱۷) اور انہوں نے ان شاء اللہ نہ کہا۔ (۱۸)

تشریح: کئی بھائی جن کے باپ نے ترکہ میں میوے کا ایک باغ چھوڑا تھا، اس میں کھیتی بھی ہوتی ہو گی۔ سارا گھر اس کی پیداوار سے آسودہ تھا، باپ کے زمانہ میں عادت تھی کہ جس دن میوہ توڑا جاتا یا کھیتی کٹتی تو شہر کے سب فقیر محتاج جمع ہو جاتے۔ یہ سب کو تھوڑا بہت دے دیتا، اسی سے برکت تھی، اس کے انتقال کے بعد بیٹوں کو خیال ہوا کہ فقیر جو اتنا مال لے جاتے ہیں، وہ اپنے ہی کام آئے تو خوب ہو۔ کیونکہ ہم ایسی تدبیر نہ کریں کہ فقیروں کو کچھ دینا نہ پڑے ، اور ساری پیداوار گھر میں آ جائے۔ پھر آپس میں مشورہ کر کے یہ رائے قرار پائی کہ صبح سویرے ہی توڑ کر گھر لے آئیں۔ فقیر جائیں گے تو وہاں کچھ نہ پائیں گے۔ اور اپنی اس تدبیر پر ایسا یقین جمایا کہ ”انشاء اللہ” بھی نہ کہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ان پر تیرے رب کی طرف سے ایک عذاب پھر گیا اور وہ سوئے ہوئے تھے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی رات کو بگولا اٹھا آگ لگی یا اور کوئی آفت پڑی، سب کھیت اور باغ صاف ہو رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو وہ (باغ) صبح کو رہ گیا جیسے ایک کٹا ہوا کھیت۔ (۲۰) تو وہ صبح ہوتے ایک دوسرے کو پکارنے لگے۔ (۲۱) کہ صبح سویرے اپنے کھیت پر چلو اگر تم کاٹنے والے ہو (اگر تمہیں کھیتی کاٹنی ہے )۔ (۲۲) پھر وہ چلے اور وہ آپس میں چپکے چپکے کہتے تھے۔ (۲۳)

کہ آج وہاں تم پر کوئی مسکین داخل نہ ہونے پائے۔ (۲۴)

اور وہ صبح سویرے چلے (اس زعم کے ساتھ) کہ وہ بخیلی پر قادر ہیں۔ (۲۵) پھر جب انہوں نے اسے دیکھا تو بولے بے شک ہم راہ بھول گئے ہیں۔ (۲۶)

بلکہ ہم محروم (بدنصیب) ہو گئے ہیں۔ (۲۷) کہا ان کے بہترین آدمی نے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا تم تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ (۲۸)

تشریح: وہ زمین کھیتی اور درختوں سے ایسی صاف ہو چکی تھی کہ وہاں پہنچ کر پہچان نہ سکے ، سمجھے کہ ہم راہ بھول کر کہیں اور نکل آئے۔ پھر جب غور کیا تو سمجھے کہ نہیں، جگہ تو وہی ہے۔ مگر ہماری قسمت پھوٹ گئی اور حق تعالیٰ کی درگاہ سے ہم محروم کیے گئے۔

منجھلا بھائی ان میں زیادہ ہشیار تھا۔ اس نے مشورہ کے وقت متنبہ کیا ہو گا کہ اللہ کو مت بھولو۔ یہ سب اسی کا انعام سمجھو اور فقیر محتاج کی خدمت سے دریغ نہ کرو۔ جب کسی نے اس کی بات پر کان نہ دھرا، چپ ہو رہا اور ان ہی کا شریک حال ہو گیا۔ اب یہ تباہی دیکھ کر اس نے وہ پہلی بات یاد دلائی۔

(تفسیر عثمانی)

 

وہ بولے پاک ہے ہمارا رب، بے شک ہم ظالم تھے۔ (۲۹) پھر متوجہ ہوا ان میں سے ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے (لگے ایک دوسرے کو ملامت کرنے )۔ (۳۰)

تشریح: اب اپنی تقصیر کا اعتراف کر کے رب کی طرف رجوع ہوئے اور جیسا کہ عام مصیبت کے وقت قاعدہ ہے ایک دوسرے کو الزام دینے لگے ، ہر ایک دوسرے کو اس مصیبت اور تباہی کا سبب گردانتا تھا۔ (۳۰)

وہ بولے ہائے ہماری خرابی، بے شک ہم (ہی) سرکش تھے۔ (۳۱) امید ہے ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلے میں دے ، بے شک ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ (۳۲)

تشریح: آخر میں سب مل کر کہنے لگے کہ واقعی ہماری سب کی زیادتی تھی کہ ہم نے فقیروں محتاجوں کا حق مارنا چاہا اور حرص و طمع میں آ کر اصل بھی کھو بیٹھے۔ یہ جو کچھ خرابی آئی اس میں ہم ہی قصور وار ہیں، مگر اب بھی ہم اپنے رب سے نا امید نہیں کیا عجب ہے وہ اپنی رحمت سے پہلے باغ سے بہتر باغ ہم کو عطا کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یوں ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب البتہ سب سے بڑا ہے۔ کاش وہ جانتے ہوتے (۳۳)

تشریح: یعنی یہ تو دنیا کے عذاب کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا جسے کوئی ٹال نہ سکا۔ بھلا آخرت کی اس بڑی آفت کو تو کون ٹال سکتا ہے۔ سمجھ ہو تو آدمی یہ بات سمجھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک پرہیز گاروں کے لیے ان کے رب کے ہاں نعمتوں کے باغات ہیں۔ (۳۴)

تشریح: یعنی دنیا کے باغ و بہار کو کیا لیے پھرتے ہو جنت کے باغ ان سے کہیں بہتر ہیں جن میں ہر قسم کی نعمتیں جمع ہیں۔ وہ خاص متقین کے لیے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا ہم مسلمانوں کو کر دیں گے مجرموں کی طرح (محروم) ؟ (۳۵) تمہیں کیا ہوا، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟ (۳۶)

تشریح: کفار مکہ نے غرور و تکبر سے اپنے دل میں یہ ٹھہرا رکھا تھا کہ اگر قیامت کے دن مسلمانوں پر عنایت و بخشش ہو گی تو ہم پر ان سے بہتر اور بڑھ کر ہو گی۔ اور جس طرح دنیا میں ہم کو اللہ نے عیش و رفاہیت میں رکھا ہے وہاں بھی یہ ہی معاملہ رہے گا۔ اس کو فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اگر ایسا ہو تو یہ مطلب ہو گا کہ ایک وفادار غلام جو ہمیشہ اپنے آقا کی حکم برداری کے لیے تیار رہتا ہے ، اور ایک جرائم پیشہ باغی دونوں کا انجام یکساں ہو جائے ، بلکہ مجرم اور باغی، وفاداروں سے اچھے رہیں یہ وہ بات ہے جس کو عقل سلیم اور فطرتِ صحیحہ رد کرتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے کہ اس میں سے تم پڑھتے ہو۔ (۳۷)

کہ بے شک اس میں تمہارے لیے (ہو گا) جو تم پسند کرتے ہو۔ (۳۸) کیا تمہارے لیے ہمارے ذمے کوئی پختہ عہد ہے جو قیامت کے دن تک پہنچنے والا ہے۔ (۳۹)

تو ان سے پوچھ ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ؟ (۴۰) یا ان کے شریک ہیں ؟تو چاہئیے کہ وہ اپنے شریکوں کو لائیں اگر وہ سچے ہیں۔ (۴۱)

تشریح: یعنی یہ بات کہ مسلم اور مجرم دونوں برابر کر دیے جائیں ظاہر ہے عقل و فطرت کے خلاف ہے۔ پھر کیا کوئی نقلی دلیل اس کی تائید میں تمہارے پاس ہے ؟ کیا کسی معتبر کتاب میں یہ مضمون پڑھتے ہو کہ جو تم اپنے لیے پسند کر لو گے وہی ملے گا؟ اور تمہاری من مانی خواہشات پوری کی جائیں گی۔ یا اللہ نے قیامت تک کے لیے کوئی قسم کھا لی ہے کہ تم جو کچھ اپنے دل سے ٹھہرا لو گے وہی دیا جائے گا؟ اور جس طرح آج عیش و رفاہیت میں ہو۔ قیامت تک اسی حال میں رکھے جاؤ گے ؟ جو شخص ان میں سے ایسا دعویٰ کرے اور اس کے ثابت کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے ، لاؤ، اسے سامنے کرو۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ کہاں سے کہتا ہے۔

یعنی اگر عقلی و نقلی دلیل کوئی نہیں، محض جھوٹے دیوتاؤں کے بل بوتے پر یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ وہ ہم کو یوں کر دیں گے اور یوں مرتبے دلا دیں گے ، کیونکہ وہ خود خدائی کے شریک اور حصہ دار ہیں تو اس دعوے میں ان کا سچا ہونا اسی وقت ثابت ہو گا جب وہ ان شرکاء کو خدا کے مقابلہ پر بلا لائیں اور اپنی من مانی کارروائی کرا دیں۔ لیکن یاد رہے کہ وہ معبود عابدوں سے زیادہ عاجز اور بے بس ہیں۔ وہ تمہاری کیا مدد کریں گے ، خود اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن پنڈلی سے (پردہ) کھول دیا جائے گا اور وہ سجدوں کے لیے بلائے جائیں گے تو وہ نہ کر سکیں گے۔ (۴۲)

تشریح: اس کا قصہ حدیث شیخین میں مرفوعاً اس طرح آیا ہے کہ حق تعالیٰ میدانِ قیامت میں اپنی ساق ظاہر فرمائے گا ”ساق” (پنڈلی) کو کہتے ہیں اور یہ کوئی خاص صفت یا حقیقت ہے صفات و حقائق الٰہیہ میں سے جس کو کسی خاص مناسبت سے ”ساق” فرمایا۔ جیسے قرآن میں ”ید” (ہاتھ) ”وجہ” (چہرہ) کا لفظ آیا ہے۔ یہ مفہومات متشابہات میں سے کہلاتے ہیں۔ ان پر اسی طرح بلا کیف ایمان رکھنا چاہیے جیسے اللہ کی ذات، وجود، حیات اور سمع و بصر وغیرہ صفات پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی حدیث میں ہے کہ اس تجلی کو دیکھ کر تمام مومنین و مومنات سجدہ میں گر پڑیں گے۔ مگر جو شخص ریا، سے سجدہ کرتا تھا، اس کی کمر نہیں مڑے گی۔ تختہ سی ہو کر رہ جائے گی، اور جب اہل ریاء و نفاق سجدہ پر قادر نہ ہوں گے تو کفار کا اس پر قادر نہ ہونا بطریق اولیٰ معلوم ہو گیا۔ یہ سب کچھ محشر میں اس لیے کیا جائے گا کہ مومن و کافر اور مخلص و منافق صاف طور پر کھل جائیں اور ہر ایک کی اندرونی حالت حسی طور پر مشاہد ہو جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی (ہوں گی) اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی۔ اور وہ (اس سے قبل) سجدوں کے لیے بلائے جاتے تھے جبکہ وہ صحیح سالم تھے۔ (۴۳)

تشریح: یعنی ندامت اور شرمندگی کے مارے آنکھ اوپر نہ اٹھ سکے گی۔ دنیا میں سجدہ کا حکم دیا گیا تھا جس وقت اچھے خاصے تندرست تھے اور باختیار خود سجدہ کر سکتے تھے وہاں کبھی اخلاص سے سجدہ نہ کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ استعداد ہی باطل ہو گئی۔ اب چاہیں بھی تو سجدہ نہیں کر سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جو اس بات کو جھٹلاتا ہے تم اس کو مجھ پر چھوڑ دو۔ ہم جلد انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ وہ جانتے نہ ہوں گے۔ (۴۴) اور میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں بے شک میری خفیہ تدبیر بڑی قوی ہے۔ (۴۵)

تشریح: یعنی ان کو عذاب ہونا تو یقینی ہے لیکن چندے عذاب کے توقف سے رنج نہ کیجیے اور ان کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دیجیے۔ میں خود ان سے نبٹ لوں گا اور اس طرح بتدریج آہستہ آہستہ دوزخ کی طرف لے جاؤں گا کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ اپنی حالت پر مگن رہیں گے اور اندر ہی اندر سکھ کی جڑیں کٹتی چلی جائیں گی۔

میری لطیف اور خفیہ تدبیر ایسی پکی ہے ، جس کو یہ لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے بھلا اس کا توڑ تو کیا کر سکتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا آپ ان سے کوئی اجر مانگتے ہیں کہ وہ (اس) تاوان (کے بوجھ) سے دبے جاتے ہیں؟ (۴۶) یا ان کے پاس علم غیب ہے کہ وہ لکھ لیتے ہیں۔ (۴۷)

تشریح: یعنی افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ یہ لوگ اس طرح تباہی کی طرف چلے جا رہے ہیں لیکن آپ کی بات نہیں مانتے۔ آخر نہ ماننے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ (تنخواہ یا کمیشن وغیرہ) طلب کرتے ہیں؟ جس کے بوجھ میں وہ دبے جا رہے ہیں۔ یا خود ان کے پاس غیب کی خبریں اور اللہ کی وحی آتی ہے ؟ جسے وہ حفاظت کے لیے قرآن کی طرح لکھ لیتے ہیں۔ اس لیے آپ کی اتباع کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ آخر کچھ سبب تو ہونا چاہیے۔ جب ان پر کچھ بار بھی ڈالا نہیں جاتا اس چیز سے استغنا بھی نہیں تو نہ ماننے کا سبب بجز عناد اور ہٹ دھرمی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ اپنے رب کے حکم (کے انتظار) کے لیے صبر کریں اور آپ یونس کی طرح نہ ہوں جب اس نے (اللہ تعالیٰ کو) پکارا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ (۴۸)

تشریح: یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے والے پیغمبر (حضرت یونس علیہ السلام) کی طرح مکذبین کے معاملہ میں تنگ دلی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیجیے۔ ان کا قصہ پہلے کئی جگہ تھوڑا تھوڑا گزر چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر اس کے رب کی نعمت نے اس کو سنبھالا نہ ہوتا تو البتہ وہ چٹیل میدان میں بدحال ڈال دیا جاتا اور اس کا حال ابتر رہتا۔ (۴۹)

یعنی اگر قبولِ توبہ کے بعد اللہ کا مزید فضل و احسان دستگیری نہ کرتا تو اسی چٹیل میدان میں جہاں مچھلی کے پیٹ سے نکال کر ڈالے گئے تھے الزام کھائے ہوئے پڑے رہتے اور وہ کمالات و کرامات باقی نہ رہنے دیے جاتے جو محض خدا کی مہربانی سے اس ابتلاء کے وقت بھی باقی رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا تو اسے نیکو کاروں میں سے کر لیا۔ (۵۰)

تشریح: یعنی پھر ان کا اور زیادہ رتبہ بڑھایا۔ اور اعلیٰ درجہ کے نیک و شائستہ لوگوں میں داخل رکھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق قریب ہے (ایسا لگتا ہے ) کہ کافر آپ کو پھسلا دیں گے اپنی نگاہوں سے جب وہ اس کتاب نصیحت کو سنتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ بے شک یہ دیوانہ ہے۔ (۵۱) حالانکہ یہ نہیں مگر تمام جہانوں کے لیے نصیحت (صرف اور صرف نصیحت)۔ (۵۲)

تشریح: یعنی قرآن سن کر غیظ و غضب میں بھر جاتے ہیں اور اس قدر تیز نظروں سے تیری طرف گھورتے ہیں جانے تجھ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں گے۔ زبان سے بھی آوازے کستے ہیں کہ یہ شخص تو مجنون ہو گیا ہے۔ اس کی کوئی بات قابل التفات نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس طرح آپ کو گھبرا کر مقام صبر و استقلال سے ڈگمگا دیں۔ مگر آپ برابر اپنے مسلک پر جمے رہیے۔ اور تنگدل ہو کر کسی معاملہ میں گھبراہٹ یا جلدی یا مداہنت اختیار نہ کیجیے۔ (تنبیہ) بعض نے ”لیزلقونک بابصارہم” سے یہ مطلب لیا ہے کہ کفار نے بعض لوگوں کو جو نظر لگانے میں مشہور تھے اس پر آمادہ کیا تھا کہ وہ آپ کو نظر لگائیں۔ چنانچہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن تلاوت فرما رہے تھے ، ان میں سے ایک آیا اور پوری ہمت سے نظر لگانے کی کوشش کی۔ آپ نے ”لاحول ولا قوۃ الا باللہ” پڑھا اور وہ ناکام و نامراد واپس چلا گیا۔ باقی نظر لگنے یا لگانے سے مسئلہ پر بحث کرنے کا یہ موقع نہیں۔ اور آجکل جبکہ ”مسمریزم” ایک باقاعدہ فن بن چکا ہے ، اس میں مزید رد و کد کرنا بیکار سا معلوم ہوتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس شخص کو نظر بد کسی انسان کی لگ گئی ہو تو اس پر یہ آیات پڑھ کر دم کر دینا اس کے اثر کو زائل کر دیتا ہے ، یہ آیات وَإِنْ يَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے آخر سورت تک ہیں (مظہری)۔

(معارف القرآن)

٭٭

 

 

 

 

۶۹۔ سُوْرَۃُ الْحٓاقَّۃ

 

                تعارف

 

 

 

قیامت کے مختلف ناموں میں سے ایک حاقہ بھی ہے ، حاقہ کے معنی ہے ثابت ہونے والی، چونکہ قیامت کے دن اللہ کے وعدے اور وعیدیں ثابت ہوں گی، اس لئے اسے حاقہ کہا جاتا ہے ، اس سورت کا اصل موضوع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا بیان ہے ، سورت کی ابتدا میں قیامت کی ہولناکیوں اور قوم ثمود، عاد، قوم لوط جیسی قوموں کے انجام بد کا بیان ہے ، اس کے بعد یہ سورت ان واقعات کا تذکرہ کرتی ہے جو قیامت میں رونما ہوں گے۔

(ماخوذ خلاصہ قرآن)

 

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۵۲        رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

سچ مچ ہونے والی قیامت! (۱) کیا ہے قیامت؟ (۲) اور تم کیا سمجھے کیا ہے قیامت؟ (۳)

تشریح: یعنی وہ قیامت کی گھڑی جس کا آنا ازل سے علم الٰہی میں ثابت اور مقرر ہو چکا ہے ، جبکہ حق باطل سے بالکل واشگاف طور پر بدون کسی طرح کے اشتباہ و التباس کے جدا ہو جائے گا، اور تمام حقائق اپنے پورے کمال و سبوغ کے ساتھ نمایاں ہوں گی۔ اور اس کے وجود میں جھگڑا کرنے والے سب اس وقت مغلوب و مقہور ہو کر رہیں گے۔ جانتے ہو وہ گھڑی کیا چیز ہے ؟ اور کس قسم کے احوال و کیفیات اپنے اندر رکھتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ثمود اور عاد نے کھڑکھڑانے والی (قیامت) کو جھٹلایا۔ (۴)

تشریح: یعنی قوم ”ثمود” و ”عاد” نے اس آنے والی گھڑی کو جھٹلایا تھا جو تمام زمین، آسمان، چاند سورج، پہاڑوں اور انسانوں کو کوٹ کر رکھ دے گی۔ اور سخت سے سخت مخلوق کو ریزہ ریزہ کر ڈالے گی۔ پھر دیکھ لو! دونوں کا انجام کیا ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جو ثمود (تھے ) وہ بڑی زور دار آواز سے ہلاک کئے گئے۔ (۵)

تشریح:سورۂ اعراف (۷:۷۳) میں قوم ثمود کا تعارف گزر چکا ہے ، انہیں حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانے کی وجہ سے ایک زبردست چنگھاڑ کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا جس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو عاد (تھے ) تو وہ ہلاک کئے گئے تند و تیز ہوا سے حد سے زیادہ بڑھی ہوئی۔ (۶) اس (اللہ) نے اس (آندھی) کو ان پر لگاتار سات رات اور آٹھ دن مسلط کر دیا، پس تو اس قوم کو اس پر (یوں) گری ہوئی دیکھتا گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (۷) تو کیا تو ان کا کوئی بقیہ دیکھتا ہے ؟ (۸)

تشریح: قوم عاد کا تعارف بھی سورہ اعراف (۷:۶۵) میں گزر گیا ہے ، ان پر زبردست آندھی مسلط کی گئی تھی جو آٹھ دن جاری رہی۔ قوم عاد کے لوگ بڑے ڈیل ڈول والے تھے اس لئے ان کی زمین پر گری ہوئی لاشوں کو کھجور کے تنوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ان قوموں کا بیج بھی باقی نہ رہا؟ اس طرح صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دی گئیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور فرعون آیا اور اس سے پہلے کے لوگ، اور الٹی ہوئی بستیوں والے خطاؤں کے ساتھ۔ (۹) سو انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو انہیں سخت گرفت نے پکڑا۔ (۱۰)

تشریح: یعنی ”عاد” و ”ثمود” کے بعد فرعون بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہوا آیا اور اس سے پہلے اور کئی قومیں گناہ سمیٹتی ہوئی آئیں (مثلاً قومِ نوح، قوم شعیب، اور قوم لوط، جن کی بستیاں الٹ دی گئی تھیں) ان سبھوں نے اپنے اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی، اور خدا سے مقابلے باندھے۔ آخر سب کو خدا نے بڑی سخت پکڑسے پکڑا، اس کے آگے کسی کی کچھ بھی پیش نہ چلی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جب پانی طغیانی پر آیا ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کیا۔ (۱۱) تاکہ ہم اسے تمہارے لئے یادگار بنائیں، اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔ (۱۲)

تشریح: یعنی نوح کے زمانہ میں جب پانی کا طوفان آیا تو بظاہر اسباب تم انسانوں میں سے کوئی بھی نہ بچ سکتا تھا۔ یہ ہماری قدرت و حکمت اور انعام و احسان تھا کہ سب منکروں کو غرق کر کے نوح کو مع اس کے ساتھیوں کے بچا لیا۔ بھلا ایسے عظیم الشان طوفان میں ایک کشتی کے سلامت رہنے کی کیا توقع ہو سکتی تھی۔ لیکن ہم نے اپنے قدرت و حکمت کا کرشمہ دکھلایا۔ تاکہ لوگ رہتی دنیا تک اس واقعہ کو یاد رکھیں اور جو کان کوئی معقول بات سن کر سمجھتے اور محفوظ رکھتے ہیں وہ کبھی نہ بھولیں کہ اللہ کا ہم پر ایک زمانہ میں یہ احسان ہوا ہے اور سمجھیں کہ جس طرح دنیا کے ہنگامہ داروگیر میں فرمانبرداروں کو نافرمان مجرموں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے ، یہ ہی حال قیامت کے ہولناک حاقہ میں ہو گا۔ آگے اسی کی طرف کلام منتقل کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اٹھائی جائے گی زمین اور پہاڑ، پس وہ یک بارگی ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے۔ (۱۴) پس اس دن وہ ہونے والی ہو پڑے گی۔ (۱۵)

تشریح: یعنی صور پھونکنے کے ساتھ زمین اور پہاڑ اپنے حِیّز کو چھوڑ دیں گے اور سب کو کوٹ پیٹ کر ایک دم ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ بس وہی وقت ہے قیامت کے ہو پڑنے کا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آسمان پھٹ جائے گا، تو وہ اس دن بالکل کمزور ہو گا۔ (۱۶)

اور فرشتے (آ جائیں گے ) اس کے (آسمان کے ) کناروں پر اور آٹھ فرشتے تمہارے رب کا عرش اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (۱۷)

تشریح: یعنی آج جو آسمان اس قدر مضبوط و محکم ہے کہ لاکھوں سال گزرنے پر بھی کہیں ذرا سا شگاف نہیں پڑا، اس روز پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ اور جس وقت درمیان سے پھٹنا شروع ہو گا تو فرشتے اس کے کناروں پر چلے جائیں گے۔

اب عرش عظیم کو چار فرشتے اٹھا رہے ہیں جن کی بزرگی اور کلانی کا علم اللہ ہی کو ہے۔ اس دن ان چار کے ساتھ چار اور لگیں گے۔ تفسیر عزیزی میں اس عدد کی حکمتوں اور ان فرشتوں کے حقائق پر بہت دقیق و بسیط بحث کی گئی ہے۔ جس کو شوق ہو وہاں دیکھ لے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن تم پیش کئے جاؤ گے تمہاری کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی۔ (۱۸)

تشریح: یعنی اس دن اللہ کی عدالت میں حاضر کیے جاؤ گے اور کسی کی کوئی نیکی یا بدی مخفی نہ رہے گی۔ سب منظر عام پر آ جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں کو) کہے گا لو پڑھو میرا اعمالنامہ۔ (۱۹)

تشریح: یعنی اس دن جس کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا گیا جو ناجی و مقبول ہونے کی علامت ہے وہ خوشی کے مارے ہر کسی کو دکھاتا پھرتا ہے کہ لو آؤ! یہ میرا اعمالنامہ پڑھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک میں یقین رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب سے ملوں گا۔ (۲۰) پس وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا۔ (۲۱) بہشت بریں میں۔ (۲۲) جس کے میوے قریب (جھکے ہوئے ) ہیں۔ (۲۳)

تشریح: یعنی میں نے دنیا میں خیال رکھا تھا کہ ایک دن ضرور میرا حساب کتاب ہونا ہے اس خیال سے میں ڈرتا رہا اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا آج اس کا دل خوش کن نتیجہ دیکھ رہا ہوں کہ خدا کے فضل سے میرا حساب بالکل صاف ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم مزے سے کھاؤ پیئو اس کے بدلے جو تم نے (دنیا کے ) گزرے ہوئے ایام میں بھیجا ہے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی دنیا میں تم نے اللہ کے واسطے اپنے نفس کی خواہشوں کو روکا تھا اور بھوک پیاس وغیرہ کی تکلیفیں اٹھائی تھیں، آج کوئی روک ٹوک نہیں، خوب رچ پچ کر کھاؤ پیو، نہ طبیعت منغض ہو گی نہ بدہضمی نہ بیماری نہ زوال کا کھٹکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رہا وہ جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔ (۲۵) ا ور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے ؟ (۲۶) اے کاش! موت ہی قصہ چکا دینے والی ہوتی۔ (۲۷) میرا مال میرے کام نہ آیا۔ (۲۸) میری بادشاہی مجھ سے جاتی رہی۔ (۲۹)

تشریح: یعنی پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں جس کا اعمالنامہ دیا جائے گا، سمجھ لے گا کہ کم بختی آئی، اس وقت نہایت حسرت سے تمنا کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ میں اعمالنامہ نہ دیا جاتا اور مجھے کچھ خبر نہ ہوتی کہ حساب کتاب کیا چیز ہے کاش موت میرا قصہ ہمیشہ کے لیے تمام کر دیتی۔ مرنے کے بعد پھر اٹھنا نصیب نہ ہوتا۔ یا اٹھا تو اب موت آ کر میرا لقمہ کر لیتی۔ افسوس وہ مال دولت اور جاہ و حکومت کچھ کام نہ آئی۔ آج ان میں سے کسی چیز کا پتہ نہیں۔ نہ میری کوئی حجت اور دلیل چلتی ہے نہ معذرت کی گنجائش ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

(فرشتوں کو حکم ہو گا) تم اس کو پکڑو، اسے طوق پہناؤ۔ (۳۰) پھر اسے جہنم میں ڈال دو۔ (۳۱) پھر ایک زنجیر میں جس کی پیمائش سترہاتھ ہے پس تم اس کو جکڑ دو۔ (۳۲)

تشریح: فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے پکڑو، طوق گلے میں ڈالو، پھر دوزخ کی آگ میں غوطہ دو اور اس زنجیر میں جس کا طول ستر گز ہے اس کو جکڑ دو، تاکہ جلنے کی حالت میں ذرا بھی حرکت نہ کر سکے ، کہ ادھر ادھر حرکت کرنے سے بھی جلنے والا قدرے تخفیف محسوس کیا کرتا ہے (تنبیہ) گز سے وہاں کا گز مراد ہے جس کی مقدار اللہ ہی جانے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک وہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان نہیں لاتا تھا۔ (۳۳) اور وہ (دوسروں کو بھی) رغبت نہ دلاتا تھا۔ (۳۴) محتاج کو کھلانے کی۔ (۳۴)

تشریح: یعنی اس نے دنیا میں رہ کر نہ اللہ کو جانا نہ بندوں کے حقوق پہچانے ، فقیر محتاج کی خود تو کیا خدمت کرتا دوسروں کو بھی ادھر ترغیب نہ دی۔ پھر جب اللہ پر جس طرح چاہیے ایمان نہ لایا تو نجات کہاں؟ اور جب کوئی بھلائی کا چھوٹا بڑا کام بن نہ پڑا تو عذاب میں تخفیف کی بھی کوئی صورت نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں۔ (۳۵)

تشریح:  جب اللہ کو دوست نہ بنایا تو آج اس کا دوست کون بن سکتا ہے جو حمایت کر کے عذاب سے بچا دے یا مصیبت کے وقت کچھ تسلی کی بات کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (دوزخیوں کی) پیپ کے سوا (اس کے لئے ) کوئی کھانا نہیں۔ (۳۶) اسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہ کھائے گا۔ (۳۷)

تشریح: کھانے سے بھی انسان کو قوت پہنچتی ہے مگر دوزخیوں کو کوئی ایسا مرغوب کھانا نہ ملے گا جو راحت و قوت کا سبب ہو ہاں دوزخیوں کے زخموں کی پیپ دی جائے گی جسے ان گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھا سکتا اور وہ بھی بھوک پیاس کی شدت میں غلطی سے یہ سمجھ کر کھائیں گے کہ اس سے کچھ کام چلے گا۔ بعد کو ظاہر ہو گا کہ اس کا کھانا بھوک کے عذاب سے بڑا عذاب ہے (اعاذنا اللہ من سائر انواع العذاب فی الدنیا والاخرۃ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس میں اس کی قسم کھاتا ہوں جو تم دیکھتے ہو۔ (۳۸) اور جو تم نہیں دیکھتے۔ (۳۹) بیشک یہ البتہ بزرگ فرشتے کا (لایا ہوا) کلام ہے۔ (۴۰)

تشریح: یعنی جو کچھ جنت و دوزخ وغیرہ کا بیان ہوا، یہ کوئی شاعری نہیں نہ کاہنوں کی اٹکل پچو باتیں ہیں، بلکہ یہ قرآن ہے اللہ کا کلام جس کو آسمان سے ایک بزرگ فرشتہ لے کر ایک بزرگ ترین پیغمبر پر اترا، جو آسمان سے لایا وہ، اور جس نے زمین والوں کو پہنچایا، دونوں رسول کریم ہیں ایک کا کریم ہونا تو تم آنکھوں سے دیکھتے ہو۔ اور دوسرے کی کرامت و بزرگی پہلے کریم کے بیان سے ثابت ہے۔ (تنبیہ) عالم میں دو قسم کی چیزیں ہیں۔ ایک جس کو آدمی آنکھوں سے دیکھتا ہے دوسری جو آنکھوں سے نظر نہیں آتی، عقل وغیرہ کے ذریعہ سے ان کے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ مثلاً ہم کتنا ہی آنکھیں پھاڑ کر زمین کو دیکھیں، وہ چلتی ہوئی نظر نہ آئے گی لیکن حکماء کے دلائل و براہین سے عاجز ہو کر ہم اپنی آنکھ کو غلطی پر سمجھتے ہیں اور اپنی عقل کے یا دوسرے عقلاء کی عقل کے ذریعہ سے جو اس کی ان غلطیوں کی تصحیح و اصلاح کر لیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کی عقل بھی غلطیوں اور کوتاہیوں سے محفوظ نہیں۔ آخر اس کی غلطیوں کی اصلاح اور کوتاہیوں کی تلافی کس سے ہو۔ بس تمام عالم میں ایک وحی الٰہی کی قوت ہے جو خود غلطی سے محفوظ و معصوم رہتے ہوئے تمام عقلی قوتوں کی اصلاح و تکمیل کر سکتی ہے جس طرح حواس جہاں پہنچ کر عاجز ہوتے ہیں وہاں عقل کام دیتی ہے ، ایسے ہی جس میدان میں عقل مجرد کام نہیں دیتی یا ٹھوکریں کھاتی ہے اس جگہ وحی الٰہی اس کی دستگیری کر کے ان بلند حقائق سے روشناس کرتی ہے۔ شاید اسی لیے یہاں ”بِمَا تُبْصِرُوْنَ وَمَا لَاتُبْصِرُوْنَ” کی قسم کھائی۔ یعنی جو حقائق جنت و دوزخ وغیرہ کی پہلی آیات میں بیان ہوئی ہیں، اگر دائرہ محسوسات سے بلند تر ہونے کی وجہ سے تمہاری سمجھ میں نہ آئیں تو اشیاء میں مبصرات وغیر مبصرات یا بالفاظ دیگر محسوسات وغیرہ محسوسات کی تقسیم سے سمجھ لو کہ یہ رسول کریم کا کلام ہے جو بذریعہ وحی الٰہی دائرہ حس و عقل سے بالا تر حقائق کی خبر دیتا ہے۔ جب ہم بہت سی غیر محسوس بلکہ مخالف حس چیزوں کو اپنی عقل یا دوسروں کی تقلید سے مان لیتے ہیں تو بعض بہت اونچی چیزوں کو رسول کریم کے کہنے سے ماننے میں کیا اشکال ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔ (۴۱)

تشریح: یعنی قرآن کے کلام اللہ ہونے کی نسبت کبھی کبھی یقین کی کچھ جھلک تمہارے دلوں میں آتی ہے ، مگر بہت کم جو نجات کے لیے کافی نہیں۔ آخر اس کو شاعری وغیرہ کہہ کر اڑا دیتے ہو۔ کیا واقعی انصاف سے کہہ سکتے ہو کہ یہ کسی شاعر کا کلام ہو سکتا ہے اور شعر کی قسم سے ہے۔ شعر میں وزن و بحر وغیرہ ہونا لازم ہے۔ قرآن میں اس کا پتہ نہیں۔ شاعروں کا کلام اکثر بے اصل ہوتا ہے اور اس کے اکثر مضامین محض وہمی اور خیالی ہوتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں تمام تر حقائق ثابتہ اور اصولِ محکمہ کو قطعی دلیلوں اور یقینی حجتوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور نہ قول ہے کسی کاہن کا بہت کم تم نصیحت پکڑتے ہو۔ (۴۲)

تشریح: یعنی پوری طرح دھیان کرو تو معلوم ہو جائے کہ یہ کسی کاہن کا کلام نہیں۔ کاہن عرب میں وہ لوگ تھے جو بھوت پریت، جنوں اور چڑیلوں سے تعلق یا مناسب رکھتے تھے۔ وہ ان کو غیب کی بعض جزئی باتیں ایک مقضی و مسجع کلام کے ذریعہ سے بتلاتے تھے۔ لیکن جنوں کا کلام معجز نہیں ہوتا کہ ویسا دوسرا نہ کر سکے ، بلکہ ایک جن کسی کاہن کو ایک بات سکھلاتا ہے دوسرا جن بھی ویسی بات دوسرے کاہن کو سکھلا سکتا ہے اور یہ کلام یعنی قرآن ایسا معجز ہے کہ سب جن و انس مل کر بھی اس کے مشابہ کلام نہیں بنا سکتے۔ دوسرے کاہنوں کے کلام میں محض قافیہ اور سجع کی رعایت کے لیے بہت الفاظ بھرتی کے بالکل بیکار اور بے فائدہ ہوتے ہیں، اور اس کلام معجز نظام میں ایک حرف یا ایک شوشہ بھی بیکار و بے فائدہ نہیں۔ پھر کاہنوں کی باتیں چند مبہم، جزئی اور معمولی خبروں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن علوم و حقائق پر مطلع ہونا اور ادیان و شرائع کے اصول و قوانین اور معاش معاد کے دستور و آئین کا معلوم کر لینا اور فرشتوں کے اور آسمانوں کے چھپے ہوئے بھیدوں پر سے آگاہی پانا ان سے نہیں ہو سکتا۔ بخلاف قرآن کریم کے وہ ان ہی مضامین سے پر ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تمام جہانوں کے رب (کی طرف) سے اتارا ہوا ہے۔ (۴۳) اور اگر وہ ہم پر بنا کر لاتا کچھ باتیں۔ (۴۴)

تو یقیناً ہم اس کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے۔ (۴۵) پھر البتہ ہم اس کی رگِ گردن کاٹ دیتے۔ (۴۶) سو تم میں سے نہیں کوئی بھی اس سے روکنے والا۔ (۴۷)

تشریح: فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کر کے اللہ تعالی کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرے تو اللہ تعالی اسی دنیا میں اسے رسوا بھی فرماتے ہیں، اور اس کو عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس لئے اگر (خدانخواستہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت کا دعوی درست نہ ہوتا اور آپ (معاذاللہ) جھوٹی باتیں بنا کر اللہ تعالی کی طرف منسوب کرتے تو اللہ تعالی اسی دنیا میں آپ کے ساتھ وہ معاملہ فرماتے جس کا ذکر ان آیتوں میں کیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور بیشک یہ (قرآن) پرہیزگاروں کے لئے البتہ نصیحت ہے۔ (۴۸) اور بیشک ہم ضرور جانتے ہیں کہ تم میں کچھ جھٹلانے والے ہیں۔ (۴۹) اور بیشک یہ کافروں پر حسرت ہے۔ (۵۰) اور بیشک یہ یقینی حق ہے۔ (۵۱) پس پاکیزگی بیان کرو اپنے عظمت والے رب کے نام کی۔ (۵۲)

تشریح: یعنی خدا سے ڈرنے والے اس کلام کو سن کر نصیحت حاصل کریں گے اور جن کے دل میں ڈر نہیں وہ جھٹلائیں گے ،لیکن ایک وقت آنے والا ہے کہ یہی کلام اور ان کا یہ جھٹلانا سخت حسرت و پیشمانی کا موجب ہو گا۔ اس وقت پچھتائیں گے کہ افسوس کیوں ہم نے اس سچی بات کو جھٹلایا تھا جو آج یہ آفت دیکھنی پڑی۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

۷۰۔ سُوْرَۃُ الْمَعَارِجِ

 

                تعارف

 

 

 

اس سورت کی ابتدا میں بتایا کہ کفار مکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کا مذاق اڑاتے ہیں اور آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو عذاب آنے والا ہے وہ جلدی لے آئیں، تاکہ آخرت سے پہلے ہم دنیا ہی میں اس سے نمٹ لیں، اس کے بعد یہ سورت قیامت کی منظر کشی کرتی ہی اور وہاں مجرموں کا جو حال ہو گا اسے بیان کرتی ہے۔ یہ سورت انسان کی فطرت اور طبیعت بتاتی ہے کہ یہ بڑا حریص اور جزع و فزع کرنے والا ہے ، تکلیف پہنچے تو چیختا چلاتا ہے اور نعمت حاصل ہو تو اکڑنے لگتا ہے ، مال ہاتھ آ جائے تو بخل کرنے لگتا ہے ، البتہ مصلین (نمازی) اس سے مستثنی ہیں، پھر آگے نمازیوں کی صفات بیان کی گئی ہیں۔

(ماخوذ خلاصہ قرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۴۴        رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

ایک مانگنے والے (منکر عذاب) نے عذاب مانگا (جو) واقع ہونے والا ہے۔ (۱) کافروں پر، اسے کوئی دفع کرنے والا نہیں۔ (۲)

تشریح: ایک کافر نے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر قرآن اور اسلام برحق ہے تو ہم پرآسمان سے پتھر برسائیے ، یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر لے آئیے ، جیسا کہ سورۂ انفال (۸:۳۲) میں گزرا ہے ، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص نضر بن حارث تھا، یہاں اسی کی بات کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ وہ عذاب مانگ رہا ہے اور اس کا اصل مقصد مذاق اڑا کر اس عذاب کو جھٹلانا ہے ، حالانکہ وہ ایسی چیز ہے جب آ جائے گی تو کوئی اسے روک نہیں سکے گا۔

(توضیح القرآن)

 

درجات کے مالک اللہ کی طرف سے (ہو گا)۔ (۳)

اس کی طرف روح الامین (جبرئیل) اور فرشتے ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار برس کی ہے۔ (۴)

تشریح: پچاس ہزار برس کا دن قیامت کا ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے وقت سے لے کر بہشتیوں کے بہشت میں، اور دوزخیوں کے دوزخ میں قرار پکڑنے تک پچاس ہزار برس کی مدت ہو گی اور کل فرشتے اور تمام قسم کی مخلوقات کی روحیں اس تدبیر میں بطور خدمت گار کے شریک ہوں گی۔ پھر اس بڑے کام کے سرانجام کی مدت گزرنے پر ان کو عروج ہو گا۔ (تنبیہ) حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خدا کی قسم ایماندار آدمی کو وہ (اتنا لمبا) دن ایسا چھوٹا معلوم ہو گا جتنی دیر میں ایک نماز فرض ادا کر لیتا ہے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ (ان کی باتوں پر) صبر کریں صبر جمیل۔ (۵) بیشک وہ اسے دورسے دیکھ (سمجھ) رہے ہیں۔ (۶) اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں۔ (۷)

تشریح: یعنی یہ کافر اگر از راہِ انکار و تمسخر عذاب کے لیے جلدی مچائیں، تب بھی آپ جلدی نہ کریں، بلکہ صبر و استقلال سے رہیں، نہ تنگدل ہوں، نہ حرف شکایت زبان پر آئے آپ کا صبر اور ان کا تمسخر ضرور رنگ لائے گا۔

ان کے خیال میں قیامت کا آنا بعید از مکان اور دور از عقل ہے۔ اور ہم کو اس قدر قریب نظر آ رہی ہے گویا آئی رکھی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا۔ (۸) اور پہاڑ (دھنکی ہوئی) رنگین اون کی طرح ہوں گے۔ (۹) اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔ (۱۰)

حالانکہ وہ انہیں دیکھ رہے ہوں گے ، مجرم (گنہگار) خواہش کرے گا کہ کاش وہ فدیہ میں دیدے اس دن کے عذاب (سے چھوٹنے کے لئے ) اپنے بیٹوں کو (۱۱) اور اپنی بیوی کو، اور اپنے بھائی کو۔ (۱۲) اور اپنے کنبے کو، وہ جس کو جگہ دیتا ہے۔ (۱۳) اور جو زمین میں ہیں سب کو (تمام اہل زمین کو) پھر یہ اسے بچا لے۔ (۱۴)

ہر گز نہیں بیشک یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ (۱۵) کھال ادھیڑ نے والی۔ (۱۶) وہ (اسے ) بلاتی ہے جس نے پیٹھ پھیری، اور منہ پھیر لیا۔ (۱۷) اور مال جمع کیا پھر اسے بند رکھا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی دوزخ کی طرف سے ایک کشش اور پکار ہو گی۔ بس جتنے لوگ دنیا میں حق کی طرف سے پیٹھ پھیر کر چل دیے تھے اور عملِ صالح کی طرف سے اعراض کرتے اور مال سمیٹنے اور سینت کر رکھنے میں مشغول رہے تھے۔ وہ سب دوزخ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ بعض آثار میں ہے کہ دوزخ اول زبان قال سے پکارے گی ”اِلَیَّ یَا کَافِرْ، اِلَیَّ یَا مُنَافِقِ، اِلَیَّ یَا جَامِعُ الْمَالِ” (یعنی او کافر! او منافق! او مال سمیٹ کر رکھنے والے ! ادھر آ) لوگ ادھر ادھر بھاگیں گے۔ اس کے بعد ایک بہت لمبی گردن نکلے گی جو کفار کو چن چن کر اس طرح اٹھا لے گی جیسے جانور زمین سے دانہ اٹھا لیتا ہے۔ (العیاذ باللہ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک انسان بڑا بے صبرا (کم ہمت) پیدا کیا گیا ہے۔ (۱۹) جب اسے کوئی بُرائی پہنچے تو گھبرا اٹھنے والا ہے۔ (۲۰) اور اسے آسائش پہنچے تو بخل کرنے والا ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی کسی طرف پختگی اور ہمت نہیں دکھلاتا۔ فقر فاقہ، بیماری اور سختی آئے تو بے صبر ہو کر گھبرا اٹھے ، بلکہ مایوس ہو جائے گویا اب کوئی سبیل مصیبت سے نکلنے کی باقی نہیں رہی، اور مال و دولت تندرستی اور فراخی ملے تو نیکی کے لیے ہاتھ نہ اٹھے ، اور مالک کے راستہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہ ہو۔ ہاں وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جن کا ذکر آگے آتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان نمازیوں کے سوا۔ (۲۲) جو اپنی نماز پرپابندی کرتے ہیں۔ (۲۳) اور جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے (۲۴) مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا۔ (۲۵) اور وہ جو روز جزا کو سچ مانتے ہیں۔ (۲۶) اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔ (۲۷)

وَالَّذِیْنَ فِیْٓ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ:اس سے مراد زکوٰۃ اور دوسرے واجب حقوق ہیں، ان الفاظ میں یہ بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ دینا غریبوں پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے۔

لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ:جو غریب اپنی حاجت ظاہر کر دیتے ہیں، انہیں سوالی سے اور جو حاجت مند ہونے کے باوجود اپنی حاجت کسی سے نہیں کہتے ، انہیں بے سوالی (محروم۔ نہ مانگنے والے ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک ان کے رب کا عذاب نڈر ہونے کی بات نہیں۔ (۲۸) اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۲۹) سوائے اپنی بیویوں سے یا اپنی باندیوں سے پس بے شک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (۳۰) پھر جو اس کے سوا چاہے تو وہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (۳۱)

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِکَ:یعنی بیویوں اور باندیوں کے سوا کسی اور طریقے سے جنسی خواہش پوری کرنا حرام ہے ، اس لئے ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۳۲) اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔ (۳۳) اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۳۴) یہی لوگ (بہشت کے ) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے۔ (۳۵)

تشریح: وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاٰمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ: اس میں اللہ کے اور بندوں کے سب حقوق آ گئے۔ کیونکہ آدمی کے پاس جس قدر قوتیں ہیں سب اللہ کی امانت ہیں۔ ان کو اسی کی بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور جو قول و قرار ازل میں باندھ چکا ہے اس سے پھرنا نہیں چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہَادَاتِہِمْ قَآئِمُوْنَ :یعنی ضرورت پڑے تو بلا کم و کاست اور بے رو و رعایت گواہی دیتے ہیں۔ حق پوشی نہیں کرتے۔

وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ :یعنی نمازوں کے اوقات اور شروط و آداب کی خبر رکھتے ہیں اور اس کی صورت و حقیقت کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔

أُولٰٓئِکَ فِیْ جَنَّاتٍ مُّكْرَمُوْنَ :جنتیوں کی یہ آٹھ صفتیں ہوئیں جن کو نماز سے شروع کر کے نماز ہی پر ختم کیا گیا ہے۔ تاکہ معلوم ہو کہ نماز اللہ کے ہاں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے جس میں یہ صفات ہوں گی وہ ”ہلوع” (کچے دل کا) نہ ہو گا، بلکہ عزم و ہمت والا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کافروں کو کیا ہوا کہ وہ آپ کی طرف دوڑتے آرہے ہیں۔ (۳۶) دائیں سے اور بائیں سے گروہ در گروہ۔ (۳۷)

کیا ان میں سے ہر کوئی توقع رکھتا ہے کہ وہ (بہشت کے ) نعمتوں والے باغات میں داخل کیا جائے گا۔ (۳۸)

ہر گز نہیں بیشک ہم نے اسے جس چیز سے پیدا کیا وہ اسے جانتے ہیں۔ (۳۹)

تشریح: یعنی قرآن کی تلاوت اور جنت کا ذکر سن کر کفار ہر طرف سے ٹولیاں بنا کر تمہاری طرف امڈے چلے آتے ہیں۔ پھر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں، کیا اس کے باوجود یہ بھی طمع رکھتے ہیں کہ وہ سب جنت کے باغوں میں داخل کیے جائیں گے ؟ جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہم کو لوٹ کر خدا کی طرف جانا ہوا تو وہاں بھی ہمارے لیے بہتری ہی بہتری ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس خداوند عادل و حکیم کے ہاں ایسا اندھیرا نہیں ہو سکتا۔ (تنبیہ) ابن کثیر نے ان آیات کا مطلب یہ لیا ہے کہ تمہاری طرف کے ان منکروں کو کیا ہوا کہ تیزی کے ساتھ دوڑے چلے جاتے ہیں، داہنے اور بائیں، غول کے غول، یعنی قرآن سن کر ایسے کیوں بدکتے اور بھاگتے ہیں۔ پھر کیا اس وحشت و نفرت کے باوجود یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان میں ہر شخص بے کھٹکے جنت میں جا گھسے گا؟ ہرگز نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس میں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم کھاتا ہوں۔ بیشک ہم البتہ (اس پر) قادر ہیں۔ (۴۰)

تشریح: آفتاب ہر روز ایک نئے نقطہ سے طلوع ہوتا اور نئے نقطہ پر غروب ہوتا ہے۔ ان کو ”مشارق” و ”مغارب” کہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کہ ہم بدل دیں بہتر ان سے اور ہم عاجز کئے جانے والے نہیں۔ (۴۱)

تشریح: یعنی جب ان کی جگہ ان سے بہتر لا سکتے ہو تو خود ان کو دوبارہ کیوں پیدا نہیں کر سکتے ؟ کیا وہ ہمارے قابو سے نکل کر کہیں جا سکتے ہیں؟ ”یَاخَیْرًا مِنْہُمْ” سے مراد ان ہی کا دوبارہ پید ا کرنا ہو۔ کیونکہ عذاب ہو یا ثواب، دوسری زندگی اس زندگی سے بہرحال اکمل ہو گی۔ یا یہ مطلب ہو کہ ان کفارِ مکہ کو ہنسی ٹھٹھا کرنے دیجئے ، ہم خدمت اسلام کے لیے اس سے بہتر قوم لے آئیں گے چنانچہ ”قریش” کی جگہ اس نے ”انصارِ مدینہ” کو کھڑا کر دیا۔ اور مکہ والے پھر بھی اس کے قابو سے نکل کر کہیں نہ جا سکے۔ آخر اپنی شرارتوں کے مزے چکھنے پڑے (تنبیہ) مشارق و مغارب کی قسم شاید اس لیے کھائی کہ خدا ہر روز مشرق و مغرب کو بدلتا رہتا ہے اس کو تمہارا تبدیل کرنا کیا مشکل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس انہیں چھوڑ دیں کہ بیہودگیوں میں پڑے رہیں، اور کھیلیں کودیں یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے ملیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی تھوڑے دن کی ڈھیل ہے۔ پھر سزا ہونی یقینی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن وہ قبروں سے جلدی جلدی (اس طرح) نکلیں گے گویا کہ وہ نشانہ کی طرف لپک رہے ہیں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی کسی خاص نشان اور علامت کی طرف جیسے تیزی سے دوڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا نصب سے بت مراد ہوں جو کعبہ کے گرد کھڑے کیے ہوئے تھے۔ ان کی طرف بھی بہت عقیدت اور شوق کے ساتھ لپکتے ہوئے جاتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی، ان پر ذلت چھا رہی ہو گی، یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ (۴۴)

٭٭

 

۷۱۔ سُوْرَۃُ نُوْحِ

 

                تعارف

 

اس سورت میں صرف حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغی جدوجہد اور ان کی دعاؤں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ، آپ کا مفصل واقعہ سورۂ یونس (۱۰:۱۷) اور سورۂ ہود (۱۱:۳۶) میں گزرچکا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۲۸        رکوعات:۲

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو اس سے قبل ڈراؤ کہ ان پر دردناک عذاب آ جائے۔ (۱)

اس نے کہا اے میری قوم! بیشک میں تمہارے لئے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ (۲) کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۳)

تشریح: یعنی اللہ سے ڈر کر کفرو معصیت چھوڑو اور طاعت و عبادت کا راستہ اختیار کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بخش دے گا تمہیں تمہارے گناہ، اور (موت کے ) وقت مقررہ تک تمہیں مہلت دے گا، بیشک جب اللہ کا مقررہ وقت آ جائے تو وہ ٹلے گا نہیں، کاش تم جانتے۔ (۴)

تشریح: یعنی ایمان لے آؤ گے تو اس سے پہلے اللہ کے جو حقوق تلف کیے ہیں وہ معاف کر دے گا، اور کفر و شرارت پر جو عذاب آنا مقدر ہے ایمان لانے کی صورت میں وہ نہ آئے گا۔ بلکہ ڈھیل دی جائے گی کہ عمر طبعی تک زندہ رہو۔ حتی کہ جانداروں کی موت و حیات کے عام قانون کے موافق اپنے مقرر وقت پر موت آئے۔ کیونکہ اس سے تو بہرحال کسی نیک و بد کو چارہ نہیں۔

ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب کا جو وعدہ ہے اگر وہ سر پر آ کھڑا ہوا تو کسی کے ٹالے نہیں ٹلے گا نہ ایک منٹ کی ڈھیل دی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہو کہ موت کا وقت معین پر آنا ضروری ہے اس میں تاخیر نہیں ہو سکتی والظاہر ہوالاول۔ حضرت شاہ صاحب ان آیات کی تقریر ایک اور طرح کرتے ہیں۔ ”یعنی بندگی کرو کہ نوع انسان دنیا میں قیامت تک رہے۔ اور قیامت کو تو دیر نہ لگے گی اور جو سب مل کر بندگی چھوڑ دو تو سارے ابھی ہلاک ہو جاؤ۔ ” طوفان آیا تھا ایسا ہی کہ ایک آدمی نہ بچے۔ حضرت نوح کی بندگی سے ان کا بچاؤ ہو گیا۔

 

اس نے کہا اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی قوم کو دن رات بلایا تو میرے بلانے نے ان میں زیادہ نہ کیا بھاگنے کے سوا۔ (۶)

تشریح: یعنی نوح علیہ السلام ساڑھے نوسو برس تک ان کو سمجھاتے رہے جب امید کی کوئی جھلک باقی نہ رہی تو مایوس اور تنگدل ہو کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ بارِ خدایا میں نے اپنی طرف سے دعوت و تبلیغ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ رات کی تاریکی میں اور دن کے اجالے میں برابر ان کو تیری طرف بلاتا رہا۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ جوں جوں تیرے طرف آنے کو کہا گیا یہ بدبخت اور زیادہ ادھر سے منہ پھیر کر بھاگے اور جس قدر میری طرف سے شفقت و دلسوزی کا اظہار ہوا، ان کی جانب سے نفرت اور بیزاری بڑھتی گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک جب بھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے ، انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں اور انہوں نے اپنے اوپر کپڑے لپیٹ لئے اور وہ اَڑ گئے اور انہوں نے بڑا تکبر کیا۔ (۷)

تشریح: کیونکہ میری بات سننا ان کو گوارا نہیں۔ چاہتے ہیں کہ یہ آواز کان میں نہ پڑے۔ اور انہوں نے اپنے اوپر کپڑے لپیٹ لئے تا کہ وہ میری اور میں ان کی صورت نہ دیکھوں۔ نیز انگلیاں اگر کسی وقت کانوں میں ڈھیلی پڑ جائیں تو کچھ کپڑوں کی روک رہے غرض کوئی بات کسی عنوان سے دل میں اترنے نہ پائے۔ یعنی کسی طرح اپنے طریقہ سے ہٹنا نہیں چاہتے اور ان کا غرور اجازت نہیں دیتا کہ میری بات کی طرف ذرا بھی کان دھریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر بیشک میں نے انہیں بآواز بلند بلایا۔ (۸) پھر بیشک میں نے انہیں اعلانیہ (بھی) سمجھایا اور انہیں چھپا کر پوشیدہ (بھی) سمجھایا۔ (۹)

تشریح: یعنی ان کے مجمعوں میں خطاب کیا اور مجلسوں میں جا کر سمجھایا۔ مجمع کے سوا ان سے علیحدگی میں بھی بات کی، صاف کھول کر اور اشاروں میں بھی، زور سے بھی اور آہستہ بھی، غرض نصیحت کا کوئی عنوان اور کوئی رنگ نہیں چھوڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس میں نے کہا تم اپنے رب سے بخشش مانگو، بیشک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ (۱۰)

وہ آسمان سے تم پر مسلسل بارش بھیجے گا۔ (۱۱) اور تمہیں مالوں اور بیٹوں سے مدد دے گا اور بنائے گا تمہارے لئے باغات اور بنائے گا تمہارے لئے نہریں۔ (۱۲)

تشریح: یعنی ایمان و استغفار کی برکت سے قحط و خشک سالی (جس میں وہ برسوں سے مبتلا تھے ) دور ہو جائے گی، اللہ تعالیٰ دھواں دار برسنے والا بادل بھیج دے گا، جس سے کھیت اور باغ خوب سیراب ہوں گے۔ غلے ، پھل، میوہ کی افراط ہو گی، مواشی وغیرہ فربہ ہو جائیں گے ، دودھ گھی بڑھ جائے گا، اور عورتیں جو کفر و معصیت کی شامت سے بانجھ ہو رہی ہیں اولاد ذکور جننے لگیں گی۔ غرض آخرت کے ساتھ دنیا کے عیش و بہار سے بھی وافر حصہ دیا جائے گا۔ (تنبیہ) امام ابوحنیفہ نے اس آیت سے یہ نکالا ہے کہ استسقاء کی اصل حقیقت اور روح استغفار و انابت ہے اور نماز اس کی کامل ترین صورت ہے ، جو سنت صحیحہ سے ثابت ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

تمہیں کیا ہوا ہے تم اللہ کے لئے وقار (عظمت) کا اعتقاد نہیں رکھتے ؟ (۱۳) اور یقیناً اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی اللہ کی بڑائی سے امید رکھنا چاہیے کہ تم اس کی فرمانبرداری کرو گے تو تم کو بزرگی اور عزت و وقار عنایت فرمائے گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم اللہ کی بڑائی کا اعتقاد کیوں نہیں رکھتے اور اس کی عظمت و جلال سے ڈرتے کیوں نہیں۔

وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا :ماں کے پیٹ میں تم نے طرح طرح کے رنگ بدلے۔ اور اصلی مادہ سے لے کر موت تک آدمی کتنی پلٹیاں کھاتا ہے اور کتنے اطوار و ادوار اور اتار چڑھاؤ ہیں جن میں وہ گزرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ؟ (۱۵) اور اس نے ان میں چاند کو ایک نور بنایا اور اس نے سورج کو چراغ (کے مانند روشن) بنایا۔ (۱۶)

تشریح: سورج کا نور تیز اور گرم ہوتا ہے جس کے آتے ہی رات کی تاریکی کافور ہو جاتی ہے۔ شاید اس لیے اس کو جلتے چراغ سے تشبیہ دی۔ اور چاند کے نور کو اسی چراغ کی روشنی کا پھیلاؤ سمجھنا چاہیے جو جرم قمر کے توسط سے ٹھنڈی اور دھیمی ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ نے تمہیں زمین سے سبزے کی طرح اگایا (پیدا کیا)۔ (۱۷) پھر وہ تمہیں اس میں لوٹائے گا، اور پھر تمہیں دوبارہ (اس سے ) نکالے گا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی جس طرح ایک پودا زمین میں مختلف مراحل طے کر کے اگتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالی نے تمہیں مختلف مراحل سے گزار کر اس زمین میں پیدا فرمایا ہے ، نیز جس طرح زمین سے اگنے والا سبزہ فنا ہو کر مٹی میں مل جاتا ہے ، اور پھر جب اللہ تعالی چاہتا ہے اس سبزے کو دوبارہ اسی مٹی سے اُگا دیتا ہے ، اس طرح تم بھی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے ، پھر جب اللہ تعالی چاہے گا تو تہیں دوبارہ زندگی عطا فرما کر زمین سے دوبارہ نکال لے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اور اللہ نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا۔ (۱۹) تاکہ تم چلو پھرو اس کے کشادہ راستوں میں۔ (۲۰)

تشریح: یعنی اس پر لیٹو، بیٹھو، چلو، پھرو، ہر طرف کشادہ راستے نکال دیے ہیں۔ ایک شخص چاہے اور وسائل ہوں تو ساری زمین کے گرد گھوم سکتا ہے۔ راستہ کی کوئی رکاوٹ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

نوح نے کہا اے میرے رب!بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی اور (اس کی) پیروی کی جس کو اس کے مال اور اولاد نے زیادہ نہیں کیا خسارے کے سوا۔ (۲۱) اور انہوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں۔ (۲۲)

تشریح: یہ ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے دشمن ان کے خلاف کر رہے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

اور انہوں نے کہا تم ہر گز نہیں چھوڑنا اپنے معبودانِ ( باطل) کو اور ہر  گز نہ چھوڑنا  ودّ اور نہ سواع اور نہ یغوث اور نہ نسر (بتوں) کو۔ (۲۳)

تشریح: امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ یہ پانچوں دراصل اللہ کے نیک وصالح بندے تھے جو آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیانی زمانے میں گزرے تھے ، ان کے بہت سے لوگ معتقد اور متبع تھے ، ان لوگوں نے ان کی وفات کے بعد بھی ایک عرصے دراز تک انہیں کے نقش قدم پر عبادت اور اللہ کے احکام کی اطاعت جاری رکھی، کچھ عرصہ کے بعد شیطان نے ان کو سمجھایا کہ تم اپنے جن بزرگوں کے تابع عبادت کرتے ہو ان کی تصویریں بنا کر سامنے رکھا کرو، تو تمہاری عبادت بڑی مکمل ہو جائے گی، خشوع و خضوع حاصل ہو گا، یہ لوگ اس فریب میں آ کے ان کے مجسمے بنا کر عبادت گاہ میں رکھنے اور ان کو دیکھ کر بزرگوں کی یاد تازہ ہو جانے سے ایک خاص کیفیت محسوس کرنے لگے ، یہاں تک کہ اسی حال میں یہ لوگ سب یکے بعد دیگرے مر گئے ، اور بالکل نئی نسل نے ان کی جگہ لے لی تو شیطان نے ان کو یہ پڑھایا کہ تمہارے بزرگوں کے خدا اور معبود بھی بت تھے ، وہ انہیں کی عبادت کرتے تھے ، یہاں سے بت پرستی شروع ہو گئی اور ان پانچ بتوں کی عظمت ان کے دلوں میں چونکہ سب سے زیادہ بیٹھی ہوئی تھی، اس لئے باہمی معاہدے میں ان کا نام خاص طور سے لیا گیا۔

(معارف القرآن)

 

اور انہوں نے بہتوں کو گمراہ کیا، اور ظالموں کو نہ زیادہ کر گمراہی کے سوا۔ (۲۴)

تشریح: حضرت شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں ”یعنی (بھٹکتے رہیں) کوئی تدبیر (سیدھی) بن نہ پڑے۔ ” اور حضرت شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں کہ ”استدراج کے طور پر بھی ان کو اپنی معرفت سے آشنا نہ کر۔ ” اور عامہ مفسرین نے ظاہری معنے لیے ہیں۔ یعنی اے اللہ ان ظالموں کی گمراہی کو اور بڑھا دیجیے تاکہ جلد شقاوت کا پیمانہ لبریز ہو کر عذاب الٰہی کے مورد بنیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بددعا ان کی ہدایت سے بکلی مایوس ہو کر کی۔ خواہ مایوسی ہزار سالہ تجربہ کی بنا پر ہو یا حق تعالیٰ کا یہ ارشاد سن چکے ہوں گے۔ ”اَنَّہ، لَنْ یُّوْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ” (ہود، رکوع٤) بہرحال ایسی مایوسی کی حالت میں تنگدل اور غضبناک ہو کر یہ دعاء کرنا کچھ مستبعد نہیں۔ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب کسی شخص یا جماعت کے راہ راست پر آنے کی طرف سے قطعاً مایوسی ہو جائے اور نبی ان کی استعداد کو پوری طرح جانچ کر سمجھ لے کہ خیر کے نفوذ کی ان میں مطلق گنجائش نہیں بلکہ ان کا وجود ایک عضو فاسد کی طرح ہے جو یقیناً باقی جسم کو بھی فاسد اور مسموم کر ڈالے گا تو اس وقت ان کے کاٹ ڈالنے اور صفحہ ہستی سے محو کر دینے کے سوا دوسرا کیا علاج ہے۔ اگر قتال کا حکم ہو تو قتال کے ذریعہ سے ان کو فنا کیا جائے یا قوت توڑ کر ان کے اثر بد کو متعدی نہ ہونے دیا جائے۔ ورنہ آخری صورت یہ ہے کہ اللہ سے دعاء کی جائے کہ وہ ان کے وجود سے دنیا کو پاک کر دے اور ان کے زہریلے جراثیم سے دوسروں کو محفوظ رکھے۔ کما قال۔ ”اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوا عِبَادِکَ” بہرحال نوح کی دعاء اور اسی طرح موسٰی علیہ السلام کی دعاء جو سورہ ”یونس” میں گزری، اسی قبیل سے تھی۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اپنی خطاؤں کے سبب وہ غرق کئے گئے ، پھر وہ آگ میں داخل کئے گئے تو انہوں نے اپنے لئے اللہ کے سوا نہ پایا کوئی مددگار۔ (۲۵)

تشریح: یعنی طوفان آیا۔ اور بظاہر پانی میں ڈبائے گئے۔ لیکن فی الحقیقت برزخ کی آگ میں پہنچ گئے۔ وہ بت (ود، سواع، یغوث وغیرہ) اس آڑے وقت میں کچھ بھی مدد نہ کر سکے۔ یونہی کس مپرسی کی حالت میں مر کھپ گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور نوح نے کہا اے میرے رب ! تو زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔ (۲۶)

بیشک اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور بدکار، ناشکری (اولاد) کے سوا نہ جنیں گے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی ایک کافر کو زندہ نہ چھوڑیے۔ ان میں کوئی اس لائق نہیں کہ باقی رکھا جائے جو کوئی رہے گا میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اس کے نطفہ سے بھی بے حیا ڈھیٹ منکر حق اور ناشکرے پیدا ہوں اور جب تک ان میں سے کوئی موجود رہے گا خود تو راہِ راست پر کیا آتا دوسرے ایمانداروں کو بھی گمراہ کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو، اور اسے جو میرے گھر میں ایمان لا کر داخل ہو، اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو، اور ظالموں کو ہلاکت کے سوا نہ بڑھا۔ (۲۸)

تشریح: یعنی میرے مرتبہ کے موافق مجھ سے جو تقصیر ہوئی ہو، اپنے فضل سے معاف کیجیے ، اور میرے والدین اور جو میری کشتی یا میرے گھر یا میری مسجد میں مومن ہو کر آئے ان سب کی خطاؤں سے درگزر فرمائیے۔ بلکہ قیامت تک جس قدر مرد اور عورتیں مومن ہوں سب کی مغفرت کیجیے۔ اللہ! نوح کی دعاء کی برکت سے اس بندہ عاصی و خاطی کو بھی اپنی رحمت و کرم سے مغفور کر کے بدون تعذیب دنیاوی و اخروی اپنی رضاء و کرامت کے محل میں پہنچائیے۔ ”اِنَّکَ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ مُجِیْبُ الدَّعْوَاتِ۔ ” (تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۷۲۔ سُوْرَۃُ الْجِنِّ

 

                تعارف

 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح انسانوں کے لئے پیغمبر بنایا گیا تھا، اسی طرح آپ جنات کے لئے بھی پیغمبر تھے ، چنانچہ آپ نے جنات کو بھی تبلیغ فرمائی، اور جنات کو تبلیغ کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ آپ کی نبوت سے پہلے جنات کوآسمانوں کے قریب تک پہنچنے دیا جاتا تھا، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد انہیں آسمانوں کے قریب جانے سے اس طرح روک دیا گیا تھا کہ جب کوئی جن یا شیطان آسمان کے قریب پہنچنا چاہتا تو اسے ایک شعلے کے ذریعے مار بھگا دیا جاتا تھا، جیسا کہ سورۂ حجر (۱۷:۱۵) اور سورۂ صافات (۱۰:۳۷) میں گزر چکا ہے ، صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ جنات نے جب اس بدلی ہوئی صورت حال کو دیکھا تو ان کے دل میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے کہ اب انہیں آسمان کے پاس بھی پھٹکنے سے روک دیا جاتا ہے ، اس غرض کے لئے ان کی ایک جماعت دنیا کا دورہ کرنے کے لئے نکلی، یہ وہ وقت تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے اور نخلہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے ، وہاں آپ نے فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کی تو جنات کی یہ جماعت اس وقت وہاں سے گزر رہی تھی، اس نے یہ کلام سنا تو وہ اسے اطمینان سے سننے کے لئے رک گئے ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے فجر کے وقت قرآن کریم کے پر اثر کلام نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ جنات مسلمان ہو گئے اور پھر اپنی قوم کے پاس بھی اسلام کے داعی بن کر پہنچے ، انہوں نے اپنی قوم سے جا کر جو باتیں کیں، ان آیات میں اللہ تعالی نے ان کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۲۸        رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

آپ فرما دیں مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے اسے (قرآن کو) سنا تو انہوں نے کہا، بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا۔ (۱)

اور وہ رہنمائی کرتا ہے ہدایت کی طرف، تو ہم اس پر ایمان لائے اور ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کوئی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ (۲)

تشریح: سورہ ”احقاف” میں گزر چکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں قرآن پڑھ رہے تھے ، کئی جن ادھر کو گزرے اور قرآن کی آواز پر فریفتہ ہو کر سچے دل سے ایمان لے آئے۔ پھر اپنی قوم سے جا کر سب ماجرا بیان کیا۔ کہ ہم نے ایک کلام سنا ہے جو (اپنی فصاحت و بلاغت، حسن اسلوب، قوتِ تاثیر، شیریں بیانی، طرز موعظت اور علوم و مضامین کے اعتبار سے ) عجیب و غریب ہے ، معرفت ربانی اور رشد و فلاح کی طرف رہبری کرتا ہے۔ اور طالب خیر کا ہاتھ پکڑ کر نیکی اور تقویٰ کی منزل پر پہنچا دیتا ہے اس لیے ہم سنتے ہی بلا توقف اس پر یقین لائے ، اور ہم کو کچھ شک و شبہ نہیں رہا کہ ایسا کلام اللہ کے سوا کسی کا نہیں ہو سکتا۔ اب ہم اس کی تعلیم و ہدایت کے موافق عہد کرتے ہیں کہ آئندہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ان کے اس تمام بیان کی آخر تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر وحی فرمائی۔ اس کے بعد بہت مرتبہ جن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملے۔ ایمان لائے اور قرآن سیکھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہمارے رب کی شان برتر ہے ، اس نے نہیں بنایاکسی کو اپنی بیوی اور نہ اولاد۔ (۳)

تشریح: یعنی بیوی و بیٹا رکھنا اس کی عظمت شان کے منافی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جو گمراہیاں آدمیوں میں پھیلی ہوئی تھیں وہ جنوں میں بھی تھیں (عیسائیوں کی طرح) اللہ کی بیوی و بیٹا بتاتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم میں سے بیوقوف اللہ پر بڑھا چڑھا کر باتیں کہتے تھے۔ (۴)

تشریح: یعنی ہم میں جو بیوقوف ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نسبت ایسی لغو باتیں اپنی طرف سے بڑھا کر کہتے تھے اور ان میں سب سے بڑا بیوقوف ابلیس ہے ، شاید خاص وہی اس جگہ لفظ ”سفیہ” سے مراد ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ ہر گز انسان اور جن اللہ پر (اللہ کی شان میں) جھوٹ نہ کہیں گے۔ (۵)

تشریح: یعنی ہم کو یہ خیال تھا کہ اس قدر کثیر التعداد جن اور آدمی مل کر جن میں بڑے بڑے عاقل اور دانا بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت جھوٹی بات کہنے کی جرأت نہ کریں گے۔ یہی خیال کر کے ہم بھی بہک گئے ، اب قرآن سن کر قلعی کھلی اور اپنے پیش روؤں کی اندھی تقلید سے نجات ملی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ انسانوں میں کچھ آدمی جنات کے لوگوں سے پناہ لیتے تھے ا ور انہوں نے جنات کو تکبر میں اور بڑھا دیا۔ (۶)

تشریح: عرب میں یہ جہالت بہت پھیلی ہوئی تھی۔ جنوں سے غیب کی خبریں پوچھتے ، ان کے نام کی نذر و نیاز کرتے ، چڑھاوے چڑھاتے۔ اور جب کسی قافلہ کا گزر یا پڑاؤ کسی خوفناک وادی میں ہوتا تو کہتے کہ اس حلقہ کے جنوں کا جو سردار ہے ہم اس کی پناہ میں آتے ہیں، تاکہ وہ اپنے ماتحت جنوں سے ہماری حفاظت کرے۔ ان باتوں سے جن اور زیادہ مغرور ہو گئے اور سر چڑھنے لگے۔ دوسری طرف اس طرح کی شرکیات سے آدمیوں کے عصیان و طغیان میں بھی اضافہ ہوا، جب انہوں نے خود اپنے اوپر جنوں کو مسلط کر لیا تو وہ ان کے اغوا میں کیا کمی کرتے۔ آخر قرآن نے آ کر ان خرابیوں کی جڑ کاٹی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے گمان کیا جیسے تم نے گمان کیا تھا کہ ہرگز اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا۔ (۷)

تشریح: مسلمان جن یہ سب گفتگو اپنی قوم سے کر رہے ہیں۔ یعنی جیسا تمہارا خیال ہے ، بہت آدمیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو ہرگز قبروں سے نہ اٹھائے گا۔ یا آئندہ کوئی پیغمبر مبعوث نہ کرے گا۔ جو رسول پہلے ہو چکے سو ہو چکے۔ اب قرآن سے معلوم ہوا کہ اس نے ایک عظیم الشان رسول بھیجا ہے جو لوگوں کو بتلاتا ہے کہ تم سب موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے اور رتی رتی کا حساب دینا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اسے سخت پہریداروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ (۸)

اور یہ کہ ہم اس کے ٹھکانوں میں سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے ، پس اب جو سنتا ہے (سننا چاہتا ہے ) وہ وہاں گھات لگایا ہوا شعلہ پاتا ہے۔ (۹)

تشریح: یعنی ہم اڑ کر آسمان کے قریب تک پہنچے تو دیکھا کہ آجکل بہت سخت جنگی پہرے لگے ہوئے ہیں، جو کسی شیطان کو غیب کی خبر سُننے نہیں دیتے ، اور جو شیطان ایسا ارادہ کرتا ہے اس پر انگارے برستے ہیں، اس سے پیشتر اتنی سختی اور روک ٹوک نہ تھی جن اور شیاطین آسمان کے قریب گھات میں بیٹھ کر ادھر کی کچھ خبر سن کر آیا کرتے تھے۔ مگر اب اس قدر سخت ناکہ بندی اور انتظام ہے کہ جو سننے کا ارادہ کرے فوراً شہاب ثاقب کے آتشیں گولے سے اس کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ اس کی بحث پہلے سورہ ”حجر” وغیرہ میں گزر چکی وہاں دیکھ لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ جو زمین میں ہیں آیا ان کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان سے (اللہ نے ) ہدایت کا ارادہ فرمایا ہے۔ (۱۰)

تشریح: یعنی یہ جدید انتظامات اور سخت ناکہ بندی خدا جانے کس غرض سے عمل میں آئی ہیں۔ یہ تو ہم سمجھ چکے کہ قرآن کریم کا نزول اور پیغمبر عربی کی بعثت اس کا سبب ہوا لیکن نتیجہ کیا ہونے والا ہے ؟ آیا زمین والے قرآن کو مان کر راہ پر آئیں گے اور اللہ ان پر الطاف خصوصی مبذول فرمائے گا؟ یا یہی ارادہ ٹھہر چکا ہے کہ لوگ قرآنی ہدایات سے اعراض کرنے کی پاداش میں تباہ و برباد کیے جائیں؟ اس کا علم اسی علام الغیوب کو ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم میں سے (کچھ) نیکو کار ہیں ا ور ہم میں سے (کچھ) اس کے علاوہ ہیں، ہم مختلف راہوں پر تھے۔ (۱۱)

تشریح: یعنی نزولِ قرآن سے پہلے بھی سب جن ایک راہ پر نہ تھے ، کچھ نیک اور شائستہ تھے ، اور بہت سے بدکار و ناہنجار، ان میں بھی فرقے اور جماعتیں ہوں گی۔ کوئی مشرک، کوئی عیسائی، کوئی یہودی وغیر ذلک۔ اور عملی طور پر ہر ایک کی راہِ عمل جدا ہو گی۔ اب قرآن آیا جو اختلافات اور تفرقوں کو مٹانا چاہتا ہے ، لیکن لوگ ایسے کہاں ہیں کہ سب کے سب حق کو قبول کر کے ایک راستہ پر چلنے لگیں۔ لامحالہ اب بھی اختلاف رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم اللہ کو ہر گز نہ ہرا سکیں گے زمین میں اور ہم اس کو ہرگز بھاگ کر نہ ہرا سکیں گے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی اگر ہم نے قرآن کو نہ مانا تو اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتے ، نہ زمین میں کسی جگہ چھپ کر، نہ ادھر اُدھر بھاگ کر، یا ہوا میں اڑ کر۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم نے ہدایت سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے سو جو اپنے رب پر ایمان لائے تو اسے نہ کسی نقصان کا خوف ہو گا اور نہ کسی ظلم کا۔ (۱۳)

تشریح: یعنی ہمارے لیے فخر کا موقع ہے کہ جنوں میں سب سے پہلے ہم نے قرآن سن کر بلا توقف قبول کیا اور ایمان لانے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کی۔ سچے ایماندار کو اللہ کے ہاں کوئی کھٹکا نہیں۔ نہ نقصان کا کہ اس کی کوئی نیکی اور محنت یونہی رائیگاں چلی جائے۔ نہ زیادتی کا کہ زبردستی کسی دوسرے کے جرم اس کے سر تھوپ دیے جائیں، غرض وہ نقصان، تکلیف اور ذلت و رسوائی سب سے مامون و محفوظ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ ہم میں سے (کچھ) مسلمان (فرمانبردار) ہیں اور ہم میں سے (کچھ) گنہگار ہیں، پس جو اسلام لایا تو وہی ہے جنہوں نے بھلائی کا قصد کیا۔ (۱۴)

اور رہے گنہگار تو وہ جہنم کا ایندھن ہوئے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی نزولِ قرآن کے بعد ہم میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اللہ کا پیغام سن کر قبول کیا اور اس کے احکام کے سامنے گردن جھکا دی۔ یہی ہیں جو تلاشِ حق میں کامیاب ہوئے۔ اور اپنی تحقیق و تفحص سے نیکی کے راستہ پر پہنچ گئے۔ دوسرا گروہ بے انصافوں کا ہے جو کجروی و بے انصافی کی راہ سے اپنے پروردگار کے احکام کو جھٹلاتا اور اس کی فرمانبرداری سے انحراف کرتا ہے۔ یہ وہ ہیں جن کو جہنم کا کندا اور دوزخ کا ایندھن کہنا چاہیے۔

( تفسیرعثمانی)

 

(اور مجھے وحی کی گئی ہے ) کہ اگر وہ قائم رہتے سیدھے راستے پرتو ہم انہیں وافر پانی پلاتے۔ (۱۶)

تاکہ ہم انہیں اس میں آزمائیں، اور جو اپنے رب کی یاد سے روگردانی کرے گا وہ اسے سخت عذاب میں داخل کرے گا۔ (۱۷)

تشریح: یعنی اگر جن و انس حق کی سیدھی راہ پر چلتے تو ہم ان کو ایمان و طاعت کی بدولت ظاہری و باطنی برکات سے سیراب کر دیتے اور اس میں بھی ان کی آزمائش ہوتی کہ نعمتوں سے بہرہ ور ہو کر شکر بجا لاتے اور طاعت میں مزید ترقی کرتے ہیں یا کفرانِ نعمت کر کے اصل سرمایہ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت مکہ والوں کے ظلم و شرارت کی سزا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء سے کئی سال کا قحط پڑا تھا۔ لوگ خشک سالی سے پریشان ہو رہے تھے۔ اس لیے متنبہ فرما دیا کہ اگر سب لوگ ظلم و شرارت سے باز آ کر اللہ کے راستہ پر چلیں جیسے مسلمان جنوں نے طریقہ اختیار کیا ہے تو قحط دور ہو اور بارانِ رحمت سے ملک سرسبز و شاداب کر دیا جائے۔

اللہ کی یاد سے منہ موڑ کر آدمی کو چین نصیب نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ایسے راستہ پر چل رہا ہے جہاں پریشانی اور عذاب ہی چڑھتا چلا آتا ہے

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں تو تم اللہ کے ساتھ کسی کی بندگی نہ کرو۔ (۱۸)

تشریح: یوں تو خدا کی ساری زمین اس امت کے لیے مسجد بنا دی گئی ہے۔ لیکن خصوصیت سے وہ مکانات جو مسجدوں کے نام سے خاص عبادتِ الٰہی کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان کو اور زیادہ امتیاز حاصل ہے۔ وہاں جا کر اللہ کے سوا کسی ہستی کو پکارنا ظلم عظیم اور شرک کی بدترین صورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خالص خدائے واحد کی طرف آؤ اور اس کا شریک کر کے کسی کو کہیں بھی مت پکارو، خصوصاً مساجد میں جو اللہ کے نام پر تنہا اسی کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں۔ بعض مفسرین نے ”مساجد” سے مراد وہ اعضا لیے ہیں جو سجدہ کے وقت زمین پر رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت مطلب یہ ہو گا کہ یہ خدا کے دیے ہوئے اور اس کے بنائے ہوئے اعضاء ہیں۔ جائز نہیں کہ ان کو اس مالک و خالق کے سوا کسی دوسرے کے سامنے جھکاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ جب کھڑا ہوا اللہ کا بندہ وہ اس (اللہ) کی عبادت کرے تو قریب تھا کہ وہ (جنات) اس پر حلقہ در حلقہ کھڑے ہو جائیں۔ (۱۹)

تشریح: اللہ کے بندے سے یہاں مراد حضور اقدس اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور ٹوٹے پڑنے کا مطلب ایک تو یہ ممکن ہے کافر لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو کر ایسا انداز اختیار کرتے تھے جیسے وہ آپ پر حملہ کر دیں، اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جب آپ عبادت کے دوران قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو قرآن سننے کے لئے آپ کے گرد جنات کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں کہ میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور میں شریک نہیں کرتا کسی کو اس کے ساتھ۔ (۲۰) آپ فرما دیں بیشک میں تمہارے لئے اختیار نہیں رکھتا کسی ضرر کا اور نہ کسی بھلائی کا۔ (۲۱)

تشریح: قُلْ إِنِّيْ لَآ أَمْلِکُ لَكُمْ :میرے اختیار میں نہیں کہ تم کو بھی راہ پر لے آؤں۔ اور نہ آؤ تو کچھ نقصان پہنچا دوں، سب بھلائی برائی اور سود و زیاں اسی خدائے واحد کے قبضہ میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بیشک مجھے ہر گز پناہ نہ دے گا اللہ سے کوئی بھی اور میں اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہ پاؤں گا۔ (۲۲)

تشریح: یعنی تم کو نفع نقصان پہنچانا تو کجا، اپنا نفع و ضرر میرے قبضہ میں نہیں۔ اگر بالفرض میں اپنے فرائض میں تقصیر کروں تو کوئی شخص نہیں جو مجھ کو اللہ کے ہاتھ سے بچا لے اور کوئی جگہ نہیں جہاں بھاگ کر پناہ حاصل کر سکوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

مگر (میرا کام ہے ) اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا اور اس کے پیغام (لانا) ا ور جو نافرمانی کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول کی، تو بیشک اس کے لئے جہنم کی آگ ہے ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۳)

تشریح: یعنی اللہ کی طرف سے پیغام لانا، اور اس کے بندوں کو پہنچا دینا، یہی چیز ہے جو اس نے میرے اختیار میں دی اور یہی فرض ہے جس کے ادا کرنے سے میں اس کی حمایت اور پناہ میں رہ سکتا ہوں۔ تمہارے نفع نقصان کا مالک میں نہیں۔ لیکن اللہ کی اور میری نافرمانی کرنے سے نقصان پہنچنا ضروری ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہاں تک کہ جب وہ دیکھیں گے جو انہیں وعدہ دیا جاتا ہے تو وہ عنقریب جان لیں گے کس کا مددگار کمزور تر ہے اور تعداد میں کم تر ہے۔ (۲۴)

تشریح: سورۂ مریم (۱۹:۷۳) میں ہے کہ کافر لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ :ہم دونوں فریقوں میں سے کس کا مقام زیادہ بہتر ہے اور کس کی مجلس زیادہ اچھی ہے۔ یعنی کس کے مددگار طاقت اور گنتی میں زیادہ ہیں، اس آیت میں کافروں کی اسی قسم کی باتوں کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی کا عذاب سامنے آئے گا اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ کس کے مددگار کمزور یا تعداد میں زیادہ ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں میں نہیں جانتا آیا قریب ہے جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا اس کے لئے میرا رب کوئی مدت (دراز) مقرر کر دے گا۔ (۲۵)

تشریح: یعنی اس کا علم مجھے نہیں دیا گیا کہ وعدہ جلد آنے والا ہے ، یا ایک مدت کے بعد۔ کیونکہ قیامت کا وقت معین کر کے اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتلایا۔ یہ ان غیوب میں سے ہے جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

(وہ) غیب کا علم جاننے و الا ہے ، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ (۲۶)

سوائے (اس کے ) جس کو وہ پسند کرتا ہے رسولوں میں سے ، تو بیشک اس کے آگے اور اس کے پیچھے محافظ فرشتے چلاتا ہے۔ (۲۷)

تشریح:اللہ تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے ، البتہ وہ اپنے جس پیغمبر کو چاہتا ہے وحی کے ذریعے غیب کی خبریں پہنچا دیتا ہے اور ایسے موقع پر فرشتوں کو اس وحی کا محافظ بنا کر بھیجا جاتا ہے تاکہ کوئی شیطان اس میں کوئی خلل نہ ڈال سکے۔

(توضیح القرآن)

 

تاکہ وہ معلوم کر لے کہ تحقیق انہوں نے پہنچا دئیے ہیں، اپنے رب کے پیغام ا وراس نے احاطہ کیا ہوا ہے جو کچھ ان کے پاس ہے اور ہر شے کو گنتی میں شمار کر رکھا ہے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی یہ زبردست انتظامات اس غرض سے کیے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لے کہ فرشتوں نے پیغمبروں کو یا پیغمبروں نے دوسرے بندوں کو اس کے پیغامات ٹھیک ٹھیک بلا کم و کاست پہنچا دیے ہیں۔ ہر چیز اس کی نگرانی اور قبضہ میں ہے۔ کسی کی طاقت نہیں کہ وحی الٰہی میں تغیر و تبدل یا قطع و برید کر سکے۔ اور یہ پہرے چوکیاں بھی شانِ حکومت کے اظہار اور سلسلہ، اسباب کی محافظت کے لیے بہت سی حکمتوں پر مبنی ہیں۔ ورنہ جس کا علم اور قبضہ ہر چیز پر حاوی ہو اس کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ تم سورۃ الجن وللہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۷۳۔ سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّلِ

 

                تعارف

 

اس سورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بیان ہے ، آپ کا تبتل (خالص اللہ کی طرف متوجہ ہو جانے ) آپ کی عبادت، اطاعت، آپ کا قیام و تلاوت آپ کا جہاد وہ مجاہدہ، خود اس سورت کا نام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا بیان ہے ، مزمل کا معنی ہے کپڑے میں لپٹنے والے ، جب ان آیا ت کا نزول ہوا تو آپ چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے ، اللہ نے محبت اور پیار کے انداز میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اے کپڑے میں لپٹنے والے ، آپ دن کو دین کی دعوت دیتے تھے ، رات کو نماز میں طویل قیام فرماتے تھے ، اور اس میں قرآن کی تلاوت فرماتے تھے ، بعض اوقات پوری رات کھڑے رہتے جس سے قدم مبارک میں ورم آ جاتا، اللہ نے آپ کو اختیار دیا کہ آپ چاہیں تو آدھی رات قیام کریں یا آدھی سے کم یا کچھ زیادہ، راتوں کا یہ قیام روحانی تربیت میں بڑا مؤثر ثابت ہوتا ہے ، اس لئے قیام لیل کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا، یقیناً ہم تجھ پر عنقریب بہت بھاری بات نازل کریں گے ، بھاری بات سے مراد قرآن عظیم ہے ، جس کی ایک خاص ہیبت اور جلال ہے ، اس کا تحمل وہی کرسکتا ہے جس کا نفس علم و عرفان کے نور سے روشن ہوچکا ہو، اور باطن کی روشنی میں قیام لیل کو خاص دخل حاصل ہے ، اگلی آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ایذاؤں پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، جو دین کی دعوت کے سلسلے میں مشرکین کی طرف سے آپ کو دی جاتی تھیں، آپ کوستانے میں ان کے ہاتھ بھی استعمال ہوتے تھے اور زبانیں بھی استعمال ہوتی تھیں، اس کے بعد یہ سورت آپ کے مکذبین کو ڈرانے کے لئے فرعون کا قصہ ذکر کرتی ہے ، جیسے اللہ نے اس کے کفر وسرکشی کی وجہ سے سخت وبال میں پکڑا، سورت کے اختتام پر اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنین پر تخفیف کا اعلان فرمایا ہے ، ایک تخفیف اس اعتبار سے ہے کہ نصف رات یا ثلث یا در ثلث کا قیام ضروری نہیں، بلکہ جتنا بھی آسانی سے ممکن ہو قیام لیل کر لیا جائے ، دوسرے تخفیف اس اعتبار سے ہے کہ اب مؤمنین پر تہجد فرض نہیں رہی، اس کے حکم کو استحباب میں تبدیل کر دیا گیا۔

(خلاصہ قرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات:۲۰        رکوعات:۲

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اے کپڑوں میں لپٹنے والے محمد! (۱) رات میں قیام کریں مگر تھوڑا۔ (۲) اس (رات) کا نصف حصہ یا اس میں سے تھوڑا کم کر لیں۔ (۳) یا (کچھ) زیادہ کر لیں اس سے ، اور قرآن ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (۴)

تشریح: یہ پیار بھرا خطاب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، جب آپ پر پہلی پہلی بار غار حراء میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے تھے تو آپ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہوا کہ آپ کو جاڑا لگنے لگا، اور جب آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرما رہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو، مجھے چادر میں لپیٹ دو، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں محبوبانہ انداز میں آپ کو اے چادر میں لپٹنے والے کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔

قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيْلًا :اس آیت میں آپ کو تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا ہے ، اکثر مفسرین کے مطابق شروع میں تہجد کی نماز نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر، بلکہ تمام صحابہ پر فرض کر دی گئی تھی، اور اس کی مقدار کم سے کم ایک تہائی رات مقرر فرمائی گئی تھی، یہ فرضیت بعض روایات کی رو سے سال بھر تک جاری رہی، بعد میں اسی سورت کی آیت نمبر ۲۰ نازل ہوئی جس نے تہجد کی فرضیت منسوخ کر دی جیسا کے اُس آیت کی تشریح میں آنے والا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا:ترتیل کے لفظی معنی کلمہ کو سہولت اور استقامت کے ساتھ منہ سے نکالنے کے ہیں (مفردات امام راغب) مطلب آیت کا یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں جلدی نہ کریں، بلکہ ترتیل وتسہیل کے ساتھ ادا کریں اور ساتھ ہی اس کے معانی میں تدبر غور کریں (قرطبی)۔

(معارف القرآن)

 

بیشک ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری کلام (قرآن کریم) ڈالیں گے (نازل کریں گے )۔ (۵)

تشریح: احادیث میں ہے کہ نزول قرآن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گرانی اور سختی گزرتی تھی۔ جاڑے کے موسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔ اگر اس وقت کسی سواری پر سوار ہوتے تو سواری تحمل نہیں کر سکتی تھی۔ ایک مرتبہ آپ کی فخذ مبارک زید بن ثابت کی ران پر تھی۔ اس وقت وحی نازل ہوئی۔ زید بن ثابت کو ایسا محسوس ہوا کہ ان کی ران بوجھ سے پھٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ اس ماحول میں قرآن کی دعوت و تبلیغ اور اس کے حقوق پوری طرح ادا کرنا اور اس راہ میں تمام سختیوں کو کشادہ دلی سے برداشت کرنا بھی سخت مشکل اور بھاری کام تھا۔ اور جس طرح ایک حیثیت سے یہ کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھاری تھا دوسری حیثیت سے کافروں اور منکروں پر شاق تھا۔ غرض ان تمام وجوہ کا لحاظ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ جس قدر قرآن اتر چکا ہے۔ اس کی تلاوت میں رات کو مشغول رہا کریں اور اس عبادت خاص کے انوار سے اپنے تئیں مشرف کر کے اس فیض اعظم کی قبولیت کی استعداد اپنے اندر مستحکم فرمائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک رات کا اٹھنا نفس کو سخت روندنے والا ہے اور زیادہ درست ہے الفاظ کے تلفظ میں۔ (۶)

تشریح: یعنی رات کو اٹھنا کچھ آسان کام نہیں۔ بڑی بھاری ریاضت اور نفس کشی ہے جس سے نفس روندا جاتا ہے اور نیند آرام وغیرہ و خواہشات پامال کی جاتی ہیں۔ نیز اس وقت دعا اور ذکر سیدھا دل سے ادا ہوتا ہے۔ زبان اور دل موافق ہوتے ہیں۔ جو بات زبان سے نکلتی ہے ذہن میں خوب جمتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر قسم کے شور و غل اور چیخ پکار سے یکسو ہونے اور خداوند قدوس کے سماء دنیا پر نزول فرمانے سے قلب کو ایک عجیب قسم کے سکون و قرار اور لذت و اشتیاق کی کیفیت میسر ہوتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک آپ کے لئے دن میں طویل شغل ہے۔ (۷)

تشریح: یعنی دن میں لوگوں کو سمجھانا اور دوسرے کئی طرح کے مشاغل رہتے ہیں۔ گو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بالواسطہ عبادت ہیں۔ تاہم بلاواسطہ پروردگار کی عبادت اور منا جات کے لیے رات کا وقت مخصوص رکھنا چاہیے۔ اگر عبادت میں مشغول ہو کر رات کی بعض حوائج چھوٹ جائیں تو کچھ پروا نہیں۔ دن میں ان کی تلافی ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ اپنے رب کا نام یاد کریں اور سب سے چھوٹ کر (الگ ہو کر) اس کی طرف چھوٹ (کر چلے ) جائیں۔ (۸)

تشریح: یعنی علاوہ قیام لیل کے دن میں بھی (گو بظاہر مخلوق سے معاملات و علائق رکھنے پڑتے ہیں) لیکن دل سے اسی پروردگار کا علاقہ سب پر غالب رکھے اور چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اسی کی یاد میں مشغول رہیے غیر اللہ کا کوئی تعلق ایک آن کے لیے ادھر سے توجہ کو ہٹنے نہ دے بلکہ سب تعلقات کٹ کر باطن میں اسی ایک کا تعلق باقی رہ جائے یا یوں کہہ لو کہ سب تعلقات اسی ایک تعلق میں مدغم ہو جائیں جسے صوفیہ کے ہاں ”بے ہمہ و باہمہ” یا ”خلوت در انجمن” سے تعبیر کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

(وہ) مشرق و مغرب کار ب ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس اس کو کار ساز بنا لیں۔ (۹)

تشریح: مشرق دن کا اور مغرب رات کا نشان ہے گویا اشارہ کر دیا کہ دن اور رات دونوں کو اسی مالک مشرق و مغرب کی یاد اور رضا جوئی میں لگانا چاہیے۔ بندگی بھی اس کی اور توکل بھی اسی پر ہونا چاہیے۔ جب وہ وکیل و کارساز ہو تو دوسروں سے کٹ جانے اور الگ ہونے کی کیا پروا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو وہ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کریں اور اچھی طرح کنارہ کش ہو کر انہیں چھوڑ دیں۔ (۱۰)

تشریح: یعنی کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر، کاہن اور مجنون و مسحور وغیرہ کہتے ہیں۔ ان باتوں کو صبر و استقلال سے سہتے رہیے۔ اچھی طرح کا چھوڑنا یہ کہ ظاہر میں ان کی صحبت ترک کرو اور باطن میں ان کے حال سے خبردار رہو کہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں اور مجھ کو کس طور سے یاد کرتے ہیں، دوسرے ان کی بدسلوکی کی شکایت کسی کے سامنے نہ کرو، نہ انتقام لینے کے درپے ہو، نہ گفتگو یا مقابلہ کے وقت کج خلقی کا اظہار کرو۔ تیسرے یہ کہ باوجود جدائی اور مفارقت کے ان کی نصیحت میں قصور نہ کیجیے بلکہ جس طرح بن پڑے ان کی ہدایت و راہنمائی میں سعی کرتے رہیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی خلق سے کنارہ کر لیکن لڑ بھڑ کر نہیں، سلوک سے ” مگر یاد رہے کہ یہ آیت مکی  ہے اور آیات قتال کا نزول مدینہ میں ہوا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور مجھے اور جھٹلانے والے خوشحال لوگوں کو چھوڑ دیں (سمجھ لینے دیں) اور ان کو تھوڑی مہلت دیں۔ (۱۱)

تشریح: یعنی حق و صداقت کو جھٹلانے والے جو دنیا میں عیش و آرام کر رہے ہیں ان کا معاملہ میرے سپرد کیجیے میں خود ان سے نبٹ لوں گا، مگر تھوڑی سی ڈھیل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہمارے ہاں عذاب ہے اور دہکتی آگ۔ (۱۲) اور کھانا ہے گلے میں اٹک جانے والا، اور عذاب ہے دردناک۔ (۱۳)

جس دن زمین اور پہاڑ کانپیں گے ، اور پہاڑ ریزہ ریزہ (ہو کر) ریت کے تودے ہو جائیں گے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی اس عذاب کی تمہید اس وقت سے شروع ہو گی جب پہاڑوں کی جڑیں ڈھیلی ہو جائیں گی اور وہ کانپ کر گڑ پڑیں گے اور ریزہ ریزہ ہو کر ایسے ہو جائیں گے جیسے ریت کے تودے جن پر قدم جم نہ سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے تمہاری طرف بھیجا (محمد کو) تم پر گواہی دینے والا ایک رسول، جیسے ہم نے فرعون کی طرف (موسیٰ کو) ایک رسول بنا کر بھیجا تھا۔ (۱۵)

تشریح: یعنی یہ پیغمبر اللہ کے ہاں گواہی دے گا کہ کس نے اس کا کہنا مانا اور کس نے نہیں مانا تھا۔ حضرت موسٰی کی طرح تم کو مستقل دین اور عظیم الشان کتاب دے کر بھیجا۔ شاید یہ اس پیشین گوئی کی طرف اشارہ ہے جو تورات سفر استثناء میں ہے کہ ”میں ان کے لیے ان کے بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

پس فرعون نے رسول کا کہا نہ مانا تو ہم نے اسے (فرعون کو) بڑے وبال کی پکڑ میں پکڑ لیا۔ (۱۶)

تشریح: جب موسٰی کے منکر کو ایسا سخت پکڑا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو کیوں نہ پکڑے گا۔ جو تمام انبیاء سے افضل اور برتر ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر تم کفر کرو گے تو اس دن کیسے بچو گے ؟جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ (۱۷)

تشریح: یعنی دنیا میں اگر بچ گئے تو اس دن کیونکر بچو گے جس دن کی شدت اور درازی بچوں کو بوڑھا کر دینے والی ہو گی۔ خواہ فی الحقیقت بچے بوڑھے نہ ہوں لیکن اس روز کی سختی اور لمبائی کا اقتضاء یہی ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آسمان پھٹ جائے گا، اس کا وعدہ پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ (۱۸) بیشک یہ (قرآن) نصیحت ہے جو کوئی چاہے اختیار کر لے (ا س کے ذریعہ) اپنے رب کی طرف راہ۔ (۱۹)

تشریح: یعنی اللہ کا وعدہ اٹل ہے ضرور ہو کر رہے گا۔ خواہ تم اس کو کتنا ہی بعید از امکان سمجھو۔ نصیحت کر دی گئی اب جو اپنا فائدہ چاہے اس نصیحت پر عمل کر کے اپنے رب سے مل جائے۔ راستہ کھلا  نہیں نہ خدا کا کچھ فائدہ ہے۔ تم سو دفعہ اپنا فائدہ سمجھو تو سیدھے لے آؤ۔ (تنبیہ) رات کے جاگنے کا حکم جو شروع سورت میں تھا تقریباً ایک سال تک رہا۔ پھر اگلی آیت سے منسوخ ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب قیام کرتے ہیں اور (کبھی) آدھی رات ا ور (کبھی) ا س کا تہائی حصہ، اور جو آپ کے ساتھی ہیں ان میں ایک جماعت (بھی) ، اور اللہ رات اور دن کا اندازہ فرماتا ہے اس نے جانا کہ تم ہرگز نباہ نہ کرسکو گے تو اس نے تم  پر عنایت فرمائی تو تم قرآن میں جس قدر آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو، اس نے جانا کہ البتہ تم میں سے کوئی بیمار ہوں گے اور کوئی اور روزی تلاش کرتے ہوئے زمین میں سفر کریں گے ، اور کئی دوسرے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ، پس اس میں سے جس قدر ہو سکے تم پڑھ لیا کرو، اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اور اللہ کو اخلاص سے قرض دو، اور کوئی نیکی جو تم اپنے لئے آگے بھیجو گے ، وہ اللہ کے ہاں بہتر اور بڑے اجر میں پاؤ گے ، اور تم اللہ سے بخشش مانگو، بے شک اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (۲۰)

تشریح: إِنَّ رَبَّکَ يَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْمُ أَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ: یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے اس کے حکم کی پوری تعمیل کی کبھی آدھی کبھی تہائی اور کبھی دو تہائی رات کے قریب اللہ کی عبادت میں گزاری۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ صحابہ کے پاؤں راتوں کو کھڑے کھڑے سوج جاتے اور پھٹنے لگتے تھے۔ بلکہ بعض تو اپنے بال رسی سے باندھ لیتے تھے کہ نیند آئے تو جھٹکا لگ کر تکلیف سے آنکھ کھل جائے۔

وَاللّٰہُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّہَارَ  عَلِمَ أَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ: یعنی رات اور دن کی پوری پیمائش تو اللہ کو معلوم ہے وہی ایک خاص اندازہ سے کبھی رات کو دن سے گھٹاتا کبھی بڑھاتا اور کبھی دونوں کو برابر کر دیتا ہے۔ بندوں کو اس نیند اور غفلت کے وقت روزانہ آدھی، تہائی، اور دو تہائی رات کی پوری طرح حفاظت کرنا خصوصاً جبکہ گھڑی گھنٹوں کا سامان نہ ہو، سہل کام نہیں تھا، اسی لیے بعض صحابہ رات بھر نہ سوتے تھے کہ کہیں نیند میں ایک تہائی رات بھی جاگنا نصیب نہ ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے معافی بھیج دی اور فرما دیا کہ تم اس کو ہمیشہ پوری طرح نباہ نہ سکو گے۔ اس لیے اب جس کو اٹھنے کی توفیق ہو، وہ جتنی نماز اور اس میں جتنا قرآن چاہے پڑھ لے۔ اب امت کے حق میں نہ نماز تہجد فرض ہے نہ وقت کی یا مقدار تلاوت کی کوئی قید ہے۔

عَلِمَ أَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى ۙ وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِی الْأَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللہِ ۙ وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِيْلِ اللہِ ۖ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْہُ ۚ وَأَقِيْمُوا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ :یعنی اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ تم میں بیمار بھی ہوں گے اور مسافر بھی جو ملک میں روزی یا علم وغیرہ کی تلاش کرتے پھریں گے اور وہ مرد مجاہد بھی ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے ان حالات میں شب بیداری کے احکام پر عمل کرنا سخت دشوار ہو گا۔ اس لیے تم پر تخفیف کر دی کہ نماز میں جس قدر قرآن پڑھنا آسان ہو پڑھ لیا کرو۔ اپنی جان کو زیادہ تکلیف میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں فرض نمازیں نہایت اہتمام سے باقاعدہ پڑھتے رہو۔ اور زکات دیتے رہو، اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے رہو کہ ان ہی باتوں کی پابندی سے بہت کچھ روحانی فوائد اور ترقیات حاصل ہو سکتی ہیں (تنبیہ) اولین صحابہ سے ایک سال تک بہت تاکید و تحتّم کے ساتھ یہ ریاضت شاقہ شاید اس لیے کرائی کہ وہ لوگ آئندہ تمام امت کے ہادی و معلم بننے والے تھے۔ ضرورت تھی کہ وہ اس قدر منجھ جائیں اور روحانیت کے رنگ میں ایسے رنگے جائیں کہ تمام دنیا ان کے آئینہ میں کمالاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا نظارہ کر سکے اور یہ نفوسِ قدسیہ ساری امت کی اصلاح کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

وَأَقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَنًا :پورے اخلاص سے اللہ کی راہ میں اس کے احکام کے موافق خرچ کرنا یہی اس کو اچھی طرح قرض دینا ہے۔ بندوں کو اگر قرض حسن دیا جائے وہ بھی اس کے عموم میں داخل سمجھو۔ کما ثبت فضلہ فی الحدیث۔

وَمَا تُقَدِّمُوْا لِأَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ ہُوَ خَيْرًا وَّأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ ۖ إِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یعنی جو نیکی یہاں کرو گے۔ اللہ کے ہاں اس کو نہایت بہتر صورت میں پاؤ گے اور بہت بڑا اجر اس پر ملے گا تو یہ مت سمجھو کہ جو نیکی ہم کرتے ہیں یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ نہیں، وہ سب سامان تم سے آگے اللہ کے ہاں پہنچ رہا ہے جو عین حاجت کے وقت تمہارے کام آئے گا۔

یعنی تمام احکام بجا لا کر پھر اللہ سے معافی مانگو۔ کیونکہ کتنا ہی محتاط شخص ہو اس سے بھی کچھ نہ کچھ تقصیر ہو جاتی ہے۔ کون ہے جو دعویٰ کر سکے کہ میں نے اللہ کی بندگی کا حق پوری طرح ادا کر دیا۔ بلکہ جتنا بڑا بندہ ہو اسی قدر اپنے کو تقصیر وار سمجھتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہے۔ اے غفور و رحیم تو اپنے فضل سے میری خطاؤں اور کوتاہیوں کو بھی معاف فرما۔ تم سورۃ المزمل وللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید