FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ترجمہ و تفسیر قرآن

 

حصہ ۱۰: روم تا  یٰسٓ

 

                ترجمہ: حافظ نذر احمد

 

 

 

اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے ، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے ، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے ، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔

 

 

 

 

۳۰۔ سورۃ الروم

 

                تعارف

 

 

اس سورت کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کرتا ہے ، جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ  کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے ، یعنی آگ کو پوجتے تھے ، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کوچک  اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے ، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہو رہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کر لئے تھے ، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کر کے رومیوں کو مسلسل پیچھے ڈھکیلتی جا رہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا، ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست   اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جا رہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے ، انہیں برابر فتح نصیب ہو رہی ہے ، اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھا گئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کر کے ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے ، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے ، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک وقت دو پیشین گوئیاں کی گئیں، ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھا گئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے ، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے ، یہ دونوں پیشین گوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشین گوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے ، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشین گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشین گوئی کی گئی اس وقت کسی بھی پیشین گوئی کا پورا ہونا اس  سے زیادہ بعید نہیں ہو سکتا تھا، اس لئے کہ قیصر ہرقل کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آ چکا ہے :

Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Empire, Chapter 46, Volume 2, P.125, Great Books, V.38, University of Chicago, 1990

چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشین گوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ شرط لگا لی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان   روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آ گئے تو وہ حضرت ابوبکر کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا) ، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انہوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا لیکن اس کے فوراً بعد حالات نے عجیب و غریب پلٹا کھایا، ہر قل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشین گوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشین گوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس  سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہو گئی، اس وقت ابی بن خلف جس نے حضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شرط لگائی تھی مر چکا تھا، لیکن اس کے بیٹوں نے شرط کے مطابق سو اونٹ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ادا کئے ، اور چونکہ اس وقت جوے کی حرمت آ چکی تھی اور دو طرفہ شرط جوے ہی کی ایک شکل ہے ، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کے وہ یہ اونٹ خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کر دیں۔

اس پیشین گوئی کے علاوہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور مخالفین کی تردید کی گئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

 

آیات۶۰   رکوعات:۶

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

الف۔ لام۔ میم۔ (۱) رومی مغلوب ہو گئے۔ (۲) قریب کی سرزمین میں، اور و ہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوں گے۔ (۳)

چند سالوں میں، پہلے بھی اور پیچھے بھی اللہ ہی کا حکم ہے ، اور اس دن اہل ایمان خوش ہوں گے۔ (۴)

تشریح: یعنی نو سال کے اندر اندر رومی غالب ہو جائیں گے۔ کیونکہ لغت میں اور حدیث میں ”بضع” کا اطلاق تین سے نو تک ہوا ہے۔ ان آیات میں قرآن نے ایک عجیب و غریب پیشین گوئی کی جو اس کی صداقت کی عظیم الشان دلیل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ کی بڑی بھاری دو سلطنتیں ”فارس” (جسے ”ایران” کہتے ہیں) اور ” روم” مدت دراز سے آپس میں ٹکراتی چلی آتی تھیں۔ ٦٠٢ء سے لے کر ٦١٤ء کے بعد تک ان کی حریفانہ نبرد آزمائیوں کا سلسلہ جاری رہا کیا، جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی تصریحات سے ظاہر ہے۔ ٥٧٠ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ اور چالیس سال بعد ٦١٠ء میں آپ کی بعثت ہوئی۔ مکہ والوں میں جنگ روم و فارس کے متعلق خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔ اسی دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت اور اسلامی تحریک نے ان لوگوں کے لئے ان جنگی خبروں میں ایک خاص دلچسپی پیدا کر دی۔ فارس کے آتش پرست مجوس کو مشرکین مکہ مذہباً اپنے سے نزدیک سمجھتے تھے۔ اور روم کے نصاریٰ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے بھائی یا کم از کم ان کے قریبی دوست قرار دیے جاتے تھے۔ جب فارس کے غلبہ کی خبر آتی مشرکین مکہ مسرور ہوتے اور اس سے مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے غلبہ کی فال لیتے اور خوش آئندہ توقعات باندھتے تھے۔ مسلمانوں کو بھی طبعاً صدمہ ہوتا کہ عیسائی اہل کتاب آتش پرست مجوسیوں سے مغلوب ہوں، ادھر ان کو مشرکین مکہ کی شماتت کا ہدف بننا پڑے آخر ٦١٤ء کے بعد (جبکہ ولادت نبوی کو قمری حساب سے تقریباً پینتالیس سال اور بعثت کے پانچ سال گزر چکے ) خسرو پرویز (کی خسروثانی) کے عہد میں فارس نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام، مصر، ایشیائے کو چک وغیرہ سب ممالک رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی لشکر نے قسطنطنیہ میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کر دیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑ گیا، بڑے بڑے پادری قتل یا قید ہو گئے۔ بیت المقدس سے عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین لے اڑے۔ قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہو گیا۔ بظاہر اسباب کوئی صورت روم کے ابھرنے اور فارس کے تسلط سے نکلنے کی باقی نہ رہی۔ یہ حالات دیکھ کر مشرکین مکہ نے خوب بغلیں بجائیں۔ مسلمانوں کو چھیڑنا شروع کیا، بڑے بڑے حوصلے اور توقعات قائم کرنے لگے حتیٰ کہ بعض مشرکین نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آج ہمارے بھائی ایرانیوں نے تمہارے بھائی رومیوں کو مٹا دیا ہے کل ہم بھی تمہیں اسی طرح مٹا ڈالیں گے۔ اس وقت قرآن نے سلسلۂ اسباب ظاہری کے بالکل خلاف عام اعلان کر دیا کہ بیشک اس وقت رومی فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں لیکن نو سال کے اندر اندر وہ پھر غالب و منصور ہوں گے اس پیشین گوئی کی بناء پر حضرت ابو بکر صدیق نے بعض مشرکین سے شرط باندھ لی (اس وقت تک ایسی شرط لگانا حرام نہ ہوا تھا) کہ اگر اتنے سال تک رومی غالب نہ ہوئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گا، ورنہ اسی قدر اونٹ تم مجھ کو دو گے۔ شروع میں حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی رائے سے ”بضع سنین ” کی میعاد کچھ کم رکھی تھی۔ بعدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ”بضع” کے لغوی مدلول یعنی نو سال پر معاہدہ ٹھہرا۔ ادھر ہرقل قیصر روم نے اپنے زائل شدہ اقتدار کو واپس لینے کا تہیہ کر لیا اور منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فارس پر فتح دی تو ”حمص ” سے پیدل چل کر ”ایلیا” (بیت المقدس) تک پہنچوں گا۔ قدرت دیکھو کہ قرآنی پیشین گوئی کے مطابق نو سال کے اندر یعنی ہجرت کا ایک سال گزرنے پر عین بدر کے دن جبکہ مسلمان اللہ کے فضل سے مشرکین پر نمایاں فتح و نصرت حاصل ہونے کی خوشیاں منا رہے تھے ، یہ خبر سن کر اور زیادہ مسرور ہو گئے کہ رومی اہل کتاب کو خدا تعالیٰ نے ایرانی مجوسیوں پر غالب فرمایا، اس ضمن میں مشرکین مکہ کو مزید خذلان و خسران نصیب ہوا۔ قرآن کی اس عظیم الشان اور محیر العقول پیشین گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کر کے بہت لوگوں نے اسلام قبول کیا اور حضرت ابوبکر نے سو اونٹ مشرکین مکہ سے وصول کئے جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ کر دیے جائیں۔ فللہ الحمد علیٰ نعمآئہ الظاہرۃ واٰلائہ الباہرۃ۔

پہلے فارس کو غالب کرنا، روم کو مغلوب کرنا، اور پیچھے حالات کو الٹ دینا، سب اللہ کے قبضہ میں ہے۔ صرف اتنی بات سے کسی قوم کے مقبول و مردود ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ”وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ ” (تفسیرعثمانی)

 

اللہ کی مدد سے ، وہ جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب، مہربان ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی ایک تو اس دن اپنی فتح کی خوشی اس پر مزید خوشی یہ ہوئی کہ رومی اہل کتاب (جو نسبۃً مسلمانوں سے اقرب تھے ) فارس کے مجوسیوں پر غالب آئے۔ قرآن کی پیشین گوئی کے صدق کا لوگوں نے مشاہدہ کر لیا۔ کفار مکہ کو ہر طرح ذلت نصیب ہوئی۔ (تفسیرعثمانی)

 

(یہ) اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا، اور لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۶)

تشریح: یعنی اکثر لوگ نہیں سمجھتے کہ غالب یا مغلوب کرنے میں اللہ تعالیٰ کی کیا کیا حکمتیں ہیں اور یہ قدرت جب کوئی کام کرنا چاہے تو سب ظاہری رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اسی لئے اکثر ظاہر بیں بغیراسباب ظاہری خدا پر بھروسہ نہیں رکھتے اور کسی کا عارضی غلبہ دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ ہی اللہ کے ہاں مقبول ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ دنیا کی زندگی کے (صرف) ظاہر کو جانتے ہیں، اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔ (۷)

تشریح: یعنی یہ لوگ دنیاوی زندگی کی ظاہری سطح کو جانتے ہیں۔ یہاں کی آسائش و آرائش، کھانا، پینا، پہننا، اوڑھنا، بونا جوتنا، پیسہ کمانا، مزے اڑانا، بس یہی ان کے علم و تحقیق کی انتہائی جولان گاہ ہے۔ اس کی خبر ہی نہیں کہ اس زندگی کی تہ میں ایک دوسری زندگی کا راز چھپا ہوا ہے جہاں پہنچ کر اس دنیاوی زندگی کے بھلے برے نتائج سامنے آئیں گے۔ ضروری نہیں کہ جو شخص یہاں خوشحال نظر آتا ہے وہاں بھی خوشحال رہے۔ بھلا آخرت کا معاملہ تو دور ہے ، یہیں دیکھ لو کہ ایک شخص یا ایک قوم کبھی دنیا میں عروج حاصل کر لیتی ہے لیکن اس کا آخری انجام ذلت و ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ اپنے دل میں غور نہیں کرتے ؟اللہ نے نہیں پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر درست تدبیر کے ساتھ، اور ایک مقررہ میعاد کے لئے اور بیشک اکثر لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ (۸)

تشریح: یعنی عالم کا اتنا زبردست نظام اللہ تعالیٰ نے بیکار پیدا نہیں کیا۔ کچھ اس سے مقصود ضرور ہے وہ آخرت میں نظر آئے گا۔ ہاں یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا تو ایک بات تھی، لیکن اس کے تغیرات و احوال میں غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ اس کی کوئی حد اور انتہا ضرور ہے۔ لہٰذا ایک وعدہ مقررہ پر یہ عالم فنا ہو گا اور دوسرا عالم اس کے نتیجہ کے طور پر قائم کیا جائے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی خدا کے سامنے جانا ہی نہیں جو حساب و کتاب دینا پڑے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے زمین (دنیا) میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھتے کیسا انجام ہوا، ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے ، وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ تھے ، اور انہوں نے زمین کو بویا جوتا، اور اس کو آباد کیا، اس سے زیادہ (جس قدر) انہوں نے آباد کیا ہے ، اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل کے ساتھ آئے ، پس اللہ (ایسا) نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا اور لیکن وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۹)

تشریح: یعنی بڑی بڑی طاقتور قومیں (عاد و ثمود) جنہوں نے زمین کو بو، جوت کر لالہ و گلزار بنایا، اسے کھود کر چشمے اور کانیں نکالیں، ان منکرین سے بڑھ کر تمدن کو ترقی دی، لمبی عمریں پائیں اور زمین کو ان سے زیادہ آباد کیا۔ وہ آج کہاں ہیں؟جب اللہ کے پیغمبر کھلے نشان اور احکام لے کر آئے اور انہوں نے تکذیب کی تو کیا نہیں سنا کہ انجام کیا ہوا۔ کس طرح تباہ و برباد کئے گئے۔ ان کے ویران کھنڈر آج بھی ملک میں چل پھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ کیا ان میں ان بے فکروں کے لئے کوئی عبرت نہیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو ظلم کا امکان نہیں۔ ہاں یہ لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی جڑ پر کلہاڑی مارتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں۔ جن کا نتیجہ بربادی ہو تو یہ اپنی جان پر ظلم کرنا ہوا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے عدل و رحم کی کیفیت تو یہ ہے کہ بے رسول بھیجے اور بدون پوری طرح ہوشیار کئے کسی کو پکڑتا بھی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جن لوگوں نے بُرے کام کئے ان کا انجام بُرا ہوا کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا، اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (۱۰)

تشریح: وہ نتیجہ تو دنیا میں دیکھا تھا پھر آخرت میں تکذیب و استہزاء کی جو سزا ہے وہ الگ رہی۔ موجودہ اقوام کو چاہیے کہ گذشتہ قوموں کے احوال سے عبرت پکڑیں کیونکہ ایک قوم کو جن باتوں پر سزا ملی سب کو وہی سزا مل سکتی ہے۔ سب کی فنا بھی ایک کی فنا سے سمجھو اور سب کی سزا بھی ایک کی سزا سے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ پہلی بار خلقت کو پیدا کرتا ہے ، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱)

تشریح: جو لوگ اس بات کو ناممکن سمجھتے تھے کہ انسان کے مرنے اور گلنے سڑنے کے بعد اسے دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا، یہ اُن کا جواب ہے ، یعنی ہر چیز کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے پہلی بار بنانا زیادہ مشکل ہوتا ہے ، لیکن جب کوئی چیز ایک مرتبہ بنا لی جائے تو دوبارہ اسی جیسی چیز بنانا اتنا مشکل نہیں ہوتا، یہ آیت بتا رہی ہے کہ اللہ تعالی نے ہی تمام چیزوں کو پہلی بار پیدا فرمایا ہے ، اس لئے اللہ تعالی کے لئے انہیں دوبارہ پیدا کر دینا کیا مشکل ہے ؟

(توضیح القرآن)

 

اور جس دن قیامت برپا ہو گی مجرم نا امید ہو کر رہ جائیں گے۔ (۱۲)

اور ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کے سفارشی نہ ہوں گے ، اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی ایک مرحلے پر یہ مشرک لوگ صاف جھوٹ بول جائیں گے کہ ہم نے دنیا میں کبھی شرک ہی نہیں کیا تھا، چنانچہ سورۂ انعام میں قرآن کریم نے ان کا مقولہ نقل فرمایا ہے کہ وَاللہِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ (ہم اللہ اپنے پروردگار کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم لوگ مشرک نہیں تھے۔ ) دیکھئے سورۂ انعام (۶۔ ۲۳) –

(توضیح القرآن)

 

اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن (لوگ) متفرق (تتر بتر) ہو جائیں گے۔ (۱۴)

تشریح:یعنی نیک و بد ہر قسم کے لوگ الگ کر دئیے جائیں گے اور علیحدہ علیحدہ اپنے ٹھکانہ پر پہنچا دیے جائیں گے۔ جس کی تفصیل اگلی آیت میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جو لو گ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے سو وہ باغ (جنت) میں آؤ بھگت کئے جائیں گے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی انعام و اکرام سے نوازے جائیں گے اور ہر قسم کی لذت و سرور سے بہرہ اندوز ہوں گے۔ یہ نیکوں کا ٹھکانہ ہوا۔ آگے بدوں کی جگہ بتلائی ہے۔ مطلب یہ ہے ، کہ دونوں میں ایسی تفریق اور جدائی کر دی جائے گی جس سے بڑھ کر کوئی جدائی نہیں ہو سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے کفر کیا، اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور آخرت کی ملاقات کو، پس یہی لوگ عذاب میں گرفتار کئے جائیں گے۔ (۱۶)

پس اللہ کی پاکیزگی بیان کرو شام کے وقت اور صبح کے وقت۔ (۱۷)

اور اسی کے لئے ہیں تمام تعریفیں آسمانوں میں اور زمین میں، اور تیسرے پہر اور ظہر کے وقت۔ (۱۸)

تشریح: یعنی جنت چاہتے ہو تو اللہ پاک کی یاد کرو جو دل، زبان اور اعضاء و جوارح سب سے ہوتی ہے۔ نماز میں تینوں قسم کی یاد جمع کر دی گئی۔ اور اوقات فرض نماز کے یہی ہیں جو آیت میں بیان ہوئے۔ یعنی صبح، شام، (جس میں مغرب و عشاء شامل ہیں) دن کے پچھلے وقت (عصر) اور دوپہر ڈھلنے کے بعد (ظہر) کی نمازیں ہیں ان اوقات میں حق تعالیٰ کی رحمت یا قدرت و عظمت کے آثار بہت زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ آفتاب عالم اجسام میں سب سے بڑا روشن کرہ ہے جس کے بلاواسطہ یا بالواسطہ فیض و تاثیر سے عالم اسباب میں شاید ہی کوئی مادی مخلوق مستشنٰی ہو (جیساکہ ارض النجوم کے مصنف نے بہت شرح وبسط سے اس کو ثابت کیا ہے ) اسی بناء پر سیارہ پرستوں نے اسے اپنا معبود اکبر قرار دیا تھا جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول ”ہذا ربی ہذا اکبر” میں اشارہ ہے۔ اس کے عجز و بیچارگی اور آفتاب پرستوں کی اس کے فیض سے محرومی کا کھلا ہوا مظاہرہ بھی ان ہی پانچ اوقات میں ہوتا ہے۔ صبح کو جب تک طلوع نہیں ہوا اور دوپہر ڈھلنے پر جبکہ اس کے عرض میں کمی آنی شروع ہوئی اور عصر کے وقت جبکہ اس کی حرارت اور روشنی میں نمایاں طور پر ضعف آ گیا اور غروب کے بعد جب اس کی نورانی شعاعوں کے اتصال سے اس کے پجاری محروم ہو گئے۔ پھر عشاء کے وقت جب شفق بھی غائب ہو گئی اور روشنی کے ادنیٰ ترین آثار بھی افق پر باقی نہ رہے۔ ان اوقات میں موحدین کو حکم ہوا کہ خدائے اکبر کی عبادت کریں۔ اور شروع صلوٰۃ ہی میں ” اللہ اکبر” کہہ کر اس موحد اعظم (ابراہیم خلیل اللہ) کی اقتداء کرتے رہیں۔ جس نے ” ہذا ربی ہذا کبر ” کے بعد فرمایا تھا ” انی وجھت و جھی للذی فطر السموات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین ” (انعام- رکوع٩) شاید آیت ہذا میں ” ولہ الحمد فی السموات والارض ” فرما کر یہی یاد دلایا ہے کہ تسبیح و تنزیہ اور یاد کرنے کے لائق وہی ذات ہو سکتی ہے جس کی خوبی آسمان و زمین کی کل کائنات زبان حال و قال سے بیان کر رہی ہے کوئی مجبور و عاجز مخلوق اس کا استحقاق نہیں رکھتی خواہ وہ دیکھنے میں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ آگے اسی خدائے اکبر کی بعض شؤون عظیمہ اور صفات کا ملہ کا بیان ہے تاکہ معبودیت کا استحقاق اور زیادہ واضح ہو جائے اسی ضمن میں بعث بعد الموت کے مسئلہ پر بھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے ، اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے ، اور وہ زندہ کرتا ہے زمین کو اس کے مرنے کے بعد، اور اسی طرح تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔ (۱۹)

تشریح: جاندار کو بے جان سے نکالنے کی مثال جیسے انڈے سے مرغی اور بے جان کو جاندار سے نکالنے کی مثال جیسے مرغی سے انڈا، پھر اللہ تعالی نے یہ مثال دی ہے کہ زمین قحط کی وجہ سے مردہ ہو چکی ہوتی ہے ، اور اس میں کچھ اگانے کی صلاحیت نہیں رہتی، لیکن اللہ تعالی بارش برسا کر اسے دوبارہ زندگی بخشتے ہیں، اسی طرح انسانوں کو بھی مرنے کے بعد وہ دوبارہ زندہ کر دیں گے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر تم ناگہاں (جا بجا) پھیلے ہوئے آدمی (ہو گئے )۔ (۲۰)

تشریح: یہاں سے آیت نمبر:۳۷ تک اللہ تعالی کی توحید کا بیان ہے ، اس غرض کے لئے اللہ تعالی نے کائنات میں پھیلی ہوئی اپنی قدرت کی بہت سی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے ، اگر کوئی شخص حقیقت پسندی اور انصاف سے ان پر غور کرے تو اُسے نظر آئے گا کہ ان میں سے ہر چیز گواہی دے رہی ہے کہ جس ذات نے کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے ، وہ اپنی خدائی میں کسی شریک کا محتاج نہیں ہو سکتی، اور نہ یہ بات معقول ہے کہ اتنے عظیم الشان کارناموں کے بعد چھوٹے چھوٹے خداؤں کی ضرورت محسوس کرے۔

(توضیح القرآن)

 

آدم کو مٹی سے بنایا، پھر دیکھو قدرت نے اسے پھیلایا کہ ساری زمین پر اس کی ذریت چھا گئی اور زمین میں پھیل کر کیسی کیسی عجیب و غریب ہشیاریاں اس مٹی کے پتلے نے دکھلائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے پیدا کئے تمہاری جنس سے جوڑے (بیویاں) کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی (پیدا) کی، بیشک اس میں البتہ ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (۲۱)

تشریح: عام طور پر نکاح سے پہلے میاں بیوی الگ الگ ماحول میں پرورش پاتے ہیں، لیکن نکاح کے بعد ان میں ایسا گہرا رشتہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے طرز زندگی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے کے ہو رہتے ہیں، ان کے درمیان یک بیک وہ محبت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے ، جوانی میں ان کے درمیان محبت کا جوش ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اس پر رحمت اور ہمدردی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا سونا رات میں اور دن (کے وقت) اور تمہارا تلاش کرنا اس کے فضل سے (روزی) ، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں۔ (۲۳)

تشریح: رات کے وقت سونے اور دن کے وقت اللہ کا فضل یعنی روزگار تلاش کرنے کا یہ نظام اللہ تعالی ہی نے بنایا ہے ، اس کے لئے انسانوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، اگر یہ کام لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا تو کچھ لوگ ایک وقت سونا چاہتے اور دوسرے لوگ اسی وقت کام میں مشغول ہو کر ان کی نیند خراب کرتے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے خوف اور امید کے لئے ، اور نازل کرتا ہے آسمان سے پانی، پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (۲۴)

تشریح: بجلی کی چمک دیکھ کر لوگ ڈرتے ہیں کہیں کسی پر گر نہ پڑے۔ یا بارش زیادہ نہ ہو جائے جس سے جان و مال تلف ہوں۔ اور امید بھی رکھتے ہیں کہ بارش ہو تو دنیا کا کام چلے۔ مسافر کبھی اندھیرے میں اس کی چمک کو غنیمت سمجھتا ہے کہ دور تک راستہ نظر آ جائے۔ اور کبھی خوف کھا کر گھبراتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

۲۵ تا ۲۷؟؟

اور وہی ہے جو پہلی بار خلقت کو پیدا کرتا ہے ، پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا، اور یہ اس پر بہت آسان ہے ، اور اسی کی ہے بلند تر شان، آسمانوں میں اور زمین میں، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی قدرت الہٰی کے سامنے تو سب برابر ہیں لیکن تمہارے محسوسات کے اعتبار سے اول بار پیدا کرنے سے دوسری بار دہرا دینا آسان ہونا چاہیے ، پھر یہ عجیب بات ہے کہ اول پیدائش پر اسے قادر مانو اور دوسری مرتبہ پیدا کرنے کو مستبعد سمجھو۔

اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی شان اس کی ہے۔ آسمان و زمین کی کوئی چیز اپنے حسن و خوبی میں اس کی شان و صفت سے لگاؤ نہیں کھا سکتی۔ مساوی ہونا تو کجا، وہ تو اس سے بھی بالا و برتر ہے جہاں تک مخلوق اس کے جلال و جمال کا تصور کر سکتی ہے۔ بلکہ جو خوبی کسی جگہ موجود ہے وہ اسی کے کمالات کا ادنیٰ پر تو ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”آسمان کے فرشتے نہ کھائیں نہ پیئیں نہ حاجت بشری رکھیں، سوائے بندگی کے کچھ کام نہیں۔ اور زمین کے لوگ سب چیز میں آلودہ۔ پر اللہ کی صفت نہ ان سے ملے نہ ان سے ، وہ پاک ذات ہے ” (موضح)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے تمہارے لئے تمہارے حال سے ایک مثال بیان کی، کیا تمہارے لئے ہے (اُن میں) سے جن کے تم مالک ہو (تمہارے غلاموں میں سے ) اس رزق میں کوئی شریک؟جو ہم نے تمہیں دیا تاکہ تم سب آپس میں برابر ہو جاؤ، کیا تم ان سے (اس طرح) ڈرتے ہو جیسے اپنوں سے ڈرتے ہو؟اسی طرح ہم عقل والوں کے لئے کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں۔ (۲۸)

تشریح: کوئی بھی شخص یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اس کا غلام اس کی املاک میں اس کے برابر ہو جائے ، اور کوئی کام کرتے وقت اس سے اسی طرح ڈرنا پڑے جیسے دو آزاد آدمی جو کاروبار میں ایک دوسرے کے شریک ہوں، ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں، اگر یہ بات یہ مشرک لوگ اپنے لئے گوارا نہیں کرتے تو اللہ تعالی کی خدائی میں دوسروں کو کیسے شریک ٹھہرا دیتے ہیں؟

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ پیروی کی ظالموں نے بے جانے اپنی خواہشات کی، تو جسے اللہ گمراہ کرے (اسے ) کون ہدایت دے گا؟اور نہیں ہیں ان کے لئے کوئی مددگار۔ (۲۹)

تشریح: یعنی یہ بے انصاف لوگ ایسی صاف و واضح باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ وہ سمجھنا چاہتے ہی نہیں بلکہ جہالت اور ہوا پرستی سے محض اوہام و خواہشات کی پیروی پر تلے ہوئے ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی بے انصافی جہل اور ہوا پرستی کی بدولت راہ حق پر چلنے اور سمجھنے کی توفیق نہ دی۔ اب کون طاقت ہے جو اسے سمجھا کر راہ حق پر لے آئے یا مدد کر کے گمراہی اور تباہی سے بچا لے لہٰذا ایسوں کی طرف سے زیادہ متحسر اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان سے قطع نظر کر کے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہمہ تن اپنے پروردگار کی طرف توجہ کیجئے۔ اور دین فطرت پر جمے رہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس (اللہ کے ) دین کے لئے (سب سے کٹ کر) یک رخ ہو کر اپنا چہرہ سیدھا رکھو، اللہ کی فطرت ہے جس پراس نے لوگوں کو پیدا کیا، اس کی خلق (بنائی ہوئی فطرت) میں کوئی تبدیلی نہیں، یہ سیدھا دین ہے ، اور لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۳۰)

تشریح: اللہ تعالی نے ہر انسان میں یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو پہچانے ، اس کی توحید کا قائل ہو، اور اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کی پیروی کرے ، اسی کو آیت میں فطرت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ فطری صلاحیت جو اللہ تعالی نے ہر انسان کو عطا فرمائی ہے ، اس صلاحیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ماحول کے اثر سے انسان غلط راستے پر جا سکتا ہے ، لیکن اس کی یہ صلاحیت ختم نہیں ہو سکتی، چنانچہ جب کبھی وہ ضد اور عناد کو چھوڑ کر حق پرستی کے جذبے سے غور کرے گا تو اس کی یہ صلاحیت کام دکھائے گی، اور حق تک پہنچ جائے گا، البتہ یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص مسلسل ضد اور عناد کی روش اختیار کئے رکھے ، اور حق بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہو تو اللہ تعالی خود اس کے دل پر مہر لگا دے ، جیسا کہ کئی آیتوں میں بعض کافروں کے لئے اللہ تعالی نے خود بیان فرمایا ہے ، سورۂ بقرہ (۲۔ ۷) اور پیچھے آیت نمبر:۲۹ میں یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

سب اس کی طرف رجوع کرنے والے (رہو) اور اسی سے ڈرو، اور تم قائم رکھو نماز اور تم شرک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ (۳۱)

تشریح: یعنی اصل دین پکڑے رہو، اس کی طرف رجوع ہو کر۔ اگر محض دنیاوی مصلحت کے واسطے یہ کام کئے تو دین درست نہ ہو گا۔ آگے دین فطرت کے چند اہم اصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مثلاً اتقاء (خدا سے ڈرتے رہنا) نماز قائم رکھنا، شرک جلی و خفی سے بیزار اور مشرکین سے علیحدہ رہنا، اپنے دین میں پھوٹ نہ ڈالنا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا، اور فرقے فرقے ہو گئے ، سب کے سب گروہ اس پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔ (۳۲)

تشریح:انسان جب پہلے پہل دنیا میں آیا تو اس نے فطری صلاحیت سے کام لے کر دین حق کو اختیار کیا، لیکن پھر لوگوں نے الگ الگ طریقے اختیار کر کے اپنے آپ کو مختلف مذاہب میں بانٹ لیا، اسی کو دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور فرقوں میں بٹ جانے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، پھر جب وہ انہیں اپنی طرف سے رحمت (کا مزہ) چکھا دیتا ہے تو ناگہاں ایک گروہ (کے لوگ) ان میں سے اپنے رب کے ساتھ شریک کرنے لگتے ہیں۔ (۳۳)

کہ وہ اس کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں دیا سو تم (چند روز) فائدہ اٹھا لو پھر عنقریب (تم اس کا انجام ) جان لو گے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی جیسے بھلے کام ہر انسان کی فطرت پہچانتی ہے۔ اللہ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر ایک کی فطرت جانتی ہے۔ چنانچہ خوف اور سختی کے وقت اس کا اظہار ہو جاتا ہے۔ بڑے سے بڑا سرکش مصیبت میں گھر کر خدائے واحد کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت جھوٹے سہارے سب ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ وہ ہی سچا مالک یاد رہ جاتا ہے جس کی طرف فطرت انسانی راہنمائی کرتی تھی۔ مگر افسوس کہ انسان اس حالت پر دیر تک قائم نہیں رہتا۔ جہاں خدا کی مہربانی سے مصیبت دور ہوئی، پھر اس کو چھوڑ کر جھوٹے دیوتاؤں کے بھجن گانے لگا۔ گویا اس کے پاس سب کچھ ان ہی کا دیا ہوا ہے ! خدا نے کچھ نہیں دیا! (العیاذ باللہ) اچھا چند روز مزے اڑا لے ، آگے چل کر معلوم ہو جائے گا کہ اس کفر اور ناشکری کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اگر آدمیت ہوتی تو سمجھتا کہ اس کا ضمیر جس خدا کو سختی اور مصیبت کے وقت پکار رہا تھا وہ ہی اس لائق ہے کہ ہمہ وقت یاد رکھا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ہم نے ان پر کوئی سند نازل کی ہے ؟کہ وہ بتلاتی ہے جس کے ساتھ یہ شریک کرتے ہیں۔ (۳۵)

تشریح: یعنی عقل سلیم اور فطرت انسانی کی شہادت شرک کو صاف طور پر رد کرتی ہے تو کیا اس کے خلاف وہ کوئی حجت اور سند رکھتے ہیں، جو بتلاتی ہو کہ خدا کی خدائی میں دوسرے بھی اس کے شریک ہیں (معاذاللہ) اگر نہیں تو انہیں معبود بننے کا استحقاق کہاں سے ہوا۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور اگر انہیں اس کے سبب کوئی برائی پہنچے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا (ان کے اعمال سے ) تو وہ ناگہاں مایوس ہو جاتے ہیں۔ (۳۶)

تشریح: یعنی ان لوگوں کی حالت عجیب ہے۔ جب اللہ کی مہربانی اور احسان سے عیش میں ہوں تو پھولے نہ سمائیں ایسے اترانے لگیں اور آپے سے باہر ہو جائیں کہ محسن حقیقی کو بھی یاد نہ رکھیں۔ اور کسی وقت شامت اعمال کی بدولت مصیبت کا کوڑا پڑا تو بالکل آس توڑ کر اور نا امید ہو کر بیٹھ رہیں۔ گویا اب کوئی نہیں جو مصیبت کے دور کرنے پر قادر ہو۔ مومن کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ عیش و راحت میں منعم حقیقی کو یاد رکھتا ہے۔ اس کے فضل و رحمت پر خوش ہو کر زبان و دل سے شکر ادا کرتا ہے اور مصیبت میں پھنس جائے تو صبر و تحمل کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتا ہے۔ اور امید رکھتا ہے کہ کتنی ہی سخت مصیبت ہو اور ظاہری اسباب کتنے ہی مخالف ہوں اس کے فضل سے سب فضا بدل جائے گی۔ (تنبیہ) ایک آیت پہلے فرمایا تھا کہ ” لوگ سختی کے وقت خالص خدا کو پکارنے لگتے ہیں۔ ” یہاں فرمایا کہ ”برائی پہنچتی ہے تو آس توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں۔ ” دونوں میں کچھ اختلاف نہیں۔ پہلی حالت یعنی خدا کو پکارنا، ابتدائی منزل ہے۔ پھر جب مصیبت اور سختی میں امتداد ہوتا ہے تو آخر گھبرا کر ناامید ہو جاتا ہے یا بعض لوگوں کا وہ حال ہو بعض کا یہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے ، بیشک جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔ (۳۷)

تشریح:  یعنی ایمان و یقین والے سمجھتے ہیں کہ دنیا کی سختی نرمی اور روزی کا بڑھانا گھٹانا سب اسی رب قدیر کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا جو حال آئے بندہ کو صبر و شکر سے رضا بقضا رہنا چاہئے۔ نعمت کے وقت شکر گزار رہے ، اور ڈرتا رہے کہیں چھن نہ جائے اور سختی کے وقت صبر کرے اور امید رکھے کہ حق تعالیٰ اپنے فضل و عنایت سے سختیوں کو دور فرما دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تم قرابت دار کو اس کا حق دو اور محتاج اور مسافر کو، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں، اور وہی لوگ فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۳۸)

تشریح: پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ رزق تمام تر اللہ تعالی کی عطا ہے ، اس لئے جو کچھ اس نے عطا فرمایا ہے وہ اسی کے حکم اور ہدایت کے مطابق خرچ ہونا چاہئے ، لہذا اس میں غریبوں مسکینوں اور رشتہ داروں کے جو حقوق اللہ تعالی نے مقرر فرمائے ہیں وہ ان کو دینا ضروری ہے ، اور دیتے وقت یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے مال میں کمی آ جائے گی، کیونکہ جیسا کہ پچھلی آیت میں فرمایا گیا رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالی ہی کے قبضے میں ہے وہ تمہیں حقوق کی ادائیگی کے بعد محروم نہیں فرمائے گا، چنانچہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ حقوق ادا کرنے کے نتیجے میں کوئی مفلس ہو گیا ہو۔

(توضیح القرآن)

 

ا ور جو تم سود دو کہ لوگوں کے مال بڑھیں (اضافہ ہو) تو (یہ) اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو یہی لوگ ہیں (اپنا مال اور اجر) چند دو چند کرنے والے۔ (۳۹)

تشریح: واضح رہے کہ سورۂ روم کی یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی اور یہ پہلی آیت ہے جس میں سود کی مذمت کی گئی ہے ، اس وقت تک سود کو واضح لفظوں میں حرام نہیں کیا گیا تھا، لیکن اشارہ فرما دیا گیا تھا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سود کی آمدنی بڑھتی نہیں، یعنی سود لینے والا لیتا تو اسی ارادے سے ہے کہ اس سے اس کی دولت بڑھے گی، لیکن اللہ تعالی کے نزدیک وہ بڑھتی نہیں، کیونکہ اول تو دنیا میں بھی حرام مال اگرچہ گنتی میں بڑھ جائے ، لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی، مال و دولت کا اصل فائدہ تو یہ ہے کہ انسان کو اس سے آرام و راحت نصیب ہو، لیکن حرام آمدنی کی گنتی بڑھانے والے بکثرت دنیا میں بھی پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں اور انہیں راحت نصیب نہیں ہوتی، دوسرے دولت کی یہ بڑھوتری آخرت میں کچھ کام نہیں آتی، اس کے برخلاف صدقات آخرت میں کام آتے ہیں، اسی حقیقت کو سورۂ بقرۃ میں (۲۔ ۲۷۶) میں بیان فرمایا گیا ہے ، اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

واضح رہے کہ اس آیت میں ربا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مشہور معنی سود کے ہیں، لیکن اس کے ایک معنی اور ہیں اور وہ یہ کہ کوئی شخص اس نیت سے کسی کو کوئی تحفہ دے کہ وہ اس کو اس سے زیادہ قیمتی تحفہ دے گا، مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر نیوتہ کی جو رسم ہوتی ہے اس کا یہی مقصد ہوتا ہے ، چنانچہ بہت سے مفسرین نے یہاں ربا کے یہی معنی مراد لئے ہیں، اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں نیوتہ کی رسم کو نا جائز قرار دیا گیا ہے ، اس قسم کا تحفہ جس کا مقصد قیمتی تحفہ حاصل کرنا ہو اس کو سورۂ مدثر (آیت نمبر:۶) میں بھی نا جائز قرار دیا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے ، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے (کوئی ہے ) جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرے ؟وہ پاک ہے اور برتر، اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ (۴۰)

تشریح: یعنی مارنا جِلانا، روزی دینا، سب کام تو تنہا اس کے قبضہ میں ہوئے۔ پھر دوسرے شریک کدھر سے آ کر الوہیت کے مستحق بن گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

فساد خشکی اور تری میں ظاہر ہو گیا (پھیل گیا) اس سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے (ان کے اعمال کے سبب) تاکہ وہ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے ، شاید وہ باز آ جائیں۔ (۴۱)

تشریح: یعنی لوگ دین فطرت پر قائم نہ رہے کفر و ظلم دنیا میں پھیل پڑا اور اس کی شامت سے ملکوں اور جزیروں میں خرابی پھیل گئی۔ نہ خشکی میں امن و سکون رہا نہ تری میں، روئے زمین کو فتنہ و فساد نے گھیر لیا بحری لڑائیوں اور جہازوں کی لوٹ مار سے سمندروں میں بھی طوفان بپا ہو گیا۔ یہ سب اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ بندوں کی بد اعمالیوں کا تھوڑا سا مزہ دنیا میں بھی چکھا دیا جائے پوری سزا تو آخرت میں ملے گی۔ مگر کچھ نمونہ یہاں بھی دکھلا دیں، ممکن ہے بعض لوگ ڈر کر راہ راست پر آ جائیں۔ (تنبیہ) بندوں کی بدکاریوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں خرابی پھیلنا گو ہمیشہ ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن جس خوفناک عموم و شمول کے ساتھ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ تاریک گھٹا مشرق و مغرب اور برو بحر پر چھا گئی تھی، دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یورپ کے محققین نے اس زمانہ کی تاریک حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلم مورخ بھی اس مشہور و معروف صداقت پر کوئی حرف گیری نہیں کر سکے (دیکھو دائرۃ المعارف فرید وجدی مادہ حمد) شاید اسی عموم فتنہ و فساد کو پیش نظر رکھ کر قتادہ رحمہ اللہ نے آیت کا محمل زمانہ جاہلیت کو قرار دیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں، اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں تم زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو ان کا انجام کیسا ہوا؟ جو پہلے تھے ، ان کے اکثر شرک کرنے والے تھے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی اکثروں کی شامت شرک کی وجہ سے آئی۔ بعضوں پر دوسرے گناہوں کی وجہ سے آئی ہو گی۔ (تفسیرعثمانی)

 

پس اپنا چہرہ دین راست کی طرف سیدھا رکھو اس سے قبل کہ وہ دن آ جائے جس کو اللہ (کی طرف) سے ٹلنا نہیں (اس دن (سب) جدا جدا ہو جائیں گے۔ (۴۳)

تشریح: یعنی دنیا میں فساد پھیل گیا تو تم دین قیم پر جو دین فطرت ہے ٹھیک ٹھیک قائم رہو۔ سب خرابیوں کا ایک یہی علاج ہے۔ اللہ کی طرف سے اس دن کا آنا اٹل ہے نہ کوئی طاقت اسے پھیر سکتی ہے نہ خود اللہ ملتوی کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس نے کفر کیا تو اس پر پڑے گا اس کے کفر (کا وبال) اور جس نے اچھے عمل کئے تو وہ اپنے لئے سامان کر رہے ہیں۔ (۴۴)

تشریح: نیک جنت میں اور بد دوزخ میں بھیج دیے جائیں گے۔ ”فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر” (شوریٰ – رکوع١) حضرت شاہ صاحب اس کو دنیا کے احوال پر حمل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ” یعنی دین کا غلبہ ہو، سزا پانے والے الگ ہوں، اور اللہ کے مقبول بندے الگ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ (اللہ) ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے ، اور انہوں نے اچھے عمل کئے اپنے فضل سے جزا دے ، بیشک اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ (۴۵)

اور اس کے نشانیوں میں سے ہے کہ وہ بھیجتا ہے ہوائیں خوشخبری دینے والی، اور تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں، اور تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل (رزق) اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۴۶)

تشریح: ہوائیں چلانے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہ بارش کی خوشخبری لاتی ہیں، اور بادلوں کو اٹھا کر پانی برسانے کا سبب بنتی ہیں، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ سمندروں اور دریاؤں میں کشتیوں کو چلاتی ہیں، بادبانی کشتیوں کا تو سارا دارومدار ہی ہواؤں پر ہوتا ہے ، لیکن مشینی جہاز بھی ہوا کی مدد سے بے نیاز نہیں ہوتے ، اور سمندروں میں کشتیاں چلانے کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے   کہ اس کے ذریعے لوگ اللہ تعالی کا فضل تلاش کریں، جیسا کہ بار بار عرض کیا گیا، اللہ تعالی کا فضل تلاش کرنا قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے ، جس سے مراد تجارت اور روزگار کے دوسرے ذرائع اختیار کرنا ہے ، لہذا قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ اگر یہ ہوائیں نہ ہوں جن سے کشتیاں اور جہاز سمندروں میں چلنے کے لائق ہوتے ہیں، تو تمہاری ساری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے ، کیونکہ ساری بین الاقوامی تجارت کا دارومدار پانی کے جہازوں پر ہی ہوتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ان کی قوموں کی طرف، پس وہ ان کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے ، پھر ہم نے مجرموں سے انتقام لیا اور ہمارے ذمے ہے مؤمنوں کی مدد کرنا۔ (۴۷)

تشریح: پہلے فرمایا تھا کہ مقبول اور مردود جدا کر دیے جائیں گے منکروں پر ان کے انکار کا وبال پڑے گا۔ وہ اللہ کو اچھے نہیں لگتے۔ اب بتلاتے ہیں کہ اس کا اظہار دنیا ہی میں ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اللہ کی عادت اور وعدہ ہے کہ مجرمین و مکذبین سے انتقام لے اور مومنین کاملین کو اپنی امداد و اعانت سے دشمنوں پر غالب کرے۔ بیچ میں ہوا کا ذکر اس واسطے آیا کہ جیسے باران رحمت کے نزول سے پہلے ہوائیں چلتی ہیں اسی طرح دین کے غلبہ کی نشانیاں روشن ہوتی جاتی ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ (ہی ہے ) جو ہوائیں بھیجتا ہے ، تو وہ بادل ابھارتی ہیں، پھر وہ بادل پھیلاتا ہے ، آسمان میں، جیسے وہ چاہتا ہے اور وہ اسے (بادل) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے ، پھر تو دیکھے کہ اس کے درمیان سے مینہ نکلتا ہے ، پھر وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وہ پہنچا دیتا ہے ، تو وہ اچانک خوشیاں منانے لگتے ہیں۔ (۴۸)

تشریح: یعنی پہلے کسی طرف، پیچھے کسی طرف، اسی طرح دین بھی پھیلائے گا۔ چنانچہ پھیلا دیا۔ اسی طرح جو ایمانی اور روحانی بارش سے منتفع ہوں گے وہ خوشیاں منائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

قرآن کریم میں جہاں کہیں ریاح (ہوائیں) کا لفظ جمع کے صیغے میں آیا ہے اس سے مراد فائدہ مند ہوائیں ہیں، اور جہاں ریح (ہوا) مفرد آیا ہے ، وہاں اس سے مراد نقصان دہ ہوا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اگرچہ اس سے قبل کہ (بارش) ان پر نازل ہو وہ پہلے ہی سے مایوس ہو رہے تھے۔ (۴۹)

تشریح: یعنی پہلے سے لوگ نا امید ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ بارش آنے سے ذرا پہلے تک بھی امید نہ تھی کہ مینہ برس کر ایسی جگ پر لو ہو جائے گی۔ انسان کا حال بھی عجیب ہے۔ ذرا دیر میں نا امید ہو کر بیٹھ جاتا ہے پھر ذرا سی دیر میں خوشی سے کھل پڑتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تو آثار (نشانیوں) کی طرف دیکھ اللہ کی رحمت کی، وہ کیسے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ! بیشک وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے ، اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۵۰)

تشریح: یعنی چند گھنٹے پہلے ہر طرف خاک اڑ رہی تھی اور زمین خشک، بے رونق اور مردہ پڑی تھی ناگہاں اللہ کی مہربانی سے زندہ ہو کر لہلہانے لگی۔ بارش نے اس کی پوشیدہ قوتوں کو کتنی جلد ابھار دیا۔ یہ ہی حال روحانی بارش کا سمجھو، اس سے مردہ دلوں میں جان پڑے گی اور خدا کی زمین ” ظہر الفساد فی البر و البحر” والی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔ ہر طرف رحمت الٰہی کے نشان اور دین کے آثار نظر آئیں گے جو قابلیتیں مدت سے مٹی میں مل رہی تھیں، باران رحمت کا ایک چھینٹا ان کو ابھار کر نمایاں کر دے گا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے بعثت محمدی کے ذریعہ سے یہ جلوہ دنیا کو دکھلا دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم ہوا بھیجیں، پھر وہ اسے زرد شدہ دیکھیں تو وہ ضرور ہو جائیں اس کے بعد ناشکری کرنے والے۔ (۵۱)

تشریح: یعنی پہلے نا امید تھے ، بارش آئی، زمین جی اٹھی، خوشیاں منانے لگے۔ اب اگر اس کے بعد ہم ایک ہوا چلا دیں جس سے کھیتیاں خشک ہو کر زرد پڑ جائیں تو یہ لوگ فوراً پھر بدل جائیں گے اور اللہ کے سب احسان فراموش کر کے ناشکری شروع کر دیں۔ غرض ان کا شکر اور ناشکری سب دنیاوی اغراض کے تابع ہیں اور یہاں اس پر فرمایا کہ اللہ کی مہربانی سے مراد پا کر بندہ نڈر نہ ہو جائے۔ اس کی قدرت رنگا رنگ ہے۔ معلوم نہیں دی ہوئی نعمت کب سلب کر لے۔ اور شاید ادھر بھی اشارہ ہو کر دین کی کھیتی دنیا میں سرسبز و شاداب ہونے کے بعد پھر باد مخالف کے جھونکوں سے مرجھا کر زرد پڑ جائے گی۔ اس وقت مایوس ہو کر ہمت ہارنی نہیں چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو آواز سنا سکتے ہیں، جب وہ پیٹھ دے کر پھر جائیں۔ (۵۲)

آپ اندھے کو اس کی گمراہی سے ہدایت دینے والے نہیں، نہیں سنا سکتے مگر (صرف اسے ) جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتا ہے پس وہی فرمانبردار ہیں۔ (۵۳)

تشریح:  یعنی اللہ کو سب قدرت ہے ، مردہ کو زندہ کر دے ، تم کو یہ قدرت نہیں کہ مردوں سے اپنی بات منوا سکو یا بہروں کو سنا دو۔ یا اندھوں کو دکھلا دو۔ خصوصاً جب وہ سننے اور دیکھنے کا ارادہ بھی نہ کریں۔ پس آپ ان کے کفر و ناسپاسی سے ملول و غمگین نہ ہوں۔ آپ صرف دعوت و تبلیغ کے ذمہ دار ہیں کوئی بد بخت نہ مانے تو آپ کا کیا نقصان ہے آپ کی بات و ہی سنیں گے جو ہماری باتوں پر یقین کر کے تسلیم و انقیاد کی خو اختیار کرتے ہیں۔

(تنبیہ) اسی قسم کی آیت سورہ”نمل ” کے آخر میں گزر چکی، اس پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ مفسرین نے اس موقع پر ” سماع موتیٰ” کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد سے اختلاف چلا آتا ہے اور دونوں جانب سے نصوص قرآن و حدیث پیش کی گئی ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھ لو کہ یوں تو دنیا میں کوئی کام اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون نہیں ہو سکتا مگر آدمی جو کام اسباب عادیہ کے دائرہ میں رہ کر با اختیار خود کرے وہ اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور جو عام عادت کے خلاف غیر معمولی طریقہ سے ہو جائے اسے براہ راست حق تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ مثلاً کسی نے گولی مار کر کسی کو ہلاک کر دیا یہ اس قاتل کا فعل کہلائے گا اور فرض کیجئے ایک مٹھی کنکریاں پھینکیں جس سے لشکر تباہ ہو گیا، اسے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے تباہ کر دیا باوجودیکہ گولی سے ہلاک کرنا بھی اسی کی قدرت کا کام ہے۔ ورنہ اس کی مشیت کے بدون گولی یا گولا کچھ بھی اثر نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا”فلم تقتلو ہم و لکن اللہ قتلہم و مارمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی ” (انفال- رکوع٢) یہاں خارق عادت ہونے کی وجہ سے پیغمبر اور مسلمانوں سے ” قتل”و”رمی” کی نفی کر کے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی گئی۔ ٹھیک اسی طرح” انک لا تسمع الموتیٰ” کا مطلب سمجھو۔ یعنی تم یہ نہیں کر سکتے کہ بولو اور اپنی آواز مردے کو سنا دو۔ کیونکہ یہ چیز ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہے۔ البتہ حق تعالیٰ کی قدرت سے ظاہری اسباب کے خلاف تمہاری کوئی بات مردہ سن لے اس کا انکار کوئی مومن نہیں کر سکتا۔ اب نصوص سے جن باتوں کا اس غیر معمولی طریقہ سے سننا ثابت ہو جائے گا اسی حد تک ہم کو سماع موتیٰ کا قائل ہونا چاہئے۔ محض قیاس کر کے دوسری باتوں کو سماع کے تحت میں نہیں لا سکتے۔ بہرحال آیت میں ” سماع ” کی نفی سے مطلقاً سماع کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ ہی ہے وہ جس نے تمہیں کمزور پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد کمزوری، اور بڑھاپا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، اور وہ علم والا قدرت والا ہے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی بچہ شروع میں پیدائش کے وقت بیحد کمزور ناتواں ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ قوت آنے لگتی ہے حتیٰ کہ جوانی کے وقت اس کا زور انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور تمام قوتیں شباب پر ہوتی ہیں، پھر عمر ڈھلنے لگتی ہے اور زور قوت کے پیچھے کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ جس کی آخری حد بڑھاپا ہے۔ اس وقت تمام اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے اور قوی معطل ہونے لگتے ہیں۔ قوت و ضعف کا یہ سب اتار چڑھاؤ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہے جس چیز کو بنائے۔ اور قوت و ضعف کے مختلف ادوار میں سے گزارے۔ اسی کو قدرت حاصل ہے اور وہی جانتا ہے کہ کس چیز کو کس وقت تک کن حالات میں رکھنا مناسب ہے۔ لہٰذا اسی خدا کی اور اس کے پیغمبروں کی باتیں ہمیں سننی چاہئیں۔ شاید اس میں یہ بھی اشارہ کر دیا کہ جس طرح تم کو کمزوری کے بعد زور دیا، مسلمانوں کو بھی ضعف کے بعد زور پکڑے گا اور اپنے شباب و عروج کو پہنچے گا۔ اس کے بعد پھر ہو سکتا ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں کے ضعف کا آئے ، سو یاد رکھنا چاہیے کہ خدائے قادر و توانا ہر وقت ضعف کو قوت سے تبدیل کر سکتا ہے۔ ہاں ایسا کرنے کی خاص صورتیں اور اسباب ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن قیامت قائم ہو گی قسم کھائیں گے مجرم، کہ وہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے ، اسی طرح وہ اوندھے جاتے تھے۔ (۵۵)

تشریح: یعنی قبر میں یا دنیا میں رہنا تھوڑا معلوم ہو گا جب مصیبت سر پر کھڑی نظر آئے گی کہیں گے کہ افسوس بڑی جلدی دنیا کی اور برزخ کی زندگی ختم ہو گئی۔ کچھ بھی مہلت نہ ملی جو ذرا سی دیر اور اس عذاب الیم سے بچے رہتے۔ یا دنیا میں کچھ زیادہ مدت ٹھہرنے کا موقع ملتا تو اس دن کے لئے تیاری کرتے یہ تو ایک دم مصیبت کی گھڑی سامنے آ گئی۔ جیسے اس وقت یہ کہنا جھوٹ اور غلط ہو گا اسی طرح سمجھ لو کہ دنیا میں بھی یہ لوگ غلط خیالات جماتے اور الٹی باتیں کیا کرتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہیں گے جنہیں علم اور ایمان دیا گیا یقیناً تم نوشتۂ  الہی کے مطابق جی اٹھنے کے دن تک رہے ہو، پس یہ ہے جی اٹھنے کا دن، لیکن تم نہ جانتے تھے۔ (۵۶)

تشریح: یعنی مومنین اور ملائکہ اس وقت ان کی تردید کریں گے کہ تم جھوٹ بکتے ہو یا دھوکہ میں پڑے ہو جو کہتے ہو کہ قبر میں یا دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ ٹھہرنا نہیں ہوا۔ تم ٹھیک اللہ کے علم اور اس کی خبر اور لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق قیامت کے دن تک ٹھہرے ، ایک منٹ کی بھی کمی نہیں ہوئی۔ آج عین وعدہ کے موافق وہ دن آ پہنچا۔ اب وہ دیکھ لو جسے تم جانتے اور مانتے نہ تھے۔ اگر پہلے سے اس دن کا یقین کرتے تو تیار ہو کر آتے اور یہاں کی مسرتیں دیکھ کر کہتے کہ اس دن کے آنے میں بہت دیر لگی۔ بڑے انتظار و اشتیاق کے بعد آیا۔ جیسا کہ مومنین سمجھتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اس دن نہ دے گی ان لوگوں کو ان کی معذرت (عذر خواہی) جنہوں نے ظلم کیا، اور نہ ان سے (اللہ کو) راضی کرنا چاہا جائے گا۔ (۵۷)

تشریح:یعنی نہ کوئی معقول عذر پیش کر سکیں گے جو کام آئے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ اچھا اب توبہ اور اطاعت سے اپنے پروردگار کو راضی کر لو، کیونکہ اس کا وقت گزر چکا اب تو ہمیشہ کی سزا بھگتنے کے سوا چارہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے بیان کیں لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں، اور اگر تم ان کے پاس کوئی نشانی لاؤ تو کافر ضرور کہیں گے ، تم صرف جھوٹ بناتے ہو۔ (۵۸)

تشریح: یعنی اس وقت پچھتائیں گے اور آج خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ہے قرآن کریم کیسی عجیب مثالیں اور دلیلیں بیان کر کے طرح طرح سے ان کو سمجھاتا ہے ، پر ان کی سجھ میں کوئی بات نہیں آتی، کیسی ہی آیتیں پڑھ کر سنائیے یا صاف سے صاف معجزے دکھلائیے وہ سن کر اور دیکھ کر یہ ہی کہہ دیتے ہیں کہ تم (پیغمبر اور مسلمان) سب مل کر جھوٹ بنا لائے ہو۔ ایک نے چند آیتیں بنا لیں دوسروں نے تصدیق کر دی۔ ایک نے جادو دکھلایا دوسرے اس پر ایمان لانے کو تیار ہو گئے۔ اس طرح ملی بھگت کر کے اپنا مذہب پھیلانا چاہتے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی طرح اللہ ان کے دلوں میں مہر لگا دیتا ہے جو سمجھ نہیں رکھتے۔ (۵۹)

تشریح: یعنی جو آدمی نہ سمجھے ، نہ سمجھنے کی کوشش کرے اور ضد و عناد سے ہر بات کا انکار کرتا رہے اور اسی طرح شدہ شدہ اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور آخرکار ضد و عناد سے دل اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ قبول حق کی استعداد بھی ضائع کر بیٹھتا ہے۔ العیاذ باللہ !

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ صبر کریں بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ کسی طور آپ کو سبک (برداشت نہ کرنے والا) نہ کر دیں۔ (۶۰)

تشریح: یعنی جب ان بد بختوں کا حال ضد و عناد کے اس درجہ پر پہنچ گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کی شرارتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ بلکہ پیغمبرانہ صبر و تحمل کے ساتھ اپنے دعوت و اصلاح کے کام میں لگے رہیں۔ اللہ نے جو آپ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے یقیناً پورا کر کے رہے گا۔ اس میں رتی برابر تفاوت و تخلف نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنے کام پر جمے رہیے۔ یہ بد عقیدہ اور بے یقین لوگ آپ کو ذرا بھی آپ کے مقام سے جنبش نہ دے سکیں گے۔ تم سورۃ الروم وللہ الحمد والمنہ۔

(تفسیر عثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۳۱۔ سورۃ لقمان

 

 

                تعارف

 

یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی اور کافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر و اشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کر رہے تھے ، قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر و شاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے ، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع (آیت نمبر:۶) میں کیا گیا ہے ، حضرت لقمان اہل عرب  ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے ، ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑا وزن دیتے تھے ، یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے ، قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل و حکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے ، اور انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا، اور اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا، اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید اور نیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے ، اور اگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہو جاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کر لے ، اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ( آیات نمبر:۱۴، ۱۵ میں) اللہ تعالی نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورۂ عنکبوت (۸:۲۹) میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو  ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اور آخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۳۴         رکوعات:۴

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

الف۔ لام۔ میم۔ (۱) یہ آیتیں ہیں پر حکمت کتاب کی۔ (۲) ہدایت اور رحمت نیکو کاروں کیلئے۔ (۳)

تشریح: یہ کتاب خاص نیکی اختیار کرنے والوں کے لئے سرمایہ رحمت و ہدایت ہے۔ کیونکہ وہ ہی لوگ اس سے منتفع ہوتے ہیں۔ ورنہ نفس نصیحت و فہمائش کے لحاظ سے تو تمام جن وانس کے حق میں ہدایت و رحمت بن کر آئی ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (۴)

یہی لوگ اپنے رب (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۵)

”سورہ بقرہ” کے شروع میں اسی طرح کی آیات گزر چکی ہیں وہاں کے فوائد دیکھ لئے جائیں۔ (تفسیر عثمانی)

 

اور کوئی ایسا (بد نصیب بھی) ہے جو خریدتا ہے بیہودہ باتیں تاکہ وہ بے سمجھے اللہ کے راستے سے گمراہ کر دے ، اور وہ اسے ہنسی مذاق ٹھہراتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ذلت والا عذاب ہے۔ (۶)

تشریح: جیسا کہ اوپر سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، قرآن کریم کی تاثیر ایسی تھی کہ جو لوگ ابھی ایمان نہیں لائے تھے ، وہ بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم سنا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض لوگ اسلام قبول بھی کر لیتے تھے ، کافروں کے سردار اس صورت حال کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے ، اس لئے چاہتے تھے کہ قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی ایسی دلچسپ صورت پیدا کریں کہ لوگ قرآن کریم کو سننا بند کر دیں، اسی کوشش میں مکہ مکرمہ کا ایک تاجر نضر بن حارث جو اپنی تجارت کے لئے غیر ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا، ایران سے وہاں کے بادشاہوں کے قصوں پر مشتمل کتابیں خرید لایا، اور بعض روایات میں ہے کہ وہ وہاں سے ایک گانے والی کنیز بھی خرید کر لایا، اور لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں، میں تمہیں ان سے زیادہ دلچسپ قصے اور گانے سناؤں گا، چنانچہ لوگ اس کے گرد اکھٹے ہونے لگے ، یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے ، نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پروا کرے ، نا جائز ہے کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی  فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی (سنائی) جاتی ہیں تو تکبر کرتے ہوئے منہ موڑ لیتا ہے گویا اس نے اسے سنا ہی نہیں، گویا اس کے کانوں میں گرانی (بہرا پن) ہے ، پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دو۔ (۷)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے نعمت کے باغات ہیں۔ (۸)

ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۹)

اس نے ستون کے بغیر آسمانو ں کو پیدا کیا، تم انہیں دیکھتے ہو، اور اس نے ڈالے زمین میں پہاڑ کہ تمہارے ساتھ جھک نہ جائے ، اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہم نے اتارا آسمان سے پانی، پھر ہم نے اس میں اگائے ہر قسم کے عمدہ جوڑے۔ (۱۰)

تشریح: بِغَيْرِ عَمَدٍ :اس لفظ کی تفسیر سورۃ”رعد” کے شروع میں گزر چکی۔

وَأَلْقٰى فِی الْأَرْضِ رَوَاسِيَ :سمندر کی موجوں اور سخت ہوا کے جھٹکوں سے یا دوسرے اسباب طبیعہ سے مرتعش ہو کر جھک نہ پڑے۔ اس کا انتظام بڑے بڑے پہاڑ قائم کر کے کر دیا گیا۔ سورہ ”نحل” کے اوائل میں یہ مضمون گزر چکا ہے ، باقی پہاڑوں کے پیدا کرنے کی حکمت کچھ اسی میں منحصر نہیں۔ دوسرے فوائد اور حکمتیں ہوں گی جو اللہ کو معلوم ہیں۔

فَأَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ کَرِيْمٍ :ہر قسم کے پر رونق، خوش منظر اور نفیس و کار آمد درخت زمین سے اگائے۔ سورۃ شعراء کے شروع میں اسی مضمون کی آیت گزر چکی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اللہ کا بنایا ہوا ہے ، پس تم مجھے دکھاؤ کیا پیدا کیا انہوں نے جو اس کے سوا ہیں، بلکہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۱۱)

تشریح: جب نہیں دکھلا سکتے تو کس منہ سے ان کو خدائی کا شریک اور معبودیت کا مستحق ٹھہراتے ہو۔ معبود تو وہ ہی ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ میں پیدا کرنا اور رزق پہنچانا سب کچھ ہو۔ یہاں ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار نہیں۔

ان ظالموں کو سوچنے سمجھنے سے کچھ سروکار نہیں۔ اندھیرے میں پڑے بھٹک رہے ہیں۔ آگے شرک و عصیان کی تنقیح کے لئے حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل فرماتے ہیں۔ جو انہوں نے اللہ سے دانائی پا کر اپنے بیٹے کو کی تھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم نے دی لقمان کو حکمت (اور فرمایا) کہ اللہ کا شکر کرو، اور جو شکر کرتا ہے تو وہ صرف اپنے (ہی بھلے کے ) لئے کرتا ہے ، اور جس نے ناشکری کی تو بیشک اللہ بے نیاز ستودہ صفات ہے۔ (۱۲)

تشریح: حضرت لقمان کے بارے میں راجح بات یہی ہے کہ وہ نبی نہیں، بلکہ ایک دانشمند شخص تھے ، وہ کس زمانے میں تھے ؟اور کس علاقے کے باشندے تھے ، اس کے بارے میں بھی روایات بہت مختلف ہیں، جن سے کوئی حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہے ، بعض روایات میں ہے کہ وہ یمن کے باشندے تھے اور حضرت ہود علیہ السلام کے جو ساتھی عذاب سے بچ گئے تھے ، ان میں یہ بھی شامل تھے ، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حبشہ سے تعلق رکھتے تھے ، لیکن قرآن کریم نے ان کا جس غرض سے تذکرہ فرمایا ہے ، وہ ان تفصیلات کے جاننے پر موقوف نہیں ہے ، یہ بات واضح ہے کہ عرب کے لوگ ان کو عظیم دانشور سمجھتے تھے ، اور ان کی حکمت کی باتیں ان کے درمیان مشہور تھیں، جاہلیت کے زمانے کے کئی شعراء نے ان کا تذکرہ کیا ہے ، لہذا ان کی باتیں بجا طور پر ان اہل عرب کے سامنے حجت کے طور پر پیش کی جا سکتی تھیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور (یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا اور وہ نصیحت کر رہا تھا، اے میرے بیٹے !تو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا، بیشک شرک ایک ظلم عظیم ہے۔ (۱۳)

تشریح: بعض اوقات اللہ تعالی پیغمبروں کے علاوہ اپنے خاص بندوں پر بھی الہام فرماتے ہیں جو انبیاء کرام پر نازل ہونے والی وحی کی طرح تو حجت نہیں ہوتا، لیکن اس کے ذریعے عام ہدایات دی جاتی ہیں، جو وحی کے کسی حکم کے خلاف نہ ہوں۔

ظلم کے معنی یہ ہیں کسی کا حق چھین کر دوسرے کو دے دیا جائے ، شرک اس لحاظ سے واضح طور پر بہت بڑا ظلم ہے کہ عبادت اللہ تعالی کا خالص حق ہے شرک کرنے والے اللہ تعالی کا یہ حق ادا کرنے کے بجائے خود اسی کے بندوں اور اسی کی مخلوقات کو دیتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہم نے انسان کو تاکید کی اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسن سلوک کی) اس کی ماں نے کمزوری پرکمزوری (جھیلتے ہوئے ) اسے پیٹ میں رکھا، اور دوسال میں اس کا دودھ چھڑایا، کہ میرا شکر کر، اور اپنے ماں باپ کا، میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (۱۴)

تشریح: یہ حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ایک جملہ معترضہ ہے جو اس مناسبت سے لایا گیا ہے کہ حضرت لقمان تو اپنے بیٹے کو شرک سے بچنے اور توحید کا عقیدہ رکھنے کی تاکید کر رہے تھے ، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے بعض مشرکین، جو حضرت لقمان کو ایک دانش مند شخص سمجھتے تھے ، جب ان کی اولاد نے توحید کا عقیدہ اختیار کیا تو وہ انہیں دوبارہ شرک اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے ، اور اولاد پریشان تھی کہ وہ ان ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک کرے ، اللہ تعالی نے پہلے تو یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ہی انسان کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرے ، کیونکہ اگرچہ اسے پیدا تو اللہ تعالی نے کیا ہے ، لیکن ظاہری اسباب میں والدین ہی اس کا سبب بنے ہیں، پھر والدین میں سے بھی خاص طور پر ماں کی مشقتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کتنی محنت سے اس نے بچے کو پیٹ میں اٹھائے رکھا، اور دوسال تک اسے دودھ پلایا، اور بچے کی پرورش میں دودھ پلانے کا زمانہ ماں کے لئے سب سے زیادہ محنت کا ہوتا ہے ، اس لئے ماں بطور خاص اولاد کی طرف سے اچھے سلوک کی مستحق ہے ، لیکن اس اچھے سلوک کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنے دین اور عقیدے کے معاملے میں اللہ تعالی کا حکم ماننے کے بجائے ماں باپ کا حکم ماننا شروع کر دے ، اسی لئے اس آیت میں والدین کا شکر ادا کرنے سے پہلے اللہ تعالی نے اپنا شکر ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے ، کیونکہ والدین تو صرف ایک ذریعہ ہیں جو اللہ تعالی نے انسان کی پرورش کے لئے پیدا کر دیا ہے ، ورنہ خالق حقیقی تو خود اللہ تعالی ہیں، لہذا ایک ذریعے کی اہمیت کو خالق حقیقی کی اہمیت سے بڑھایا نہیں جا سکتا۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر وہ دونوں تیرے ساتھ کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے ، جس کا تجھے کوئی علم (سند) نہیں، تو ان کا کہا نہ مان، اور دنیا (کے معاملات) میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بسر کر، اور اس کے راستے کی پیروی کر، جو رجوع کرے میری طرف، پھر تمہیں میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے ، سو تمہیں آگاہ کروں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔ (۱۵)

تشریح: دین کے معاملے میں اگر والدین کوئی غلط بات کہیں تو ان کی بات ماننا تو جائز نہیں ہے ، لیکن ان کی بات رد کرنے کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئیے جو ان کے لئے تکلیف دہ ہو، یا جس سے وہ اپنی تو ہین محسوس کریں، بلکہ نرم الفاظ میں ان کو بتا دینا چاہئیے کہ میں آپ کی یہ بات ماننے سے معذور ہوں اور صرف اتنا ہی نہیں اپنے عام برتاؤ میں بھی ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے رہنا چاہئیے ، مثلاً ان کی خدمت کرنا، ان کی مالی امداد کرنا، وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی تیمار داری کرنا وغیرہ۔

وَاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ :چونکہ والدین غلط راستے پر ہیں، اس لئے ان کا غلط راستہ اپنانا جائز نہیں، بلکہ راستہ انہی کا اپنانا چاہئے جنہوں نے اللہ تعالی سے مضبوط تعلق قائم کیا ہوا ہو، یعنی وہ اسی کی عبادت اور اطاعت کرتے ہوں، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دین پر عمل بھی صرف اپنی سمجھ اور رائے سے نہیں کرنا چاہئیے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی سے لو لگائی ہوئی ہے ، ان کو دیکھنا چاہئیے کہ انہوں نے دین پر کس طرح عمل کیا، اور پھر انہی کا راستہ اختیار کرنا چاہئیے ، اسی لئے کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کے صرف ذاتی مطالعے پر کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکالنا چاہئیے ، جو امت کے علماء اور بزرگوں کی تشریح کے خلاف ہو۔

(توضیح القرآن)

 

اے میرے بیٹے ! اگر (برائی) ایک رائی کے دانے کے برابر ( بھی) ہو، پھر وہ کسی سخت پتھر (چٹان) میں (پوشیدہ) ہو، یا آسمانوں میں یا زمین میں (پوشیدہ) ہو، اللہ اسے لے آئے گا (حاضر کر دے گا) بیشک اللہ باریک بین باخبر ہے۔ (۱۶)

تشریح: یہ اللہ تعالی کے علم محیط کا بیان ہے جو لوگ آخرت کا انکار کرتے تھے ، وہ یہ کہا کرتے تھے کہ جب انسان کے مرنے کے بعد اس کے سارے اجزاء منتشر ہو جائیں گے تو انہیں کیسے جمع کیا جا سکے گا ؟حضرت لقمان نے بیٹے کو بتایا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی زمین وآسمان کی کسی بھی پوشیدہ جگہ چلا جائے ، وہ اللہ تعالی کے علم میں اور وہ اسے نکال لانے پر پوری طرح قادر ہے۔ یاد رہے کہ جب جس کسی شخص کی کوئی چیز گم ہو جائے تو اسے تلاش کرنے کے لئے بعض بزرگوں نے بتایا ہے کہ گیارہ مرتبہ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ پڑھ کر سورۂ لقمان کی یہ آیت تلاوت کی جاتی رہے تو عموماً وہ گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔ بندہ نے بھی اس کا درجنوں بار تجربہ کیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اے میرے بیٹے ! نماز قائم کر، اور اچھے کاموں کا حکم دے ، اور بُری باتوں سے روک اور تجھ پر جو (افتاد) پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (۱۷)

تشریح: یعنی خود اللہ کی توحید اور بندگی پر قائم ہو کر دوسروں کو بھی نصیحت کر کہ بھلی بات سیکھیں اور برائی سے رکیں۔ دنیا میں جو سختیاں پیش آئیں جن کا پیش آنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں اغلب ہے ان کو تحمل اور اولوالعزمی سے برداشت کر۔ شدائد سے گھبرا کر ہمت ہار دینا حوصلہ مند بہادروں کا کام نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تو لوگوں سے (بات کرتے ہوئے ) اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر، اور زمین میں اتراتا ہوا نہ چل، بیشک اللہ پسند نہیں کرتا ہر سکی اترانے والے ، خود پسند کو۔ (۱۸)

تشریح: یعنی غرور سے مت دیکھ اور لوگوں کو حقیر سمجھ کر متکبروں کی طرح بات نہ کر بلکہ خندہ پیشانی سے مل۔ اترانے اور شیخیاں مارنے سے آدمی کی عزت نہیں بڑھتی بلکہ ذلیل و حقیر ہوتا ہے۔ سامنے نہیں تو پیچھے لوگ برا کہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اپنی رفتار میں میانہ روی (اختیار ) کر، اور اپنی آواز کو پست رکھ، بیشک آوازوں میں سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی انسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہئیے ، رفتار نہ اتنی تیز ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سستی میں داخل ہو جائے ، یہاں تک کہ جب کوئی شخص جماعت سے نماز پڑھنے جا رہا ہو تو اس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے سے منع فرما کر وقار اور سکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔

وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ :آواز آہستہ رکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے ان تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے ، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف ہے ، یہاں تک کہ کوئی شخص درس دے رہا ہو، یا وعظ کر رہا ہو تو اس کی آواز اتنی ہی بلند ہونی چاہئیے جتنی اس کے مخاطبوں کو سننے سمجھنے کے لئے ضرورت ہے ، اس سے زیادہ آواز بڑھانے کو بھی اس آیت کے تحت بزرگوں نے منع فرمایا ہے ، اس حکم پر خاص طور سے ان حضرات کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو بلا ضرورت اسپیکر کا استعمال کر کے لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور تمہیں اپنی ظاہر اور پوشیدہ نعمتیں بھر پور دیں، اور لوگوں میں بعض (ایسے ہیں) جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر علم، بغیر ہدایت، اور بغیر روشن کتاب کے۔ (۲۰)

تشریح: یعنی آسمان و زمین کی کل مخلوق تمہارے کام میں لگا دی ہے ، پھر تم اس کے کام میں کیوں نہیں لگتے۔

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً: کھلی نعمتیں وہ جو حواس سے مدرک ہوں یا بے تکلف سمجھ میں آ جائیں چھپی وہ عقلی غور فکر سے دریافت کی جائیں۔ یا ظاہری مادی و معاشی اور باطنی سے روحانی و معادی نعمتیں مراد ہوں۔ گویا پیغمبر بھیجنا کتاب اتارنا، نیکی کی توفیق دینا، سب باطنی نعمتیں ہوں گی۔ واللہ اعلم۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِی اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ :ایسے کھلے ہوئے انعام و احسان کے باوجود بعض لوگ آنکھیں بند کر کے اللہ کی وحدانیت میں یا اس کی شؤون و صفات میں یا اس کے احکام و شرائع میں جھگڑتے ہیں اور محض بے سند جھگڑتے ہیں۔ نہ کوئی علمی اور عقلی اصول ان کے پاس ہے نہ کسی ہادی برحق کی ہدایت، نہ کسی مستند اور روشن کتاب کا حوالہ محض باپ داداؤں کی اندھی تقلید ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں آتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان سے کہا جائے جو اللہ نے نازل کیا ہے تم اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ، کیا (اس صورت میں بھی کہ) اگر شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اگر شیطان تمہارے باپ دادوں کو دوزخ کی طرف لئے جا رہا ہو، تب بھی تم ان کے پیچھے چلو گے ؟ اور جہاں وہ گریں گے وہیں گرو گے ؟

(تفسیرعثمانی)

 

اور جھکا دے اپنا چہرہ (سرتسلیم خم کر دے ) اللہ کی طرف، اور نیکو کار ہو، تو بیشک اس نے مضبوط حلقہ (دست آویز) تھام لیا، اور اللہ کی طرف (ہی) تمام کاموں کی انتہا ہے۔ (۲۲)

تشریح: یعنی جس نے اخلاص کے ساتھ نیکی کا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا، سمجھ لو کہ اس نے بڑا مضبوط حلقہ ہاتھ میں تھام لیا ہے جب تک یہ کڑا پکڑے رہے گا، گرنے یا چوٹ کھانے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ جس نے یہ کڑا مضبوط تھامے رکھا وہ آخر اس کے سہارے سے اللہ تک پہنچ جائے گا اور خدا اس کا انجام درست کر دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو کفر کرے تو اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کر دے ، انہیں ہماری طرف (ہی) لوٹنا ہے ، پھر ہم انہیں ضرور جتلائیں گے   جو وہ کرتے تھے ، بیشک اللہ دلوں کے بھید جاننے و الا ہے۔ (۲۳)

تشریح: یعنی تم اپنا علاقہ خدا تعالیٰ سے جوڑے رکھو، کسی کے انکار و تکذیب کی پروانہ کرو۔ منکرین کو بھی بالآخر ہمارے ہاں آنا ہے۔ اس وقت سب کیا دھرا سامنے آ جائے گا۔ کسی جرم کو اللہ سے چھپا نہ سکیں گے وہ تو دلوں تک کے راز جانتا ہے۔ سب کھول کر رکھ دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم انہیں تھوڑا (چند روزہ) فائدہ دیں گے پھر ہم انہیں کھینچ لائیں گے سخت عذاب کی طرف۔ (۲۴)

تشریح: یعنی تھوڑے دن کا عیش اور بے فکری ہے۔ مہلت ختم ہونے پر سخت سزا کے نیچے کھنچے چلے آئیں گے۔ مجال ہے کہ چھوڑ کر بھاگ جائیں؟

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا؟ تو وہ یقیناً کہیں گے اللہ نے ، آپ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔ (۲۵)

تشریح: یعنی الحمد للہ اتنا تو زبان سے اعتراف کرتے ہو کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا بجز اللہ کے کسی کا کام نہیں، پھر اب کونسی خوبی رہ گئی جو اس کی ذات میں نہ ہو۔ کیا ان چیزوں کا پیدا کرنا اور ایک خاص محکم نظام پر چلانا بدون اعلیٰ درجہ کے علم و حکمت اور زور قدرت کے ممکن ہے ؟ لا محالہ ”خالق السموات والارض ” میں تمام کمالات تسلیم کرنے پڑیں گے۔ اور یہ بھی اسی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے کہ تم جیسے منکرین سے اپنی عظمت کا اقرار کرا دیتا ہے۔ جس کے بعد تم ملزم ٹھہرتے ہو کہ جب تمہارے نزدیک خالق تنہا وہ ہے تو معبود دوسرے کیونکر بن گئے۔ بات تو صاف ہے پر بہت لوگ نہیں سمجھتے اور یہاں پہنچ کر اٹک جاتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ ہی کے لئے ہیں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بیشک اللہ بے نیاز ستودہ صفات ہے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی جس طرح آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا اللہ ہے ایسے ہی آسمان و زمین میں جو چیزیں موجود ہیں سب بلا شرکت غیرے اسی کی مخلوق و مملوک اور اسی کی طرف محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ وجود اور توابع وجود یعنی جملہ صفات کمالیہ کا مخزن و منبع اسی کی ذات ہے۔ اس کا کوئی کمال دوسرے سے مستفاد نہیں۔ وہ بالذات سب عزتوں اور خوبیوں کا مالک ہے۔ پھر اسے کسی کی کیا پروا ہوتی؟

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر یہ ہو کہ زمین میں جو بھی درخت ہیں قلمیں بن جائیں، اور سمندر اس کی سیاہی (بن جائیں) اور اس کے بعد سات سمندر (اور ہوں) تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی اگر تمام دنیا کے درختوں کو تراش کر قلم بنا لیں اور موجودہ سمندر کی سیاہی تیار کی جائے ، پھر پیچھے سے سات سمندر اور اس کی کمک پر آ جائیں اور فرض کرو تمام مخلوق اپنی اپنی بساط کے موافق لکھنا شروع کرے ، تب بھی ان باتوں کو لکھ کر تمام نہ کر سکیں گے جو حق تعالیٰ کے کمالات اور عظمت و جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں، لکھنے والوں کی عمریں تمام ہو جائیں گی۔ قلم گھس گھس کر ٹوٹ جائیں گے ، سیاہی ختم ہو جائے گی پر اللہ کی تعریفیں اور اس کی خوبیاں ختم نہ ہوں گی، بھلا محدود و متناہی قوتوں سے لا محدود اور غیر متناہی کا سرانجام کیونکر ہو۔ ”اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثینت علی نفسک۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

نہیں ہے تم سب کا پیدا کرنا اور نہیں ہے تمہارا جی اٹھانا، مگر جیسے ایک شخص (کا پیدا کرنا) بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی سارے جہاں کا پیدا کرنا اور ایک آدمی کا پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے لئے دونوں برابر ہیں۔ نہ اس میں کچھ دقت نہ اس میں کچھ تعب۔ ایک ”کن” سے جو چاہے کر ڈالے اور لفظ ”کن” کہنے پر بھی موقوف نہیں۔ یہ ہم کو سمجھانے کا ایک عنوان ہے بس ادھر ارادہ ہوا ادھر وہ چیز موجود۔ جس طرح ایک آواز کا سننا اور بیک وقت تمام جہان کی آوازوں کو سننا، یا ایک چیز کا دیکھنا اور بیک وقت تمام جہان کی چیزوں کو دیکھنا، اس کے لئے برابر ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی کا مارنا، جلانا، اور سارے جہان کا مارنا اور جلانا اس کی قدرت کے سامنے یکساں ہے پھر دوبارہ جِلانے کے بعد بیک وقت تمام اولین و آخرین کے اگلے پچھلے اعمال کا رتی رتی حساب چکا دینے میں بھی اسے کوئی دقت نہیں ہو سکتی، کیونکہ ہمارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو دیکھتا ہے۔ کوئی چھپی کھلی بات وہاں پوشیدہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور دن کو داخل کرتا ہے رات میں، اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا، ہر ایک چلتا رہے گا، مدت مقررہ (روز قیامت) تک، اور یہ کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبر دار ہے۔ (۲۹)

تشریح:” مقرر وقت” سے قیامت مراد ہے یا چاند سورج میں سے ہر ایک کا دورہ کیونکہ ایک دورہ پورا ہونے کے بعد گویا از سر نو چلنا شروع کرتے ہیں۔ جو قوت رات کو دن اور دن کو رات کرتی اور چاند سورج جیسے کرات عظیمہ کو ادنیٰ مزدور کی طرح کام میں لگائے رکھتی ہے۔ اسے تمہارا مرے پیچھے زندہ کر دینا کیا مشکل ہو گا۔ اور جب ہر ایک چھوٹے بڑے عمل سے پوری طرح باخبر ہے تو حساب کتاب میں کیا دشواری ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے ، اور یہ کہ وہ اس کے سوا جس کی پرستش کرتے ہیں سب باطل ہیں، اور یہ کہ اللہ ہی بلند مرتبہ، بڑائی والا ہے۔ (۳۰)

تشریح: یعنی حق تعالیٰ کی یہ شؤون عظیمہ اور صفات قاہرہ اس لئے ذکر کی گئیں کہ سننے والے سمجھ لیں کہ ایک خدا کو ماننا اور صرف اس کی عبادت کرنا ہی ٹھیک راستہ ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے باطل اور جھوٹ ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ کا موجود بالذات اور واجب الوجود ہونا جو ”بان اللہ ھو الحق ” سے سمجھ میں آتا ہے اور دوسروں کا باطل وہالک الذات ہونا اس کو مستلزم ہے کہ اکیلے اسی خدا کے واسطے یہ شؤون و صفات ثابت ہوں پھر جس کے لئے یہ شؤن و صفات ثابت ہوں گی وہ ہی معبود بننے کا مستحق ہو گا۔ لہٰذا بندہ کی انتہائی پستی اور تذلل (جس کا نام عبادت ہے ) اسی کے لئے ہونا چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی نعمتوں کے ساتھ کشتی دریا میں چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اس کی نشانیاں دکھا دے ، بے شک اس میں ہر بڑے صبر کرنے والے ، شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۳۱)

تشریح: یعنی جہاز بھاری بھاری سامان اٹھا کر خدا کی قدرت اور فضل و رحمت سے کس طرح سمندر کی موجوں کو چیرتا پھاڑتا ہوا چلا جاتا ہے۔ اس بحری سفر کے احوال و حوادث میں غور کرنا انسان کے لئے صبر و شکر کے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ جب طوفان اٹھ رہے ہوں اور جہاز پانی کے تھپیڑوں میں گھرا ہو، اس وقت بڑے صبر و تحمل کا کام ہے اور جب اللہ نے اس کشمکش موت و حیات سے صحیح و سالم نکال دیا تو ضروری ہے کہ اس کا احسان مانے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور جب موج ان پر سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے ، تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں خالص کر کے اس کے لئے عبادت، پھر جب اس نے انہیں خشکی کی طرف بچا لیا تو ان میں کوئی میانہ رَو رہتا ہے ، اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتا سوائے ہر عہد شکن ناشکرے کے۔ (۳۲)

تشریح: اوپر دلائل و شواہد سے سمجھایا تھا کہ ایک اللہ ہی کا ماننا ٹھیک ہے ، اس کے خلاف سب باتیں جھوٹی ہیں۔ یہاں بتلایا کہ طوفانی موجوں میں گھر کر کٹر سے کٹر مشرک بھی بڑی عقیدت مندی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانی ضمیر و فطرت کی اصلی آواز یہ ہی ہے۔ باقی سب بناوٹ اور جھوٹے ڈھکوسلے ہیں۔

جب خدا تعالیٰ طوفان سے نکال کر خشکی پر لے آیا تو تھوڑے نفوس ہیں جو اعتدال و توسط کی راہ پر قائم رہیں ورنہ اکثر تو دریا سے نکلتے ہی شرارتیں شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے طوفان میں گھر کر جو قول و قرار اللہ سے کر رہے تھے۔ سب جھوٹے نکلے۔ چند روز بھی اس کے انعام واحسان کا حق نہ مانا اس قدر جلد قدرت کی نشانیوں سے منکر ہو گئے۔

(ماخوذ تفسیرعثمانی)

 

اے لوگو! تم اپنے پروردگار سے ڈرو، اور اس دن کا خوف کرو، (جس دن) نہ کام آئے گا کوئی باپ اپنے بیٹے کے ، اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، سو تمہیں دنیا کی زندگی ہر گز دھوکے میں نہ ڈالے ، اور دھوکہ دینے والا (شیطان) تمہیں اللہ سے ہر گز دھوکہ نہ دے۔ (۳۳)

تشریح: طوفان کے وقت جہاز کے مسافروں میں سخت افراتفری ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ تاہم ماں باپ اولاد سے اور اولاد ماں باپ سے بالکل غافل نہیں ہو جاتی۔ ایک دوسرے کے بچانے کی تدبیر کرتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات والدین کی شفقت چاہتی ہے کہ ہو سکے تو بچہ کی مصیبت اپنے سر لے کر اس کو بچا لیں لیکن ایک ہولناک اور ہوش ربا دن آنے والا ہے جب ہر طرف نفسی نفسی ہو گی۔ اولاد اور والدین میں سے کوئی ایثار کر کے دوسرے کی مصیبت اپنے سر لینے کو تیار نہ ہو گا۔ اور تیار بھی ہو تو یہ تجویز چل نہ سکے گی۔ چاہیے کہ آدمی اس دن سے ڈر کر غضب الہٰی سے بچنے کا سامان کرے۔ آج اگر سمندر کے طوفان سے بچ گئے تو کل اس سے کیونکر بچو گے۔

وہ دن یقیناً آ کر رہے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ لہٰذا دنیا کی چند روزہ بہار اور چہل پہل سے دھوکا نہ کھاؤ کہ ہمیشہ اسی طرح رہے گی۔ اور یہاں آرام سے ہو تو وہاں بھی آرام کرو گے ؟ نیز اس دغا باز شیطان کے اغواء سے ہوشیار رہو جو اللہ کا نام لے کر دھوکا دیتا ہے۔ کہتا ہے میاں اللہ غفور رحیم ہے خوب گناہ سمیٹو، مزے اڑاؤ، بوڑھے ہو کر اکٹھی توبہ کر لینا۔ اللہ سب بخش دے گا۔ تقدیر میں اگر اس نے جنت لکھ دی ہے تو گناہ کتنے ہی ہوں ضرور پہنچ کر رہو گے اور دوزخ لکھی ہے تو کسی طرح بچ نہیں سکتے پھر کا ہے کے لئے دنیا کا مزہ چھوڑیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم، وہی بارش نازل کرتا ہے ، اور وہ جانتا ہے جو (ماں) کے رحم میں ہے ، اور نہیں جانتا کوئی شخص کہ وہ کل کیا کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مرے گا، بیشک اللہ علم والا، خبر دار ہے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی قیامت آ کر رہے گی، کب آئے گی؟ اس کا علم خدا کے پاس ہے۔ نہ معلوم کب یہ کارخانہ توڑ پھوڑ کر برابر کر دیا جائے ، آدمی دنیا کے باغ و بہار اور وقتی تر و تازگی پر ریجھتا ہے ، کیا نہیں جانتا کہ علاوہ فانی ہونے کے فی الحال بھی یہ چیز اور اس کے اسباب سب خدا کے قبضہ میں ہیں۔ زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر تمہاری خوشحالی کا مدار ہے ) آسمانی بارش پر موقوف ہے۔ سال دو سال مینہ نہ برسے تو ہر طرف خاک اڑنے لگے۔ نہ سامان معیشت رہیں نہ اسباب راحت، پھر تعجب ہے کہ انسان دنیا کی زینت اور تر و تازگی پر فریفتہ ہو کر اس ہستی کو بھول جائے جس نے اپنی باران رحمت سے اس کو تر و تازہ اور پر رونق بنا رکھا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کو کیا معلوم ہے کہ دنیا کے عیش و آرام میں اس کا کتنا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کر کے اور ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ لیکن زندگی بھر چین نصیب نہیں ہوتا۔ بہت ہیں جنہیں بے محنت دولت مل جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کوئی آدمی جو دین کے معاملہ میں تقدیر الٰہی پر بھروسہ کیے بیٹھا ہو، دنیاوی جدوجہد میں تقدیر پر قانع ہو کر ذرہ برابر کمی نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ تدبیر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اچھی تقدیر عموماً کامیاب تدبیر ہی کے ضمن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ علم خدا کو ہے کہ فی الواقع ہماری تقدیر کیسی ہو گی اور صحیح تدبیر بن پڑے گی یا نہیں۔ یہ ہی بات اگر ہم دین کے معاملہ میں سمجھ لیں تو شیطان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آئیں۔ بیشک جنت دوزخ جو کچھ ملے گی تقدیر سے ملے گی جس کا علم خدا کو ہے مگر عموماً اچھی یا بری تقدیر کا حوالہ دے کر ہم تدبیر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ یہ پتہ کسی کو نہیں کہ اللہ کے علم میں وہ سعید ہے یا شقی۔ جنتی ہے یا دوزخی، مفلس ہے یا غنی، لہٰذا ظاہری عمل اور تدبیر ہی وہ چیز ہوئی جس سے عادۃً ہم کو نوعیتِ تقدیر کا قدرے پتہ چل جاتا ہے۔ ورنہ یہ علم تو حق تعالیٰ ہی کو ہے کہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور پیدا ہونے کے بعد اس کی عمر کیا ہو۔ روزی کتنی ملے ، سعید ہو یا شقی، اسی کی طرف ”و یعلم ما فی الارحام” میں اشارہ کیا ہے۔ رہا شیطان کا یہ دھوکا کہ فی الحال تو دنیا کے مزے اڑا لو، پھر توبہ کر کے نیک بن جانا، اس کا جواب ”وما تدری نفس ماذا تکسب غدا” الخ میں دیا ہے۔ یعنی کسی کو خبر نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا؟ اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا؟ کب موت آ جائے گی اور کہاں آئے گی؟ پھر یہ وثوق کیسے ہو کہ آج کی بدی کا تدارک کل نیکی سے ضرور کر لے گا اور توبہ کی توفیق ضرور پائے گا؟ ان چیزوں کی خبر تو اسی علیم و خبیر کو ہے۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

 

۳۲۔ سورۃ السجدۃ

 

                تعارف

 

اس سورت کا مرکزی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد، یعنی توحید، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آخرت کا اثبات ہے ، نیز جو کفار عرب ان عقائد کی مخالفت کرتے تھے ، اس سورت میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے ، اور ان کا انجام بھی بتایا گیا ہے ، چونکہ اس سورت کی آیت نمبر:۱۵، سجدے کی آیت ہے ، یعنی جو شخص بھی اس کی تلاوت کرے یا سنے اس پر سجدۂ  تلاوت واجب ہے ، اس لئے اس کا نام تنزیل السجدہ یا الم سجدہ یا صرف سورۂ سجدہ رکھا گیا ہے ، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں بکثرت یہ سورت پڑھا کرتے تھے ، اور مسند احمد (۳:۳۴) کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ رات کو سونے سے پہلے دو سورتوں کی تلاوت ضرور فرماتے تھے ، ایک سورۂ تنزیل السجدہ اور دوسری سورۂ ملک۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۳۰         رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

الف۔ لام۔ میم۔ (۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب (قرآن) کا نازل کرنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ (۲)

تشریح: بلاشبہ یہ کتاب مقدس رب العالمین نے اتاری ہے نہ اس میں کچھ دھوکا ہے نہ شک و شبہ کی گنجائش۔ (تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ اس نے گھڑ لیا ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ تم اس قوم کو ڈراؤ جس کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تم سے پہلے ، تاکہ وہ ہدایت پالیں۔ (۳)

تشریح: یعنی جس کی کتاب کا معجزہ اور من اللہ ہونا اس قدر واضح ہے کہ شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں، کیا اس کی نسبت کفار کہتے ہیں کہ اپنی طرف سے گھڑ لایا ہے۔ اور معاذ اللہ جھوٹ طوفان خدا کی طرف نسبت کرتا ہے ؟ حد ہو گئی جب ایسی روشن چیز میں بھی شبہات پیدا کیے جانے لگے ، ذرا غور و انصاف کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ یہ کتاب ٹھیک پروردگار عالم کی طرف سے آئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ اس قوم کو بیدار کرنے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کریں جن کے پاس قرنوں سے کوئی بیدار کرنے والا پیغمبر نہیں آیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آدمی اپنی طرف سے وہ ہی چیز بنا کر لاتا ہے یا بنا سکتا ہے جس کی کوئی نظیر یا زبردست خواہش اس کے ماحول میں پائی جاتی ہو۔ کسی ملک میں ایسی بات دفعۃً منہ سے نکال دینا جو ان کی سینکڑوں برس کی مسخ شدہ ذہنیت اور مذاق کے یکسر مخالف ہو اور جس کے قبول کی ادنیٰ ترین استعداد بھی بظاہر نہ پائی جائے ، کسی عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ ہاں اللہ کی قدرت قاہرہ کسی کو مامور کرے وہ الگ بات ہے پس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا اعقل الناس ہونا ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے جو آپ کو (معاذاللہ) مفتری کہتے ہیں، اگر کوئی بات بنا کر لاتے تو یقیناً ایسی لاتے جو عرب کی اس فضا کے مناسب اور عام جذبات کے موافق ہوتی اور جس کا کوئی نمونہ ان کے گردو پیش پایا جاتا۔ یہ ہی بات ایک انصاف پسند کو یقین دلا سکتی ہے کہ وہ خود اپنی ذاتی خواہش سے کھڑے نہیں ہوئے اور نہ جو پیغام لائے وہ ان کا تصنیف کیا ہوا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ (ہی ہے ) جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے چھ دن میں، پھر اس نے عرش پر قرار کیا، تمہارے لئے اس کے سوا نہیں کوئی مددگار، اور نہ سفارش کرنے والا، سوکیا تم غور نہیں کرتے ؟ (۴)

تشریح: یعنی دھیان نہیں کرتے کہ اس کے پیغام اور پیغامبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے۔ تمام زمین و آسمان میں عرش سے فرش تک اللہ کی حکومت ہے۔ اگر پکڑے گئے تو اس کی اجازت و رضاء کے بدون کوئی حمایت اور سفارش کرنے والا بھی نہ ملے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

استواء کے لفظی معنی سیدھا ہونے اور بیٹھنے کے آتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے عرش پراستواء فرمانے کا صحیح مطلب ہماری فہم اور ادراک سے باہر ہے ، اس لئے اس کی تفصیلات میں جانے کی نہ ضرورت ہے نہ اس کا کوئی یقینی نتیجہ نکل سکتا ہے ، اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ جو کچھ قرآن کریم نے فرمایا ہے وہ برحق ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے آسمان سے زمین تک، پھر (وہ کام) اس کی طرف رجوع کرے گا ایک دن میں، جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو۔ (۵)

تشریح: بڑے کام اور اہم انتظامات کے متعلق عرش عظیم سے مقرر ہو کر نیچے حکم اترتا ہے۔ سب اسباب حسی و معنوی، ظاہری و باطنی، آسمان و زمین سے جمع ہو کر اس کے انصرام میں لگ جاتے ہیں۔ آخر وہ کام اور انتظام اللہ کی مشیت و حکمت سے مدتوں جاری رہتا ہے ، پھر زمانہ دراز کے بعد اٹھ جاتا ہے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے دوسرا رنگ اترتا ہے۔ جیسے بڑے بڑے پیغمبر جن کا اثر قرنوں رہا، یا کسی بڑی قوم میں سرداری جو نسلوں تک چلی۔ وہ ہزار برس اللہ کے ہاں ایک دن ہے (موضح بتغیریسیر) مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہزار سال کے انتظامات و تدابیر فرشتوں کو القاء کرتا ہے۔ اور یہ اس کے ہاں ایک دن ہے۔ پھر فرشتے جب (انہیں انجام دے کر) فارغ ہو جاتے ہیں، آئندہ ہزار سال کے انتظامات القاء فرما دیتا ہے۔ یہ ہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ بعض مفسرین آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اللہ کا حکم آسمانوں کے اوپر سے زمین تک آتا ہے ، پھر جو کاروائیاں اس کے متعلق یہاں ہوتی ہیں وہ دفتر اعمال میں درج ہونے کے لئے اوپر چڑھتی ہیں جو سمائے دنیا کے محدب پر واقع ہے۔ اور زمین سے وہاں تک کا فاصلہ آدمی کی متوسط رفتار سے ایک ہزار سال کا ہے جو خدا کے ہاں ایک دن قرار دیا گیا۔ مسافت تو اتنی ہے یہ جداگانہ بات ہے کہ فرشتہ ایک گھنٹہ یا اس سے بھی کم میں قطع کر لے۔ بعض مفسرین یوں معنی کرتے ہیں کہ ایک کام اللہ تعالیٰ کو کرنا ہے تو اس کے مبادی واسباب کا سلسلہ ہزار سال پہلے سے شروع کر دیتے ہیں۔ پھر وہ حکمت بالغہ کے مطابق مختلف ادوار میں گزرتا اور مختلف صورتیں اختیار کرتا ہوا بتدریج اپنے منتہائے کمال کو پہنچتا ہے۔ اس وقت جو نتائج و آثار اس کے ظہور پذیر ہوتے ہیں بارگاہ ربوبیت میں پیش ہونے کے لئے چڑھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک ”یوم” سے یوم قیامت مراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک تمام دنیا کا بندوبست کرتا ہے۔ پھر ایک وقت آئے گا جب یہ سارا قصہ ختم ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائے گا اور آخری فیصلہ کے لئے پیش ہو گا۔ اس کو قیامت کہتے ہیں۔ قیامت کا دن ہزار سال کے برابر ہے۔ بہرحال ”فی یوم” کو بعض نے یعرج کے متعلق کیا ہے اور بعض نے تنازع فعلین مانا ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ، غالب، مہربان۔ (۶)

تشریح: یعنی ایسے اعلیٰ اور عظیم الشان انتظام و تدبیر کا قائم کرنا اسی پاک ہستی کا کام ہے جو ہر ایک ظاہرہ و پوشیدہ کی خبر رکھے ، زبردست اور مہربان ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے ہر شے خوب بنائی جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش کی ابتدا ء مٹی سے کی۔ (۷)

پھر اس کی نسل کو بے قدر پانی کے خلاصہ سے بنایا۔ (۸)

اور اس میں پھونکی اپنی (طرف سے ) اپنی روح، اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ، تم بہت کم ہو جوتم شکر کرتے ہو۔ (۹)

تشریح: ان نعمتوں کا شکریہ تھا کہ آنکھوں سے اس کی آیات تکوینیہ کو بنظر امعان دیکھتے۔ کانوں سے آیات تنزیلیہ کو توجہ و شوق کے ساتھ سنتے۔ دل سے دونوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش کرتے ، پھر سمجھ کر اس پر عامل ہوتے۔ مگر تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو کیا نئی پیدائش میں (آئیں گے ) بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات سے منکر ہیں۔ (۱۰)

تشریح: یعنی اس پر غور نہ کیا کہ اللہ نے ان کو اول مٹی سے پیدا کیا ہے۔ الٹے شبہات نکالنے لگے کہ مٹی میں مل جانے کے بعد ہم دوبارہ کس طرح بنائے جائیں گے۔ اور شبہ یا استبعاد ہی نہیں بلکہ صاف طور پر یہ لوگ بعث بعدالموت سے منکر ہو گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں، موت کا فرشتہ تمہاری روح قبض کرتا ہے ، جوتم پر مقرر کیا گیا ہے ، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی ” تم اپنے آپ کو محض بدن اور دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل مل کر برابر ہو گئے۔ ایسا نہیں تم حقیقت میں جان ہو جسے فرشتہ لے جاتا ہے بالکل فنا نہیں ہو جاتے۔ ” (موضح)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم دیکھو جب مجرم اپنے رب کے سامنے اپنے سرکو جھکائے ہوں گے (اور کہہ رہے ہوں گے ) اے ہمارے رب! (اب) ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں لوٹا دے کہ ہم اچھے عمل کریں، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔ (۱۲)

تشریح: یعنی ہمارے کان اور آنکھیں کھل گئیں۔ پیغمبر جو باتیں فرمایا کرتے تھے ان کا یقین آ گیا۔ بلکہ آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ ایمان اور عمل صالح ہی خدا کے ہاں کام دیتا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر دنیا میں بھیج دیجئے دیکھئیے کیسے کام کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم چاہتے تو ضرور ہر شخص کو اس کی ہدایت دے دیتے ، لیکن (یہ) بات ثابت ہو چکی ہے میری طرف سے کہ میں البتہ جہنم کو ضرور بھر دوں گا، اکٹھے جنوں اور انسانوں سے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی اگر اللہ تعالی زبردستی لوگوں کو ہدایت پر لانا چاہتے تو وہ ضرور ایسا کرسکتے تھے ، لیکن اس صورت میں وہ آزمائش نہ ہوتی جو انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے ، انسان کی آزمائش تو اسی میں تھی کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر پیغمبروں کی بات پر ایمان لائے ، جنت اور جہنم کا آنکھ سے نظارہ کر لینے کے بعد اُس پر زبردستی ایمان لانے میں کوئی آزمائش نہیں، اس لئے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے اس آزمائش کی خاطر انسان کو پیدا کر کے ازل ہی میں یہ طے کر لیا تھا کہ جو لوگ عقل سے کام لے کر پیغمبروں کی اطاعت نہیں کریں گے ،بلکہ ان کو جھٹلائیں گے ، اُن سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔

(توضیح القرآن)

 

پس تم اس کا (مزہ) چکھو جو تم نے بھلا دیا تھا اپنے اس دن کی ملاقات (حاضری) کو، ہم نے (بھی) بھلا دیا، جو تم کرتے تھے اس کے بدلے ہمیشہ کا عذاب چکھو۔ (۱۴)

تشریح: ہم نے بھی تم کو بھلا دیا۔ یعنی کبھی رحمت سے یاد نہیں کئے جاؤ گے۔ آگے مجرمین کے مقابلہ میں مومنین کا حال و مآل بیان فرماتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ ہماری آیتوں پر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب وہ انہیں یاد دلائی جاتی ہیں تو سجدہ میں گر پڑتے ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی خوف و خشیت اور خشوع و خضوع سے سجدہ میں گر پڑتے ہیں، زبان سے اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں، دل میں کبر و غرور اور بڑائی کی بات نہیں رکھتے جو آیات اللہ کے سامنے جھکنے سے مانع ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ سجدہ کی آیت ہے جس کی تلاوت کرنے یا سننے سے سجدۂ تلاوت واجب ہو جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈر اور امید سے ، اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ (۱۶)

تشریح: یعنی میٹھی نیند اور نرم بستروں کو چھوڑ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ مراد تہجد کی نماز ہوئی جیسا کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے۔ اور بعض نے صبح کی یا عشاء کی نماز یا مغرب و عشاء کے درمیان کی نوافل مراد لیے ہیں۔ گو الفاظ میں اس کی گنجائش ہے لیکن راجح وہ ہی پہلی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم۔

يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا :حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”اللہ سے لالچ اور ڈر برا نہیں، دنیا کا ہو یا آخرت کا۔ اور اس واسطے بندگی کرے تو قبول ہے۔ ہاں اگر کسی اور کے خوف و رجاء سے بندگی کرے تو ریاء ہے کچھ قبول نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ اس بات سے ڈرتے بھی ہیں کہ ان کی عبادت میں جو قصور ہوا ہے کہیں وہ نامنظور نہ ہو جائے ، اور اللہ تعالی کی رحمت سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اسے قبول فرما کر اجر و ثواب عطا فرمائے۔

(تفسیر عثمانی)

 

سو کوئی شخص نہیں جانتا جو چھپا رکھا گیا ہے ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک سے ، اس کی جزا جو وہ کرتے ہیں۔ (۱۷)

تشریح: جس طرح راتوں کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر انہوں نے بے ریا عبادت کی۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں چھپا رکھی ہیں ان کی پوری کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ جس وقت دیکھیں گے آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ حدیث میں ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت میں وہ چیز چھپا رکھی ہے جو نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی نہ کسی بشر کے دل میں گزری۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا جو مؤمن ہو وہ اس کے برابر ہے جو نافرمان ہو؟ (فرما دیں) وہ برابر نہیں ہوتے۔ (۱۸)

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کے لئے رہنے کے باغات ہیں اس کے صلہ میں جو وہ کرتے تھے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے عمل جنت کی مہمانی کا سبب بن جائیں گے۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور رہے وہ جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ، وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اس میں لوٹا دئیے (دھکیل دئیے ) جائیں گے ، اور انہیں کہا جائے گا دوزخ کا عذاب چکھو، وہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۲۰)

تشریح: کبھی کبھی آگ کے شعلے جہنمیوں کو دروازہ کی طرف پھینکیں گے۔ اس وقت شاید نکلنے کا خیال کریں۔ فرشتے پھر ادھر ہی دھکیل دیں گے کہ جاتے کہاں ہو۔ جس چیز کو جھٹلاتے تھے ذرا اس کا مزہ چکھو (اللھم اعذنی من النار واجرنی من غضبک)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم انہیں ضرور چکھائیں گے کچھ عذاب نزدیک (دنیا) کا (آخرت کے ) بڑے عذاب سے پہلے ، شاید وہ لوٹ آئیں۔ (۲۱)

تشریح: یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر کے اپنے گناہوں سے باز آ جائے ، سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالی سے رجوع کر کے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے ، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہئے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟جسے اس کے رب کی آیات سے نصیحت کی گئی، پھر اس نے اس سے منہ پھیر لیا، بیشک ہم مجرموں سے انتقام (بدلہ) لینے والے ہیں۔ (۲۲)

تشریح: جب تمام گنہگاروں اور ظالم مجرموں سے بدلہ لینا ہے تو یہ اظلم کیونکر بچ سکتے ہیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

تحقیق ہم نے موسیٰ کو توریت عطا کی تو تم اس کے ملنے کے متعلق شک میں نہ رہو، اور ہم نے اسے بنا دیا ہدایت بنی اسرائیل کے لئے۔ (۲۳)

اور جب ہم نے ان میں سے پیشوا بنائے ، وہ ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے ، جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے۔ (۲۴)

بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس (بات) میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۲۵)

تشریح:  ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے  کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے ظلم و اعراض سے دلگیر نہ ہوں۔ پہلے موسٰی کو ہم نے کتاب دی تھی جس سے بنی اسرائیل کو ہدایت ہوئی۔ اور ان کی پیروی کرنے والوں میں بڑے بڑے دینی پیشوا اور امام ہو گزرے۔ آپ کو بھی بلاشبہ اللہ کی طرف سے عظیم الشان کتاب ملی ہے جس سے بڑی مخلوق ہدایت پائے گی۔ اور بنی اسرائیل سے بڑھ کر آپ کی امت میں امام اور سردار اٹھیں گے۔ رہے منکر، ان کا فیصلہ حق تعالیٰ خود کر دے گا۔

(ماخوذتفسیر عثمانی )

 

کیا ان کے لئے (یہ حقیقت) موجب ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے ان سے قبل کتنی (ہی) امتیں ہلاک کیں، وہ ان کے گھروں میں چلتے (پھرتے ) ہیں، بیشک اس میں نشانیاں ہیں، تو کیا وہ سنتے نہیں؟ (۲۶)

تشریح: دنیا میں بھی کئی مثالیں ایسی دکھلائی جا چکی ہیں کہ آدمی انہیں دیکھ کر سمجھ اور عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ کیا عاد و ثمود کی بستیوں کے تباہ شدہ کھنڈر اور نشان ان منکروں نے نہیں دیکھے ؟ جن پر شام وغیرہ کے سفر میں ان کا گزر ہوتا رہتا ہے۔ اور کیا ان کی ہلاکت کی داستانیں نہیں سنیں۔ مقام تعجب ہے کہ وہ چیزیں دیکھنے اور سننے کے بعد بھی ان کو تنبہ نہ ہوا اور نجات و فلاح کا راستہ نظر نہ آیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا؟کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی چلاتے (روا ں کرتے ) ہیں، پھر اس سے ہم کھیتی نکالتے ہیں، اس سے ان کے مویشی کھاتے ہیں، اور وہ خود (بھی) ، تو کیا وہ دیکھتے نہیں؟ (۲۷)

تشریح: یعنی ان نشانات کو دیکھ کر چاہیے تھا کہ حق تعالیٰ کی قدرت اور رحمت و حکمت کے قائل ہوتے اور سمجھتے کہ اسی طرح مردہ لاشوں میں دوبارہ جان ڈال دینا بھی اس کے لئے کچھ دشوار نہیں۔ نیز اللہ کی نعمتوں کے جان و دل سے شکر گزار بنتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے ہیں یہ فیصلہ کب   ہو گا، اگر تم سچے ہو۔ (۲۸)

تشریح: پہلے فرمایا تھا کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا۔ اس پر منکرین کہتے ہیں کہ قیامت قیامت کہے جاتے ہو، اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ دن کب آ چکے گا۔ مطلب یہ ہے کہ خالی دھمکیاں ہیں قیامت وغیرہ کچھ بھی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان (لانا) نفع نہ دے گا، ا ورنہ وہ مہلت دئیے جائیں گے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی ابھی موقع ہے کہ اللہ و رسول کے کہنے پر یقین کرو اور اس دن سے بچنے کی تیاری کر لو ورنہ اس کے پہنچ جانے پر نہ ایمان لانا کام دے گا نہ سزا میں ڈھیل ہو گی اور نہ مہلت ملے گی کہ آئندہ چال چلن درست کر کے حاضر ہو جاؤ، اس وقت کی مہلت کو غنیمت سمجھو۔ استہزاء و تکذیب میں رائیگاں مت کرو جو گھڑی آنے والی ہے یقیناً آ کر رہے گی، کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی۔ پھر یہ کہنا فضول ہے کہ کب آئے گی اور کب فیصلہ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تم ان سے منہ پھیر لو اور تم انتظار کرو، بیشک وہ بھی منتظر ہیں۔ (۳۰)

تشریح: یعنی جو ایسے بے فکرے اور بے حس ہیں کہ باوجود انتہائی مجرم اور مستوجب سزا ہونے کے فیصلہ اور سزا کے دن کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے راہ راست پر آنے کی کیا توقع ہے۔ لہٰذا آپ فرض دعوت و تبلیغ ادا کرنے کے بعد ان کا خیال چھوڑیے اور ان کی تباہی کے منتظر رہیے جیسے وہ اپنے زعم میں معاذاللہ آپ کی تباہی کے منتظر ہیں۔ تم سورۃ السجدہ وللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

۳۳۔ سورۃ الاحزاب

 

                تعارف

 

یہ سورت حضور سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی ہے ، اس کے پس منظر میں چار واقعات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں جن کا   حوالہ اس سورت میں آیا ہے ، ان چار واقعات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے ، تفصیلات ان شاء اللہ متعلقہ آیتوں کی تشریح میں آگے آئیں گے۔

پہلا واقعہ جنگ احزاب کا ہے ، جس کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے ، بدر واحد کی ناکامیوں کے بعد قریش کے لوگوں نے عرب کے دوسرے قبائل کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اکسایا، اور ان کا ایک متحدہ محاذ بنا کر مدینہ منورہ پر حملہ کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے پر مدینہ منورہ کے دفاع کے لئے شہر کے گرد ایک خندق کھودی تاکہ دشمن اسے عبور کر کے شہر تک نہ پہنچ سکے ، اسی لئے اس جنگ کو جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے ، اس جنگ کے اہم واقعات اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اور اس موقع پر مسلمانوں کو جس شدید آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کی تفصیل بھی بیان فرمائی گئی ہے۔

دوسرا اہم واقعہ جنگ قریظہ کا ہے ، قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کے مضافات میں آباد تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ان سے امن کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے ، لیکن قریظہ کے یہودیوں نے معاہدے کی دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ جنگ احزاب کے نازک موقع پر خفیہ ساز باز کر کے پیچھے سے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنا چاہا، اس لئے جنگ احزاب سے فراغت کے بعد اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ فوراً قریظہ پر حملہ کر کے ان آستین کے سانپوں کا قلع قمع فرمائیں، چنانچہ آپ نے ان  کا محاصرہ فرمایا، جس کے نتیجے میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے گرفتار، اس واقعے کی بھی تفصیل اس سورت میں آئی ہے۔

تیسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ اہل عرب جب کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیتے تو اس ے ہر معاملے میں سگے بیٹے کا درجہ دیتے تھے ، یہاں تک کہ وہ میراث بھی پاتا تھا، اور اس کے منہ بولے باپ کے لئے جائز نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی بیوہ یا مطلقہ بیوی سے نکاح کرے ، بلکہ اس کو بدترین معیوب عمل سمجھا جاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی، عرب کی یہ جاہلانہ رسمیں دلوں میں ایسا گھر کر گئی تھیں کہ ان کا خاتمہ صرف زبانی نصیحت سے نہیں ہو سکتا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی رسموں کا خاتمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے خود علی الاعلان ان رسموں کے خلاف عمل فرمایا تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اگر اس کام میں ذرا بھی کوئی خرابی ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس بھی نہ جاتے ، اس کی بہت سی مثالیں آپ کی سیرت طیبہ میں موجود ہیں، منہ بولے بیٹے کے بارے میں جو رسم تھی، اس کے سد باب کے لئے بھی اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اپنے ایک منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی حضرت زینب بنت جحش  رضی اللہ عنہاسے نکاح فرمائیں، واضح رہے کہ حضرت زینب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی کی بیٹی تھیں، اور حضرت زید رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح خود آپ نے کروایا تھا، اس لئے اگرچہ اب اُن سے نکاح کرنا آپ کے لئے صبر آزما عمل تھا ،لیکن آپ نے اللہ تعالی کے حکم اور دینی مصلحت کے آگے سر جھکا دیا، اور ان سے نکاح کر لیا، اسی نکاح کے ولیمے میں حجاب (پردے ) کے احکام پر مشتمل آیات نازل ہوئیں جو اس سورت کا حصہ ہیں۔

چوتھا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اگرچہ ہر طرح کے سرد گرم حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن جب آپ کے پاس مختلف فتوحات کے نتیجے میں مالی طور پر وسعت ہوئی تو انہوں نے اپنے نفقے میں اضافے کا مطالبہ کر دیا، یہ مطالبہ عام حالات میں کسی بھی طرح کوئی نا جائز مطالبہ نہیں تھا لیکن پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف رکھنے والی ان مقدس خواتین کا مقام بلند اس قسم کے مطالبات سے بالاتر تھا۔ اس لئے اس سورت میں اللہ تعالی نے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اعزاز و اکرام کے ساتھ علیحدہ کرنے کو تیار ہیں، اور اگر وہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی ساتھی ہیں اور آخرت کے انعامات کی طلب گار ہیں تو پھر اس قسم کے مطالبے ان کو زیب نہیں دیتے۔

چونکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ سے نکاح کے واقعے پر کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف اعتراضات کئے تھے ، اس لئے اسی سورت میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بلند بتایا گیا ہے ، اور آپ کی تعظیم وتکریم اور اطاعت کا حکم دے کر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت پر نادانوں کے یہ اعتراضات آپ کے مقامِ بلند میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے ، اس کے علاوہ ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل اور اس سے متعلق بعض تفصیلات بھی اس سورت میں بیان ہوئی ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

مدنیۃ

آیات۷۳         رکوعات:۹

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہیں اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانیں، بیشک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (۱)

اور جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے اس کی پیروی کریں، بیشک اللہ اس سے خبر دار ہے جو تم کرتے ہو۔ (۲)

اور آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، اللہ کافی ہے کارساز۔ (۳)

تشریح: بعض اوقات کچھ کافر لوگ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قسم کی تجویز یں پیش کرتے تھے کہ اگر آپ ہماری فلاں بات مان لیں تو ہم آپ کی بات مان لیں گے ، بعض منافقین بھی ان کی تائید کرتے کہ یہ اچھی تجویز ہے ، اور اس پر عمل کرنے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے ، حالانکہ وہ تجویز ایمان کے تقاضوں کے خلاف ہوتی تھی، اس آیت میں اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان دلایا ہے کہ ایسی تجویزوں پر کان دھرنے کے بجائے اپنے کام میں لگے رہئے اور اللہ تعالی پر بھروسہ رکھئے ، وہ خود ہی سارے معاملات ٹھیک کر دے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ نے نہیں بنائے کسی آدمی کے لئے اس کے سینے میں دو دل، اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو نہیں بنایا تمہاری مائیں، اور تمہارے منہ بولے (لے پالکوں کو) (سچ مچ) تمہارے بیٹے نہیں بنایا، یہ (صرف) تمہارے منہ سے کہنے (کی بات ہے ) اور اللہ حق فرماتا ہے ، اور وہ راستہ کی ہدایت دیتا ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی جس طرح ایک آدمی کے سینہ میں دو دل نہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کی حقیقۃً دو مائیں یا ایک بیٹے کے دو باپ نہیں ہوتے۔ جاہلیت کے زمانہ میں کوئی بیوی کو ماں کہہ دیتا تو ساری عمر کے لئے اس سے جدا ہو جاتی۔ گویا اس لفظ سے وہ حقیقی ماں بن گئی۔ اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تو سچ مچ بیٹا سمجھا جاتا تھا اور سب احکام اس پر بیٹے کے جاری ہوتے تھے۔ قرآن کریم نے اس لفظی و مصنوعی تعلق کو حقیقی اور قدرتی تعلق سے جدا کرنے کے لئے ان رسوم و مفروضات کی بڑی شد و مد سے تردید فرمائی۔ اس نے بتلایا کہ بیوی کو ماں کہہ دینے سے اگر واقعی وہ ماں بن جاتی ہے تو کیا یہ دو ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ؟ ایک وہ جس نے اول جنا تھا، اور دوسری یہ جس کو ماں کہہ کر پکارتا ہے۔ اسی طرح کسی نے بکر کو بیٹا بنا لیا تو ایک باپ تو اس کا پہلے سے موجود تھا جس کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے۔ کیا واقعی اب یہ ماننا چاہیے کہ یہ دو باپوں سے الگ الگ پیدا ہوا ہے۔ جب ایسا نہیں تو حقیقی ماں باپ اور اولاد کے احکام ان پر جاری نہیں کئے جا سکتے۔ چنانچہ بیوی کو ماں کہنے کا حکم سورۃ مجادلہ میں آئے گا۔ اور لے پالک (منہ بولے بیٹے ) کا حکم آگے بیان ہوتا ہے۔ ان دو باتوں کے ساتھ تیسری بات (بطور تمہید و تشریح کے ) یہ بھی سنا دی کہ ایسی باتیں زبان سے کہنے کی بہتیری ہیں جن کی حقیقت واقع میں وہ نہیں ہوتی جو الفاظ میں ادا کی جاتی ہے جیسے کسی غیر مستقل مزاج یا دوغلے آدمی کو یا کسی قوی الحفظ اور قوی القلب یا ایسے شخص کو جو ایک وقت میں دو مختلف چیزوں کی طرف متوجہ ہو کہہ دیتے ہیں کہ اس کے دو دل ہیں، حالانکہ سینہ چیر کر دیکھا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا۔ اسی طرح ماں کے علاوہ کسی کو ماں یا باپ کے سوا کسی کو باپ یا بیٹے کے سوا کسی کو بیٹا کہہ دینے سے واقع میں وہ نسبت ثابت نہیں ہو جاتی جو بدون ہمارے زبان سے کہے قدرت نے قائم کر دی ہے۔ لہٰذا مصنوعی اور حقیقی تعلقات میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

انہیں ان ہی کے باپوں کی طرف (منسوب کر کے ) پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ (قرینِ) انصاف ہے ، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، اور تمہارے رفیق ہیں، اور تم پر نہیں اس میں کوئی گناہ جو تم سے بھول چوک ہو چکی، لیکن (ہاں) جو اپنے دل کے ارادے سے کرو، اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵)

تشریح: اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ :   یعنی اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنے منہ بولے بیٹے کے ساتھ محبت اور حسن سلوک میں بیٹے جیسا معاملہ کرو، لیکن اس کی ولدیت بتانے کی ضرورت پیش آئے تو اس کو اپنی طرف منسوب کرنے کے بجائے اس کی صحیح ولدیت بتاؤ۔

فَإِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَہُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ: مطلب یہ ہے کہ اگر منہ بولے بیٹے کی صحیح ولدیت معلوم نہ ہو تب بھی اسے اپنی طرف منسوب کرنے کے بجائے اسے اپنا بھائی یا اپنا ہم قبیلہ دوست کہو۔

وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ أَخْطَأْتُمْ بِہٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ : بھول چوک میں یا مجازی طور پر منہ بولے بیٹے کو بیٹا کہہ دینے کو اللہ تعالی نے معاف فرمایا ہے ، البتہ جب سنجیدگی سے ولدیت بتائی جائے ، اس وقت اسے اپنا بیٹا ظاہر کرنا درست نہیں۔

(توضیح القرآن)

 

نبی مؤمنوں کے (امور کے تصرف میں) ان کی جانوں سے زیادہ حقدار ہیں اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں، اور قرابت دار اللہ کی کتاب میں ان میں سے بعض (عام) مسلمانوں اور مہاجروں کی نسبت ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک (فائق) ہیں، مگر یہ کہ تم کرو اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک، یہ (اللہ کی) کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ (۶)

تشریح: النَّبِيُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ:  مومن کا ایمان اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک شعاع ہے ، اس نور اعظم کی جو آفتاب نبوت سے پھیلتا ہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام ہوئے۔ بنا بریں مومن (من حیث ھو مومن) اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لئے حرکت فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے ، اور  اگر اس روحانی تعلق کی بناء پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ کے بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہو گا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں ” انما انا لکم بمنزلۃ الوالد الخ۔ ” اور ابی بن کعب وغیرہ کی قرأت میں آیت ”النبی اولی بالمومنین الخ کے ساتھ وھو اب لھم ”کا جملہ اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ باپ بیٹے کے تعلق میں غور کرو تو اس کا حاصل یہ ہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے ، لیکن نبی اور امتی کا تعلق کیا اس سے کم ہے ؟ یقیناً امتی کا ایمان و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا ایک پر تو اور ظل ہوتا ہے اور شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کر سکتا۔ اسی لئے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی کا چلتا ہے۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں اور اگر نبی حکم دے دے تو فرض ہو جائے۔ ” ان ہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا کہ تم میں کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور سب آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

وَأَزْوَاجُہٗٓ أُمَّہَاتُہُمْ :یعنی دینی مائیں ہیں تعظیم و احترام میں اور بعض احکام میں جو ان کے لئے شریعت سے ثابت ہوں۔ کل احکام میں نہیں۔

وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ كِتَابِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُہَاجِرِيْنَ إِلَّآ أَنْ تَفْعَلُوْٓا إِلٰٓی أَوْلِيَآئِكُمْ مَّعْرُوْفًا :حضرت کے ساتھ جنہوں نے وطن چھوڑا، بھائی بندوں سے ٹوٹے ، آپ نے ان مہاجرین اور انصار مدینہ میں سے دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بنا دیا تھا۔ بعدہٗ مہاجرین کے دوسرے قرابتدار مسلمان ہو گئے تب فرمایا کہ قدرتی رشتہ ناطہ اس بھائی چارہ سے مقدم ہے میراث وغیرہ رشتہ ناطے کے موافق تقسیم ہو گی۔ ہاں سلوک احسان ان رفیقوں سے بھی کئے جاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (یاد کرو) جب ہم نے لیا نبیوں سے ان کا عہد اور تم سے (بھی لیا) اور نوح سے اور ابراہیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰٰ سے ، اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔ (۷)

تشریح: پیچھے جو حقیقت بیان فرمائی تھی کہ نبی ہر مؤمن کے لئے اپنی جان سے بھی زیادہ قربت کا مقام رکھتے ہیں، اس کی وجہ اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ ان کی ذمہ داری بڑی سخت ہے ،کیونکہ ان سے بڑا سخت عہد لیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کو ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا کر ان کی ہدایت کا سبب بنیں گے۔

(توضیح القرآن)

 

تاکہ وہ (ان) سچوں سے ان کی سچائی (کے بارے میں) سوال کرے ، اور اس نے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔ (۸)

تشریح: یہ عہد اس واسطے لیا گیا تھا   کہ لوگوں تک اللہ تعالی کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچ جائے ، اور ان پر حجت تمام ہو جائے ، اور پھر اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے پوچھ گچھ کرے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی اطاعت میں کس قدر سچائی سے کام لیا، اگر انبیاء کرام اپنے عہد کے مطابق اللہ تعالی کا پیغام ان تک ٹھیک ٹھیک نہ پہنچاتے تو ان پر حجت قائم نہ ہوتی، اور نہ اللہ تعالی ان سے باز پرس فرماتا، کیونکہ حجت تمام کئے بغیر کسی سے باز پرس کرنا اس کے انصاف کے خلاف ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت (اس کا احسان) یاد کرو، جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے ، تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی، اور (ایسے ) لشکر جنہیں تم نے نہ دیکھا، اور اللہ اسے دیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۹)

تشریح:غزوۂ  خندق کے اسباب:ہجرت کے چوتھے پانچویں سال یہود بنی نضیر جو مدینہ سے نکالے گئے تھے (اس کا ذکر سورہ ”حشر” میں آئے گا) ہر قوم میں پھرے۔ اور ابھار اکسا کر قریش مکہ، بنی فزارہ اور غطفان وغیرہ قبائل عرب کی متحدہ طاقت کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہو گئے۔ تقریباً بارہ ہزار کا لشکر جرار پورے سازو سامان سے آراستہ اور طاقت کے نشہ میں چور تھا، یہود ”بنی قریظہ” جن کا ایک مضبوط قلعہ مدینہ کی شرقی جانب تھا پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ نضیری یہود کی ترغیب و ترہیب سے آخرکار وہ بھی معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر حملہ آوروں کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے۔ مسلمانوں کی جمعیت کل تین ہزار تھی۔ جن میں ایک بڑی تعداد ان دغا باز منافقوں کی تھی جو سختی کا وقت آنے پر جھوٹے حیلے بہانے کر کے میدان جنگ سے کھسکنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ آخر حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے شہر کے گرد جدھر سے حملہ کا اندیشہ تھا خندق کھودی گئی۔ سخت جاڑے کا موسم تھا غلہ کی گرانی تھی بھوک کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور خود سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے۔ مگر عشق الٰہی کے نشہ میں سرشار سپاہی اور ان کے سالار اعظم اس سنگلاخ زمین کی کھدائی میں حیرت انگیز قوت اور ہمت مردانہ کے ساتھ مشغول تھے۔ مجاہدین پتھریلی زمین پر کدال مارتے ، اور کہتے : ”نحن الذین با یعوا محمدا علی الجھاد ما بقینا ابدا۔ ” ادھر سرکار محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جواب ملت:”اللھم لا عیش الاعیش الاخیرۃ فاغفر للانصار والمھاجرۃ”۔

خندق تیار ہو گئی تو اسلامی لشکر نے دشمن کے مقابل مورچے جما دیے۔ تقریباً بیس پچیس روز تک دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی رہیں۔ درمیان میں خندق حائل تھی۔ باوجود کثرت تعداد کے کفار سے بن نہ پڑا کہ شہر پر عام حملہ کر دیتے۔ البتہ دور سے تیر اندازی ہوتی رہی اور گاہ بگاہ فریقین کے خاص خاص افراد میدان مبارزت میں بھی دو دو ہاتھ دکھانے لگتے تھے۔ مشرکین اور یہود بنی قریظہ کے درمیان مسلمانوں کی جمعیت محصورین کی حیثیت رکھتی تھی، تاہم انہوں نے سب عورتوں بچوں کو شہر کی مضبوط و محفوظ حویلیوں میں پہنچا کر خود بڑی پا مردی اور استقامت کے ساتھ شہر کی حفاظت و مدافعت کا فرض انجام دیا۔ آخرکار نعیم ابن مسعود الاشجعی کی ایک عاقلانہ اور لطیف تدبیر سے مشرکین اور یہود بنی قریظہ میں پھوٹ پڑ گئی، ادھر کفار کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کا غیر مرئی لشکر مرعوب کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات سخت خوفناک جھکڑ ہوا کا چلا دیا۔ پروا ہوا سے ریت اور سنگریزے اڑ کر کفار کے منہ پر لگتے تھے۔ ان کے چولھے بجھ گئے ، دیگچے زمین پر جا پڑے ، کھانے پکانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ ہوا کے زور سے خیمے اکھڑ گئے گھوڑے چھوٹ کر بھاگ گئے لشکر پریشان ہو گیا، سردی اور اندھیری ناقابل برداشت بن گئی۔ آخر ابوسفیان نے جن کے ہاتھ میں تمام لشکروں کی اعلیٰ کمان تھی طبل رحیل بجا دیا۔ ناچار سب اٹھ کر بے نیل و مرام واپس چل دیے۔ ”وکفی اللہ المومنین القتال و کان اللہ قویاعزیزا۔ ” یہ جنگ ”احزاب ” کہلاتی ہے اور اسے ”جنگ خندق” بھی کہتے ہیں۔ سخت جاڑے کے موسم اور فاقہ کشی کی حالت میں خندق کھودنا اور اتنے دشمنوں کے بیچ میں گھر کر لڑائی لڑنا یہ وہ حالات تھے جن میں منافق دل کی باتیں بولنے لگے اور مومن ثابت قدم رہے۔ اسی جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب آئندہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھ کر نہ آسکیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جب وہ تم پر چڑھ آئے تمہارے اوپر (کی طرف) سے اور تمہارے نیچے (کی طرف) سے ، اور جب آنکھیں چندھیا گئیں، اور دل گلوں میں (کلیجہ منہ کو) آنے لگے ، اور تم اللہ کے بارے میں (طرح طرح کے ) گمان کر رہے تھے۔ (۱۰)

تشریح: اوپر سے مراد تو وہ متحدہ محاذ کا لشکر ہے جو خندق کے پار محاصرہ کئے ہوئے تھے ، اور نیچے سے مراد بنو قریظہ ہیں جنہوں نے اندر سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔

وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا:سخت آزمائش کی اس گھڑی میں غیر اختیاری طور پر مختلف وسوسے دل میں آیا کرتے ہیں، یہ انہی وسوسوں کا بیان ہے جن سے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

(توضیح القرآن)

 

یہاں (اس موقع پر) مؤمن آزمائے گئے اور وہ شدید ہلائے (جھنجوڑے ) گئے۔ (۱۱)

اور جب کہنے لگے منافق اور وہ جن کے دلوں میں روگ ہے ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا وہ صرف دھوکہ تھا۔ (۱۲)

تشریح: مستند روایات میں ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جس جگہ خندق کھود رہے تھے وہاں ایک سخت چٹان بیچ میں آ گئی جو کسی طرح ٹوٹ نہیں رہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ بہ نفس نفیس وہاں تشریف لے گئے ، اور اپنے دست مبارک میں کدال لے کر یہ آیت پڑھی: وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا: اور کدال سے چٹان پر ضرب لگائی تو ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی اور اس میں سے ایک روشنی نمودار ہوئی جس میں آپ کو یمن اور کسری کے محلات دکھائے گئے ، پھر دوسری ضرب لگاتے وقت آپ نے اسی آیت کو پورا پڑھا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا: اس پر چٹان کا ایک حصہ ٹوٹا اور دوبارہ روشنی ظاہر ہوئی جس میں آپ نے روم کے محلات دیکھے ، پھر تیسری ضرب پر چٹان پوری ٹوٹ گئی، اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ مجھے یمن، ایران اور روم کے محلات دکھا کر یہ بشارت دی گئی ہے کہ یہ سارے ملک میری امت کے ہاتھوں فتح ہوں گے ، منافقین نے یہ سنا تو کہا کہ حالت تو یہ ہے کہ خود اپنے شہر کا بچاؤ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے ، اور خواب یہ دیکھے جا رہے ہیں کہ ایران اور روم ہمارے ہاتھوں فتح ہوں گے ، مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں منافقین کی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب ایک گروہ نے کہا ان میں سے ، اے مدینے والو!تمہارے لئے کوئی جگہ (ٹھکانا) نہیں، لہذا تم لوٹ چلو، اور ان میں سے ایک گروہ اجازت مانگتا تھا نبی سے ، وہ کہتے تھے کہ ہمارے گھر بے شک غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں، وہ تو صرف فرار چاہتے تھے۔ (۱۳)

تشریح:یہ منافقین تھے جو اپنے گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا بہانہ کر کے محاذ سے بھاگنا چاہتے تھے۔ (توضیح القرآن)

 

اور ان پر مدینہ کے اطراف سے داخل ہو جائیں (آگھسیں) پھر ان سے فساد چاہا جائے (کہا جائے ) تو وہ اسے ضرور دیں گے (منظور کر لیں گے ) اور گھروں میں صرف تھوڑی سی دیر لگائیں گے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی یہ منافق لوگ اس وقت تو یہ بہانہ بنا رہے ہیں کہ ہمارے گھروں کی دیواریں نیچی ہیں، اور وہ غیر محفوظ ہیں، لیکن اگر دشمن مدینہ منورہ میں چاروں طرف سے داخل ہو جائے اور ان سے فرمائش کرے کہ تم بھی مسلمانوں کے خلاف ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہو جاؤ تو دشمن کا پلہ بھاری دیکھ کر یہ ان کے ساتھ جا ملیں گے اور اس وقت انہیں اپنے گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا خیال نہیں آئے گا۔

(توضیح القرآن)

 

حالانکہ وہ اس سے پہلے اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے ، اور اللہ کا (سے کیا ہوا) وعدہ پوچھا جانے والا ہے۔ (۱۵)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”جنگ احد کے بعد انہوں نے اقرار کیا تھا کہ پھر ہم ایسی حرکت نہ کریں گے۔ ” اس کی پوچھ اللہ کی طرف سے ہو گی کہ وہ قول و قرار کہاں گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں فرار تمہیں ہر گز نفع نہ دے گا اگر موت یا قتل سے بھاگے ، اور اس صورت میں تم صرف تھوڑا (چند دن) فائدہ دئیے جاؤ گے۔ (۱۶)

تشریح: یعنی جس کی قسمت میں موت ہے وہ کہیں بھاگ کر جان نہیں بچا سکتا۔ قضائے الہٰی ہر جگہ پہنچ کر رہے گی اور اگر ابھی موت مقدر نہیں تو میدان سے بھاگنا بے سود ہے۔ کیا میدان جنگ میں سب مارے جاتے ہیں اور فرض کرو بھاگنے سے بچاؤ ہی ہو گیا تو کتنے دن؟ آخر موت آنی ہے اب نہیں چند روز کے بعد آئے گی اور نہ معلوم کس سختی اور ذلت سے آئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے ؟اگر وہ تم سے برائی (کرنا) چاہے یا تم پر مہربانی کرنا چاہے ، اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست نہ پائیں گے اور نہ مددگار (پائیں گے )۔ (۱۷)

تشریح: یعنی اللہ کے ارادے کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ نہ کوئی تدبیر اور حیلہ اس کے مقابلہ میں کام دے سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اسی پر توکل کرے اور ہر حالت میں اسی کی مرضی کا طلبگار رہے۔ ورنہ دنیا کی برائی بھلائی یا سختی نرمی تو یقیناً پہنچ کر رہے گی۔ پھر اس کے راستہ میں بزدلی کیوں دکھائے اور وقت پر جان کیوں چرائے جو عاقبت خراب ہو اور دنیا کی تکلیف ہٹ نہ سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ خوب جانتا ہے تم میں سے (دوسروں کو جہاد سے ) روکنے والوں کو، اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والوں کو کہ ہماری طرف آ جاؤ، اور وہ لڑائی میں نہیں آتے مگر بہت کم۔ (۱۸)

تشریح: یہ ایک منافق کی طرف اشارہ ہے جو اپنے گھر میں کھانے پینے میں مشغول تھا اور اس کا مخلص مسلمان بھائی جو جنگ میں جانے کے لئے تیار تھا، اس سے کہہ رہا تھا کہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کیوں جا رہے ہو؟ یہاں میرے پاس آؤ اور اطمینان سے میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو۔ (ابن جریر طبری)۔

(توضیح القرآن)

 

تمہارے متعلق بخیلی کرتے ہوئے ، پھر جب خوف آئے تو تم انہیں دیکھو گے وہ تمہاری طرف (یوں) دیکھنے لگتے ہیں (جیسے ) ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں اس شخص کی طرح جس پر موت کی غشی (طاری) ہو، پھر جب خوف چلا جائے تو تمہیں طعنے دینے لگیں تیز زبانوں سے ، مال پر بخیلی کرتے ہوئے ، یہ لوگ ایمان نہیں لائے ، تو اللہ نے اکارت کر دئیے ان کے عمل، اور اللہ پر یہ آسان ہے۔ (۱۹)

تشریح:  یعنی مسلمانوں کا ساتھ دینے سے دریغ رکھتے ہیں اور ہر قسم کی ہمدردی و بہی خواہی سے بخل ہے۔ ہاں غنیمت کا موقع آئے تو حرص کے مارے چاہیں کہ کسی کو کچھ نہ ملے سارا مال ہم ہی سمیٹ کر لے جائیں۔ اسی احتمال پر لڑائی میں قدرے شرکت بھی کر لیتے ہیں۔

فَإِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ :آڑے وقت رفاقت سے جی چراتے ہیں، ڈر کے مارے جان نکلتی ہے اور فتح کے بعد آ کر باتیں بناتے اور سب سے زیادہ مردانگی جتاتے ہیں اور مال غنیمت پر مارے حرص کے گرے پڑتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق طعن و تشنیع سے زبان درازی کرتے ہیں۔

أُوْلٰٓئِکَ لَمْ يُؤْمِنُوْا فَأَحْبَطَ اللّٰہُ أَعْمَالَہُمْ :جب اللہ و رسول پر ایمان نہیں تو کوئی عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”جہاں حبط اعمال کا ذکر ہے تو فرمایا کہ یہ اللہ پر آسان ہے۔ یعنی بظاہر اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کو دیکھتے ہوئے تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بھاری معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع کر دے۔ لیکن اس لئے بھاری نہیں رہتی کہ خود عمل ہی کے اندر ایسی خرابی چھپی ہوتی ہے جو کسی طرح اس کو درست نہیں ہونے دیتی۔ جیسے بے ایمان کا عمل کہ ایمان شرط اور روح ہے ہر عمل کی، بدون اس کے عمل مردہ ہے پھر قبول کس طرح ہو۔ کافر کتنی ہی محنت کرے سب اکارت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ گمان کرتے ہیں کہ (کافروں کے ) لشکر (ابھی) نہیں گئے ہیں، اور اگر لشکر (دوبارہ ) آئیں تو وہ تمنا کریں کہ کاش وہ دیہات میں باہر نکلے ہوتے (صحرا نشین ہوتے ) تمہاری خبریں پوچھتے رہتے ، اور اگر تمہارے درمیان ہوں تو جنگ نہ کریں مگر بہت کم۔ (۲۰)

تشریح:یعنی کفار کی فوجیں ناکامیاب واپس جا چکیں ،لیکن ان ڈرپوک منافقوں کو ان کے چلے جانے کا یقین نہیں آتا۔ اور فرض کیجئے کفار کی فوجیں پھر لوٹ کر حملہ کر دیں تو ان کی تمنا یہ ہو گی کہ اب وہ شہر میں بھی نہ ٹھہریں جب تک لڑائی رہے کسی گاؤں میں رہنے لگیں اور وہیں دور بیٹھے آنے جانے والوں سے پوچھ لیا کریں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ لڑائی کا نقشہ کیسا ہے۔ باتوں میں تمہاری خیرخواہی جتائیں اور لڑائی میں زیادہ کام نہ دیں۔ محض مجبوری کو برائے نام شرکت کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

البتہ تمہارے لئے ہے اللہ کے رسول میں ایک اچھا نمونہ، (ہر) اس شخص کے لئے جو اللہ اور روزِ آخرت پر امید رکھتا ہے ، اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی پیغمبر کو دیکھو، ان سختیوں میں کیا استقلال رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب سے زیادہ اندیشہ اور فکر ان ہی پر ہے۔ مگر مجال ہے پائے استقامت ذرا جنبش کھا جائے۔ جو لوگ اللہ سے ملنے اور آخرت کا ثواب حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے۔ چاہیے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون اور نشست و برخاست میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ہمت و استقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب مؤمنوں نے لشکر کو دیکھا تو وہ کہنے لگے یہ ہے جس کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ دیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا، اور (اس صورتحال نے ) ان میں نہ زیادہ کیا مگر ایمان اور (جذبۂ) فرماں برداری۔ (۲۲)

تشریح: یعنی پکے مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفر کی فوجیں اکٹھی ہو کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑی ہیں تو بجائے مذبذب یا پریشان ہونے کے ان کی اطاعت شعاری کا جذبہ اور ان کا یقین اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر اور زیادہ بڑھ گیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کی خبر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے دے رکھی تھی اور جس کے متعلق ان کا وعدہ ہو چکا تھا جیسا کہ سورۃ بقرہ میں فرمایا۔ ”ام حسبتم ان تد خلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباساء والضراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین امنوا معہ متی نصراللہ الا ان نصر اللہ قریب” (بقرہ۔ رکوع٢٦) اور سورۃ ص میں جو مکیہ ہے فرمایا تھا۔ جند ما ھنالک مھزوم من الاحزاب (ص۔ رکوع١)۔

(تفسیرعثمانی)

 

مؤمنوں میں کچھ ایسے آدمی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا وہ سچ کر دکھایا، سو ان میں سے (کچھ ہیں) جو اپنی نذر پوری کر چکے ، اور ان میں (کچھ ہیں) جو انتظار میں ہیں، اور انہوں نے کچھ تبدیلی نہیں کی۔ (۲۳)

تشریح: یعنی منافقین نے جو عہد کیا تھا پچھلے رکوع میں گزر چکا۔ ”ولقد کانوا عاھدوا اللّٰہ من قبل لایولون الادبار” اسے توڑ کر بے حیائی کے ساتھ میدان جنگ سے ہٹ گئے۔ ان کے برعکس کتنے پکے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنا عہد و پیمان سچا کر دکھلایا۔ بڑی بڑی سختیوں کے وقت دین کی حمایت اور پیغمبر کی رفاقت سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زبان دے چکے تھے ، پہاڑ کی طرح اس پر جمے رہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو اپنا ذمہ پورا کر چکے یعنی جہاد ہی میں جان دے دی جیسے شہدائے بدر و احد جن میں سے حضرت انس بن النضر رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت مشہور ہے اور بہت سے مسلمان وہ ہیں جو نہایت اشتیاق کے ساتھ موت فی سبیل اللہ کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب کوئی معرکہ پیش آئے جس میں ہمیں بھی شہادت کا مرتبہ نصیب ہو۔ بہرحال دونوں قسم کے مسلمانوں نے (جو اللہ کی راہ میں جان دے چکے ، اور جو مشتاق شہادت ہیں) اپنے عہد و پیمان کی پوری حفاظت کی اور اپنی بات سے ذرہ بھر نہیں بدلے۔

فائدہ: حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ کو فرمایا ھٰذا ممن قضٰی نحبہ (یہ ان میں سے ہے جو اپنا ذمہ پورا کر چکے ) گویا ان کو اسی زندگی میں شہید قرار دے دیا۔ یہ وہ بزرگ ہیں جو جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھ پر تیر روکتے رہے حتیٰ کہ ہاتھ شل ہو کر رہ گیا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

( یہ اس لئے ہوا) کہ اللہ جزا دے سچے لوگوں کو ان کی سچائی کی، اور اگر وہ چاہے تو منافقوں کو عذاب دے ، یا وہ ان کی توبہ قبول کر لے ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی جو عہد کے پکے اور قول و قرار کے سچے رہے ان کو سچ پر جمے رہنے کا بدلہ ملے اور بدعہد دغا باز منافقوں کو چاہے سزا دے اور چاہے توبہ کی توفیق دے کر معاف فرما دے۔ اس کی مہربانی سے کچھ بعید نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ نے کافروں کو لوٹا دیا ان کے (اپنے ) غصہ میں بھرے ہوئے ، انہوں نے کوئی بھلائی نہ پائی، اور جنگ (کے معاملے میں) مؤمنوں کے لئے اللہ کافی ہے ، اور اللہ ہے توانا، اور غالب۔ (۲۵)

تشریح: یعنی کفار کا لشکر ذلت و ناکامی سے پیچ و تاب کھاتا اور غصہ سے دانت پیستا ہوا میدان چھوڑ کر واپس ہوا، نہ فتح ملی نہ کچھ سامان ہاتھ آیا۔ ہاں عمرو بن عبدود جیسا ان کا نامور سوار جسے لوگ ایک ہزار سواروں کے برابر گنتے تھے اس لڑائی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے کھیت رہا۔ مشرکین نے درخواست کی کہ دس ہزار لے کر اس کی لاش ہمیں دے دی جائے۔ آپ نے فرمایا وہ تم لے جاؤ، ہم مردوں کا ثمن کھانے والے نہیں۔

مسلمانوں کو عام لڑائی لڑنے کی نوبت نہ آنے دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ہوا کا طوفان اور فرشتوں کا لشکر بھیج کر وہ اثر پیدا کر دیا کہ کفار از خود سراسیمہ اور پریشان حال ہو کر بھاگ گئے۔ اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا، اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، ایک گروہ کو تم قتل کرتے ہو ا ور ایک گروہ کو قید کرتے ہو۔ (۲۶)

تشریح:یہ یہود”بنی قریظہ” ہیں۔ مدینہ کے شرقی جانب ان کا مضبوط قلعہ تھا اور پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ جنگ احزاب کے موقع پر حیی ابن اخطب کے اغواء سے تمام معاہدات بالائے طاق رکھ کر مشرکین کی مدد پر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے بعض نے مسلمان عورتوں پر بزدلانہ حملہ کرنا چاہا جس کا جواب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بڑی بہادری سے دیا۔ جب کفار قریش وغیرہ عاجز ہو کر چلے گئے تو ”بنو قریظہ” اپنے مضبوط قلعوں میں جا گھسے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احزاب سے فارغ ہو کر غسل وغیرہ میں مشغول تھے کہ حضرت جبرئیل تشریف لائے۔ چہرہ پر غبار کا اثر تھا فرمایا۔ یا رسول اللہ! آپ نے ہتھیار اتار دیے حالانکہ فرشتے ہنوز ہتھیار بند ہیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ ”بنو قریظہ” پر حملہ کیا جائے۔ فوراً منادی ہو گئی کہ ”بنو قریظہ” کے بد عہد یہودیوں پر چڑھائی ہے۔ نہایت سرعت کے ساتھ اسلامی فوج نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ چوبیس پچیس دن محاصرہ جاری رہا۔ آخر محصورین تاب نہ لا سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیام بھیجنے شروع کیے۔ اخیر میں ان کی طرف سے بات اس پر ٹھہری کہ ہم قلعوں سے باہر آتے ہیں اور ”اوس” کے سردار حضرت سعد بن معاذ کو حکم ٹھہراتے ہیں (کیونکہ وہ ان کے حلیف تھے ) جو فیصلہ ہمارے حق میں حضرت سعد کر دیں گے ہم کو منظور ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قبول فرما لیا۔ قصہ مختصر سعد تشریف لائے اور بحیثیت ایک مسلم حکم کے فیصلہ کیا کہ بنی قریظہ کے سب جوان قتل کر دیے جائیں اور عورتیں لڑکے سب قید غلامی میں لائے جائیں اور ان کے اموال و جائیداد کے مالک مہاجرین ہوں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور ان کی بد عہدی کی سزا یہ ہی تھی۔ اور یہ فیصلہ ٹھیک ان کی مسلمہ آسمانی کتاب ”تورات” کے موافق تھا۔ چنانچہ تورات کتاب استشناء اصحاح ٢٠ آیت ١٠ میں ہے ”جب کسی شہر پر حملہ کرنے کے لئے تو جائے تو پہلے صلح کا پیغام دے اگر وہ صلح تسلیم کر لیں اور تیرے لئے دروازے کھول دیں تو جتنے لوگ وہاں موجود ہوں سب تیرے غلام ہو جائیں گے۔ لیکن اگر صلح نہ کریں تو تو ان کا محاصرہ کر اور جب تیرا خدا تجھ کو ان پر قبضہ دلا دے تو جس قدر مرد ہوں سب کو قتل کر دے۔ باقی بچے ، عورتیں، جانور اور جو چیزیں شہر میں موجود ہوں سب تیرے لئے مال غنیمت ہوں گے۔ ” اس فیصلہ کے مطابق کئی سو یہودی جوان قتل کئے گئے اور کئی سو عورتیں لڑکے قید ہوئے اور ان کے املاک و اموال پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہیں وارث بنا دیا ان کی زمین کا، اور ان کے گھروں کا، اور ان کے مالوں کا، اور اس زمین کا جہاں تم نے قدم نہیں رکھا تھا، اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۲۷)

تشریح: یہ زمین جو مدینہ کے قریب ہاتھ لگی حضرت نے مہاجرین پر تقسیم کر دی۔ ان کے گزران کا ٹھکانا ہو گیا اور انصار پر سے ان کا خرچ ہلکا ہوا۔ اور دوسری زمین سے مراد خیبر کی زمین ہے جو اس کے دو برس بعد ہاتھ لگی اس سے حضرت کے سب اصحاب آسودہ ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ قیامت تک جو زمینیں فتح کی جائیں سب اس میں شامل ہیں، واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی! اپنی بیبیوں سے فرما دیں اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں اور رخصت کر دوں اچھی طرح رخصت۔ (۲۸)

اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول، اور آخرت کا گھر چاہتی ہو، تو بیشک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لئے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ (۲۹)

تشریح: حضرت کی ازواج نے دیکھا کہ لوگ آسودہ ہو گئے چاہا کہ ہم بھی آسودہ ہوں۔ ان میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی کہ ہم کو مزید نفقہ اور سامان دیا جائے جس سے عیش و ترفہ کی زندگی بسر کر سکیں، حضرت کو یہ باتیں شاق گزریں۔ قسم کھا لی کہ ایک مہینہ گھر میں نہ جائیں گے۔ مسجد کے قریب ایک بالا خانہ میں علیحدہ فروکش ہو گئے۔ صحابہ مضطرب تھے۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم اس فکر میں ہوئے کہ کسی طرح یہ گتھی سلجھ جائے۔ انہیں زیادہ فکر اپنی اپنی صاحبزادیوں (عائشہ اور حفصہ) کی تھی کہ پیغمبر کو ملول کر کے اپنی عاقبت نہ خراب کر بیٹھیں۔ دونوں نے دونوں کو دھمکایا اور سمجھایا۔ پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کچھ انس اور بے تکلفی کی باتیں کیں۔ آپ منشرح ہوئے ایک ماہ بعد یہ آیت تخییر اتری۔ یعنی اپنی ازواج سے صاف صاف کہہ دو کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ اگر دنیا کی عیش و بہار اور امیرانہ ٹھاٹھ چاہتی ہیں تو کہہ دو کہ میرے ساتھ تمہارا نباہ نہیں ہو سکتا۔ آؤ کہ میں کچھ دے دلا کر (یعنی کپڑوں کا جوڑا جو مطلقہ کو دیا جاتا تھا) تم کو خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں (یعنی شرعی طریقہ سے طلاق دے دوں) اور اگر اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی اور آخرت کے اعلیٰ مراتب کی طلب ہے تو پیغمبر کے پاس رہنے میں اس کی کمی نہیں۔ جو آپ کی خدمت میں صلاحیت سے رہے گی اللہ کے یہاں اس کے لئے بہت بڑا اجر تیار ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ جنت کے سب سے اعلیٰ مقام میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ رہیں۔ نزول آیت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اول عائشہ کو حکم سنایا۔ انہوں نے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اختیار کی پھر سب ازواج نے ایسا ہی کیا۔ دنیا کے عیش و عشرت کا تصور دلوں سے نکال ڈالا۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سب نیک ہی رہیں۔ الطیبات للطیبین۔ مگر حق تعالیٰ قرآن میں صاف خوشخبری کسی کو نہیں دیتا تاکہ نڈر نہ ہو جائے۔ خاتمہ کا ڈر لگا رہے یہی بہتر ہے۔ آگے ان عورتوں کو خطاب ہے جو نبی کی معیت اختیار کر لیں کہ ان کا درجہ اس نسبت کی وجہ سے بہت بلند ہے چاہیے کہ ان کی اخلاقی اور روحانی زندگی اس معیار پر ہو جو اس مقام رفیع کے مناسب ہے کیونکہ علاوہ ان کی ذاتی بزرگی کے وہ امہات المومنین ہیں۔ مائیں اپنی اولاد کی بڑی حد تک ذمہ دار ہوتی ہیں۔ لازم ہے کہ ان کے اعمال و اخلاق امت کے لئے اسوۂ حسنہ بنیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی کی بیبیو! جو کوئی تم میں سے کھلی بیہودگی کی مرتکب ہو تو اس کے لئے عذاب دوچند بڑھا دیا جائے گا، اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ (۳۰)

اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور نیک عمل کرے ہم اسے اس کا دوہرا اجر دیں گے ، اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق تیار کیا ہے۔ (۳۱)

تشریح: یعنی ازواج مطہرات کا مقام عام عورتوں سے بلند ہے ، اس لئے اگر وہ تقوی اختیار کریں گی تو انہیں ثواب بھی دوگنا ملے گا، اور کوئی گناہ کریں گی تو اس کا عذاب بھی دوگنا ہو گا، اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو پیغمبر کے ساتھ جتنا قرب ہو اسے اپنے عمل میں اتنا ہی محتاط ہونا چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

اے نبی کی بیبیو! عورتوں میں سے تم کسی ایک کی طرح (بھی) نہ ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو گفتگو میں ملائمت نہ کرو کہ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ لالچ (خیال فاسد) کرے اور بات کرو معقول بات۔ (۳۲)

تشریح: یعنی اگر تقویٰ اور خدا کا ڈر دل میں رکھتی ہو تو غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے (جس کی ضرورت خصوصاً امہات المومنین کو پیش آتی رہتی ہے ) نرم اور دلکش لہجہ میں کلام نہ کرو۔ بلاشبہ عورت کی آواز میں قدرت نے طبعی طور پر ایک نرمی اور نزاکت رکھی ہے۔ لیکن پاکباز عورتوں کی شان یہ ہونی چاہیے کہ حتی المقدور غیر مردوں سے بات کرنے میں بہ تکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جس میں قدرے خشونت اور روکھا پن ہو اور کسی بد باطن کے قلبی میلان کو اپنی طرف جذب نہ کرے۔ امہات المومنین کو اس بارہ میں اپنے مقام بلند کے لحاظ سے اور بھی زیادہ احتیاط لازم ہے تاکہ کوئی بیمار اور روگی دل کا آدمی بالکل اپنی عاقبت تباہ نہ کر بیٹھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”یہ ایک ادب سکھایا کہ کسی مرد سے بات کہو تو اس طرح کہو جیسے ماں کہے بیٹے کو۔ اور بات بھی بھلی اور معقول ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہئیے ، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہئیے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گانا کتنا برا ہو گا۔

(توضیح القرآن)

 

اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو، اور اگلے زمانۂ جاہلیت کے بناؤ سنگھار کا اظہار کرتی نہ پھرو، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ دیتی رہو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اس کے سوا نہیں کہ اللہ چاہتا ہے اے اہل بیت! کہ تم سے آلودگی دور فرما دے ، اور تمہیں خوب (ہر طرح سے ) پاک وصاف رکھے۔ (۳۳)

تشریح: اس آیت نے یہ واضح فرما دیا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے لئے گھر سے نکلنا جائز نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نے واضح فرما دیا ہے کہ حاجت کے وقت عورت پردے کے ساتھ باہر جا سکتی ہے ، لیکن اس فقرے نے یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ عورت کا اصل فریضہ گھر اور خاندان کی تعمیر ہے ا ورایسی سرگرمیاں جو اس مقصد میں خلل انداز ہوں، اس کے اصل مقصد زندگی کے خلاف ہیں، اور ان سے معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْأُوْلٰی :پہلی جاہلیت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا زمانہ ہے جس میں عورتیں بے حیائی کے ساتھ بناؤ سنگھار غیر مردوں کو دکھاتی پھرتی تھیں، اور پہلی جاہلیت کے لفظ سے اس طر ف بھی اشارہ ہے کہ ایک جاہلیت آخر میں بھی آنے والی ہے ، اور کم از کم اس بے حیائی کے معاملے میں یہ جاہلیت ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح آ چکی کہ اس نے پہلی جاہلیت کو مات کر دیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا:چونکہ آگے پیچھے سارا ذکر ازواج مطہرات کا چل رہا ہے ، اس لئے وہ تو اہل بیت میں براہ راست داخل ہیں، لیکن الفاظ کے عموم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں اور ان کی اولاد بھی داخل ہیں، چنانچہ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو اپنی چادر میں ڈھانپ لیا، اور یہ آیت تلاوت کی، اور بعض رایات میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ:یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں (ابن جریر) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مکمل پاکیزگی سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ انبیائے کرام کی طرح گناہوں سے معصوم ہو جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اتنے متقی بن جائیں کہ گناہوں کی گندگی ان سے دور ہو جائے۔

(توضیح القرآن)

 

اور تم یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیتیں اور حکمت (دانائی کی باتیں) پڑھی جاتی ہیں، بیشک اللہ راز دان، خبر دار ہے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی قرآن و سنت میں جو اللہ کے احکام اور دانائی کی باتیں ہیں، انہیں سیکھو، یاد کرو، دوسرں کو سکھاؤ اور اللہ کے احسان عظیم کا شکر ادا کرو کہ تم کو ایسے گھر میں رکھا جو حکمت کا خزانہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔

اس کی آیتوں میں بڑے باریک بھید اور پتے کی باتیں ہیں اور وہ ہی جانتا ہے کہ کون اس امانت کے اٹھانے کا اہل ہے اس نے اپنے لطف و مہربانی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے لیے اور تم کو ان کی زوجیت کے لیے چن لیا۔ کیونکہ وہ ہر ایک کے احوال و استعداد کی خبر رکھتا ہے کوئی کام یوں ہی بے جواز نہیں کر سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مؤمن مرو اور مؤمن عورتیں، اور فرماں برادر مرد اور فرماں بردار عورتیں، اور راست گو مرد اور راست گو عورتیں، اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، اور صدقہ (و خیرات) کرنے والے مرد اور صدقہ (و خیرات) کرنے والی عورتیں، اللہ نے سب کے لئے تیار کی ہے بخشش اور اجر عظیم۔ (۳۵)

تشریح:بعض ازواج مطہرات نے کہا تھا کہ قرآن میں اکثر جگہ مردوں کا ذکر ہے عورتوں کا کہیں نہیں اور بعض نیک بخت عورتوں کو خیال ہوا کہ آیات سابقہ میں ازواج نبی کا ذکر تو آیا عام عورتوں کا کچھ حال بیان نہ ہوا، اس پر یہ آیت اتری۔ تاکہ تسلی ہو جائے کہ عورت ہو یا مرد کسی کی محنت اور کمائی اللہ کے یہاں ضائع نہیں جاتی۔ اور جس طرح مردوں کو روحانی اور اخلاقی ترقی کرنے کے ذرائع حاصل ہیں عورتوں کے لیے بھی یہ میدان کشادہ ہے۔ یہ طبقہ اناث کی دلجمعی کے لیے تصریح فرما دی۔ ورنہ جو احکام مردوں کے لیے قران میں آئے وہ ہی عموماً عورتوں پر عائد ہوتے ہیں۔ جداگانہ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ ہاں خصوصی احکام الگ بتلا دیے گئے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ( گنجائش) نہیں ہے کسی مؤمن مرد اور نہ کسی مؤمن عورت کے لئے ، کہ جب فیصلہ کر دیں اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا، کہ ان کے لئے ان کے کام میں کوئی اختیار باقی ہو، اور جو نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی تو البتہ وہ صریح گمراہی میں جا پڑا۔ (۳۶)

تشریح: حضرت زینب رضی اللہ عنہا امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن اور قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کر دیں۔ یہ زید اصل سے شریف عرب تھے۔ لیکن لڑکپن میں کوئی ظالم ان کو پکڑ لایا اور غلام بنا کر مکہ کے بازار میں بیچ گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خرید لیا اور کچھ دنوں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا۔ جب یہ ہشیار ہوئے تو ایک تجارتی سفر کی تقریب سے اپنے وطن کے قریب سے گزرے ، وہاں ان کے اعزہ کو پتہ لگ گیا۔ آخر ان کے والد، چچا اور بھائی حضرت کی خدمت میں پہنچے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاوضہ لے کر ہمارے حوالہ کر دیں، فرمایا کہ معاوضہ کی ضرورت نہیں، اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے خوشی سے لے جاؤ۔ انہوں نے حضرت زید سے دریافت کیا۔ حضرت زید نے کہا کہ میں حضرت کے پاس سے جانا نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں اور ماں باپ سے زیادہ چاہتے ہیں۔ حضرت نے ان کو آزاد کر دیا اور متبنیٰ بنا لیا۔ چنانچہ لوگ اس زمانہ کے رواج کے مطابق ”زید بن محمد” کہہ کر پکارنے لگے تاآنکہ آیت ”ادعوہم لا بائہم ہواقسط عنداللہ” نازل ہوئی۔ اس وقت ‘زید بن محمد” کی جگہ پھر ”زید بن حارثہ” رہ گئے چونکہ قرآن کے حکم کے موافق ان کے نام سے اس نسبت عظیمہ کا شرف جدا کر لیا گیا تھا شاید اس کی تلافی کے لیے تمام صحابہ کے مجمع میں سے صرف ان کو یہ خاص شرف بخشا گیا کہ ان کا نام قرآن میں تصریحا ً وارد ہوا جیسا کہ آگے آتا ہے۔ ”فلما قضی زید منہا وطرا۔ ” بہرحال حضرت زینب کی خاندانی حیثیت چونکہ بہت بلند تھی اور زید بن حارثہ بظاہر داغ غلامی اٹھا کر آزاد ہوئے تھے اس لیے ان کی نیز ان کے بھائی کی مرضی زید سے نکاح کرنے کی نہ تھی لیکن اللہ و رسول کو منظور تھا کہ اس طرح کی موہوم تفریقات و امتیازات نکاح کے راستہ میں حائل نہ ہوا کریں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب اور ان کے بھائی پر زور دیا کہ وہ اس نکاح کو قبول کر لیں۔ اسی وقت یہ آیت اتری اور ان لوگوں نے اپنی مرضی کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر قربان کر دیا اور زینب کا نکاح زید بن حارثہ سے ہو گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یاد کرو جب آپ اس شخص (زید بن حارثہ) کو فرماتے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور تم نے (بھی) اس پر انعام کیا کہ اپنی بیوی (زینب) کو اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈرو، اور تم چھپاتے تھے اپنے دل میں وہ (بات) جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں (کے طعن) ڈرتے تھے ، اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو پھر جب زید نے اس (زینب) سے اپنی حاجت پوری کر لی (طلاق دے دی) تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مؤمنوں پر کوئی تنگی نہ رہے اپنے لے پالکوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے میں) جب وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر لیں ( طلاق دے دیں) اور اللہ کا حکم (پورا ہو کر) رہنے والا ہے۔ (۳۷)

تشریح: حضرت زینب زید کے نکاح میں آئیں تو وہ ان کی آنکھوں میں حقیر لگتا۔ مزاج کی موافقت نہ ہوئی۔ جب آپس میں لڑائی ہوتی تو زید آ کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کرتے اور کہتے میں اسے چھوڑتا ہوں حضرت منع فرماتے کہ میری خاطر اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس نے تجھ کو اپنی منشاء کے خلاف قبول کیا۔ اب چھوڑ دینے کو وہ اور اس کے عزیز دوسری ذلت سمجھیں گے۔ اس لیے خدا سے ڈرو اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگاڑ مت کر۔ اور جہاں تک ہو سکے نباہ کی کوشش کرتا رہ۔ جب معاملہ کسی طرح نہ سلجھا، اور بار بار جھگڑے قضیے پیش آتے رہے تو ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آیا ہو کہ اگر ناچار زید چھوڑ دے گا تو زینب کی دلجوئی بغیر اس کے ممکن نہیں کہ میں خود اس سے نکاح کروں لیکن جاہلوں اور منافق کی بد گوئی سے اندیشہ کیا کہ کہیں گے اپنے بیٹے کی جورو گھر میں رکھ لی۔ حالانکہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ کے نزدیک ”لے پالک” کو کسی بات میں حکم بیٹے کا نہیں۔ ادھر اللہ کو یہ منظور تھا کہ اس جاہلانہ خیال کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عملی طور پر ہدم کر دے تاکہ مسلمانوں کو آئندہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا توحش اور استنکاف باقی نہ رہے اس نے پیغمبر علیہ السلام کو مطلع فرمایا کہ میں زینب کو تیرے نکاح میں دینے والا ہوں۔ کیوں دینے والا ہوں؟ اس کو خود قرآن کے الفاظ ”لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائہم” صاف صاف ظاہر کر رہے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دینے کی غرض یہ ہی تھی کہ دلوں سے جاہلیت کے اس خیال باطل کا بالکل قلع قمع کر دیا جائے اور کوئی تنگی اور رکاوٹ آئندہ اس معاملہ میں باقی نہ رہنے پائے۔ اور شاید یہ ہی حکمت ہو گی جو اول زینب کا نکاح زید سے زور ڈال کر کرایا گیا۔ کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ یہ نکاح زیادہ مدت تک باقی نہ رہے گا۔ چند مصالح مہمہ تھیں جن کا حصول اس عقد پر معلق تھا۔ الحاصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ذاتی خیال اور اس آسمانی پیشین گوئی کے اظہار سے عوام کے طعن و تشنیع کا خیال فرما کر شرماتے تھے اور زید کو طلاق کا مشورہ دینے میں بھی حیا کرتے تھے لیکن خدا کی خبر سچی ہونی تھی اور اس کا حکم تکوینی و تشریعی ضرور تھا کہ نافذ ہو کر رہے۔ آخرکار زید نے طلاق دے دی۔ اور عدت گزر جانے پر اللہ نے زینب کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باندھ دیا۔ اس تقریر سے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل میں جو چیز چھپائے ہوئے تھے وہ یہ ہی نکاح کی پیشین گوئی اور اس کا خیال تھا اسی کو بعد میں اللہ نے ظاہر فرما دیا۔ جیسا کہ لفظ ”زوجنا کہا” سے ظاہر ہے اور ڈر اس بات کا تھا کہ بعض لوگ اس بات پر بدگمانی یا بد گوئی کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھیں یا گمراہی میں ترقی نہ کریں چونکہ مصالح مہمہ شرعیہ کے مقابلہ میں اس قسم کی جھجک بھی پیغمبر کی شان رفیع کے لئے مناسب نہ تھی۔ اس لیے بقاعدہ ”حسنات الابرابر سیأت المقربین” اس کو عتاب آمیز رنگ میں بھاری کر کے ظاہر فرمایا گیا۔ جیسا کہ عموماً انبیاء علیہم السلام کی حالات کے ذکر میں واقع ہوا ہے۔ (تنبیہ) ہم نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی خبر پہلے سے دے دی تھی۔ اس کی روایات فتح الباری سورہ احزاب کی تفسیر میں موجود ہیں۔ باقی جو لغو اور دور از کار قصے اس مقام پر حاطب اللیل مفسرین و مورخین نے درج کر دئیے ہیں ان کی نسبت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ ”لاینبغی التشاغل بہا” اور ابن کثیر لکھتے ہیں۔ ”احببنا ان تضرب عنہا صفحًا لعدم صحتہا فلا نور دہا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

نبی پر اس کام میں کوئی حرج (تنگی) نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا، اللہ کا (یہی) دستور (رہا ہے ) ان میں جو پہلے گزرے ہیں، اور اللہ کا حکم (صحیح) اندازہ سے مقرر کیا ہوا ہے۔ (۳۸)

وہ جو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ، اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔ (۳۹)

تشریح: یعنی اللہ کا حکم اٹل ہے جو بات اس کے یہاں طے ہو چکی ضرور ہو کر رہے گی۔ پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرنے میں کیا مضائقہ ہے جو شریعت میں روا ہو گیا۔ انبیاء و رسل کو اللہ کے پیغامات پہنچانے میں اس کے سوا کبھی کسی کا ڈر نہیں رہا۔ (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیغام رسانی میں آج تک کسی چیز کی پروا نہیں کی نہ کسی کے کہنے سننے کے خیال سے کبھی متاثر ہوئے ) پھر اس نکاح کے معاملہ میں رکاوٹ کیوں ہو۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی سو بیویاں تھیں۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کی کثرت ازواج مشہور ہے۔ جو الزام سفہاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے سکتے ہیں انبیائے سابقین کی لائف میں اس سے بڑھ کر نظیریں موجود ہیں۔ لہٰذا اس طرح کی سفیہانہ اور جاہلانہ نکتہ چینیوں پر نظر نہیں کرنا چاہیے۔ آگے بتلایا ہے کہ زید بن حارثہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متبنی کر لیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعی بیٹے نہیں بن گئے تھے کہ ان کی مطلقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح نہ کر سکیں۔ اور ایک زید کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں۔ کیونکہ آپ کی اولاد میں یا لڑکے ہوئے جو بچپن میں گزر گئے۔ اور بعض اس آیت کے نزول کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے۔ یا بیٹیاں تھیں جن میں سے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی ذریت دنیا میں پھیلی۔

(تفسیرعثمانی)

 

محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور (سب) نبیوں پر مہر (آخری نبی) ہیں، اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔ (۴۰)

تشریح: چونکہ حضرت زید بن حارثہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا قرار دیا تھا، اس لئے لوگ ان کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ کر پکارتے تھے ، پچھلی آیتوں میں جب یہ حکم جاری ہوا کہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا قرار نہیں دیا جا سکتا، تو حضرت زید کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہنے کی بھی ممانعت ہو گئی، چنانچہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں (کیونکہ آپ کی زندہ رہنے والی اولاد میں صرف بیٹیاں تھیں) لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہونے کی وجہ سے پوری امت کے روحانی باپ ہیں، اور چونکہ آخری نبی ہیں اور قیامت تک کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں، اس جاہلیت کی رسموں کو اپنے عمل سے ختم کرنے کی ذمہ داری آپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئی۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جن کو ملنی تھی مل چکی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دورہ سب نبیوں کے بعد رکھا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام بھی اخیر زمانہ میں بحیثیت آپ کے ایک امتی کے آئیں گے خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہو گا۔ جیسے آج تمام انبیاء اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں مگر شش جہت میں عمل صرف نبوت محمدیہ کا جاری و ساری ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر آج موسٰی علیہ السلام (زمین پر) زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میرے اتباع کا چارہ نہ تھا۔ بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے۔ جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا۔ اور جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوتا ہے۔ بدین لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے ، آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب (تنبیہ) ختم نبوت کے متعلق قرآن، حدیث، اجماع وغیرہ سے سینکڑوں دلائل جمع کر کے بعض علمائے عصر نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ مطالعہ کے بعد ذرا تردد نہیں رہتا کہ اس عقیدہ کا منکر قطعاً کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔

( تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو! اللہ کو یاد کرو بکثرت۔ (۴۱) اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔ (۴۲)

تشریح: یعنی حق تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان فرمایا کہ ایسے عظیم الشان پیغمبر اور پیغمبروں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا۔ اس پر اس کا شکر ادا کرو۔ اور منعم حقیقی کو کبھی نہ بھولو، اٹھتے ، بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، رات، دن صبح و شام، ہمہ اوقات اس کو یاد رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائے ، اور اللہ مؤمنوں پر مہربان ہے۔ (۴۳)

تشریح: یعنی اللہ کو بکثرت یاد کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ اپنی رحمت تم پر نازل کرتا ہے جو فرشتوں کے توسط سے آتی ہے۔ یہ ہی رحمت و برکت ہے جو تمہارا ہاتھ پکڑ کر جہالت و ضلالت کی اندھیریوں سے علم و تقویٰ کے اجالے میں لاتی ہے۔ اگر اللہ کی خاص مہربانی ایمان والوں پر نہ ہو تو دولت ایمان کہاں سے ملے اور کیونکر محفوظ رہے۔ اسی کی مہربانی سے مومنین رشد و ہدایت اور ایمان و احسان کی راہوں میں ترقی کرتے ہیں۔ یہ تو دنیا میں ان کا حال ہوا، آخرت کا اعزاز و اکرام آگے مذکور ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کی دعا جس دن وہ اس کو ملیں گے سلام ہو گا اور اس نے ان کے لئے بڑا اچھا اجر تیار کیا ہے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی اللہ ان پر سلام بھیجے گا اور فرشتے سلام کرتے ہوئے ان کے پاس آئیں گے۔ اور مومنین کی آپس میں بھی یہ ہی دعا ہو گی جیسا کہ دنیا میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی! بیشک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا، اور خوشخبری دینے والا، اور ڈر سنانے والا۔ (۴۵)

تشریح: یعنی اللہ کی توحید سکھاتے اور اس کا راستہ بتاتے ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں دل سے اور عمل سے اس پر گواہ ہیں اور محشر میں بھی امت کی نسبت گواہی دیں گے کہ خدا کے پیغام کو کس نے کس قدر قبول کیا۔ نافرمانوں کو ڈراتے اور فرمانبرداروں کو خوشخبری سناتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ۔ (۴۶)

تشریح: پہلے جو فرمایا تھا کہ اللہ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال کر اجالے میں لاتی ہے۔ یہاں بتلا دیا کہ وہ اجالا اس روشن چراغ سے پھیلا ہے۔ شاید چراغ کا لفظ اس جگہ اس معنی میں ہو جو سورہ ”نور” میں فرمایا ”وجعل القمر فیہن نورا وجعل الشمس سراجا” (اللہ نے چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا) یعنی آپ آفتاب نبوت و ہدایت ہیں جس کے طلوع ہونے کے بعد کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی سب روشنیاں اسی نور اعظم میں محو و مدغم ہو گئیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور مؤمنوں کو خوشخبری دیں  یہ کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔ (۴۷)

تشریح: یعنی دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سب امتوں پر بزرگی اور برتری دی۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور آپ کہا نہ مانیں کافروں کا، اور منافقوں کا، اور ان کے ایذا دینے کا خیال نہ کریں، اور اللہ پر بھروسہ کریں، اور کافی ہے اللہ کارساز۔ (۴۸)

تشریح: یعنی جب اللہ نے آپ کو ایسے کمالات اور ایسی برگزیدہ جماعت عنایت فرمائی تو آپ حسب معمول فریضہ دعوت و اصلاح کو پوری مستعدی سے ادا کرتے رہیے اور اللہ جو حکم دے اس کے کہنے یا کرنے میں کسی کافر و منافق کی یادہ گوئی کی پروانہ کیجئے۔

اگر یہ بدبخت زبان اور عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستائیں تو ان کا خیال چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ وہ اپنی قدرت و رحمت سے سب کام بنا دے گا۔ منکروں کو راہ پر لے آنا یا سزا دینا سب اسی کے ہاتھ میں ہے ، آپ کو اس فکر اور الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ آپ طعن و تشنیع وغیرہ سے گھبرا کر اپنا کام چھوڑ بیٹھیں۔ اگر بفرض محال آپ ایسا کریں تو گویا ان کا مطلب پورا کر دیں گے اور ان کا کہا مان لیں گے۔ العیاذ باللہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انہیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم انہیں ہاتھ لگاؤ تو ان پر تمہارا (کوئی حق) نہیں کہ ان کی عدت پوری کراؤ، پس انہیں کچھ متاع دے دو اور رخصت کر دو اچھی رخصت۔ (۴۹)

تشریح: اگر رخصتی کے بعد طلاق ہو تو عورت کو عدت گزارنے کا حکم ہے جو سورۂ بقرۃ (۲:۲۲۸) میں گزرا ہے کہ ایسی عورت تین مرتبہ ایام ماہواری گزرنے تک عدت میں بیٹھے گی، اور اس کے بعد نکاح کرسکے گی، لیکن اگر رخصتی نہ ہوئی ہو تو اس کا حکم اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ایسی صورت میں عورت پر عدت گزارنا واجب نہیں ہے ، بلکہ وہ طلاق کے فوراً بعد بھی نکاح کرسکتی ہے ، آیت میں چھونے کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد رخصتی ہے یعنی میاں بیوی کو ایسی تنہائی میسر آ جائے کہ اگر وہ ہم بستری کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہ ہو، اگر ایسی تنہائی میسر آ جائے تو عدت واجب ہو جاتی ہے ، چاہے ہم بستری ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔

فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا :متاع (تحفے ) سے مراد یہ ہے کہ بیوی کو طلاق کے ذریعے رخصت کرتے وقت ایک جوڑا دیا جائے جسے اصطلاح میں متعہ کہا جاتا ہے ، اور یہ جوڑا مہر کے علاوہ ہے ، اور ہر صورت میں مرد کو دینا چاہئیے ، چاہے رخصتی سے پہلے طلاق ہو یا رخصتی کے بعد، آیت کا منشاء یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں نبھاؤ ممکن نہ رہا ہو اور طلاق دینی ہی ہو تو دونوں کے درمیان جدائی بھی لڑائی اور دشمنی کی فضا کے بجائے خوش اسلوبی کے ساتھ ہونی چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

اے نبی ہم نے تمہارے لئے حلال کیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم نے ان کا مہر دیا، اور تمہاری کنیزیں ان میں سے جو اللہ نے (غنیمت میں سے ) تمہارے ہاتھ لگا دیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں، وہ جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی، اور وہ مؤمن عورت جو اپنے آپ کو نبی کی نذر کر دے ، اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے ، یہ عام مؤمنوں کے علاوہ خاص تمہارے لئے ہے ، البتہ ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان کی عورتوں اور کنیزوں (کے بارے (میں ان پر فرض کیا ہے ، تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے ، اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵۰)

تشریح:آپ کی عورتیں جن کا مہر دے چکے یعنی جواب آپ کے نکاح میں ہیں خواہ قریش سے ہوں اور مہاجر ہوں یا نہ ہوں سب حلال رہیں، ان میں سے کسی کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کی بیٹیاں یعنی قریش میں سے جو باپ یا ماں کی طرف سے قرابت دار ہوں بشرط ہجرت کے حلال ہیں ان سے نکاح کر سکتے ہو۔ اور جو عورت بخشے نبی کو اپنی جان یعنی بلا مہر کے نکاح میں آنا چاہے وہ بھی حلال ہے اگر آپ اس طرح نکاح میں لانا پسند کریں۔ یہ اجازت خاص پیغمبر کے لیے ہے گو آپ نے بھی اس پر عمل نہیں کیا (کما فی الفتح) شاید ”ان اراد النبی” کی شرط سے اباحت مرجوحہ سمجھی ہو۔ بہرحال دوسرے مسلمانوں کے لیے و ہی حکم ہے جو معلوم ہو چکا ”ان تبتغوابا موالکم” (نسا، رکوع٤) یعنی بلا مہر نکاح نہیں، خواہ عقد کے وقت ذکر آیا خواہ پیچھے ٹھہرا لیا یا نہ ٹھہرایا تو مہر مثل (جو اس کی قوم کا مہر ہو) واجب ہو گا۔ پیغمبر پر سے اللہ تعالیٰ نے یہ مہر کی قید اٹھا دی تھی۔ برخلاف مومنین کے کہ ان کو نہ چار سے زائد سے اجازت نہ بدون مہر کے نکاح درست۔

(تنبیہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر تک جو شباب کی امنگوں کے اصلی دن ہوتے ہیں محض تجرد میں گزارے۔ پھر اقرباء کے اصرار اور دوسری جانب کی درخواست پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے (جن کی عمر ڈھل چکی تھی اور دو مرتبہ بیوہ ہو چکی تھیں) آپ نے عقد کیا۔ تریپن سال کی عمر تک پورے سکون و طمانیت سے اسی پاکباز بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ یہ ہی زمانہ تھا کہ آپ ساری دنیا سے الگ غاروں اور پہاڑوں میں جا کر خدائے واحد کی عبادت کیا کرتے تھے اور یہ اللہ کی نیک بندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے توشہ تیار کرتی اور عبادت الٰہی اور سکون قلبی کے حصول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت و امداد کیا کرتی تھی۔ زندگی کے اس طویل عرصہ میں جو دوسرے لوگوں کے لیے عموماً نفسانی جذبات کی انتہائی ہنگامہ خیزیوں کے اٹھ اٹھ کر ختم ہو جانے کا زمانہ ہوتا ہے ، کوئی معاند سے معاند اور کٹر سے کٹر متعصب دشمن بھی ایک حرف ایک نقطہ، ایک شوشہ آپ کی پیغمبرانہ عصمت اور خارق عادت عفاف و پاکبازی کے خلاف نقل نہیں کر سکتا۔ اور واضح رہے کہ یہ اس اکمل البشر کی سیرت کا ذکر ہے جس نے خود اپنی نسبت فرمایا کہ مجھ کو جو جسمانی قوت عطا ہوئی ہے وہ اہل جنت میں سے چالیس مردوں کے برابر ہے جن میں سے ایک مرد کی قوت سو کے برابر ہو گی گویا اس حساب سے دنیا کے چار ہزار مردوں کی برابر قوت حضور کو عطا فرمائی گئی تھی۔ اور بیشک دنیا کے اکمل ترین بشر کی تمام روحانی و جسمانی قوتیں ایسے ہی اعلیٰ اور اکمل پیمانہ پر ہونی چاہیں۔ اس حساب سے اگر فرض کیجئے چار ہزار بیویاں آپ کے نکاح میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت کے اعتبار سے اس درجہ میں شمار کیا جا سکتا تھا جیسے ایک مرد ایک عورت سے نکاح کر لے۔ لیکن اللہ اکبر! اس شدید ریاضت اور ضبط نفس کا کام ٹھکانہ ہے کہ تریپن سال کی عمر اس تجرد یا زہد کی حالت میں گزار دی۔ پھر حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد اپنے سب سے بڑے جان نثار وفادار رفیق کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ سے عقد کیا۔ ان کے سوا آٹھ بیوائیں آپ کے نکاح میں آئیں۔ وفات کے بعد نو موجود تھیں۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت سودہ، حضرت ام سلمہ، حضرت زینب، حضرت ام حبیبہ، حضرت جویریہ، حضرت صفیہ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن و ارضاہن (ان میں پچھلی تین قریشی نہیں) دنیا کا سب سے بڑا بے مثال انسان جو اپنے فطری قویٰ کے لحاظ سے کم از کم چار ہزار بیویوں کا مستحق ہو، کیا نو کا عدد دیکھ کر کوئی انصاف پسند اس پر کثرت ازواج کا الزام لگا سکتا ہے۔ پھر جب ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریپن سال سے متجاوز ہو چکی تھی، باوجود عظیم الشان فتوحات کے ایک دن پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاتے تھے۔ جو آتا اللہ کے راستہ میں دے ڈالتے ، اختیاری فقر و فاقہ سے پیٹ کو پتھر باندھتے ، مہینوں ازواج مطہرات کے مکانوں سے دھواں نہ نکلتا، پانی اور کھجور پر گذارہ چلتا۔ روزہ پر روزہ رکھتے ، کئی کئی دن افطار نہ کرتے ، راتوں کو اللہ کی عبادت میں کھڑے رہنے سے پاؤں پر ورم ہو جاتا، لوگ دیکھ کر رحم کھانے لگتے ، عیش و طرب کا سامان تو کجا، تمام بیویوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ جسے آخرت کی زندگی پسند ہو۔ ہمارے ساتھ رہے جو دنیا کا عیش چاہے رخصت ہو جائے۔ ان حالات کے باوجود دوسری طرف دیکھا جاتا ہے کہ سب ازواج کے حقوق ایسے اکمل و احسن طریقہ سے ادا فرماتے جس کا تحمل بڑے سے بڑا طاقتور مرد نہیں کر سکتا۔ اور میدان جنگ میں لشکروں کے مقابلہ پر جب بڑے بڑے جوان مرد بہادر دل چھوڑ بیٹھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ کی طرح ڈٹے رہتے اور زبان سے فرماتے ”الی عباد اللہ! انا رسول اللہ” اور ”انا النبی لا کذب انا بن عبدالمطلب۔ ” بیویوں کا تعلق فرائض عبودیت و رسالت کی بجا آوری میں ذرہ برابر فرق نہ ڈالتا۔ نہ کسی سخت سے سخت کٹھن کام میں ایک منٹ کے لیے ضعف و تعب لاحق ہوتا۔ کیا یہ خارق عادت احوال اہل بصیرت کے نزدیک معجزہ سے کچھ کم ہیں؟ حقیقت میں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی ایک معجزہ تھی، بڑھاپا بھی ایک معجزہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کے ہر ایک دور میں پاک بزرگ متقیوں کے لیے کچھ نمونے رکھ دیے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی عملی رہبری کر سکیں۔ ازواج مطہرات کے جس نام نہاد کثرت پر مخالفین کو اعتراض ہے و ہی امت مرحومہ کے لیے اس کا ذریعہ نبی کے پیغمبر کا اتباع کرنے والے مرد اور عورتیں ان حکموں اور نمونوں سے بے تکلف واقف ہوں یا بالخصوص باطنی احوال اور خانگی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا کثرت ازواج میں ایک بڑی مصلحت یہ ہوئی کہ خانگی معاشرت اور نسوائی مسائل کے متعلق نبی کے احکام اور اسوہ حسنہ کی اشاعت کافی حد تک بے تکلف ہو سکے۔ نیز مختلف قبائل اور جماعتوں کو آپ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا اور اس طرح ان کی وحشت و نفرت بھی کم ہوئی اور اپنے کنبہ کی عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکدامنی، خوبی اخلاق، حسن معاملہ اور بے لوث کیر کو سن کر اسلام کی طرف رغبت بڑھی۔ شیطانی شکوک و اوہام کا ازالہ ہوا، اور اس طرح خدا کے عاشقوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدا کاروں اور دنیا کے ہادیوں کی وہ عظیم الشان جماعت تیار ہوئی جس سے زیادہ پرہیز گار و پاکباز کوئی جماعت (بجز انبیاء کے ) آسمان کے نیچے کبھی نہیں پائی گئی اور جو کسی برے کیر کٹر رکھنے والے کی تربیت میں محال تھا کہ تیار ہو سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ جس کو چاہیں دور رکھیں ان میں سے ، اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں، اور ان میں سے جس کو آپ نے دور کر دیا تھا (پھر) طلب کریں تو کوئی تنگی (حرج) نہیں آپ پر یہ زیادہ قریب ہے کہ (اس سے ) ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ آزردہ نہ ہوں، اور اس پر راضی رہیں جو آپ نے انہیں دیں وہ سب کے سب، اور اللہ جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے ، اور اللہ جاننے والا بردبار ہے۔ (۵۱)

تشریح: تشریح: عام مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ اگر ان کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو وہ ہر معاملے میں ان کے ساتھ برابری کا سلوک کریں، چنانچہ جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاریں اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے ساتھ گزارنا فرض ہے ، لیکن اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے باریاں مقرر کرنے کی یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے ، چنانچہ آپ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کی باری ملتوی فرما سکتے ہیں، لیکن یہ بھی وہ سہولت ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر فائدہ نہیں اٹھایا اور ہمیشہ تمام ازواج مطہرات سے مکمل برابری کا معاملہ فرمایا۔

(توضیح القرآن)

 

حلال نہیں آپ کے لئے اس کے بعد (اور ) عورتیں، نہ یہ کہ آپ ان سے اور عورتیں بدل لیں، اگرچہ آپ کو اچھا لگے ، ان کا حسن، سوائے آپ کی کنیز کے ، اور اللہ ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۵۲)

تشریح: یہ آیت پچھلی دو آیتوں کے کچھ عرصے کے بعد نازل ہوئی ہے ، پیچھے آیات نمبر۲۸، ۲۹ میں ازواج مطہرات کو جو اختیار دیا گیا تھا، اس کے جواب میں تمام ازواج مطہرات نے دنیا کی زیب و زینت کے بجائے آخرت کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو ترجیح دی تھی، اس کے انعام کے طور پر اللہ تعالی نے اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی عورت سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا، اور موجودہ ازواج مطہرات میں سے کسی کو طلاق دے کر ان کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنا بھی ممنوع قرار دے دیا (بعض مفسرین نے اس آیت کی کسی اور طرح بھی تفسیر کی ہے ، لیکن جو تفسیر اوپر ذکر کی گئی، وہ حضرت انس اور حضرت ابن عباس وغیرہ سے منقول ہے (روح المعانی بحوالۂ  بیہقی وغیرہ) اور زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے ، واللہ سبحانہ اعلم۔

(توضیح القرآن)

 

پکنے کی راہ نہ تکو، لیکن جب تمہیں بلایا جائے تو تم داخل ہو، پھر جب تم کھانا کھالو، تو منتشر ہو جایا کرو، اور باتوں کے لئے جی لگا کر نہ بیٹھے رہو، بیشک تمہاری یہ بات نبی کو ایذا دیتی ہے پس وہ تم سے شرماتے ہیں، اور اللہ حق بات (فرمانے ) سے نہیں شرماتا، اور جب تم ان (نبی کی بیبیوں) سے کوئی شے مانگو تو ان کے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ بات تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی (کا ذریعہ) ہے اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو ایذا دو، اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی بھی ن کی بیبیوں سے نکاح کرو، بیشک تمہاری یہ بات اللہ کے نزدیک بڑا ( گناہ) ہے۔ (۵۳)

تشریح: ان آیات میں معاشرت کے کچھ آداب بتائے گئے ہیں  اور یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کے موقع پر ولیمے کا اہتمام فرمایا، اس وقت کچھ حضرات کھانے کے وقت سے کافی پہلے آ بیٹھے جبکہ ابھی کھانا تیار نہیں ہوا تھا، اور کچھ حضرات کھانے کے بعد دیر تک آپ کے مکان مبارک میں بیٹھے باتیں کرتے رہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، اور ان حضرات کے دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے آپ کو ان کے ساتھ مشغول رہنا پڑا، جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، یہ واقعہ تو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا، اس لئے اس آیت میں آپ کے گھروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے ، لیکن ان آیتوں کے احکام عام ہیں، ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ اول تو کسی کے گھر میں بلا اجازت جانا منع ہے ، دوسرے اگر کسی نے کھانے کی دعوت کی ہے تو کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے جس سے میزبان کو تکلیف ہو، چنانچہ کھانے کے وقت سے بہت پہلے جا بیٹھنا یا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا، جس سے میز بان کی آزادی میں خلل آئے ، اسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وَإِذَا سَأَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْہُنَّ مِنْ وَرَآءِ حِجَابٍ: اسلامی معاشرت کا یہ دوسرا حکم ہے اور اس کے ذریعے خواتین کے لئے پردہ واجب کیا گیا ہے ، یہاں اگرچہ براہ راست خطاب ازواج مطہرات کو ہے لیکن حکم عام ہے جیسا کے آگے آیت نمبر ۵۹ میں اس کی صراحت آ رہی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وَلَا أَنْ تَنْكِحُوْا أَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ أَبَدًا: یعنی کافر منافق جو چاہیں بکتے پھریں اور ایذاء رسانی کریں، مومنین جو دلائل و براہین کی روشنی میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انتہائی راستبازی اور پاکبازی کو معلوم کر چکے ہیں، انہیں لائق نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں یا وفات کے بعد کوئی بات ایسی کہیں یا کریں جو حنیف درجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا کا سبب بن جائے۔ لازم ہے کہ مومنین اپنے محبوب و مقدس پیغمبر کی عظمت شان کو ہمیشہ مرعی رکھیں۔ مبادا غفلت یا تساہل سے کوئی تکلیف دہ حرکت صادر ہو جائے اور دنیا و آخرت کا خسارہ اٹھانا پڑے۔ ان تکلیف دہ حرکات میں سے ایک بہت سخت اور بھاری گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص ازواج مطہرات سے آپ کے بعد نکاح کرنا چاہے یا ایسے نالائق ارادہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اظہار کرے۔ ظاہر ہے کہ ازواج مطہرات کی مخصوص عظمت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے قائم ہوئی ہے کہ روحانی حیثیت سے وہ تمام مومنین کی محترم مائیں قرار دی گئیں۔ کیا کسی امتی کے عقد نکاح میں آنے کے بعد ان کا یہ احترام کماحقہ ملحوظ رہ سکتا ہے یا آپ کے بعد وہ خانگی بکھیڑوں میں پڑ کر تعلیم و تلقین دین کی اس اعلیٰ غرض کو آزادی کے ساتھ پورا کر سکتی ہیں جس کے لیے ہی فی الحقیقت قدرت نے نبی کی زوجیت کے لیے ان کو چنا تھا۔ اور کیا کوئی پرلے درجہ کا بے حس و بے شعور انسان بھی باور کر سکتا ہے کہ سید البشر امام المتقین اور پیکر خلق عظیم کی خدمت میں عمر گزارنے والی خاتون ایک لمحہ کے لیے بھی کسی دوسری جگہ رہ کر قلبی مسرت و سکون حاصل کرنے کی امید رکھ سکے گی۔ خصوصاً جبکہ معلوم ہو چکا ہے کہ یہ وہ منتخب خواتین تھیں جن کے سامنے دنیا و آخرت کے دو راستوں میں سے ایک راستہ انتخاب کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے بڑی خوشی اور آزادی سے دنیا کے عیش و بہار پر لات مار کر اللہ رسول کی خوشنودی اور آخرت کا راستہ اختیار کر لینے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ تاریخ بتلاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیسے عدیم النظیر زہد و ورع اور صبر و توکل کے ساتھ ان مقدس خواتین جنت نے عبادت الٰہی میں اپنی زندگیاں گزاریں اور احکام دین کی اشاعت اور اسلام کی خدمات مہمہ کے لیے اپنے کو وقف کیے رکھا ان میں سے کسی ایک کو کبھی بھول کر بھی دنیا کی لذتوں کا خیال نہیں آیا۔ اور کیسے آسکتا تھا جبکہ پہلے ہی حق تعالیٰ نے ”یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت وطہر کم تطہیرا” فرما کر ان کے تزکیہ و تطہیر کی کفالت فرمائی تھی۔ رضی اللہ عنہن وارضاہن وجعلنا ممن یعظمہن حق تعظیمہن فوق مانعظم امہاتنا التی ولدتنا، آمین۔ اس مسئلہ کی نہایت محققانہ بحث حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ تو بیشک اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی زبان سے کہنا تو کجا دل میں بھی ایسا وسوسہ کبھی نہ لانا۔ اللہ کے سامنے ظاہر و باطن سب یکساں ہے دل کا کوئی بھید اس سے پوشیدہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

عورتوں پر گناہ نہیں (پردہ نہ کرنے میں) اپنے باپ اور نہ اپنے بیٹوں، اور نہ اپنے بھائیوں اور نہ اپنے بھائیوں کے بیٹوں اور نہ اپنی بہنوں کے بیٹوں اور نہ اپنی عورتوں سے اور نہ اپنی کنیزوں سے (اے عورتو!) اللہ سے ڈرتی رہو، بے شک اللہ ہر شے پر گواہ (موجود) ہے۔ (۵۵)

تشریح: اوپر ازواج مطہرات کے سامنے مردوں کے جانے کی ممانعت ہوئی تھی۔ اب بتلا دیا کہ محارم کا سامنے جانا منع نہیں۔ اس بارہ میں جو حکم عام مستورات کا سورہ ”نور” میں گزر چکا وہی ازواج مطہرات کا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

”ولا نسآئہن” بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں، لہذا غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ ضروری ہے ، لیکن چونکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ غیر مسلم عورتیں ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتی تھیں، اس لئے امام رازی اور علامہ آلوسی نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اپنی عورتوں سے مراد اپنے میل جول کی عورتیں ہیں چاہے مسلمان ہوں یا کافر، ان سے پردہ واجب نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔ (۵۶)

تشریح: صلوٰۃ النبی کا مطلب ہے ”نبی کی ثناء و تعظیم رحمت و عطوفت کے ساتھ”پھر جس کی طرف ”صلوٰۃ” منسوب ہو گی اسی کی شان و مرتبہ کے لائق ثناء و تعظیم اور رحمت و عطوفت مراد لیں گے ، جیسے کہتے ہیں کہ باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر اور بھائی بھائی پر مہربان ہے یا ہر ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے تو ظاہر ہے جس طرح کی محبت اور مہربانی باپ کے بیٹے پر ہے اس نوعیت کی بیٹے کی باپ پر نہیں اور بھائی کی بھائی پر ان دونوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ ایسے ہی یہاں سمجھ لو۔ اللہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے یعنی رحمت و شفقت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء اور اعزاز و اکرام کرتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں، مگر ہر ایک کی صلوٰۃ اور رحمت و تکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہو گی۔ آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلوٰۃ و رحمت بھیجو۔ اس کی حیثیت ان دونوں سے علیحدہ ہونی چاہیے۔ علماء نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ رحمت بھیجنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ استغفار کرنا اور مومنین کی صلوٰۃ دعا کرنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ”سلام” کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو چکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے ) ”السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ” ”صلوٰۃ” کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے جو نماز میں پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درود شریف تلقین کیا۔ ”اللہم صل علٰی محمدٍ وعلٰی ال محمدٍ کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمدٍ وعلیٰ اٰل محمدٍ کما بارکت علی ابراہیم وعلٰی اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ ” غرض یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی نبی پر صلوٰۃ (رحمت) بھیجو۔ نبی نے بتلا دیا کہ تمہارا بھیجنا یہ ہی ہے کہ اللہ سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش ابدالآباد تک نبی پر نازل فرماتا رہے۔ کیونکہ اس کی رحمتوں کی کوئی حد و نہایت نہیں۔ یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کر دی جائیں۔ گویا ہم نے بھیجی ہیں۔ حالانکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہ ہی اکیلا ہے کسی بندہ کی کیا طاقت تھی کہ سیدالانبیاء کی بارگاہ میں ان کے رتبہ کے لائق تحفہ پیش کر سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے ، اور ایک دفعہ مانگنے سے دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر۔ اب جس کا جتنا جی چاہے اتنا حاصل کر لے۔ ” (تنبیہ) صلوٰۃ علی النبی کے متعلق مزید تفصیلات ان مختصر فوائد میں نہیں سما سکتیں۔ شروع حدیث میں مطالعہ کی جائیں۔ اور اس باپ میں شیخ شمس الدین سخاوی کا رسالہ ”القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع” قابل دید ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بقدر کفالت لکھ دیا ہے فالحمد للہ علی ذلک۔ (تفسیرعثمانی)

 

بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی (اپنی رحمت سے محروم کر دیا) اور ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کیا۔ (۵۷)

تشریح: اوپر مسلمانوں کو حکم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء کا سبب نہ بنیں بلکہ ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کریں جس کی ایک صورت صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہے۔ اب بتلایا کہ اللہ و رسول کو ایذا دینے والے دنیا و آخرت میں ملعون و مطرود اور سخت رسوا کن عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اللہ کو ستانا یہ ہی ہے کہ اس کے پیغمبروں کو ستائیں یا اس کی جناب میں نالائق باتیں کہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایذا دیتے ہیں، بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو تو البتہ انہوں نے اٹھایا (اپنے سر لیا) بہتان اور گناہ صریح۔ (۵۸)

تشریح: یہ منافق تھے جو پیٹھ پیچھے بد گوئی کرتے رسول کی، آپ کی ازواج مطہرات پر جھوٹے طوفان اٹھاتے جیسا کہ سورہ ”نور” میں گزر چکا۔ آگے بعض ایذاؤں کے انسداد کا بندوبست کیا گیا ہے جو مسلمان عورتوں کو ان کی طرف سے پہنچتی تھیں۔ روایات میں ہے کہ مسلمان مستورات جب ضروریات کے لیے باہر نکلتیں، بدمعاش منافق تاک میں رہتے۔ اور چھیڑ چھاڑ کرتے پھر پکڑے جاتے تو کہتے ہم نے سمجھا نہیں تھا کہ کوئی شریف عورت ہے۔ لونڈی باندی سمجھ کر چھیڑ دیا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی! اپنی بیبیوں اور بیٹیوں کو اور مؤمنوں کی عورتوں کو فرما دیں کہ وہ اپنے اوپر چادریں ڈال لیا کریں (گھونگھٹ نکال لیا کریں) یہ (اس سے ) قریب تر ہے کہ ان کی پہچان ہو جائے ، تو انہیں نہ ستایا جائے ، اور اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۵۹)

تشریح: بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے ، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لئے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہو گی، اس کے برخلاف بے پردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، علامہ ابوحیان نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (البحر المحیط)۔

(توضیح القرآن)

 

اگر باز نہ آئے منافق، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے ، اور مدینہ میں جھوٹی افواہیں اڑانے والے ، تو ہم ضرور ان کے پیچھے لگا دیں گے ، پھر وہ اس شہر (مدینہ) میں چند دن کے سوا تمہارے ہمسایہ (پاس) نہ رہیں گے۔ (۶۰)

پھٹکارے ہوئے ، وہ جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے ، اور بری طرح مارے جائیں گے۔ (۶۱)

تشریح: یہاں منافقین کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اس وقت ان کی منافقت چھپی ہوئی ہے ، لیکن اگر انہوں نے اپنی نازیبا حرکتیں نہ چھوڑیں جن میں عورتوں کو چھیڑنے اور بے بنیاد افواہیں پھیلانے کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا ہے تو ان کی منافقت صاف واضح ہو جائے گی، اور اس صورت میں ان کے ساتھ غیر مسلم دشمنوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ کا (یہی) دستور رہا ہے ، ان لوگوں میں جو گزرے ہیں ان سے پہلے ، اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۶۲)

تشریح: جو لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں ان کو پہلے خبردار کیا جاتا ہے پھر بھی اگر وہ باز نہیں آتے تو انہیں سزا دی جاتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ سے لوگ قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے ، اور تمہیں کیا خبر ! شاید قیامت قریب (ہی) ہو۔ (۶۳)

تشریح: گویا قیامت کے وقت کی ٹھیک تعیین کر کے اللہ نے کسی کو نہیں بتلایا۔ مگر یہاں اس کے قرب کی طرف اشارہ کر دیا۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے شہادت کی اور بیچ کی انگلی اٹھا کر فرمایا ”انا والساعۃ کہاتین” (میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں) یعنی بیچ کی انگلی جس قدر آگے نکلی ہوئی ہے میں قیامت سے بس اتنا پہلے آ گیا ہوں قیامت بہت قریب لگی چلی آ رہی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”شاید یہ بھی منافقوں نے ہتھکنڈا پکڑا ہو گا کہ جس چیز کا (دنیا میں کسی کے پاس) جواب نہیں وہ ہی بار بار سوال کریں۔ اس پر یہاں ذکر کر دیا۔ ” اور ممکن ہے پہلے جو فرمایا تھا۔ ”لعنہم اللہ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذابا مہینا۔ ” اس پر بطور تکذیب و استہزاء کے کہتے ہوں گے کہ وہ قیامت اور آخرت کب آئے گی جس کی دھمکیاں دی جاتی ہیں؟ آخر اس کا کچھ وقت تو بتاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت کی، اور ان کے لئے (جہنم کی) بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ (۶۴)

وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ مددگار۔ (۶۵)

جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے ، وہ کہیں گے اے کاش! ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی، اور اطاعت کی ہوتی رسول کی۔ (۶۶)

تشریح: یعنی اوندھے منہ ڈال کر ان کے چہروں کو آگ میں الٹ پلٹ کیا جائے گا۔ اس وقت حسرت کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں اللہ و رسول کے کہنے پر چلتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی، تو انہوں نے ہمیں راستہ سے بھٹکایا۔ (۶۷)

اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔ (۶۸)

تشریح: یہ شدت غیظ سے کہیں گے کہ ہمارے ان دنیاوی سرداروں اور مذہبی پیشواؤں نے دھوکے دے کر اور جھوٹ فریب کہہ کر اس مصیبت میں پھنسوایا۔ ان ہی کے اغواء پر ہم راہ حق سے بھٹکے رہے۔ اگر ہمیں سزا دی جاتی ہے تو ان کو دوگنی سزا دیجئے۔ اور جو پھٹکار ہم پر ہے اس سے بڑی پھٹکار ان بڑوں پر پڑنی چاہیے۔ گویا ان کو دوگنی سزا دلوا کر اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہیں گے۔ اسی مضمون کی ایک آیت سورہ ”اعراف” کے چوتھے رکوع میں گزر چکی ہے۔ وہیں ان کی اس فریاد کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ( الزام لگا کر) ستایا تو انہیں بری کر دیا اللہ نے اس سے جو انہوں نے کہا (الزام لگایا) اور وہ اللہ کے نزدیک با آبرو تھے۔ (۶۹)

تشریح:یعنی تم ایسا کوئی کام یا کوئی بات نہ کرنا جس سے تمہارے نبی کو ایذاء پہنچے۔ نبی کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی بڑے آبرو ہے وہ سب اذیت دہ باتوں کو رد کر دے گا ہاں تمہاری عاقبت خراب ہو گی۔ دیکھو حضرت موسٰی علیہ السلام کی نسبت لوگوں نے کیسی اذیت دہ باتیں کیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی وجاہت و مقبولیت کی وجہ سے سب کا ابطال فرما دیا اور موسٰی کا بے خطا اور بے داغ ہونا ثابت کر دیا۔ روایات میں ہے کہ بعض مفسد حضرت موسٰی کو تہمت لگانے لگے کہ حضرت ہارون کو جنگل میں لے جا کر قتل کر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک خارق عادت طریقہ سے اس کی تردید کر دی۔ اور صحیحین میں ہے کہ حضرت موسٰی حیا کی وجہ سے (ابنائے زمانہ کے دستور کے خلاف) چھپ کر غسل کرتے تھے ، لوگوں نے کہا کہ ان کے بدن میں کچھ عیب ہے ، برص کا داغ یا خصیہ پھولا ہوا۔ ایک روز حضرت موسٰی اکیلے نہانے لگے ، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے وہ پتھر کپڑے لے کر بھاگا۔ حضرت موسٰی عصا لے کر اس کے پیچھے دوڑے ، جہاں سب لوگ دیکھتے تھے پتھر کھڑا ہو گیا سب نے برہنہ دیکھ کر معلوم کر لیا کہ بے عیب ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ”پوشاند لباس ہرکرا عیب سے دید۔ بع عیباں رالباس عریانی داد۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قارون نے ایک عورت کو کچھ دے دلا کر مجمع میں کہلا دیا کہ موسٰی علیہ السلام (العیاذ باللہ) اس کے ساتھ مبتلا ہیں۔ حق تعالیٰ نے آخرکار قارون کو زمین میں دھنسا دیا اور اسی عورت کی زبان سے اس تہمت کی تردید کرائی جیسا کہ سورہ ”قصص” میں گزرا۔ (تنبیہ) موسٰی علیہ السلام کا پتھر کے تعاقب میں برہنہ چلے جانا مجبوری کی وجہ سے تھا اور شاید یہ خیال بھی نہ ہو کہ پتھر مجمع میں لیجا کر کھڑا کر دے گا رہی پتھر کی حرکت وہ بطور خرق عادت تھی۔ خوارق عادات پر ہم نے ایک مستقل مضمون لکھا ہے اسے پڑھ لینے کے بعد اس قسم کی جزئیات میں الجھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بہرحال اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں انبیاء علیہم السلام کو جسمانی و روحانی عیوب سے پاک ثابت کرنے کا کس قدر اہتمام ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی طرف سے تنفر اور استخفاف کے جذبات پیدا ہو کر قبول حق میں رکاوٹ نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔ (۷۰)

وہ تمہارے لئے تمہارے عمل سنوار دے گا، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو وہ بڑی مراد کو پہنچا۔ (۷۱)

تشریح: یعنی اللہ سے ڈر کر درست اور سیدھی بات کہنے والے کو بہترین اور مقبول اعمال کی توفیق ملتی ہے اور تقصیرات معاف کی جاتی ہیں حقیقت میں اللہ و رسول کی اطاعت ہی میں حقیقی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے جس نے یہ راستہ اختیار کیا مراد کو پہنچ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے اپنی امانت کو (ذمہ داری کو) پیش کیا آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر، تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور وہ اس سے ڈر گئے ، اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ ظالم، بڑا نادان تھا۔ (۷۲)

تشریح: یعنی ستم کر دئیے ، جو بوجھ آسمان، زمین اور پہاڑوں سے نہ اٹھ سکتا تھا اس نادان نے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لیا آسماں بار امانت نتوانست کشید قرہ فال بنام من دیوانہ زدند۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ہے ؟ پرائی چیز رکھنی اپنی خواہش کو روک کر۔ آسمان و زمین وغیرہ میں اپنی خواہش کچھ نہیں، یا ہے تو وہ ہی ہے جس پر قائم ہیں۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے۔ اس پرائی چیز (یعنی حکم) کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ اس کا انجام یہ ہے کہ منکروں کو قصور پر پکڑا جائے اور ماننے والوں کا قصور معاف کیا جائے۔ اب بھی یہی حکم ہے کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کر دے تو بدلہ (ضمان) دینا پڑے گا اور بے اختیار ضائع ہو جائے تو بدلہ نہیں۔ ” (موضح) اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی ایک خاص امانت مخلوق کی کسی نوع میں رکھنے کا ارادہ کیا جو اس امانت کو اگر چاہے تو اپنی سعی و کسب اور قوت بازو سے محفوظ رکھ سکے اور ترقی دے سکے۔ تاکہ اس سلسلہ میں اللہ کی ہر قسم کی شؤن و صفات کا ظہور ہو مثلاً اس نوع کے جو افراد امانت کو پوری طرح محفوظ رکھیں اور ترقی دیں ان پر انعام و اکرام کیا جائے۔ جو غفلت یا شرارت سے ضائع کر دیں ان کو سزا دی جائے اور جو لوگ اس بارہ میں قدرے کوتاہی کریں ان سے عفو درگزر کا معاملہ ہو۔ میرے خیال میں یہ امانت ایمان و ہدایت کا ایک تخم ہے جو قلوب بنی آدم میں بکھیرا گیا۔ جس کو”مابہ التکلیف” بھی کہہ سکتے ہیں۔ ”لاایمان لمن لاامانۃ لہ”اسی کی نگہداشت اور تردد کرنے سے ایمان کا درخت اگتا ہے گویا بنی آدم کے قلوب اللہ کی زمینیں ہیں، بیج بھی اسی نے ڈال دیا ہے بارش برسانے کے لیے رحمت کے بادل بھی اس نے بھیجے جن کے سینوں سے وحی الٰہی کی بارش ہوئی۔ آدمی کا فرض یہ ہے کہ ایمان کے اس بیج کو جو امانت الٰہیہ ہے ضائع نہ ہونے دے بلکہ پوری سعی و جہد اور تردد و تفقد سے اس کی پرورش کرے مبادا غلطی یا غفلت سے بجائے درخت اگنے کے بیج بھی سوخت ہو جائے اسی کی طرف اشارہ ہے۔ حذیفہ کی اس حدیث میں ”ان الا مانۃ نزلت من السماء فی جذر قلوب الرجال ثم علموا من القراٰن” (الحدیث) یہ امانت وہ ہی تخم ہدایت ہے جو اللہ کی طرف سے قلوب رجال میں تہ نشین کیا گیا۔ پھر علوم قرآن و سنت کی بارش ہوئی جس سے اگر ٹھیک طور پر انتفاع کیا جائے تو ایمان کا پودا اگے ، بڑھے ، پھولے ، پھلے اور آدمی کو اس کے ثمرہ شیریں سے لذت اندوز ہونے کا موقع ملے۔ اگر انتفاع میں کوتاہی کی جائے تو اسی قدر درخت کے ابھرنے اور پھولنے پھلنے میں نقصان رہے یا بالکل غفلت برتی جائے تو سرے سے تخم بھی برباد ہو جائے۔ یہ امانت تھی جو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو دکھلائی۔ مگر کس میں استعداد تھی جو اس امانت عظیمہ کو اٹھانے کا حوصلہ کرتا۔ ہر ایک نے بلسان حال یا بزبان قال ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے ڈر کر انکار کر دیا کہ ہم سے یہ بار نہ اٹھ سکے گا۔ خود سوچ لو کہ بجز انسان کے کون سی مخلوق ہے جو اپنے کسب و محنت سے اس تخم ایمان کی حفاظت و پرورش کر کے ایمان کا شجر بار آور حاصل کر سکے۔ فی الحقیقت عظیم الشان امانت کا حق ادا کر سکنا اور ایک افتادہ زمین کو جس میں مالک نے تخم تیزی کر دی تھی خون پسینہ ایک کر کے باغ و بہار بنا لینا اسی ظلوم و جہول انسان حصہ ہو سکتا ہے جس کے پاس زمین قابل موجود ہے اور محنت و تردد کر کے کسی چیز کو بڑھانے کی قدرت اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائی ہے۔ ”ظلوم” و ”جہول”۔ ”ظالم” و ”جاہل” کا مبالغہ ہے۔ ظالم و جاہل وہ کہلاتا ہے جو بالفعل عدل اور علم سے خالی ہو مگر استعداد و صلاحیت ان صفات کے حصول کی رکھتا ہو۔ پس جو مخلوق بدء فطرت سے علم و عدل کے ساتھ متصف ہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی یہ اوصاف سے جدا نہیں ہوئے مثلاً ملائکۃ اللہ یا جو مخلوق ان چیزوں کے حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی (مثلاً زمین آسمان پہاڑ وغیرہ) ظاہر ہے کہ دونوں اس امانت الٰہیہ کے حامل نہیں بن سکتے۔ بیشک انسان کے سوا ”جن” ایک نوع ہے جس میں فی الجملہ استعداد اس کے تحمل کی پائی جاتی ہے اور اسی لیے ”وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون” میں دونوں کو جمع کیا گیا۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ ادائے حق امانت کی استعداد ان میں اتنی ضعیف تھی کہ حمل امانت کے مقام میں چنداں قابل ذکر اور درخور اعتناء نہیں سمجھے گئے۔ گویا وہ اس معاملہ میں انسان کے تابع قرار دیئے گئے جن کا نام مستقل طور پر لینے کی ضرورت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں ا ور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں او مشرک عورتوں کو اور اللہ توبہ قبول کرے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۷۳)

تشریح:میرے نزدیک اس جگہ ”ویتوب اللہ علی المومنین” الخ کے معنی معاف کرنے کے نہ لیے جائیں بلکہ ان کے حال پر متوجہ ہونے اور مہربانی فرمانے کے لیں تو بہتر ہے جیسے ”لقدتاب اللہ علی النبی والمہاجرین”میں لیے گئے ہیں۔ یہ تو مومنین کاملین کا بیان ہوا۔ اور ”وکان اللہ غفورا رحیما” میں قاصرین و مقصرین کے حال کی طرف اشارہ فرما دیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ نسال اللہ تعالیٰ ان یتوب علینا ویغفرلنا ویثیبنا بالفوز العظیم۔ انہ جل جلالہ وعم نوالہ غفور رحیم۔

تم سورہ الاحزاب وللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

 

۳۴۔ سورۃ سبا

 

                تعارف

 

اس سورت کا بنیادی موضوع اہل مکہ اور دوسرے مشرکین کو اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت دینا ہے ، اس سلسلے میں ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے ، اور ان کو نافرمانی کے برے انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے ، اسی مناسبت سے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی اور دوسری طرف قوم سبا کی عظیم الشان حکومتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو ایسی زبردست سلطنت سے نوازا گیا جس کی کوئی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں کو کبھی اس سلطنت پر ذرہ برابر غرور نہیں ہوا، اور وہ اس سلطنت کو اللہ تعالی کا انعام سمجھ کر اللہ تعالی کے حقوق ادا کرتے رہے ، اور اپنی حکومت کو نیکی کی ترویج اور بندوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں استعمال کیا، چنانچہ وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے ، اور آخرت میں بھی اونچا مقام پایا، دوسری طرف قوم سبا کو جو یمن میں آباد تھی، اللہ تعالی نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا، لیکن انہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی، اور کفر و شرک کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اللہ تعالی کا عذاب آیا، اور ان کی خوشحالی ایک قصۂ  پارینہ بن کر رہ گئی، ان دونوں واقعات کا ذکر فرما کر سبق یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی اقتدار حاصل ہو یا دنیوی خوشحالی نصیب ہو تو اس میں مگن ہو کر اللہ تعالی کو بھلا بیٹھنا تباہی کو دعوت دینا ہے ، اس سے مشرکین کے ان سرداروں کو متنبہ کیا گیا ہے جو اپنے اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر دین حق کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۵۴         رکوعات:۶

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور اسی کے لئے ہر تعریف ہے آخرت میں، اور وہ حکمت والا، خبر رکھنے والا ہے۔ (۱)

تشریح: یعنی سب خوبیاں اور تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو اکیلا بلا شریک غیرے تمام آسمانی و زمینی چیزوں کا مالک و خالق اور نہایت حکمت و خبرداری سے ان کی تدبیر کرتا ہے اس نے یہ سلسلہ بے کار پیدا نہیں کیا۔ ایسے حکیم و دانا کی نسبت یہ گمان نہیں ہو سکتا۔ ضرور ہے کہ یہ نظام آخر میں کسی اعلیٰ نتیجہ پر منتہی ہو، اسی کو آخرت کہتے ہیں۔ اور جس طرح دنیا میں وہ اکیلا تمام تعریفوں کا مستحق ہے ، آخرت میں بھی صرف اسی کی تعریف ہو گی۔ بلکہ یہاں تو بظاہر اور کسی کی بھی تعریف ہو جاتی تھی کیونکہ مخلوق کا فعل خالق کے فعل کا پردہ اور اس کا کمال اس کے کمال حقیقی کا پردہ تو ہے لیکن وہاں سب وسائط اور پردے اٹھ جائیں گے جو کچھ ہو گا سب دیکھیں گے کہ اس کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اس لیے صورۃً و حقیقۃً ہر حیثیت سے تنہا اسی محمود مطلق کی تعریف رہ جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے (مثلاً پانی) اور جو اس سے نکلتا ہے ، اور جوآسمان سے نازل ہوتا ہے ، اور جو اس میں چڑھتا ہے ، اور وہ مہربان ہے ، بخشنے والا۔ (۲)

تشریح: یعنی آسمان و زمین کی کوئی چھوٹی بڑی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو چیز زمین کے اندر چلی جاتی ہے۔ مثلاً جانور کیڑے مکوڑے نباتات کا بیج، بارش کا پانی، مردہ کی لاش، اور جو اس کے اندر سے نکلتی ہے مثلاً کھیتی، سبزہ، معدنیات وغیرہ اور جو اوپر چڑھتی ہے مثلاً روح، دعاء، عمل اور ملائکہ وغیرہ ان سب انواع و جزئیات پر اللہ کا علم محیط ہے۔

یہ سب بستی اور چہل پہل اس کی رحمت اور بخشش سے ہے ورنہ بندوں کی ناشکری اور حق ناشناسی پر اگر ہاتھوں ہاتھ گرفت ہونے لگے تو ساری رونق ایک لمحہ میں ختم کر دی جائے۔ ”ولویواخذ اللہ الناس بما کسبوا ماترک علی ظہرہا من دآبۃٍ” (فاطر، رکوع٥)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہتے ہیں کافر کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی، آپ فرما دیں ہاں میرے رب کی قسم!ٍ البتہ وہ تم پر ضرور آئے گی، اور و ہ غیب کا جاننے والا ہے ، اس سے ایک ذرہ کے برابر بھی پوشیدہ نہیں، آسمانوں میں اور نہ زمین میں، اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا مگر (سب کچھ) روشن کتاب میں ہے۔ (۳)

تشریح: یعنی وہ معصوم و مقدس انسان جس کے صدق و امانت کا اقرار سب کو پہلے سے تھا اور اب براہین ساطعہ سے اس کی صداقت پوری طرح روشن ہو چکی، مؤکد قسم کھا کر اللہ کی طرف سے خبر دیتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی، پھر تسلیم نہ کرنے کی کیا وجہ، ہاں اگر کوئی محال یا خلاف حکمت بات کہتا تو انکار کی گنجائش ہو سکتی تھی لیکن نہ یہ محال ہے نہ خلاف حکمت۔ پھر انکار کرنا ہٹ دھرمی نہیں تو کیا ہے۔

اس عالم الغیب کی قسم جس کے علم محیط سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ یا ذرہ سے چھوٹی بڑی کوئی چیز بھی غائب نہیں۔ شاید یہ اس لیے فرمایا کہ قیامت کے وقت کی تعیین ہم نہیں کر سکتے۔ اس کا علم اسی کو ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ ہم کو جتنی خبر دی گئی بلا کم و کاست پہنچا دی۔ اور اس کا جواب بھی ہو گیا جو کہتے تھے ”ءَ اذا ضللنا فی الارض” الخ یعنی جب ہمارے ذرات منتشر ہو کر مٹی میں مل گئے پھر کیسے دوبارہ اکٹھے کیے جائیں گے ، تو بتلا دیا کہ کوئی ذرہ اس کے علم سے غائب نہیں۔ اور پہلے بتلایا جا چکا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز پر قبضہ اسی کا ہے ، لہٰذا اس کو کیا مشکل ہے کہ تمام منتشر ذرات کو ایک دم میں اکٹھا کر دے۔ (تنبیہ) کھلی کتاب سے ”لوح محفوظ” مراد ہے جس میں ہر چیز اللہ کے علم کے مطابق ثبت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کئے نیک، یہی لوگ ہیں جن کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ (۴)

تشریح: اس آیت میں آخرت کی زندگی کی عقلی ضرورت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ اگر یہ دنیا ہی سب کچھ ہے ، اور کوئی د وسری زندگی آنے والی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فرماں برداروں اور نافرمانوں میں کوئی فرق ہی نہیں رکھا، آخرت کی زندگی اس لئے ضروری ہے تاکہ اس میں فرماں برداروں کو ان کی نیکی کا انعام دیا جائے ، اور نافرمانوں کو سزا ملے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی ہرانے کے لئے ، انہی لوگوں کے لئے سخت دردناک عذاب ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی ہماری آیتوں کے ابطال اور لوگوں کو قولاً و فعلاً ان سے روکنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ گویا وہ (العیاذ باللہ) اللہ کو عاجز کرنا اور ہرانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے ہاتھ نہیں آئیں گے۔

تفسیرعثمانی

 

اور جنہیں علم دیا گیا وہ دیکھتے (جانتے ) ہیں کہ جو تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور (اللہ) غالب، سزاوارِ تعریف کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی اس واسطے قیامت آنی ہے کہ جن لوگوں کو یقین تھا کہ انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے اور آنکھوں سے دیکھ لیں کہ قرآن کی خبریں مو بمو صحیح و درست ہیں اور بیشک قرآن ہی وہ کتاب ہے جو اس زبردست خوبیوں والے خدا تک پہنچنے کا ٹھیک راستہ بتاتی ہے۔ بعض مفسرین نے ”ویری الذین”الخ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ”وَالَّذِيْنَ سَعَوْ فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ” کے برخلاف جو اہل علم ہیں (خواہ مسلمان یا اہل کتاب) وہ جانتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ قیامت وغیرہ کے متعلق قرآن کریم کا بیان بالکل صحیح ہے اور وہ آدمی کو وصولی الیٰ اللہ کے ٹھیک راستہ پر لے جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کافر کہتے ہیں کیا تمہیں ایسے آدمی کا (پتہ) بتائیں جو تمہیں خبر دیتا ہے کہ جب تم پوری طرح ریزہ   ریزہ ہو جاؤ گے ، تو بیشک تم نئی زندگی میں (آؤ گے )۔ (۷)

اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے یا اسے جنون (ہے ) ، (نہیں) بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ عذاب اور دور کی (شدید) گمراہی میں ہیں۔ (۸)

تشریح: کفار قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ گستاخی کرتے تھے۔ یعنی آؤ تمہیں ایک شخص دکھلائیں جو کہتا ہے کہ تم گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر جب خاک میں مل جاؤ گے ، پھر تم کو ازسر نو بھلا چنگا بنا کر کھڑا کر دیا جائے گا۔ بھلا ایسی مہمل بات کون قبول کر سکتا ہے۔ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو یہ شخص جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ لگاتا ہے کہ اس نے ایسی خبر دی۔ نہیں تو سودائی ہے۔ دماغ ٹھکانے نہیں دیوانوں کی سی بے تکی باتیں کرتا ہے۔ (العیاذ باللہ)

بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ :یعنی نہ جھوٹ ہے نہ جنون۔ البتہ یہ لوگ عقل و دانش اور صدق و صواب کے راستہ سے بھٹک کر بہت دور جا پڑے ہیں۔ اور بیہودہ بکواس کر کے اپنے کو آفت میں پھنسا رہے ہیں۔ فی الحقیقت یہ بڑا عذاب ہے کہ آدمی کا دماغ اس قدر مختل ہو جائے کہ وہ خدا کے پیغمبروں کو مفتری یا مجنون کہنے لگے۔ (العیاذ باللہ)۔

(تفسیر عثمانی)

 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا؟اس کی طرف جو ان کے آگے اور ان کے پیچھے ہے ، یعنی آسمان اور زمین، اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں، یا ان پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیں، بیشک اس میں نشانی ہے ہر رجوع کرنے والے بندہ کے لئے۔ (۹)

تشریح: یعنی کیا یہ لوگ اندھے ہو گئے ہیں کہ آسمان و زمین بھی نظر نہیں آتے جو آگے پیچھے ہر طرف نظر ڈالنے سے نظر آسکتے ہیں۔ ان کو تو وہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ نے بنایا ہے پھر جس نے بنایا اسے توڑنا کیا مشکل ہے اور جو ایسے عظیم الشان اجسام کو بنا سکتا اور توڑ پھوڑ سکتا ہے اسے انسانی جسم کا بگاڑ دینا اور بنانا کیا مشکل ہو گا۔ یہ لوگ ڈرتے نہیں کہ اسی کے آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر رہ کر ایسے گستاخانہ کلمات زبان سے نکالیں۔ حالانکہ خدا چاہے تو ابھی ان کو زمین میں دھنسا کر یا آسمان سے ایک ٹکڑا گرا کر نیست و نابود کر دے اور قیامت کا چھوٹا سا نمونہ دکھلا دے۔

جو بندے عقل و انصاف سے کام لے کر اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں، اسی آسمان و زمین میں ان کے لیے بڑی بھاری نشانی موجود ہے وہ اس منظم اور پر حکمت نظام کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ضرور یہ ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والا ہے جس کا نام ”دار الآخرت” ہے۔ یہ تصور کر کے وہ بیش از بیش اپنے مالک و خالق کی طرف جھکتے ہیں اور جو آسمانی و زمینی نعمتیں ان کو پہنچتی ہیں، تہ دل سے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں، ان میں سے بعض بندوں کا ذکر آگے آتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کرو اے پرندو (تم بھی) ، اور ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ (۱۰)

تشریح: حضرت داؤد علیہ السلام خود بھی بہت خوش آواز تھے ، اور اللہ تعالی نے پہاڑوں اور پرندوں کو بھی ان کے لئے مسخر کر دیا تھا کہ جب وہ ذکر اور تسبیح میں مشغول ہوں تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیحْ اور ذکر کرنے لگتے تھے ، اور ماحول میں ایک پر کیف سماں بندھ جاتا تھا، پہاڑوں اور پرندوں کو ذکر وتسبیح کی صلاحیت عطا ہونا حضرت داؤد علیہ السلام کا خاص معجزہ تھا۔

(توضیح القرآن)

 

کہ کشادہ زرہیں بناؤ، اور کڑیوں کے جوڑنے میں اندازہ رکھو، اور اچھے عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو بیشک میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ (۱۱)

تشریح: یہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ایک اور معجزے کا بیان ہے ، اللہ تعالی نے ان کو لوہے کی وہ زرہیں بنانے کی خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی، جو اس زمانے میں جنگ کے موقع پر دشمن کے وار سے بچاؤ کے لئے پہنی جاتی تھیں، اس صنعت کے لئے اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ خصوصیت عطا فرما دی تھی کہ لوہا ان کے ہاتھ میں پہنچ کر نرم ہو جاتا تھا، اور وہ اسے جس طرح چاہتے موڑ لیتے تھے ، اللہ تعالی نے اس آیت میں اس بات کا بھی خاص ذکر فرمایا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ زرہ اور کڑیوں میں توازن قائم رکھیں، اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالی کو ہر کام اور  ہر صنعت میں سلیقے اور توازن کا خیال رکھنا پسند ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور سلیمان کے لئے ہوا (کو مسخر) کیا اور اس کی صبح کی منزل ایک ماہ (کی راہ ہوتی) اور شام کی منزل ایک ماہ (کی راہ) اور ہم نے اس کے لئے تانبے کا چشمہ بہایا، اور جنات میں سے (بعض) اس کے سامنے کام کرتے تھے ، اس کے رب کے حکم سے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرے گا ہم اسے دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (۱۲)

تشریح: وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ: یہ وہ معجزہ ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا ہوا تھا، اللہ تعالی نے ہوا کو ان کا تابع فرمان بنا دیا تھا، وہ ہوا کی تیز رفتاری کو استعمال فرما کر دور دراز کا سفر مختصر وقت میں طے کر لیتے تھے ، قرآن کریم نے اس معجزے کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تخت کو ہوا پر اڑنے کی صلاحیت دے دی گئی تھی، چنانچہ جو سفر عام حالات میں ایک مہینے میں طے ہوا کرتا تھا وہ اس طرح صرف صبح یا صرف شام میں طے ہو جایا کرتا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

وَّأَسَلْنَا لَہٗ عَيْنَ الْقِطْرِ :یہ ایک اور نعمت کا ذکر ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی کہ تانبے کا ایک چشمہ ان کی دسترس میں تھا، اور اس میں اللہ تعالی نے تانبے کو سیال بنا دیا تھا جس کی وجہ سے تانبے کی مصنوعات آسانی سے بن جاتی تھیں۔

(توضیح القرآن)

 

وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْہِ بِإِذْنِ رَبِّہٖ:وہ شریر جنات جو کسی کے قابو میں نہیں آتے تھے ، اللہ تعالی نے ان کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع بنا دیا تھا، چنانچہ وہ ان کی مختلف خدمات انجام دیتے تھے جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آ رہا ہے ، یہاں یہ واضح رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تو جنات کو اللہ تعالی نے خود تابع بنا دیا تھا، لیکن آج کل جو لوگ عملیات کے ذریعے جنات کو تابع بنانے کا دعوی کرتے ہیں اگر وہ صحیح ہو اور اس کے لئے کوئی نا جائز طریقہ بھی اختیار نہ کرنا پڑے تو وہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب اس کا مقصد شریر جنات کی تکلیف سے بچنا ہو، ورنہ کسی آزاد بے ضرر جن کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہ (جنات) جو وہ (سلیمان) چاہتے وہ اس کے لئے قلعے بناتے ، اور تصویریں اور حوض جیسے لگن، اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں، اے خاندانِ داؤد ! تم شکر بجا لا کر عمل کرو، اور میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہیں۔ (۱۳)

تشریح: وَتَمَاثِيْلَ :ظاہر یہ ہے کہ تصویریں بے جان چیزوں کی ہوتی تھیں، جیسے درختوں اور عمارتوں وغیرہ کی، اس لئے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ جانداروں کی تصویریں بنانا حضرت سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں بھی نا جائز تھا۔

(توضیح القرآن)

 

اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوُوْدَ شُكْرًا :ان عظیم الشان انعامات و احسانات کا شکر ادا کرتے رہو، محض زبان سے نہیں بلکہ عمل سے وہ کام کرو جن سے حق تعالیٰ کی شکر گزاری ٹپکتی ہو۔ بات یہ ہے کہ احسان تو خدا کم و بیش سب پر کرتا ہے لیکن پورے شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں، جب تھوڑے ہیں تو قدر زیادہ ہو گی۔ لہٰذا کامل شکر گزار بن کر اپنی قدر و منزلت بڑھاؤ۔ یہ خطاب داؤد کے کنبے اور گھرانے کو ہے ، کیونکہ علاوہ مستقل احسانات کے داؤد پر احسان من وجہ سب پر احسان۔ کہتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام نے تمام گھر والوں پر اوقات تقسیم کر دیئے تھے۔ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہ تھا جب ان کے گھر میں کوئی نہ کوئی شخص عبادت الٰہی میں مشغول نہ رہتا ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب ہم نے اس کی موت کا حکم جاری کیا، انہیں (جنوں کو) اس کی موت کا پتہ نہ دیا، مگر گھن کی طرح کیڑے (دیمک) نے ، وہ اس کا عصا کھاتا تھا، پھر جب وہ گر پڑا تو جنوں پر حقیقت کھلی، اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو وہ نہ رہتے ذلت کے عذاب میں۔ (۱۴)

تشریح: حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر پر جنات کو مقرر کیا ہوا تھا یہ جنات طبعی طور پر سرکش تھے اور صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کی نگرانی میں کام کرتے تھے ، اور اندیشہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد وہ کام کرنا چھوڑ دیں گے ، اس لئے جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنات کی نگاہوں کے سامنے ایک عصا کے سہارے اپنی عبادت گاہ میں کھڑے ہو گئے ، جو شفاف شیشے کی بنی ہوئی تھی، تاکہ جنات انہیں دیکھتے رہیں، اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی، لیکن اللہ تعالی نے ان کے جسم کو عصا کے سہارے کھڑا رکھا، اور جنات یہ سمجھتے رہے کہ وہ زندہ ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے تعمیر کا کام مکمل کر لیا، پھر اللہ تعالی نے اس عصا پر دیمک مسلط فرما دی جس نے عصا کو کھانا شروع کیا، عصا کمزور پڑ گیا، اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسم گر پڑا، اس وقت جنات کو احساس ہوا کہ وہ اپنے آپ کو جو عالم الغیب سمجھتے تھے وہ کتنی غلط بات تھی اگر انہیں غیب کا پتہ ہوتا تو وہ اتنے دن تک غلط فہمی میں مبتلا رہ کر تعمیر کے کام کی تکلیف نہ اٹھاتے۔

(توضیح القرآن)

 

البتہ قوم سبا کے لئے ان کی آبادی میں نشانی تھی، دو باغ دائیں اور بائیں (ہم نے کہہ دیا کہ) اپنے پروردگار کے رزق سے کھاؤ، اور اس کا شکر ادا کرو، شہر ہے پاکیزہ، اور پروردگار ہے بخشنے والا۔ (۱۵)

پھر انہوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے ان پر (بند توڑ کر) زور کا سیلاب بھیجا اور دو باغوں کے بدلے (اور ) دو باغ دئیے ، بد مزہ میوہ والے اور کچھ جھاڑ، اور تھوڑی سی بیریاں۔ (۱۶)

یہ ہم نے انہیں سزا دی اس لئے کہ انہوں نے ناشکری کی اور ہم صرف ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔ (۱۷)

تشریح: قوم سبا یمن میں آباد تھی اور کسی زمانے میں وہ اپنے تہذیب و تمدن میں ممتاز حیثیت رکھتی تھی، جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ، ان کی زمینیں بڑی زرخیز تھیں، ان کی سڑکوں کے دونوں طرف پھل دار باغات کے سلسلے دور تک چلے گئے تھے ، خوشحالی بھی میسر تھی، اور سیاسی استحکام بھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ لوگ اپنی عیاشیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ اللہ تعالی اور اس کے احکام کو بھول بیٹھے اور شرک کو اپنا مذہب بنا لیا، اللہ تعالی نے ان کے پاس کئی پیغمبر بھیجے ، حافظ ابن کثیر کے بیان کے مطابق ان کے پاس یکے بعد دیگرے تیرہ پیغمبر بھیجے گئے ، جنہوں نے اس قوم کو ہر طرح سمجھانے اور  راہِ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر یہ نہ مانے ، آخر کار ان پر جو عذاب آیا وہ یہ تھا کہ مآرب کے مقام پر ایک بند تھا جس کے پانی سے ان کی زمینیں سیراب ہوتی تھیں، اللہ تعالی نے وہ بند توڑ دیا اور اس طرح پوری بستی کو سیلاب نے گھیر لیا اور سارے باغات تباہ ہو گئے۔

( توضیح القرآن)

 

اور ہم نے آباد کر دیں ان کے درمیان اور (شام) کی ان بستیوں کے درمیان جنہیں ہم نے برکت دی ہے ، ایک دوسرے سے متصل بستیاں، اور ہم نے ان میں آمد و رفت مقرر کر دی، تم ان میں چلو پھرو، راتوں اور دنوں میں بے خوف و خطر۔ (۱۸)

تشریح: اس سے مراد شام اور فلسطین کے علاقے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ان علاقوں کو ظاہری حسن اور شادابی سے بھی نوازا ہے اور انبیاء کرام کی سر زمین   ہونے کا بھی شرف عطا فرمایا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہ کہنے لگے اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے ، اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں بنا دیا افسانے ، اور ہم نے انہیں پوری پوری طرح پراگندہ کر دیا، بیشک اس میں ہر بڑے صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۹)

تشریح: یہ اللہ تعالی کے ایک اور انعام کا ذکر ہے جو سبا کی قوم پر فرمایا گیا تھا، یہ لوگ تجارتی مقاصد کے لئے یمن سے شام کا سفر کیا کرتے تھے ، اللہ تعالی نے ان کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ یمن سے لے کر شام تک کے پورے علاقے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بستیاں بسائی تھیں، جو سفرکے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے سے نظر آتی رہتی تھیں، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ سفر کو آسان مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا اور مسافر جہاں چاہے کھانے پینے اور سونے کے لئے ٹھہر سکتا تھا، اور دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اس طرح بستیوں کے تسلسل کی وجہ سے نہ چوری ڈاکے کا خطرہ تھا، نہ راستہ بھٹک جانے کا، نہ کھانے پینے کے سامان کے ختم ہو جانے کا ،لیکن بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس نعمت کی قدر پہچان کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ، انہوں نے الٹا اللہ تعالی سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بستیوں کے اس تسلسل کی وجہ سے ہمیں سفر کی مہم جوئی کا مزہ ہی نہیں آتا، اس لئے یہ بستیاں ختم کر کے منزلوں کا فاصلہ بڑھا دیجئے ، تاکہ صحراؤں اور جنگلوں میں سفر کرنے کا لطف آئے۔

(توضیح القرآن)

 

فَجَعَلْنَاہُمْ أَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنَاہُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ :یعنی ہم نے شیرازہ بکھیر دیا اور ان کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ اکثر خاندان ادھر ادھر منتشر ہو گئے کوئی ایک طرف کوئی دوسری طرف نکل گیا۔ آبادیوں کے نام و نشان حرف غلط کی طرح مٹ گئے۔ اب ان کی صرف کہانیاں باقی رہ گئیں کہ لوگ سنیں اور عبرت پکڑیں۔ ان کا وہ عظیم الشان تمدن اور شان و شکوہ سب خاک میں مل گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ :یعنی ان حالات کو سن کر چاہیے عقلمند عبرت حاصل کریں جب اللہ فراخی اور عیش دے خوب شکر ادا کرتے رہیں اور تکلیف و مصیبت آئے تو صبر و تحمل اختیار کر کے اللہ سے مدد مانگیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا، پس مؤمنوں کے ایک گروہ کے سوا انہوں نے اس کی پیروی کی۔ (۲۰)

تشریح: یعنی ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت جو خیال ظاہر کیا تھا کہ میں آدم علیہ السلام کی اولاد کو بہکاؤں گا، ان سرکش لوگوں کے حق میں وہ واقعی درست نکلا کہ انہوں نے اس کی بات مان لی۔

(توضیح القرآن)

 

اور ابلیس کو ان پر کوئی غلبہ نہ تھا مگر (ہم چاہتے تھے ) کہ جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس سے (جدا کر کے ) معلوم کر لیں جو اس (کے بارے میں) شک میں ہے ، اور تیرا رب ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی شیطان کو ہم نے کوئی ایسی طاقت نہیں دی تھی کہ وہ انسانوں پر زبردستی مسلط ہو کر ان کو نافرمانی پر مجبور کر دے ، البتہ اسے صرف بہکانے کی صلاحیت دی تھی، جس سے دل میں گناہ کی خواہش ضرور پیدا ہو جاتی ہے ، مگر کوئی شخص گناہ اور نافرمانی پر مجبور نہیں ہوتا، اور اگر کوئی شخص عقل اور شریعت کے مطالبے پر ڈٹ جائے تو شیطان کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ صلاحیت بھی اس کو اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ کون ہے جو آخرت کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر شیطان کی بات رد کر دیتا ہے اور کون اسے مان لیتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں انہیں پکارو جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) گمان کرتے ہو، وہ (تو) ایک ذرہ کے برابر بھی مالک نہیں (اختیار نہیں رکھتے ) آسمانوں میں اور نہ زمین میں، اور نہ ان میں (آسمان و زمین میں) ان کا کوئی ساجھا ہے ، اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ (۲۲)

اور شفاعت (سفارش) نفع نہیں دیتی اس کے پاس سوائے اس کے جسے وہ اجازت دیدے ، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے (گھبراہٹ) دور کر دی جاتی ہے تو کہتے ہیں کیا کہا ہے تمہارے رب نے ، وہ (فرشتے ) کہتے ہیں حق (فرمایا ہے ) ، اور وہ بلند مرتبہ بزرگ قدر ہے۔ (۲۳)

تشریح: آیت نمبر:۲۲۔ ۲۳ میں مشرکین کے مختلف عقیدوں کی تردید کی گئی ہے ، ان میں سے بعض مشرکین تو وہ تھے کہ وہ اپنے تراشے ہوئے بتوں ہی کو اپنا خدا مانتے تھے ، اور انہی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ براہِ راست ہماری حاجتیں پوری کرتے ہیں، ان کی تردید کے لئے آیت ۲۲ میں فرمایا گیا ہے کہ: وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ ان کو آسمان و زمین کے معاملات میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت حاصل ہے ، اور بعض مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ بت اللہ تعالی کے کاموں میں اس کے مددگار ہیں، ان کی تردید کے لئے اسی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ: اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ، اور بعض مشرکین ان کو خدائی میں اللہ تعالی کا شریک یا مددگار نہیں مانتے تھے ، لیکن یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور ہماری سفارش کریں گے ، ان کی تردید کے لئے آیت ۲۳ میں فرمایا گیا ہے کہ: اور اللہ کے سامنے کوئی سفارش کارآمد نہیں ہے ، سوائے اس شخص کے جس کے لئے خود اس نے (سفارش کی) اجازت دے دی ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ ان کو اللہ تعالی کے یہاں تقرب اور مقبولیت حاصل ہے ، جس کی وجہ سے ان کو سفارش کرنے کی صلاحیت ہے ، کیونکہ جن کو واقعی اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہے یعنی فرشتے وہ بھی اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے ، پھر آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ ان فرشتوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالی کے رعب سے سہمے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب انہیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی حکم ملتا ہے یا سفارش کی اجازت ملتی ہے تو وہ رعب کے مارے گھبراہٹ میں مدہوش جیسے ہو جاتے ہیں، پھر جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کیا فرمایا؟ اس کے بعد اس پر عمل کرتے ہیں، جب ان مقرب فرشتوں کا یہ حال ہے تو یہ تراشے ہوئے بت جنہیں کسی قسم کا تقرب حاصل نہیں وہ کیسے اللہ تعالی سے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں؟

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں کون تمہیں روزی دیتا ہے آسمانوں سے اور زمین سے ، فرما دیں، اللہ، بیشک ہم یا تم ہی (دونوں میں سے ایک) البتہ ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں ہے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی آسمان و زمین سے روزی کے سامان بہم پہنچانا صرف اللہ کے قبضہ میں ہے ، اس کا اقرار مشرکین بھی کرتے تھے ، لہٰذا آپ بتلا دیں کہ یہ تم کو بھی مسلم ہے پھر الوہیت میں دوسرے شریک کہاں سے ہو گئے۔

دونوں فرقے تو سچ نہیں کہتے (ورنہ اجتماع نقیضین لازم آ جائے ) یقیناً دونوں میں ایک سچا اور ایک جھوٹا ہے تو لازم ہے کہ سوچو اور غور کر کے سچی بات قبول کرو۔ اس میں ان کا جواب ہے جو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میاں! دونوں فرقے ہمیشہ سے چلے آئے ہیں کیا ضروری ہے جھگڑنا۔ تو بتلا دیا کہ ایک یقیناً خطا کار اور گمراہ ہے۔ باقی تعیین نہ کرنے میں حکیمانہ حسن خطاب ہے یعنی لو ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ بہرحال ایک تو یقیناً غلطی پر ہو گا۔ اب اوپر کے دلائل سن کر تم ہی خود فیصلہ کر لو کہ کون غلطی پر ہے۔ گویا مخالف کو نرمی سے بات کر کے اپنے نفس میں غور کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں (اگر ہم مجرم ہیں تو) تم سے اس گناہ کی بابت نہ پوچھا جائے گا جو ہم نے کیا، نہ ہم سے اس کی بابت پوچھا جائے گا جو تم کرتے ہو۔ (۲۵)

فرما دیں ہم سب کو جمع کرے گا ہمارا رب، پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا، اور وہ فیصلہ کرنے والا جاننے والا ہے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی ہر ایک کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے۔ کوئی شخص دوسرے کے قصور اور غلطی کا جواب دہ نہ ہو گا اگر اتنی صاف باتیں سننے کے بعد بھی تم اپنی حالت میں غور کرنے کے لیے تیار نہیں تو یاد رکھو ہم حجت تمام کر چکے۔ اور کلمہ حق پہنچا چکے۔ اب تم اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہو گے ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ نہ ایسی حالت میں ہمارا تمہارا کوئی واسطہ۔ خدا کے یہاں حاضر ہونے کے لیے ہر ایک اپنی اپنی فکر کر رکھے۔ وہ سب کو اکٹھا کر کے ٹھیک ٹھیک انصاف کا فیصلہ کر دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں مجھے دکھاؤ جنہیں تم نے ساتھ ملایا ہے ، اس کے ساتھ شریک (ٹھہرا کر) ہر گز نہیں بلکہ اللہ ہی غالب، حکمت والا ہے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی ذرا سامنے تو کرو کون سی ہستی ہے جو اس کی خدائی میں ساجھا رکھتی ہے ؟ ہم بھی تو دیکھیں کہ اس کے کیا کچھ اختیارات ہیں۔ کیا ان پتھر کی بیجان اور خود تراشیدہ مورتوں کو پیش کرو گے۔

ہرگز تم ایسی کوئی ہستی پیش نہیں کر سکتے۔ وہ تو اکیلا ایک ہی خدا ہے جو زبردست، غالب و قاہر اور اعلیٰ درجہ کی حکمت و دانائی رکھنے والا ہے۔ سب اس کے سامنے مغلوب و مقہور ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے آپ کو بھیجا ہے تمام نوع انسانی کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۲۸)

تشریح: یہ توحید کے ساتھ رسالت کا ذکر کر دیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض یہ ہی ہے کہ نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا کے لوگوں کو ان کے نیک و بد سے آگاہ کر دیں سو کر دیا۔ جو نہیں سمجھتے وہ جانیں۔ سمجھدار آدمی تو اپنے نفع نقصان کو سوچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ضرور مانیں گے۔ ہاں دنیا میں کثرت جاہلوں اور ناسمجھوں کی ہے۔ ان کے دماغوں میں کہاں گنجائش ہے کہ کار آمد باتوں کی قدر کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے ہیں یہ وعدۂ قیامت کب (آئے گا) اگر تم سچے ہو۔ (۲۹)

تشریح: یعنی جس گھڑی سے ڈراتے ہو وہ کب آئے گی۔ اگر سچے ہو تو جلدی لا کر دکھلا دو۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں تمہارے لئے وعدہ کا ایک دن (معین) ہے ، اس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ تم آگے بڑھ سکتے ہو۔ (۳۰)

تشریح: یعنی گھبراؤ نہیں۔ جس دن کا وعدہ ہے ضرور آ کر رہے گا۔ جب آئے گا تو ایک منٹ کی مہلت نہ ملے گی۔ جلدی مچانے کے بجائے اس کی ضرورت ہے کہ اس وقت کے آنے سے پہلے کچھ تیاری کر رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

۳۱ تا ۳۶؟؟

 

اور نہیں تمہارے مال اور اولاد، (ایسے ) کہ تمہیں درجہ میں ہمارے نزدیک کر دیں، مگر جو ایمان لایا، اور اس نے اچھے عمل کئے تو ان ہی لوگوں کے لئے دوگنی جزا ہے اس کے بدلے جو انہوں نے کیا اور وہ بالاخانوں میں اطمینان سے ہوں گے۔ (۳۷)

تشریح: یعنی مال و اولاد کی کثرت نہ قرب الٰہی کی علامت ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں گزرا ہے۔ اور نہ قرب حاصل کرنے کا سبب ہے۔ بلکہ اس کے برعکس کافر کے حق میں زیادت بُعد کا سبب بن جاتا ہے۔ ہاں مومن اگر مال و دولت کو وجوہ خیر میں صرف کرے اور اولاد کو بہترین تعلیم و تربیت دلا کر نیک  اور شائستہ بنائے ، ایسا مال و اولاد ایک درجہ میں قرب الٰہی کا سبب بنتا ہے۔ بہرحال وہاں مال و اولاد کی پوچھ نہیں۔ محض ایمان و عمل صالح کی پرستش ہے۔

فَأُوْلٰٓئِکَ لَہُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا: یعنی کام پر جتنے اجر کا استحقاق ہے اس سے زائد بدلہ ملے گا۔ کم از کم دس گنا اور زیادہ ہو تو سات سو گنا، بلکہ اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ جس کی کوئی حد نہیں۔ واللہ یضاعف لمن یشاءُ (بقرہ، رکوع٣٦) یہاں ضعف سے مطلقاً زیادت مراد ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کرتے ہیں، یہی لوگ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے۔ (۳۸)

تشریح: یعنی جو بدبخت اللہ کی آیات کو رد کرتے اور ان پر طعن کر کے لوگوں کو ادھر سے روکتے ہیں گویا سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہرا دیں گے۔ وہ سب عذاب میں گرفتار ہو کر حاضر کیے جائیں گے ایک بھی چھوٹ کر نہ بھاگ سکے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق وسیع فرماتا ہے ، (اور جس کے لئے چاہے) تنگ کر دیتا ہے ، اور کوئی شے جو تم خرچ کرو گے تو وہ اس کا عوض دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (۳۹)

تشریح: یہ مسلمانوں کو سنایا کہ تم وجوہِ خیر میں خرچ کرتے وقت تنگی اور افلاس سے نہ ڈرنا۔ خرچ کرنے سے رزق کم نہیں ہو جاتا جو مقدر ہے پہنچ کر رہے گا۔ اللہ اپنی حکمت سے جس کو جتنا دینا چاہے اس میں تمہارے خرچ کرنے نہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا ، بلکہ وجوہ خیر میں خرچ کرنے سے برکت ہوتی ہے اور حق تعالیٰ اس کا عوض دیتا ہے ، خواہ مال کی صورت میں یا قناعت و غنائے قلبی کی شکل میں، اور آخرت میں بدلہ ملنا تو یقینی ہے۔ غرض اس کے ہاں کچھ کمی نہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھے اور اس کی مرضی کے سامنے فقر و فاقہ کا اندیشہ دل میں نہ لائے۔ ”ولا تخش من ذی العرش اقلالا” (تنبیہ) آیت میں گویا اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ جس طرح دنیا میں تنگی اور فراخی کے اعتبار سے لوگوں کا حال متفاوت ہے ، آخرت میں بھی باعتبار مراتب ثواب و عذاب کے ایسا ہی تفاوت ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن وہ جمع کرے گا، ان سب کو، پھر فرشتوں سے فرمائے گا، کیا یہ لوگ تمہاری ہی پرستش کرتے تھے ؟ (۴۰)

تشریح: بہت مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ بہت ان کے ہیاکل بنا کر پرستش کرتے تھے ،بلکہ بعض نے لکھا ہے کہ اصنام پرستی کی ابتداء ملائکہ پرستی ہی سے ہوئی۔ اور عمرو بن لحی یہ رسم قبیح شام سے حجاز میں لایا۔ بہرحال قیامت کے دن کفار کو سنا کر فرشتوں سے سوال کریں گے کہ کیا یہ لوگ تم کو پوجتے تھے ؟ شاید یہ مطلب ہو کہ تم نے تو ان سے ایسا نہیں کہا۔ یا تم ان کے فعل سے خوش تو نہیں ہوئے۔ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال ہو گا۔ ”ءَ انت قلت للناس اتجذونی وامی الہین من دون اللہ” (مائدہ، رکوع١٦) اور سورہ فرقان میں ہے ”ءَ انتم اضللتم عبادی ہولاءِ” (فرقان، رکوع٢)۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہمارا کار ساز ہے ، نہ کہ وہ، بلکہ وہ جنوں کی پرستش کرتے تھے ، ان میں سے اکثر ان پر اعتقاد رکھتے تھے۔ (۴۱)

تشریح: یعنی آپ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی کسی درجہ میں اس کا شریک ہو۔ (العیاذ باللہ) ہم کیوں ان کو ایسی بات کہنے لگے تھے یا ایسی واہیات حرکت سے خوش ہوتے۔ ہماری رضا تو آپ کی رضا کے تابع ہے۔ ہم کو ان مجرموں سے کیا واسطہ ہم تو آپ کے فرمانبردار غلام ہیں پھر یہ بدبخت تو حقیقت میں ہماری پرستش بھی نہیں کرتے تھے۔ نام ہمارا لے کر شیطانوں کی پرستش تھی، فی الحقیقت ان کی عقیدت مندی ان ہی کے ساتھ ہے شیاطین ان کو جس طرف ہانکتے ہیں ادھر ہی مڑ جاتے ہیں خواہ فرشتوں کا نام لے کر یا کسی نبی اور ولی کا۔ بلکہ بعض تو اعلانیہ شیطان ہی کو پوجتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کسی جگہ غالبا سورہ ”انعام” میں ہم مفصل لکھ چکے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے نہ نفع کا اختیار رکھتا ہے ، اور نہ نقصان کا، اور ہم ان لوگوں کو کہیں گے جنہوں نے ظلم (شرک) کیا تم جہنم کے عذاب (کا مزہ) چکھو جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی آج عابد اور معبود دونوں کا عجز واضح ہو گیا کہ کوئی کسی کو ذرہ بھر نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جن معبودین کا بڑا سہارا سمجھتے تھے انہوں نے اس طرح وقت پر بیزاری ظاہر کر دی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان پر پڑھی جاتی ہیں ہماری واضح آیات تو وہ کہتے ہیں یہ تو صرف (تم جیسا) آدمی ہے ، چاہتا کہ تمہیں ان سے روکے جن کی پرستش تمہارے باپ دادا کرتے تھے ، اور وہ کہتے ہیں یہ (قرآن) نہیں ہے مگر گھڑا ہوا جھوٹ، اور کافروں نے حق کے بارے میں کہا جب وہ ان کے پاس آیا :کہ یہ نہیں مگر کھلا جادو۔ (۴۳)

تشریح: یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ یہ شخص نبی رسول کچھ نہیں۔ بس اتنی غرض ہے کہ ہمارے باپ داداؤں کا طریقہ چھڑا کر (جس کو ہم قدیم سے حق جانتے چلے آئے ہیں) اپنے ڈھب پے لے آئے اور خود حاکم و متبوع بن کر بیٹھ جائے۔ گویا صرف حکومت و ریاست مطلوب ہے۔ (العیاذ باللہ)

قرآن کیا ہے (العیاذ باللہ) چند جھوٹی باتیں جو خدا کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ یعنی یہ نبوت کا دعویٰ جس کے ساتھ چند معجزات و خوارق کی نمائش کی گئی ہے یا مذہب اسلام جس نے آخر میاں کو بیوی سے اور باپ کو بیٹے سے جدا کر دیا ہے۔ یا قرآن جس کی تاثیر لوگوں کے دلوں پر غیر معمولی ہوتی ہے ، صریح جادو کے سوا اور کچھ نہیں (العیاذ باللہ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے انہیں (مشرکین عرب کو) کتابیں نہیں دیں کہ وہ انہیں پڑھتے ہوں، اور نہ آپ سے پہلے ان کی طرف کوئی ڈرانے والا بھیجا۔ (۴۴)

تشریح: یعنی محض امی تھے نہ کوئی کتاب سماوی ان کے ہاتھ میں تھی نہ اتنی مدت دراز سے کوئی نبی ان میں آیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم الشان پیغمبر اور ایسی جلیل القدر کتاب مرحمت فرمائی۔ چاہیے کہ اسے غنیمت جانیں اور انعام الٰہی کی قدر کریں۔ خصوصاً جبکہ پہلے سے خود کہا بھی کرتے تھے کہ اگر ہم میں کوئی پیغمبر آیا یا کوئی کتاب ہم پر اتاری جاتی تو اوروں سے بڑھ کر ہم فرمانبردار ہوتے۔ اب وہ چیز آئی تو لگے انکار و استکبار کرنے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے ان کے پاس کوئی کتاب یا ہادی ایسا نہیں بھیجا جو آپ کی تعلیم کے خلاف تعلیم دیتا ہو۔ پھر کس دلیل نقلی یا عقلی کی بناء پر یہ لوگ آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا، اور یہ (مشرکینِ عرب) اس کے دسویں حصے کو (بھی) نہ پہنچے جو ہم نے انہیں دیا تھا، سوانہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا، تو کیسا ہوا میرا عذاب۔ (۴۵)

تشریح: یعنی جیسی لمبی عمریں، جسمانی قوتیں، مال و دولت اور عیش و ترفہ ان کو دیا گیا تمہیں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ جب انہوں نے پیغمبروں کی تکذیب و مخالفت کی، دیکھ لو! کیا انجام ہوا، سب سازو سامان دھرا رہ گیا۔ ایک منٹ بھی عذاب الٰہی کو روک نہ سکے۔ پھر تم اتنا کا ہے پر اتراتے ہو؟

(تفسیرعثمانی)

 

فرما دیں میں تمہیں صرف نصیحت کرتا ہوں ایک بات کی کہ تم اللہ کے واسطے کھڑے ہو جاؤ دو دو اور اکیلے اکیلے پھر تم غور کرو تمہارے اس ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے ، وہ تو صرف سخت عذاب آنے سے پہلے تمہیں ڈرانے والے ہیں۔ (۴۶)

تشریح: یعنی تعصب و عناد چھوڑ کر انصاف و اخلاص کے ساتھ اللہ کے نام پر اٹھ کھڑے ہو۔ اور کئی کئی مل کر بحث و مشورہ کر لو اور الگ الگ تنہائی میں غور کر کے سوچو کہ یہ تمہارا رفیق (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) جو چالیس برس سے زیادہ تمہاری آنکھوں کے سامنے رہا جس کے بچپن سے لے کر کہولت تک کے ذرہ ذرہ حالات تم نے دیکھے جس کی امانت و دیانت، صدق و عفاف اور فہم و دانش کے تم برابر قائم رہے۔ کبھی کسی معاملہ میں نفسانیت یا غرض پرستی کا الزام تم نے اس پر نہیں رکھا۔ کیا تم واقعی گمان کر سکتے ہو کہ العیاذ باللہ اسے بیٹھے بٹھائے جنون ہو گیا ہے جو خواہ مخواہ اس نے ایک طرف سے سب کو دشمن بنا لیا۔ کیا کہیں دیوانے ایسی حکمت کی باتیں کیا کرتے ہیں یا کوئی مجنون اپنی قوم کی اس قدر خیر خواہی اور ان کی اخروی فلاح اور دنیاوی ترقی کا اتنا زبردست لائحہ عمل پیش کر سکتا ہے۔ وہ تم کو سخت مہلک خطرناک اور تباہی انگیز مستقبل سے آگاہ کر رہا ہے ، قوموں کی تاریخیں سناتا ہے ، دلائل و شواہد سے تمہارا بھلا برا سمجھتا ہے یہ کام دیوانوں کے نہیں، ان اولوالعزم پیغمبروں کے ہوتے ہیں جنہیں احمقوں اور شریروں نے ہمیشہ دیوانہ کہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں میں نے تم سے جو مانگا ہو کوئی اجر تو وہ تمہارا ہے ، میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے ، اور وہ ہر شے کی اطلاع رکھنے والا ہے۔ (۴۷)

تشریح: یعنی میں تم سے اپنی محنت کا کچھ صلہ نہیں چاہتا اگر تمہارے خیال میں کچھ معاوضہ طلب کیا ہو وہ سب تم اپنے پاس رکھو مجھے ضرورت نہیں میرا صلہ تو خدا کے یہاں ہے۔ تم سے جو چیز طلب کرتا ہوں یعنی ایمان و اسلام وہ صرف تمہارے نفع کی خاطر۔ اس سے زائد میری کوئی غرض نہیں۔ میری سچائی اور نیت اللہ کے سامنے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بیشک میرا رب اوپر سے حق اتارتا ہے ، اور سب غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ (۴۸)

تشریح: یعنی اوپر سے وحی اتر رہی اور دین کی بارش ہو رہی ہے۔ موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو، اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ جس زور سے اللہ تعالیٰ حق کو باطل کے سر پر پھینک کر مار رہا ہے اس سے اندازہ کرو کہ باطل کہاں ٹھہر سکے گا، ضرور علام الغیوب نے خوب دیکھ بھال کر عین موقع پر حق کو باطل کا سر کچلنے کے لیے بھیجا ہے۔ ”بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ہو زاہق۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں حق آ گیا، اور نہ پیدا کرے گا باطل (کسی چیز کو) اور نہ لوٹائے گا۔ (۴۹)

تشریح: یعنی دین حق آ پہنچا اب اس کا زور رکنے والا نہیں۔ سب پر غالب ہو کر اور باطل کو زیر کر کے رہے گا جھوٹ کے پاؤں کہاں جو حق کے سامنے چل سکے۔ وہ تو اب کرنے کا نہ دھرنے کا سمجھ لو آیا گیا ہوا۔ فتح مکہ کے دن یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر تھی۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اگر میں بہکا ہوں تو اس کے سوا نہیں کہ اپنے نقصان کو بہکا ہوں، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی بدولت ہوں کہ میرا رب میری طرف وحی کرتا ہے ، بیشک وہ سننے والا قریب ہے۔ (۵۰)

تشریح: یعنی اگر میں نے یہ ڈھونگ خود کھڑا کیا ہے تو کون سے دن چلے گا اس میں آخر میرا ہی نقصان ہے۔ دنیا کی عداوت مول لینا، ذلت اٹھانا اور آخرت کی رسوائی قبول کرنا۔ (العیاذ باللہ) لیکن اگر میں سیدھے راستہ پر ہوں جیسا کہ واقعی ہوں تو سمجھ لو کہ یہ سب اللہ کی تائید و امداد اور وحی الٰہی کی برکت و ہدایت سے ہے جو کسی وقت میرا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔ میرا خدا سب کچھ سنتا ہے اور بالکل نزدیک ہے وہ ہمیشہ میری مدد فرمائے گا۔ اور اپنے پیغام کو دنیا میں روشن کرے گا۔ تم مانو یا نہ مانو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے کاش! تم دیکھو جب وہ گھبرائیں گے تو (بھاگ کر) نہ بچ سکیں گے ، اور پاس ہی سے پکڑ لئے جائیں گے۔ (۵۱)

تشریح: یعنی یہ کفار یہاں ڈینگیں مارتے ہیں مگر وہ وقت عجیب قابل دید ہو گا جب یہ لوگ محشر کا ہولناک منظر دیکھ کر گھبرائیں گے اور کہیں بھاگ نہ سکیں گے۔ اس وقت گرفتاری کے لیے کہیں دور سے ان کو تلاش کرنا نہ پڑے گا۔ بلکہ نہایت آسانی سے فورا جہاں کے تہاں گرفتار کر لیے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہیں گے ہم اس (نبی ) پر ایمان لے آئے اور کہاں (ممکن) ہے ان کے لئے دور جگہ (دار الجزا) سے (ایمان کا) ہاتھ آنا۔ (۵۲)

تشریح: یعنی اس وقت کہیں گے کہ ہمیں پیغمبر کی باتوں پر یقین آ گیا، اب ہم ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ اب ایمان کیسا؟ وہ موقع دور گیا جب ایمان لا کر اپنے کو بچا سکتے تھے۔ اب ان کا ہاتھ اتنی دور کہاں پہنچ سکتا ہے ، جو وہاں سے ایمان کو اٹھا لائیں۔ مطلب یہ کہ ایمان مقبول و منجی وہ ہے جو موت سے پہلے اس دنیا میں حاصل ہو۔ آخرت میں تو آنکھوں سے دیکھ کر سب ہی کو یقین آ جائے گا اس میں کیا کمال ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق انہوں نے اس سے قبل اس سے کفر کیا، اور پھینکتے ہیں بن دیکھے دور جگہ سے (اٹکل بچو باتیں کرتے ہیں)۔ (۵۳)

تشریح: یعنی پہلے جب ایمان لانے کا وقت تھا انکار پر تلے رہے اور یوں ہی اٹکل کے تیر چلاتے رہے۔ دنیا میں رہ کر ہمیشہ بے تحقیق باتیں کیں۔ سچی اور تحقیقی باتوں کو قبول نہ کیا۔ اب پچھتانے سے کیا حاصل؟

(تفسیرعثمانی)

 

جو وہ چاہتے تھے ، اس کے اور ان کے درمیان آڑ ڈال دی گئی، جیسے ان کے ہم جنسوں کے ساتھ اس سے قبل کیا گیا، بیشک وہ تردد میں ڈالنے والے شک میں تھے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی جس چیز کی آرزو رکھتے ہیں مثلاً ایمان مقبول یا نجات، یا دنیا کی طرف واپس جانا، یا دنیاوی لذتیں اور عیش و آرام۔ ان چیزوں کے اور ان کفار کے درمیان سخت روک قائم کر دی گئی۔ کبھی ان تک نہیں پہنچ سکتے۔

پہلے جو اسی قماش کے لوگ گزرے ہیں جیسا معاملہ ان سے کیا گیا تھا ان سے بھی ہوا۔ کیونکہ وہ لوگ بھی ایسے ہی مہمل شبہات اور بیجا شک و تردد میں گھرے ہوئے تھے جو کسی طرح ان کو چین نہ لینے دیتا تھا۔ تم سورۃ سبا۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۳۵۔ سورۃ فاطر

 

                تعارف

 

اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے ، اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، اُن پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا، یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے ، اور  وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں، انہیں انعامات سے نوازا جائے ، اور جو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے ، جس کے لئے آخرت کی زندگی ضروری ہے ، تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے ، اس کے لئے اس کو ختم کر کے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ، جسے ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کیا جائے ، اور جب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہو سکتی ہے کہ جب اللہ تعالی کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے ، تو ظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لئے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہو گا، ای سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے ، اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں، اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچا دیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔

سورت کا نام فاطر بالکل پہلی آیت سے لیا گیا ہے ، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورۂ ملائکہ بھی ہے ، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۴۵         رکوعات:۵

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ، فرشتوں کو پیغام بر بنانے والا ہے ، پروں والے دو دو اور تین تین اور چار چار، پیدائش میں جو وہ چاہتا ہے زیادہ کر دیتا ہے ، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۱)

تشریح: بعض فرشتے انبیاء کے پاس اللہ کا پیغام لاتے ہیں اور بعض دوسرے جسمانی و روحانی نظام کی تدبیر و تشکیل پر مامور ہیں۔ فالمدبرات امرا۔ بعض فرشتوں کے دو بازو (یا دو پر) بعض کے تین بعض کے چار ہیں۔ ان بازوؤں اور پروں کی کیفیت کو اللہ ہی جانتا ہے یا جس نے دیکھے ہوں وہ کچھ بتلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ جس مخلوق میں جو عضو اور جو صفت چاہے اپنی حکمت کے موافق بڑھا دے۔ فرشتوں کے دو، تین، چار بازو (یا پر) اسی نے بنائے چاہے تو بعض فرشتوں کے چار سے زیادہ بنا دے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل کے چھ سو بازو (یا پر) ہیں۔ اور جاعل الملائکۃ رسلا سے یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کچھ ان وسائط کا محتاج ہے۔ ہرگز نہیں۔ وہ بذات خود ہر چیز پر قادر ہے۔ محض حکمت کی بناء پر یہ اسباب و وسائط کا سلسلہ قائم کیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ لوگوں کے لئے رحمت کھول دے تو (کوئی) اس کا بند کرنے والا نہیں، اور جو وہ بند کر دے تو اس کے بعد کوئی اس کا بھیجنے والا نہیں، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۲)

تشریح: رحمت جسمانی ہو مثلاً بارش، روزی وغیرہ یا روحانی جیسے انزال کتب و ارسال رسل۔ غرض اللہ جب لوگوں پر اپنی رحمت کا دروازہ کھولے ، کون ہے جو بند کر سکے۔ اپنی حکمت بالغہ کے موافق جو کچھ کرنا چاہے فورا کر گزرے ایسا زبردست ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے لوگو ! تم یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت، کیا اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے ؟ وہ تمہیں آسمان سے رزق دیتا ہے ، اور زمین سے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو کہاں تم الٹے پھرے جاتے ہو؟ (۳)

تشریح: یعنی مانتے ہو کہ پیدا کرنا اور روزی کے سامان بہم پہنچا کر زندہ رکھنا سب اللہ کے قبضہ اور اختیار میں ہے۔ پھر معبودیت کا استحقاق کسی دوسرے کو کدھر سے ہو گیا جو خالق و رزاق حقیقی ہے و ہی معبود ہونا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر و ہ تجھے جھٹلائیں تو تحقیق جھٹلائے گئے ہیں تم سے پہلے بھی رسول، اور تمام کاموں کی باز گشت (لوٹنا) اللہ کی طرف ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی اس قدر سمجھانے اور حجت تمام کرنے کے بعد یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلائیں تو غم نہ کیجئے۔ انبیاء سابقین کے ساتھ بھی یہ ہی برتاؤ ہوا ہے۔ کوئی انوکھی بات نہیں۔ متعصب اور ضدی لوگ کبھی اپنی ہٹ سے باز نہیں آئے۔ ایسوں کا معاملہ خدا کے حوالہ کیجئے۔ وہیں پہنچ کر سب باتوں کا فیصلہ ہو جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

 

اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، پس دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے ، اور دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ سے ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (۵)

بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے ، پس اسے دشمن (ہی) سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو بلاتا ہے ، تاکہ وہ جہنم والے ہوں۔ (۶)

تشریح: یعنی قیامت آنی ہے اور یقیناً سب کو اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور فانی عیش و بہار پر نہ پھولو اور اس مشہور دغا باز شیطان کے دھوکہ میں مت آؤ۔ وہ تمہارا ازلی دشمن ہے۔ کبھی اچھا مشورہ نہ دے گا۔ یہ ہی کوشش کرے گا کہ اپنے ساتھ تم کو بھی دوزخ میں پہنچا کر چھوڑے ، طرح طرح کی باتیں بنا کر خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرتا رہے گا۔ چاہیے کہ تم دشمن کو دشمن سمجھو، اس کی بات نہ مانو۔ اس پر ثابت کر دو کہ ہم تیری مکاری کے جال میں پھنسنے والے نہیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ تو دوستی کے لباس میں بھی دشمنی کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے ، اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (۷)

سو کیا جس کے لئے اس کا بُرا عمل آراستہ کیا گیا، پھر اس نے اس کو اچھا دیکھا (سمجھا) (کیا وہ نیکو کاروں جیسا ہو سکتا ہے ) پس بیشک جس کو اللہ چاہتا ہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، پس تمہاری جان نہ جاتی رہے ان پر حسرت کر کے ، بیشک جو وہ کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔ (۸)

تشریح: یعنی شیطان نے جس کی نگاہ میں برے کام کو بھلا کر دکھایا۔ کیا وہ شخص اس کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا کے فضل سے بھلے برے کی تمیز رکھتا ہے۔ نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی سمجھتا ہے۔ جب دونوں برابر نہیں ہو سکتے تو انجام دونوں کا یکساں کیونکر ہو سکتا ہے۔ اور یہ خیال نہ کرو کہ کوئی آدمی دیکھتی آنکھوں برائی کو بھلائی کیونکر سمجھ لے گا۔ اللہ جس کو سوء استعداد اور سوء اختیار کی بناء پر بھٹکانا چاہے اس کی عقل اسی طرح اوندھی ہو جاتی ہے اور جس کو حسن استعداد اور حسن اختیار کی وجہ سے ہدایت پر لانا چاہے تب کسی شیطان کی طاقت نہیں جو اسے غلط راستے پر ڈال سکے یا الٹی بات سمجھا دے۔ بہرحال جو شخص شیطانی اغواء سے برائی کو بھلائی، بدی کو نیکی اور زہر کو تریاق سمجھ لے کیا اس کے سیدھے راستہ پر آنے کی کچھ توقع ہو سکتی ہے ؟ جب نہیں ہو سکتی اور سلسلہ ہدایت و ضلالت کا سبب اللہ کی مشیت و حکمت کا تابع ہے۔ تو آپ ان معاندین کے غم میں اپنے کو کیوں گھلاتے ہیں، اس حسرت میں کہ یہ بدبخت اپنے فائدہ کی بات کو کیوں قبول نہیں کرتے۔ کیا آپ اپنی جان دے بیٹھیں گے۔ آپ ان کا قصہ ایک طرف کیجئے۔ اللہ ان کی سب کرتوت جانتا ہے۔ وہ خود ان کا بھگتان کر دے گا۔ آپ دلگیر و غمگین نہ ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ (ہی ہے ) جس نے بھیجا ہواؤں کو، پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر ہم اس (بادل) کو مردہ شہر کی طرف لے گئے ، پھر ہم نے اس سے زمین کو اس کے مرنے (بنجر ہو جانے ) کے بعد زندہ کیا، اسی طرح (مردوں کو روزِ حشر) جی اٹھنا ہے۔ (۹)

تشریح: اللہ کے حکم سے ہوائیں بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں اور جس ملک کا رقبہ مردہ پڑا تھا۔ یعنی کھیتی و سبزہ کچھ نہ تھا، چاروں طرف خاک اڑ رہی تھی، بارش کے پانی سے اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی مرنے کے بعد زندہ کر کے کھڑا کر دے گا۔ روایات میں ہے کہ جب اللہ مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا۔ عرش کے نیچے سے ایک (خاص قسم کی) بارش ہو گی جس کا پانی پڑتے ہی مردے اس طرح جی اٹھیں گے جیسے ظاہری بارش ہونے پر دانہ زمین سے اگ آتا ہے۔ مزید تفصیل روایات میں دیکھنی چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو کوئی عزت چاہتا ہے تو تمام تر عزت اللہ کے لئے ہے ، اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام، اور اچھے عمل کو (اللہ) بلند کرتا ہے ، اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں، ان کے لئے سخت عذاب ہے ، اور ان لوگوں کی تدبیر اکارت جائے گی۔ (۱۰)

تشریح:  کفار نے دوسرے معبود اس لیے ٹھہرائے تھے کہ اللہ کے ہاں ان کی عزت ہو گی۔ ”واتخذو امن دون اللہ الہۃً لیکونوالہم عزا” (مریم، رکوع٥) اور بہت لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستانہ کرتے تھے کہ اس سے ان کی عزت بنی رہے گی۔ ”الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المومنین ایبتغون عندہم العزۃ فان العزۃ للہ جمیعًا۔ ” (نسآء، رکوع٢٠) اس قسم کے لوگوں کو بتلایا کہ جو شخص دنیا و آخرت کی عزت چاہے ، چاہیے کہ اللہ سے طلب کرے کہ عزیز مطلق تو وہ ہے ، اسی کی فرمانبرداری اور یادگاری سے اصلی عزت میسر آتی ہے۔ تمام عزتوں کا مالک وہی اکیلا ہے جس کسی کو عزت ملی یا ملے گی اسی کے خزانہ سے ملی ہے یا ملے گی۔

إِلَيْہِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ :ستھرا کلام ہے ذکر اللہ، دعاء تلاوت القرآن، علم و نصیحت کی باتیں، یہ سب چیزیں بارگاہ رب العزت کی طرف چڑھتی ہیں اور قبول و اعتناء کی عزت حاصل کرتی ہیں۔ ستھرے کلام (ذکر اللہ وغیرہ) کا ذاتی اقتضاء ہے اوپر چڑھنا۔ اس کے ساتھ دوسرے اعمال صالحہ ہوں تو وہ اس کو سہارا دے کر اور زیادہ ابھارتے اور بلند کرتے رہتے ہیں۔ اچھے کلام کو بدون اچھے کاموں کے پوری رفعت شان حاصل نہیں ہوتی۔ بعض مفسرین نے ”والعمل الصالح یرفعہ” کی ضمیروں کا مرجع بدل کر یہ معنی لیے ہیں کہ ستھرا کلام اچھے کام کو اونچا اور بلند کرتا ہے۔ یہ بھی درست ہے اور بعض نے رفع کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہے یعنی اللہ عمل صالح کو بلند کرتا اور معراج قبول پر پہنچاتا ہے۔ بہرحال غرض یہ ہے کہ بھلے کلام اور اچھلے کلام دونوں علو و رفعت کو چاہتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ سے عزت کا طالب ہو وہ ان چیزوں کے ذریعہ سے حاصل کرے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تمہارے ذکر اور بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں۔ جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر (پورا) غلبہ (حاصل) کریں گے۔ کفر دفع ہو گا، اسلام کو عزت ہو گی۔ ” مکاروں کے سبب داؤ گھات باطل اور بیکار ہو کر رہ جائیں گے۔

وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّيِّئَاتِ :جو لوگ بری تدبیریں سوچتے اور حق کے خلاف داؤ گھات میں رہتے ہیں آخر ناکام ہو کر خسارہ اٹھائیں گے۔ دیکھو قریش نے ”دارالندوہ” میں بیٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کرنے یا وطن سے نکالنے کے مشورے کیے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ”جنگ بدر” کے مواقع پر وہ ہی لوگ وطن سے نکلے ، مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے اور قلیب بدر میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیے گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ (ہی) نہ تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے ، پھر تمہیں جورے جوڑے بنایا، اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے ، اور نہ وہ جنتی ہے ، مگر اس کے علم میں ہے ، اور کوئی بڑی عمر والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر سے کمی کی جاتی ہے ٹگر (یہ سب) کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہے ہوا ہے ، یہ بیشک اللہ پر آسان ہے۔ (۱۱)

تشریح: یعنی آدم کو مٹی سے پھر اس کی اولاد کو پانی کی بوند سے پیدا کیا۔ پھر مرد عورت کے جوڑے بنا دیے جس سے نسل پھیلی۔ اس درمیان میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک جو ادوار و اطوار گزرے سب کی خبر خدا ہی کو ہے۔ ماں باپ بھی نہیں جانتے کہ اندر کیا صورتیں پیش آئیں۔

وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ :جس کی جتنی عمر ہے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور جو اسباب عمر کے گھٹنے بڑھنے کے ہیں یا یہ کہ کون عمر طبعی کو پہنچے گا کون نہیں، سب اللہ کے علم میں ہے اور اللہ کو ان جزئیات پر احاطہ رکھنا بندوں کی طرح کچھ مشکل نہیں۔ اس کو تو تمام ماکان و مایکون، جزئی، کلی، اور غیب و شہادت کا علم ازل سے حاصل ہے۔ اس کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ہر کام سہج سہج ہوتا ہے جیسے آدمی کا بننا” اور اپنی عمر مقدر کو پہنچنا۔ اس طرح سمجھ لو اسلام بتدریج بڑھے گا اور آخرکار کفر کو مغلوب و مقہور کر کے چھوڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور دونوں دریا برابر نہیں، یہ (ایک) شیریں ہے پیاس بجھانے والا، اس کا پینا بھی آسان، اور یہ (دوسرا) شور تلخ ہے ، اور ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو، اور (ان میں سے ) تم زیور (موتی) نکالتے ہو، جس کو تم پہنتے ہو، اور تو اس میں کشتیاں دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتی (ہوئی چلتی ہیں) تاکہ تم اس کے فضل سے روزی تلاش کرو، اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۱۲)

تشریح: اوپر سے دلائل توحید اور شواہد قدرت بیان ہوتے آرہے ہیں۔ اسی کے ضمن میں لطیف اشارے اسلام کے غلبہ کی طرف بھی ہوتے جاتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یعنی کفر اور اسلام برابر نہیں۔ خدا کفر کو مغلوب ہی کرے گا اگرچہ تم کو دونوں سے فائدہ ملے گا۔ مسلمانوں سے قوت دین اور کافروں سے جزیہ خراج اور گوشت میٹھے کھاری دونوں دریاؤں سے نکلتا ہے یعنی مچھلی۔ اور گہنا (زیور) یعنی موتی، مونگا اور جواہر اکثر کھاری سے نکلتے ہیں۔ ”

وَتَرَى الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ :اکثر بڑی بڑی تجارتیں جہازوں کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ان سے جو منافع حاصل ہو یہ ہی اللہ کا فضل ہے۔ ان تمام انعامات پر انسان کو چاہیے مالک کا شکر ادا کرے۔ (تفسیرعثمانی)

 

وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، اور اس نے سورج اور چاند کو مسخرکیا، ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا ہے ، یہی تمہارا پروردگار ہے ، اسی کے لئے بادشاہت، اور جن کو اس کو سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے (کے برابر بھی) مالک نہیں۔ (۱۳)

تشریح: یعنی جس کی صفات و شؤن اوپر بیان ہوئی حقیقت میں یہ ہے تمہارا سچا پروردگار اور کل زمین و آسمان کا بادشاہ۔ باقی جنہیں تم خدا قرار دے کر پکارتے ہو۔ وہ مسکین بادشاہ تو کیا ہوتے کھجور کی گٹھلی پر جو باریک جھلی سی ہوتی ہے اس کے بھی مالک نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم ان کو پکارو تو وہ نہیں سنیں گے تمہاری پکار، اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری حاجت پوری نہ کرسکیں گے ، اور وہ روزِ قیامت تمہارے شرک کرنے کا انکار کریں گے ، اور تجھ کو خبر دینے والے (اللہ) کی مانند کوئی خبر نہ دے گا۔ (۱۴)

تشریح: یعنی جن معبودوں کا سہارا ڈھونڈتے ہو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور توجہ کرتے بھی تو کچھ کام نہ آ سکتے۔ بلکہ قیامت کے دن تمہاری مشرکانہ حرکات سے اعلانیہ بیزاری کا اظہار کریں گے اور بجائے مددگار بننے کے دشمن ثابت ہوں گے۔

اللہ سے زیادہ احوال کو ن جانے ، و ہی فرماتا ہے کہ یہ شریک غلط ہیں جو کچھ بھی کام نہیں آسکتے ایسے ٹھیک اور پکی باتیں اور کون بتلائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز سزاوارِ حمد ہے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی سب لوگ اسی اللہ کے محتاج ہیں جسے کسی کی احتیاج نہیں، کیونکہ تمام خوبیاں اور کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ پس  و ہی مستحق عبادات و استعانت کا ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر وہ چاہے تم (سب کو) لے جائے (نابود کر دے ) اور نئی خلقت لے آئے۔ (۱۶) اور یہ نہیں ہے اللہ پر (کچھ) دشوار۔ (۱۷)

تشریح: یعنی تم نہ مانو تو وہ قادر ہے کہ تم کو ہٹا کر دوسری خلقت پیدا کر دے جو بہمہ وجوہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزار ہو، جیسے آسمانوں پر فرشتے ، اور ایسا کرنا اللہ کو کچھ مشکل نہیں، اور آخر میں ہر ایک اپنے نیک و بد عمل کا بدلہ پائے تاکہ اس طرح اس کی تمامی صفات کا ظہور ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کوئی اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور کوئی بوجھ سے لدا ہوا (گنہگار کسی کو) اپنا بوجھ (اٹھانے ) کے لئے بلائے تو وہ اس سے کچھ نہ اٹھائے گا، خواہ اس کے قرابت دار ہوں، آپ تو صرف ان کو ڈراتے (نصیحت کرسکتے ہیں) جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں بن دیکھے ، اور نماز قائم رکھتے ہیں، اور جو پاک ہوتا ہے وہ صرف اپنے لئے پاک   صاف ہوتا ہے ، اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ (۱۸)

یعنی نہ کوئی از خود دوسرے کا بوجھ اپنے سر رکھے گا کہ اس کے گناہ اپنے اوپر لے لے اور نہ دوسرے کے پکارنے پر اس کا کچھ ہاتھ بٹا سکے گا خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ سب کو نفسی نفسی پڑی ہو گی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت ہی سے بیڑا پار ہو گا۔

إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَيْبِ :یعنی آپ کے ڈرانے سے وہ ہی اپنا رویہ درست کر کے نفع اٹھائے گا جو خدا سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور ڈر کر اس کی بندگی میں لگا رہتا ہے جس کے دل میں خدا کا خوف ہی نہ ہو وہ ان دھمکیوں سے کیا متاثر ہو گا۔

وَمَنْ تَزَکّٰى فَإِنَّمَا يَتَزَکّٰى لِنَفْسِہٖ:یعنی آپ کی نصیحت سن کر جو شخص مان لے اور اپنا حال درست کر لے تو کچھ آپ پر یا خدا پر احسان نہیں بلکہ اسی کا فائدہ ہے اور یہ فائدہ پوری طرح اس وقت ظاہر ہو گا جب سب اللہ کے ہاں لوٹ کر جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور برابر نہیں اندھا اور آنکھوں والا، (۱۹) اور نہ اندھیرے اور نہ روشنی (برابر ہیں)۔ (۲۰) اور نہ سایہ اور نہ جھلستی ہوا۔ (۲۱)

اور برابر نہیں زندے (عالم) اور نہ مردے (جاہل) بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے ، اور تم (ان کو) سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں۔ (۲۲) بلکہ تم صرف ڈرانے والے ہو۔ (۲۳)

تشریح: یعنی مومن جس کو اللہ نے دل کی آنکھیں دی ہیں، حق کے اجالے اور وحی الٰہی کی روشنی میں بے کھٹکے راستہ قطع کرتا ہوا جنت کے باغوں اور رحمت الٰہی کے سایہ میں جا پہنچا ہے۔ کیا اس کی برابری وہ کافر کر سکے گا جو دل کا اندھا اوہام و ہواء کی اندھیریوں میں بھٹکتا ہوا جہنم کی آگ اور اس کی جھلس دینے والی لوؤں کی طرف بے تحاشا چلا جا رہا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایسا ہو تو یوں سمجھو کہ مردہ اور زندہ برابر ہو گیا۔ فی الحقیقت مومن و کافر میں اس سے بھی زیادہ تفاوت ہے جو ایک زندہ تندرست آدمی اور مردہ لاش میں ہوتا ہے ، اصل اور دائمی زندگی صرف روح ایمان سے ملتی ہے۔ بدون اس کے انسان کو ہزار مردوں سے بدتر مردہ سمجھنا چاہیے۔

اللہ چاہے تو مردوں کو بھی سنا دے یہ قدرت اوروں کو نہیں۔ اسی طرح سمجھ لو کہ پیغمبر کا کام خبر پہنچانا اور بھلے برے سے آگاہ کر دینا ہے۔ کوئی مردہ دل کافر ان کی بات نہ سنے تو یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی سب خلق برابر نہیں جنہیں ایمان دینا ہے ان ہی کو ملے گا۔ تو بہتیری آرزو کرے تو کیا ہوتا ہے۔ اور یہ جو فرمایا۔ ”نہ اندھیرا نہ اجالا” یعنی نہ اندھیرا برابر اجالے کے اور نہ اجالا برابر اندھیرے کے (یہ ”لا” کی تکریر کا فائدہ بتلا دیا) اور فرمایا ”تو نہیں سنانے والا قبر میں پڑے ہوؤں کو۔ ” حدیث میں آیا کہ مردوں سے سلام علیکم کرو۔ اور بہت جگہ مردوں کو خطاب کیا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں پڑا ہے دھڑ، وہ نہیں سنتا۔ ” یہ بحث پہلے سورہ ”’نمل” کے آخر میں گزر چکی وہاں دیکھ لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، خوشخبری دینے والا اور ڈرسنانے والا، اور کوئی امت نہیں جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو۔ (۲۴)

تشریح: ڈر سنانے والا خواہ نبی ہو یا نبی کا قائم مقام جو اس کی راہ کی طرف بلائے۔ اس کے متعلق سورہ ”نمل” کے چوتھے رکوع میں کچھ لکھا جا چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں، تو تحقیق ان کے اگلے لوگوں نے بھی جھٹلایا، ان کے پاس ان کے رسول آئے ، روشن دلائل (نشانات) اور صحیفوں اور روشن کتابوں کے ساتھ۔ (۲۵)

تشریح: یعنی روشن تعلیمات یا کھلے کھلے معجزات لے کر آئے۔ نیز ان میں سے بعض کو مختصر چھوٹے صحیفے دیے گئے بعض کو بڑی مفصل کتابیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جن لوگوں نے کفر کیا میں نے انہیں پکڑا، پھر کیسا ہوا میرا عذاب۔ (۲۶)

تشریح: یعنی جب تکذیب سے باز نہ آئے تو دیکھ لو انجام کیا ہوا و ہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے۔ (تفسیرعثمانی)

 

کیا تو نے نہیں دیکھا؟ بے شک اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے پھل نکالے ، اور ان کے رنگ مختلف ہیں، اور پہاڑوں میں راستے (گھاٹیاں) ہیں سفید اور سرخ، ان کے رنگ مختلف ہیں، اور (کچھ) گہرے سیاہ رنگ کے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی قسم قسم کے میوے۔ پھر ایک قسم میں رنگ برنگ کے پھل پیدا کیے۔ ایک زمین، ایک پانی اور ایک ہوا سے اتنی مختلف چیزیں پیدا کرنا عجیب و غریب قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اسی طرح لوگوں میں ا ور جانوروں اور چوپایوں میں، ان کے رنگ مختلف ہیں، اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے اس کے علم والے بندے (ہی) ڈرتے ہیں، بیشک اللہ غالب بخشنے والا ہے۔ (۲۸)

تشریح: یہ سب بیان ہے قدرت کی نیرنگیوں کا۔ پس جس طرح نباتات، جمادات، اور حیوانات میں رنگ برنگ کی مخلوق ہے ، انسانوں میں بھی ہر ایک کی طرح جدا ہے۔ مومن اور کافر ایک دوسرا سا ہو جائے اور سب انسان ایک ہی رنگ اختیار کر لیں یہ کب ہو سکتا ہے۔ اس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے دی کہ لوگوں کے اختلاف سے غمگین نہ ہوں۔

إِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآءُ: بندوں میں نڈر بھی ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے بھی مگر ڈرتے و ہی ہیں جو اللہ کی عظمت و جلال، آخرت کے بقاء و دوام، اور دنیا کی بے ثباتی کو سمجھتے ہیں اور اپنے پروردگار کے احکام و ہدایات کا علم حاصل کر کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں۔ جس میں یہ سمجھ اور علم جس درجہ کا ہو گا اسی درجہ میں وہ خدا سے ڈرے گا۔ جس میں خوف خدا نہیں وہ فی الحقیقت عالم کہلانے کا مستحق نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یعنی سب آدمی ڈرنے والے نہیں۔ اللہ سے ڈرنا سمجھ والوں کی صفت ہے اور اللہ کا معاملہ بھی دو طرح ہے وہ زبردست بھی ہے کہ ہر خطا پر پکڑے ، اور غفور بھی کہ گنہگار کو بخشے۔ ” پس دونوں حیثیت سے بندے کو ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ نفع و ضرر دونوں اسی کے قبضہ میں ہوئے تو جب چاہے نفع کو روک لے اور ضرر لاحق کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں (جس میں) ہرگز گھاٹا نہیں۔ (۲۹)

تشریح: یعنی جو اللہ سے ڈر کر اس کی باتوں کو مانتے اور اس کی کتاب کو عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں نیز بدنی و مالی عبادات میں کوتاہی نہیں کرتے وہ حقیقت میں ایسے زبردست بیوپار کے امیدوار ہیں جس میں خسارے اور ٹوٹے کا کوئی احتمال نہیں۔ بلا شبہ جب خدا خود ان کے اعمال کا خریدار ہو تو اس امید میں یقیناً حق بجانب ہیں۔ نقصان کا اندیشہ کسی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ از سرتاپا نفع ہی نفع ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ اللہ انہیں ان کے اجر (و ثواب) پورے پورے دے اور انہیں (اور ) زیادہ دے اپنے فضل سے ، بیشک وہ بخشنے والا، قدر دان ہے۔ (۳۰)

تشریح: یعنی بہت سے گناہ معاف فرماتا ہے اور تھوڑی سی طاعت کی قدر کرتا ہے اور ضابطہ سے جو ثواب ملنا چاہیے۔ بطور بخشش اس سے زیادہ دیتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور وہ جو ہم نے تمہاری طرف کتاب بھیجی ہے ، وہ حق ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جوان کے پاس ہے ، بیشک اللہ اپنے بندوں سے خبر دار ہے ، دیکھنے والا ہے۔ (۳۱)

 

پھر ہم نے اپنے چنے ہوئے بندوں کو کتاب کا وارث بنایا، پس ان میں سے کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے ، اور ان میں سے کوئی میانہ رَو ہے ، اور ان میں سے کوئی اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والا ہے ، یہی ہے بڑا فضل۔ (۳۲)

تشریح: اس سے مراد مسلمان ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن براہ راست تو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، لیکن پھر اس کا وارث ان مسلمانوں کو بنایا گیا جنہیں اللہ تعالی نے اس کام کے لئے چن لیا تھا کہ وہ اللہ کی کتاب پر ایمان لائیں، لیکن ایمان لانے کے بعد ان کی تین قسمیں ہو گئیں، ایک وہ تھے جو ایمان تو لے آئے لیکن اس کے تقاضوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا، چنانچہ اپنے بعض فرائض چھوڑ دئیے ، اور گناہوں کا بھی ارتکاب کر لیا، ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، کیونکہ ایمان کا تقاضہ تو یہ تھا کہ انہیں جنت میں فوری داخلہ نصیب ہوتا، لیکن انہوں نے گناہ کر کے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیا، جس کے نتیجے میں قانون کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے شخص کو پہلے اپنے گناہوں کا عذاب بھگتنا ہو گا، دوسری قسم جس کو درمیانے درجے کا کہا گیا ہے ، اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو فرائض و واجبات پر تو عمل کرتے ہیں اور گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں، لیکن نفلی عبادتیں اور مستحب کاموں پر عمل نہیں کرتے ، اور تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو صرف فرائض و واجبات پر اکتفا کرنے کے بجائے نفلی عبادتوں اور مستحب کاموں کا بھی پورا اہتمام کرتے ہیں، یہ تینوں قسمیں مسلمانوں ہی کی بیان کی ہوئی ہیں، اور آخر کار مغفرت کے بعد جنت میں ان شاء اللہ تینوں قسمیں داخل ہوں گی۔

(توضیح القرآن)

 

ہمیشگی کے باغات ہیں، جن میں وہ داخل ہوں گے ، ان میں کنگنوں کے زیور پہنائے جائیں گے سونے اور موتی کے ، اور ان میں ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ (۳۳)

تشریح: سونا اور ریشم مسلمان مردوں کے لیے وہاں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی (مرد) ریشمی (کپڑا) پہنے دنیا میں، نہ پہنے آخرت میں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہیں گے : تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے ہم سے غم دور کر دیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا ہے ، قدر دان ہے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی دنیا کا اور محشر کا غم دور کیا۔ گناہ بخشے اور از راہ قدر دانی طاعت قبول فرمائی۔ (تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے ہمیشہ رہنے کے گھر میں ہمیں اتارا اپنے فضل سے ، نہ اس میں ہمیں کوئی تکلیف پہنچے اور نہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ چھوئے۔ (۳۵)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”رہنے کا گھر اس سے پہلے کوئی نہ تھا ہر جگہ چل چلاؤ اور روزی کا غم، دشمنوں کا ڈر، اور رنج و مشقت، وہاں پہنچ کر سب کافور ہو گئے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

ا ورجن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے جہنم کی آگ ہے ، نہ ان پر قضا آئے گی کہ وہ مر جائیں اور نہ ان سے ہلکا کیا جائے گا دوزخ کا کچھ عذاب، اسی طرح ہم ہر ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔ (۳۶)

تشریح: نہ کفار کو جہنم میں موت آئے گی کہ اسی سے تکالیف کا خاتمہ ہو جائے اور نہ عذاب کی تکلیف کسی وقت ہلکی ہو گی۔ ایسے ناشکروں کی ہمارے یہاں یہی سزا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور دوزخ کے اندر چلائے جائیں گے : اے ہمارے پروردگار!ہمیں (یہاں سے ) نکال لے کہ ہم نیک عمل کریں، اس کے برعکس جو ہم کرتے تھے۔ کیا ہم نے تمہیں (اتنی) عمر نہ دی تھی کہ نصیحت پکڑ لیتااس میں جسے نصیحت پکڑنی ہوتی، اور تمہارے پاس ڈرانے والا (بھی) آیا، سو (اب انکار کا مزہ) چکھو، ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔ (۳۷)

تشریح: انسان کو اوسطاً جتنی عمر دی جاتی ہے ، وہ اتنی طویل ہے ، اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر وہ واقعی حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتا ہے ، اس کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے خبر دار کرنے والے بھی اسی عمر کے دوران آتے رہتے ہیں، خبر دار کرنے والے سے مراد انبیاء کرام اور اس امت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے انسان کو آخرت کے عذاب سے آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ اور ہر دور میں علماء بھی یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں، اور بعض مفسرین نے خبردار کرنے والے کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی عمر کے مختلف مرحلوں پر جو چیزیں موت کی یاد دلاتی ہیں یہاں خبر دار کرنے والے سے مراد وہ ہیں چنانچہ بڑھاپے کے مقدمے کے طور پر انسان کے بال سفید ہوتے ہیں تو وہ بھی خبر دار کرنے والا ہے ، جب کسی کے یہاں اس کا پوتا پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ڈرانے والا ہے کہ موت کا وقت قریب آ رہا ہے ، نیز انسان کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ سب بھی موت کی یاد دلا کر انسان کو خبر دار کرتی ہیں کہ وہ آخرت کی بہتری کا کوئی سامان کر لے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جاننے و الا ہے ، بے شک وہ ان کے سینوں کے بھیدوں سے باخبر ہے۔ (۳۸)

تشریح: یعنی اسے بندوں کے سب کھلے چھپے احوال و افعال اور دلوں کے بھید معلوم ہیں۔ کسی کی نیت اور استعداد اس سے پوشیدہ نہیں اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو لوگ اب چلا رہے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو، پھر ایسی خطا نہ کریں گے ، وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ اگر ستر دفعہ لوٹائے جائیں تب بھی شرارت سے باز نہیں آسکتے۔ ان کے مزاجوں کی افتاد ہی ایسی ہے ”ولوردوالعادو المانہوا عنہ و انہم لکاذبون” (انعام، رکوع٣)۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا، سو جس نے کفر کیا تو اسی پر ہے اس کے کفر (کا وبال) اور کافروں کو ان کے رب کے نزدیک ان کا کفر غضب کے سوا کچھ نہیں بڑھاتا، اور کافروں کو نہیں بڑھاتا ان کا کفر خسارے کے سوا۔ (۳۹)

تشریح: یعنی اگلی امتوں کی جگہ تم کو زمین پر آباد کیا اور ان کے بعد ریاست دی۔ چاہیے اب اس کا حق ادا کرو۔

کفر و ناشکری اور اللہ کی آیات کے انکار سے اس کا کچھ نقصان نہیں۔ وہ ہماری حمد و شکر سے مستغنی ہے۔ البتہ ناشکری کرنے والے پر اس کے فعل کا وبال پڑتا ہے۔ کفر کا انجام بجز اس کے کچھ نہیں کہ اللہ کی طرف سے برابر ناراضی اور بیزاری بڑھتی جائے اور کافر کے نقصان و خسران میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں کیا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، تم مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین سے کیا پیدا کیا ہے ؟یا آسمانوں (کے بنانے میں) ان کا کیا ساجھا ہے ؟یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی سند پر ہوں (سند رکھتے ہوں) بلکہ ظالم ایک دوسرے سے وعدہ نہیں کرتے دھوکے کے سوا۔ (۴۰)

تشریح: یعنی اپنے معبودوں کے احوال میں غور کر کے مجھے بتلاؤ کہ زمین کا کون سا حصہ انہوں نے بنایا، یا آسمانوں کے بنانے اور تھامنے میں ان کی کس قدر شرکت ہے۔ اگر کچھ نہیں تو آخر خدا کس طرح بن بیٹھے۔ کچھ تو عقل سے کام لو۔ عقل نہیں تو کوئی معتبر نقلی دلیل پیش کرو۔ جس کی سند پر یہ مشرکانہ دعویٰ کرتے ہو۔ عقلی یا نفلی دلیل کوئی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں سے بڑے چھوٹوں کو اور اگلے پچھلوں کو شیطان کے اغوا سے یہ وعدہ بتلاتے چلے آئے کہ ہولاءِ شفعآؤنا عنداللہ (یہ بت وغیرہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع بنیں گے ) اور اس کا قرب عطا کریں گے۔ حالانکہ یہ خالص دھوکہ اور فریب ہے ، یہ تو کیا شفیع بنتے ، بڑے سے بڑا مقرب بھی وہاں کفار کی سفارش میں زبان نہیں ہلا سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک اللہ نے تھام رکھا ہے آسمانوں کو اور زمین کو کہ وہ ٹل (نہ) جائیں، اور اگر وہ ٹل جائیں تو انہیں اس کے بعد کوئی بھی نہیں تھامے گا، بیشک وہ بردبار، بخشنے والا ہے۔ (۴۱)

تشریح: یعنی اسی کی قدرت کا ہاتھ ہے جو اتنے بڑے بڑے کرات عظام کو اپنے مرکز سے ہٹنے اور اپنے مقام و نظام سے ادھر ادھر سرکنے کے نہیں دیتا اور اگر بالفرض یہ چیزیں اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو پھر بجز خدا کے کسی کی طاقت ہے کہ ان کو قابو میں رکھ سکے۔ چنانچہ قیامت میں جب یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ درہم برہم کرے گا، کوئی قوت اسے روک نہ سکے گی۔

لوگوں کے کفر و عصیان کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام ایک دم میں تہ و بالا کر دیا جائے گا ،لیکن اس کے تحمل و بردباری سے تھما ہوا ہے۔ اس کی بخشش نہ ہو تو سب دنیا ویران ہو جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے (مشرکین مکہ نے ) اللہ کی بڑی سخت قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے وہ ضرور زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے (دنیا کی) ہر ایک امت سے (بڑھ کر) ، پھر جب ان کے پاس ایک نذیر آیا تو ان کے بدکنے کے سوا (اور کچھ) زیادہ نہ ہوا۔ (۴۲)

 

دنیا میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کے سبب اور بری چال (کے سبب) اور بری چال (کا وبال) صرف اس کے کرنے والے پر پڑتا ہے ، تو کیا وہ صرف پہلوں کے دستور کا انتظار کر رہے ہیں، سوتم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ، اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔ (۴۳)

تشریح: عرب کے لوگ جب سنتے کہ یہود وغیرہ دوسری قوموں نے اپنے نبیوں کی یوں نافرمانی کی تو کہتے کہ کبھی ہم میں ایک نبی آئے تو ہم ان قوموں سے بہتر نبی کی اطاعت و رفاقت کر کے دکھلائیں۔ جب اللہ نے نبی بھیجا جو سب نبیوں سے عظمت شان میں بڑھ کر ہے تو حق سے اور زیادہ بدکنے لگے۔ ان کا غرور تکبر کہاں اجازت دیتا کہ نبی کے سامنے گردن جھکائیں۔ رفاقت اور اطاعت اختیار کرنے کے بجائے عداوت پر کمر بستہ ہو گئے اور طرح طرح کی مکر و تدبیریں اور داؤ گھات شروع کر دیے مگر یاد رہے کہ برا داؤ خود داؤ کرنے والوں پر الٹے گا۔ گو چند روز عارضی طور پر اپنے دل میں خوش ہو لیں کہ ہم نے تدبیریں کر کے یوں نقصان پہنچا دیا، لیکن انجام کار دیکھ لیں گے کہ واقع میں نقصان عظیم کس کو اٹھانا پڑا۔ فرض کرو دنیا میں ٹل بھی گیا تو آخرت میں تو یقیناً یہ مشاہدہ ہو کر رہے گا۔

یہ اسی کے منتظر ہیں کہ جو گزشتہ مجرموں کے ساتھ معاملہ ہوا ان کے ساتھ بھی ہو۔ سو باز نہ آئے تو وہ ہی ہو کر رہے گا۔ اللہ کا جو دستور مجرموں کی نسبت سزا دینے کا رہا نہ وہ بدلنے والا ہے کہ بجائے سزا کے ایسے مجرموں پر انعام و اکرام ہونے لگے اور نہ ٹلنے والا کہ مجرم سے سزا ٹل کر غیر مجرم کو دے دی جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ دنیا میں چلے پھرے نہیں کہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا، اور قوت میں ان سے زیادہ تھے ، اور اللہ (ایسا) نہیں کہ کوئی شے آسمانوں میں اس کو عاجز کر دے ، اور نہ زمین میں (کوئی شے اسے ہرا سکتی ہے ) بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی بڑے بڑے زور آور مدعی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکے مثلاً عاد و ثمود وغیرہ۔ یہ بیچارے تو چیز کیا ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ آسمان و زمین کی کوئی طاقت اللہ کو عاجز نہیں کر سکتی علم اس کا محیط اور قدرت اس کی کامل۔ پھر معاذ اللہ عاجز ہو تو کدھر سے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑے تو وہ نہ چھوڑے کوئی چلنے پھرنے والا اس کی پشت پر، لیکن وہ انہیں ایک مدت معین تک ڈھیل دیتا ہے ، پھر جب آ جائے گی، ان کی مدت (ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا) بیشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔ (۴۵)

تشریح: یعنی لوگ جو گناہ کماتے ہیں اگر ان میں سے ہر ہر جزئی پر گرفت شروع کر دے تو کوئی جاندار زمین میں باقی نہ رہے ، نافرمان تو اپنی نافرمانی کی وجہ سے تباہ کر دیے جائیں۔ اور کامل فرمانبردار جو عادۃً بہت تھوڑے ہوتے ہیں قلت کی وجہ سے اٹھا لیے جائیں۔ کیونکہ نظام عالم کچھ ایسے انداز پر قائم کیا گیا ہے کہ محض معدودے چند انسانوں کا یہاں بستے رہنا خلاف حکمت ہے۔ پھر جب انسان آباد نہ رہے تو حیوانات کا ہے کے لیے رکھے جائیں گے۔ ان کا وجود بلکہ تمام عالم ہستی تو اس حضرت انسان کے لیے ہے۔

ایک مقرر میعاد اور حد معین تک اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہے کہ ہر ایک جرم پر فورا گرفت نہیں کرتا۔ جب وقت موعود آ جائے گا تو یاد رکھو سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں۔ کسی کا ایک ذرہ بھر برا یا بھلا عمل اس کے علم سے باہر نہیں۔ پس ہر ایک کا اپنے علم محیط کے موافق ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرما دے گا۔ نہ مجرم کہیں چھپ سکے نہ مطیع کا حق مارا جائے۔ ”اللہم اجعلنا ممن یطیعک واغفرلنا ذنوبنا انک انت الغفور الرحیم۔

” تم سورۃ ”فاطر” بفضل اللہ و رحمۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

۳۶۔ سورۃ یٰسٓ

 

 

                تعارف

 

اس سورت میں اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وہ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو نہ صرف پوری کائنات میں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کی قدرت کے ان مظاہر سے ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذات اتنی قدرت اور حکمت کی مالک ہے اس کو اپنی خدائی کا نظام چلانے کے لئے نہ کسی شریک کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار  کی، اس لئے وہ اور صرف وہ عبادت کے لائق ہے ، اور دوسری طرف قدرت کی ان نشانیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس ذات نے یہ کائنات اور اس کا محیر العقول نظام پیدا فرمایا ہے ، اس کے لئے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد انہیں دوسری زندگی عطا فرمائے ، اس طرح قدرت کی ان نشانیوں سے توحید اور آخرت کا عقیدہ واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو یہی دعوت دینے کے لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ ان نشانیوں پر غور کر کے اپنا عقیدہ اور عمل درست کریں، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کر رہے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کے مستحق بن رہے ہیں، اسی سلسلے میں آیات نمبر۱۳سے ۲۹ تک ایک ایسی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے جس نے حق کی دعوت کو قبول نہ کیا، بلکہ حق کے داعیوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا معاملہ کیا جس کے نتیجے میں حق کے داعی کا انجام تو بہترین ہوا لیکن حق کے یہ منکر اللہ تعالی کے عذاب کی پکڑ میں آ گئے ،چونکہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بڑے فصیح وبلیغ اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے ، اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

 

آیات۸۳         رکوعات:۵

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

يٰسٓ (۱) قسم ہے با حکمت قرآن کی (۲) بیشک آپ رسولوں میں سے ہیں (۳) سیدھے راستہ پر ہیں (۴) نازل کیا ہوا غالب، مہربان کا (۵)

تشریح: یعنی قرآن کریم اپنی اعجازی شان، پر حکمت تعلیمات، اور پختہ مضامین کے لحاظ سے بڑا زبردست شاہد اس بات کا ہے کہ جو نبی امی اس کو لے کر آیا یقیناً وہ اللہ کا بھیجا ہوا اور بیشک و شبہ سیدھی راہ پر ہے۔ اس کی پیروی کرنے والوں کو کوئی اندیشہ منزل مقصود سے بھٹکنے کا نہیں۔

یہ دین کا سیدھا راستہ یا قرآن حکیم اس خدا کا اتارا ہوا ہے جو زبردست بھی ہے کہ منکر کو سزا دیے بغیر نہ چھوڑے ، اور رحم فرمانے والا بھی کہ ماننے والوں کو نوازش و بخشش سے مالا مال کر دے۔ اسی لیے آیات قرآنیہ میں بعض آیات شان لطف و مہر کا اور بعض شان غضب و قہر کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں، جس کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے ، پس وہ غافل ہیں تحقیق ان میں سے اکثر پر (اللہ کی) بات ثابت ہو چکی ہے ، پس وہ ایمان نہ لائیں گے۔ (۷)

تشریح: لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ أُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غَافِلُوْنَ :یعنی بہت کٹھن کام آپ کے سپرد ہوا ہے کہ اس قوم (عرب) کو آپ قرآن کے ذریعہ سے ہوشیار و بیدار کریں۔ جس کے پاس صدیوں سے کوئی جگانے والا نہیں بھیجا تھا۔ وہ جاہل و غافل قوم جسے نہ خدا کی خبر نہ آخرت کی، نہ ماضی سے عبرت نہ مستقبل کی فکر، نہ مبداء پر نظر نہ منتہاء پر، نہ نیک و بد کی تمیز نہ بھلے برے کا شعور اس کو اتنی ممتد جہالت و غفلت کی اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کی صاف سڑک پر لا کھڑا کرنا کوئی معمولی اور سہل کام نہیں ہے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری قوت اور زور شور کے ساتھ ان کو اس غفلت و جہالت کے خوفناک نتائج اور بھیانک مستقبل سے ڈرا کر فلاح و بہبود کے اعلیٰ مدارج پر پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ یہ قوم اپنی اعلیٰ کامیابی سے تمام عالم کے لیے کامیابی کا دروازہ کھول دے۔

(ماخوذ تفسیر عثمانی)

 

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓی أَكْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ: مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں تقدیر میں جو بات لکھی تھی کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے ، وہ بات پوری ہو رہی ہے ،لیکن یہ واضح رہے کہ تقدیر میں لکھا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کفر پر مجبور ہو گئے ہیں، کیونکہ تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالی ان کو ایمان لانے کا موقع بھی دے گا اور اختیار بھی دے گا، لیکن یہ لوگ اپنے اختیار اور اپنی خوشی سے ضد پر اڑے رہیں گے اور ایمان نہیں لائیں گے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک ہم نے ان کی گردنوں میں ڈالے ہیں طوق، پھر تھوڑی تک (اڑ گئے ہیں) تو ان کے سر الل رہے ہیں۔ (۸)

اور ہم نے کر دی ان کے آگے ایک دیوار اور ان کے پیچھے ایک دیوار، پھر ہم نے انہیں ڈھانپ دیا، پس وہ دیکھتے نہیں۔ (۹)

تشریح: یہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو بیان کرنے کے لئے ایک استعارہ اور مجازی تعبیر ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے صاف صاف ظاہر ہونے کے باوجود ان لوگوں نے اس طرح ہٹ دھرمی کی روش اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو حق کے دیکھنے سے محروم کر لیا ہے ، جیسے ان کے گلوں میں طوق پڑے ہوئے ہوں، اور ان کے ہر طرف ایسی دیواریں کھڑی ہوں کہ ان کو کچھ سمجھائی نہ دے۔

(توضیح القرآن)

 

اور برابر ہے ان کے لئے خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان نہ لائیں گے۔ (۱۰)

تشریح: ان کو برابر ہے لیکن آپ کے حق میں برابر نہیں، بلکہ ایسی سخت معاند اور سرکش قوم کو نصیحت کرنا اور اصلاح کے درپے ہونا عظیم درجات کے حصول کا سبب ہے اور کبھی یہ اخلاق دوسروں کی ہدایت کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح کی آیات سورہ ”بقرہ” کے اوائل میں گزر چکی ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ تم (اس کو) ڈراتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے ، اور بن دیکھے اللہ سے ڈرے ، پس اسے بخشش اور اچھے اجر کی خوشخبری ہو۔ (۱۱)

تشریح: یعنی ڈرانے کا فائدہ اسی کے حق میں ظاہر ہوتا ہے جو نصیحت کو مان کر اس پر چلے اور اللہ کا ڈر دل میں رکھتا ہو۔ جس کو خدا کا ڈر ہی نہیں نہ نصیحت کی کچھ پروا، وہ نبی کی تنبیہ و تذکیر سے کیا فائدہ اٹھائے گا ایسے لوگ بجائے مغفرت و عزت کے سزا اور ذلت کے مستحق ہوں گے۔ آگے اشارہ کرتے ہیں کہ فریقین کی اس عزت و ذلت کا پورا اظہار زندگی کے دوسرے دور میں ہو گا جس کے مبادی موت کے بعد سے شروع ہو جاتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں، ہم ان کے عمل اور ان کے نشانات لکھتے ہیں (جو وہ چھوڑ گئے ہیں) اور ہر شے کو ہم نے لوح محفوظ میں شمار کر رکھا ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی ان لوگوں کی ساری بد عملیاں بھی لکھی جا رہی ہیں اور ان بد عملیوں کے جو برے اثرات ان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہ جاتے ہیں وہ بھی لکھے جا رہے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور ان کے لئے بستی والوں کا قصہ بیان کریں، جب ان کے پاس رسول آئے۔ (۱۳)

جب ہم نے ان کی طرف دو (رسول) بھیجے تو انہوں نے انہیں جھٹلایا، پھر ہم نے تیسرے سے تقویت دی، پس انہوں نے کہا بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۱۴)

تشریح: قرآن کریم نے نہ اس بستی کا نام ذکر فرمایا ہے ، اور نہ ان رسولوں کا جو اس بستی میں بھیجے گئے تھے ، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ بستی شام کا مشہور شہر انطاکیہ تھی، لیکن نہ تو یہ روایتیں مضبوط ہیں اور نہ تاریخی قرائن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ، دوسری طرف رسول کا لفظ عربی زبان میں ہراس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی کا پیغام لے کر دوسرے کے پاس جائے ، لیکن قرآن کریم میں زیادہ تر یہ لفظ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے لئے استعمال ہوا ہے ، اس لئے ظاہر یہی ہے کہ یہ حضرات انبیا کرام تھے ، اور بعض روایات میں ان کے نام بھی صادق، صدوق اور شلوم یا شمعون بتائے گئے ہیں ،لیکن یہ روایات بھی زیادہ مضبوط نہیں ہیں، اور بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ حضرات انبیا نہیں تھے ، بلکہ حضرت عیسیٰٰ علیہ السلام کے شاگرد تھے جنہیں حضرت عیسیٰٰ علیہ السلام نے اس بستی میں تبلیغ کے لئے بھیجا تھا، اور مرسلون کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے ، لیکن چونکہ یہاں اللہ تعالی نے انہیں بھیجنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے ، اس لئے ظاہر یہی ہے کہ یہ انبیاء کرام تھے ، شروع میں دو نبی بھیجے گئے تھے ، پھر ایک تیسرے پیغمبر بھی بھیجے گئے ، بہر حال !عبرت کاجو سبق قرآن کریم دینا چاہتا ہے وہ نہ بستی کے تعین پر موقوف ہے اور نہ پیغام لے جانے والوں کی شناخت پر، اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے نام نہیں بتائے ، لہذا ہمیں بھی اس کی کھوج میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وہ بولے تم محض ہم جیسے آدمی ہو، اور نہیں اتارا اللہ نے کچھ بھی، تم محض جھوٹ بولتے ہو۔ (۱۵)

تشریح: یعنی تم میں کوئی سرخاب کا پر نہیں جو اللہ تمہیں بھیجتا۔ ہم سے کس بات میں تم بڑھ کر تھے۔ بس رہنے دو خواہ مخواہ خدا کا نام نہ لو۔ اس نے کچھ نہیں اتارا۔ تینوں سازش کر کے ایک جھوٹ بنا لائے اسے خدا کی طرف نسبت کر دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۱۶) اور ہم پر (ہمارے ذمے ) نہیں مگر (صرف) صاف صاف پہنچا دینا۔ (۱۷)

تشریح: یعنی اگر ہم خدا پر جھوٹ لگاتے ہیں تو وہ دیکھ رہا ہے۔ کیا وہ اپنے فعل سے برابر جھوٹوں کی تصدیق کرتا رہے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب تم سمجھو یا نہ سمجھو، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم اپنے دعوے میں سچے ہیں اور کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے۔ اسی لیے فعلاً ہماری تصدیق کر رہا ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ :ہم اپنا فرض ادا کر چکے ، خدا کا پیام خوب کھول کر واضح، معقول اور دلنشیں طریقہ سے تم کو پہنچا دیا، اب اتمام حجت کے بعد خود سوچ لو کہ تکذیب و عداوت کا انجام کیا ہونا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہنے لگے ہم نے منحوس پایا تمہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور تمہیں ہم سے دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔ (۱۸)

تشریح: شاید تکذیب مرسلین اور کفر و عناد کی شامت سے قحط وغیرہ پڑا ہو گا۔ یا مرسلین کے سمجھانے پر آپس میں اختلاف ہوا کسی نے مانا کسی نے نہ مانا، اس کو نا مبارک کہا۔ یعنی تمہارے قدم کیا آئے ، قحط اور نا اتفاقی کی بلا ہم پر ٹوٹ پڑی۔ یہ سب تمہاری نحوست ہے۔ (العیاذ باللہ) ورنہ پہلے ہم اچھے خاصے آرام چین کی زندگی بسر کر رہے تھے ، بس تم اپنے وعظ و نصیحت سے ہم کو معاف رکھو۔ اگر یہ طریقہ نہ چھوڑو گے اور وعظ و نصیحت سے باز نہ آؤ گے تو ہم سخت تکلیف و عذاب پہنچا کر تم کو سنگسار کر ڈالیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے کہا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے کیا تم (اس کو نحوست سمجھتے ہو) کہ تم سمجھائے گئے ہو، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔ (۱۹)

تشریح: یعنی تمہارے کفر و تکذیب کی شامت سے عذاب آیا۔ اگر حق و صداقت کو سب مل کر قبول کر لیتے نہ یہ اختلاف مذموم پیدا ہوتا، نہ اس طرح مبتلائے آفات ہوتے۔ پس نامبارکی اور نحوست کے اسباب خود تمہارے اندر موجود ہیں۔ پھر کیا اتنی بات پر کہ تمہیں اچھی نصیحت و فہمائش کی اور بھلا برا سمجھایا، اپنی نحوست ہمارے سر ڈالنے لگے۔ اور قتل کی دھمکیاں دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم عقل و آدمیت کی حدود سے خارج ہو جاتے ہو۔ نہ عقل سے سمجھتے ہو نہ آدمیت کی بات کرتے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور شہر کے پرلے سرے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا اے میری قوم! تم رسولوں کی پیروی کرو۔ (۲۰)

تشریح: کہتے ہیں کہ اس مرد صالح کا نام حبیب تھا۔ شہر کے پرلے کنارے عبادت میں مشغول رہتا اور کسب حلال سے کھاتا تھا۔ فطری صلاحیت نے چپ نہ بیٹھنے دیا۔ قصہ سنتے ہی مرسلین کی تائید و حمایت اور مکذبین کی نصیحت و فہمائش کے لیے دوڑتا ہوا آیا۔ مبادا اشقیاء اپنی دھمکیوں کو پورا کرنے لگیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرسلین کی آواز کا اثر شہر کے دور دراز حصوں تک پہنچ گیا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم ان کی پیروی کرو، جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے ، اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس کا پیغام لے کر آئے ہیں جو نصیحت کرتے ہیں اس پر خود کار بند ہیں اخلاق، اعمال اور عادات و اطوار سب ٹھیک ہیں۔ پھر ایسے بے لوث بزرگوں کا اتباع کیوں نہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے جو پیغام بھیجے کیوں قبول نہ کیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور مجھے کیا ہوا (میرے پاس کیا عذر ہے ) کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا، اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ (۲۲)

تشریح: یہ اپنے اوپر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔ یعنی تم کو آخر کیا ہوا کہ جس نے پیدا کیا اس کی بندگی نہ کرو۔ یہ مت سمجھنا کہ پیدا کر کے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اب کچھ مطلب اس سے نہیں رہا۔ نہیں، سب کو مرنے کے بعداسی کے پاس واپس جانا ہے۔ اس وقت کی فکر کر رکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا میں اس کے سوا ایسے معبود بنا لوں اگر اللہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش میرے کام نہ آئے کچھ بھی، اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں۔ (۲۳) بیشک میں اس وقت کھلی گمراہی میں ہوں گا۔ (۲۴)

تشریح: یعنی کس قدر صریح گمراہی ہے کہ اس مہربان اور قادرِ مطلق پروردگار کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی تکلیف سے نہ بذات خود چھڑا سکیں نہ سفارش کر کے نجات دلا سکیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا پس تم میری سنو۔ (۲۵)

تشریح: یعنی مجمع میں بے کھٹکے اعلان کرتا ہوں کہ میں خدائے واحد پر ایمان لا چکا۔ اسے سب سن رکھیں شاید مرسلین کو اس لیے سنایا ہو کہ وہ اللہ کے ہاں گواہ رہیں اور قوم کو اس لیے کہ سن کر کچھ متاثر ہوں یا کم از کم دنیا ایک مومن کی قوت ایمان کا مشاہدہ کرنے کی طرف متوجہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

(اس شہید کو) ارشاد ہوا تو جنت میں داخل ہو جا، اس نے کہا اے کاش! میری قوم جانتی۔ (۲۶) اس بات کو کہ مجھے بخش دیا میرے رب نے اور اس نے مجھے (اپنے ) نوازے ہوئے لوگوں میں سے کیا۔ (۲۷)

تشریح: بعض روایتوں میں ہے کہ سنگدل قوم نے ان کی خیر خواہانہ تقریر کے جواب میں انہیں لاتیں، گھونسے اور پتھر مار مار کر شہید کر دیا۔

جنت میں اصل داخلہ تو حشر و نشر کے بعد ہو گا، البتہ نیک لوگوں کو اللہ تعالی عالم برزخ میں بھی جنت کی بعض نعمتیں عطا فرما دیتے ہیں، یہاں ان کو ایک طرف خوشخبری دی گئی کہ ان کا مقام جنت ہے اور دسری طرف جنت کی کچھ نعتیں عالم برزخ ہی میں عطا فرما دی گئیں، جنہیں دیکھ کر انہوں نے پھر اپنی قوم ہی کی خیر خواہی کی بات فرمائی کہ کاش انہیں یہ پتہ چل جائے کہ مجھے کن نعمتوں سے سرفراز فرمایا گیا ہے تو شاید ان کی بھی آنکھیں کھل جائیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر (فرشتوں کا) کوئی لشکر نہیں اتارا آسمان سے ، اور ہم اتارنے والے ہی نہ تھے۔ (۲۸)

(ان کی سزا) نہ تھی مگر ایک چنگھاڑ، پس وہ اچانک بجھ کر رہ گئے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی اس ظالم اور نافرمان قوم کو ہلاک کرنے کے لئے ہمیں فرشتوں کا کوئی لشکر آسمان سے اتارنے کی ضرورت نہیں تھی، بس ایک ہی فرشتے نے ایک زور دار آواز نکالی تو اسی سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور پوری قوم ہلاک ہو کر ایسی ہو گئی جیسے آگ بجھ کر راکھ کا ڈھیر بن جائے ، العیاذ باللہ العلی العظیم۔

(توضیح القرآن)

 

اے وائے ! بندوں پر کہ ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر وہ اس کی ہنسی اڑاتے تھے۔ (۳۰)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہم نے ان سے قبل کتنی بستیاں ہلاک کیں کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (۳۱)

تشریح: یعنی دیکھتے اور سنتے ہیں کہ دنیا میں کتنی قومیں پہلے پیغمبروں سے ٹھٹھا کر کے غارت ہو چکی ہیں جن کا نام و نشان مٹ چکا۔ کوئی ان میں سے لوٹ کر ادھر واپس نہیں آئی۔ عذاب کی چکی میں سب پس کر برابر ہو گئیں اس پر بھی عبرت نہیں ہوئی، جب کوئی نیا رسول آتا ہے و ہی تمسخر اور استہزاء شروع کر دیتے ہیں۔ جو پہلے کفار کی عادت تھی۔ چنانچہ آج خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفار مکہ کا یہی معاملہ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (کوئی ایسا) نہیں مگر سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے۔ (۳۲)

تشریح: یعنی وہ تو دنیا کا عذاب تھا، اور آخرت کی سزا الگ رہی۔ یہ نہ سمجھو کہ ہلاک ہو کر ادھر واپس نہیں آتے تو بس قصہ ختم ہوا۔ نہیں، سب کو پھر ایک دن خدا کے ہاں حاضر ہونا ہے۔ جہاں بلا استثناء مجرم پکڑے ہوئے آئیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور مردہ زمین ان کے لئے ایک نشانی ہے ، ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس سے اناج نکالا، پس وہ اس سے کھاتے ہیں۔ (۳۳)

اور ہم نے اس میں باغات بنائے (لگائے ) کھجور اور انگور کے ، اور ہم نے اس میں چشمے جاری کئے۔ (۳۴)

تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں، اور اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، تو کیا وہ شکر نہ کریں گے ؟ (۳۵)

تشریح: توجہ اس طرف دلائی جا رہی ہے کہ انسان جب کھیت یا باغ لگاتا ہے تو اس کی ساری دوڑ دھوپ کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ وہ زمین کو ہموار کر کے اس میں بیج ڈال دے ، لیکن اس بیج کی پرورش کر کے اسے زمین کا پیٹ پھاڑ کر کونپل کی شکل میں نکالنا اور پھر اسے پروان چڑھا کر درخت بنانا اور اس میں پھل پیدا کرنا انسان کا کام نہیں ہے ، یہ صرف اللہ تعالی ہی کی شان ربوبیت ہے جو اس ساری پیداوار کی تخلیق کرتی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے اس (قبیل) سے جو زمین اگاتی ہے (نباتات) اور خود ان کی جانوں (انسانوں میں سے ) ا ور ان میں سے جنہیں وہ (خود بھی) نہیں جانتے۔ (۳۶)

تشریح: قرآن کریم نے کئی جگہ یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کے جوڑے پیدا فرمائے ہیں، انسانوں کے جوڑے تو مرد و عورت کی شکل میں شروع سے واضح چلے آتے ہیں، لیکن قرآن کریم نے بتایا کہ نباتات میں بھی نر اور مادہ کے جوڑے ہوتے ہیں اور یہ حقیقت سائنس کو بہت بعد میں دریافت ہوئی ہے ، آگے اللہ تعالی نے صریح الفاظ میں یہ بھی بیان فرما دیا ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ابھی تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں، لہذا سائنس کو مختلف چیزوں کا جو رفتہ رفتہ ادراک ہو رہا ہے، مثلاً بجلی میں مثبت اور منفی کا اور ایٹم میں نیوٹرون اور پروٹون کا، وہ سب قرآن کریم کے اس عمومی بیان میں داخل ہو سکتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور ان کے لئے رات ایک نشانی ہے ہم دن کو اس سے کھینچ (نکالتے ) ہیں تو وہ اچانک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ (۳۷)

تشریح: یہاں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ کائنات میں اصل اندھیرا ہے ، اللہ تعالی نے اسے دور کرنے کے لئے سورج کی روشنی پیدا فرمائی ہے ، جب سورج نکلتا ہے تو وہ اپنی روشنی کا ایک غلاف کائنات کے کچھ حصے پر چڑھا دیتا ہے ، جس سے روشنی ہو جاتی ہے ، پھر جب سورج غروب ہوتا ہے تو روشنی کا یہ چھلکا اتر جاتا ہے اور اندھیرا واپس آ جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور سورج اپنے مقررہ راستہ پر چلتا رہتا ہے ، یہ اللہ غالب و دانا کا اندازہ (مقرر کردہ) ہے۔ (۳۸)

تشریح: سورج کی چال اور راستہ مقرر ہے اسی پر چلا جاتا ہے۔ ایک انچ یا ایک منٹ اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔ جس کام پر لگا دیا ہے ہر وقت اس میں مشغول ہے۔ کسی دم قرار نہیں۔ رات دن کی گردش اور سال بھر کے چکر میں جس جس ٹھکانہ پر اسے پہنچنا ہے پہنچتا ہے۔ پھر وہاں سے باذن خداوندی نیا دورہ شروع کرتا ہے۔ قرب قیامت تک اسی طرح کرتا رہے گا۔ تاآنکہ ایک وقت آئے گا جب اس کو حکم ہو گا کہ جدھر سے غروب ہوا ہے ادھر سے واپس آئے یہی وقت ہے جب باب توبہ بند کر دیا جائے گا۔ کما ورد فی الحدیث الصحیح۔ بات یہ ہے کہ اس کے طلوع و غریب کا یہ سب نظام اس زبردست اور باخبر ہستی کا قائم کیا ہوا ہے جس کے انتظام کو کوئی دوسرا شکست نہیں کر سکتا، اور نہ اس کی حکمت و دانائی پر کوئی حرف گیری کر سکتا ہے وہ خود جب چاہے اور جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرے کسی کو مجال انکار نہیں ہو سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے (پہلی کا باریک چاند)۔ (۳۹)

تشریح: سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک طرح نہیں رہتا بلکہ روزانہ گھٹتا بڑھتا۔ اس کی اٹھائیس منزلیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں۔ ان کو ایک معین نظام کے ساتھ درجہ بدرجہ طے کرتا ہے۔ پہلی آیت میں رات دن کا بیان تھا، پھر سورج کا ذکر کیا جس سے سالوں اور فصلوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ اب چاند کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی رفتار سے قمری مہینوں کا وجود وابستہ ہے۔ چاند سورج مہینہ کے آخر میں ملتے ہیں تو چاند چھپ جاتا ہے جب آگے بڑھتا ہے تو نظر آتا ہے۔ پھر منزل بہ منزل بڑھتا چلا جاتا اور چودھویں شب کو پورا ہو کر بعد میں گھٹنا شروع ہوتا ہے آخر رفتہ رفتہ اسی پہلی حالت پر آپہنچتا اور کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح پتلا، خمدار اور بے رونق سا ہو کر رہ جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

نہ سورج کی مجال کے چاند کو جا پکڑے اور نہ رات پہلے آسکے دن سے ، اور سب اپنے دائرہ میں گردش کرتے ہیں۔ (۴۰)

تشریح: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ چاند اور سورج دونوں اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں، سورج کی مجال نہیں ہے کہ وہ چاند کے مدار میں داخل ہو جائے ، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ رات کے وقت جب چاند افق پر موجود ہو اس وقت نکل آئے ، اور دن کو رات بنا دے۔

(توضیح القرآن)

 

ا ور ان کے لئے ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا بھری ہوئی کشتی میں۔ (۴۱) اور ہم نے ان کے لئے اس کشتی جیسی (اور چیزیں) پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔ (۴۲)

تشریح: کشتی جیسی دوسری سواری کی تشریح عام طور سے مفسرین نے اونٹوں سے کی ہے ، کیونکہ اہل عرب اونٹوں کو صحرا کا جہاز کہا کرتے تھے ، لیکن قرآن کریم کے الفاظ عام ہیں جس میں کشتی کے مشابہ ہر طرح کی سواریاں داخل ہیں، بلکہ عربی قواعد کی رو سے آیت کا ترجمہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ: ہم نے ان کے لئے اسی جیسی اور چیزیں بھی پیدا کی ہیں جن پر یہ (آئندہ) سواری کریں گے ، اس صورت میں وہ تمام سواریاں اس عبارت میں داخل ہو جاتی ہیں جو قیامت تک پیدا ہوں گی، مثلاً آبدوزیں اور ہوائی جہاز جو اس لحاظ سے کشتی کے مشابہ ہیں کہ کشتی پانی پر تیرتی ہے اور ہوائی جہاز ہوا پر تیرتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

ا ور اگر ہم چاہیں تو ہم انہیں غرق کر دیں تو نہ (کوئی) ان کے لئے فریادرس (ہو) اور نہ وہ چھڑائے جائیں۔ (۴۳) مگر (یہ کہ) ہماری رحمت سے (ہو) اور ایک وقت معین تک فائدہ دینا (منظور ہے )۔ (۴۴)

تشریح: یعنی یہ مشت استخواں انسان! دیکھو کیسے خوفناک سمندروں کو کشتی کے ذریعہ عبور کرتا ہے۔ جہاں بڑے بڑے جہازوں کی حقیقت ایک تنکے کے برابر نہیں۔ اگر اللہ اس وقت غرق کرنا چاہے تو کون بچا سکتا ہے اور کون ہے جو فریاد کو پہنچے۔ مگر یہ اس کی مہربانی اور مصلحت ہے کہ اس طرح سب بحری سواریوں کو غرق نہیں کر دیتا۔ کیونکہ اس کی رحمت و حکمت مقتضی ہے کہ ایک معین وقت تک دنیا کا کام چلتا رہے۔ افسوس ہے کہ بہت لوگ ان نشانیوں کو نہیں سمجھتے نہ اس کی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان سے کہا جائے گا تم (اس عذاب سے ) ڈرو جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے ، شاید تم پر رحم کیا جائے۔ (۴۵)

اور ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی نہیں آتی مگر وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ (۴۶)

تشریح: سامنے آتا ہے جزاء کا دن اور پیچھے چھوڑے اپنے اعمال یعنی جب کہا جاتا ہے کہ قیامت کی سزا اور بداعمالیوں کی شامت سے بچنے کی فکر کرو تاکہ خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہو تو نصیحت پر ذرا کان نہیں دھرتے۔ ہمیشہ خدائی احکام سے روگردانی کرتے رہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور جب ان سے کہا جائے کہ جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافر مؤمنوں سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھانے کو دیں جسے اگر اللہ چاہتا تو اسے کھانے کو دیتا، تم صرف کھلی گمراہی میں ہو۔ (۴۷)

تشریح: یعنی اور احکام الٰہی تو کیا مانتے ، فقیروں مسکینوں پر خرچ کرنا تو ان کے نزدیک بھی کارِ ثواب ہے ،لیکن یہی مسلم بات جب پیغمبر اور مومنین کی طرف سے کہی جاتی ہے تو نہایت بھونڈے طریقہ سے تمسخر کے ساتھ یہ کہہ کر اس کا انکار کر دیتے ہیں کہ جنہیں خود اللہ میاں نے کھانے کو نہیں دیا ہم انہیں کیوں کھلائیں۔ ہم تو اللہ کی مشیت کے خلاف کرنا نہیں چاہتے ، اگر اس کی مشیت ہوتی تو ان کو فقیر و محتاج اور ہمیں غنی و تونگر نہ بناتا۔ خیال کرو اس حماقت اور بے حیائی کا کیا ٹھکانہ ہے۔ کیا خدا کسی کو دینا چاہے تو اس کی یہی ایک صورت ہے کہ خود بلا واسطہ رزق اس کے ہاتھ پر رکھ دے۔ اگر وسائط سے دلانا بھی اس کی مشیت سے ہے تو تم نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ اللہ ان کو روٹی دینا نہیں چاہتا۔ یہ تو اس کا امتحان ہے کہ اغنیا کو فقراء کی اعانت پر مامور فرمایا اور ان کے توسط سے رزق پہنچانے کا سامان کیا جو اس امتحان میں ناکامیاب رہا اسے اپنی بدبختی اور شقاوت پر رونا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ (کافر) کہتے ہیں کب (پورا ہو گا) یہ وعدۂ  (قیامت) اگر تم سچے ہو۔ (۴۸)

تشریح: یعنی یہ قیامت اور عذاب کی دھمکیاں کب پوری ہوں گی۔ اگر سچے ہو تو جلد پوری کر کے دکھلا دو۔ (تفسیرعثمانی)

 

وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں مگر ایک چنگھاڑ (صور کی تند آواز) کی، جو انہیں آ پکڑے گی اور وہ باہم جھگڑ رہے ہوں گے۔ (۴۹)

پھر نہ وہ وصیت کرسکیں گے ا ورنہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ سکیں گے۔ (۵۰)

تشریح: یعنی قیامت ناگہاں آپکڑے گی اور وہ اپنے معاملات میں غرق ہوں گے۔ جس وقت پہلا صور پھونکا جائے گا سب ہوش و حواس جاتے رہیں گے اور آخر مر کر ڈھیر ہو جائیں گے۔ اتنی فرصت بھی نہ ملے گی کہ فرض کرو مرنے سے پہلے کسی کو کچھ کہنا چاہیں تو کہہ گزریں یا جو گھر سے باہر تھے وہ گھر واپس جا سکیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ( دوبارہ) پھونکا جائے گا صور، تو وہ یکایک قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑیں گے۔ (۵۱)

تشریح: یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور فرشتے ان کو جلد جلد دھکیل کر میدان حشر میں لے جائیں گے۔ (تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے اے وائے ہم پر ! ہمیں کس نے اٹھا دیا ہماری قبروں سے ، یہ ہے وہ جو اللہ رحمن نے وعدہ کیا تھا، اور رسولوں نے سچ کہا تھا۔ (۵۲)

تشریح: یہ جواب اللہ کی طرف سے اس وقت ملے گا یا مستقبل کو حاضر قرار دے کر اب جواب دے رہے ہیں۔ یعنی کیا پوچھتے ہو کس نے اٹھا دیا۔ ذرا آنکھیں کھولو۔ یہ و ہی اٹھانا ہے جس کا وعدہ خدائے رحمان کی طرف سے کیا گیا تھا اور پیغمبر جس کی خبر برابر دیتے رہے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

(یہ) نہ ہو گی مگر ایک چنگھاڑ، پس یکایک وہ سب ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ (۵۳)

پس آج نا انصافی نہ کی جائے گی کسی شخص سے کچھ (بھی) اور جو تم کرتے تھے پس اسی کا بدلہ پاؤ گے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی نہ کسی کی نیکی ضائع ہو گی نہ جرم کی حیثیت سے زیادہ سزا ملے گی۔ ٹھیک ٹھیک انصاف ہو گا اور جو نیک و بد کرتے تھے فی الحقیقت عذاب و ثواب کی صورت میں وہ ہی سامنے آ جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک آج اہل جنت ایک شغل میں خوش طبعی کرتے ہوں گے۔ (۵۵)

وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے (بیٹھے ) ہوں گے۔ (۵۶)

ان کے لئے اس (جنت) میں (ہر قسم کا) میوہ ہے ، اور جو وہ چاہیں گے ان کے لئے (موجود ہو گا) مہربان پروردگار کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا۔ (۵۸)

تشریح: بہشت میں ہر قسم کے عیش و نشاط کا سامان ہو گا۔ دنیا کی مکروہات سے چھوٹ کر آج یہ ہی ان کا مشغلہ ہو گا۔ وہ اور ان کی عورتیں آپس میں گھل مل کر اعلیٰ درجہ کے خوشگوار سایوں میں مسہریوں پر آرام کر رہے ہوں گے۔ ہمہ قسم کے میوے اور پھل وغیرہ ان کے لیے حاضر ہوں گے۔ بس خلاصہ یہ ہے کہ جس چیز کی جنتیوں کے دل میں طلب اور تمنا ہو گی و ہی دی جائے گی، اور منہ مانگی مرا دیں ملیں گی۔ یہ تو جسمانی لذائذ کا حال ہوا، آگے روحانی نعمتوں کی طرف ”سلام قولا من رب رحیم” سے اک ذرا سا اشارہ فرماتے ہیں۔ اس مہربان پروردگار کی طرف سے جنتیوں کو سلام بولا جائے گا خواہ فرشتوں کے ذریعہ سے یا جیسا کہ ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے بلاواسطہ خود رب کریم سلام ارشاد فرمائیں گے ، اس وقت کی عزت و لذت کا کیا کہنا۔ اللہم ارقنا عذہ النعمۃ العظمی بحرمتہ نبیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اے مجرمو! آج الگ ہو جاؤ۔ (۵۹)

تشریح: یعنی جنتیوں کے عیش و آرام میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ تمہارا مقام دوسرا ہے جہاں رہنا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے اولاد آدم! کیا میں نے تمہاری طرف حکم نہیں بھیجا تھا کہ تم پرستش نہ کرنا شیطان کی، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (۶۰)

اور یہ کہ تم میری عبادت کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔ (۶۱)

تشریح: یعنی اسی دن کے لیے تم کو انبیاء علیہم السلام کی زبانی بار بار سمجھایا گیا کہ شیطان لعین کی پیروی مت کرنا جو تمہارا صریح دشمن ہے وہ جہنم میں پہنچائے بغیر نہ چھوڑے گا۔ اگر ابدی نجات چاہتے ہو تو یہ سیدھی راہ پڑی ہوئی ہے اس پر چلے آؤ اور اکیلے ایک خدا کی پرستش کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا، سو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ (۶۲)

یہ ہے وہ جہنم جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ (۶۳)

تم جو کفر کرتے تھے اس کے بدلے آج اس میں داخل ہو جاؤ۔ (۶۴)

تشریح: یعنی افسوس اتنی نصیحت و فہمائش پر بھی تم کو عقل نہ آئی اور اس ملعون نے ایک خلقت کو گمراہ کر چھوڑا کیا تمہیں اتنی سمجھ نہ تھی کہ دوست دشمن میں تمیز کر سکتے۔ اور اپنے نفع و نقصان کو پہچانتے۔ دنیا کے کاموں میں تو اس قدر ہوشیاری اور ذہانت دکھلاتے تھے مگر آخرت کے معاملہ میں اتنے غبی بن گئے کہ موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے کی لیاقت نہ رہی۔ اب اپنی حماقتوں کا خمیازہ بھگتو۔ یہ دوزخ تیار ہے جس کا بصورت کفر اختیار کرنے کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کفر کا ٹھکانہ یہی ہے۔ چاہیے کہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے ، اور ہم سے ان کے ہاتھ بولیں گے ، اور (اس کی) ان کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔ (۶۵)

تشریح: یعنی آج اگر یہ لوگ اپنے جرموں کا زبان سے اعتراف نہ بھی کریں تو کیا ہوتا ہے ، ہم منہ پر مہر لگا دیں گے اور ہاتھ پاؤں کان آنکھ حتی کہ بدن کی کھال کو حکم دیا جائے گا کہ ان کے ذریعہ سے جن جرائم کا ارتکاب کیا تھا بیان کریں۔ چنانچہ ہر ایک عضو اللہ کی قدرت سے گویا ہو گا اور ان جرموں کی شہادت دے گا۔ کما قال تعالیٰ۔ ”حتی اذا ماجاؤھا شہد علیہم سمعہم وابصارہم وجلودہم بما کانوا یعملون” (حم السجدہ، رکوع٣) وقال تعالیٰ فی موضع آخر۔ ”قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شئی ” (حم السجدہ، رکوع٣) –

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں ملیا میٹ کر دیں، پھر وہ راستہ کی طرف سبقت کریں (دوڑیں) تو انہیں کہاں سوجھے۔ (۶۶)

اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہوں میں (ان کے گھر بیٹھے ) مسخ کر دیں (ان کی شکلیں) پھر وہ نہ چل سکیں، اور نہ لوٹ سکیں۔ (۶۷)

تشریح: یعنی جیسے انہوں نے ہماری آیتوں سے آنکھیں بند کر لی ہیں اگر ہم چاہیں تو دنیا ہی میں بطور سزا کے ان کی ظاہری بینائی چھین کر نپٹ اندھا کر دیں کہ ادھر ادھر جانے کا راستہ بھی نہ سوجھے اور جس طرح یہ لوگ شیطانی راستوں سے ہٹ کر اللہ کی راہ پر چلنا نہیں چاہتے ، ہم کو قدرت ہے کہ اس کی صورتیں بگاڑ کر بالکل اپاہج بنا دیں کہ پھر یہ کسی ضرورت کے لیے اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔ پر ہم نے ایسا نہ چاہا اور ان جوارح و قویٰ سے ان کو محروم نہ کیا۔ یہ ہماری طرف سے مہلت اور ڈھیل تھی آج و ہی آنکھیں اور ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے کہ ان بیہودوں نے ہم کو کن نالائق کاموں میں لگایا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم جس کی عمر دراز کر دیتے ہیں اسے پیدائش میں اوندھا کر دیتے ہیں تو کیا وہ سمجھتے نہیں؟ (۶۸)

تشریح: یعنی آنکھیں چھین لینا اور صورت بگاڑ کر اپاہج بنا دینا کچھ مستبعد مت سمجھو۔ دیکھتے نہیں؟ ایک تندرست اور مضبوط آدمی زیادہ بوڑھا ہو کر کس طرح دیکھنے ، سننے اور چلنے پھرنے سے معذور کر دیا جاتا ہے۔ گویا بچپن میں جیسا کمزور ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج تھا، بڑھاپے میں پھر اسی حالت کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے تو کیا جو خدا پیرانہ سالی کی حالت میں ان کی قوتیں سلب کر لیتا ہے ، جوانی میں نہیں کر سکتا؟

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے اس کو (آپ کو) شعر نہیں سکھایا، اور یہ آپ کی شایان نہیں تھا، یہ نہیں مگر (کتاب) نصیحت اور واضح قرآن۔ (۶۹)

تشریح: یعنی اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ حقائق واقعہ ہیں۔ کوئی شاعرانہ تخیلات نہیں۔ اس پیغمبر کو ہم نے قرآن دیا ہے جو نصیحتوں اور روشن تعلیمات سے معمور ہے کوئی شعر و شاعری کا دیوان نہیں دیا جس میں نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوں، بلکہ آپ کی طبع مبارک کو فطری طور پر اس فن شاعری سے اتنا بعید رکھا گیا کہ باوجود قریش کے اس اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کے جس کی معمولی لونڈیاں بھی اس وقت شعر کہنے کا طبعی سلیقہ رکھتی تھیں۔ آپ نے مدت العمر کوئی شعر نہیں بنایا۔ یوں رجز وغیرہ کے موقع پر کبھی ایک آدھ مرتبہ زبان مبارک سے مقفی عبارت نکل کر بے ساختہ شعر کے سانچہ میں ڈھل گئی ہو وہ الگ بات ہے۔ اسے شاعری یا شعر کہنا نہیں کہتے۔ آپ خود تو شعر کیا کہتے کسی دوسرے شاعر کا شعر یا مصرح بھی زندگی بھر میں دو چار مرتبہ سے زائد نہیں پڑھا۔ اور پڑھتے وقت اکثر اس میں ایسا تغیر کر دیا کہ شعر شعر نہ رہے۔ محض مطلب شاعر ادا ہو جائے۔ غرض آپ کی طبع شریف کو شاعری سے مناسبت نہیں دی گئی تھی کیونکہ یہ چیز آپ کے منصب جلیل کے لائق نہ تھی۔ آپ حقیقت کے ترجمان تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعلیٰ حقائق سے بدون ادنیٰ ترین کذب و غلو کے روشناس کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ایک شاعر کا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ شعریت کا حسن و کمال کذب و مبالغہ، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں۔ شعر میں اگر کوئی جز محمود ہے تو اس کی تاثیر اور دلنشینی ہو سکتی ہے۔ سو یہ چیز قرآن کی نثر میں اس درجہ پر پائی جاتی ہے کہ ساری دنیا کے شاعر مل کر یہ بھی اپنے کلاموں کے مجموعہ میں پیدا نہیں کر سکتے۔ قرآن کریم کے اسلوب بدیع کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ گویا نظم کی اصل روح نکال کر نثر میں ڈال دی گئی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فصیح و عاقل دنگ ہو کر قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگے تھے۔ حالانکہ شعر و سحر کو قرآن سے کیا نسبت؟ کیا شاعری اور جادوگری کی بنیاد پر دنیا میں کبھی قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارتیں کھڑی ہوئی ہیں جو قرآنی تعلیم کی اساس پر آج تک قائم شدہ دیکھتے ہو۔ یہ کام شاعروں کا نہیں پیغمبروں کا ہے کہ خدا کے حکم سے مردہ قلوب کو ابدی زندگی عطا کرتے ہیں، حق تعالیٰ نے عرب کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیا کہ آپ پہلے سے شاعر تھے شاعری سے ترقی کر کے نبی بن بیٹھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ آپ (اس کو) ڈرائیں جو زندہ ہو اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے۔ (۷۰)

تشریح: یعنی زندہ دل آدمی قرآن سن کر اللہ سے ڈرے اور منکروں پر حجت تمام ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جس میں جان ہو یعنی نیک اثر پکڑتا ہو اس کے فائدہ کو اور منکروں پر الزام اتارنے کو۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

یا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے جو (چیزیں) اپنی قدرت سے بنائیں، ان سے ان کے لئے پیدا کئے چوپائے پس وہ ان کے مالک ہیں۔ (۷۱)

تشریح: آیات تنزیلیہ کے بعد پھر آیاتِ تکوینیہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ یعنی ایک طرف قرآن کی پندو نصیحت کو سنو، اور دوسری طرف غور سے دیکھو کہ اللہ کے کیسے کیسے انعام و احسان تم پر ہوئے ہیں، اونٹ، گائے ، بکری، گھوڑے ، خچر وغیرہ جانوروں کو تم نے نہیں بنایا، اللہ نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے۔ پھر تم کو محض اپنے فضل سے ان کا مالک بنا دیا کہ جہاں چاہو بیچو اور جو چاہو کام لو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ان (چوپایوں ) کو ان کا فرمانبردار کیا، پس ان میں سے (بعض) ان کی سواری ہیں اور ان میں سے بعض کو وہ کھاتے ہیں۔ (۷۲)

اور ان میں ان کے لئے (بہت سے ) فائدے اور پینے کی چیزیں ہیں کیا پھر وہ شکر نہیں کرتے ؟ (۷۳)

تشریح: دیکھو کتنے بڑے بڑے عظیم الجثہ قوی ہیکل جانور انسان ضعیف البنیان کے سامنے عاجز و مسخر کر دیے۔ ہزاروں اونٹوں کی قطار کو ایک خورد سال بچہ نکیل پکڑ کر جدھر چاہے لے جائے ذرا کان نہیں ہلاتے۔ کیسے کیسے شہ زور جانوروں پر آدمی سواری کرتا ہے اور بعض کو کاٹ کر اپنی غذا بناتا ہے۔ علاوہ گوشت کھانے کے ان کی کھال، ہڈی اون وغیرہ سے کس قدر فوائد حاصل کیے جاتے ہیں ان کے تھن کیا ہیں گویا دودھ کے چشمے ہیں ان ہی چشموں کے گھاٹ سے کتنے آدمی سیراب ہوتے ہیں۔ لیکن شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے بنا لئے اللہ کے سوا اور معبود (اس خیال باطل سے کہ) شائد وہ مدد کئے جائیں۔ (۷۴)

وہ ان کی مدد نہیں کرسکتے ، اور وہ ان کے لئے (مجرم) لشکر (کی شکل میں) حاضر کئے جائیں گے۔ (۷۵)

تشریح: یعنی جس خدا نے یہ نعمتیں مرحمت فرمائیں اس کا یہ شکر ادا کیا کہ اس کے مقابل دوسرے احکام اور معبود ٹھہرا لیے جنہیں سمجھتے ہیں کہ آڑے وقت میں کام آئیں گے اور مدد کریں گے سو یاد رکھو! وہ تمہاری تو کیا اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔ ہاں جب تم کو مدد کی ضرورت ہو گی اس وقت گرفتار ضرور کرا دیں گے تب پتہ لگے گا کہ جن کی حمایت میں عمر بھر لڑتے رہے تھے وہ آج کس طرح آنکھیں دکھانے لگے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ کو ان کی بات مغموم نہ کرے ، بیشک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (۷۶)

تشریح: یعنی جب خود ہمارے ساتھ ان کا یہ معاملہ ہے تو آپ ان کی بات سے غمگین و دلگیر نہ ہوں۔ اپنا فرض ادا کر کے ہمارے حوالہ کریں۔ ہم ان کے ظاہری و باطنی احوال سے خوب واقف ہیں ٹھیک ٹھیک بھگتان کر دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا؟ اور پھر ناگہاں وہ ہوا جھگڑالو کھلا۔ (۷۷)

تشریح: یعنی انسان اپنی اصل کو یاد نہیں رکھتا کہ وہ ایک ناچیز قطرہ تھا، خدا نے کیا سے کیا بنا دیا۔ اس پانی کی بوند کو وہ زور اور قوت گویائی عطا کی کہ بات بات پر جھگڑنے اور باتیں بنانے لگا۔ حتیٰ کہ آج اپنی حد سے بڑھ کر خالق کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے ہمارے لئے ایک مثال چسپاں کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا کون ہڈیوں کو پیدا کرے گا جبکہ وہ گل گئی ہوں گی۔ (۷۸)

تشریح: یعنی دیکھتے ہو! خدا پر کیسے فقرے چسپاں کرتا ہے۔ گویا اس قادر مطلق کو عاجز مخلوق کی طرح فرض کر لیا ہے جو کہتا ہے کہ آخر جب بدن گل سڑ کر صرف ہڈیاں رہ گئیں وہ بھی بوسیدہ پرانی اور کھوکھلی، تو انہیں دوبارہ کون زندہ کرے گا۔ ایسا سوال کرتے وقت اسے اپنی پیدائش یاد نہیں رہی ورنہ اس قطرہ ناچیز کو ایسے الفاظ کہنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اپنی اصل پر نظر کر کے کچھ شرماتا اور کچھ عقل سے کام لے کر اپنے سوال کا جواب بھی حاصل کر لیتا جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اسے وہ زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا، اور وہ ہر طرح سے پیدا کرنا جانتا ہے۔ (۷۹)

تشریح: یعنی جس نے پہلی مرتبہ ان ہڈیوں میں جان ڈالی اسے دوسری بار جان ڈالنا کیا مشکل ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ (وہو اہون علیہ) اور اس قادر مطلق کے لیے تو سب ہی چیز آسان ہے پہلی مرتبہ ہو یا دوسری مرتبہ، وہ ہر طرح بنانا جانتا ہے اور بدن کے اجزاء اور ہڈیوں کے ریزے جہاں کہیں منتشر ہو گئے ہوں ان کا ایک ایک ذرہ اس کے علم میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی، پس اب تم اس سے (آگ) سلگاتے ہو۔ (۸۰)

تشریح: یعنی اول پانی سے سرسبز و شاداب درخت تیار کیا، پھر اسی تر و تازہ درخت کو سکھا کر ایندھن بنا دیا، جس سے اب تم آگ نکال رہے ہو۔ پس جو خدا ایسی متضاد صفات کو ادل بدل سکتا ہے کیا وہ ایک چیز کی موت و حیات کے الٹ پھیر پر قادر نہیں؟ (تنبیہ) بعض سلف نے ”شجر اخضر” (سبزدرخت) سے خاص وہ درخت مراد لیے ہیں جن کی شاخوں کو آپس میں رگڑنے سے آگ نکلتی ہو۔ جیسے بانس کا درخت ہے یا عرب میں مرخ اور عفار تھے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسا پیدا کرے ہاں (کیوں نہیں) وہ بڑا پیدا کرنے والا ہے۔ (۸۱)

تشریح: یعنی جس نے آسمان و زمین جیسی بڑی بڑی چیزیں پیدا کیں اسے ان کافروں جیسی چھوٹی چیزوں کا پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کا کام اس کے سوا نہیں کہ وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو ہ اس کوکہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ (۸۲)

تشریح: یعنی کسی چھوٹی بڑی چیز کے پہلی مرتبہ یا دوبارہ بنانے میں اسے دقت ہی کیا ہو سکتی ہے اس کے ہاں تو بس ارادہ کی دیر ہے جہاں کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور کہا ہو جا! فوراً ہوئی رکھی ہے۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر نہیں ہو سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو پاک ہے وہ (ذات واحد) جس کے ہاتھ میں ہر شے کی بادشاہت ہے ، اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۸۳)

تشریح: یعنی وہ اعلیٰ ترین ہستی جس کے ہاتھ میں فی الحال بھی اوپر سے نیچے تک تمام مخلوقات کی زمام حکومت ہے اور آئندہ بھی اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ پاک ہے عجز و سفہ اور ہر قسم کے عیب و نقص سے۔ تم سورۃ یس وللہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید