فہرست مضامین
ترجمہ و تفسیر قرآن
حصہ ۶: یوسف تا اسراء
ترجمہ: حافظ نذر احمد
اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔
۱۲۔ سورۃیوسف
تعارف
یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں ناز ل ہوئی تھی، بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنی اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے مصر میں جا کر کیوں آباد ہوئے ، ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ، اس لئے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے ، اور اس طرح آپ کے خلاف یہ پرپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذاللہ) سچے نبی نہیں ہیں، اس سوال کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ پوری سورۂ یوسف نازل فرما دی، جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے ، دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب علیہ السلام تھے ، انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا، ان کے بارہ صاحبزادے تھے ، انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے ، اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بنیامین بھی شامل تھے ، ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کر کے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں ڈال دیا جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھا کر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا، شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے ، لیکن اُس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آ رہی ہے ، اُس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا، اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا اور انہیں نہ صرف جیل سے نکال کر با عزت بری کر دیا، بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا، اور بعد میں حکومت کے سارے اختیارات انہی کو سونپ دئے ، اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے اپن والدین کو فلسطین سے مصر بلوا لیا اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہو گئے۔
سورۂ یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور تقریباً پوری سورت اسی کے لئے وقف ہے ، اور یہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا، ا س واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اللہ تعالی نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرما دی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ، یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی، اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لئے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے ، لیکن آخر کار اللہ تعالی نے انہی کو عزت شوکت اور سربلندی عطا فرمائی، اور جن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایا تھا ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے اور حق غالب ہو کر رہے گا، اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لئے بہت سے سبق ہیں اور شاید اسی لئے اللہ تعالی نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۱۱ رکوعات:۱۲
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الٓرٰ۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ (۱)
بیشک ہم نے اسے عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھو۔ (۲)
تشریح: یعنی عربی زبان جو تمام زبانوں میں زیادہ فصیح و وسیع اور منضبط و پر شوکت زبان ہے ، نزول قرآن کے لیے منتخب کی گئی۔ جب خود پیغمبر عربی ہیں تو ظاہر ہے کہ دنیا میں اس کے اولین مخاطب عرب ہوں گے۔ پھر عرب کے ذریعہ سے چاروں طرف یہ روشنی پھیلے گی۔
(تفسیرعثمانی)
ہم تم پر بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن بھیجا اور تحقیق تم اس سے قبل البتہ بے خبروں میں سے تھے۔ (۳)
تشریح:یعنی اس وحی کے ذریعہ سے جو قرآن کی صورت میں ہم پر نازل ہوتی ہے۔ ہم ایک نہایت اچھا بیان نہایت حسین طرز میں تم کو سناتے ہیں۔ جس سے اب تک اپنی قوم کی طرح تم بھی بے خبر تھے۔ گو یہ واقعہ کتب تاریخ اور بائبل میں پہلے سے مذکور تھا مگر محض ایک افسانہ کی صورت میں تھا۔ قرآن کریم نے اس کے ضروری اور مفید اجزاء کو ایسی عجیب ترتیب اور بلیغ و موثر انداز میں بیان فرمایا۔ جس نے نہ صرف پہلے تذکرہ نویسوں کی کوتاہیوں پر مطلع کیا بلکہ موقع بہ موقع نہایت ہی اعلیٰ نتائج کی طرف راہنمائی کی اور قصہ کے ضمن میں علوم و ہدایات کے ابواب مفتوح کر دیئے۔ یہ بات کہ خداوند قدوس کی تقدیر کو کوئی چیز نہیں روک سکتی، اور خدا جب کسی پر فضل کرنا چاہے تو سارا جہان مل کر بھی اپنی ساری امکانی تدابیر سے اسے محروم نہیں کر سکتا، صبر و استقامت دنیاوی و اخروی کامیابی کی کلید ہے ، حسد و عداوت کا انجام حذلان و نقصان کے سوا کچھ نہیں، عقل انسانی بڑا شریف جوہر ہے جس کی بدولت آدمی بہت سی مشکلات پر غالب آتا اور اپنی زندگی کو کامیاب بنا لیتا ہے ، اخلاقی شرافت اور پاکدامنی انسان کو دشمنوں اور حاسدوں کی نظر میں بھی آخرکار معزز بنا دیتی ہے۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار حقائق ہیں جن پر اس احسن القصص کے ضمن میں متنبہ فرمایا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
(یاد کرو) جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا، اے میرے باپ! بیشک میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو (خواب میں) دیکھا، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا۔ (۴)
اس نے کہا اے میرے بیٹے ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کہ وہ تیرے لئے کوئی چال چلیں گے ، بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (۵)
تشریح:حضرت یعقوب علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کو اتنا اونچا مقام ملنے والا ہے کہ ان کے گیارہ بھائی اور ماں باپ کسی وقت ان کے مطیع اور فرماں بردار ہو جائیں گے ، دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے کل بارہ بیٹے تھے ، ان میں سے دوبیٹے یعنی حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین ایک والدہ سے تھے اور باقی صاحب زادے ان کی دوسری اہلیہ سے تھے ، حضرت یعقوب علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ دوسرے سوتیلے بھائیوں کو اس خواب کی وجہ سے حسد نہ ہو، اور شیطان کے بہکائے میں آ کر یوسف علیہ السلام کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر بیٹھیں۔
(توضیح القرآن)
اور تیرا رب اسی طرح تجھے چن لے گا اور تجھے سکھائے گا باتوں کا انجام نکالنا ( خوابوں کی تعبیر) اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کر دے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر، جیسے اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر اسے پورا کیا، بیشک تیرا رب علم والا، حکمت والا ہے۔ (۶)
تشریح:یعنی جس طرح اللہ تعالی نے تمہیں اس خواب کے ذریعے یہ بشارت دی ہے کہ سب تمہارے فرماں بردار بنیں گے ، اسی طرح اللہ تعالی تمہیں نبوت سے سرفراز کر کے تمہیں بہت سے مزید نعمتوں سے نوازے گا۔
(توضیح القرآن)
مثلاً تعبیر رؤیا، یعنی خواب سن کر اس کے اجزاء کو ذہانت و فراست سے ٹھکانے پر لگا دینا۔ یا ہر بات کے موقع و محل کو سمجھنا، اور معاملات کے عواقب و نتائج کو فوراً پرکھ لینا۔ یا خدا اور پیغمبروں کے ارشادات اقوام و امم کے قصص اور کتب منزلہ کے مضامین کی تہہ تک پہنچ جانا، یہ سب چیزیں ”تاویل الاحادیث” کے تحت میں مندرج ہو سکتی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک یوسفؑ اور اس کے بھائیوں میں پوچھنے والوں کے لئے کھلی نشانیاں ہیں۔ (۷)
تشریح: یعنی جو لوگ اس طرح کے واقعات دریافت کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہتے ہیں ان کے لیے یوسف اور ان کے بھائیوں کی سرگزشت میں ہدایت و عبرت کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ اس قصہ کو سن کر قلوب میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت و حکمت کا نقش جم جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا بین ثبوت ملتا ہے کہ آپ باوجود امی ہونے اور کسی کتاب یا معلم سے استفادہ نہ کرنے کے ایسے منقح و منضبط تاریخی حقائق کا انکشاف فرما رہے ہیں۔ جن کے بیان کی بجز اعلام ربانی کے کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً قریش مکہ کے لیے (جو یہود کے اکسانے سے اس قصہ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہے تھے ) اس واقعہ میں بڑا عبرت آموز سبق ہے کہ جس طرح حضرت یوسف کو بھائیوں نے گھر سے نکالا۔ از راہ حسد قتل یا جلا وطن کرنے کے مشورے کیے۔ طرح طرح سے ایذائیں پہنچائیں۔ اہانت و استخفاف میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ آخر ایک دن آیا کہ یوسف کی طرف نادم محتاج ہو کر آئے۔ یوسف علیہ السلام کو خدا نے دین و دنیا کے اعلیٰ مناصب پر فائز کیا اور انہوں نے اپنے عروج و اقتدار کے وقت بھائیوں کے جرائم سے چشم پوشی کی اور نہایت دریا دلی سے سب کے قصور معاف کر دیے۔ ٹھیک اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برادری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ناپاک منصوبے باندھے ، دکھ پہنچائے ، عزت و آبرو پر حملے کیے ، حتی کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لیکن جلد وہ دن آنے والا تھا جب وطن سے علیحدہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور رفعت شان کا آفتاب چمکا، اور چند سال کے بعد فتح مکہ کا وہ تاریخ دن آ پہنچا جبکہ آپ نے اپنے قومی اور وطنی بھائیوں کی گزشتہ تقصیرات پر بعینہ حضرت یوسف والے کلمات ”لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ” فرما کر قلم عفو کھینچ دیا۔
(تفسیرعثمانی)
جب انہوں نے کہا ضرور یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں، جبکہ ہم ایک جماعت (قوی) ہیں، بیشک ہمارے باپ صریح غلطی میں ہیں۔ (۸)
تشریح:حضرت یعقوب علیہ السلام یوسف اور ان کے عینی بھائی بنیامین سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ، کیونکہ یہ دونوں اپنے علاتی بھائیوں سے چھوٹے تھے ، والدہ کا انتقال ہو چکا تھا اور خاص حضرت یوسف کی نسبت اپنے نور فراست یا الہام ربانی سے سمجھ چکے تھے کہ ان کا مستقبل نہایت درخشاں ہے اور نبوت کا خاندانی سلسلہ ان کی ذات سے وابستہ ہونے والا ہے۔ خود یوسف علیہ السلام کا حسن صورت و سیرت اور کمال ظاہری و باطنی پدر بزرگوار کی محبت خصوصی کو اپنی طرف جذب کرتا تھا۔ دوسرے بھائیوں کو یہ چیز ناگوار تھی۔ وہ کہتے تھے کہ وقت پر کام آنے والے تو ہم ہیں۔ ہمارا ایک طاقتور جتھا ہے جو باپ کی ضعیفی میں کام آسکتا ہے۔ ان چھوٹے لڑکوں سے کیا امید ہو سکتی ہے ؟ ان ہی خیالات کے ماتحت اپنے والد بزرگوار کی نسبت کہتے تھے کہ وہ اس معاملہ میں سخت غلطی اور صریح خطا پر ہیں۔ اپنے نفع و نقصان کا صحیح موازنہ نہیں کرتے۔
(تفسیرعثمانی)
یوسف کو مار ڈالو، یا اسے کسی سرزمین میں ڈال آؤ کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہارے لئے خالی (خاص) ہو جائے اور تم ہو جاؤ (ہو جانا) اس کے بعد نیک لوگ۔ (۹)
تشریح: یعنی رشک و حسد کی آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی۔ آخر آپس میں مشورہ کیا کہ یوسف کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ والد بزرگوار کی خصوصی محبت و توجہ کو ہم اپنی طرف کھینچ سکیں، اس لیے یوسف کا قصد ہی یہاں سے ختم کر دینا چاہیے خواہ قتل کر دو یا کسی دور دراز ملک کی طرف پھینک دو جہاں سے واپس نہ آسکے۔ جب وہ نہ رہیں گے تو باپ کی ساری توجہات اور مہربانیوں کے ہم ہی تنہا حق دار رہ جائیں گے۔ بنیامین کے معاملہ کو غالبا ان کے یہاں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ گویا اس کی محبت کو یوسف کی محبت کا ضمیمہ سمجھتے تھے۔
ایک مرتبہ قتل وغیرہ کا گناہ کرنا پڑے گا۔ اس سے فارغ ہو کر توبہ کر لیں گے اور خوب نیک بن جائیں گے ، گویا رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ بعض مفسرین نے ”وَتَکُوْنُوا مِنْم بَعْدِہٖ قَوْماً صَالِحِیْنَ۔ ” کے معنی یہ لیے ہیں کہ یوسف کے بعد ہمارے سب کام ٹھیک اور درست ہو جائیں گے کیونکہ پدر بزرگوار کا دست شفقت یوسف سے مایوس ہو کر صرف ہمارے ہی سروں پر رہا کرے گا۔
(تفسیرعثمانی)
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا، یوسف کو قتل نہ کرو، اور اسے ڈال آؤ اندھے کنویں میں کہ اسے کوئی مسافر اٹھا لے (جائے ) اگر تمہیں کرنا ہی ہے۔ (۱۰)
تشریح: یہ کہنے والا ”یہودا” تھا یعنی قتل کرنا بہت سخت بات ہے اور ہمارا مقصد بدون اس کے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر تم یوسف کو یہاں سے علیحدہ کرنا چاہتے ہو تو آسان صورت یہ ہے کہ اس کو بستی سے دور کسی گم نام کنوئیں میں ڈال دو۔ ابو حیان نے بعض اہل لغت سے نقل کیا ہے کہ ”غیابت الجب” اس طاقچہ وغیرہ کو کہتے ہیں جو کنوئیں (باؤلی) میں پانی سے ذرا اوپر بنا ہوا ہو۔ غرض یہ تھی کہ ہم خواہی نہ خواہی عمداً ہلاک کرنے کا گناہ اپنے سر نہ لیں۔ ایسے کنوئیں میں ڈال دینے کے بعد بہت ممکن ہے کوئی مسافر ادھر سے گزرے اور خبر پا کر کنوئیں سے نکال لے جائے۔ اس صورت میں ہمارا مقصد حاصل ہو جائے گا اور خون ناحق میں ہاتھ رنگین نہ کرنے پڑیں گے گویا سانپ مر جائے گا اور لاٹھی نہ ٹوٹے گی۔
(تفسیرعثمانی)
کہنے لگے اے ہمارے باپ ! تجھے کیا ہوا ہے ؟تویوسف کے بارہ میں ہمارا اعتبار نہیں کرتا، اور بیشک ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں۔ (۱۱)
تشریح:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی باپ سے اس قسم کی درخواست کر چکے تھے مگر ان کا دل ان کے ساتھ بھیجنے پر مطمئن نہ ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دے وہ (جنگل کے پھل) کھائے اور کھیلے کودے اور بیشک ہم اس کے نگہبان ہیں۔ (۱۲)
تشریح:ایسے خوبصورت بچے کے قوی گھر میں خالی پڑے رہنے سے بیکار ہو جاتے ہیں۔ مناسب ہے کہ ہمارے ساتھ اس کو بکریاں چرانے کے لیے جنگل بھیج دیجئے۔ وہاں جنگل کے پھل میوے خوب کھائے گا اور کھیل کود سے جسمانی ورزش بھی ہو جائے گی۔ کہتے ہیں ان کا کھیل بھاگ دوڑ اور تیر اندازی تھی۔ اور ویسے بھی بچوں کے لیے مناسب حد تک کھیلنا جیسا کہ ابو حیان نے کہا ہے نشاط و شگفتگی کا موجب ہے ، غرض یعقوب علیہ السلام سے یوسف کو ساتھ لے جانے کی پر زور درخواست کی اور نہایت مؤکد طریقہ سے اطمینان دلایا کہ ہم برابر اس کی حفاظت کریں گے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ خود یوسف کو بھی جدا گانہ طور پر ساتھ چلنے اور باپ سے اجازت لینے کی ترغیب دی۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا بیشک مجھے یہ غمگین کرتا ہے کہ اسے لے جاؤ اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے بھڑیا کھا جائے اور تم اس سے بے خبر رہو۔ (۱۳)
تشریح: یعنی یوسف کی جدائی اور تمہارے ساتھ جانے کا تصور ہی مجھے غمگین بنائے دیتا ہے اس پر یہ خوف مزید رہا کہ بچہ ہے۔ تمہاری بے خبری اور غفلت میں بھیڑیا وغیرہ کوئی درندہ نہ پھاڑ کھائے۔ لکھا ہے کہ اس جنگل میں بھیڑیے کثرت سے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ان کو آگے چل کر بھیڑیے کا بہانہ کرنا تھا وہ ہی ان کے دل میں خوف آیا۔ بعض محققین کا خیال یہ ہے کہ ”اَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئبُ” فرمایا حضرت یعقوب جیسے پیغمبر کے درجہ توکل و تفویض سے ذرا نازل بات تھی۔ اس کا جواب یہ ملا کہ لڑکوں نے گویا ان کے منہ میں سے بات پکڑ لی۔ جو اندیشہ ظاہر کیا تھا و ہی واقعہ بنا کر آئے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے اگر اسے بھیڑیا کھا جائے جبکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں، اس صورت میں بیشک ہم زیاں کار ٹھہرے۔ (۱۴)
تشریح: یعنی اگر ہماری جیسی طاقتور جماعت کی موجودگی میں چھوٹے بھائی کو بھیڑیا کھا جائے تو سمجھو کہ ہم بالکل ہی گئے گزرے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا خسارہ ہو گا کہ دس گیارہ تنو مند بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے سے ایک کمزور بچہ بھیڑیے کے منہ میں پہنچ جائے۔ ایسا ہو تو کہنا چاہیے کہ ہم نے اپنا سب کچھ گنوا دیا.
(تفسیرعثمانی)
پھر جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے اتفاق کر لیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ تو انہیں ان کے اس کام کو ضرور جتائے گا اور وہ نہ جانتے (تجھے نہ پہچانتے ) ہوں گے۔ (۱۵)
تشریح: مفسرین نے بہت سے درمیانی قصے نہایت درد انگیز اور رقت خیز پیرایہ میں نقل کیے ہیں جنہیں سن کر پتھر کا کلیجہ موم ہو جائے۔ خدا جانے وہ کہاں تک صحیح ہیں۔ قرآن کریم اپنے خاص نصب العین کے اعتبار سے اس قسم کی تفاصیل کو زیادہ درخور اعتناء اور لائق ذکر نہیں سمجھتا کیونکہ ان اجزاء سے کوئی مہم مقصد متعلق نہیں ہے۔ قرآن کریم اپنے سامعین کے دلوں میں وہ رقت پیدا کرنا چاہتا ہے جس کا منشاء خاص ایمان و عرفان ہو۔ عام رقت جو ہر کافر و مومن بلکہ حیوانات تک میں طبعاً مشترک ہے اس پر عام خطباء کی طرح زور ڈالنا قرآن کی عادت نہیں۔ یہاں بھی اس نے درمیانی واقعات حذف کر کے آخری بات بتلا دی کہ برادران یوسف یوسف کو بلطائف الحیل باپ کے پاس سے لے گئے اور ٹھہری ہوئی قرار داد کے موافق کنوئیں میں ڈالنے کا تہیہ کر لیا۔ اس وقت ہم نے یوسف کو اشارہ کیا جس کی دوسروں کو مطلق خبر نہیں ہوئی کہ گھبراؤ نہیں، ایک وقت آیا چاہتا ہے کہ یہ سب کارروائیاں تم ان کو یاد دلاؤ گے اور اس وقت تم ایسے بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ پر ہو گے کہ یہ تم کو پہچان نہ سکیں گے یا طول عہد کی وجہ سے تم کو شناخت نہ کر سکیں گے۔ یہ خدائی اشارہ خواب میں ہوا یا بیداری میں، بطریق الہام ہوا یا فرشتہ کے ذریعہ سے ، اس کی تفصیل قرآن میں نہیں۔ البتہ ظاہر الفاظ کو دیکھ کر کہا گیا ہے کہ وحی کا آنا چالیس برس کی عمر پر موقوف نہیں ہے کیونکہ حضرت یوسف اس وقت بہت کم عمر تھے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور اندھیرا پڑے وہ اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (۱۶)
تشریح: یا تو گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہو گیا یا جان بوجھ کر اندھیرے سے آئے کہ دن کے اجالے میں باپ کو منہ دکھانا زیادہ مشکل تھا اور رات کی سیاہ چادر بے حیائی، سنگدلی اور جھوٹی آہو بکاء کی کسی حد تک پردہ داری کر سکتی تھی۔ اعمش نے خوب فرمایا کہ برادران یوسف کا گریہ و بکاء سننے کے بعد ہم کسی شخص کو محض چشم اشکبار سے سچا نہیں سمجھ سکتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اندھیرا پڑے وہ اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے ، بولے اے ہمارے ابّا! ہم لگے دوڑنے آگے نکلنے کو، اور ہم نے یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا، تواسے بھیڑیا کھا گیا، اور تو نہیں ہم پر باور کرنے والا خواہ ہم سچے ہوں۔ (۱۷)
تشریح: یعنی ہم نے حفاظت میں کچھ کوتاہی نہیں کی، ہمارے کپڑے جوتے وغیرہ قابل حفاظت چیزیں جہاں رکھی تھیں وہیں یوسف کو بٹھلایا اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کو بھاگ دوڑ شروع کی۔ بس ذرا آنکھ سے اوجھل ہونا تھا کہ بھیڑیے نے یوسف کو آ دبوچا۔ اس موقع پر اتنی ذرا سی دیر میں احتمال بھی نہ تھا کہ بھیڑیا پہنچ کر فورا یوسف کو شکار کر لے گا۔
یوسف کے معاملہ میں پہلے ہی سے آپ کو ہماری طرف بدگمانی ہے۔ اگر آپ کے نزدیک ہم بالکل سچے ہوں تب بھی اس معاملہ خاص میں کسی طرح ہماری بات کا یقین نہیں کر سکتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اس کی قمیص پر جھوٹا خون (لگا کر) لائے ، اس نے کہا (نہیں) بلکہ تمہارے لئے تمہارے دلوں نے ایک بات بنا لی ہے ، پس (صبر) ہی اچھا ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ (ہی) سے مدد چاہتا ہوں۔ (۱۸)
تشریح: ایک بکری یا ہرن وغیرہ ذبح کر کے اس کا خون یوسف کی قمیص پر چھڑک لائے تھے وہ جھوٹا خون پیش کر کے باپ کو یقین دلانے لگے ، کہ بھیڑیے کے زخمی کرنے سے یہ کرتہ خون آلود ہو گیا۔
بھلا جس کو شام میں بیٹھ کر مصر سے یوسف کے کرتہ کی خوشبو آتی تھی وہ بکری کے خون پر یوسف کے خون کا گمان کب کر سکتا تھا۔ انہوں نے سنتے ہی جھٹلا دیا۔ اور جیسا کہ بعض تفاسیر میں ہے کہنے لگے کہ وہ بھیڑیا واقعی بڑا حلیم و متین ہو گا جو یوسف کو لے گیا اور خون آلود کرتہ کو نہایت احتیاط سے صحیح و سالم اتار کر رکھ گیا۔ سچ ہے۔ ”دروغ گو را حافظہ نہ باشد” خون کے چھینٹے تو دیے مگر یہ خیال نہ رہا کہ قمیص کو بے ترتیبی سے نوچ کر اور پھاڑ کر پیش کرتے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے صاف طور پر فرما دیا کہ یہ سب تمہاری سازش اور اپنے دلوں سے تراشی ہوئی باتیں ہیں۔ بہرحال میں صبر جمیل اختیار کرتا ہوں جس میں نہ کسی غیر کے سامنے شکوہ ہو گا نہ تم سے انتقام کی کوشش۔ صرف اپنے خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس صبر میں میری مدد فرمائے اور اپنی اعانت غیبی سے جو باتیں تم ظاہر کر رہے ہو، ان کی حقیقت اس طرح آشکارا کر دے کہ سلامتی کے ساتھ یوسف سے دوبارہ ملنا نصیب ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو مطلع کر دیا گیا تھا کہ جس امتحان میں وہ مبتلا کیے گئے ہیں وہ پورا ہو کر رہے گا اور ایک مدت معین کے بعد اس مصیبت سے نجات ملے گی۔ فی الحال ڈھونڈنے یا انتقامی تدابیر اختیار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں یوسف ابھی ملیں گے نہیں ہاں دوسرے بیٹے ساری دنیا میں رسوا ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ طیش میں آ کر خود یعقوب علیہ السلام کو ایذاء پہنچانے کی کوشش کریں۔ کذا قال الامام الرازی فی الکبیر۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور (ادھر) ایک قافلہ آیا، پس انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا، اس نے اپنا ڈال ڈالا اس نے کہا آہا خوشی کی بات ہے ، یہ ایک لڑکا ہے ، اور اسے مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا، اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے تھے۔ (۱۹)
تشریح: کہتے ہیں تین روز تک یوسف علیہ السلام کنوئیں میں رہے۔ قدرت الٰہی نے حفاظت کی۔ ایک بھائی یہودا کے دل میں ڈال دیا کہ وہ ہر روز کنوئیں میں کھانا پہنچا آتا تھا۔ ویسے بھی سب بھائی خبر رکھتے تھے کہ مرے نہیں۔ کسی دوسرے ملک کا مسافر نکال لے جائے تو ہمارے درمیان سے یہ کانٹا نکل جائے۔
آخر مدین سے مصر کو جانے والا ایک قافلہ ادھر سے گزرا، انہوں نے کنواں دیکھ کر اپنا آدمی پانی بھرنے کو بھیجا اس نے ڈول پھانسا تو حضرت یوسف چھوٹے تو تھے ہی ڈول میں ہو بیٹھے اور رسی ہاتھ سے پکڑ لی کھینچنے والے نے ان کا حسن و جمال دیکھ کر بے ساختہ خوشی سے پکارا کہ یہ تو عجیب لڑکا ہے بڑی قیمت کو بکے گا۔
کھینچنے والے نے اس واقعہ کو دوسرے ہمراہیوں سے چھپانا چاہا کہ اوروں کو خبر ہو گی تو سب شریک ہو جائیں گے۔ شاید یہ ظاہر کیا کہ یہ غلام اس کے مالکوں نے مجھ کو دیا ہے تاکہ مصر کے بازار میں فروخت کروں۔
یعنی بھائی بے وطن کرنا چاہتے تھے اور قافلہ والے بیچ کر دام وصول کرنے کا ارادہ کر رہے تھے اور خدا تعالیٰ خزائن مصر کا مالک بنانا چاہتا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو ان کارروائیوں کو ایک سیکنڈ میں روک دیتا، لیکن اس کی مصلحت تاخیر میں تھی، اس لیے سب چیزوں کو جانتے اور دیکھتے ہوئے انہیں ڈھیل دی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے (بھائیوں نے ) اسے بیچ دیا کھوٹے داموں گنتی کے چند درہموں میں، اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔ (۲۰)
تشریح: بھائیوں کو خبر ہوئی کہ قافلہ والے نکال لے گئے۔ وہاں پہنچے اور ظاہر کیا کہ یہ ہمارا غلام بھاگ آیا ہے چونکہ اسے بھاگنے کی عادت ہے اس لیے ہم رکھنا نہیں چاہتے ، تم خرید و تو خرید سکتے ہو۔ مگر بہت سخت نگرانی رکھنا کہیں بھاگ نہ جائے کہتے ہیں اٹھارہ درہم یا کم و بیش میں بیچ ڈالا۔ اور نو بھائیوں نے دو دو درہم (تقریباً آٹھ آٹھ آنے ) بانٹ لیے۔ ایک بھائی یہودا نے حصہ نہیں لیا۔
یعنی اس قدر ارزاں بیچنے سے تعجب مت کرو۔ وہ اتنے بیزار تھے کہ مفت ہی دے ڈالتے تو مستبعد نہ تھا۔ جو پیسے مل گئے غنیمت سمجھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں آیت میں اس بیع کا ذکر ہے جو قافلہ والوں نے مصر پہنچ کر کی۔ اگر ایسا ہو تو کہا جائے گا کہ پڑی ہوئی چیز کی قدر نہ کی اور یہ اندیشہ رہا کہ پھر کوئی آ کر دعویٰ نہ کر بیٹھے۔ نیز آبق (بھگوڑا) ہونے کا عیب سن چکے تھے ، اس لیے سستے داموں بیچ ڈالا۔ والظاہر ہوالاول۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور مصر کے جس شخص نے اس کو خریدا اس نے کہا اپنی عورت کو اسے عزت سے رکھ، شاید کہ ہمیں نفع پہنچائے ، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی، اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام نکالنا (خوابوں کی تعبیر) سکھائیں، اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۲۱)
تشریح: کہتے ہیں مصر پہنچ کر نیلام ہوا۔ عزیز مصر جو وہاں کا مدار المہام تھا، اس کی بولی پر معاملہ ختم ہوا۔ اس نے اپنی عورت (زلیخا یا راعیل) سے کہا کہ نہایت پیارا، قبول صورت، اور ہونہار لڑکا معلوم ہوتا ہے۔ اس کو پوری عزت و آبرو سے رکھو۔ غلاموں کا معاملہ مت کرو۔ شاید بڑا ہو کر ہمارے کام آئے۔ ہم اپنا کاروبار اس کے سپرد کر دیں۔ یا جب اولاد نہیں ہے تو بیٹا بنا لیں۔
وَکَذٰلِکَ مَکَنَّا لِيُوْسُفَ فِی الْأَرْضِ :ہم نے اپنی قدرت کاملہ اور تدبیر لطیف سے یوسف کو بھائیوں کی حاسدانہ سختیوں اور کنوئیں کی قید سے نکال کر عزیز مصر کے یہاں پہنچا دیا۔ پھر اس کے دل میں یوسف کی محبت و وقعت القاء فرمائی اس طرح ہم نے ان کو مصر میں ایک معزز جگہ دی اور اہل مصر کی نظروں میں ان کو وجیہ و محبوب بنا دیا۔ تاکہ یہ چیز آئندہ ترقیات اور سر بلندیوں کا پیش خیمہ ہو۔ اور بنی اسرائیل کو مصر میں بسانے کا ذریعہ بنے۔ ساتھ ہی یہ بھی منظور تھا کہ عزیز مصر کے یہاں رہ کر بڑے سرداروں کی صحبت دیکھیں تاکہ سلطنت کے رموز و اشارات سمجھنے اور تمام باتوں کو ان کے ٹھکانے پر بٹھانے کا کامل سلیقہ اور تجربہ حاصل ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب وہ (یوسف) اپنی قوت (جوانی) کو پہنچ گیا، ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ (۲۲)
تشریح: یعنی جب یوسف کے تمام قوی حد کمال کو پہنچ گئے تو خدا کے یہاں سے عظیم الشان علم و حکمت کا فیض پہنچا۔ نہایت مشکل عقدے اپنی فہم رسا سے حل کرتے ، بڑی خوبی اور دانائی سے لوگوں کے نزاعات چکاتے ، دین کی باریکیاں سمجھتے ، جو زبان سے کہتے وہ کر کے دکھاتے۔ سفیہانہ اخلاق سے قطعاً پاک و صاف اور علم شرائع کے پورے ماہر تھے۔ تعبیر رؤیا کا علم تو ان کا مخصوص حصہ تھا۔
جو لوگ فطرت کی راہنمائی یا تقلید صالحین اور توفیق ازلی سے نوائب و حوادث پر صابر رہ کر عمدہ اخلاق اور نیک چال چلن اختیار کرتے ہیں، حق تعالیٰ ان پر ایسے ہی انعام فرماتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اسے (یوسف کو) اس عورت نے پھسلایا، وہ جس کے گھر میں تھے اپنے آپ کو روکنے (قابو رکھنے ) سے ، اور دروازے بند کر دئے اور بولی آ جا جلدی کر، اس نے کہا اللہ کی پناہ!بیشک وہ (عزیز مصر) میرا مالک ہے ، اس نے میرا رہنا سہنا بہت اچھا رکھا، بیشک ظالم بھلائی نہیں پاتے۔ (۲۳)
تشریح:ادھر تو الطاف غیبیہ حضرت یوسف کی عجیب و غریب طریقہ سے تربیت فرما رہے تھے۔ ادھر عزیز کی بیوی (زلیخا) نے ان کے سامنے ایک نہایت ہی مزلۃ الاقدام موقع امتحان کھڑا کر دیا۔ یعنی حضرت یوسف کے حسن و جمال پر زلیخا مفتون ہو گئی اور دلکشی و ہوش ربائی کے سارے سامان جمع کر کے چاہا کہ یوسف کے دل کو ان کے قابو سے باہر کر دے۔ ایک طرف عیش و نشاط کے سامان، نفسانی جذبات پورے کرنے کے لیے ہر قسم کی سہولیتں، یوسف علیہ السلام کا ہر وقت زلیخا کے گھر میں موجود رہنا، اس کا نہایت محبت اور پیار سے رکھنا، تنہائی کے وقت خود عورت کی طرف سے ایک خواہش کا بیتابانہ اظہار کسی غیر کے آنے جانے کے سب دروازے بند، دوسری طرف جوانی کی عمر، قوت کا زمانہ، مزاج کا اعتدال، تجرد کی زندگی، یہ سب دواعی واسباب ایسے تھے جن سے ٹکرا کر بڑے سے بڑے زاہد کا تقویٰ بھی پاش پاش ہو جاتا۔ مگر خدا نے جس کو محسن قرار دے کر علم و حکمت کے رنگ میں رنگین کیا اور پیغمبرانہ عصمت کے بلند مقام پر پہنچایا، اس پر کیا مجال تھی کہ شیطان کا قابو چل جاتا۔ اس نے ایک لفظ کہا ”معاذ اللہ” (خدا کی پناہ) اور شیطانی جال کے سارے حلقے توڑ ڈالے۔ کیونکہ جس نے خدا کی پناہ لی اس پر کس کا وار چل سکتا ہے۔
خدا کی پناہ میں ایسی قبیح حرکت کیسے کر سکتا ہوں؟ علاوہ بریں ”عزیز” میرا مربی ہے جس نے مجھے ایسے عزت و راحت سے رکھا، کیا میں اپنے محسن کے ناموس پر حملہ کروں؟ ایسی محسن کشی اور بے انصافی کرنے والے کبھی بھلائی اور کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے نیز جب ظاہری مربی کا ہم کو اس قدر پاس ہے تو سمجھ لو کہ اس پروردگار حقیقی سے ہمیں کس قدر شرمانا اور حیا کرنا چاہیے جس نے محض اپنے فضل سے ہماری تربیت فرمائی اور اپنے بندوں کو ہماری خدمت و راحت رسانی کے لیے کھڑا کر دیا۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے ”انہ ربی” کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی اس کا ارادہ کرتے اگر یہ نہ ہوتا کہ وہ اپنے رب کی دلیل دیکھ لیتے ، اسی طرح ہم نے اس سے پھیر دی برائی اور بے حیائی، بیشک وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ (۲۴)
تشریح: یعنی عورت نے پھانسنے کی فکر کی اور اس نے فکر کی کہ عورت کا داؤ چلنے نہ پائے اگر اپنے رب کی حجت و قدرت کا معائنہ نہ کرتا تو ثابت قدم رہنا مشکل تھا۔ بعض مفسرین نے ”وَہَمَّ بِہَا” کو ”وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ”سے علیٰحدہ کر کے ” لَوْ لَا اَن رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ” سے متعلق کیا ہے۔ جیسے ”اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَا اَن رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا” کی ترکیب ہے۔ اس وقت مقصود یوسف کے حق میں ”ہم” کا ثابت کرنا نہیں، بلکہ نفی کرنا ہے۔ ترجمہ یوں ہو گا کہ عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے پروردگار کی قدرت و حجت نہ دیکھ لیتا۔ بعض نے ”وہم بہا” میں لفظ ”ہم” کو بمعنی میلان و رغبت کے لیا ہے۔ یعنی یوسف کے دل میں کچھ رغبت و میلان بے اختیار پیدا ہوا۔ جیسے روزہ دار کو گرمی میں ٹھنڈے پانی کی طرف طبعاً رغبت ہوتی ہے لیکن نہ وہ پینے کا ارادہ کرتا ہے نہ یہ بے اختیاری رغبت کچھ مضر ہے۔ بلکہ باوجود رغبت طبعی کے اس سے قطعاً محترز رہنا مزید اجر و ثواب کا موجب ہے اسی طرح سمجھ لو کہ ایسے اسباب و دواعی قویہ کی موجودگی سے طبع بشری کے موافق بلا اختیار و ارادہ یوسف علیہ السلام کے دل میں کسی قسم کی رغبت و میلان کا پایا جانا نہ عصمت کے منافی ہے نہ ان کے مرتبہ کو گھٹاتا ہے۔ بلکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ اگر بندہ کا میلان کسی برائی کی طرف ہوا لیکن اس پر عمل نہ کیا تو اس کے فردحسنات میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ اس نے (باوجود رغبت میلان) میرے خوف سے اس برائی کو ہاتھ نہ لگایا۔ بہرحال باوجود اشتراک لفظی کے زلیخا کے ”ہم” اور یوسف کے ”ہم” میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے ”ہم” کو ایک ہی لفظ میں جمع نہیں کیا اور نہ زلیخا کے ”ہم” پر ”لام” اور ”قد” داخل کیا گیا۔ بلکہ سیاق و لحاق میں بہت سے دلائل یوسف علیہ السلام کی طہارت و نزاہت پر قائم فرمائیں جو غور کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں۔ تفصیل ”روح المعانی” اور ”کبیر” وغیرہ میں موجود ہے۔
”برہان” دلیل و حجت کو کہتے ہیں یعنی اگر یوسف علیہ السلام اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے تو قلبی میلان پر چل پڑتے۔ دلیل کیا تھی؟ زنا کی حرمت و شناعت کا وہ عین الیقین جو حق تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا۔ یا وہ ہی دلیل جو خود انہوں نے زلیخا کے مقابلہ میں ”اِنَّہ، رَبِّی اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہ، لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ” کہہ کر پیش کی۔ بعض کہتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نظر آئے کہ انگلی دانتوں میں دبائے سامنے کھڑے ہیں۔ بعض نے کہا کہ کوئی غیبی تحریر نظر پڑی جس میں اس فعل سے روکا گیا۔ واللہ اعلم۔
یعنی یہ برہان دکھانا اور ایسی طرح ثابت قدم رکھنا اس لیے تھا کہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں ہیں۔ لہٰذا کوئی چھوٹی بڑی برائی خواہ ارادہ کے درجہ میں ہو یا عمل کے ، ان تک نہ پہنچ سکے۔
(تفسیرعثمانی)
اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے اس کی قمیص پھاڑ دی پیچھے سے ، اور دونوں کو اس کا خاوند دروازے کے پاس ملا، وہ کہنے لگی اس کی کیا سزا جس نے تیری بیوی سے برا ارادہ کیا؟سوائے اس کے کہ قید کیا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے۔ (۲۵)
تشریح:آگے یوسف تھے کہ جلدی دروازہ کھول کر نکل جائیں۔ اور پیچھے زلیخا انہیں روکنے کے لیے تعاقب کر رہی تھیں۔ اتفاقا یوسف کے قمیص کا پچھلا حصہ زلیخا کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس نے پکڑ کر کھینچنا چاہا۔ کھینچا تانی میں کرتہ پھٹ گیا۔ مگر یوسف جوں توں کر کے مکان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ادھر یہ دونوں آگے پیچھے دروازہ پر پہنچے ، ادھر عورت کا خاوند عزیز مصر بھی پہنچ گیا۔ عورت نے فوراً بات بنانی شروع کی۔
عورت نے الزام یوسف پر رکھا کہ اس نے مجھ سے برا ارادہ کیا۔ ایسے شخص کی سزا یہ ہونی چاہیے کہ جیل خانہ بھیجا جائے یا کوئی اور سخت مار پڑے۔
اس (یوسف) نے کہا اس نے مجھے میرے نفس (کی حفاظت) سے پھسلایا، اور گواہی دی اس کے لوگوں میں سے ایک گواہ نے ، کہ اگر اس کی قمیص آگے سے پھٹی ہوئی ہے تووہ سچی ہے اور وہ (یوسف) جھوٹوں میں سے ہے۔ (۲۶)
تشریح: اب یوسف کو واقعہ ظاہر کرنا پڑا کہ عورت نے میرے نفس کو بے قابو کرنا چاہا۔ میں نے بھاگ کر جان بچائی۔ یہ جھگڑا بھی چل رہا تھا کہ خود عورت کے خاندان کا ایک گواہ عجیب طریقہ سے یوسف کے حق میں گواہی دینے لگا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیر خوار بچہ تھا، جو خدا کی قدرت سے حضرت یوسف کی برأت و وجاہت عند اللہ ظاہر کرنے کو بول پڑا۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ بچہ نہیں کوئی مردِ دانا تھا جس نے ایسی پتہ کی بات کہی۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو وہ جھوٹی ہے اور وہ (یوسف) سچوں میں سے ہے۔ (۲۷)
تو جب اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی دیکھی تواس نے کہا یہ تم عورتوں کا فریب ہے ، بیشک تمہارا فریب بڑا ہے۔ (۲۸)
تشریح: اگر گواہ شیر خوار بچہ تھا جیسا کہ بعض معتبر روایات میں ہے تب تو اس کا بولنا اور ایسی گواہی دینا جو انجام کار یوسف کے حق میں مفید ہو، خود مستقل دلیل یوسف کی سچائی کی تھی۔ کرتہ کا آگے یا پیچھے سے پھٹا ہونا شہادت سے زائد بطور ایک علامت اور قرینہ کے سمجھنا چاہیے۔ اور اگر گواہ کوئی مرد دانا تھا تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خارجی طریقہ سے حقیقت حال پر مطلع ہو چکا تھا مگر اس نے نہایت دانائی سے ایسے پیرایہ میں شہادت دی جو دفعتاً کسی کی جانبداری پر بھی محمول نہ ہو اور آخرکار یوسف کی برأت ثابت کر دے۔ جو پیرایہ اظہار واقعہ کا اس نے اختیار کیا وہ غیر جانبداروں کے نزدیک نہایت معقول تھا۔ کیونکہ اگر عورت کے دعوے کے موافق یوسف نے (معاذ اللہ) اس کی طرف اقدام کیا تو ان کا چہرہ عورت کی طرف ہو گا تو ظاہر ہے کہ کشمکش میں کرتہ بھی سامنے سے پھٹے اور اگر یوسف کا کہنا صحیح ہے کہ عورت مجھ کو اپنی طرف بلاتی تھی میں دروازہ کی طرف بھاگا، اس نے پکڑنے کے لیے میرا تعاقب کیا تو کھلی ہوئی بات ہے کہ کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو گا کیونکہ اس صورت میں یوسف اس کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ ادھر سے پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے۔ بہرحال جب دیکھا گیا کہ کرتہ آگے سے نہیں پیچھے سے پھٹا ہے۔ تو عزیز نے سمجھ لیا کہ یہ سب عورت کا مکر و فریب ہے ، یوسف قصور وار نہیں۔ چنانچہ اس نے صاف کہہ دیا کہ زلیخا کی پر فریب کارروائی اسی قسم کی ہے جو عموماً عورتیں کیا کرتی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
یوسف!اس (ذکر ) کو جانے دے اور اے عورت! اپنے گناہ کی بخشش مانگ، بیشک تو گنہگاروں میں سے ہے۔ (۲۹)
تشریح: اس نے یوسف سے استدعا کی کہ جو ہونا تھا ہو چکا آئندہ اس کا ذکر مت کرو کہ سخت رسوائی اور بدنامی کا موجب ہے۔ اور عورت کو کہا کہ یوسف سے یا خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگ، یقیناً قصور تیرا ہی تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور شہر میں عورتوں نے کہا، عزیز کی بیوی نے پھسلایا ہے اپنے غلام کو اس کے نفس (کی حفاظت) سے ، ا س کی محبت (اس کے دل میں) جگہ پکڑ گئی ہے ، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھتی ہیں۔ (۳۰)
تشریح: یعنی شدہ شدہ شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا کہ عزیز کی عورت اپنے نوجوان غلام پر مفتون ہو گئی۔ چاہتی ہے کہ اس کے نفس کو بے قابو کر دے۔ غلام کی محبت اس کے دل کی تہ میں پیوست ہو چکی ہے۔ حالانکہ ایسے معزز عہدہ دار کی بیوی کے لیے یہ سخت شرمناک کی بات ہے کہ وہ ایسے غلام پر گرنے لگے۔ ہمارے نزدیک اس معاملہ میں وہ اعلانیہ غلطی پر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب اس نے ان کے فریب (کا ذکر ) سنا تو انہیں دعوت بھیجی اور ان کے لئے ایک محفل تیار کی، اور (پھل کاٹنے کو) دی ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری اور کہا ان کے سامنے آ، پھر جب انہوں نے (یوسف) کو دیکھا ان پر اس کا رعب (حسن) چھا گیا، اور انہوں نے (پھلوں کی جگہ) اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہنے لگیں اللہ کا پناہ! یہ بشر نہیں مگر یہ تو بزرگ فرشتہ ہے۔ (۳۱)
تشریح: عورتوں کی گفتگو کو مکر و (فریب) اس لیے کہا کہ مکاروں کی طرح چھپ چھپ کر یہ باتیں کرتی تھیں۔ اور زلیخا پر طعن کر کے گویا اپنی پارسائی کا اظہار مقصود تھا۔ حالانکہ یوسف کے بے مثال حسن و جمال کا شہرہ جس عورت کے کان میں پڑتا تھا، اس کی دید کا اشتیاق دل میں چٹکیاں لینے لگتا تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ زلیخا پر طعن و تشنیع اور نکتہ چینی کرنے والیوں کے دلوں میں یہ ہی غرض پوشیدہ ہو کہ زلیخا کو غصہ دلا کر کسی ایسی حرکت پر آمادہ کر دیں جو یوسف کے دیدار کا سبب بن جائے۔ یا زلیخا کے دل میں اس کی نفرت بٹھا کر اپنی طرف مائل کرنے کا موقع نکالیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ زلیخا نے بعض عورتوں کو اس معاملہ میں اپنا راز دار بنایا ہو۔ اس نے راز داری کی جگہ پردہ داری اور خوردہ گیری شروع کر دی بہرحال ان کی گفتگو کو لفظ ”مکر” سے ادا کرنے میں یہ سب احتمالات ہیں۔
دعوت کر کے ان عورتوں کو بلوا بھیجا اور کھانے پینے کی ایک مجلس ترتیب دی جس میں بعض چیزیں چاقو سے تراش کر کھانے اور میوے وغیرہ کے سامنے چن کر ہر ایک عورت کے ہاتھ میں ایک چاقو دے دیا۔ تاکہ تراشنے کے قابل چیزوں کے کھانے میں کسی کو کلفت انتظار اٹھانا نہ پڑے۔ یہ سب سامان درست کر کے اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جو کہیں قریب ہی موجود تھے آواز دی کہ ادھر نکل آئے۔ نکلنا تھا کہ بجلی سی کوند گئی، تمام عورتیں یوسف کے حسن و جمال کا دفعتاً مشاہدہ کرنے سے ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ اور مدہوشی کے عالم میں چھریوں سے پھلوں کی جگہ ہاتھ کاٹ لیے۔ گویا قدرت نے یہ ایک مستقل دلیل یوسف علیہ السلام کی نزاہت و صداقت پر قائم فرما دی کہ جس کے جمال بے مثال کی ذرا سی جھلک نے دیکھنے والی عورتوں کے حواس گم کر دیے۔ بحالیکہ یوسف نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کے حسن و خوبی کی طرف نہ دیکھا تو یقیناً واقعہ یوں ہی ہوا ہو گا کہ زلیخا اس کے جمال ہوشربا کو دیکھ کر ہوش و خرد کھو بیٹھی۔ اور وہ معصوم فرشتہ اس کی طرح اپنا دامن عفت بچاتا ہوا صاف نکل گیا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولی سو یہ وہی ہے جس (کے بارے ) میں تم نے مجھے ملامت کی اور میں نے اسے اس کے نفس (کی حفاظت) سے پھسلایا، تو اس نے (اپنے آپ کو) بچا لیا، اور جو میں یہ کہتی ہوں اگر اس نے نہ کیا تو البتہ وہ قید کر دیا جائے گا اور بے عزت لوگوں میں سے ہو گا۔ (۳۲)
تشریح: زلیخا کی اس گفتگو میں کچھ تو عورتوں پر اپنی معذوری اور نامرادی کا اظہار تھا، تاکہ ان کی ہمدردی حاصل کر سکے۔ اور کچھ یوسف علیہ السلام کو تحکمانہ دھمکیوں سے مرعوب کرنا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو کر آئندہ اس کی مطلب بر آوری پر آمادہ ہو جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس (یوسف) نے کہا اے میرے رب!مجھے قید اس سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو نے مجھ سے ان کا فریب نہ پھیرا تومیں مائل ہو جاؤں گا ان کی طرف، اور جاہلوں میں سے ہوں گا۔ (۳۳)
تشریح:معلوم ہوتا ہے کہ زلیخا کا مایوسانہ غصہ اور مظلومانہ انداز بیان اس کی ہم جنسوں پر اثر کر گیا۔ یا پہلے ہی سے کچھ ملی بھگت ہو گی، بہرحال لکھا ہے کہ اب عورتوں نے یوسف کو سمجھانا شروع کیا کہ تم کو اپنی محسنہ اور سیدہ کا کہنا ماننا چاہیے۔ آخر اس غریب پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہو، پھر یہ بھی سوچ لو کہ نافرمانی کا نتیجہ کیا ہو گا۔ خواہ مخواہ مصیبت سر پر لینے سے کیا فائدہ۔ کہتے ہیں کہ بظاہر زبان سے وہ زلیخا کی سفارش کر رہی تھیں مگر دل ہر ایک کا یوسف کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا تھا۔ یوسف نے جب دیکھا کہ یہ عورت بری طرح پیچھے پڑی ہے اور شیطان ہر طرف اپنا جال بچھانے لگا ہے تو نہایت عزم و استقلال اور پیغمبرانہ استقامت سے بارگاہ احدیت میں درخواست کی کہ مجھے ان کے مکر و فریب سے بچائیے۔ اگر اس سلسلہ میں قید ہونا پڑے تو میں قید کو ارتکاب معصیت پر ترجیح دیتا ہوں۔ اگر آپ میری دستگیری نہ فرمائیں گے تو ڈر ہے کہ بے عقل ہو کر ان کی ابلہ فریبیوں کی طرف نہ جھک پڑوں۔ یہاں یوسف علیہ السلام کی زبانی یہ جتلا دیا کہ انبیاء کی عصمت بھی حق تعالیٰ کی دستگیری سے ہے اور یہ کہ وہ اپنی عصمت پر مغرور نہیں ہوتے بلکہ عصمت کا جو منشاء ہے (حفاظت و صیانت الٰہی) اسی پر نظر رکھتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
سواس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی پس اس سے ان کا فریب پھیر دیا بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۳۴)
تشریح: یعنی ان کو عصمت و عفت پر پوری طرح ثابت قدم رکھا کسی کا فریب چلنے نہ دیا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر نشانیاں دیکھ لینے کے بعد انہیں سوجھا کہ اسے ضرور قید میں ڈال دیں ایک مدت تک۔ (۳۵)
تشریح:یعنی اگرچہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی اور پارسائی کے بہت سے دلائل ان لوگوں کے سامنے آ چکے تھے ، لیکن عزیز مصر نے اپنی بیوی کو بدنامی سے بچانے اور اس واقعے کا چرچا ختم کرنے کے لئے مناسب سمجھا کہ کچھ عرصے تک انہیں قید خانے ہی میں بند رکھا جائے۔
(توضیح القرآن)
اور اس کے ساتھ دو جوان قید خانہ میں داخل ہوئے ، ان میں سے ایک نے کہا بیشک میں (خواب میں) دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا میں (خواب میں) دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوں، پرندے ا س سے کھا رہے ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے ، بیشک ہم آپ کو نیکو کاروں میں سے دیکھتے ہیں۔ (۳۶)
تشریح: یعنی اسی زمانہ میں دو جوان قیدی جیل خانہ میں لائے گئے۔ جن میں ایک بادشاہ مصر (ریان بن الولید) کا نانبائی (باورچی) اور دوسرا ساقی (شراب پلانے والا تھا)۔ دونوں بادشاہ کو زہر دینے کے الزام میں ماخوذ تھے۔ قید خانہ میں یوسف علیہ السلام کی مروت و امانت، راست گوئی، حسن اخلاق، کثرت عبادت، معرفت تعبیر اور ہمدردی خلائق کا چرچا تھا۔ یہ دونوں قیدی حضرت یوسف سے بہت مانوس ہو گئے اور بڑی محبت کا اظہار کرنے لگے۔ ایک روز دونوں نے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ ساقی نے کہا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بادشاہ کو شراب پلا رہا ہوں۔ نانبائی نے کہا کہ میرے سر پر کئی ٹوکرے ہیں جس میں سے پرندے نوچ کر کھا رہے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کو بزرگ دیکھ کر تعبیر مانگی۔
(تفسیرعثمانی)
اس (یوسف) نے کہا تمہارے پاس کھانا نہیں آئے گا جو تمہیں دیا جاتا ہے ، مگر میں تمہیں اس کی تعبیر تمہارے پاس اس کے آنے سے پہلے بتلا دوں گا، یہ اس (علم) سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے ، بیشک میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے ، اور وہ روز آخرت سے انکار کرتے ہیں۔ (۳۷)
تشریح: یوسف علیہ السلام نے اول ان کو تسلی دی کہ بیشک خوابوں کی تعبیر تمہیں بہت جلد معلوم ہوا چاہتی ہے روز مرہ جو کھانا تم کو ملتا ہے اس کے آنے سے پیشتر میں تعبیر بتلا کر فارغ ہو جاؤں گا۔ لیکن تعبیر خواب سے زیادہ ضروری اور مفید ایک چیز پہلے تم کو سناتا ہوں۔ وہ یہ کہ تعبیر وغیرہ کا یہ علم مجھ کو کہاں سے حاصل ہوا۔ سو یاد رکھو کہ میں کوئی پیشہ ور کاہن یا منجم نہیں بلکہ میرے علم کا سرچشمہ وحی اور الہام ربانی ہے جو مجھ کو حق تعالیٰ نے اس کی بدولت عطا فرمایا کہ میں نے ہمیشہ سے کافروں اور باطل پرستوں کے دین و ملت کو چھوڑے رکھا اور اپنے مقدس آباؤ اجداد (حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب) جیسے انبیاء و مرسلین کے دین توحید پر چلا اور ان کا اسوہ حسنہ اختیار کیا۔ ہمارا سب سے بڑا اور مقدم مطمح نظر یہ ہی رہا کہ دنیا کی کسی چیز کو کسی درجہ میں بھی خدا کا شریک نہ بنائیں نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں، نہ ربوبیت و معبودیت میں۔ صرف اسی کے آگے جھکیں، اسی سے محبت کریں، اسی پر بھروسہ رکھیں- اور اپنا جینا مرنا سب اسی ایک پروردگار کے حوالہ کر دیں۔ بہرحال یوسف علیہ السلام نے موقع مناسب دیکھ کر نہایت موثر طرز میں ان قیدیوں کو ایمان و توحید کی طرف آنے کی ترغیب دی۔ پیغمبروں کا کام یہ ہی ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ حق کا کوئی مناسب موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ ان قیدیوں کے دل میری طرف متوجہ اور مجھ سے مانوس ہیں۔ قید کی مصیبت میں گرفتار ہو کر شاید کچھ نرم بھی ہوئے ہوں گے۔ لاؤ ان حالات سے فرض تبلیغ کے ادا کرنے میں فائدہ اٹھائیں۔ اول ان کو دین کی باتیں سکھلائیں۔ پھر تعبیر بھی بتلا دیں گے۔ یہ تسلی پہلے کر دی کہ کھانے کے وقت تک تعبیر معلوم ہو جائے گی تاکہ وہ نصیحت سے اکتائیں نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی، ہمارا (کام) نہیں کہ ہم شریک ٹھہرائیں اللہ کاکسی شی کو، یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا فضل ہے ، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (۳۸)
تشریح: یعنی ہمارا خالص توحید اور ملت ابراہیمی پر قائم رہنا نہ صرف ہمارے حق میں بلکہ سارے جہان کے حق میں رحمت و فضل ہے ، کیونکہ خاندان ابراہیمی ہی کی شمع سے سب لوگ اپنے دلوں کے چراغ روشن کر سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ بہت سے لوگ خدا کی اس نعمت عظیمہ کی قدر نہیں کرتے۔ چاہیے یہ تھا کہ اس کا احسان مان کر راہ توحید پر چلتے وہ الٹی ناشکری کر کے شرک و عصیان کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے قید کے ساتھیو! کیا جدا جدا کئی معبود بہتر ہیں؟یا ایک اللہ (سب پر) غالب۔ (۳۹)
تشریح: یعنی مختلف انواع و اشکال کے چھوٹے بڑے دیوتا جن پر تم نے خدائی اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں ان سے لو لگانا بہتر ہے یا اس اکیلے زبردست خدا سے جس کو ساری مخلوق پر کلی اختیار اور کامل تصرف و قبضہ حاصل ہے اور جس کے آگے نہ کسی کا حکم چل سکتا ہے نہ اختیار، نہ اسے کوئی بھاگ کر ہرا سکتا ہے نہ مقابلہ کر کے مغلوب کر سکتا ہے۔ خود سوچو کہ سر عبودیت ان میں سے کس کے سامنے جھکایا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا تم کچھ نہیں پوجتے مگر نام ہیں جو تم نے رکھ لئے (تراش لئے ) ہیں، اور تمہارے باپ دادا نے ، اللہ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری، حکم صرف اللہ کا ہے ، اس نے حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہ سیدھا دین ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۴۰)
تشریح: یعنی یوں ہی بے سند اور بے ٹھکانے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کے نیچے حقیقت ذرہ برابر نہیں۔ ان ہی نام کے خداؤں کی پوجا کر رہے ہو۔ ایسے جہل پر انسان کو شرمانا چاہیے۔
قدیم سے اللہ انبیاء علیہم السلام کی زبانی یہی حکم بھیجتا رہا کہ خدا کی عبادت میں کسی کو شریک مت کرو۔ ”وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یَّعْبُدُونَ۔ ”
(زخرف، رکوع٤’آیت ٥٤)
توحید خالص کے راستہ میں ایچ پیچ کچھ نہیں۔ سیدھی اور صاف سڑک ہے جس پر چل کر آدمی بے کھٹکے خدا تک پہنچتا ہے۔ لیکن بہت لوگ حماقت یا تعصب سے ایسی سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے قید خانہ کے ساتھیو! تم میں سے ایک ا پنے مالک کو شراب پلائے گا، اور جو دوسرا ہے توسولی دیا جائے گا، پس پرندے اس کے سر سے کھائیں گے ، اس بات کا فیصلہ ہو چکا جس (کے بارہ) میں تم پوچھتے تھے۔ (۴۱)
تشریح: فرض تبلیغ ادا کرنے کے بعد یوسف علیہ السلام نے ان کے خوابوں کی تعبیر بیان فرمائی، کہ جس نے خواب میں شراب پلاتے دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ بیداری میں بادشاہ کو شراب پلائے گا۔ اور جس نے سر پر سے جانوروں کو روٹیاں کھاتے دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سولی دیا جائے گا۔ پھر جانور اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ قضا و قدر کا فیصلہ یہ ہی ہے جو کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتا۔ جو بات تم پوچھتے تھے وہ میں نے بتلا دی۔ یہ بالکل طے شدہ امر ہے۔ جس میں تخلف نہیں ہو سکتا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ساقی زہر خورانی کی تہمت سے بری ہو گیا، اور خباز (نانبائی) کو جرم ثابت ہونے کی وجہ سے سزائے موت دی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یوسف) نے ان دونوں میں سے جس (کے متعلق) گمان کیا کہ وہ بچے گا، اس سے کہا کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا، پس شیطان نے اسے بھلا دیا اپنے مالک سے ذکر کرنا، تووہ قید میں چند برس رہا۔ (۴۲)
تشریح: یہاں ظن یقین کے معنی میں سے ہے جیسے ”اَلَّذِیْنَ یَظُنُّونَ اَنَّہُم مُّلَاقُوا رَبِّہِمْ” میں یعنی یوسف علیہ السلام کو دونوں میں سے جس شخص کی بابت یقین تھا کہ بری ہو جائے گا جب وہ قید خانہ سے نکلا تو فرمایا اپنے بادشاہ کی خدمت میں میرا بھی ذکر کرنا کہ ایک ایسا شخص بے قصور قید خانہ میں برسوں سے پڑا ہے۔ مبالغہ کی ضرورت نہیں۔ میری جو حالت تو نے مشاہدہ کی ہے بلاکم و کاست کہہ دینا۔
شیطان نے چھوٹنے والے قیدی کے دل میں مختلف خیالات و وساوس ڈال کر ایسا غافل کیا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن بزرگ (یوسف علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا یاد ہی نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کئی سال اور قید میں رہنا پڑا۔
(تفسیرعثمانی)
اور بادشاہ نے کہا میں دیکھتا ہوں سات موٹی تازی گائیں، انہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں، اور سات سبز خوشے اور دوسرے خشک، اے سردارو! مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ، اگر تم خواب کی تعبیر دینے والے ہو (تعبیر دینا جانتے ہو۔ (۴۳)
انہوں نے کہا (یہ) پریشان خواب ہیں اور ہم (ایسے ) خوابوں کی تعبیر جاننے والے نہیں (نہیں جانتے )۔ (۴۴)
تشریح:بادشاہ نے جو خواب دیکھا تھا وہ اس کی تعبیر جاننا چاہتا تھا، مگر دربار کے لوگوں نے پہلے تو یہ کہا کہ یہ کوئی بامعنی خواب معلوم نہیں ہوتا، پریشان قسم کے خیالات بعض اوقات ایسے خوابوں کا روپ دھار لیتے ہیں، پھر یہ بھی کہا کہ اگر یہ واقعی کوئی بامعنی خواب ہے تب بھی ہم اس کی تعبیر بتانے سے قاصر ہیں ، کیونکہ ہم اس علم سے واقف نہیں ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور وہ جو ان دونوں (میں) سے بچا تھا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا، اس نے کہا میں تمہیں اس کی تعبیر بتلاؤں گا، سومجھے بھیج دو۔ (۴۵)
تشریح: اب خواب کے سلسلہ میں ساقی کو جو قید سے چھوٹ کر آیا تھا مدت کے بعد حضرت یوسف یاد آئے اس نے بادشاہ اور اہل دربار سے کہا کہ اگر مجھے ذرا جانے کی اجازت دو تو میں اس خواب کی تعبیر لا سکتا ہوں۔ قید خانہ میں ایک مقدس بزرگ فرشتہ صورت موجود ہے جو فن تعبیر کا ماہر ہے (ممکن ہے اس نے اپنے خواب کا قصہ بھی ذکر کیا ہو) میں تعبیر لینے کے لیے اس کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں چنانچہ اجازت دی گئی۔ اس نے یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ عرض کیا جو آگے آتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اے یوسف! اے بڑے سچے ! ہمیں (خواب کی تعبیر) بتا، سات موٹی تازی گایوں کو کھا رہی ہے سات دبلی پتلی گائیں، اور سات خوشے سمز ہیں اور دوسرے خشک، تاکہ میں لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤں، شاید وہ آگاہ ہوں۔ (۴۶)
تشریح: ”اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ” کہنے سے یہ غرض تھی کہ آپ مجسم سچ ہیں۔ جو بات کبھی آپ کی زبان سے نکلی سچ ہو کر رہی، امید ہے جو تعبیر اس خواب کی کر دیں گے ہو بہو پوری ہو کر رہے گی۔ یہ لفظ بتلا رہا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے صدق و دیانت کا نقش کس طرح عام و خاص کے قلوب پر بیٹھ جاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا تم سات سال لگاتار کھیتی باڑی کرو گے ، پھر جو تم کاٹو تواسے اس کے خوشے میں چھوڑ دے ، مگر تھوڑا جتنا تم اس میں سے کھالو۔ (۴۷)
پھر اس کے بعد آئیں گے سات سخت سال، کھا جائیں گے جو تم ان کے لئے (بچا) رکھا، سوائے اس کے جو تم تھوڑا بچاؤ گے۔ (۴۸)
پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا اس میں لوگوں پر بارش برسائی جائے گی اور وہ اس میں (رس) نچوڑیں گے۔ (۴۹)
تشریح: یوسف علیہ السلام نے تعبیر بتلانے میں دیر نہ کی نہ کوئی شرط لگائی، نہ اس شخص کو شرمندہ کیا کہ تجھ کو اتنی مدت کے بعد اب میرا خیال آیا۔ اس سے انبیاء علیہم السلام کے اخلاق و مروت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر وہ صرف خواب کی تعبیر مانگتا تھا۔ آپ نے تین چیزیں عطا فرمائیں۔ تعبیر، تدبیر، تبشیر، آپ کے کلام کا حاصل یہ تھا کہ سات موٹی گائیں اور سات ہری بالیں سات برس ہیں، جن میں متواتر خوشحالی رہے گی، کھیتوں میں خوب پیداوار ہو گی، حیوانات و نباتات خوب بڑھیں گے ، اس کے بعد سات سال قحط ہو گا جس میں سارا پچھلا اندوختہ کھا کر ختم کر ڈالو گے۔ صرف آئندہ تخم ریزی کے لیے کچھ تھوڑا سا باقی رہ جائے گا۔ یہ سات سال دبلی گائیں اور سوکھی بالیں ہیں جو موٹی گائیوں اور ہری بالوں کو ختم کر دیں گی۔ تعبیر بتلانے کے دوران میں حضرت یوسف نے از راہ شفقت و ہمدردی خلائق ایک تدبیر بھی تلقین فرما دی کہ اول سات سال میں جو پیداوار ہو اسے بڑی حفاظت سے رکھو اور کفایت شعاری سے اٹھاؤ۔ کھانے کے لیے جس قدر غلہ کی ضرورت ہو اسے الگ کر لو اور تھوڑا تھوڑا احتیاط سے کھاؤ۔ باقی غلہ بالوں میں رہنے دو تاکہ اس طرح کیڑے وغیرہ سے محفوظ رہ سکے۔ اور سات سال کی پیداوار چودہ سال تک کام آئے۔ ایسا نہ کرو گے تو قحط کا مقابلہ کرنا دشوار ہو گا۔ یہ تعبیر و تدبیر بتلانے کے بعد انہیں بشارت سنائی جو غالباً آپ کو وحی سے معلوم ہوئی ہو گی یعنی سات سال قحط رہنے کے بعد جو سال آئے گا اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے فریاد رسی ہو گی اور خوب مینہ برسے گا۔ کھیتی باڑی، پھل میوے نہایت افراط سے پیدا ہوں گے ، جانوروں کے تھن دودھ سے بھر جائیں گے۔ انگور وغیرہ نچوڑنے کے قابل چیزوں سے لوگ شراب کشید کریں گے۔ یہ آخری بات سائل کے حسب حال فرمائی۔ کیونکہ وہ یہ ہی کام کرتا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لے آؤ، پس جب قاصد اس کے پاس آیا تواس نے کہا اپنے مالک کے پاس لوٹ جاؤ اور اس سے پوچھو ان عورتوں کا کیا حال ہے ؟جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے ، بیشک میرا رب ان کے فریب سے خوب واقف ہے۔ (۵۰)
تشریح: بادشاہ کچھ تو پہلے ہی ساقی کے تذکرے سے حضرت یوسف کا معتقد ہو گیا تھا۔ اب جو ایسی موزوں و دل نشین تعبیر اور رعایا کی ہمدردی کی تدبیر سنی تو ان کے علم و فضل، عقل و دانش اور حسن اخلاق کا سکہ اس کے دل پر بیٹھ گیا۔ فورا حکم دیا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لاؤ، تاکہ اس کی زیارت سے بہرہ اندوز ہوں اور اس کے مرتبہ اور قابلیت کے موافق عزت کروں۔ قاصد پیام شاہی لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مگر یوسف کی نظر میں اپنی دینی و اخلاقی پوزیشن کی برتری اور صفائی اعلیٰ سے اعلیٰ دنیاوی عزت و وجاہت سے زیادہ مہم تھی۔ آپ جانتے تھے کہ پیغمبر خدا کی نسبت لوگوں کی ادنیٰ بدگمانی بھی ہدایت و ارشاد کے کام میں بڑی بھاری رکاوٹ ہے۔ اگر آج میں بادشاہی فرمان کے موافق چپ چپاتے قید خانہ سے نکل گیا اور جس جھوٹی تہمت کے سلسلہ میں سالہا سال قید و بند کی مصائب اٹھائیں اس کا قطعی طور پر استیصال نہ ہوا تو بہت ممکن ہے کہ بہت سے ناواقف لوگ میری عصمت کے متعلق تردد اور شبہ میں پڑے رہ جائیں اور حاسدین کچھ زمانہ کے بعد ان ہی بے اصل اثرات سے فائدہ اٹھا کر کوئی اور منصوبہ میرے خلاف کھڑا کر دیں۔ ان مصالح پر نظر کرتے ہوئے آپ نے حکم شاہی کے امتثال میں جلدی نہ کی بلکہ نہایت صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاصد کو کہا کہ تو اپنے مالک (بادشاہ) سے واپس جا کر دریافت کر کہ تجھ کو ان عورتوں کے قصہ کی کچھ حقیقت معلوم ہے جنہوں نے دعوت کے موقع پر اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ حضرت یوسف کو ان عورتوں کے ناموں کی تفصیل کہاں معلوم ہو گی۔ یہ خیال کیا ہو گا کہ ایسا واقعہ ضرور عام شہرت حاصل کر چکا ہے۔ اس لیے واقعہ کے ایک ممتاز جزء (ہاتھ کاٹنے ) کو ظاہر کر کے بادشاہ کو توجہ دلائی کہ اس مشہور و معروف قصہ کی تفتیش و تحقیق کرے۔ غالباً اب وہ عورتیں بتلا دیں گی کہ تقصیر کس کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیحین کی حدیث میں حضرت یوسف کے کمال صبر و تحمل کی اس طرح داد دی ہے۔ ”لَوْلَبِثْتُ فِی السِّجْنِ مَالَبِثَ یُوسُفُ لَاَ جَبْتُ الدَّاعِیَ” (اگر میں اتنی مدت قید میں رہتا جتنا یوسف رہے تو بلانے والے کی اجابت کرتا یعنی فوراً ساتھ ہو لیتا) محققین کہتے ہیں کہ اس میں حضرت یوسف کے صبر و تحمل کی تعریف اور لطیف رنگ میں اپنی عبودیت کاملہ کا اظہار ہے۔ ہم نے اس مضمون کی تفصیل شرح صحیح مسلم میں کی ہے۔ یہاں اختصار کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتے۔
حضرت یوسف نے ”سب کا فریب” فرمایا، اس واسطے کہ ایک کا فریب تھا اور سب اس کی مددگار تھیں اور اصل فریب والی کا نام شاید حق پرورش کی وجہ سے نہیں لیا۔ حیاء کی وجہ سے گول مول فرمایا۔ کیونکہ جانتے تھے کہ اصل حقیقت آخر کھل کر رہے گی۔ کذا فی الموضح۔
(تفسیرعثمانی)
بادشاہ نے (ان عورتوں سے ) کہا تمہارا کیا حال (واقعی) تھا جب تم نے یوسف کو اس کے نفس (کی حفاظت) سے پھسلایا، وہ بولیں پناہ بخدا! ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں معلوم کی (نہیں پائی)، عزیز (مصر) کی عورت بولی اب حقیقت ظاہر ہو گئی ہے ، میں نے (ہی) اسے اس کے نفس کی حفاظت سے پھسلایا اور بیشک وہ سچوں میں سے ہے۔ (سچا ہے )۔ (۵۱)
تشریح: بادشاہ نے دریافت کرنے کا ایسا عنوان اختیار کیا گویا وہ پہلے سے خبر رکھتا ہے ، تاکہ یہ دیکھ کر انہیں جھوٹ بولنے کی ہمت نہ ہو۔ نیز یوسف علیہ السلام کی استقامت و صبر کا اثر پڑا ہو گا کہ بدون اظہار برأت کے جیل سے نکلنا گوارا نہیں کرتے اور ”اِنَّ رَبِّی بِکَیْدِ ہِنَّ عَلِیْمٌ” کہہ کر ان کے ”کید” کا اظہار فرما رہے ہیں۔ ادھر ساقی وغیرہ نے واقعات سنائے ہوں گے ، ان سے بھی یوسف کی نزاہت اور عورتوں کے مکائد کی تائید ملی ہو گی۔
سب عورتوں کی متفقہ شہادت کے بعد خود زلیخا نے بھی صاف اقرار کر لیا کہ قصور میرا ہے۔ یوسف بالکل سچے ہیں۔ بیشک میں نے ان کو اپنی جانب مائل کرنا چاہا تھا۔ لیکن وہ ایسے کہاں تھے کہ میرے داؤ میں آ جاتے۔
(تفسیرعثمانی)
(یوسف نے کہا) یہ (اس لئے تھا) تاکہ وہ جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی، اور بیشک اللہ چلنے نہیں دیتا دغا بازوں کا فریب۔ (۵۲)
تشریح: یعنی اتنی تحقیق و تفتیش اس لیے کرائی کہ پیغمبرانہ عصمت و دیانت بالکل آشکارا ہو جائے اور لوگ معلوم کر لیں کہ خائنوں اور دغا بازوں کا فریب اللہ چلنے نہیں دیتا۔ چنانچہ عورتوں کا فریب نہ چلا۔ آخر حق حق ہو کر رہا۔
(تفسیرعثمانی)
اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بیشک نفس برائی سکھانے والا ہے ، مگر جس پر میرے رب نے رحم کیا، بیشک میرا رب بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۵۳)
تشریح:حضرت یوسف علیہ السلام کی تواضع اور عبدیت کا کمال دیکھئے کہ اس موقع پر جب ان کی بے گناہی خود ان عورتوں کے اعتراف سے ثابت ہو گئی، تب بھی اس پر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ فرما رہے ہیں کہ میں اس انتہائی خطرناک جال سے جو بچا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں نفس تو میرے پاس بھی ہے جو انسان کو برائی کی تلقین کرتا رہتا ہے ، لیکن یہ اللہ تعالی کا رحم و کرم ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کے فریب سے بچا لیتا ہے ، البتہ دوسرے دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالی کا یہ رحم و کرم اسی پر ہوتا ہے جو گناہ سے بچنے کے لئے اپنی سی کوشش کر گزرے ، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے دروازے تک بھاگ کر کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالی سے رجوع کر کے اس سے پناہ مانگے۔
(توضیح القرآن)
پھر جب (ملک) نے اس سے بات کی کہا بیشک تم آج ہمارے پاس با وقار امین (صاحب اعتبار) ہو۔ (۵۴)
تشریح:بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے جو باتیں کیں، ان کی تفصیل بعض روایات میں اس طرح آئی ہے کہ اس نے پہلے تو خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف علیہ السلام سے سننے کی خواہش ظاہر کی، اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے خواب کی کچھ ایسی تفصیلات اس سے بیان کیں جو بادشاہ نے اب تک کسی اور کو نہیں بتائی تھیں، اس پر وہ نہایت حیرت زدہ ہوا، پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط کے سالوں کا انتظام کرنے کے لئے بھی بڑی مفید تجویز یں پیش کیں، جو اسے بہت پسند آئیں اور اسے آپ کی نیکی کا اطمینان ہو گیا، اس موقع پر اس نے آپ سے کہا کہ آپ پر چونکہ ہمیں پورا بھروسہ ہو چکا ہے ، اس لئے آپ کا شمار حکومت کے معتمد افراد میں ہو گا، نیز جب حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط کے اثرات سے بچنے کی تدبیر بتائی تو بادشاہ نے پوچھا کہ اس کا انتظام کون کرے گا اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے پیشکش کی کہ میں یہ ذمہ داری لینے کو تیار ہوں۔
(توضیح القرآن)
اس نے کہا مجھے (مقرر) کر دے ملک کے خزانوں پر، بیشک میں حفاظت کرنے والا علم والا ہوں۔ (۵۵)
تشریح:عام حالات میں حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ، لیکن جب کسی سرکاری عہدہ کے نا اہلوں کے سپرد ہونے کی وجہ سے خلق خدا کی پریشانی کا قوی خطرہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں کسی نیک پارسا اور متقی آدمی کے لئے عہدے کا طلب کرنا جائز ہے ، یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو اندیشہ تھا کہ قحط کا جو زمانہ آنے والا ہے اس میں لوگوں کے ساتھ نا انصافیاں ہوں گی، اس کے علاوہ اس ملک میں اللہ تعالی کا قانون جاری کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام خود یہ ذمہ داری قبول فرمائیں، اور اللہ تعالی کے احکام کو نافذ فرمائیں، اس لئے آپ نے ملک کے خزانوں کا انتظام اپنے سر لے لیا، پھر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ بادشاہ نے حکومت کے سارے اختیارات انہی کے سپرد کر دئے تھے اور وہ پورے ملک کے حکمران بن گئے تھے اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت یہ ہے کہ بادشاہ ان کے ہاتھ پر مسلمان بھی ہو گیا تھا، لہذا حضرت یوسف علیہ السلام کا اس ذمہ داری کو قبول کرنا پورے ملک پر اللہ تعالی کا قانون انصاف نافذ ہونے کا ذریعہ بن گیا۔
(توضیح القرآن)
اور اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک پر قدرت دی، وہ اس میں جہاں چاہتے رہتے ، ہم جس کو چاہتے ہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں، اور ہم بدلہ ضائع نہیں کرتے نیکی کرنے والوں کا۔ (۵۶)
اور جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے رہے ان کے لئے آخرت کا بدلہ بہتر ہے۔ (۵۷)
تشریح:دنیا میں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو عزت اور اقتدار ملا اس کے ذکر کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ یہ اس اجر عظیم کے مقابلے میں بہت کم ہے جو ان کے لئے اللہ تعالی آخرت میں تیار کر رکھا ہے ، اس طرح ہر وہ شخص جس کو دنیا میں کوئی عزت اور دولت ملی اسے یہ ابدی نصیحت فرما دی گئی ہے اس کو اصل فکر اس بات کی کرنی چاہئے کہ اس دنیا کی عزت و دولت کے نتیجے میں آخرت کا اجر ضائع نہ ہو۔
(توضیح القرآن)
اور یوسف کے بھائی آئے ، پس وہ اس کے پاس داخل ہوئے ، تو اس نے انہیں پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچانے۔ (۵۸)
تشریح:جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی تھی، سات سال بعد پورے مصر میں سخت قحط پڑا، اور آس پاس کے علاقے بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے ، حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ خوشحالی کے سات سالوں میں مسلسل غلے کا ذخیرہ کیا جائے تاکہ جب قحط کے سال آئیں تو یہ ذخیرہ لوگوں کے کام آئے ، اس موقع پر آپ نہ صرف اپنے علاقے کے لوگوں کو سستے داموں غلہ فروخت کر سکیں گے بلکہ اردگرد کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی بھی مدد کر سکیں گے ، چنانچہ اس قحط کے نتیجے میں دور دور تک غلے کی بڑی قلت ہو گئی، حضرت یعقوب علیہ السلام (یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کے والد) اس پورے عرصے میں فلسطین کے علاقے کنعان ہی میں تھے جب کنعان میں بھی قحط پڑا تو انہیں اور ان کے صاحبزادوں کو پتہ چلا کہ مصر کے بادشاہ نے قحط زدہ لوگوں کے لئے راشن مقرر کر رکھا ہے اور وہاں سے مناسب قیمت پر غلہ مل سکتا ہے ، اس خبر کو سن کر حضرت یوسف علیہ السلام کے دس باپ شریک بھائی جنہوں نے ان کو بچپن میں کنویں میں ڈالا تھا راشن لینے کیلئے مصر آئے ، البتہ ان کے سگے بھائی بنیامین کو اپنے والد کے پاس چھوڑ آئے ، یہاں راشن کی تقسیم کا سارا انتظام حضرت یوسف علیہ السلام خود کر رہے تھے ، تاکہ سب لوگوں کو انصاف کے ساتھ راشن مل سکے ، چنانچہ ان کے بھائیوں کو ان کے سامنے آنا پڑا۔
حضرت یوسف علیہ السلام تو ان کو اس لئے پہچان گئے کہ ان کی صورتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، اور حضرت یوسف علیہ السلام کو توقع بھی تھی کہ وہ راشن لینے کے لئے آئیں گے ، لیکن وہ بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو ا س لئے نہیں پہچان سکے کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو سات سال کی عمر میں دیکھا تھا اور اب وہ بہت بڑے ہو چکے تھے ، اس لئے صورت میں بڑی تبدیلی آ چکی تھی، اس کے علاوہ ان کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مصر کے محلات میں ہو سکتے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور جب ان کا سامان انہیں تیرا کر دیا توکہا اپنے بھائی کو میرے پاس لاؤ جو تمہارے باپ (کی طرف) سے ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پیمانہ پورا (بھر) کر دیتا ہوں، اور میں بہترین مہمان نواز ہوں۔ (۵۹)
تشریح: حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کی خوب مدارات اور مہمانداری کی۔ ایک ایک اونٹ فی کس غلہ دیا۔ یہ خاص مہربانی اور اخلاق دیکھ کر کہتے ہیں انہوں نے درخواست کی کہ ہمارے ایک علاتی بھائی (بنیامین) کو بوڑھے غمزدہ باپ نے تسکین خاطر کے لیے اپنے پاس روک لیا ہے کیونکہ اس کا دوسرا عینی بھائی (یوسف) جو باپ کو بیحد محبوب تھا مدت ہوئی کہیں جنگل میں ہلاک ہو چکا ہے۔ اگر بنیامین کے حصہ کا غلہ بھی ہم کو مرحمت فرمائیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اس طرح غائب کا حصہ دینا خلاف قاعدہ ہے تم پھر آؤ تو بنیامین کو ساتھ لاؤ تب اس کا حصہ پا سکو گے۔ میرے اخلاق اور مہمان نوازی کو تم خود مشاہدہ کر چکے ہو، کیا اس کے بعد تمہیں اپنے چھوٹے بھائی کے لانے میں کچھ تردد ہو سکتا ہے ؟
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر تم اس کو میرے پاس نہ لائے تو تمہارے لئے کوئی ناپ (غلہ) نہیں میرے پاس، اور نہ میرے پاس آنا۔ (۶۰)
تشریح: یعنی نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر خلاف قاعدہ ایک اونٹ زیادہ لینا چاہتے تھے اس کی سزا یہ ہو گی کہ آئندہ خود تمہارا حصہ بھی سوخت ہو جائے گا، بلکہ میرے پاس یا میرے قلمرو میں آنے کی بھی اجازت نہ ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے ہم اس کے متعلق اس کے باپ سے خواہش کریں گے اور ہمیں (یہ کام) ضرور کرنا ہے۔ (۶۱)
تشریح:یعنی گو باپ سے اس کا جدا کرنا سخت مشکل ہے تاہم ہماری یہ کوشش ہو گی کہ باپ کو کسی تدبیر سے راضی کر لیں۔ امید ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر رہیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس نے اپنے خدمتگاروں کو کہا ان کی پونجی (غلہ کی قیمت) ان کے بوروں میں رکھ دو، شاید وہ اس کو معلوم کر لیں جب وہ لوٹیں اپنے لوگوں کی طرف، شاید وہ پھر آ جائیں۔ (۶۲)
تشریح:یعنی جو پونجی دے کر غلہ خریدا تھا، حکم دیا کہ وہ بھی خفیہ طور پر ان کے اسباب میں رکھ دو تاکہ گھر پہنچ کر جب اسباب کھولیں اور دیکھیں کہ غلہ کے ساتھ قیمت بھی واپس دے دی گئی تو دوبارہ ادھر آنے کی ترغیب مزید ہو کہ ایسے کریم بادشاہ کہاں ملتے ہیں۔ اور ممکن ہے قیمت نہ موجود ہونے کی بناء پر دوبارہ آنے سے مجبور رہیں اس لیے قیمت واپس کر دی۔ بعض نے کہا کہ یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے قیمت لینا مروت و کرم کے خلاف سمجھا۔
(تفسیرعثمانی)
پس جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹے ، بولے اے ہمارے ابّا! ہم سے ناپ (غلہ) روک دیا گیا، پس ہمارے ساتھ بھائی کو بھیج دیں کہ ہم غلہ لائیں، اور بیشک ہم اس کے نگہبان ہیں۔ (۶۳)
تشریح:یعنی یوسف کی طرح اس کے متعلق کچھ تردد نہ کیجئے۔ اب ہم چوکنے ہو گئے ہیں پوری طرح حفاظت کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا میں اس کے متعلق تمہارا کیا اعتبار کروں مگر جیسے اس سے پہلے میں نے اس کے بھائی کے متعلق تمہارا اعتبار کیا، سواللہ بہتر نگہبان ہے ، اور وہ تمام مہربانوں سے بڑا مہربانی کرنے والا ہے۔ (۶۴)
تشریح: یعنی یہ ہی الفاظ ”وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ” تم نے یوسف کو ساتھ لے جاتے وقت کہے تھے۔ پھر تمہارے وعدہ پر کیا اعتبار ہو۔ ہاں اس وقت ضرورت شدید ہے۔ جس سے اغماض نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے تمہارے ساتھ بھیجنا ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ سو میں اس کو خدا کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ وہ ہی اپنی مہربانی سے اس کی حفاظت کرے گا۔ اور مجھ کو یوسف کی جدائی کے بعد دوسری مصیبت سے بچائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو انہوں نے اپنی پونجی پائی جو واپس کر دی گئی تھی انہیں، بولے اے ہمارے ابّا! (اور ) ہم کیا چاہتے ہیں؟یہ ہماری پونجی ہے ، ہمیں لوٹا دی گئی ہے ، اور ہم اپنے گھر غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے ، اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لیں گے ، یہ (جو ہم لائیں) تھوڑا غلہ ہے۔ (۶۵)
تشریح: یعنی جو پہلے لائے ہیں وہ حاجت کے اعتبار سے تھوڑا ہے۔ قحط کے زمانہ میں کہاں تک کام دے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جس طرح بن پڑے ہم دوبارہ جائیں اور سب کا حصہ لے کر آئیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا میں اسے ہرگز نہ بھیجوں گا تمہارے ساتھ یہاں تک کہ تم مجھے اللہ کا پختہ عہد دو کہ تم اسے میرے پاس ضرور لے کر آؤ گے ، مگر یہ کہ تمہیں گھیر لیا جائے ، پھر جب انہوں نے اسے (یعقوب کو) پختہ عہد دیا، اس نے کہا جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔ (۶۶)
تشریح: یعنی اگر تقدیر الٰہی سے کوئی ایسا حادثہ پیش آ جائے جس میں تم سب گھر جاؤ اور نکلنے کی کوئی سبیل نہ رہے تب تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ہاں اپنے مقدور اور زندگی بھر بنیامین کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرو گے۔ یہ پختہ عہد و پیمان اور قسمیں لے کر زیادہ تاکید و اہتمام کے طور پر فرمایا ”وَاللہُ عَلٰی مَانَقُوْلُ وَکِیْلٌ”یعنی جو کچھ عہد و پیمان ہم اس وقت کر رہے ہیں وہ سب خدا کے سپرد ہیں۔ اگر کسی نے خیانت اور بدعہدی کی وہ ہی سزا دے گا، یا یہ کہ قول و قرار تو اپنے مقدور کے موافق پختہ کر رہے ہیں لیکن ان باتوں سے جو مقصد اصلی ہے وہ خدا کی حفاظت و نگہبانی سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ خدا نہ چاہے تو سارے اسباب و تدابیر رکھی رہ جائیں، کچھ نہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ظاہری اسباب بھی پختہ کر لیے اور بھروسہ اللہ پر رکھا۔ یہی حکم ہے ہر کسی کو۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور کہا اے میرے بیٹو! تم سب داخل نہ ہونا ایک (ہی) دروازہ سے ، (بلکہ) جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا اور میں تمہیں بچا نہیں سکتا اللہ کی کسی بات سے ، اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا، پس چاہئے اس پر بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے۔ (۶۷)
تشریح: برادران یوسف پہلی مرتبہ جو مصر گئے تھے عام مسافروں کی طرح بلا امتیاز شہر میں داخل ہو گئے تھے لیکن یوسف علیہ السلام کی خاص توجہات و الطاف کو دیکھ کر یقیناً وہاں کے لوگوں کی نظریں ان کی طرف اٹھنے لگی ہوں گی۔ اب دوبارہ جانا خاص شان و اہتمام سے بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک طرح کی یوسف کی دعوت پر تھا۔ بنیامین جس کی حفاظت و محبت یعقوب علیہ السلام یوسف کے بعد بہت کرتے تھے۔ بھائیوں کے ہمراہ تھے یعقوب علیہ السلام کو خیال گزرا کہ ایک باپ کے گیارہ وجیہ خوش رو بیٹوں کا خاص شان سے بہیئات اجتماعی شہر میں داخل ہونا خصوصاً اس برتاؤ کے بعد جو عزیز مصر (یوسف) کی طرف سے لوگ پہلے مشاہدہ کر چکے تھے ، ایسی چیز ہے جس کی طرف عام نگاہیں ضرور اٹھیں گی۔ ”العین حق” نظر لگ جانا ایک حقیقت ہے (اور آجکل مسمریزم کے عجائبات تو عموماً اسی قوتِ نگاہ کے کرشمے ہیں) یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نظر بد اور حسد وغیرہ مکروہات سے بچانے کے لیے یہ ظاہری تدبیر تلقین فرمائی کہ متفرق ہو کر معمولی حیثیت سے شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہوں، تاکہ خواہی نہ خواہی پبلک کی نظریں ان کی طرف نہ اٹھیں ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ میں کوئی تدبیر کر کے قضاء و قدر کے فیصلوں کو نہیں روک سکتا۔ تمام کائنات میں حکم صرف خدا کا چلتا ہے۔ ہمارے سب انتظامات حکم الٰہی کے مقابلہ میں بیکار ہیں۔ ہاں تدبیر کرنا بھی اسی نے سمجھایا ہے اور جائز رکھا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ بچاؤ کی تدبیر کر لے مگر بھروسہ خدا پر رکھے گویا لڑکوں کو سنایا کہ میری طرح تم بھی تہ دل سے خدا کی حفاظت پر بھروسہ رکھو۔ تدابیر پر مغرور نہ بنو۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب داخل ہوئے جہاں سے انہیں ان کے باپ نے حکم دیا تھا، وہ انہیں نہیں بچا تھا اللہ کی کسی بات سے ، مگر یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی سووہ اس نے پوری کر لی، اور بیشک وہ صاحب علم تھا ا سکا جو ہم نے اسے سکھایا تھا، لیکن اکثر لو گ نہیں جانتے۔ (۶۸)
تشریح:یعنی جس طرح کہا تھا داخل ہوئے تو اگرچہ نظر یا ٹوک نہ لگی۔ لیکن تقدیر اور طرف سے آئی (بنیامین کو الزام سرقہ کے سلسلہ میں روک لیا گیا) تقدیر دفع نہیں ہوتی۔ سو جن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچاؤ دونوں حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن بے علم سے ایک ہو تو دوسرا نہ ہو، یا ہمہ تن اسباب پر اتکاء کر کے تقدیر کا انکار کر بیٹھتا ہے یا تقدیر پر یقین رکھنے کے یہ معنی سمجھ لیتا ہے کہ اسباب کو معطل کر دیا جائے ، البتہ عارف اور باخبر لوگ تقدیر و تدبیر کو جمع کرتے اور ہر ایک کو اس کے درجہ میں رکھتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب وہ یوسف کے پاس داخل ہوئے اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی، کہا بیشک میں تیرا بھائی ہوں، جو وہ کرتے تھے تواس پر غمگین نہ ہو۔ (۶۹)
تشریح: حضرت یوسف نے بنیامین کے ساتھ ممتاز معاملہ کیا۔ اور خلوت میں آہستہ سے آگاہ کر دیا کہ میں تیرا حقیقی بھائی (یوسف) ہوں۔ جو مظالم ان علاتی بھائیوں نے ہم پر کیے کہ مجھے باپ سے جدا کر کے کنویں میں ڈالا۔ غلام بنا کر بیچا۔ اور ہمارے باپ بھائی وغیرہ کو فراق کے صدمہ میں مبتلا کیا یا اب یہاں آتے ہوئے تمہارے ساتھ کوئی سختی کی، ان باتوں سے غمگین مت ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے سب غم غلط ہو جائیں اور سختیوں کے بعد حق تعالیٰ راحت و عزت نصیب فرمائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”اس بھائی کو جو یوسف نے آرزو سے بلایا اوروں کو حسد ہوا۔ اس سفر میں اس کو بات بات پر جھڑکتے اور طعنے دیتے۔ اب حضرت یوسف نے تسلی کر دی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب ان کا سامان تیار کر دیا اپنے بھائی کے سامان میں (پانی) پینے کا پیالہ رکھ دیا، پھر ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا اے قافلہ والو !تم البتہ چور ہو۔ (۷۰)
تشریح: یعنی جب یوسف علیہ السلام کے حکم سے ان کا غلہ لدوایا اور سامان سفر تیار کیا گیا تو ایک چاندی کا پیالہ اپنے بھائی بنیامین کے اسباب میں بلا اطلاع رکھ دیا۔ جس وقت قافلہ روانہ ہونے لگا، محافظین کو پیالہ کی تلاش ہوئی۔ آخر ان کا شبہ اسی قافلہ پر گیا۔ قافلہ تھوڑی دور نکلا تھا کہ محافظین میں سے کسی نے آواز دی کہ ٹھرو۔ تم لوگ یقیناً چور معلوم ہوتے ہو (تنبیہ) اگر یہ لفظ یوسف کے حکم سے کہے گئے تو یہ مطلب ہو گا کہ کوئی مال چراتا ہے ، تم وہ ہو جنہوں نے باپ کی چوری سے بھائی کو بیچ ڈالا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ ان کی طرف منہ کر کے بولے ، کیا ہے جو تم گم کر بیٹھے ہو؟ (۷۱)
تشریح: یعنی ہم کو خواہ مخواہ چور کیوں بناتے ہو۔ اگر تمہاری کوئی چیز گم ہوئی ہے وہ بتلاؤ ہم ابھی کہیں گئے نہیں ہمارے اسباب میں تلاش کر لو۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے کہا ہم بادشاہ کا پیمانہ نہیں پاتے ، اور جو کوئی وہ لائے گا اس کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ ہے (بار شتر ملے گا) اور میں اس کا ضامن ہوں۔ (۷۲)
تشریح: محافظین نے کہا، بادشاہ کے پانی پینے کا پیالہ یا غلہ ناپنے کا پیمانہ گم ہو گیا ہے۔ اگر بدون حیل و حجت کے کوئی شخص حاضر کر دے گا تو غلہ کا ایک اونٹ انعام پائے گا۔ میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے اللہ کی قسم! تم خوب جانتے ہو ہم (اس لئے ) نہیں آئے کہ ملک میں فساد کریں، اور ہم چور نہیں۔ (۷۳)
تشریح: یعنی مصر میں ہمارا چال چلن عام طور پر معلوم ہے کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ ہم نے یہاں کبھی کچھ شرارت کی؟ نہ ہم شرارتوں کے لیے یہاں آئے۔ اور نہ چوروں کے خاندان سے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے کہا اگر تم جھوٹے ہو (جھوٹے نکلے ) پھر اس کی کیا سزا ہے۔ (۷۴)
تشریح: محافظین نے کہا کہ تم فضول حجتیں کر رہے ہو۔ اگر مال مسروقہ تمہارے پاس سے برآمد ہو گیا تو کیا کرو گے۔
(تفسیرعثمانی)
کہنے لگے اس کی سزا یہ ہے کہ پایا جائے جس کے سامان میں پس وہی ہے اس کا بدلہ، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیتے ہیں۔ (۷۵)
تشریح: یہ شریعت ابراہیمی میں چور کی سزا تھی۔ یعنی جس کے پاس سے چوری نکلے وہ ایک سال تک غلام ہو کر رہے۔ برادران یوسف نے اپنے قانون شرعی کے موافق بے تامل سزا کا ذکر کر دیا۔ کیونکہ انہیں پورا یقین تھا کہ ہم چور نہیں۔ نہ چوری کا مال ہمارے پاس سے برآمد ہو سکتا ہے۔ اس طرح اپنے اقرار سے خود پکڑے گئے۔
(تفیسرعثمانی)
پس ان کے بوروں سے تلاش کرنا شروع کیا اپنے بھائی کے بورے سے پہلے ، پھر اس کو اپنے بھائی کے بورے سے نکال لیا، اسی طرح ہم نے یوسف کیلئے تدبیر کی، وہ بادشاہ کے دین میں قانون کے مطابق اپنے بھائی کونہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ اللہ چاہے (اللہ کی مشیت ہو)، ہم درجے بلند کرتے ہیں جس کے ہم چاہیں، اور ہر صاحب علم کے اوپر ایک علم والا ہے۔ (۷۶)
تشریح:یعنی یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں یہی حکم ہے کہ جو چوری کرے ، اسے گرفتار کر کے رکھ لیا جائے ، اس طرح اللہ تعالی نے خود ان بھائیوں سے یہ بات کہلوا دی کہ چور کو یہ سزا ملنی چاہئے ، چنانچہ جو سزا دی گئی وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق دی گئی، ورنہ بادشاہ کے قانون میں چور کی پٹائی کی جاتی تھی، اور جرمانہ عائد کیا جاتا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے یہ سوال اس لئے فرمایا کہ انہیں حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے خلاف فیصلہ نہ کرنا پڑے اور بھائی کو اپنے پاس رکھنے کا موقع بھی مل جائے۔
(توضیح القرآن)
بولے اگر اس نے چرایا تو چوری کی تھی اس سے قبل اس کے بھائی نے ، پس یوسف نے (اس بات کو) اپنے دل میں چھپایا اور ان پر ظاہر نہ کیا، کہا تم بدتر درجہ میں ہو، اور تم جو بیان کرتے ہو اللہ خوب جانتا ہے۔ (۷۷)
تشریح: یہ اشارہ یوسف علیہ السلام کی طرف تھا۔ اپنی پاکبازی جتانے کے لیے محض ناحق کوشی اور عناد سے بنیامین کے جرم کو پختہ کر دیا اور اتنی مدت کے بعد بھی یوسف معصوم پر جھوٹی تہمت لگانے سے نہ شرمائے مفسرین نے اس موقع پر کئی قصے بیان کئے ہیں جن کی طرف برادرانِ یوسف نے چوری کے لفظ میں اشارہ کیا تھا۔ ان کے نقل کی یہاں حاجت نہیں۔
ایسا سخت لفظ سن کر بھی یوسف بے قابو نہیں ہوئے ، کیونکہ مصلحت خداوندی افشائے راز کو مقتضی نہ تھی۔ یوسف نے بات کو دل میں رکھا۔ جواب دے کر ان کے اتہام کی حقیقت نہ کھولی۔ اپنے جی میں کہا ”اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَاتَصِفُونَ”یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ، مجھے چور بناتے ہو؟ حالانکہ تم نے ایسی چو ری کی کہ بھائی کو باپ سے چرا کر بیچ ڈالا۔ باقی میری چوری کا حال اللہ کو معلوم ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کہنے لگے اے عزیز! بیشک ا س کا باپ بڑی عمر کا بوڑھا ہے ، پس اس کی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لے ، ہم دیکھتے ہیں کہ تواحسان کرنے والوں میں سے ہے۔ (۷۸)
تشریح: یعنی بوڑھے باپ کو بڑا صدمہ پہنچے گا، وہ ہم سب سے زیادہ اس کو اور اس کے بھائی یوسف کو چاہتے تھے۔ یوسف کے بعد اب اسی سے اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں۔ آپ اگر اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو رکھ لیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔ آپ ہمیشہ مخلوق پر احسانات کرتے ہیں اور ہم پر خصوصی احسان فرماتے رہے ہیں۔ امید ہے ہم کو اپنے کرم سے مایوس نہ فرمائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اللہ کی پناہ کہ اس کے سوا (کسی اور ) کو پکڑیں، جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا (اس صورت میں) ہم ظالموں سے ہوں گے۔ (۷۹)
تشریح: یعنی خدا پناہ میں رکھے ، کہ ہم کسی کو بے سبب دوسرے کے بدلے میں پکڑنے لگیں۔ ہم تو صرف اسی شخص کو روکیں گے جس کے پاس سے اپنی چیز ملی ہے۔ (وہ بنیامین ہے جو عینی بھائی ہونے کی حیثیت سے ہمارے پاس رہے گا) یہاں بھی ”اِلَّامَنَ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہ، ” کی جگہ ”اِلَّا مَنْ سَرقَ” نہیں فرمایا جو مختصر تھا۔ کیونکہ واقعہ کے خلاف ہوتا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو مشورہ کرنے کے لئے اکیلے ہو بیٹھے ان کے بڑے (بھائی) نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا پختہ عہد لیا، اور اس سے قبل تم نے یوسف کے بارہ میں تقصیر کی، پس ہر گز نہ ٹلوں گا زمین سے (یہاں سے ) یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے یا میرا اللہ میرے لئے کوئی تدبیر نکالے ، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (۸۰)
تشریح: جب حضرت یوسف کا جواب سن کر مایوس ہو گئے تو مجمع سے ہٹ کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ اکثروں کی رائے ہوئی کہ وطن واپس جانا چاہیے۔ ان میں جو عمر یا عقل وغیرہ کے اعتبار سے بڑا تھا اس نے کہا کہ باپ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے ، جو عہد ہم سے لیا تھا اس کا کیا جواب دیں گے۔ ایک تقصیر تو پہلے یوسف کے معاملہ میں کر چکے ہیں جس کا اثر آج تک موجود ہے۔ اب بنیامین کو چھوڑ کر سب کا چلا جانا سخت بے حمیتی ہو گی۔ سو واضح رہے کہ بندہ تو کسی حال یہاں سے ٹلنے والا نہیں۔ اِلاّ یہ کہ خود والد بزرگوار مجھ کو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیں یا اس درمیان میں قدرت کی طرف سے کوئی فیصلہ ہو جائے۔ مثلاً تقدیر سے میں یہیں مر جاؤں یا کسی تدبیر سے بنیامین کو چھڑا لوں۔ (تنبیہ) یہ کہنے والا غالباً وہ ہی بھائی تھا جس نے یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں بھی نرم مشورہ دیا تھا۔ ”لَاتَقْتُلُوْا یُوْسُفَ۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اپنے باپ کے پاس لوٹ جاؤ، پس کہو اے ہمارے باپ! تمہارے بیٹے نے چوری کی اور ہم نے گواہی دی تھی (صرف وہی کہا تھا) جو ہمیں معلوم تھا اور ہم غیب کے نگہبان (باخبر ) نہ تھے۔ (۸۱)
تشریح: یعنی مجھے چھوڑ دو اور تم سب جا کر باپ سے عرض کرو کہ ایسا واقعہ پیش آیا، جس کی کوئی توقع نہ تھی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی تم کو قول دیا تھا کہ اپنی دانست پر۔ یہ کیا خبر تھی کہ بنیامین چوری کر کے پکڑا جائے گا۔ یا ہم نے چور کو پکڑ رکھنا بتایا اپنے دین کے موافق۔ یہ نہ معلوم تھا کہ” بھائی چور ہے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور پوچھ لیں اس بستی سے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے جس میں ہم آئے ہیں، اور بیشک ہم سچے ہیں۔ (۸۲)
تشریح: یعنی آپ معتبر آدمی بھیج کر اس بستی والوں سے تحقیق کر لیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ نیز دوسرے قافلہ والوں سے دریافت فرما لیں جو ہمارے ساتھ رہے اور واپس آئے ہیں۔ آپ کو ثابت ہو جائے گا کہ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا (نہیں) بلکہ تمہارے دل نے بنا لی ہے ایک بات، پس صبر ہی اچھا ہے ، شاید اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے ، بیشک وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۸۳)
تشریح: پہلی بار کی بے اعتباری سے اس مرتبہ بھی حضرت یعقوب نے بیٹوں کا اعتبار نہ کیا۔ لیکن نبی کا کلام جھوٹ نہیں۔ بیٹوں کی بنائی بات تھی۔ حضرت یوسف بھی بیٹے تھے۔ ”کذا فی الموضح” گویا ”لَکُمْ” کا خطاب جنس ابناء کی طرف ہوا۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے یہ مطلب لیا ہے کہ تم یہاں سے حفاظت کے کیسے وعدے کر کے اصرار کے ساتھ لے گئے وہاں پہنچ کر اتنا بھی نہ کہا کہ اس کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہونے سے چوری کیسے ثابت ہو گئی، شاید کسی نے چھپا دیا ہو۔ مدافعت تو کیا کرتے یہ کہہ کر کہ پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی اس کے جرم کو پختہ کر دیا۔ تمہارے دل میں کھوٹ نہ ہو تو یہ طرز عمل اختیار نہ کرتے۔ اب باتیں بنانے کے لیے آئے ہو۔ بہرحال میں تو اس پر بھی صبر ہی کروں گا کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاؤں گا۔ خدا کی قدرت و رحمت سے کیا بعید ہے کہ یوسف، بنیامین، اور وہ بھائی جو بنیامین کی وجہ سے رہ گیا ہے سب کو میرے پاس جمع کر دے۔ وہ سب کے احوال سے خبردار ہے اور ہر ایک کے ساتھ اپنی حکمت کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہر قسم کے یاس انگیز احوال اور مرور دھور کے بعد بھی انبیاء کے قلوب مایوس نہیں ہو سکتے۔ وہ ہمیشہ خدا کی رحمت واسعہ پر اعتماد کرتے اور الطاف و منن کے امیدوار رہتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس نے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے افسوس !یوسف پر، اور اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں غم سے ، پس وہ گھونٹ رہا تھا (غم ضبط کر رہا تھا)۔ (۸۴)
تشریح: حدیث میں ہے ”نَحْنُ مَعَاشِرَ الْاَنْبِیَآءِ اَشَدُّ بَلاءً ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمَثْلُ ” یعنی انبیاء کی جماعت حق تعالیٰ کی طرف سے سخت ترین امتحانوں میں مبتلاء کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی اقسام ہیں۔ ہر نبی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے قلب میں یوسف کی فوق العادت محبت ڈال دی پھر ایسے محبوب اور ہونہار بیٹے کو جو خاندانِ ابراہیمی کا چشم و چراغ تھا، ایسے دردناک طریقے سے جدا کیا گیا۔ غمزدہ اور زخم خوردہ یعقوب کے جگر کو اس روح فرسا صدمہ نے کھا لیا تھا۔ وہ کسی مخلوق کے سامنے نہ حرف شکایت زبان پر لاتے تھے نہ کسی سے انتقام لیتے ، نہ غصہ نکالتے۔ غم کی بات منہ سے نہ نکلتی۔ ہاں جب اپنے کو بہت گھونٹتے تو دل کا بخار آنکھوں کی راہ سے ٹپک پڑتا۔ بیسیویں برس تک چشم گریاں اور سینہ بریاں کے باوجود ادائے فرائض و حقوق میں کوئی خلل نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا یوسف کے فراق میں روتا تھا، اتنا ہی خدا کے حضور میں زیادہ گڑ گڑاتا تھا۔ درد و غم کی شدت اور اشکباری کی کثرت جس قدر ان کی بصارت کو ضعیف کرتی اسی قدر نورِ بصیرت کو بڑھا رہی تھی۔ بے تابی و اضطراب کا کیسا ہی طوفان اٹھتا، دل پکڑ کر اور کلیجہ مسوس کر رہ جاتے زبان سے اف نہ نکالتے ، بنیامین کی جدائی سے جب پرانے زخم میں نیا چرکا لگا تو اس وقت بے اختیار ”یا اسفی علی یوسف” صرف اتنا لفظ زبان سے نکلا۔ بقول حضرت شاہ صاحب ”ایسا درد اتنی مدت دبا رکھنا پیغمبر کے سوا کس کا کام ہو سکتا ہے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے اللہ کی قسم!تم ہمیشہ یوسف کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ تم ہو جاؤ بیمار یا ہلاک ہو جاؤ۔ (۸۵)
اس نے کہا میں تو اپنی بیقراری اور اپنا غم بیان کرتا ہوں، صرف اللہ کے سامنے اور اللہ (کی طرف) سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (۸۶)
تشریح: موضح القرآن میں ہے۔ یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے ؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ (یوسف زندہ ہے ضرور ملے گا اور اس کا خواب پورا ہو کر رہے گا) یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے بیٹو !تم جاؤ پس کھوج نکالویوسف کو اور ا سکے بھائی کا، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے مایوسں نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔ (۸۷)
تشریح: یعنی حق تعالی کی مہربانی اور فیض سے نا امید ہونا کافروں کا شیوہ ہے۔ جنہیں اس کی رحمت واسعہ اور قدرتِ کاملہ کی صحیح معرفت نہیں ہوتی۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانوں اور سمندر کی موجوں کے برابر مایوس کن حالات پیش آئیں تب بھی خدا کی رحمت کا امیدوار رہے اور امکانی کوشش میں پست ہمتی نہ دکھلائے۔ جاؤ کوشش کر کے یوسف کا کھوج لگاؤ اور اس کے بھائی بنیامین کے چھڑانے کا کوئی ذریعہ تلاش کرو۔ کچھ بعید نہیں کہ حق تعالیٰ ہم سب کو پھر جمع کر دے۔ تیسرے بھائی کا ذکر شاید اس لیے نہیں کیا کہ وہ باختیار خود محض بنیامین کی وجہ سے رکا ہے۔ بنیامین چھوٹ جائے تو وہ کیوں پڑا رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب وہ اس کے سامنے داخل ہوئے انہوں نے کہا اے عزیز! ہمارے گھر کو پہنچی ہے سختی اور ہم ناقص پونجی لے کر آئے ہیں، ہمیں پورا ناپ (غلہ) دیں اور ہم پر صدقہ کریں، بیشک اللہ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (۸۸)
تشریح: باپ کے فرمانے پر مصر کو پھر روانہ ہوئے۔ کیونکہ یوسف کا پتہ معلوم نہ تھا۔ یہ خیال کیا ہو گا کہ جس کا پتہ معلوم ہے (بنیامین) پہلے اس کی فکر کریں اور قحط کی وجہ سے غلہ کی ضرورت سے ، عزیز کو ادھر بھی توجہ دلائیں۔ اگر دینے لینے کے معاملہ میں کچھ نرم پایا تو بنیامین کے متعلق گفت و شنید کریں گے۔ چنانچہ پہلی بات انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ ہی کہی کہ اے عزیز مصر! آجکل قحط و ناداری کی وجہ سے ہم پر اور ہمارے گھر پر بڑی سختی گزر رہی ہے۔ سب اسباب گھر کا بک گیا۔ کچھ نکمی اور حقیر سے پونجی رہ گئی ہے وہ غلہ خریدنے کے لیے ساتھ لائے ہیں آپ کے مکارم اخلاق اور گزشتہ مہربانیوں سے امید ہے کہ ہماری ناقص چیزوں کا خیال نہ فرمائیں گے اور تھوڑی قیمت میں غلہ کی مقدار گزشتہ کی طرح پوری دلوا دیں گے۔ یہ رعایت حقیقت میں ایک طرح کی خیرات ہو گی جو آپ ہم پر کریں گے یا اس کے علاوہ ہم کو بطور خیرات ہی کچھ دے دیجئے خدا آپ کا بھلا کرے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام یہ حال سن کر رو پڑے ، شفقت و رحم دلی کا چشمہ دل میں جوش مار کر آنکھوں سے ابل پڑا۔ اس وقت حق تعالیٰ کے حکم سے اپنے تئیں ظاہر کیا کہ میں کون ہوں اور تم نے میرے ساتھ جو معاملہ کیا تھا، اس کے بعد میں کس مرتبہ پر پہنچا ہوں، اگلی آیت میں اسی اظہار کی تمہید ہے (تنبیہ) بعض نے تصدق کے معنی مطلق احسان کرنے کے لیے ہیں۔ جیسے ”قصر صلوٰۃ” کی حدیث میں ”صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللہُ بِہَا عَلَیْکُمْ۔ ”
(تفسیرعثمانی)
(یوسف نے ) نے کہا کیا تمہیں خبر ہے ؟ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا؟جب تم نادان تھے۔ (۸۹)
تشریح: اللہ اکبر۔ صبر اور مروت و اخلاق کی حد ہو گئی کہ تمام عمر بھائیوں کی شکایت کا ایک حرف زبان پر نہ لائے۔ اتنا سوال بھی اس لیے کیا کہ وہ لوگ اپنے ذہنوں میں بیسیوں برس پہلے کے حالات کو ایک مرتبہ مستحضر کر لیں تاکہ ماضی و حال کے موازنہ سے خدا تعالیٰ کے احسانات کی حقیقت روشن ہو، جو یوسف پر ان مصائب و حوادث کے بعد ہوئے جن کی طرف آگے ”قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَیْنَا” میں اشارہ ہے۔ پھر سوال کا پیرایہ ایسا نرم اختیار کیا۔ جس میں ان کے جرم سے زیادہ معذرت کا پہلو نمایاں ہے یعنی جو حرکت اس وقت تم سے صادر ہوئی ناسمجھی اور بیوقوفی سے ہو گئی۔ تمہیں کیا معلوم تھا کہ یوسف کا خواب پورا ہو کر اور ہلال ایک روز بدر بن کر رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟اس نے کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، اللہ نے البتہ ہم پر ا حسان کیا ہے بیشک جو ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو بیشک اللہ ضائع نہیں کرتا نیکی کرنے والوں کا اجر۔ (۹۰)
تشریح: ممکن ہے اس سوال سے گھبرائے ہوں کہ اتنی مدت کے بعد یہ کون گھر کا بھیدی نکل آیا۔ پھر عزیز مصر کو یوسف کے قصہ سے کیا مطلب۔ غیر معمولی مہربانیاں اور بنیامین کے ساتھ خصوصی برتاؤ پہلے سے دیکھ ہی رہے تھے۔ اس سوال نے دفعتاً ان کا ذہن ادھر منتقل کر دیا ہو کہ کہیں یوسف جسے ہم نے مصری قافلہ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا یہ ہی تو نہیں ہے۔ جب ادھر توجہ ہوئی تو بغور دیکھا ہو گا اور ممکن ہے یوسف نے خود بھی اپنے کو اس دفعہ زیادہ واضح طور پر پیش کیا ہو، یا تصریحاً کہہ دیا ہو کہ میں یوسف ہوں۔ غرض وہ سخت متعجب و حیرت زدہ ہو کر بول اٹھے۔ ”اِنَّکَ لَاَ نْتَ یُوْسُفٌ” (سچ بتاؤ کیا تم ہی یوسف ہو؟)
جدائی کو ملاپ سے ، ذلت کو عزت سے ، تکلیف کو راحت سے ، تنگی کو عیش سے بدل دیا۔ جو غلام بنا کر چند درہم میں فروخت کیا گیا تھا، آج خدا نے اسے ملک مصر کی حکومت بخشی۔
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبرائے نہیں تو آخر بلاء سے زیادہ عطاء ہو۔
(تفسیرعثمانی)
کہنے لگے اللہ کی قسم! اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت دی ہے ، اور ہم بیشک خطاوار تھے۔ (۹۱)
تشریح: یعنی تجھ کو ہر حیثیت سے ہم پر فضیلت دی اور تو اسی لائق تھا، ہماری غلطی اور بھول تھی کہ تیری قدر نہ پہچانی، آخر تیرا خواب سچا اور ہمارا حسد بیکار ثابت ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا آج تم پر کوئی ملامت (الزام ) نہیں، اللہ تمہیں بخشے ، اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ (۹۲)
تشریح: یوسف علیہ السلام بھائیوں سے اتنا بھی سننا نہیں چاہتے تھے فرمایا، یہ تذکرہ مت کرو آج میں تمہیں کوئی الزام نہیں دیتا۔ تمہاری سب غلطیاں معاف کر چکا ہوں۔ جو لفظ میں نے کہے محض حق تعالیٰ کا احسان اور صبر و تقویٰ کا نتیجہ ظاہر کرنے کی نیت سے کہے آج کے بعد تمہاری تقصیر کا ذکر بھی نہ ہو گا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ تم نے جو خطائیں خدا تعالیٰ کی کی ہیں، وہ بھی معاف کر دے۔
(تفسیرعثمانی)
تم میری یہ قمیص لے کر جاؤ، پس اس کو میرے باپ کے چہرہ پر ڈالو، وہ بینا ہو جائیں گے ، اور میرے پاس تمام گھر والوں کو لے آؤ۔ (۹۳)
تشریح: یعنی میں بحالت موجودہ شام کا سفر نہیں کر سکتا۔ تم جاؤ والدین اور اپنے سب متعلقین کو یہاں لے آؤ۔ چونکہ والد بزرگوار کی نسبت وحی سے یا بھائیوں کی زبانی معلوم ہوا ہو گا کہ بینائی نہیں رہی یا نگاہ میں فرق آ گیا ہے ، اس لیے اپنا قمیص دے کر فرمایا کہ یہ ان کی آنکھوں کو لگا دینا بینائی بحال ہو جائے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب قافلہ روانہ ہوا، ان کے باپ نے کہا، بیشک میں یوسف کی خوشبو پارہا ہوں اگر نہ جانو (نہ کہو) کہ بوڑھا بہک گیا ہے۔ (۹۴)
تشریح: خدا کی قدرت یوسف مصر میں موجود ہیں کبھی نہ کہا کہ یوسف کی خوشبو آتی ہے۔ کیونکہ خدا کو امتحان پورا کرنا تھا۔ اب بلانے کی ٹھہری تو ادھر قافلہ یوسف کا قمیص لے کر مصر سے نکلا ادھر پیراہن یوسفی کی خوشبو یعقوب کے مشام جان کو معطر کرنے لگی۔ ایک یہ کیا’ پورا واقعہ ہی عجائب قدرت کا ایک مرقع ہے یعقوب جیسے مشہور و معروف پیغمبر شام میں رہیں اور یوسف جیسی جلیل القدر شخصیت مصر میں بادشاہت کرے۔ یوسف کے بھائی کئی مرتبہ مصر آئیں، خود یوسف کے مہمان بنیں اس کے باوجود خداوند قدوس کی حکمت غامضہ اور مشیت قاہرہ کا ہاتھ باپ کو بیٹے سے بیسیوں برس تک علیٰحدہ رکھے اور خون کے آنسو رلا کر امتحان کی تکمیل کرائے ، ”جَلَّتْ قُدْرَتُہ، وَعَزَّ سُلْطَانَہ، ”
(تفسیرعثمانی)
وہ کہنے لگے اللہ کی قسم! بیشک تو اپنے پرانے وہم میں ہے۔ (۹۵)
تشریح: یعنی یوسف کی محبت اس کے زندہ ہونے اور دوبارہ ملنے کا یقین آپ کے دل میں جاگزیں ہے۔ وہ ہی پرانے خیالات ہیں جو یوسف کی خوشبو بن کر دماغ میں آتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب خوشخبری دینے والا آیا اور اس نے کرتہ اس کے (یعقوب کے ) منہ پر ڈالا تووہ لوٹ کر دیکھنے لگا (بینا) ہو گیا، بولا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا ؟کہ میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (۹۶)
تشریح:خوشخبری دینے والے حضرت یوسف علیہ السلام کے سب سے بڑے بھائی تھے جن کا نام بعض روایات میں یہوداہ اور بعض میں روبن آیا ہے ، اور خوشخبری دینے سے مراد یہ خوشخبری ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ابھی زندہ ہیں اور انہوں نے سب گھر والوں کو اپنے پاس بلایا ہے ، یہ بھی ایک معجزہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص چہرے پر ڈالنے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آ گئی، مفسرین نے فرمایا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قمیص سے کئی اہم واقعات ظاہر ہوئے انہی کے قمیص کوان کے بھائی خون لگا کر لائے تھے ، اور اس کو صحیح سالم دیکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام یہ سمجھ گئے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑئے نے نہیں کھایا اور انہی کا قمیص تھا جو زلیخا نے پیچھے سے پھاڑا اور اس سے ان کی بے گناہی ثابت ہوئی، اور اب یہی قمیص تھا جس کی خوشبو حضرت یعقوب علیہ السلام کو دور سے محسوس ہوئی بالآخر اسی سے ان کی بینائی واپس آئی۔
(توضیح القرآن)
وہ بولے اے ہمارے باپ! ہمارے لئے بخشش مانگئے ہمارے گناہوں کی، بیشک ہم خطا کار تھے۔ (۹۷)
تشریح: یعنی توجہ اور دعا کر کے خدا سے ہمارے گناہ معاف کرائیے ہم سے بڑی بھاری خطائیں ہوئی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ پہلے آپ معاف کر دیں۔ پھر صاف دل ہو کر بارگاہ رب العزت سے معافی دلوائیں کیونکہ جو خود نہ بخشے وہ خدا سے کہاں بخشوائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا جلد اپنے رب سے تمہارے گناہوں کی بخشش مانگوں گا، بیشک وہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۹۸)
پھر جب وہ یوسف کے پاس داخل ہوئے تواس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس ٹھکانہ دیا اور کہا اگر اللہ چاہے تو تم مصر میں دلجمعی کے ساتھ داخل ہو۔ (۹۹)
تشریح:حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والدین، بھائیوں اور دوسرے گھر والوں کے استقبال کے لئے شہر سے باہر تشریف لائے تھے ، اور جب والدین سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا خاص اکرام کر کے انہیں اپنے پاس بٹھایا اور ابتدائی باتوں کے بعد سارے آنے والوں سے کہا کہ اب سب لوگ شہر میں اطمینان کے ساتھ چل کر رہیں، اس معاملے میں روایات مختلف ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی حقیقی والدہ اس وقت زندہ تھیں یا نہیں اگر زندہ تھیں تب تو والدین سے مراد حقیقی والدین ہیں اور اگر وفات پاچکی تھیں توسوتیلی والدہ کو بھی چونکہ ماں ہی کی طرح سمجھاجاتا ہے اس لئے ان کو بھی والدین میں شامل کر لیا گیا۔
(توضیح القرآن)
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا، اور وہ اس کے آگے گر گئے سجدہ میں اور اس نے کہا اے میرے باپ! یہ ہے میرے اس سے پہلے خواب کی تعبیر، اس کو میرے رب نے سچا کر دیا، اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانہ سے نکالا، اور تم سب کو گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان شیطان نے جھگڑا (فساد ) ڈال دیا تھا، بیشک میرا رب جس کے لئے چاہے عمدہ تدبیر کرتا ہے ، بیشک وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۰۰)
تشریح:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی جو تفسیر مروی ہے ، اس کے مطابق ان سب حضرات نے یہ سجدہ یوسف علیہ السلام کے سامنے اللہ تعالی کا شکر بجا لانے کے لئے کیا تھا، یعنی سجدہ اللہ تعالی ہی کو تھا، البتہ یوسف علیہ السلام کے سامنے اور ان کے مل جانے کی خوشی میں کیا تھا، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے ، البتہ دوسرے مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ عبادت کا نہیں بلکہ تعظیم کا ویسا ہی سجدہ تھا جیسا فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو کیا تھا، اور وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا، تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں اللہ تعالی کے سوا کسی کو تعظیمی سجدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
اے میرے رب!تو نے مجھے ایک ملک عطا کیا اور مجھے سکھایاباتوں کا انجام (خوابوں کی تعبیر) نکالنا، اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے !تو میرا کارساز ہے دنیا میں اور آخرت میں، مجھے (دنیا سے ) فرمانبرداری کی حالت میں اٹھانا اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملانا۔ (۱۰۱)
تشریح:یہ لفظ ایسے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں فرماتے تھے ”اَللّٰہُمَّ فِیْ الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی” حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں” علم کامل پایا، دولت کامل پائی، اب شوق ہوا اپنے باپ دادا کے مراتب کا”۔ گویا اَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ سے یہ غرض ہوئی کہ میرا مرتبہ اسحاق و ابراہیم کے مراتب سے ملا دے۔ حضرت یعقوب کی زندگی تک ملکی انتظامات میں رہے۔ ان کی وفات کے بعد اپنے اختیار سے چھوڑ دیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یعقوب نے وصیت فرمائی تھی کہ میری لاش ”شام” لے جا کر دفن کرنا۔ چنانچہ جنازہ وہیں لے گئے۔ حضرت یوسف نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب ”بنی اسرائیل” مصر سے نکلیں گے۔ اس وقت میری لاش بھی اپنے ہمراہ لے جائیں۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے ، حضرت یوسف کا تابوت بھی ساتھ لے گئے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنا کام پختہ کیا اور وہ چال چل رہے تھے۔ (۱۰۲)
اور اگرچہ تم کتنا ہی چاہو اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ (۱۰۳)
اور تم ان سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتے یہ (اور کچھ) نہیں، مگر سارے جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔ (۱۰۴)
تشریح:جیسا کہ شروع سورت میں عرض کیا گیا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ واقعہ اللہ تعالی نے ان کافروں کے جواب میں نازل فرمایا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھ رہے تھے کہ بنی اسرائیل کے مصر میں آباد ہونے کی کیا وجہ تھی، ان کو یقین تھا کہ آپ کے پاس بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس حصے کا علم نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے آپ کو یہ معلومات حاصل ہو سکیں، اس لئے ان کا خیال یہ تھا کہ آپ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے ، لیکن اللہ تعالی نے یہ پوری سورت اس واقعے کو بیان فرمانے کے لئے نازل فرمادی، اب آخر میں یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ اس واقعے کو معلوم کرنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے سوا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ جو لوگ یہ سوال کر رہے تھے ، وہ یہ تفصیل سننے کے بعد آپ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لے آئیں ، لیکن چونکہ ان میں سے اکثر لوگوں کا ان سوالات سے یہ مقصد نہیں تھا کہ حق واضح ہونے کے بعد اس کو قبول کر لیں، بلکہ یہ سارے سوالات صرف ضد کی وجہ سے کئے جا رہے تھے اس لئے اللہ تعالی نے اگلی آیات میں واضح فرما دیا کہ ان کھلے کھلے دلائل کے باوجود ان میں اکثر لو گ ایمان نہیں لائیں گے۔
(توضیح القرآن)
اور آسمانوں میں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں وہ ان پر گزرتے ہیں، لیکن وہ ان سے منہ پھیر نے والے ہیں۔ (۱۰۵)
تشریح: یعنی جس طرح آیات تنزیلیہ سن کر آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ ایسے ہی آیات تکوینیہ دیکھ کر خدا کی توحید کا سبق حاصل نہیں کرتے اصل یہ ہے کہ ان کا سننا اور دیکھنا محض سرسری ہے۔ آیات اللہ میں غور و فکر کرتے تو کچھ فائدہ پہنچتا۔ جب دھیان نہیں تو ایمان کہاں سے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں اکثر اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر وہ مشرک ہیں۔ (۱۰۶)
تشریح: یعنی زبان سے سب کہتے ہیں کہ خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے مگر اس کے باوجود کوئی بتوں کو خدائی کا حصہ دار بنا رہا ہے چنانچہ مشرکین عرب ”تلبیہ” میں یہ لفظ کہتے تھے ”لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًا ہُوَلَکَ تَمْلِکُہ، وَمَا مَلَکَ” کوئی اس کے لیے بیٹے بیٹیاں تجویز کرتا ہے۔ کوئی اسے روح و مادہ کا محتاج بتاتا ہے کسی نے احبارو رہبان کو خدائی کے اختیارات دے دیے ہیں بہت سے تعزیہ پرستی، قبر پرستی پیر پرستی کے خس و خاشاک سے توحید کے صاف چشمہ کو مکدر کر رہے ہیں۔ ریا اور ہوا پرستی سے تو کتنے موحدین ہیں جو پاک ہوں گے۔ غرض ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے بہت کم ہیں جو عقیدہ یا عمل کے درجہ میں شرک جلی یا خفی کا ارتکاب نہیں کرتے (اعاذنا اللہ من سائر انواع الشرک)۔
(تفسیرعثمانی)
پس کیا وہ (اس سے ) بے خوف ہو گئے کہ ان پر اللہ کے عذاب کی آفت آ جائے ، یا ان پر آ جائے اچانک قیامت، اور انہیں خبر (بھی) نہ ہو۔ (۱۰۷)
تشریح:یعنی ایسے بے فکر و بے خوف کیوں ہو رہے ہیں۔ کیا انہوں نے عذاب الٰہی یا قیامت کے ہولناک حوادث سے محفوظ رہنے کا کچھ انتظام کر لیا ہے ؟
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں یہ میرا راستہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، سمجھ بوجھ کے مطابق، میں (بھی) جس نے میری پیروی کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ (۱۰۸)
تشریح: یعنی میرا راستہ یہ ہی خالص توحید کا راستہ ہے میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں کہ سب خیالات و اوہام کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف آئیں، اس کی توحید، اس کی صفات و کمالات اور اس کے احکام وغیرہ کی صحیح معرفت صحیح راستہ سے حاصل کریں۔ میں اور میرے ساتھی اس سیدھے راستہ پر، حجت و برہان اور بصیرت و وجدان کی روشنی میں چل رہے ہیں۔ خدا نے مجھ کو ایک نور دیا جس سے سب ہمراہیوں کے دماغ روشن ہو گئے۔ یہاں کسی کی اندھی تقلید نہیں۔ خالص توحید کا راہرو ہر قدم پر اپنے باطن میں معرفت و بصیرت کی خاص روشنی اور عبودیت محضہ کی خاص لذت محسوس کر کے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔ ”سُبْحَانَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنُ۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں میں رہنے والے لوگوں میں سے صرف مرد بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ، پس کیا انہوں نے سیر نہیں کی ملک میں؟کہ وہ دیکھتے ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا، اور البتہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جنہوں نے پرہیز کیا، پس کیا تم نہیں سمجھتے ؟۔ (۱۰۹)
تشریح: یعنی پہلے بھی ہم نے آسمان کے فرشتوں کو نبی بنا کر نہیں بھیجا انبیائے سابقین ان ہی انسانی بستیوں کے رہنے والے مرد تھے۔ پھر دیکھ لو ان کے جھٹلانے والوں کا دنیا میں کیا حشر ہوا۔ حالانکہ دنیا میں کافروں کو بھی بسا اوقات عیش نصیب ہو جاتا ہے اور آخرت کی بہتری تو خالص ان کے لیے ہے جو شرک و کفر سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ تنبیہ ہے کفار مکہ کو کہ اگلوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں۔ (تنبیہ) اس آیت سے نکلتا ہے کہ کوئی عورت نبی نہیں بنائی گئی۔ حضرت مریم کو بھی قرآن نے صدیقہ کا مرتبہ دیا ہے۔ نیز آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بوادی (جنگلی گنواروں) میں سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
یہاں تک کہ جب (ظاہری اسباب سے ) رسول مایوس ہونے لگے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، ان کے پاس ہماری مدد آ گئی، پس جنہیں ہم نے چاہا وہ بچا دئیے گئے اور ہمارا عذاب نہیں پھیرا جاتا مجرموں کی قوم سے۔ (۱۱۰)
تشریح: یعنی تاخیر عذاب سے دھوکہ مت کھاؤ۔ پہلی قوموں کو بھی لمبی مہلتیں دی گئیں۔ اور عذاب آنے میں اتنی دیر ہوئی کہ منکرین بالکل بے فکر ہو کر بیش از بیش شرارتیں کرنے لگے۔ یہ حالات دیکھ کر پیغمبروں کو ان کے ایمان لانے کی کوئی امید نہ رہی، ادھر خدا کی طرف سے ان کو ڈھیل اس قدر دی گئی کہ مدت دراز تک عذاب کے کچھ آثار نظر نہ آتے تھے۔ غرض دونوں طرف کے حالات و آثار پیغمبروں کے لیے یاس انگیز تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار نے یقینی طور پر خیال کر لیا کہ انبیاء سے جو وعدے ان کی نصرت اور ہماری ہلاکت کے کیے گئے تھے سب جھوٹی باتیں ہیں۔ عذاب وغیرہ کا ڈھکوسلہ صرف ڈرانے کے واسطے تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ ایسی مایوس کن اور اضطراب انگیز حالت میں انبیاء کے قلوب میں بھی یہ خیالات آنے لگے ہوں کہ وعدہ عذاب کو جس رنگ میں ہم نے سمجھا تھا وہ صحیح نہ تھا۔ یا وساوس و خطرات کے درجہ میں بے اختیار یہ وہم گزرنے لگے ہوں کہ ہماری نصرت اور منکرین کی ہلاکت کے جو وعدے کیے گئے تھے کیا وہ پورے نہ کیے جائیں گے ؟ جیسے دوسری جگہ فرمایا ”وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ، مَتٰی نَصْرُ اللہِ۔ ” (بقرہ، رکوع٢٦’آیت ٢١٤) جب مجرمین کی بے خوفی اور انبیاء کی تشویش اس حد تک پہنچ گئی اس وقت ناگہاں آسمانی مدد آئی۔ پھر جس کو خدا نے چاہا (یعنی فرمانبردار مومنین کو) محفوظ و مصون رکھا۔ اور مجرموں کی جڑ کاٹ دی۔ (تنبیہ) اللہ تعالیٰ کی غیر محدود رحمت و مہربانی سے نا امیدی کفر ہے لیکن ظاہری حالات و اسباب کے اعتبار سے نا امیدی کفر نہیں۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ فلاں چیز کی طرف سے جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے مایوسی ہے لیکن حق تعالیٰ کی رحمت کاملہ سے مایوسی نہیں۔ آیت ”حَتّٰی اِذَا اِسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ” میں یہ ہی مایوسی مراد ہے جو ظاہری حالات و آثار کے اعتبار سے ہو ورنہ پیغمبر خدا کی رحمت سے کب مایوس ہو سکتے ہیں۔
(تنبیہ ) کفر کا وسوسہ کفر نہیں نہ کسی درجہ میں ایمان یا عصمت کے منافی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں (بے اختیار) پاتے ہیں جن کے زبان پر لانے سے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا کیا ایسا پاتے ہو؟ عرض کیا ہاں، فرمایا”ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ” یہ تو کھلا ہوا ایمان ہے۔
(تفسیرعثمانی)
البتہ ان کے قصوں میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ، یہ بنائی ہوئی بات نہیں، بلکہ تصدیق ہے اپنے سے پہلے کی، اور بیان ہے ہر بات کا اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ (۱۱۱)
تشریح: یعنی قرآنِ کریم جس میں یہ قصص بیان ہوئے کوئی جھوٹی بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ تمام پہلی سچائیوں کی تصدیق کرنے والا اور ہر ضروری چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔ چونکہ ایماندار اس سے نفع اٹھاتے ہیں اس لحاظ سے ان کے حق میں خاص طور پر ذریعہ ہدایت و رحمت ہے۔
(تفسیرعثمانی)
۱۳۔ سورۃالرعد
تعارف
یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات اور ان پر عائد کئے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے، پچھلی سورت سورۂ یوسف کے آخر (آیت نمبر:۱۰۵) میں اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں، اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے، جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیرالعقول نظام بنایا ہے، اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لئے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے، اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تواس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالی کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے اور اس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بے مقصد پیدا نہیں کر دیا، اس کا یقیناً کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کئے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو، اور اس دن نیکیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا دی جائے، اس سے خود بخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے، پھر نیکی اور برائی کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں، ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالی کے احکام معلوم کر کے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں، لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے، کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ۱۳ میں آیا ہے، عربی میں گرج کو رعد کہا جاتا ہے، اسی پر اس سورت کا نام رعد، رکھا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مدنیہ
آیات:۴۳ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الف لام میم را، یہ کتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں، اور جو تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا حق ہے، مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۱)
تشریح:یعنی جو کچھ اس سورت میں پڑھا جانے والا ہے وہ عظیم الشان کتاب کی آیتیں ہیں۔ یہ کتاب جو آپ پر پروردگار کی طرف سے اتاری گئی۔ یقیناً حق و صواب ہے لیکن جائے تعجب ہے کہ ایسی صاف اور واضح حقیقت کے ماننے سے بھی بہت لوگ انکار کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ جس نے آسمانوں کو بلند کیا کسی ستون (سہارے) کے بغیر تم دیکھتے ہو، پھر عرش پر قرار پکڑا، اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا، ہر ایک چلتا ہے مدت مقررہ تک، اللہ کام کی تدبیر کرتا ہے، وہ نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو۔ (۲)
تشریح: یعنی سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے۔ یا "لِاَجَلٍ مُّسَمًّی” کے معنی وقت مقرر تک کے لیے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ چاند سورج اسی طرح چلتے رہیں گے قیامت تک۔
جس نے ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کیا اسے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ نیز ایک باخبر، مدبر، بیدار مغز اور طاقتور گورنمنٹ باغیوں اور مجرموں کو ہمیشہ کے لیے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑے رکھتی۔ نہ وفادار امن پسند رعایا کی راحت رسانی سے اغماض کر سکتی ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ خداوندِ قدوس جو زمین و آسمان کے تخت کا تنہا مالک اور اپنی تدبیر و حکمت سے تمام مخلوقات علوی و سفلی کا انتظام باحسن اسلوب قائم رکھنے والا ہے مطیع و عاصی کو یوں ہی مہمل چھوڑے رکھے۔ ضرور ہے کہ ایک دن وفاداروں کو وفاداری کا صلہ ملے اور مجرم اپنی سزا کو پہنچیں۔ پھر جب اس زندگی میں مطیع و عاصی کے درمیان ہم ایسی صاف تفریق نہیں دیکھتے تو یقیناً ماننا پڑے گا کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے جس میں سب کو آسمانی عدالت کے سامنے حاضر ہو کر عمر بھر کے اعمال کا پھل چکھنا ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے اور نہریں (چلائیں) اور ہر قسم کے پھل (پیدا کئے) اور اس میں دو دو قسم کے (تلخ و شیریں) پھل بنائے، اور وہ دن کو رات سے ڈھانپتا ہے، بیشک اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے۔ (۳)
اور زمین میں پاس پاس قطعات ہیں، اور باغات ہیں انگوروں کے، اور کھیتیاں اور کھجور ایک جڑ سے دو شاخوں والی اور بغیر دو شاخوں کی (حالانکہ) ایک ہی پانی سے سیراب کی جاتی ہے اور ہم فوقیت دیتے ہیں ان میں سے ایک کو دوسرے پر ذائقہ میں، اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (۴)
تشریح: بلند آسمانوں کے مقابل پست زمین کا ذکر کیا۔ آسمان کے ساتھ چاند سورج کا بیان ہوا تھا کہ ہر ایک کی رفتار الگ ہے اور ہر ایک کا کام جداگانہ ہے۔ ایک کی گرم و تیز شعاعیں جو کام کرتی ہیں دوسرے کی ٹھنڈی اور دھیمی چاندنی سے وہ بن نہیں پڑتا۔ اسی طرح یہاں زمین کے مختلف احوال اور اس سے تعلق رکھنے والی مختلف چیزوں کا ذکر فرمایا۔ کہیں پہاڑ کھڑے ہیں کہیں دریا رواں ہیں، جو میوے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ان میں بھی شکل، صورت، رنگ، مزہ، چھوٹے بڑے، بلکہ نر و مادہ کا اختلاف ہے۔ کبھی زمین دن کے اجالے سے روشن ہو جاتی ہے کبھی رات کی سیاہ نقاب منہ پر ڈال لیتی ہے پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ چند قطعات زمین جو ایک دوسرے سے متصل ہیں، ایک پانی سے سیراب ہوتے ہیں، ایک سورج کی شعاعیں سب کو پہنچتی ہیں ایک ہی ہوا سب پر چلتی ہے اس کے باوجود اس قدر مختلف پھول پھل لاتے ہیں اور باہم پیداوار کی کمی زیادتی کا اتنا فرق ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے ان نشانوں کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ایک ہی ابر رحمت کی آبیاری یا ایک ہی آفتاب ہدایت کی موجودگی میں انسانوں کے مادی و روحانی احوال کا اختلاف بھی کچھ مستبعد و مستنکر نہیں ہے۔ اور یہ کہ لا محدود قدرت کا کوئی زبردست ہاتھ آسمان سے زمین تک تمام مخلوق کے نظام ترکیبی کو اپنے قبضہ میں لیے ہوئے ہے۔ جس نے ہر چیز کی استعداد کے موافق اس کے دائرہ عمل و اثر کی بہت مضبوط حد بندی کر رکھی ہے۔ پھر ایسے لا متناہی قدرت و اختیار رکھنے والے خدا کو کیا مشکل ہے کہ ہم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے اور اس عالم کے مخلوط عناصر کی کیمیاوی تحلیل کر کے ہر خیرو شر کو اس کے مستقر میں پہنچا دے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تم تعجب کرو تو ان کا کہنا عجب ہے، کیا جب مٹی ہو گئے ہم (از سرنو) نئی زندگی پائیں گے؟وہی لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہوئے اور وہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور وہی دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۵)
تشریح: گویا یہ لوگ "بعث بعد الموت” کا انکار کر کے خداوند قدوس کی شہنشاہی سے منکر ہیں۔ تو ایسے باغیوں کا انجام یہی ہونا ہے کہ گلے میں طوق اور ہاتھ پاؤں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر ابدی جیل خانہ میں ڈال دیے جائیں، جو حقیقت میں ایسے مجرموں کے لیے بنایا گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ تم سے رحمت سے پہلے جلد عذاب مانگتے ہیں، حالانکہ گزر چکی ہیں ان سے قبل (عبرتناک) سزائیں، اور بیشک تمہارا رب ان کے ظلم کے باوجود لوگوں کے لئے مغفرت والا ہے، اور بیشک تمہارا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔ (۶)
تشریح: یعنی پہلے بہتیری قوموں پر عذاب آ چکے ہیں۔ تم پر لے آنا کیا مشکل تھا، بات صرف اتنی ہے کہ تیرا پروردگار اپنی شانِ حلم و عفو سے ہر چھوٹے بڑے جرم پر فوراً گرفت نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کے ظلم و ستم دیکھتا اور درگزر کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ جب مظالم اور شرارتوں کا سلسلہ حد سے گزر جاتا ہے اس وقت اس کے تباہ کن عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔
(تفسیرعثمانی)
اور کافر کہتے ہیں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانی کیوں نہ اتری، اس کے سوا نہیں کہ تم ڈرانے والے ہو، اور ہر قوم کے لئے ہادی ہوا ہے۔ (۷)
تشریح: یعنی آیات کا اتارنا آپ کے قبضہ میں نہیں، یہ تو خدا کا کام ہے، جو آیت پیغمبر کی تصدیق کے لیے مناسب ہو دکھلائے۔ آپ کا فرض اسی قدر ہے کہ خیر خواہی کی بات سنا دیں اور برائی کے مہلک انجام سے لوگوں کو آگاہ کر دیں۔ پہلے بھی ہر قوم کی طرف ہادی "راہ بتانے والا” اور نذیر ڈرانے والے آتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ جو نشان معاندین طلب کریں گے ضرور دکھلا کر رہیں گے، ہاں خدا کی راہ دکھانا ان کا کام تھا و ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ البتہ وہ خاص خاص قوم کے لیے ہادی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی ہر قوم کے لیے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ پیٹ میں رکھتی ہے، اور جو رحم میں سکڑتا اور بڑھتا ہے، اور اس کے نزدیک ہر چیز ایک اندازہ سے ہے۔ (۸)
تشریح: یعنی حاملہ کے پیٹ میں ایک بچہ ہے یا زیادہ، پورا بن چکا ہے یا ناتمام ہے تھوڑی مدت میں پیدا ہو گا یا زیادہ میں۔ غرض پیٹ کے گھٹنے بڑھنے کے تمام اسرار و اسباب اور اوقات و احوال کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور اپنے علم محیط کے موافق ہر چیز کو ہر حالت میں اس کے اندازہ اور استعداد کے موافق رکھتا ہے۔ اسی طرح اس نے جو آیات انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کے لیے اتاری ہیں ان میں خاص اندازہ اور مصالح و حکم ملحوظ رہی ہیں۔ جس وقت جس قدر بنی آدم کی استعداد و صلاحیت کے مطابق نشانات کا ظاہر کرنا مصلحت تھا اس میں کمی نہیں ہوئی۔ باقی قبول کرنے اور منتفع ہونے کے لحاظ سے لوگوں کا اختلاف ایسا ہی ہے جیسے حوامل کے پیٹ سے پیدا ہونے والوں کے احوال تفاوتِ استعداد و تربیت کی بناء پر مختلف ہوتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جاننے والا ہے ہر غیب اور ظاہر کا، سب سے بڑا، بلند مرتبہ۔ (۹)
تشریح: یہ علم الٰہی کی لا محدود وسعت و احاطہ کا بیان ہوا۔ یعنی دنیا کی کوئی کھلی چھپی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اور تمام عالم اس کے زیر تصرف ہے۔
(تفسیرعثمانی)
(اس کیلئے) برابر ہے تم میں سے جو آہستہ بات کہے اور جو اس کو پکار کر کہے اور جو رات میں چھپ رہا ہے اور جو دن میں چلنے (پھرنے) والا ہے۔ (۱۰)
تشریح: علم الٰہی کا عموم بیان کر کے بلحاظ مناسبت مقام خاص احوال مکلفین کی نسبت بتلاتے ہیں کہ تمہارے ہر قول و فعل کو ہمارا علم محیط ہے۔ جو بات تم دل میں چھپاؤ یا آہستہ کہو اور جو اعلانیہ پکار کر کہو، نیز جو کام رات کی اندھیری میں پوشیدہ ہو کر کرو اور جو دن دہاڑے برسر بازار کرو، دونوں کی حیثیت علمِ الٰہی کے اعتبار سے یکساں ہے۔ بعض مفسرین نے آیت کو تین قسم کے آدمیوں پر مشتمل بتلایا ہے۔ "مَنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ” (جو بات کو چھپائے) "مَنْ جَہَرَبِہٖ” (جو ظاہر کرے) "مَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍم بِّاللَّیْلِ وَسَارِبٌّ بِّالنَّہَارِ” (جو اپنا کام رات کو چھپائے مثلاً شب کو چوری کرنا اور دن کو ظاہر کرے مثلاً دن میں نمازیں پڑھنا) اللہ تعالیٰ کو سب یکساں طور پر معلوم ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے پہرے دار ہیں انسان کے آگے اور اس کے پیچھے، وہ اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں، بیشک اللہ کسی قوم کی اچھی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اپنی حالت بدل لیں، اور جب اللہ کسی قوم سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تواس کے لئے پھرنا نہیں (وہ ٹل نہیں سکتی) اور ان کے لئےاس کے سوا کوئی مددگار نہیں۔ (۱۱)
تشریح:اللہ جل شانہ کی طرف سے انسانوں کی حفاظت کے لئے فرشتوں کا پہرہ لگا رہتا ہے، لیکن جب کوئی قوم اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر اور اس کی اطاعت چھوڑ کر بد عملی، بد کرداری اور سرکشی ہی اختیار کر لے تو اللہ تعالی بھی اپنا حفاظتی پہرہ اٹھا لیتے ہیں، پھر خدا تعالی کا قہر و عذاب ان پر آتا ہے جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی، اس تشریح سے معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ میں تغیر احوال سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اطاعت اور شکر گزاری چھوڑ کر اپنے حالات میں بری تبدیلی پیدا کرے تو اللہ تعالی بھی اپنا طرز رحمت و حفاظت کا بدل دیتے ہیں۔
(معارف القرآن)
وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے ڈرانے کو اور امید دلانے کو، اور اٹھاتا ہے بوجھل بادل۔ (۱۲)
تشریح: پہلے بندوں کی حفاظت کا ذکر تھا، پھر بد اعمالیوں سے جو آفت و مصیبت آتی ہے اس کا ذکر ہوا، معلوم ہوا کہ خدا کی ذات شان انعام و انتقام دونوں کی جامع ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں بعض ایسے نشانہائے قدرت کی طرف توجہ دلائی جن میں بیک وقت امید و خوف کی دو متضاد کیفیتیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہے یعنی جب بجلی چمکتی ہے تو امید بندھتی ہے کہ بارش آئے گی۔ اور ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں گر کر ہلاکت کا سبب نہ بن جائے۔ بھاری بادل پانی کے بھرے ہوئے آتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ باران رحمت کا نزول ہو گا، ساتھ ہی فکر رہتی ہے کہ پانی کا طوفان نہ آ جائے، ٹھیک اسی طرح انسان کو چاہیے کہ رحمت الٰہی کا امیدوار رہے مگر اللہ سے مامون اور بے فکر نہ ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور گرج اس کے تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کے ڈر سے (اس کی تسبیح کرتے ہیں) اور وہ گرجنے والی بجلیاں بھیجتا ہے، پھر انہیں جس پر چاہتا ہے گراتا ہے اور وہ (کافر) اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور وہ سخت پکڑنے والا ہے۔ (۱۳)
تشریح:بادلوں کی گرج کا حمد اور تسبیح کرنا حقیقی معنی میں بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کائنات کی ہر چیز کے بارے میں قرآن کریم نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے اپنے انداز میں اللہ تعالی کی حمد اور تسبیح کرتی ہے مگر لو گ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہیں (۱۵۔ ۴۴) اور اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص بھی بادلوں کی گرج، چمک اس کے اسباب اور اس کے نتائج پر غور کرے گا، وہ دنیا کے کونے کونے تک پانی پہنچانے کے اس حیرت انگیز نظام کو دیکھ کر اس خالق و مالک کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتاجس نے یہ نظام بنایا ہے، نیز وہ اس نتیجے تک ضرور پہنچے گا جس ذات نے یہ محیر ا لعقول نظام بنایا ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے اور اس کو اپنی خدائی میں کسی شریک یا مددگار کی ضرورت نہیں، اور تسبیح کی یہی معنی ہیں۔
(توضیح القرآن)
اس کو پکارنا حق ہے، اور وہ اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ انہیں کچھ بھی جواب نہیں دیتے، مگر جیسے (کوئی) اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (پانی) اس کے منہ تک پہنچ جائے اور وہ اس تک پہنچنے والا نہیں، اور کافروں کی پکار گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ (۱۴)
تشریح: یعنی پکارنا اسی کو چاہیے جو ہر قسم کے نفع و ضرر کا مالک ہے عاجز کو پکارنے سے کیا حاصل؟ اللہ کے سوا کون ہے جس کے قبضہ میں اپنا یا دوسروں کا نفع و ضرر ہے؟ غیر اللہ کو اپنی مدد کے لیے بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنوئیں کی من پر کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ میرے منہ میں پہنچ جا۔ ظاہر ہے قیامت تک پانی اس کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ بلکہ اگر پانی اس کی مٹھی میں ہو تب بھی خود چل کر منہ تک نہیں جا سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ کافر جن کو پکارتے ہیں بعضے محض خیالات و اوہام ہیں، بعضے جن اور شیاطین ہیں، اور بعضی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں۔ لیکن اپنے خواص کی مالک نہیں۔ پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے اور صبح و شام ان کے سائے (بھی) ۔ (۱۵)
تشریح:سجدہ کرنے سے یہاں مراد اللہ تعالی کے احکام کے آگے جھک جانا ہے، مؤمن خوشی خوشی ان احکام کے آگے جھکتا ہے، اور اللہ تعالی کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے، اور کافر اللہ تعالی کے تکوینی فیصلوں کے آگے مجبور ہے، اس لئے وہ چاہے یا نہ چاہے، اللہ تعالی کائنات میں جو فیصلے فرماتا ہے مجبوراً ان کے آگے سرجھکانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں، واضح رہے کہ یہ سجدے کی آیت ہے، اس کی تلاوت یاسننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے۔
(توضیح القرآن)
آپ پوچھیں آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے، کہہ دیں اللہ ہے، کہہ دیں تو کیا تم اس کے سوا بناتے ہو حمایتی، جو اپنی جانو ں کے لئے (بھی) بس نہیں رکھتے، کچھ نفع کا اور نہ نقصان کا، کہہ دیں کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا؟یا کیا اجالا اور اندھیرے برابر ہو جائیں گے؟کیا وہ اللہ کے لئے جو شریک بناتے ہیں انہوں نے (مخلوق) پیدا کی ہے، اس کے پیدا کرنے کی طرح؟سوپیدائش ان پر مشتبہ ہو گئی، کہہ دیں اللہ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہ یکتا غالب ہے۔ (۱۶)
تشریح:مشرکینِ عرب جن دیوتاؤں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، عام طور سے وہ یہ مانتے تھے کہ انہوں نے کائنات کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں لیا، بلکہ ساری کائنات اللہ تعالی ہی نے پیدا کی ہے، لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالی نے خدائی کے بہت سے اختیارات ان کو دے رکھے ہیں، اس لئے ان کی عبادت کرنی چاہئے، تاکہ وہ اپنے اختیارات ہمارے حق میں استعمال کریں، اور اللہ تعالی سے ہماری سفارش بھی کریں، اس آیت میں اول تو یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ من گھڑت دیوتا کو ئی نفع یا نقصان اپنے آپ کو بھی نہیں پہنچا سکتے، دوسروں کو تو کیا پہنچائیں گے، پھر فرمایا گیا ہے کہ اگر ان دیوتاؤں نے بھی اللہ تعالی کی طرح کچھ پیدا کیا ہوتا تب بھی ان کو خدا کا شریک ماننے کی کوئی وجہ ہو سکتی تھی، لیکن نہ واقعۃً انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے اور نہ اکثر اہل عرب کا ایسا عقیدہ ہے، پھر ان کو اللہ تعالی کا شریک قرار دے کر ان کی عبادت کرنے کا آخر کیا جواز ہے؟
(توضیح القرآن)
اس نے آسمانوں سے پانی اتارا، سو ندی نالے اپنے اپنے اندازے سے بہہ نکلے، پھر اٹھا لایا (اوپر لے آیا) نالہ پھولا ہوا جھاگ، اور جو آگ میں تپاتے ہیں، زیور بنانے کو یا اور اسباب بنانے کو (اس میں بھی) اس جیسا جھاگ (میل) ہوتا ہے، اسی طرح اللہ حق اور باطل کو بیان کرتا ہے، سو جھاگ دور ہو جاتا ہے (ضائع ہو جاتا ہے) سوکھ کر، لیکن جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے (باقی رہتا ہے) اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔ (۱۷)
تشریح: آسمان کی طرف سے بارش اتری جس سے ندی نالے بہہ پڑے۔ ہر نالے میں اس کے ظرف اور گنجائش کے موافق جتنا خدا نے چاہا پانی جاری کر دیا چھوٹے میں کم بڑے میں زیادہ۔ پانی جب زمین پر رواں ہوا تو مٹی اور کوڑا کرکٹ ملنے سے گدلا ہو گیا۔ پھر میل کچیل اور جھاگ پھول کر اوپر آیا۔ جیسے تیز آگ میں چاندی تانبا، لوہا، اور دوسری معدنیات پگھلاتے ہیں تاکہ زیور، برتن اور ہتھیار وغیرہ تیار کریں اس میں بھی اسی طرح جھاگ اٹھتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد خشک یا منتشر ہو کر جھاگ جاتا رہتا ہے اور جو اصلی کارآمد چیز تھی (یعنی پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات) وہ ہی زمین میں یا زمین والوں کے ہاتھ میں باقی رہ جاتی ہے۔ جس سے مختلف طور پر لوگ منتفع ہوتے ہیں۔ یہی مثال حق و باطل کی سمجھ لو۔ جب وحی آسمانی دین حق کو لے کر اترتی ہے تو قلوب بنی آدم اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں۔ پھر حق اور باطل باہم بھڑ جاتے ہیں تو میل ابھر آتا ہے۔ بظاہر باطل جھاگ کی طرح حق کو دبا لیتا ہے، لیکن اس کا یہ ابال عارضی اور بے بنیاد ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا۔ خدا جانے کدھر گیا۔ جو اصلی اور کارآمد چیز جھاگ کے نیچے دبی ہوئی تھی (یعنی حق و صداقت) بس و ہی رہ گئی دیکھو! خدا کی بیان کردہ مثالیں کیسی عجیب ہوتی ہیں۔ کیسے موثر طرز میں سمجھایا کہ دنیا میں جب حق و باطل بھڑتے ہیں یعنی دونوں کا جنگی مقابلہ ہوتا ہے تو گو برائے چندے باطل اونچا اور پھولا ہوا نظر آئے، لیکن آخرکار باطل کو منتشر کر کے حق ہی ظاہر و غالب ہو کر رہے گا۔ کسی مومن کو باطل کی عارضی نمائش سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ اسی طرح کسی انسان کے دل میں جب حق اتر جائے کچھ دیر کے لیے اوہام و وساوس زور شور دکھلائیں تو گھبرانے کی بات نہیں تھوڑی دیر میں یہ ابال بیٹھ جائے گا اور خالص حق ثابت و مستقر رہے گا۔ گزشتہ آیات میں چونکہ توحید و شرک کا مقابلہ کیا گیا تھا اس مثال میں حق و باطل کے مقابلہ کی کیفیت بتلا دی آگے دونوں کا انجام بالکل کھول کر بیان کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مان لیا ان کے لئے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا اگر جو کچھ زمین میں ہے سب ان کا ہو اور اس کے ساتھ اس جیسا (اور بھی ہو) کہ وہ اس کو فدیہ میں دے دیں (پھر بھی بچاؤ نہ ہو گا) انہی لوگوں کے لئے حساب برا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور (وہ ) بری جگہ ہے۔ (۱۸)
تشریح: لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہمُ الْحُسْنٰى: یعنی ایمان و عمل صالح اختیار کیا ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، حقیقی خوشی اور قلبی طمانیت و سکون ان کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔
وَالَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَہ : یعنی یہاں تو خیر جس طرح گزرے، لیکن آخرت میں ان کی حالت ایسی پریشانی اور گھبراہٹ کی ہو گی کہ اگر تمام دنیا کے خزانے ان کے ہاتھ میں ہوں بلکہ اسی قدر اور بھی تو تمنا کریں گے کہ ہم یہ سب فدیہ میں دے کر اس پریشانی سے چھوٹ جائیں۔ وَاَنَّی لَہُمْ ذٰلِکَ۔
(تفسیرعثمانی)
کیا جو شخص جانتا ہے کہ جو اتارا گیا تم پر تمہارے رب کی طرف سے، وہ حق ہے اس جیسا (ہو سکتا ہے) جو اندھا ہو، اس کے سوا نہیں کہ عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔ (۱۹)
تشریح:مومن و کافر دونوں کا الگ الگ انجام ذکر فرمانے کے بعد متنبہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا عین عقل و حکمت کے موافق ہے۔ کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک نپٹ اندھا جسے کچھ نظر نہ آئے یوں ہی اناپ شناپ اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھا رہا ہو، اس شخص کی برابری کر سکتا ہے جس کے دل کی آنکھیں کھلی ہیں اور پوری بصیرت کے ساتھ حق کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے۔
(تفسیر عثمانی)
وہ جو کہ اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور پختہ قول و اقرار نہیں توڑتے۔ (۲۰)
تشریح: یعنی اللہ سے جو عہد ازل میں ہو چکا ہے (عہد الست) جس پر انسان کی فطرت خود گواہ ہے اور جو انبیاء کی زبانی عہد لیے گئے ان سب کو پورا کرتے ہیں۔ کسی کو توڑتے نہیں۔ نیز بذات خود کسی معاملہ میں خدا سے یا بندوں سے جو عہد و پیمان باندھتے ہیں (بشرطیکہ معصیت نہ ہو) اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ لوگ جو جوڑے رکھتے ہیں جس کے لئے اللہ نے حکم دیا جوڑا جائے اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور برے حساب کا خوف کھاتے ہیں۔ (۲۱)
تشریح: یعنی صلہ رحم کرتے ہیں۔ یا ایمان کو عمل کے ساتھ یا حقوق العباد کو حقوق اللہ کے ساتھ ملاتے ہیں، یا اسلامی اخوت کو قائم رکھتے ہیں۔ یا انبیاء علیہم السلام میں تفریق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں۔
حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کا تصور کر کے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ دیکھئے وہاں جب ذرہ ذرہ کا حساب ہو گا، کیا صورت پیش آئے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے اپنے رب کی خوشی حاصل کرنے کے لئے صبر کیا اور انہوں نے نماز قائم کی اور جو ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کیا پوشیدہ اور ظاہر اور وہ نیکی سے برائی کو ٹال دیتے ہیں، وہی ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے۔ (۲۲)
تشریح: یعنی مصائب و شدائد اور دنیا کی مکروہات پر صبر کیا۔ کسی سختی سے گھبرا کر طاعت کے راستہ سے قدم نہیں ہٹایا نہ معصیت کی طرف جھکے اور صبر و استقلال محض حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دکھلایا، اس لیے نہیں کہ دنیا انہیں بہت صابر اور مستقل مزاج کہے۔ نہ اس لیے کہ بجز صبر کے چارہ نہ رہا تھا مجبور ہو گئے تو صبر کر کے بیٹھ رہے۔
پوشیدہ کو شاید اس لیے مقدم رکھا کہ پوشیدہ خیرات کرنا افضل ہے۔ اِلاّ یہ کہ کہیں مصلحت شرعی اعلانیہ دینے میں ہو۔
برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں۔ سختی کے مقابلہ میں نرمی برتتے ہیں۔ کوئی ظلم کرتا ہے یہ معاف کرتے ہیں (بشرطیکہ معافی سے برائی کے ترقی کرنے کا اندیشہ نہ ہو) ، بدی سے بچ کر نیکی اختیار کرتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی برا کام ہو جاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں بھلا کام (یعنی توبہ اور اس گناہ کی تلافی) کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ہمیشگی کے باغات (ہیں) ان میں وہ داخل ہوں گے، اور وہ جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے نیک ہوئے اور ان پر ہر دروازے میں سے فرشتے داخل ہوں گے۔ (۲۳)
تشریح: "آباء” کا لفظ تغلیباً کہا ہے جس میں امہات (مائیں) بھی شامل ہیں۔ یہ جنت کی بشارت کے ساتھ مزید خوشخبری سنائی کہ ایسے کاملین کو جن کی خصال اوپر بیان ہوئیں جنت میں ایک نعمت و مسرت یہ حاصل ہو گی کہ وہ اور ان کے ماں باپ، اولاد، بیویاں، جو اپنی نیکی کی بدولت دخول جنت کے لائق ہوں سب اکٹھے رہیں گے۔ حتیٰ کہ ان متعلقین میں سے اگر کوئی کم رتبہ ہو گا تو حق تعالیٰ اپنی نوازش و مہربانی سے درجہ بڑھا کر اس مرد کامل سے نزدیک کر دے گا۔ "وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتَہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتُہُمْ۔ ” (طور، رکوع ١، آیت ٢١) اس سے معلوم ہوا کہ بدون ایمان و عمل صالح کے محض کاملین کی قرابت کافی نہیں ہاں ایمان و عمل صالح موجود ہو تو تعلق قرابت سے کچھ ترقی درجات ممکن ہے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
(یہ کہتے ہوئے کہ) تم پر سلامتی ہو اس لئے کہ تم نے صبر کیا، پس خوب ہے آخرت کا گھر۔ (۲۴)
تشریح:صحیح حدیث میں جنت کے آٹھ دروازے بیان ہوئے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کاملین کی تعظیم و تکریم کے لیے خدا کے پاک فرشتے ہر طرف سے تحائف و ہدایا لے کر حاضر ہوں گے۔ احادیث میں ہے کہ خلق اللہ میں سے اول وہ فقراء مہاجرین جنت میں داخل ہوں گے جو سختیوں اور لڑائیوں میں سینہ سپر ہوتے اور رخنہ بندی کے وقت کام آتے تھے۔ جو حکم ان کو ملتا ان کی تعمیل کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے۔ دنیا کی حاجتیں اور دل کے ارمان دل ہی میں لے کر یہاں سے رخصت ہو گئے۔ قیامت کے دن حق تعالیٰ فرمائے گا میرے وہ بندے کہاں ہیں (حاضر ہوں) جو میرے راستہ میں لڑے، میرے لیے تکلیفیں اٹھائیں اور جہاد کیا۔ جاؤ جنت میں بے کھٹکے داخل ہو جاؤ۔ پھر ملائکہ کو حکم ہو گا کہ میرے ان بندوں کے پاس حاضر ہو کر سلام کرو۔ وہ عرض کریں گے خداوندا! ہم تیری بہترین مخلوق ہیں کیا ہم بارگاہ قرب کے رہنے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان زمینی باشندوں کے پاس حاضر ہو کر سلام کریں۔ ارشاد ہو گا، ہاں یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے توحید پر جان دی، دنیا کے سب ارمان اپنے سینوں میں لے کر چلے آئے، میرے راستہ میں جہاد کیا اور ہر تکلیف کو خوشی سے برداشت کرتے رہے۔ یہ سن کر فرشتے ہر طرف سے ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور کہیں گے "سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ” حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال آغاز میں قبور شہداء پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ یہ ہی طرز عمل ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کا رہا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ اللہ کا عہد اس کو پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور وہ کاٹتے ہیں جس کے لئے اللہ نے حکم دیا کہ اسے جوڑا جائے، اور وہ زمین (ملک) میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ (۲۵)
تشریح: سعداء کے مقابل یہاں اشقیاء کی عادت و خصال اور آخری انجام بتلایا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ حق تعالیٰ سے بد عہدی کریں، جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم تھا، انہیں توڑیں، ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں دوسروں پر اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے نہ رکیں۔ یہ ہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمت سے دور پھینک دیے گئے اور سب سے زیادہ برے مقام پر پہنچنے والے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے، اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے، اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں، اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں متاع حقیر ہے۔ (۲۶)
تشریح: یعنی دنیا کے عیش و فراخی کو دیکھ کر سعادت و شقاوت کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ نہ یہ ضروری ہے کہ جس کو دنیا میں خدا نے رزق اور پیسہ زیادہ دیا ہے وہ اس کی بارگاہ میں مقبول ہو۔ بہت سے مقبول بندے بطور آزمائش و امتحان یہاں عسرت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور مردود مجرموں کو ڈھیل دی جاتی ہے وہ مزے اڑاتے ہیں۔ یہ ہی دلیل اس کی ہے کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے جہاں ہر شخص کو اس کے نیک و بد اعمال کا پورا پھل مل کر رہے گا۔ بہرحال دنیا کی تنگی و فراخی مقبول و مردود ہونے کا معیار نہیں بن سکتا۔
اسی کو مقصود سمجھ کر اتراتے اور اکڑتے ہیں۔ حالانکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی محض ہیچ ہے جیسے ایک شخص اپنی انگلی سے سمندر کو چھوئے تو وہ تری جو انگلی کو پہنچی ہے سمندر کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہے۔ دنیا کی آخرت کے مقابل اتنی بھی حقیقت نہیں۔ لہٰذا عقل مند کو چاہیے کہ فانی پر باقی کو مقدم رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے بذات خود مقصود نہیں۔ یہاں کے سامانوں سے اس طرح تمتع کرو جو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور کافر کہتے ہیں اس پر اس کے رب (کی طرف ) سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟آپ کہہ دیں بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اپنی طرف اس کو راہ دکھاتا ہے جو (اس کی طرف) رجوع کرے۔ (۲۷)
تشریح:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے معجزات دئے گئے تھے، لیکن کفار مکہ اپنی طرف سے نت نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے تھے، اور جب ان کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہوتا تووہ یہ بات کہتے تھے جو اس آیت میں مذکور ہے اور پیچھے آیت نمبر:۷ میں بھی گزری ہے، اس کا جواب آگے آیت نمبر ۳۱ میں آ رہا ہے، یہاں اس کا جواب دینے کے بجائے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ مطالبات ان کی گمراہی کی دلیل ہیں، اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے، گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے اور ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ تعالی سے رجوع کر کے ہدایت مانگے، اور حق کی طلب رکھتا ہو، ایسا شخص ایمان لانے کے بعد اس کے حقوق ادا کرتا ہے اور اللہ تعالی کی یاد میں سکون حاصل کر لیتا ہے، پھر اس کو اس قسم کے شکوک پیدا نہیں ہوتے، وہ ہر حال کو اللہ تعالی کی مشیت پر چھوڑ کر اس پر مطمئن رہتا ہے اگر اچھی حالت ہو تو اس پر شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی تکلیف ہو تو اس پر صبر کر کے اللہ تعالی سے اس کے دور ہونے کی دعا کرتا ہے اور اس بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ جب تک تکلیف ہے اللہ تعالی کی حکمت اور مصلحت کے تحت ہے، اس لئے مجھے اس سے شکوہ نہیں ہے، اس طرح اسے تکلیف کے حالات میں بھی اطمینان قلب نصیب رہتا ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیماری دور کرنے کے لئے آپریشن کروائے تو آپریشن کی تکلیف کے باوجود اسے اطمینان رہتا ہے کہ یہ عمل عین حکمت کے مطابق ہے۔
(توضیح القرآن)
جو لوگ ایمان لائے اور اطمینان پاتے ہیں جن کے دل اللہ کی یاد سے، یاد رکھو اللہ کی یاد (ہی) سے دل اطمینان پاتے ہیں۔ (۲۸)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل کئے نیک، ان کے لئے خوشحالی ہے اور اچھا ٹھکانا۔ (۲۹)
تشریح: یہ خدا کی طرف رجوع کرنے والوں کا بیان ہوا۔ یعنی ان کو دولت ایمان نصیب ہوتی ہے اور ذکر اللہ (خدا کی یاد) سے چین اور اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ سب سے بڑا ذکر تو قرآن ہے۔ "اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ۔ ” جسے پڑھ کر ان کے دلوں میں یقین کی کیفیت پیدا ہوتی ہے شبہات اور وساوس شیطانیہ دور ہو کر سکون و اطمینان میسر آتا ہے۔ ایک طرف اگر حق تعالیٰ کی عظمت و مہابت دلوں میں خوف و خشیت پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف لا محدود رحمت و مغفرت کا ذکر قلبی سکون و راحت کے سامان بہم پہنچاتا ہے۔ غرض ان کا دل ہر طرف سے لوٹ کر ایک خدا کی طرف جم جاتا ہے اور ذکر اللہ کا نور ان کے قلوب سے ہر طرح کی دنیاوی وحشت اور گھبراہٹ کو دور کر دیتا ہے۔
دولت، حکومت، منصب، جاگیر یا فرمائشی نشانات کا دیکھ لینا، کوئی چیز انسان کو حقیقی سکون و اطمینان سے ہم آغوش نہیں کر سکتی۔ صرف یادِ الٰہی سے جو تعلق مع اللہ حاصل ہوتا ہے و ہی ہے جو دلوں کے اضطراب و وحشت کو دور کر سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا ہے گزر چکی ہیں اس سے پہلے امتیں تاکہ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تم ان کو پڑھ کر (سناؤ) اور وہ (خدائے) رحمٰن کے منکر ہوتے ہیں، آپ کہہ دیں وہ میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا اور اس کی طرف میرا رجوع ہے (رجوع کرتا ہوں) ۔ (۳۰)
تشریح: یعنی جس طرح ہم اپنی طرف رجوع ہونے والوں کو کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ اسی طرح اس امت کی راہنمائی کے لیے ہم نے آپ کو مبعوث کیا۔ تاکہ جو کتاب اپنی رحمت کاملہ سے آپ پر اتاری ہے آپ ان کو پڑھ کر سنا دیں۔ آپ کا پیغمبر بنا کر بھیجا جانا کوئی انوکھی بات نہیں پہلی امتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے جا چکے ہیں جو اس وقت تکذیب کرنے والوں کا حشر ہوا ان لوگوں کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔
رحمان نے اپنی رحمت کاملہ سے قرآن اتارا "اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرآنَ” اور آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔ مگر انہوں نے سخت ناشکری اور کفران نعمت پر کمر باندھ لی۔ رحمان کا حق ماننے سے منکر ہو گئے بلکہ اس نام سے ہی وحشت کھانے لگے۔ اسی لیے "حدیبیہ” کے صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر جھگڑا کیا "وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلَّرحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ۔ ”
(فرقان، رکوع٥، آیت ٦٠)
جس رحمان سے تم انکار کرتے ہو و ہی میرا رب ہے اور و ہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ "قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوْا الرَّحْمٰنَ اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی۔ ” (بنی اسرائیل، رکوع١٢، آیت ١١٠) میرا آغاز و انجام سب اسی کے ہاتھ میں ہے اسی پر توکل کرتا ہوں۔ نہ تمہارے انکار و تکذیب سے مجھے ضرر کا اندیشہ ہے نہ اس کی امداد و اعانت سے مایوس ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر ایسا قرآن ہوتا کہ اس سے پہاڑ چل پڑتے، یا اس سے زمین پھٹ جاتی، یا اس سے مردے بات کرنے لگتے (پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے) بلکہ اللہ ہی کے لئے تمام کاموں (کا اختیار) تو کیا مؤمنوں کو (اس سے) اطمینان نہیں ہوا کہ اگر اللہ چاہتا توسب لوگوں کو ہدایت دیتا، اور کافروں کو ان کے اعمال کے بدلے ہمیشہ سخت مصیبت پہنچتی رہے گی، یا اترے گی ان کے گھر کے نزدیک، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ جائے، اور بیشک اللہ وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (۳۱)
تشریح:اس آیت میں ان معجزات کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کی فرمائش مکہ مکرمہ کے کافر لوگ کیا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ مکہ مکرمہ کے ارد گرد جو پہاڑ ہیں ان کو یہاں سے ہٹا دو، اور یہاں کی زمین کو شق کر کے یہاں سے دریا نکال دو، اور ہمارے باپ داداؤں کو زندہ کر کے ان سے ہماری بات کروا دو، اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر بالفرض یہ بے ہودہ مطالبات پورے کر بھی دئے جاتے، تب بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے، کیونکہ یہ فرمائشیں حق طلبی کے جذبے سے نہیں، صرف ضد کی وجہ سے کی جا رہی ہیں، سورہ بنی اسرائیل (۱۵۔ ۹۰تا۹۳) میں اسی قسم کی کچھ اور فرمائشیں بھی مذکور ہیں جو کفار کیا کرتے تھے اور اسی سورت کی آیت نمبر:۵۹ میں فرمائشی معجزات نہ دکھانے کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جب کوئی قوم کو کسی خاص معجزے کی فرمائش پر وہ معجزہ دکھا دیا جاتا ہے اور وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتی تواس پر عذاب نازل ہوتا ہے، چنانچہ پچھلی امتوں عاد اور ثمود وغیرہ کے ساتھ یہی ہوا ہے، اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنے فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے، اور ابھی ان کو ہلاک کرنا منظور نہیں ہے، اس لئے بھی ایسے معجزات نہیں دکھائے جا رہے ہیں۔
کبھی کبھی مسلمانوں کو یہ خیال ہوتا تھا کہ جو معجزات یہ لوگ مانگ رہے ہیں، اگر وہ ان کو دکھا دئے جائیں تو شاید یہ لوگ مسلمان ہو جائیں، یہ آیت ان مسلمانوں کو ہدایت دے رہی ہے کہ انہیں اب اس بات سے اپنا ذہن فارغ کر لینا چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالی کی قدرت میں تو یہ بھی ہے کہ وہ ان سب کو اپنی قدرت سے زبردستی مسلمان کر دے، لیکن چونکہ دنیا کی اس امتحان گاہ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی عقل استعمال کر کے اپنے اختیار سے ایمان لائے اس لئے اللہ تعالی نے اس معاملے میں اپنی قدرت کو استعمال نہیں کیا، البتہ ایسے دلائل واضح کر دئے ہیں کہ اگر انسان ان پر انصاف سے غور کرے اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے تواس کو حقیقت تک پہنچنے میں دیر نہیں لگنی چاہئے، اس کے بعد کافروں کی ہر فرمائش پوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بعض مسلمانوں کو کبھی یہ خیال بھی ہوتا تھا کہ جب یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں تو ان پر ابھی کوئی عذاب کیوں نہیں آ جاتا، اس آیت میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ان لوگوں پر چھوٹی چھوٹی مصیبتیں تواس دنیا میں بھی پڑتی رہتی ہیں مثلاً کبھی قحط آ جاتا ہے کبھی کوئی اور بلا نازل ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات ان کی قریبی بستیوں پر ایسی مصیبتیں آ جاتی ہیں جن سے یہ لوگ خوف زدہ ہو جاتے ہیں، مگر ان کو اصل عذاب اس وقت ہو گا جب قیامت آنے کا وعدہ پورا ہو گا۔
(توضیح القرآن)
اور البتہ تم سے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا، تومیں نے کافروں کو ڈھیل دی، پھر میں نے ان کی پکڑ کی سو میرا بدلہ (عذاب) کیسا تھا؟ (۳۲)
تشریح: یعنی سزا ملنے میں دیر ہو تو مت سمجھو کہ چھوٹ گئے، گزشتہ مجرموں کو بھی پہلے ڈھیل دی گئی، پھر جب پکڑا تو دیکھ لو کیا حشر ہوا۔ آج تک ان کی تباہی کی داستانیں زبانوں پر ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس کیا جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے (وہ بتوں کی طرح ہو سکتا ہے) اور انہوں نے بنا لئے اللہ کے شریک، آپ کہہ دیں ان کے نام تولو یا تم (اللہ) کو بتلاتے ہو جو پوری زمین میں اس کے علم میں نہیں، یا محض ظاہری (اوپری) بات کرتے ہو، بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے فریب خوشنما بنا دئے گئے اور وہ راہ (ہدایت ) سے روک دئے گئے، اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (۳۳)
ان کے لئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے، اور البتہ آخرت کا عذاب نہایت تکلیف دہ ہے، اور ان کے لئے کوئی اللہ سے بچانے والا نہیں۔ (۳۴)
تشریح:نام تو انہوں نے بہت سے بتوں اور دیوتاؤں کے رکھ رکھے تھے، اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ اگر ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقت ہے تو اللہ تعالی سے زیادہ اسے کون جان سکتا ہے، اللہ تعالی کے علم میں تو ایسا کوئی بھی وجود ہے نہیں، اب اگر تم اس کو حقیقی وجود قرار دو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نہ صرف یہ کہ اللہ تعالی سے زیادہ علم رکھنے کے مدعی ہو گے، بلکہ تمہارا یہ کہنا لازم آئے گا کہ جس کا اللہ تعالی کو بھی علم نہیں ہے تم، (معاذاللہ) اللہ تعالی کو اس کا پتہ بتا رہے ہو، اس سے بڑی جہالت کیا ہو سکتی ہے؟اور اگر ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے تو یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں، بہر حال دونوں صورتوں میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ تمہارا شرک کا عقیدہ بے بنیاد ہے۔
جب کوئی شخص اس ضد پر اڑ جائے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں وہی اچھا کام ہے اور اس کے مقابلے میں بڑی سے بڑی دلیل کو بھی سننے ماننے کو تیار نہ ہو تو اللہ تعالی اس کو گمراہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں، اور پھر اسے کوئی راہ راست پر لانے والا میسر نہیں آسکتا۔
(توضیح القرآن)
اور اس جنت کی کیفیت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے (یہ ہے) اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس کے پھل دائم (ہمیشہ) ہیں اور اس کا سایہ (بھی) یہ ہے انجام پرہیز گاروں کا، اور کافروں کا انجام جہنم ہے۔ (۳۵)
تشریح: جس کی کوئی نوع کبھی ختم نہ ہو گی اور ہمیشہ و ہی ملے گا جسکی خواہش کریں گے۔ لَامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ
(واقعہ، رکوع١، آیت ٣٣)
سایہ بھی ہمیشہ آرام دہ رہے گا۔ نہ کبھی دھوپ کی تپش ہو گی نہ سردی کی تکلیف "لَایَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَلَا زَمْہَرِیْراً .
(دہر، رکوع١، آیت ١٣)
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں کو ہم نے دی ہے کتاب (اہل کتاب) وہ اس سے خوش ہوتے ہیں جو تمہاری طرف اتارا گیا اور بعض گروہ اس کی بعض (باتوں) کا انکار کرتے ہیں، آپ کہہ دیں اس کے سوا نہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں، میں اس کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے۔ (۳۶)
تشریح:اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف گروہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں سے کچھ وہ ہیں جو قرآن کریم کی آیات سن کر خوش ہوتے ہیں کہ یہ وہی اللہ تعالی کی کتاب ہے جس کی پیشین گوئی پچھلی کتابوں میں کی گئی تھی، ، چنانچہ اس گروہ کے بہت سے افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے، عیسائیوں میں سے بھی اور یہودیوں میں سے بھی، یہ حقیقت ذکر فرما کر ایک طرف تو کفار مکہ کو شرم دلائی گئی ہے کہ جن لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت موجود ہے، وہ تو ایمان لا رہے ہیں اور جن لوگوں کے پاس نہ کوئی کتاب ہے نہ کوئی اور آسمانی ہدایت، وہ ایمان لانے سے کترا رہے ہیں، اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ جہاں اسلام کے دشمن موجود ہیں، وہاں بہت سے لوگ اس پیغام ہدایت کو قبول بھی کر رہے ہیں، یہودیوں اور عیسائیوں میں دوسرا گروہ وہ کافروں کا ہے ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں بعض حصوں کا ذکر کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے وہ بھی قرآن کریم کی ساری باتوں کا انکار نہیں کر سکتے، کیونکہ اس کی بہت سی باتیں وہ ہیں جو تورات یا انجیل میں بھی موجود ہیں، مثلاً توحید پچھلے انبیاء کرام پر ایمان اور ان کے واقعات آخرت کا عقیدہ وغیرہ، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ سوچتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کے معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے، اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کو یہ باتیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں اس صورت میں آپ کی رسالت کو تسلیم کرنا چاہئے۔
(توضیح القرآن)
اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو عربی زبان میں نازل کیا ہے، اور اگر تو نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد جبکہ تیرے پاس آ گیا علم، نہ تیرے لئے اللہ سے (اللہ کے سامنے) کوئی حمایتی ہو گا، نہ کوئی بچانے والا۔ (۳۷)
تشریح:یعنی جیسے پیشتر دوسری کتابیں اتاری گئیں۔ اس وقت یہ قرآن اتارا جو عظیم الشان معارف و حکم پر مشتمل اور حق و باطل کا آخری فیصلہ کرنے والا ہے۔ پھر جس طرح ہر پیغمبر کو اسی زبان میں کتاب دی گئی جو اس کی قومی زبان تھی۔ ایسے ہی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی قرآن دیا گیا۔ بلاشبہ قرآن جیسی معجز و جامع کتاب ایسی ہی زبان میں نازل ہونی چاہیے تھی، جو نہایت بلیغ، وسیع، جامع، منضبط، واضح، پر مغز اور پر شوکت ہونے کی وجہ سے” ام الالسنہ” اور "ملکۃ اللغات "کہلانے کی مستحق ہے۔
کسی کے انکار و ناخوشی کی ذرہ بھر پروا نہ کرو۔ حق تعالیٰ نے جو علمِ عظیم تم کو دیا ہے اس کی پیروی کرتے رہو اگر بالفرض تم ان لوگوں کی خواہشات کی طرف جھک گئے تو اس کے وبال سے کون بچا سکتا ہے۔ یہ خطاب ہر طالب حق کو ہے اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں تو آپ کو سامنے رکھ کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے جیسا کہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی نظائر گزر چکیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور البتہ ہم نے رسول بھیجے تم سے پہلے اور ہم نے ان کو دیں بیویاں اور اولاد اور کسی رسول کے لئے (اختیار میں) نہیں ہوا کہ وہ لائے کوئی نشانی اللہ کی اجازت کے بغیر، ہر وعدہ کے لئے ایک تحریر ہے۔ (۳۸)
تشریح:اس آیت میں ایک تو کفار کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں تو آپ کی بیوی بچے کیوں ہیں؟جواب یہ دیا گیا ہے کہ بیوی بچے ایک دو انبیاء کرام کو چھوڑ کر تقریباً سارے انبیاء کو بھی عطا فرمائے گئے ہیں، کیونکہ نبوت کا ان سے کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ انبیا ء کرام اپنے عمل سے واضح کرتے ہیں کہ ان کے حقوق کیسے ادا کئے جاتے ہیں اور ان کے حقوق اور اللہ تعالی کے حقوق میں توازن کیسے قائم رکھا جاتا ہے، دوسرے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مختلف انبیاء کرام کی شریعتوں میں جزوی فرق ہوتا رہا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور باقی رکھتا ہے (جو وہ چاہتا ہے) اور اس کے پاس لوح محفوظ ہے۔ (۳۹)
تشریح: یعنی اپنی حکمت کے موافق جس حکم کو چاہے منسوخ کرے، جسے چاہے باقی رکھے۔ جس قوم کو چاہے مٹائے جسے چاہے اس کی جگہ جما دے۔ جن اسباب کی تاثیر چاہے بدل ڈالے جن کی چاہے نہ بدلے۔ جو وعدہ چاہے شرائط کی موجودگی میں ظاہر کرے جو چاہے شرائط کے نہ پائے جانے کی بنا پر موقوف کر دے۔ غرض ہر قسم کی تبدیل و تغییر، محو و اثبات، نسخ و احکام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ قضا و قدر کے تمام دفاتر اسی کے قبضہ میں ہیں اور سب تفصیلات و دفاتر کی جڑ جسے” اُم الکتاب” کہنا چاہیے اسی کے پاس ہے۔
(تفسیرعثمانی)
تمام کتابوں کی اصل سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں ازل سے یہ بات درج ہے کہ کس امت کو کون سی کتاب اور کیسے احکام دئے جائیں گے۔
(توضیح القرآن)
اور اگر ہم تمہیں کچھ حصہ (اس عذاب کا) دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، یا تمہیں وفات دے دیں، تو اس کے سوا نہیں کہ تمہارے ذمے پہنچانا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (۴۰)
تشریح: بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ان کافروں کی سرکشی کے باوجود ان پر کوئی عذاب کیوں نہیں آ رہا ہے ؟اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ عذاب کا صحیح وقت اللہ تعالی ہی نے اپنی حکمت کے تحت مقرر فرمایا ہوا ہے، وہ کسی وقت بھی آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ذہن فارغ رکھنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری تبلیغ کی ہے، ان کافروں کا محاسبہ کرنا اللہ تعالی کا کام ہے جو وہ اپنی حکمت کے تحت مناسب وقت پر انجام دے گا۔
(توضیح القرآن)
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم چلے آتے ہیں زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے، اور اللہ حکم فرماتا ہے، کوئی اس کے حکم کو پیچھے ڈالنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۴۱)
تشریح:مطلب یہ ہے کہ جزیرۂ عرب پر مشرکین اور ان کے عقائد کا جو تسلط تھا، وہ رفتہ رفتہ سمٹ رہا ہے، اور مشرکین کے اثر ورسوخ کا دائرہ کار روز بروز کم ہو کر سکڑ رہا ہے، اور اس کی جگہ اسلام کے اثرات پھیل رہے ہیں، یہ ایک تازیانہ ہے جس سے ان مشرکین کو سبق لینا چاہئے۔
(توضیح القرآن)
اور جو ان سے پہلے تھے انہوں نے چالیں چلیں تو ساری چال تو اللہ ہی کی ہے وہ جانتا ہے جو کماتا ہے ہر شخص اور عنقریب کافر جان لیں گے عاقبت کا گھر کس کے لئے ہے۔ (۴۲)
تشریح: وہ نہ چاہے تو سب فریب رکھے رہ جائیں، یا یہ کہ خدا ان کے فریب کا توڑ کرتا ہے، مکر اصل میں خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اگر برائی کے لیے کی جائے بری ہے اور برائی کو دور کرنے کے لیے ہو تو اچھی ہے۔ یعنی انہوں نے چھپ چھپ کر ناپاک تدبیریں کیں لیکن خدا کی تدبیر سب پر غالب رہی، اس نے وہ تدبیریں ان ہی پر الٹ دیں "وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیءُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ”.
(فاطر، رکوع٥، آیت ٤٣)
(تفسیرعثمانی)
اور کافر کہتے ہیں تورسول نہیں، آپ کہہ دیں میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ (۴۳)
تشریح: یعنی تم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی رسالت کا انکار کر رہے ہو اس سے کیا ہوتا ہے؟ تمہارے انکار سے حقیقت نہیں بدل سکتی، اللہ تعالی بذات خود آپ کی رسالت کا گواہ ہے اور ہر وہ شخص جسے آسمانی کتابوں کا علم ہے اگر انصاف کے ساتھ اس علم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات کا جائزہ لے گا تووہ بھی یہ گواہی دئے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ آپ اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں۔
(توضیح القرآن)
٭٭
۱۴۔ سورۃابراہیم
تعارف
دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کا انکار کرنے کے خوفناک نتائج پر تنبیہ ہے، چونکہ عرب کے مشرکین حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے تھے اس لئے اس سورت کے آخر سے پہلے رکوع میں ان کی وہ پر اثر دعا نقل فرمائی گئی ہے جس میں انہوں نے شرک اور بت پرستی کی صاف صاف برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی سے در خواست کی ہے کہ انہیں اور ان کے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھا جائے، اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۂ ابراہیم ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۵۲ رکوعات:۷
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الف، لام، را، یہ ایک کتاب ہے، ہم نے تمہاری طرف اتاری، تاکہ تم لوگوں کو نکالو، ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف، غالب، خوبیوں والے اللہ کے راستے کی طرف۔ (۱)
تشریح: یعنی اس کتاب کی عظمت شان کا اندازہ اس بات سے کرنا چاہیے کہ ہم اس کے اتارنے والے اور آپ جیسی رفیع الشان شخصیت اس کی اٹھانے والی ہے اور مقصد بھی اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے جس سے بلند تر کوئی مقصد نہیں ہو سکتا وہ یہ کہ خدا کے حکم و توفیق سے تمام دنیا کے لوگوں کو خواہ عرب ہوں یا عجم، کالے ہوں، یا گورے، مزدور ہوں یا سرمایہ دار، بادشاہ ہوں یا رعایا۔ سب کو جہالت و اوہام کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں سے نکال کر معرفت و بصیرت اور ایمان و ایقان کی روشنی میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اسی کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور کافروں کے لئے سخت عذاب سے خرابی ہے۔ (۲)
تشریح: یعنی صحیح معرفت کی روشنی میں اس راستہ پر چل پڑیں جو زبردست و غالب، ستودہ صفات، شہنشاہِ مطلق اور مالک الکل خدا کا بتایا ہوا اور اس کے مقام رضاء تک پہنچانے والا ہے۔
جو لوگ ایسی کتاب نازل ہونے کے بعد کفرو شرک اور جہالت و ضلالت کی اندھیری سے نہ نکلے ان کو سخت عذاب اور ہلاکت خیز مصیبت کا سامنا ہے، آخرت میں یا دنیا میں بھی۔
(تفسیرعثمانی)
جو دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں آخرت پر اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، یہی لوگ دور کی گمراہی میں ہیں۔ (۳)
تشریح: یہ کافروں کا حال بیان فرمایا کہ ان کا اوڑھنا بچھونا یہی دنیا ہے، آخرت کے مقابلہ میں اسی کو پسند کرتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں۔ شب و روز اسی کی محبت میں غرق رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی چاہتے ہیں کہ دنیا کی محبت میں پھنسا کر خدا کی خوشنودی کے راستہ سے روک دیں۔ اسی لیے یہ فکر رہتی ہے کہ خدا کے دین میں کوئی عیب نکالیں اور سیدھے راستہ کو ٹیڑھا ثابت کریں۔ فی الحقیقت یہ لوگ راستہ سے بھٹک کر بہت ہی دور جا پڑے ہیں جن کے واپس آنے کی توقع نہیں۔ خدا کی سخت مار پڑے گی تب آنکھیں کھلیں گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لئے (اللہ کے احکام) کھول کر بیان کر دے، پھر اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۴)
تشریح:کفار نکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ قرآن عربی زبان میں کیوں اتارا گیا ہے، اگر یہ کسی ایسی زبان میں ہوتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تو اس کا معجزہ ہونا بالکل واضح ہو جاتا، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی مادری زبان میں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اپنی قوم کواس کی اپنی زبان میں اللہ تعالی کے احکام سمجھاس کے، کسی اور زبان میں قرآن نازل کیا جاتا تو تم یہ اعتراض کرتے کہ اسے ہم کیسے سمجھیں ؟چنانچہ یہی بات سورہ حم السجدہ (۴۱۔ ۴۴) میں فرمائی گئی ہے۔
(توضیح القرآن)
جس طرح آپ کو ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے یہ عظیم الشان کتاب عطا فرمائی، پہلے بھی ہر زمانہ میں سامان ہدایت بہم پہنچاتے رہے ہیں۔ چونکہ طبعی ترتیب کے موافق ہر پیغمبر کے اولین مخاطب اسی قوم کے لوگ ہوتے ہیں جن سے وہ پیغمبر اٹھایا جاتا ہے اس لیے اسی کی قومی زبان میں وحی بھیجی جاتی رہی۔ کہ احکام الٰہیہ کے سمجھنے سمجھانے میں پوری سہولت رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت دعوت میں گو تمام جن و انس شامل ہیں، تاہم جس قوم میں سے آپ اٹھائے گئے اس کی زبان عربی تھی اور ترتیب طبعی کے موافق شیوع ہدایت کی یہ ہی صورت مقدر تھی کہ آپ کے اولین مخاطب اور مقدم ترین شاگرد ایسی سہولت اور خوبی سے قرآنی تعلیمات و حقائق کو سمجھ لیں اور محفوظ کر لیں کہ ان کے ذریعہ سے تمام اقوام عالم اور آنے والی نسلیں درجہ بدرجہ قرآنی رنگ میں رنگی جاس کیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ عربوں نے اپنے نبی کی صحبت میں رہ کر اپنی قومی زبان میں جس سے انہیں بیحد شغف تھا، قرآنی علوم پر کافی دسترس پائی، پھر وہ مشرق و مغرب میں پھیل پڑے اور روم و فارس پر چھا گئے۔ اس وقت قدرت نے عجمی قوموں میں ایسا زبردست جوش اور داعیہ کلام الٰہی کی معرفت اور زبان عربی میں مہارت حاصل کرنے کا پیدا فرما دیا کہ تھوڑی مدت کے بعد وہ قرآنی علوم کی شرح و تبیین میں اپنے معاصر عربوں سے گویا سبقت لے گئے بلکہ عموماً علوم دینیہ و ادبیہ کا مدار ثریا تک پرواز کرنے والے عجمیوں پر رہ گیا۔ اس طرح خدا کی حجت بندوں پر تمام ہوتی رہتی اور وقتاً فوقتاً قرآنی ہدایت سے مستفید ہونے کے اسباب فراہم ہوتے رہے۔ فَالْحَمْدُ للّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔ بہرحال خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص قوم عرب میں سے اٹھائے جانے کی اگر کچھ وجوہ موجود ہیں (اور یقیناً ہیں) تو ان ہی وجوہ کے نتیجہ میں اس سوال کا جواب بھی آ جاتا ہے کہ قرآن عربی زبان میں اتار کر خداوند عالم نے عربوں کی رعایت کیوں کی؟
(تفسیرعثمانی)
اور البتہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال، اور انہیں اللہ کے (عظیم واقعات کے) دن یاد دلا، بیشک اس میں ہر صبر کرنے والے، شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۵)
تشریح: "نشانیاں دے کر یعنی معجزات دے کر جو "آیاتِ تسعہ” کے نام سے مشہور ہیں یا آیاتِ تورات مراد ہوں۔ اور "یاد دلا ان کو دن اللہ کے” یعنی ان دنوں کے واقعات یاد دلاؤ جب ان پر شدائد و مصائب کے پہاڑ ٹوٹے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے نجات دی اور اپنی مہربانی مبذول فرمائی کیونکہ دونوں قسم کے حالات سننے سے صابر و شاکر بندوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت گھبرانا اور راحت کے وقت اترانا نہیں چاہیے جو لوگ پہلے کامیاب ہوئے ہیں وہ سختیوں پر صبر اور نعمائے الٰہیہ پر شکر کرنے سے ہوئے ہیں۔ "وَتَمَّتُ کَلِمَۃُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَاکَانَ یَصْنَعُ فِرْعُوْنُ وَقَوْمُہ، وَمَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَ”
(اعراف، رکوع١٦، آیت ١٣٧)
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو، تم اپنے اوپر اللہ کی نعمتیں یاد کرو، جب اس نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دی، وہ تمہیں برا عذاب پہنچاتے تھے، اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے، اور تمہاری عورتوں (لڑکیوں) کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ (۶)
تشریح: اس قسم کی آیت سورہ بقرہ اور اعراف میں گزر چکی ہے وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب تمہارے رب نے آگا ہ کیا، البتہ اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا، البتہ اگر تم نے ناشکری کی تو بیشک میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ (۷)
تشریح: اللہ تعالی نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ اگر تم نے میری نعمتوں کا شکر ادا کیا کہ ان کو میری نافرمانیوں اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا اور اپنے اعمال و افعال کو میری مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش کی تو میں ان نعمتوں کو اور زیادہ کر دوں گا، یہ زیادتی نعمتوں کی مقدار میں بھی ہو سکتی ہے اور ان کی بقا و دوام میں بھی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو شکر ادا کرنے کی توفیق ہو گئی وہ کبھی نعمتوں میں برکت اور زیادت سے محروم نہ ہو گا (رواہ ابن مردویہ عن ابن عباس مظہری) اور فرمایا کہ اگر تم نے میری نعمتوں کی ناشکری کی تو میرا عذاب بھی سخت ہے، ناشکری کا حاصل یہی ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور ناجائز کاموں میں صرف کرے، یا اس کے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کرے، اور کفران نعمت کا عذاب شدید دنیا میں بھی یہ ہو سکتا ہے کہ یہ نعمت سلب ہو جائے یا ایسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے کہ نعمت کا فائدہ نہ اٹھاس کے اور آخرت میں بھی عذاب میں گرفتار ہو۔
(معارف القرآن)
اور موسیٰ نے کہا اگر ناشکری کرو گے تم اور جو زمین میں ہیں سب تو بیشک اللہ بے نیاز، سب خوبیوں والا ہے۔ (۸)
تشریح: یعنی کفران نعمت کا ضرر تم ہی کو پہنچے گا۔ خدا کا کچھ نہیں بگڑتا اسے تمہارے شکریوں کی کیا حاجت ہے۔ کوئی شکر ادا کرے یا نہ کرے، بہرحال اس کے حمید و محمود ہونے میں کچھ کمی نہیں آتی۔ صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا "اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے، جن و انس سب کے سب ایک اعلیٰ درجہ کے متقی شخص کے نمونہ پر ہو جائیں تو اس سے میرے ملک میں کچھ بڑھ نہیں جاتا۔ اور اگر سب اگلے پچھلے جن و انس مل کے بفرض محال ایک بدترین انسان جیسے ہو جائیں (العیاذ باللہ) تو اس سے میرے ملک میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوتی”۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے (مثلاً) قوم نوح، عاد اور ثمود اور وہ جو ان کے بعد ہوئے، ان کی خبر (کسی کو) نہیں اللہ کے سوا، ان کے پاس ان کے رسول نشانیوں کے ساتھ آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ میں لوٹائے (خاموش کر دیا) اور بولے تمہیں جس (رسالت) کے ساتھ بھیجا گیا ہے ہم نہیں مانتے، اور البتہ تم ہمیں جس کی طرف بلاتے ہو ہم شک میں ہیں تردد میں ڈالتے ہوئے۔ (۹)
تشریح: یہ موسٰی علیہ السلام کے کلام کا تتمہ ہے یا اسے چھوڑ کر حق تعالیٰ نے اس امت کو خطاب فرمایا ہے۔ بہرحال اس میں بتلایا کہ بے شمار قومیں پہلے گزر چکیں ان کے تفصیلی پتے اور احوال بجز خدا کے کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ چند قومیں جو عرب والوں کے یہاں زیادہ مشہور تھیں ان کے نام لے کر اور بقیہ کو وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِ ہِمْ میں درج کر کے متنبہ فرماتے ہیں کہ ان اقوام کا جو کچھ حشر ہوا کیا وہ تم کو نہیں پہنچا۔ انہوں نے نعمت خداوندی کی ناقدری کی اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول نہ کی ان کے ساتھ بڑی بے رخی بلکہ گستاخی سے پیش آئے۔
تعجب ہے اتنی قومیں پہلے تباہ ہو چکیں اور ان کے حال سے ابھی تک تمہیں عبرت حاصل نہ ہوئی۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں زمین اور آسمانوں کے بنانے والے اللہ کے بارے میں شبہ ہے؟وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے اور ایک مدت مقررہ تک تمہیں مہلت دے، وہ بولے تم صرف ہم جیسے آدمی ہو، تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان سے روک دو جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، پس ہمارے پاس روشن دلیل (معجزہ) لاؤ۔ (۱۰)
تشریح: قَالَتْ رُسُلُہمْ: ان کے رسولوں نے کہا۔ یعنی خدا کی ہستی اور وحدانیت تو ایسی چیز نہیں جس میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش ہو، انسانی فطرت خدا کے وجود پر گواہ ہے۔ علویات وسفلیات کا عجیب و غریب نظام شہادت دیتا ہے کہ اس مشین کے پرزوں کو وجود کے سانچہ میں ڈھالنے والا، پھر انہیں جوڑ کر نہایت محکم و منظم طریقہ سے چلانے والا بڑا زبردست ہاتھ ہونا چاہیے جو کامل حکمت و اختیار سے عالم کی مشین کو قابو میں کئے ہوئے ہے۔ اسی لیے کٹر سے کٹر مشرک کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں اس بات کے اعتراف سے چارہ نہیں رہا کہ بڑا خدا جس نے آسمان و زمین وغیرہ کو پیدا کیے و ہی ہو سکتا ہے جو تمام چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں سے اونچے مقام پر براجمان ہو۔ انبیاء کی تعلیم یہ ہے کہ جب انسانی فطرت نے ایک علیم و حکیم قادر و توانا منبع الکمالات خدا کا سراغ پا لیا پھر اوہام و ظنون کی دلدل میں پھنس کر اس سادہ فطری عقیدہ کو کھلونا یا چیستاں کیوں بنایا جاتا ہے۔ وجدان شہادت دیتا ہے کہ ایک قادر مطلق اور عالم الکل خدا کی موجودگی میں کسی پتھر یا درخت یا انسانی تصویر یا سیارہ فلکی یا اور کسی مخلوق کو الوہیت میں شریک کرنا فطرتِ صحیحہ کی آواز کو دبانے یا بگاڑنے کا مرادف ہے کیا خداوند قدوس کی ذات و صفات میں معاذ اللہ کچھ کمی محسوس ہوئی جس کی مخلوق خداؤں کی جمعیت سے تلافی کرنا چاہتے ہو۔
قَالُوْٓا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا: وہ بولے تم صرف ہم جیسے آدمی ہو۔ کیا آپ آسمان کے فرشتے ہیں؟ یا نوع بشر کے علاوہ کوئی دوسری نوع ہیں؟ جب کچھ نہیں ہم ہی جیسے آدمی ہو تو آخر کس طرح آپ کی باتوں پر یقین کر لیں۔ آپ کی خواہش یہ ہو گی کہ ہم کو قدیم مذہب سے ہٹا کر اپنا تابع بنا لیں تو خاطر جمع رکھئے یہ کبھی نہ ہو گا۔ اگر آپ اپنا امتیاز ثابت کرنا اور اس مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا کھلا ہوا نشان یا خدائی سرٹیفکیٹ دکھلائیے جس کے سامنے خواہی نہ خواہی سب کی گردنیں جھک جائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری فرمائش کے موافق معجزات دکھلائیں۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
ان کے رسولوں نے ان سے کہا (بیشک) ہم صرف تم جیسے آدمی ہیں، لیکن اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان کرتا ہے، اور ہمارے لئے (ہمارا کام) نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر تمہارے پاس کوئی دلیل (معجزہ) لائیں، اور مؤمنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ (۱۱)
تشریح: دعویٰ نبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اپنی نسبت بشر کے سوا کوئی دوسری نوع ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ہاں اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بعض پر ایک خصوصی احسان فرماتا ہے جو دوسروں پر نہیں ہوتا۔
اب رہا سند اور سرٹیفکیٹ لانے کا قصہ، سو خدا کے حکم سے ہم پہلے ہی اپنی نبوت کی سند اور روشن نشانیاں دکھلا چکے ہیں۔ کما قال "جَآءَ ْتہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ” جو آدمی ماننا چاہے اس کے اطمینان کے لیے وہ کافی سے زیادہ ہیں۔ باقی رہا تمہاری فرمائشیں پوری کرنا، تو یہ چیز ہمارے قبضہ میں نہیں۔ نہ ہماری تصدیق عقلاً اس پر موقوف ہے۔ خدا تعالیٰ اپنی حکمت کے موافق جو سند اور نشان چاہے، تم کو دکھلائے گا۔ فرمائشی نشانات دیکھنے سے ایمان نہیں آتا، اللہ کے دینے سے آتا ہے۔ لہٰذا ایک ایمان دار کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اگر تم نہ مانو گے اور ہماری عداوت و ایذاء رسانی پر تیار ہو گے تو ہمارا بھروسہ اسی خدا کی مہربانی اور امداد پر رہے گا۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
اور ہمیں کیا ہوا؟ کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں، اور اس نے ہمیں راہیں دکھا دیں ہیں، اور تم ہمیں جو ایذا دیتے ہو ہم اس پر صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ (۱۲)
تشریح: یعنی حق تعالیٰ ہم کو جام توحید و عرفان پلا کر حقیقی کامیابی کے راستے بتا چکا، پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم اس پر توکل نہ کریں۔ تم خواہ کتنی ہی ایذاء پہنچاؤ، خدا کے فضل سے ہمارے توکل میں فرق نہیں پڑ سکتا۔ متوکلین کا یہ کام نہیں کہ سختیاں دیکھ کر توکل اور استقامت کی راہ سے ہٹ جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ضرور نکال د یں گے اپنی زمین (ملک) سے، یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔ (۱۳)
تشریح:یعنی اپنے توکل وغیرہ کو رہنے دو، زیادہ بزرگی مت جتاؤ۔ بس اب دو باتوں میں سے ایک بات ہو کر رہے گی۔ یا تم (بعثت سے پہلے کی طرح) چپ چاپ ہم میں رل مل کر رہو گے اور جن کو تم نے بہکایا ہے وہ سب ہمارے پرانے دین میں واپس آئیں گے۔ ورنہ تم سب کو ملک بدر اور جلا وطن کیا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور البتہ ہم تمہیں ان کے بعد زمین میں آباد کریں گے، یہ اس کے لئے ہے جو ڈرا میرے روبرو کھڑا ہونے سے، اور ڈرا میرے اعلان عذاب سے۔ (۱۴)
تشریح: یعنی یہ تم کو کیا نکالیں گے ہم ہی ان ظالموں کو تباہ کر کے ہمیشہ کے لیے یہاں سے نکال دیں گے کہ پھر کبھی واپس نہ آسکیں۔ اور ان کی جگہ تم کو اور تمہارے مخلص وفاداروں کو زمین میں آباد کریں گے۔ دیکھ لو کفار مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مکہ سے نکالنا چاہا، وہ ہی نکلنا آخر اس کا سبب بن گیا کہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کا دائمی تسلط ہو اور کافر کا نشان باقی نہ رہے۔
مذکورہ بالا کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں یہ خیال کر کے کہ وہ ہماری تمام حرکتوں کو برابر دیکھ رہا ہے اور ایک دن حساب دینے کے لیے اس کے سامنے کھڑا ہونا ہے جہاں اس کے بے پناہ عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے (انبیاء نے) فتح مانگی، اور نامراد ہوا ہر سرکش، ضدی۔ (۱۵)
تشریح:یعنی پیغمبروں کا خدا کو پکارنا تھا کہ مدد آئی اور ہر ایک سرکش اور ضدی نامراد ہو کر رہ گیا۔ جو کچھ خیالات پکا رکھے تھے، ایک ہی پکڑ میں کافور ہو گئے نہ وہ رہے نہ ان کی توقعات رہیں۔ ایک لمحہ میں سب کا خاتمہ ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے پیچھے جہنم ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ (۱۶)
تشریح:یعنی یہ تو یہاں کا عذاب تھا اس کے بعد آگے دوزخ کا بھیانک منظر ہے جہاں شدت کی تشنگی کے وقت ان کو پیپ یا پیپ جیسا پانی پلایا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اسے گھونٹ گھونٹ پئے گا، اور اسے گلے سے نہ اتار سکے گا، اور اسے موت آئے گی ہر طرف سے اور وہ مرے گا نہیں، اور اس کے پیچھے سخت عذاب ہے۔ (۱۷)
تشریح: یعنی خوشی سے کہاں پی سکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ فرشتے لوہے کے گرز سر پر مار کر زبردستی منہ میں ڈالیں گے۔ جس وقت منہ کے قریب کریں گے شدت حرارت سے دماغ تک کی کھال اتر کر نیچے لٹک پڑے گی، منہ میں پہنچ کر گلے میں پھنسے گا، بڑی مصیبت اور تکلیف کے ساتھ ایک ایک گھونٹ کر کے حلق سے نیچے اتاریں گے۔ پیٹ میں پہنچنا ہو گا کہ آنتیں کٹ کر باہر آ جائیں گی۔ "وَسُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَ ہُمْ” (محمد، رکوع٢، آیت :١٥) وَاِنْ یَّسْتَغِیثُوا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ (کہف، رکوع٤، آیت :٢٩) .
(اعاذنا اللہ منہما وسائر المومنین)
اس کا پینا کیا ہو گا ہر طرف سے موت کا سامنا کرنا ہو گا، سر سے پاؤں تک ہر عضو بدن پر سکرات موت طاری ہوں گے، شش جہت سے مہلک عذاب کی چڑھائی ہو گی، اس زندگی پر موت کو ترجیح دیں گے۔ لیکن موت بھی نہیں آئے گی۔ جو سب تکلیفوں کا خاتمہ کر دے۔ ایک عذاب کے پیچھے دوسرا تازہ عذاب آتا رہے گا۔ کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَا ہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ (نساء، رکوع٨، آیت :٥٦) ثُمَّ لَایَمُوْتُ فِیْہَا وَلَایَحْيٰ (اعلیٰ، رکوع١، آیت: ١٣) سچ ہے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا۔
ان لوگوں کی مثال جو اپنے رب کے منکر ہوئے، ان کے عمل راکھ کی طرح ہیں کہ اس پر آندھی کے دن زور کی ہوا چلی (اور سب اڑا لے گئی) جو انہوں نے کمایا، انہیں کسی چیز پر قدرت نہ ہو گی، یہی ہے دور کی (پرلے درجہ کی) گمراہی۔ (۱۸)
تشریح:بعض کفار کو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ آخر ہم نے دنیا میں بہت سے اچھے کام صدقہ خیرات کی مد میں کیے ہماری خوش اخلاقی لوگوں میں مشہور ہوئی، بہتیرے آدمیوں کی مصیبت میں کام آئے اور کسی نہ کسی عنوان سے خدا کی پوجا بھی کی، کیا یہ سب کیا کرایا اور دیا لیا اس وقت کام نہ آئے گا؟ اس کا جواب اس تمثیل میں دیا۔ یعنی جسے خدا کی صحیح معرفت نہیں۔ محض فرضی اور وہمی خدا کو پوجتا ہے اس کے تمام اعمال محض بے روح اور بے وزن ہیں۔ وہ محشر میں اسی طرح اڑ جائیں گے جس طرح آندھی کے وقت جب زور کی ہوا چلے تو راکھ کے ذرات اڑ جاتے ہیں، اس وقت کفار نیک عمل سے بالکل خالی ہاتھ ہوں گے حالانکہ وہ یہی موقع ہو گا جہاں نیک عمل کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ اللہ اکبر! یہ کیسی حسرت کا وقت ہو گا کہ جن اعمال کو ذریعہ قرب و نجات سمجھے تھے وہ راکھ کے ڈھیر کی طرح عین اس موقع پر بے حقیقت ثابت ہوئے جب دوسرے لوگ اپنی نیکیوں کے ثمرِ شیریں سے لذت اندوز ہو رہے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) اگر وہ چاہے تمہیں لے جائے اور لے آئے کوئی نئی مخلوق۔ (۱۹)
اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں۔ (۲۰)
تشریح: یعنی شاید کفار کو یہ خیال گزرے کہ جب مٹی میں مل کر مٹی ہو گئے پھر دوبارہ زندگی کہاں۔ قیامت اور عذاب و ثواب وغیرہ سب کہانیاں ہیں، ان کو بتلایا کہ جس خدا نے آسمان و زمین کامل قدرت و حکمت سے پیدا کیے اسے تمہارا از سر نو دوبارہ پیدا کرنا، یا کسی دوسری مخلوق کو تمہاری جگہ لے آنا کیا مشکل ہے؟ اگر آسمان و زمین کے محکم نظام کو دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے اور قائم رکھنے والا کوئی صانع حکیم ہے جیسا کہ لفظ "بالحق” میں تنبیہ فرمائی تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات (انسان) کو محض بے نتیجہ پیدا کیا ہو گا اور اس کی تخلیق و ایجاد سے کوئی عظیم الشان مقصد متعلق نہ ہو گا یقیناً اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہونی چاہیے جس میں آدم کی پیدائش کا مقصد عظیم اکمل و اتم طریقہ سے آشکارا ہو۔
(تفسیرعثمانی)
وہ سب اللہ کے آگے حاضر ہوں گے، پھر کہیں گے کمزور ان لوگوں سے جو بڑے بنتے تھے، بیشک ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم ہم سے دفع کر سکتے ہو؟کسی قدر اللہ کا عذاب، وہ کہیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو البتہ ہم تمہیں ہدایت کرتے، اب ہمارے لئے برابر ہے خواہ ہم گھبرائیں یا صبر کریں، ہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں۔ (۲۱)
تشریح: یہ اتباع اپنے متبوعین سے کہیں گے۔ یعنی دنیا میں تم بڑے بن کر بیٹھے تھے اور ہم نے تمہاری بہت تابعداری کی تھی۔ آج اس مصیبت کی گھڑی میں کچھ تو کام آؤ، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ عذاب الٰہی کے کسی حصہ کو ہم سے ذرا ہلکا کر دو۔
متبوعین کہیں گے: اگر خدا دنیا میں ہم کو ہدایت کی توفیق دیتا تو ہم تم کو بھی اپنے ساتھ سیدھے راستہ پر لے چلتے۔ لیکن ہم نے ٹھوکر کھائی تو تمہیں بھی لے ڈوبے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس وقت اگر خدا تعالیٰ ہم کو اس عذاب سے نکلنے کی کوئی راہ بتلاتا تو ہم تمہیں وہ ہی راہ بتا دیتے۔ اب تو تمہاری طرح ہم خود مصیبت میں مبتلا ہیں، اور مصیبت بھی ایسی جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ نہ صبر کرنے اور خاموش رہنے سے فائدہ، نہ گھبرانے اور چلانے سے کچھ حاصل۔
(تفسیرعثمانی)
اور (روز حساب) جب تمام امور (کاموں) کا فیصلہ ہو گیا، شیطان بولا بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا، پھر میں نے تم سے اس کے خلاف کیا، اور نہ تھا میرا تم پر کوئی زور، مگر یہ کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہا مان لیا، لہذا مجھ پر کچھ الزام نہ لگاؤ، الزام اپنے اوپر لگاؤ، نہ میں تمہاری فریادرسی کر سکتا ہوں، اور نہ تم میری فریادرسی کر سکتے ہو، بیشک میں انکار کرتا ہوں اس کا جو تم نے اس سے قبل مجھے شریک بنایا، بیشک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۲۲)
تشریح: یعنی حساب کتاب کے بعد جب جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے کا فیصلہ ہو چکے گا اس وقت کفار دوزخ میں جا کر یا داخل ہونے سے پہلے ابلیس لعین کو الزام دیں گے کہ مردود تو نے دنیا میں ہماری راہ ماری اور اس مصیبت میں گرفتار کرایا۔ اب کوئی تدبیر مثلاً سفارش وغیرہ کا انتظام کر۔ تاکہ عذابِ الٰہی سے رہائی ملے۔ تب ابلیس ان کے سامنے لیکچر دے گا جس کا حاصل یہ ہے کہ بیشک حق تعالیٰ نے صادق القول پیغمبروں کے توسط سے ثواب و عقاب اور دوزخ و جنت کے متعلق سچے وعدے کیے تھے جن کی سچائی دنیا میں دلائل و براہین سے ثابت تھی اور آج مشاہدے سے ظاہر ہے۔ میں نے اس کے بالمقابل جھوٹی باتیں کہیں اور جھوٹے وعدے کیے۔ جن کا جھوٹ ہونا وہاں بھی ادنیٰ فکر و تامل سے واضح ہو سکتا تھا اور یہاں تو آنکھ کے سامنے ہے۔ میرے پاس نہ حجت و برہان کی قوت تھی نہ ایسی طاقت رکھتا تھا کہ زبردستی تم کو ایک جھوٹی بات کے ماننے پر مجبور کر دیتا، بلاشبہ میں نے بدی کی تحریک کی اور تم کو اپنے مشن کی طرف بلایا، تم جھپٹ کر خوشی سے آئے اور میں نے جدھر شہ دی ادھر ہی اپنی رضا و رغبت سے چل پڑے۔ اگر میں نے اغوا کیا تھا تو تم ایسے اندھے کیوں بن گئے کہ نہ دلیل سنی نہ دعوے کو پرکھا آنکھیں بند کر کے پیچھے ہو لیے۔ انصاف یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ تم اپنے نفسوں پر ملامت کرو۔ میرا جرم اغوا بجائے خود رہا لیکن مجھے مجرم گردان کر تم کیسے بری ہو سکتے ہو۔ آج تم کو مدد دینا تو درکنار، خود تم سے مدد لینا بھی ممکن نہیں۔ ہم اور تم دونوں اپنے اپنے جرم کے موافق سزا میں پکڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی فریاد کو نہیں پہنچ سکتا۔ تم نے اپنی حماقت سے دنیا میں مجھ کو خدائی کا شریک ٹھہرایا (یعنی بعض تو براہ راست شیطان کی عبادت کرنے لگے اور بہتوں نے اس کی باتوں کو ایسی طرح مانا اور اس کے احکام کے سامنے اس طرح سر تسلیم و انقیاد خم کیا جو خدائی احکام کے آگے کرنا چاہیے تھا) بہرحال اپنے جہل و غباوت سے جو شرک تم نے کیا تھا اس وقت میں اس سے منکر اور بیزار ہوں۔ یا "بِمَا اَشْرَکْتُمُوْنِ” میں بائے سببیت لے کر یہ مطلب ہو کہ تم نے مجھ کو خدائی کا رتبہ دیا اس سبب سے میں بھی کافر بنا۔ اگر میری بات کوئی نہ پوچھتا تو میں کفر و طغیان کے اس درجہ میں کہاں پہنچتا۔ اب ہر ایک ظالم اور مشرک کو اپنے کیے کی سزا دردناک عذاب کی صورت میں بھگتنا چاہیے۔ شور مچانے اور الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ گزشتہ آیت میں ضعفاء و مستکبرین (عوام اور لیڈروں) کی گفتگو نقل کی گئی تھی اسی کی مناسبت سے یہاں دوزخیوں کے مہا لیڈر (ابلیس لعین) کی تقریر نقل فرمائی چونکہ عوام کا الزام اور ان کی استدعا دونوں جگہ یکساں تھی شاید اسی لیے شیطان کی گفتگو کے وقت اس کا ذکر ضروری نہیں معلوم ہوا۔ واللہ اعلم۔ مقصود ان مکالمات کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ لوگ اس افراتفری کا تصور کر کے شیاطین الانس و الجن کے اتباع سے باز رہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور داخل کئے گئے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے باغات میں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ہمیشہ رہیں گے اس میں اپنے رب کے حکم سے، اس میں ان کا تحفۂ ملاقات سلام ہے۔ (۲۳)
تشریح: اوپر دوزخیوں کا مکالمہ مذکور تھا کہ وہ ایک دوسرے کو ملامت بھی کریں گے اور اس بات کا اعلان بھی کہ ان کے لئے تباہی کے سوا کچھ نہیں، اس کے مقابلے میں جنت والوں کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہر ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو تباہی کے بجائے سلامتی کا پیغام دیں گے۔
(توضیح القرآن)
کیا تم نے نہیں دیکھا؟اللہ نے کیسی مثال بیان کی ہے پاک بات کی؟جیسے پاکیزہ درخت، اس کی جڑ مضبوط اور اس کی شاخ آسمان میں (۲۴)
تشریح: کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں، اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہنچا سکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامناکرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں، لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کر چکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرہ برابر تزلزل نہیں آیا، کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اس کی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں، اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مؤمن کے دل میں پیوست ہو جاتا ہے تو اس کے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالی تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
(توضیح القرآن)
وہ دیتا ہے ہر وقت اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (۲۵)
تشریح: یعنی یہ درخت سدا بہار ہے، اس پر کبھی خزاں نہیں ہوتی، اور وہ ہر حال میں پھل دیتا ہے اگر اس سے مراد کھجور کا درخت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا پھل سارے سال کھایا جاتا ہے، نیز جس زمانے میں بظاہر اس پر پھل نہیں ہوتا، اس زمانے میں بھی اس سے مختلف فائدے حاصل کئے جاتے ہیں، کبھی اس سے نیرا نکال کر پیا جاتا ہے، کبھی اس کے تنے کا گودا نکال کر کھایا جاتا ہے، اور کبھی اس کے پتوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں، اسی طرح جب کوئی شخص توحید کے کلمے پر ایمان لے آتا ہے تو چاہے خوش حال ہو یا تنگدست، عیش و آرام میں یا تکلیفوں میں ہر حال میں اس کے ایمان کی بدولت اس کے اعمال نامے میں نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے ثواب میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، جو درحقیقت توحید کے کلمے کا پھل ہے۔
(توضیح القرآن)
اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا اس کے لئے کچھ بھی قرار نہیں۔ (۲۶)
تشریح:ناپاک کلمہ سے مراد کفر کا کلمہ ہے، اس کی مثال ایسا خراب درخت ہے جس کی کوئی مضبوط جڑ نہ ہو، بلکہ وہ جھاڑ جھنکاڑ کی شکل میں خود اُگ آئے، اس میں جماؤ بالکل نہیں ہوتا، اس لئے جو شخص چاہے اسے آسانی سے اکھاڑ ڈالتا ہے، اسی طرح کافرانہ عقیدوں کی کوئی عقلی یا نقلی بنیاد نہیں ہوتی، ان کی تردید آسانی سے کی جا سکتی ہے، اور غالباً اس سے مسلمانوں کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ کفر و شرک کے جن عقیدوں نے آج مسلمانوں پر زمین تنگ کی ہوئی ہے عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ان کو اس طرح اکھاڑ پھنکا جائے گا جیسے جھاڑ جھنکاڑ کو اکھاڑ پھینک دیا جاتا ہے۔
(توضیح القرآن)
اللہ مؤمنوں کو مضبوط بات سے مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں (بھی) اور اللہ ظالموں کو بھٹکا دیتا ہے، اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ (۲۷)
تشریح: دنیا میں جماؤ عطا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن پر کتنی زبردستی کی جائے وہ توحید کے اس کلمے کو چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں ہوتا، اور آخرت میں جماؤ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قبر میں جب اس سے سوال و جواب ہو گا تو وہ اپنے اس کلمے اور عقیدے کا اظہار کرے گا جس کے نتیجے میں اسے آخرت کی ابدی نعمتیں نصیب ہوں گی۔
(توضیح القرآن)
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا، اور اپنی قوم کو اتارا تباہی کے گھر میں۔ (۲۸)
وہ جہنم ہے وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ (۲۹)
تشریح: اس سے کفار و مشرکین کے سردار مراد ہیں، خصوصاً رؤسائے قریش جن کے ہاتھ میں اس وقت عرب کی باگ تھی یعنی حق تعالیٰ نے ان پر کیسے احسان کیے، ان کی ہدایت کے لیے پیغمبر علیہ السلام کو بھیجا، قرآن اتارا، اپنے حرم اور بیت کا مجاور بنایا۔ عرب کی سرداری دی، انہوں نے ان نعمتوں اور احسانات کا بدلہ یہ کیا کہ خدا کی ناشکری پر کمربستہ ہو گئے، اس کی باتوں کو جھٹلایا، اس کے پیغمبر سے لڑائی کی، آخر اپنی قوم کو لے کر تباہی کے گڑھے میں جا گرے۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اللہ کے لئے شریک ٹھہرائے تاکہ وہ اس کے راستہ سے گمراہ کریں، آپ کہہ دیں فائدہ اٹھا لو، بیشک تمہارا لوٹنا (باز گشت) جہنم کی طرف ہے۔ (۳۰)
تشریح: یعنی خدا کے احسانات سے متاثر ہو کر منعم حقیقی کی شکر گزاری اور اطاعت شعاری میں لگتے، یہ تو نہ ہوا، الٹے بغاوت پر کمربستہ ہو گئے، خدا کے مقابل دوسری چیزیں کھڑی کر دیں جن پر خدائی اختیارات تقسیم کیے اور عبادت جو خدائے واحد کا حق تھا، وہ مختلف عنوانوں سے ان کے لیے ثابت کرنے لگے، تاکہ اس سلسلہ میں اپنے ساتھ دوسروں کی راہ ماریں اور انہیں بہکا کر اپنے دام سیادت میں پھنسائے رکھیں۔
(تفسیرعثمانی)
آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیں جو ایمان لائے کہ وہ نماز قائم کریں اور اس میں سے خرچ کریں جو میں نے انہیں دیا ہے چھپا کر ظاہری طور پر، اس سے قبل کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی۔ (۳۱)
تشریح: کفار کے احوال ذکر کرنے کے بعد مومنین مخلصین کو متنبہ فرماتے ہیں کہ وہ پوری طرح بیدار رہیں، وظائف عبودیت میں ذرا فرق نہ آنے دیں، دل و جان سے خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کریں کہ وہ بھی بہترین عبادت ہے۔ نمازوں کو ان کے حقوق و حدود کی رعایت کے ساتھ خشوع و خضوع سے ادا کرتے رہیں۔ خدا نے جو کچھ دیا ہے اس کا ایک حصہ خفیہ یا اعلانیہ مستحقین پر خرچ کریں۔ غرض کفار جو شرک اور کفرانِ نعمت پر تلے ہوئے ہیں ان کے بالمقابل مومنین کو جان و مال سے حق تعالیٰ کی طاعت و شکر گزاری میں مستعدی دکھلانا چاہیے۔
نماز اور انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ نیکیاں اس دن کام آئیں گی، بیع و شراء یا محض دوستانہ تعلقات سے کام نہ نکلے گا۔ یعنی نہ وہاں نیک عمل کہیں سے خرید کر لا سکو گے نہ کوئی ایسا دوست بیٹھا ہے جو بدون ایمان و عمل صالح کے محض دوستانہ تعلقات کی بنا پر نجات کی ذمہ داری کر لے (ربط) پہلے کفار کی ناشکری کا ذکر تھا، پھر مومنین کو مراسم طاعت کی اقامت کا حکم دے کر شکر گزاری کی طرف ابھارا۔ آگے چند عظیم الشان نعمائے الٰہیہ کا ذکر فرماتے ہیں جو ہر مومن و کافر کے حق میں عام ہیں، تاکہ انہیں سن کر مومنین کو شکر گزاری کی مزید ترغیب ہو اور کفار بھی غور کریں تو اپنے دل میں شرمائیں کہ وہ کیسے بڑے منعم و محسن شہنشاہ سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں خدا تعالیٰ کی عظمت و وحدانیت کے دلائل بھی بیان ہو گئے۔ ممکن ہے انہیں سن کر کوئی عاقل منصف شرکیات سے باز آ جائے، یا عظمت و جبروت کے نشانات میں غور کر کے اس کی گرفت اور سزا سے ڈر جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ ہے جس نے آ سمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس سے نکالا تمہارے لئے پھلوں سے رزق، اور تمہارے لئے کشتی کو مسخر (تابع فرمان) کیا تاکہ اس (اللہ) کے حکم سے دریا میں چلے اور مسخر کیا تمہارے لئے نہروں کو۔ (۳۲)
تشریح:یعنی آسمان کی طرف سے پانی اتارا، یا یہ مطلب ہو کہ بارش کے آنے میں بخارات وغیرہ ظاہری اسباب کے علاوہ غیر مرئی سماوی اسباب کو بھی دخل ہے۔ دیکھو آفتاب کی شعاعیں تمام اشیاء کی طرح آتشیں شیشہ پر بھی پڑتی ہیں لیکن وہ اپنی مخصوص ساخت اور استعداد کی بدولت انہی شعاعوں سے غیر مرئی طور پر اس درجہ حرارت کا استفادہ کرتا ہے جو دوسری چیزیں نہیں کرتیں۔ چاند سمندر سے کتنی دور ہے، مگر اس کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر کے پانی میں جزر و مد پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بادل بھی کسی سماوی خزانہ سے غیر محسوس طریقہ پر مستفید ہوتا ہو تو انکار کی کون سی وجہ ہے۔
حق تعالیٰ نے اپنے کمالِ قدرت و حکمت سے پانی میں ایک قوت رکھی جو درختوں اور کھیتوں کے نشو و نما اور بار آور ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اسی کے ذریعہ سے پھل اور میوے ہمیں کھانے کو ملتے ہیں۔
سمندر کی خوفناک لہروں میں ذرا سی کشتی پر سوار ہو کر کہاں سے کہاں پہنچتے ہو اور کس قدر تجارتی یا غیر تجارتی فوائد حاصل کرتے ہو، یہ خدا ہی کی قدرت اور حکم سے ہے کہ سمندر کے تھپیڑوں میں ذرا سی ڈونگی کو ہم جدھر چاہیں لیے پھرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور تمہارے لئے مسخر کیا سورج اور چاند کہ وہ ایک دستور پر چل رہے ہیں، اور تمہارے لئے مسخر کیا رات اور دن۔ (۳۳)
تشریح: یعنی ندیوں میں پانی کا آنا اور کہیں سے کہیں پہنچنا گو کشتی کی طرح تمہارے کہنے میں نہیں، تاہم تمہارے کام میں وہ بھی لگی ہوئی ہیں۔ اسی طرح چاند سورج جو ایک معین نظام اور ضابطہ کے موافق برابر چل رہے ہیں، کبھی تھکتے نہیں نہ رفتار میں فرق پڑتا ہے۔ یا رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے ٹھری ہوئی عادت کے موافق ہمیشہ چلے آتے ہیں یہ سب چیزیں گو اس معنی سے تمہارے قبضہ میں نہیں کہ تم جب چاہو اور جدھر چاہو ان کی قدرتی حرکت و تاثیر کو پھیر دو تاہم تم بہت سے تصرفات و تدابیر کر کے ان کے اثرات سے بے شمار فوائد حاصل کرتے ہو اور انسانی تصرف و تدبیر سے قطع نظر کر کے بھی وہ قدرتی طور پر ہر وقت تمہاری کسی نہ کسی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، تم سوتے ہو، وہ تمہارا کام کرتے ہیں، تم چین سے بیٹھے ہو، وہ تمہارے لیے سرگرداں ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس نے تمہیں دی ہر چیز جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت گننے لگو تم اسے شمار میں نہ لا سکوگے، بیشک انسان بڑا ظالم، ناشکرا ہے۔ (۳۴)
تشریح: یعنی جو چیزیں تم نے زبان قال یا حال سے طلب کیں، ان میں ہر چیز کا جس قدر حصہ حکمت و مصلحت کے موافق تھا مجموعی طور پر تم سب کو دیا۔
خدا کی نعمتیں اتنی بے شمار بلکہ غیر متناہی ہیں کہ اگر تم سب مل کر اجمالاً ہی گنتی شروع کرو تو تھک کر اور عاجز ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اس موقع پر امام رازی نے نعمائے الٰہیہ کا بے شمار ہونا، اور علامہ ابو السعود نے ان کا غیر متناہی ہونا ذرا بسط سے بیان فرمایا ہے اور صاحب روح المعانی نے ان کے بیانات پر مفید اضافہ کیا۔ یہاں اس قدر تطویل کی گنجائش نہیں۔
جنس انسان میں بہتیرے بے انصاف اور ناسپاس ہیں، جو اتنے بیشمار احسانات دیکھ کر بھی منعم حقیقی کا حق نہیں پہچانتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ابراہیم نے کہا اے ہمارے رب! بنا دے اس شہر کو امن کی جگہ، اور مجھے اور میری اولاد کو اس سےدور رکھ کہ ہم بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ (۳۵)
تشریح: ہٰذَا الْبَلَدَ:اس سے مراد مکہ مکرمہ کا شہر ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ ہاجرہ ؓ اور اپنے صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حکم سے چھوڑا تھا، اس وقت یہاں کوئی آبادی نہیں تھی نہ بظاہر زندہ رہنے کا کوئی سامان، لیکن اللہ تعالی نے یہاں پہلے زمزم کا کنواں جاری فرمایا، جسے دیکھ کر قبیلہ جرہم کے لوگ یہاں آ کر حضرت ہاجرہؓ کی اجازت سے آباد ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ یہ ایک شہر بن گیا۔
(توضیح القرآن)
روسائے قریش جن کی ناشکر گزاری اور شرک و کفر کا بیان اوپر اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللہِ الخ میں ہوا تھا، انہیں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ یاد دلا کر متنبہ کرتے ہیں کہ تم جن کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے کعبۃ اللہ اور حرم شریف کے مجاور بنے بیٹھے ہو، انہوں نے اس کعبہ کی بنیاد خالص توحید پر رکھی تھی، ان ہی کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ نے یہ شہر مکہ آباد کیا اور پتھریلے ریگستان میں ظاہری و باطنی نعمتوں کے ڈھیر لگا دیے۔ وہ دنیا سے یہی دعائیں اور وصیتیں کرتے ہوئے رخصت ہوئے کہ ان کی اولاد شرک کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ اب تم کو سوچنا اور شرمانا چاہیے کہ کہاں تک ان کی وصایا کا پاس کیا یا ان کی دعا سے حصہ پایا اور کس حد تک خدا تعالیٰ کے احسانات پر شکر گزار ہوئے۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے رب!بیشک انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا، پس جس نے میری پیروی کی، بیشک وہ مجھ سے ہے، اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تو بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۳۶)
تشریح:مطلب یہ ہے کہ اپنی اولاد اور دوسرے لوگوں کو بت پرستی سے بچنے کی تاکید کرتا رہوں گا، پھر جو لوگ میری ان ہدایات پر عمل کریں گے، وہ تو مجھ سے تعلق رکھنے کا دعوی کر سکیں گے، لیکن جو میری بات نہیں مانیں گے، ان کے لئے میں بددعا نہیں کرتا، بلکہ اس کا معاملہ آپ پر چھوڑتا ہوں، آپ غفور رحیم ہیں، اس لئے ان کی مغفرت کا یہ راستہ بھی نکال سکتے ہیں کہ ان کو ہدایت عطا فرما دیں۔
(توضیح القرآن)
اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی کچھ اولاد کو ایک بغیر کھیتی والے میدان میں بسایا ہے تیرے احترام والے گھر کی نزدیک، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں، پس لوگوں کے دلوں کو (ایسا) کر دے کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں، اور انہیں پھلوں سے رزق دے، تاکہ وہ شکر کریں۔ (۳۷)
تشریح: رَبَّنَا إِنِّيْٓ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ: یعنی اسماعیل علیہ السلام کو۔ کیونکہ دوسری اولاد حضرت اسحاق وغیرہ شام میں تھے۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ حضرت اسماعیل کو بحالت شیر خوارگی اور ان کی والدہ ہاجرہ کو یہاں چٹیل میدان میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بعدہٗ قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں پہنچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کو تشنگی اور ہاجرہ کی بیتابی کو دیکھ کر فرشتے کے ذریعہ سے وہاں زمزم کا چشمہ جاری کر دیا۔ جرہم کے خانہ بدوش لوگ پانی دیکھ کر اتر پڑے اور ہاجرہ کی اجازت سے وہیں بسنے لگے۔ اسمعٰیل علیہ السلام جب بڑے ہوئے تو اسی قبیلہ میں ان کی شادی ہوئی۔ اس طرح جہاں آج مکہ ہے ایک بستی آباد ہو گئی۔ حضرت ابراہیم گاہ بگاہ ملک شام سے تشریف لایا کرتے تھے اور اس شہر اور شہر کے باشندوں کے لیے دعا فرماتے، کہ خداوندا! میں نے اپنی ایک اولاد کو اس بنجر اور چٹیل آبادی میں تیرے حکم سے تیرے معظم و محترم گھر کے پاس لا کر بسایا ہے تاکہ یہ اور اس کی نسل تیرا اور تیرے گھر کا حق ادا کریں تو اپنے فضل سے کچھ لوگوں کے دل ادھر متوجہ کر دے کہ وہ یہاں آئیں جس سے تیری عبادت ہو اور شہر کی رونق بڑھے، نیز ان کی روزی اور دل جمعی کے لیے غیب سے ایسا سامان فرما دے کہ (غلہ اور پانی جو ضروریات زندگی ہیں ان سے گزر کر) عمدہ میوے اور پھلوں کی یہاں افراط ہو جائے تاکہ یہ لوگ اطمینان قلب کے ساتھ تیری عبادت اور شکر گزاری میں لگے رہیں۔
(تفسیرعثمانی)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ایسی قبول ہوئی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مکہ مکرمہ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، موسم حج میں تو یہ نظارہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں سے لوگ مشقتیں اٹھا کر اس خشک اور بے آب و گیاہ علاقے میں پہنچتے ہیں، موسم حج کے علاوہ بھی لوگ بار بار عمرے اور دوسری عبادتوں کے لئے وہاں پہنچتے ہیں، اور جو ایک مرتبہ وہاں چلا جاتا ہے، اسے بار بار حاضری کا شوق لگا رہتا ہے، اور پھلوں کی افراط کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے پھل بڑی تعداد میں وہاں پہنچتے ہیں، حالانکہ وہاں کی زمین میں اپنا کوئی پھل پیدا نہیں ہوتا۔
(توضیح القرآن)
اے ہمارے رب! بیشک تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں، اور اللہ پر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں زمین میں اور نہ آسمان میں۔ (۳۸)
تشریح: یعنی زمین و آسمان کی کوئی چیز آپ سے پوشیدہ نہیں۔ پھر ہمارا ظاہر و باطن کیسے مخفی رہ سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے مجھے بڑھاپے میں بخشا اسمٰعیل اور اسحٰق، بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔ (۳۹)
تشریح:اس آیت کا مضمون بھی اس دعا کا تکملہ ہے، کیونکہ یہ دعا کے آداب میں سے ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی جائے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خصوصیت سے اس جگہ اللہ تعالی کی اس نعمت کا شکر ادا کیا کہ شدید بڑھا ہے کی عمر میں اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرما کر اولاد صالح حضرت اسمعیل اور حضرت اسحاق عطا فرمائے۔
(معارف القرآن)
اے میرے رب! مجھے بنا نماز قائم کرنے والا، اور میری اولاد کو بھی، اے ہمارے رب! میری عدی قبول فرما لے۔ (۴۰)
شریح: اس حمد و ثناء کے بعد پھر دعا میں مشغول ہو گئے، جس میں اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے نماز کی پابندی پر قائم رہنے کی دعا کی اور آخر میں پھر بطور الحاح کے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری دعا قبول فرمائیے۔
(معارف القرآن)
اے ہمارے رب!جس دن حساب قائم ہو گا (روز حساب) مجھے اور میرے ماں باپ کو، اور مؤمنوں کو بخش دے۔ (۴۱)
تشریح: یعنی اے میرے پروردگار! میری اور میرے والدین کی اور تمام مؤمنین کی مغفرت فرما، اس دن جب کہ محشر میں تمام زندگی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، اس میں والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعا فرمائی، حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ دعا اس وقت کی ہو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کافروں کی سفارش اور دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا تھا، جیسے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے، وَاغْفِرْلِیْ اَبیْ اِنَّہٗ کَا نَ مِنَ الضَّآلَّیْنَ۔
(معارف القرآن)
اور تم ہر گز گمان نہ کرنا کہ اللہ اس سے بے خبر ہے جو وہ ظالم کرتے ہیں، وہ صرف انہیں اس دن تک مہلت دیتا ہے، جس میں کھلی رہ جائیں گی آنکھیں۔ (۴۲)
تشریح:ایک رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ (انسان بڑا ظالم اور ناشکر گزار ہے) بعدہٗ حضرت ابراہیم کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی طرف اشارہ کیا۔ اس رکوع میں متنبہ فرماتے ہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان کی حرکات سے بے خبر ہے، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فوراً پکڑ کر تباہ کر دے۔ وہ بڑے بڑے ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آ جائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد تک پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خفا باقی نہ رہے۔ (تنبیہ) "لَا تَحْسَبَنَّ” کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گزر سکتا ہو۔ اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہو گا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا خیال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بھی نہ آسکتا تھا تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر واجب الاحتراز ہونا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اپنے سر (اوپر کو) اٹھائے ہوئے دوڑتے ہوں گے، ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی، اور ان کے دل ( خوف سے ) اُڑے ہوئے ہوں گے۔ (۴۳)
تشریح:یعنی محشر میں سخت پریشانی اور خوف و حیرت سے اوپر کو سر اٹھائے ٹکٹکی باندھے گھبرائے ہوئے چلے آئیں گے۔ جدھر نظر اٹھ گئی ادھر سے ہٹے گی نہیں، ہکا بکا ہو کر ایک طرف دیکھتے ہوں گے۔ ذرا پلک بھی نہ جھپکے گی۔ دلوں کا حال یہ ہو گا کہ عقل و فہم اور بہتری کی توقع سے یکسر خالی اور فرط دہشت و خوف سے اڑے جا رہے ہوں گے۔ غرض ظالموں کے لیے وہ سخت حسرت ناک وقت ہو گا۔ رہے مومنین قانتین سو ان کے حق میں دوسری جگہ آچکا ہے "لَایَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَّقُاھُمُ الْمَلَائِکَۃُ” (الانبیاء، رکوع٧، آیت ١٠٣)
(تفسیرعثمانی)
اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب آئے گا تو کہیں گے ظالم، اے ہمارے رب! ہمیں ایک تھوڑی مدت کے لئے مہلت دے دے کہ ہم تیری دعوت قبول کر لیں، اور ہم پیروی کریں رسولوں کی، کیا تم اس سے قبل قسمیں نہ کھاتے تھے؟کہ تمہارے لئے کوئی زوال نہیں۔ (۴۴)
تشریح: اگر یہ کہنا دنیا میں عذاب یا موت کی شدت دیکھ کر ہو تب تو مطلب ظاہر ہے کہ ابھی چند روز کی ہم کو اور مہلت دیجئے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ اپنا رویہ درست کر لیں گے۔ یعنی حق کی دعوت کو قبول کر کے انبیاء کی پیروی اختیار کریں گے کما قال تعالیٰ حَتّٰی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْ اَعْمَلُ صَالِحًا (المومنون، رکوع٦، آیت:٩٩، ١٠٠) اور اگر ان کا یہ مقولہ قیامت کے دن ہو گا۔ تب مہلت طلب کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کو دوبارہ تھوڑی مدت کے لیے دنیا میں بھیج دیجئے، پھر دیکھئے ہم کیسی وفاداری دکھلاتے ہیں کما قال تعالیٰ وَلَوْتَرٰی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا.
(السجدہ، رکوع٢، آیت:١٢)
ان کے جواب میں خدا کی طرف سے کہا جائے گا کہ: تم و ہی تو ہو جن میں کے بعض مغرور بے باک زبان قال سے اور اکثر زبان حال سے قسمیں کھاتے تھے کہ ہماری شان و شکوہ کو کبھی زوال نہیں، نہ کبھی مر کر خدا کے پاس جانا ہے۔ "وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَایَبْعَثُ اللہُ مَنْ یَّمُوْتُ”
(نحل، رکوع٥، آیت: ٣٨)
(تفسیرعثمانی)
اور تم رہے تھے ان لوگوں کے گھروں میں جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر ظاہر ہو گیا تھا کہ ہم نے ان سے کیسا سلوک کیا، ہم نے تمہارے لئے مثالیں بیان کیں۔ (۴۵)
تشریح: یعنی تمہارے پچھلے ان ہی بستیوں میں یا ان کے آس پاس آباد ہوئے جہاں اگلے ظالم سکونت رکھتے تھے۔ اور ان ہی کی عادات و اطوار اختیار کیں، حالانکہ یہ تاریخی روایات اور متواتر خبروں سے ان پر روشن ہو چکا تھا کہ ہم اگلے ظالموں کو کیسی کچھ سزا دے چکے ہیں اور ہم نے امم ماضیہ کے یہ قصے کتب سماویہ میں درج کر کے انبیاء علیہم السلام کی زبانی ان کو آگاہ بھی کر دیا تھا، مگر انہیں ذرہ بھر عبرت نہ ہوئی۔ اسی سرکشی، عناد اور عداوت حق پر اڑے رہے۔ حِکْمَۃٌ مبَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ .
(القمر، رکوع١، آیت :٥) (تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اپنے داؤ چلے اور اللہ کے آگے ہیں ان کے داؤ، اور اگرچہ ان کا داؤ ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ ٹل جاتے۔ (۴۶)
تشریح: یعنی سب اگلے پچھلے ظالم اپنے اپنے داؤ کھیل چکے ہیں۔ انبیاء کے مقابلہ میں حق کو دبانے اور مٹانے کی کوئی تدبیر اور سازش انہوں نے اٹھا نہیں رکھی۔ ان کی سب تدبیریں اور داؤ گھات خدا کے سامنے ہیں اور ایک ایک کر کے محفوظ ہیں وہ ہی ان کا بدلہ دینے والا ہے۔
انہوں نے بہتیرے داؤ کر کے دیکھ لیے مگر خدا کی حفاظت کے آگے سب ناکام رہے کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ان کی مکاریاں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ٹلا دیں یعنی انبیاء علیہم السلام اور شرائع حقہ جو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط و مستقیم ہوتے ہیں ان کی مکاریوں سے ڈگمگا جائیں؟ حاشا وکلاّ۔ اس تفسیر کے موافق وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ الخ میں "اِن” نافیہ ہو گا، اور آیت کا مضمون وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا، اِنَّکَ لَنْ َتخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا (بنی اسرائیل، رکوع٤، آیت ٣٧) کے مشابہ ہو گا۔ بعض مفسرین نے "اِن” شرطیہ اور واؤ وصلیہ لے کر آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے داؤ چلے جو حفاظت الٰہی کے سامنے ہیچ ثابت ہوئے۔ اگرچہ ان کے داؤ فی حد ذاتہ ایسے زبردست تھے جو ایک مرتبہ پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے ہلا ڈالیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس تو ہرگز خیال نہ کر کہ اللہ خلاف کرے گا اپنے رسولوں سے اپنا وعدہ، بیشک اللہ زبردست بدلہ لینے والا ہے۔ (۴۷)
تشریح:یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں سے جو وعدے فتح و نصرت اور کامیابی کے کئے ہیں وہ ان کے خلاف کرے گا، بلا شبہ اللہ تعالی زبردست اور انتقام لینے والا ہے اور ضرور اپنے پیغمبروں کے دشمنوں سے انتقام لے گا، اور پیغمبروں سے جو وعدے کئے ان کو پورا کرے گا۔
(معارف القرآن)
جس دن (اس) زمین سے بدل دی جائے گی اور زمین اور ( بدلے جائیں گے) آسمان، اور وہ سب اللہ یکتا و غالب کے آگے نکل کھڑے ہوں گے۔ (۴۸)
تشریح: قیامت کو یہ زمین و آسمان بہئیات موجودہ باقی نہ رہیں گے، یا تو ان کی ذوات ہی بدل دی جائیں گی یا صرف صفات میں تغیر ہو گا اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شاید متعدد مرتبہ تبدیل و تغیر کی نوبت آئے گی۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور تو دیکھے گا مجرم اس دن باہم زنجیروں میں جکڑے ہوں گے۔ (۴۹)
ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہرے ڈھانپے ہو گی۔ (۵۰)
تشریح: اہل جہنم کا یہ حال بتلایا گیا ہے کہ مجرم لوگوں کو ایک زنجیر میں باندھ دیا جائے گا، یعنی ہر جرم کے مجرم الگ الگ جمع کر کے یک جا باندھ دئے جائیں گے، اور ان کو جو لباس پہنایا جائے گا وہ قطران کا ہو گا جس کو تارکول کہا جاتا ہے اور وہ ایک آتش گیر مادہ ہے کہ آگ فوراً پکڑ لیتا ہے۔
(معارف القرآن)
تاکہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی (اعمال) کا بدلہ دے، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۵۱)
تشریح: یعنی جس بات کا پیش آنا بالکل یقینی ہے، اسے دور مت سمجھو کما قال تعالیٰ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء، رکوع١، آیت :١) یا یہ مطلب ہے کہ جس وقت حساب ہو گا پھر دیر نہ لگے گی۔ تمام اولین و آخرین، جن و انس کے ذرہ ذرہ عمل کا حساب بہت جلد ہو جائے گا۔ کیونکہ نہ خدا پر کوئی چیز مخفی ہے نہ اس کو ایک شان دوسری شان سے مشغول کرتی ہے۔ مَاخَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّاکَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ .
(لقمٰن، رکوع٣، آیت :٢٨)
(تفسیرعثمانی)
یہ (قرآن) لوگوں کے لئے پیغام ہے، اور تاکہ وہ اس سے ڈرائے جائیں، اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہی معبود یکتا ہے، اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔ (۵۲)
تشریح: یعنی خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور خدا سے ڈر کر اس کی آیات میں غور کریں جس سے اس کی وحدانیت کا یقین حاصل ہو اور عقل و فکر سے کام لے کر نصیحت پر کار بند ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۱۵۔ سورۃالحجر
تعارف
اس سورت کی آیت نمبر ۹۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ابتدائی زمانے میں ناز ل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے، سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے، یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی (معاذاللہ) مجنون کہتے اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے، ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر:۱۷ اور ۱۸ میں بیان فرمائی گئی ہے، ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لئے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر:۲۶تا ۴۴ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالی کی رحمت سے محروم کیا، کفار کی عبرت کے لئے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جا رہی ہے، ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ مؤثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں، نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے، سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حِجْر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر سورت کی آیت نمبر :۸۰ میں آیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۹۹ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الف۔ لام۔ را۔ یہ آیتیں ہیں کتاب کی، اور واضح (روشن) قرآن کی۔ (۱)
تشریح:یعنی یہ اس جامع اور عظیم الشان کتاب کی آیتیں ہیں جس کے مقابلہ میں کوئی دوسری کتاب "کتاب” کہلانے کی مستحق نہیں، اور اس قرآن کی آیتیں ہیں جس کے اصول نہایت صاف، دلائل روشن، احکام معقول، وجوہ اعجاز واضح اور بیانات شگفتہ اور فیصلہ کن ہیں، لہٰذا آگے جو کچھ بیان کیا جانے والا ہے مخاطبین کو پوری توجہ سے سننا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
بسا اوقات کافر آرزو کریں گے کاش وہ مسلمان ہوتے!۔ (۲)
تشریح: یعنی آج منکرین نے قرآن و اسلام جیسی عظیم الشان نعمت الٰہیہ کی قدر نہیں کی لیکن ایسا وقت آنے والا ہے جب یہ لوگ اپنی محرومی پر ماتم کریں گے اور دست حسرت مل کر کہیں گے کاش ہم مسلمان ہوتے! وہ وقت کب آئے گا؟ اس میں اختلاف ہوا ہے ہم ابن الانباری کے قول کے موافق اس کو عام رکھتے ہیں۔ یعنی دنیا و آخرت میں جو مواقع کافروں کی نامرادی اور مسلمانوں کی کامیابی کے پیش آتے رہیں گے ہر موقع پر کفار کو رو رو کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا اور نعمت اسلام سے محروم رہ جانے کی حسرت ہو گی۔ اس سلسلہ میں پہلا موقع تو جنگ بدر کا تھا جہاں کفار مکہ نے مسلمانوں کی طرف کھلا ہوا غلبہ اور تائید غیبی دیکھ کر اپنے دلوں میں محسوس کیا کہ جس اسلام نے فقراء مہاجرین اور اوس و خزرج کے کاشتکاروں کو اونچی ناک والے قریشی سرداروں پر غالب کیا، افسوس ہم اس دولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح اسلامی فتوحات و ترقیات کی ہر ایک منزل پر کفار کو اپنی تہی دستی و حرمان پر پچھتانے اور دل سے اشک حسرت بہانے کا موقع ملتا رہا۔ انتہائی حسرت و افسوس کا مقام وہ ہو گا جب فرشتہ جان نکالنے کے لیے سامنے کھڑا ہے اور عالم غیب کے حقائق آنکھوں سے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت ہاتھ کاٹیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے اسلام قبول کر لیا ہوتا کہ آج عذاب بعد الموت سے محفوظ رہ سکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یاس انگیز نظارہ وہ ہو گا جو طبرانی کی حدیث میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے بہت سے آدمی اپنے گناہوں کی بدولت جہنم میں جائیں گے اور جب تک خدا چاہے گا وہاں رہیں گے۔ بعدہٗ مشرکین ان پر طعن کریں گے کہ تمہارے ایمان و توحید نے تم کو کیا فائدہ دیا؟ تم بھی آج تک ہماری طرح دوزخ میں ہو، اس پر حق تعالیٰ کسی موحد کو جہنم میں نہ چھوڑے گا۔ یہ فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی "رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ۔ ” گویا یہ آخری موقع ہو گا جب کفار اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
انہیں چھوڑ دو، وہ کھائیں اور فائدہ اٹھا لیں، اور امید انہیں غفلت میں ڈالے رکھے، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔ (۳)
تشریح: یعنی جب کوئی نصیحت کارگر نہیں تو آپ ان کے غم میں نہ پڑیے بلکہ چند روز انہیں بہائم کی طرح کھانے پینے دیجئے۔ یہ خوب دل کھول کر دنیا کے مزے اڑا لیں اور مستقبل کے متعلق لمبی چوڑی امیدیں باندھتے رہیں عنقریب وقت آیا چاہتا ہے جب حقیقت حال کھل جائے گی اور اگلا پچھلا کھایا پیا سب نکل جائے گا۔ چنانچہ کچھ تو دنیا ہی میں مجاہدین کے ہاتھوں حقیقت کھل گئی۔ اور پوری تکمیل آخرت میں ہو جائے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور نہیں ہلاک کیا ہم نے کسی بستی کو، مگر اس کے لئے ایک لکھا ہوا مقررہ وقت۔ (۴)
تشریح: یعنی جس قدر بستیاں اور قومیں پہلے ہلاک کی گئیں، خدا کے علم میں ہر ایک کی ہلاکت کا ایک وقت معین تھا جس میں نہ بھول چوک ہو سکتی تھی نہ غفلت اور نہ خدا کا وعدہ ٹل سکتا تھا جب کسی قوم کی میعاد پوری ہوئی اور تعذیب کا وقت آ پہنچا، ایک دم میں غارت کر دی گئی۔ موجودہ کفار بھی امہال و تاخیر عذاب پر مغرور نہ ہوں۔ جب ان کا وقت آئے گا خدائی سزا سے بچ نہ سکیں گے۔ جو تاخیر کی جا رہی ہے اس میں خدا کی بہت حکمتیں ہیں۔ مثلاً ان میں سے بعض کا یا بعض کی اولاد کا ایمان لانا مقدر ہے۔ فوری عذاب کی صورت میں اس کے وقوع کی کوئی صورت نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
نہ کوئی امت سبقت کرتی ہے اپنے مقررہ وقت سے اور نہ وہ پیچھے رہتے ہیں۔ (۵)
تشریح: یعنی امم مہلکہ کی تخصیص نہیں بلکہ ہر قوم کے عروج و زوال یا موت و حیات کی جو میعاد مقرر ہے وہ اس سے ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ (کافر) بولے اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے بیشک تو دیوانہ ہے۔ (۶)
تشریح:مشرکین مکہ یہ الفاظ محض بطریق استہزاء و استخفاف کہتے تھے یعنی آپ سب سے آگے بڑھ کر خدا کے یہاں سے قرآن لے آئے، دوسروں کو احمق و جاہل بتلانے لگے بلکہ ساری دنیا کو الٹی میٹم دیا، اس پر یہ دعویٰ ہے کہ آخر مَیں ہی غالب ہوں گا اور ایک وقت آئے گا کہ منکرین حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہو جاتے۔ یہ کون سی عقل و ہوش کی باتیں ہیں؟ کھلی ہوئی دیوانگی ہے اور جو پڑھ کر سناتے ہو مجنون کی بڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔
(العیاذ باللہ)
(تفسیرعثمانی)
تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتا ؟اگر توسچوں میں سے ہے۔ (۷)
تشریح: اگر بارگاہِ احدیت میں آپ کو ایسا ہی قرب حاصل ہے اور ساری قوم میں سے خدا نے منصب رسالت کے لیے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انتخاب کیا ہے تو فرشتوں کی خدائی فوج آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کیوں نہ آئی۔ جو کھلم کھلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتی اور ہم سے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات منواتی، نہ مانتے تو فوراً سزا دیتی۔
(تفسیرعثمانی)
ہم نازل نہیں کرتے فرشتے مگر حق کے ساتھ، اور وہ اس وقت مہلت نہ دئیے جائیں گے۔ (۸)
تشریح: یعنی ماننے والوں کے لیے اب بھی کافی سے زائد نشان موجود ہیں۔ باقی جن کا ارادہ ہی ماننے کا نہیں وہ فرشتوں کے آنے پر بھی نہ مانیں گے پھر ان کے اتارنے میں کیا فائدہ ہے۔ حق تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر اپنی حکمت کے موافق کسی غرض صحیح کے لیے بھیجتے ہیں، یوں ہی بے فائدہ تماشا دکھلانا مقصود نہیں ہوتا۔ عموماً عادت اللہ یہ رہی ہے کہ جب کسی قوم کی سرکشی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور سارے مراحل تفہیم و ہدایت کے طے ہو جاتے ہیں تو فرشتوں کی فوج اس کے ہلاک کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہے پھر اس کو قطعاً مہلت نہیں دی جاتی۔ اگر تمہاری خواہش کے موافق فرشتے اتارے جائیں تو اس سے صرف یہ ہی ایک مقصد ہو سکتا ہے کہ تم کو بلاتا، خیر ہلاک کر دیا جائے جو فی الحال حکمت الٰہی کے موافق نہیں کیونکہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، یہ تو آخری صورت ہے جو سب منزلیں طے ہو چکنے اور سب کام ختم کیے جانے کے بعد ظہور پذیر ہوتی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک ہم ہی نے قرآن ناز ل کیا، اور بیشک ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ (۹)
تشریح: یعنی تمہارا استہزاء و تعنت اور قرآن لانے والے کی طرف جنون کی نسبت کرنا، قرآن و حامل قرآن پر قطعاً اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو اس قرآن کے اتارنے والے ہم ہیں اور ہم ہی نے اس کی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، جس شان اور ہیئت سے وہ اترا ہے بدون ایک شوشہ یا زبر زیر کی تبدیلی کے چار دانگ عالم میں پہنچ کر رہے گا اور قیامت تک ہر طرح کی تحریف لفظی و معنوی سے محفوظ و مضمون رکھا جائے گا۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر اس کے اصول و احکام کبھی نہ بدلیں گے، زبان کی فصاحت و بلاغت اور علم و حکمت کی موشگافیاں کتنی ہی ترقی کر جائیں، پر قرآن کی صوری و معنوی اعجاز میں اصلاً ضعف و انحطاط محسوس نہ ہو گا۔ اور سلطنتیں قرآن کی آواز کو دبانے یا گم کر دینے میں ساعی ہوں گی۔ لیکن اس کے ایک نقطہ کو گم نہ کر سکیں گی۔ حفاظت قرآن کے متعلق یہ عظیم الشان وعدہ الٰہی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا جسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب و مغرور مخالفوں کے سر نیچے ہو گئے۔ "میور” کہتا ہے "جہاں تک ہماری معلومات ہیں دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو۔ ایک اور یورپین محقق لکھتا ہے کہ ہم ایسے ہی یقین سے قرآن کو بعینہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں جیسے مسلمان اسے خدا کا کلام سمجھتے ہیں۔ "واقعات بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک جم غفیر علماء کا جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے ایسا رہا کیا جس نے قرآن کے علوم و مطالب اور غیر منقضی عجائب کی حفاظت کی۔ کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرزِ ادا کی، حافظوں نے اس کے الفاظ و عبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر زبر تبدیل نہ ہو سکا۔ کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے، کسی نے آیتیں شمار کیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی حتی کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کو شمار کر ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جا سکتی جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔ خیال کرو آٹھ دس سال کا ہندوستانی بچہ جسے اپنی مادری زبان میں دو تین جزء کا رسالہ یاد کرانا دشوار ہے وہ ایک اجنبی زبان کی اتنی ضخیم کتاب جو متشابہات سے پر ہے، کس طرح فرفر سنا دیتا ہے۔ پھر کسی مجلس میں ایک بڑے با وجاہت عالم و حافظ سے کوئی حرف چھوٹ جائے یا اعراب کی فروگذاشت ہو جائے تو ایک بچہ اس کو ٹوک دیتا ہے۔ چاروں طرف سے تصحیح کرنے والے للکارتے ہیں، ممکن نہیں کہ پڑھنے والے کو غلطی پر قائم رہنے دیں۔ حفظ قرآن کے متعلق یہ ہی اہتمام و اعتناء عہد نبوت میں سب لوگ مشاہدہ کرتے تھے۔ اسی کی طرف "وَاِنَّالہ لَحَافِظُوْنَ” فرما کر اس وقت کے منکرین کو توجہ دلائی۔
اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے گروہوں میں (رسول) بھیجے۔ (۱۰)
اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر وہ اس سے ہنسی کرتے تھے۔ (۱۱)
تشریح: آپ کو تسلی دی گئی کہ ان کی تکذیب و استہزاء سے دلگیر نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ منکرین کی عادت رہی ہے کہ جب کوئی پیغمبر آیا اس کی ہنسی اڑائی، کبھی مجنون کہا۔ کبھی محض دق کرنے کے لیے لغو اور دور از کار مطالبے کرنے لگے۔ فرعون نے موسٰی علیہ السلام کی نسبت کہا تھا "اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ” (شعراء، رکوع٢، آیت ٢٧) اور وہ ہی فرشتوں کی فوج لانے کا مطالبہ کیا جو قریش آپ سے کر رہے تھے۔ "لَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْجَآءَ مَعَہُ الْمَلٰئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ۔ ”
(زخرف، رکوع٥، آیت ٥٣)
اسی طرح ہم اسے ڈال دیتے ہیں گنہگاروں کے دلوں میں۔ (۱۲)
تشریح: یعنی جو لوگ ارتکاب جرائم سے باز نہیں آتے ہم ان کے دلوں میں اسی طرح استہزاء و تکذیب کی عادت جاگزیں کر دیتے ہیں۔ جب ان کے دل میں کانوں کے راستہ سے وحی الٰہی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ تکذیب بھی چلی جاتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اس (قرآن) پر ایمان نہیں لائیں گے، اور یہ پہلوں کی رسم پڑ چکی ہے۔ (۱۳)
تشریح: یعنی ہمیشہ یوں ہی جھٹلاتے اور ہنسی کرتے آئے ہیں اور سنت اللہ یہ رہی ہے کہ متمردین ہلاک و رسوا کیے جاتے رہے اور انجام کار حق کا بول بالا رہا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ اس میں (دن بھر) چڑھتے رہیں۔ (۱۴)
تو (یہی) کہیں گے کہ اس کے سوا نہیں کہ ہماری آنکھیں باندھ دی گئیں ہیں (ہماری نظر بند کر دی گئی ہے) بلکہ ہم جادو زدہ ہیں۔ (۱۵)
تشریح: یعنی فرشتوں کا اتارنا تو اس قدر عجیب نہیں، اگر ہم آسمان کے دروازے کھول کر خود انہیں اوپر چڑھا دیں اور یہ دن بھر اسی شغل میں رہیں، تب بھی ضدی اور معاند لوگ حق کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ اس وقت کہہ دیں گے کہ ہم پر نظر بندی یا جادو کیا گیا ہے۔ یا شاید ابتداء میں نظر بندی سمجھیں اور آخر میں بڑا جادو قرار دیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور یقیناً ہم نے آسمانوں میں برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے زینت دی۔ (۱۶)
تشریح: "برجوں” سے یہاں بڑے بڑے سیارات مراد ہیں بعض نے منازل شمس و قمر کا ارادہ کیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ برج وہ آسمانی قلعے ہیں جن میں فرشتوں کی جماعتیں پہرہ دیتی ہیں۔
آسمان کو ستاروں سے زینت دی۔ رات کے وقت جب بادل اور گرد و غبار نہ ہو، بیشمار ستاروں کے قمقموں سے آسمان دیکھنے والوں کی نظر میں کس قدر خوبصورت اور پر عظمت معلوم ہوتا ہے اور غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں کتنے نشان حق تعالیٰ کی صنعت کاملہ، حکمت عظیمہ اور وحدانیت مطلقہ کے پائے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان سے فرشتے اتارنے یا ان کو آسمان پر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ماننا چاہیں تو آسمان و زمین میں قدرت کے نشان کیا تھوڑے ہیں جنہیں دیکھ کر سمجھ دار آدمی توحید کا سبق بہت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ ایسے روشن نشان دیکھ کر انہوں نے کیا معرفت حاصل کی؟ جو آئندہ توقع رکھی جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ہر مردود شیطان سے اس کی حفاظت کی۔ (۱۷)
مگر جو چوری کر کے (چوری سے) سن لے، تو چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ (۱۸)
تشریح:یہ حقیقت قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمائی ہے کہ شیطان آسمان کے اوپر جا کر عالم بالا کی خبریں حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ خبریں کاہنوں اور نجومیوں تک پہنچائیں، اور وہ ان کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ انہیں غیب کی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں، لیکن آسمان میں ن کا داخلہ شروع ہی سے بند ہے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے یہ شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کی باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے تھے اور وہاں سے کوئی بات کان میں پڑ جاتی تواس کے ساتھ سینکڑوں جھوٹ ملا کر کاہنوں کو بتا دیتے تھے، اس طرح کبھی کوئی بات صحیح بھی نکل آتی تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد ان کو آسمان کے قریب جانے سے بھی روک دیا گیا، اب اگر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ایک شعلے کے ذریعے مار کر بھگا دیا جاتا ہے، اس حقیقت کی پوری تفصیل ان شاء اللہ سورۂ جن میں آئے گی۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا، اور ہم نے اس پر پہاڑ رکھے، اور اس میں ہر چیز موزوں اگائی۔ (۱۹)
تشریح: قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ شروع میں جب زمین کو سمندر پر بچھایا گیا تو وہ ڈولتی تھی، اس لئے اللہ تعالی نے پہاڑ پیدا فرمائے، تا کہ وہ زمین کو جما کر رکھیں، دیکھئے سورہ نحل آیت نمبر:۱۵
(توضیح القرآن)
اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان معیشت بنائے (اور اس کے لئے بھی) جسے تم رزق دینے والے نہیں۔ (۲۰)
تشریح: اگر چہ ہر چیز کو رزق تو حقیقت میں اللہ تعالی ہی دیتا ہے، لیکن بعض پالتو جانور ایسے ہیں جنہیں انسان ظاہری طور پر چارہ فراہم کرتا ہے، ان کے علاوہ اکثر مخلوقات ایسی ہیں جنہیں رزق مہیا کرنے میں ظاہری طور پر بھی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے، اس آیت میں اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ ہم نے انسانوں کے لئے بھی رزق کے سامان پیدا کئے ہیں اور ان مخلوقات کے لئے بھی جنہیں انسان ظاہری طور پر کوئی غذا فراہم نہیں کرتا۔
عربی گرامر کی رو سے اس آیت کا ترجمہ ایک اور طرح بھی ممکن ہے اور وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو تم رزق نہیں دیتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے فائدے کے لئے وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو وہ ظاہری طور پر بھی رزق نہیں دیتا مگر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسے شکار کے جانور۔
(توضیح القرآن)
اور کوئی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم نہیں اتارتے مگر ایک مناسب اندازے سے۔ (۲۱)
تشریح:یعنی جو چیز جتنی مقدار میں چاہے پیدا کر دے، نہ کچھ تعب ہوتا ہے نہ تکان، ادھر ارادہ کیا ادھر وہ چیز موجود ہوئی۔ گویا تمام چیزوں کا خزانہ اس کی لامحدود قدرت ہوئی جس سے ہر چیز حکمت کے موافق ایک معین نظام کے ماتحت ٹھہرے ہوئے اندازہ پر بلا کم و کاست نکلی چلی آتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ہوائیں بھیجیں (پانی سے) بھری ہوئیں، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا پھر وہ ہم نے تمہیں پلایا، اور تم اس کے خزانے ( جمع) کرنے والے نہیں۔ (۲۲)
تشریح: یعنی برساتی ہوائیں بھاری بھاری بادلوں کو پانی سے بھر کر لاتی ہیں، ان سے پانی برستا ہے جو نہروں چشموں اور کنوؤں میں جمع ہو کر تمہارے کام آتا ہے۔ خدا چاہتا تو اسے پینے کے قابل نہ چھوڑتا، لیکن اس نے اپنی مہربانی سے کس قدر شیریں اور لطیف پانی تمہارے بارہ مہینہ پینے کے لیے زمین کے مسام میں جمع کر دیا۔
نہ اوپر بارش کے خزانہ پر تمہارا قبضہ ہے، نہ نیچے چشمے اور کنوئیں تمہارے اختیار میں ہیں۔ خدا جب چاہے بارش برسائے، نہ تم روک سکتے ہو نہ اپنے حسب خواہش لا سکتے ہو اور اگر کنوؤں اور چشموں کا پانی خشک کر دے یا زیادہ نیچے اتار دے کہ تمہاری دسترس سے باہر ہو جائے تو کیسے قابو حاصل کر سکتے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک ہم (ہی) زندگی دیتے ہیں، اور ہم ہی مارتے ہیں، اور ہم ہی وارث ہیں۔ (۲۳)
تشریح: یعنی دنیا فنا ہو جائے گی، ایک خدا اپنی کامل صفات کے ساتھ باقی رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ہر کوئی مر جاتا ہے اور اس کی کمائی اللہ کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں تم میں سے آگے گزر جانے والے، اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں پیچھے رہ جانے والے۔ (۲۴)
تشریح: یعنی اگلا پچھلا کوئی شخص یا اس کے اعمال ہمارے احاطہ علمی سے باہر نہیں، حق تعالیٰ کو ازل سے ہر چیز کا تفصیلی علم ہے، اسی کے مطابق دنیا میں پیش آتا ہے اور اسی کے موافق آخرت میں تمام مخلوق کا انصاف کیا جائے گا۔
(تنبیہ) آگے بڑھنا اور پیچھے رہنا عام ہے۔ ولادت میں ہو یا موت میں، یا اسلام میں، یا نیک کاموں میں، صفوف صلوٰۃ میں آگے پیچھے رہنا بھی نیک کام کے ذیل میں آ گیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک تیرا رب (ہی) انہیں (روز قیامت) جمع کرے گا، بیشک وہ حکمت والا، علم والا ہے۔ (۲۵)
تشریح: یعنی ایک ایک ذرہ اس کے علم میں ہے۔ جب اس کی حکمت مقتضی ہو گی کہ سب کو بیک وقت انصاف کے لیے اکٹھا کیا جائے تو کچھ دشواری نہ ہو گی۔ قبر کی مٹی، جانوروں کے پیٹ، سمندر کی تہ، ہوائی فضا میں یا جہاں کہیں کسی چیز کا کوئی جز ہو گا، وہ اپنے علم محیط اور قدرت کاملہ سے جمع کر دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق ہم نے انسان کو پیدا کیا ایک کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے۔ (۲۶)
تشریح:اس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہے، جسکا مفصل واقعہ سورۂبقرۃ (۲۔ ۳۰، ۳۴) میں گزر چکا ہے اور وہاں فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے سے متعلق ضروری نکات بھی بیان ہو چکے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور جنوں کو اس سے پہلے ہم نے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا۔ (۲۷)
تشریح:جس طرح انسان کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اسی طرح جنات میں سب سے پہلے جس جن کو پیدا کیا گیا اس کا نام جان تھا اور اسے آگ سے پیدا کیا گیا تھا۔
(توضیح القرآن)
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بیشک میں انسان کو بنانے والا ہوں ایک کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے۔ (۲۸)
پھر جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تواس کے لئے سجدہ میں گر پڑو۔ (۲۹)
پس سجدہ کیا سب کے سب فرشتوں نے۔ (۳۰)
ابلیس کے سوا، اس نے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو۔ (۳۱)
اس نے فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ توسجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔ (۳۲)
اس نے کہا میں (وہ) نہیں ہوں کہ سجدہ کروں انسان کو، تو نے اس کو کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔ (۳۳)
اللہ نے فرمایا پس یہاں (جنت) سے نکل جا بیشک تو مردود ہے۔ (۳۴)
اور بیشک تجھ پر روز انصاف (قیامت) تک لعنت ہے۔ (۳۵)
تشریح: یعنی قیامت کے دن تک خدا کی پھٹکار اور بندوں کی طرف سے لعنت پڑتی رہے گی۔ اس طرح آناً فاناً خیر سے بعید تر ہوتا رہے گا۔ جب قیامت تک توفیق خیر کی نہ ہو گی تو اس کے بعد تو کوئی موقع ہی نہیں کیونکہ آخرت میں ہر شخص وہ ہی کاٹے گا جو یہاں بویا ہے۔ یا یوں کہو کہ قیامت کے دن تک لعنت رہے گی۔ اس کے بعد جو بے شمار قسم کے عذاب ہوں گے وہ لعنت سے کہیں زیادہ ہیں، یا "اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ” کا لفظ دوام سے کنایہ ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میرے رب مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن مردے اٹھائے جائیں گے۔ (۳۶)
اس نے فرمایا بیشک تو مہلت دئے جانے والوں میں سے ہے۔ (۳۷)
اس دن تک جس کا وقت مقرر ہے۔ (۳۸)
تشریح:شیطان نے مہلت تو روز حشر تک کے لئے مانگی تھی، لیکن اللہ تعالی نے اس وقت کے بجائے ایک اور معین وقت تک کے لئے اسے مہلت دی، اکثر مفسرین کے مطابق وہ پہلے صور کے پھونکنے تک ہے جس کے بعد ساری مخلوقات کو موت آئے گی، اس وقت شیطان کو بھی موت آ جائے گی۔
(توضیح القرآن)
اس نے کہا اے میرے رب ! جیسا کے تو نے مجھے گمراہ کیا تو میں ضرور ان کے لئے (گناہ کو) زمین میں آراستہ کروں گا، اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ (۳۹)
سوائے ان میں سے جو تیرے مخلص بندے ہیں۔ (۴۰)
تشریح:یعنی دنیا کی بہاریں دکھلا کر خواہشات نفسانی کے جال میں پھنساؤں گا اور تیرے مخصوص و منتخب بندوں کے سوا سب کو راہ حق سے ہٹا کر رہوں گا۔ یہ کلمات لعین نے جوش انتقام میں کہے۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتا، لیکن جس کی وجہ سے میں دور پھینکا گیا ہوں اپنی قدرت اور بساط کے موافق اس کی نسلوں تک سے بدلہ لے کر چھوڑوں گا۔ سورہ "اعراف” میں اس موضوع پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے ملاحظہ کیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے فرمایا یہ راستہ سیدھا مجھ تک (آتا ہے) ۔ (۴۱)
تشریح:اللہ تعالی نے اسی وقت واضح فرما دیا کہ جو لوگ اخلاص اور بندگی کا راستہ اختیار کریں گے وہ سیدھا مجھ تک پہنچے گا اور ایسے لوگوں پر شیطان کے بہکاوے کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔
(توضیح القرآن)
بیشک وہ میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں، مگر گمراہوں میں سے جس نے تیری پیروی کی۔ (۴۲)
تشریح:میرے بندوں سے مراد وہ بندے ہیں جو اللہ تعالی کے حکم پر چلنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہوں، ایسے لوگوں پر شیطان کا زور نہ چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان انہیں بھی گمراہ کرنے کی کوشش تو کرے گا لیکن وہ اپنے اخلاص اور اللہ تعالی کے فضل سے اس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔
(توضیح القرآن)
اور بیشک ان سب کے لئے جہنم وعدہ گاہ ہے۔ (۴۳)
تشریح: یعنی تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لیے دوزخ کا جیل خانہ تیار ہے تم سب اسی گھاٹ اتارے جاؤ گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان کا ایک حصہ تقسیم شدہ ہے۔ (۴۴)
تشریح: بعض سلف نے "سَبَعَۃُ اَبْوَابٍ” سے دوزخ کے سات طبقے اوپر نیچے مراد لیے ہیں، چنانچہ ان کے نام ابن عباس نے یہ بتلائے ہیں:
۱۔ جہنم
۲۔ سعیر
۳۔ لظیٰ
۴۔ حطمہ
۵۔ سقر
۶۔ جحیم
۷۔ ہاویہ
اور لفظ "جہنم” ایک خاص طبقہ اور مجموعہ طبقات دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک سات دروازے مراد ہیں، جن سے الگ الگ دوزخی داخل ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جیسے بہشت کے آٹھ دروازے ہیں نیک عمل والوں پر بانٹے ہوئے، ویسے "دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں بد عمل والوں پر بانٹے ہوئے۔ شاید بہشت کا ایک دروازہ اس لیے ہے کہ بعضے موحدین نرے فضل سے جنت میں جائیں گے بغیر عمل کے۔ باقی عمل میں دروازے برابر ہیں۔ ”
(تفسیرعثمانی)
بیشک پرہیز گار باغوں اور چشموں میں ( ہوں گے) ۔ (۴۵)
تم ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف خطر داخل ہو۔ (۴۶)
تشریح: جو لوگ کفر و شرک اور معاصی و ذنوب سے پرہیز کرتے ہیں، وہ حسب مراتب جنت کے باغوں میں رہیں گے جہاں بڑے قرینہ سے چشمے اور نہریں بہتی ہوں گی شیطان کے متبعین کے بعد یہ عبادِ مخلصین کا انجام بیان فرمایا۔
اُدْخُلُوْہا بِسَلَامٍ اٰمِنِيْنَ: فی الحال تمام آفات و عیوب سے صحیح و سالم اور آئندہ ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی فکر، پریشانی، گھبراہٹ اور خوف و ہراس سے بے کھٹکے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ان کے سینوں سے کھینچ لئے کینے، بھائی بھائی (بن کر) تختوں پر آمنے سامنے (بیٹھے ہوئے) ۔ (۴۷)
تشریح: یعنی جنت میں پہنچ کر اہل جنت میں باہم کوئی گذشتہ کدورت باقی نہ رہے گی۔ بالکل پاک و صاف کر کے داخل کیے جائیں گے، نہ وہاں ایک کو دوسرے پر حسد ہو گا، بلکہ بھائی بھائی ہو کر انتہائی محبت و الفت سے رہیں گے۔ ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسرورو محفوظ ہو گا۔ اس کا کچھ بیان سورہ اعراف آٹھویں پارہ کے اخیر ربع میں گزر چکا۔
عزت و کرامت کے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کریں گے، ملاقات وغیرہ کے وقت ایسی نشست نہ ہو گی جس میں کوئی آگے کوئی پیچھے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اس میں انہیں کوئی تکلیف نہ چھوئے گی، اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (۴۸)
تشریح:حدیث میں ہے کہ جنتیوں سے کہا جائے گا، اے اہل جنت! اب تمہارے لیے یہ ہے کہ ہمیشہ تندرست رہو، کبھی بیماری نہ ستائے، ہمیشہ زندہ رہو کبھی موت نہ آئے۔ ہمیشہ آرام سے مقیم رہو، کبھی سفر کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔
(تفسیرعثمانی)
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ بیشک میں بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ (۴۹)
اور یہ کہ میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔ (۵۰)
تشریح: "مجرمین” اور "متقین” کا الگ الگ انجام بیان فرما کر یہاں تنبیہ کی ہے کہ ہر ایک صورت میں حق تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت و شان کا ظہور ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اصل سے اپنی تمام مخلوق پر بخشش اور مہربانی کرنا چاہتا ہے اور حقیقت میں اصل مہربانی اسی کی ہے، تمام دنیا کی مہربانیاں اس کی مہربانی کا پرتو ہیں لیکن جو شخص خود شرارت و بدکاری سے مہربانی کے دروازے اپنے اوپر بند کر لے تو پھر اس کی سزا بھی ایسی سخت ہے جس کے روکنے کی کوئی تدبیر نہیں۔
آگے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس میں فرشتوں کے اترنے کا ذکر ہے۔ و ہی فرشتے ایک جگہ خوشخبری سناتے اور دوسری جگہ پتھر برساتے تھے، تاکہ معلوم ہو کہ خدا کی دونوں صفتیں (رحمت و غضب) پوری ہیں۔ بندوں کو چاہیے نہ دلیر ہوں، نہ آس توڑیں۔
(ملخص تفسیر عثمانی)
اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (حال) سنادو۔ (۵۱)
جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کہا، اس نے کہا ہمیں تم سے ڈر لگتا ہے۔ (۵۲)
تشریح:سورۂ ہود میں گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو انسان سمجھ کر انکی مہمانی کے لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے کر آئے تھے، لیکن انہوں نے کھانے سے پرہیز کیا جو اس علاقے کے رواج کے مطابق اس بات کی علامت تھی کہ یہ کوئی دشمن ہیں اور کسی برے ارادے سے آئے ہیں اس لئے انہیں خوف محسوس ہوا۔
(توضیح القرآن)
انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں علم والے کی۔ (۵۳)
تشریح: یعنی ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ خوش ہونے کا موقع ہے۔ اس بڑھاپے میں ہم تم کو اولاد کی خوشخبری سناتے ہیں۔ اولاد بھی کیسی؟ لڑکا نہایت ہوشیار، بڑا عالم، جسے پیغمبرانہ علوم دے کر منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا۔ "وَبَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ۔ ”
(صافّات، رکوع٣، آیت ١١٢)
(تفسیرعثمانی)
اس (ابراہیم) نے کہا کیا تم مجھے اس حال میں خوشخبری دیتے ہو کہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا ہے؟سو کس بات کی خوشخبری دیتے ہو؟۔ (۵۴)
وہ بولے ہم نے تمہیں خوشخبری دی ہے سچائی کے ساتھ، آپ مایوس ہونے والوں میں سے نہ ہوں۔ (۵۵)
تشریح: چونکہ غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر خوشخبری سنی، تو پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سی معلوم ہوئی۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جب آدمی کوئی مسرت انگیز خبر خلاف توقع غیر معمولی طریقہ سے اچانک سنے تو باوجود یقین آ جانے کے اسے خوب کھود کرید کر دریافت کرتا اور لہجہ تعجب کا اختیار کر لیتا ہے، خبر دینے والا پوری تاکید و تصریح سے خوشخبری کو دہرائے جس میں نہ کسی قسم کی غلط فہمی کا احتمال رہے نہ تاویل و التباس کا۔ گویا اظہارِ تعجب سے بشارت کو خوب واضح اور پختہ کرانا اور تکرار سماع سے لذت حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرز میں حضرت ابراہیم نے اظہار تعجب فرمایا۔ ابن کثیر کے الفاظ یہ ہیں۔ "قال متعجباً من کبرہ وکبر زوجتہ ومتحققًا للوعد فاجابوہ مؤکدین لمابشروہ بہ تحقیقًا وبشارۃ بعد بشارۃٍ” چونکہ سطح کلام سے نا امیدی کا تو ہم ہو سکتا ہے۔ جو اکابر خصوصاً اولوالعزم پیغمبروں کی شان کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے ملائکہ نے "، فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْقَانِطِیْنَ” کہہ کر تنبیہ کی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "معلوم ہوا کہ کاملین بھی (کسی درجہ میں) ظاہری اسباب پر خیال رکھتے ہیں۔ ”
اس نے کہا اپنے رب کی رحمت سے کون مایوس ہو گا، گمراہوں کے سوا۔ (۵۶)
تشریح:یعنی رحمت الٰہیہ سے نا امید تو عام مسلمان بھی نہیں ہو سکتے۔ چہ جائیکہ انبیاء علیہم السلام کو معاذ اللہ یہ نوبت آئے محض اسباب عادیہ اور اپنی حالت موجودہ کے اعتبار سے ایک چیز عجیب معلوم ہوئی، اس پر میں نے اظہار تعجب کیا ہے کہ خدا کی قدرت اب بڑھاپے میں مجھے اولاد ملے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "عذاب سے نڈر ہونا اور فضل سے نا امید ہونا دونوں کفر کی باتیں ہیں یعنی آگے کی خبر اللہ کو ہے۔ ایک بات پر دعویٰ کرنا یقین کر کے یوں نہیں ہو سکتا یہی کفر کی بات ہے باقی محض دل کے خیال و تصور پر پکڑ نہیں جب منہ سے دعویٰ کرے تب گناہ ہوتا ہے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے فرشتو! پس تمہاری مہم کیا ہے، ۔ (۵۷)
تشریح: یعنی کیا محض یہ بشارت سنانے کے لیے ہی بھیجے گئے ہو۔ یا کوئی اور مہم ہے جس پر مامور ہو کر آئے ہو۔ غالباً قرائن سے ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ اصل مقصد تشریف آوری کا کچھ اور ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے بیشک ہم بھیجے گئے ہیں مجرموں کی ایک قوم کی طرف۔ (۵۸)
سوائے لوط کے گھر والوں کے، البتہ ہم ان سب کو بچا لیں گے۔ (۵۹)
سوائے اس کی عورت کے، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بیشک پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (۶۰)
پس جب فرشتے لوط کے گھر والوں کے پاس آئے (۶۱)
اس نے کہا بیشک تم ناآشنا لوگ ہو۔ (۶۲)
تشریح: یا تو یہ مطلب تھا کہ تم مجھے غیر معمولی سے آدمی معلوم ہوتے ہو جنہیں دیکھ کر خواہ مخواہ دل کھٹکتا ہے۔ یہ شاید ویسا ہی کھٹکا ہو گا جو ابراہیم علیہ السلام کے دل میں پیدا ہوا تھا یا یہ غرض ہو کہ تم اس شہر میں اجنبی ہو، تم کو یہاں کے لوگوں کی خوئے بد معلوم نہیں، دیکھئے وہ تمہارے ساتھ کیسا سلوک کریں، یا یہ اس وقت فرمایا جب لوگوں نے فرشتوں کو حسین لڑکے سمجھ کر لوط کے مکان پر چڑھائی کی۔ لوط علیہ السلام انہیں مہمان سمجھتے ہوئے امکانی مدافعت کرتے رہے۔ حتیٰ کہ آخر میں نہایت حسرت سے فرمایا "لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْاٰوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ” اس وقت تنگ ہو کر اور گھبرا کر ان مہمانوں سے کہنے لگے کہ تم عجیب طرح کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ میں تمہاری آبرو بچانے کے لیے خون پسینہ ایک کر رہا ہوں لیکن تم میری امداد کے لیے ذرا ہاتھ بھی نہیں ہلاتے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے بلکہ ہم تمہارے پاس اس (عذاب) کے ساتھ آئے ہیں جس میں وہ شک کرتے تھے۔ (۶۳)
تشریح: یعنی گھبراؤ مت۔ ہم آدمی نہیں ہیں، ہم تو آسمان سے وہ چیز لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ تم سے جھگڑا کرتے تھے۔ یعنی مہلک عذاب جس کی تم دھمکی دیتے اور یہ انکار کرتے تھے۔
(تفسیر عثمانی)
اور ہم تمہارے پاس حق کے ساتھ آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں۔ (۶۴)
تشریح: یعنی اب آپ بالکل مطمئن ہو جائیے۔ یہ بالکل پکی اور اٹل بات ہے جس میں قطعاً جھوٹ کا احتمال نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس اپنے گھر والوں کو رات کے ایک حصہ میں (کچھ رات رہے) لے نکلیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں، اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، اور چلے جاؤ جیسے تمہیں حکم دیا گیا۔ (۶۵)
تشریح: یعنی جب تھوڑی رات رہے اپنی گھر والوں کو بستی سے لے کر نکل جائیے اور آپ سب کے پیچھے رہیے تاکہ پورا اطمینان رہے کہ کوئی رہ تو نہیں گیا یا راستہ سے واپس تو نہیں ہوا۔ اس صورت میں آپ کا قلب مطمئن رہے گا اور دل جمعی سے خدا کے ذکر و شکر میں مشغول رہتے ہوئے رفقاء کی دیکھ بھال رکھیں گے۔ دوسری طرف آپ کے بقیہ پیچھے ہونے کی وجہ سے آگے چلنے والوں کو آپ کا رعب مانع ہو گا کہ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ اس طرح وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ کا پورا امتثال ہو سکے گا اور وہ لوگ خطرہ کے مقام سے بعید رہیں گے اور آپ کو اپنا ظاہری پشتیباں سمجھیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اس کی طرف اس بات کا فیصلے بھیج دیا کہ صبح ہوتے ان لوگوں کی جڑ کٹ جائے۔ (۶۶)
تشریح: یعنی لوط علیہ السلام کو ملائکہ کے توسط سے ہم نے اپنا قطعی فیصلہ سنا دیا کہ عذاب کچھ دور نہیں۔ ابھی صبح کے وقت اس قوم کا بالکلیہ استیصال کر دیا جائے گا۔ شاید یہ مطلب ہو کہ صبح ہوتے ہی عذاب شروع ہو جائے گا اور اشراق تک سب معاملہ ختم کر دیا جائے گا، کیونکہ وہ دوسری جگہ "مُصْبِحِیْنَ” کے بجائے "مُشْرِقِیْنَ” کا لفظ آیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے، اس (لوط) نے کہا یہ میرے مہمان ہیں، مجھے رسوا نہ کرو۔ (۶۸)
تشریح: یعنی جب سنا کہ لوط کے یہاں بڑے حسین و جمیل لڑکے مہمان ہیں تو اپنی عادت بد کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور دوڑتے ہوئے ان کے مکان پر آئے اور لوط سے مطالبہ کیا کہ انہیں ہمارے حوالہ کر دو۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ سے ڈرو اور مجھے خوار نہ کرو۔ (۶۹)
تشریح: یعنی خدا سے ڈر کر یہ بے حیائی کے کام چھوڑ دو اور اجنبی مہمانوں کو دق مت کرو۔ آخر میں تم میں رہتا ہوں، میری آبرو کا تمہیں کچھ پاس کرنا چاہیے میں مہمانوں کی نظر میں کس قدر حقیر ہوں گا جب یہ سمجھیں گے کہ بستی میں ایک آدمی بھی ان کی عزت نہیں کرتا نہ ان کا کہنا مانتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے کیا ہم نے تجھے سارے جہاں (کی حمایت) سے منع نہیں کیا؟۔ (۷۰)
تشریح:یعنی ہم بے آبرو نہیں کرتے آپ خود بے آبرو ہوتے ہیں۔ جب ہم منع کر چکے کہ تم کسی اجنبی کو پناہ مت دو نہ اپنا مہمان بناؤ۔ ہم کو اختیار ہے باہر سے آنے والوں کے ساتھ جس طرح چاہیں پیش آئیں۔ پھر آپ کو کیا ضرورت پیش آئی کہ خواہ مخواہ ان نوجوانوں کو اپنے یہاں ٹھہرا کر فضیحت ہوئے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ اجنبی مسافروں کو اپنے افعال شنیعہ کا تختہ مشق بناتے ہوں گے اور حضرت لوط علیہ السلام اپنے مقدور کے موافق غریب مسافروں کی حمایت اور ان اشقیاء کو نالائق حرکتوں سے باز رکھتے ہوں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں (ان سے نکاح کر لو) اگر تمہیں کرنا ہے۔ (۷۱)
تشریح:یعنی بیشک تم نے مجھ کو اجنبی لوگوں کی حمایت سے روکا لیکن میں پوچھتا ہوں آخر اس روکنے کا منشاء کیا ہے؟ یہ ہی نہ کہ میں تمہاری خلاف فطرت شہوت رانی کے راستہ میں حائل ہوتا ہوں۔ تو خود غور کرو کیا قضائے شہوت کے حلال مواقع تمہارے سامنے موجود نہیں جو ایسی بیہودہ حرام کاری کے مرتکب ہوتے ہو؟ یہ تمہاری بیویاں (جو میری بیٹیوں کے برابر ہیں) تمہارے گھروں میں موجود ہیں، اگر تم میرے کہنے کے موافق عمل کرو اور قضائے شہوت کے مشروع و معقول طریقہ پر چلو، تو حاجت براری کے لیے وہ کافی ہیں۔ یہ کیا آفت ہے کہ حلال اور ستھری چیز کو چھوڑ کر حرام کی گندگی میں ملوث ہوتے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
(اے محمد) تمہاری جان کی قسم! یہ لوگ بیشک اپنے نشہ میں مدہوش تھے۔ (۷۲)
پس انہیں سورج نکلتے چنگھاڑ نے آ لیا۔ (۷۳)
تشریح: ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔ یعنی تیری جان کی قسم لوط کی قوم غفلت اور مستی کے نشہ میں بالکل اندھی ہو رہی تھی وہ بڑی لاپروائی سے حضرت لوط کی نصیحت بلکہ لجاجت کو ٹھکرا رہے تھے۔ ان کو اپنی قوت کا نشہ تھا، شہوت پرستی نے ان کے دل و دماغ مسخ کر دیے تھے۔ وہ بڑے امن و اطمینان کے ساتھ پیغمبر خدا سے جھگڑ رہے تھے۔ نہیں جانتے تھے کہ صبح تک کیا حشر ہونے والا ہے۔ تباہی اور ہلاکت کی گھڑی ان کے سر پر منڈلا رہی تھی، وہ لوط کی باتوں پر ہنستے تھے اور موت انہیں دیکھ کر ہنس رہی تھی (تنبیہ) ابن عباس نے فرمایا خدا تعالیٰ نے دنیا میں کوئی جان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے زیادہ اکرم و اشرف پیدا نہیں کی۔ میں نے خدا کو نہیں سنا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان عزیز کے سوا کسی دوسری جان کی قسم کھائی ہو۔ قرآن کریم میں جو قسمیں آئی ہیں ان کے متعلق ہم انشاء اللہ کسی دوسری جگہ ذرا مفصل کلام کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
پس ہم نے اس (بستی) کا اوپر کا حصہ نیچے (تہ و بالا) کر دیا اور ہم نے ان پر کھنگر کے پتھر برسائے۔ (۷۴)
بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۷۵)
تشریح: "متوسم” اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بعض ظاہری علامات و قرائن دیکھ کر محض فراست سے کسی پوشیدہ بات کا پتہ لگا لے۔ حدیث میں ہے "اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ، یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ” بعض روایات میں "وَبِتَوْفِیْقِ اللہِ” کی زیادت ہے، یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو، وہ خدا تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے نورِ توفیق سے دیکھتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک وہ (بستی) سیدھے راستہ پر (واقع ) ہے (۶۶)
بیشک اس میں ایمان والوں کے لئے نشانی ہے۔ (۷۷)
تشریح:حضرت لوط علیہ السلام کی بستیاں اردن کے بحیرۂ مردار کے آس پاس واقع تھیں، اور عرب کے لوگ جب شام کا سفر کرتے تو ان بستیوں کے آثار ان کے راستے میں پڑتے تھے۔
یعنی ان کھنڈرات کو دیکھ کر بالخصوص مومنین کو عبرت ہوتی ہے، کیونکہ و ہی سمجھتے ہیں کہ اس قوم کی بدکاری اور سرکشی کی سزا میں یہ بستیاں الٹی گئیں۔ مومنین کے سوا دوسرے لوگ تو ممکن ہے انہیں دیکھ کر محض بخت و اتفاق یا اسباب طبیعہ کا نتیجہ قرار دیں۔
(توضیح القرآن)
اور تحقیق قوم شعیب کے لوگ ظالم تھے۔ (۷۸)
اور ہم نے ان سے بدلہ لیا، اور وہ دونوں (بستیاں واقع ہیں) ایک کھلے راستہ پر۔ (۷۹)
تشریح: بن کے رہنے والے یعنی قوم شعیب شہر "مدین” میں رہتے تھے جس کے نزدیک درختوں کا بن تھا کچھ وہاں رہتے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں "اصحاب أیکہ” اور "اصحاب مدین”دو جدا گانہ قومیں ہیں۔ حضرت شعیب دونوں کی طرف مبعوث ہوئے۔ ان لوگوں کا گناہ شرک و بت پرستی، ڈاکہ زنی اور ناپ تول میں فریب اور دھوکہ کرنا تھا۔ پہلے سورہ ہود و اعراف میں ان کا مفصل قصہ گزر چکا ہے ملاحظہ کر لیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور البتہ حجر کے رہنے والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۸۰)
اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں پس وہ ان سے منہ پھیرنے والے تھے۔ (۸۱)
تشریح:حِجر (حا کے نیچے زیر) قوم ثمود کی ان بستیوں کا نام تھا جن کے پاس حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا، ان کا واقعہ بھی سورۂ اعراف آیت نمبر ۷۳تا ۷۹ میں گزر چکا ہے، ان کے تعارف کے لئے اسی سورت کی مذکورہ آیات پر ہمارے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔
(توضیح القرآن)
اور وہ پہاڑوں سے بے خوف و خطر گھر تراشتے تھے۔ (۸۲)
تشریح: یعنی دنیاوی زندگی پر مغرور ہو کر تکبر و تجبر کی نمائش کے لیے پہاڑوں کو تراش کر بڑے عالی شان مکان بناتے تھے۔ گویا کبھی یہاں سے جانا نہیں، یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ ایسی مضبوط و مستحکم عمارتوں میں کوئی آفت کہاں پہنچ سکتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس انہیں صبح ہوتے چنگھاڑ نے آ لیا۔ (۸۳)
تو جو وہ کمایا کرتے تھے (ان کا کیا دھرا) ان کے کام نہ آیا۔ (۸۴)
تشریح: یعنی مال و دولت، مستحکم عمارات، جسمانی قوت اور دوسرے اسباب و وسائل میں سے کوئی چیز بھی خدا کے عذاب کو دفع نہ کر سکی۔ ان کا قصہ بھی پہلے گزر چکا۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے "وادی حجر” پر سے گزرے۔ آپ نے سر ڈھانپ لیا۔ سواری کی رفتار تیز کر دی اور صحابہ کو فرمایا کہ معذب قوم کی بستیوں پر مت داخل ہونا مگر (خدا کے خوف سے) روتے ہوئے اگر رونا نہ آئے تو رونے والوں کی صورت بنالو۔ خدا نہ کرے وہ چیز تم کو پہنچے جو ان کو پہنچی تھی۔ یہ آپ نے مسلمانوں کو ادب سکھلایا کہ آدمی اس قسم کے مقامات میں پہنچ کر عبرت حاصل کرے اور خدا کے خوف سے لرزاں و ترساں ہو، محض سیرو تماشا نہ سمجھے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا مگر حق (حکمت) کے ساتھ، اور بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے پس اچھی طرح درگزر کرو۔ (۸۵)
بیشک تمہارا رب ہی پیدا کرنے والا جاننے والا ہے۔ (۸۶)
تشریح:یعنی اس کائنات کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نیک لوگوں کو آخرت میں انعام دیا جائے، اور نافرمانوں کو سزا دی جائے، لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ان کافروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ ان کا فیصلہ اللہ تعالی خود کرے گا۔
درگزر سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کو تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کو سزا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، مکی زندگی میں ان سے لڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی، اور ان کی طرف سے جو اذیتیں مسلمانوں کو پہنچ رہی تھیں، ان کا بدلہ لینے کا بھی حکم نہیں تھا، در گزر کرنے سے یہ مراد ہے کہ فی الحال ان سے کوئی بدلہ بھی نہ لو، اس طرح مسلمانوں کو تکلیفوں کی بھٹی سے گزار کر ان میں اعلی اخلاق پیدا کئے جا رہے تھے۔
(توضیح القرآن)
اور تحقیق ہم نے تمہیں (سورۂ فاتحہ کی) بار بار دہرائی جانے والی سات (آیات) دیں اور عظمت والا قرآن۔ (۸۷)
تشریح: اس سے مراد سورۂ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں، غالباً اس موقع پر سورۂ فاتحہ کا خصوصی حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سورت میں بندوں کو ایاک نعبد و ایاک نستعین کے ذریعے ہر بات اللہ سے مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، گویا یہ ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آئے، اللہ تعالی سے رجوع کر کے اسی سے مدد مانگو، اور اسی سے صراط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرو۔
(توضیح القرآن)
اور ہر گز اپنی آنکھیں نہ بڑھائیں (آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں) (ان چیزوں کی) طرف جو ہم نے ان کے کئی جوڑوں (گروہوں) کو دیں، اور ان پر غم نہ کھائیں، اور اپنے بازو جھکا دیں مؤمنوں کے لئے۔ (۸۸)
تشریح: یعنی مشرکین، یہود و نصاریٰ اور دوسرے دشمنان خدا و رسول کو دنیا کی چند روزہ زندگی کا جو سامان دیا ہے اس کی طرف نظر نہ کیجئے کہ ان ملعونوں کو یہ سامان کیوں دے دیا گیا جس سے ان کی شقاوت و شرارت زیادہ بڑھتی ہے یہ دولت مسلمانوں کو ملتی تو اچھے راستہ میں خرچ ہوتی۔ ان کو تھوڑی دیر مزہ اڑا لینے دو۔ تم کو خدا تعالیٰ نے وہ دولت قرآن دی ہے جس کے آگے سب دولتیں گرد ہیں۔ روایات میں ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن دیا پھر کسی کی اور نعمت دیکھ کر ہوس کرے تو اس نے قرآن کی قدر نہ جانی۔
غم نہ کھاؤ کہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے۔ آپ فرض تبلیغ ادا کرتے رہیں، معاندین کے پیچھے اپنے کو زیادہ فکرو غم میں مبتلا نہ کیجئے۔ آپ کی شفقت و ہمدردی کے مستحق مومنین ہیں ان کے ساتھ ملاطفت، نرم خوئی اور شفقت و تواضع کا برتاؤ رکھیئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کہہ دیں بیشک میں علانیہ ڈرانے والا ہوں۔ (۸۹)
تشریح:یعنی کوئی مانے یا نہ مانے میں خدا کا پیام صاف صاف پہنچائے دیتا ہوں اور تکذیب و شرارت کے عواقب سے خوب کھول کر آگاہ کر رہا ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
جیسے ہم نے تقسیم کرنے والوں (تفرقہ پردازوں) پر عذاب نازل کیا۔ (۹۰)
جن لوگوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا (کچھ کو مانا کچھ کو نہ مانا) ۔ (۹۱)
سو تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔ (۹۲)
اس کی بابت جو وہ کرتے تھے۔ (۹۳)
تشریح: اس سے مراد یہود اور عیسائی ہیں، انہوں نے اپنی کتابوں کے حصے بخرے اس طرح کئے تھے کہ اس کے جس حکم کو چاہتے مان لیتے اور جس کی چاہتے خلاف ورزی کرتے تھے۔
(توضیح القرآن)
پس جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے صاف صاف کہہ دیں اور مشرکوں سے اعراض کریں (منہ پھیر لیں) ۔ (۹۴)
تشریح: یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علی اعلان تبلیغ کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے آپ انفرادی طور پر تبلیغ فرماتے تھے۔
(توضیح القرآن)
بیشک مذاق اڑانے والوں (کے خلاف) تمہارے لئے ہم کافی ہیں۔ (۹۵)
تشریح:یعنی دنیا و آخرت میں ہم سب ٹھٹھا کرنے والوں سے نبٹ لیں گے آپ بے خوف و خطر تبلیغ کرتے رہیے آپ کا بال بیکا نہ ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
جو لوگ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بناتے ہیں پس وہ عنقریب جان لیں گے۔ (۹۶)
اور البتہ ہم جانتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں اس سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے۔ (۹۷)
توتسبیح کریں پاکیزگی بیان کریں اپنے رب کی حمد کے ساتھ، اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوں۔ (۹۸)
تشریح:یعنی اگر ان کی ہٹ دھرمی سے دل تنگ ہو تو آپ ان کی طرف سے توجہ ہٹا کر ہمہ تن خدا کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہیے۔ خدا کا ذکر، نماز، سجدہ، عبادت الٰہی وہ چیزیں ہیں جن کی تاثیر سے قلب مطمئن و منشرح رہتا ہے اور فکر و غم دور ہوتے ہیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی مہم بات فکر کی پیش آتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف جھپٹتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس یقینی بات (موت) آ جائے۔ (۹۹)
تشریح:اس سے مراد موت ہے، یعنی پوری زندگی اللہ تعالی کی عبادت میں گزار دو یہاں تک کہ اللہ تعالی آپ کو وفات دے کر اپنے پاس بلا لیں۔
(توضیح القرآن)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید