FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں……

تیسیر القرآن

مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

۱۸۔ سورۃ الکہف

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

۱۔   سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے ۱۔ الف بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔

۲۔   یہ سیدھا راستہ بتانے والی کتاب ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے سخت عذاب سے ڈرائے اور ان ایمانداروں کو جو نیک عمل کرتے ہیں یہ بشارت دے دے کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے۔

۳۔   جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے۔

۴۔   اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔

۵۔   اس بات کا نہ انھیں خود کچھ علم ہے، نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بہت ہی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔

۶۔   آپ شاید ان کافروں کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے اس غم سے کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔

۷۔   جو کچھ زمین پر موجود ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انھیں آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔

۸۔   یہ جو کچھ زمین پر ہے ہم اسے ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔

۹۔   کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غار والوں اور کتبہ والوں کا معاملہ ہماری نشانیوں میں سے کوئی بڑی عجیب نشانی تھا؟۔

۱۰۔   جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے! اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔

۱۱۔   تو ہم نے انھیں اس غار میں تھپکی دے کر کئی سال تک کے لئے سلا دیا۔

۱۲۔   پھر ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ ہر دو فریق میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک حساب رکھتا ہے۔

۱۳۔   ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتاتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انھیں مزید رہنمائی بخشی۔

۱۴۔   اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کر دیا جب انہوں نے کھڑا ہو کر اعلان کیا کہ: ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور الٰہ کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ ایک بعید از عقل بات ہو گی‘‘

۱۵۔   (پھر آپس میں کہنے لگے) ’’یہ ہماری قوم کے لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھا ہے تو پھر یہ ان کے الٰہ ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر تہمت لگائے۔

۱۶۔   اور اب جبکہ تم لوگوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے اور ان کے معبودوں سے جنہیں یہ لوگ پوجتے ہیں، کنارہ کر ہی لیا ہے تو آؤ اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی پیدا کر دے گا۔

۱۷۔   آپ دیکھیں گے کہ جب سورج نکلتا ہے تو ان کی غار سے دائیں طرف سے ہٹا رہتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں طرف کترا کر غروب ہوتا ہے اور وہ نوجوان اس غار کی وسیع جگہ میں لیٹے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پا سکتا ہے اور جسے وہ بھٹکا دے تو آپ اس کے لئے ایسا کوئی مددگار نہ پائیں گے جو اسے راہ راست پر لا سکے۔

۱۸۔   (اے مخاطب تو انھیں دیکھے تو) سمجھے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کتا اس غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر تو انھیں جھانک کر دیکھے تو دہشت کے مارے بھاگ نکلے۔

۱۹۔   اسی طرح ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ وہ آپس میں کچھ سوال جواب کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا : ’’بھلا تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟‘‘ ان میں سے کچھ نوجوانوں نے کہا: ’’یہی کوئی ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘ اور بعض نے کہا: ’’یہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے۔ اب یوں کرو کہ اپنا چاندی کا روپیہ (سکہ) دے کر کسی ایک کو شہر بھیجو کہ وہ دیکھے کہ صاف ستھرا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ آپ کے لئے کچھ کھانے کو لائے اور اسے نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو آپ لوگوں کا پتہ چل جائے۔

۲۰۔   کیونکہ اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے۔ اندریں صورت تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔

۲۱۔   اس طرح ہم نے لوگوں کو ان نوجوانوں پر مطلع کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت بپا ہونے میں کوئی شک نہیں جبکہ وہ آپس میں ان نوجوانوں کے معاملہ میں جھگڑا کر رہے تھے۔ آخر ان میں سے کچھ لوگ کہنے لگے کہ یہاں ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا معاملہ ان کا پروردگار ہی خوب جانتا ہے۔ مگر جو لوگ اس جھگڑے میں غالب رہے انہوں نے کہا کہ ہم تو یہاں ان پر مسجد بنائیں گے۔

۲۲۔   کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان تین تھے، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ ان سے کہئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی ٹھیک تعداد جانتا ہے جسے چند لوگوں کے سوا دوسرے نہیں جانتے۔ لہذا آپ سرسری سی بات کے علاوہ ان سے بحث میں نہ پڑئیے اور ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھئے نہیں۔

۲۳۔   نیز کسی چیز کے متعلق یہ کبھی نہ کہئے کہ میں کل یہ ضرور کر دوں گا۔

۲۴۔   اِلا یہ کہ اللہ چاہے ۔ اور اگر آپ بھول کر ایسی بات کہہ دیں تو فوراً اپنے پروردگار کو یاد کیجئے اور کہئے کہ: امید ہے کہ میرا پروردگار اس معاملہ میں صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔

۲۵۔   وہ نوجوان اپنے غار میں تین سو سال ٹھہرے رہے اور (کچھ لوگوں نے) نو سال زیادہ شمار کئے۔

۲۶۔   آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے جتنی مدت وہ ٹھہرے رہے، اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں معلوم ہیں۔ وہ کیا ہی خوب دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ ان چیزوں کا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور منتظم نہیں اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

۲۷۔   اے نبی! جو کچھ آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے آپ کے اپنے پروردگار کی کتاب میں سے وہ انھیں پڑھ کر سنا دو۔ کوئی اس کے ارشادات کو بدلنے کا مجاز نہیں (اور اگر کوئی ایسا کام کرے تو) آپ اللہ کے سوا اس کے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔

۲۸۔   اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ ہی مطمئن رکھئے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے ہٹنے نہ پائیں کہ دنیوی زندگی کی زینت چاہنے لگیں۔ نہ ہی آپ ایسے شخص کی باتیں مانئے جس کا دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے، وہ اپنی خواہش پر چلتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔

۲۹۔   نیز آپ انھیں کہئے کہ: حق تو وہ ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے (آ چکا) اب جو چاہے اسے مان لے اور جو چاہے اس کا انکار کر دے۔ ہم نے ظالموں کے لئے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انھیں پینے کو جو پانی دیا جائے گا وہ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم گرما اور ان کے چہرے بھون ڈالے گا۔ کتنا برا ہے یہ مشروب اور کیسی بری آرام گاہ ہے۔

۳۰۔   جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو یقیناً ہم اس کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے کام کرتا ہو۔

۳۱۔   یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑے پہنیں گے۔ وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے۔ یہ کیسا اچھا بدلہ اور کیسی اچھی آرام گاہ ہے۔

۳۲۔   آپ ان سے ان دو آدمیوں کی مثال بیان کیجئے۔ جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کئے تھے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی تھی اور ان دونوں کے درمیان قابل کاشت زمین بنائی تھی۔

۳۳۔   یہ دونوں باغ اپنا پھل پورا لائے اور بار آور ہونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ان کے بیچوں بیچ ہم نے نہر جاری کر دی تھی۔

۳۴۔   اسے ان درختوں کا پھل ملتا رہا تو (ایک دن) وہ گفتگو کے دوران اپنے ساتھی سے کہنے لگا: ’’میں تجھ سے مالدار بھی زیادہ ہوں اور افرادی قوت بھی زیادہ رکھتا ہوں‘‘

۳۵۔   یہی کہتے کہتے وہ اپنے باغ میں داخل ہوا درآنحالیکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر رہا تھا اور کہنے لگا: ’’میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی اجڑ بھی سکتا ہے۔

۳۶۔   اور نہ ہی میں یہ گمان کرتا ہوں کہ قیامت قائم ہو گی اور اگر مجھے اپنے رب کے ہاں پلٹا کر لے جایا بھی گیا تو میں یقیناً اس سے بہتر جگہ پاؤں گا‘‘

۳۷۔   اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران اسے کہا: ’’کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا‘‘

۳۸۔   رہی میری بات تو میرا پروردگار تو اللہ ہی ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔

۳۹۔   اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کیوں نہ کہا: ’’ماشاء اللہ لاقوہ الا باللہ (وہی ہوتا ہے جو چاہتا ہے اور اللہ کی توفیق کے بغیر کسی کا کچھ زور نہیں) بھلا دیکھو! اگر میں مال اور اولاد میں تم سے کمتر ہوں

۴۰۔   تو عین ممکن ہے کہ میرا پروردگار مجھے تیرے باغ سے بہتر باغ عطا کر دے اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے۔ جس سے وہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے۔

۴۱۔   اس کا پانی گہرا چلا جائے اور تو پانی نکال بھی نہ سکے۔‘‘

۴۲۔   (آخر یوں ہوا کہ) باغ کے پکے ہوئے پھل کو عذاب نے آ گھیرا اور جو کچھ وہ باغ پر خرچ کر چکا تھا اس پر اپنے دونوں ہاتھ ملتا رہ گیا۔ وہ باغ انہی ٹٹیوں پر گرا پڑا تھا ۔ اب وہ کہنے لگا: ’’کاش! میں نے اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا ”۔

۴۳۔   اللہ کے سوا کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو اس کی مدد کرتی اور وہ خود بھی اس آفت کا مقابلہ نہ کر سکا۔

۴۴۔   اب اسے معلوم ہوا کہ مکمل اختیار تو اللہ برحق کو ہے۔ وہی اچھا ثواب دینے والا اور انجام بخیر دکھانے والا ہے۔

۴۵۔   نیز ان کے لئے دنیا کی زندگی کی یہ مثال بیان کیجئے: جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئی۔ پھر وہی نباتات ایسا بھس بن گئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔

۴۶۔   یہ مال اور بیٹے تو محض دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ورنہ آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور اچھی امیدیں لگانے کے لحاظ سے بھی

۴۷۔   اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور آپ زمین کو بالکل چٹیل اور ہموار دیکھیں گے اور ہم لوگوں کو جمع کریں گے تو ان میں سے کسی کو بھی باقی نہیں چھوڑیں گے۔

۴۸۔   اور وہ اپنے پروردگار کے حضور صف بستہ پیش کئے جائیں گے (تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے) آخر تم ہمارے پاس اسی طرح آ گئے جیسے ہم نے پہلی بار تمہیں پیدا کیا تھا۔ بلکہ تم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدہ کا وقت مقرر ہی نہیں کیا تھا۔

۴۹۔   اور نامہ اعمال (ہر ایک کے سامنے) رکھ دیا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اعمال نامہ کے مندرجات سے ڈر رہے ہیں اور کہیں گے ’’ہائے ہماری بد بختی اس کتاب نے نہ تو کوئی چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی، سب کچھ ہی ریکارڈ کر لیا ہے۔ اور جو کام وہ کرتے رہے سب اس میں موجود پائیں گے اور آپ کا پروردگار کسی پر (ذرہ بھر بھی) ظلم نہیں کرے گا۔

۵۰۔    اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے اسے سجدہ کیا۔ وہ جنوں سے تھا اس لئے اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کی۔ کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے؟ یہ کیسا برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔

۵۱۔   میں نے تو انھیں نہ اس وقت گواہ بنایا تھا جب آسمان اور زمین پیدا کئے تھے اور نہ اس وقت جب خود انھیں پیدا کیا تھا اور میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا بھی نہیں۔

۵۲۔   اور جس دن اللہ تعالیٰ (مشرکوں سے) فرمائے گا: ان معبودوں کو تو بلاؤ جنہیں تم میرا شریک خیال کرتے تھے‘‘ وہ انھیں پکاریں گے تو سہی مگر وہ (معبود) انھیں کوئی جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کا گڑھا بنا دیں گے۔

۵۳۔   اور مجرم جب دوزخ کو دیکھیں گے تو انھیں یقین ہو جائے گا کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچاؤ کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

۵۴۔   اور ہم نے قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالوں سے سمجھایا ہے مگر انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے۔

۵۵۔   اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی تو انھیں اس پر ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے استغفار کرنے سے کس چیز نے روک دیا؟ بجز اس کے کہ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان سے پہلے لوگوں کا سا معاملہ پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آ جائے

۵۶۔   ہم رسولوں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں اور کافر لوگ ان رسولوں سے بے ہودہ دلائل کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ ان سے حق کو نیچا دکھائیں اور انہوں نے میری آیات اور تنبیہات کو مذاق بنا رکھا ہے۔

۵۷۔   اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اللہ کی آیات سے نصیحت کی جائے اور وہ اس سے منہ پھیر لے اور اپنے وہ سب کام بھول جائے جو اس نے آگے بھیجے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ قرآن کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور اگر آپ انھیں راہ راست کی طرف بلائیں بھی تو وہ کبھی اس راہ پر نہیں آئیں گے۔

۵۸۔   اور آپ کا پروردگار بہت بخشنے والا اور رحمت والا ہے ورنہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اگر ان پر گرفت کرتا تو جلد ہی ان پر عذاب لے آتا۔ بلکہ ان کے لئے وعدہ کا وقت مقرر ہے جس سے یہ لوگ کوئی پناہ کی جگہ نہ پا سکیں گے۔

۵۹۔   اور یہ (عذاب رسیدہ) بستیاں ہیں جب انہوں نے ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر ڈالا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک وقت معین کر رکھا تھا۔

۶۰۔   اور (وہ قصہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا : ’’میں تو چلتا ہی جاؤں گا تا آنکہ دو دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں یا پھر میں مدتوں چلتا ہی رہوں گا۔

۶۱۔   پھر جب وہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچ گئے تو اپنی مچھلی کو بھول گئے اور اس مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنا لیا۔

۶۲۔   پھر جب وہ وہاں سے آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا: ہمارا کھانا لاؤ، اس سفر نے تو ہمیں بہت تھکا دیا ہے۔

۶۳۔   خادم نے جواب دیا، بھلا دیکھو! جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے تو میں آپ سے مچھلی کی بات کرنا بھول گیا۔ یہ شیطان ہی تھا جس نے مجھے آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھلا دیا۔ (بات یہ ہوئی کہ) مچھلی نے بڑے عجیب طریقے سے دریا میں اپنی راہ بنا لی تھی۔

۶۴۔   موسیٰ نے کہا: ’’اسی چیز کی تو ہمیں تلاش تھی‘‘ چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس چلے آئے۔

۶۵۔   وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا۔ اور اپنے ہاں سے ایک خاص علم سکھایا تھا۔

۶۶۔   موسیٰ نے اس بندے (خضر) سے کہا: اگر میں آپ کی پیروی کروں تو کیا آپ اس بھلائی کا کچھ حصہ مجھے بھی سکھا دیں گے جو آپ کو سکھائی گئی ہے۔

۶۷۔   اس بندے (خضر) نے کہا: آپ میرے ساتھ کبھی صبر نہ کر سکیں گے۔

۶۸۔   اور جس واقعہ کی حقیقت کا آپ کو علم نہ ہو اس پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟

۶۹۔   موسیٰ نے کہا: آپ انشاء اللہ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

۷۰۔   (خضر نے) کہا: اچھا اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو پھر مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں تا آنکہ میں خود ہی آپ سے اس کا ذکر کر دوں۔

۷۱۔   چنانچہ وہ دونوں چل کھڑے ہوئے حتیٰ کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) اس کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ نے کہا، کیا تم نے اس لئے شگاف ڈالا ہے کہ کشتی والوں کو ڈبو دو؟ یہ تو تم نے خطرناک کام کیا ہے‘‘

۷۲۔   (خضر نے) کہا: ’’میں نے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے۔

۷۳۔   موسیٰ نے جواب دیا۔ مجھ سے جو بھول ہو گئی اس پر گرفت نہ کرو اور میرے لئے میرا کام مشکل نہ بناؤ۔

۷۴۔   چنانچہ وہ دونوں پھر چل کھڑے ہوئے تا آنکہ ایک لڑکے کو ملے جسے (خضر نے) مار ڈالا۔ موسیٰ نے کہا: ’’تم نے تو ایک بے گناہ شخص کو مار ڈالا، جس نے کسی کا خون نہ کیا تھا یہ تو تم نے بہت ناپسندیدہ کام کیا ‘

۷۵۔   (خضر نے) کہا: میں نے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ کبھی صبر نہ کر سکو گے۔

۷۶۔   موسیٰ نے کہا: اگر اس کے بعد میں نے کوئی بات پوچھی تو پھر مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔ اب میری طرف سے آپ پر کوئی عذر باقی نہ رہے گا۔

۷۷۔   چنانچہ پھر وہ دونوں چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں ایک بستی والوں کے پاس آئے۔ اور ان سے کھانا مانگا۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ (خضر نے) اس دیوار کو پھر سے قائم کر دیا۔ موسیٰ نے (خضر سے) کہا: ’’اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔

۷۸۔   (خضر نے) کہا: ’’اب میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔

۷۹۔   کشتی کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ چند مسکینوں کی ملکیت تھی جو دریا پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کشتی کو عیب دار کر دوں کیونکہ ان کے آگے ایک ایسا بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا

۸۰۔   اور لڑکے کا قصہ یہ ہے کہ اس کے والدین مومن تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت نہ لا کھڑی کرے۔

۸۱۔   لہٰذا ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس لڑکے کے بدلے انھیں اس سے بہتر لڑکا عطا کرے جو پاکیزہ اخلاق والا اور قرابت کا بہت خیال رکھنے والا ہو۔

۸۲۔   اور دیوار کی بات یہ ہے کہ وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں رہتے تھے۔ اس دیوار کے نیچے ان کے لئے خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا۔ لہذا آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کو پہنچ کر اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ جو کچھ میں نے کیا، سب آپ کے پروردگار کی رحمت تھی۔ میں نے اپنے اختیار سے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ ہے ان باتوں کی حقیقت جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

۸۳۔   لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے پوچھتے ہیں۔ آپ انھیں کہئے کہ ابھی میں اس کا کچھ حال تمہیں سناؤں گا

۸۴۔   بلا شبہ ہم نے اسے زمین میں اقتدار بخشا تھا اور ہر طرح کا ساز و سامان بھی دے رکھا تھا۔

۸۵۔   چنانچہ وہ ایک راہ (مہم) پر چل کھڑا ہوا

۸۶۔   حتیٰ کہ وہ سورج غروب ہونے کی حد تک پہنچ گیا اسے یوں معلوم ہوا جیسے سورج سیاہ کیچڑ والے چشمہ میں ڈوب رہا ہے وہاں اس نے ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا: ’’اے ذو القرنین! تجھے اختیار ہے خواہ ان کو تو سزا دے ۷۲۔ الف یا ان سے نیک رویہ اختیار کرے۔

۸۷۔   ذو القرنین نے کہا: جو شخص ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اور بھی سخت عذاب دے گا۔

۸۸۔   البتہ جو ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے اسے اچھا بدلہ ملے گا اور اسے ہم اپنے آسان سے کام کرنے کو کہیں گے۔

۸۹۔   پھر وہ ایک اور راہ (دوسری مہم) پر چل پڑا۔

۹۰۔   حتیٰ کہ وہ طلوع آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ اسے ایسا معلوم ہوا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے کہ سورج اور اس قوم کے درمیان ہم نے کوئی آڑ نہیں بنائی۔

۹۱۔   واقعہ ایسا ہی تھا اور ذو القرنین کو جو حالات پیش آئے اسے ہم خوب جانتے ہیں۔

۹۲۔   پھر وہ ایک اور راہ (تیسری مہم) پر نکلا۔

۹۳۔   تا آنکہ وہ دو بلند گھاٹیوں کے درمیان پہنچا وہاں ان کے پاس اس نے ایسی قوم دیکھی جو بات بھی نہ سمجھ سکتی تھی۔

۹۴۔   وہ کہنے لگے: ’’اے ذو القرنین! یاجوج اور ما جوج نے اس سرزمین میں فساد مچا رکھا ہے۔ اگر ہم آپ کو کچھ چندہ اکٹھا کر دیں تو کیا آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار چن دیں گے؟‘‘

۹۵۔   ذو القرنین نے جواب دیا: ’’میرے پروردگار نے جو مجھے (مالی) قوت دے رکھی ہے۔ وہ بہت ہے تم بس بدنی قوت (محنت) سے میری مدد کرو تو میں ان کے اور تمہارے درمیان بند بنا دوں گا

۹۶۔   مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔ ذو القرنین نے جب ان چادروں کو ان دونوں گھاٹیوں کے درمیان برابر کر کے خلا کو پاٹ دیا تو ان سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ تا آنکہ جب وہ لوہے کی چادریں آگ (کی طرح سرخ) ہو گئیں تو اس نے کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ میں ان چادروں کے درمیان بہا کر پیوست کر دوں‘‘

۹۷۔   (اس طرح یہ بند ایسا بن گیا کہ) یاجوج ماجوج نہ تو اس کے اوپر چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے۔

۹۸۔   ذو القرنین کہنے لگا: یہ میرے پروردگار کی رحمت سے بن گیا ہے مگر میرے پروردگار کے وعدہ کا وقت آ جائے گا تو وہ اس بند کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔

۹۹۔   اس دن ہم لوگوں کو کھلا چھوڑ دیں گے کہ وہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب لوگوں کو اکٹھا کر دیں گے

۱۰۰۔   اس دن ہم جہنم کو کافروں کے سامنے لے آئیں گے۔

۱۰۱۔   جن کی آنکھوں پر میرے ذکر سے (غفلت کا) پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے۔

۱۰۲۔   کیا کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو ہی کارساز بنا لیں؟ ہم نے ایسے کافروں کی مہمانی کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے

۱۰۳۔   آپ ان سے کہئے: ’’کیا ہم تمہیں بتائیں کہ لوگوں میں اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کون ہیں؟

۱۰۴۔   یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر کوشش دنیا کی زندگی کے لئے ہی کھپا دیں پھر وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں

۱۰۵۔   یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا۔ لہذا ان کے سب اعمال برباد ہو جائیں گے اور قیامت کے دن ہم ان کے لئے میزان ہی نہیں رکھیں گے۔

۱۰۶۔   یہ جہنم ہی ان کا بدلہ ہے کیونکہ انہوں نے کفر اختیار کیا تھا اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔

۱۰۷۔   البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کی مہمانی فردوس کے باغات سے ہو گی۔

۱۰۸۔   جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کسی اور جگہ منتقل ہونا پسند نہ کریں گے‘‘

۱۰۹۔   آپ ان سے کہہ دیجئے کہ: اگر میرے پروردگار کی باتیں لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو سمندر ختم ہو جائے گا مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نہ ہوں گی خواہ اتنی ہی اور بھی سیاہی (سمندر) لائی جائے۔

۱۱۰۔   آپ ان سے کہہ دیجئے کہ: میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ (ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ) میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ لہذا جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔

٭٭٭

۱۹۔ سورۃ مریم

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

۱۔   ک۔ ہ۔ ی۔ ع۔ ص

۲۔   یہ آپ کے پروردگار کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔

۳۔   جب زکریا نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا

۴۔   اور کہا: ’’میرے پروردگار! میری ہڈیاں بوسیدہ ہو چکیں اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کے بال سفید ہو گئے، تاہم اے میرے پروردگار! میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

۵۔   میں اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں (کی برائیوں سے) ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو اپنی جناب سے مجھے ایک وارث عطا فرما

۶۔   جو میرے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے پروردگار! اسے پسندیدہ انسان بنانا‘‘

۷۔   (اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا:) زکریا! ہم تمہیں ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ اس سے پیشتر اس نام کا کوئی دوسرا آدمی ہم نے پیدا نہیں کیا۔

۸۔   زکریا نے عرض کی: میرے پروردگار! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی حد کمال کو پہنچا چکا ہوں‘‘

۹۔   اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہاں ایسا ضرور ہو گا۔ تیرا پروردگار یہ کہہ رہا ہے کہ یہ میرے لئے آسان سی بات ہے، اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جبکہ تو کوئی چیز بھی نہ تھا‘‘

۱۰۔   زکریا نے عرض کیا: ’’پروردگار! پھر میرے لئے کوئی نشانی مقرر کر دے‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’تیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تو مسلسل تین رات تک لوگوں سے گفتگو نہ کر سکے گا‘‘

۱۱۔   چنانچہ (جب وہ وقت آ گیا) زکریا اپنے حجرہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو انھیں اشارہ سے کہا کہ ’’صبح و شام تسبیح بیان کیا کرو‘‘

۱۲۔   (اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کو بچپن میں ہی حکم دیا ہے کہ) ’’اے یحییٰ! کتاب (تورات) پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو جاؤ‘‘ اور ہم نے اسے بچپن میں ہی قوت فیصلہ عطا کر دی تھی۔

۱۳۔   ہم نے اسے اپنی مہربانی سے نرم دل اور پاک سیرت بنایا اور وہ فی الواقع پرہیزگار تھے۔

۱۴۔   وہ اپنے والدین سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے تھے اور کسی وقت بھی جابر اور نافرمان نہ ہوئے۔

۱۵۔   اس دن پر سلامتی ہو جس دن بھی وہ پیدا ہوئے اور اس دن بھی جب وہ مریں گے اور اس دن بھی جب دوبارہ زندہ اٹھایا جائے گا۔

۱۶۔   اور (اے پیغمبر!) اس کتاب میں مریم کا حال بھی ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی۔

۱۷۔   اور پردہ ڈال کر ان سے چھپ گئی تھی۔ اس وقت ہم نے اس کی طرف اپنی روح (فرشتہ) کو بھیجا جو ایک تندرست انسان کی شکل میں مریم کے سامنے آ گیا۔

۱۸۔   وہ بولی اگر تمہیں کچھ اللہ کا خوف ہے تو میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔‘‘

۱۹۔   وہ بولے: ’’میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں ایک پاک سیرت لڑکا دوں‘‘

۲۰۔   وہ بولیں: ’’میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور میں بد کار بھی نہیں‘‘

۲۱۔   وہ بولے ہاں! ایسا ہی ہو گا تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میرے لئے یہ آسان سی بات ہے اور اس لیے بھی (ایسا ہو گا) کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور وہ ہماری طرف سے رحمت ہو گا اور یہ کام ہو کے رہے گا‘‘

۲۲۔   چنانچہ مریم کو اس بچے کا حمل ٹھہر گیا اور وہ اس حالت میں ایک دور کے مکان میں علیحدہ جا بیٹھیں

۲۳۔   پھر زچگی کی درد انھیں ایک کھجور کے تنے تک لے آئی تو کہنے لگیں، کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور میرا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا۔

۲۴۔   اس وقت درخت کے نیچے سے (فرشتے نے) انھیں پکار کر کہا کہ : ’’غمزدہ نہ ہو، تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ بہا دیا ہے۔

۲۵۔   اور اس کھجور کے تنہ کو زور سے ہلاؤ وہ آپ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گا۔

۲۶۔   پس کھاؤ ، پیو اور اپنی آنکھ ٹھنڈی کرو۔ پھر اگر کوئی آدمی تمہیں دیکھ پائے تو کہہ دینا کہ : ’’میں نے اللہ کے لئے روزہ کی نذر مانی ہے لہذا آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی‘‘

۲۷۔   پھر وہ اس بچے کو اٹھائے اپنی قوم میں آئیں تو وہ کہنے لگے: ’’مریم تو تو بہتان والی چیز لائی ہے۔

۲۸۔   اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بد کار تھی‘‘

۲۹۔   مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کر دیا تو وہ کہنے لگے: ’’ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی گود کا بچہ ہے؟‘‘

۳۰۔   بچہ بول اٹھا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔

۳۱۔   اور جہاں کہیں بھی میں رہوں اس نے مجھے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

۳۲۔   اور یہ بھی کہ میں اپنی والدہ سے بہتر سلوک کرتا رہوں۔ نیز اللہ نے مجھے جابر اور بد بخت نہیں بنایا۔

۳۳۔   مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور اس دن بھی جب میں مروں گا اور اس دن بھی جب میں زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

۳۴۔   یہ ہے عیسیٰ بن مریم کا قصہ۔ یہی سچی بات ہے جس میں وہ جھگڑا کر رہے ہیں۔

۳۵۔   اللہ تعالیٰ کو یہ شایاں نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے وہ (ایسی باتوں سے) پاک ہے۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس یہ کہہ دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔

۳۶۔   اور (آپ انھیں بتائیں کہ) اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے لہذا اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔

۳۷۔   پھر مختلف گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پس ایسے کافروں کے لئے ہلاکت ہے جو بڑے دن کی حاضری کا انکار کر رہے ہیں۔

۳۸۔   جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے اس روز وہ خوب سن رہے اور دیکھ رہے ہوں گے۔ لیکن یہ ظالم آج کھلی گمراہی میں پڑے ہیں۔

۳۹۔   نیز انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرائیے جبکہ ہر کام کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور (آج تو) یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لا رہے۔

۴۰۔   بلا شبہ ہم ہی زمین اور اس پر موجود سب چیزوں کے وارث ہوں گے اور انھیں ہمارے ہاں ہی لوٹ کر آنا ہے۔

۴۱۔   اور اس کتاب میں سیدنا ابراہیم کا قصہ بیان کیجئے بلا شبہ وہ راست باز انسان اور ایک نبی تھے۔

۴۲۔   جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا: ’’ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں ، نہ دیکھتی ہیں اور نہ تمہارے کسی کام آ سکتی ہیں۔

۴۳۔   ابا جان! میرے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ لہذا میرے پیچھے چلئے میں آپ کو سیدھی راہ بتاؤں گا۔

۴۴۔   ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کیجئے وہ تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔

۴۵۔   ابا جان! مجھے خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو سزا ملے گی اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں گے۔

۴۶۔   باپ نے جواب دیا: ’’ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہو گیا ہے؟ اگر تو (اس کام سے) باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور (بہتر یہ ہے کہ) تو ایک طویل مدت کے لئے (میری آنکھوں سے) دور چلا جا‘‘

۴۷۔   ابراہیم نے جواب دیا: ’’ابا جان! آپ پر سلام ہو۔ میں اپنے پروردگار سے آپ کے لئے بخشش کی دعا کروں گا۔ بلا شبہ میرا پروردگار مجھ پر مہربان ہے

۴۸۔   میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑے جا رہا ہوں اور ان کو بھی جنہیں تم لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہو اور میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا مجھے امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہ رہوں گا‘‘

۴۹۔   پھر جب سیدنا ابراہیم (ں) ان لوگوں کو کو چھوڑ کر چلے گئے اور ان چیزوں کو بھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ تو ہم نے انھیں اسحاق عطا کیا اور (اس کے بعد) یعقوب بھی۔ ان سب کو ہم نے نبی بنایا تھا۔

۵۰۔   ہم نے ان سب کو اپنی رحمت سے نوازا تھا اور ذکر خیر سے سربلند کیا تھا۔

۵۱۔   نیز اس کتاب میں موسیٰ کا قصہ بھی بیان کیجئے۔ بلا شبہ وہ ایک برگزیدہ انسان اور رسول نبی تھے۔

۵۲۔   ہم نے انھیں کوہ طور کی داہنی جانب سے پکارا اور راز کی گفتگو کرنے کے لئے اسے قرب عطا کیا۔

۵۳۔   اور اپنی مہربانی سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اسے (مدد کے طور پر) دے دیا۔

۵۴۔   نیز اس کتاب میں اسماعیل کا قصہ بیان کیجئے۔ وہ وعدے کے سچے اور رسول نبی تھے۔

۵۵۔   وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھے۔

۵۶۔   نیز اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کیجئے: وہ ایک راست باز انسان اور نبی تھے۔

۵۷۔   اور ہم نے انھیں بلند مقام پر اٹھا لیا تھا۔

۵۸۔   یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا تھا۔ وہ آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں سے تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد سے تھے اور ان لوگوں سے تھے جنہیں ہم نے ہدایت عطا کی تھی اور برگزیدہ کیا تھا۔ جب انھیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی جاتیں تو وہ روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے تھے۔

۵۹۔   پھر ان کے بعد ان کی نالائق اولاد ان کی جانشین بنی جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔ وہ عنقریب گمراہی کے انجام ۵۵۔ الف سے دوچار ہوں گے۔

۶۰۔   البتہ ان میں سے جس نے توبہ کر لی، ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

۶۱۔   وہ جنت ایسے ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے اور انھیں کسی نے دیکھا نہیں۔ بلا شبہ اس کا وعدہ پیش آ کے رہے گا۔

۶۲۔   اس جنت میں وہ امن اور سلامتی کی باتوں کے علاوہ کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے اور وہاں انھیں صبح و شام ان کا رزق ملتا رہے گا۔

۶۳۔   یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہو ۔

۶۴۔   اور (اے نبی!) ہم (فرشتے) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوا کرتے۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔

۶۵۔   وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب چیزوں کا مالک ہے لہذا اسی کی بندگی کیجئے اور اسی کی بندگی پر ڈٹ جائے کیا آپ (کوئی اور بھی) اس کا ہم نام جانتے ہیں۔

۶۶۔   انسان یہ کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر سے زندہ کر کے (قبر سے) نکال لایا جاؤں گا؟

۶۷۔   کیا انسان کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس سے پہلے ہم نے اسے پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔

۶۸۔   آپ کے پروردگار کی قسم! ہم انھیں اور ان کے ساتھ شیطانوں کو ضرور جمع کر لائیں گے۔ پھر ان سب کو گھٹنوں کے بل جہنم کے ارد گرد حاضر کر دیں گے۔

۶۹۔   پھر ہر گروہ میں سے ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر سخت سرکش بنے ہوئے تھے۔

۷۰۔   پھر ہم ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہیں جو جہنم میں پہلے داخل ہونے کے زیادہ مستحق ہیں۔

۷۱۔   تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو۔ یہ ایک قطعی طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا آپ کے پروردگار کے ذمہ ہے۔

۷۲۔   پھر ہم پرہیزگاروں کو تو (جہنم سے) نجات دیں گے مگر ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔

۷۳۔   اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو کافر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ: بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کس کی حالت بہتر ہے اور کس کی مجلس اچھی ہے۔

۷۴۔   حالانکہ ہم ان سے پہلے کئی ایسی قومیں ہلاک کر چکے ہیں جو ساز و سامان اور ظاہری شان و شوکت کے لحاظ سے ان سے بہتر تھیں۔

۷۵۔   آپ ان سے کہئے کہ: جو شخص گمراہی میں پڑا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ایک مدت تک ڈھیل دیتے جاتے ہیں تا آنکہ یہ لوگ وہ کچھ دیکھ لیتے ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے، خواہ یہ عذاب الٰہی ہو یا قیامت ہو، اس وقت انھیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا حال برا ہے اور کس کا جتھا کمزور ہے۔

۷۶۔   اور جو لوگ راہ راست پر چلتے ہیں اللہ انھیں مزید ہدایت عطا کرتے ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہیں۔

۷۷۔   بھلا آپ نے اس شخص کی حالت پر بھی غور کیا جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال اور اولاد ضرور دیا جائے گا؟

۷۸۔   کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟

۷۹۔   ایسا ہرگز نہیں ہو گا جو کچھ یہ کہہ رہا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور اس کے عذاب میں مزید اضافہ کریں گے۔

۸۰۔   اور جن باتوں کے متعلق یہ کہہ رہا ہے (مال اور اولاد) ان کے وارث تو ہم ہوں گے اور یہ اکیلا ہی ہمارے پاس آئے گا۔

۸۱۔   نیز ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے مددگار بنیں۔

۸۲۔   ایسا ہرگز نہ ہو گا وہ معبود تو ان کی عبادت سے ہی انکار کر دیں گے بلکہ الٹا ان کے مخالف بن جائیں گے۔

۸۳۔   آپ دیکھتے نہیں کہ ہم نے کافروں پر شیطان چھوڑ رکھے ہیں جو انھیں ہر وقت (مخالفت حق پر) اکساتے رہتے ہیں۔

۸۴۔   سو آپ ان پر (نزول عذاب کے لئے) جلدی نہ کیجئے۔ ہم ان کی گنتی (کے دن) شمار کر رہے ہیں ۔

۸۵۔   جس دن ہم پرہیزگاروں کو اکٹھا کریں گے کہ وہ رحمن کے مہمان بنیں۔

۸۶۔   اور مجرموں کو پیاسے (جانوروں کی طرح) جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔

۸۷۔   اس دن کوئی بھی کسی کی سفارش نہ کر سکے گا، مگر جس نے اللہ تعالیٰ سے عہد لیا ہو۔

۸۸۔   اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمن کی اولاد ہے۔

۸۹۔   یہ تو اتنی بری بات تم گھڑ لائے ہو۔

۹۰۔   جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ دھڑام سے گر پڑیں۔

۹۱۔   اس بات پر انہوں نے رحمن کے لئے اولاد کا دعویٰ کیا

۹۲۔   حالانکہ رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔

۹۳۔   آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب رحمن کے حضور غلام بن کر آئیں گے۔

۹۴۔   رحمن نے ان سب چیزوں کا ریکارڈ رکھا ہے اور ان کی پوری گنتی کر رکھی ہے۔

۹۵۔   یہ سب قیامت کے دن اس کے حضور تن تنہا حاضر ہوں گے۔

۹۶۔   یقیناً جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کر رہے ہیں، عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے لئے (لوگوں کے دلوں میں) محبت پیدا کر دیں گے۔

۹۷۔   پس (اے نبی) ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان بنا دیا ہے تاکہ آپ اس سے پرہیزگاروں کو بشارت دیں اور کج بحثی کرنے والوں کو ڈرائیں۔

۹۸۔   ہم ان سے پہلے کئی قومیں ہلاک کر چکے ہیں۔ کیا آپ ان میں سے کسی کا نشان پاتے ہیں یا ان میں سے کسی کی بھنک بھی آپ کو سنائی دیتی ہے؟

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل