فہرست مضامین
ترجمہ و تفسیر قرآن
حصہ۵: توبہ، یونس، ہود
ترجمہ: حافظ نذر احمد
اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔
۹۔ سورۂتوبۃ
تعارف
یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی، عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے ، جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑ دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور کسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کر لیا، اس موقع پر کفار کی کمر ٹوٹ چکی تھی، البتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لئے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی، اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے ان کے دل سے اسلام کے خلاف ہر رکاوٹ دور ہو گئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آ کر مسلمان ہوئے اور اس طرح جزیرۂ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا، اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے جزیرۂ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا، اصل منشاء تو یہ تھا کہ پورے جزیرۂ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرۂ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں (مؤطا امام مالک، کتاب الجامع ومسند احمد ج:۶ص:۵۷۲) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا، سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرۂ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے ، چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرۂ عرب چھوڑنے ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دئے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ، اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرۂ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکالنے کا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہو سکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی جیسا کہ آیت نمبر:۲۹ کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔
اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لئے ایک بڑی فوج جمع کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کر کے اس کے مقابلے کے لئے تبوک تک تشریف لے گئے ، اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ، منافقین کی معاندانہ کاروائیاں مسلسل جاری تھیں اس سورت میں ان کی بد عنوانیوں کو بھی طشت از بام کیا گیا ہے۔
اس سورت کو سورۂ توبہ بھی کہا جاتا ہے اور سورۂ براءت بھی، براءت اس لئے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براءت اور دستبرداری کا اعلان کیا گیا، اور توبہ اس لئے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا، اور بعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی۔
(توضیح القرآن)
مدنیہ
آیات:۱۲۹ رکوعات:۱۶
ٍ
اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) (کی طرف) سے قطع تعلق ہے ان مشرکوں سے جنہوں نے تم سے عہد کیا ہوا تھا۔ (۱)
پس (مشرکو) زمین میں چار مہینے چل پھر لو، اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں، اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ (۲)
تشریح:ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے ، جزیرۂ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرۂ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے ، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے ، لیکن جزیرۂ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے ،
ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں:
(الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تواسلام لے آئیں، اور اگر جزیرۂ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تواس کا انتظام کر لیں، اگر یہ دونوں کا م نہ کر سکیں تو ان کے خلاف ابھی سے اعلان کر دیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہو گا۔
(ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر:۸۷۱)۔
(ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ تو تھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کر دیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورۂ توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دوقسموں سے متعلق ہے۔
(ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ توکیا تھا ، لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑ دیا، جیسے کفارِ قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ، لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی، لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے ، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے ، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے ، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر:۵ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرۂ عرب سے باہر جائیں تو ان کو قتل کر دیا جائے گا۔
(د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی اسیے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر:۴ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے ، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے ، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دو چھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ، چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔
ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔
اور اللہ اور اس کے رسول (کی طرف) سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مشرکوں سے قطع تعلق ہے ، پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں، اور آگاہ کر دو ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا عذاب دردناک سے۔ (۳)
تشریح:دست برداری کا یہ حکم آ چکا تھا، لیکن اللہ تعالی نے ان تمام لوگوں سے انصاف کی خاطر ان مختلف مدتوں کی ابتداء اس وقت سے فرمائی جب ان کو اُن سارے احکام کی اطلاع ہو جائے ، پورے عرب میں اعلان کا سب سے مؤثر ذریعہ یہ تھا کہ یہ اعلان حج کے موقع پر کیا جائے ، کیونکہ اس وقت سارے عرب کے لوگ حجاز میں جمع ہوتے تھے ، اور اس وقت تک مشرکین بھی حج کے لئے آتے تھے ، چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو حج ۹ہجری میں ہوا، اس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس تو حج کے لئے تشریف نہیں لے گئے تھے ، لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا تھا ان کے بعد آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اسی مقصد سے روانہ فرمایا کہ وہ ان احکام کا سب کے سامنے اعلان کر دیں، وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں یہ معمول تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی معاہدہ کیا ہوتا اور وہ اسے ختم کرنا چاہتا تو یہ ضروری سمجھاجاتا تھا کہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان یا تووہ خود کرے یا اس کا کوئی قریبی عزیز، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا.
(الدرالمنثور ص ۱۱۴ ج، ۴ بیروت ۱۴۲۱ھ)۔
واضح رہے کہ حج اکبر ہر حج کواس لئے کہتے ہیں کہ عمرہ چھوٹا حج ہے اور اس کے مقابلے میں حج بڑا حج ہے ، اور یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ اگر حج جمعہ کے دن آ جائے تووہ حج اکبر ہوتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، جمعہ کے دن حج ہو تو بیشک دو فضیلتیں جمع ہو جاتی ہیں ، لیکن صرف اسی کو حج اکبر قرار دینا درست نہیں ہے ، بلکہ یہ لقب ہر حج کا ہے ، چاہے وہ کسی بھی دن ہو۔
(توضیح القرآن)
سوائے ان مشرک لوگوں کے جن سے تم نے عہد کیا تھا، پھر انہوں نے تم سے عہد میں کچھ بھی کمی نہ کی اور نہ انہوں نے تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ان سے ان کا عہد ان مقررہ مدت تک پورا کرو بیشک اللہ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (۴)
تشریح:یعنی معاہدے کی مدت پوری احتیاط کے ساتھ پوری کی جائے اور اس میں کوئی شک باقی نہ رکھا جائے۔
(توضیح القرآن)
پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں تم انہیں پاؤ، اور انہیں پکڑو، اور انہیں گھیر لو، اور ان کے لیے ہر گھات میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۵)
تشریح:یہ تیسری قسم کے مشرکین ہے جنہوں نے بد عہدی کی تھی۔
(توضیح القرآن)
اور اگر مشرکین ہی سے کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ سن لے اللہ کا کلام، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیں، یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے (نادان ہیں)۔ (۶)
تشریح:مشرکین کی مذکورہ قسموں کو اس آیت نے اپنی مہلت کے علاوہ یہ مزید سہولت عطا فرمائی کہ اگر ان میں سے کوئی مزید مہلت مانگے اور وہ اسلام کی دعوت پر غور کرنا چاہتا ہو تو اسے پناہ دی جائے اور اللہ کا کلام سنایا جائے ، یعنی اسلام کی حقانیت کے دلائل سمجھائے جائیں۔
صرف اللہ کا کلام سنانے پر اکتفا نہ کیا جائے ، بلکہ اسے ایسی امن کی جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ اطمینان کے ساتھ کسی دباؤ کے بغیر اسلام کی حقانیت پر غور کر سکے۔
(توضیح القرآن)
کیونکر ہو مشرکوں کے لیے اللہ کے پاس اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کوئی عہد، سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے عہد کیا مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے پاس، سو جب تک وہ تمہارے لیے (عہد پر) قائم رہیں تم (بھی) ان کے لیے قائم رہو، بیشک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (۷)
کیسے (صلح ہو، حال یہ ہے ) اگر وہ تم پر غالب آ جائیں تو وہ نہ لحاظ کریں تمہاری قرابت کا، اور نہ عہد کا، وہ تمہیں اپنے منہ سے (محض زبانی) راضی کر دیتے ہیں، لیکن ان کے دل نہیں مانتے اور ان میں اکثر نافرمان ہیں۔ (۸)
تشریح: پچھلی آیات میں جو براءۃ کا اعلان کیا گیا تھا، یہاں اس کی حکمت بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ان مشرکین عرب سے کیا عہد قائم رہ سکتا ہے اور آئندہ کیا صلح ہو سکتی ہے جن کا حال تم مسلمانوں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر کسی وقت ذرا قابو تم پر حاصل کر لیں تو ستانے اور نقصان پہنچانے میں نہ قرابت کا مطلق لحاظ کریں اور نہ قول و قرار کا۔ چونکہ اتفاق سے تم پر غلبہ اور قابو حاصل نہیں ہے ، اس لیے محض زبانی عہد وپیمان کر کے تم کو خوش رکھنا چاہتے ہیں، ورنہ ان کے دل ایک منٹ کے لیے بھی اس عہد پر راضی نہیں۔ ہر وقت عہد شکنی کا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ان میں اکثر لوگ غدار اور بد عہد ہیں اگر کوئی اکا دکا وفائے عہد کا خیال بھی کرتا ہے تو کثرت کے مقابلہ میں ان کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ بہرحال ایسی دغا باز بد عہد قوم سے خدا اور رسول کا کیا عہد ہو سکتا ہے۔ البتہ جن قبائل سے تم بالخصوص مسجد حرام کے پاس معاہدہ کر چکے ہو، سو تم ابتداء کر کے نہ توڑو۔ جب تک وہ وفاداری کے راستہ پر سیدھے چلیں تم بھی ان سے سیدھے رہو اور بڑی احتیاط رکھو کوئی حقیر سے حقیر بات ایسی نہ ہونے پائے جس سے تمہارا دامن عہد شکنی کی گندگی سے داغدار ہو۔ خدا کو و ہی لوگ محبوب ہیں جو پوری احتیاط کرتے ہیں۔ چنانچہ بنو کنانہ وغیرہ نے مسلمانوں سے بد عہدی نہ کی تھی۔ مسلمانوں نے نہایت دیانت داری اور احتیاط کے ساتھ اپنا عہد پور کیا۔ اعلان براءۃ کے وقت ان کے معاہدہ کی میعاد منقضی ہونے میں نو مہینے باقی تھے۔ ان میں معاہدہ کی کامل پابندی کی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے اللہ کے احکام تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالے ، پھر انہوں نے اس کے راستے سے روکا، بیشک برا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۹)
تشریح: یعنی یہ مشرکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی تھوڑی سی طمع اور اپنی اغراض و ہوا کی خاطر خدا کے احکام و آیات کو رد کر دیا۔ اس طرح خود بھی خدا کے راستہ پر نہ چلے اور دوسروں کو بھی چلنے سے روکا۔ جو ایسے بدترین اور نالائق کاموں میں پھنسے ہوں اور خدا سے نہ ڈریں وہ عہد شکنی کے وبال سے کیا ڈریں گے اور اپنے قول و قرار پر کیا قائم رہیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ کسی مؤمن کے بارے میں نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں، نہ عہد کا، اور وہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (۱۰)
تشریح: یعنی کچھ تمہارے ہی ساتھ نہیں بلکہ مسلمان نام سے ان کو بیر ہے۔ کوئی مسلمان ہو موقع پانے پر اس کو نقصان پہنچانے کے لیے سب تعلقات قرابت اور قول و قرار اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ اس بارہ میں ان کی ظلم و زیادتی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر وہ توبہ کر لیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین میں، اور ہم آیات کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ (۱۱)
تشریح: یہاں یہ واضح کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص سچے دل سے توبہ کر لے تومسلمانوں کو چاہئے کہ اس سے بھائیوں کا سا سلوک کریں اور جو تکلیفیں اس نے اسلام لانے سے پہلے پہنچائی ہیں، ان کو بھلا دیں، کیونکہ اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہوں اور زیادتیوں کو مٹا دیتا ہے۔
(توضیح القرآن)
اگر وہ اپنی قسمیں توڑ دیں اپنے عہد کے بعد، اور تمہارے دین میں عیب نکالیں، تو کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں، شاید وہ باز آ جائیں۔ (۱۲)
تشریح: پچھلی آیت کی روشنی میں قسمیں توڑنے سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہو جائیں، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض قبائل مرتد ہوئے ، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کیا اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ پہلے ہی عہد توڑ چکے یا جن سے معاہدہ نو مہینے تک باقی ہے وہ اس دوران معاہدہ توڑیں، ان سے جہاد کرو اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آ جائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری طرف سے جنگ کا مقصد ملک گیری کے بجائے یہ ہونا چاہئے کہ تمہارا دشمن اپنے کفر اور ظلم سے باز آ جائے۔
(توضیح القرآن)
کیا تم ایسی قوم سے نہ لڑو گے ؟ جنہوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا اور انہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نکالنے (جلا وطن کرنے ) کا ارادہ کیا اور انہوں نے تم سے پہل کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ تو اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (۱۳)
تشریح:اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔
(توضیح القرآن)
تم ان سے لڑو (تاکہ) اللہ انہیں عذاب دے تمہارے ہاتھوں سے ، اور انہیں رسوا کرے اور تمہیں ان پر غالب کرے ، اور دل ٹھنڈے کرے مومن لوگوں کے۔ (۱۴)
اور ان کے دلوں سے غصہ دور کرے ، اور اللہ جس کی چاہے توبہ قبول کرتا ہے ، اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔ (۱۵)
تشریح:یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کر کے مسلمان ہو جائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔
(توضیح القرآن)
کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے (جبکہ) اللہ نے ابھی ان کو معلوم نہیں کیا، تم میں سے جنہوں نے جہاد کیا اور انہوں نے نہیں بنایا کسی کو اللہ کے سوا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنوں کے سوا۔ راز دار اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ (۱۶)
تشریح:بظاہر اس کا اشارہ ان حضرات کی طرف ہے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ، اور ابھی تک ان کو کسی جہاد میں شرکت کا موقع نہیں ملا تھا، ورنہ دوسرے صحابہ تو فتح مکہ سے پہلے بہت سی جنگوں میں حصہ لے چکے تھے ، ان نو مسلموں سے کہا جا رہا ہے کہ ان کو بھی جہاد کے لئے تیار رہنا چاہئے اگر چہ اعلان براءت کے بعد کسی بڑی جنگ کی نوبت نہیں آئی، لیکن ان حضرات کو پوری قوت سے تیار رہنے کی تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ وہ اپنی رشتہ داریوں کی وجہ سے کہیں اس اعلان براءت کے تمام تقاضوں پر عمل کرنے سے ہچکچانے نہ لگیں، اسی لئے جہاد کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور مؤمنوں کے سوا کسی سے دوستی یا راز داری کا خصوصی تعلق نہ رکھیں، واللہ سبحانہ اعلم۔
(توضیح القرآن)
مشرکوں کا (کام) نہیں کہ وہ آباد کریں اللہ کی مسجدیں (جبکہ) اپنے اوپر کفر کو تسلیم کرتے ہوں، وہی لوگ ہیں جن کے عمل اکارت گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (۱۷)
تشریح:مشرکینِ مکہ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ وہ مسجد حرام کے پاسبان ہیں، اس کی خدمت، دیکھ بھال اور تعمیر جیسے نیک انجام دیتے ہیں اس لئے ان کومسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے ، اس آیت نے ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی ہے ، اور وہ اس طرح کہ مسجد حرام یا کسی بھی مسجد کی خدمت یقیناً بڑی عبادت ہے ، بشرطیکہ وہ ایمان کے ساتھ ہو، کیونکہ مسجد کا اصل مقصد اللہ تعالی کی ایسی عبادت ہے جس میں اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ، اگر یہ بنیادی مقصد ہی مفقود ہو تو مسجد کی خدمت کا کیا فائدہ، لہذا کفر و شرک کے ساتھ کوئی بھی شخص مسجد کا پاسبان بننے کا اہل نہیں ہے ، چنانچہ آگے آیت نمبر۲۸ میں مشرکین کو یہ حکم سنادیا گیا ہے کہ اب وہ ان کاموں کے لئے مسجد حرام کے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔
(توضیح القرآن)
اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا، اور اس نے نماز قائم کی، اور زکوٰۃ ادا کی، اور وہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا، سو امید ہے کہ وہی لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہوں۔ (۱۸)
تشریح: یہ کام صرف ان لوگوں کا ہے جو دل سے خدائے واحد اور آخری دن پر ایمان لا چکے ہیں، جوارح سے نمازوں کی اقامت میں مشغول رہتے ہیں۔ اموال میں سے باقاعدہ زکات ادا کرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اسی لیے مساجد کی صیانت و تطہیر کی خاطر جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسے مومنین جو دل، زبان، ہاتھ پاؤں، مال و دولت، ہر چیز سے خدا کے مطیع و فرمانبردار ہیں ان کا فرض منصبی ہے کہ مساجد کو آباد رکھیں اور تعمیر مساجد کے جھوٹے دعوے رکھنے والے مشرکین کو خواہ اہل قرابت ہی کیوں نہ ہوں وہاں سے نکال باہر کریں کیونکہ ان کے وجود سے مساجد اللہ کی آبادی نہیں بربادی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) کو آباد کرنا ٹھہرایا ہے اس کے مانند جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لایا، اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہ برابر برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۱۹)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا (ان کے ) درجے اللہ کے ہاں بہت بڑے ہیں، اور وہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ (۲۰)
تشریح:اس آیت کریمہ نے یہ اصول بھی بتا دیا ہے کہ تمام نیک کام ایک درجے کے نہیں ہوتے ، اگر کوئی شخص فرائض تو ادا نہ کرے ، اور نفلی عبادتوں میں لگا رہے تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے ، حاجیوں کو پانی پلانا بیشک ایک نیک کام ہے ، مگر وہ نفلی حیثیت رکھتا ہے ، اور مسجد حرام کی دیکھ بھال بھی بعض حیثیتوں سے فرض کفایہ اور بعض حیثیتوں سے نفلی عبادت ہے ، اس کے مقابلے میں ایمان انسان کی نجات کے لئے بنیادی شرط ہے ، اور جہاد کبھی فرض عین اور کبھی فرض کفایہ، لہذا کسی کو صرف ان خدمات کی وجہ سے کسی مؤمن پر فوقیت حاصل نہیں ہو سکتی۔
(توضیح القرآن)
ان کا رب انہیں اپنی طرف سے رحمت اور خوشنودی اور باغات کی خوشخبری دیتا ہے ، ان میں ان کے لیے دائمی نعمت ہے۔ (۲۱)
اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، بیشک اللہ کے ہاں اجرِ عظیم ہے۔ (۲۲)
تشریح: یعنی اس کے یہاں ثواب اور درجات کی کیا کمی ہے جس کو جتنا چاہے مرحمت فرمائے۔ پہلی آیت میں تین چیزوں کا ذکر تھا۔ ایمان، جہاد، ہجرت، ان تین پر بشارت بھی تین چیزوں کی دی۔ رحمت، رضوان، خلود فی الجنۃ۔ ابو حیان نے لکھا ہے کہ ”رحمت” ایمان پر مرتب ہے ، ایمان نہ ہو تو آخرت میں خدا کی رحمت و مہربانی سے کوئی حصہ نہیں مل سکتا اور ”رضوان” (جو بہت ہی اعلیٰ مقام ہے ) جہاد فی سبیل اللہ کا صلہ ہے۔ مجاہد فی سبیل اللہ تمام نفسانی حظوظ و تعلقات ترک کر کے خدا کے راستہ میں جان و مال نثار کرتا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انتہائی قربانی پیش کرتا ہے۔ لہٰذا اس کا صلہ بھی انتہائی ہونا چاہیے اور وہ حق تعالیٰ شانہ کی رضاء کا مقام ہے۔ باقی ”ہجرت” وہ خدا کے لیے وطن مالوف اور گھر بار چھوڑنے کا نام ہے۔ اس لیے مہاجر کو خوشخبری دی گئی کہ تیرے وطن سے بہتر وطن اور تیرے گھر سے بہتر گھر تجھ کو ملے گا۔ جس میں ہمیشہ اعلیٰ درجہ کی آسائش و راحت سے رہنا ہو گا جس سے ہجرت کرنے کی کبھی نوبت نہ آئے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اے ایمان والو ! اپنے باپ دادا کو اور اپنے بھائیوں کو رفیق نہ بناؤ، اگر وہ لوگ ایمان کے خلاف کفر کو پسند کریں، اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (۲۳)
تشریح:ا سکا مطلب یہ ہے کہ ان سے ایسے تعلقات نہ رکھو جو تمہارے لئے دینی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائیں، جہاں تک اپنے ایمان اور دینی فرائض کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کا تعلق ہے اس کو قرآن کریم نے مستحسن قرار دیا ہے۔
(دیکھئے سورۂ لقمان، ۱۵۔ ۳۱، اور سورۂ ممتحنہ۸۔ ۶۰) (توضیح القرآن)
کہہ دیں، اگر تمہارے باپ دادا، تمہارے بیٹے ، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے کنبے ، اور مال جو تم نے کمائے ، اور تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو، اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیارے ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے ، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۲۴)
تشریح:اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن، بیوی، بچے ، مال و دولت، گھر، جائیداد، تجارت اور کاروبار، ہر چیز اللہ تعالی کی نعمت ہے ، لیکن اسی وقت جب وہ اللہ تعالی کے احکام بجا لانے میں رکاوٹ نہ بنے ، اگر رکاوٹ بن جائے تو یہی چیزیں انسان کے لئے عذاب بن جاتی ہیں، اعاذنا اللہ منہ۔
(توضیح القرآن)
البتہ اللہ نے تمہاری مدد کی بہت سے میدانوں میں، اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے ، تو اس (کثرت) نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا، اور تم پر زمین فراخی کے باوجود تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ دے کر پھر گئے۔ (۲۵)
پھر اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور مومنوں پر اپنی تسکین نازل کی، اور اس نے لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے ، اور کافروں کو عذاب دیا، اور یہی سزا ہے کافروں کی۔ (۲۶)
تشریح: پچھلی آیت میں تنبیہ کی گئی تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے وقت مومنین کو کنبہ، برداری، اموال و املاک وغیرہ کسی چیز پر نظر نہ ہونی چاہیے ، یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ مجاہدین کو خود اپنی فوجی جمعیت و کثرت پر گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ نصرت و کامیابی اکیلے خدا کی مدد سے ہے۔ جس کا تجربہ پیشتر بھی بہت سے میدانوں میں تم کر چکے ہو۔ بدر، قریظہ و نضیر اور حدیبیہ وغیرہ میں جو کچھ نتائج رونما ہوئے ، وہ محض امداد الٰہی و تائید غیبی کا کرشمہ تھا۔ اور اب اخیر میں غزوہ حنین کا واقعہ تو ایسا صریح اور عجیب و غریب نشان آسمانی نصرت و امداد کا ہے جس کا اقرار سخت معاند دشمنوں تک کو کرنا پڑا ہے۔ فتح مکہ کے بعد فوراً آپ کو اطلاع ملی کہ ہوازن و ثقیف وغیرہ بہت سے قبائل عرب نے ایک لشکر جرار تیار کر کے بڑے ساز و سامان سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ خبر پاتے ہی آپ نے دس ہزار مہاجرین و انصار کی فوج گراں لے کر جو مکہ فتح کرنے کے لیے مدینہ سے ہمراہ آئی تھی، طائف کی طرف کوچ کر دیا، دو ہزار طلقاء بھی جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے ، آپ کے ہمراہ تھے یہ پہلا موقع تھا کہ بارہ ہزار کی عظیم الشان جمعیت کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدان میں نکلی۔ یہ منظر دیکھ کر بعض صحابہ سے نہ رہا گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ (جب ہم بہت تھوڑے تھے اس وقت ہمیشہ غالب رہے تو) آج ہماری اتنی بڑی تعداد کسی سے مغلوب ہونے والی نہیں۔ یہ جملہ مردان توحید کی زبان سے نکلنا ”بارگاہ احدیت” میں ناپسند ہوا۔ ابھی مکہ سے تھوڑی دور نکلے تھے کہ دونوں لشکر مقابل ہو گئے۔ فریق مخالف کی جمعیت چار ہزار تھی جو سر کو کفن باندھ کر اور سب عورتوں، بچوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے پوری تیاری سے نکلے تھے اونٹ گھوڑے ، مواشی اور گھروں کا کل اندوختہ کوڑی کوڑی کر کے اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ ہوازن کا قبیلہ تیر اندازی کے فن میں سارے عرب میں شہرت رکھتا تھا۔ اس کے بڑے ماہر تیر اندازوں کا دستہ وادی حنین کی پہاڑیوں میں گھات لگائے بیٹھا تھا۔ صحیحین میں براء بن عازب کی روایت ہے کہ پہلے معرکہ میں کفار کو ہزیمت ہوئی، وہ بہت سا مال چھوڑ کر پسپا ہو گئے یہ دیکھ کر مسلمان سپاہی غنیمت کی طرف جھک پڑے۔ اس وقت ہوازن کے تیر اندازوں نے گھات سے نکل کر ایک دم دھاوا بول دیا۔ آن واحد میں چاروں طرف سے اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں کو قدم جمانا مشکل ہو گیا۔ اول طلقاء میں بھاگڑ پڑی۔ آخر سب کے پاؤں اکھڑ گئے ، زمین باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی کہ کہیں پناہ کی جگہ نہ ملتی تھی حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم مع چند رفقاء کے دشمنوں کے نرغہ میں تھے۔ ابوبکر عمر عباس علی عبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تقریباً سو یا اسی صحابہ بلکہ بعض اہل سیر کی تصریح کے موافق کل دس نفوس قدسیہ (عشرہ کاملہ) میدان جنگ میں باقی رہ گئے جو پہاڑ سے زیادہ مستقیم نظر آتے تھے۔ یہ خاص موقع تھا جبکہ دنیا نے پیغمبرانہ صداقت و توکل اور معجزانہ شجاعت کا ایک محیر العقول نظارہ ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچر پر سوار ہیں، عباس ایک رکاب اور ابو سفیان بن الحارث دوسری رکاب تھامے ہوئے ہیں۔ چار ہزار کا مسلح لشکر پورے جوش انتقام میں ٹوٹا پڑتا ہے ، ہر چہار طرف سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے۔ ساتھی منتشر ہو چکے ہیں۔ مگر رفیق اعلیٰ آپ کے ساتھ ہے ، ربانی تائید اور آسمانی سکینہ کی غیر مرئی بارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گنے چنے رفیقوں پر ہو رہی ہے۔ جس کا اثر آخر کار بھاگنے والوں تک پہنچتا ہے۔ جدھر سے ہوازن و ثقیف کا سیلاب بڑھ رہا ہے آپ کی سواری کا منہ اس وقت بھی اسی طرف ہے۔ اور ادھر ہی آگے بڑھنے کے لیے خچر کو مہمیز کر رہے ہیں۔ دل سے خدا کی طرف لو لگی ہے ، اور زبان پر نہایت استغناء و اطمینان کے ساتھ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب جاری ہے۔ یعنی بیشک میں سچا پیغمبر ہوں اور عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو آواز دی الی عباد اللہ الی انا رسول اللہ خدا کے بندو! ادھر آؤ۔ یہاں آؤ کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق حضرت عباس نے (جو نہایت جیر الصوت تھے ) اصحاب سمرہ کو پکارا جنہوں نے درخت کے نیچے حضور کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تھی۔ آواز کا کانوں میں پہنچنا تھا کہ بھاگنے والوں نے سواریوں کا رخ میدان جنگ کی طرف پھیر دیا۔ جس کے اونٹ نے رخ بدلنے میں دیر کی وہ گلے میں زرہ ڈال کر اونٹ سے کود پڑا اور سواری چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا۔ اسی اثناء میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی سی مٹی اور کنکریاں اٹھا کر لشکر پر پھینکیں جو خدا کی قدرت سے ہر کافر کے چہرے اور آنکھوں پر پڑی۔ ادھر حق تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی فوجیں بھیج دیں جن کا نزول غیر مرئی طور پر مسلمانوں کی تقویت و ہمت افزائی اور کفار کی مرعوبیت کا سبب ہوا۔ پھر کیا تھا۔ کفار کنکریوں کے اثر سے آنکھیں ملتے رہے ، جو مسلمان قریب تھے انہوں نے پلٹ کر حملہ کر دیا آناً فاناً میں مطلع صاف ہو گیا۔ بہت سے بھاگے ہوئے مسلمان لوٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا لڑائی ختم ہو چکی۔ ہزاروں قیدی آپ کے سامنے بندھے کھڑے ہیں اور مال غنیمت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں فَسُبْحَانَ منْ بِیَدِہٖ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْ ءٍ اس طرح کافروں کو دنیا میں سزا دی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہے توبہ قبول کرے گا، اور اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۲۷)
تشریح: چنانچہ ہوازن وغیرہ کو اس کے بعد توبہ نصیب ہوئی۔ اور اکثر مسلمان ہو گئے۔
(تفسیرعثمانی)
اے مومنو! اس کے سوا نہیں کہ مشرک پلید ہیں، لہٰذا وہ قریب نہ جائیں اس سال کے بعد مسجدِ حرام ( خانہ کعبہ) کے اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہو تو اللہ تمہیں جلد غنی کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے ، بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۲۸)
تشریح: جب حق تعالیٰ نے شرک کی قوت کو توڑ کر جزیرۃ العرب کا صدر مقام (مکہ معظمہ) فتح کرا دیا اور قبائل عرب جوق جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے تب :۹ ہجری میں یہ اعلان کرایا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک (یا کافر) مسجد حرام میں داخل نہ ہو ، بلکہ اس کے نزدیک یعنی حدود حرم میں بھی نہ آنے پائے ، کیونکہ ان کے قلوب شرک و کفر کی نجاست سے اس قدر پلید اور گندے ہیں کہ اس سب سے بڑے مقدس مقام اور مرکز توحید و ایمان میں داخل ہونے کے لائق نہیں، اس کے بعد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ سب کے نکال دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضور کی آخری وصیت کے موافق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حکم عملاً نافذ ہوا۔ اب بطور استیلاء کفار کے وہاں رہنے پر مسلمانوں کو رضا مند ہونا جائز نہیں۔ بلکہ تطہیر جزیرۃ العرب بقدر استطاعت ان کا فریضہ ہے۔ ہاں حنفیہ کے نزدیک کوئی کافر مسافرانہ عارضی طور پر امام کی اجازت سے وہاں جا سکتا ہے بشرطیکہ امام اتنی اجازت دینا خلاف مصلحت نہ سمجھے۔ باقی حج و عمرہ کی غرض سے داخل ہونے کی کسی کافر کو اجازت نہیں کما وردفی الحدیث اَلاَ لَا یَحُجَّنَ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ .
(تفسیرعثمانی)
جزیرۂ عرب کے باہر جہاں کہیں اسلامی حکومت قائم ہو، وہاں اب بھی نہ صرف اہل کتاب بلکہ دوسرے تمام غیر مسلم اسلامی ریاست کے شہری کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں، جہاں انہیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے بشرطیکہ وہ ملکی قوانین کی پابندی کریں۔
(توضیح القرآن)
حرم میں مشرکین کی آمدو رفت بند کر دینے سے مسلمانوں کو اندیشہ ہوا کہ تجارت وغیرہ کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اور جو سامانِ تجارت یہ لوگ لاتے تھے ، وہ نہیں آئے گا۔ اس لیے تسلی کر دی کہ اس سے مت گھبراؤ تم کو غنا عطا فرمانا محض اس کی مشیت پر موقوف ہے۔ وہ چاہے گا تو کچھ دیر نہ لگے گی۔ چنانچہ یہ ہی ہوا۔ خدا نے سارا ملک مسلمان کر دیا۔ مختلف بلاد و امصار سے تجارتی سامان آنے لگا، بارشیں خوب ہوئیں جس سے پیداوار بڑھ گئی، فتوحات و غنائم کے دروازے کھل گئے اہل کتاب وغیرہ سے جزیہ کی رقوم وصول ہونے لگیں، غرض مختلف طرح سے حق تعالیٰ نے اسباب غناء جمع کر دیئے۔ بیشک خدا کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
تم ان لوگوں سے لڑو جو ایمان نہیں لائے اللہ پر، اور نہ یوم آخرت پر، اور نہ حرام جانتے ہیں وہ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حرام ٹھہرایا ہے ، اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں، یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر۔ (۲۹)
تشریح: جب مشرکین کا قصہ پاک ہو گیا اور ملکی سطح ذرا ہموار ہوئی تو حکم ہوا کہ ”اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کی قوت و شوکت کو توڑو۔ مشرکین کے وجود سے تو بالکل عرب کو پاک کر دینا مقصود تھا لیکن یہود و نصاریٰ کے متعلق اس وقت صرف اسی قدر مطمح نظر تھا کہ وہ اسلام کے مقابلہ میں زور نہ پکڑیں اور اس کی اشاعت و ترقی کے راستہ میں حائل نہ ہوں۔ اس لیے اجازت دی گئی کہ اگر یہ لوگ ماتحت رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں تو کچھ مضائقہ نہیں، قبول کر لو، پھر حکومت اسلامیہ ان کے جان و مال کی محافظ ہو گی، ورنہ ان کا اعلان بھی وہ ہی ہے جو مشرکین کا تھا (یعنی مجاہدانہ قتال) کیونکہ یہ بھی اللہ اور یوم آخرت پر جیسا چاہیے ایمان نہیں رکھتے نہ خدا اور رسول کے احکام کی کچھ پروا کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو کجا، اپنے تسلیم کردہ نبی حضرت مسیح علیہ السلام کی سچی پیروی نہیں کرتے ، محض اہوا، و آراء کا اتباع کرتے ہیں، جو سچا دین پہلے آیا یعنی حضرت مسیح وغیرہ کے زمانہ میں، اور جواب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ، کسی کے قائل نہیں۔ بلکہ جیسا کہ عنقریب آتا ہے ، اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ خدا کا روشن کیا ہوا چراغ اپنی پھونکوں سے گل کر دیں۔ ایسے بد باطن نالائقوں کو اگر یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو ملک میں فتنہ و فساد اور کفر و تمرد کے شعلے برابر بھڑکتے رہیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
یہود نے کہا عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے ، اور کہا نصاریٰ نے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے ، یہ باتیں ہیں ان کے منہ کی وہ ریس کرتے ہیں پہلے کافروں کی بات کی اللہ انہیں ہلاک کرے ، کہاں بہکے جا رہے ہیں۔ (۳۰)
تشریح:حضرت عزیر علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے ، (ان کو بائبل میں عزرا کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، اور ایک پوری کتاب ان کے نام سے منسوب ہے ) اور جب بخت نصر کے حملے میں تورات کے نسخے ناپید ہو گئے تھے تو انہوں نے اپنی یادداشت سے دوبارہ لکھوایا تھا، اور شائد اسی وجہ سے بعض یہودی انہیں اللہ تعالی کا بیٹا ماننے لگے تھے ، یہاں یہ واضح رہے کہ ان کا بیٹا ماننے کا عقیدہ سب یہودیوں کا نہیں ہے ، بلکہ بعض یہودیوں کا ہے جو عرب میں بھی آباد تھے۔
(توضیح القرآن)
انہوں نے بنا لیا اپنے علماء، اور اپنے درویشوں کو رب، اللہ کے سوا، اور مسیح (علیہ السلام) ابن مریم کو بھی اور انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ وہ معبود واحد کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۳۱)
تشریح:ان کو خدا بنانے کا جو مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے علماء کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں حلال اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دے دیں، واضح رہے کہ عام لوگ جو کسی آسمانی کتاب کا براہ راست علم نہیں رکھتے ، ان کو شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لئے علماء سے رجوع تو کرنا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالی کے حکم کے شارح کی حیثیت میں ان کی بات ماننی بھی پڑتی ہے ، اس کا حکم خود قرآن کریم نے سورہ نحل (۱۴۔ ۴۳) اور سورۂ انبیاء (۱۷۔ ۲۱) میں دیا ہے ، اس حد تک تو کوئی بات قابل اعتراض نہیں، لیکن یہود و نصاریٰ نے اس سے آگے بڑھ کر اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں ، بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں حلال اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
(توضیح القرآن)
وہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، اور اللہ (اس کے بغیر) نہ رہے گا مگر یہ کہ اپنے نور کو پورا کرے خواہ کافر پسند نہ کریں۔ (۳۲)
تشریح: یعنی توحید خالص اور اسلام کا آفتاب جب چمک اٹھا، پھر یہ دوغلی باتیں اور مشرکانہ دعاوی کہاں فروغ پا سکتے ہیں، یہ کوشش کہ بے حقیقت اور بے مغز باتیں بنا کر اور فضول بحث و جدل کر کے نورِ حق کو مدھم کر دیں، ایسی ہے کہ کوئی بیوقوف منہ سے پھونکیں مار کر چاند یا سورج کی روشنی کو بجھانا اور ماند کرنا چاہے ، یاد رکھو خواہ یہ کتنے ہی جلیں مگر خدا نور اسلام کو پوری طرح پھیلا کر رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھیجا، ہدایت کے ساتھ اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ اسے تمام دینوں پر غلبہ دے ، خواہ مشرک پسند نہ کریں۔ (۳۳)
تشریح: اسلام کا غلبہ باقی ادیان پر معقولیت اور حجت و دلیل کے اعتبار سے ، یہ تو ہر زمانہ میں بحمد للہ نمایاں طور پر حاصل رہا۔ باقی حکومت و سلطنت کے اعتبار سے وہ اس وقت حاصل ہوا ہے اور ہو گا، اور جبکہ مسلمان اصولِ اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان و تقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اللہ میں ثابت قدم تھے یا آئندہ ہوں گے۔ اور دین حق کا ایسا غلبہ کہ باطل ادیان کو مغلوب کر کے بالکل صفحہ ہستی سے محو کر دے۔ یہ نزول مسیح علیہ السلام کے بعد قیامت کے قریب ہونے والا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو (مومنو) ! بیشک بہت سے علماء اور درویش لوگوں کے مال ناحق طور پر کھاتے ہیں، اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، سو انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دو (آگاہ کر دو)۔ (۳۴)
تشریح:لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھانے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، لیکن ان علماء کے حوالے سے خاص طور پر جو بات کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ رشوت لے کر لوگوں کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ موڑ ڈالتے ہیں، اور اس طرح اللہ کے مقرر کئے ہوئے صحیح راستے سے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔
(توضیح القرآن)
جس دن ہم اسے دہکائیں گے جہنم کی آ گ میں، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، اور ان کے پہلوؤں، اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا کہ یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، پس مزہ چکھو جو تم جمع کر کے رکھتے تھے۔ (۳۵)
تشریح:اگرچہ یہ آیت براہ راست ان اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بخل کی وجہ سے مال جمع کرتے رہتے تھے ، اور اس کے شرعی حقوق ادا نہیں کرتے تھے ، لیکن آیت کے الفاظ عام ہیں اور ان کا اطلاق ان مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے جو مال و دولت اکھٹا کرتے چلے جائیں اور وہ حقوق ٹھیک ٹھیک ادا نہ کریں جو اللہ تعالی نے ان کے مال پر عائد کئے ہیں جن میں سب سے اہم زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔
(توضیح القرآن)
بیشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں، جس دن اس نے آ سمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت والے (ادب کے ) مہینے ہیں، یہی ہے درست دین، پس تم ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ (۳۶)
تشریح: عرب میں قدیم سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ”اشہر حرم” (خاص ادب و احترام کے مہینے ) ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، رجب ان میں خونریزی اور جدال و قتال قطعاً بند کر دیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کاروبار کے لیے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کر سکتے تھے۔ کوئی شخص ان ایام میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اصل ملت ابراہیمی میں یہ چار ماہ ”اشہر حرم” قرار دیے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئی اور باہمی جدال و قتال میں بعض بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا، تو ”نسیء” کی رسم نکالی یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کر دیا کہ امسال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کر دیا۔ پھر اگلے سال کہہ دیا کہ اس مرتبہ حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا۔ اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کر لیتے تھے لیکن ان کی تعیین میں حسب خواہش رد و بدل کرتے رہتے تھے۔ ابن کثیر کی تحقیق کے موفق ”نسیء” (مہینہ آگے پیچھے کرنے ) کی رسم صرف محرم و صفر میں ہوتی تھی۔ اور اس کی وہ ہی صورت تھی جو اوپر مذکور ہوئی امام مغازی محمد ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی ”قلمس” کنانی تھا۔ پھر اس کی اولاد در اولاد یوں ہی ہوتا چلا آیا۔ آخر میں اسی کی نسل سے ”ابو ثمامہ چنادہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اسی کو قبول کر لیتے تھے گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفرو گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کہ خدا کے حلال یا حرام کیے ہوئے مہینہ کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ انہوں نے تحلیل و تحریم کی باگ طامع اور غرض پرست احبارو رہبان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ دونوں جماعتوں کی مشابہت ظاہر کرنے کے لیے ”نسیء” کی رسم کا یہاں ذکر کیا گیا اور اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَاللَّہِ الخ اس کے رد کی تمہید ہے۔ یعنی آج سے نہیں جب سے آسمان و زمین پیدا کیے خدا کے نزدیک بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لیے سال کے بارہ مہینے رکھے گئے ہیں جن میں سے چار اشہر حرم (ادب کے مہینے ) ہیں جن میں گناہ و ظلم سے بچنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ ہی سیدھا دین (ابراہیم علیہ السلام کا) ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ جو مہینے کا ہٹا کر (آگے پیچھے کرنا ہے ) کفر میں اضافہ ہے ، اس سے کافر گمراہ ہوتے ہیں وہ اسے (اس مہینے کو) ایک سال حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام کر لیتے ہیں تاکہ وہ گنتی پوری کر لیں اس کی جو اللہ نے حرام کیے ، سو وہ حلال کرتے ہیں جو اللہ نے حرام کیا، ان کے برے اعمال انہیں مزین کر دئیے ہیں اور اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۳۷)
تشریح:یعنی اللہ تعالی نے مہینوں کی جو ترتیب مقرر فرمائی ہے ، اس میں رد و بدل کر کے مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جس مہینے میں لڑائی حرام تھی اس میں اسے حلال کر لیا گیا، جو ایک بڑا گناہ ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والا خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے ، کیونکہ اس کا برا انجام اس کی جان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔
(توضیح القرآن)
اے مومنو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوچ کرو تو تم گرے جاتے ہو زمین پر، کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ سو (کچھ بھی) نہیں ہے دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلہ میں مگر تھوڑا۔ (۳۸)
تشریح: یہاں سے غزوہ تبوک کے لیے مومنین کو ابھارا گیا ہے گذشتہ رکوع سے پہلے رکوع میں قاَتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاَخِرِ الخ سے اہل کتاب کے مقابلہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ درمیان میں جو ذیلی مضامین آئے ان کا ربط موقع بہ موقع ظاہر ہوتا رہا ہے گویا وہ سب رکوع حاضر کی تمہید تھی۔ اور رکوع حاضر غزوہ تبوک کے بیان کی تمہید ہے۔ فتح مکہ و غزوہ حنین کے بعد ٩ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ شام کا نصرانی بادشاہ (ملک غسان) قیصر روم کی مدد سے مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ حضور نے مناسب سمجھا کہ ہم خود حدود شام پر اقدام کر کے اس کا جواب دیں۔ اس لیے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جہاد کے لیے تیار ہو جائیں۔ گرمی سخت تھی۔ قحط سالی کا زمانہ تھا کھجور کی فصل پک رہی تھی سایہ خوشگوار تھا۔ پھر اس قدر بعید مسافت طے کر کے جانا، اور نہ صرف ملک غسان بلکہ قیصر روم کی باقاعدہ اور سروسامان سے آراستہ افواج سے نبرد آزما ہونا، کوئی کھیل تماشہ نہ تھا۔ ایسی مہم میں مومنین مخلصین کے سوا کس کا حوصلہ تھا کہ جانبازانہ قدم اٹھا سکتا۔ چنانچہ منافقین جھوٹے حیلے بہانے تراش کر کھسکنے لگے۔ بعض مسلمان بھی ایسے سخت وقت میں اس طویل و صعب سفر سے کترا رہے تھے۔ جن میں بہت سے تو آخرکار ساتھ ہو لیے اور گنے چنے آدمی رہ گئے۔ جن کو کسل و تقاعد نے اس شرف عظیم کی شرکت سے محروم رکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً تیس ہزار سر فروش مجاہدین کا لشکر جرار لے کر حدود شام کی طرف روانہ ہو گئے اور مقام تبوک میں ڈیرے ڈال دیے۔ ادھر قیصر روم کے نام نامہ مبارک لکھا جس میں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس کے دل میں گھر کر گئی۔ مگر قوم نے موافقت نہ کی۔ اس لیے قبول اسلام سے محروم رہا۔ شام والوں کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو قیصر روم سے ظاہر کیا۔ اس نے مدد نہ کی، ان لوگوں نے اطاعت کی مگر اسلام نہ لائے۔ تھوڑی مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور فاروق اعظم کے عہد خلافت میں تمام ملک شام فتح ہوا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے غالب و منصور واپس تشریف لائے اور خدا نے بڑی بڑی سلطنتوں پر اسلام کی دھاک بٹھلا دی تو منافقین مدینہ بہت فضیحت ہوئے۔ نیز چند سچے مسلمان جو محض سستی اور کسل کی بنا پر نہ گئے تھے بیحد نادم و متحسر تھے۔ اس رکوع کے شروع سے بہت دور تک ان ہی واقعات کا ذکر ہے مگر زیادہ منافقین کی حرکات بیان ہوئی ہیں کہیں کہیں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو بڑی شدت سے جہاد کی طرف ابھارا اور بتلایا ہے کہ تھوڑے سے عیش و آرام میں پھنس کر جہاد کو چھوڑنا گویا بلندی سے پستی کی طرف گر جانے کا مرادف ہے۔ مومن صادق کی نظر میں دنیا کے عیش و آرام کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہ ہونی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ اگر خدا کے نزدیک دنیا کی وقعت پر پشہ کی برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔
(تفسیرعثمانی)
اگر تم (راہ اللہ) میں نہ نکلو گے تو (اللہ ) تمہیں عذاب دے گا دردناک، اور تمہارے سوا کوئی اور قوم بدلے میں لے آئے گا، اور تم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے ، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۳۹)
تشریح: یعنی خدا کا کام تم پر موقوف نہیں۔ تم اگر سستی کرو گے وہ اپنی قدرت کاملہ سے کسی دوسری قوم کو دین حق کی خدمت کے لیے کھڑا کر دے گا۔ تم اس سعادت سے محروم رہو گے جو تمہارے ہی نقصان کا موجب ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اگر تم اس (نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) ) کی مدد نہ کرو گے ، تو البتہ اللہ نے مدد کی ہے جب کافروں نے انہیں نکالا تھا، وہ دوسرے تھے دونوں میں، جب وہ دونوں غارِ (ثور) میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے کہتے تھے ، گھبراؤ نہیں، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے ، تو اس نے ان پر اپنی تسکین نازل کی اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تم نے نہیں دیکھے ، اور کافروں کی بات پست کر دی، اور اللہ کا کلمہ (بول) بالا ہے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۴۰)
تشریح: یعنی بالفرض اگر تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے نہ سہی۔ ان کا منصورو کامیاب ہونا کچھ تم پر موقوف نہیں، ایک وقت پہلے ایسا آ چکا ہے جب ایک یارِ غار کے سوا کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا۔ معدودے چند مسلمان مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کر گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہجرت کا حکم ہوا، مشرکین کا آخری مشورہ یہ قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک نوجوان منتخب ہو اور وہ سب مل کر بیک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلواروں کی ضرب لگائیں، تاکہ خون بہا دینا پڑے تو سب قبائل پر تقسیم ہو جائے اور بنی ہاشم کی یہ ہمت نہ ہو کہ خون کے انتقام میں سارے عرب سے لڑائی مول لیں۔ جس شب میں اس ناپاک کاروائی کو عملی جامہ پہنچانے کی تجویز تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بستر پر حضرت علی کو لٹایا، تاکہ لوگوں کی امانتیں احتیاط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مالکوں کے حوالہ کر دیں اور حضرت علی کی تسلی فرمائی کہ تمہارا بال بیکا نہ ہو گا پھر خود بہ نفس نفیس ظالموں کے ہجوم میں سے ”شاہت الوجوہ” فرماتے ہوئے اور ان آنکھوں میں خاک جھونکتے ہوئے صاف نکل آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق کو ساتھ لیا اور مکہ سے چند میل ہٹ کر غارِ ثور میں قیام فرمایا۔ یہ غار پہاڑ کی بلندی پر ایک بھاری مجوف چٹان ہے۔ جس میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ تھا وہ بھی ایسا تنگ کہ انسان کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر اس میں گھس نہیں سکتا۔ صرف لیٹ کر داخل ہونا ممکن تھا۔ اول حضرت ابوبکر نے اندر جا کر اسے صاف کیا۔ سب سوراخ کپڑے سے بند کیے۔ کہ کوئی کیڑا کانٹا گزند نہ پہنچا سکے۔ ایک سوراخ باقی تھا، اس میں اپنا پاؤں اڑا دیا۔ سب انتظام کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر تشریف لانے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدیق کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرما رہے تھے کہ سانپ نے ابوبکر کا پاؤں ڈس لیا۔ پاؤں کو حرکت نہ دیتے تھے مبادا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی استراحت میں خلل پڑے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور قصہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب مبارک صدیق کے پاؤں کو لگا دیا جس سے فوراً شفا ہو گئی، ادھر کفار ”قائف” کو ہمراہ لے کر جو نشان ہائے قدم کی شناخت میں ماہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے۔ اس نے غارِ ثور تک نشانِ قدم کی شناخت کی، مگر خدا کی قدرت کہ غار کے دروازہ پر مکڑی نے جالا تن لیا اور جنگلی کبوتر نے انڈے دے دیئے۔ یہ دیکھ کر سب نے قائف کو جھٹلایا اور کہنے لگے کہ یہ مکڑی کا جالا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ولادت سے بھی پہلے کا معلوم ہوتا ہے۔ اگر اندر کوئی داخل ہوتا تو یہ جالا اور انڈے کیسے صحیح و سالم رہ سکتے تھے۔ ابوبکر صدیق کو اندر سے کفار کے پاؤں نظر پڑے تھے۔ انہیں فکر تھی کہ جان سے زیادہ محبوب جس کے لیے سب کچھ فدا کر چکے ہیں دشمنوں کو نظر نہ پڑ جائیں۔ گھبرا کر کہنے لگے یا رسول اللہ! اگر ان لوگوں نے ذرا جھک کر اپنے قدموں کی طرف نظر کی تو ہم کو دیکھ پائیں گے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر تیرا کیا خیال ہے ان دو کی نسبت جن کا تیسرا اللہ ہے ، یعنی جب اللہ ہمارے ساتھ ہے تو پھر کس کا ڈر ہے۔ اس وقت حق تعالیٰ نے ایک خاص قسم کی کیفیتِ سکون و اطمینان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ابوبکر کے قلب مقدس پر نازل فرمائی اور فرشتوں کی فوج سے حفاظت و تائید کی۔ یہ اسی تائید غیبی کا کرشمہ تھا کہ مکڑی کا جالا جسے ”اوہن البیوت” بتلایا ہے ، بڑے بڑے مضبوط و مستحکم قلعوں سے بڑھ کر ذریعہ تحفظ بن گیا۔ اسی طرح خدا نے کافروں کی بات نیچی کی اور ان کی تدابیر خاک میں ملا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین روز غار میں قیام فرما کر بعافیت تمام مدینہ پہنچ گئے۔ بیشک انجام کار خدا ہی کا بول بالا رہتا ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
تم نکلو ہلکے ہو یا بھاری، اور اپنے مالوں سے جہاد کرو اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ (۴۱)
تشریح: یعنی پیادہ اور سوار، فقیر اور غنی جو ان اور بوڑھے جس حالت میں ہوں نکل کھڑے ہوں۔ نفیر عام کے وقت کوئی عذر پیش نہ لائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اگر مالِ غنیمت قریب، اور سفر آ سان ہوتا تو وہ آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیچھے ہو لیتے ، لیکن دور نظر آیا انہیں راستہ، اور اب اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم سے ہو سکتا تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکلتے ، وہ اپنے آ پ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ (۴۲)
تشریح: یہ منافقین کو فرمایا کہ اگر سفر ہلکا ہوتا اور بے محنت مال غنیمت ہاتھ آنے کی توقع ہوتی تو جلدی سے ساتھ ہو لیتے۔ لیکن ایسی کٹھن منزلوں کا طے کرنا ان سے کہاں ممکن ہے ؟
یا تو نکلنے سے پہلے قسمیں کھا کر طرح طرح کے حیلے حوالے کریں گے کہ آپ ان کو مدینہ میں ٹھہرے رہنے کی اجازت دے دیں اور یا آپ کی واپسی کے بعد جھوٹی قسمیں کھا کر باتیں بنائیں گے تاکہ اپنے نفاق پر پردہ ڈالیں۔ حالانکہ خدا سے ان کا جھوٹ اور نفاق پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ یہ نفاق و فریب دہی اور جھوٹی قسمیں کھانا انجام کار انہی کے حق میں وبالِ جان ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ تمہیں معاف کرے آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (اس سے بیشتر) انہیں کیوں اجازت دے دی، یہاں تک کہ آ پ پر ظاہر ہو جاتے وہ لوگ جو سچے ہیں، اور آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) جان لیتے جھوٹوں کو۔ (۴۳)
تشریح: منافقین جھوٹے عذر کر کے جب مدینہ میں ٹھہرے رہنے کی اجازت طلب کرتے تو آپ ان کے کید و نفاق سے اغماض کر کے اور یہ سمجھ کر کہ ان کے ساتھ چلنے میں فساد کے سوا کوئی بہتری نہیں اجازت دیتے تھے اس کو فرمایا کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ کیونکہ اس وقت ظاہر ہو جاتا کہ انہوں نے اپنے نہ جانے کو کچھ آپ کی اجازت پر موقوف نہیں رکھا ہے جانے کی توفیق تو انہیں کسی حال نہ ہوتی۔ البتہ آپ کے روبرو ان کا جھوٹ سچ کھل جاتا۔ پس اجازت دینا کوئی گناہ نہ تھا، البتہ نہ دینا مصالح حاضرہ کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہوتا۔ اس اعلیٰ و اکمل صورت کے ترک کی وجہ سے خطاب کو ”عَفَا اللہُ عَنْکَ” سے شروع فرمایا۔ عفو کا لفظ ضروری نہیں کہ گناہ ہی کے مقابلہ میں ہو۔ بعض محققین نے عفا اللہ عنک” اس جملہ کو صدر کلام میں محض دعا و تعظیم کے طور پر لیا ہے جیسا کہ عرب کے محاور ات میں شائع تھا، مگر سلف سے وہ ہی منقول ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا۔ اور لفظ ”لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ” اس کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ رخصت نہیں مانگتے ، جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے ، اور اللہ متقیوں (ڈرانے والے ، پرہیز گاروں) کو خوب جانتا ہے۔ (۴۴)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے صرف وہ لوگ رخصت مانگتے ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں، سو وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔ (۴۵)
تشریح: یعنی جن کے دلوں میں ایمان و تقویٰ کا نور ہے ، ان کی یہ شان نہیں کہ جہاد سے الگ رہنے کی اس طرح بڑھ بڑھ کر اجازت حاصل کریں۔ ان کا حال تو وہ ہے جو اس پارہ کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ ”تَوَلَّوْاوَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً اَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ” یعنی بے سروسامانی وغیرہ کے عذر سے اگر ”جہاد فی سبیل اللہ” کے شرف سے محروم رہ جائیں تو اس فضل کے فوت ہو جانے پر ان کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں۔ بے حیا بن کر جہاد سے علیحدہ رہنے کی اجازت لینا انہی کا شیوہ ہے جن کو خدا کے وعدوں پر یقین نہیں نہ آخرت کی زندگی کو سمجھتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اسلام و مسلمین کے غالب و منصور ہونے کی جو خبریں دی ہیں ان کے متعلق ہمیشہ شک و شبہ میں گرفتار رہتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے ضرور تیار کرتے کچھ سامان، لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا نا پسند کیا، سو ان کو روک دیا، اور کہہ دیا گیا (معذور) بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ (۴۶)
تشریح: ان کا ارادہ ہی گھر سے نکلنے کا نہیں۔ ورنہ اس کا کچھ تو سامان کرتے حکم جہاد سنتے ہی جھوٹے عذر نہ لے دوڑتے۔ واقعہ یہ ہے کہ خدا نے ان کی شرکت کو پسند ہی نہیں کیا۔ یہ جاتے تو وہاں فتنے اٹھاتے۔ نہ جانے کی صورت میں انہیں پتہ لگ جائے گا کہ مومنین کو خدا کے فضل سے ایک تنکے کے برابر ان کی پروا نہیں۔ اسی لیے خدا نے صفوف مجاہدین میں شامل ہونے سے روک دیا اس طرح کہ رکنے کا وبال انہی کے سر پر رہے۔ گویا ان کو تکویناً کہہ دیا گیا کہ جاؤ، عورتوں بچوں اور اپاہج آدمیوں کے ساتھ گھر میں گھس کر بیٹھ رہو۔ اور پیغمبر علیہ السلام نے ان کے اعذارِ کاذبہ کے جواب میں جو گھر بیٹھ رہنے کی اجازت دے دی، یہ بھی ایک طرح خدا ہی کا فرما دینا ہے۔ اس لیے تکویناً کی قید بھی ضروری نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر وہ تم میں (تمہارے ساتھ) نکلتے تمہارے لیے خرابی کے سوا کچھ نہ بڑھاتے ، اور تمہارے درمیان دوڑے پھرتے ، چاہتے ہوئے تمہارے لیے بگاڑ، اور تم میں ان کے جاسوس ہیں، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ (۴۷)
تشریح: یعنی اگر تمہارے ساتھ نکلتے تو اپنے جبن و نامردی کی وجہ سے دوسروں کی ہمتیں بھی سست کر دیتے اور آپس میں لگا بجھا کر مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرتے اور جھوٹی افواہیں اڑا کر ان کو دشمنوں سے ہیبت زدہ کرنا چاہتے۔ غرض ان کے وجود سے بھلائی میں تو کوئی اضافہ نہ ہوتا، ہاں برائی بڑھ جاتی اور فتنہ انگیزی کا زور ہوتا۔ ان ہی وجوہ سے خدا نے ان کو جانے کی توفیق نہ بخشی۔
اب بھی ان کے جاسوس یا بعض ایسے سادہ لوح افراد تم میں موجود ہیں جو ان کی بات سنتے اور تھوڑا بہت متاثر ہوتے ہیں (ابن کثیر) گو ویسا فتنہ فساد برپا نہیں کر سکتے جو ان شریروں کے وجود سے ہو سکتا تھا، بلکہ ایک حیثیت سے ایسے جواسیس کا ہمراہ جانا مفید ہے کہ وہ بچشم خود مسلمانوں کی اولوالعزمی، بے جگری وغیرہ دیکھ کر ان سے نقل کریں گے تو ان کے دلوں پر بھی مسلمانوں کی ہیبت قائم ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
البتہ انہوں نے چاہا تھا اس سے قبل بھی بگاڑ، اور انہوں نے تمہارے لیے تدبیریں الٹ پلٹ کیں، یہاں تک کہ حق آ گیا، اور غالب آ گیا امرِ الہٰی اور وہ پسند نہ کرنے والے (نا خوش) رہے۔ (۴۸)
تشریح: جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، یہود اور منافقین مدینہ آپ کے خلاف طرح طرح کی فتنہ انگیزیاں کرتے رہے اور اسلام کی روز افزوں ترقیات کا تختہ الٹنے کے لیے بہت کچھ الٹ پھیر کی۔ مگر بدر میں جب کفر و شرک کے بڑے بڑے ستون گر گئے اور حیرت انگیز طریقہ پر اسلام کا غلبہ ظاہر ہوا تو عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا اِنْ ہٰذَا اَمْرٌ قَدْتَوَجَّہَ کہ یہ چیز تو اب رکنے والی معلوم نہیں ہوتی چنانچہ بہت سے لوگ خوف کھا کر محض زبان سے کلمہ پڑھنے لگے مگر چونکہ دل میں کفر چھپا ہوا تھا اس لئے جوں جوں اسلام و مسلمین کی کامیابی اور غلبہ دیکھتے ، دل دل میں جلتے اور غیظ کھاتے تھے۔ غرض ان کی فتنہ پردازی اور مکاری کوئی نئی چیز نہیں۔ شروع سے ان کا یہ ہی وطیرہ رہا ہے جنگ احد میں یہ لوگ اپنی جماعت کو لے کر راستہ سے لوٹ آئے تھے۔ مگر آخر دیکھ لیا کہ حق کس طرح غالب ہو کر رہتا ہے اور باطل کیسے ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں سے کوئی کہتا ہے مجھے اجازت دیں اور مجھے آزمائش میں نہ ڈالیں، یاد رکھو وہ آزمائش میں پڑ چکے ہیں، اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (۴۹)
تشریح: ایک بڑے منافق جد بن قیس نے کہا کہ حضرت مجھے تو یہیں رہنے دیجئے۔ روم کی عورتیں بہت حسین ہوتی ہیں، میں انہیں دیکھ کر دل قابو میں نہ رکھ سکوں گا۔ تو مجھے وہاں لیجا کر گمراہی میں نہ ڈالیے۔ فرمایا کہ یہ لفظ کہہ کر اور اپنے جبن و کفر پر جھوٹی پرہیزگاری کا پردہ ڈال کروہ گمراہی کے گڑھے میں گر چکا۔ اور آگے چل کر کفر و نفاق کی بدولت دوزخ کے گڑھے میں گرنے والا ہے ، بعض نے آیت کو عام منافقین کے حق میں رکھا ہے اور لَاتَفْتَنِیْ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم کو ساتھ لے جا کر اموال وغیرہ کے نقصان میں مبتلا نہ کیجئے اس کا جواب الافی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوا سے دیا۔
(تفسیرعثمانی)
اگر تمہیں پہنچے کوئی بھلائی تو انہیں بری لگے ، اور تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہیں ہم نے اپنا کام سنبھال لیا تھا اس سے پہلے اور وہ خوشیاں مناتے لوٹ جاتے ہیں۔ (۵۰)
تشریح: منافقین کی عادت تھی۔ جب مسلمانوں کو غلبہ و کامیابی نصیب ہوتی تو جلتے اور کڑھتے تھے۔ اور اگر کبھی کوئی سختی کی بات پیش آ گئی مثلاً کچھ مسلمان شہید یا مجروح ہو گئے۔ تو فخریہ کہتے کہ ہم نے از راہِ دور اندیشی پہلے ہی اپنے بچاؤ کا انتظام کر لیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہی حشر ہونے والا ہے لہٰذا ان کے ساتھ گئے ہی نہیں۔ غرض ڈینگیں مارتے ہوئے اور خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے اپنی مجلسوں سے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں ہمیں ہرگز نہ پہنچے گا مگر (وہی) جو اللہ نے ہماری لیے لکھ دیا ہے ، وہی ہمارا مولا ہے ، اور مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ (۵۱)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں کیا تم ہر دو خوبیوں میں سے ہم پر ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے لیے انتظار کر رہے ہیں کہ تمہیں پہنچے اللہ کے پاس سے عذاب یا ہمارے ہاتھوں سے ، سو تم انتظار کرو، ہم (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔ (۵۲)
تشریح: یعنی سختی یا نرمی جو جس وقت کے لیے مقدر ہے وہ تو ٹل نہیں سکتی، نہ دنیا میں اس سے چارہ ہے۔ مگر ہم چونکہ ظاہر و باطن سے خدا کو اپنا حقیقی مولا اور پروردگار سمجھتے ہیں، لہٰذا ہماری گردنیں اس کے فیصلے اور حکم کے سامنے پست ہیں۔ کوئی سختی اس کی فرمانبرداری سے باز نہیں رکھتی۔ اور اسی پر ہم کو بھروسہ ہے کہ وہ عارضی سختی کو آخرت میں بالیقین اور بسا اوقات دنیا میں بھی راحت و خوشی سے تبدیل کر دے گا۔ اندریں صورت تم ہماری نسبت دو بھلائیوں میں سے کسی ایک کی ضرور امید کر سکتے ہو۔ اگر خدا کے راستہ میں مارے گئے تو شہادت و جنت، اور واپس آئے تو اجر یا غنیمت ضرور مل کر رہے گی۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں حق تعالیٰ نے مجاہد کی نسبت ان چیزوں کا تکفّل فرمایا ہے۔ برخلاف اس کے تمہاری نسبت ہم منتظر ہیں کہ دو برائیوں میں سے ایک برائی ضرور پہنچ کر رہے گی یا نفاق و شرارت کی بدولت بلاواسطہ قدرت کی طرف سے کوئی عذاب تم پر مسلط ہو گا، یا ہمارے ہاتھوں سے خدا تم کو سخت سزا دلوائے گا جو رسوا کر کے تمہارے نفاق کا پردہ فاش کر دے گی۔ بہرحال تم اور ہم دونوں کو ایک دوسرے کا انجام دیکھنے کے لیے منتظر رہنا چاہیے۔ آخر معلوم ہو جائے گا کہ دونوں میں زیادہ انجام بین اور دور اندیش کون تھا۔
(تفسیرعثمانی)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں تم خوشی سے خرچ کرو یا نا خوشی سے ہر گز تُم سے قبول نہ کیا جائے گا، بے شک تُم قوم ہو فاسقین۔ (۵۳)
تشریح: جد بن قیس نے رومی عورتوں کے فتنہ کا بہانہ کر کے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت میں بذاتِ خود نہیں جا سکتا۔ لیکن مالی اعانت کر سکتا ہوں۔ اس کا جواب دیا کہ بے اعتقاد کا مال قبول نہیں خواہ خوشی سے خرچ کرے یا ناخوشی سے۔ یعنی خوشی سے خدا کے راستہ میں خرچ کرنے کی ان کو توفیق کہاں وَلَا یُنْفِقُونَ اِلَّا وَہُمْ کَارِہُونَ تاہم اگر بالفرض خوشی سے بھی خرچ کریں تو خدا قبول نہ کرے گا۔ اس کا سبب اگلی آیت میں بتایا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان کا خرچ قبول ہونے میں مانع نہ ہوا مگر یہ کہ وہ منکر ہوئے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ، اور وہ نماز کو نہیں آ تے مگر سستی سے ، اور وہ خرچ نہیں کرتے مگر نا خوشی سے۔ (۵۴)
تشریح: عدم قبول کا اصل سبب تو ان کا کفر ہے جیسا کہ ہم پہلے متعدد مواقع میں اشارہ کر چکے کہ کافر کا ہر عمل مردہ اور بے جان ہوتا ہے۔ باقی نماز میں ہارے جی سے آنا، یا برے دل سے خرچ کرنا، یہ سب کفر کے ظاہری آثار ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
سو تمہیں تعجب نہ ہو ان کے مالوں پر، اور نہ ان کی اولاد پر، اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں اس سے دنیا کی زندگی میں عذاب دے ، اور ان کی جانیں نکلیں تو ( اس وقت) بھی وہ کافر ہوں۔ (۵۵)
تشریح: شبہ گزر سکتا تھا کہ جب یہ ایسے مردود ہیں تو ان کو مال و اولاد وغیرہ نعمتوں سے کیوں نوازا گیا ہے۔ اس کا جواب دیا کہ یہ نعمتیں ان کے حق میں بڑا عذاب ہیں، جس طرح ایک لذیذ اور خوشگوار غذا تندرست آدمی کی صحت و قوت کو بڑھاتی ہے اور فاسد الاخلاط مریض کو ہلاکت سے قریب تر کر دیتی ہے۔ یہ ہی حال ان دنیاوی نعمتوں (مال و اولاد وغیرہ) کا سمجھو، ایک کافر کے حق میں یہ چیزیں سوئے مزاج کی وجہ سے زہر ہلاہل ہیں۔ چونکہ کفار دنیا کی حرص و محبت میں غریق ہوتے ہیں، اس لیے اول اس کے جمع کرنے میں بیحد کوفت اٹھاتے ہیں۔ پھر ذرا نقصان یا صدمہ پہنچ گیا تو جس قدر محبت ان چیزوں سے ہے ، اسی قدر غم سوار ہوتا ہے اور کوئی وقت اس کے فکر و اندیشہ اور ادھیڑ بن سے خالی نہیں جاتا۔ پھر جب موت ان محبوب چیزوں سے جدا کرتی ہے اس وقت کے صدمے اور حسرت کا تو اندازہ کرنا مشکل ہے۔ غرض دنیا کے عاشق اور حریص کو کسی وقت حقیقی چین اور اطمینان میسر نہیں۔ چنانچہ یورپ و امریکہ وغیرہ کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے اقوال اس پر شاہد ہیں۔ باقی مومنین جو دولت اور اولاد کو معبود اور زندگی کا اصلی نصب العین نہیں سمجھتے ، چونکہ ان کے دل میں حب دنیا کا مرض نہیں ہوتا اس لیے یہ ہی چیزیں ان کے حق میں نعمت اور دین کی اعانت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر کفار کثرت مال و اولاد پر مغرور ہو کر کفرو طغیان میں اور زیادہ شدید ہو جاتے ہیں جو اس کا سبب بنتا ہے کہ اخیر دم تک کافر ہی رہیں۔ نیز منافقین مدینہ جن کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں، ان کا حال یہ تھا کہ بادل نخواستہ جہاد وغیرہ کے مواقع پر ریاء و نفاق سے مال خرچ کرتے تھے اور ان کی اولاد میں بعض لوگ مخلص مسلمان ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتے تھے ، یہ دونوں چیزیں منافقین کے منشائے قلبی کے بالکلیہ خلاف تھیں، اس طرح اموال و اولاد ان کے لیے دنیا میں عذاب بن گئے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یعنی یہ تعجب نہ کرے کہ بے دین کو اللہ نے نعمت کیوں دی، بے دین کے حق میں اولاد اور مال وبال ہے کہ ان کے پیچھے دل پریشان رہے اور ان کی فکر سے چھوٹنے نہ پائے مرتے دم تک، تاکہ توبہ کرے یا نیکی اختیار کرے۔”
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ بیشک وہ تم میں سے ہیں، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں، لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں۔ (۵۶)
اگر وہ پائیں کوئی پناہ کی جگہ، یا غار، یا گھسنے (سر سمانے ) کی جگہ، تو وہ اس کی طرف پھر جائیں رسیاں تڑاتے ہوئے۔ (۵۷)
تشریح: یعنی محض اس خوف سے کہ کفر ظاہر کریں تو کفار کا سا معاملہ ان کے ساتھ بھی ہونے لگے گا۔ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم تو تمہاری ہی جماعت (مسلمین) میں شامل ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اگر آج ان کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یا کسی غار میں چھپ کر زندگی بسر کر سکیں یا کم از کم ذرا سر گھسانے کی جگہ ہاتھ آ جائے ، غرض حکومت اسلامی کا خوف نہ رہے ، تو سب دعوے چھوڑ کر بے تحاشا اسی طرف بھاگنے لگیں، چونکہ نہ اسلامی حکومت کے مقابلہ کی طاقت ہے نہ کوئی پناہ کی جگہ ملتی ہے اس لیے قسمیں کھا کھا کر جھوٹی باتیں بناتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں سے بعض آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صدقات (کی تقسیم میں) طعن کرتے ہیں، سو اگر اس سے ان کو دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس سے نہ دیا جائے تو وہ اسی وقت ناراض ہو جاتے ہیں۔ (۵۸)
تشریح: بعض منافقین اور بعض اعراب (بدو) صدقات و غنائم کی تقسیم کے وقت دنیاوی حرص اور خود غرضی کی راہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت زبان طعن کھولتے تھے کہ تقسیم میں انصاف کا پہلو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ مگر یہ اعتراض اسی وقت تک تھا جب تک ان کی خواہش کے موافق صدقات وغیرہ میں سے حصہ نہ دیا جائے۔ اگر انہیں خوب جی بھر کر خواہش و حرص کے موافق دے دیا گیا تو خوش ہو جاتے اور کچھ اعتراض نہیں رہتا تھا گویا ہر طرح مال و دولت کو قبلہ مقصود ٹھہرا رکھا تھا۔ آگے بتلاتے ہیں کہ ایک مدعی ایمان کا مطمح نظر یہ نہیں ہونا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا اچھا ہوتا اگر وہ (اس پر) راضی ہو جاتے جو اللہ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں دیا، اور وہ کہتے ہمیں اللہ کافی ہے ، اب ہمیں دے گا اللہ اپنے فضل سے ، بیشک ہم اللہ اور اس کے رسول کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔ (۵۹)
تشریح: یعنی بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ خدا پیغمبر کے ہاتھ سے دلوائے اس پر آدمی راضی و قانع ہو اور صرف خدا پر توکل کرے اور سمجھے کہ وہ چاہے گا تو آئندہ اپنے فضل سے بہت کچھ مرحمت فرمائے گا۔ غرض دنیا کی متاع فانی کو نصب العین نہ بنائے۔ صرف خداوند رب العزت کے قرب و رضا کا طالب ہو اور جو ظاہری و باطنی دولت خدا اور رسول کی سرکار سے ملے اسی پر مسرور و مطمئن ہو۔
(تفسیرعثمانی)
زکوٰۃ (حق ہے ) صرف مفلسوں کا، اور محتاجوں کا، اور اس پر کام کرنے والے (کارکنوں کا)، اور (ان لوگوں کا) جنہیں (اسلام کی) الفت دی جائے ، اور گردنوں کے چھڑانے (آزاد کرانے میں) اور قرض داروں کا (قرض ادا کرنے میں)، اور اللہ کی راہ میں، اور مسافروں کا (یہ) اللہ کی طرف سے ٹھہرایا ہوا فریضہ ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔ (۶۰)
تشریح: چونکہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں پیغمبر پر طعن کیا گیا تھا، اس لیے متنبہ فرماتے ہیں کہ صدقات کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے۔ اس نے صدقات وغیرہ کے مصارف متعین فرما کر فہرست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے موافق تقسیم کرتے ہیں اور کریں گے کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہو سکتے۔ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”خدا نے صدقات (زکوٰۃ) کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا۔ بلکہ بذاتِ خود اس کے مصارف متعین کر دیے ہیں۔ جو آٹھ ہیں۔ ”فقراء” (جن کے پاس کچھ نہ ہو) ”مساکین” (جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو) ”عاملین” (جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیرہ کے کاموں پر مامور ہوں) ”مؤلفۃ القلوب” (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیر ذلک من الانواع، اکثر علماء کے نزدیک حضور کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی) ”رقاب” (یعنی غلاموں کا بدل کتابت ادا کر کے آزادی دلائی جائے۔ یا خرید کر آزاد کیے جائیں۔ یا اسیروں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں) ”غارمین” (جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہو گئے یا کسی کی ضمانت وغیرہ کے بارے میں دب گئے ) ”سبیل اللہ” (جہاد وغیرہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے ) ”ابن السبیل” (مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو، گو مکان پر دولت رکھتا ہو) ”حنفیہ” کے یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے۔ تفصیل فقہ میں ملاحظہ کی جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں بعض لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ تو کان ہے (کانوں کا کچا ہے ) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں کان تمہاری بھلائی کے لیے ہے ، وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں، اور مومنوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے رحمت ہیں جو تم میں سے ایمان لائے ، اور جو لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ستاتے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (۶۱)
تشریح: منافقین آپس میں بیٹھ کر اسلام کے متعلق بد گوئی کرتے۔ جب کوئی کہتا کہ ہماری یہ باتیں پیغمبر علیہ السلام تک پہنچ جائیں گی تو کہتے کیا پروا ہے۔ ان کے سامنے ہم جھوٹی تاویلیں کر کے اپنی برأت کا یقین دلا دیں گے۔ کیونکہ وہ تو کان ہی کان ہیں جو سنتے ہیں فوراً تسلیم کر لیتے ہیں۔ ان کو باتوں میں لے کر آنا کچھ مشکل نہیں۔ بات یہ تھی کہ حضرت اپنے حیاء و وقار اور کریم النفسی سے جھوٹے کا جھوٹ پہچانتے ، تب بھی نہ پکڑتے۔ خلق عظیم کی بناء پر مسامحت اور تغافل برتتے۔ وہ بیوقوف جانتے کہ آپ نے سمجھا ہی نہیں۔ حق تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ اگر وہ کان ہی ہیں تو تمہارے بھلے کے واسطے ہیں۔ نبی کی یہ خوبی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ نہیں تو اول تم پکڑے جاؤ گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چشم پوشی اور خلق عظیم پر کسی وقت مطلع ہو کر تمہیں ہدایت ہو جائے۔ تمہاری جھوٹی باتوں پر نبی علیہ السلام کا سکوت اس لیے نہیں کہ انہیں واقعی تمہارا یقین آ جاتا ہے۔ یقین تو ان کو اللہ پر ہے اور ایمانداروں کی بات پر ہاں تم میں سے جو دعوائے ایمان رکھتے ہیں، ان کے حق میں آپ کی خاموشی و اغماض ایک طرح کی رحمت ہے کہ فی الحال منہ توڑ تکذیب کر کے ان کو رسوا نہیں کیا جاتا۔ باقی منافقین کی حرکات شنیعہ خدا سے پوشیدہ نہیں۔ رسول کی پیٹھ پیچھے جو بد گوئی کرتے ہیں یا ”ہُوَا اُذُنُ” کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے ہیں، ان پر سزائے سخت کے منتظر رہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ تمہارے لیے (تمہارے سامنے ) اللہ کی قسمیں کھاتیں ہیں تاکہ تمہیں خوش کریں اور اللہ اور کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا زیادہ حق ہے کہ وہ انہیں خوش کریں اگر وہ ایمان والے ہیں۔ (۶۲)
تشریح: حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ ”کسی وقت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دغا بازی پکڑتے تو مسلمانوں کے روبرو قسمیں کھاتے کہ ہمارے دل میں بری نیت نہ تھی۔ تاکہ ان کو راضی کر کے اپنی طرف کر لیں۔ نہ سمجھے کہ یہ فریب بازی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کام نہیں آتی۔ ” اگر دعوائے ایمان میں واقعی سچے ہیں تو دوسروں کو چھوڑ کر خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کی فکر کریں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ نہیں جانتے کہ جو مقابلہ کرے گا اللہ کا اور اس کے رسول کا تو بیشک اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی رسوائی ہے۔ (۶۳)
منافقین ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی ایسی سورۃ نازل (نہ) ہو جائے جو انہیں ( مسلمانوں کو) بتا دے جو ان (منافقوں) کے دلوں میں ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں تم ٹھٹھے (ہنسی مذاق) کرتے رہو، بیشک تم جس سے ڈرتے ہو اللہ اسے کھولنے والا ہے (کھول کر لائے گا)۔ (۶۴)
تشریح: منافقین اپنی مجلسوں میں اسلام و پیغمبر اسلام کی بد گوئی کرتے ، مومنین صادقین پر آوازے کستے ، مہمات دین کا مذاق اڑاتے ، پھر جب خیال آتا کہ ممکن ہے یہ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائیں، تو کہتے کیا مضائقہ ہے وہ تو کان ہی کان ہیں، ہم ان کے سامنے جو تاویل و تلمیع کر دیں گے ، سن کر اسے قبول کر لیں گے۔ مگر چونکہ بسا اوقات وحی الٰہی کے ذریعہ سے ان کے نفاق و بد باطنی کی قلعی کھلتی رہتی تھی، اس لیے یہ ڈر بھی لگا رہتا تھا کہ کوئی سورت قرآن میں ایسی نازل نہ ہو جائے جو ہمارے مخاطباتِ سریہ ونیات خفیہ کا پردہ فاش کر دے۔ اصل یہ ہے کہ منافقین کا قلب جبن و کمزوری سے کسی ایک طرف قائم نہ ہوتا تھا۔ ان کے دل ہر وقت دگدا میں رہتے تھے۔ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اغماض و کریم النفسی کو دیکھ کر کچھ تسلی حاصل کرتے مگر صاعقہ قرآنی کی گرج سے پھر دہلنے لگتے تھے۔ اسی لیے فرمایا کہ بہتر ہے ، تم ٹھٹھے کرتے رہو اور استہزاء و تمسخر کا عمل جاری رکھو اور پیغمبر کی نسبت ”ہوا اذن” کہہ کر تسلی کر لو۔ لیکن خدا اس چیز کو ضرور کھول کر رہے گا جس کا تم کو ڈر لگا ہوا ہے وہ تمہارے مکر و خداع کا تار تار بکھیر کر رکھ دے گا۔ ن خدا اس چیز کو ضرور کھول کر رہے گا جس کا تم کو ڈر لگا ہوا ہے وہ تمہارے مکر و خداع کا تار تار بکھیر کر رکھ دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور گر تم ان سے پوچھو تو وہ ضرور کہیں گے ہم تو صرف دل لگی اور کھیل کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں کیا تم اللہ سے ، اور اس کی آیات سے ، اور ا سے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ہنسی کرتے ہو۔ (۶۵)
تشریح: ”تبوک” میں جاتے ہوئے بعض منافقین نے از راہ تمسخر کہا۔ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھو کہ شام کے محلات اور روم کے شہروں کو فتح کر لینے کا خواب دیکھتا ہے۔ انہوں نے رومیوں کی جنگ کو عربوں کی باہمی جنگ پر قیاس کر رکھا ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ کل ہم سب رومیوں کے سامنے رسیوں میں بندھے ہوئے کھڑے ہوں گے۔ یہ ہمارے قراء (صحابہ رضی اللہ عنہم) پیٹو، جھوٹے اور نامردے کیا روم کی باقاعدہ فوجوں سے جنگ کریں گے ” وغیرذالک من الہفوات۔ اس قسم کے مقولے جو مسلمانوں کو روم سے مرعوب و ہیبت زدہ کرنے اور شکستہ خاطر بنانے کے لیے کہہ رہے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نقل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر باز پرس کی تو کہنے لگے کہ حضرت !ہم کہیں سچ مچ ایسا اعتقاد تھوڑا ہی رکھتے ہیں محض خوش وقتی و دل لگی کے طور پر کچھ کہہ رہے تھے کہ باتوں میں با آسانی سفر کٹ جائے۔
یعنی کیا دل لگی اور خوش وقتی کا موقع و محل یہ ہے کہ اللہ، رسول اور ان کے احکام کے ساتھ ٹھٹھا کیا جائے ؟ خدا اور رسول کا استہزاء اور احکام الٰہیہ کا استخفاف تو وہ چیز ہے کہ اگر محض زبان سے دل لگی کے طور پر کیا جائے ، وہ بھی کفر عظیم ہے۔ چہ جائیکہ منافقین کی طرح از راہ شرارت و بد باطنی ایسی حرکت سرزد ہو۔
(تفسیرعثمانی)
بہانے نہ بناؤ تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے ، اور ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر دیں تو دوسرے گروہ کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے۔ (۶۶)
تشریح: یعنی جھوٹے عذر تراشنے اور حیلے حوالوں سے کچھ فائدہ نہیں جن کو نفاق و استہزاء کی سزا ملنی ہے مل کر رہے گی۔ ہاں جو اب بھی صدق دل سے توبہ کر کے اپنے جرائم سے باز آ جائیں گے ، انہیں خدا معاف کر دے گا، یا جو پہلے ہی سے باوجود کفر و نفاق کے اس طرح کی فتنہ انگیزی اور استہزاء سے علیحدہ رہے ہیں، انہیں استہزاء و تمسخر کی سزا یہاں نہ ملے گی۔
(تفسیرعثمانی)
منافق مرد اور منافق عورتیں ان میں سے بعض، بعض کے (ایک دوسرے کے ہم جنس ) ہیں، برائی کا حُکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں، اور اپنے ہاتھ (مُٹھیاں خرچ کرنے سے ) بند رکھتے ہیں، وہ اللہ کو بھول بیٹھے ہیں تو اللہ نے اُنہیں بُھلا دیا بے شک منافق ہی نافرمان ہیں۔ (۶۷)
تشریح: یعنی سب سے بڑے نافرمان یہی بد باطن منافق ہیں جن کے مرد و عورت زبانی اقرار و اظہارِ اسلام کے باوجود شب و روز اسی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ ہر قسم کے حیلے اور فریب کر کے لوگوں کو اچھی باتوں سے بیزار اور برے کاموں پر آمادہ کریں۔ خرچ کرنے کے اصلی موقعوں پر مٹھی بند رکھیں۔ غرض کلمہ پڑھتے رہیں۔ لیکن نہ ان کی زبان سے کسی کو بھلائی پہنچے نہ مال سے۔ جب یہ خدا کو ایسا چھوڑ بیٹھے تو خدا نے بھی ان کو چھوڑ دیا۔ چھوڑ کر کہاں گرایا؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ نے منافق مردوں، اور منافق عورتوں، اور کافروں کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے ، اس میں ہمیشہ رہیں گے ، وہی ان کے لیے کافی ہے اور ان پر اللہ نے لعنت کی، اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ (۶۸)
تشریح: یہ ایسی کافی سزا ہے جس کے بعد دوسری سزا کی ضرورت نہیں رہتی۔
(تفسیرعثمانی)
جس طرح وہ لوگ جو تم سے قبل تھے وہ تم سے بہت زور والے تھے قوت میں، اور زیادہ تھے مال میں، اور اولاد میں، سو انہوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا، سو تم اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لو، جیسے انہوں نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا جو تم سے پہلے تھے ، اور تم (بری باتوں میں ) گھسے جیسے وہ گھسے تھے ، وہی لوگ ہیں جن کے عمل دنیا اور آخرت میں اکارت گئے ، اور وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے۔ (۶۹)
تشریح: دنیاوی لذائذ کا جو حصہ ان کے لیے مقدر تھا، اس سے فائدہ اٹھا گئے اور آخری انجام کا خیال نہ کیا۔
تم بھی ان کی طرح آخری انجام کے تصور سے غافل ہو کر دنیا کی متاع فانی سے جتنا مقدر ہے حصہ پا رہے ہو اور ساری چال ڈھال انہی کی سی رکھتے ہو، تو سمجھ لو جو حشر ان کا ہوا و ہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے ان کے پاس مال و اولاد اور جسمانی قوتیں تم سے زائد تھیں پھر انتقام الٰہی کی گرفت سے نہ بچ سکے تو تم کو کاہے پر بھروسہ ہے جو خدائی سزا سے اس قدر بے فکر ہو بیٹھے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
کیا ان تک ان لوگوں کی خبر نہ آئی (نہ پہنچی) جو ان سے پہلے تھے ، قومِ نوح اور عاد اور ثمود، اور قومِ ابراہیم اور مدین والے ، اور وہ بستیاں جو الٹ دی گئیں ان کے پاس ان کے رسول آئے واضح احکام و دلائل کے ساتھ، سو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا، لیکن وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (۷۰)
تشریح: قوم نوح طوفان سے ”عاد” آندھی سے ، ”ثمود” صیحہ (چیخ) سے ہلاک ہوئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی حق تعالیٰ نے عجیب و غریب خارق عادت طریقہ سے تائید فرمائی جنہیں دیکھ کر ان کی قوم ذلیل و ناکام ہوئی، ان کا بادشاہ نمرود نہایت بدحالی کی موت مارا گیا۔ اصحاب مدین صیحہ (چیخ) رجفہ (زلزلہ) وغیرہ سے تباہ ہوئے۔ قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں اور اوپر سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ ان سب اقوام کا قصہ (بجز قوم ابراہیم کے ) سورہ اعراف میں گزر چکا۔
خدا کسی کو بلا وجہ اور بے موقع سزا نہیں دیتا۔ لوگ خود ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جن کے بعد عذاب الٰہی کا آنا ناگزیر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ان میں سے بعض، بعض کے (ایک دوسرے کے ) رفیق ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، اور وہ نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۷۱)
تشریح:ابتدائے رکوع میں منافقین کے اوصاف بیان ہوئے تھے۔ یہاں بطور مقابلہ مومنین کی صفات ذکر کی گئیں۔ یعنی جبکہ منافقین لوگوں کو بھلائی سے روک کر برائی کی ترغیب دیتے ہیں۔ مومنین بدی کو چھڑا کر نیکی کی طرف آمادہ کرتے ہیں۔ منافقین کی مٹھی بند ہے مومنین کا ہاتھ کھلا ہوا ہے۔ وہ بخل کی وجہ سے خرچ کرنا نہیں جانتے ، یہ اموال میں سے باقاعدہ حقوق (زکوٰۃ وغیرہ) ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے خدا کو بالکل بھلا دیا۔ یہ پانچ وقت خدا کو یاد کرتے اور تمام معاملات میں خدا اور رسول کے احکام پر چلتے ہیں اسی لیے وہ مستحق لعنت ہوئے اور یہ رحمت خصوصی کے امیدوار ٹھہرے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ کیا ہے ، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے ، اور پاکیزہ مکانات ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں، اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی بات ہے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۷۲)
تشریح:یعنی تمام نعمائے دنیاوی و اخروی سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جنت بھی اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ رضائے الٰہی کا مقام ہے۔ حق تعالیٰ مومنین کو جنت میں ہر قسم کی جسمانی و روحانی نعمتیں اور مسرتیں عطا فرمائے گا۔ مگر سب سے بڑی نعمت محبوب حقیقی کی دائمی رضا ہو گی۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حق تعالیٰ اہل جنت کو پکارے گا۔ جنتی ”لبیک” کہیں گے۔ دریافت فرمائے گا۔ ”رَضَیْتُمْ” یعنی اب تم خوش ہو گئے۔ جواب دیں گے کہ پروردگار! خوش نہ ہونے کی وجہ؟ جبکہ آپ نے ہم پر انتہائی انعام فرمایا ہے۔ ارشاد ہو گا ہَلْ اُعْطِیْکُمْ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ” یعنی جو کچھ اب تک دیا گیا ہے کیا اس سے بڑھ کر ایک چیز لینا چاہتے ہو، جنتی سوال کریں گے کہ اے پروردگار! اس سے افضل اور کیا چیز ہو گی؟ اس وقت فرمائیں گے احل عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلاَ اَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہ، اٰبَداً اپنی دائمی رضا ور خوشنودی تم پر اتارتا ہوں، جس کے بعد کبھی خفگی اور ناخوشی نہ ہو گی رَزَقْنَا اللہ وَسَائِرِ الْمُوْمِنِیْنَ ہذہ الکرامۃ العَظِیْمَۃِ الْبَاہِرَۃَ۔
(تفسیرعثمانی)
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں، اور ان پر سختی کریں، اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ پلٹنے کی بری جگہ ہے۔ (۷۳)
تشریح: جہاد کے اصل معنی جدوجہد اور محنت و کوشش کے ہیں، دین کی حفاظت اور دفاع کے لئے یہ کوشش مسلح لڑائی کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے اور زبانی دعوت و تبلیغ اور بحث و مباحثہ کی صورت میں بھی، کھلے کافروں کے ساتھ یہاں جہاد کے پہلے معنی مراد ہیں، اور منافقین کے ساتھ جہاد کے دوسرے معنی مقصود ہیں، چونکہ منافقین زبان سے اسلام لانے کا اظہار کرتے تھے ، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شرارتوں کے باوجود یہ حکم دیا کہ دنیا میں ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی معاملہ کیا جائے ، اس لئے ان کے ساتھ جہاد کا مطلب زبانی جہاد ہے ، اور ان پر سختی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اول تو گفتگو میں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے ، دوسرے اگر ان سے کوئی قابل سزا جرم سرزد ہو تو انہیں معافی نہ دی جائے۔
(توضیح القرآن)
وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا، حالانکہ انہوں نے ضرور کفر کا کلمہ کہا، اور اپنے اسلام (لانے کے ) بعد انہوں نے کفر کیا، اور انہوں نے (اس چیز کا) قصد کیا جو انہیں نہ ملی، اور انہوں نے بدلہ نہ دیا مگر (صرف اس بات کا) کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا، سو اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا، اور اگر وہ پھر جائیں تو اللہ انہیں دردناک عذاب دے گا دنیا میں اور آخرت میں، اور ان کے لیے نہ ہو گا زمین میں کوئی حمایتی، اور نہ مددگار۔ (۷۴)
تشریح:منافقین کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ اپنی مجلسوں میں کافرانہ باتیں کہتے رہتے تھے لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو وہ صاف انکار کر دیتے اور قسم کھا لیتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی، مثلاً ایک مرتبہ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانو ں کے بارے میں ایک انتہائی گستاخانہ بات کہی تھی جسے نقل کرنا بھی مشکل ہے اور اس کے بعد کہا کہ جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو ہم میں سے با عزت لوگ ذلیلوں کو نکال باہر کریں گے ، اس کا ذکر خود قرآن کریم نے سورۂ منافقون (۲۸) میں فرمایا ہے ، لیکن جب اس سے پوچھا گیا تو مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا (روح المعانی بحوالہ ابن جریر ابن المنذر وغیرہ)۔
(توضیح القرآن)
وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا :غزوہ تبوک سے واپسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سے علیحدہ ہو کر ایک پہاڑی راستہ کو تشریف لے جا رہے تھے۔ تقریباً بارہ منافقین نے چہرے چھپا کر رات کی تاریکی میں چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ چلائیں اور معاذ اللہ پہاڑی سے گرا دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حذیفہ اور عمار تھے۔ عمارکو انہوں نے گھیر لیا تھا، مگر حذیفہ نے مار مار کر ان کی اونٹنیوں کے منہ پھیر دیے۔ چونکہ چہرے چھپائے ہوئے تھے۔ حذیفہ وغیرہ نے ان کو نہیں پہچانا۔ بعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ و عمار رضی اللہ عنہما کو نام بنام ان کے پتے بتا دیے۔ مگر منع فرما دیا کہ کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اسی واقعہ کی طرف وہَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا میں اشارہ ہے کہ جو ناپاک قصد انہوں نے کیا خدا کے فضل سے پورا نہ ہوا، بعض علماء نے لکھا ہے کہ کسی موقع پر لشکر اسلام میں کچھ خانہ جنگی ہو گئی تھی، منافقین نے اغوا کر کے مہاجرین و انصار میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرما دی جیسا کہ سورہ منافقون میں آئے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وَمَا نَقَمُوْا إِلَّآ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ :یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خدا نے انہیں دولت مند کر دیا، قرضوں کے بارے سے سبکدوش ہوئے ، مسلمانوں کے ساتھ ملے جلے رہنے کی وجہ سے غنائم میں حصہ ملتا رہا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے پیداوار اچھی ہوئی، ان احسانات کا بدلہ یہ دیا کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغا بازی کرنے لگے اور ہر طرح پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کو ستانے پر کمر باندھ لی۔ اب بھی اگر توبہ کر کے شرارتوں اور احسان فراموشیوں سے باز آ جائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ خدا دنیا و آخرت میں وہ سزا دے گا جس سے بچانے والا روئے زمین پر کوئی نہ ملے گا۔ بعض روایات میں ہے کہ ”جلاس” نامی ایک شخص یہ آیات سن کر صدق دل سے تائب ہوا، اور آئندہ اپنی زندگی خدمت اسلام میں قربان کر دی۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں سے (بعض وہ ہیں) جنہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے دے تو ہم ضرور صدقہ دیں گے اور ہم ضرور ہو جائیں گے صالحین (نیکو کاروں) میں سے۔ (۷۵)
پھر جب اس نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو انہوں نے اس میں بخل کیا اور وہ پھر گئے اور وہ روگردانی کرنے والے ہیں۔ (۷۶)
تشریح: ایک شخص ثعلبہ بن حاطب انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے حق میں دولت مند ہو جانے کی دعا فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ ثعلبہ! تھوڑی چیز جس پر تو خدا کا شکر ادا کرے ، اس بہت چیز سے اچھی ہے جس کے حقوق ادا نہ کر سکے۔ اس نے پھر وہی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ثعلبہ! کیا تجھے پسند نہیں کہ میرے نقشِ قدم پر چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار پر اس کا اصرار بڑھتا رہا۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگر خدا مجھ کو مال دے گا، میں پوری طرح حقوق ادا کروں گا۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، اس کی بکریوں میں اس قدر برکت ہوئی کہ مدینہ سے باہر ایک گاؤں میں رہنے کی ضرورت پڑی اور اتنا پھیلاوا ہوا کہ ان میں مشغول ہو کر رفتہ رفتہ جمعہ و جماعات بھی ترک کرنے لگا۔ کچھ دنوں بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والے ” محصل” پہنچے تو کہنے لگا کہ زکاۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایک دفعہ ٹلا کر آخر زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا”ویح ثعلبہ” اور یہ آیات نازل ہوئیں، جب اس کے بعد اقارب نے اس کی خبر پہنچائی تو با دلِ نخواستہ زکاۃ لے کر حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھ کو تیری زکاۃ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ یہ سن کر اس نے بہت ہائے واویلا کی، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زکاۃ قبول نہ کرنا اس کے لیے بڑی عار کی بات تھی۔ بدنامی کے تصور سے سر پر خاک ڈالتا تھا۔ مگر دل میں نفاق چھپا ہوا تھا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق کی خدمت میں زکاۃ لے کر حاضر ہوا۔ انہوں نے بھی قبول کرنے سے انکار فرمایا۔ پھر حضرت عمر اور ان کے بعد حضرت عثمان کی خدمت میں زکاۃ پیش کی، دونوں نے انکار فرمایا۔ ہر ایک یہی کہتے تھے کہ جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دی ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے۔ آخر اسی حالت نفاق پر حضرت عثمان کے عہد میں اس کا خاتمہ ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
تو (اللہ نے ) اس کا انجام کار ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا روزِ قیامت تک کہ وہ اس سے ملیں گے ، کیونکہ انہوں نے جو اللہ سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ (۷۷)
تشریح: یعنی خدا سے صریح وعدہ خلافی کرنے اور جھوٹ بولتے رہنے کی سزا میں ان کے بخل و اعراض کا اثر یہ ہوا کہ ہمیشہ کے لیے نفاق کی جڑ ان کے دلوں میں قائم ہو گئی جو قیامت تک نکلنے والی نہیں۔ اور یہی ”سنت اللہ” ہے کہ جب کوئی شخص اچھی یا بری خصلت خود اختیار کر لیتا ہے تو کثرت سے مزاولت و ممارست سے وہ دائمی بن جاتی ہے۔ بری خصلت کے اسی دوام و استحکام کو کبھی کبھی ختم و طبع (مہر لگانے ) سے تعبیر کر دیتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے بھید اور ان کی سرگوشیوں کو جانتا ہے ، اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (۷۸)
تشریح: یعنی خواہ کیسے ہی وعدے کریں، باتیں بنائیں، یا مجبور ہو کر مال پیش کریں۔ خدا ان کے ارادوں اور نیتوں کو خوب جانتا ہے اور اپنے ہم مشوروں کے ساتھ بیٹھ کر جو مشورے کرتے ہیں، ان سے پوری طرح آگاہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ لَنَصَدَّقَّنَ وَلِنَکُونَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْن کا وعدہ اور گھبرا کر زکاۃ حاضر کرنا کس دل اور کیسی نیت سے تھا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں، جو خوشی سے خیرات کرتے ہیں، اور وہ لوگ جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت (کا صلہ) وہ ( منافق) ان سے مذاق کرتے ہیں، اللہ نے ان کے مذاق (کا جواب) دیا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (۷۹)
تشریح: ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار (دینار یا درہم) حاضر کر دیے۔ عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجوریں (جن کی قیمت چار ہزار درہم ہوتی تھی) پیش کیں۔ منافقین کہنے لگے کہ ان دونوں نے دکھلاوے اور نام و نمود کو اتنا دیا ہے۔ ایک غریب صحابی ابو عقیل حجاب نے جو محنت و مشقت سے تھوڑا سا کما کر لائے۔ اس میں سے ایک صاع ثمر صدقہ کیا تو مذاق اڑانے لگے کہ یہ خواہ مخواہ زور آوری سے لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ بھلا اس کی ایک صاع کھجوریں کیا پکار کریں گی۔ غرض تھوڑا دینے والا اور بہت خرچ کرنے والا کوئی ان کی زبان سے بچتا نہ تھا۔ کسی پر طعن، کسی سے ٹھٹھا کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا ”سَخِرَاللّٰہُ مِنْہُم” (اللہ نے ان سے ٹھٹھا کیا ہے ) یعنی ان کے طعن و تمسخر کا بدلہ دیا، بظاہر تو وہ چند روز کے لیے مسخراپن کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیئے گئے ہیں، لیکن فی الحقیقت اندر ہی اندر سکھ کی جڑیں کٹتی چلی جا رہی ہیں۔ اور عذاب الیم ان کے لیے تیار ہے۔
(تفسیرعثمانی)
آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے بخشش مانگیں یا ان کے لیے بخشش نہ مانگیں (برابر ہے ) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے ستر بار (بھی) بخشش مانگیں اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا، یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کفر کیا، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۸۰)
تشریح: یعنی منافقین کے لیے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کتنی ہی مرتبہ استغفار کیجئے ان کے حق میں بالکل بیکار اور بے فائدہ ہے ، خدا ان بدبخت کافروں اور نافرمانوں کو کبھی معاف نہ کرے گا۔
(تفسیرعثمانی)
پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں، اور انہوں نے کہا گرمی میں کوچ نہ کرو، آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں جہنم کی آگ گرمی میں سب سے زیادہ ہے ، کاش وہ سمجھ سکتے۔ (۸۱)
تشریح: یہ ان منافقین کے متعلق ہے جو غزوہ تبوک کی شرکت سے علیحدہ رہے۔ یعنی منافقین کا حال یہ ہے کہ برائی اور عیب کا کام کر کے خوش ہوتے ہیں، نیکی سے گھبرا کر دور بھاگتے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے گزرا نیکی کرنے والوں پر طعن کرتے اور آوازے کستے ہیں۔
اگر سمجھ ہوتی تو خیال کرتے کہ یہاں کی گرمی سے بچ کر جس گرمی کی طرف جا رہے ہو وہ کہیں زیادہ سخت ہے۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ دھوپ سے بھاگ کر آگ کی پناہ لی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر درجہ زیادہ تیز ہے۔ نعوذ باللہ منہا۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
چاہئے کہ وہ ہنسیں تھوڑا اور روئیں زیادہ، یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کماتے ہیں۔ (۸۲)
تشریح: یعنی چند روز اپنی حرکات پر خوش ہو لو اور ہنس لو۔ پھر ان کرتوتوں کی سزا میں ہمیشہ کو رونا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر اللہ آپ کو کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے ان میں سے ، پھر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے (جہاد کے لیے ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں تم میرے ساتھ کبھی بھی ہر گز نہ نکلو گے ، اور ہرگز نہ لڑو گے دشمن سے میرے ساتھ (مل کر)، بیشک تم نے پہلی بار بیٹھ رہنے کو پسند کیا، سو تم پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھو۔ (۸۳)
تشریح: یعنی اب اگر یہ لوگ کسی دوسرے غزوہ میں ساتھ چلنے کی اجازت مانگیں تو فرما دیجئے کہ بس! تمہاری ہمت و شجاعت کا بھانڈا پھوٹ چکا اور تمہارے دلوں کا حال پہلی مرتبہ کھل چکا، نہ تم کبھی ہمارے ساتھ نکل سکتے ہو اور نہ دشمنانِ اسلام کے مقابلہ میں بہادری دکھا سکتے ہو، لہٰذا اب تم کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ عورتوں، بچوں، اپاہج اور ناتوان بڈھوں کے ساتھ گھر میں گھسے بیٹھے رہو اور جس چیز کو پہلی دفعہ تم نے اپنے لیے پسند کر لیا ہے مناسب ہے کہ اسی حالت پر مرو۔ تاکہ اچھی طرح عذاب الٰہی کا مزہ چکھو۔
(تفسیرعثمانی)
ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی ان پر نمازِ (جنازہ) نہ پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کفر کیا، اور وہ (اس حال میں) مرے جبکہ وہ نافرمان تھے۔ (۸۴)
تشریح: اس آیت کا شان نزول صحیح بخاری وغیرہ میں یہ منقول ہے کہ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا، لیکن اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سچے اور پکے مسلمان تھے ، اگرچہ عبداللہ بن ابی کی منافقت کئی مواقع پر ظاہر ہو چکی تھی، لیکن چونکہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا تھا، اس لئے ظاہری طور پر اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا تھا، چنانچہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ نے جو سچے مسلمان تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ا سکی نماز جنازہ پڑھائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اپنی امت کے ہر فرد کے لئے بڑے مہربان تھے ، اس لئے آپ نے یہ درخواست منظور فرما لی اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیا جو پیچھے گزر چکی ہے کہ تم ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا (آیت نمبر:۸۰) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں چاہوں تواستغفار کروں، اس لئے میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کر لوں گا، چنانچہ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا پھر آپ نے کسی بھی منافق کی نماز نہیں پڑھائی۔
(توضیح القرآن)
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ احتیاطاً ایسے شخص کا جنازہ نہ پڑھتے تھے جس کی نماز میں حضرت حذیفہ شریک نہ ہوں کیونکہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے منافقین کا نام بنام علم کرا دیا تھا۔ اسی لیے ان کا لقب ”صاحب سرِّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تعجب میں نہ ڈالیں ان کے مال اور ان کی اولاد، اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ انہیں اس سے دنیا میں عذاب دے اور (اس حال میں) ان کی جانیں نکلیں جب وہ کافر ہوں۔ (۸۵)
تشریح:آیات مذکورہ میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا جو غزوۂ تبوک میں شریک ہونے سے حیلے بہانے کر کے رک گئے تھے ، ان منافقین میں بعض مال دار خوش حال لوگ بھی تھے ، ان کے حال سے مسلمانوں کو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ جب یہ لوگ اللہ کے نزدیک مردود و نا مقبول ہیں تو ان کو دنیا میں ایسی نعمتیں کیوں ملیں، اس کے جواب میں پہلی فرمایا گیا کے اگر غور کرو گے تو ان کے امول و اولاد ان کے لئے رحمت و نعمت نہیں ، بلکہ دنیا میں بھی عذاب ہی ہیں، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے ، دنیا میں عذاب ہونا اس طرح ہے کہ مال کی محبت اس کی حفاظت کی اور پھر اس کے بڑھانے کی فکریں ان کو ایسی لگی رہتی ہیں کہ کسی وقت کسی حال چین نہیں لینے دیتی، ساز وسامان راحت کا ان کے پاس کتنا ہی ہو مگر راحت نہیں ہوتی جو قلب کے سکون و اطمینان کا نام ہے ، اس کے علاوہ یہ دنیا کا مال و متاع چونکہ ان کو آخرت سے غافل کر کے کفر و معاصی میں انہماک کا سبب بھی بن رہا ہے اس لئے سبب عذاب ہونے کی وجہ سے بھی اس کو عذاب کہا جا سکتا ہے۔
(ملخص معارف القرآن)
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ (مل کر) جہاد کرو تو ان میں سے مقدور والے آپ سے اجازت چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیں کہ ہم بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ہو جائیں۔ (۸۶)
وہ راضی ہوئے کہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ ہو جائیں، اور مہر لگ گئی ان کے دلوں پر، سو وہ سمجھتے نہیں۔ (۸۷)
تشریح: یعنی قرآن کی کسی سورت میں جب تنبیہ کی جاتی ہے کہ پوری طرح خلوص و پختگی سے ایمان لاؤ، جس کا بڑا اثر یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ ہو کر خدا کے راستہ میں جہاد کریں۔ تو یہ منافقین جان چرانے لگتے ہیں اور ان میں کے استطاعت و مقدور والے بھی جھوٹے عذر تراش کر اجازت طلب کرنے آتے ہیں کہ حضرت! ہمیں تو یہیں مدینہ میں رہنے دیجئے۔ گویا کمال بے غیرتی اور نامردی سے اس پر راضی ہیں کہ لڑائی یا خطرہ کا نام سنتے ہی خانہ نشین عورتوں کے ساتھ گھروں میں گھس کر بیٹھ رہیں۔ ہاں جس وقت جنگ وغیرہ کا خطرہ نہ رہے اور امن و اطمینان کا زمانہ ہو تو باتیں بنانے اور قینچی کی طرح زبان چلانے میں سب سے پیش پیش ہوتے ہیں فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِی یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاِذَاذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ.
(الاحزاب، رکوع٢)
(تفسیرعثمانی)
لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں سے ، اور اپنی جانوں سے جہاد کیا، اور انہی لوگوں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی لوگ فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۸۸)
اللہ نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں، ان کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۸۹)
تشریح: منافقین کے بالمقابل مومنین مخلصین کا بیان فرمایا کہ دیکھو! یہ ہیں خدا کے وفادار بندے۔ جو اس کے راستہ میں نہ جان سے ہٹتے ہیں نہ مال سے۔ کیسا ہی خطرہ کا موقع ہو، اسلام کی حمایت اور پیغمبر اسلام کی معیت میں ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پھر ایسوں کے لیے فلاح و کامیابی نہ ہو گی تو اور کس کے لیے ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور دیہاتیوں میں سے بہانہ بنانے والے آئے کہ ان کو رخصت دی جائے ، اور وہ لوگ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جھوٹ بولا، عنقریب پہنچے گا ان لوگوں کو دردناک عذاب جنہوں نے کفر کیا۔ (۹۰)
تشریح:جس طرح مدینہ منورہ میں بہت سے منافق تھے ، اسی طرح مدینہ منورہ سے باہر دیہات میں بھی منافق موجود تھے ، چونکہ غزوہ تبوک میں جانے کا حکم صرف اہل مدینہ کے لئے نہیں بلکہ آس پاس کے لوگوں کے لئے بھی تھا، ا س لئے یہ دیہاتی بھی بہانہ کرنے کے لئے آئے تھے۔
(توضیح القرآن)
نہیں ضعیفوں پر، اور نہ مریضوں پر، اور نہ ان لوگوں پر جو نہیں پاتے کہ وہ خرچ کریں، کوئی حرج، جبکہ وہ خیر خواہ ہوں اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے ، نیکی کرنے والوں پر کوئی الزام نہیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۹۱)
تشریح: جھوٹے عذر کرنے والوں کے بعد سچے معذورین کا بیان فرماتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ عذر کبھی تو شخصی طور پر لازم ذات ہوتا ہے مثلاً بڑھاپے کی کمزوری جو عادۃً کسی طرح آدمی سے جدا نہیں ہو سکتی، اور کبھی عارضی ہوتا ہے۔ پھر ”عارضی” یا بدنی ہے جیسے بیماری وغیرہ، یا مالی، جیسے افلاس و فقدانِ اسباب سفر۔ چونکہ غزوہ تبوک میں مجاہدین کو بہت دور دراز مسافت طے کر کے پہنچنا تھا، اس لیے سواری نہ ہونے کا عذر بھی معتبر و مقبول سمجھا گیا، جیسے آگے آتا ہے۔
جو لوگ واقعی معذور ہیں، اگر ان کے دل صاف ہوں اور خدا اور سول کے ساتھ ٹھیک ٹھیک معاملہ رکھیں۔ مثلاً (خود نہ جا سکتے ہوں تو جانے والوں کی ہمتیں پست نہ کریں) بلکہ اپنے مقدور کے موافق نیکی کرنے اور اخلاص کا ثبوت دینے کے لیے مستعد رہیں، ان پر جہاد کی عدم شرکت سے کچھ الزام نہیں۔ ایسے مخلصین سے اگر بمقتضائے بشریت کوئی کوتاہی ہو جائے تو حق تعالیٰ کی بخشش و مہربانی سے توقع ہے کہ وہ درگزر فرمائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور نہ ان لوگوں پر (کوئی حرج ہے ) کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کوئی سواری نہیں جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ (اس حال میں) لوٹے اور غم سے ان کی آنکھوں سے آ نسو بہہ رہے تھے کہ وہ کچھ نہیں پاتے جو وہ خرچ کر سکیں۔ (۹۲)
تشریح: سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں عشق الٰہی کا وہ نشہ پیدا کیا تھا جس کی مثال کسی قوم و ملت کی تاریخ میں موجود نہیں۔ مستطیع اور مقدور والے صحابہ کو دیکھو تو جان و مال سب کچھ خدا کے راستہ میں لٹانے کو تیار ہیں اور سخت سے سخت قربانی کے وقت بڑے ولولہ اور اشتیاق سے آگے بڑھتے ہیں۔ جن کو مقدور نہیں وہ اس غم میں رو رو کر جان کھوئے لیتے ہیں کہ ہم میں اتنی استطاعت کیوں نہ ہوئی کہ اس محبوب حقیقی کی راہ میں قربان ہونے کے لیے اپنے کو پیش کر سکتے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم مدینہ میں ایک ایسی قوم کو اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہر قدم پر تمہارے اجر میں شریک ہے تم جو قدم خدا کے راستہ میں اٹھاتے ہو یا کوئی جنگل قطع کرتے ہو یا کسی پگڈنڈی پر چلتے ہو، وہ قوم برابر ہر موقع پر تمہارے ساتھ ساتھ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں واقعی مجبوریوں نے تمہارے ہمراہ چلنے سے روکا۔ حسن کے ”مرسل” میں ہے کہ یہ مضمون بیان فرما کر آپ نے یہ ہی آیت ”وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَا اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لآ اَجِدُ الخ” تلاوت فرمائی۔
(تفسیرعثمانی)
روایات میں ہے کہ یہ سات انصاری صحابہ تھے ، حضرت سالم بن عمیر، حضرت علبہ بن زید، حضرت عبدالرحمن بن کعب، حضرت عمروبن الحمام، حضرت عبداللہ بن مغفل، حضرت ہرمی بن عبداللہ اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہم اجمعین، انہوں نے غزوۂ تبوک میں شامل ہونے کے لئے اپنے شوق کا اظہار فرمایا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کی درخواست پیش کی، جب آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے تو یہ روتے ہوئے واپس گئے .
(روح المعانی) (توضیح القرآن)
الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اجازت چاہتے ہیں اور وہ (غنی) مالدار ہیں، وہ اس سے خوش ہوئے کہ وہ رہ جائیں پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ، اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی سو وہ کچھ نہیں جانتے۔ (۹۳)
تشریح: یعنی باوجود قدرت و استطاعت جہاد سے پہلو تہی کرتے ہیں اور نہایت بے حمیتی سے یہ عار گوارا کرتے ہیں کہ عورتوں کی طرح گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ جائیں۔ گناہ کی ممارست (پریکٹس) سے آدمی کا قلب ایسا مسخ اور سیاہ ہو جاتا ہے کہ اسے بھلے برے اور عیب و ہنر کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی۔ جب بے غیرتی کرتے کرتے کوئی شخص اس قدر پاگل ہو جائے کہ نادم و متأسف ہونے کی جگہ پر الٹا نازاں اور خوش ہو تو سمجھ لو کہ اس کے دل پر خدائی مہر لگ چکی ہے۔ العیاذ باللہ!
(تفسیرعثمانی)
جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تووہ تمہارے پاس عذر لائیں گے ، آپ کہہ دیں عذر نہ کرو، ہم ہرگز یقین نہ کریں گے تمہارا، اللہ ہمیں تمہاری سب خبریں بتا چکا ہے ، اور ابھی اللہ اور ا سکا رسول تمہارے کام دیکھے گا، پھر تم پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے ، تم جو کرتے تھے ، پھر وہ تمہیں جتا دے گا۔ (۹۴)
تشریح: یعنی جیسے تبوک کی طرف روانہ ہونے کے وقت منافقین نے طرح طرح کے حیلے بنائے ، جب تم مدینہ واپس آؤ گے ، اس وقت بھی یہ لوگ اعذارِ باطلہ پیش کر کے تم کو مطمئن بنانا چاہیں گے اور قسمیں کھائیں گے کہ حضرت ہمارا قصد مصمم تھا کہ آپ کے ساتھ چلیں، مگر فلاں فلاں موانع و عوائق پیش آ جانے کی وجہ سے مجبور رہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ جھوٹی باتیں بنانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ تمہارے سب اعذار لغو اور بیکار ہیں۔ ہم کو حق تعالیٰ تمہارے کذب و نفاق پر مطلع کر چکا۔ پھر کس طرح ہم تمہاری لغو بات کو باور کر سکتے ہیں۔ اب پچھلے قصہ کو چھوڑو، آئندہ تمہارا طرز عمل دیکھا جائے گا کہ اپنے دعوے کو کہاں تک نباہتے ہو، سب جھوٹ سچ ظاہر ہو کر رہے گا اور بہرحال اس ”عالم الغیب والشہادۃ” سے تو کوئی راز اور عمل یا نیت پوشیدہ نہیں رہ سکتی اس کے یہاں سب کو جانا ہے ، وہ جزاء دینے کے وقت تمہارا ہر چھوٹا بڑا، ظاہری و باطنی عمل کھول کر رکھ دے گا اور اسی کے موافق بدلہ دیا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
جب تم ان کی طرف واپس جاؤ گے اب تمہارے آگے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو، سو ان کا خیال نہ کرو، بیشک وہ پلید ہیں، اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اس کا بدلہ جو وہ کماتے تھے۔ (۹۵)
تشریح: تبوک سے واپسی کے بعد منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر جو عذر پیش کرتے تھے اس کی غرض یہ تھی کہ پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کو اپنی قسموں اور ملمع سازیوں سے راضی و مطمئن کر دیں تاکہ بارگاہ رسالت سے ان پر کوئی عتاب و ملامت اور دارو گیر نہ ہو۔ سابق کی طرح یوں ہی معاملہ ابہام میں رہے۔ مسلمان ان سے کچھ تعرض نہ کریں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ بہتر ہے تم ان سے تعرض مت کرو۔ لیکن یہ اغماض و تغافل (تعرض نہ کرنا) راضی و مطمئن ہونے کی بناء پر نہیں، بلکہ ان کے نہایت پلید اور شریر ہونے کی وجہ سے ہے ، یہ لوگ اس قدر گندے واقع ہوئے ہیں کہ ان کے پاک و صاف ہونے کی کوئی توقع نہیں رہی۔ لہٰذا اس غلاظت کی پوٹ کو دور پھینک دینا اور اس سے علیحدہ رہنا ہی بہتر ہے خدا خود ان کو ٹھکانے لگا دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ تمہارے آگے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ سواگر تم ان سے راضی (بھی) ہو جاؤ توبے شک اللہ راضی نہیں ہوتا نافرمان لوگوں سے۔ (۹۶)
تشریح: بڑی کوشش یہ ہے کہ مکر و فریب اور کذب و دروغ سے مسلمانوں کو خوش کر لیں۔ فرض کیجئے اگر چکنی چیڑی باتوں سے مخلوق راضی ہو جائے تو کیا نفع پہنچ سکتا ہے جب کہ خدا ان سے راضی نہ ہو۔ خدا کے آگے تو کوئی چالاکی اور دغا بازی نہیں چل سکتی۔ گویا متنبہ فرما دیا کہ جس قوم سے خدا راضی نہ ہو، کوئی مومن قانت کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جھوٹی باتوں سے پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو خوش کر لینے کا خبط انہیں دماغوں سے نکال دینا چاہیے۔ اگر ان کے ساتھ تغافل و اعراض کا معاملہ کیا گیا ہے تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ مسلمان ان سے خوش اور مطمئن ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”جس شخص کا حال معلوم ہو کہ منافق ہے اس کی طرف سے تغافل روا ہے لیکن دوستی اور محبت و یگانگت روا نہیں۔ ”
(تفسیرعثمانی)
دیہاتی کفر و نفاق میں بہت سخت ہیں، اور زیادہ لائق ہیں کہ وہ نہ جانیں جو احکام اللہ نے اپنے رسول پر نازل کئے اور اللہ جاننے و الا حکمت والا ہے۔ (۹۷)
تشریح: یہاں تک مدینہ کے منافقین اور مومنین مخلصین کے احوال بیان ہوئے تھے۔ اب کچھ حال دیہاتی بدوؤں کا ذکر کرتے ہیں کہ ان میں بھی کئی طرح کے آدمی ہیں۔ کفار، منافقین اور مخلص مسلمان چونکہ دیہاتی لوگ قدرتی طور پر عموماً تند خو اور سخت مزاج ہوتے ہیں (جیساکہ حدیث میں ہے ”مَنْ سَکَنَ الْبَادِیَۃَ جَفَا) ” اور مجالس علم و حکمت سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں، ان کا کفرو نفاق شہری کفار و منافقین سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ان کو ایسے مواقع دستیاب نہیں ہوتے کہ اہل علم و صلاح کی صحبت میں رہ کر دیانت و تہذیب کے وہ قانون اور قاعدے معلوم کریں جو خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام پر نازل کیے۔ علم و معرفت ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتی اور مہذب بناتی ہے۔ جو لوگ اس قدر جہالت میں غرق ہیں، ضرور ہے کہ ان کے دل سخت ہوں اور کفر و نفاق کے جس راستہ پر پڑ جائیں، بہائم اور درندوں کی طرح اندھا دھند بڑھے چلے جائیں۔ اعراب کی سنگدلی کا ذکر متعدد احادیث میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی اعرابی نے حضور سے عرض کیا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کا پیار لیتے ہیں، خدا کی قسم میں نے کبھی اپنی اولاد کا پیار نہیں لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کیا کروں اگر خدا نے تیرے دل میں سے اپنی رحمت کو نکال لیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بعض دیہاتی ہیں جو (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے لئے گردشوں کا انتظار کرتے ہیں، انہی پر ہے بری گردش، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۹۸)
تشریح: یعنی اعراب منافقین میں وہ لوگ بھی ہیں جنہیں اگر کسی وقت خدا کے راستہ میں کچھ خرچ کرنا پڑ جاتا ہے تو ایسی کراہیت سے خرچ کرتے ہیں جیسے کوئی جرمانہ اور تاوان ادا کرتا ہو۔ وہ ابھی تک اس کے منتظر ہیں کہ مسلمان حوادث دہر سے کسی گردش اور آفت میں پھنس جائیں تو ہم خوب شادیانے بجائیں۔ یہ خبر نہیں کہ انہیں کی قسمت گردش میں آ رہی ہے۔ اسلام تو غالب و فائق ہو کر رہے گا اور یہ منافقین سخت ذلیل و رسوا ہوں گے۔ خدا ہر ایک کی باتیں اور دعائیں سنتا ہے اور جانتا ہے کہ کون عزت و کامیابی کا اہل ہے اور کون لوگ ذلت اور رسوائی کے مستحق ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور بعض دیہاتی ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ سے نزدیکیوں اور رسول کی دعائیں (لینے کا ذریعہ) سمجھتے ہیں، ہاں ہاں!یقیناً وہ نزدیکی (کا ذریعہ) ہے ان کے لئے ، اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۹۹)
تشریح: یہاں قرآن کریم کی معجزانہ تاثیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا حیرت انگیز کرشمہ دکھلایا ہے کہ ان ہی درشت مزاج، سنگدل، تُند خو گنواروں میں جو کفر و نفاق اور جہل و طغیان کی وجہ سے اس لائق ہی نہ تھے کہ خدا کے بتلائے ہوئے ادب اور قاعدے سمجھ سکیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور قرآن کریم کی آواز نے ایسے عارف اور مخلص افراد پیدا کر دیے جو مبداً و معاد سب چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں، خالص قرب الٰہی حاصل کرنے اور پیغمبر علیہ السلام کی دعا لینے کی غرض سے کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کو بشارت دی کہ بیشک وہ اپنی امیدوں میں حق بجانب ہیں۔ یقیناً ان کو وہ چیز مل کر رہے گی جس کی نیت کی ہے (یعنی قربِ الٰہی) اور خدا ضرور ان کو اپنی رحمت میں جگہ دے گا رہی پیغمبر علیہ السلام کی دعا اسے تو وہ اپنے کانوں سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص صدقہ وغیرہ لے کر حاضر ہوتا ہے تو حضور اس کو دعائیں دیتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا ثمرہ بھی و ہی رحمت و قرب الٰہی ہے جس کا وعدہ پہلے ہو چکا۔
(تفسیرعثمانی)
اور سب سے پہلے (ایمان اور اسلام میں ) سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اس سے راضی ہوئے ، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۱۰۰)
تشریح: ”اعراب مومنین” کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ زعماء و اعیان مومنین کا کچھ ذکر کیا جائے یعنی جن مہاجرین نے ہجرت میں سبقت و اولیت کا شرف حاصل کیا، اور جن انصار نے نصرت و اعانت میں پہل کی، غرض جن لوگوں نے قبول حق اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے بڑھ بڑھ کر حصے لیے ، پھر جو لوگ نیکو کاری اور حسن نیت سے ان پیش روانِ اسلام کی پیروی کرتے رہے ، ان سب کو درجہ بدرجہ خدا کی خوشنودی اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی۔ جیسے انہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے ساتھ حق تعالیٰ کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکا دیں، اسی طرح خدا نے ان کو اپنی رضا و خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو دیہاتی تمہارے ارد گرد ہیں ان میں سے بعض منافق ہیں، اور مدینہ والوں میں سے بعض نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں، اور ہم جلد انہیں دوبارہ عذاب دیں گے ، پھر وہ عذاب عظیم کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (۱۰۱)
تشریح:پہلے جن دیہاتیوں کا ذکر آیا تھا وہ مدینہ سے دور رہتے تھے اب ان دیہاتیوں کا ذکر ہے جو مدینہ منورہ کے آس پاس رہتے تھے اور خود مدینہ منورہ کے باشندوں میں ان منافقین کا جن کا نفاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہیں تھا۔
دو مرتبہ سزا دینے کی تشریح مختلف طریقوں سے کی گئی ہے صحیح مراد تو اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے ، لیکن بظاہر ایک سزا تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی شکست کی جو آس لگائی ہوئی تھی وہ پوری نہ ہوئی اور مسلمان غزوۂ تبوک سے صحیح وسلامت واپس آ گئے ، یہ بذات خود ان منافقوں کے لئے ایک سزا تھی اور دوسرے بہت سے منافقوں کا نفاق کھل گیا اور ان کو دنیا ہی میں ذلت اٹھانی پڑی۔
(توضیح القرآن)
اور کچھ اور ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، انہوں نے ایک اچھا اور دوسرا برا عمل ملا لیا، قریب ہے کہ اللہ انہیں معاف کر دے ، بیشک اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۲)
تشریح: ٥ اہل مدینہ میں اگر ایک طرف یہ منافقین متمردین ہیں جو اپنی شرارتوں اور جرموں کو پردہ نفاق میں چھپاتے اور ان پر سختی سے اڑے رہتے ہیں تو دوسری جانب بعض وہ مسلمان ہیں جن سے بمقتضائے بشریت کوئی خطا و قصور سرزد ہو جائے تو نادم ہو کر بے تامل اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ ان کی بھلائی اور برائی مخلوط (رلی ملی) ہے۔ برائی تو مثلاً یہ کہ نفیر عام کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ”غزوہ تبوک” میں حاضر نہ ہوئے بعدہٗ اس غیر حاضری پر دل سے پشیمان و متأسف ہونا اور ظاہراً و باطناً توبہ کرنا اور دوسرے اعمال صالحہ (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج یا دوسرے غزوات کی شرکت وغیرہ) بجا لانا، یہ سب ان کی بھلائیوں کی فہرست میں داخل ہیں۔ ایسے حضرات کو حق تعالیٰ نے معافی کی امید دلائی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت ابولبابہ اور ان کے چند ہمراہیوں کے حق میں نازل ہوئی۔ جو محض کسل اور تن آسانی کی وجہ سے ”تبوک” میں حاضر نہ ہوئے۔ لیکن جب تبوک سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی معلوم ہوئی تو غایت ندامت سے ان سب نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان مجرموں اور قیدیوں کو معاف کر کے اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے ، اسی طرح بندھے کھڑے رہیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر فرمایا۔ واللہ جب تک خدا ان کے کھولنے کا حکم نہ دے میں ان کو نہیں کھول سکتا۔ آخر یہ آیات نازل ہوئیں تب آپ نے کھولا اور قبول توبہ کی بشارت دی۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ کُھلنے کے بعد تکمیل توبہ کے طور پر کچھ مال لے کر حاضر ہوئے کہ خدا کی راہ میں تصدق کریں اس پر اگلی آیت نازل ہوئی۔
(تفسیرعثمانی)
آپ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے لیں، آپ انہیں پاک اور صاف کر دیں اس سے اور ان پر دعائے (خیر) کریں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) سکون ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۱۰۳)
تشریح:یہی حضرات جنہوں نے توبہ کے طور پر اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ لیا تھا، جب ان کی توبہ قبول ہوئی اور انہیں آزاد کیا گیا تو انہوں نے شکرانے کے طور پر اپنا مال صدقے میں دینے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے شروع میں فرمایا کہ مجھے تم سے کوئی مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ ان سے صدقہ قبول فرما لیں، آیت میں صدقے کی دو خاصیتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ انسان کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک ہونے میں مدد دیتا ہے ، اور دوسرے یہ کہ اس سے انسان کی نیکیوں میں برکت اور ترقی ہوتی ہے ، یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اگرچہ یہ آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی، لیکن چونکہ الفاظ عام ہیں اس لئے امت کے فقہاء کا اجماع ہے کہ اسی آیت کی روسے اسلامی ریاست کے ہر سربراہ کو اپنے عوام سے زکوٰۃ وصول کرنے اور اسے صحیح مصارف پر خرچ کرنے کا حق حاصل ہے ، اسی وجہ سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں جن لوگوں نے آپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ان سے آپ نے جہاد کیا۔
(توضیح القرآن)
کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور قبول کرتا ہے صدقات اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۴)
تشریح: یعنی توبہ اور صدقات کا قبول کرنا صرف خدا کے اختیار میں ہے کیونکہ و ہی جانتا ہے کہ کس نے اخلاص قلب اور شرائط قبول کی رعایت کے ساتھ توبہ کی یا صدقہ دیا۔ چنانچہ پہلے بعضوں پر عتاب ہو چکا کہ ہمیشہ کے لیے ان کی زکات لینی موقوف ہوئی اور منافقین کے صدقات کو مردود ٹھہرایا گیا اور ان کے حق میں دعاء و استغفار کو بھی بے سود بتلایا۔ بلکہ جنازہ پڑھنے کی ممانعت کر دی۔ جن لوگوں کا یہاں ذکر ہے ان کی توبہ قبول کی اور صدقات قبول کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں (حیًا ومیتًا) دعاء کریں۔
(تفسیرعثمانی)
اور آپ کہہ دیں تم عمل کئے جاؤ پس اب دیکھے گا اللہ اور اس کا رسول اور مؤمن تمہارے عمل اور تم جلد پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے ، سووہ تمہیں جتا دے گا جو تم کرتے تھے۔ (۱۰۵)
تشریح: اس آیت نے یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ توبہ کے بعد بھی کسی شخص کو بے فکر ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے ، بلکہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنا طرز عمل درست کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔
(توضیح القرآن)
اور کچھ اور ہیں وہ اللہ کے حکم پر موقوف رکھے گئے ہیں، خواہ وہ انہیں عذاب دے اور خواہ ان کی توبہ قبول کر لے ، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۰۶)
تشریح: اہل مدینہ میں سے یہاں ایک چھوٹی سی جماعت کا ذکر فرمایا ہے اصل یہ ہے کہ متخلفین عن تبوک (یعنی تبوک میں نہ شریک ہونے والے ) تین قسم کے تھے۔ ایک منافقین جو از راہ شک و نفاق علیحدہ رہے۔ دوسرے بعض مومنین جو محض سُستی اور تن آسانی کی بدولت شریک جہاد نہ ہوئے۔ پھر ان میں دو قسمیں تھیں۔ اکثر وہ تھے جنہوں نے واپسی کی اطلاع پا کر اپنے کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا ان کا ذکر پچھلی آیات میں گزر چکا۔ صرف تین شخصوں کی جماعت وہ تھی جنہوں نے نہ اپنے کو ستونوں سے بندھوایا نہ کوئی عذر تراشا۔ بس جو واقعہ تھا اور جو قصور ہوا تھا صاف صاف بلا کم و کاست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کر دیا۔ ان کے بارہ میں آیت وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِاللّٰہِ الخ نازل ہوئی۔ یعنی ان کا معاملہ ابھی ڈھیل میں ہے۔ چند روز خدا کے حکم کا انتظار کرو۔ خواہ ان کو سزا دے یا معاف کرے۔ جو اس کے علم و حکمت کا اقتضاء ہو گا کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تا نزول حکم الٰہی ادب دینے کے لیے مسلمانوں کے تعلقات ان تینوں سے منقطع کر دیے۔ پچاس دن تک یہ ہی معاملہ رہا۔ پھر معافی ہوئی۔ ان واقعات کی اور تینوں کے ناموں کی تفصیل اگلے رکوع کے خاتمہ (آیت نمبر:۱۱۸) پر بیان ہو گی۔
اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد ضرار (نقصان پہنچانے کے لئے ) بنائی اور کفر کرنے کے لئے ، اور مؤمنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے اور اس کے واسطے گھات کی جگہ بنانے کے لئے ، جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اس سے پہلے اور وہ البتہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے صرف بھلائی چاہی اور اللہ گواہی دیتا ہے وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ (۱۰۷)
تشریح: پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جن سے بظاہر ایک برا کام ہو گیا (تخلف عن الجہاد) مگر صحت اعتقاد اور اعتراف خطا کی بدولت معافی مل گئی۔ یہاں ایسی جماعت کا بیان ہے جنہوں نے بظاہر اچھا کام کیا (تعمیر مسجد) لیکن بد اعتقادی کی وجہ سے وبال بن گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے آئے تو اول مدینہ سے باہر ”بنی عمرو بن عوف” کے محلہ میں فروکش ہوئے۔ پھر چند روز بعد شہر مدینہ میں تشریف لے گئے اور مسجد نبوت تعمیر کی، اس محلہ میں جہاں آپ بیشتر نماز پڑھتے تھے وہاں کے لوگوں نے مسجد تیار کر لی جو مسجد قباء کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر ہفتہ کے روز وہاں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے اور بڑی فضیلت اس کی بیان فرماتے تھے۔ بعض منافقین نے چاہا کہ پہلوں کی ضد پر اسی کے قریب ایک اور مکان مسجد کے نام سے تعمیر کریں۔ اپنی جماعت جدا ٹھہرائیں اور بعض سادہ دل مسلمانوں کو مسجد قبا سے ہٹا کر ادھر لے آئیں۔ فی الحقیقت اس ناپاک تجویز کا محرک اصلی ایک شخص ابو عامر راہب خزرجی تھا۔ ہجرت سے پہلے اس شخص نے نصرانی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کر لی تھی۔ مدینہ اور آس پاس کے لوگ خصوصاً قبیلہ خزرج اس کے زہد و درویشی کے معتقد تھے اور بڑی تعظیم کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم سے جب مدینہ میں ایمان و عرفان کا آفتاب چمکا تو اس طرح کے درویشوں کا بھرم کھلنے لگا۔ بھلا نور آفتاب کے سامنے چراغ مردہ کو کون پوچھتا۔ ابو عامر یہ دیکھ کر چراغ پا ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں ٹھیک ملت ابراہیمی لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگا کہ میں پہلے سے اس پر قائم ہوں لیکن تم نے اپنی طرف سے ملت ابراہیمی میں اس کے خلاف چیزیں داخل کر دی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زور سے اس کی تردید فرمائی۔ آخر اس کی زبان سے نکلا کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہو خدا اس کو وطن سے دور و تنہا غربت و بیکسی کی موت مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آمین” خدا ایسا ہی کرے۔ جنگ بدر کے بعد جب اسلام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں اور مسلمانوں کا عروج و فروغ حاسدوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا۔ ابو عامر کو تاب نہ رہی۔ بھاگ کر مکہ پہنچا۔ تاکہ کفار مکہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں چڑھا کر لائے۔ چنانچہ معرکہ احد میں قریش کے ساتھ خود آیا۔ مبارزہ شروع ہونے سے پہلے آگے بڑھ کر انصار مدینہ کو جو عہد جاہلیت میں اس کے بڑے معتقد تھے خطاب کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ احمق یہ نہ سمجھا کہ پیغمبرانہ تصرف کے سامنے اب وہ پرانا جادو کہاں چل سکتا ہے۔ آخر انصار نے جو اسے پہلے راہب کہہ کر پکارتے تھے جواب دیا کہ او فاسق دشمنِ خدا! تری آنکھ خدا کبھی ٹھنڈی نہ کرے۔ کیا رسول خدا کے مقابلہ میں ہم تیرا ساتھ دیں گے ؟ انصار کا مایوس کن جواب سن کر کچھ حواس درست ہوئے اور غیظ میں آ کر کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آئندہ جو قوم بھی تیرے مقابلہ کے لیے اٹھے گی میں برابر اس کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ جنگ حنین تک ہر معرکہ میں کفار کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑتا رہا۔ احد میں اسی کی شرارت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم زخم پہنچا۔ دونوں صفوں کے درمیان اس نے پوشیدہ طور پر کچھ گڑھے کھدوا دیئے تھے۔ وہیں چہرہ مبارک کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا حنین کے بعد جب ابو عامر نے محسوس کر لیا کہ اب عرب کی کوئی طاقت اسلام کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تو بھاگ کر ملک شام پہنچا۔ اور منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں قیصر روم سے مل کر ایک لشکر جرار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابلہ میں لانے والا ہوں جو چشم زدن میں ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دے گا اور مسلمانوں کو بالکل پامال کر کے چھوڑے گا۔ (العیاذ باللہ) تم فی الحال ایک عمارت مسجد کے نام سے بنا لو۔ جہاں نماز کے بہانے سے جمع ہو کر اسلام کے خلاف ہر قسم کے سازشی مشورے ہو سکیں۔ اور قاصد تم کو وہیں میرے خطوط وغیرہ پہنچا دیا کرے اور میں بذات خود آؤں تو ایک موزوں جگہ ٹھہرنے اور ملنے کی ہو۔ یہ خبیث مقاصد تھے جن کے لیے مسجد ضرار تعمیر ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بہانہ یہ کیا کہ یا رسول اللہ! خدا کی قسم ہماری نیت بری نہیں بلکہ بارش اور سردی وغیرہ میں بالخصوص بیماروں، ناتوانوں اور ارباب حوائج کو مسجد قبا تک جانا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ مسجد بنائی گئی ہے تاکہ نمازیوں کو سہولت ہو اور مسجد قبا میں تنگی مکان کی شکایت نہ رہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ وہاں چل کر نماز پڑھ لیں تو ہمارے لیے موجب برکت و سعادت ہو۔ یہ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل دیکھ کر بعض سادہ دل مسلمان حسن ظن کی بنا پر ان کے جال میں پھنس جائیں۔ آپ اس وقت تبوک جانے کے لیے پا برکاب تھے۔ فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر ایسا ہو سکے گا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس ہو کر بالکل مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے ، تب جبرائیل یہ آیات لے کر آئے جن میں منافقین کی ناپاک اغراض پر مطلع کر کے مسجد ضرار کا پول کھول دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن خشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ اس مکان کو (جس کا نام از راہ خداع و فریب مسجد رکھا تھا) گرا کر پیوند زمین بنا دو۔ انہوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور جلا کر خاک سیاہ کر دیا اس طرح منافقین اور ابو عامر فاسق کے سب ارمان دل کے دل میں رہ گئے اور ابو عامر اپنی دعا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین کے موافق قنسرین) ملک شام (میں تنہا سخت بے کسی کی موت مرا۔ ”فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ” آیت میں ”مَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ” سے یہ ہی ابو عامر فاسق مراد ہے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہونا، بیشک و ہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوے پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ محبوب رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو (۱۰۸)
تشریح: یعنی اس مسجد میں جس کی بنیاد محض ضد، کفر و نفاق، عداوت اسلام اور مخالفت خدا اور رسول پر رکھی گئی۔ آپ کبھی نماز کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ آپ کی نماز کے لائق وہ مسجد ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ اور پرہیزگاری پر قائم ہوئی (خواہ مسجد نبوی ہو یا مسجد قبا) اس کے نمازی گناہوں اور شرارتوں اور ہر قسم کی نجاستوں سے اپنا ظاہر و باطن پاک و صاف رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے خدائے پاک ان کو محبوب رکھتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبا سے دریافت کیا کہ تم طہارت و پاکیزگی کا کیا خاص اہتمام کرتے ہو، جو حق تعالیٰ نے تمہاری تطہیر کی مدح فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ ڈھیلے کے بعد پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ یعنی عام طہارت ظاہری و باطنی کے علاوہ وہ لوگ اس چیز کا معتاد سے زائد اہتمام رکھتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
سوکیا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور (اس کی) خوشنودی پر رکھی وہ بہتر ہے ؟یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد رکھی گرنے والی کھائی (گڑھے ) کے کنارہ پر رکھی، سووہ اس کو لے کر دوزخ کی آگ میں گر پڑی، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۱۰۹)
تشریح: یعنی جس کام کی بنیاد تقویٰ، یقین و اخلاص اور خدا کی رضا جوئی پر ہو، وہ نہایت مستحکم اور پائدار ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے جس کام کی بناء شک و نفاق اور مکر و خداع پر ہو، وہ اپنی ناپائداری، بودے پن اور انجام بد کے لحاظ سے ایسا ہے جیسے کوئی عمارت ایک کھائی کے کنارہ پر کھڑی کی جائے کہ ذرا زمین سر کی یا پانی کی تھپیڑ کنارہ کو لگی، ساری عمارت دھڑام سے نیچے آ رہی اور آخرکار دوزخ کے گڑھے میں جا پہنچی۔
(تفسیرعثمانی)
وہ عمارت جس کی انہوں نے بنیاد رکھی ہے ہمیشہ شک ڈالتی رہے گی ان کے دلوں میں، مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۱۰)
تشریح: یعنی اس عمل بد کا اثر یہ ہوا کہ ہمیشہ ان کے دلوں میں (جب تک موت انہیں پارہ پارہ نہ کر ڈالے ) نفاق قائم رہے گا۔ جیسے اسی سورہ میں پہلے گزر چکا۔ ”فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِہِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہُ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعْدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ” پھر اس کا اثر رکھ دیا نفاق ان کے دلوں میں جس دن تک کہ وہ اس سے ملیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے خلاف کیا اللہ سے جو وعدہ اس سے کیا تھا، اور اس وجہ سے کہ بولتے تھے جھوٹ۔
(آیت نمبر:۷۷) (تفسیرعثمانی)
بیشک اللہ نے خرید لیں مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال، اس کے بدلے کہ ان کے لئے جنت ہے ، وہ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں، سووہ مارتے ہیں اور مارے (بھی) جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ ہے توریت میں اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ کون اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے ؟ پس اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو تم نے اس سے سودا کیا ہے ، اور یہ عظیم کامیابی ہے۔ (۱۱۱)
تشریح: اس سے زیادہ سودمند تجارت اور عظیم الشان کامیابی کیا ہو گی کہ ہماری حقیر سی جانوں اور فانی اموال کا خداوند قدوس خریدار بنا۔ ہماری جان و مال جو فی الحقیقت اسی کی مملوک و مخلوق ہے محض ادنیٰ ملابست سے ہماری طرف نسبت کر کے ”مبیع” قرار دیا جو ”عقد بیع” میں مقصود بالذات ہوتی ہے۔ اور جنت جیسے اعلیٰ ترین مقام کو اس کا ”ثمن” بتلایا جو مبیع تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جنت” میں وہ نعمتیں ہوں گی جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی بشر کے قلب پر ان کی کیفیات کا خطور ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، حمد و ثنا کرنے والے ، (راہِ خدا میں) سفر کرنے والے ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، اور برائی سے روکنے والے ، اور اللہ کی (قائم کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ، اور مؤمنوں کو خوشخبری دو۔ (۱۱۲)
تشریح:یہ صفات انہی مؤمنین کے ہیں جن کے بارے میں اوپر یہ فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے ، نزول اس کا ایک خاص جماعت شرکاء بیعت عقبہ کے لئے ہوا، مگر مفہومِ آیت تمام مجاہدین فی سبیل اللہ کو شامل ہے اور جو اوصاف ان کے التائبون سے بیان کئے گئے ہیں یہ شرط کے طور پر نہیں، کیونکہ جنت کا وعدہ مطلقاً جہاد فی سبیل اللہ پر آیا ہے ، ان اوصاف کے بیان سے مقصد یہ ہے کہ جو لوگ جنت کے اہل ہوتے ہیں ان کے ایسے اوصاف ہوا کرتے ہیں، خصوصاً بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے صحابہ کا یہی حال تھا۔
(معارف القرآن)
نبی کے لئے اور مؤمنوں کے لئے (شایاں) نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش چاہیں، خواہ وہ ان کے قرابت دار ہوں، اس کے بعد جبکہ ان پر ظاہر ہو گیا کہ وہ دوزخ والے ہیں۔ (۱۱۳)
تشریح: مومنین جب جان و مال سے خدا کے ہاتھوں بیع ہو چکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہو کر رہیں۔ اعداء ُ اللہ سے جن کا دشمنِ خدا اور جہنمی ہونا معلوم ہو چکا ہو۔ محبت و مہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ دشمنانِ خدا ان کے ماں باپ، چچا، تایا اور خاص بھائی بند ہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کا باغی اور دشمن ہے وہ ان کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ وہ بالیقین دوزخی ہے۔ خواہ وحی الٰہی کے ذریعہ سے یا اس طرح کے اعلانیہ کفر و شرک پر اس کو موت آ چکی ہو، اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے بخشش چاہنا نہ تھا مگر ایک وعدہ کے سبب جو وہ اس سے کر چکے تھے ، پھر جب ان پر ظاہر ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تووہ اس سے بیزار ہو گئے بیشک ابراہیم نرم دل بردبار تھے۔ (۱۱۴)
تشریح: سورہ مریم میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ نے قبول حق سے اعراض کیا اور ضد و عناد سے حضرت ابراہیم کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا، تو آپ نے والدین کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا۔ ”سَلَامُ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّی اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا” یعنی میں خدا سے تیرے لیے استغفار کروں گا۔ اس وعدہ کے موافق آپ برابر استغفار کرتے رہے ، چنانچہ دوسری جگہ ”وَاغْفِرِْ لاَ بِی”فرمانے کی تصریح ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ابراہیم علیہ السلام ایک مشرک کی حالت شرک پر قائم رہتے ہوئے مغفرت چاہتے تھے ، نہیں غرض یہ تھی کہ اللہ اس کو توفیق دے کہ حالت شرک سے نکل کر آغوش اسلام میں آ جائے اور قبول اسلام اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا سبب بنے۔ ”اِنَّ اْلِاسْلاَمُ یَہْدِمُ مَاکَانَ قَبْلَہ، ” ابراہیم علیہ السلام کے استغفار کو قرآن میں پڑھ کر بعض صحابہ کے دلوں میں خیال آیا کہ ہم بھی اپنے مشرک والدین کے حق میں استغفار کریں، اس کا جواب حق تعالیٰ نے دیا کہ ابراہیم نے وعدہ کی بنا پر صرف اس وقت تک اپنے باپ کے لیے استغفار کیا۔ جب تک یقینی طور سے یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ اسے کفر و شرک اور خدا کی دشمنی پر مرنا ہے۔ کیونکہ مرنے سے پہلے احتمال تھا کہ توبہ کر کے مسلمان ہو جائے اور بخشا جائے ، پھر جب کفر و شرک پر خاتمہ ہونے سے صاف کھل گیا کہ وہ حق کی دشمنی سے باز آنے والا نہ تھا، تو ابراہیم علیہ السلام اس سے بالکلیہ بیزار ہو گئے۔ اور دعاء و استغفار وغیرہ ترک کر دیا۔ پہلے نرم دلی اور شفقت سے دعاء کرتے تھے۔ جب توبہ و رجوع کے احتمالات منقطع ہو گئے ، تو آپ نے اس کی خیرخواہی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اور اس حادثہ کو پیغمبرانہ صبر و تحمل سے برداشت کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اس سے علمائے کرام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کسی کافر کے لئے اس نیت سے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے کہ اسے ایمان لانے کی توفیق ہو جائے اور اس طرح اس کی مغفرت ہو جائے ، لیکن جس شخص کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے اس کے لئے مغفرت کی دعا جائز نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو اس کے بعد گمراہ کرے جبکہ انہیں ہدایت دے دی جب تک ان پر واضح نہ کر دے جس سے وہ پرہیز کریں، بیشک اللہ ہر شے کا جاننے و الا ہے۔ (۱۱۵)
تشریح: یعنی اتمام حجت اور اظہارِ حق سے پہلے خدا کسی کو گمراہ نہیں کرتا، گمراہی یہ ہے کہ جب خدا اپنے احکام صاف کھول کر بیان کر چکا، پھر امتثال نہ کیا جائے۔ گویا اشارہ کر دیا کہ جو لوگ ممانعت سے قبل مشرکین کے لیے استغفار کر چکے ہیں ان پر مواخذہ نہیں، لیکن اب اطلاع پانے کے بعد ایسا کرنا گمراہی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی، وہ زندگی دیتا ہے اور (وہی) مارتا ہے ، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی حمایتی ہے اور نہ مدد گار۔ (۱۱۶)
تشریح: جب اس کی سلطنت ہے ‘ تو اسی کا حکم چلنا چاہیے۔ وہ علم محیط اور قدرت کاملہ سے جو احکام نافذ کرے بندوں کا کام ہے کہ بے خوف و خطر تعمیل کریں۔
(تفسیر عثمانی)
البتہ توجہ فرمائی اللہ نے نبی پر، اور مہاجرین و انصار پر، جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں اس کی پیروی کی، اس کے بعد جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک فریق کے دل پھر جائیں، پھر وہ ان پر متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (۱۱۷)
تشریح: مشکل کی گھڑی سے مراد ”غزوہ تبوک” کا زمانہ ہے جس میں کئی طرح کی مشکلات جمع تھیں۔ سخت گرمی، طویل مسافت، کھجور کا موسم، اس زمانہ کی عظیم الشان سلطنت کے مقابلہ پر فوج کشی، پھر ظاہری بے سروسامانی ایسے کہ ایک ایک کھجور روزانہ دو دو سپاہیوں پر تقسیم ہوتی تھی۔ اخیر میں یہ نوبت پہنچ گئی کہ بہت سے مجاہدین ایک ہی کھجور کو یکے بعد دیگرے چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ پھر پانی کے فقدان سے اونٹوں کی آلائش نچوڑ کر پینے کی نوبت آ گئی۔ سواری کا اتنا قحط تھا کہ دس دس آدمی ایک ایک اونٹ پر اترتے چڑھتے چلے جا رہے تھے۔ یہی وہ جذبہ ایثار و فدا کاری تھا جس نے مٹھی بھر جماعت کو تمام دنیا کی قوموں پر غالب کر دیا۔ فللہ الحمد والمنہ۔
خدا کی مہربانیاں پیغمبر علیہ السلام پر بے شمار ہیں۔ اور آپ کی برکت سے مہاجرین و انصار پر بھی حق تعالیٰ کی مخصوص توجہ اور مہربانی رہی ہے کہ ان کو ایمان و عرفان سے مشرف فرمایا۔ اتباعِ نبوی، جہاد فی سبیل اللہ اور عزائم امور کے سرانجام دینے کی ہمت و توفیق بخشی۔ پھر ایسے مشکل وقت میں جبکہ بعض مومنین کے قلوب بھی مشکلات اور صعوبتوں کا ہجوم دیکھ کر ڈگمگانے لگے تھے اور قریب تھا کہ رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے ہٹ جائیں۔ حق تعالیٰ نے دوبارہ مہربانی اور دستگیری فرمائی کہ ان کو اس قسم کے خطرات و وساوس پر عمل کرنے سے محفوظ رکھا اور مومنین کی ہمتوں کو مضبوط اور ارادوں کو بلند کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان تین پر (جن کا معاملہ) پیچھے رکھا گیا تھا، یہاں تک کہ ان پر تنگ ہو گئی زمین اپنی کشادگی کے باوجود، اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہو گئیں (اپنی جانوں سے تنگ آ گئے ) اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے کوئی پناہ نہیں مگر اسی کی طرف ہے ، پھر وہ ان پر (اپنی رحمت سے ) متوجہ ہوا، تاکہ وہ توبہ کریں بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۸)
تشریح: یہ تین شخص کعب بن مالک، ہلال بن امیّہ اور مرارہ بن الربیع ہیں۔ جو باوجود مومن مخلص ہونے کے محض تن آسانی اور سہل انگاری کی بناء پر بدون عذر شرعی کے تبوک کی شرکت سے محروم رہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو نہ انہوں نے منافقین کی طرح جھوٹے عذر پیش کئے ے اور نہ بعض صحابہ کی طرح اپنے آپ کو ستونوں سے باندھا۔ جو واقعہ تھا صاف صاف عرض کر دیا، اور اپنی کوتاہی اور تقصیر کا اعلانیہ اعتراف کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منافقین کی طرف سے بظاہر اغماض کر کے ان کے بواطن کو خدا کے سپرد کیا گیا۔ ”اصحاب سواری” کی (یعنی جو مسجد کے ستونوں سے بندھے ہوئے تھے ) توبہ قبول کر لی گئی۔ اور ان تینوں کا فیصلہ تادیباً کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھا گیا۔ پچاس دن گزرنے کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی پیچھے رکھے جانے کا یہ ہی مطلب ہے جیسا کہ بخاری میں خود کعب بن مالک سے نقل کیا ہے۔
ان تین میں سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنا واقعہ نہایت شرح وبسط سے عجیب موثر طرز میں بیان فرمایا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ملاحظہ کیا جائے۔ یہاں اس کے بعض اجزاء نقل کیے جاتے ہیں۔ کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ تبوک کی مہم چونکہ بہت سخت اور دشوار گزار تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو عام حکم تیاری کا دیا۔ لوگ مقدور و استطاعت کے موافق سامان سفر درست کرنے میں مشغول تھے مگر میں بے فکر تھا کہ جب چاہوں گا فوراً تیار ہو کر ساتھ چلا جاؤں گا۔ کیونکہ بفضل ایزدی اس وقت ہر طرح کا سامان مجھ کو میسر تھا۔ ایک چھوڑ دو سواریاں میرے پاس موجود تھیں میں اسی غفلت کے نشہ میں رہا۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس ہزار مجاہدین اسلام کو کوچ کا حکم دے دیا۔ مجھے اب بھی یہ خیال تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے تو کیا ہے ، اگلی منزل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گا۔ آج چلوں کل چلوں اس امروز و فردا میں وقت نکل گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کر فرمایا ”مافعل کعب بن مالک” (کعب بن مالک کو کیا ہوا) بنی سلمہ کا ایک شخص بولا کہ یارسول اللہ! اس کی عیش پسندی اور اعجاب و غرور نے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ معاذ بن جبل نے کہا کہ تو نے بری بات کہی۔ خدا کی قسم ہم نے اس میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ گفتگو سن کر خاموش رہے۔ کعب کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد بہت زیادہ وحشت اس سے ہوتی تھی کہ سارے مدینہ میں پکے منافق یا معذور مسلمان کے سوا مجھے کوئی مرد نظر نہ پڑتا تھا۔ بہرحال اب دل میں طرح طرح کے جھوٹے منصوبے گانٹھنے شروع کیے کہ آپ کی واپسی پر فلاں عذر کر کے جان بچا لوں گا۔ مگر جس وقت معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیر و عافیت سے واپس تشریف لے آئے ، دل سے سارے جھوٹ فریب محو ہو گئے اور طے کر لیا کہ سچ کے سوا کوئی چیز اس بارگاہ میں نجات دلانے والی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں رونق افروز تھے ، اصحاب کا مجمع تھا۔ منافقین جھوٹے حیلے بہانے بنا کر ظاہری گرفت سے چھوٹ رہے تھے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا۔ میرے سلام کرنے پر آپ نے غضب آمیز تبسم فرمایا اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! اگر اس وقت میں دنیا والوں میں سے کسی دوسرے کے سامنے ہوتا تو آپ دیکھتے کہ کس طرح زبان زوری اور چرب لسانی سے جھوٹے حیلے حوالے کر کے اپنے آپ کو صاف بچا لیتا۔ مگر یہاں تو معاملہ ایک ایسی ذات مقدس سے ہے جسے جھوٹ بول کر اگر میں راضی بھی کر لوں تو تھوڑی دیر کے بعد خدا اس کو سچی بات پر مطلع کر کے مجھ سے ناراض کر دے گا۔ برخلاف اس کے سچ بولنے میں گو تھوڑی دیر کے لیے آپ کی خفگی برداشت کرنی پڑے گی لیکن امید کرتا ہوں کہ خدا کی طرف سے اس کا انجام بہتر ہو گا۔ اور آخرکار سچ بولنا ہی مجھے خدا اور رسول کے غصہ سے نجات دلائے گا۔ یا رسول اللہ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس غیر حاضری کا کوئی عذر نہیں، جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم رکابی کے شرف سے محروم ہوا، اس وقت سے زیادہ فراخی اور مقدرت کبھی مجھ کو حاصل نہ ہوئی تھی۔ میں مجرم ہوں، آپ کو اختیار ہے جو فیصلہ چاہیں میرے حق میں دیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا جاؤ اور خدائی فیصلے کا انتظار کرو۔ میں اٹھا اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع) یہ دو شخص میرے ہی جیسے ہیں۔ ہم تینوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ کوئی ہم سے بات نہ کرے۔ سب علیحدہ رہیں۔ چنانچہ کوئی مسلمان ہم سے بات نہ کرتا تھا، نہ سلام کا جواب دیتا تھا۔ وہ دونوں تو خانہ نشین ہو گئے ، شب و روز گھر میں وقف گریہ و بُکا رہتے تھے میں ذرا سخت اور قوی تھا۔ مسجد میں نماز کے لیے حاضر ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کر کے دیکھتا تھا کہ جواب میں لب مبارک کو حرکت ہوئی یا نہیں۔ جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا۔ آپ میری طرف سے منہ پھیر لیتے تھے مخصوص اقارب اور محبوب ترین اعزہ بھی مجھ سے بیگانہ ہو گئے تھے۔ اس اثناء میں ایک روز ایک شخص نے بادشاہ ”غسان”کا خط مجھے دیا۔ جس میں میری مصیبت پر اظہارِ ہمدردی کرنے کے بعد دعوت دی تھی کہ میں اس کے ملک میں آ جاؤں وہاں میری بہت آؤ بھگت ہو گی میں نے پڑھ کر کہا کہ یہ بھی ایک مستقل امتحان ہے۔ آخر وہ خط میں نے نذرِ آتش کر دیا۔ چالیس دن گزرنے کے بعد بارگاہِ رسالت سے جدید حکم پہنچا کہ میں اپنی عورت سے بھی علیحدہ رہوں، چنانچہ اپنی بیوی کو کہہ دیا کہ اپنے میکے چلی جائے اور جب تک خدا کے یہاں سے میرا کوئی فیصلہ ہو وہیں ٹھہری رہے۔ سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر اسی حالت میں موت آئی تو حضور میرا جنازہ نہ پڑھیں گے۔ اور فرض کیجئے ان دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو مسلمان ہمیشہ یہ ہی معاملہ مجھ سے رکھیں گے۔ میری میت کے قریب بھی کوئی نہ آئے گا غرض پچاس دن اسی حالت میں گزرے کہ خدا کی زمین مجھ پر باوجود فراخی کے تنگ تھی بلکہ عرصہ حیات تنگ ہو گیا تھا، زندگی موت سے زیادہ سخت معلوم ہوتی تھی کہ یکایک جبل سلع سے آواز آئی ”یا کعب بن مالک! ابشر” (اے کعب بن مالک خوش ہو جا) میں سنتے ہی سجدہ میں گر پڑا۔ معلوم ہوا کہ اخیر شب میں حق تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ ہماری توبہ مقبول ہے۔ آپ نے بعد نماز فجر صحابہ کو مطلع فرمایا۔ ایک سوار میری طرف دوڑا کہ بشارت سنائے۔ مگر دوسرے شخص نے پہاڑ پر زور سے للکارا۔ اس کی آواز سوار سے پہلے پہنچی اور میں نے اپنے بدن کے کپڑے اتار کر آواز لگانے والے کو دیے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ جوق جوق آتے اور مجھے مبارک باد دیتے تھے۔ مہاجرین میں سے حضرت طلحہ نے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا حضور کا چہرہ خوشی سے چادر کی طرح چمک رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خدا نے تیری توبہ قبول فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ اس توبہ کا تتمہ یہ ہے کہ اپنا کل مال و جائداد خدا کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ سب نہیں، کچھ اپنے لیے روکنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے خیبر کا حصہ الگ کر کے باقی مال صدقہ کر دیا۔ چونکہ محض سچ بولنے سے مجھ کو نجات ملی تھی، اس لیے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، اس عہد کے بعد بڑے سخت امتحانات پیش آئے۔ مگر الحمدللہ میں سچ کہنے سے کبھی نہیں ہٹا اور نہ انشاء اللہ تازیست ہٹوں گا۔ یہ واقعہ ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ گویا ان تینوں پر خدا کی پہلی مہربانی تو یہ ہی تھی کہ ایمان و اخلاص بخشا’ نفاق سے بچایا۔ اب نئی مہربانی یہ ہوئی کہ توبہ نصوح کی توفیق دے کر پھر اپنی طرف کھینچ لیا اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا۔
(تفسیرعثمانی)
اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (۱۱۹)
تشریح: یعنی سچوں کی صحبت رکھو اور انہی جیسے کام کرو۔ دیکھ لو یہ تین شخص سچ کی بدولت بخشے گئے اور مقبول ٹھہرے منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا تو ”درک اسفل” کے مستحق بنے۔
(تفسیرعثمانی)
(لائق) نہ تھا مدینہ والوں کو (اور انہیں) جو ان کے اردگرد دیہاتی ہیں کہ وہ اللہ کے سول سے پیچھے رہ جائیں، اور یہ کہ زیادہ چاہیں اپنی جانوں کو ان کی جان سے ، یہ اس لئے کہ ان کو نہیں پہنچتی کوئی پیاس اور نہ کوئی مشقت، اور نہ کوئی بھوک، اللہ کی راہ میں اور نہ وہ ایسا قدم رکھتے ہیں کہ کافر غصے ہوں، اور نہ وہ چھینتے ہیں دشمن سے کوئی چیز، مگر اس سے (ا سکے بدلے ) ان کے لئے نیک عمل لکھا جاتا ہے ، بیشک اللہ اجر ضائع نہیں کرتا نیکوں کاروں کا۔ (۱۲۰)
اور وہ کوئی چھوٹا یا بڑا (کم یا زیادہ) خرچ نہیں کرتے اور نہ وہ طے کرتے ہیں کوئی میدان، مگر ان کے لئے لکھ دیا جاتا ہے ، تاکہ اللہ ان کے اعمال کی انہیں بہترین جزا دے۔ (۱۲۱)
تشریح:ان دونوں آیتوں میں متخلفین کو تخلف پر ملامت اور فہمائش اور شرکاء جہاد کے فضائل اور بسلسلہ جہاد قدم قدم پر ہر قول و فعل اور ہر محنت و مشقت پر اجر عظیم کا ذکر ہے ، جس میں بوقت جہاد دشمن کو کوئی تکلیف پہنچا دینا اور ایسی چال چلنا جس سے ان کو غیظ ہو یہ سب اعمال صالحہ موجب ثواب ہیں۔
(معارف القرآن)
اور (ایسے تو) نہیں کہ مؤمن سب کے سب کوچ کریں، پس کیوں نہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت کوچ کرے ، تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں دین میں اور تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈر سنائیں جب ان کی طرف لوٹیں، عجب نہیں کہ وہ بچتے رہیں۔ (۱۲۲)
تشریح:سورۂ توبہ کے ایک بڑے حصے میں ان لوگوں کو ملامت کی گئی ہے جو تبوک کے جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے ، روایات میں آتا ہے کہ ان آیات کریمہ کو سن کر صحابہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ آئندہ جو بھی جہاد ہو گا اس میں وہ سب جایا کریں گے ، اس آیت نے واضح فرما دیا کہ ہمیشہ کے لئے یہ سوچنا صحیح نہیں ہے ، غزوۂ تبوک میں تو ایک خاص ضرورت پیش آئی تھی، جس کے وجہ سے تمام مسلمانوں کو نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن عام حالات میں مسلمانوں کو تقسیم کار پر عمل کرنا چاہئے ، جب تک امیر کی طرف سے نفیر عام (یعنی ہر شخص کو جہاد میں شریک ہونے ) کا حکم نہ ہو، جہاد فرض کفایہ ہے ، اگر ہر بڑی جماعت میں سے کچھ لوگ جہاد کے لئے چلے جایا کریں تو سب کی طرف سے یہ فرض کفایہ ادا ہو جائے گا، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس طرح جہاد امت مسلمہ کی ایک ضرورت ہے اسی طرح دین کا علم حاصل کرنا بھی امت کی ایک اہم ضرورت ہے ، اگر سب لوگ جہاد میں نکل کھڑے ہوں تو علم دین کی درس وتدریس کا فریضہ کون انجام دے گا، لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں نہ جائیں وہ اپنے شہر میں رہ کر دین کا علم حاصل کریں۔
(توضیح القرآن)
اے مؤمنو! اپنے نزدیک کے کافروں سے لڑو، اور چاہئے کہ وہ تمہارے اندر پائیں سختی، اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ (۱۲۳)
تشریح:اس آیت میں پھر اس مضمون کا خلاصہ بیان فرمایا گیا ہے جس سے اس سورت کی ابتدا ہوئی تھی، مشرکین سے براءت کا جو اعلان کیا گیا تھا اس میں ہر مسلمان کا یہ فرض تھا کہ وہ ان مشرکین سے جنگ کے لئے تیار رہے ، جو اس اعلان براءت پر عمل نہ کریں، جیسا کے شروع میں عرض کیا گیا، وہ نومسلم جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ان کے دل میں اپنے مشرک رشتہ داروں کے لئے نرم گوشہ ہو سکتا تھا، لہذا آخر سورت میں انہیں دوبارہ متوجہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اسلام کی تبلیغ میں ترتیب یہ ہونی چاہئے کہ انسان اپنے قریبی لوگوں سے ان کا آغاز کرے ، اسی طرح جب جنگ کی نوبت آ جائے تواس میں بھی یہی ترتیب ہونی چاہئے کہ پہلے ان لوگوں سے جنگ ہونی چاہئے جو تمہارے قریب ہیں ان کے بعد دوسروں کا نمبر آئے گا۔
(توضیح القرآن)
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کر دیا؟سوجو لو گ ایمان لائے ہیں، اس نے زیادہ کر دیا ہے ان کا ایمان، اور خوشیاں مناتے ہیں۔ (۱۲۴)
اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے ، اس نے زیادہ کر دی ان کی گندگی پر گندگی، اور و ہ مرنے تک کافر ہی رہے۔ (۱۲۵)
تشریح: جب کوئی سورت قرآنی نازل ہوتی تو منافقین آپس میں ایک دوسرے یا بعض سادہ دل مسلمانوں سے از راہِ استہزاء و تمسخر کہتے کہ کیوں صاحب تم میں سے کس کس کا ایمان اس سورت نے بڑھایا۔ مطلب یہ تھا کہ (معاذ اللہ) اس سورت میں رکھا ہی کیا ہے۔ کون سے حقائق و معارف ہیں جو ایمان و یقین کی ترقی کا موجب ہوں حق تعالیٰ نے جواب دیا کہ بیشک کلام الٰہی سن کر مومنین کے ایمان میں تازگی اور ترقی ہوتی ہے اور قلوب مسرور و منشرح ہوتے ہیں۔ ہاں جن کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری اور گندگی ہے ان کی بیماری و گندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حتی کہ یہ بیماری ان کی جان ہی لے کر چھوڑتی ہے۔
(تفسیر عثمانی)
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال آزمائے جاتے ہیں، ایک بار یا دو بار، پھر نہ وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ (۱۲۶)
تشریح: یعنی ہر سال کم از کم ایک دو مرتبہ ان منافقین کو فتنہ اور آزمائش میں ڈالا جاتا ہے مثلاً قحط، بیماری وغیرہ کسی آفت ارضی و سماوی میں مبتلا ہوتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی زبانی ان کا نفاق اعلانیہ ظاہر کر کے رسوا کیا جاتا ہے یا جنگ و جہاد کے وقت ان کی بزدلی اور تیرہ باطنی بے نقاب کر دی جاتی ہے مگر وہ ایسے بے حیا اور بد باطن واقع ہوئے ہیں کہ تازیانے کھا کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے نہ پچھلی خطاؤں سے توبہ کرتے ہیں نہ آئندہ کو نصیحت پکڑتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب اتاری جاتی ہے کوئی سورت تو ان میں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے ، کیا تمہیں کوئی (مسلمان) دیکھتا ہے ؟پھر وہ پھر جاتے ہیں، اللہ نے ان کے دل پھیر دئے ، کیونکہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ (۱۲۷)
تشریح: جس وقت وحی نازل ہوتی اور منافقین مجلس میں موجود ہوتے تو کلام الٰہی کا سننا ان پر بہت شاق گزرتا تھا، خصوصاً وہ آیات جن میں ان کے عیوب کھولے جاتے تھے۔ اس وقت ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے اشارہ کرتے اور اِدھر ادھر دیکھتے کہ مجلس میں کسی مسلمان نے ہم کو پرکھا نہ ہو۔ پھر نظر بچا کر شتاب مجلس سے کھسک جاتے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
البتہ تمہارے پاس آیا ایک رسول تم میں سے جو تمہیں تکلیف پہنچے اس پر گراں ہے ، تمہاری (بھلائی کا) بہت خواہشمند ہے ، مؤمنوں پر شفیق، نہایت مہربان ہے۔ (۱۲۸)
تشریح: یعنی تمہاری خیر خواہی اور نفع رسانی کی خاص تڑپ ان کے دل میں ہے۔ لوگ دوزخ کی طرف بھاگتے ہیں، آپ ان کی کمریں پکڑ پکڑ کر ادھر سے ہٹاتے ہیں۔ آپ کی بڑی کوشش اور آرزو یہ ہے کہ خدا کے بندے اصلی بھلائی اور حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ جہاد وغیرہ کا مقصد بھی خونریزی نہیں بلکہ بحالت مجبوری سخت آپریشن کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے فاسد و مسموم اعضاء کو کاٹ کر اور خراب جراثیم کو تباہ کر کے امت کے مزاج عمومی کو صحت و اعتدال پر رکھنا ہے۔
(تفسیر عثمانی)
پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دیں مجھے کافی ہے اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا، اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (۱۲۹)
تشریح: اگر آپ کی عظیم الشان شفقت، خیر خواہی اور دل سوزی کی لوگ قدر نہ کریں تو کچھ پروا نہیں۔ اگر فرض کیجئے ساری دنیا آپ سے منہ پھیر لے تو تنہا خدا آپ کو کافی ہے جس کے سوا نہ کسی کی بندگی ہے نہ کسی پر بھروسہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ زمین و آسمان کی سلطنت اور ”عرش عظیم” (تخت شہنشاہی) کا مالک وہی ہے۔ سب نفع و ضرر، ہدایت و ضلالت اس کے ہاتھ میں ہے۔
فائدہ: ابوداؤد میں ابوالدرداء سے روایت کی ہے کہ جو شخص صبح و شام سات سات مرتبہ حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِْ پڑھا کرے ، خدا اس کے تمام ہموم و غموم کو کافی ہو جائے گا۔ باقی عرش کی عظمت کے متعلق اگر تفصیل دیکھنا ہو تو ”روح المعانی” میں زیر آیت حاضرہ ملاحظہ کیجئے۔
(تفسیرعثمانی)
۱۰۔ سورۃ یونس
تعارف
یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی البتہ بعض مفسرین نے اس کی تین آیتوں (آیت نمبر۴۰ اور ۹۴ اور ۹۵) کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں، لیکن اس کا کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے ، سورت کا نام حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا حوالہ آیت نمبر:۹۸ میں آیا ہے ، مکہ مکرمہ میں سب سے اہم مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنا تھا، اس لئے اکثر مکی سورتوں میں بنیادی زور توحید، رسالت اور آخرت کے مضامین پر دیا گیا ہے ، اس سورت کے بھی مرکزی موضوعات یہی ہیں، اس کے ساتھ اسلام پر مشرکینِ عرب کے جواب دئیے گئے ہیں، اور ان کے غلط طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے ، اور انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ضد جاری رکھی تو دنیا اور آخرت میں دونوں میں ان پر اللہ تعالی کی طرف سے عذاب آسکتا ہے ، اسی سلسلہ میں پچھلے انبیاء کرامؑ میں سے حضرت موسی علیہ السلام کی مخالفت کے نتیجے میں فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں، ان میں کافروں کے لئے تو یہ سبق ہے کہ انہوں نے پیغمبر کی مخالفت میں جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے اس کے نتیجے میں ان کا انجام بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لئے یہ تسلی کا سامان بھی ہے کہ ان ساری مخالفتوں کے باوجود آخری انجام ان شاء اللہ انہی کے حق میں ہو گا۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۰۹ رکوعات:۱۱
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الٓرٓ۔ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (۱)
تشریح: الٓرٰ:جیسا کے سورۂ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، یہ الگ الگ حروف جوسورتوں کے شروع میں آئے ہیں‘‘ حروف مقطعات’’ کہلاتے ہیں، ان کا صحیح مطلب اللہ تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
(توضیح القرآن)
یہ آیتیں ایسی مضبوط و محکم کتاب کی ہیں جس کی ہر بات پکی ہے۔ الفاظ اس لیے کہ ہمیشہ تبدیل و تحریف سے محفوظ رہیں گے۔ علوم اس لیے کہ تمام تر عقل و حکمت کے موافق ہیں۔ احکام اس وجہ سے کہ آئندہ کوئی دوسری ناسخ کتاب آنے والی نہیں۔ اخبارو قصص اس طرح کہ ٹھیک ٹھیک واقعہ کے مطابق ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، جب کہ خدائے علیم و حکیم نے اس کو اپنے علم کامل کے زور سے اتارا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا لوگوں کو تعجب ہوا؟کہ ہم نے وحی بھیجی ایک آدمی پر ان میں سے کہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے کہ ان کے لئے سچا پایہ (مقام) ہے ان کے رب کے پاس، کافر بولے بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔ (۲)
تشریح: یعنی اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ انسانوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے حق تعالیٰ ایک انسان ہی کو مامور فرما دے اور اس کی طرف وہ پیغام بھیجے جس کی دوسروں کو بلاواسطہ خبر نہ ہو۔ وہ تمام لوگوں کو خدا کی نافرمانی کے مہلک نتائج و عواقب سے آگاہ کرے۔ اور خدا کی بات ماننے والوں کو بشارت پہنچائے کہ رب العزت کے یہاں اعمالِ صالحہ کی بدولت ان کا کتنا اونچا مرتبہ اور کیسا بلند پایہ ہے۔ اور کیسی سعادت و فلاح ازل سے ان کے لیے لکھی جاچکی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک تمہارا رب اللہ ہے ، جس نے پیدا کیا چھ دنوں میں آسمانوں کو اور زمین کو، پھر وہ عرش پر قائم ہوا، کام کی تدبیر کرتا ہے ، کوئی سفارش کرنے والا نہیں، مگر اس کی اجازت کے بعد، وہ اللہ ہے تمہارا رب، پس اس کی بندگی کرو، سوکیا تم دھیان نہیں دیتے۔ (۳)
تشریح: اسْتَوٰى:کے لفظی معنی سیدھا ہونے قابو پانے اور بیٹھ جانے کے ہیں، اللہ تعالی مخلوقات کی طرح نہیں ہیں، اس لئے ان کا استواء بھی مخلوقات جیسا نہیں، اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
ہمارے لئے اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اللہ تعالی نے عرش پر اس طرح استواء فرمایا جو ان کی شان کے لائق ہے ، اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنے کی نہ ضرورت ہے نہ ہماری محدود عقل اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔
(توضیح القرآن)
اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ، بیشک وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے ، پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ جزا دے ، جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی ہے ، اور دردناک عذاب ہے ، کیونکہ وہ کفر کرتے تھے۔ (۴)
تشریح: یعنی اسی سے تم سب کا آغاز ہوا، اور اسی کی طرف انجام کار سب کو جانا ہے۔ پھر اس کے احکام و سفراء سے سرتابی کرنا کیسے روا ہو سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جس نے سورج کو جگمگاتا اور چاند کو چمکتا بنایا، اور اس کی منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی جان لو اور حساب، اللہ نے یہ نہیں پیدا کیا مگر درست تدبیر سے ، وہ علم والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے۔ (۵)
تشریح:اس کائنات کے جن حقائق کی طرف قرآن کریم اشارہ فرماتا ہے اس سے دو باتیں ثابت کرنی مقصود ہوتی ہیں، ایک یہ کہ کائنات کا یہ محیر العقول نظام جس میں چاند سورج ایسے نپے تلے حساب کے پابند ہو کر اپنا کام کر رہے ہیں وہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی نشانی ہے ، اس بات کو مشرکین عرب بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالی ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو ذات اتنے عظیم الشان کاموں پر قادر ہو اسے اپنی خدائی میں آخر کسی اور شریک کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے ، لہذا یہ پوری کائنات اللہ تعالی کی توحید کی گواہی دیتی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ ساری کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی گئی، اگر اس دنیوی زندگی کے بعد آخرت کی ابدی زندگی نہ ہو جس میں نیک لوگوں کو اچھا صلہ اور برے لوگوں کو برائی کا بدلہ نہ ملے تواس کائنات کی پیدائش بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے ، لہذا یہی کائنات توحید کے ساتھ ساتھ آخرت کی ضرورت بھی ثابت کرتی ہے۔
(توضیح القرآن)
بیشک رات اور دن کے بدلنے میں اور جو اللہ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کیا (اس میں) نشانیاں ہیں پرہیز گاروں کیلئے۔ (۶)
تشریح: بلاشبہ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں خدا کی ہستی اور وحدانیت کے دلائل موجود ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے اور اس پر مطمئن ہو گئے ، اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ (۷)
تشریح: یعنی دنیا میں ایسا دل لگایا کہ آخرت کی اور خدا کے پاس جانے کی کچھ خبر ہی نہ رہی۔ اسی چند روزہ حیات کو مقصود و معبود بنا لیا۔ اور قدرت کی جو نشانیاں اوپر بیان ہوئیں، ان میں کبھی غور و تامل نہ کیا کہ ایسا مضبوط اور حکیمانہ نظام یوں ہی بیکار نہیں بنایا گیا۔ ضرور اس سارے کارخانہ کا کوئی خاص مقصد ہو گا۔ پھر جس نے پہلی مرتبہ ایسی عجیب و غریب مخلوقات پیدا کر دی، اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اس کا بدلہ جو وہ کماتے تھے۔ (۸)
تشریح: یعنی دل و دماغ سے ، زبان سے ، ہاتھ پاؤں سے ، جو کچھ انہوں نے کمائی کی اس کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ، ان کا رب انہیں راہ دکھائے گا ان کے ایمان کی بدولت (ایسے محلات کی) ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، نعمت کے باغات ہیں۔ (۹)
تشریح: یعنی ایمان کی بدولت اور اس کی روشنی میں حق تعالیٰ مومنین کو مقصد اصلی (جنت) تک پہنچائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اس میں ان کی دعا (ہو گی) اے اللہ! تو پاک ہے ، اور اس میں ان کی وقتِ ملاقات کی دعا ‘‘سلام’’ ہے اور ان کی دعا کا خاتمہ ہے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ (۱۰)
تشریح: جنتی جنت کی نعمتوں اور خدا کے فضل و احسان کو دیکھ کر ”سبحان اللہ” پکاریں گے۔ اور جب خدا سے کچھ مانگنے کی خواہش ہو گی، مثلاً کوئی پرندہ یا پھل دیکھا اور ادھر رغبت ہوئی تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کہیں گے۔ اتنا سنتے ہی فرشتے وہ چیز فوراً حاضر کر دیں گے۔ گویا یہ ہی ایک لفظ تمام دعاؤں کے قائم مقام ہو گا۔ دنیا میں بھی بڑے آدمیوں کے یہاں دستور ہے کہ مہمان اگر کسی چیز کو پسند کر کے صرف تعریف کر دے تو غیور میزبان کوشش کرتا ہے کہ وہ چیز مہمان کے لیے مہیا کرے۔
جنتی ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ جیسے دنیا میں مسلمانوں کا دستور ہے ، نیز فرشتوں کا جنتیوں کو سلام کرنا، بلکہ خود خداوند رب العزت کی طرف سے تحفہ سلام کا آنا قرآن میں منصوص ہے۔
سَلَامُ، قَوْلًا مِنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ
(یس، رکوع٤، آیت ٥٨)
وَالْمَلآَئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ باَبٍ سَلاَمُ، عَلَيْکُمْ بِماَ صَبَرّتُمْ
(الرعد، رکوع٣، آیت ٢٤، ٢٣)
جنت میں پہنچ کر جب دنیاوی تفکرات و کدورات کا خاتمہ ہو جائے گا اور محض سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کہنے پر ہر چیز حسب خواہش ملتی رہے گی تو ان کی ہر دعا کا خاتمہ ”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ” پر ہو گا اور طبعاً ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر اللہ لوگوں کو جلد برائی بھیجتا جیسے وہ جلد بھلائی چاہتے ہیں تو پوری ہو چکی ہوتی ان کی عمر کی میعاد، پس ہم ان لوگوں کو سرکشی میں بہکتے چھوڑ دیتے ہیں جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ (۱۱)
تشریح:یہ دراصل کفار عرب کے ایک سوال کا جواب ہے ، جب انہیں کفر کے نتیجے میں عذاب الہی سے ڈرایا جاتا تھا تووہ کہتے تھے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آ جاتا؟اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ عذاب آنے کے لئے اس طرح جلدی مچا رہے ہیں جیسے وہ کوئی اچھی چیز ہو، لیکن اگر اللہ تعالی ان کی خواہش کے مطابق ابھی عذاب نازل کر دے تو ان کو سوچنے سمجھنے کی جو مہلت دی گئی ہے وہ ختم ہو جائے گی، اور پھر ان کا ایمان لانا معتبر بھی نہیں ہو گا، لہذا اللہ تعالی ان کے اس مطالبے کو اپنی حکمت کی بنا پر پورا نہیں کرہا ہے ، بلکہ فی الحال ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے ، تاکہ جو لوگ سرکش ہیں وہ گمراہی میں بھٹکتے رہیں اور ان پر حجت تمام ہو جائے ، اور جو سمجھ سے کام لینا چاہتے ہوں، انہیں راہ راست پر آنے کا موقع مل جائے۔
(توضیح القرآن)
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تووہ لیٹا ہوا اور بیٹھا ہوا اور کھڑا ہوا، ہمیں پکارتا ہے ، پھر جب ہم دور کر دیں اس سے اس کی تکلیف، تو (یوں ) چل پڑا گویا کہ کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا، اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کو بھلا کر دکھایا وہ کام جو وہ کرتے تھے۔ (۱۲)
تشریح: یعنی انسان اول بے باکی سے خود عذاب طلب کرتا اور برائی اپنی زبان سے مانگتا ہے۔ مگر کمزور اور بودا اتنا ہے کہ جہاں ذرا تکلیف پہنچی گھبرا کر ہمیں پکارنا شروع کر دیا۔ جب تک مصیبت رہی کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ہر حالت میں خدا کو پکارتا رہا۔ پھر جہاں تکلیف ہٹا لی گئی، سب کہا سنا بھول گیا۔ گویا خدا سے کبھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ و ہی غرور غفلت کا نشہ، وہ ہی اکڑفوں رہ گئی۔ جس میں پہلے مبتلا تھا۔ حدیث میں ہے کہ تو خدا کو اپنے عیش و آرام میں یاد رکھ، خدا تجھ کو تیری سختی اور مصیبت میں یاد رکھے گا۔ مومن کی شان یہ ہے کہ کسی وقت خدا کو نہ بھولے۔ سختی پر صبر اور فراخی پر خدا کا شکر ادا کرتا رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی توفیق مومن کے سوا کسی کو نہیں ملتی۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے تم سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر دیں، جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے پاس آئے ان کے سول کھلی نشانیوں کے ساتھ، وہ ایمان نہ لاتے تھے ، اسی طرح ہم مجرموں کی قوم کو بدلہ دیتے ہیں۔ (۱۳)
تشریح: یعنی اگر ان کی درخواست کے موافق جلدی عذاب نہ آئے یا تکلیف و مصیبت آ کر ٹل جائے تو بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ ظلم و شرارت اور بے ایمانی کی سزا جلد یا بدیر مل کر رہے گی۔ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے کہ جب لوگ انبیاء ومرسلین کے کھلے نشان دیکھنے کے بعد بھی ظلم و تکذیب پر کمر بستہ رہے اور کسی طرح ایمان و تسلیم کی طرف نہ جھکے تو آسمانی عذاب نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ ہمیشہ مجرموں کو کسی نہ کسی رنگ میں سزا ملتی رہی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے تمہیں زمین میں ان کے بعد جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے کام کرتے ہو۔ (۱۴)
تشریح: یعنی پہلوں کی جگہ اب تم کو زمین پر بسایا تاکہ دیکھا جائے کہ تم کہاں تک خالق و مخلوق کے حقوق پہچانتے ہو۔ اور خدا کے پیغمبروں کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہو۔ نیک و بد جیسے عمل کرو گے اسی کے مناسب تم سے برتاؤ کیا جائے گا۔ آگے اس معاملہ کا ذکر ہے جو قرآن کریم یا پیغمبر علیہ السلام یا خداوند قدوس کے ساتھ انہوں نے کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آؤ، یا اسے بدل دو، آپ کہہ دیں میرے لئے (روا) نہیں کہ میں اپنی جانب سے بدلوں، میں پیروی نہیں کرتا مگر (اس کی) جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تومیں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۱۵)
تشریح: قرآن کی عام پند و نصیحت تو بہت سے پسند کرتے لیکن بت پرستی یا ان کے مخصوص عقائد و رسوم کا رد ہوتا تو وحشت کھاتے اور ناک بھوں چڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ اپنے خدا سے کہہ کر یا تو دوسرا قرآن لے آئیے جس میں یہ مضامین نہ ہوں اور اگر یہی قرآن رہے تو اتنے حصہ میں ترمیم کر دیجئے جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے۔ جن لوگوں نے پتھر کی مورتیوں پر خدائی اختیارات تقسیم کر رکھے تھے ، ان کی ذہنیت سے کچھ مستبعد نہیں کہ ایک پیغمبر کو اس طرح کے تصرفات و اختیارات کا مالک فرض کر لیں۔ یا یہ کہنا بھی محض الزام و استہزاء کے طور پر ہو گا۔ بہرحال اس کا تحقیقی جواب آگے مذکور ہے۔
کسی فرشتہ یا پیغمبر کا یہ کام نہیں کہ اپنی طرف سے کلامِ الٰہی میں ترمیم کر کے ایک شوشہ بھی تبدیل کر سکے۔ پیغمبر کا فرض یہ ہے کہ جو وحی خدا کی طرف سے آئے بلا کم و کاست اس کے حکم کے موافق چلتا رہے۔ وہ خدا کی وحی کا تابع ہوتا ہے۔ خدا اسُکا تابع نہیں ہوتا کہ جیسا کلام تم چاہو، خدا کے یہاں سے لا کر پیش کر دے۔ وحی الٰہی میں ادنیٰ سے ادنیٰ تصرف اور قطع و برید کرنا بڑی بھاری معصیت ہے ‘ پھر جو معصوم بندے سب سے زیادہ خدا کا ڈر رکھتے ہیں (انبیاء علیہم السلام) وہ ایسی معصیت و نافرمانی کے قریب کہاں جا سکتے ہیں۔ ”اِنِّی اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَومٍ عَظِیمٍ۔ ” میں گویا ان بیہودہ فرمائش کرنے والوں پر تعریض ہو گئی کہ ایسی سخت نافرمانی کرتے ہوئے تم کو بڑے دن کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں اگر اللہ چاہتا تو میں اسے تم پر (تمہارے سامنے ) نہ پڑھتا، اور نہ تمہیں اس کی خبر دیتا، میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر رہ چکا ہوں، سوکیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۱۶)
تشریح: یعنی جو خدا چاہتا ہے و ہی تمہارے سامنے پڑھتا ہوں اور جتنا وہ چاہتا ہے میرے ذریعہ سے تم کو خبردار کرتا ہے۔ اگر وہ اس کے خلاف چاہتا تو میری کیا طاقت تھی کہ خود اپنی طرف سے ایک کلام بنا کر اس کی طرف منسوب کر دیتا۔ آخر میری عمر کے چالیس سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزرے۔ اس قدر طویل مدت میں تم کو میرے حالات کے متعلق ہر قسم کا تجربہ ہو چکا۔ میرا صدق و عفاف، امانت و دیانت وغیرہ اخلاق حسنہ تم میں ضرب المثل رہے۔ میرا اُمّی ہونا اور کسی ظاہری معلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہ کرنا ایک معروف و مسلم واقعہ ہے۔ پھر چالیس برس تک جس نے نہ کوئی قصیدہ لکھا ہو، نہ مشاعروں میں شریک ہوا ہو، نہ کبھی کتاب کھولی ہو، نہ قلم ہاتھ میں لیا ہو، نہ کسی درسگاہ میں بیٹھا ہو، دفعتاً ایسا کلام بنا لائے جو اپنی فصاحت و بلاغت، شوکت و جزالت، جدّت اسلوب اور سلاست و روانی سے جن و انس کو عاجز کر دے۔ اس کے علوم و حقائق کے سامنے تمام دنیا کے معارف ماند پڑ جائیں۔ ایسا مکمل اور عالمگیر قانون ہدایت نوع انسان کے ہاتھوں میں پہنچائے جس کے آگے سب پچھلے قانون ردی ہو جائیں۔ بڑی بڑی قوموں اور ملکوں کے مردہ قالب میں روح تازہ پھونک کر ابدی حیات اور نئی زندگی کا سامان بہم پہنچائے۔ یہ بات کس کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ تم کو سوچنا چاہیے کہ جس پاک سرشت انسان نے چالیس برس تک کسی انسان پر جھوٹ نہ لگایا ہو، کیا وہ ایک دم ایسی جسارت کر سکتا ہے کہ معاذ اللہ خداوند قدوس پر جھوٹ باندھنے اور افتراء کرنے لگے ؟ ناچار ماننا پڑے گا کہ جو کلام الٰہی تم کو سناتا ہوں، اس کے بنانے یا پہنچانے میں مجھے اصلاً اختیار نہیں۔ خدا جو کچھ چاہتا ہے میری زبان سے تم کو سناتا ہے۔ ایک نقطہ یا زیر زبر تبدیل کرنے کا کسی مخلوق کو حق حاصل نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
سواس سے بڑا ظالم کون ہے ؟جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے ، بیشک مجرم فلاح (دوجہاں کی کامیابی) نہیں پاتے۔ (۱۷)
تشریح: یعنی گنہگاروں اور مجرموں کو حقیقی کامیابی اور بھلائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ ظالم و مجرم کون ہے اگر (بفرضِ محال) میں جھوٹ بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہوں تو مجھ سا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن گذشتہ آیت میں جو دلیل بیان کی گئی اس سے ثابت ہو چکا کہ یہ احتمال بالکل باطل ہے۔ پس جب میرا سچا ہونا ثابت ہے اور تم جہل یا عناد سے خدا کے کلام کو جھٹلا رہے ہو تو اب زمین کے پردہ پر تم سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اللہ کے سوا، انہیں پوجتے ہیں جو انہیں نہ ضرر پہنچا سکیں اور نہ نفع دے سکیں انہیں، اور وہ کہتے ہیں یہ سب اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیں کیا تم اللہ کو اس کی خبر دیتے ہو جو وہ نہیں جانتا آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک ہے اور وہ بالاتر ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۱۸)
تشریح: وہ معاملہ تو خدا اور پیغمبر کے ساتھ تھا۔ اب ان کی خدا پرستی کا حال سنیے کہ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے قبضہ قدرت میں نفع و ضرر کچھ بھی نہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیشک بڑا خدا تو ایک ہے جس نے آسمان زمین پیدا کیے مگر ان اصنام (بتوں) وغیرہ کو خوش رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ سفارش کر کے بڑے خدا سے دنیا میں ہمارے اہم کام درست کرا دیں گے اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی ہماری سفارش کریں گے باقی چھوٹے موٹے کام جو خود ان کے حدود اختیار میں ہیں ان کا تعلق تو صرف ان ہی سے ہے۔ بناء ً علیہ ہم کو ان کی عبادت کرنی چاہیے۔
بتوں کا شفیع ہونا اور شفیع کا مستحق عبادت ہونا دونوں دعوے غلط اور بے اصل ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا کے علم میں و ہی چیز ہو گی جو واقعی ہو۔ لہٰذا تعلیم الٰہی کے خلاف ان غیر واقعی اور خود تراشیدہ اصول کو حق بجانب ثابت کرنا گویا خدا تعالیٰ کو ایسی چیزوں کے واقعی ہونے کی خبر دینا ہے جن کا وقوع آسمان و زمین میں کہیں بھی اسے معلوم نہیں یعنی کہیں ان کا وجود نہیں۔ ہوتا تو اس کے علم میں ضرور ہوتا۔ پھر اس سے منع کیوں کرتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور لوگ نہ تھے مگر امت واحد، پھر انہوں نے اختلاف کیا، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے بات نہ ہو چکی ہوتی تو فیصلہ ہو جاتا ان کے درمیان (اس بات کا) جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (۱۹)
تشریح: ممکن تھا مشرکین کہتے کہ خدا نے تمہارے دین میں منع کیا ہو گا ہمارے دین میں منع نہیں کیا۔ اس کا جواب دے دیا کہ اللہ کا دین ہمیشہ سے ایک ہے۔ اعتقاداتِ حقّہ میں کوئی فرق نہیں۔ درمیان میں جب لوگ بہک کر جدا جدا ہو گئے۔ خدا نے ان کے سمجھانے اور دین حق پر لانے کو انبیاء بھیجے۔ کسی زمانہ اور کسی ملت میں خدا نے شرک کو جائز نہیں رکھا باقی لوگوں کے باہمی اختلافات کو زبردستی اس لیے نہیں مٹایا گیا کہ پہلے سے خدا کے علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ یہ دنیا دارِ عمل (موقع واردات) ہے۔ قطعی اور آخری فیصلہ کی جگہ نہیں۔ یہاں انسانوں کو کسب و اختیار دے کر قدرے آزاد چھوڑا گیا ہے کہ وہ جو راہِ عمل چاہیں اختیار کریں۔ اگر یہ بات پیشتر طے نہ ہو چکی ہوتی تو سارے اختلافات کا فیصلہ ایک دم کر دیا جاتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ کہتے ہیں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟تو آپ کہہ دیں اس کے سوا نہیں کہ غیب اللہ کے لئے ہے سو تم انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔ (۲۰)
تشریح: یعنی جن نشانیوں کی وہ فرمائش کرتے تھے ، ان میں سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ صداقت کے نشان پہلے بہتیرے دیکھ چکے ہو۔ فرمائشی نشان دکھلانا ضروری نہیں نہ چنداں مفید ہے۔ آئندہ جو خدا کی مصلحت ہو گی وہ نشان دکھلائے گا۔ اس کا علم خدا ہی کو ہے کہ مستقبل میں کس شان اور نوعیت کے نشان ظاہر کرے گا۔ سو تم منتظر رہو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ ”موضح القرآن” میں ہے۔ ”یعنی اگر کہیں کہ ہم کا ہے سے جانیں کہ تمہاری بات سچ ہے ، فرمایا کہ آگے دیکھو حق تعالیٰ اس دین کو روشن کرے گا اور مخالف ذلیل ہوں گے برباد ہو جائیں گے سو ویسا ہی ہوا۔ سچ کی نشانی ایک بار کافی ہے اور ہر بار مخالف ذلیل ہوں تو فیصلہ ہو جائے۔ حالانکہ فیصلے کا دن دنیا میں نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ہم چکھائیں لوگوں کو رحمت (کا مزہ) ایک تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی تواسی وقت وہ ہماری آیات میں حیلہ (بنانے لگیں)، آپ کہہ دیں اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیر (بنا سکتا ہے )، بیشک تم جو حیلہ سازی کرتے ہو ہمارے فرشتے لکھتے ہیں۔ (۲۱)
تشریح: اہل مکہ پر حق تعالیٰ نے سات سال کا قحط مسلط کیا۔ جب ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تو گھبرا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ یہ عذاب اٹھ جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء سے خدا نے سماں کر دیا، قحط کی بلاء دور ہوئی تو پھر وہی شرارتیں کرنے لگے ، خدا کی آیتوں کو جھٹلاتے اور اس کی قدرت و رحمت پر نظر نہ رکھتے۔ بلکہ انعامات الٰہیہ کو ظاہری اسباب و حیل اور محض بے اصل خیالات و اوہام کی طرف نسبت کرنے لگتے۔ اس کا جواب دیا کہ اچھا تم خوب مکر و فریب اور حیلہ بازی کر لو۔ مگر یہ یاد رہے کہ تمہاری حیلہ بازیاں ایک ایک کر کے لکھی جا رہی ہیں۔ وہ سارا دفتر قیامت کے دن تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پھر جب تمہاری کوئی حیلہ بازی فرشتوں سے مخفی نہیں، خدا کے علم محیط سے کہاں باہر رہ سکتی ہے۔ تم اپنے مکر و حیلہ سازی پر مغرور ہو، حالانکہ خدا کا جوابی مکر (تدبیر خفی) تمہارے مکرو تدبیر سے کہیں تیز اور سریع الاثر ہے وہ مجرم کی باگ اتنی ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے کہ مجرم کو نشہ غفلت میں چور ہو کر سزا کا تصور بھی نہیں آتا۔ جب پیمانہ شقاوت لبریز ہو جاتا ہے تو دفعتاً پکڑ کر ٹینٹوا دبا دیتا ہے۔ لہٰذا عاقل کو چاہیے کہ خدا کی نرمی، بردباری اور خوش کن حالات کو دیکھ کر مغرور نہ ہو، نہ معلوم نرمی کے بعد کیسی سخت آنے والی ہے۔ جیسے آگے بحری سفر کی مثال میں بیان فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ”سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر صرف اللہ پر رہتی ہے ، جہاں سخت گھڑی گزری اور کام بن گیا پھر خدا کو بھول کر اسباب پر آ رہتا ہے۔ ڈرتا نہیں کہ خدا پھر ویسی ہی تکلیف اور سختی کا ایک سبب کھڑا کر دے۔ اسی کے ہاتھ میں سب اسباب کی باگ ہے۔ چنانچہ آگے دریائی سفر کی مثال میں اس کی ایک صورت بیان فرمائی۔
(تفسیرعثمانی)
وہی ہے جو تمہیں چلاتا ہے خشکی میں اور دریا میں، یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ ان کے ساتھ (انہیں لے کر) پاکیزہ ہوا کے ساتھ چلیں اور وہ اس سے خوش ہوئے ، اس (کشتی) پر ایک تند و تیز ہوا آئی اور ان پر ہر طرف سے موجیں آ گئیں اور انہوں نے جان لیا کہ انہیں گھیر لیا گیا ہے ، وہ اللہ کو پکارنے لگے اس کی بندگی میں خالص ہو کر کہ اگر تو نے ہمیں اس سے نجات دے دی توہم ضرور تیرے شکر گزاروں میں ہوں گے۔ (۲۲)
پھر جب میں نے انہیں نجات دے دی، اس وقت وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگے ، اے لوگو! اس کے سوا نہیں کہ تمہاری شرارت (کا وبال) تمہاری جانوں پر ہے ، دنیا کی زندگی کے فائدے (چند روز ہیں) پھر تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہے ، پھر ہم تمہیں بتلا دیں گے جو تم کرتے تھے۔ (۲۳)
تشریح: یعنی ابتداء میں ہوا خوشگوار اور موافق تھی۔ مسافر ہنستے کھیلتے آرام سے چلے جا رہے تھے کہ یکایک ایک زور کا طوفانی جھکڑ چلنے لگا اور چاروں طرف سے پانی کے پہاڑ اُٹھ کر کشتی (یا جہاز) سے ٹکرانے لگے۔ جب سمجھ لیا کہ ہر طرف سے موت کے منہ میں گِھرے ہوئے ہیں۔ بھاگنے اور نکلنے کی کوئی سبیل نہیں، تو سارے فرضی معبودوں کو چھوڑ کر خدائے واحد کو پکارنے لگے جو اصل فطرت انسانی کا تقاضا تھا، ہر چیز سے مایوس ہو کر خالص خدا کی بندگی اختیار کی اور بڑے پکے عہد و پیمان باندھے کہ اگر مصیبت سے خدا نے نجات دی تو ہمیشہ اس کے شکر گذار رہیں گے۔ کوئی بات کفرانِ نعمت کی نہ کریں گے لیکن جہاں ذرا امن نصیب ہوا ساحل پر قدم رکھتے ہی شرارتیں اور ملک میں اودھم مچانا شروع کر دیا، تھوڑی دیر بھی عہد پر قائم نہ رہے۔ (تنبیہ) اس آیت میں ان مدعیانِ اسلام کے لیے بڑی عبرت ہے جو جہاز کے طوفان میں گِھر جانے کے وقت بھی خدائے واحد کو چھوڑ کر غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد ابوجہل کا بیٹا عکرمہ مسلمان نہ ہوا تھا۔ مکہ سے بھاگ کر بحری سفر اختیار کیا۔ تھوڑی دور جا کر کشتی کو طوفانی ہواؤں نے گھیر لیا، ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ ایک خدا کو پکارو۔ یہاں تمہارے معبود کچھ کام نہ دیں گے۔ عکرمہ نے کہا کہ یہ ہی تو وہ خدا ہے جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم کو بلاتے ہیں۔ اگر دریا میں رب محمد کے بدون نجات نہیں مل سکتی تو خشکی میں بھی اس کی دستگیری اور اعانت کے بغیر نجات پانا محال ہے۔ اے خدا! اگر تو نے اس مصیبت سے نکال دیا تو میں واپس ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اخلاق کریمہ سے میری تقصیرات کو معاف فرمائیں گے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے۔ رضی اللہ عنہ۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا نہیں کہ دنیا کی زندگی کی مثال پانی جیسی ہے ، ہم نے اسے آسمان سے اتارا تواس سے زمین کا سبزہ ملا جلا نکلا، جس سے لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی رونق پکڑ لی اور مزین ہو گئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ اس پر قدرت رکھتے ہیں تو (اچانک ) ہمارا حکم رات میں یا دن کے وقت آیا توہم نے اسے کٹا ہوا ڈھیر کر دیا گویا وہ کل تھی ہی نہیں، اسی طرح ہم آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (۲۴)
تشریح:دنیا کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ اس وقت وہ بڑی خوبصورت اور سجی معلوم ہوتی ہے ، لیکن اول تو کبھی قیامت سے پہلے ہی اللہ تعالی کے کسی عذاب کی وجہ سے اس کی ساری خوبصورتی ملیامیٹ ہوتی ہے ، دوسرے جب انسان کی موت کا وقت آتا ہے ، تب بھی اس کے لئے یہ دنیا اندھیری ہو جاتی ہے ، اور اگر ایمان اور عمل صالح کی پونجی پاس نہ ہو تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ساری خوبصورتی درحقیقت ایک عذاب تھی اور جب قیامت آئے گی تب تو یہ ظاہری زیب و زینت بھی پوری دنیا سے ختم ہو جائے گی۔
(توضیح القرآن)
اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ، اور جسے چاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ (۲۵)
تشریح:سلامتی کے گھر سے مراد جنت ہے ، چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے دعوت تو تمام انسانوں کے لئے عام ہے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے جنت حاصل کریں لیکن اس تک پہنچنے کا جو سیدھا راستہ ہے ، اس تک اللہ تعالی اسی کو پہنچاتا ہے جسے وہ اپنی حکمت سے چاہتا ہے اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اسی کو پہنچایا جائے جو اپنے اختیار اور ہمت کو کام میں لا کر جنت کی ضروری شرائط پوری کرے۔
(توضیح القرآن)
جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لئے بھلائی ہے ، اور (اس سے بھی) زیادہ، اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چڑھے گی اور نہ ذلت، وہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۶)
تشریح: بھلے کام کرنے والوں کو وہاں بھلی جگہ ملے گی (یعنی جنت) اور اس سے زیادہ بھی کچھ ملے گا۔ یعنی حق تعالیٰ کی رضاء اور اس کا دیدار ”زیادۃ” کی تفسیر ”دیدار مبارک” سے کئی احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہے اور بہت سے صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا ”اے اہل جنت! تمہارے لیے ایک وعدہ خدا کا باقی ہے جو اب پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے ؟ کیا خدا نے اپنے فضل سے ہماری حسنات کا پلہ بھاری نہیں کر دیا۔ کیا اس نے ہمارے چہروں کو سفید اور نورانی نہیں بنایا؟ کیا اس نے ہم کو دوزخ سے بچا کر جنت جیسے مقام میں نہیں پہنچایا؟ (یہ سب کچھ تو ہو چکا، آگے کون سی چیز باقی رہی) اس پر حجاب اٹھا دیا جائے گا۔ اور جنتی حق تعالیٰ کی طرف نظر کریں گے۔ پس خدا کی قسم کوئی نعمت جو ان کو عطا ہوئی ہے دولت دیدار سے زیادہ محبوب نہ ہو گی نہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز ان کی آنکھیں ٹھنڈی کر سکے گی۔ رزقنا اللہ سبحانہ، وتعالیٰ بمنہ وفضلہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں (ان کا) بدلہ اسی جیسی برائی ہے ، اور ان پر ذلت چڑھے گی ان کے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں، گویا ان کے چہرے ڈھانک دئے گئے تاریک رات کے ٹکڑے سے ، وہی لوگ جہنم والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۷)
تشریح:ان کے چہرے اس قدر سیاہ و تاریک ہوں گے گویا اندھیری رات کی تہیں ان پر جما دی گئی ہیں
(اعاذنا اللہ منہا) (تفسیرعثمانی)
اور جس دن ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے ، پھر ان لوگوں کو کہیں گے جنہوں نے شرک کیا اپنی جگہ (رہو) تم اور تمہارے شریک، پھر ہم ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے ، اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری بندگی نہ کرتے تھے۔ (۲۸)
پس ہمارے اور تمہارے درمیان کافی ہے اللہ گواہ، کہ ہم تمہاری بندگی سے بے خبر تھے۔ (۲۹)
تشریح:جن بتوں کو انہوں نے خدا مان رکھا تھا وہ تو بے جان تھے ، اس لئے انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے ، اس لئے جب اللہ تعالی ان کو زبان عطا فرمائیں گے تو شروع میں تو وہ صاف انکار کر دیں گے کہ یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ، پھر جب بعد میں انہیں پتہ چلے گا کہ واقعی ان کی عبادت کرتے تھے تووہ کہیں گے کہ اگر کرتے بھی تھے تو ہمیں اس کا پتہ نہیں تھا۔
(توضیح القرآن)
وہاں ہر کوئی جانچ لے گا جو اس نے آگے بھیجا تھا، اور وہ اپنے سچے مولی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے ، اور ان سے گم ہو جائے گا جو وہ جھوٹ باندھتے تھے۔ (۳۰)
تشریح: یعنی جھوٹے اور بے اصل توہمات سب رفو چکر ہو جائیں گے۔ ہر شخص بہ رائ العین مشاہدہ کر لے گا کہ اس سچے مالک کے سوا رجوع کرنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اور ہر ایک انسان کو اپنے تمام برے بھلے اعمال کا اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا وزن رکھتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
آپ پوچھیں کون آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دیتا ہے ؟یا کون کان اور آنکھوں کا مالک ہے ؟اور کون زندہ کو مردے سے نکالتا ہے ؟اور نکالتا ہے مردے کو زندہ سے ؟اور کون کاموں کی تدبیریں کرتا ہے ، سووہ بول اٹھیں گے اللہ آپ کہہ دیں کیا پھر تم ڈرتے نہیں؟۔ (۳۱)
تشریح: آسمان کی طرف سے بارش اور حرارتِ شمس وغیرہ پہنچتی ہے اور زمینی مواد اس کے ساتھ ملتے ہیں تب انسان کی روزی مہیا ہوتی ہے۔
ایسے عجیب و غریب محیر العقول طریقہ سے کس نے کان اور آنکھ پیدا کی۔ پھر ان کی حفاظت کا سامان کیا۔ کون ہے جو ان تمام قوائے انسانی کا حقیقی مالک ہے کہ جب چاہے عطا فرما دے اور جب چاہے چھین لے۔
”نطفہ’ یا ”بیضہ” سے جاندار کو، پھر جاندار سے نطفہ اور بیضہ کو نکالتا ہے۔ یا روحانی اور معنوی طور پر جو شخص یا قوم مردہ ہو چکی اس میں سے زندہ دل افراد پیدا کرتا ہے اور زندہ قوموں کے اخلاف پر ان کی بدبختی سے موت طاری کر دیتا ہے۔
(تفیسرعثمانی)
پس یہ ہے اللہ!تمہارا سچا رب، پھر سچ کے بعد گمراہی کے سوا کیا رہ گیا؟پھر تم کدھر پھرے جاتے ہو؟ (۳۲)
تشریح: مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ یہ امور کلیہ اور عظیم الشان کام اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے فرمایا کہ جب اصل خالق و مالک اور تمام عالم کا مدبر اسی کو مانتے ہو، پھر ڈرتے نہیں کہ اس کے سوا دوسروں کو معبود بناؤ۔ معبود تو وہ ہی ہونا چاہیے ، جو خالق کل، مالک الملک، رب مطلق اور تصرف علی الاطلاق ہو۔ اس کا اقرار کر کے کہاں الٹے پاؤں واپس جا رہے ہو۔ جب سچا و ہی ہے تو سچ کے بعد بجز جھوٹ کے کیا رہ گیا۔ سچ کو چھوڑ کر جھوٹے اوہام میں بھٹکنا عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
اسی طرح تیرے رب کی بات ان لوگوں پر جنہوں نے نافرمانی کی سچی ہوئی کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ (۳۳)
تشریح: یعنی اللہ نے ازل سے ان متمرد سرکشوں کی قسمت میں ایمان نہیں لکھا۔ جس کا سبب علم الٰہی میں ان کی سرکشی اور نافرمانی ہے۔ اس طرح خدا کی لکھی ہوئی بات ان پر فسق و نافرمانی کی وجہ سے راست آئی۔
(تفسیرعثمانی)
آپ پوچھیں کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے ؟جو پہلی بار پیدا کرے پھر اسے لوٹائے ؟آپ کہہ دیں اللہ پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا، پس کدھر پلٹے جاتے ہو؟ (۳۴)
تشریح: یہاں تک ”مبدأ” کا ثبوت تھا۔ اب ”معاد” کا ذکر ہے۔ یعنی جب اعتراف کر چکے کہ زمین، آسمان، سمع و بصر، موت و حیات، سب کا پیدا کرنے والا اور تھامنے والا و ہی ہے تو ظاہر ہے کہ مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اور دہرا دینا بھی اسی کا فعل ہو سکتا ہے ، پھر انبیاء علیہم السلام کی زبانی جب وہ خود اس دہرانے کی خبر دیتا ہے تو اس کی تسلیم میں کیا عذر ہے ”مبدأ” کا اقرار کر کے ”معاد” کی طرف سے کہاں پلٹے جاتے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
آپ پوچھیں کیا تمہارے شریکوں میں سے (کوئی ہے ) جو صحیح راہ بتائے ؟آپ کہہ دیں اللہ صحیح راہ بتاتا ہے ، پس کیا جو صحیح راہ بتاتا ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ؟یا وہ جو (خود بھی) راہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راہ دکھائی جائے ، سوتمہیں کیا ہو گیا، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟ (۳۵)
تشریح: ”مبدأ” و ”معاد” کے بعد درمیانی وسائط کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح اول پیدا کرنے والا اور دوبارہ چلانے والا و ہی خدا ہے ، ایسے ہی ”معاد” کی صحیح راہ بتلانے والا بھی کوئی دوسرا نہیں۔ خدا ہی بندوں کی صحیح اور سچی راہنمائی کر سکتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، سب اسی کی راہنمائی کے محتاج ہیں۔ اسی کی ہدایت و راہنمائی پر سب کو چلنا چاہئے۔ بت مسکین تو کس شمار میں ہیں جو کسی کی راہنمائی سے بھی چلنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بڑے بڑے مقربین (انبیاء و ملائکہ علیہم السلام) بھی برابر یہ اقرار کرتے آئے ہیں کہ خدا کی ہدایت و دستگیری کے بدون ہم ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی راہنمائی بھی اسی لیے بندوں کے حق میں قابل قبول ہے کہ خدا بلاواسطہ ان کی راہنمائی فرماتا ہے۔ پھر یہ کس قدر نا انصافی ہے کہ انسان اس ہادئ مطلق کو چھوڑ کر باطل اور کمزور سہارے ڈھونڈے یا مثلاً احبار و رہبان، برہمنوں اور مہنتوں کی راہنمائی پر اندھا دھند چلنے لگے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں سے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی، بیشک گمان حق (کی معرفت) کا کچھ بھی کام نہیں دیتا، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۶)
تشریح: جب معلوم ہو چکا کہ ”مبدی”، ”معید” اور ”ہادی” و ہی اللہ ہے تو اس کے خلاف شرک کی راہ اختیار کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے ہاتھ میں کون سی دلیل و برہان ہے جس کی بناء پر ”توحید” کے مسلک قویم و قدیم کو چھوڑ کر ضلالت کے گڑھے میں گرے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس سوائے ظنون و اوہام اور اٹکل پچو باتوں کے کوئی چیز نہیں۔ بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور یہ قرآن (ایسا) نہیں ہے کہ کوئی اللہ کے (حکم کے ) بغیر (اپنی طرف سے ) بنا لے ، لیکن اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوا) اور کتاب کی تفصیل ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام جہانوں کی رب (کی طرف) سے ہے۔ (۳۷)
تشریح: پچھلی آیات میں فرمایا تھا کہ مشرکین محض ظن و تخمین کی پیروی کرتے ہیں۔ حالانکہ پیروی کے قابل اس کی بات ہے جو صحیح راستہ بتلائے۔ اسی مناسبت سے یہاں قرآن کریم کا ذکر شروع کیا کہ آج دنیا میں وہی ایک کتاب صحیح راستہ بتلانے والی اور ظنون و اوہام کے مقابلہ میں سچ حقائق پیش کرنے والی ہے۔ اس کے علوم و معارف، احکام و قوانین اور معجزانہ فصاحت و جزالت پر نظر کر کے کہنا پڑتا ہے کہ یہ قرآن وہ کتاب نہیں جو خداوند قدوس کے سوا کوئی دوسرا شخص بنا کر پیش کر سکے۔ پورا قرآن تو بجائے خود رہا اس کی ایک سورت کا مثل لانے سے بھی تمام جن و انس عاجز ہیں جیسا کہ آگے آتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ کہتے ہیں؟کہ وہ اسے بنا لایا ہے ، آپ کہہ دیں پس اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ اور جسے تم بلا سکو بلالو، اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔ (۳۸)
تشریح: یعنی اگر میں بنا لایا ہوں تو تم بھی میری طرح بشر ہو سب مل کر ایک سورت جیسی سورت بنا لاؤ۔ ساری مخلوق کو دعوت دو، جن و انس کو جمع کر لو، تمام جہان کے فصیح و بلیغ، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ اکٹھے ہو کر ایک چھوٹا سا کلام قرآن کی مانند پیش کر دو تو سمجھ لیا جائے گا کہ قرآن بھی کسی بشر کا کلام ہے جس کا مثل دوسرے لوگ لا سکتے ہیں۔ مگر محال ہے کہ ابدالآباد تک کوئی مخلوق ایسا حوصلہ کر سکے۔ قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں تہذیب اخلاق، تمدن و معاشرت، حکومت و سیاست، معرفت و روحانیت، تزکیہ نفوس، تنویرِ قلوب، غرضیکہ وصول الی اللہ اور تنظیم و رفاہیۃ خلائق کے وہ تمام قوانین و طریق موجود ہیں، جن سے آفرینشِ عالم کی غرض پوری ہوتی ہے۔ اور جن کی ترتیب و تدوین کی ایک امی قوم کے امی فرد سے کبھی امید نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر ان تمام علوم و ہدایات کا تکفل کرنے کے ساتھ اس کتاب کی غلغلہ انداز فصاحت و بلاغت، جامع و موثر اور دلربا طرز بیان، دریا کا سا تموج، سہل ممتنع سلاست و روانی، اسالیب کلام کا تفنن اور اس کی لذت و حلاوت اور شہنشاہانہ شان و شکوہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے بڑے زور و شور اور بلند آہنگی سے سارے جہان کو مقابلہ کا چیلنج دے دیا ہے۔ جس وقت سے قرآن کے جمال جہاں آراء نے غیب کی نقاب الٹی اور اولادِ آدم کو اپنے سے روشناس کیا، اس کا برابر یہ ہی دعویٰ رہا کہ میں خدائے قدوس کا کلام ہوں۔ اور جس طرح خدا کی زمین جیسی زمین، خدا کے سورج جیسا سورج، اور خدا کے آسمان جیسا آسمان پیدا کرنے سے دنیا عاجز ہے ، اسی طرح خدا کے قرآن جیسا قرآن بنانے سے بھی دنیا عاجز رہے گی۔ قرآن کے مٹانے کی لوگ سازشیں کریں گے ، مکر گانٹھیں گے ، مقابلہ کے جوش میں کٹ مریں گے۔ اپنی مدد کے لیے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو دعوت دیں گے۔ کوئی حیلہ، کوئی تدبیر، کوئی داؤ پیچ اٹھا نہ رکھیں گے ، اپنے کو اور دوسروں کو مصیبت میں ڈالیں گے۔ سارے مصائب و دوا ہی کا تحمل ان کے لیے ممکن ہو گا مگر قرآن کی چھوٹی سی سورت کا مثل لانا ممکن نہ ہو گا۔ ”قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ اْلِانْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَّاتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِ لَایَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا
(بنی اسرائیل، رکوع ١٠، آیت:٨٨) (تفسیرعثمانی)
بلکہ انہوں نے اسے جھٹلایا جس کے علم پر انہوں نے قابو نہیں پایا، اور اس کی حقیقت ابھی ان کے پاس نہیں آئی، اسی طرح ان سے پہلوں نے جھٹلایا، پس دیکھو کیسا ہوا ظالموں کا انجام۔ (۳۹)
تشریح: یعنی قرآن کو ”مفتریٰ” کہنا سمجھ کر نہیں، محض جہل و سفاہت اور قلت تدبر سے ہے۔ تعصب و عناد انہیں اجازت نہیں دیتا کہ ٹھنڈے دل سے قرآن کے حقائق اور وجوہ اعجاز میں غور کریں۔ بد فہمی یا قوائے فکریہ کے ٹھیک استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جب قرآن پاک کے دلائل و عجائب کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے ، تو جھٹلانا شروع کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں سے بعض اس پر ایمان لائیں گے اور ان میں سے بعض اس پر ایمان نہ لائیں گے اور تیرا رب فساد کرنے والو ں کو خوب جانتا ہے۔ (۴۰)
تشریح: یعنی آگے چل کر ان میں کچھ لوگ مسلمان ہونے والے ہیں۔ انہیں چھوڑ کر جو باقی لوگ شرارت پر قائم رہیں گے ، خدا سب کو خوب جانتا ہے۔ موقع پر مناسب سزا دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو آپ کہہ دیں میرے لئے میرا عمل اور تمہارے لئے تمہارے عمل، تم اس کے جواب دہ نہیں جو میں کرتا ہوں اور میں اس کا جواب دہ نہیں جو تم کرتے ہو۔ (۴۱)
تشریح: یعنی اگر دلائل و براہین سننے کے بعد بھی یہ لوگ آپ کی تکذیب کریں تو کہہ دیجئے کہ ہم اپنا فرض ادا کر چکے ، تم سمجھانے پر نہیں مانتے تو اب میرا تمہارا راستہ الگ الگ ہے۔ تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو میں اپنے عمل کا۔ ہر ایک کو اس کے عمل کا ثمرہ مل کر رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں سے بعض کان لگاتے ہیں آپ کے طرف، تو کیا تم بہروں کو سناؤ گے ؟خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں۔ (۴۲)
اور ان میں سے بعض دیکھتے ہیں آپ کی طرف، تو کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا دیں گے ؟خواہ وہ دیکھتے نہ ہوں۔ (۴۳)
تشریح: بعض لوگ بظاہر قرآن شریف اور آپ کا کلام مبارک سنتے ہیں اور آپ کے معجزات و کمالات دیکھتے ہیں مگر دیکھنا سننا وہ نافع ہے جو دل کے کانوں اور دل کی آنکھوں سے ہو۔ یہ آپ کے اختیار میں نہیں کہ آپ دل کے بہروں کو اپنی بات سنا دیں۔ بحالیکہ وہ سخت بہرہ پن کی وجہ سے قطعاً کسی کلام کو نہ سمجھ سکتے ہوں یا دل کے اندھوں کو راہِ حق دکھلا دیں جبکہ انہیں کچھ بھی نہ سوجھتا ہو۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اللہ ظلم نہیں کرتا لوگوں پر کچھ بھی، لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (۴۴)
تشریح:یعنی جن کے دل میں اثر نہیں ہوتا، یہ ان ہی کی تقصیر ہے ، خود اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے انہوں نے قوائے ادراکیہ کو تباہ کر لیا ہے ، ورنہ اصل فطرت سے ہر آدمی کو خدا نے سمجھنے اور قبول کرنے کی استعداد بخشی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جس دن وہ (یوم حشر) انہیں جمع کرے گا گویا وہ (دنیا میں) نہ رہے تھے ، مگر دن کی ایک گھڑی، آپس میں پہچانیں گے ، البتہ وہ خسارے میں رہے جنہوں نے جھٹلایا اللہ سے ملنے کو اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے۔ (۴۵)
تشریح: یعنی محشر کے ہولناک اہوال و حوادث کو دیکھ کر عمر بھر کا عیش و آرام اس قدر حقیر و قلیل نظر آئے گا گویا دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ ٹھہرے ہی نہ تھے اور افسوس کریں گے کہ ساری عمر کیسی فضول اور بیکار گزری، جیسے آدمی گھنٹہ دو گھنٹہ یوں ہی گپ شپ میں بیکار گزار دیتا ہے۔ نیز وہاں کی زہرہ گداز مصائب کو دیکھ کر خیال کریں گے کہ گویا دنیا میں کچھ مدت قیام ہی نہ ہوا جو یہ وقت آ لیا۔ گھڑی دو گھڑی ٹھہرے اور یہاں آپھنسے۔ کاش وہاں کی مدت قیام کچھ طویل ہوتی تو یہ دن اس قدر جلد نہ دیکھنا پڑتا۔ بعض مفسرین نے کہا کہ برزخ (قبر) میں ٹھہرنے کی مدت کو ایک گھڑی کے برابر سمجھیں گے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر ہم تجھے دکھا دیں جو ہم ان سے کر رہے ہیں یا ہم تمہیں (دنیا سے ) اٹھالیں، پس انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے ، پھر اللہ اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۴۶)
تشریح: یعنی ہم نے کفار کو عذاب دینے اور اسلام کو غالب و منصور کرنے کے جو وعدے کیے ہیں، خواہ ان میں سے بعض وعدے کسی حد تک آپ کی موجودگی میں پورے کر کے دکھلا دیے جائیں، جیسے ”بدر” وغیرہ میں دکھلا دیا۔ یا آپ کی وفات ہو جائے۔ اس لیے آپ کے سامنے ان میں سے بعض کا ظہور نہ ہو۔ بہرصورت یہ یقینی ہے کہ وہ سب پورے ہو کر رہیں گے۔ اگر کسی مصلحت سے دنیا میں ان کفار کو سزا نہ دی گئی تو آخرت میں ملے گی۔ ہم سے بچ کر کہاں بھاگ سکتے ہیں۔ سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے اور ان کے تمام اعمال ہمارے سامنے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہر ایک امت کے لئے ایک سول ہے ، پس جب ان کا رسول آ گیا ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ (۴۷)
تشریح: پہلے اس امت اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تھا۔ اب عام اقوام و امم کا ضابطہ بتلاتے ہیں کہ ہر جماعت اور فرقہ کے پاس خدا کے احکام پہنچانے والے بھیجے گئے ہیں جن کو ”رسول” کہیے۔ تاکہ خدا کی حجت تمام ہو، اتمام حجت سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیا جاتا۔ لوگ عمل پہلے سے کرتے ہیں۔ مگر دنیا میں ان کو سزا رسول پہنچنے اور حجت تمام کرنے کے بعد دی جاتی ہے۔ خدا کے یہاں یہ ظلم اور اندھیر نہیں کہ بدون پیشتر سے آگاہ کرنے اور ملزم ثابت ہونے کے مجرموں کو فیصلہ سنا دیا جائے۔ قیامت میں بھی باقاعدہ پیشی ہو گی، فرد جرم لگائیں گے ، گواہ پیش ہوں گے ، ہر قوم کے ساتھ ان کے پیغمبر موجود ہوں گے۔ ان کے بیانات وغیرہ کے بعد نہایت انصاف سے فیصلہ ہو گا۔ ”وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْءَ َ بِا لنَّبِیِّيْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَایُظْلَمُوْنَ۔ ” (الزمر، رکوع ٧، آیت:٦٩) مجاہد وغیرہ نے آیت کو قیامت کے احوال پر حمل کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہو گا؟اگر تم سچے ہو۔ (۴۸)
تشریح: یعنی عذاب آنے کی جو دھمکیاں دیتے ہو، محض جھوٹ اور بے اصل ہیں۔ اگر واقعی تم سچے ہو تو لے کیوں نہیں آتے۔ آخر یہ وعدہ کب پورا ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں میں اپنی جان کے لئے مالک نہیں ہوں کسی نقصان کا نہ نفع کا، مگر جو اللہ چاہے ، ہر ایک امت کے لئے ایک وقت مقرر ہے ، جب ان کا وقت آ جائے گا پس نہ وہ ایک گھڑی تاخیر کریں گے نہ جلدی کر سکیں گے۔ (۴۹)
تشریح: یعنی عذاب وغیرہ بھیجنا خدا کا کام ہے ، میرے قبضہ اور اختیار میں نہیں۔ میں خود اپنے نفع نقصان کا صرف اسی قدر مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔ پھر دوسروں پر کوئی بھلائی برائی وارد کرنے کا مستقل اختیار مجھے کہاں سے ہوتا۔ ہر قوم کی ایک مدت اور میعاد خدا کے علم میں مقرر ہے۔ جب میعاد پوری ہو کر اس کا وقت پہنچ جائے گا، ایک سیکنڈ کا تخلف نہ ہو سکے گا۔ غرض عذاب کے لیے جلدی مچانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ خدا کے علم میں جو وقت طے شدہ ہے اس سے ایک منٹ آگے پیچھے نہیں سرک سکتے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں بھلا تم دیکھو اگر تم پر اس کا عذاب آئے رات کو یا دن کے وقت تو وہ کیا ہے جس کی مجرم جلدی کر رہے ہیں؟ (۵۰)
تشریح: یعنی رات کو سوتے ہوئے یا دن میں جب تم دنیا کے دھندوں میں مشغول ہو، اگر اچانک خدا کا عذاب آ جائے تو مجرم جلدی کر کے کیا بچاؤ کر سکیں گے ؟ جب بچاؤ نہیں کر سکتے پھر وقت پوچھنے سے کیا فائدہ؟۔
(تفسیرعثمانی)
کیا پھر جب واقع ہو جائے گا (اس وقت) تم اس پر ایمان لاؤ گے ؟اب (مانتے ہو) البتہ تم اس کی جلدی مچاتے تھے۔ (۵۱)
تشریح: یعنی عذاب کے لیے جلدی کرنا اس بناء پر ہے کہ انہیں اس کے آنے کا یقین نہیں۔ اس وقت یقین ہوتا تو فائدہ ہو سکتا تھا کہ بچنے کی کوشش کرتے۔ عذاب آ چکنے کے بعد یقین آیا تو کیا فائدہ ہو گا۔ اس وقت خدا کی طرف سے کہہ دیا جائے گا کہ اچھا اب قائل ہوتے ہو، اور پہلے سے جھٹلاتے رہے۔ کیونکہ تقاضا کرنا بھی جھٹلانے اور مذاق اڑانے کی نیت سے تھا۔ اس وقت اقرار کرنے سے کچھ نفع نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ظالموں کو کہا جائے گا تم ہمیشگی کا عذاب چکھو، تمہیں وہی بدلہ دیا جاتا ہے جو تم کماتے تھے۔ (۵۲)
تشریح: جو کفر و شرک اور تکذیب کرتے رہے تھے ، اب ہمیشہ اس کا مزا چکھتے رہو۔ یہ قیامت میں کہا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم سے پوچھتے ہیں کیا وہ سچ ہے ؟آپ کہہ دیں ہاں! میرے رب کی قسم ! بیشک وہ ضرور سچ ہے اور تم عاجز کرنے والے نہیں۔ (۵۳)
تشریح: یعنی غفلت کے نشہ میں چور ہو کر تعجب سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ ہم موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور دائمی عذاب کا مزہ چکھیں گے ؟ کیا واقعی ریزہ ریزہ ہو کر اور خاک میں مل کر پھر ازسر نو ہم کو موجود کیا جائے گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجئے کہ تعجب کی کیا بات ہے ، یہ چیز تو یقیناً ہونے والی ہے۔ تمہارا مٹی میں مل جانا اور پارہ پارہ ہو جانا خدا کو اس سے عاجز نہیں کر سکتا کہ پہلے کی طرح تمہیں دوبارہ پیدا کر دے اور شرارتوں کا مزہ چکھائے۔ ممکن نہیں کہ اس کے قبضہ سے نکل بھاگو اور فرار ہو کر (معاذ اللہ) اسے عاجز کر سکو۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر (خواہ) ہر ظالم شخص کے لئے (وہ سب کچھ) ہو جو زمین میں ہیں (اور ) وہ اس کو فدیہ میں دیدے ، اور چپکے چپکے پشیمان ہوں گے ، جب وہ عذاب دیکھیں گے ، اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۵۴)
تشریح:یعنی اگر روئے زمین کے خزانے فرض کرو:ا سکے قبضہ میں ہوں تو کوشش کرے کہ یہ سب دے کر خدا کے عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے۔
دل میں اپنی حرکتوں پر پشیمان ہوں گے اور چاہیں گے لوگوں پر پشیمانی کا اظہار نہ ہو مگر کب تک۔ کچھ دیر آثار ندامت ظاہر نہ ہونے دیں گے۔ آخر بے اختیار ظاہر ہو کر رہیں گے۔ اس وقت کہیں گے۔ ”یَحَسْرَتٰی عَلٰی مَافَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ اور ياوَیْلَنَا قَدْ کُنّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا۔ ”
(تفسیرعثمانی)
یاد رکھو! اللہ کے لئے ہے جوآسمانوں اور زمین میں ہے ، یاد رکھو!بیشک اللہ کا وعدہ سچ ہے ، لیکن ان کے اکثر جانتے نہیں۔ (۵۵)
تشریح: یعنی سارے جہان میں حکومت صرف اللہ کی ہے۔ انصاف ہو کر رہے گا۔ کوئی مجرم نہ کہیں بھاگ سکتا ہے ، نہ رشوت دے کر چھوٹ سکتا ہے۔
سوء استعداد، بد فہمی اور غفلت سے اکثر لوگ ان حقائق کو نہیں سمجھتے۔ اسی لیے جو زبان پر آئے بک دیتے ہیں اور جو جی میں آئے کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہی زندگی دیتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۵۶)
تشریح: جِلانا اور مارنا جب اسی کا فعل ہے تو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اے لوگو!تحقیق تمہارے پاس آ گئی نصیحت تمہارے رب کی طرف سے ، اور شفا اس (روگ) کے لئے جو دلوں میں ہے اور مؤمنوں کے لئے ہدایت و رحمت۔ (۵۷)
تشریح: یہ سب صفات قرآن کریم کی ہیں۔ قرآن اول سے آخر تک نصیحت ہے جو لوگوں کو مہلک اور مضر باتوں سے روکتا ہے۔ دلوں کی بیماریوں کے لیے نسخہ شفا ہے۔ وصول الی اللہ اور رضائے خداوندی کا راستہ بتاتا ہے ، اور اپنے ماننے والوں کو دنیا و آخرت میں رحمت الٰہیہ کا مستحق ٹھہراتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں، اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے سواس کی خوشی منائیں یہ اس (سب) سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (۵۸)
تشریح:یعنی اصل چیز خدا کا فضل و رحمت ہے ، انسان کو اسی کی تلاش کرنی چاہیے مال و دولت، جاہ و حشم، سب اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس آیت میں دو چیزوں کو فرحت ومسرت کا سامان قرار دیا ہے ایک فضل دوسرے رحمت، ان دونوں سے مراد یہاں کیا ہے ؟اس بارے میں ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے فضل سے مراد قرآن ہے اور رحمت سے مراد یہ ہے کہ تم کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشی.
(روح المعانی از بن مردویہ) (معارف القرآن)
آپ کہہ دیں بھلا دیکھو جو اللہ نے تمہارے لئے رزق اتارا پھر تم نے اس میں سے کچھ حرام بنا لیا، اور کچھ حلال، آپ کہہ دیں کیا اللہ نے تمہیں حکم دیا؟یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو؟ (۵۹)
تشریح:یعنی قرآن جو نصیحت، شفاء اور ہدایت و رحمت بن کر آیا ہے و ہی استناد اور تمسک کرنے کے لائق ہے۔ احکام الٰہیہ کی معرفت اور حلال و حرام کی تمیز اسی سے ہو سکتی ہے۔ یہ کیا واہیات ہے کہ خدا نے تو تمہارے انتفاع کے لیے ہر قسم کی روزی پیدا کی۔ پھر تم نے محض اپنی آراء وا ہواء سے اس میں سے کسی چیز کو حلال، کسی کو حرام ٹھہرا لیا۔ بھلا تحلیل و تحریم کا تم کو کیا حق ہے ؟ کیا تم یہ کہنے کی جرأت کر سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے ایسا حکم دیا، یا یوں ہی خدا پر افتراء کر رہے ہو۔ اگلی آیت میں صاف اشارہ کر دیا کہ بجز افتراء علی اللہ کے اور کچھ نہیں۔ (تنبیہ) جن چیزوں کو حلال و حرام کیا تھا، ان کا مفصل تذکرہ ”مائدہ” اور ”انعام” میں گزر چکا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان لوگوں کا کیا خیال ہے ؟جو گھڑتے ہیں اللہ پر جھوٹ، قیامت کے دن (ان کا کیا حال ہو گا) بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے ، لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔ (۶۰)
تشریح: یعنی یہ لوگ روز قیامت کے متعلق کیا خیال کر رہے ہیں کہ کیا معاملہ ان کے ساتھ ہو گا سخت پکڑے جائیں گے ، یا سستے چھوٹ جائیں گے۔ عذاب بھگتنا پڑے گا یا نہیں۔ کن خیالات میں پڑے ہیں۔ یاد رکھیں جو دردناک سزا ملنے والی ہے وہ ٹل نہیں سکتی۔
خدا اپنے فضل سے دنیا میں بہت کچھ مہلت دیتا ہے۔ بہت سی تقصیرات سے درگزر کرتا ہے۔ لیکن بہت لوگ نرمی اور اغماض کو دیکھ کر بجائے شکر گذار ہونے کے اور زیادہ دلیر اور بے خوف ہو جاتے ہیں۔ آخر سزا دینی پڑتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم نہیں ہوتے کسی حال میں، اور نہ اس میں سے کچھ قرآن پڑھتے ہو، اور نہ کوئی عمل کرتے ہو، مگر ہم تم پر گواہ (باخبر) ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو اور نہیں تمہارے رب سے غائب ایک ذرہ برابر بھی زمین میں، اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا مگر روشن کتاب میں ہے۔ (۶۱)
تشریح; زمین و آسمان میں کہیں ایک ذرہ برابر یا اس سے چھوٹی بڑی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کے علم محیط سے غائب ہو۔ بلکہ علم الٰہی سے نیچے اتر کر تمام ”مَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ” کا حال ”کتاب مبین” (لوح محفوظ) میں ثبت ہے۔ جسے ”عالم تدبیر” میں ”صحیفہ علم الٰہی کہنا چاہیے۔ جب حق تعالیٰ پر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پوشیدہ نہیں تو ان مکذبین معاندین کے معاملات و احوال کیسے مخفی رہ سکتے ہیں، پھر روزِ جزاء کی کارروائی کے متعلق یہ کیا خیال کر رہے ہیں۔ وہ خوب سمجھ لیں کہ ان کی ہر چھوٹی بڑی حرکت خدا کے سامنے ہے وہاں کوئی خیانت اور چوری نہیں چل سکے گی۔ ہر عمل کی سزا مل کر رہے گی۔ اور جس طرح دشمنوں کے معاملات اس کے سامنے ہیں، ان کے بالمقابل دوستوں کا ذرہ ذرہ حال بھی اس کے علم میں ہے ، اگلی آیات میں ان کو بشارت سنائی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
یاد رکھو! بیشک (جو) اللہ کے دوست ہیں نہ کوئی خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۶۲)
تشریح: ابن کثیر نے روایات حدیثیہ کی بناء پر اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ”اولیاء اللہ” (خدا کے دوستوں) کو آخرت میں اہوال محشر کا کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ دنیا کے چھوٹ جانے پر غمگین ہوں گے۔ بعض مفسرین نے آیت کو کچھ عام رکھا ہے یعنی ان پر اندیشہ ناک حوادث کا وقوع نہ دنیا میں ہو گا نہ آخرت میں۔ اور نہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر وہ مغموم ہوتے ہیں گویا خوف سے خوف حق یا غم سے غمِ آخرت کی نفی مراد نہیں بلکہ دنیا میں دنیاوی خوف و غم کی نفی مراد ہے جس کا احتمال مخالفت اعداء وغیرہ سے ہو سکتا ہے ، وہ مومنین کاملین کو نہیں ہوتا۔ ہر وقت ان کا اعتماد اللہ پر ہوتا ہے اور تمام واقعات تکوینیہ کے خالی از حکمت نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس اعتماد و اعتقاد کے استحضار سے انہیں خوف و غم نہیں ستاتا۔ میرے نزدیک ”لَاخَوْفُ عَلَیْہِمْ” کا مطلب یہ لیا جائے کہ ”اولیاء اللہ” پر کوئی خوفناک چیز (ہلاکت یا معتدبہ نقصان) دنیا و آخرت میں واقع ہونے والی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ (خوف خدا اور پرہیز گاری) کرتے رہے۔ (۶۳)
تشریح: ”یہ اولیاء اللہ” کی تعریف فرمائی یعنی مومن متقی خدا کا ولی ہوتا ہے پہلے کئی مواقع میں معلوم ہو چکا ہے کہ ایمان و تقویٰ کے بہت سے مدارج ہیں۔ پس جس درجہ کا ایمان و تقویٰ کسی میں موجود ہو گا۔ اسی درجہ میں ولایت کا ایک حصہ اس کے لیے ثابت ہو گا۔ پھر جس طرح مثلاً دس بیس روپیہ بھی مال ہے اور پچاس، سو، ہزار دو ہزار، لاکھ دو لاکھ روپیہ بھی لیکن عرف عام میں دس بیس روپے کے مالک کو ”مالدار” نہیں کہا جاتا۔ جب تک معتدبہ مقدار مال و دولت موجود نہ ہو۔ اسی طرح سمجھ لیجئے کہ ایمان و تقویٰ کسی مرتبہ میں ہو، وہ ولایت کا شعبہ ہے اور اس حیثیت سے سب مومنین فی الجملہ ”ولی” کہلائے جا سکتے ہیں لیکن عرف میں ”ولی” اسی کو کہا جاتا ہے جس میں ایک خاص اور ممتاز درجہ ایمان و تقویٰ پایا جاتا ہو۔ احادیث میں کچھ علامات و آثار اس ولایت کے ذکر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ان کو دیکھنے سے خدا یاد آنے لگے یا مخلوق خدا سے ان کو بے لوث محبت ہو، عارفین نے اپنے اپنے مذاق کے موافق ”ولی” کی تعریفیں کی ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ان کیلئے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ (۶۴)
تشریح:اولیاء اللہ کے لیے دنیا میں کئی طرح کی بشارتیں ہیں مثلاً حق تعالیٰ نے انبیاء کی زبانی جو لَاخَوْفُ، عَلَیْہِمْ وغیرہ کی بشارت دی ہے ، یا فرشتے موت کے قریب ان کو کہتے ہیں اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حم السجدہ، رکوع٤، آیت:٣٠) یا کثرت سے سچے اور مبارک خواب انہیں نظر آتے ہیں، یا ان کی نسبت دوسرے بندگانِ خدا کو دکھائی دیتے ہیں جو حدیث صحیح کے موافق نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔ یا ان کے معاملات میں خدا کی طرف سے خاص قسم کی تائید و امداد ہوتی ہے ، یا خواص میں اور کبھی خواص سے گزر کر عوام میں بھی ان کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اور لوگ ان کی مدح و ثناء اور ذکر خیر کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں دنیاوی بشارت کے تحت میں درجہ بدرجہ آسکتی ہیں۔ مگر اکثر روایات میں لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کی تفسیر رویائے صالحہ سے کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔ رہی بشارت اخروی، وہ خود قرآن میں منصوص ہے۔ بُشْراکم الیوم جنات تجری من تحتھا الانھار اور حدیث میں بھی یہی تفسیر منقول ہے۔
یعنی اللہ کی باتیں اور اس کے وعدے سب پختہ اور اٹل ہیں۔ جو بشارتیں دی ہیں ضرور پہنچ کر رہیں گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان کی بات تمہیں غمگین نہ کرے ، بیشک تمام غلبہ اللہ کے لئے ہے ، وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۶۵)
تشریح: اوپر سے اعدائے مکذبین کا ذکر چلا آتا تھا۔ ان کے بالمقابل دوستوں کا تذکرہ فرمایا اور ان کو دارین میں محفوظ رہنے کی بشارت سنائی۔ اسی سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احمقوں اور شریروں کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں، غلبہ اور زور سب خدا کے لیے ہے وہ اپنے زور تائید سے حق کو غالب و منصور اور مخالفین کو ذلیل و رسوا کر کے چھوڑے گا وہ ان کی سب باتیں سنتا اور سب حالات جانتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یاد رکھو! بیشک جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے اللہ کے لئے ہے ، اور کسی کی پیروی (نہیں ) کرتے وہ لوگ جو اللہ کے سواشریکوں کو پکارتے ہیں، مگر (صرف) گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور وہ صرف اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ (۶۶)
تشریح: یعنی کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے ، سب جن و انس اور فرشتے اسی کے مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار بنانا، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی حقیقت ہے نہ حجت و برہان، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہی ہے جس نے بنائی تمہارے لئے رات کہ اس میں سکون حاصل کرو، اور دن روشن، بیشک اس میں سننے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۶۷)
تشریح: دن رات اور اندھیرے اجالے کا پیدا کرنے والا وہی ایک خدا ہے۔ اسی سے خیر و شر اور تمام متقابل اشیاء کی پیدائش کو سمجھ لو۔ اس میں ”مجوس” کے شرک کا رد ہو گیا۔ اور ادھر بھی لطیف اشارہ کر دیا کہ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد خدا روز روشن کو لاتا ہے اور دن کے اُجالے میں وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو شب کی ظلمت میں دکھائی نہ دیتی تھیں۔ ایسے ہی مشرکین کے اوہام و ظنون کی اندھیریوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے اس نے قرآن کریم کا آفتاب چمکایا جو لوگوں کو وصول الی اللہ کا ٹھیک راستہ دکھانے والا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ کہتے ہیں اللہ نے بنا لیا (اپنا) بیٹا وہ پاک ہے وہ بے نیاز ہے اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے تمہارے پاس نہیں ہے اس کے لئے کوئی دلیل کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جو تم جانتے نہیں؟۔ (۶۸)
تشریح: اس میں عیسائیوں کے شرک کا رد ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ واقعی طور پر مسیح کو خدا کا (معاذ اللہ) صلبی بیٹا سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر کیا گستاخی ہو گی۔ خداوند قدوس بالبداہت بیوی بچوں سے پاک ہے۔ اور اگر بیٹے سے مراد متبنی ہے تو خدا کو اس کی ضرورت کیا پیش آئی کہ ایک مخلوق کو متبنی بنائے۔ کیا معاذ اللہ اسے اولاد کی حسرت اور بیٹا نہ ہونے کا غم تھا؟ یا فکر تھی کہ اس کے بعد مال و دولت کا وارث اور اس کا نام روشن کرنے والا کون ہو گا؟ یا یہ کہ بڑھاپے اور حرج مرج میں کس سے سہارا ملے گا؟ (العیاذ باللہ) وہ تو سب سے بے نیاز ہے اور سب ہر وقت اس کے محتاج ہیں۔ اسے بیٹے پوتے یا متبنی وغیرہ کی احتیاج کہاں ہو سکتی ہے ؟ سب چیزیں اس کی مملوک و مخلوق ہیں۔ پھر مالک و مملوک اور خالق و مخلوق کے درمیان ان نسبتی رشتوں کی کہاں گنجائش ہے۔ یہ بڑی سخت بات ہے کہ خدا کی نسبت محض جہالت سے ایسی جھوٹی اور بے سند باتیں کہی جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں، بیشک وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں، فلاح (دو جہان کی کامیابی) نہیں پائیں گے۔ (۶۹)
دنیا میں کچھ فائدہ ہے پھر ان کو ہماری طرف لوٹنا ہے ، پھر ہم انہیں شدید عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے ، اس کے بدلے جو وہ کفر کرتے تھے۔ (۷۰)
تشریح: یعنی خدا پر جھوٹ باندھنے والے خواہ دنیا میں کیسی ہی طاقت رکھتے ہوں اور اپنے سازو سامان پر مغرور ہوں لیکن انہیں حقیقی بھلائی اور کامیابی ہرگز نصیب نہیں ہو سکتی۔ تھوڑے دن دنیا کے مزے اڑا لیں، انجام کار ان کا معاملہ خدا کی طرف رجوع ہو گا۔ جہاں سے اپنے جرائم کی پاداش میں نہایت سخت عذاب کا مزہ چکھیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہیں نوح کا قصہ پڑھ کر سنائیں، جب اس نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم !اگر تم پر گراں ہے میرا قیام اور میرا اللہ کی آیتوں سے نصیحت کرنا، تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، پس تم اور تمہارے شریک اپنا کام مقرر (پکا) کر لو (تاکہ) پھر تمہیں اپنے کام پر کوئی شبہ نہ رہے ، پھر میرے ساتھ کر گزرو، اور مجھے مہلت نہ دو۔ (۷۱)
تشریح: یعنی اہل مکہ کو نوح اور اس کی قوم کا حال سُناؤ۔ تاکہ معلوم ہو کہ مکذبین و مفترین کو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ان کی اچھل کود اور چمک دمک محض چند روزہ ہے جو انجام کار ہلاکت ابدی پر منتہی ہوتی ہے۔ اہل مکہ کو قوم نوح کا قصہ سن کر عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ اگر وہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب و عداوت اور اپنی شرکیات سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے جو نوح کی تکذیب کرنے والوں کا ہوا۔ نیز اس واقعہ کے بیان کرنے میں پیغمبر علیہ السلام کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان لوگوں کی دشمنی اور شرارت سے زیادہ دلگیر نہ ہوں۔ ہر نبی کو اس قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا پڑا ہے پھر آخر میں حق ہی غالب ہو کر رہا اور حق و صداقت کے دشمن تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ عام سامعین کو ان واقعات کے ایسے مفصل بیان سے یہ سبق ملتا ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم باوجود امی ہونے اور کسی مخلوق کے سامنے ایک منٹ کے لیے بھی زانوئے تلمذ تہ نہ کرنے کے پچھلی قوموں کے اس قدر صحیح اور پختہ احوال بیان فرماتے ہیں جو بظاہر بدون تعلیم اور طویل استفادہ کے ممکن نہیں، ناچار ماننا پڑے گا کہ آپ کا معلم کوئی انسان نہیں بلکہ سب انسانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ یہ تو آپ کی سچائی کی ایک دلیل ہو گی۔
تمہاری خوشی ناخوشی یا موافقت و مخالفت کی مجھے ذرہ برابر پروا نہیں تمام پیغمبروں کی طرح میرا بھروسہ صرف خدائے واحد پر ہے اگر تم میری نصیحت و فہمائش سے برا مانو تو مانا کرو۔ میں اپنے فرائض منصبی کے ادا کرنے میں قصور نہیں کر سکتا۔ تم برا مان کر مجھ سے دشمنی کرو اور نقصان پہنچانا چاہو تو یہ چیز میرے ارادوں پر قطعاً اثر ڈالنے والی نہیں۔ جو کچھ تمہارے امکان میں ہے شوق سے کر گزرو میرے خلاف مشورہ کر کے کوئی تجویز پختہ کر لو۔ اپنے رفقائے کار بلکہ فرضی معبودوں کو بھی جمع کر کے ایک غیر مشکوک اور غیر مشتبہ رائے پر قائم ہو جاؤ۔ پھر متفقہ طاقت سے اسے جاری کر ڈالو، ایک منٹ کی مہلت بھی مجھ کو نہ دو پھر دیکھ لو کہ پیغمبرانہ استقامت و توکل کا پہاڑ تمام دنیا کی طاقتوں اور تدبیروں کو کچل کر کس طرح پاش پاش کر ڈالتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر تم منہ پھیر لو، تومیں نے تم سے کوئی اجر نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رہوں فرمانبرداروں میں سے۔ (۷۲)
تشریح: یعنی تمہارے مقابلہ میں نہ جانی و بدنی تکالیف سے گھبراتا ہوں اور نہ مالی نقصان کی کوئی فکر ہے کیونکہ میں نے خدمت تبلیغ و دعوت کا کچھ معاوضہ تم سے کبھی طلب نہیں کیا جو یہ اندیشہ ہو کہ تمہاری ناخوشی سے میری تنخواہ بند ہو جائے گی یا کم از کم تم کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ میری ساری جدوجہد مال کی حرص اور روپیہ کے لالچ سے تھی۔ میں جس کا کام کر رہا اور حکم بجا لا رہا ہوں اسی کے ذمہ میری اجرت ہے جب میں اس کا فرمانبردار ہوں اور خدمت مفوضہ بے خوف و خطر انجام دیتا ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے فضل و رحمت کے دروازے مجھ پر نہ کھولے رکھے۔
(تفسیرعثمانی)
تو انہوں نے اسے (نوحؑ) جھٹلایا، سوہم نے بچا لیا اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے ، اور ہم نے انہیں جانشین بنایا، اور ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سودیکھو (ان لوگوں کو) انجام کیسا ہوا جنہیں ڈرایا گیا تھا۔ (۷۳)
تشریح: یعنی جس کے پاس چشم عبرت ہو وہ دیکھ لے کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ ان لوگوں کو سینکڑوں برس نوح علیہ السلام نے نصیحت کی، نفع و ضرر سے آگاہ کیا جب کوئی بات موثر نہ ہوئی بلکہ الٹا عناد و فرار بڑھتا گیا۔ اس وقت خدا نے سخت طوفان پانی کا بھیجا۔ سب مکذبین غرقاب کر دیئے گئے۔ صرف نوح علیہ السلام اور چند نفوس جو ان کے ساتھ کشتی پر سوار تھے محفوظ رہے۔ ان ہی سے آگے نسل چلی۔ اور ڈوبنے والوں کی جگہ یہی آباد ہوئے۔ نوح علیہ السلام کا کچھ قصہ سورۂ اعراف میں گزر چکا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے اس (نوحؑ) کے بعد کئی رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے ، وہ ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے ، سوان سے نہ ہوا کہ وہ ایمان لے آئیں اس (بات ) پر جسے وہ اس سے قبل جھٹلا چکے تھے ، اسی طرح ہم حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر مہر لگاتے ہیں۔ (۷۴)
تشریح: یعنی نوح کے بعد ہود صالح لوط ابراہیم شعیب وغیرہ انبیاء علیہم السلام کو اپنی اپنی قوم کی طرف کھلے ہوئے نشانات دے کر بھیجا، لیکن جس جہالت اور کفر کی حالت میں وہ لوگ اپنے اپنے پیغمبر کی بعثت سے پہلے تھے اور جن چیزوں کو پیشتر سے جھٹلاتے چلے آرہے تھے ، یہ توفیق نہ ہوئی کہ انبیاء کے تشریف لانے اور سمجھانے کے بعد ان کو مان لیتے۔ بلکہ جن اصول صحیحہ کی تکذیب پہلے قوم نوح کر چکی تھی، ان سبھوں نے بھی ان کے ماننے سے انکار کر دیا۔ اور جب پہلی مرتبہ منہ سے ”نہ” نکل گئی، ممکن نہ تھا کہ پھر کبھی ”ہاں” نکل سکے ، اسی بے ایمانی اور تکذیب حق پر آخر تک اڑے رہے۔
جو لوگ تکذیب و عداوتِ حق میں حد سے نکل جاتے ہیں ان کے دلوں میں مہر لگنے کی یہی صورت ہوتی ہے کہ اول تکذیب کرتے ہیں، پھر اس پر ضد اور اصرار کرتے محض دشمنی اور عناد کی روش اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کے دل کی کلیں بگڑ جاتی ہیں اور قبول حق کی استعداد باقی نہیں رہتی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے بھیجا ان کے بعد موسی اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں (درباریوں) کی طرف، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے۔ (۷۵)
تشریح: یعنی جرائم پیشہ لوگ تھے۔ نافرمانی کی خو قبولِ حق کی اجازت کہاں دیتی۔ تکبر مانع ہوا کہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کے سفراء کے سامنے گردن جھکائیں۔
(تفسیرعثمانی)
تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچا تووہ کہنے لگے ، بیشک یہ البتہ کھلا جادو ہے۔ (۷۶)
تشریح:یعنی ”عصا” اور ”ید بیضا” وغیرہ کے معجزات دیکھ کر اور موسٰی علیہ السلام کی نہایت پر تاثیر باتیں سن کر کہنے لگے کہ یہ سب کھلا ہوا جادو ہے کیونکہ ان کے خیال میں تمام فوق العادت چیزوں کا آخری درجہ ”جادو” ہی ہو سکتا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
موسیؑ نے کہا کیا تم حق کی نسبت (ایسا) کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آ گیا، کیا یہ جادو ہے ؟اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتے (۷۷)
تشریح:یعنی حق کو جادو کہتے ہو، کیا جادو ایسا ہوتا ہے ؟ اور کیا جادو کرنے والے نبوت کا دعویٰ کر کے حق و باطل کی کشمکش سے کامیاب نکل سکتے ہیں۔ سحر اور معجزہ میں تمیز نہ کر سکنا ان کوتاہ فہموں کا کام ہے جو سونے اور پیتل میں تمیز نہ کر سکیں۔ پیغمبر کے روشن چہرے ، پاکیزہ اخلاق، نورِ تقویٰ، پر شوکت و عظمت احوال میں بدیہی شہادت اس کی موجود ہوتی ہے کہ جادوگری اور شعبدہ بازی سے انہیں کوئی دور کی نسبت بھی نہیں۔ پھر پیغمبر کو ”ساحر” کہنا کس درجہ بے حیائی یا دیوانگی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے کیا تو ہمارے پاس (اس لئے ) آیا ہے کہ ہمیں اس سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، اور ہو جائے تم دونوں کیلئے زمین میں بڑائی (سرداری مل جائے ) اور ہم تم دونوں کے ماننے والوں میں سے نہیں۔ (۷۸)
تشریح: یعنی معاذ اللہ تم دنیا کے حریص اور بدنیت ہو، ایک سیاسی تحریک کو مذہبی رنگ میں پیش کرتے ہو۔ تمہاری غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ مذہبی حیثیت سے ایک انقلاب عظیم برپا کر کے اس ملک میں اپنی حکومت اور سرداری جماؤ۔ اور یہاں کے قدیم سرداروں (قبطیوں) کو برطرف کر دو۔ سو یاد رہے کہ یہ خواہش پوری ہونے والی نہیں۔ ہم لوگ ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے نہ تمہاری بزرگی کبھی تسلیم کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور فرعون نے کہا میرے پاس ہر علم والا جادوگر لے آؤ۔ (۷۹)
تشریح:یہ موسٰی علیہ السلام کی تقریر کا جواب تھا۔ یعنی رہا سحر اور معجزہ کا جھگڑا، اس کا ہم عملاً تصفیہ کیے دیتے ہیں کہ اس ملک کے بڑے بڑے ماہر جادوگر اکٹھے کیے جائیں، پھر آپ ان کے خوارق کے مقابل اپنے معجزات دکھلائیں، دنیا مشاہدہ کر لے گی کہ تم پیغمبر ہو یا (معاذ اللہ) جادوگر ہو۔ اس کے لیے فرعون نے تمام ملک میں گشتی جاری کر دی اور آدمی بھیج دیے کہ مشّاق اور ماہر جادوگر جہاں کہیں ہوں فوراً حاضر کیے جائیں۔ اس کا مفصل واقعہ سورہ ”اعراف” میں گزر چکا، وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب جادوگر آ گئے توموسی نے کہا تم ڈالو، جو ڈالنے والے ہو۔ (۸۰)
تشریح: دوسری جگہ مذکور ہے کہ ساحرین نے موسٰی علیہ السلام سے دریافت کیا تھا کہ اپنا کرتب دکھلانے میں تم پہل کرتے ہو یا ہم کریں اس کے جواب میں موسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ جو تم کو دکھلانا ہے دکھلاؤ کیونکہ باطل کی پوری زور آزمائی اور نمائش کے بعد حق کا آنا اور باطل کو نیچا دکھا کر ملیامیٹ کر دینا زیادہ موثر اور غلبہ حق کو زیادہ واضح کرنے والا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر انہوں نے ڈالا توموسی نہ کہا تم جو لائے ہو جادو ہے ، بیشک اللہ ابھی اسے باطل کر دے گا، بیشک اللہ فساد کرنے والوں کے کام درست نہیں کرتا۔ (۸۱)
اور حق کو اللہ اپنے حکم سے حق (ثابت) کر دے گا، خواہ گنہگار نا پسند کریں۔ (۸۲)
تشریح: ساحرین نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں اور تخیل و نظر بندی سے دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہونے لگا گویا تمام میدان زندہ سانپوں سے بھرا ہوا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جادو” یہ ہے وہ جادو نہ تھا جسے فرعون اور اس کے خوشامدیوں نے جادو کہا تھا۔
بس تم اپنی قوت صرف کر چکے ، اب سنبھل جانا کہ خدا اپنی قدرت و رحمت سے یہ سب بنا بنایا کھیل بگاڑتا ہے جو میرے مقابلہ میں پھر کبھی نہیں سنور سکے گا۔ کیونکہ خدا کی عادت و حکمت کے خلاف ہے کہ مصلح و مفسد کے مقابلہ کے وقت جبکہ اس سے مقصود خالص اتمام حجت ہو مفسدوں اور شریروں کی بات سنوار دے اور کلمہ حق کو پست و مغلوب کر دے۔
(تفسیرعثمانی)
سوموسی پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم کے چند لڑکے خوف کی وجہ سے فرعون اور ا سکے سرداروں کے ، کہ وہ انہیں آفت میں نہ ڈال دے ، اور بیشک فرعون زمین (ملک) میں سرکش تھا، اور بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔ (۸۳)
تشریح: ”بنی اسرائیل” فرعونیوں کے ہاتھوں سخت مصیبت اور ذلت اٹھا رہے تھے اور پرانی پیشین گوئیوں کے مطابق منتظر تھے کہ فرعون کے مظالم کا خاتمہ کرنے اور اس کی سلطنت کا تختہ الٹنے والا ”اسرائیلی” پیغمبر مبعوث ہو۔ موسٰی علیہ السلام ٹھیک اسی شان سے تشریف لائے جس کا انہیں انتظار تھا۔ اس لیے تمام ”بنی اسرائیل” قدرتی طور پر موسٰی علیہ السلام کی بعثت کو نعمت عظمیٰ سمجھتے تھے ، وہ دل سے حضرت موسٰی کو سچا جانتے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ مگر اکثر آدمی فرعونی سرداروں سے خوفزدہ تھے ، اسی لیے ابتداء میں شرعی طور پر ایمان نہیں لائے وقت کے منتظر رہے کہ جس وقت حق کا غلبہ ہو گا مسلمان ہو جائیں گے۔ بنی اسرائیل کے تھوڑے سے نوجوانوں نے ہمت کر کے باوجود فرعونیوں سے خائف ہونے کے اپنے اسلام کا اظہار و اعلان کر دیا۔ چند گنے چنے قبطی بھی جو فرعون کی قوم سے تھے۔ مشرف بایمان ہوئے۔ اخیر میں جب موسٰی علیہ السلام کا اثر اور حق کا غلغلہ بڑھتا گیا، تب پوری قوم بنی اسرائیل کی جو تقریباً چھ لاکھ بالغ مردوں پر مشتمل تھی مسلمان ہو گئی۔ یہاں ابتداء کا قصہ بیان ہوا ہے۔
ان کا خوف کھانا بھی کچھ بیجا نہ تھا، کیونکہ اس وقت ملک میں فرعون کی مادی طاقت بہت بڑھ چڑھ کر تھی اور اس کا ظلم و عدوان اور کفر طغیان حد سے متجاوز ہو چکا تھا۔ کمزوروں کو ستانے کے لیے اس نے بالکل ہاتھ چھوڑ رکھا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور موسی نے کہا اے میری قوم!اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تواسی پر بھروسہ کرو اگر تم فرمانبردار ہو۔ (۸۴)
تشریح:یعنی گھبرانے اور خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک فرمان بردار مومن کا کام اپنے مالک کی طاقت پر بھروسہ کرنا ہے جسے خدا کی لامحدود قدرت و رحمت پر یقین ہو گا، وہ یقینا ہر معاملہ میں خدا پر اعتماد کرے گا اور اس اعتماد کا اظہار جب ہی ہو سکتا ہے کہ بندہ اپنے کو بالکلیہ خدا کے سپرد کر دے ، اسی کے حکم پر چلے اور تمام جدوجہد میں صرف اسی پر نظر رکھے۔
(تفسیرعثمانی)
تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب!ہمیں نہ بنا ظالموں کی قوم کا تختۂ مشق۔ (۸۵)
اور ہمیں اپنی رحمت سے کافروں کی قوم سے چھڑا دے۔ (۸۶)
تشریح:موسٰی علیہ السلام کی نصیحت پر انہوں نے اخلاص کا اظہار کیا کہ بیشک ہمارا بھروسہ خالص خدا پر ہے۔ اسی سے دعا کرتے ہیں کہ ہم کو ان ظالموں کا تختہ مشق نہ بنائے اس طرح کہ یہ ہم پر اپنے زور و طاقت سے ظلم ڈھاتے رہیں اور ہم ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ ایسی صورت میں ہمارا دین بھی خطرہ میں ہے۔ اور ان ظالموں یا دوسرے دیکھنے والوں کو یہ ڈینگ مارنے کا موقع ملے گا کہ اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم پر ایسا تسلط و تفوق کیوں حاصل ہوتا اور تم اس قدر پست و ذلیل کیوں ہوتے۔ یہ خیال ان گمراہوں کو اور زیادہ گمراہ کر دے گا۔ گویا ایک حیثیت سے ہمارا وجود ان کے لیے فتنہ بن جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے موسی اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ اور بناؤ اپنے گھر قبلہ رو (نماز کی جگہ) اور نماز قائم کرو اور مؤمنوں کو خوشخبری دو۔ (۸۷)
تشریح:حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جب فرعون کی ہلاکت کا وقت قریب آیا تو حکم ہوا کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو ان میں شامل نہ رکھو اپنا محلہ جُدا بساؤ کہ آگے ان پر آفتیں آنے والی ہیں۔ اس وقت تمہاری قوم ظاہری طور پر بھی آفتوں سے الگ تھلگ رہے۔ مفسرین نے ”تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا” سے مراد یہ لی ہے کہ اپنے مکانوں میں ٹھہرے رہو اور ان میں سے بعض کو عبادت کے لیے مخصوص کر لو۔
فرعون نے مسجدیں اور عبادت گاہیں خراب کر دی تھیں کوئی باہر نکل کر خدا کی عبادت نہ کر سکتا تھا۔ بحالت مجبوری حکم ہوا کہ مکان میں کوئی جگہ نماز کے لیے رکھو جو قبلہ رو ہو۔ نماز ترک مت کرو کہ اسی کی برکت سے خدا کی مدد آتی ہے۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَ الصَّلٰوۃِ ہجرت سے پہلے مکہ میں ایسا ہی حال مسلمانوں کا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور موسی نے کہا اے ہمارے رب!بیشک تو نے فرعون اور اس کے لشکر کو دنیا کی زندگی میں زینت اور بہت سے مال دئے ہیں، اے ہمارے رب!کہ وہ تیرے راستہ سے گمراہ کریں، اے ہمارے رب! ان کے مال مٹا دے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ وہ ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ (۸۸)
تشریح: یعنی ہر قسم کا سامان رونق و آسائش کا دیا۔ مثلاً حسن صورت، سواری، عمدہ پوشاک، اثاث البیت وغیرہ اور مال و دولت کے خزانے ، سونے چاندی وغیرہ کی کانیں عطا فرمائیں۔
(تفسیرعثمانی)
حضرت موسی علیہ السلام کو تبلیغ کرتے ہوئے مدت گزر چکی تھی جس کے بعد نہ صرف وہ مایوس ہو چکے تھے بلکہ فرعون نے جو مظالم ڈھائے تھے وہ اتنے انسانیت سوز تھے کہ کوئی انصاف پسند انسان اس کی سزا کے بغیر چھوڑ دینا پسند نہیں کر سکتا تھا، نیز شاید ان کو وحی سے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ فرعون کی قسمت میں ایمان نہیں ہے اس لئے انہوں نے آخر میں یہ بددعا فرمائی۔
(توضیح القرآن)
اس نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہو چکی ہے سوتم دونوں ثابت قدم رہو، اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جو نا واقف ہیں۔ (۸۹)
تشریح: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام دعا کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے ”دعوتکما” فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو پار کر دیا دریا سے ، پس فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ اس کو غرقابی نے آ پکڑا وہ کہنے لگا میں ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں ہوں فرمانبردار۔ (۹۰)
کیا اب؟ (ایمان کی بات کرتا ہے ) اور البتہ پہلے تو نا فرمانی کرتا رہا اور توفساد کرنے والوں میں سے رہا۔ (۹۱)
تشریح: موسٰی علیہ السلام کئی لاکھ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے ، فرعون کو خبر ہوئی تو ایک لشکر جرار لے کر تعاقب کیا۔ تاکہ اس کے پنجہ ظلم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ بنی اسرائیل جب بحر قلزم کے کنارے پہنچے تو سخت پریشان ہوئے ، آگے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر دباتا چلا آرہا تھا۔ موسٰی علیہ السلام نے تسلی دی اور حق تعالیٰ کے حکم سے لاٹھی دریا پر ماری۔ سمندر کا پانی ادھر ادھر کھڑا ہو گیا اور درمیان میں خدا نے بارہ راستے خشک بنا دیئے۔ یہ پار ہوئے ، ادھر فرعون لشکر سمیت سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔ خشک راستے دیکھ کر سب نے اسی میں گھوڑے ڈال دیے جب ایک ایک کر کے تمام فوج دریا کے وسط میں پہنچی، پانی کو حکم ہوا کہ مل جائے فوراً پانی کے طبقات مل گئے ، سب لشکر اور سامان موجوں کی نذر ہو گیا۔
فرعون نے دیکھا کہ اب ڈوبتا ہوں اس وقت گھبرا کر ایمان و اسلام کا لفظ زبان پر لایا کہ شاید بنی اسرائیل کا خدا ”ایمان” کا لفظ سن کر دریا کی موجوں سے باہر نکال دے۔ اس پر خدا کی طرف سے ارشاد ہوا: آٰلْئٰنَ وَقَدْعَصَیْتَ قَبْلُ الخ یعنی ساری عمر مخالف ہو کر گمراہی پھیلاتا اور شرارتیں کرتا رہا۔ اب عذاب دیکھ کر یقین لایا اس وقت کا یقین کیا معتبر ہے۔ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّارَاَ وْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْخَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُوْنَ.
(المومن، رکوع٩، آیت:٨٥) (تفسیرعثمانی)
سوآج ہم تجھے تیرے بدن سے بچا دیں گے (غرق نہیں کریں گے ) تاکہ تو (تیری لاش) ان کے لئے جو تیرے بعد آئیں (عبرت کی) ایک نشانی رہے ، اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ (۹۲)
تشریح:قانون قدرت یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کا عذاب سر پر آ کر آنکھوں سے نظر آنے لگے یا جب کسی پر نزع کی حا لت طاری ہو جائے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ، اور اس وقت کا ایمان معتبر نہیں ہوتا، اس لئے اب فرعون کے عذاب سے نجات پانے کی تو کوئی صورت نہیں تھی لیکن اللہ تعالی نے فرعون کی لاش کو محفوظ ر کھا وہ لاش سمندر کی تہہ میں جانے کے بجائے پانی کی سطح پر تیرتی رہی تاکہ سب دیکھنے والے اسے دیکھ سکیں، اتنی بات تواس آیت سے واضح ہے ، اب آخری زمانے کے مؤرخین نے یہ تحقیق کی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا اس کا نام منفتاح تھا اور اس کی لاش صحیح سلامت دریافت ہو گئی ہے ، اب تک یہ لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے اور سامان عبرت بنی ہوئی ہے ، اگر یہ تحقیق درست ہے تو یہ آیت کریمہ قرآن کریم کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، کیونکہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب لوگوں کو یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ فرعون کی لاش اب بھی محفوظ ہے ، سائنسی طور پر انکشاف بہت بعد میں ہوا۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو اچھا ٹھکانہ دیا، اور ہم نے انہیں رزق دیا پاکیزہ چیزوں سے ، سوانہوں نے اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم (قرآن) آ گیا، بیشک تمہارا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا روز قیامت جس (بات) میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۹۳)
تشریح:یعنی بنی اسرائیل کا عقیدہ ایک مدت تک دین حق کے مطابق ہی رہا، تورات اور انجیل میں آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی جو خبر دی گئی تھی، اس کے مطابق وہ یہ بھی مانتے تھے کہ آخر میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لانے والے ہیں، لیکن جب آسمانی کتابوں میں مذکور نشانیوں کے ذریعے یہ علم آ گیا کہ وہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تواس وقت انہوں نے دین حق سے اختلاف شروع کر دیا۔
(توضیح القرآن)
پس اگر تو اس (کے بارہ) میں شک میں ہے جو ہم نے اتارا تیری طرف، تو ان لوگوں سے پوچھ جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، تحقیق تیرے پاس حق آ گیا ہے تیرے رب کی طرف سے ، پس شک کرنے والوں سے نہ ہونا۔ (۹۴)
تشریح:اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ کو قرآن کریم کی سچائی میں کوئی شک ہوہی نہیں سکتا اس لئے درحقیقت سنانا دوسروں کو مقصود ہے ، جب آپ کو یہ انتباہ کیا جا رہا ہے تو دوسروں کو تو اور زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔
(توضیح القرآن)
اور نہ ان لوگوں سے ہونا جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی آیتوں کو، پھر خسارہ پانے والوں سے ہو جائے۔ (۹۵)
بیشک جن لوگوں پر تیرے رب کی بات ثابت ہو گئی وہ ایمان نہ لائیں گے۔ (۹۶)
خواہ ان کے پاس ہر نشانی آ جائے ، یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ (۹۷)
تشریح:اگر تم کو قرآن کے بیان کردہ واقعات میں شک و شبہ پیدا ہو تو اس کا فوراً علاج کرو۔ یعنی جو لوگ کتب سابقہ کا علم رکھتے ہیں، ان سے تحقیق کر لو۔ آخر ان میں کچھ آدمی سچے اور انصاف پسند بھی ہیں۔ وہ بتائیں گے کہ نبی امی نے جو کچھ بیان فرمایا کہاں تک درست ہے۔ بلاشبہ جو کچھ آپ لائے وہ سچ کے سوا کچھ نہیں، وہ پروردگار کا اتارا ہوا ہے جس میں شک و تردد کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اگر بیہودہ شکوک کا علاج نہ کیا جائے تو چند روز میں شک ترقی کر کے امتراء (جدل) اور ”امتراء” ترقی کر کے تکذیب کی حد تک جا پہنچے گا جس کا نتیجہ خسران و خرابی کے سوا کچھ نہیں۔ تکذیب کے بعد ایک اور درجہ ہے۔ جہاں پہنچ کر دل پر مہر لگ جاتی ہے تکذیب کرتے کرتے قبول حق کی استعداد بھی برباد ہو جاتی ہے۔ ایسا شخص اگر دنیا جہان کے سارے نشان دیکھ لے تب بھی ایمان نہ لائے۔ اسے عذاب الیم دیکھ کر ہی یقین آئے گا۔ جبکہ اس یقین سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
پس کیوں نہ ہوئی کوئی بستی کہ وہ ایمان لاتی تواس کا ایمان نفع دیتا مگر یونس کی قوم (کہ وہ ایمان لے آئی) جب وہ ایمان لائے توہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب اٹھا لیا، اور انہیں ایک مدت تک نفع پہنچایا۔ (۹۸)
تشریح: یعنی جتنی بستیاں تکذیب انبیاء اور شرارتوں کی وجہ سے مستوجب عذاب ٹھہریں، ان میں سے کسی کو اس طرح ایمان لانے کی نوبت نہ آئی جو عذاب الٰہی سے نجات دیتا۔ صرف یونس علیہ السلام کی قوم کی ایک مثال ہے جس نے ایمان لا کر اپنے کو آسمانی عذاب سے بال بال بچا لیا جو بالکل ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ خدا نے ایمان کی بدولت دنیاوی زندگی میں ان پر سے آنے والی بلا ٹال دی اور جس وقت تک انھیں دنیا میں رہنا تھا یہاں کے فوائد و برکات سے منتفع کیا۔ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام سرزمین موصل میں اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے وہاں کے لوگ بت پرست تھے۔ یونس علیہ السلام لگاتار سات سال تک پندو نصیحت کرتے رہے انہوں نے ایک نہ سنی یوماً فیوماً انکار و تکذیب بڑھتا رہا۔ آخر حضرت یونس نے تنگ آ کر ان کو آگاہ کیا کہ (باز نہ آئے تو) تین دن کے اندر عذاب آنے والا ہے۔ جب تیسری شب آئی یونس علیہ السلام آدھی رات گزرنے پر بستی سے نکل کھڑے ہوئے ، صبح ہوتے ہی آثار عذاب کے نظر آنے لگے آسمان پر نہایت ہولناک اور سیاہ بادل چھا گیاجس سے دھواں نکلتا تھا۔ وہ ان کے مکانوں سے قریب ہوتا جاتا تھا حتیٰ کہ ان کی چھتیں بالکل تاریک ہو گئیں۔ یہ آثار دیکھ کر جب انہیں ہلاکت کا یقین ہو گیا تو یونس کی تلاش ہوئی وہ نہ ملے تو سب لوگ عورتوں بچوں سمیت بلکہ مواشی اور جانوروں کو بھی ساتھ لے کر جنگل میں نکل آئے اور سچے دل سے خدا کی طرف رجوع ہوئے۔ خوف سے چیخیں مارتے تھے اور بڑے اخلاص و تضرع سے خدا کو پکار رہے تھے۔ چاروں طرف آہ و بکاء کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور کہتے جاتے تھے کہ ”أمنا بما جاءَ بہ یونس” جو کچھ یونس علیہ السلام لائے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کے تضرع و بکاء پر رحم فرمایا اور آثار عذاب جو پیدا ہو چکے تھے اٹھا لیے گئے۔ یہاں پہنچ کر علمائے سلف کے دو قول ہیں۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ ابھی اصلی عذاب کا معائنہ ان کو نہ ہوا تھا۔ صرف علامات و آثار نظر آئے تھے۔ ایسے وقت کا ایمان شرعاً معتبر اور نافع ہے۔ ”ایمان بأس” جو معتبر و مقبول نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ عین عذاب کو دیکھ کر اور اس میں پھنس کر ایمان لائے جیسے فرعون نے سمندر کی موجوں میں پھنس کر اقرار کیا تھا۔ بعض علماء کے نزدیک قوم یونس کا ایمان بھی فرعون کی طرح ”ایمان بأس” تھا جو عام ضابطہ کے موافق نافع نہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خلاف قاعدہ بطور استثناء اس قوم کا یہ ایمان معتبر رکھا۔ فرعون کے ایمان کی طرح رد نہیں فرمایا۔ پھر اختلاف ہو ا ہے کہ آیا ان کے ایمان کا معتبر ہونا صرف دنیاوی زندگی تک محدود تھا کہ دنیا میں آنے والا عذاب ٹل گیا۔ یا آخرت میں بھی موجب نجات ہو گا۔ ”ابن کثیر” نے دوسرے احتمال کو ترجیح دی ہے یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ مفید و معتبر ہو گا۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب نے نہایت لطیف و دقیق طرز میں آیت کی تفسیر کی ہے۔ یعنی دنیا میں عذاب دیکھ کر یقین لانا کسی کو کام نہیں آیا، مگر قوم یونس کو، اس واسطے کہ ان پر حکم عذاب کا نہ پہنچا تھا۔ حضرت یونس کی شتابی سے محض صورت عذاب کی نمودار ہوئی تھی (تاکہ ان کی نظر میں حضرت یونس کی بات جھوٹی نہ ہو) وہ ایمان لائے پھر بچ گئے اور صورت عذاب ہٹا لی گئی۔ اسی طرح مشرکین مکہ کہ فتح مکہ میں فوج اسلام ان پر پہنچی قتل و غارت کے لیے۔ لیکن ان کا ایمان قبول ہو گیا اور امان ملی۔ ‘ حضرت یونس کے قصہ کا بقیہ ” سورۃالصَّآفَّات ”وغیرہ میں آئے گا۔
اور اگر چاہتا تیرا رب البتہ جو زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے ، پس کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا، یہاں تک کہ وہ مؤمن ہو جائیں۔ (۹۹)
تشریح: یعنی آپ کو یہ قدرت نہیں کہ زبردستی کسی کے دل میں ایمان اُتار دیں۔ خدا چاہتا تو بیشک سب آدمیوں کے دلوں میں ایمان ڈال سکتا تھا۔ مگر جیسا کہ پہلے متعدد مواضع میں تقریر کی جا چکی ہے ، ایسا کرنا اس کی تکوینی حکمت و مصلحت کے خلاف تھا، اس لیے نہیں کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور کسی شخص کے لئے (اپنے اختیار میں) نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر ایمان لے آئے اور وہ ڈالتا ہے (کفر کی) کی گندگی ان لوگوں پر جو عقل نہیں رکھتے۔ (۱۰۰)
تشریح: خدا کی مشیت و توفیق اور حکم تکوینی کے بدون کوئی ایمان نہیں لا سکتا۔ اور یہ حکم و توفیق ان ہی کے حق میں ہوتی ہے جو خدا کے نشانات میں غور کریں اور عقل و فہم سے کام لیں۔ جو لوگ سوچنے سمجھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے انہیں خدا تعالیٰ کفر و شرک کی گندگی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں دیکھو کیا کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور نشانیاں اور ڈرانے والے (رسول) ان لوگوں کو فائدہ نہیں دیتے جو نہیں مانتے۔ (۱۰۱)
تشریح:یعنی سوچنے اور غور کرنے والوں کے لیے آسمان و زمین میں خدا کی قدرت و حکمت اور توحید و تفرید کے کیا کچھ نشان موجود ہیں۔ بلکہ ذرہ ذرہ اور پتہ پتہ اس کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن جو کسی بات کو ماننا اور تسلیم کرنا نہیں چاہتے ان کے لیے یہ سب نشانات و دلائل بیکار ہیں اور ڈرانے والے پیغمبروں کی تنبیہ و تخویف بھی غیر موثر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
تو کیا وہ انتظار کر رہے ہیں مگر انہیں لوگوں جیسے واقعات کا جو ان سے پہلے گزر چکے ، آپ کہہ دیں پس تم انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔ (۱۰۲)
تشریح: ایسی ضدی اور معاند قوم کے لیے جو کسی دلیل اور نشان کو نہ مانے ، اور کچھ باقی نہیں بجز اس کے کہ گذشتہ مکذبین پر جو آفات و حوادث نازل ہوئے ہیں، ان کا یہ بھی انتظار کریں۔ سو بہتر ہے تم اور ہم دونوں مل کر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ صادق و کاذب کا آخری فیصلہ سامنے آ جائے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم بچا لیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور اسی طرح ان کو جو ایمان لائے پم پر حق (ذمہ) ہم بچالیں گے مؤمنوں کو۔ (۱۰۳)
تشریح: یعنی جیسے پہلی قوموں کے ساتھ ہماری عادت رہی ہے کہ مکذبین کو ہلاک کر کے پیغمبروں اور مؤمنین کو بچایا۔ اسی طرح موجودہ اور آئندہ مومنین کی نسبت ہمارا وعدہ ہے کہ ان کو نجات دیں گے آخرت میں عذاب الیم سے اور دنیا میں کفار کے مظالم اور سختیوں سے ، ہاں شرط یہ ہے کہ مؤمنین مؤمنین ہوں۔ یعنی وہ صفات و خصال رکھتے ہوں جو قرآن و حدیث میں مؤمنین کی بیان ہوئی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں، اے لوگو!اگر تم میرے دین (کے متعلق) کسی شک میں ہو تو میں عبادت نہیں کرتا ان کی جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، لیکن میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں (دنیا سے ) اٹھا لیتا ہے ، اور مجھے حکم دیا گیا کہ مؤمنوں میں سے رہوں۔ (۱۰۴)
اور یہ کہ اپنا منہ سب سے موڑ کر دین کے لئے سیدھا رکھ، اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔ (۱۰۵)
اور اللہ کے سوا اسے نہ پکار جو نہ تجھے نفع دے ، اور نہ نقصان پہنچا سکے ، پھر اگر تو نے (ایسا ) کیا تواس وقت تو بیشک ظالموں میں سے ہو گا۔ (۱۰۶)
تشریح: یعنی اگر میرا طریقہ اور مسلک دینی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے اس کی نسبت شکوک و شبہات میں پھنسے ہوئے ہو، تو میں تمہیں اپنے دین کا اصل اصول (جو توحید خالص ہے ) سمجھائے دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں تمہارے ان فرضی معبودوں کی عبادت سے سخت نفور اور بیزار ہوں جس کے اختیار کرنے کا امکان بھی کبھی میری طرف سے دل میں نہ لانا۔ میری عبادت خالص اس خداوند قدوس کے لیے ہے جس کے قبضہ میں تمہاری سب کی جانیں ہیں کہ جب تک چاہے انہیں جسموں میں چھوڑے رکھے اور جب چاہے ایک دم میں کھینچ لے گویا موت و حیات کا رشتہ جس کے ہاتھ میں ہے بندگی اسی کی ہو سکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ جوارح سے اس کی بندگی کی جائے ، ضروری ہے کہ دل میں اس کی توحید و تفرید پر پورا یقین و ایمان ہو اور ظاہر و باطن میں اسی دین حنیف پر جو ابراہیم خلیل اللہ کا دین ہے پوری ہمت اور توجہ سے مستقیم رہ کر شرک جلی و خفی کا تسمہ نہ لگا رہنے دیا جائے۔ جس طرح عبادت صرف اسی کی کریں، استعانت کے لیے بھی اسی کو پکاریں، کیونکہ ہر قسم کا نفع نقصان اور بھلائی برائی تنہا اسی کے قبضہ میں ہے۔ مشرکین کی طرح ایسی چیزوں کو مدد کے لیے پکارنا جو کسی نفع نقصان کی مالک نہ ہوں سخت بے موقع بات بلکہ ظلم عظیم (یعنی شرک) کا ایک شعبہ ہے۔ اگر بفرض محال نبی سے ایسی حرکت صادر ہو تو ان کی عظیم الشان شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے ظلم اعظم ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر اللہ تجھے پہنچائے کوئی نقصان تواس کے سوا کوئی اس کو ہٹانے والا نہیں، اور اگر وہ تیرا بھلا چاہے تو کوئی اس کے فضل کو روکنے والا نہیں، وہ پہنچاتا ہے اس کو اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، اور وہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۷)
تشریح: جب ان چیزوں کو پکارنے سے منع کیا جن کے قبضہ میں تمہارا بھلا برا کچھ نہیں تو مناسب ہوا کہ اس کے بالمقابل مالک علی الاطلاق کا ذکر کیا جائے جو تکلیف و راحت اور بھلائی برائی کے پورے سلسلہ پر کامل اختیار اور قبضہ رکھتا ہے جس کی بھیجی ہوئی تکلیف کو دنیا میں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ اور جس پر فضل و رحمت فرمانا چاہے ، کسی کی طاقت نہیں کہ اسے محروم کر سکے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں، اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق پہنچ چکا، توجس نے ہدایت پائی صرف اپنی جان کے لئے ہدایت پائی، اور جو گمراہ ہوا تو صرف اپنے برے کو گمراہ ہوا، اور میں تم پر مختار نہیں ہوں۔ (۱۰۸)
تشریح:یعنی میرا کام دعوت اور تبلیغ ہے ، ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے ، اور تمہارے کفر اور بداعمالیوں کی مجھ سے پوچھ نہیں ہو گی۔
(توضیح القرآن)
اور (اس کی) پیروی کرو جو تمہاری طرف وحی ہوئی ہے ، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے ، اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (۱۰۹)
تشریح:مکی زندگی میں حکم یہ تھا کہ کفار کی طرف سے پہنچنے والی ہر تکلیف پر صبر کیا جائے ، ہاتھوں سے انتقام لینے کی اجازت نہیں تھی، اس آیت میں یہی حکم دیا گیا ہے ، مطلب یہ ہے کہ ان کافروں کا فیصلہ اللہ تعالی پر چھوڑ دو، وہی ان کے بارے میں مناسب فیصلہ کرے گا، چاہے اس طرح کہ دنیا میں ان کو عذاب دے ، یا آخرت میں، اور چاہے اس طرح کہ مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دے جس کے ذریعے ان کی زیادتیوں کا بدلہ لیا جا سکے۔
(توضیح القرآن)
۱۱۔ سورۃ ہود
تعارف
یہ سورت بھی مکی ہے اور اس کے مضامین پچھلی سورت کے مضامین سے ملتے جلتے ہیں، البتہ سورۂ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، خاص طور پر حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور مؤثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی بڑی بڑی زور آور قوموں کو تباہ کر چکی ہے ، اور جب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی کے قہر اور عذاب کا مستحق ہو جائے تو چاہے وہ کتنے بڑے پیغمبر سے قریبی رشتہ رکھتا ہو اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کو نہیں بچا سکا، اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے مؤثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے ، ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کو اپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہو جائے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۲۳ رکوعات:۱۰
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الٓر۔ یہ کتاب ہے ، اس کی آیات مضبوط کی گئیں، پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کے پاس سے۔ (۱)
تشریح: یعنی یہ قرآن کریم وہ عظیم الشان اور جلیل القدر کتاب ہے جس کی آیتیں لفظی و معنوی ہر حیثیت سے نہایت جچی تلی ہیں۔ نہ ان میں تناقض ہے نہ کوئی مضمون حکمت یا واقعہ کے خلاف ہے ، نہ باعتبار معجزانہ فصاحت و بلاغت کے ایک حرف پر نکتہ چینی ہو سکتی ہے جس مضمُون کو جس عبارت میں ادا کیا ہے محال ہے کہ اس سے بہتر تعبیر ہو سکے۔ الفاظ کی قبا معانی کی قامت پر ذرا بھی نہ ڈھیلی ہے نہ تنگ۔ جن اصول و فروع، اخلاق و اعمال اور قیمتی پند و نصیحت پر یہ آیات مشتمل ہیں اور جو دلائل و براہین اثبات دعاوی کے لیے استعمال کی گئی ہیں۔ وہ سب علم و حکمت کے کانٹے میں تلی ہوئی ہیں۔ قرآنی حقائق و دلائل ایسے مضبوط و محکم ہیں کہ زمانہ کتنی ہی پلٹیاں کھائے ان کے بدلنے یا غلط ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ عالم کے مزاج کی پوری تشخیص کر کے اور قیامت تک پیش آنے والے تغیرات و حوادث کو من کل الوجوہ جانچ تول کر ایسی معتدل اور ابدی غذائے روح، مائدہ قرآنی کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے جو تناول کرنے والوں کے لیے ہر وقت اور ہر حالت میں مناسب و ملائم ہو۔ ان تمام حکیمانہ خوبیوں کے باوجود یہ نہیں کہ اجمال و ابہام کی وجہ سے کتاب معمہ اور چیستان بن کر رہ جاتی بلکہ معاش و معاد کی تمام مہمات کو خوب کھول کر سمجھایا ہے اور موقع بہ موقع دلائل توحید، احکام، مواعظ، قصص، ہر چیز بڑی خوبصورتی اور قرینہ سے الگ الگ رکھی ہے۔ اور تمام ضروریات کا کافی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ نزولی حیثیت میں بھی یہ حکمت مرعی رہی ہے کہ پورا قرآن ایک دم نہیں اتارا بلکہ وقتاً فوقتاً موقع و مصلحت کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ آیات کا نزول ہوتا رہا۔ قرآن میں ان تمام باریکیوں کو مجتمع دیکھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ مگر حیرت کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر حکیم مطلق اور خبیر برحق کے کلام میں سب حکمتیں اور خوبیاں جمع نہ ہوں گی تو اور کس کلام میں توقع کی جا سکتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک میں اس (کی طرف) سے تمہارے لئے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ (۲)
تشریح: یعنی اس محکم و مفصل کتاب کے نازل کرنے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو صرف خدائے واحد کی عبادت کی طرف دعوت دی جائے اور اس کے طریقے سکھائے جائیں۔ اسی عظیم و جلیل مقصد کے لیے پہلے انبیاء تشریف لائے تھے۔
جو کتاب کو مانے اور شرک چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کرے اسے فلاح دارین کی خوشخبری سناتے ہیں۔ جو نہ مانے اور کفر و شرک اختیار کرے اس کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور یہ کہ مغفرت طلب کرو اپنے رب کی، پھر اس کی طرف رجوع کرو، وہ تمہیں فائدہ پہنچائے گا اچھی متاع، ایک وقت مقرر تک، اور دے گا ہر فضل والے کو اپنا فضل، اور اگر تم پھر جاؤ تو بیشک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۳)
تشریح: جو پچھلی تقصیرات معاف کرائے اور آئندہ کے لیے خدا کی طرف دل سے رجوع ہو، تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گزرے ، کیونکہ مومن قانت خواہ کسی حال میں ہو مگر خدا کے فضل و کرم کی بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے وہ حق تعالیٰ کی رضا جوئی اور مستقبل کی عظیم الشان خوشحالی کے تصور میں اس قدر مگن رہتا ہے کہ یہاں کی بڑی بڑی سختیوں کو خاطر میں نہیں لاتا وہ جب خیال کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے فرائض صحیح طور پر انجام دے رہا ہوں جس کا صلہ مجھ کو ضرور ایک دن عرش والی سرکار سے ملنے والا ہے تو اپنی کامیابی اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد کر کے اس کا دل جوش مسرت سے اچھلنے لگتا ہے۔ اسے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں وہ سکون قلبی اور راحت باطنی نصیب ہوتی ہے جو بادشاہوں کو بیشمار سامانوں اور اموال و خزائن سے حاصل نہیں ہو سکتی، بلکہ بعض اوقات یہاں کے چند روزہ تکلیفوں اور سختیوں میں وہ لذت پاتے ہیں جو اغنیاء و ملوک اپنے عیش و تنعم میں محسوس نہیں کرتے۔ ایک محب وطن سیاسی قیدی کو اگر فرض کیجئے یقین ہو جائے کہ میری اسیری سے ملک اجنبیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا اور مجھے قید سے نکلتے ہی ملک کی جمہوریہ کا صدر بنا دیا جائے گا تو کیا اسے جیل خانہ کی بند کوٹھڑی میں سرور و اطمینان کی کیفیت اس بادشاہ سے زیادہ حاصل نہ ہو گی؟ جس کے لیے ہر قسم کا سامان عیش و طرب فراہم ہیں مگر اندیشہ لگا ہوا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر نہایت ذلت کے ساتھ تخت شاہی سے اتارا جانے والا ہے۔ اس پر دنیا کے جیل خانہ میں ایک مومن قانت کی زندگی کو قیاس کر لو۔ جو جس قدر زیادہ بڑھ کر عمل کرے گا اسی قدر خدا کے فضل سے زیادہ حصہ پائے گا۔ آخرت میں اجر و ثواب اور دنیا میں مزید طمانیت حاصل ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ کی طرف تمہیں لوٹنا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔ (۴)
یاد رکھو! بیشک وہ اپنے سینے دوہرے کرتے ہیں تاکہ اس (اللہ) سے چھپا لیں، یاد رکھو!جب وہ اپنے کپڑے پہنتے ہیں وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ (۵)
تشریح:بہت سے مشرک لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کرنے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے ، تاکہ آپ کی کوئی بات ان کے کان میں نہ پڑے ، چنانچہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نظر آتے تووہ اپنے سینوں کو دہرا کر کے اور اپنے اوپر کپڑے لپیٹ کر وہاں سے کھسک جاتے تھے ، اسی طرح بعض احمق کوئی گناہ کا کام کرتے تواس وقت بھی اپنے آپ کو چھپانے کے لئے دہرے ہو جاتے ، اور اپنے اوپر کپڑے لپیٹ لیتے ، اور اس طرح یہ سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالی سے چھپ گئے ، یہ آیت ان دونوں قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
(توضیح القرآن)
اور کوئی زمین پر چلنے ( پھرنے ) والا نہیں، مگر ا س کا رزق اللہ پر (اللہ کے ذمے ) ہے ، اور وہ جانتا ہے اس کا ٹھکانا اور اس کے سونپے جانے کی جگہ، سب کچھ روشن کتاب (لوح محفوظ) میں ہے۔ (۶)
تشریح: پہلے علم الٰہی کی وسعت بیان ہوئی تھی یہ اسی مضمون کا تکملہ ہے۔ یعنی زمین پر چلنے والا ہر جاندار جسے رزق کی احتیاج لاحق ہو، اس کو روزی پہنچانا خدا نے محض اپنے فضل سے اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے۔ جس قدر روزی جس کے لیے مقدر ہے یقیناً پہنچ کر رہے گی۔ جو وسائل و اسباب بندہ اختیار کرتا ہے ، وہ روزی پہنچنے کے دروازے ہیں۔ اگر آدمی کی نظر اسباب و تدابیر اختیار کرتے وقت مسبب الاسباب پر ہو تو یہ توکل کے منافی نہیں البتہ خدا کی قدرت کو ان اسباب عادیہ میں محصور و مقید نہ سمجھا جائے۔ وہ گاہ بگاہ سلسلہ اسباب کو چھوڑ کر بھی روزی پہنچاتا یا اور کوئی کام کر دیتا ہے بہرحال جب تمام جانداروں کی حسب استعداد غذاء اور معاش مہیا کرنا حق تعالیٰ کا کام ہے تو ضروری ہے کہ اس کا علم ان سب پر محیط ہو ورنہ ان کی روزی کی خبر گیری کیسے کر سکے گا۔
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”مستقر” (جہاں ٹھہرتا ہے ) بہشت و دوزخ اور مُستَودَع (جہاں سونپا جاتا ہے ) اس کی قبر ہے۔ ”وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ” الخ میں دنیاوی زندگی کا بیان تھا۔ یہاں برزخ اور آخرت کا بیان ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ خدا ابتداء سے انتہاء تک تمہاری ہستی کے تمام درجات کا علم رکھتا ہے۔ ”مستقر” و ”مستودع” کی تعیین میں مفسرین کے بہت اقوال ہیں پہلے سورہ ”انعام” میں بھی ہم کچھ لکھ چکے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ زمین میں جہاں تک چلے پھرے اس کی منتہائے سیر کو مستقر اور پھر پھرا کر جس ٹھکانے پر آئے اسے ”مستودع” کہتے ہیں۔ ابن عباس کے نزدیک اس زندگی میں جہاں رہے وہ ”مستقر” اور موت کے بعد جہاں دفن کیا جائے وہ ”مستودع” ہے ، مجاہد نے ”مستقر” سے رحم مادر اور ”مستودع” سے صلب پدر مراد لی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہی ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین چھ دن میں، اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر ہے عمل میں؟اور اگر آپ کہیں کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تووہ لوگ ضرور کہیں گے جنہوں نے کفر کیا کہ یہ صرف کھلا جادو ہے۔ (۷)
تشریح: یعنی اس سارے نظام کی تخلیق و ترتیب سے مقصود تمہارا یہاں بسانا اور امتحان کرنا ہے کہ کہاں تک اس عجیب و غریب نظام اور سلسلہ مصنوعات میں غور کر کے خالق و مالک کی صحیح معرفت حاصل کرتے اور مخلوقات ارضی و سماوی سے منتفع ہو کر محسن شناسی اور سپاس گذاری کا فطری فرض بجا لاتے ہو۔ یہ مقام تمہاری سخت آزمائش کا ہے۔ مالک حقیقی دیکھتا ہے کہ تم میں سے کونسا غلام صدق و اخلاص اور سلیقہ مندی سے اچھا کام کرتا اور فرائض بندگی انجام دیتا ہے۔
جب یہ دنیا امتحان و آزمائش کی جگہ ہے تو ضرور ہے کہ اس کے بعد مجازات انعام و انتقام کا سلسلہ ہو، تاکہ شاکرین و کافرین کو اپنے اپنے کیے کا پھل ملے۔ اسی لیے یہاں بعث بعد الموت کا ذکر کیا گیا۔ یعنی کفار مکہ کو یقین نہیں آتا کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اور اپنے جرائم کی سزا بھگتیں گے۔ جب وہ قرآن میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بعث بعد الموت کا نہایت موثر بیان سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کا یہ بیان کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب و مسحور کر لیا۔ مگر یاد رکھیے ہم پر یہ جادو چلنے والا نہیں۔
(ابن کثیر)
اور اگر ہم ان سے عذاب روک رکھیں ایک مدت معین تک، وہ ضرور کہیں گے کیا چیز اسے روک رہی ہے ؟یاد رکھو جس دن ان پر (عذاب) آئے گا، ان سے نہ ٹالا جائے گا، اور انہیں گھیر لے گاجس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۸)
تشریح: یعنی جب ان کی شرارتوں پر عذاب الٰہی سے ڈرایا جاتا ہے ، مگر خدا کی حکمت ایک مدت معین تک عذاب کو روکے رکھتی ہے تو تکذیب و استہزاء کے طور پر کہتے ہیں کہ وہ عذاب کہاں ہے ؟ آخر آتا کیوں نہیں؟ کس چیز نے اسے پکڑ رکھا ہے ؟ فرماتے ہیں کیا مذاق کرتے ہو، وقت معین پر جب عذاب آئے گا کسی کے ٹالے نہ ٹلے گا اور ہر طرف سے گھیر کر تباہ و برباد کر کے چھوڑے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھا دیں پھر وے اس سے چھین لیں، تو بیشک وہ مایوس، ناشکرا ہو جاتا ہے۔ (۹)
تشریح: یعنی اب تو کہتے ہیں عذاب کہاں ہے ، کیوں نہیں آتا، لیکن آدمی بودا اتنا ہے کہ اگر خدا چند روز اپنی مہربانی سے عیش و آرام میں رکھنے کے بعد تکلیف میں مبتلا کر دے تو پچھلی مہربانیاں بھی بھلا دیتا ہے اور نا امید ہو کر آئندہ کے لیے آس توڑ بیٹھتا ہے۔ گذشتہ پر ناشکری اور آئندہ سے مایوسی، یہ ہی اس کی زندگی کا حاصل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر اسے ہم سختی کے بعد آرام چکھا دیں جو اسے پہنچی ہو تووہ ضرور کہے گا مجھ سے برائیاں جاتی رہیں، بیشک وہ اترانے والا شیخی خور ہے۔ (۱۰)
تشریح: یعنی مصیبت کے بعد اگر خدا آرام و آسائش نصیب کرے تو سمجھتا ہے کہ گویا اب ہمیشہ کے لیے مصائب و تکالیف کا خاتمہ ہو چکا پچھلی کیفیت کبھی لوٹ کر آنے والی نہیں۔ اس وقت غافل و مغرور ہو کر شیخیاں مارتا اور اتراتا پھرتا ہے ، حالانکہ چاہیے تھا کہ پچھلی حالت یاد کر کے خدا کا شکر ادا کرتا اور اس کے احسان کے سامنے جھک جاتا۔
(تفسیرعثمانی)
مگر جن لوگوں نے صبر کیا اور نیک عمل کئے ، یہی لوگ ہیں جن کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (۱۱)
تشریح: یعنی جو حال اوپر عام انسانوں کا بیان ہوا، اس سے اللہ کے وہ بندے مستثنیٰ ہیں جو تکلیف و مصیبت کا مقابلہ صبر و استقامت سے کرتے اور امن و راحت کے وقت شکر گزاری کے ساتھ عمل صالح میں مستعدی دکھاتے ہیں۔ ایسے اولوالعزم و فا داروں کی جماعت ہی عظیم الشان بخشش و انعام کی مستحق ہے۔
(تفسیرعثمانی)
تو کیا تم چھوڑ دو گے (اس کا) کچھ حصہ جو تمہاری طرف وحی کیا گیا ہے ، اور اس سے تمہارا دل تنگ ہو گا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر کیوں نہ اترا کوئی خزانہ یا اس کے (ساتھ) فرشتہ (کیوں نہ ) آیا؟ا سکے سوا نہیں کہ تم ڈرانے والے ہو اور اللہ ہر شے پر اختیار رکھنے والا ہے۔ (۱۲)
تشریح: وہ ایسا نازک اور پر خطر وقت تھا کہ تمام دنیا باطل پرستی کے شور سے گونج رہی تھی صرف ایک مقدس ہستی تھی جس کے حلقوم سے حق کی آواز نکل کر باطل کے قلعوں میں زلزلہ ڈالتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاروں طرف سے موذی دشمنوں کے نرغہ میں گھر رہے تھے۔ کوئی جھٹلاتا کوئی طعن کرتا کوئی مذاق اڑاتا تھا۔ اس ماحول کا تصور کرو اور اس مبلغ اعظم کی قوت قلب اور ہمت مردانہ کا اندازہ لگاؤ، جس کا تمام تر اعتماد و اتکال ظاہری اسباب سے ہٹ کر خداوند قدوس کے وعدوں پر تھا۔ آپ جب مخزون و دلگیر ہوتے تو صرف اپنے پروردگار کی آواز سے ہی تسلی پاتے اور دنیا کے مقابلہ میں تازہ دم ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے اس سلسلہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں جن کا حاصل یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی بیہودہ خرافات اور فرمائشوں کی وجہ سے اس قدر فکر مند اور غمگین نہ ہوں نہ اپنے دل میں ان لوگوں کی مراعات کا خیال لائیں کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ وحی الٰہی نے جو چیزیں آپ کو سکھلائی ہیں اور جس بے خوف و خطر تبلیغ کا حکم دیا ہے اس کے بعض حصہ کو ان لوگوں کی خرافات سے تنگ دل ہو کر چھوڑ بیٹھیں جب یہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ پیغمبرانہ عصمت اور اولوالعزمی مانع ہے تو تنگدل ہونے سے کیا فائدہ۔ آپ کا کام صرف بھلے برے سے آگاہ کر دینا ہے ان کی ہدایت کی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ خدا تعالیٰ جس کے سپرد ہر چیز ہے ، ان کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کیجئے اور صبر و استقامت کے ساتھ فرائض تبلیغ کی انجام دہی میں ثابت قدم رہیے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے ، آپ کہہ دیں تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور جس کو تم (مدد کیلئے ) بلا سکوبلالو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔ (۱۳)
پھر اگر وہ تمہارے (اس چیلنج کا) جواب نہ دے سکیں تو جان لو کہ یہ تو اللہ کے علم سے نازل کیا گیا ہے ، اور یہ کہ ا سکے سوا کوئی معبود نہیں، پس کیا تم اسلا م لاتے ہو؟ (۱۴)
تشریح: یعنی فرمائشی معجزے طلب کرتے ہیں، جن کا دیا جانا مصلحت نہیں۔ اور جو سب سے بڑا معجزہ (قرآن) ان کے سامنے ہے ، اسے مانتے نہیں، کہتے ہیں یہ تو (معاذ اللہ) تمہاری بنائی ہوئی گھڑت ہے۔ اس کا جواب دیا کہ تم بھی آخر عرب ہو، فصاحت و بلاغت کا دعویٰ رکھتے ہو، سب مل کر ایسی ہی دس سورتیں گھڑ کر پیش کر دو اور اس کام میں مدد دینے کے لیے تمام مخلوق کو بلکہ اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لاؤ جنہیں خدائی کا شریک سمجھتے ہو اگر نہ کر سکو اور کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ ایسا کلام خالق ہی کا ہو سکتا ہے جس کا مثل لانے سے تمام مخلوق عاجز رہ جائے۔ تو یقیناً یہ وہ کلام ہے جو خدا نے اپنے علم کامل سے پیغمبر پر اتارا ہے۔ بیشک جس کے کلام کا مثل نہیں ہو سکتا اس کی ذات و صفات میں کون شریک ہو سکتا ہے۔ ایسا بے مثال کلام اسی بے مثال خدا کا ہے جس کا کوئی شریک نہیں کیا اسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور خدا کا حکم بردار بننے میں کسی چیز کا انتظار ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جو کوئی چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور ا سکی زینت، ہم ان کیلئے ان کے عمل اس (دنیا) میں پورے کر دیں گے اور اس میں ان کی کمی نہ کی جائے گی۔ (۱۵)
تشریح: یعنی ایسے واضح ثبوت کے بعد جو شخص قرآن پر ایمان نہیں لاتا، یا اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتا بلکہ دنیا کی چند روزہ زندگی اور فانی ٹیپ ٹاپ ہی کو قبلہ مقصود ٹھہرا کر عملی جدوجہد کرتا ہے۔ اگر بظاہر کوئی نیک کام مثلاً خیرات وغیرہ کرتا ہے تو اس سے بھی آخرت کی بہتری اور خدا کہ خوشنودی مقصود نہیں ہوتی محض دنیاوی فوائد کا حاصل کر لینا پیش نظر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی بابت خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین یا منافقین یا دنیا پرست ریا کار مسلمان بتلا دیا کہ دنیا ہی میں ان کا بھگتان کر دیا جائے گا۔ جو اعمال اور کوششیں وہ حصول دنیا کے لیے کریں گے ان کے کم و کیف کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اپنے علم و حکمت سے جس قدر مناسب جانے گا اور دینا چاہے گا یہیں عطا فرما دے گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خیرات وغیرہ کے کام کرے اس کی یہ فانی اور صوری حسنات جو روح ایمان سے یکسر خالی ہیں، دنیا میں رائگاں نہیں جاتیں ان کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تندرستی، مال، اولاد، عزت و حکومت وغیرہ دے کر سب کھاتہ بے باق کر دیتا ہے۔ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کوئی چیز اس کے کام آنے والی نہیں جس کافر کے لیے جس درجہ کی سزا تجویز ہو چکی ہے وہ کبھی اس سے ٹلنے یا کم ہونے والی نہیں۔ ”مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَالَہ، فِیْہَا مَانَشَآءُ لِمَن نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَالَہ، جَہَنَّمَ یَصْلٰہَا مَذْمُوْماً مَّدْحُوْراً” (بنی اسرائیل، رکوع٢، آیت:١٨) ریاء کار اور دنیا پرست عالم، متصدق اور مجاہد کے حق میں جو وعید آئی ہے ، اس کا حاصل بھی یہ ہی ہے کہ ان سے محشر میں کہا جائے گا کہ جس غرض کے لیے تو نے علم سکھلایا، صدقہ و جہاد کیا وہ دنیا میں حاصل ہو چکی اب ہمارے پاس تیرے لیے کچھ نہیں۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے جہنم میں لے جاؤ (اعاذنا اللہ منہا)۔
(تفسیرعثمانی)
یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور اکارت گیا جواس (دنیا) میں انہوں نے کیا اور جو وہ کرتے تھے نابود ہوئے۔ (۱۶)
تشریح: یعنی ان اعمال پر دوزخ کے سوا اور کسی چیز کے مستحق نہیں کفار ابدی طور پر ریاء کار مسلمان محدود مدت کے لیے۔ ہاں خدا تعالیٰ بعض مومنین کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے ، وہ الگ بات ہے۔
دنیا میں جو کام دنیاوی اغراض کے لیے کیے تھے ، آخرت میں پہنچ کر ظاہر ہو گا کہ وہ سب برباد ہوئے اور ریاء کاری یا دنیا پرستی کے سلسلہ میں بظاہر جو نیکیاں کمائی تھیں سب یونہی خراب گئیں یہاں کوئی کام نہ آئیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس کیا (یہ اس کے برابر ہیں) جو اپنے رب کے کھلے راستہ پر ہو اور ا سکے ساتھ اس (اللہ کی طرف) سے گواہ ہو، اس سے پہلے موسی کی کتاب امام (راہ نما) اور رحمت (تھی) یہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور گروہوں میں سے جو اس کا منکر ہو تو دوزخ اس کا ٹھکانا ہے ، پس توشک میں نہ ہواس سے ، بیشک وہ تیرے رب (کی طرف) سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۱۷)
تشریح: یعنی یہ شخص اور وہ ریاء کار دنیا پرست جن کا ذکر پہلے ہوا کیا برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ”بَیِّنَۃ” (صاف راستہ) سے مراد وہ راستہ ہے جس پر انسان اپنی اصلی اور صحیح فطرت کے موافق چلنا چاہتا ہے۔ بشرطیکہ گردوپیش کے حالات و خیالات سے متاثر نہ ہو، اور وہ توحید، اسلام اور قرآن کا راستہ ہے۔ ”فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ َعلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ” (روم، رکوع٤، آیت:٣٠) وفی حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلَی الْفَطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ” الخ اور ”شَاہِدٌ مِّنْہُ” (گواہ اللہ کی طرف سے ) قرآن عظیم ہے جو گواہی دیتا ہے کہ ”دین فطرت” (توحید و اسلام) پر چلنے والا بیشک ٹھیک راستہ پر چل رہا ہے اور وہ قرآن اپنی حقانیت کا بھی خود گواہ ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ چونکہ قرآن کے لانے والے جبرائیل امین اور لینے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس اعتبار سے ان کو بھی شاہد کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو یہ ہے کہ آپ کے اخلاق و عادات، معجزات، زبان مبارک، چہرہ نورانی، ہر چیز سے شہادت ملتی ہے کہ جس دین کے آپ حامل ہیں وہ بالکل سچا دین ہے۔ آگے ”وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتَابُ مُوْسیٰ اِمَامًا وَّرَحْمَۃً” کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے پہلے جو وحی کسی نبی پر نازل کی گئی وہ بھی ”دین فطرت کی صداقت پر گواہ تھی۔ خصوصاً موسی علیہ السلام پر جو عظیم الشان کتاب (تورات) اتاری گئی قرآن سے پیشتر اسے ایک بڑا بھاری شاہد ان لوگوں کی حقانیت کا کہنا چاہیے جو دین فطرت کے صاف راستہ پر چلتے ہیں۔
اور کون ہے اس سے بڑھ کر ظالم؟جو اللہ پر جھوٹ باندھے ، یہ لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور کہیں گے گواہ یہی ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا، یاد رکھو!ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ (۱۸)
تشریح: یعنی قرآن جھوٹ اور افتراء نہیں۔ خدا کا سچا پیغام ہے جس کو قبول کرنا ضروری ہے خوب سمجھ لو کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا جو خدا پر جھوٹ باندھے۔ مثلاً اس کا کلام نہ ہو اور کہہ دے کہ اس کا کلام ہے یا واقعی اس کا ہو اور خدا بار بار فرمائے کہ میرا کلام ہے مگر باوجود روشن دلائل کے جھٹلاتا رہے اور کہتا ہے کہ اس کا نہیں۔
محشر میں جب خدا کے سامنے علیٰ رؤس الاشہاد پیش ہوں گے اور ان کی شرارتوں کے دفتر کھولے جائیں گے اس وقت گواہی دینے والے (ملائکہ، انبیاء، صالحین بلکہ خود ان کے ہاتھ پاؤں) کہیں گے کہ یہ ہی وہ بدبخت ظالم ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نسبت جھوٹ بکا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
جو لوگ اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں، اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔ (۱۹)
تشریح: یہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے یعنی جو لوگ ظلم و نا انصافی سے خدا کے کلام کو جھوٹا بتلاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آخرت کے منکر ہیں دوسروں کو خدا کی راہ پر چلنے سے روکتے ہیں اور اس تلاش میں رہتے ہیں کہ سیدھے کو ٹیڑھا ثابت کریں۔ ایسے ظالموں پر خدا کی خصوصی لعنت ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ لوگ زمین میں عاجز کرنے والے نہیں، اور ان کے لئے نہیں ہے اللہ کے سوا کوئی حمایتی، ان کے لئے دوگنا عذاب ہے ، وہ نہ سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ وہ دیکھتے تھے۔ (۲۰)
تشریح: یعنی دنیا میں ایسے اندھے بہرے بنے کہ نہ حق بات سننے کی تاب تھی نہ خدا کے نشانوں کو دیکھتے تھے جنہیں دیکھ کر ممکن تھا راہ ہدایت پا لیتے۔ حضرت شاہ صاحب نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اللہ پر جھوٹ بولا ہے اصل اور غلط باتیں اس کی طرف منسوب کیں۔ کہاں سے لائے ؟ غیب سے سن نہ آتے تھے غیب کو دیکھتے نہ تھے پھر ان کا ماخذ کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہی لو گ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا اور ان سے گم ہو گیا جو وہ جھوٹ باندھتے تھے۔ (۲۱)
تشریح: جان کا کھو بیٹھنا، یہ ہی کہ ابدی عذاب میں گرفتار ہوئے اور سب جھوٹے دعوے وہاں پہنچ کر گم ہو گئے۔
(تفسیرعثمانی)
کوئی شک نہیں کہ وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (۲۲)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور اپنے رب کے آگے عاجزی کی، یہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۳)
تشریح: منکرین کی بد انجامی کے بالمقابل مومنین کا انجام نیک بیان فرمایا۔ ان کی عاجزی خدا کو پسند آئی اس لیے اپنی دائمی خوشنودی کا مقام عطا فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
دونوں فریق کی مثال (ایسے ہے ) جیسے اندھا اور بہرا اور (دوسرا) دیکھتا ہے اور سنتا ہے ، کیا دونوں برابر ہیں حالت میں، کیا تم غور نہیں کرتے۔ ؟ (۲۴)
تشریح: یعنی منکرین تو اندھے بہرے ہیں جیسا کہ دو تین آیت پہلے فرمایا تھا۔ مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْع وَمَاکَانُوْا یُبْصِرُوْنَ” پھر جسے نہ خود نظر آئے نہ دوسرے کی سن سکے ، اس کا آغاز و انجام کیسے ان روشن ضمیر ایمانداروں کے برابر ہو سکتا ہے جو بصیرت کی آنکھوں سے حق و باطل اور بھلے برے میں تمیز کرتے اور اپنے ہادیوں کی باتیں بگوش ہوش سنتے ہیں۔ غور کرو کہ دونوں کا انجام یکساں کس طرح ہو سکتا ہے ؟ آگے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا قصہ اسی مضمون کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ بیشک میں تمہارے لئے (تمہیں) ڈرانے والا ہوں کھلا (کھول کر)۔ (۲۵)
تشریح: یعنی نہایت وضاحت کے ساتھ وہ چیزیں بتلاتا ہوں جن کے ارتکاب پر مہلک عذاب نازل ہونے کا اندیشہ ہے۔ یا جو اس عذاب سے محفوظ رہنے کے ذرائع ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو، بیشک میں تم پر ایک دکھ دینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۲۶)
تشریح: یعنی غیر اللہ کی پرستش سے باز نہ آنے کی صورت میں سخت عذاب آنے کا ڈر ہے۔ ”دردناک دن” سے وہ دن مراد ہے جس میں المناک اور درد انگیز حوادث کا وقوع ہو۔ مثلاً قیامت کا دن یا وہ دن جس میں قوم نوح غرق کی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
تواس قوم کے وہ سردار جنہوں نے کفر کیا، بولے ہم تجھے نہیں دیکھتے مگر ہمارے اپنے جیسا ایک آدمی اور ہم نہیں دیکھتے کہ کسی نے تیری پیروی کی ہو ان کے سوا ج وہم میں نیچ لوگ ہیں (وہ بھی) سرسری نظر سے (بے سوچے سمجھے ) اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے لئے اپنے اوپر کوئی فضیلت بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ (۲۷)
تشریح: یعنی رسول کو تمام قوم کے مقابلہ میں کوئی نمایاں امتیاز ہونا چاہیے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہماری طرح جنس بشر سے ہیں، آسمان کے فرشتے نہیں۔ جس کے سامنے خواہ مخواہ انسانوں کی گردنیں جھک جائیں پھر بشر بھی ایسے نہیں جسے کوئی خاص تفوق اور بڑائی ہم پر حاصل ہوتی، مثلاً بڑے دولت مند یا جاہ و حکمت کے مالک ہوتے ، جو لوگ تمہارے پیرو ہوئے وہ بھی ماشاءاللہ سب کے سب مفلس، رذیل، پست اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنا بھی ہم جیسے شریفوں کے لیے ننگ و عار کا موجب ہے تو کیا ساری خدائی میں سے تم ہی ملے تھے جنہیں خدا نے اپنے منصب کی سفارت پر مامور فرمایا۔ آخر ہم تم سے حسب نسب، مال و دولت، خَلق و خُلق کس بات سے کم تھے ؟ جو ہمارا انتخاب اس عہدہ کے لیے نہ ہو گیا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میری قوم دیکھو تو اگر میں واضح دلیل پر ہوں اپنے رب (کی طرف) سے اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت دی ہے وہ تمہیں دکھائی نہیں دیتی، توکیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں، اور تم ا س سے بیزار ہو۔ (۲۸)
تشریح: یعنی یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کو عام انسانوں سے بالکل ممتاز ہونا چاہیے ، لیکن وہ امتیاز مال و دولت ملک و حکومت اور دنیا کی ٹیپ ٹاپ میں نہیں، بلکہ اعلیٰ اخلاق، بہترین ملکات، تقویٰ، خدا ترسی، حق پرستی، درد مندی خلائق اور ان صریح آیات و نشانات پیش کرنے سے ان کو امتیاز حاصل ہوتا ہے جو حق تعالیٰ بطور اتمام حجت و اکمال نعمت ان کے اندر قائم کرتا یا ان کے ذریعہ سے ظاہر فرماتا ہے۔ وہ وحی الٰہی اور ربانی دلائل و براہین کی روشنی میں صاف راستہ پر چلتے ہیں اور دن رات خدا کی خصوصی رحمتیں ان پر بارش کی طرح برستی ہیں۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھ میں کھلے طور پر موجود ہوں اور یقیناً موجود ہیں۔ لیکن جس طرح اندھے کو سورج کی روشنی نظر نہیں آتی، تمہاری آنکھیں بھی اس نور الٰہی کے دیکھنے سے قاصر رہیں، تو کیا ہم زبردستی مجبور کر کے تم سے اس نور اور رحمت کا اقرار کرا سکتے ہیں جس سے تم اس قدر نفور و بیزار ہو کہ آنکھ کھول کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ میری بزرگی و برتری جو تم کو نظر نہیں آتی، یہ اس لیے ہے کہ تمہارے دل کی آنکھیں اندھی ہیں یا بند ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم! میں تم سے اس پر کچھ مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے ، اور جو ایمان لائے ہیں میں انہیں ہانکنے والا (دور کرنے والا) نہیں، بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک قوم ہو کہ جہالت کرتے ہو۔ (۲۹)
تشریح: یعنی میں تبلیغ کے کام کی کوئی تنخواہ تم سے نہیں مانگتا، جو مالی خود غرضی کا شبہ ہو۔ میں اپنے پروردگار کا غلام ہوں اسی کے یہاں سے مزدوری ملے گی بحمد للہ نہ مجھے تمہارے مال کی طلب ہے نہ ضرورت، پھر غریبوں کو چھوڑ کر مالداروں کی طرف کیوں جھکوں۔ اگر تم میرے اتباع کو محض ان کی افلاس یا پیشہ کی وجہ سے حقیر و ذلیل سمجھتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ میں وہ نہیں جو دولت ایمان کے سرمایہ داروں کو ظاہری خستہ حالی کی بناء پر جانوروں کی طرح دھکے دے کر نکال دوں انہیں ایک روز اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔ وہ میری شکایت اس کے دربار میں کریں گے کہ آپ کے پیغمبر نے متکبر دنیا داروں کی خاطر ہم غریب وفاداروں کو نکال دیا تھا۔ میں ظاہر حال کے خلاف یہ کیونکر سمجھ لوں کہ ان کا ایمان محض ظاہری اور سرسری ہے۔ دلوں کو چیر کر دیکھنا میرا کام نہیں۔ یہ پروردگار کے یہاں پتہ چلے گا کہ ان کے دلوں کی کیا حالت تھی۔
جہل و حماقت سے انجام پر نظر نہیں کرتے ، صرف ان کی ظاہری شکستگی دیکھ کر حقیر سمجھتے ہو۔ اور ایسی مہمل درخواست کرتے ہو کہ ان کو ہٹا دیا جائے تو ہم تمہارے پاس آئیں۔ کیا غربت اور کسب حلال کوئی عیب ہے ؟ یہ ہی چیز تو ہے جو حق کے قبول کرنے میں مزاحم نہیں ہوتی۔ عموماً دولت و جاہ کا نشہ انسان کو قبول حق سے محروم رکھتا ہے اسی لیے ہرقل کی حدیث میں آیا کہ انبیاء کے متبعین ضعفاء ہوتے ہیں بہرحال تم نہیں جانتے کہ سب کو خدا کے پاس جمع ہونا ہے ، وہاں پہنچ کر ظاہر ہو گا کہ اپنے کو ان سے بہتر سمجھنا تمہارا جاہلانہ غرور تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم ! اگر میں انہیں ہانک دوں تو مجھے اللہ سے کون بچا لے گا؟کیا تم غور نہیں کرتے۔ (۳۰)
تشریح:یعنی میں تمہارے کبر و غرور اور جہالت سے متأثر ہو کر اپنا نقصان کیسے کروں، اگر تمہاری رعایت سے میں نے خدا کے مخلص بندوں کو دھکے دے دیئے تو اس کی سزا اور گرفت سے مجھ کو کون بچا سکے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب (کی باتیں) جانتا ہوں، اور میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، اور جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں (تم حقیر سمجھتے ہو) میں نہیں کہتا اللہ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نے دے گا، جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اللہ خوب جانتا ہے (اگر ایسا کہوں تو) اس وقت البتہ میں ظالموں سے ہوں گا۔ (۳۱)
تشریح: کفار نے نوح علیہ السلام کو کہا تھا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو، جتھے اور دولت کے اعتبار سے بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتے ، اس کا جواب نہایت متانت و انصاف کے ساتھ دیتے ہیں کہ بیشک جیسا امتیاز تم دیکھنا چاہتے ہو اس کا ہم دعویٰ نہیں رکھتے ، بلاشبہ میں ایک بشر ہوں، فرشتہ نہیں۔ نہ خدا نے اپنے سارے خزانے میرے تصرف و اختیار میں دے دیے ہیں، نہ تمام غیب کی باتوں پر مطلع کیا گیا ہوں، لیکن ان تمام باتوں کے اعتراف کے ساتھ تمہاری طرح یہ کبھی نہ کہوں گا کہ جو لوگ تمہاری نگاہ میں معیوب و حقیر ہیں (یعنی میں اور میرے رفقاء) ان کو خدا ہرگز کوئی خیر (بھلائی) نہیں دے سکتا۔ مثلاً ان میں سے کسی کو نبوت و حکمت عطا فرما دے اور باقیوں کو ایمان و عرفان کی دولت سے بہرہ ور کرے۔ خوب سمجھ لو حق تعالیٰ ان کے دلوں کی استعدادات و کیفیات کو پوری طرح جانتا ہے ہر ایک کی استعداد کے مناسب فیض پہنچاتا اور باطنی احوال و کیفیات کے موافق برتاؤ کرتا ہے اس نے جو خاص مہربانی مجھ پر یا میرے ساتھیوں پر کی ہے ، وہ تمہاری آنکھ سے پوشیدہ ہے۔ اگر میں یہ کہنے لگوں کہ جو تمہیں بظاہر شکستہ حال اور حقیر دکھائی دیتے ہیں، خدا تعالیٰ نے بھی جو بواطن کا جاننے والا ہے انہیں کوئی عزت و شرف نہیں بخشا تو نہایت بے اصولی اور نا انصافی کی بات ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے اے نوح تو نے ہم سے جھگڑا کیا سوہم سے بہت جھگڑا کیا پس وہ (عذاب) لے آ جس کا توہم سے وعدہ کرتا ہے ، اگر توسچا ہے۔ (۳۲)
تشریح:حضرت نوحؑ قبل از طوفان ساڑھے نو سو برس ان میں رہے۔ شب و روز سرا وعلانیۃ انہیں نصیحت کرتے ، ہر شبہ کا جواب دیتے ، تبلیغ و تفہیم اور بحث و مناظرہ کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی جھگڑے میں صدیاں گزر گئیں۔ کفار نے ان کی حقانی بحثوں اور شب و روز کی روک ٹوک سے عاجز ہو کر کہا کہ اب یہ سلسلہ بند کیجئے۔ بس اگر آپ سچے ہیں تو عذاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہو وہ فوراً لے آؤ تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔
اس نے کہا تم پر لائے صرف اللہ اس (عذاب ) کو اگر وہ چاہے گا اور تم عاجز کر دینے والے نہیں ہو۔ (۳۳)
تشریح:یعنی یہ چیز میرے قبضہ میں نہیں۔ خدا جس وقت اپنی حکمت کے موافق چاہے گا عذاب نازل کر دے گا۔ ہمارا فرض صرف آگاہ کر دینا تھا۔ باقی عذاب تو ایسی ہولناک اور عظیم الشان چیز ہے ، جس کا لے آنا اور دفع کر دینا دونوں پہلو قوائے بشریہ کے دائرہ سے خارج ہیں۔ جب مشیت الٰہی ہو گی تو کہیں بھاگ کر پناہ نہ لے سکو گے۔ ایسا کون ہے جو خدا کو (معاذاللہ) تھکا کر عاجز کر سکے۔
(تفسیرعثمانی)
اور میری نصیحت تمہیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ میں تمہیں نصیحت کروں جبکہ اللہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۳۴)
تشریح:یعنی کفر پر اس قدر اصرار و ضد اور انتہائی شوخ چشمی سے نزول عذاب کی استدعاء پتہ دیتی ہے کہ خدا کا ارادہ یہی ہے کہ تم کو گمراہی میں پڑا رہنے دے اور آخرکار ہلاک کر دے۔ پس اگر تمہاری بد کرداری کے سبب سے خدا نے یہی چاہا تو میں کتنا ہی نصیحت و خیر خواہی کر کے تم کو نفع پہنچانا چاہوں، کچھ نافع اور موثر نہ ہو گا۔ تمہارا رب و ہی ہے جس کے ملک و تصرف میں ہر چیز ہے جیسا جس کے ساتھ معاملہ کرے ، کوئی روک نہیں سکتا۔ سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے و ہی سب کے اعمال کی جزاء و سزا دینے والا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں اگر میں نے اس کو بنا لیا ہے تو مجھ پر ہے میرا گناہ اور میں اس سے بری ہوں جو تم گناہ کرتے ہو۔ (۳۵)
تشریح: یہ گفتگو کفار مکہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی کہ قرآن آپ خود بنا لائے ہیں۔ خدا کا کلام نہیں ہے۔ حضرت نوح کتاب نہ لائے تھے جو ان کی قوم یہ بات کہتی۔ (کذا فی الموضح) لیکن بعض مفسرین نے اس آیت کو بھی نوح کے قصہ کا جزو بتلایا ہے۔ یعنی ان کی قوم نے کہا کہ جن باتوں کو نوح خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ خود ان کی گھڑنت ہیں۔ بعض نے کہا کہ گفتگو تو اہل مکہ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر اس کا تعلق خاص نوح کے قصہ سے تھا گویا وہ کہتے تھے کہ یہ داستان آپ نے جھوٹ بنا لی ہے۔ واقعہ میں ان قصوں کی کوئی اصل نہیں۔
قرآن کو ”مفتریٰ” کہنے کا تحقیقی جواب اسی سورت میں ایک رکوع پہلے گزر چکا۔ یہاں آخری بات فرمائی یعنی قرآن کا کلام الٰہی ہونا نہایت واضح و محکم دلائل سے بار بار ثابت کیا جا چکا ہے ایسی روشن چیز کی تکذیب کر کے جو گناہ تم سمیٹ رہے ہو اس کا وبال تم پر ہی پڑے گا۔ اس کی فکر کرو اس کا میں ذمہ دار نہیں۔ ہاں بفرض محال اگر میں نے افتراء کیا ہو تو اس کا گناہ مجھ پر پڑ سکتا ہے۔ سو بحمد للہ ایسا ہو انہیں۔
(تفسیر عثمانی)
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم سے (اب) ہرگز کوئی ایمان نہ لائے گا، سوائے اس کے جو ایمان لاچکا، پس اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۶)
اور تو ہمارے سامنے کشتی بنا اور ہمارے حکم سے ، اور ظالموں (کے حق) میں مجھ سے بات نہ کر، بیشک وہ ڈوبنے والے ہیں۔ (۳۷)
تشریح:حضرت نوح علیہ السلام نے تقریباً ایک ہزار سال عمر پائی اور صدیوں تک اپنی قوم کو نہایت دردمندی سے تبلیغ فرماتے رہے اور اس کے بدلے سخت اذیتیں برداشت کیں، مگر بہت تھوڑے لوگوں کے سوا باقی سب لوگ اپنے کفر اور بداعمالیوں پر قائم رہے ، آخر میں اللہ تعالی نے انہیں بتا دیا کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اور اب ان پر طوفان کا عذاب آئے گا، اس لئے آپ کو کشتی بنانے کا حکم دیا تاکہ آپ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والے اس میں سوار ہو کر طوفان کی تباہی سے بچ سکیں، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ کشتی سازی کی صنعت سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام نے وحی کے ذریعے شروع فرمائی تھی اور پہلی بار تین منزلہ جہاز تیار کیا تھا۔
(توضیح القرآن)
اور وہ (نوح) کشتی بناتا تھا اور جب بھی اس کی قوم کے سردار اس (کے پاس) سے گزرتے تو وہ اس پر ہنستے ، ، اس (نوح) نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو بیشک ہم (بھی) تم پر ہنسیں گے جیسے تم ہنستے ہو۔ (۳۸)
تشریح:وہ مذاق اس بات کا اڑاتے تھے کہ انہوں نے دوسرے کام چھوڑ کر کشتی بنانی شروع کر دی ہے ، حالانکہ پانی کا کہیں دور دور پتہ نہیں،
فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ:یعنی ہمیں اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ عذاب تمہارے سرپر آچکا ہے اور تمہیں دل لگی سوجھی ہے۔
(توضیح القرآن)
سوعنقریب تم جان لو گے کس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اس کو رسوا کرے اور اترتا ہے اس پر دائمی عذاب۔ (۳۹)
تشریح: یعنی اب زیادہ تاخیر نہیں۔ جلد آشکارا ہو جائے گا کہ دنیا کا رسوا کن اور آخرت کا دائمی عذاب کس پر نازل ہوتا ہے ؟
(تفسیرعثمانی)
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور نے جوش مارا (ابل پڑا) ہم نے کہا اس (کشتی) میں چڑھا لے ہر ایک کا جوڑا، نر اور مادہ اور اپنے گھر والے ، مگر جس پر (غرقابی کا) حکم ہو چکا ہے اور جو ایمان لایا (اسے بھی سوار کر لے ) اور اس پر ایمان نہ لائے تھے مگر تھوڑے۔ (۴۰)
تشریح: یعنی نوح علیہ السلام کشتی تیار کرتے رہے یہاں تک کہ وعدہ کے موافق خدا کا حکم پہنچ گیا۔ ”بادلوں” کو کہ برس پڑیں اور زمین کو کہ ابل پڑے ، اور فرشتوں کو کہ تعذیب وغیرہ کے متعلق اپنے فرائض منصبی سرانجام کریں۔ آخر اوپر سے بارش آئی اور نیچے زمین کی سطح سے چشموں کی طرح جوش مار کر پانی ابلنے لگا۔ حتٰی کہ روٹی پکانے کے تنوروں میں بھی جہاں آگ بھری ہوتی ہے ، پانی ابل پڑا۔
(تفسیرعثمانی)
(تنبیہ) ”تنور” کے معنی میں اختلاف ہے بعض مطلق روٹی پکنے کا تنور مراد لیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ ایک تنور حضرت حواء سے منتقل ہوتے ہوتے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس پہنچا تھا، وہ ان کے گھر میں طوفان کا نشان ٹھہرایا گیا تھا کہ جب اس سے پانی ابلے کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ بعض کے نزدیک تنور کوئی خاص چشمہ ”کوفہ” یا ”جزیرہ” میں تھا۔ بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ ”تنور” صبح کے اجالے اور روشنی کو کہا ہے۔ یعنی صبح کی روشنی خوب چمکنے لگے۔ ابو حیان کہتے ہیں کہ ”فارالتنور” ممکن ہے ”ظہور عذاب” اور ”شدت ہول”سے کنایہ ہو جیسے ”حمی الوطیس” شدت حرب سے کنایہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ، سے منقول ہے کہ ”تنور” کے معنی وجہ ارض (سطح زمین) کے ہیں۔ ہم نے اوپر جو تفسیر کی مقدم اسی معنی کو رکھا ہے ، اشارہ بعض دوسرے معانی کی طرف بھی کر دیا۔ حافظ ابن کثیر یہ ہی تفسیر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وَہٰذَا قَوْلُ جَمْہُوْرِ السَّلَفِ وَعُلَمَاءِ الْخَلَفِ۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ :چونکہ طوفان میں وہ جانور بھی ہلاک ہونے والے تھے جن کی انسانوں کو ضرورت پڑتی ہے ، اس لئے حکم دیا گیا کہ کشتی میں ضرورت کے تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا سوار کر لو، تاکہ ان کی نسل باقی رہے اور طوفان کے بعد ان سے کام لیا جا سکے۔
(توضیح القرآن)
اور اس نے کہا اس میں سوار ہو جاؤ، اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا، بیشک البتہ میرا رب بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۴۱)
تشریح: نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ بنام خدا کشتی پر سوار ہو جاؤ، کچھ فکر مت کرو اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب خدا کے اذن و حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے۔ غرقابی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ میرا پروردگار مومنین کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا اور ان پر بیحد مہربان ہے۔ وہ اپنے فضل سے ہم کو صحیح سلامت اتارے گا۔ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کشتی وغیرہ پر سوار ہوتے وقت ”بِسْمِ اللہ” کہنا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ (کشتی) ان کو لے کر پہاڑ جیسی لہروں میں چلی اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ (اس سے ) کنارے تھا، اے میرے بیٹے !ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔ (۴۲)
تشریح: یعنی کشتی پہاڑ جیسی موجوں کو چیرتی پھاڑتی بے خوف و خطر چلی جا رہی تھی۔ سوار ہونے کے بعد نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے ”یام” (کنعان) کو جو اپنے بھائی وغیرہ سارے کنبہ سے کنارے ہو کر کافروں کی صحبت میں تھا، آواز دی کہ ان بد بخت کافروں کی معیت چھوڑ کر ہمارے ساتھ سوار ہو جا! تاکہ اس مصیبت عظمیٰ سے نجات پا سکے۔ (تنبیہ) یا تو نوح علیہ السلام اسے مومن خیال کرتے تھے ، اس لیے آواز دی خواہ واقعہ میں مومن نہ ہو یا کافر جانتے ہوں مگر یہ توقع ہو گی کہ ان ہولناک نشانات کو دیکھ کر مسلمان ہو جائے گا۔ یا ”واہلک” کے عموم میں داخل سمجھ کر شفقت پدری کے جوش سے ایسا کیا ہو، اور ”الا من سبق علیہ القول” کو مجمل ہونے کی وجہ سے اس پر منطبق نہ سمجھتے ہوں۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا میں کسی پہاڑ کی طرف جلدی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، اس نے کہا آج کوئی بچانے والا نہیں اللہ کے حکم سے سوائے ا سکے جس پر وہ رحم کرے ، اور ان کے درمیان موج آ گئی (حائل ہو گئی) تووہ بھی ڈوبنے والوں میں (شامل) ہو گیا۔ (۴۳)
تشریح: وہ اپنے جہل و غباوت سے ابھی یہ خیال کر رہا تھا کہ جس طرح معمولی سیلابوں میں بعض اوقات کسی بلندی پر چڑھ کر آدمی جان بچا لیتا ہے ، میں بھی کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لوں گا۔
قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ: کس خبط میں پڑا ہے۔ یہ معمولی سیلاب نہیں۔ عذاب الٰہی کا طوفان ہے۔ پہاڑ کی کیا حقیقت کوئی چیز آج عذاب سے نہیں بچا سکتی ہاں خدا ہی کسی پر رحم کرے تو بچ سکتا ہے مگر اس ہنگامہ دار و گیر اور مقام انتقام میں کٹر مجرموں پر رحم کیسا؟ باپ بیٹے کی گفتگو پوری نہ ہوئی تھی کہ پانی کی ایک موج نے درمیان میں حائل ہو کر ہمیشہ کے لیے دونوں کو جدا کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور کہا گیا اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا، اور پانی کو خشک کر دیا گیا، اور تمام ہو گیا کام اور (کشتی) جا لگی جودی پہاڑ پر، اور کہا دوری (لعنت) ہو ظالم لوگوں کے لئے۔ (۴۴)
تشریح:ایک مدت تک اس قدر پانی برسا گویا آسمان کے دہانے کھل گئے اور زمین کے پردے پھٹ گئے۔ درخت اور پہاڑیاں تک پانی میں چھپ گئیں۔ اصحاب سفینہ کے سوا تمام لوگ جن کے حق میں نوح علیہ السلام نے دعا کی تھی ”رَبِّ لَا َتذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا” (نوح، رکوع٢، آیت :٢٦) غرق ہو گئے۔ اس وقت خداوند قدوس نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی نگل جا! اور بدل کو فرمایا کہ تھم جا! پھر کیا مجال تھی کہ دونوں اس کے امتثال حکم میں ایک لمحہ کی تاخیر کرتے۔ چنانچہ پانی خشک ہونا شروع ہو گیا۔ کشتی ”جودی” پہاڑ پر جا لگی جو بعض کے نزدیک موصل میں تھا۔ اور جو کام خدا نے چاہا (یعنی مجرمین کو سزا دینا) وہ پورا ہو چکا۔ ظالموں کے حق میں کہہ دیا گیا کہ خدا کی رحمت سے دور ہو کر ہمیشہ کے لیے مصیبت و ہلاکت کے غار میں پڑے رہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور پکارا نوح نے اپنے رب کو، پس اس نے کہا اے میرے رب، بیشک میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے ، اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو حاکموں میں سب سے بڑا حاکم ہے۔ (۴۵)
تشریح:یعنی آپ کو ہر چیز پر قدرت ہے اگر چاہیں تواسے ایمان کی توفیق دے دیں اور پھر ایمان والوں کے حق میں آپ کا جو وعدہ ہے وہ اس کے حق میں بھی پورا ہو جائے۔
(توضیح القرآن)
اس نے فرمایا، اے نوح بیشک وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں، بیشک اس کے عمل ناشائستہ ہیں، سو مجھ سے ایسی بات کا سوال نہ کر جس کا تجھے علم نہیں، بیشک میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو نادانوں میں سے (نہ) ہو جائے۔ (۴۶)
تشریح: جواب ملا کہ تمہارا پہلا ہی مقدمہ (اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ) غلط ہے۔ جس اہل کے بچانے کا وعدہ تھا اس میں یہ داخل نہیں۔ کیونکہ اس کے کرتوت بہت خراب ہیں نیز ”اِلَّامَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلَ” کے مصداق کا تم کو کچھ علم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں۔ پھر جس چیز کا علم تم نہیں رکھتے اس کی نسبت ایسے محاجہ کے رنگ میں سوال یا درخواست کرنا تمہارے لیے زیبا نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میرے رب! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی بات کاسوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو، اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور مجھ پر رحم نہ کرے تومیں نقصان پانے والوں میں سے ہو جاؤں۔ (۴۷)
تشریح: حضرت نوح کانپ اٹھے اور توبہ کی، لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسانہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندہ کو کیا مقدور ہے۔ چاہیے اس کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو اور دل میں عزم نہ کرنے کا رکھے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام وغیرہ کی توبہ کے جو الفاظ قرآن میں نقل ہوئے ہیں ان میں یہ ہی ادب ملحوظ رہا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کہا گیا، اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اتر جا ؤ اور برکتیں ہوں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں اور کچھ گروہ ہیں کہ ہم انہیں جلد (دنیا میں) فائدہ دیں گے ، پھر انہیں ہم سے پہنچے گا عذاب دردناک۔ (۴۸)
تشریح:یعنی کشتی سے ”جودی” پر۔ پھر ”جودی” سے زمین پر اترے۔ برکتیں اور سلامتی آئندہ تم پر اور ان اقوام پر رہے گی جو تمہارے ساتھیوں سے پیدا ہونے والی ہیں۔ فی الحال جو زمین طوفان سے بالکل اجڑ گئی ہے خدا دوبارہ آباد کر دے گا اور اس کی رونق و برکت پھر عود کر آئے گی۔ ”سلامت” کے لفظ سے گویا حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ پھر ساری نوع انسانی پر قیامت سے پہلے ایسی عام ہلاکت نہ آئے گی، مگر بعضے فرقے ہلاک ہوں گے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ غیب کی خبریں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں، نہ تم ان کو جانتے تھے اس سے پہلے اور نہ تمہاری قوم (جانتی تھی) پس صبر کرو بیشک پرہیز گاروں کا انجام اچھا ہے۔ (۴۹)
تشریح:یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں۔
جیسے نوح اور ان کے رفقاء کا انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (کو بھیجا) اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، ا سکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تم صرف جھوٹ باندھتے ہو (افترا کرتے ہو)۔ (۵۰)
تشریح:قوم عاد کا مختصر تعارف سورہ اعراف (۷۔ ۶۵) میں گزر چکا ہے۔
(توضیح القرآن)
اے میری قوم! اس پر میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ اسی پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر کیا تم سمجھتے نہیں؟ (۵۱)
تشریح:یعنی تمہارے مال کی مجھے ضرورت نہیں۔ میرا پیدا کرنے والا ہی تمام دنیاوی ضروریات اور اخروی اجرو ثواب کا کفیل ہے ، یہ بات ہر ایک پیغمبر نے اپنی قوم سے کہی تاکہ نصیحت بے لوث اور موثر ہو۔ لوگ ان کی محنت کو دنیاوی طمع پر محمول نہ کریں۔
اس قدر غبی ہو، اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے کہ ایک شخص بے طمع بے غرض، محض درد مندی اور خیر خواہی سے تمہاری فلاح دارین کی بات کہتا ہے۔ تم اسے دشمن اور بدخواہ سمجھ کر دست و گریباں ہوتے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم ! اپنے رب سے بخشش مانگو، پھراس کی طرف رجوع کرو (توبہ کرو) وہ تم پر آسمان سے زور کی بارش بھیجے گا، اور تمہیں قوت پر قوت بڑھائے گا اور مجرم ہو کر روگردانی نہ کرو۔ (۵۲)
تشریح:شروع میں اللہ تعالی نے انہیں قحط میں مبتلا فرما دیا تھا، تاکہ وہ اپنی غفلت سے کچھ ہوش میں آئیں، اس موقع پر حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک تازیانہ ہے اور اگر اب بھی تم بت پرستی سے باز آ جاؤ تو یہ قحط تم سے دور ہو سکتا ہے اور اللہ تعالی تمہیں بارشوں سے نہال کر سکتا ہے۔
(توضیح القرآن)
وہ بولے اے ہود!تو ہمارے پاس کوئی سند لے کر نہیں آیا، اور ہم چھوڑنے والے نہیں اپنے معبودوں کو تیرے کہنے سے اور ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں۔ (۵۳)
تشریح: یہ ان کی کھلی ہٹ دھرمی تھی جو کہتے تھے کہ آپ کوئی واضح سند اور دلیل اپنی صداقت کی نہیں لائے۔ خدا جسے پیغمبری کے عہدہ پر فائز کرے ، ضرور ہے کہ اس کو تقرر کی سند اور پروانہ عطا فرمائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جو نبی مبعوث ہوا اس کے ساتھ ایسے واضح نشان بھیجے گئے جس پر آدمی ایمان لانا چاہیں تو لا سکتے ہیں۔ اس لیے بالیقین کہا جا سکتا ہے کہ ہود علیہ السلام نے نشان پیش کیے ہوں گے ، مگر وہ لوگ ہٹ دھرمی اور بے حیائی سے یہ ہی کہتے رہے کہ آپ کوئی کھلا ہوا نشان نہیں لائے (شاید یہ مراد ہو کہ ایسا نشان نہ لائے جو سب کی گردنیں پکڑ کر ایمان لانے پر مجبور کر دے ) بہرحال ہم محض تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ نہ کبھی تیری رسالت پر ایمان لا سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ہم یہی کہتے ہیں کہ تجھے آسیب پہنچایا ہے ہمارے کسی معبود نے بری طرح، اس نے کہا بیشک میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم (بھی) گواہ رہو، میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک کرتے ہو۔ (۵۴)
تشریح:یعنی تم ہمارے جن بتوں کی خدائی کا انکار کرتے ہو ان میں سے کسی نے تم سے ناراض ہو کر تم پر آسیب مسلط کر دیا ہے ، جس کے نتیجے میں تم (معاذاللہ) ہوش کھو بیٹھے ہو۔
(توضیح القرآن)
حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: سنو میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں اور تم سب بھی اس پر گواہ رہو کہ میں تمہارے جھوٹے دیوتاؤں سے قطعاً بیزار ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا، سو میرے بارہ میں سب مکر (بری تدبیر) کر لو، پھر مجھے مہلت نہ دو۔ (۵۵)
تشریح:تم سب جمع ہو کر جو برائی مجھے پہنچا سکتے ہو پہنچاؤ نہ ذرا کوتاہی کرو نہ ایک منٹ کی مجھے مہلت دو۔
(تفسیرعثمانی)
میں نے اللہ پر بھروسہ کیا (جو) میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے ، کوئی چلنے (پھرنے ) والا نہیں مگر وہ اس کو چوٹی سے پکڑ نے والا ہے (قبضہ میں لئے ہوئے ہے ) بیشک میرا رب ہے راستہ پرسیدھے۔ (۵۶)
تشریح: اور خوب سمجھ لو کہ میرا بھروسہ خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ پر ہے جو میرا رب ہے اور وہی تمہارا بھی مالک و حاکم ہے۔ گو بد فہمی سے تم نہیں سمجھتے۔ نہ صرف میں اور تم بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز جو زمین پر چلتی ہے خالص اس کے قبضہ اور تصرف میں ہے گویا ان کے سر کے بال اس کے ہاتھ میں ہیں۔ جدھر چاہے پکڑ کر کھینچے اور پھیر دے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے قبضہ اختیار سے نکل کر بھاگ جائے۔ نہ ظالم اس کی گرفت سے چھوٹ سکتے ہیں نہ سچے اس کی پناہ میں رہ کر رسوا ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ میرا پروردگار عدل و انصاف کی سیدھی راہ پر ہے اس کے ہاں نہ ظلم ہے نہ بے موقع انعام، اپنے بندوں کو نیکی اور خیر کی جو سیدھی راہ اس نے بتلائی، بیشک اسی پر چلنے سے وہ ملتا ہے اور اس پر چلنے والوں کی حفاظت کرنے کے لیے خود ہر وقت وہاں موجود ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر تم روگردانی کرو گے توجس کے ساتھ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا وہ میں تمہیں پہنچا چکا، اور قائم مقام کر دے گا میرا رب تمہارے سوا کسی اور قوم کو، اور تم ا سکا کچھ نہ بگاڑسکو گے ، بیشک میرا رب ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۵۷)
تشریح: یعنی ایسی صاف اور کھری کھری باتیں سن کر بھی نہ مانو گے تو اب میرا کچھ نقصان نہیں۔ میں فرض تبلیغ پوری طرح ادا کر چکا۔ تم اپنی فکر کر لو۔ ضرور ہے کہ اس قسم کی ہٹ دھرمی اور تعصب و عناد پر آسمان سے عذاب آئے جو تم کو ہلاک کر ڈالے۔ خدا کی زمین تمہاری تباہی سے ویران نہ ہو گی۔ وہ دوسرے لوگوں کو تمہارے اموال وغیرہ کا وارث بنا دے گا۔ تمہارا قصہ ختم کر دینے سے یاد رکھو خدا کا یا اس کے پیغمبروں کا کچھ نہیں بگڑتا نہ اس کا ملک خراب ہوتا ہے۔ جب وہ ہر چیز کا محافظ و نگہبان ہے تو ہر قابل حفاظت چیز کی حفاظت اور اس کے سامان کی حفاظت اپنی قدرت کاملہ سے کر دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ہمارا حکم آیا، ہم نے ہود کو اور جو اس کی قوم اس کے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت سے بچا لیا، اور ہم نے انہیں بچا لیا سخت عذاب سے۔ (۵۸)
تشریح: یعنی سات رات اور آٹھ دن مسلسل آندھی کا طوفان آیا جیسا کہ سورہ ”اعراف” میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ مکان گر گئے چھتیں اڑ گئیں، درخت جڑ سے اکھڑ کر کہیں کے کہیں جا پڑے۔ ہوا ایسی مسموم تھی کہ آدمیوں کی ناک میں داخل ہو کر نیچے سے نکل جاتی اور جسم کو پارہ پارہ کر ڈالتی تھی۔ اس ہولناک عذاب سے ہم نے ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو جو آخر میں چار ہزار تک پہنچ گئے تھے بالکل محفوظ رکھا اور ایمان و عمل صالح کی بدولت آخرت کے بھاری عذاب سے بھی ان کو نجات دے دی۔
(تفسیرعثمانی)
اور یہ عاد تھے اور انہوں نے اپنے رب کی کی آیتوں کا انکار کیا، اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کی، اور ہر سرکش ضدی کی پیروی کی۔ (۵۹)
تشریح:یعنی ان کے کھنڈرات کو چشم عبرت سے دیکھو کہ یہ وہ قوم ”عاد” تھی جن کے بڑوں نے بہت طمطراق سے اپنے پروردگار کی باتوں کا مقابلہ کیا اور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی۔ اور چھوٹوں نے بڑے شیطانوں کی پیروی کی۔ آخر دونوں تباہ و برباد ہوئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اس دنیا میں اور روزِ قیامت، یاد رکھو !عاد اپنے رب کے منکر ہوئے ، یاد رکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے۔ (۶۰)
تشریح:یعنی خدا کی لعنت (پھٹکار) دنیا میں ان کے پیچھے لگا دی گئی کہ جہاں جائیں ساتھ جائے اور قیامت تک جہاں ان کا ذکر ہو لعنت کے ساتھ ہو، بلکہ قیامت کے بعد بھی وہ ان کا پیچھا نہ چھوڑے گی۔ لعنت کا طوق ہمیشہ ان کے گلے میں پڑا رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو ( بھیجا) اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، اور تمہیں اس میں بسایا، پس اس سے بخشش مانگو، پھر اس سے توبہ کرو، بیشک میرا رب نزدیک ہے ، قبول کرنے والا ے۔ (۶۱)
قوم ثمود اور اس کے واقعے کا مختصر تعارف اور تذکرہ سورۂ اعراف (۷۔ ۷۳) میں گزر چکا ہے۔
(توضیح القرآن)
وہ بولے اے صالح! تو ہمارے درمیان اس سے قبل مرکز امید تھا (تجھ سے بڑی امیدیں تھیں) کیا تو ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم اس کی پرستش کریں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے ، توجس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس میں ہم قوی شبہ میں ہیں۔ (۶۲)
تشریح:اس سے صاف واضح ہے کہ نبوت کے اعلان سے پہلے حضرت صالح علیہ السلام کو پوری قوم بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم نے انہیں اپنا سردار یا بادشاہ بنانے کا ارادہ کیا تھا۔
(توضیح القرآن)
اس نے کہا اے میری قوم! تم کیا دیکھتے ہو (بھلا دیکھو تو) اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت دی ہے ، تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں، مجھے اللہ سے کون بچائے گا؟تم میرے لئے نقصان کے سوا کچھ نہیں بڑھاتے۔ (۶۳)
تشریح: یعنی تمہارے شک و شبہ کی وجہ سے میں ایک صاف راستہ کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ خدا نے مجھ کو سمجھ دی اور اپنی رحمت عظیمہ سے منصب پیغمبری عطا کیا۔ اب اگر فرض کیجئے میں اس کی نافرمانی کرنے لگوں اور جن چیزوں کے پہنچانے کا حکم ہے نہ پہنچاؤں تو مجھ کو اس کی سزا سے کون بچا لے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی ہے ، تمہارے لئے نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی (پھرے ) اور اس کو نہ چھوؤ (نہ پہنچاؤ) کوئی برائی (نقصان) پس تمہیں بہت جلد عذاب پکڑ لے گا۔ (۶۴)
پھر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تواس (صالح) نے کہا تم اپنے گھروں میں برت لو تین دن، اور یہ جھوٹا نہ ہونے والا وعدہ ہے (پورا ہو کر رہے گا)۔ (۶۵)
پھر جب ہمارا حکم آیا، ہم نے صالح کو بچا لیا اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت (کے ذریعے ) اور اس دن کی رسوائی سے ، بیشک تمہارا رب قوی غالب ہے۔ (۶۶)
اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ پکڑا، پس انہوں نے صبح کی (صبح کے وقت) اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (۶۷)
گویا وہ کبھی یہاں بسے ہی نہ تھے ، یاد رکھو ! بیشک قوم ثمود اپنے رب کے منکر ہوئے۔ یاد رکھو!ثمود پر پھٹکار ہے۔ (۶۸)
تشریح:حضرت صالح علیہ السلام سے قوم نے معجزہ طلب کیا تھا۔ وہ انہیں دکھلا دیا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل اور الفاظ کی تشریح سورہ ”اعراف” میں آٹھویں پارہ کے ختم پر گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ کر لی جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہمارے فرشتہ البتہ ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ، وہ سلام بولے ، اس (ابراہیم) نے سلام کہا، پھر اس نے دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ (۶۹)
تشریح: اس سورت کے قصص کی ترتیب ”اعراف” کی ترتیب کے موافق ہے۔ صرف قوم لوط کے قصہ سے پہلے یہاں ابراہیم علیہ السلام کا تھوڑا سا قصہ بیان فرمایا ہے۔ مگر تعبیر ایسی رکھی جو ظاہر کرتی ہے کہ مقصود اصلی لوط علیہ السلام کا قصہ بیان کرنا ہے چونکہ اس میں اور ابراہیم کے قصہ میں کئی طرح کی مناسبت اور تعلق پایا جاتا تھا اس لیے بطور تمہید ابراہیم کا قصہ مذکور ہوا۔ لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم کے خالہ زاد بھائی ہیں جو آپ کے ہمراہ عراق سے ہجرت کر کے آئے۔ ایک ہی جماعت فرشتوں کی دونوں کے پاس بھیجی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ تعالی نے یہ فرشتے دو کاموں کے لئے بھیجے تھے ، ایک یہ کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوشخبری دیں کہ ان کے یہاں ایک بیٹا ہو گا، یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوں گے اور ان کا دوسرا کام یہ تھا کہ وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل کریں، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری دینے کے بعد وہ حضرت لوط علیہ السلام کی بستیوں کی طرف جانے والے تھے۔
(توضیح القرآن)
بہرحال ابراہیم علیہ السلام انہیں آدمی سمجھ کر مہمان نوازی کے لیے اٹھے اور نہایت فربہ بچھڑا بھون تل کر سامنے حاضر کیا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب اس (ابراہیم) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں پہنچتے تو وہ ان سے ڈرا اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا، وہ بولے ڈرو مت، بیشک ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۷۰)
تشریح: وہ فرشتے تھے اور کچھ کھا نہیں سکتے تھے ، اس لئے انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ اگر کوئی شخص میزبان کے یہاں کھانا پیش ہونے کے بعد نہ کھائے تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ وہ کوئی دشمن ہے جو کسی بری نیت سے آیا ہے ، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوف محسوس کیا، اس موقع پر فرشتوں نے واضح کر دیا کہ وہ فرشتے ہیں، اور ان دو کاموں کے لئے بھیجے گئے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور ا س کی بیوی کھڑی ہوئی تھی تووہ ہنس پڑی سوہم نے اسے خوشخبری دی اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ (۷۱)
تشریح: یعنی حضرت سارہ جو مہمانوں کی خدمت گزاری یا اور کسی کام کے لیے وہاں کھڑی تھیں اس ڈر کے رفع ہونے سے خوش ہو کر ہنس پڑیں۔ حق تعالیٰ نے خوشی پر اور خوشیاں سنائیں کہ تجھ کو اس عمر میں بیٹا ملے گا۔ (اسحاق علیہ السلام) اور اس کی نسل سے ایک پوتا یعقوب عطا ہو گا۔ جس سے ایک بڑی بھاری قوم بنی اسرائیل اٹھنے والی ہے یہ بشارت حضرت سارہ کو شاید اس لیے سنائی گئی کہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹا (اسمٰعیل علیہ السلام) حضرت ہاجرہ کے بطن سے پہلے ہی موجود تھا۔ سارہ کو تمنا تھی کہ مجھے بھی بیٹا ملے۔ مگر بوڑھی ہو کر مایوس ہو چکی تھی۔ اس وقت یہ بشارت ملی۔ بعض علماء نے بیان کیا۔ علماء نے ”وَمِنْ وَّرَآءِ اسْحٰقَ یَعْقُوْبَ” سے استدلال کیا ہے کہ حضرت اسحاق ”ذبیح” نہ تھے۔ اسماعیل علیہ السلام تھے۔
(راجع ابن کثیر) (تفسیرعثمانی)
وہ بولی اے ہے ! کیا میرے بچہ ہو گا؟ حالانکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند بوڑھا ہے ، بیشک یہ ایک عجیب بات ہے۔ (۷۲)
وہ بولے کیا تو اللہ کے حکم سے (اللہ کی قدرت پر) تعجب کرتی ہے ؟تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں اے گھر والو! بیشک وہ خوبیوں والا، بزرگی والا ہے۔ (۷۳)
تشریح: یعنی جس گھرانے پر خدا کی اس قدر رحمتیں اور برکتیں نازل رہی ہیں اور جنہیں ہمیشہ معجزات و خوارق دیکھنے کا اتفاق ہوتا رہا، کیا ان کے لیے یہ کوئی تعجب کا مقام ہے ؟ ان کا تعجب کرنا خود قابل تعجب ہے۔ انہیں لائق ہے کہ بشارت سن کر تعجب کی جگہ خدا کی تحمید و تمجید کریں کہ سب بڑائیاں اور خوبیاں اسی کی ذات میں جمع ہیں۔ (تنبیہ) بعض محققین نے لکھا ہے کہ نمازوں میں جو درود شریف پڑھتے ہیں اس کے الفاظ میں اس آیت سے اقتباس کیا گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب ابراہیم کا خوف جاتا رہا اور اس کے پاس خوشخبری آ گئی وہ ہم سے قوم لوط (کے بارہ) میں جھگڑنے لگا۔ (۷۴)
بیشک ابراہیم بردبار، نرم دل رجوع کرنے والا ہے۔ (۷۵)
اے ابراہیم! اس سے اعراض کر (یہ خیال چھوڑ دے ) بیشک تیرے رب کا حکم آ چکا، اور بیشک ان پر نہ ٹلا جانے والا عذاب آنے والا ہے (آیا ہی چاہتا ہے )۔ (۷۶)
تشریح:ابراہیم علیہ السلام اپنی فطری شفقت، نرم خوئی اور رحم دلی سے اس قوم پر ترس کھا کر حق تعالیٰ کی جناب میں کچھ سفارش کرنا چاہتے تھے اسی کا جواب دیا کہ اس خیال کو چھوڑیے ان ظالموں کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اب خدا کا حکم واپس نہیں ہو سکتا۔ عذاب آ کر رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے وہ ان سے غمگین ہوا اور تنگدل ہوا ان ( کی طرف) سے اور بولا یہ بڑا سختی کا دن ہے۔ (۷۷)
تشریح: فرشتے نہایت حسین و جمیل بے ریش نوجوانوں کی شکل میں تھے۔ ابتداءً حضرت لوط نے نہ پہچانا کہ فرشتے ہیں۔ معمولی مہمان سمجھے۔ ادھر اس قوم کی بے حیائی اور خوئے بد معلوم تھی۔ سخت فکر مند اور تنگ دل ہوئے کہ یہ بدمعاش مہمانوں کا پیچھا کریں گے۔ مہمانوں کو چھوڑنا بھی مشکل اور ان خبیثوں کے ہاتھوں سے چھڑانا بھی دشوار، گویا ساری قوم سے لڑائی مول لینا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس کے پاس اس کی قوم دوڑتی ہوئی آئی، اور وہ اس سے قبل برے کام کرتے تھے ، اس نے کہا اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں (موجود) ہیں، یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں پس اللہ سے ڈرو، اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک آدمی (بھی) نیک چلن نہیں؟۔ (۷۸)
تشریح: یعنی اس قوم کو نامعقول حرکتوں اور خلاف فطرت فواحش کی جو عادت پڑی ہوئی تھی کہاں چین سے بیٹھنے دیتی، وہ ایسے خوبصورت لڑکوں کی خبر پاتے ہی نہایت بے حیائی کے ساتھ لوط علیہ السلام کے مکان پر اندھا دھند چڑھ دوڑے اور پوری قوت و شدت سے مطالبہ کیا کہ مہمان ان کے حوالے کر دیئے جائیں کیونکہ ہم پہلے ہی منع کر چکے ہیں کہ تم کسی مرد کو اپنا مہمان نہ بنایا کرو۔ یہاں آنے والے مہمان کو ہم پر چھوڑ دو ہم جو چاہیں کریں۔
حضرت لوط نے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے ہر قسم کی کوشش کی۔ آخری بات اس شہوت پرست قوم سے یہ کہی کہ ظالمو! یہ میری بیٹیاں تمہارے لیے حاضر ہیں۔ نکاح ہو جانے پر اس سے بطریق حلال تمتع کر سکتے ہو جو نہایت پاکیزہ اور شائستہ طریقہ ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہیے کہ پاک اور مشروع طریقہ کو چھوڑ کر ایسے خلاف فطرت گندے کاموں میں مبتلا ہوتے ہو کم از کم میری ہی رعایت کرو میں ان مقدس مہمانوں کے سامنے شرمندہ اور رسوا نہ ہوں۔ مہمان کی بے عزتی میزبان کی بے عزتی ہے۔ کیا تم میں ایک شخص بھی نہیں جو سیدھی سیدھی باتوں کو سمجھ کر نیکی اور تقویٰ کی راہ اختیار کرے۔
(تنبیہ) ”ہٰؤُلَآءِ بَنَاتِیْ” سے مراد عام طور پر اس قوم کی لڑکیاں ہیں جن کو تجوزا ”بیٹیاں” کہا گیا۔ کیونکہ پیغمبر امت کے حق میں روحانی باپ ہوتا ہے ، اور ویسے بھی محاور ات میں قوم کے بڑے بوڑھے سب کی لڑکیوں کو اپنی ”بیٹیاں” کہہ کر پکار سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے توتو جانتا ہے ، تیری بیٹیوں میں ہمارے لئے کوئی حق (غرض) نہیں، اور بیشک تو خوب جانتا ہے ہم کیا چاہتے ہیں ؟۔ (۷۹)
اس نے کہا کاش میرا تم پر کوئی زور ہوتا، یا میں کسی مضبوط پایہ کی پناہ لیتا۔ (۸۰)
تشریح:سدوم کی اس بستی میں حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان یا قبیلے کا کوئی آدمی نہیں تھا، وہ تو عراق کے باشندے تھے ، اور اس قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے ، سدوم کے لوگوں کو ان کی قوم بھی قرآن کریم نے اس معنی میں کہا ہے کہ وہ ان کی امت تھے جن کی طرف ان کو بھیجا گیا تھا، اس موقع پر انہوں نے انتہائی بے چارگی محسوس کی کہ اگر میرے خاندان کا کوئی فرد یہاں ہوتا تو شاید میری کچھ مدد کر سکتا۔
(توضیح القرآن)
وہ (فرشتے ) بولے اے لوط! بیشک ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں وہ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے ، سوتم اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصہ میں (راتوں رات) لے نکلو، اور مڑ کر نہ دیکھے تم میں سے تمہاری بیوی کے سوا کوئی، بیشک جوان کو پہنچے گا، اس کو پہنچنے والا ہے (پہنچ کر رہے گا)، بیشک ان پر (عذاب کے ) وعدہ کا وقت صبح ہے ، کیا صبح نزدیک نہیں؟۔ (۸۱)
تشریح: جب لوط علیہ السلام کے اضطراب و قلق کی حد ہو گئی، تب مہمانوں نے کہا کہ حضرت آپ کس فکر میں ہیں مطلق پریشان نہ ہوں، ہم خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان کو تباہ و ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں یہ خبیث ہمارا تو کیا بگاڑ سکتے آپ تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ تفاسیر میں ہے کہ وہ شریر لوگ دروازہ توڑ کر یا دیوار پھاند کر اندر گھسے جاتے تھے ، تب جبرائیل علیہ السلام نے خدا سے اجازت لے کر لوط علیہ السلام کو علیحدہ بٹھا دیا اور ایک ذرا بازو ان ملعونوں کی طرف ہلایا۔ جو سب کے سب نپٹ اندھے ہو گئے اور کہنے لگے کہ بھاگو! لوط کے مہمان تو بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں۔
صبح کو عذاب آنے والا ہے۔ تھوڑی رات رہے آپ اپنے متعلقین کو لے کر یہاں سے تشریف لے جائیے اور اپنے ہمراہیوں کو ہدایت کر دیجئے کہ جلدی کریں اور کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ ہاں تیری عورت کے وہ ساتھ نہ جائے گی یا پیچھے پھر کر دیکھے گی اسی طرح اس عذاب کی لپیٹ میں آ جائے گی جو سب قوم کو پہنچنے والا ہے۔ کہتے ہیں اسی عورت نے قوم کو مہمانوں کی آمد سے مطلع کیا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
پس جب ہمارا حکم آیا ہم نے ان کا بلند پست کر دیا (زیر و زبر کر دیا) اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر سنگریزے کے پتھر تہہ بہ تہہ (لگاتار)۔ (۸۲)
تیرے رب کے پاس نشان کئے ہوئے ہیں اور یہ نہیں ہے ظالموں سے کچھ دور۔ (۸۳)
تشریح:روایات میں ہے کہ یہ کل چار بستیاں تھیں جن میں یہ بد قماش لوگ بستے تھے ، اس ساری بستیوں کو فرشتوں نے جوں کا توں اوپر اٹھا کر زمین پر اوندھا پٹخ دیا، اور ان کا نام و نشان مٹ گیا، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بحر میت (dead sea) جسے بحر مردار بھی کہا جاتا ہے ان بستیوں کے الٹنے سے پیدا ہوا ہے ، ورنہ کسی بڑے سمندر سے اس کا رابطہ نہیں ہے ، اس کے علاوہ جس مقام پر یہ بستیاں واقع تھیں یعنی بحر مردار کے آس پاس کا علاقہ، اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ پورے کرۂ زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے ، یعنی زمین کا کوئی اور حصہ سطح سمندر سے اتنا نیچا نہیں ہے جتنا نیچا یہ ہے ، قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ ہم نے اس زمین کے اوپر والے حصے کو نیچے والے حصے میں تبدیل کر دیا، کچھ بعید نہیں کہ ان الفاظ میں اس جغرافیائی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہو اور ان کی انتہائی نچلی حرکتوں کو یہ محسوس شکل دے دی گئی ہو۔
(توضیح القرآن)
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (کو بھیجا) اس نے کہا، اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ تول میں کمی نہ کرو، بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں، اور بیشک میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۸۴)
تشریح:یہ قصہ بھی سورہ ”اعراف” میں گزر چکا، خدا نے فراغت اور آسودگی عنایت کی تو ڈرتے رہو کہیں نافرمانی سے چھن نہ جائے اور آسائش و خوشحالی سلب ہو کر دنیاوی یا اخروی عذاب مسلط نہ کر دیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم انصاف سے ماپ تول پورا کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔ (۸۵)
تشریح: یعنی اب تک جو ظلم و عدوان کا معیارو قانون تھا، اس کی اصلاح کرو، صرف ناپ تول میں نہیں بلکہ کسی چیز میں بھی لوگوں کے حقوق تلف مت کرو، شرک و کفر سے یا کم ناپنے تولنے سے یادوسری طرح اتلاف حقوق اور ظلم و ستم کر کے زمین میں فساد مت مچاؤ۔ کہتے ہیں وہ لوگ ڈکیتی ڈالتے تھے اور امانت میں خیانت کرتے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ کا دیا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں۔ (۸۶)
تشریح:ایک ایماندار کے لیے اللہ کا دیا ہوا جو ٹھیک ٹھیک حقوق ادا کر کے بچ رہے گو قلیل ہو، اس کثیر سے بہتر ہے جو حرام طریقہ سے حاصل کیا جائے یا جس میں لوگوں کے حقوق مارے جائیں۔ مال حلال میں جو ٹھیک ناپ تول کر لیا جائے فی الحال برکت ہوتی ہے ، اور خدا کے یہاں اجر ملتا ہے۔
میں نے تم کو نصیحت کر دی۔ آگے اس کا ذمہ دار نہیں کہ تم سے زبردستی عمل کرا کے چھوڑوں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے (سکھاتی ہے ) کہ انہیں چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے ، یا اپنے مالوں میں جو چاہیں نہ کریں، (طنزاً بولے ) بیشک تم ہی با وقار، نیک چلن ہو۔ (۸۷)
تشریح:یہ بطور استہزاء و تمسخر کہہ رہے تھے ، کہ بس زیادہ بزرگ نہ بنئے۔ کیا ساری قوم میں ایک آپ ہی بڑے عقلمند، با وقار اور نیک چلن رہ گئے ہیں؟ باقی ہم اور ہمارے بزرگ سب جاہل اور احمق ہی رہے ؟ حضرت شعیب علیہ السلام نماز بہت کثرت سے پڑھتے تھے ، کہنے لگے کہ شاید آپ کی نماز یہ حکم دیتی ہے کہ ہم سے باپ دادوں کا پرانا دین چھڑوا دیں اور ہمارے اموال میں ہمارا مالکانہ اختیار نہ رہنے دیں۔ بس آپ اپنی نماز پڑھے جائیے ، ہمارے مذہبی و دنیاوی معاملات اور ناپ تول کے قصوں میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکوں کے کام آپ نہ کر سکیں تو انہیں کو چڑانے لگیں۔ یہ ہی خصلت ہے کفر کی۔ ” بعض مفسرین نے ”اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدٌ” کو استہزاء پر نہیں۔ واقعیت پر حمل کیا ہے۔ یعنی تو ایک سمجھ دار، باوقار، اور نیک چلن آدمی ہے۔ پھر ایسی بے موقع باتیں کیوں کرنے لگا۔ جیسے صالح علیہ السلام کو کہا تھا ”قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوّاً قَبْلَ ہٰذَا اَتَنْہَا نَا اَنْ نَعْبُدَمَایَعْبُدُ اٰبَاؤُنَا” الخ
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میری قوم! تمہارا کیا خیال ہے ؟میں اپنے رب کی طرف سے اگر روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے اچھی روزی دی ہے ، اور میں نہیں چاہتا کہ میں (خود) اس کے خلاف کروں جس سے تمہیں روکتا ہوں، جس قدر مجھ سے ہو سکے میں صرف اصلاح چاہتا ہوں اور میری توفیق صرف اللہ ہی سے ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ا سی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (۸۸)
تشریح:یعنی جن بری باتوں سے تم کو روکتا ہوں میری یہ خواہش نہیں کہ تم سے علیحدہ ہو کر خود ان کا ارتکاب کروں مثلاً تمہیں تارک الدنیا بناؤں اور خود دنیا سمیٹ کر گھر میں بھر لوں، نہیں جو نصیحت تم کو کرتا ہوں میں تم سے پہلے اس کا پابند ہوں، تم یہ الزام مجھ پر نہیں رکھ سکتے کہ میری نصیحت کسی خود غرضی اور ہوا پرستی پر محمول ہے۔
میری تمام تر کوشش یہ ہے کہ تمہاری دینی و دنیاوی حالت درست ہو جائے۔ موجودہ ردی حالت سے نکل کر بام ایمان و عرفان پر چڑھنے کی کوشش کرو۔ اس مقصد اصلاح کے سوا دوسرا مقصد نہیں، جسے میں اپنے مقدور و استطاعت کے موافق کسی حال نہیں چھوڑ سکتا، باقی یہ کہ میری بات بن آئے اور اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاؤں، یہ سب خداوند قدوس کے قبضہ میں ہے۔ اسی کی امداد و توفیق سے سب کام انجام پا سکتے ہیں، میرا بھروسہ اسی پر ہے اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم تمہیں میری ضد آمادہ نہ کر دے کہ تمہیں (عذاب) پہنچے اس جیسا جو پہنچا قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو، اور قوم لوط نہیں ہے تم سے کچھ دور۔ (۸۹)
تشریح: یعنی میری ضد اور عداوت کے جوش میں ایسی حرکتیں مت کرنا جو تم کو گزشتہ اقوام کی طرح سخت تباہ کن عذاب کا مستحق بنا دیں، نوح، ہود اور صالح علیہم السلام کی امتوں پر تکذیب و عداوت کی بدولت جو عذاب آئے وہ پوشیدہ نہیں، اور لوط علیہ السلام کی قوم کا قصہ تو ان سب کے بعد ماضی قریب میں ہوا ہے اس کی یاد تمہارے حافظہ میں تازہ ہو گی ان نظائر کو فراموش مت کرو۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب رحم کرنے والا محبت والا ہے۔ (۹۰)
تشریح: کیسا ہی پرانا اور کٹر مجرم ہو جب صدق دل سے اس کی بارگاہ میں رجوع ہو کر معافی چاہے وہ اپنی مہربانی سے معاف کر دیتا ہے۔ بلکہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے کہا اے شعیب تو جو کہتا ہے ان سے ہم بہت (سی باتیں ) نہیں سمجھتے اور بیشک ہم تجھے دیکھتے ہیں اپنے درمیان کمزور اور تیرا کنبہ (بھائی بند) نہ ہوتے توہم تجھ پر پتھراؤ کرتے اور تو ہم پر غالب نہیں۔ (۹۱)
تشریح: یعنی تیرے کنبہ کے لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں ان کا خیال آتا ہے ورنہ اب تک تجھے سنگسار کر ڈالتے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میری قوم !کیا میرا کنبہ تم پر اللہ سے زیادہ زور والا ہے ؟اور تم نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے ، بیشک میرا رب جو تم کرتے ہو اسے احاطہ (قابو) کئے ہوئے ہے۔ (۹۲)
تشریح: یعنی افسوس اور تعجب ہے کہ خاندان کی وجہ سے میری رعایت کرتے ہو اس وجہ سے نہیں کرتے کہ میں خدا کا بھیجا ہوا ہوں اور صاف و صریح نشانات اپنی سچائی کے دکھلا رہا ہوں گویا تمہاری نگاہ میں میرے خاندان کی عزت اور اس کا دباؤ خداوند قدوس سے زیادہ ہے۔ خدا کی عظمت و جلال کو ایسا بھلا دیا کہ کبھی تمہیں تصور بھی نہیں آتا۔ جو قوم خدا تعالیٰ کو بھلا کر (معاذاللہ) پس پشت ڈال دے اسے یاد رکھنا چاہیے۔ کہ اس کے تمامی افعال و اعمال خدا تعالیٰ کے علم و قدرت کے احاطہ میں ہیں۔ تم کوئی کام کرو اور کسی حالت میں ہو، ایک آن کے لیے بھی اس کے قابو سے باہر نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے میری قوم تم اپنی جگہ کام کرتے رہو میں (اپنا ) کام کرتا ہوں، تم جلد جان لو گے کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اس کورسوا کر دے گا؟اور کون جھوٹا ہے ؟اور تم انتظار کرو، بیشک میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (۹۳)
تشریح: یعنی اچھا، تم اپنی ضد اور ہٹ پر جمے رہو، میں خدا کی توفیق سے راہ ہدایت پر ثابت قدم ہوں عنقریب پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے کس کو خدا کا عذاب فضیحت کرتا ہے اور کون جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ اب ہم اور تم دونوں آسمانی فیصلہ کا انتظار کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ا سکے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت سے بچا لیا، اور جن لوگوں نے ظلم کیا انہیں چنگھاڑ نے آ لیا، سوانہوں نے صبح کی (صبح کے وقت) اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (۹۴)
گویا وہ وہاں بسے (ہی ) نہ تھے ، یاد رکھو! (رحمت سے ) دوری ہو مدین کے لئے جیسے دور ہوئے ثمود۔ (۹۵)
تشریح: یہاں قوم شعیب کا کڑک (فرشتہ کی چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور ”اعراف” میں ”رجفہ” کا لفظ آیا ہے یعنی زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔ اور سورہ شعراء میں ”عَذَابَ یَوْمِ الظُّلَّۃِ” آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کے بادل سائبان کی طرح ان پر محیط ہو گئے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ تینوں قسم کے عذاب اس قوم کے حق میں جمع کر دیئے گئے تھے ، پھر ہر سورت میں وہاں کے سیاق کے مناسب عذاب کا ذکر کیا گیا۔ ”اعراف” میں تھا کہ ان لوگوں نے شعیب سے کہا کہ ہم تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو اپنی سرزمین سے نکال دیں گے۔ وہاں بتلا دیا کہ جس زمین سے نکالنا چاہتے تھے ، اسی کے زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔ یہاں ان کے سخت گستاخانہ مقالات کا ذکر تھا، اس لیے بالمقابل آسمانی ”صیحہ” (کڑک) کا ذکر فرمایا۔ گویا عذاب الٰہی کی ایک کڑک میں ان کی سب آوازیں گم ہو گئیں۔ سورہ شعراء میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ ”فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ” یعنی اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے۔ اس کے مقابلہ میں”عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ” کا تذکرہ فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے بھیجا موسیؑ کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ۔ (۹۶)
تشریح: نشانیوں سے غالباً معجزات اور وہ نو آیتیں مراد ہیں جن کا ذکر ”وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیَاتٍ” میں ہوا ہے۔ ان میں سے معجزہ عصا کو جو نہایت ظاہر و قاہر معجزہ تھا شاید ”سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ” (واضح سند) فرمایا ”یاسُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ” سے وہ روشن دلائل مراد ہوں جو حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے خدا تعالیٰ کے وجود و توحید وغیرہ کے متعلق پیش کیے جن کا ذکر دوسرے مقامات میں آئے گا۔ اور ممکن ہے سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ سے اس کے لغوی معنی (یعنی کھلا ہوا غلبہ) مراد لیے گئے ہوں، کیونکہ فرعونیوں کے مقابلہ پر بار بار حضرت موسٰی علیہ السلام کو نمایاں غلبہ اور فتح مبین حاصل ہوتی رہی۔
(تفسیرعثمانی)
تو انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی اور فرعون کا حکم درست نہ تھا۔ (۹۷)
تشریح: یعنی کھلے کھلے نشان دیکھ کر بھی فرعونیوں نے پیغمبر خدا کی بات نہ مانی، اسی دشمن خدا کے حکم پر چلتے رہے۔ حالانکہ اس کی کوئی بات ٹھکانے کی نہ تھی، جسے مان کر انسان بھلائی حاصل کر سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے ہو گا، تووہ انہیں دوزخ میں لا اتارے گا اور برا ہے گھاٹ (ان کے ) اترنے کا مقام۔ (۹۸)
تشریح: جس طرح یہاں کفر و تکذیب میں ان کا امام تھا، قیامت کے دن بھی امام رہے گا۔ جو لوگ دنیا میں اس کی اندھی تقلید کر رہے تھے وہ اس کے پیچھے پیچھے آخر منزل (جہنم) تک پہنچ جائیں گے۔ یہ ہی وہ گھاٹ ہے جہاں ٹھنڈے پانی کی جگہ بھسم کر دینے والی آگ ملے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس (دنیا) میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن۔ برا ہے (یہ) انعام جو انہیں دیا گیا۔ (۹۹)
تشریح: یعنی رہتی دنیا تک لوگ فرعون اور فرعونیوں پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔ پھر قیامت میں ملائکۃ اللہ اور اہل موقف کی طرف سے لعنت پڑے گی۔ غرض لعنت کا سلسلہ لگاتار ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ گویا یہ انعام ہے جو ان کے کارناموں پر دیا گیا۔
(تفسیرعثمانی)
یہ بستیوں کی خبریں ہیں کہ ہم تجھ کو بیان کرتے ہیں ان میں کچھ موجود ہیں، اور (کچھ کی جڑیں) کٹ چکی ہیں۔ (۱۰۰)
تشریح: یعنی پچھلی قوموں کے قصے جو تم کو سنائے گئے کہ کس طرح انہوں نے پیغمبروں کی تکذیب اور گستاخیاں کیں، پھر کس طرح تباہ ہوئے ، ان میں سے بعض کی بستیاں ابھی آباد ہیں جیسے ”مصر” جو فرعون کا مقام تھا اور بعض اجڑ گئیں۔ مگر ان کے کچھ کھنڈر باقی ہیں۔ جیسے قوم لوط کی بستیاں، اور بعض کا نشان بھی صفحہ ہستی پر باقی نہ رہا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، سوان کے کچھ کام نہ آئے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے ، جب تیرے رب کا حکم آیا، اور انہیں ہلاکت کے سوا انہوں نے کچھ نہ بڑھایا۔ (۱۰۱)
تشریح: یعنی خدا نے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جس سے ظلم کا وہم ہو سکے ، جب وہ جرائم کے ارتکاب میں حد سے آگے نکل گئے اور اس طرح اپنے کو کھلم کھلا سزا کا مستحق ٹھہرا دیا تب خدا کا عذاب آیا۔ پھر دیکھ لو جن معبودوں (دیوتاؤں) کا انہیں بڑا سہارا تھا اور جن سے بڑی بڑی توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ ایسی سخت مصیبت کے وقت کچھ بھی کام نہ آئے۔
باطل معبود کام کیا آتے ؟ الٹے ہلاکت کا سبب بنے۔ جب انہیں نفع و ضرر کا مالک سمجھا، امیدیں قائم کیں، چڑھاوے چڑھائے ، تعظیم اور ڈنڈوت کی، تو یہ روز بد دیکھنا پڑا۔ تکذیب انبیاء وغیرہ کا جو عذاب ہوا، شرک و بت پرستی کا عذب اس پر مزید رہا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ایسی ہی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے اور وہ ظلم کرتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ دردناک، سخت ہے۔ (۱۰۲)
تشریح:یعنی ظالموں کو بڑی حد تک مہلت دی جاتی ہے۔ جب کسی طرح باز نہیں آتے تو پکڑ کر گلا دبا دیا جاتا ہے۔ مجرم چاہے کہ تکلیف کم ہو، یا اس کی پکڑ سے چھوٹ کر بھاگ نکلے ، ایں خیال است و محال است و جنوں۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اس میں البتہ اس کے لئے نشانی ہے جو ڈرا آخرت کے عذاب سے ، یہ ایک دن ہے جس میں سب لوگ جمع ہوں گے ، اور یہ ایک دن ہے پیش ہونے (حاضری) کا۔ (۱۰۳)
تشریح:یعنی دنیا جو ”دار عمل” ہے ، جب اس میں شرک و کفر اور تکذیب انبیاء پر سزائیں ملتی ہیں اور اس قدر سخت ملتی ہیں تو یہ ایک نشان اس بات کے معلوم کرنے کا ہے کہ آخرت میں جو خالص ”دار جزاء” ہے کیا کچھ سزا ان جرائم پر ملے گی؟ اور کیا صورت رستگاری کی ہو گی۔ عقلمند آدمی کے لیے جو اپنے انجام کو سوچ کر ڈرتا رہتا ہے۔ اس چیز میں بڑی عبرت و نصیحت ہے۔
یعنی تمام دنیا کا بیک وقت فیصلہ اسی دن ہو گا جب سارے اولین و آخرین اکٹھے کیے جائیں گے اور کوئی شخص غیر حاضر نہ رہ سکے گا، گویا خدائی عدالت کی سب سے بڑی پیشی کا دن و ہی ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم پیچھے نہیں ہٹاتے (ملتوی نہیں کرتے ) مگر (صرف) ایک مقررہ مدت تک کیلئے۔ (۱۰۴)
تشریح: یعنی اللہ کے علم میں جو میعاد مقرر ہے وہ پوری ہو جائے گی تب وہ دن آئے گا، تاخیر سے یہ گمان مت کرو کہ یہ محض فرضی اور وہمی باتیں ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جب وہ دن آئے گا کوئی شخص بات نہ کر سکے گا، مگر اس کی اجازت سے ، سوکوئی ان میں بدبخت ہے ، اور کوئی خوش بخت۔ (۱۰۵)
تشریح: یعنی کوئی شخص ایسی بات جو منقول و نافع ہو بدون حکم الٰہی کے نہ کر سکے گا اور محشر کے بعض مواقف میں تو مطلقاً ایک حرف بھی اذن و اجازت کے بدون منہ سے نہ نکال سکیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
پس جو بد بخت ہے وہ دوزخ میں ہیں، ان کے لئے اس میں (گدھے کی طرح) چیخنا اور دھاڑنا ہے۔ (۱۰۶)
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، جب تک زمین اور آسمان ہیں، مگر جتنا تیرا رب چاہے ، بیشک تیرا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ (۱۰۷)
تشریح:اس سے موجودہ زمین اور آسمان مراد نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو قیامت کے ساتھ ختم ہو جائیں گے ، البتہ قرآن کریم ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں وہاں کے حالات کے مطابق دوسرے زمین وآسمان پیدا کئے جائیں گے (دیکھئے سورۂ ابراہیم ۱۴۔ ۴۸، سورۂ زمر۲۴۔ ۷۴) اور چونکہ وہ زمین وآسمان ہمیشہ رہیں گے اس لئے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ بھی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
(توضیح القرآن)
إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ :اسی قسم کا استثناء سورہ انعام (۶۔ ۱۲۸) میں بھی گزرا ہے جیسا کہ وہاں ہم نے عرض کیا تھا، اس کی ٹھیک ٹھیک مراد تو اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے ، لیکن اس سے بظاہر ایک تو یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ کسی کے عذاب و ثواب کا تمام تر فیصلہ اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے ، کسی کی فرمائش یا سفارش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ، دوسرے یہ کہ کافروں کو عذاب دینا اللہ تعالی کی کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ اگر کسی کو کفر کے باوجود عذاب سے نکالنا چاہے تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑ نے والا نہیں ہے ، یہ اور بات ہے کہ ا سکی مشیت کافروں کو ہمیشہ عذاب ہی میں رکھے ، جیسا کہ قرآن کریم کی اکثر آیات سے معلوم ہوتا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور جو لوگ خوش بخت ہیں سووہ ہمیشہ رہیں گے ، جب تک زمین اور آسمان ہیں، مگر جتنا تیرا رب چاہے ، (یہ) بخشش ہے ختم نہ ہونے والی۔ (۱۰۸)
پس ا س سے شک و شبہ میں نہ رہو جو یہ (کافر) پوجتے ہیں، وہ نہیں پوجتے مگر جیسے اس سے قبل ان کے باپ دادا پوجتے تھے ، اور بیشک ہم انہیں ان کا حصہ گھٹائے بغیر پورا پھیر دیں گے۔ (۱۰۹)
تشریح: یعنی اتنی مخلوق کا شرک و بت پرستی کے راستہ پر پڑ لینا اور اب تک سزا یاب نہ ہونا، کوئی ایسی چیز نہیں جس سے دھوکہ کھا کر آدمی شبہ میں پڑ جائے۔ یہ لوگ اپنے باپ داداؤں کی کورانہ تقلید کر رہے ہیں۔ وہ جھوٹے معبود ان کے کیا کام آئے ، جو ان کے کام آئیں گے ؟ یقیناً ان سب کو آخرت میں عذاب کا پورا حصہ ملے گا۔ جس میں کوئی کمی نہ ہو گی یا کبھی کم نہ کیا جائے گا گویا لفظ ”غَیْرَ مَنْقُوْصٍ”، ”عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ” کے مقابل ہوا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دنیا میں رزق وغیرہ کا جو حصہ مقدر ہے وہ پورا ملے گا۔ پھر شرک کی پوری سزا بھگتیں گے۔
(تفسیر عثمانی)
اور ہم نے البتہ موسیؑ کو کتاب دی، سواس میں اختلاف کیا گیا، اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی تو البتہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا، اور البتہ وہ اس (قرآن کی طرف) سے دھوکہ میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔ (۱۱۰)
تشریح: موسی علیہ السلام کو تورات دے کر بھیجا تو آپس میں پھوٹ پڑ گئی، کسی نے قبول کیا کسی نے نہ کیا۔ جس طرح آج قرآن عظیم کے متعلق یہ ہی اختلاف ہو رہا ہے۔ بیشک خدا کو قدرت تھی کہ یہ اختلاف و تفریق پیدا نہ ہونے دیتا یا پیدا ہو چکنے کے بعد تمام مکذبین کا فورا استیصال کر کے سارے جھگڑے ایک دم میں چکا دیتا۔ مگر اس کی حکمت تکوینی اس کو مقتضی نہ ہوئی۔ ایک بات اس کے یہاں پہلے سے طے شدہ ہے کہ انسان کو ایک خاص حد تک کسب و اختیار کی آزادی دے کر آزمائے کہ وہ کس راستہ پر چلتا ہے ، آیا خالق و مخلوق کا ٹھیک ٹھیک حق پہچان کر خدا کی رحمت و کرامت کا مستحق بنتا ہے یا کجروی اور غلط کاری سے فطرت صحیحہ کی راہنمائی کو خیر باد کہہ کر اپنے کو غضب و سخط کا مظہر ٹھہراتا ہے۔ ”لَیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً” اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کی ساخت ایسی بنائی کہ وہ نیکی یا بدی کے اختیار کرنے میں بالکل مجبور و مضطر نہ ہو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں خیر و شر اور نیک و بد کی باہمی آویزش جاری رہے بعدہ’ مرحوم و مغضوب علیحدہ کیے جائیں۔ تاکہ ”اِلَّامَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ” کے ساتھ ”لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ” والی بات بھی پوری ہو۔ غالبا یہی وہ کلمہ (لفظ) ہے جو اگر نہ فرما چکا ہوتا تو سب اختلاف کا ایک دم خاتمہ کر دیا جاتا۔ عام لوگ ان حکمتوں کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ آئندہ بھی ان اختلاف کا فیصلہ ہو گا یا نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک جب (وقت آئے گا) سب کو پورا پورا بدلہ دے گا تیرا رب ان کے اعمال کا، بیشک جو وہ کرتے ہیں وہ اس سے باخبر ہے۔ (۱۱۱)
تشریح: یعنی ابھی وقت نہیں آیا کہ ہر ایک کے عمل کا پورا بھگتان کیا جائے۔ لیکن جب وقت آئے گا تو یقیناً ذرہ ذرہ کا حساب کر دیا جائے گا۔ تاخیر عذاب سے یہ نہ سمجھو کہ اسے تمہارے اعمال کی خبر نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
سو تم قائم رہو جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے ، اور وہ بھی جس نے توبہ کی تمہارے ساتھ، اور سرکشی نہ کرو، بیشک جو تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ (۱۱۲)
تشریح: آپ ان مشرکین کی جھنجھٹ میں نہ پڑیے۔ آپ کو اور ان لوگوں کو جنہوں نے کفر وغیرہ سے توبہ کر کے آپ کی معیت اختیار کر لی اور حق تعالیٰ کی طرف رجوع کیا، احکام الٰہیہ پر نہایت پامردی اور استقلال کے ساتھ ہمیشہ جمے رہنا چاہیے۔ عقائد، اخلاق، عبادات، معاملات، دعوت و تبلیغ وغیرہ، ہر چیز میں افراط و تفریط سے علیحدہ ہو کر توسط و استقامت کی راہ پر سیدھے چلے جاؤ۔ کسی معاملہ میں افراط یا تفریط کی جانب اختیار کر کے حد سے نہ نکلو، اور یقین رکھو کہ حق تعالیٰ ہر آن تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، پس تمہیں آگ چھوئے گی (آ لگے گی)، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں، پھر مدد نہ دئے جاؤ گے (مدد نہ پاؤ گے )۔ (۱۱۳)
تشریح: پہلے ”لَاتَطْغَوْا” میں حد سے نکلنے کو منع کیا تھا، اب بتلاتے ہیں کہ جو لوگ ظالم (حد سے نکلنے والے ) ہیں، ان کی طرف تمہارا ذرا سا میلان اور جھکاؤ بھی نہ ہو۔ ان کی موالات، مصاحبت، تعظیم و تکریم، مدح و ثنا، ظاہری تشبہ، اشتراک عمل، ہر بات سے حسب مقدور محترز رہو، مبادا آگ کی لپٹ تم کو نہ لگ جائے۔ پھر نہ خدا کے سوا تم کو کوئی مددگار ملے گا اور نہ خدا کی طرف سے کوئی مدد پہنچے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں طرف (صبح و شام) اور رات کے کچھ حصہ میں، بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں برائیوں کو، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے۔ (۱۱۴)
تشریح: دن کے دونوں سروں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں اور بعض مفسرین نے ان سے فجر اور مغرب کی نمازیں مراد لی ہیں، اور رات کے حصوں کی نماز سے مراد مغرب، عشاء اور تہجد کی نمازیں ہیں۔
إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ :برائیوں سے یہاں مراد صغیرہ گناہ ہیں، قرآن وسنت کے بہت سے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان سے جو صغیرہ گناہ سرزد ہوتے ہیں ان کا کفارہ ان نیک کاموں سے ہوتا رہتا ہے جو انسان ان کے بعد کرتا ہے ، چنانچہ وضو نماز اور دوسرے تمام کاموں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں، سورہ نساء (۴۔ ۳۱) میں یہ مضمون گزر چکا ہے کہ:اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کر دیں گے۔
(توضیح القرآن)
اور صبر کرو بیشک اللہ اجر ضائع نہیں کرتا نیکی کرنے والوں کا۔ (۱۱۵)
تشریح:قرآن کریم میں غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و اعانت حاصل کرنے میں دو چیزوں کو خاص دخل ہے۔ صلوٰۃ اور صبروَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ (بقرہ) یہاں بھی ”صلوٰۃ کے بعد ”صبر” کا حکم فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ مومن خدا کی عبادت و فرمانبرداری میں ثابت قدم رہے اور کسی دکھ درد کی پروا نہ کرے ، تب خدا کی مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے ، اس کے یہاں کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں ہوتا، بلکہ اندازہ سے زائد ملتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس تم سے پہلے جو قومیں ہوئیں ان میں صاحبان خیر کیوں نہ ہوئے ، کہ روکتے زمین میں فساد سے ، مگر تھوڑے سے جنہیں ہم نے ان سے بچا لیا اور ظالم (ان ہی لذتوں کے ) پیچھے پڑے رہے جو انہیں دی گئیں تھیں، اور وہ گنہگار تھے۔ (۱۱۶)
تشریح:یہ پچھلوں کا حال سنا کر امت محمدیہ کو ابھارا گیا ہے کہ ان میں ”امر بالمعروف” اور ”نہی عن المنکر” کرنے والے بکثرت موجود رہنے چاہیں۔ گزشتہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ عام طور پر لوگ عیش و عشرت کے نشہ میں چور ہو کر جرائم کا ارتکاب کرتے رہے اور بڑے با اثر آدمی جن میں کوئی اثر خیر کا باقی نہیں تھا انہوں نے منع کرنا چھوڑ دیا، اس طرح کفر و عصیان اور ظلم و طغیان سے دنیا کی جو حالت بگڑ رہی تھی اس کا سنوارنے والا کوئی نہ رہا۔ چند گنتی کے آدمیوں نے ”امر بالمعروف” کی کچھ آواز بلند کی مگر نقار خانہ میں طوطی کی صدا کون سنتا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منع کرنے والے عذاب سے محفوظ رہے باقی سب قوم تباہ ہو گئی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ”نیک لوگ غالب ہوتے تو قوم ہلاک نہ ہوتی۔ تھوڑے تھے سو آپ بچ گئے۔ ‘ حدیث صحیح میں ہے کہ جب ظالم کا ہاتھ پکڑ کر ظلم سے نہ روکا جائے اور لوگ ”امر بالمعروف” و ”نہی عن المنکر” ترک کر بیٹھیں، تو قریب ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا عام عذاب بھیجے جو کسی کو نہ چھوڑے (العیاذ باللہ)۔
(تفسیرعثمانی)
اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے جب کہ وہاں کے لوگ نیکو کار ہیں۔ (۱۱۷)
تشریح:یعنی جس بستی کے لوگ اپنی حالت درست کرنے کی طرف متوجہ ہوں، نیکی کو رواج دیں، ظلم و فساد کو روکیں تو خداوند قدوس کی یہ شان نہیں کہ خواہ مخواہ انہیں زبردستی پکڑ کر ہلاک کر دے۔ عذاب اسی وقت آتا ہے جب لوگ کفر و عصیان یا ظلم و طغیان میں حد سے نکل جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک (ہی) امت کر دیتا اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ (۱۱۸)
مگر جس پر تیرے رب نے رحم کیا واراسی لئے انہیں پیدا کیا، اور پوری ہوئی تیرے رب کی بات، البتہ جہنم بھر دوں گا جنوں اور انسانوں سے اکھٹے۔ (۱۱۹)
تشریح:یہ بات قرآن کریم نے بار بار واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالی چاہتا تو تمام انسانوں کو زبردستی ایک ہی دین کا پابند بنا دیتا، لیکن اس کائنات کی تخلیق اور انسان کو اس میں بھیجنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھا کر اسے یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے جو راستہ چاہے اختیار کرے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ وہ اپنی مرضی اور اختیار کو ٹھیک استعمال کرتا ہے ، اور اس کے نتیجے میں جنت کماتا ہے یا اس کا غلط استعمال کر کے دوزخ کا مستحق بن جاتا ہے ، اس امتحان کی وجہ سے اللہ تعالی نے کسی کو اس کے اختیار کے بغیر زبردستی کسی ایک راستے پر نہیں رکھا۔
(توضیح القرآن)
اور ہر بات ہم تم سے رسولوں کے احوال کی بیان کرتے ہیں، تاکہ اس سے تمہارے دل کو تسلی دیں، اور تمہارے پاس آیا اس میں حق، اور مؤمنوں کے لئے نصیحت اور یاد دہانی۔ (۱۲۰)
تشریح: اوپر بہت سے انبیاء و رسل کے قصص مذکور ہوئے تھے ، اب ختم سورت پر ذکر قصص کی بعض حکمتوں پر تنبیہ فرماتے ہیں۔ یعنی گزشتہ اقوام و رسل کے واقعات سن کر پیغمبر علیہ السلام کا قلب بیش از بیش ساکن و مطمئن ہوتا ہے اور امت کو تحقیقی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ جن میں نصیحت و تذکیر کا بڑا سامان ہے۔ آدمی جب سنتا ہے کہ میرے ابنائے نوع پہلے فلاں فلاں جرائم کی پاداش میں ہلاک ہو چکے ہیں تو ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ فلاں راستہ اختیار کرنے سے پچھلوں کو نجات ملی تو طبعاً اس کی طرف دوڑتا ہے۔ فی الحقیقت قرآن کریم میں قصص کا حصہ اس قدر موثر و مذکر واقع ہوا ہے کہ کوئی شخص جس میں تھوڑا سا آدمیت کا جزء ہو اور خوف خدا کی ذرا سی ٹیس دل میں رکھتا ہو انہیں سن کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ باقی قصص یا بعض دوسرے مضامین کی تکرار جو قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اس پر ہم نے رسالہ ”القاسم” کے ابتدائی دور میں ایک مستقل مضمون لکھا ہے اسے ملاحظہ کر لیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان لوگوں کو کہہ دیں جو ایمان نہیں لاتے ، تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ ہم (اپنی جگہ) کام کرتے ہیں۔ (۱۲۱)
اور تم انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں۔ (۱۲۲)
تشریح:مطلب یہ ہے کہ اگر میری بات نہیں مانتے تو بہتر ہے تم اپنی ضد پر جمے رہو، میں اپنے مقام میں تمہارے انجام بد کا منتظر ہوں۔ چند روز میں پتہ چل جائے گا کہ ظالموں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ”یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمُ الدَّوَآئِرَعَلَیْہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ کے پاس ہیں آ سمانوں اور زمین کے غائب (چھپی ہوئی باتیں) اور اس کی طرف تمام کاموں کی باز گشت ہے۔ (۱۲۳)
یعنی آپ ان کے کفر و شرارت سے دلگیر نہ ہوں اپنا کام کیے جائیں اور ان کا فیصلہ خدا کے حوالہ کریں، اس سے آسمان و زمین کی کوئی بات چھپی نہیں، سب معاملات ہر پھر کر اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہاں ان کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ کس خبط میں پڑے ہوئے تھے۔ آپ تو دل و جان سے اپنے پروردگار کی بندگی اور فرمانبرداری میں لگے رہیے۔ اور تنہا اسی کی اعانت پر بھروسہ رکھیے۔ وہ تمہارے مخلصانہ اعمال سے بے خبر نہیں ان کے مناسب تم سے معاملہ کرے گا۔ حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یا رسول اللہ! آپ پر بڑھاپے کے آثار بہت جلد آ گئے ؟ فرمایا ”شَیَّبَتْنِیْ ہُوْدٌ وَاَخَوَاتُہَا” سورہ ”ہود” اور اس کی بہنوں نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ سورہ ہود کی جس آیت نے آپ کو بوڑھا کر دیا یہ تھی۔ ”فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ ”
رزقنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ الا ستقامۃ علی دین وسنتہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تم سورہ ”ہود” بفضلہ ومنہّ۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید