فہرست مضامین
ترجمہ قرآن مجید
امین احسن اصلاحی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ماخذ: ٹرو آریٹر ڈاٹ کام
مکمل ترجمہ ڈاؤن لوڈ کریں
۱۔ سورۃ فاتحہ
۱. شکر کا سزاوارِ حقیقی اللہ ہے، کائنات کا رب
۲. رحمٰن اور رحیم
۳. جزا و سزا کے دن کا مالک
۴. ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں
۵. ہمیں سیدھے رستے کی ہدایت بخش
۶. ان لوگوں کے رستے کی، جن پر تو نے اپنا فضل فرمایا،
۷. جو نہ مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ
٭٭٭
۲۔ سورۃ البقرة
۱. یہ الم ہے
۲. یہ کتابِ الٰہی ہے۔ اس (کے کتابِ الٰہی ہونے) میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کیلئے۔
۳. ان لوگوں کیلئے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
۴. اور ان کیلئے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی اور جو تم سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں۔
۵. یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
۶. جن لوگوں نے کفر کیا، ان کیلئے یکساں ہے: انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
۷. اللہ نے ان لوگوں کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے عذابِ عظیم ہے۔
۸. اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔
۹. یہ لوگ اللہ کو اور ایمان لانے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکا دے رہے ہیں اور اس کا احساس نہیں کر رہے ہیں۔
۱۰. ان کے دلوں میں روگ تھا تو اللہ نے ان کے روگ کو بڑھا دیا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے، وجہ اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔
۱۱. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پیدا کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔
۱۲. آگاہ رہو کہ یہی لوگ فساد برپا کرنے والے ہیں لیکن یہ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
۱۳. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس طرح ایمان لاؤ، جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں: کیا ہم اس طرح ایمان لائیں، جس طرح بے وقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ آگاہ رہو کہ بے وقوف یہی لوگ ہیں، لیکن یہ جانتے نہیں۔
۱۴. اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں (کی مجلس) میں پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں، ہم تو ان لوگوں سے محض مذاق کرتے ہیں۔
۱۵. اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دیے جا رہا ہے یہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔
۱۶. یہی لوگ ہیں، جنہوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو ان کی تجارت ان کیلئے نفع بخش نہ ہوئی اور یہ ہدایت پانے والے نہ بنے۔
۱۷. ان لوگوں کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے لوگوں کیلئے آگ جلائی۔ جب آگ نے اس کے ارد گرد کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور ان کو ایسی تاریکی میں چھوڑ دیا، جس میں ان کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔
۱۸. یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۔
۱۹. یا ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو۔ اس میں تاریکی ہو، کڑک ہوا اور چمک ہو۔ یہ کڑکے کی وجہ سے، موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونسے لے رہے ہوں، حالانکہ اللہ کافروں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔
۲۰. بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی ہو۔ جب جب ان کیلئے چمک جاتی ہو یہ چل پڑتے ہوں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہو، رُک جاتے ہوں۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو سلب کر لیتا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۱. اے لوگو! بندگی کرو اپنے اس خداوند کی، جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی، جو تم سے پہلے گذرے ہیں، تاکہ (دوزخ کی آگ سے) محفوظ رہو۔
۲۲. (اس کی بندگی) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور اتارا آسمان سے پانی اور اس سے پیدا کیے پھل تمہاری روزی کیلئے۔ تو تم اللہ کے ہم سر نہ ٹھہراؤ، درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔
۲۳. اور اگر تم اس چیز کی جانب سے شک میں ہو، جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو لاؤ اس کی مانند کوئی سورہ اور بلا لو اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔
۲۴. پر اگر تم نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو، جس کا ایندھن بنیں گے آدمی اور پتھر، جو تیار ہے کافروں کیلئے۔
۲۵. اور بشارت دو ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کیے اس بات کی کہ ان کیلئے ایسے باغ ہوں گے، جن میں نہریں جاری ہوں گی۔ جب جب اس کے پھل ان کو کھانے کو ملیں گے تو کہیں گے: یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں عطا ہوا تھا! اور ملے گا اس سے ملتا جلتا اور ان کیلئے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۲۶. اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی تمثیل بیان کرے، خواہ وہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ تو جو لوگ ایمان لائے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہی بات حق ہے ان کے رب کی جانب سے۔ رہے وہ لوگ، جنہوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں کہ اس تمثیل کے بیان کرنے سے اللہ کا کیا منشا ہے؟ اللہ اس چیز سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہی لوگوں کو، جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔
۲۷. جو اللہ کے عہد کو اس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اس کو کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو نامراد ہونے والے ہیں۔
۲۸. تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندہ کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے؟
۲۹. وہی ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کچھ پیدا کیا، جو زمین میں ہے، پھر آسمان کی طرف توجہ کی اور سات آسمان استوار کر دیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
۳۰. اور (یاد کرو) جبکہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا: کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا، جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں؟ اس نے کہا: میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
۳۱. اور اس نے سکھا دیے آدم کو سارے نام۔ پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ: اگر تم سچے ہو تو مجھے ان لوگوں کے ناموں سے آگاہ کرو۔
۳۲. انہوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہمیں تو تُو نے جو کچھ بتایا ہے، اس کے سوا کوئی علم نہیں۔ بیشک تُو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔
۳۳. کہا: اے آدم! ان کو بتاؤ ان لوگوں کے نام۔ تو جب اس نے بتائے ان کو ان لوگوں کے نام تو کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں اس چیز کو، جس کو تم ظاہر کرتے ہو اور جس کو تم چھپاتے تھے۔
۳۴. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے کہا فرشتوں سے کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کر لیا، مگر ابلیس نے۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے بن گیا۔
۳۵. اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی، دونوں رہو جنّت میں اور اس میں سے کھاؤ، فراغت کے ساتھ، جہاں سے چاہو اور اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے بن جاؤ گے۔
۳۶. تو شیطان نے ان کو وہاں سے پھسلا دیا اور ان کو نکلوا چھوڑا اس (عیش و آرام) سے، جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا کہ اترو! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لئے ایک خاص وقت تک زمین میں رہنا بسنا اور کھانا بلسنا ہے۔
۳۷. پھر آدم نے پا لیے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات، تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
۳۸. ہم نے کہا: اترو یہاں سے سب! تو اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کیلئے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۳۹. اور جو کگر کریں گے اور جھٹلائیں گے میری آیتوں کو، وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۴۰. اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو، جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
۴۱. اور ایمان لاؤ اس چیز پر، جو میں نے اتاری ہے، مطابق ان (پیشین گوئیوں) کے، جو تمہارے پاس موجود ہیں اور تم اس کے سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عیوض نہ بیچو اور میرے (غضب) سے بچتے ہی رہو۔
۴۲. اور حق اور باطل کو گڈ مڈ نہ کرو حق کو چھپانے کیلئے درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔
۴۳. اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
۴۴. کیا تم لوگوں کو تو وفاداری کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
۴۵. اور مدد چاہو صبر اور نماز سے اور بیشک یہ بھاری چیز ہے، مگر ان لوگوں کیلئے جو ڈرنے والے ہیں۔
۴۶. جو گمان رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے ربّ سے ملنا ہے اور وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
۴۷. اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو، جو میں نے تم پر کی اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا والوں پر فضیلت دی ہے۔
۴۸. اور اس دن سے ڈرو، جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ کام نہ آئے گی، نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہو گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔
۴۹. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے تم کو آلِ فرعون کے قبضہ سے چھڑایا۔ وہ تمہیں بُرے عذاب چکھاتے تھے: تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی۔
۵۰. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے دریا کو پھاڑ کر تمہیں پار کرایا۔ پس تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کر دیا اور تم دیکھتے رہے۔
۵۱. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا۔ پھر تم نے اس کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تم ظلم کرنے والے ہو۔
۵۲. پھر ہم نے تم سے درگذر کیا اس کے بعد، تاکہ تم شکر گذار بنو۔
۵۳. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرقان، تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
۵۴. اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو اسے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو اور اپنے (مجرموں) کو اپنے ہاتھوں قتل کرو۔ یہ تمہارے لئے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول فرمائی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
۵۵. اور (یاد کرو) جبکہ تم نے کہا کہ اے موسیٰ! ہم تمہارا یقین کرنے والے نہیں ہیں، جب تک ہم خدا کو کھلم کھلا دیکھ نہ لیں۔ تو تم کو کڑک نے آ دبوچا اور تم دیکھتے رہ گئے۔
۵۶. پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھایا، تاکہ تم شکر گذار بنو۔
۵۷. اور تم پر بدلیوں کا سایہ کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارے، کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو بخشی ہیں اور انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔
۵۸. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے کہا: داخل ہو جاؤ اس بستی میں، پس کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو فراغت کے ساتھ اور داخل ہو دروازے میں سر جھکائے ہوئے اور دعا کرو کہ اے ربّ! ہمارے گناہ بخش دے، ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور اچھی طرح حکم بجا لانے والوں پر ہم مزید فضل کریں گے۔
۵۹. تو جنہوں نے ظلم کیا، انہوں نے بدل دیا اس بات کو، جو ان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے، پس ہم نے ان لوگوں پر جنہوں نے ظلم کیا، ان کی نافرمانی کے سبب سے آسمان سے عذاب اتارا۔
۶۰. اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا: اپنی لٹھیا پتھر پر مارو! تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ متعین کر لیا۔ کھاؤ اور پیو اللہ کے رزق میں سے اور نہ بڑھو زمین میں فساد مچانے والے بن کر۔
۶۱. اور (یاد کرو) جبکہ تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے، تو اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے ان چیزوں میں سے نکالے، جو زمین اگاتی ہے: اپنی سبزیوں، ککڑیوں، لہسن، مسور اور پیاز میں سے۔ کہا: کیا تم اعلیٰ کو ادنیٰ سے بدلنا چاہتے ہو؟ کسی شہر میں اترو تو وہ چیز تمہیں ملے گی، جو تم نے طلب کی ہے اور ان پر ذلت اور پست ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ اس سبب سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھ جانے والے تھے۔
۶۲. بیشک جو ایمان لائے، جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئی، ان میں سے جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لایا اور جس نے عملِ صالح کیا تو اس کیلئے اس کے ربّ کے پاس اجر ہے اور ان کیلئے نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۶۳. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے تم سے تمہارا عہد لیا اور اٹھایا تمہارے اوپر طور کو۔ پکڑو اس چیز کو جو ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی کے ساتھ اور جو کچھ اس میں ہے، اس کو یاد رکھو تاکہ تم (خدا کے غضب سے) محفوظ رہو۔
۶۴. پھر تم نے اس سب کے بعد اعراض کیا، تو اگر تم پر اللہ کی عنایت اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم نامرادوں میں سے ہو چکے ہوتے۔
۶۵. اور اپنے ان لوگوں کا علم تو تمہیں ہے ہی، جنہوں نے سبت کے معاملے میں حدودِ الٰہی کی بے حرمتی کی، تو ہم نے ان کو دھتکارا کہ جاؤ، ذلیل بندر بن جاؤ!
۶۶. تو ہم نے اس کو نمونۂ عبرت بنا دیا ان لوگوں کیلئے، جو اس کے آگے اور پیچھے تھے اور اس کو خدا ترسوں کیلئے نصیحت بنایا۔
۶۷. اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، تو وہ بولے کہ کیا تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں سے بنوں!
۶۸. انہوں نے کہا: اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ واضح کرے کہ گائے کیسی ہو؟ اس نے کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو، نہ بچھیا، بیچ کی راس ہو۔ تو کرو جو تمہیں حکم دیا جا رہا ہے۔
۶۹. بولے: اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ واضح کرے کہ اس کا رنگ کیا ہو؟ اس نے کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ سنہری ہو، شوخ رنگ، دیکھنے والوں کیلئے دل پسند۔
۷۰. بولے: اپنے رب سے دعا کرو کہ اچھی طرح واضح کر دے کہ وہ کیسی ہو؟ اس لئے کہ گایوں کے امتیاز میں ہمیں گھپلا ہو رہا ہے اور انشاء اللہ اب ہم پتا لگا لیں گے۔
۷۱. اس نے کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے کمیری، زمین کو جوتنے والی اور کھیتوں کو سیراب کرنے والی نہ ہو۔ بالکل یک رنگ ہو، اس میں کسی اور رنگ کی آمیزش نہ ہو۔ بولے: اب تم واضح بات لائے۔ پھر انہوں نے ذبح کی اور وہ ذبح کرتے نظر نہ آتے تھے۔
۷۲. اور (یاد کرو) جبکہ تم نے ایک نفس کو قتل کر دیا، پھر اس کے بارے میں ایک دوسرے پر الزام بازی کی، حالانکہ اللہ وہ سب کچھ ظاہر کرنے والا ہے، جو تم چھپاتے رہے ہو۔
۷۳. تو ہم نے کہا: اس کو اس کے ایک جزو سے مارو۔ اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرے گا اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
۷۴. پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے، پس وہ پتھروں کی مانند ہو گئے یا ان سے بھی زیادہ سخت اور پتھروں میں یقیناً بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی جاری ہو جاتا ہے اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جو خوفِ خدا سے گر پڑتے ہیں اور اللہ اس سے بے خبر نہیں، جو تم کر رہے ہو۔
۷۵. کیا تم لوگ یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہاری بات مان لیں گے اور حال یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ اللہ کے کلام کو سنتا رہا ہے اور اس کو سمجھ چکنے کے بعد اس کی تحریف کرتا رہا ہے اور وہ جانتے ہیں۔
۷۶. اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: کیا تم ان کو وہ باتیں بتاتے ہو، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں کہ وہ تمہارے ربّ کے پاس تم سے حجت کریں؟ کیا تم سمجھتے نہیں؟۱.
۷۷. کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔
۷۸. اور ان میں بعض ان پڑھ ہیں، جو کتابِ الٰہی کو صرف اپنی آرزوؤں کا مجموعہ خیال کرتے ہیں، حالانکہ وہ صرف اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں۔
۷۹. پس ہلاکی ہے ان لوگوں کیلئے، جو اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرتے ہیں، پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی قیمت حاصل کر لیں! پس ان کیلئے ہلاکی ہے اس چیز کے سبب سے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور ان کیلئے ہلاکی ہے اس چیز کے سبب سے جو وہ کماتے ہیں!
۸۰. اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی، مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کیلئے کوئی عہد کرا لیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو، جس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں؟
۸۱. البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۸۲. اور جو ایمان لائے اور جنہوں نے بھلے کام کیے تو وہی لوگ جنّت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۸۳. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے، والدین کے ساتھ احسان کرو گے، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کو (ان کا حق دو گے) اور یہ کہ لوگوں سے اچھی بات کہو۔ نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ دو۔ پھر تم برگشتہ ہو گئے مگر تم میں سے بہت تھوڑے لوگ اور تم منہ موڑنے والے ہی لوگ ہو۔
۸۴. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے تم سے اقرار لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔ پھر تم نے ان باتوں کا اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو۔
۸۵. پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو۔ پہلے ان کے خلاف حق تلفی اور زیادتی کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو، پھر اگر وہ تمہارے پاس قیدی ہو کر آتے ہیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑاتے ہو، حالانکہ سرے سے ان کا نکالنا ہی تمہارے لئے حرام تھا۔ کیا تم کتابِ الٰہی کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس کے دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو؟ تو جو لوگ تم میں سے ایسا کرتے ہیں، ان کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں اور آخرت میں یہ شدید ترین عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے اور اللہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔
۸۶. یہی لوگ ہیں، جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی تو نہ تو ان کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد ہی پہنچے گی۔
۸۷. اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ ابنِ مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔ تو کیا جب آئے گا کوئی رسول تمہارے پاس وہ باتیں لے کر جو تمہاری خواہشوں کے خلاف ہوں گے تو تم تکبر کرو گے؟ سو تم نے ایک گروہ کو جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔
۸۸. اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل تو بند ہیں۔ بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کر دی ہے تو شاذ و نادر ہی وہ ایمان لائیں گے۔
۸۹. اور جب آئی ان کے پاس ایک کتاب اللہ کے پاس سے، مطابق ان (پیشین گوئیوں) کے جو ان کے ہاں موجود ہیں اور وہ پہلے سے کافروں کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ تو جب آئی ان کے پاس وہ چیز جس کو وہ جانے پہچانے ہوئے تھے تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا۔ پر ان منکروں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔
۹۰. کیا ہی بری ہے وہ چیز، جس سے انہوں نے اپنی جانوں کا مبادلہ کیا کہ وہ انکار کر رہے ہیں اس چیز کا، جو اللہ نے اتاری ہے، محض اس ضد کی بنا پر کہ اللہ نازل کرے اپنا فضل جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے۔ پس وہ اللہ کا غضب در غضب لے کر لوٹے اور منکروں کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
۹۱. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز پر ایمان لاؤ، جو اللہ نے اتاری ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس چیز پر تو ہم ایمان رکھتے ہی ہیں جو ہم پر اتری ہے اور وہ اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہی حق ہے اور مطابق ہے ان (پیشین گوئیوں) کے، جو ان کے ہاں موجود ہیں۔ ان سے پوچھو: پھر تم خدا کے پیغمبروں کو اس سے پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو اگر تم مؤمن ہو؟
۹۲. اور موسیٰ تمہارے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا۔ پھر تم نے اس کے بعد بچھڑے کو (معبود) بنا لیا اور تم اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے بنے۔
۹۳. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو اٹھایا (اور حکم دیا کہ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے، اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور سنو (اور مانو)۔ انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور ان کے کفر کے سبب سے بچھڑے (کی پرستش) ان کے دلوں میں رچ بس گئی۔ ان سے کہو کہ اگر تم مؤمن ہو تو کیا ہی بری ہے وہ چیز، جس کا تمہارا ایمان تم کو حکم دیتا ہے۔
۹۴. ان سے کہو کہ اگر دارِ آخرت کی کامیابیاں اللہ کے ہاں، دوسروں کے بالمقابل، تمہارے ہی لئے مخصوص ہیں تو موت کی آرزو کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔
۹۵. مگر یہ اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے، جن کے یہ مرتکب ہوئے ہیں، کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
۹۶. اور تم ان کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤ گے، ان لوگوں سے بھی زیادہ جنہوں نے شرک کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش! اس کو ہزار سال عمر ملے، حالانکہ اگر یہ عمر بھی ان کو ملے، تو بھی وہ اپنے آپ کو (خدا کے) عذاب سے بچانے والے نہیں بن سکتے اور اللہ دیکھ رہا ہے، جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔
۹۷. کہہ دو کہ جو جبریل کا مخالف ہوا تو (وہ جان لے کہ) جبریل نے اس کلام کو تمہارے دل پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اتارا ہے، مطابق ان (پیشین گوئیوں) کے، جو اس کے پہلے سے موجود ہیں اور یہ ہدایت و بشارت ہے اہلِ ایمان کیلئے۔
۹۸. جو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کے دشمن ہوئے تو ایسے کافروں کا اللہ دشمن ہے۔
۹۹. اور ہم نے تمہارے اوپر نہایت واضح دلیلیں اُتاری ہیں۔ ان کا انکار صرف عہد شکن لوگ ہی کرتے ہیں۔
۱۰۰. کیا (ان کی یہی روش قائم رہے گی کہ) جب جب کوئی عہد کریں گے تو ان کا ایک گروہ اس کو اٹھا پھینکے گا، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے عاری ہیں۔
۱۰۱. اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول ان (پیشین گوئیوں) کے مطابق آیا جو ان کے پاس موجود ہیں، تو ان لوگوں نے، جن کو کتاب دی گئی تھی، اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے پھینکا، گویا اس سے آشنا ہی نہیں۔
۱۰۲. اور ان چیزوں کے پیچھے پڑ گئے، جو سلیمانؑ کے عہدِ حکومت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے، حالانکہ سلیمانؑ نے کوئی کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں ہی نے کفر کیا۔ یہی لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز میں پڑ گئے، جو بابل میں دو فرشتوں – ہاروت اور ماروت – پر اتاری گئی تھی، حالانکہ یہ کسی کو سکھاتے نہیں تھے جب تک اس کو خبردار نہ کر دیں کہ ہم تو بس آزمائش کیلئے ہیں تو تم کفر میں نہ پڑ جانا۔ پس یہ لوگ ان سے وہ علم سیکھتے، جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں، حالانکہ یہ اس کے ذریعہ سے، خدا کی مشیت کے بغیر، کسی کو نقصان پہچانے والے نہیں بن سکتے تھے اور یہ وہ چیز سیکھتے تھے، جو ان کو نقصان پہنچائے، نفع نہ پہنچائے، حالانکہ ان کو پتا تھا کہ جس نے اس چیز کو اختیار کیا، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ کیا ہی بری ہے وہ چیز، جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا۔ اے کاش! وہ اس کو سمجھتے۔
۱۰۳. اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کا ثواب ان کیلئے کہیں بہتر تھا۔ کاش! وہ سمجھتے۔
۱۰۴. اے ایمان والو! تم راعنا نہ کہا کرو انظرنا کہا کرو اور توجہ سے سنا کرو اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔
۱۰۵. جن لوگوں نے کفر کیا، اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین، نہیں چاہتے کہ تمہارے اوپر تمہارے رب کی طرف سے کوئی رحمت نازل ہو اور اللہ اپنی رحمت کیلئے خاص کرتا ہے جن کو چاہتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
۱۰۶. جو کوئی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اس کو نظر انداز کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کے مانند دوسری لاتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۰۷. کیا تمہیں نہیں معلوم کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے اور نہ مددگار
۱۰۸. کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے اس طرح کے سوال کرو، جس طرح کے سوال اس سے پہلے موسیٰ سے کیے گئے؟ اور جو لوگ ایمان کو کفر سے بدل لیں گے، وہ شاہراہ سے بھٹک گئے۔
۱۰۹. بہت سے اہلِ کتاب یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمہارے ایمان کے بعد پھر تمہیں کفر کی حالت میں پلٹا دیں، محض اپنے حسد کی وجہ سے، حق کے اچھی طرح واضح ہونے کے باوجود۔ تو درگذر کرو اور نظرانداز کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۱۰. اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور جو نیکی بھی تم اپنے لئے کرو گے، اسے اللہ کے پاس پاؤ گے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
۱۱۱. اور کہتے ہیں کہ جنّت میں نہیں داخل ہو سکتے مگر وہ جو یہودی ہیں یا نصرانی۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔ کہو: اس بات پر اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو؟
۱۱۲. ہاں! بلاشبہ جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ ٹھیک طرح سے عمل کرنے والا ہے تو اس کیلئے اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے۔ نہ ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۱۱۳. اور یہود نے کہا کہ نصاریٰ کی کوئی بنیاد نہیں اور نصاریٰ نے کہا: یہود کی کوئی بنیاد نہیں اور یہ دونوں کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ اسی طرح کی بات ان لوگوں نے بھی کہی، جن کو علم نہیں ہے۔ تو اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان اس معاملہ کا فیصلہ کرے گا، جس میں یہ جھگڑ رہے ہیں۔
۱۱۴. اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جو اللہ کی مساجد کو اس بات سے محروم کریں کہ ان میں اس کا ذکر کیا جائے اور ان کی ویرانی کے درپے ہوں۔ ان کیلئے زیبا نہ تھا کہ ان میں داخل ہوتے، مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کیلئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ عظیم ہے۔
۱۱۵. اور مشرق ہو یا مغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، تو جدھر بھی رخ کرو اسی طرف اللہ ہے۔ بیشک اللہ بڑی گنجائش رکھنے والا اور علم والا ہے۔
۱۱۶. اور کہتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے۔ اس کی شان ان باتوں سے ارفع ہے۔ بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کا ہے۔ سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔
۱۱۷. وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کیلئے فرما دیتا ہے کہ ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے۔
۱۱۸. اور جو لوگ علم نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں کہ خدا ہم سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں، انہوں نے بھی انہی کی طرح کی بات کہی۔ ان سب کے دل ایک ہی جیسے ہو گئے۔ جو لوگ یقین کرنے والے ہیں، ان کیلئے ہم نشانیاں اچھی طرح واضح کر چکے ہیں۔
۱۱۹. ہم نے تمہیں حق کے ساتھ، بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اور تم سے دوزخ میں جانے والوں کے بارے میں کوئی پرسش نہیں ہو گی۔
۱۲۰. اور نہ یہود تم سے راضی ہونے والے ہیں اور نہ نصاریٰ، تا وقتیکہ تم انہی کی ملت کے پیرو نہ بن جاؤ۔ ان سے کہو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر تم اس علم حقیقی کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشوں پر چلے تو اللہ کے مقابل میں نہ تمہارا کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔
۱۲۱. جن لوگوں کو ہم نے کتاب بخشی اور وہ اس کے پڑھنے کا حق ادا کرتے ہیں، وہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لائیں گے اور جو اس کا انکار کریں گے تو وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔
۱۲۲. اے بنی اسرائیل! میرے اس فضل کو یاد کرو، جو میں نے تم پر کیا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں اہلِ عالم پر فضیلت دی۔
۱۲۳. اور اس دن سے ڈرو، جس دن کوئی جان کسی کے کچھ کام نہ آئے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ قبول ہو گا، نہ اس کو کوئی شفاعت نفع پہنچائے گی اور نہ ان کی کوئی مدد ہی کی جا سکے گی۔
۱۲۴. اور (یاد کرو) جبکہ ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو وہ اس نے پوری کر دکھائیں۔ فرمایا: بیشک میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ اُس نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ فرمایا: میرا یہ عہد ان لوگوں کو شامل نہیں ہے، جو ظالم ہوں گے۔
۱۲۵. اور (یاد کرو) جبکہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کیلئے مرکز اور امن کی جگہ بنایا اور (حکم دیا کہ) مسکن ابراہیم میں ایک نماز کی جگہ بناؤ اور ابراہیم اور اسماعیل کو ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کیلئے پاک رکھو۔
۱۲۶. اور (یاد کرو) جبکہ ابراہیم نے دعا کی کہ اے ربّ! اس سرزمین کو امن کی سرزمین بنا اور اس کے باشندوں کو، جو ان میں سے اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لائیں، پھلوں کی روزی عطا فرما۔ فرمایا: جو کفر کریں گے، انہیں بھی کچھ دن بہرہ مند ہونے کی مہلت دوں گا، پھر میں ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف دھکیلوں گا اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
۱۲۷. اور (یاد کرو) جبکہ ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ انہوں نے دعا کی کہ اے ہمارے ربّ! ہماری جانب سے (یہ دعا) قبول فرما۔ بیشک تو ہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
۱۲۸. اے ہمارے ربّ! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت میں سے تُو اپنی ایک فرمانبردار اُمت اٹھا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔
۱۲۹. اور اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما، جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔ بیشک تو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
۱۳۰. اور کون ہے جو ملتِ ابراہیم سے اعراض کر سکے، مگر وہی جو اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرے۔ ہم نے اس کو دنیا میں بھی برگزیدہ کیا اور آخرت میں وہ صالحین کے زمرہ میں ہو گا۔
۱۳۱. جبکہ اس کے ربّ نے اس کو حکم دیا کہ اپنے آپ کو حوالہ کر دے۔ اس نے کہا: میں نے اپنے آپ کو پروردگارِ عالم کے حوالہ کیا۔
۱۳۲. اور ابراہیم نے اسی (ملت) کی وصیت اپنے بیٹوں کو کی اور (اسی کی وصیت) یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) کی: اے میرے بیٹو! بیشک اللہ نے تمہارے لئے دینِ اسلام کو منتخب فرمایا، تو تم ہرگز نہ مرنا مگر اسلام کی حالت پر۔
۱۳۳. کیا تم اس وقت موجود تھے، جب یعقوب کی موت کا وقت آیا جبکہ اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا: تم میرے بعد کس کی پرستش کرو گے؟ وہ بولے کہ ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباء و اجداد – ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق – کے معبود کی پرستش کریں گے، جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
۱۳۴. یہ ایک گروہ تھا، جو گذر چکا۔ اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہیں ملے گا جو کچھ تم نے کمایا اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں، اس کے بابت تم سے سوال نہیں ہو گا۔
۱۳۵. اور کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت پاؤ گے۔ کہو: بلکہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو جو اللہ کی طرف یکسو تھا اور مشرکین میں سے نہ تھا۔
۱۳۶. کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر ایمان لائے جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور اس چیز پر ایمان لائے جو موسیٰ وعیسیٰ کو ملی اور جو نبیوں کو ملی، ان کے رب کی جانب سے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔
۱۳۷. اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو وہ راہ یاب ہوئے اور اگر وہ اعراض کریں تو پھر وہ درپے مخالفت ہیں۔ ان کے مقابل میں تمہارے لئے اللہ کافی ہو گا اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۱۳۸. (کہ دو یہ) اللہ کا رنگ (اختیار کرو!) اور اللہ کے رنگ سے کس کا رنگ اچھا ہے! اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔
۱۳۹. کہہ دو: تم ہم سے اللہ کے بارے میں حجت کر رہے ہو، حالانکہ وہی ہمارا بھی رب ہے، وہی تمہارا بھی رب ہے۔ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اور ہم خالص اسی کیلئے ہیں۔
۱۴۰. کیا تم دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی ذریت کے لوگ یہودی یا نصرانی تھے؟ پوچھو: تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ ان سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے، جو اللہ کی کسی شہادت کو، جو ان کے پاس ہے، چھپائیں اور اللہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔
۱۴۱. یہ ایک گروہ تھا، جو گذر چکا۔ اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہیں ملے گا جو کچھ تم نے کمایا اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں، اس کے بابت تم سے سوال نہیں ہو گا۔
۱۴۲. اب جو بے وقوف لوگ ہیں، وہ کہیں گے کہ ان لوگوں کو اس قبلہ سے، جس پر یہ پہلے تھے، کس چیز نے روگرداں کر دیا؟ کہہ دو: مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔
۱۴۳. اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے اور جس قبلہ پر تم تھے، ہم نے اس کو صرف اس لئے ٹھہرایا تھا کہ ہم الگ کر دیں ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے، جو پیٹھ پیچھے پھر جانے والے ہیں۔ بیشک یہ بات بھاری ہے مگر ان لوگوں پر، جن کو اللہ ہدایت نصیب کرے اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے۔ اللہ تو لوگوں کے ساتھ بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۱۴۴. ہم آسمان کی طرف تمہارے رُخ کی گردش دیکھتے رہے ہیں، سو (ہم نے فیصلہ کر لیا کہ) ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں، جس کو تم پسند کرتے ہو۔ تو تم اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف کرو اور جہاں کہیں بھی تم ہو تو اپنے رُخ اسی کی طرف کرو اور جن لوگوں کو کتاب ملی، وہ جانتے ہیں کہ یہی ان کے ربّ کی جانب سے حق ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔
۱۴۵. اور اگر تم اہلِ کتاب کے سامنے ہر قسم کی نشانیاں بھی پیدا کر دو، تو بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے بن سکتے اور نہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے بن سکتے اور اگر تم اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشوں کی پیروی کرو گے تو بلاشبہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
۱۴۶. جن کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے، وہ اس کو پہچانتے ہیں، جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، البتہ ان میں ایک گروہ ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے۔
۱۴۷. یہی حق ہے تمہارے رب کی جانب سے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بن جانا۔
۱۴۸. اور ہر ایک کیلئے ایک سمت ہے، وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے، تو تم نیکیوں (کی راہ) میں سبقت کرو۔ جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تم سب کو جمع کرے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۴۹. اور جہاں کہیں سے بھی تم نکلو تو اپنا رخ مسجدِ حرام ہی کی طرف کرو۔ بیشک یہی حق ہے تمہارے ربّ کی جانب سے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔
۱۵۰. اور جہاں کہیں سے بھی تم نکلو تو اپنا رُخ مسجدِ حرام ہی کی طرف کرو اور جہاں کہیں بھی تم ہو تو اپنے رُخ اسی کی جانب کرو تاکہ لوگوں کیلئے تمہارے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے۔ مگر جو ان میں سے ظالم ہیں تو ان سے نہ ذرو، مجھی سے ڈرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر تمام کروں اور تاکہ تم راہ یاب ہو۔
۱۵۱. چنانچہ ہم نے تم میں ایک رسول بھیجا تم ہی میں سے، جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعمیل دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے، جو تم نہیں جانتے تھے۔
۱۵۲. تو تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میری شکر گذاری کرتے رہنا، میری ناشکری نہ کرنا۔
۱۵۳. اے ایمان والو! ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو۔ بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔
۱۵۴. اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں، ان کو مردہ نہ کہو۔ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔
۱۵۵. بیشک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنادو۔
۱۵۶. جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
۱۵۷. یہی لوگ ہیں، جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ یاب ہونے والے ہیں۔
۱۵۸. بیشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان کا طواف کرے اور جس نے کوئی نیکی خوش دلی کے ساتھ کی تو بیشک اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے۔
۱۵۹. بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں ہماری اتاری ہوئی کھلی کھلی نشانیوں اور ہماری ہدایت کو، بعد اس کے کہ ہم نے وہ کتاب میں کھول کر لوگوں کیلئے بیان کر دی تھیں تو وہی لوگ ہیں، جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور جن پر لعنت کرنے والے لعنت کریں گے۔
۱۶۰. البتہ جن لوگوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کر لی اور واضح طور پر بیان کر دیا تو ان کی توبہ میں قبول کروں گا اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہوں۔
۱۶۱. بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گئے، ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی لعنت ہے۔
۱۶۲. وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت ہی ملے گی۔
۱۶۳. اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ رحمٰن اور رحیم ہے۔
۱۶۴. بیشک آسمانوں اور زمین کی خلقت، رات اور دن کی آمد و شد اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کیلئے سمندر میں نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا ہے اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس سے اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں، جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
۱۶۵. اور لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو خدا کے ہمسر ٹھہراتے ہیں، جن سے وہ اسی طرح محبت کرتے ہیں، جس طرح خدا سے محبت کرنی چاہئے۔ لیکن جو (خدا پر) ایمان رکھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھنے والے ہیں اور اگر یہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے اس وقت کو دیکھ سکتے، جبکہ یہ عذاب سے دوچار ہوں گے (تو ان پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی کہ) سارا زور اور اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اللہ ہی سخت عذاب دینے والا ہے۔
۱۶۶. (اس وقت کا خیال کرو) جبکہ مقتدا اپنے پیروؤں سے اظہارِ برأت کریں گے اور وہ عذاب سے دوچار ہوں گے اور ان کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے۔
۱۶۷. اور ان کے پیرو بھی کہیں گے کہ اے کاش! ہمیں (دنیا میں) ایک بار اور جانا نصیب ہوتا کہ ہم بھی ان سے اسی طرح اظہارِ برأت کر سکتے، جس طرح انہوں نے ہم سے اظہارِ برأت کیا ہے۔ اس طرح اللہ ان کے اعمال ان کو سرمایۂ حسرت بنا کر دکھائے گا اور ان کو دوزخ سے نکلنا نصیب نہ ہو گا۔
۱۶۸. اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال طیب ہیں، ان کو کھاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
۱۶۹. وہ تو بس تمہیں برائی اور بے حیائی (کی راہ) سوجھائے گا اور اس بات کی کہ تم خدا کی طرف وہ باتیں منسوب کرو، جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
۱۷۰. اور جب ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ خدا کی اتاری ہوئی چیز کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اس صورت میں بھی جبکہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے رہے ہوں اور نہ راہِ ہدایت پر رہے ہوں۔
۱۷۱. ان کافروں کی تمثیل ایسی ہے، جیسے کوئی شخص ایسی چیزوں کو پکارے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سنتی ہوں۔ یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، یہ سمجھ نہیں سکتے۔
۱۷۲. اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں، ان کو کھاؤ اور اللہ ہی کے شکر گذار بنو اگر تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔
۱۷۳. اس نے تو بس تمہارے لئے مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کے ذبیحہ کو حرام ٹھہرایا ہے۔ اس پر بھی جو مجبور ہو جائے اور وہ خواہشمند اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس کیلئے کوئی گناہ نہیں۔ اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
۱۷۴. بیشک جو لوگ اس چیز کو چھپاتے ہیں جو خدا نے اپنی کتاب میں اتاری ہے اور اس کے عوض میں حقیر قیمت قبول کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے پیٹوں میں صرف دوزخ کی آگ بھر رہے ہیں۔ ان لوگوں سے خدا قیامت کے دن نہ تو بات کرے گا، نہ ان کو پاک کرے گا۔ ان کیلئے بس عذابِ دردناک ہے۔
۱۷۵. یہی لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت پر اور عذاب کو مغفرت پر ترجیح دی۔ یہ دوزخ کے معاملہ میں کتنے ڈھیٹ ہیں۔
۱۷۶. یہ اس لئے ہو گا کہ اللہ نے اپنی کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے اور جن لوگوں نے اس کتاب کے معاملہ میں اختلاف کیا ہے، وہ مخالفت میں بہت دور نکل گئے۔
۱۷۷. خدا کے ساتھ وفاداری محض یہ نہیں کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف رُخ کر لو۔ بلکہ وفاداری (ان کی وفاداری) ہے جو اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر صدق دل سے ایمان لائیں اور اپنے مال، اس کی محبت کے باوجود قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور جب معاہدہ کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ خاص کر وہ جو فقر و فاقہ، تکالیف جسمانی اور جنگ کے اوقات میں ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی لوگ ہیں، جنہوں نے راست بازی دکھائی اور یہی لوگ ہیں جو سچے متقی ہیں۔
۱۷۸. اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض ٹھہرایا گیا ہے: آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ پس جس کسی کیلئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی گئی تو اس کیلئے دستور کی پیروی کرنا اور خوبی کے ساتھ اس کو ادا کرنا ہے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے۔ تو اس کے بعد جو زیادتی کرے گا، اس کیلئے دردناک عذاب ہے۔
۱۷۹. اور تمہارے لئے قصاص میں، اے عقل والو! زندگی ہے، تاکہ تم حدودِ الٰہی کی پابندی کرو۔
۱۸۰. جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کیا گیا ہے والدین اور قرابت مندوں کیلئے دستور کے مطابق وصیت کرنا۔ خدا سے ڈرنے والوں پر یہ حق ہے۔
۱۸۱. تو جو لوگ اس وصیت کو اس کے سننے کے بعد بدل ڈالیں تو اس کا گناہ ان بدل ڈالنے والوں ہی پر ہے۔ بیشک اللہ سننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔
۱۸۲. جس کو کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی بے جا جانب داری یا حق تلفی لا اندیشہ ہو اور وہ آپس میں صلح کرا دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
۱۸۳. اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
۱۸۴. گنتی کے چند دن۔ اس پر بھی تم میں سے جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کر دے اور جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکیں، ان پر ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو کوئی مزید نیکی کرے تو وہ اس کیلئے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو، یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو۔
۱۸۵. رمضان کا مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا، لوگوں کیلئے ہدایت بنا کر اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل کے ساتھ، سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو، وہ اس کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، تمہاری ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا اور (چاہتا ہے) کہ تم تعداد پوری کرو، جو اللہ نے تمہیں ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی کرو اور تاکہ تم اس کے شکر گذار بنو۔
۱۸۶. اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ تو چاہئے کہ وہ میرے حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔
۱۸۷. تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا جائز کیا گیا۔ وہ تمہارے لئے بمنزلہ لباس ہیں اور تم ان کیلئے بمنزلہ لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اس نے تم پر عنایت کی اور تم سے درگذر فرمایا تو اب تم ان سے ملو اور اللہ نے تمہارے لئے جو مقدر کر رکھا ہے، اس کے طالب بنو اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری (شب کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لئے نمایاں ہو جائے۔ پھر رات تک روزہ پورا کرو اور جب تم مسجد میں اعتکاف میں ہو تو بیویوں سے نہ ملو۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، تو ان کے پاس نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کیلئے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔
۱۸۸. اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ اور اس کو حکام رسی کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اس طرح دوسرے کے مال کا کچھ حصہ حق تلفی کر کے ہڑپ کر سکو، درآنحالیکہ تم اس حق تلفی کو جانتے ہو۔
۱۸۹. وہ تم سے محترم مہینوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو: یہ لوگوں کے فوائد اور حج کے اوقات ہیں اور تقویٰ یہ نہیں کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہو، بلکہ تقویٰ ان کا (تقویٰ) ہے، جو حدودِ الٰہی کا احترام ملحوظ رکھیں۔ گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
۱۹۰. اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کریں اور حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
۱۹۱. اور ان کو جہاں کہیں تم پاؤ قتل کرو اور ان کو وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم ان سے مسجدِ حرام کے پاس خود پہل کر کے جنگ نہ کرو جب تک وہ تم سے اس میں جنگ نہ چھیڑیں۔ پس اگر وہ تم سے جنگ چھیڑیں تو ان کو قتل کرو۔ یہی کافروں کا بدلہ ہے۔
۱۹۲. پس اگر وہ باز آ جائیں تو بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
۱۹۳. اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنی باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ کا ہو جائے اور اگر یہ باز آ جائیں تو پھر اقدام صرف ان کے خلاف جائز ہے، جو ظالم ہیں۔
۱۹۴. شہر حرام، شہر حرام کا بدلہ ہے اور اسی طرح دوسری محترم چیزوں کا بھی قصاص ہے، تو جو تم پر زیادتی کریں تم بھی ان کی زیادتی کے جواب میں اسی کے برابر ان کو جواب دو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ اللہ حدودِ الٰہی کا احترام کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
۱۹۵. اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو تباہی میں نہ جھونکو اور انفاق خوبی کے ساتھ کرو۔ بیشک اللہ خوبی کے ساتھ کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۱۹۶. اور حج و عمرہ کو اللہ کیلئے پورا کرو۔ پس اگر تم گھر جاؤ تو جو ہدی میسر ہو (وہ پیش کر دو) اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ البتہ جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو اس کیلئے روزے یا صدقہ یا قربانی کی شکل میں فدیہ ہے اور جب اطمینان کی حالت ہو تو جو کوئی حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھائے تو وہ قربانی پیش کرے جو میسر آئے۔ پس جس کو میسر نہ آئے تو وہ تین دن کے روزے دورانِ حج میں رکھے اور سات دن کے روزے واپسی کے بعد۔ یہ کل دس دن ہوئے۔ یہ ان کیلئے ہے، جن کا گھر در جوارِ حرم میں نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اچھی طرح جان رکھو کہ اللہ سخت پاداش والا ہے۔
۱۹۷. حج کے متعین مہینے ہیں تو جو کوئی ان میں حج کا عزم کر لے تو پھر اس کیلئے حج تک نہ شہوت کی کوئی بات کرنی ہے، نہ فسق و فجور کی، نہ لڑائی جھگڑے کی اور نیکی کے جو کام بھی کرو گے، اللہ اس کو جانتا ہے اور اس کیلئے (تقویٰ کا) زادِ راہ لو، بہترین زادِ راہ تقویٰ (کا زاد راہ) ہے اور مجھ سے ڈرتے رہو، اے عقل والو!
۱۹۸. اس امر میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے رب کے فضل کے طالب بنو، پس جب عرفات سے چلو تو خدا کو یاد کرو مشعر حرام میں ٹھہر کر اور اس کو اس طرح یاد کرو، جس طرح خدا نے تم کو ہدایت کی ہے۔ اس سے پہلے بلاشبہ تم گمراہوں میں تھے۔
۱۹۹. پھر تم بھی وہیں چلو جہاں سے لوگ چلیں اور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگو۔ بیشک اللہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔
۲۰۰. پھر جب تم اپنے حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو جس طرح تم پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو، بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر۔ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں، جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں کامیابی عطا کر، حالانکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
۲۰۱. اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں، جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی کامیابی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور دوزخ کے عذاب سے بچا۔
۲۰۲. یہی لوگ ہیں، جن کو ان کے کیے کا حصہ ملنا ہے اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔
۲۰۳. اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔ سو جو دو ہی دنوں میں اٹھ کھڑا ہو، اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو ٹھہرا رہے، اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ (رعایت) ان کیلئے ہے، جو تقویٰ کو ملحوظ رکھیں اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان رکھو کہ تم اسی کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے۔
۲۰۴. اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں، جن کی باتیں تو اس دنیا کی زندگی میں تمہیں بڑی میٹھی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنی دلی نیت پر خدا کو گواہ بناتے ہیں لیکن وہ کٹر دشمن ہیں۔
۲۰۵. اور جب وہ (تمہارے پاس سے) ہٹتی ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لئے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
۲۰۶. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کا خوف کرو تو گھمنڈ ان کو گناہ پر آمادہ کرتا ہے۔ سو ایسوں کیلئے جہنم کافی ہے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
۲۰۷. اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو اللہ کی رضا جوئی کیلئے اپنے آپ کو تج دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔
۲۰۸. اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
۲۰۹. اگر تم ان کھلی ہوئی تنبیہات کے بعد بھی، جو تمہارے پاس آ چکی ہیں، پھسل گئے تو جان رکھو کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۲۱۰. اب تو یہ لوگ صرف اسی بات کے منتظر ہیں کہ اللہ نمودار ہو جائے، بدلیوں کے سایہ میں اور اس کے فرشتے اور معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے اور یہ امور اللہ ہی کے حوالے ہیں۔
۲۱۱. بنی اسرائیل سے پوچھو: ہم نے ان کو کتنی کھلی کھلی نشانیاں دیں اور جو اللہ کی نعمت کو، اس کے پانے کے بعد، بدل ڈالے تو اللہ سخت پاداش والا ہے۔
۲۱۲. ان کافروں کی نگاہوں میں دنیا کی زندگی کھبا دی گی اور یہ اہلِ ایمان کا مذاق اڑا رہے ہیں، حالانکہ جو لوگ تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہیں، قیامت کے دن وہ ان پر بالا ہوں گے اور اللہ جسے چاہے بے حساب روزی دے۔
۲۱۳. لوگ ایک ہی امت بنائے گئے۔ (انہوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے، جو خوشخبری سناتے اور خبردار کرتے ہوئے آئے اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی قولِ فیصل کے ساتھ، تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں، ان میں فیصلہ کر دے اور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر ان ہی لوگوں نے، جن کو یہ دی گئی تھی، بعد اس کے کہ ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات آ چکی تھیں، محض باہمی ضدم ضدا کے سبب سے۔ پس اللہ نے اپنی توفیق بخشی سے، اہلِ ایمان کی اس حق کے معاملے میں رہنمائی فرمائی، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا۔ اللہ جس کو چاہتا ہے، صراطِ مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔
۲۱۴. کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں ان حالات سے سابقہ پیش نہیں آیا، جن سے تمہارے اگلوں کو پیش آیا۔ ان کو آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ اس قدر جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب نمودار ہو گی! بشارت ہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے!
۲۱۵. وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دو: جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہ والدین، قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔
۲۱۶. تم پر (کفار سے) جنگ فرض کی گئی اور وہ تمہارے لئے ایک ناگوار شے ہے۔ ممکن ہے تم ایک شے کو ناگوار خیال کرو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک شے کو پسندیدہ سمجھو اور وہ تمہارے لئے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
۲۱۷. وہ تم سے شہر حرام میں جنگ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو: اس میں جنگ بڑی سنگین بات ہے۔ لیکن اللہ کے راستہ سے روکنا، اس کا کفر کرنا، مسجدِ حرام سے روکنا اور اس کے لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک (اس جنگ سے بھی) زیادہ سنگین ہے اور جبر و ظلم کے ذریعہ سے لوگوں کو دین سے پھیرنا قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اور یہ لوگ تم سے برابر جنگ کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں، اگر پھیر سکیں اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا اور حالتِ کفر میں مرے گا تو یہی لوگ ہیں، جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے اور یہی لوگ دوزخ میں پڑنے والے ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۲۱۸. البتہ جو لوگ ایمان پر جمے رہیں گے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہ اللہ کی رحمت کے متوقع ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
۲۱۹. وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو: ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فائدے بھی ہیں، لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دو کہ جو ضروریات سے بچ رہے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے، تاکہ تم غور کرو۔
۲۲۰. دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں۔ اور وہ تم سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو: جس میں ان کی بہبود ہو، وہی بہتر ہے اور اگر تم ان کو اپنے ساتھ شامل کر لو تو وہ تمہارے بھائی ہی ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ کون بگاڑ چاہنے والا ہے اور کون بہبود اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو مشقت میں ڈال دیتا۔ بیشک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۲۲۱. اور مشرکہ عورتوں سے، جب تک وہ ایمان نہ لائیں، نکاح نہ کرو۔ ایک مؤمنہ لونڈی ایک (آزاد) مشرکہ سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بھلی لگے اور مشرکوں کو جب تک وہ ایمان نہ لائیں (اپنی عورتیں) نکاح میں نہ دو۔ ایک مؤمن غلام ایک مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلا لگے۔ یہ لوگ دوزخ کی طرف بُلانے والے ہیں اور اللہ، اپنی توفیق بخشی سے، جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کیلئے واضح کرتا ہے، تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔
۲۲۲. اور وہ تم سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو: یہ ناپاکی ہے۔ تو عورتوں سے حیض کے دنوں میں الگ رہو اور ان سے قربت نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں۔ پس جب وہ صفائی کر لیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۲۲۳. تمہاری عورتیں تمہارے لئے بمنزلہ کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لئے آگے بڑھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اس سے لازماً ملنا ہے۔ ایمان والوں کو خوشخبری دے دو۔
۲۲۴. اور اللہ کو اپنی ایسی قسموں کا ہدف نہ بناؤ کہ احسان نہ کرو گے یا حدودِ الٰہی کا احترام نہ کرو گے یا لوگوں کے درمیان صلح نہ کراؤ گے۔ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
۲۲۵. اللہ تم سے تمہاری عادی قسموں کے باب میں تو کوئی مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن ان قسموں کے باب میں تم سے ضرور مواخذہ کرے گا، جو تمہارے دل کے ارادے کا نتیجہ ہیں اور اللہ بخشنے والا اور بردبار ہے۔
۲۲۶. جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھیں، ان کیلئے چار ماہ کی مہلت ہے۔ اگر وہ رجوع کر لیں تو بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
۲۲۷. اور اگر طلاق کا فیصلہ کر لیں تو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
۲۲۸. اور مطلقہ عورتیں اپنے بارے میں تین حیض تک توقف کریں اور اگر وہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کیلئے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو کچھ پیدا کیا ہے، اس کو چھپائیں اور اس دوران میں ان کے شوہر ان کے لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں اگر وہ سازگاری کے طالب ہیں اور ان عورتوں کیلئے دستور کے مطابق اسی طرح حقوق ہیں، جس طرح دستور کے مطابق ان پر ذمہ داریاں ہیں۔ ہاں! مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ترجیح کا ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۲۲۹. طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر دستور کے مطابق یا تو روک لینا ہے، یا احسان کے ساتھ رخصت کر دینا ہے اور تمہارے لئے یہ بات جائز نہیں کہ تم نے جو کچھ عورتوں کو دیا ہے، اس میں سے کچھ واپس لو، مگر اس صورت میں کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدودِ الٰہی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ پس اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدودِ الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو ان پر اس چیز کے باب میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
۲۳۰. پس اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے بعد اس کیلئے جائز نہیں، تا آنکہ وہ اس کے سوا کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔ پ اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ مراجعت کر لیں اگر یہ توقع رکھتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکتے ہیں۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں۔ وہ ان کو واضح کر رہا ہے ان لوگوں کیلئے، جو علم کے طالب ہیں۔
۲۳۱. اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور پہنچ جائیں اپنی مدت کو تو ان کو، دستور کے مطابق روک لو یا دستور کے مطابق رخصت کر دو۔ اور تم ان کو نقصان پہچانے کے ارادے سے نہ روکو کہ تم حدود سے تجاوز کرو اور جو ایسا کرے گا تو اپنی ہی جان پر ظلم ڈھائے گا اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد رکھو اور اس کتاب و حکمت کو یاد رکھو، جو اس نے تمہاری نصیحت کیلئے اتاری اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
۲۳۲. اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو تم اس بات میں مزاحم نہ بنو کہ وہ اپنے (ہونے والے) شوہروں سے نکاح کریں، جبکہ وہ آپس میں معاملہ، دستور کے مطابق، طے کریں۔ یہ نصیحت تم میں سے ان لوگوں کو کی جاتی ہے، جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے اور اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
۲۳۳. اور مائیں اپنے بچوں کو، ان لوگوں کیلئے، پورے دو سال دودھ پلائیں، جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہوں اور بچے والے کے ذمہ بچوں کی ماؤں کا، دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا ہے۔ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، نہ کسی ماں کو اس کے بچے کے سبب سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ کسی باپ کو اس کے بچے کے سبب سے اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے۔ پھر اگر دونوں باہمی رضامندی اور صلاح سے دودھ چھڑا دینا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اور اگر تم اپنے بچوں کو کسی اور سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، جبکہ تم ان کو، دستور کے مطابق، وہ ادا کرو جو تم نے دینے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
۲۳۴. اور جو تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے بارے میں چار ماہ دس دن توقف کریں۔ پھر جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو جو کچھ وہ اپنے بارے میں، دستور کے مطابق، کریں اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو، اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
۲۳۵. اور اس بات میں بھی کوئی گناہ نہیں جو تم ان عورتوں سے پیغامِ نکاح کے قسم کی بطریق کنایہ و اشارہ کہو یا اپنے دلوں میں رکھو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم ان کے ذکر کرو گے، لیکن چپکے سے ان کے ساتھ (نکاح کا) قول و قرار نہ کر بیٹھو۔ ہاں! دستور کے مطابق کوئی بات کہہ سکتے ہو اور عقدِ نکاح کا عزم اس وقت تک نہ کرو، جب تک قانون اپنی مدت کو نہ پہنچ جائے اور جان رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا اور بُردبار ہے۔
۲۳۶. اور اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو ہاتھ لگایا اور نہ ان کیلئے متعین مہر مقرر کیا ہو تو ان کے مہر کے باب میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ان کو، دستور کے مطابق، دے دلا کر رخصت کرو: صاحبِ وسعت اپنی وسعت کے مطابق اور غریب اپنی حالت کے مطابق۔ یہ بھلے لوگوں پر حق ہے۔
۲۳۷. اور اگر تم نے ان کو طلاق تو دی ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے، لیکن ایک متعین مہر ٹھہر اچکے ہو تو مقر رہ مہر کا آدھا ادا کرو، الا آنکہ وہ اپنا حق چھوڑیں یا وہ اپنا حق چھوڑے جس کے ہاتھ میں سر رشتۂ نکاح ہے اور یہ کہ تم اپنا حق معاف کرو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تمہارے درمیان ایک کو دوسرے پر جو فضیلت ہے، اس کو نہ بھولو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
۲۳۸. نمازوں کی نگہداشت رکھو، خاص طور پر بیچ کی نماز کی اور نمازوں میں خدا کے حضور فرمانبردارانہ کھڑے ہو۔
۲۳۹. اگر خطرے کی حالت میں ہو تو پیدل یا سوار، جس صورت میں نماز ادا کر سکو ادا کرو۔ پھر جب خطرہ دور ہو جائے تو اللہ کو اس طریقہ پر یاد کرو، جو اس نے تم کو سکھایا ہے، جس کو تم نہیں جانتے تھے۔
۲۴۰. اور جو تم میں سے وفات پائیں اور بیویاں چھوڑ رہے ہوں، وہ اپنی بیویوں کیلئے سال بھر کے نان نفقے کی، گھر سے نکالے بغیر، وصیت کر جائیں۔ اگر وہ (خود) گھر چھوڑیں تو جو کچھ وہ اپنے باب میں، دستور کے مطابق، کریں اس کا تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۲۴۱. اور مطلقہ عورتوں کو بھی، دستور کے مطابق، کچھ دینا دلانا ہے۔ یہ خدا سے ڈرنے والوں پر حق ہے۔
۲۴۲. اسی طرح اللہ اپنی آیتوں کی تمہارے لئے وضاحت کرتا ہے، تاکہ تم سمجھو۔
۲۴۳. کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا، جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود، موت کے ڈر سے، اپنے گھروں سے بھاگ کھڑے ہوئے تو اللہ نے ان کو کہا کہ جاؤ مر جاؤ! پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا۔ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر گذار نہیں ہوتے۔
۲۴۴. اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور یہ خوب سمجھ رکھو کہ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۲۴۵. اور کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے کہ اللہ اس کو اس کیلئے کئی گنا بڑھائے؟ اللہ ہی ہے جو تنگ دستی بھی دیتا ہے اور کشادگی بھی دیتا ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹنا بھی ہے۔
۲۴۶. کیا تم نے بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا جبکہ، موسیٰ کے بعد، انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک امیر مقرر کر دیجیے کہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔ اس نے کہا: ایسا نہ ہو کہ تم پر جہاد فرض کر دیا جائے تو تم جہاد نہ کرو۔ وہ بولے کہ: بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے، جبکہ ہم اپنے گھروں اور بچوں سے نکالے گئے ہیں؟ پھر جب ان پر جہاد فرض کر دیا گیا تو ان کی ایک قلیل تعداد کے سوا، سب منہ موڑ گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
۲۴۷. اور ان کے نبی نے ان جو بتایا کہ بیشک اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو امیر مقرر کیا ہے۔ وہ بولے کہ بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہو سکتی ہے، جبکہ اس سے زیادہ حقدار ہم اس امارت کے ہیں اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں ہے؟ نبی نے کہا: اللہ نے تمہاری سرداری کیلئے اِسی کو چنا اور اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے، اللہ اپنی طرف سے جسے چاہے اقتدار بخشے، اللہ بڑی سمائی اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔
۲۴۸. اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی امارت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آ جائے گا، جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامانِ تسکین اور آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں، صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
۲۴۹. پھر جب طالوت فوجوں کو لے کر چلے تو انہوں نے بتایا کہ اللہ ایک ندی کے ذریعہ سے تمہاری جانچ کرنے والا ہے تو جو اس میں سے پی لے گا، وہ میرا ساتھی نہیں اور جو اس کو نہیں چکھے گا تو بیشک وہ میرا ساتھی ہے، مگر یہ کہ کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ تو انہوں نے اس میں سے خوب پیا، صرف ان میں سے تھوڑے لوگ اس سے بچے۔ پھر جب طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان پر ثابت قدم رہے، دریا پار کر گئے تو یہ لوگ بولے کہ اب ہم میں تو جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ بالآخر انہیں اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے للکارا کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں، جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آ گئی ہیں۔ اللہ تو ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے۔
۲۵۰. اور جب جالوت اور اس کی فوجوں سے ان کا سامنا ہوا تو انہوں نے دعا کی: اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر انڈیل دے، ہمارے قدم جمائے رکھ اور کافر قوم پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔
۲۵۱. تو اللہ کے حکم سے انہوں نے ان کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اس کو بادشاہی اور حکمت بخشی اور اس علم سے اس کو سکھایا، جس میں سے وہ چاہتا ہے اور اگر اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین فساد سے بھر جاتی، لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
۲۵۲. یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں سناتے ہیں مقصد کے ساتھ اور بیشک تم (اللہ کے) رسولوں میں سے ہو۔
۲۵۳. یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے واضح دلائل کے بعد نہ لڑتے۔ لیکن انہوں نے اختلاف کیا، سو ان میں سے کچھ ایمان لائے اور کچھ نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑ پاتے، لیکن اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
۲۵۴. اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، اس دن کے آنے سے پہلے، جس میں نہ تو خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی اور جو لوگ انکار کرنے والے ہیں، اپنے اوپر اصلی ظلم ڈھانے والے وہی ہیں۔
۲۵۵. اللہ ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ زندہ ہے، سب کا قائم رکھنے والا ہے۔ نہ اس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کی ملکیت ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور، اس کی اجازت کے بغیر، کسی کی سفارش کر سکے؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو وہ چاہے۔ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین، سب پر حاوی ہے اور ان کی حفاظت اس پر ذرا بھی گراں نہیں اور وہ بلند اور عظیم ہے۔
۲۵۶. دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہو چکی ہے۔ تو جس نے طاغوت کا انکار کیا، اور اللہ پر ایمان لایا، اس نے مضبوط رسی پکڑی، جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
۲۵۷. اللہ ان لوگوں کا کارساز ہے، جو ایمان لاتے ہیں، وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے کارساز طاغوت بنتے ہیں، وہ ان کو روشنی سے تاریکیوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخی ہیں، یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۲۵۸. کیا تم نے اس کو نہیں دیکھا، جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے باب میں اس وجہ سے حجت کی کہ خدا نے اس کو اقتدار بخشا تھا۔ جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے، جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔ وہ بولا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ یہ بات ہے تو اللہ سورج کو پورب سے نکالتا ہے، تو اسے پچھم سے نکال دے! تو وہ کافر یہ سن کر بھونچکا رہ گیا اور اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا۔
۲۵۹. یا جیسے کہ وہ جس کا گذر ایک بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ اس نے کہا کہ بھلا اللہ اس کو اس کے فنا ہو چکنے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے اس کو سو سال کی موت دے دی۔ پھر اس کو اٹھایا۔ پوچھا: کتنی مدت (اس حال میں) رہے؟ بولا: (اس حال میں) ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہا۔ فرمایا: بلکہ تم پورے سو سال (اس حال میں) رہے! اب تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو، ان میں سے کوئی چیز بُسی تک نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھو (ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں تاکہ تمہیں اٹھائے جانے پر یقین ہو) اور تاکہ ہم تمہیں لوگوں کیلئے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں کی طرف دیکھو، کس طرح ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پس جب اس پر حقیقت اچھی طرح واضح گئی، وہ پکار اٹھا کہ میں مانتا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۶۰. اور (یاد کرو) جبکہ ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ بولا: ایمان تو رکھتا ہوں، لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل پوری طرح مطمئن ہو جائے۔ فرمایا: تو چار پرندے لو اور ان کو اپنے سے ہلالو، پھر (ان کو ٹکڑے کر کے) ہر پہاڑی پر ان کا ایک ایک حصہ رکھ دو، پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان رکھو کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۲۶۱. ان لوگوں کے مال کی تمثیل جو اپنے مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس دانے کے مانند ہے، جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور اس کی ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اللہ برکت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اللہ بڑی گنجائش والا اور علم والا ہے۔
۲۶۲. جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اپنے اس انفاق کے پیچھے نہ احسان جتاتے، نہ دل آزاری کرتے، ان کیلئے ان کے ربّ کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ تو ان کیلئے کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۲۶۳. دلداری کا ایک کلمہ کہہ دینا اور درگذر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دل آزاری لگی ہوئی ہو۔ اللہ بے نیاز اور بردبار ہے۔
۲۶۴. اے ایمان والو! احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو، اس شخص کی مانند جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کیلئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا۔ ایسے شخص کی تمثیل یوں ہے کہ ایک چٹان ہو، جس پر کچھ مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ پڑے اور وہ اس کو بالکل سپاٹ پتھر چھوڑ جائے۔ ان کی کمائی میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑے گا اور اللہ ناشکروں کو با مراد نہیں کرے گا۔
۲۶۵. اور ان لوگوں کے عمل کی تمثیل جو اپنے مال اللہ کی رضا جوئی اور اپنے دلوں کو جمائے رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی مانند ہے جو بلندی پر واقع ہو۔ اس پر بارش ہو گئی تو دو چند پھل لایا، بارش نہ ہوئی تو پھوار بھی کافی ہو گی۔ اور اللہ جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اس کو دیکھ رہا ہے۔
۲۶۶. کیا تم میں سے کوئی بھی یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، نیچے اس کے نہریں بہہ رہی ہوں، اس میں اس کے واسطے ہر قسم کے پھل ہوں، وہ بوڑھا ہو جائے اور اس کے بچے ابھی ناتواں ہوں اور باغ پر سموم کا بگولا پھر جائے اور وہ جل کر خاک ہو جائے؟ اللہ اس طرح اپنی باتیں تمہارے لئے واضح کرتا ہے، تاکہ تم غور کرو۔
۲۶۷. اے ایمان والو! اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو، جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہیں اور اس میں سے وہ مال تو خرچ کرنے کا خیال بھی نہ کرو، جس کو خدا کی راہ میں تو خرچ کرنے پر آمادہ ہو جاؤ، لیکن (اگر وہی مال تمہیں لینا پڑ جائے تو) بغیر آنکھیں میچے اس کو نہ لے سکو۔ اور اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔
۲۶۸. شیطان تمہیں تنگ دستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کی راہ سجھاتا ہے اور اللہ اپنی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑی سمائی اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔
۲۶۹. وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جسے حکمت ملی، اسے خیر کثیر کا خزانہ ملا۔ مگر یاد دہانی وہی حاصل کرتے ہیں، جو عقل والے ہیں۔
۲۷۰. جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے یا جو کچھ بھی نذر مانو گے تو یاد رکھو کہ اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے اور ان لوگوں کا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا، جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔
۲۷۱. اور اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر ان کو چھپاؤ اور چپکے سے غریبوں کو دے دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تمہارے گناہوں کو جھاڑ دے گا اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اس کی خبر رکھنے والا ہے۔
۲۷۲. ان کو ہدایت دینا تمہارے ذمے نہیں ہے، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے، اس کا نفع تمہیں کو حاصل ہونا ہے اور نہ خرچ کیجیو مگر اللہ کی رضا جوئی ہی کیلئے اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے، وہ تم کو پورا کر دیا جائے گا اور تمہارے حق میں ذرا بھی کمی نہ کی جائے گی۔
۲۷۳. یہ ان غریبوں کیلئے ہے، جو خدا کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں، زمین میں کاروبار کیلئے نقل و حرکت نہیں کر سکتے، بے خبر ان کی خود داری کے سبب ان کو غنی خیال کرتا ہے، تم ان کو ان کی صورت سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے تو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
۲۷۴. جو لوگ اپنے مال رات اور دن، پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ ان کیلئے خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۲۷۵. جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کی مانند، جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے اور حال یہ ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا اور سود کو حرام۔ تو جس کو اللہ کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا، وہ اس کیلئے ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اب اس کے مرتکب ہوں تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۲۷۶. اللہ سود کو گھٹائے گا اور صدقات کو بڑھائے گا اور اللہ ناشکروں اور حق تلفوں کو پسند نہیں کرتا۔
۲۷۷. بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے بھلے کام کیے، نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی، ان کیلئے ان کے ربّ کے پاس ان کا اجر ہے۔ نہ ان کیلئے کوئی اندیشہ ہو گا، نہ ان کو کوئی غم لاحق ہو گا۔
۲۷۸. اے ایمان والو! اگر تم سچے مؤمن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہارا باقی رہ گیا ہے، اس کو چھوڑ دو۔
۲۷۹. اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کیلئے خبردار ہو جاؤ اور اگر تم توبہ کر لو تو اصل رقم کا تمہیں حق ہے۔ نہ تم کسی کا حق مارو، نہ تمہارا حق مارا جائے۔
۲۸۰. اور اگر مقروض تنگدست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو اور بخش دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔
۲۸۱. اور اس دن سے ڈرو، جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے، پوری پوری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہو گا۔
۲۸۲. اے ایمان والو! جب تم کسی معین مدت کیلئے ادھار کا لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور اس کو لکھے تمہارے مابین کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ اور جسے لکھنا آتا ہو، وہ لکھنے سے انکار نہ کرے، بلکہ جس طرح اللہ نے اس کو سکھایا ہے، اس طرح وہ دوسروں کیلئے لکھنے کے کام آئے اور یہ دستاویز لکھوائے وہ جس پر حق عائد ہوتا ہے اور وہ اللہ سے، جو اس کا رب ہے، ڈرے اور اس میں کوئی کمی نہ کرے اور اگر وہ، جس پر حق عائد ہوتا ہے، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو جو اس کا ولی ہو، وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے اور اس پر اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ ٹھہرا لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی۔ یہ گواہ تمہارے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوں۔ (دو عورتیں اس لئے) کہ ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری یاد دلائے گی اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں۔ اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت تک کیلئے اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتو۔ یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین عدل، گواہی کو زیادہ ٹھیک رکھنے والی اور اس امر کے زیادہ قریسن قیاس ہیں کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔ ہاں! اگر معاملہ خرید و فروخت کا کرو تو اس صورت میں بھی گواہ بنا لیا کرو اور کاتب یا گواہ کو کسی طرح نقصان نہ پہنچایا جائے اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہاری بڑی پائدار نافرمانی ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
۲۸۳. اور اگر تم سفر میں ہو اور کاتب نہ ملے سکے تو رہن قبضہ میں کرا دو۔ پس اگر ایک دوسرے پر اعتماد کی صورت نکل آئے تو جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے، وہ اس کی امانت ادا کرے اور اللہ سے، جو اس کا رب ہے، ڈرے اور شہادت کو مت چھپاؤ اور جو اس کو چھپائے تو وہ یاد رکھے کے اس کا دل گنہگار ہے اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اس کو جاننے والا ہے۔
۲۸۴. جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، سب خدا ہی کا ہے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، خدا اس کا تم سے حساب لے گا۔ پھر جس کو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۸۵. رسول ایمان لایا اس چیز پر، جو اس پر اس کے رب کی جانب سے اتاری گئی اور مؤمنین ایمان لائے۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ (ان کا اقرار ہے کہ) ہم خدا کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری مغفرت کے طلبگار ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
۲۸۶. اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر ایک پائے گا جو کمائے گا اور بھرے گا جو کرے گا۔ اے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بھیٹیں تو ہم سے مواخذہ نہ فرمانا اور اے ہمارے پروردگار! ہمارے اوپر اس طرح کا کوئی بار نہ ڈال، جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا، جو ہم سے پہلے ہو گذرے اور اے ہمارے پروردگار! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ لاد، جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو اور ہمیں معاف کر، ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، پس کافروں کے مقابل میں ہماری مدد کر!
٭٭٭
مکمل ترجمہ ڈاؤن لوڈ کریں