FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تحریر نو

شمارہ ۱۴

مدیر ______________ظہیر انصاری

حصہ اول

 

 

اداریہ

______________ظہیر انصاری

          تحریر نو کا چودہواں  شمارہ پیش کرتے  ہوئے  مجھے  یہ حق حاصل ہو گیا ہے  کہ آپ سے  دو ٹوک بات کر سکوں  کہ یہ نا گزیر بھی ہے اور  تحریر نو کے  مستقبل کی ضمانت بھی۔ واہ واہی بہت ہو چکی اور اب کچھ پریکٹیکل بھی ہو جائے  تو بہتر ہو گا۔ واہ واہی سے  ایک مدیر کا دماغ تو ساتویں  آسمان پر پہنچ سکتا ہے  لیکن پرنٹر اور پبلشر کی حالت کا تو خدا ہی حافظ ہو گا۔ پتہ نہیں  ہم لوگ کس دنیا میں  بستے  ہیں۔ نئی باتوں، نئی چیزوں، نئے  اسلوب، نئی ایجادات، نئے  فکرو تغیرات اپنانے  سے  کتراتے  ہیں۔ یہ اور بات ہے  کہ بیس پچیس سال بعد ہم انہی چیزوں کو اپناتے  ہی نہیں  انھیں  اپنانے  کا جواز بھی پیدا کر لیتے  ہیں اور  یہی سبب ہے  کہ ہر دور میں  ہم  دوسروں  سے  بیس پچیس سال پیچھے  رہتے  ہیں۔

           تحریر نو کے  کور پیچ (cover page)ر کتابوں  کا اشتہار کیا چھپ گیا کہ چند لوگ اسے  روایت سے  انحراف اور مدیر کو کسی اور رسالے  کے  نقشِ قدم پر چلنے  کا مرتکب گرداننے  لگے۔ جب کہ وہ سراسر اشتہار تھے اور  اس تعلق سے  رسالے  کے  اندر کچھ بھی نہیں  تھا۔ آپ کو معلوم ہے  کہ یہ وہ لوگ ہیں  جو چاہتے  ہیں  کہ ہم اپنا گھر پھونکتے  رہیں اور  یہ ہمیشہ اپنا ہاتھ تاپتے  رہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے  انھوں  نے  اپنی آمدنی اور منافع کو اردو کے  کاز کے  لئے  کبھی شئیر نہیں  کیا ہے۔ ایسا نہیں  ہے  کہ یہ اردو والے  کماتے  نہیں  ہیں اور  لکیر کے  فقیر ہیں  بلکہ زیادہ تر اردو والے  اچھی زندگی بسر کر رہے  ہیں۔ ہمیں  تو دکھ اس وقت ہوتا ہے  جب یہ اردو کی روٹی کھانے  والے  اردو کا ایک اخبار نہیں  خریدتے۔ کتابیں  تو بہت دور کی بات ہے۔ وہ تو انھیں  مفت میں  فراہم کر دی جاتی ہیں۔

          اس کور پیچ کے  اشتہار کے  لئے  ہم نے  دونوں  خواتین کو convinceکیا۔ انھوں  نے  خود سے  وہ اشتہار نہیں  دیئے  تھے۔ شعبۂ اشتہار میں  convincing ایک آرٹ ہے اور  دونوں  خواتین اردو کی خدمت کے  لئے  تیار ہو گئیں۔ دونوں  ہی اپنی عمر کے  اس پڑاؤ پر ہیں  کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے  کہ وہ خود کو مشہور و معروف اور گلیمرس کرنا چاہتی ہیں۔ ایک خاتون کا ذکر نہ کرنا بڑی نا انصافی ہو گی جنھوں  نے  برطانیہ سے  ۳۵ پونڈ کا چیک اردو کی محبت میں  ارسال کر دیا ورنہ وہاں  کے  اردو والے  ہندوستانی روپے  میں  کنورٹ کر کے  سوچنے  پر مائل ہیں۔ یہ خاتون خدیجہ زبیر احمد ہیں  جو نصیرالدین ہاشمی ( دکن میں  اردو ) کی صاحب زادی ہیں۔ آج یہ خواتین اردو ادب میں  مردانگی کا ثبوت پیش کر رہی ہیں  (صرف اشتہار کے  لئے  روپے اور  زر سالانہ دے  کر نہیں  بلکہ شاعری، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری کر کے  بھی )اور ہمارے  مرد حضرات مین میخ نکالنے  کے  سوا کچھ نہیں  کرتے۔ یہ ہزاروں  روپے  دے  سکتے  ہیں  لیکن سیکڑے  میں  ہی ان کادم گھٹنے  لگتا ہے۔ ستم تو اس وقت کئی گنا ہو جاتی ہے  جب یہ جوڑ جاڑ کر Abroadسے  روپے  بھیجتے  ہیں۔ مثلاً پوسٹ کے  اتنے  روپے، رسالے  کے  اتنے  روپے اور  یہ ہوئے  ٹوٹل اتنے۔

           ایک صاحب تو برطانیہ سے  کہنے  لگے  کہ ’’ ایسا کرتا ہوں  پوسٹل اسٹامپ کے  پیسے  بھجوا ہی دیتا ہوں ‘‘۔ یہ آپ کی قدر ہے  ان کی نظر میں۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں  جو اردو کے  قطعی مخلص نہیں  بلکہ اردو ان کی شہرت کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ ان کا یہ رویہ سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے  کہ مدیرانِ رسائل کیوں  کر ہاتھ باندھے اور  سر جھکائے  ان کے  دربار میں  کھڑے  رہتے  ہیں۔

          ادھر ہندوستان میں  دو سو سے  زیادہ پروفیسر اور لیکچرار یونیورسٹی سطح پر ہیں  جن کی تنخواہ غیر معمولی ہے۔ کالج کے  لیکچررز کی تعداد اس کی پانچ گنا ہے۔ ہائی اسکول کی سطح پر تعداد ہزاروں  میں  ہے۔ مڈل اسکول کی سطح پر ہائی اسکول کے  تین گنا۔ یونیورسٹی کے  پروفیسر اور لیکچرار اگر چاہیں  تو مہینے  کے  پانچ ہزار روپے  اردو کے  لئے  خرچ کر سکتے  ہیں، کالج والے  دو ہزار،ہائی اسکول والے  ایک ہزار اور مڈل اسکول والے  پانچ سو روپے۔ اس کنٹری بیوشن سے  آپ ان کی تنخواہ کا اندازہ لگا سکتے  ہیں  لیکن یہ سارے  (تمام کے  تمام) ایک روپیہ بھی خرچ کرنا نہیں  چاہتے۔ اگر یہ لوگ ایک بینر تلے  ہر ماہ روپے  جمع کرائیں اور  اس روپے  کو اردو کے  فروغ کے  لئے  پرائمری سطح پر خرچ کریں  تو اردو کسی سرکاری امداد کی محتاج نہ ہو گی۔ غور طلب ہے  کہیں  اس سے  زیادہ ان کے  روپے  انکم ٹیکس میں  چلے  جاتے  ہیں۔

          دوسرے  ہمارے  شعرائے  کرام ہیں  جن کی نظر ہمہ وقت لفافے  پر رہتی ہے۔ وہ صرف اور صرف لینا جانتے  ہیں۔ اب اس بات کا یقین ہوتا جا  رہا ہے  کہ ’’ جو لینا جان گیا وہ کبھی دے  نہیں  سکتا۔ ‘‘ شعراء کرام کی اچھی خاصی چل پڑی ہے۔ آئے  دن مشاعرے  ہو رہے  ہیں۔ وہ جیسے  بھی ہو رہے  ہیں  لیکن اردو کے  نام پر ہو تو رہے  ہیں اور  اس سے  فائدہ ہمارے  شعراء کرام کا ہی ہو رہا ہے۔ انھیں  اس کا احساس ہونا چاہئے  کہ ان کی ( شاعری کی ) اساس اردو ہے اور  یہ ان سے  کچھ ( قربانی ) طلب کرتی ہے۔

          اردو اردو چلا کر کچھ ہونے  سے  رہا۔ ہمیں  مکمل طور پر بدلنا ہو گا۔ ہمیں  لینے  والا نہیں  دینے  والا بننا ہو گا۔ ہمیں  مفت کی کتابوں اور  رسائل کا منتظر نہیں  رہنا ہو گا تب جا کر کہیں  کچھ ہو گا۔ وگرنہ اردو تو رہے  گی مگر ہماری اس سے  کوئی نسبت نہیں  ہو گی اور کعبے  کو صنم خانے  سے  پاسبان مل جائیں  گے۔

٭٭٭

صورت حال

ظفر آغا

           ایک تو ہم مسلمانوں  میں  تعلیم کا فقدان ہے اور  پھر بی۔ اے اور  ایم۔ اے  کرنے  والوں  کی تعدادبھی زیادہ نہیں  ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے  مطابق ہندوستانی مسلمانوں  میں  گریجویشن کرنے  والوں  کی تعداد چار فیصد ہے۔ اسی رپورٹ میں  یہ بھی کہا گیا ہے  کہ مسلمانوں  میں  گریجویٹس کی تعداد اب دلتوں  سے  بھی کم ہو چکی ہے۔ یہ وہی قوم ہے  جس کو خدا اور رسول نے  بھی تعلیم حاصل کرنے  کا حکم دیا ہے۔ مگر اسی قوم کی ایک ہو نہار لڑکی ( زیبا) جب آگے  تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے  تو وہ مجبور ہو جاتی ہے۔ زیبا کا قصور یہی ہے  کہ اس کو اردو جیسی زبان سے  عشق ہے۔ اس کا کہنا ہے  کہ ’’ مجھ کو اردو زبان سے  پیار ہے، کیوں  کہ یہ ایک انتہائی حسین زبان ہے۔ ‘‘ پھر زیبا تو لکھنؤ کی رہنے  والی ہے، جہاں  میر انیس اور مرزا دبیر نے  اردو کو مرثیوں  کی شکل میں  ایسی شاعری دی،جس کی آج تک نظیر نہیں  ملتی۔ اسی لکھنؤ میں  گوہر اردو میر تقی میر نے  اپنے  آخری دور میں  پناہ لی۔ یہ وہی لکھنؤ ہے  جہاں  کے  نوابین اردو زبان کی شاعری پر فخر کیا کرتے  تھے۔ نواب واجد علی شاہ کو بھی اردو شاعری سے  بہت زیادہ شغف رہا۔

          نوابوں  کے  لکھنؤ اور آج کے  لکھنؤ میں  کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ اسی لکھنؤ میں  ۱۹۸۰ء کے  دہائی میں  وی پی سنگھ نے  جب بحیثیت وزیر اعلیٰ اتر پر دیش، اردو کو دوسری سر کاری زبان تسلیم کر نے  کا خیال ظاہر کیا تو لکھنؤ کی سڑکیں  اردو کے  خلاف لگائے  جانے  والے  نعروں  ( اردو تھوپی لڑکوں  پرتو لڑائی ہو گی سڑکوں  پر)سے  گونج اٹھیں۔ ظاہر ہے  کہ جس شہر لکھنؤ میں  اردو کے  نام پر تلواریں  کھینچنے  کی دھمکی دی جائے، اس شہر میں  اردو کا چراغ روشن رکھنے  کی جرأت کرنے  والی زیبا نام کی لڑکی کا کیا حشر ہو گا۔ آزادی کے  بعد اب تک حکومتوں  نے  اردو پر جو ظلم کیا ہے، وہ کسی سے  ڈھکا چھپا نہیں  ہے۔ تب ہی تو اپنے  مسکن دہلی اور لکھنؤ میں  اردو بے  گھر ہو گئی ہے  لیکن خود اردو والوں  نے  بھی اردو کے  ساتھ کچھ کم نا انصافی نہیں  کی۔ آج ہم اس بات پر غور کریں  کہ کیا ہمارے  بچوں  کو اردو آتی ہے ؟ ہمارے  بچے  انگریزی تعلیم کی طرف بھاگ رہے  ہیں۔ ٹھیک ہے، آج انگریزی تعلیم کے  بغیر کام چلنے  والا نہیں  ہے  لیکن کم ازکم گھر پر تو ہم اپنے  بچوں  کو اردو کی تعلیم دلوا سکتے  ہیں۔ لیکن ہماری بے  حسی کا یہ عالم ہے  کہ جو لوگ اردو کے  پروفیسر اور لیکچرر ہیں اور  اردو سے  ان کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے، ان کے  بچے  تک اردو سے  دور نظر آ رہے  ہیں۔ ایسے  میں  بھلا اردو کا مستقبل کیسے  اچھا ہو سکتا ہے اور  ایسی صورت میں  زیبا جیسی اردو کا خواب دیکھنے  والی لڑکیاں  کیا کر سکتی ہیں؟۔

           کیا ہم اردو والوں  نے  اردو پر ہونے  والے  ستم پر سوائے  نوحہ اور ماتم کے  کبھی کچھ کیا ہے ؟ کیا ہم اب اس لائق بھی نہیں  ہیں  کہ اردو کو زندہ رکھنے  کے  لئے  کوئی تحریک چلا سکیں، جو کہ کم از کم اردو کو اپنی مادری زبان کہنے  والوں  کے  بچوں  کو اردو زبان سکھانے  میں  کامیاب ہو جاتی۔ سچ پوچھئے  تو جو کچھ بھی ٹوٹی پھوٹی اردو اب بھی بچی ہوئی ہے، اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے  کہ سرکاری امداد سے  یونیورسٹیوں اور  کالجس میں  جو شعبۂ اردو قائم ہیں، وہاں  اب بھی ہماری نئی نسل کو اردو پڑھنے  کے  مواقع میسر ہیں۔ پھر سرکاری امداد سے  ہی قائم اردو اکیڈمی کی جانب سے  آج لکھنؤ میں  کچھ نہ کچھ پروگرامس ہوتے  رہتے  ہیں۔ ان سیمیناروں  میں  میر، غالب، کرشن چندر اور قرۃ العین حیدر جیسی شخصیتوں  پر مقالے  پڑھ کرماضی کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندی فلموں  کے  گیت اور ڈائیلاگ بھلے  ہی ہندی کہلاتے  ہوں  مگر وہ ہوتے  ہیں  اردو زبان میں۔ کیفی اعظمی اور جاوید اختر جیسے  نہ جانے  کتنے  اردو داں  فلم انڈسٹری کی وجہ سے  آج بھی پہچانے  جاتے  ہیں۔ پھر مشاعرے  تو ہماری تہذیب کی شناخت بن چکے  ہیں۔ یعنی مشاعروں  نے  ہندوستان میں  اردو زبان کو زندہ رکھا ہے، بلکہ ساری دنیا میں  پہنچا دیا ہے  لیکن ان مشاعروں  میں  بھی ایسے  شعراء ہو تے  ہیں، جو اپنا کلام دیو ناگری میں  لکھ کر پڑھتے  ہیں۔

           الغرض یہ تو اردو زبان کی شیرینی ہے، جس نے  اردو کو اب تک زندہ و پائندہ رکھا ہے۔ ایسی صورت میں  یہ زبان آخر کب تک زندہ رہ سکتی ہے  اگر اردو زبان کو زندہ رکھنا ہے  تو محض حکومت کی طرف دیکھنے  سے  کام نہیں  چل سکتا۔

           صرف مشاعرے، اردو اکیڈمیاں اور  اردو ڈپارٹمنٹ اردو کو نہیں  بچا سکتے۔ ہاں  یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے  کہ بے  شک اردو کے  چند اخبارات نے  اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے،جب کہ اردو اخبارات کے  قاری اردو اخبارات خریدنے  سے  کتراتے  ہیں۔ اردو اخبارات کے  مالکین کس طرح اپنے  اخبارات چلا رہے  ہیں  کوئی ان کے  دل سے  تو پوچھے۔ اب اگر اردو کو زندہ رکھنا ہے  تو اردو والوں  کو ایک ایسی تحریک چلانی ہو گی، جو کم از کم اردو کو مادری زبان کہنے  والوں کو اردو سکھا سکے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے  کہ اردو بھلے  ہی دیو ناگری کی شکل میں  مشاعروں اور  فلموں  میں  تو بچ سکتی ہے، لیکن اردو رسم الخط دو نسلوں  کے  بعد ختم ہو جائے  گی۔ پھر اس کے  بعد نہ جانے  کتنی زیبا جیسی لڑکیوں  کے  خواب چکنا چور ہوتے  رہیں  گے۔ جب کہ میرا خیال یہ ہے  کہ کم از کم زیبا جیسی اردو سے  محبت کرنے  والی لڑکی کا خواب چکنا چور نہیں  ہونا چاہئے۔ اس سے  پہلے  کہ زیبا جیسی لڑکیاں  اردو کا دامن چھوڑ دیں، ہمیں  ان کی ہر طرح سے  مدد کرنی چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے  کہ میں  نے  انڈیا ٹوڈے  جیسی میگزین کے  ساتھ ۲۰۔ ۲۵ برس تک انگریزی صحافت کی ہے۔ وہ تو اڈوانی اور مودی جیسوں  نے  بابری مسجد گرا کر اور گجرات کے  فساد بپا کر کے  ہم کو مسلمانوں  کے  مسائل میں  ایسا الجھایا کہ ہم اردو کے  ہو کر رہ گئے۔ پھر ہمارے  عزیز اور مشفق دوست اور سیاست حیدر آباد کے  ایڈیٹر زاہد علی خان نے  اردو میں  زبردستی لکھوا لکھوا کر اردو صحافی بھی بنا دیا۔ الغرض میں  کوئی اردو عالم نہیں۔ میرے  پاس اردو کی کوئی ڈگری نہیں  کہ میں  اردو کو بچانے  کی تحریک کے  متعلق کوئی بڑی گراں  قدر رائے  پیش کروں۔ لیکن ہاں اکثر اردو کے  مستقبل کے  تعلق سے  کچھ باتیں  ذہن میں  ضرور آتی ہیں  جن کو یہاں  رقم کئے  دیتا ہوں۔ اس سلسلے  میں  اولاً یہ بات قابل نمود ہے  کہ ہم ارد والے  اکثر اردو کو محض اس کے  شعر و ادب سے  ہی یاد کرتے  ہیں۔ بے  شک اردو کے  پاس جیسا درخشاں  شعر و ادب ہے  غالباً دنیا کی کم زبانوں  کے  پاس موجود ہو گا۔ لیکن اس بات سے  بھی انکار نہیں  کیا جا سکتا ہے  کہ اردو کی ایک جامع لسانی حیثیت بھی ہے۔ ہم کو یہ بات قطعاً نہیں  بھولنی چاہئے  کہ دنیا کی کوئی بھی زبان محض اپنے  ادبی اثاثے  کی بنا پر ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے۔ مثلاً آج انگریزی زبان دنیا بھر میں  اس لئے  رائج نہیں  ہے  کہ ہر انگریزی جاننے  والا شیکسپیئر کے  ڈراموں  کا گرویدہ ہے۔ چین، زبان اور ہندوستان جیسی جگہوں  پر انگریزی بولنے اور  سمجھنے  والے  اکثر حضرات نے  غالباً شیکسپیئر جیسے  مشہور ڈرامہ نگار کا نام بھی نہیں  سنا ہو گا۔

          لیکن پھر بھی وہ انگریزی سیکھتے  ہیں اور  اس کا استعمال کرتے  ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں  کرتے  ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے  کہ انگریزی لسانی اعتبار سے  معا شیات سے  جڑی ہوئی ہے۔ عین انگریزی زبان ( انگریزی ادب نہیں )سیکھ کر وہ اپنے  روزگار کے  دسیوں  مواقع فراہم کر سکتے  ہیں۔ چوں  کہ انگریزی زبان ( نہ کہ اس کا ادب) روزگار مہیا کرنے  میں  مدد دے  سکتی ہے۔ اس لئے  آج دنیا بھر میں  ہر کوئی انگریزی سیکھنے  کے  در پے  ہے۔ اگر ہم اسی پس منظر میں  اردو کا تجزیہ کریں  تو چند باتیں  اردو کے  مستقبل کو شاید کامیاب کرنے  میں  کار گر ہو سکتی ہیں۔ اولاً ہم کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ غالب ؔ و میرؔ فیض اور اقبال کی شاعری ہر کس و ناکس کو اردو کی طرف رجوع نہیں  کر سکتی ہے۔ اگر اردو کو آج کی نسلوں  سے  جوڑنا ہے  تو ان کو اس

کی لسانی افادیت اور معاشی افادیت سے  بھی آگاہ کرنا ہو گا۔ یعنی آج کی نسلوں  کو سب سے  پہلے  یہ یقین دلانا ہو گا کہ اردو سیکھ کر بھی روزگار کے  مواقع فراہم کئے  جا سکتے  ہیں  تو پھر سوال یہ ہے  کہ اردو میں  کون سا روزگار دھرا ہوا ہے۔

          ارے  بھائی جس فلم انڈسٹری نے  پچھلے  ۶۰ برسوں میں  اردو کو زندہ رکھا ہے  کیا ہم اس انڈسٹری کے  ایسے  اعلیٰ کورس بچوں  کو دے  پا رہے  ہیں۔ جس کے  ذریعے  ان کو فلم انڈسٹری میں  دسترس ہو سکے۔ کیا کسی یونیورسٹی یا ادارے  میں  اعلیٰ درجے  کا

فلمی گانے  لکھنے  کا یا ڈائلاگ لکھنے  کایا پھر فلم کی اسکرپٹ لکھنے  کا کوئی کورس موجود ہے؟ اگر ایسے  بہترین کورس ہوں  تو محض وہ جن کی مادری زبان اردو ہے۔ اس کے  علاوہ بھی نہ جانے  کتنے  بچے  اردو سیکھیں  کیوں  کہ ان کو ایسے  کورس کے  ذریعے  فلم انڈسٹری میں  اپنا مستقبل درخشاں  نظر آئے  گا۔ پھر آج ہندوستان میں  کروڑوں  ایسے  لوگ ہیں  جن کی مادری زبان اردو نہیں  ہے۔ لیکن وہ اردو غزل کے  دیوانے  ہیں۔ کیا ایسے  لوگوں  کے  لئے  اردو والوں  نے  کوئی غزل فہمی سے  متعلق کہیں  کوئی کورس یا ڈپلومہ ایجاد کیا! اگر ایسا کوئی کورس ہو تو اس سے  سینکڑوں  ایسے  نوجوان جن کو اردو سے  کوئی دلچسپی نہیں  لیکن غزل سے  محبت ہے، کیا وہ لوگ غزل فہمی کا کورس کرنے  کے  لئے  تیار نہیں  ہو جائیں  گے ! پھر یہ دور تو میڈیا کا دور ہے۔ آج تو ٹیلی ویژن گھر گھر پہنچ گیا ہے۔

          محض خبر میں  ہی نہیں  بلکہ اب تو ہندی والے  کو بھی صحیح تلفظ سیکھنے  کی ضرورت ہے۔ اچھی عام فہم اسکرپٹ لکھنے  کی ضرورت ہے۔ پروگرام اینکرنگ کے  لئے  اردو بے  حد کار گر ہے۔ پھر ایونٹ منیجمنٹ میں اور  ہوٹل انڈسٹری اور ٹراویل انڈسٹری میں  اردو کے  آداب  و تہذیب تھوڑی انگریزی کے  ساتھ بہت کار گر ہو سکتے  ہیں۔ ایسا اگر کوئی کورس اردو زبان میں  ہو اور اس کو انگریزی کے  ساتھ ملا کر پڑھا جائے  تو سینکڑوں  کی تعداد میں  لوگ ایسا کورس کرنے  کو تیار ہو جائیں  گے۔ میر و غالب کی افادیت سے  بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ لیکن اب اردو کو محض اس کے  ادبی کارناموں  کی بنا پر زندہ نہیں  رکھا جا سکتا ہے۔ اردو کی بقا کے  لئے  اس کو لسانی طور پر آج کی معیشت سے  جوڑ دیجئے  پھر دیکھئے  کہ اردو کیا رنگ دکھاتی ہے۔ مگر خدا را! اس سلسلے  میں  حکومت کے  محتاج مت رہئے۔

٭٭٭

 

سر سید کی سائنٹفک سوسائٹی اور جدید عہد کے  تقاضے

___________ارشد منصور غازی

          ۱۷۵۷ء کی جنگ پلاسی ہو یا ۱۸۵۷ء کی جنگ پیازی، مغربی اقوام کی فتوحات کا اصل سبب تھا سائنس کی بالا دستی!جس کا ادراک محدود درجے  میں  سب سے  پہلے  ٹیپو سلطان کو ہوا لیکن ۱۷۹۹ء میں  اس کی موت کے  بعد راکٹ کی ایجاد آسمان پر کسی فتح کو درج نہ کرا سکی۔ یعنی ایک عظیم آغاز، اپنے  آغاز ہی پر اختتام کو پہنچا۔

          ۱۸۵۷ء کی ناکامی مسلمانوں  میں  احساس کمتری اور غاصب میں  احساس برتری کے  عروج کا سبب بنا۔ مسلمان اصل فریق ہونے  کے  سبب مستقل تختۂ مشق تھا۔ اہل وطن اپنی مصلحتوں  کے  سبب ’’ ان کے ‘‘ ہم رکاب تھے۔ ملک کے  مسلمان حربی محاذوں پر پے  بہ پے  شکستوں کے  بعد اب نفسیاتی محاذوں پر نبرد آزما تھے۔ بر صغیر کی انڈین صحافت نے  مسلمانوں  کے  خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کیا،جس کا مقصد تھا ایک حاکم قوم کو بے  حوصلہ اور بے  وقعت کرنا، عیسائیت کی نظم تبلیغ، قرآن کریم کی اشاعتوں پر قدغن،سرکاری ملازمتوں میں  مسلمانوں  سے  اجتناب،ایسے  محرکات تھے  جس نے  حبس دم کو موت تک دراز کر دیا تھا۔ حالات کی ناسازگاری کے  سبب کسی عام مسلمان کو یہ جرأت نہیں  تھی کہ وہ آواز بلند کرے۔ مسلمانوں اور  انگریزوں  کے  بڑھتے  ہوئے  بُعد سے  ہندوؤں  نے  فائدہ اٹھایا اور وہ جلد ہی انگریزوں  کے  مزاج اور نظم و نسق میں  دخیل ہو گئے  سر سید جن کی تعلیم و تربیت قلعۂ معلیٰ میں  ہوئی تھی ہوا کے  رخ کو دیکھ رہے  تھے،وہ جانتے  تھے  کہ دشمن حاکم سے  دوستی تو مراعات کا باعث بن سکتی ہے  مقابلہ آرائی نہیں۔ دوسرے  جدید علوم کی ترویج و ترسیل اس کا واحد حل تھا۔ سوچنے، سمجھنے  والے  طبقے  تک پہنچنے  کے  لئے  اس وقت صحافت ہی واحد ذریعہ تھا۔ ۱۸۳۶ء میں  انھوں  نے  تجویز پیش کی کہ ایک ایسی مجلس عامہ قائم کی جائے  جو ہندوستان میں  علم کی وسیع و ترقی کے  کام کرے۔ جو قدیم مصنفوں  کی عمدہ معیاری، معلوماتی اور علمی نسخوں، انگریزی کی مفید مطلب کتب کا اردو زبان میں  ترجمہ کرائے  تاکہ مسلمان ان علوم کو حاصل کرے اور  قومی دھارے  میں  شامل رہے۔

          پندرہویں  صدی میں  مغربی ممالک کا نشاۃ الثانیہ بجائے  خود ایسی ہی تحریک کا غماز ہے۔ جب انھوں  نے  بغداد اور مسلم اسپین کے  کتب خانوں  سے  علوم جدیدہ کی لاکھوں  عربی کتب کے  تراجم رائج الوقت زبانوں  میں  کروائے اور  ہر میدان عمل میں  ان سے  سنجیدہ استفادہ کیا۔

          ۹!جنوری ۱۸۶۴ء کو سر سید کی اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا گیا اور سائنٹفک سوسائٹی کے  نام سے  ایک مجلس غازی پور میں  قائم کر دی گئی۔ اسی سال سر سید کا تبادلہ علی گڑھ ہوا تو سوسائٹی کا دفتر بھی علی گڑھ منتقل ہو گیا۔ اس سوسائٹی کے  تحت ۳! مارچ ۱۸۶۶ء کو اخبار سائنٹفک سوسائٹی کا اجرا ء ہوا۔ جو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے  بھی جانا جاتا ہے۔ یہ اخبار نا مساعد حالات کا بارہا شکار ہوا لیکن سر سید نے  اسے  کبھی بند نہیں  ہونے  دیا۔ یہ اخبار جو لندن کے  ’’ دی ٹائمز‘‘ کا ہم پلہ تھا پورے  ۳۲ برس تک عوام و خواص کی ذہن سازی کرتا رہا۔

           اخبار سائنٹفک سوسائٹی کے  بارے  میں  مولانا حالی اپنی کتاب  حیاتِ جاوید میں  لکھتے  ہیں  :

          ’’ اخبار سائنٹفک سوسائٹی میں  سوشل، اخلاقی،علمی اور پولیٹیکل ہر قسم کے  مضامین برابر چھپتے  تھے  جب تک سر سید کی توجہ دوسری جانب مائل نہیں  ہوئی، علاوہ ان لیڈنگ آرٹیکلوں  کے، جو وہ خود لکھتے  تھے، انگریزی اخباروں  کے  عمدہ عمدہ آرٹیکل جو معاملات ہندوستان سے  علاقہ رکھتے  تھے  ہندوستان کے  طریق معاشرت یا تعلیم یا کسی علمی یا تاریخی تحقیقات کے  متعلق جتنے  لیکچر سوسائٹی میں  دیئے  جاتے  تھے  وہ سب اس کے  ذریعے  شائع ہوتے  تھے۔ ‘‘

          ’’ اگر چہ یہ اخبار ملک کی سوشل اصلاح کا ہمیشہ ایک عمدہ آلہ رہا ہے اور  اول اول کئی سال تک جس قدر زمانۂ حال کی نئی اصلاحیں  اس کی بدولت ہندوستانیوں  کو حاصل ہوتی رہی ہیں  ان کے  لحاظ سے  یہ کہنا تو مبالغہ نہیں  ہے  کہ کم سے  کم شمالی ہندوستان میں  عام خیالات کی تبدیلی اور معلومات کی ترقی اس پرچہ کے  اجراء سے  شروع ہوئی ہے۔ مگر اس کے  ساتھ ہی پولیٹیکل معلومات میں  جو وقعت اور اعتبار اس پرچے  نے  گورنمنٹ اور حکام کی نظر میں  حاصل کیا وہ آج تک کسی دیسی اخبار نے  نہیں  حاصل کیا۔ ‘‘

          یہ بھی حقیقت ہے  کہ گورنمنٹ اور سرکاری حکام اس بات کو تسلیم کئے  ہوئے  تھے  کہ علی گڑھ سے  نکلنے  والا یہ سائنسی اخبار تمام ہندوستان کے  تعلیم یافتہ اور سمجھ دار مسلمانوں  کے  خیالات کا آر گن ہے۔

           اس سائنسی اخبار کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ خبریں  معیاری اور معتبر ذرائع سے  لے  کر شائع کی جاتی تھیں، جس سے  اس کا بھرم آخیر وقت تک قائم رہا۔ اخبار کو ہمیشہ بے  اصل قصوں اور  بے  سر و پا باتوں  سے  مبرا پایا گیا۔ شذرات کے  لکھنے  والے  بھی اہلِ دانش اور اہلِ علم ہی تھے۔ جن کی ترجیحات کا دائرہ نہایت غیر جذباتی اور بڑا سائنٹفک ہوتا تھا، کیوں  کہ اخبار کا مقصد عوام و خواص میں  شعوری اور منطقی بیداری پیدا کرنا تھا۔

          سائنسی ترقی ذہنی سکون سے  عبارت ہے  جو ذہن پراگندہ خیالات میں  جئے  گا وہ ترقیِ معکوس کا شکار ہو گا اور اصلاح پسندوں  پر بوجھ بنے  گا۔ سر سید علیہ الرحمہ مسلمانوں  کی کشتی گرداب سے  نکالنا چاہتے  تھے  جس کے  لئے  ضروری تھا کہ ہندو مسلمانوں  کے  سیاسی جھگڑوں  سے  اجتناب برتا جائے۔ جو حاکمِ وقت کی سیاسی مصلحت اندیشی تھی، لہٰذا انھوں  نے  پرسکون صحافت کو بطور منطق اپنی پالیسی بنایا، کیوں  کہ اضطرابی کیفیات کا مارا ہندوستانی مسلمان اقدامی سیاست کا متحمل نہیں  ہو سکتا تھا۔

          قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے  اجتماعی مرض کی تشخیص کرنا عمرانی ماہرین کی سائنس ہے۔ قیافہ شناس سر سید قوم کی نگاہوں  کو پڑھ کر ان کے  دلوں  میں  اترنے  کا فن جانتے  تھے۔ وہ بڑی سے  بڑی بات کو مختصر لفظوں  میں  سمیت کر اپنے  مخالفین تک کے  قبلے  درست کر دیا کرتے  تھے۔ یہی نہیں  حاکمِ وقت بھی قلم زد ہوتا تو نتائج قوم کے  حق میں  اچھے  نکلتے۔ جہلم کے  پاس کسی انگریز بہادر نے  جب چھے  بے  قصور ہندوستانیوں  کو گولی مار کر قتل کر دیا تو سر سید اپنے  سائنٹفک اخبار میں  لکھتے  ہیں  🙁 انداز تخاطب ملاحظہ کیجئے۔ )

          ’’ ہم کو ان تمام درد ناک خبروں  کوسن کر نہایت افسوس ہوا ہے اور  وہ افسوس کچھ صرف اسی وجہ سے  نہیں  کہ بے  چارے  غریب ہندوستانی ایسی بے  رحمی کے  ساتھ مارے  گئے اور  ان کا خون ایک جانور کے  خون بلکہ پانی سے  بھی زیادہ بے  قدری کے  ساتھ بہایا گیا اور باوجود اس کے  ہندوستانیوں  کی فریاد کی کچھ شنوائی نہیں  ہے۔ بلکہ بڑا سبب افسوس کا یہ ہے  کہ ہندوستان میں  جس طرح ہندوستانیوں  کی فریاد شنوائی کے  لائق نہیں  اسی طرح شاید حضور گورنر بہادر کے  احکام کی بھی شنوائی نہیں  ہوتی کیوں  کہ اگر ان کی شنوائی ہوتی تو اس کا اثر یہ ہوتا کہ اگر ہمیشہ کے  واسطے  نہیں  تو چند روز کے  واسطے  تو ضرور ہی ہندوستانیوں  کو اس سختی سے  نجات ملتی۔ ‘‘

          فرد ہونے  کے  ناطے  تمدنی معاشرے  میں  رہنے  کے  اپنے  اصول، اپنے  تقاضے، اپنی سائنس، اپنی منطق ہے،لیکن جب یہی فرد محکوم بنا لیا جاتا ہے  تو ہر چیز کے  ’’ آداب‘‘ بدل جاتے  ہیں۔ بات اس وقت اور سنگین ہو جاتی ہے  جب یہ محکوم فرد مسلمان ہو۔ جو دنیا میں  خلیفۃ الارض کے  منصب پر فائز ہونے  کے  لئے  اسلام کی امامت جلیلہ ساتھ لایا ہے۔ سر سید عوامی جذبات کی ترجمانی اغیار کی اس نا مانوس حکومت کے  سامنے  اس خوبی سے  کرتے  تھے  کہ ارباب حل و عقد پر سکون رہتے اور  عوام کی حرارتِ عزیزی اپنے  نقطۂ اشتعال سے  گریزاں  رہتی یعنی سر سید نے  منطقی فکر کو اپنایا نہ کہ جذباتی طرز اسلوب کو۔

          اخبار سائنٹفک سوسائٹی کی اس منطقی اپج پر ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے  ہیں

          سر سید کی صحافت میں  دو باتیں بڑی چمک اور تابانی رکھتی ہیں۔ اول ان کے  صحائف کی دیدہ زیبی،حسن خیال، کاغذ کی نفاست اس لحاظ سے  ان کا اخبار موجودہ ترقی یافتہ یورپ کے  اعلیٰ اخبارات اور رسائل سے  کسی طرح کم نہیں، دوم ان اخبارات کی مقبولیت!اخبارات میں  واقعات و معاملات پر بے  لاگ رائے،جس میں  بڑی عافیت بینی، وسعت معلومات اور تعمیری نقطۂ نظر جھلکتا ہے۔ یہی ان کے  تبصروں  کی خصوصیت ہے اور  مضامین علمی میں  سر سید کی مخصوص معقولاتی سپرٹ اور حیات قومی کی تشکیل جدید اور زندگی کی تمدنی اساس کا پورا پورا احساس و ادراک پایا جاتا ہے۔ یہ عقلی اور تجزیاتی اصول سر سید کی اخبار نویسی کے  خاتمے  کے  بعد آج تک اردو اخبار و رسائل کو میسر نہیں آیا۔

          سر سید علیہ الرحمہ مسلمانان ہند کو سائنس کے  جس منصب جلیلہ پر دیکھنا چاہتے  تھے۔ آج بھی ہمیں  اس کا ادراک نہیں  ہے۔ ہمارا اجتماعی عمل اس کی چغلی کھاتا ہے۔ موجودہ حکومت کی مسلمانوں  کے  تئیں  سرکاری رپورٹیں  تشویش ناک حد تک چونکانے  والی ہیں۔ خراب صورت حال کی ذمہ داری جتنی سرکاری مشنری پر ہے  اس سے  زیادہ ہم مسلمانوں  پر ہے۔

          سر سید کے  بعد آنے  والے  دور میں  خواص کے  ذہنوں  میں اٹھنے  والے  سوالوں  میں کہیں  نہ کہیں  سر سید کے  افکار کی تڑپ صاف نظر آتی ہے۔ ۱۹۹۳ء میں تحریک شیخ الہند کے  سرخیل مجاہد جلیل امام مولانا محمد میاں  منصور انصاری مہاجر کابل نے  ایک بے  حد اہم خط حکیم الامت حضرت مولانا قاری طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیو بند کے  نام ارسال کیا تھا جس کا مافی الضمیر کچھ یوں  تھا:

          ’’ گرامی قدر۔۔۔۔۔۔ سلام مسنون

           دار العلوم دیو بند نے  گذشتہ ۷۰ برس میں  دین کو اتنا پڑھا دیا ہے  کہ ہندوستان میں  دین اگلے  سو برسوں  کے  لئے  انشاء اللہ محفوظ ہو گیا ہے۔ میری ادنیٰ رائے  یہ ہے  کہ اب آپ اس دار العلوم کو ٹیکنکل یونیورسٹی میں  تبدیل کر دیں، اور یہ کام آپ بخوبی کر سکتے  ہیں۔ دنیا کو سائنس کی تباہ کا ریوں  سے  محفوظ  و مامون دیکھنے  کی خواہش کی تکمیل اس بات کی متقاضی ہے  کہ ہمارے  علمائے  کرام دین کے  ساتھ ساتھ سائنس کی ترقیات سے  مثبت رخ ایک عالم کو مستفیض فرمائیں  اگر ایسا نہ کیا تو میں  دیکھ رہا ہوں  کہ آئندہ پچاس برسوں  میں  مسلمان حکومتیں  پے  بہ پے  شکست سے  دو چار ہو ں گی۔ عام مسلمان اسے  اپنے  اعمال کی سزا گردانے  گا تاہم یہ ہزیمت سائنس سے  عدم واقفیت کے  سبب ہو گی۔ آوارۂ وطن از محمد میاں  منصور انصاری عفی عنہٗ۔

           سن ۲۰۰۴ ء میں  نئے  نصاب سے  متعلق گفتگو کے  لئے   راقم کو جموں  و کشمیر کے  وزیر اعلیٰ جناب مفتی محمد سعید صاحب نے  کشمیر بلایا۔ اس سرکاری سفر میں  ڈاکٹر راحت ابرار چیف دفتر رابطۂ عامہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سیاسی گلیاروں  کے  چانکیہ ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد میرے  ہم رکاب تھے۔ مفتی سعید اور ان کی کابینہ کے  متعدد وزراء مسلم یونیورسٹی کے  فارغ التحصیل تھے۔ لہٰذا فکری گفتگو میں  سر سید کے  افکار کا عکس نظر آنا کچھ عجب نہ تھا۔ گفتگو کے  دوران مفتی صاحب نے  بتایا کہ ہم راجوری میں  مسلمانوں  کی پہلی ٹیکنکل یونیورسٹی بنانے  جا رہے  ہیں۔ انھوں  نے  کہا : ہر مسئلے  کا حل اب مجھے  سائنس کی ترویج و اشاعت میں  مسلمانوں  کی صحت مند حصے  داری میں  نظر آتا ہے۔ انھوں  نے  بتایا کہ اس پروجیکٹ کو اوقاف کی منسٹری نے  ۲۴ سو کروڑ میں ا سپانسر کیا ہے اور  ہماری حکومت بھی علاحدہ سے  ۲۴ سو کروڑ صرف کر رہی ہے۔ ان کی اس چونکانے  والی خبر نے  مجھے اور  میرے  رفقاء کو بہت مسرور کیا۔ مجھے  امید ہے  کہ اس یونیورسٹی کے  اجراء سے  عمومی طور پر عام ہندوستانیوں  کو اور بالخصوص مسلمانوں  کو انشاء اللہ کل بہت فائدہ پہنچے  گا۔

          خبر سنتے  سنتے  میں  زبان حال سے  سوال کرتا رہ گیا تھا کہ :

مسجد تو بنا دی شب بھر میں  ایماں  کی حرارت والوں  نے

من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں  میں  نمازی بن نہ سکا

          شاید عارضی منصب کے  تقاضوں  نے  مفتی صاحب سے  یہ اچھا کام فی الفور کر وا لیا مگر سر سید نے  پہلے  عوام و خواص کی گیارہ سال ذہن سازی کی۔ ایجوکیشنل کانفرنس کے  ذریعے  لوگوں  کے  دلوں  تک راسخ ہوئے  تب ایک مدرسہ، کالج قائم کیا جس نے  یونیورسٹی بنتے  بنتے  پچاس سال لئے۔ یہ نہیں  کہ ان کے  پاس وسائل یا دماغوں  کی کمی تھی۔ مگر وہ ہر کام کے  سلسلے  میں  منطقی کار وائی یا عمل کے  قائل تھے۔ انھوں  نے  برسوں  شہر شہر،قریہ قریہ گھوم کر علاقوں  علاقوں  اسکول کھولے  کیوں  کہ وہ جانتے  تھے  کہ ایک یونیورسٹی کو چلانے  کے  لئے  کم از کم بیس ہزار اسکولوں  کی ضرورت ہوتی ہے۔ مفتی صاحب کو اس پہلے  کام کو اب دوسرے  درجے  میں  کر لینا چاہئے۔ یعنی اسکولوں  کے  ذریعے  ذہنوں  کی آبیاری!دہلی کا ماہنامہ سائنس وہ بنیادی کام یعنی طلباء عزیز کی سائنسی فکر کی آبیاری پر محدود طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ مگر افسوس کے  ساتھ لکھنا پڑتا ہے  کہ اردو ادب میں  سائنسی فکر کے  ساتھ متنوع مضامین لکھنے  والے  اب خال خال رہ گئے  ہیں  جس کے  سبب میں  اس کا دائرہ محدود تر پاتا ہوں۔ اس طرز کے  ہمارے  پاس متعدد رسائل ہونے  چاہئیں  جنھیں  ہمارے  نوجوان خرید کر پڑھنے  کی عادت ڈالیں۔ جملہ معترضہ کے  طور پر کہتا چلوں  کہ ۱۹۲۷ء کے  مدینہ بجنور کے  فائل سے  معلوم ہوا کہ ہندوستان میں  رائج الوقت اردو زبان کے  انتہائی پسندیدہ اخباروں  کی اشاعت محض ہزاروں  میں  تھی جب کہ یورپ اور امریکہ میں  اخباروں  رسائل کی تعداد اشاعت ۲۵ لاکھ سے  ۵۵ لاکھ تک تھی۔ آج ۸۰ برس بعد بھی جب کہ ہماری قوت خرید کئی گنا بڑھ چکی ہے  ہمارے  مزاجوں  میں  کوئی تبدیلی نہیں  آئی ہے۔

          سر سید علیہ الرحمہ کی روح آج بھی ہم سے  اسی سائنٹفک طرز عمل کی متقاضی ہے، ذہن بدلیں  گے  تو عمل بد لے  گا، عمل بدلے  گا تو حالات بدلیں  گے۔

          در حقیقت’’ اخبار سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کا اپنی حقیقی روح کے  ساتھ دوبارہ اجراء وقت کی اہم ضرورت ہے  کیوں  کہ :

آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں  مقصود ہے

          مغل بادشاہوں اور  ملک کے  پٹھان سلاطین نے  ترقی کا معیار گردانا تھا مقبروں اور  سڑکوں  کی تعمیر کو۔ لیکن انھوں  نے  جامعات اور اداروں  کی تاسیس کو در خور اعتنا نہیں  سمجھا۔ یقین کیجئے  تاج محل تاج الجامعات اور قطب مینار اگر معیار تعلیم ہو تا تو ہندوستان کی تاریخ آج کچھ اور ہوتی۔

          موجودہ دور میں  آج جب کہ تعلیم تجارت بن چکی ہے  مسلمان تاجروں  کا رجحان اس طرف نہیں  ہے۔ ( میں  سوچتا تھا کچھ یوں  ہی سدھار کا حلیہ نکلتا۔ ) یہی نہیں  حکومتِ وقت کے  اشاروں  کو سمجھ کر ان سے  فائدہ اٹھانے  کی اہلیت بھی ہم میں  نہیں  ہے۔ چند ماہ قبل ملک کے  وزیر اعظم نے  فرمایا تھا کہ امریکہ کی آبادی تیس کروڑ کے  لگ بھگ ہے اور  وہاں  ۴۵۰۰ یونیورسٹیز ہیں۔ ہندوستان کی آبادی ایک ارب سے  زیادہ ہے اور  ہمارے  یہاں  یونیورسٹیز کی تعداد محض ۴۰۰ ہے۔ انھوں  نے  کھلے  دل سے  ہمیں  مدعو کیاکہ جو افراد تعلیمی ادارے  قائم کرنا چاہتے  ہیں  آگے  آئیں۔ اس کال سے  فائدہ اٹھانے  کی ضرورت ہے۔ ملک کے  طول و عرض میں  ہر جا سر سید احمد خاں  کی باز یافت اب ہمارا نصب العین ہو نا چاہئے اور  محض سر سید کے  مل جانے  سے  بھی کچھ نہیں  ہو گا۔ جب تک ہم ’’ شروانی‘‘ والا کردار ادا کرنے  والے  انصار نہ بن جائیں  یعنی لحظہ بہ لحظہ ایک دوسرے  کی مدد کرنے  والے، دامے، درمے، قدمے، سخنے۔

          اگر ہم آپ، ہم سب اٹھ کھڑے  ہوں  تو جلد ہی جسٹس سچر کو اپنی رپورٹ بدلنے  پر ہم مجبور کر سکتے  ہیں۔ ٭٭٭

 

ترسیل اور ابلاغ کے  نئے  ذرائع

__________پروفیسر مجید بیدار

          عربی زبان میں  استعمال لفظ ’’رسل‘‘ سے  ترسیل کا احیاء ہوا جس کے  معنی بھیجنا یا روانہ کرنے  کے  ہیں  اسی طرح عربی صحیح مشتق لفظ ’’ بلغ‘‘ سے  ابلاغ کا وجود عمل میں  آیا۔ اس کے  معنی بھی پہنچانا یا بھیجنا کے  لئے  جاتے  ہیں۔ اردو زبان میں  ترسیل کسی ایسی چیز کی روانگی کے  لئے  استعمال کیا جاتا ہے  جس کے  ذریعے  کوئی چیز بر وقت پہنچ جائے  لیکن اس کا بر وقت جواب نہ حاصل ہو سکے  بلکہ جواب کے  حاصل ہونے  میں  تاخیر کا سلسلہ رہے  تو ایسی بھیجی جانے  والی چیز کو ترسیل کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے  میں  ڈاک و تار اور رسل و رسائل کو ترسیل میں  شامل کیا جاتا تھا کیوں  کہ ایک خط لکھنے  کے  کچھ وقفے  کے  بعد دوسری جانب پہنچ جاتا تھا لیکن اس کا بر موقع جواب حاصل ہونے  کے  لئے  وقت درکار ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے  صرف یک طرفہ نمائندگی کرنے  والی چیز کو بھیجا جانا ترسیل کا درجہ رکھتا ہے۔ قدیم زمانے  میں  خطوط لکھنے، اخبارات پہنچانے اور  رسائل و جرائد کی قاری تک پہنچ کو ترسیل میں  شامل کیا گیا تھا۔ یہ تمام عمل یک طرفہ ہے اور  چیز کے  پہنچنے  کا مکمل امکان رہتا ہے  لیکن جواب کا اسی وقت ملنا نا ممکن ہے  یا پھر وقت درکار ہو سکتا ہے۔ ایسی تمام چیزوں  کو ترسیل یا ماس کمیونیکیشن کہا جاتا ہے اور  ایسے  ذرائع جس میں  کوئی چیز روانہ کرنے  کے  بعد بر وقت اس کا جواب بھی مل جائے اور  چیز کے  پہنچنے  کی تصدیق بھی ہو جائے  تو ایسے  ذرائع کو ابلاغ یا ماس میڈیا کا درجہ دیا جاتا ہے۔

           دور حاضر میں  ماس میڈیا کے  مختلف ذرائع کی حیثیت سے  ٹیلی فون، پیجر، سیل فون،ریڈیو،ٹیلی ویژن، فیکس اور انٹر نیٹ کو شمار کیا جا تا ہے۔ یہ ایسے  ذرائع ہیں  جو آن واحد میں  کسی پیام یا  میسیج کو وقت ضائع کئے  بغیر دوسری طرف پہنچاتے اور  بروقت جواب سے  بھی آگاہی دیتے  ہیں۔ اس لحاظ سے  ترسیل ایک محدود وسیلے  کے  طور پر اور ابلاغ لا محدود وسیلے  کی حیثیت سے  اہمیت کی حامل جدید ضروریات ہیں۔ جن کا استعمال دن بہ دن روز مرہ زندگی میں  شامل ہو تاجا رہا ہے۔ یک طرفہ اور جواب سے  آگاہی کے  بغیر کسی چیز کا صرف پہنچ جانا ترسیل ہے اور  کسی چیز کا بر وقت جواب اور ہر دو طرف سے  معلومات کی فراہمی جس وسیلے  میں  شامل ہو اسے  ابلاغیات کہتے  ہیں۔

          دور حاضر میں  سائنس و ٹکنا لوجی کے  علاوہ ایجادات کی ترقی نے  عام انسان کو مختلف سہولتیں  بہم پہنچا دی ہیں اور  ان سہولتوں  کے  استعمال کے  لئے  بہت کم سرمایہ خرچ کر کے  انسان ان سے  استفادہ کر سکتا ہے۔ ترسیل کے  ذرائع کے  لئے  محکمۂ ڈاک و تار اور دوسرے  محکمے  قائم تھے  جن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لیکن ابلاغیات کے  لئے  کسی محکمے  کی ضرورت نہیں  بلکہ ماس مڈیا ابلاغیات  کے  تمام کام سیارے  سٹیلائٹ کے  ذریعے  انجام پاتے  ہیں۔ جس کو استعمال کرنے  کے  لئے  کسی انسان یا وجود کی ضرورت نہیں  بلکہ تمام کام مشین ہی انجام دیتے  ہیں۔ جس کی وجہ سے  ابلاغیات ایک ایسا وسیلہ ہے  جس کی تکمیل کے  لئے  تمام تر مشنری ذمہ دار ہے  جیسے  کسی سیل فون سے  کوئی نمبر ملا کر بات کی جاتی ہے  تو یہ تمام گفتگو مصنوعی سیارے  کے  توسط سے  دور فاصلے  تک پہنچتی ہے اور  بر وقت اس کا جواب بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ یعنی ابلاغیات میں  دو آدمیوں  کی گفتگو کے  لئے  ایک ایسا وسیلہ ہے  جو دکھائی نہیں  دیتا اور نہ اس وسیلے  کو جاری و ساری رکھنے  کے  لئے  انسانی عمل اور اس کے  حرکات و سکنات کی ضرورت ہے۔ بلکہ گفتگو کو حاصل کر کے  دوسرے  تک پہنچانا اور دوسروں  کے  جواب کو گفتگو کرنے  والے  تک پہنچانے  کا تمام کام مشنری انجام دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ بہ یک وقت ابلاغیات کے  ذریعے  دو کام انجام پاتے  ہیں۔ ایک تو پیغام رسانی کرنا اور دوسرا پیغام کے  جواب میں  پیش کی جانے  والی بات چیت کو دوسرے  تک پہنچانا ایک ایسا وسیلہ ہے  جو ترسیل میں  ممکن نہیں۔ بعض اوقات ترسیل اور ابلاغ کو ایک ہی درجے  میں  شمار کیا جاتا ہے  حالاں  کہ یہ دونوں  الگ الگ وسیلے  ہیں اور  ان کی کار کر دگی کا انداز بھی ایک دوسرے  سے  بالکل مختلف ہے۔

          قدیم زمانے  میں  خطوط لکھنا ایک فن تھا اور شعر و ادب کے  علاوہ علوم و فنون کو دوسروں  تک پہنچانے  کے  لئے  اخبارات، رسائل اور جرائد شائع ہوا کرتے  تھے  جو ڈاک یا پوسٹ کے  ذریعے  ایک مقام سے  دوسرے  مقام تک پہنچائے  جاتے  تھے اور  ان کے  مطالعے  کے  بعد جو بھی منفی یا مثبت جواب ہوتا اس کو بھی محکمۂ ڈاک دوسری جگہ پہنچاتا لیکن اس دوران کافی وقت صرف ہوتا تھا اور محکمہ ڈاک و تار کے  بغیر انسان کی تمام کوشش نا مکمل تھی۔ جب کہ دور حاضر میں  ایک شخص اپنے  کمپیوٹر پر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے  ذریعے  دنیا کے  کسی بھی خطے  کے  انسان سے  نہ صرف چیاٹنگ کر سکتا ہے  بلکہ اپنی مرضی پسند اور نا پسند سے  دوسرے  کو واقف کر کے  اس سے  اس کی رائے  بھی طلب کر سکتا ہے  جس کے  لئے  بنیادی ضرورت یہی ہے  کہ جس شخص کو رابطہ کرنا چاہے  اس کا ای میل ایڈریس یا ویب سائٹ کے  بارے  میں  آگاہی موجود ہو۔ اس بنیادی ترقی کا اثر زندگی کے  ہر عمل پر پڑا ہے اور  انسان کو کسی بھی نتیجے  سے  واقف ہونے  کے  لئے  اب مدتوں  انتظار کی ضرورت نہیں بلکہ آن واحد میں  منفی اور مثبت رائے  سے  آگاہی ممکن ہوتی جا رہی ہے  اور بعض ادارے  ماس میڈیا کی درس و تدریس کا انتظام کر رہے  ہیں۔

          ماس کمیونیکیشن کے  اجتماعی اور انفرادی اداروں  سے  بھی گفتگو کی جا رہی ہے اور  ان سے  متعلق مواد کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری ہے  جس کی وجہ سے  ماس میڈیا اور  ماس کمیونیکیشن کے  بارے  میں  معلومات کی فراہمی کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ترسیل کے  قدیم ذرائع کی حیثیت سے  صحافت یعنی جرنلزم کو اہمیت حاصل ہے اور  صحافت کے  ذریعے  روزنامے،دوپہر نامے، شام نامے، دو روزہ، سہ روزہ،، ہفت روزہ اور پندرہ روزہ اخبارات کو بھی اہمیت حاصل ہے  جسے  اخباری صحافت کہا جاتا ہے۔ در حقیقت اخباری صحافت ایک ایسا وسیلہ ہے  جو ایک مہینے  سے  کم وقفے  میں  شائع ہونے  والے  تمام وسائل کو اپنے  اندر جذب کر لیتا ہے۔ انگریزی زبان میں  ایسی صحافت کے  لئے  نیوز پیپر کا لفظ مستعمل ہے  جس کا اطلاق روزنامہ، دو روزہ، سہ روزہ، ہفت روزہ، اور پندرہ روزہ اخبارات پر ہوتا ہے۔ یہ اخباری مواد اور اس کی اشاعت کے  لئے  صحافتی طور پر سائز بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ روزنامہ، دوپہر نامہ، اور شام نامہ ایسے  اخبارات کے  لئے  استعمال کیا جاتا ہے  جو آٹھ کالم کی نمائندگی کر کے  ہر صفحہ کی تکمیل کرتا ہو اسی طرح دو روزہ اور سہ روزہ کے  علاوہ  ہفت روزہ اور پندرہ روزہ کے  لئے  یہ شرط لازمی ہے  کہ ایسے  اخبارات چار تا چھ کالم کی نمائندگی کرتے  ہوں۔ یعنی ایک روزنامہ کے  مقابلے  میں  یہ اخبارات روزانہ کی آدھی جسامت کی تکمیل کرتے  ہیں۔ اس طرح روزنامہ سے  لے  کر پندرہ روزہ تک شائع ہونے  والے  تمام اخبارات صحافتی اصول کے  اعتبار سے  نیوز پیپر میں  شمار کئے  جاتے  ہیں  جو اخباری صحافت کی نمائندگی کرتے  ہیں۔ اخبارات کی صحافت کے  علاوہ ماہنامے، دو ماہی، سہ ماہی اور ششماہی اور سالنامے  بھی شائع ہوتے  ہیں  ایسے  شائع ہونے  والے  وقفے  وقفے  کی نمائندگی سے  وابستہ صحافی ذرائع کو نیوز پیپر میں  شمار نہیں  کیا جاتا بلکہ ان کی حیثیت جرنلز کی ہو جاتی ہے۔ جرنل کے  لئے  اردو میں  ترجمان کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اخباری صحافت کے  بعد دوسرا موقف ترجمانی صحافت یعنی رسائل کا ہے اور  صحافت کے  تیسرے  درجے  میں  ایسے  رسالوں  کو شامل کیا جاتا ہے  جنھیں  انگریزی میں  پیر یا ڈیکل (Periodical)کی حیثیت دی جاتی ہے۔ کسی ادارے  یا کسی کمپنی کے  آٹھ سالہ، دس سالہ، بیس سالہ خدمات یا سلور جوبلی، گولڈن جوبلی،ڈائمنڈ جوبلی کے  موقع پر جس قسم کے  رسالے  شائع کئے  جاتے  ہیں  انھیں  اخباری یا ترجمانی صحافت میں  شمار نہیں  کیا جا تا بلکہ وہ پیریا ڈیکلز میں  شامل کئے  جاتے  ہیں۔ اس طرح صحافت میں  شامل روزنامہ سے  پندرہ روزہ تک جس قدر بھی مواد فراہم کرنے  والے  جریدے  ہوں  گے  انھیں  اخباری صحافت میں  شامل کیا جاتا ہے۔ جب کہ ماہنامے، دو ماہی، سہ ماہی، ششماہی اور سالناموں  کو جرائد میں  شمار کرنے  کے  بعد آٹھ، دس، بیس، پچیس، پچاس، پچہتر اور سو سال کے  دورانیے  میں  شامل ہونے  والے  رسائل کو پیریا ڈیکلز کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح اگر صرف صحافت کا ہی مطالعہ کیا جائے  تو اندازہ ہو تا ہے  کہ کسی بھی زبان کی صحافت ان تین مختلف دائروں  میں  سفر کرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں  دواں  ہے۔ جس کے  تحت اخباری صحافت، ترجمانی صحافت اور پیریا ڈیکلز کی صحافت سے  انکار نہیں  کیا جا سکتا۔ دور حاضر میں  جب ماس میڈیا کی حیثیت سے  صحافت کا مطالعہ کیا جائے  تو اس کی تدریس کے  دوران صحافت کے  ان تین زمروں  کی تعریف اور وضاحت کے  علاوہ اس کے  تاریخی پس منظر کی نشان دہی ضروری ہو جاتی ہے۔

 ٭٭٭

 

ادب

بانی: ایک نا مکمل تخلیقی سفر

_______________فضیل جعفری

          بانی کا پہلا مجموعہ ’’ حرف معتبر ‘‘ ۱۹۷۱ء میں او ر دوسرا یعنی ’’ حساب رنگ‘‘ ۱۹۷۶ء میں  شائع ہوا ۔ ان کتابوں  کے  پیش نظر کسی قطعیت کے  ساتھ نہیں  کہا جا سکتا کہ بانی دس بیس برس اور زندہ رہتے  تو ان کی شاعری کن راستوں  سے  گزرتی اور اردو شاعری، خصوصاً غزل کے  سرمایے  میں  کتنا اور کس قسم کا اضافہ کرتے  لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے  کہ نا وقت موت کے  سبب ان کا تخلیقی سفر ادھورا رہ گیا ۔ بانی سے  سینیئر نیز ان کے  ہم عمر و ہم عصر ایسے  کئی شاعر ہمارے  درمیان آج بھی موجود ہیں  ( خدا وند کریم ان کی عمریں  دراز کرے ) جن کی کتابوں  کی تعداد میں  ہر سال اضافہ ہو جاتا ہے او ر ایسا ہر اضافہ بعض لوگوں  کے  نزدیک اردو شاعری کے  مجموعی سرمایے  میں  خوشگوار اور بیش قیمت اضافے  سے  کمتر درجے  کی چیز نہیں  ہو تی ۔ بانی کا ادبی مرتبہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن ان کی غزلوں  کو پڑھتے  ہوئے  ایک واضح اور بتدریج ارتقاء کا احساس ہوتا ہے  جو اپنے  فطری نقطۂ عروج تک نہیں  پہنچ سکا ۔

           جہاں  تک بانی کی غزل گوئی کا معاملہ ہے  انھیں  اس دور کا ’’ بہترین ‘‘ اہم ترین اور ’’ مکمل ترین‘‘ غزل گو کہا گیا ہے۔ خدا کرے  کہ ہمارے  نقاد ادیب اور شاعر اپنے  ان بیانات پر قائم رہیں۔ قدیم و جدید سے  قطعِ نظر اور کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر، ہماری تنقید دوستی،مصلحت پسندی اور افسر نوازی وغیرہ کی حدود سے  نکل کر اب تجارتی حدود میں  داخل ہو چکی ہے۔ پھر ہمارے  یہاں  یہ رسم بھی بہت عام ہے  کہ ہم کسی ایک شاعر پر لکھتے  ہوئے  اس کے  تمام ہم عصروں  کو نیچا دکھا کر یہ ثابت کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں  کہ ’’ اصلی جدیدیت‘‘ محض ہمارے  ممدوح کے  یہاں  نظر آتی ہے  لیکن ممدوح کے  بدلتے  ہی،لہجے  کی انفرادیت، موضوعات کی ندرت، اسلوب کی تازگی،زندگی سے  قربت اور جدید حسیت وغیرہ تمام خصوصیتیں  جن سے  پہلے  شاعر کو نوازا گیا تھا، ہو بہو اب دوسرے  شاعر کے  یہاں  نظر آنے  لگتی ہیں۔

          بانی کے  پہلے  مجموعے  ’’ حرف معتبر‘‘ میں  ایسی ہی کئی آرا شامل ہیں  جن پر سنجیدگی سے  غور کرنا اس لئے  ممکن نہیں  کہ ہمارے  یہ مشاہیر، ایک درجن سے  زائد شعراء کے  یہاں  وہ تمام خصوصیات دیکھ چکے  ہیں  جن کا ذکر انھوں  نے  بانی کے  سلسلے  میں  کیا ہے۔ میں  اپنی بات کو آگے  بڑھانے  کے  پہلے  محض ایک رائے  نقل کروں  گا ۔ عمیق حنفی لکھتے  ہیں  :

          ’’ بانی کو اس صدی کی چھٹی دہائی کے  بہترین اور اہم ترین غزل گویوں  میں  شمار کرنے  سے  مجھے  کوئی مصلحت، کوئی تکلیف اور کوئی خوف باز نہیں  رکھ سکتا ۔ ‘‘

           یہ بات بجائے  خود قابل قدر ہے  کہ ہمارے  لکھنے  والے  مصلحت، تکلف اور خوف کو بالائے  طاق رکھ کر کچھ کہنے  یا لکھنے  کے  متعلق کم از کم سوچ تو سکتے  ہیں۔ اب جہاں  تک چھٹی دہائی یعنی ۱۹۵۱ء سے  ۱۹۶۰ء تک کے  زمانے  کا تعلق ہے  تو اس بیچ اردو غزل بانی کے  نام اور کام سے  قطعاً نا آشنا تھی ۔ بانی کے  برسوں  پرانے  دوست من موہن تلخ نے  اپنے  مضمون میں  لکھا ہے  کہ چھٹی دہائی کے  آخر تک بانی، راجندر دیپک کے  نام سے  لکھتے  تھے او ر انھوں  نے  اس زمانے  کی شاعری کو سرے  سے  حرف معتبر میں  شامل نہیں  کیا ۔

          در اصل جب عمیق حنفی چھٹی دہائی کہتے  ہیں  تو ان کا مطلب ساتویں  دہائی سے  یعنی ۶۱ء سے  ۷۰ ء تک کے  زمانے  سے  ہوتا ہے۔ اب اگر بانی واقعی ساتویں  دہائی کے  یعنی ۶۰ء کے  بعد ابھرنے  والے  ’’ بہترین اور اہم ترین غزل گویوں  میں ‘‘ سے  ایک ہوتے  تو کوئی وجہ نہیں  تھی کہ وہ، اور تو اور خود عمیق حنفی جیسے  بے  خوف اور راست گو شخص کی توجہ سے  محروم رہتے۔ یہ اس لئے  لکھ رہا ہوں  کہ جدیدیت کے  عہد شباب میں  یعنی ۱۹۶۷ء میں  ماہ نامہ ’’ کتاب‘‘ لکھنؤ نے  اپنے  سالنامے  میں  جدیدیت کی افہام و تفہیم کی غرض سے  ایک سمپوزیم شائع کیا تھا جس میں  مفصل ترین اور طویل ترین مضمون خود عمیق حنفی کا تھا ۔ اس مضمون میں  انھوں  نے  ستّاون ایسے  شاعروں  کا ذکر کیا تھا جن کے  توسط سے  جدید شعری رجحانات کو سمجھا اور پرکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس طویل ترین فہرست میں  بھی بانی کا نام شامل نہیں  تھا ۔ اگلے  سال یعنی ۱۹۶۸ء میں  فنون،لاہور نے  ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا تھا جس میں  ڈاکٹر صاحب نے   ایک سوال کا جواب دیتے  ہوئے  تقریباً دو درجن نمائندہ جدید شاعروں  کے  نام لئے  تھے۔ لیکن ان کی فہرست میں  بھی بانی کا نام نظر نہیں  آتا۔ اسی طرح جب ۱۹۶۹ء کے  آخر میں  فنون نے  دو جلدوں  میں  اپنا جدید غزل نمبر شائع کیا تو اس میں  بانی کی غزلیں  شامل نہ تھیں۔ یہ کوئی اہم یا فیصلہ کن بات نہیں ، لیکن اہم بات یہ ہے  کہ پاکستانی تو پاکستانی، اس نمبر میں  شامل اہم ہندوستانی نقادوں  مثلاً خلیل الرحمن اعظمی اور شمس الرحمن فاروقی کے  مضامین میں  بھی بانی کا ذکر نہیں  ملتا ۔ واضح رہے  کہ میرا مقصد بانی اور ان کی شاعری کے  تعلق سے  نقادوں  پر عدم توجہی کا الزام لگانا نہیں  بلکہ یہ کہنا ہے  کہ ۶۱ء سے  ۷۱ء کا عرصہ جو جدید غزل کے  عروج کا زمانہ تھا، بانی کے  لئے  ایک ایسا عبوری دور تھا جب وہ اپنی شعری صلاحیتوں  کو سمجھنے ، اپنی راہ متعین کرنے او ر منزل تک پہنچنے  کی تگ و دو میں  مصروف تھے ۔ ساتویں  دہائی کے  ابتدائی دنوں میں  جب وہ بانی، ایم۔ اے  کے  نام سے  لکھ رہے  تھے  ان کی خصوصی توجہ صرف خود نظم نگاری بلکہ ہندوستان میں  نظم کو ایک صنف کی حیثیت سے  آگے  بڑھانے  کی طرف تھی ۔ اس سلسلے  میں  ان کا ترتیب دیا ہوا ماہنامہ تخلیق کا ’’ مختصر نظم نمبر‘‘ تاریخی اہمیت کا حامل اور بانی کی کاوشوں  کا روشن ثبوت ہے۔

          بانی، جیسا کہ سب جانتے  ہیں ، اپنی روز مرہ زندگی میں  اپنی تمام تر ذہانت کے  باوجود ایک نہایت ہی سادہ، ملنسار اور منکسر المزاج انسان تھے۔ ان کی شاعری کا بنیادی مزاج بھی اسی منکسر المزاجی سے  عبارت ہے۔ ان کا شعری سفر اس حقیقت کا ثبوت ہے  کہ انھوں  نے  اپنی شعری صلاحیتوں او ر خلاقانہ قوتوں  کو دھیرے  دھیرے  چھوا اور سمجھا اور انھیں  بروئے  کار لانے  میں  جلدی نہیں  کی ۔ ان کی غزلوں  نے  قارئین کی آنکھ میں  چکا چوند پیدا کرنے  کے  بجائے  آہستہ آہستہ انھیں  اپنا گرویدہ بنایا اور غیر محسوس طریقے  سے  لوگوں  کے  دلوں  میں  گھر کرتی رہیں۔ بانی کی شعری حیثیت اور قدر و قیمت کے  تعین کی کوششیں  ۱۹۷۵ء کے  بعد یعنی ’’ حساب رنگ‘‘ کی اشاعت سے  کچھ پہلے  شرو ع ہوتی ہیں۔ انھوں  نے  اس سلسلے  میں  بجا طور پر محمود ہاشمی کو ’’ اپنی شاعری کا پہلا پارکھ‘‘ قرار دیا ہے ۔ متذکرہ مضمون میں  اگر چہ کہ محمود ہاشمی نے  اپنا انتہا پسندی والا رویہ بر قرار رکھا ہے  لیکن اس کے  باوجود اس کی اولیت اور اہمیت سے  انکار نہیں  کیا جا سکتا ۔ میرے  نزدیک ۱۹۷۵ء کے  بعد بانی کے  اچانک ابھر کر سامنے  آنے  کی دو وجہیں  تھیں۔ ایک تو یہ کہ بانی کی اپنی غزلیں  جو پہلے  مجموعے  یعنی ’’ حرف معتبر‘‘ تک کی غزلوں  کے  مقابلے  میں  موضوع تکنیک اور فنی رویے،غرض کہ ہر لحاظ سے  زیادہ منفرد اور مؤثر تھیں ، اور دوسری وجہ یہ کہ ان کے  بیشتر ہم عصر جو ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۵ء کے  درمیان اپنی طاقت ور شاعری کی بنا پر سکہ رائج الوقت بن گئے  تھے ، انھوں  نے  اس عرصے  میں  حاصل کردہ شہرت کو بہتر شاعری کا نعم البدل سمجھ لیا ۔ میں  ہر گز یہ نہیں  کہتا ’’حرف معتبر‘‘ میں  شامل غزلوں  کو بعد کی غزلوں  کے  مقابلے  یکسر رد کر دیا جائے۔ لیکن یہ ضرور کہتا ہوں  کہ غور سے  پڑھنے  پر یہ مجموعہ قاری پر وہ تاثر نہیں  چھوڑتا جو ’’حساب رنگ‘‘ اور پھر بعد کی غزلوں  کا حصہ ہے۔ ’’حرف معتبر ‘‘میں  یقیناً کئی اچھے  اور بعض بہت اچھے  اشعار مل جاتے  ہیں۔ اس طرح اس مجموعے  میں  شاعر کی ذاتی زندگی، اس کے  داخل میں  واقع ہونے  والا مدو جزر، داخلی شعور اور خارج کے  درمیان کش مکش، صنعتی اور شہری تہذیب سے  عبارت لینڈ اسکیپ کے  اندرونی تضادات وغیرہ چیزیں  موجود ہیں  جن کا ذکر بانی کے  نقادوں  نے  کیا ہے  لیکن ان تمام مسائل کے  تعلق سے  اکثریت ایسے  اشعار کی ہے  جن کی کچھ مثالیں  یہ ہیں  :

اندر کی گفتگو تو بڑی پر تپاک تھی

اندر سے،قرب سرد سے  دونوں  ہلاک تھے

ترے  خستہ مزاجوں  کو ہمیشہ

جنوں  ترک محبت کا رہے  گا

محبتیں  نہ رہیں  اس کے  دل میں  میرے  لئے

مگر وہ ملتا تھا ہنس کر،کہ وضع دار جو تھا

پھر نہ گنجائش یک صدمہ بھی ہم تم میں  رہی

ٹوٹتا سلسلہ دونوں  پہ عیاں  تھا کتنا

بھرے  شہر میں  اک بیاباں  بھی تھا

اشارہ تھا اپنے  ہی گھر کی طرف!

عجیب بھیڑ یہاں  جمع ہے  یہاں  سے  نکل

کہیں  بھی چل مگر اس شہرِ بے  اماں  سے  نکل

چلو کہ چین سے  بیٹھیں  کہیں تو اے  یارو

نہیں  ہے  شہر سے  باہر کوئی کھنڈر بھی کیا

کوئی بھی گھر میں  سمجھتا نہ تھا مرے  دکھ سکھ

اک اجنبی کی طرح میں  خود اپنے  گھر میں  تھا

یہیں  کہیں  ترا دشمن چھپا ہے  اے  بانی

کوئی بہانہ بنا،بزمِ دوستاں  سے  نکل

          مندرجہ بالا نو اشعار میں  سے  پہلے  چار، محبوب کے  تعلق سے  شاعر کے  رویے  یا یوں  کہئے  کہ دونوں  کے  مشترکہ رویے  کی نشان دہی کرتے  ہیں۔ جب کہ بعد والے  تین اشعار فرد اور وسیع تر معاشرے  کے  بیچ احسا س غیریت کی طرف اشارہ کرتے  ہیں۔ آٹھواں  شعر گھریلو زندگی اور نواں  مجلسی زندگی سے  متعلق ہے۔ یقیناً ان تمام اشعار میں  حسیاتی رد عمل کی گہرائی،تہہ داری، شدت اور پیچیدگی جیسے  عناصر نسبتاً کم نظر آتے  ہیں۔ ہم عصر زندگی کے  بے  کشش ہونے  نیز فرد کی آرزوؤں، امیدوں، اور اس کے  خوابوں  کے  ڈھیر ہو جانے  کا ایماندارانہ اور شاعرانہ بیان ملتا ہے  لیکن یہ بیان بیشتر یک سطحی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’حرف معتبر ‘‘کے  بہت سارے  اشعار میں  ذاتی حزن و ملال کا اظہار کرتے  ہوئے  داخلی شعور کو کھنگالنے اور  تہہ میں  ڈوبنے  کی کوشش کم کم نظر آتی ہے۔ مزید یہ کہ مندرجہ بالا اور اس قبیل کے  دوسرے  اشعار بانی کی ذاتی آواز اور ان کے  شعری و فنی اسلوب کو مستحکم بنانے  کے  بجائے،ہمیں  اس خاصے  مستعمل اور عمومی ڈھانچے  کی یاد دلاتے  ہیں  جس سے  جدید غزل کا قاری ۱۹۶۰ء کے  بعد ہی واقف ہو چکا تھا۔ اس لئے  بار بار یہ احساس ہوتا ہے  کہ ان اشعار میں  پیش کئے  گئے  واقعات پہلے  گزر چکے  ہیں اور  ان میں  بیان کی گئی باتوں  کو ہم پہلے  بھی دیکھ، سن یا پڑھ چکے  ہیں۔ دوسرے  لفظوں  میں  یہ کہ ان باتوں  کا شاعر کے  داخلی اور نجی تجربات سے  تعلق تو ہے  لیکن ان پر شخصی اسلوب کی چھاپ نہیں۔ ان اشعار میں  ذہنی اور حسیاتی کیفیات کا وہ علامتی اور استعاراتی اظہار بھی نہیں  ملتا جو آگے  چل کر بانی کی شاعری کی ایک اہم اور منفرد خوبی بن گیا۔ موضوعات کی سطح پر ایک محدود کینوس میں  بھی خاصا تواتر دکھائی دیتا ہے۔ وہ عشق، زندگی، احباب اور شہری تہذیب کے  بارے  میں  بار بار ایک ہی طرح کی باتیں  دہراتے  ہیں۔ مثال کے  طور پر ’’حرف معتبر‘‘ میں  براہ راست عشقیہ اشعار خاصی تعداد میں  پائے  جاتے  ہیں، لیکن کم و بیش شروع سے  آخر تک شاعر کا رویہ وہی رہتا ہے  جس سے  ہم نقل شدہ پہلے  چار اشعار میں  دو چار ہوتے  ہیں۔ اس مجموعے  میں  بانی کا محبوب ایک ایسے  شخص کی شکل میں  ابھرتا ہے  جو یا تو کسی وجہ خود محبت کے  جذبے  سے  خوف زدہ ہے  یا پھر ضرورت سے  زیادہ خود پرست ہونے  کے  سبب ٹوٹ کے  محبت کرنے  سے  قاصر ہے۔ یہی حال عاشق کا بھی ہے۔ کبھی عاشق محبوب کے  تیز گام ہونے  سے  ڈر کر اسے  آواز دینے  میں  جھجکتا ہے اور  کبھی محبوب کی قوت ہمرہی پر شک کر کے  اس سے  اذن رخصت لے  لیتا ہے۔ بانی یہ تو کہتے  ہیں  کہ :

نہیں  عجب اسی پل کا ہو منتظر وہ بھی

کہ چھولے  اس کے  بدن کو ذرا سی ہمت کر

           لیکن یہ ہمت محض خیالی سطح پر رہتی ہے اور  ملاقاتیں  زیادہ تر ’’ قرب تہی لمس‘‘ سے  ہی عبارت رہتی ہیں۔ محبت اور زندگی کا حقیقی اور آپسی رشتہ در اصل اور ہی کچھ ہوتا ہے اور  اس تعلق کو اطہر نفیس نے  اپنے  اس شعر میں  بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے  برتا ہے  :

عشق کرنا جو سیکھا تو دنیا برتنے  کا فن آ گیا

کاروبار جنوں  آ گیا ہے، تو کار جہاں  آئے  ہیں

          اس سے  پہلے  کہ’’ حرف معتبر‘‘ کے  متعلق میری ان باتوں  سے  کوئی غلط فہمی پیدا ہو، میں  اپنی اوپر لکھی ہوئی اس بات کو دہرا دو ں  کہ’’ حساب رنگ‘‘ اور اس کے  بعد کی غزلوں  کے  مقابلے  میں  ’’حرف معتبر‘‘ کی تمام غزلوں  کو رد نہیں  کیا جا سکتا۔ اس مجموعے  میں  ہمیں  اس قسم کے  اشعار بھی مل جاتے  ہیں۔

میں  ترے  بعد پھر اے  گم شدگی

سایۂ گرد سفر سے  نکلا!

اس تماشے  میں  تاثر کوئی لانے  کے  لئے

قتل بانی جسے  ہونا تھا وہ کردار تھا میں

وقت خود ہی عجب عذاب میں  ہے

ایک اک لمحہ رائیگاں  خالی

مجھے  خبر ہے  کہ رستہ مزار چاہتا ہے

میں  خستہ پا سہی لیکن نہیں  ٹھہرنے  کا

یہ موڑ کاٹ کے  منزل کا عکس دیکھو گے

اسی جگہ مگر امکان حادثہ ہے  بہت

یہ اور ان جیسے اور  کئی اشعار اس حقیقت کے  غماز ہیں  کہ ساتویں  دہائی کے  عرصے  میں  بانی اپنی آواز کو پانے، اپنا لہجہ تراشنے، ایک منفرد شعری اسلوب خلق کرنے اور  ساتھ ہی ساتھ اپنے  لئے  ایک الگ لفظیات وضع کرنے  کی جد و جہد شعوری طور پر کر رہے  تھے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے  کہ بانی کے  لئے  شاعری محض اشاعت کلام اور اس کے  توسط سے  وقتی شہرت حاصل کرنے  کے  شوق تک محدود نہیں  تھی۔

          میرے  نزدیک بانی کے  زندگی کے  آخری دو سال ان کی بہترین تخلیقی قوتوں  کے  نفیس ترین اظہار کے  سال تھے۔ اس عرصے  میں  زندگی، سماج، ماحول، عشق، وقت اور پھر شعری تکنیک غرض کہ ہر لحاظ سے  بانی کا ذہنی اور فنی رویہ انقلابی اور خوش گوار تبدیلیوں  سے  دو چار ہو تا ہے۔ اس سلسلے  میں  ایک خاصی حیرت ناک لیکن حوصلہ افزا یہ بھی بات سامنے  آتی ہے  کہ متذکرہ دس برسوں  کا عرصہ در اصل وہ عرصہ تھا جب بانی اپنی طویل اور بالآخر جان لیوا ثابت ہونے  والی بیماری کا شکار ہو چکے  تھے اور  بیچ بیچ میں  فریش ہو جایا کرتے  تھے  لیکن بانی کا کمال یہ ہے  کہ انھوں  نے  جسمانی کمزوری کو اپنی فن کارانہ قوتوں  پر غلبہ نہیں  پانے  دیا۔ ایسے  وقت میں  جب بیماری کی شکل میں  موت جسم و جاں  کے  دروازے  پر بار بار دستک دے  رہی ہو، شاعر کا گھوم پھر کر، اپنی ذات اور زندگی کی محرومیوں  کو موضوع سخن بنا لینا ایک فطری امر ہے۔ یقیناً بانی کو بھی اس شدید کرب کا پورا احساس تھا اور انھوں  نے  اس سے  آنکھ نہیں  چرائی کیوں  کہ ایسا کرنا محض ایک مصنوعی پوز بن جاتا۔ ’’ حساب رنگ‘‘ میں  شامل ان کی نظم ’’ نفی سارے  حسابوں  کی ‘‘ جس کے  آخری چند مصرعے  یوں  ہیں  :

          اس سے  پہلے  بھی یہی ساری زمینیں  تھیں

          یہی سب آسماں  تھے

          اور میری آنکھ میں

          نیلے  ہرے  کے  درمیاں

          اک رنگ شاید اور بھی تھا!

          اب مرے  اندر نہ جھانکو

          میرے  باطن میں  مسلسل تیرتی ہے

          اونگھتی دنیا سرابوں  کی

          نفی سارے  حسابوں  کی۔۔۔!

           جسم کے  زوال کے  زیر اثر پیدا ہونے  والے  کرب کا بے  حد مؤثر اور فن کارانہ اظہار ہیں۔ بانی کے  یہاں  موت کا احساس ضرور ہے  لیکن انھوں  نے  اس احساس کو اپنا مستقل وسوسہ (Obsession)نہیں  بننے  دیا بلکہ اسے  ایک ماورائی کیفیت میں  تبدیل کر دیا۔ ملاحظہ ہو :

سیر شب لا مکاں اور  میں

ایک ہوئے  رفتگاں اور  میں

           میں  جس زمانے  کی بات کر رہا ہوں  اس پورے  عرصے  میں  ان کے  یہاں  اپنے  اندر سمٹ جانے  کی بجائے  باہر کی دنیا پر از سر نو نظر ڈالنے اور  اس سے  رشتہ استوار کر نے  کا عمل زیادہ فعال اور قوی تر ہو تا نظر آتا ہے۔ اور یوں  ان کی شاعری محض ذاتی رنج و غم اور نفسیاتی حزن و ملال کا براہ راست یا بالواسطہ اظہار نہ ہو کر وسیع تجربات سے  آشنا ہوتی ہے۔

          سب جانتے  ہیں  کہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور  فتنہ پرداریوں  کے  باوجود، ہماری آج کی زندگی شہری اور صنعتی تہذیب کے  لینڈ سکیپ سے  ہی عبارت ہے۔ بانی نے  ( جیسا کہ’’ نہیں  ہے  شہر سے  باہر کوئی کھنڈر بھی کیا ‘‘ اور۔۔۔  شہر بے  اماں  سے  نکل‘‘ والی غزلوں  سے  انداز ہ ہوتا ہے  ) پہلے  پہلے  اس تہذیب اور زندگی کی عصری روش کو رد کیا۔ اور اجتناب کا رویہ اپنایا، پھر ان کے  رد و قبول کا عمل ابھرتا ہے  :

ادھ کھلی کھڑکی سے  ہم وسعتیں  دیکھا کئے

گھر سے  نکلتے  نہ تھے، چین بھی گھر میں  نہ تھا

           اور پھر دھیرے  دھیرے  انھوں  نے  اس تہذیب کے  سارے  کرب اور اس کے  زہر کو اپنی تخلیقی شخصیت اور اپنے  شعور کا حصہ بنا لیا۔

وہ اپنے  شہر کے  مٹتے  ہوئے  کردار پہ چپ تھا

عجب اک لا پتہ ذات اس کے  اپنے  سر پہ رکھی تھی

           فرد اور سماج کی آپسی کش مکش میں، بانی کے  لئے  یعنی ان کی شاعری کے  غالب حصے  میں  زندگی مرکزی نقطۂ نظر یا اہمیت کا درجہ رکھتی ہے اور  یہی وجہ ہے  کہ انھوں  نے  زندگی کا مختلف پہلوؤں اور  زاویوں  سے  مطالعہ کرنے  کی کوشش کی ہے۔ عمومی، معاشرتی زندگی کے  پس منظر میں  بانی کا پہلاشعری تعلق اس بات سے  ہے  کہ مشاہدے  یا واقعے  سے  متعلق حقیقی تجربے  کو کم سے  کم لفظوں  میں،صراحت اور شدت کے  ساتھ پیش کر دیا جائے۔ بیشتر اوقات وہ ہم عصر انسانی زندگی اور ماحول سے  متعلق انفرادی نیز مشترکہ تجربات کو پیش کر کے  حقیقت کی عکاسی اس طرح کرتے  ہیں  کہ اس پر محض ان کے  داخلی موڈ، ذاتی تجربے  یا نجی احساس کا دھوکہ نہ ہو کر، ہمیں  وسیع تر سچائیوں  کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے  داخلی شعور اور باہری دنیا میں  ایک متوازن اور مناسب علامتی رشتہ قائم کرنے  میں  کامیاب نظر آتے  ہیں۔ یہاں  یہ بھی کہہ دوں  کہ شاعر ی میں  تخلیق کار اپنی ذات سے  دنیا کی باہر کا مشاہدہ اس کا تجزیہ اور اس پر تبصرہ شاعر سے  اپنی انا کو قابو میں  رکھنے  کا متقاضی ہوتا ہے۔ بانی کی شاعری کی وہ خصوصیت جسے  میں  نے  منکسر المزاجی سے  تعبیر کیا ہے  یہاں  بھی ان کے  کام آتی ہے اور  وہ باہر کی دنیا کو اپنے  نجی احساسات میں  گم کر دینے  کے  بجائے  ان سے  ہم آہنگ کر کے  پیش کرتے  ہیں۔ اس بحث کے  پیش نظر چند اشعار ملاحظہ ہوں  :

راہ شفاف تھی چادر کی طرح

یعنی کچھ بھی مری ٹھوکر میں  نہ تھا

پھیلتی جائے  گی چاروں  سمت اک خوش رونقی

ایک موسم  میرے  اندر سے  نکلتا جائے  گا

اے  گل آوارگی تیری مہک تاروں  سے  کھیلے

اے  ندی بہتا رہے  دائم ترا بیدار پانی

موسم کو بدلتی ہوئی اک موج ہوا تھی

مایوس میں  بانی ابھی منظر سے  نہیں  تھا

کچھ نہ کچھ میرا یہاں  چاروں  طرف بکھرا پڑا ہے

پھول سے  مہتاب تک سب سلسلہ محفوظ کر لے

          میں  یہاں  ان اشعار کے  بارے  میں  بہت لمبے  چوڑے  دعوے  نہیں  کرنا چاہتا تھا لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں  کہ ان میں  فرد کے  داخلی احساسات اور وسیع تر معاشرے  کی روایات ایک دوسرے  پر جس طرح اثر انداز ہوتی ہیں  اس کا نتیجہ یقیناً ایک خوش گوار شعری صورت حال کی شکل میں  بر آمد ہوتا ہے۔ یہاں  بانی ’’ زمانے  تری رہبری کے  لئے  بہت یہ غبارِ سفر ہے  مرا‘‘ والے  مصنوعی، تعلی آمیز اور نا قابل یقین شعری معروضات سے  چھٹکارا حاصل کر کے  اپنے  داخل اور باہر کی دنیا میں  مادی اور منطقی سطح سے  بلند ہو کر ایک ایسے  قلبی اور روحانی رشتے  کی دریافت کرتے  ہیں  جس پر ان کی شعری گرفت ہمیشہ مضبوط رہتی ہے۔ بصیرت اور رویے  کی یہی تبدیلی ان اشعار میں  بھی دکھائی دیتی ہے  جن کا بنیادی تعلق عشق اور عشقیہ جذبات سے  ہے۔ شروع کے  صفحات میں  بانی کی ابتدائی شاعری کے  پس منظر میں  ان کے  عشقیہ اشعار کے  متعلق مختصراً گفتگو کر چکا ہوں۔ اس سلسلے  میں  بھی بانی کی شعری روش جامد نہ ہو کر خاصی سیال، متحرک اور حقیقت نیز ذہنی پختگی سے  قریب تر ہوتی نظر آتی ہے۔ محبوب کے  تعلق سے  بد گمانی، تشکیک،نیز جسمانی اور طبعی قربت سے  ایک طرح کا یاسیت آمیز گریز جیسے  عناصر دھیرے  دھیرے  فعال اور روشن رشتوں  کا روپ دھارن کر لیتے  ہیں۔ میں  نے  اس سلسلے  میں  پہلے  جو اشعار نقل کئے  ہیں  ان کے  مقابلے  میں  یہ اشعار:

اک گھنے  سرشار حاصل کی فضا ہے اور  دونوں

اب نہیں  ہے  درمیاں  کوئی بھی منزل امتحانی

میں  کہ تھا منکر تیرا اور اب کہ میں  قائل کھڑا ہوں

اے  وصال لمحہ لمحہ اے  عطائے  آسمانی

صبح کی پہلی کرن دھوپ بچھاتی گئی

میں  ترے  خط کی اسے  شوخ عبارت کہوں

اپنے  سینے  میں  کہیں  میری وفا محفوظ کر لے

میں  کہوں  تیرا ہوں  میں،میرا کہا محفوظ کر لے

           اور ان اشعار کے  علاوہ ’’ صبح کے  سبز نم سی ندا کس کی تھی ‘‘۔ ’’ مگر اک شے  رفاقت کی طرح تھی۔ ‘‘ ’’ دمک رہا تھا بہت یوں  تو پیرہن اس کا ‘‘۔ ’’ لباس اس کا علامت کی طرح تھا ‘‘جیسی غزلوں  کے  بیشتر اشعار شاہد ہیں  کہ بانی کے  لئے  محبت تمام انسانی دکھوں  کا مداوا نہ ہونے  کے  باوجود ایک اہم اور فطری صداقت ہے۔ اس صداقت نیز محبت، قربت اور وصل کی مختلف کیفیات کو نرم اور ذہن میں  تحلیل ہو جانے  والے  پیرائے  میں  نظم کرنے  لئے  بانی بکثرت مظاہر فطرت سے  استعارے اور  پیکر اخذ کرتے  ہیں اور  اس طرح ان کے  یہاں  احساساتی اور جذباتی رد عمل خود بہ خود تازگی اور شگفتگی سے  عبارت ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے  استعارے اور  پیکر نہ صرف شاعری کی ذہنی کیفیات کی معنویت کو اجاگر کرتے  ہیں  بلکہ ہمیں  منظر نگاری کی لذت سے  بھی آشنا کرتے  ہیں۔

           استعارہ سازی اور پیکر تراشی کے  ذکر کے  ساتھ ہی بانی کے  عمومی اسلوب اور ان کی شعری تکنیک کا ذکر ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لئے  بھی کہ میرے  نزدیک بانی کی مرکزی شعری شناخت کا تعلق خیال اور موضوع سے  کم اور اسلوب ڈکشن اور تکنیک سے  زیادہ ہے۔ بانی کی چند آخری غزلوں میں  سے  ایک غزل کا یہ شعر:

شاعری کیا ہے  کہ اک عمر

چند الفاظ کو امکان و اثر دینے  میں

           بانی کے  اس رویے  کی طرف اشارہ کرتا ہے  جس کے  تحت وہ موضوع کے  ذریعے  شعر ی تاثر تخلیق کرنے  کے  بجائے  لفظوں  میں  پوشیدہ معنوی استعداد کو پوری طرح بروئے  کار لا کر اپنے  مواد و موضوع کو وزن،وقار اور اعتبار عطا کرنے  کے  قائل تھے۔ بانی کے  کم و بیش سبھی نقاد اس مسئلے  پر متفق ہیں  کہ ان کا عمومی اسلوب ایک غیر معمولی شعری صنعت گری سے  عبارت ہے۔ لسانی اور شعری اختراعات ان کے  شعری اسلوب کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی غزلوں میں  خیمہ گرد سفر،درد منظری،صف ابر رواں،دم پامال،بزم کم یقینیاں، لمحہ خالی، قرب تہی لمس،عکس لا تفسیر،خانہ امید رائیگاں،افسوس خانہ،معنی بیگانہ، ادراک نمو،جیسی اختراعی اور نادر لفظیات و تراکیب کا خاصہ بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ سچ ہے  کہ ایسی لفظیات و تراکیب کا عمومی تاثر ہمیشہ اور یکساں  طور پر غیر معمولی نہیں  ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے  کہ بانی کی غزلوں  میں  ان کا استعمال محض غیر معمولی بننے  کے  شوق کا نتیجہ نہ ہو کر خیالات و احساسات کے  تخلیقی اکتشاف(Exploration)کا نتیجہ ہے۔ مناسب ترین الفاظ کا انتخاب اور شعر میں  ان کی مناسب ترین ترتیب بانی کے  شعری اسلوب کی ایک ایسی خصوصیت ہے  جس کے  متعلق دو رائیں  نہیں  ہو سکتیں۔

           جوش ملیح آبادی نے  ایک جگہ لکھا ہے  کہ الفاظ ان کے  سامنے  ’’ لونڈیوں  کی طرح قطاریں باندھے  کھڑے  رہتے  ہیں  ‘‘ ممکن ہے  کہ جوش کی حد تک یہ رویہ صحیح ہو لیکن اگر ہما شما یہ رویہ اپنائیں  تو لفظ بھی شاعر سے  لونڈیوں  والا ہی سلوک کریں  گے۔ حقیقت یہ ہے  کہ ہر لفظ اپنا ایک یا ایک سے  زیادہ ڈپلیکیٹ رکھتا ہے۔ کمتر درجے  کے  شاعروں  سے  سابقہ پڑنے  پر بہتیرے  الفاظ چپ چاپ اپنے  ڈپلیکیٹ کو آگے  کھسکا دیتے  ہیں۔ یوں  تو بانی کے  بیشتر خیالات و موضوعات تقریباً وہی ہیں، جو ان کے  ہم عصر و ہم مرتبہ شعراء کے  یہاں  عام طور پر پائے  جاتے  ہیں  لیکن شعری رویے  کے  اختلاف اور اس سے  بھی زیادہ لفظوں  کے  منفرد ترین ا لفاظ کے  استعمال  نے  ان کی شاعری کو ایک الگ رنگ و آہنگ عطا کر دیا ہے۔ بانی نہ صرف بہترین اور مناسب ترین الفاظ کے  استعمال پر زور دیتے  ہیں  بلکہ جہاں  کہیں  انھیں  احساس ہو تا ہے  کہ مروجہ تراکیب و الفاظ ان کے  شعری احساس کے  اظہار میں  پوری طرح معاون نہیں  ثابت ہوتے  تو وہ یا تو بالکل نئی تراکیب وضع کرتے  ہیں  یا پھر مستعمل الفاظ و تراکیب میں  کاٹ چھانٹ کر کے  انھیں  اس طرح ایک نئی شکل عطا کر دیتے  ہیں  :

نہ منزلیں  تھیں  نہ کچھ دل میں  تھانہ سر میں  تھا

عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں  تھا

خوش یقینی میں  نہ تھا اب کوئی نور

ضو کوئی خندہ گمانی میں  نہ تھی

بگولے  اس کے  سر پر چیختے  تھے

مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا

          ان اشعار میں  ’’ لا سمتیت‘‘ ’’ خندہ گمانی‘‘ اور ’’ چپ ذات‘‘ نہ صرف بانی کے  اختراعی بلکہ غیر مقلد اور آزاد ذہن کی آئینہ دار ہیں۔ یہاں  بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتا چلوں  کہ بانی کی غزلوں  میں  نہ تو کھلنڈرے  قسم کے  الفاظ ملتے  ہیں اور  نہ ہی وہ لفظوں  کو کھل کھیلنے  کی اجازت دیتے  ہیں۔ میں  اس رویے  کو بطور معیار قبول نہیں  کرتا لیکن بانی کے  اسلوب کی خصوصیت ضرور سمجھتا ہوں۔ اسی طرح بانی کے  لہجے  میں  اس دھار دار طنز کی یقیناً کمی ہے  جو دوسرے  کئی کامیاب جدید غزل گویوں  کے  یہاں  نظر آتا ہے  لیکن وہ اس کی تلافی مکالماتی انداز، تفکر آمیز بیانات نیز ابہامی کیفیت اور غنائیت سے  کر دیتے  ہیں۔

           بانی کی شعری تکنیک کی ایک اور خوبی استعارہ سازی اور پیکر تراشی کے  شدید اور بکثرت عمل دخل سے  عبارت ہے۔ وہ عموماً اپنے  داخلی احساسات کو تشبیہہ یا استعارے  یا پیکر کے  توسط سے  پیش کرنے  کے  بجائے  خود تشبیہہ، استعارہ یا پیکر کی شکل میں  پیش کرنا پسند کرتے  ہیں اور  یہ خصوصیت انھیں  بطور خاص تقلیل لفظی اور شدت اظہار کے  وصف سے  نوازتی ہے۔ ان کی غزلوں  میں  ابر،مہتاب،درخت،سمندر،سفر، آئینہ،خوں،گرد،رنگ، بے  رنگی،دود، دھندلا اور دھواں  جیسے  الفاظ بار بار استعارے اور  پیکر کی شکل میں  ابھرتے  ہیں اور شاعر کے  تجربات و احساسات کے  علامتی اظہار کا ذریعہ بن جاتے  ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے  کہ اس طرح کے  الفاظ، اگر چہ ان کی غزلوں میں  بار بار آتے  ہیں، لیکن شعر کے  سیاق و سباق میں  ان کی استعاراتی معنویت بدلتی رہتی ہے۔ مثال کے  طورپر مندرجہ ذیل اشعارمیں :

شامل ہوں  قافلے  میں  مگر سر میں  دھند ہے

شاید کہ کوئی راہ جدا ہے  مرے  لئے

سبز، بھوری دھند میں  ڈوبے  پہاڑوں  سے  اترتی

کیا عجب منظر بہ منظر روشنی ہے  داستانی

یاد تری، سورج گھلتے  ہی

دھند اتر جائے  پانی میں

           دھند کا استعارہ معنوی تلازم کے  الگ الگ رنگوں  کا مظہر ہے۔ بانی کے  کئی نقادوں  نے  ان کی طویل تر اور نامانوس بحروں میں  لکھی گئی غزلوں  کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ یہ غزلیں  یقیناً ان کی ریاضت، فن اور زبان و بیان پر ان کی گہری دسترس کی دلیل ہیں۔ ان غزلوں  میں  کئی بہت اچھے اور  بے  حد کامیاب اشعار بھی ملتے  ہیں  لیکن میرے  نزدیک بانی کی وہ غزلیں  تاثر کے  اعتبار سے  زیادہ کامیاب ہیں  جو مستعمل بحروں  میں  لکھی گئی ہیں۔ آخری زمانے  میں  بانی کو مختصر بحروں  سے  بہت زیادہ شغف ہو گیا تھا، میں  ان کی چھوٹی بحروں  والی غزلوں  کو ان کے  مجموعی شعری اسلوب کے  پس منظر میں  نہ صرف بہت اہم بلکہ بہت ہی منفرد، نمائندہ اور تخصیصی اہمیت کی حامل سمجھتا ہوں۔ یہ غزلیں  در اصل ذہنی یکسوئی اور تخلیقی جذب کی نئی جہات کی نشان دہی کرتی ہیں  :

فضا کہ پھر آسمان بھر تھی

خوشی سفر کی اڑان بھر تھی

لباس اس کا علامت کی طرح تھا

بدن روشن عبارت کی طرح تھا

عکس کوئی کسی منظر میں  نہ تھا

کوئی بھی چہرہ کسی در میں  نہ تھا

صبح کے  سبز نم سی ندا کس کی تھی

محو ترتیب نغمہ فضا کس کی تھی

آج اک لہر بھی پانی میں  نہ تھی

کوئی تصویر روانی میں  نہ تھی

وہی درد مسلسل، وہی حرف دعائیں میں

بسر ہوتی ہوئی شب بسر ہوتی ہوائیں  میں

والی سبھی اور ان کے  علاوہ دوسری کئی غزلیں، فارسی آمیز گاڑھی تراکیب والی غزلوں  کے  برعکس زیادہ متحرک اور زیادہ سیال کیفیت رکھتی ہیں۔ ان غزلوں  میں  سطور کا اختصار اور تحرک، آہنگ کے  بہاؤ کو تیز اور شعری تاثر کو شدید تر بنا دیتا ہے۔ لہجے  کے  اعتبار سے  خواہ یہ غزلیں  بیانیہ ہوں، یا سوالیہ ہوں  یا استفہامیہ، بانی کی قوت ابتکار ( Originality)ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ ان چھوٹی بحروں  والی غزلوں  کے  بارے  میں  آخری بات یہ ہے  کہ یہ سبھی غزلیں  نسبتاً طویل اور طویل تر ہیں  لیکن ان پر موڈ اور موضوع کی یکسانیت کا الزام نہیں  لگایا جا سکتا۔ ان غزلوں  کو پڑھتے  ہوئے  جس ایک مشترکہ خصوصیت کا احساس ہو تا ہے  وہ ہے  جزئیات نگاری،بلراج کومل نے  اپنے  مضمون ’’ شاعری اور فکشن کی ٹوٹتی حد بندیاں  ‘‘ میں  فکشن پر جدید شاعری کے  اثرات کی وضاحت کی ہے۔ میں  سمجھتا ہوں  کہ بانی کی زیر بحث غزلوں  کو جدید غزل پر فکشن کے  اثرات کی مثال کے  طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

          اب رہا سوال یہ کہ جدید غزل گویوں  میں  بانی کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟

           عمیق حنفی نے  بانی پر لکھتے  ہوئے  ان کی اور ظفر اقبال کی دو ہم طرح غزلوں  کا مقابلہ و موازنہ کر کے، ظفر اقبال پر بانی کی برتری ثابت کرنے  کی کوشش کی ہے  لیکن اس مضمون کا بنیادی مقصد بانی کی شاعری کو سمجھنے  سے  زیادہ ظفر اقبال کے  متعلق شمس الرحمن فاروقی کے  مفروضات سے  اختلاف کا اظہار نظر آتا ہے۔ بانی کی اہمیت کا راز یہ نہیں  ہو سکتا کہ انھوں  نے  ظفر اقبال کی زمینوں میں اور  انھیں  کی قوافی و ردیف کے  ساتھ بہترین تغئیریں (Variations) پیش کی ہیں۔ ان کی اہمیت، جیسا کہ خود عمیق حنفی نے  بعد میں  اعتراف کیا ہے، اس میں  ہے  کہ انھوں  نے  اہم ہم عصر شعراء کے  اثرات سے  بچ کر اپنی راہ نکالی ہے۔ ’’ حرف معتبر‘‘ کے  بعد کی غزلوں میں  یہ کوشش زیادہ واضح ہے اور  اس کے  زیادہ مثبت اثرات بھی دکھائی دیتے  ہیں۔

           بانی کے  سلسلے  میں،میں  نے  من موہن تلخ کے  مضمون کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس مضمون میں  تلخ صاحب نے  بانی کو بہانہ بنا کر جدید شعری رجحانات اور جدید شاعروں  کو گزشتہ بیس برسوں  میں  دی جانے  والی تمام گالیوں  کو ایک ایک کر کے  دوہرایا ہے اور  ایسا کرتے  ہوئے  اس بات کو بالکل فراموش کر دیا ہے  کہ لوگ ان سے  اچھی اور قابلِ برداشت شاعری کی توقع بھلے  ہی نہ کریں  لیکن کم از کم گالیوں  کے  سلسلے  میں  تو ایک معیار کی توقع یقیناً کرتے  ہیں۔ اس سے  قطع نظر تلخ صاحب نے  بانی کے  سلسلے  میں  پیش رو اور ہم عصر شعراء کے  اثرات وغیرہ کی بابت جو کچھ لکھا ہے، اس سے  مستقبل میں  بانی کے  نقاد کسی نہ کسی حد تک فائدہ اٹھا سکتے  ہیں۔ جہاں  تک عمیق حنفی کا تعلق ہے  وہ اثر اور تقلید میں  فرق نہیں  کرتے  مجھے  ان کے  اس بات سے  بھی اختلاف ہے  کہ ’’ بانی کے  ساتھ اگر ان کے  (ہمارے  ) ہم عصروں  میں  سے  کسی کا ذکر کیا جا سکتا ہے  تو وہ ظفر اقبال،شکیب جلالی اور شہزاد احمد ہو سکتے  ہیں  ‘‘ جدید اردو غزل محض ایک مستطیل نہیں  ہے۔ یہ بہت ساری جہات اور سمتوں  سے  عبارت ہے۔ ظفر اقبال، شکیب جلالی، شہزاد احمد، اور بانی یقیناً جدید غزل کی چار سمتیں  ہیں۔ دوسری سمتیں  ہیں  اطہر نفیس،ساقی فاروقی،محمد علوی، شہر یار،بمل کرشن اشک،انور شعور، احمد مشتاق اور دوسرے  کئی شاعر جن کی شاعری یکساں  تنقید ی توجہ کی مستحق ہے۔

 ٭٭٭

 

زبیرؔ کی شاعری مختلف رنگوں  کا آمیزہ ہے

_________________ندا فاضلی

          ’’متاعِ سخن‘‘ شاعر،مدیر،اور ادیب زبیر رضوی کے  شعری و ادبی سفر کا ۳۷۰ صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی جائزہ ہے۔ جس کی ترتیب و تزئین ممتاز نقاد اسلم پرویز کے  نام سے  منسوب ہے۔ لیکن’’ متاع سخن ‘‘میں  شامل تبصرے، خطوط اور مصاحبے  دیکھ کر لگتا ہے  کہ اسلم پرویز کا اس کتاب میں  عمل دخل صرف نام کی حد تک ہے۔ انھوں  نے  پیش لفظ میں  کم و بیش وہی باتیں  اپنے  الفاظ میں  دہرائی ہیں  جنھیں  زبیر فون پر اور نجی ملاقاتوں  میں  دہراتے  رہے  ہیں۔ ان میں  ایک موضوع مشاعرہ کا بھی ہے۔ اسلم پرویز نے  اس موضوع پر اپنے  لفظ یوں  درج کئے  ہیں  :

          ’’ زبیر نے۔۔۔  شاعری میں  جو کارنامے  انجام دئیے  ہیں  انھیں  آپ غیر معمولی نہ کہیں  تو بھی و ہ معمولی ہرگز نہیں  ہیں اور  زبیر کی ادبی اور فن کارانہ شخصیت پر سے  مشاعرے  کا ٹیگ زچ پھینکنے  کا مطلب بھی زبیر کی شاعری سے  انحراف نہیں  بلکہ اس کے  تخلیقی چہرے  سے  مشاعروں  کا غازہ اتارنا ہے۔ ‘‘

          مشاعرہ کا غازہ اسلم صاحب نے  اتارنے  کی بات ضرور کہی ہے  لیکن ان کے  ممدوح آج بھی مشاعروں  میں  کبھی کسی لڑکی کو اوپر سے  نیچے  تک بھیگتی ہوئی دکھاتے  ہیں، کبھی کسی کے  کہنے  پر، موسم کے  پھل لاتے  ہیں اور  کبھی یہ ہے  میرا ہندوستان سنا کر داد پاتے  ہیں۔ غازہ اتارنے  میں  اسلم صاحب کتنے  کامیاب و نا کامیاب ہوئے  ہیں یہ تو وہی بتا سکتے  ہیں  لیکن ماضی قریب میں  جوش و فراق سے، فیض و سردار سے  منیر نیازی و عزیز حامد مدنی تک اس غازہ کے  ساتھ کلام سناتے  رہے  ہیں۔ ان کے  چہروں  کی صحیح پہچان کے  لئے  کسی کو مشاعراتی غازہ اتارنے  کی ضرورت نہیں  پڑتی۔ یہ سب اور ان کے  ساتھ اور بہت کل بھی ادبی تاریخ کی اہم علامتیں  تھیں۔ اور آج بھی ادبی تاریخ میں  ان کی شمولیت پر کسی کو اعتراض نہیں  ہے۔ انھیں  معتبر ناموں  کے  ساتھ مشاعروں  میں  بہزاد لکھنوی، شکیل بدایونی، ماہر القادری وغیرہ بھی مشاعروں  کے  کامیاب شعراء میں  گنے  جاتے  تھے۔ لیکن وقتی میک اپ نے  انھیں  معتبر شعراء کی ہم نشینی کا انداز تو بخشا مگر ان کو ادبی اعزاز نہیں  عطا کیا۔ مشاعروں  میں  ہمیشہ دو طرح کے  شاعر شریک ہوتے  ہیں۔ ایک قسم ان شاعروں  کی ہوتی ہے  جو اپنے معیار سے  اپنا کلام سناتے  ہیں اور  دوسری طرح کے  شاعر مجمع کی سطح پر اتر کے  مجمع سے  تالیاں  بجواتے  ہیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، اور آئندہ بھی جاری رہے  گا۔ زبیر رضوی کی ابتدائی شاعری، جس کی بیشتر مثالیں  ان کے  پہلے  شعری مجموعہ ’’ لہر لہر ندیا گہری‘‘ میں  شامل ہیں، اپنے  مزاج سے  عوامی معیار کے  قریب ہیں۔ ان کی اس دور کی کامیاب شاعری پر کئی لوگوں  نے  انگلیاں  اٹھائی ہیں۔ اس شاعری کا انداز مشاعراتی اور لمحاتی ہے۔ مقصد اس میں  مشاعرہ کا کم ہے  شاعر کی اپنی سوجھ بوجھ کا زیادہ۔ میں  نے  ایک مشاعرہ میں  دل لکھنوی اور جگر مراد آبادی دونوں  کو ایک ہی اسٹیج سے  کلام سناتے  ہوئے  دیکھا تھا۔ دل نے  کان پر ہاتھ رکھ کر بار بار دہرا کر ایک مطلع پڑھا :

گھٹا اودھی اودھی یہ موسم سہانا

الہٰی مری آج توبہ بچانا

اور مشاعرہ لوٹ لیا۔ اس کے  بعد جگر صاحب آئے اور  بنا کان پر ہاتھ رکھے  ترنم سے  غزل سنانے  لگے  :

جہلِ خرد نے  دن یہ دکھائے

    گھٹ گئے  انساں  بڑھ گئے  سائے

          مشاعرہ ختم ہونے  کے  بعد دل کا شعر کہیں  نہیں  تھا، سب کی زبانوں  پر جگر کے  اشعار چڑھے  ہوئے  تھے۔ زبیر شروع میں  انھی شوخیوں اور  چونچالیوں  کو منظوم کر رہے  تھے  جو ان کی عمر کا تقاضا اور مشاعروں  کی ضرورت تھی۔ یہ وہی دور تھا جب محبت کے  سوا اور بھی بہت سے  غم اپنے  ہونے  کا احساس دلانے  لگے  تھے۔ شمس الرحمن فاروقی نے  ’’ لہر لہر ندیا گہری‘‘ کی اسی قسم کی شاعری پر ۱۹۶۶ء میں  تبصرہ کرتے  ہوئے  لکھا ہے۔ ’’زبیر کا بنیادی لہجہ عشقیہ ہے۔۔۔ اور  آج کی شاعری کا بنیادی موضوع عشق نہیں  ہے۔ ‘‘میرے  خیال سے  موضوع اچھا برا نہیں  ہو تا اچھائی یا برائی اس کے  برتاؤ سے  طے  ہوتی ہے۔ زبیر کے  یہاں  اس کا برتاؤ وہ نہیں  ہے  جو فراق اور فیض کے  عشقیہ اشعار میں  نظر آتا ہے۔ ’’ لہر لہر ندیا گہری‘‘ میں  اس ڈھب کی شاعری یوں  تھی:

           سن ری سکھی میں  تجھ کو بتاؤں  کون مرا من میت

          روپ سلونا اس کے  گلے  میں  جھرنوں  کا سنگیت

           اردو میں  وہ نظمیں  لکھے اور  ہندی میں  گیت

          بوجھ سکھی کیا نام ہے  اس کا۔۔۔۔۔۔؟

           چوتھے  مصرع میں  جو سوال پوچھا گیا ہے  اس کا جواب ’ زبیر رضوی ‘ ہے۔ زبیر نے  اپنی مشاعراتی شاعری پر متوقع اعتراضات کے  دفاع میں  اسی کتاب کے  دیباچے  میں  تحریر کیا ہے۔ میں  نے  حصول شہرت کے  لئے  اپنے  گرد و پیش کے  تقاضوں، ماحول اور زمانے  سے  کبھی سا ز باز نہیں  کی۔ یوں  محسوس ہو تا ہے  کتاب میں  شامل تخلیقات لمبے  عرصے  میں  پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ دیباچہ اس مجموعے  کی کچھ نظموں  کی وکالت ضرور کرتا ہے اور  یہ وکالت درست بھی ہے، لیکن اس کا اطلاق تبدیلی، مصالحت اور ایسی ہی دوسری نگارشات پر ہی ممکن ہے۔ اس کے  حصار میں  زیادہ محصور نہیں  رہے۔ ادب کا سنجیدہ ذوق بہت جلد انھیں  ان کے  ماضی سے  آزاد کرنے  لگا۔ فضل تابش نے  اپنے  تبصرہ میں  لکھا ہے۔۔۔  زبیر کی پوری شاعری پڑھنے  کی کم سنانے  کی زیادہ ہے۔ اس جملہ میں  مجھے  صرف ’’ پوری‘‘ پر اعتراض ہے۔ تبصرہ نگار کو پوری کتاب پڑھ کر ہی کوئی رائے  قائم کرنی چاہئے۔ حالاں  کہ اس تبصرہ میں آگے  انھوں  نے  یہ بھی لکھا ہے۔ زبیر کے  کلام میں  جہاں  جہاں  اس عہد کی جھلکیاں  دکھائی دیتی ہیں۔ وہ نئے  شعراء کے  لئے  معاون ثابت ہوتے  ہیں۔ جس طرح غالب کو ’کہا جو اس نے  ذرا میرے  پاؤں  داب تو دے اور  میر کو ’ اسی عطار کے  لونڈے  سے  دوا لیتے  ہیں  ‘جیسے  مصرعوں  سے  نہیں  پہچانا جا سکتا اسی طرح زبیر کی پہلے  کی شاعری کو بعد کی  شاعری سے  نہیں  جا نا جا سکتا۔

          زبیر ’’ لہر لہر ندیا گہری‘‘ میں مشاعروں  میں  کامیابی کے  با وجود کہیں  کہیں  اپنے  ہونے  کا ثبوت ہی نہیں  دیتے۔ اپنے  آئندہ شعری سفر کے  امکانات کی بشاشت بھی دیتے  ہیں۔ ان کے  بعد کے  مجموعے  ’’ خشت دیوار‘‘ ’’ مسافت شب‘‘ ’’ دھوپ کا سائبان‘‘ اور ’’انگلیاں  فگار اپنی‘‘ اس بشارت کی حقیقتیں  ہیں۔ ان کے  مسلسل بدلتے  ہوئے  شعری اسالیب اور موضوعاتی تنوع نے  ہر نئی کتاب کی معرفت نئے  سرے  سے  انھیں  متعارف کرایا ہے۔ اس شعری سیاحت میں  نئے  مناظر کی معیار بندی شاعر کی شعری ذہانت کی مثال ہے۔ ان کی شاعری کا ارتقاء اس بدلتے  ذہنی رویوں  کی دین ہے  جو آہستہ آہستہ منکشف ہوئے  ہیں۔ ان کی شروعاتی اور تازہ ترین نگارشات کے  تقابلی مطالعہ سے  یہ ظاہر ہوتا ہے  وہ ایسے  تیز رفتار مسافر ہیں  جو کسی ایک منظر یا مقام تک محدود نہیں  ہیں۔ تبدیلی کا یہ احساس عمیق حنفی اور باقر مہدی کے  مانند زبیر کے  یہاں  بھی یہ تبدیلیاں  کبھی شاعر کی شخصیت سے  پھوٹتی ہیں اور  کبھی دانستہ یا شعوری طور پر ابھرتی ہیں۔ باقر مہدی نے  اپنے  مضمون میں  ان دو رویوں  کو بچپن اور سن بلوغ کی اصطلاحوں  کے  نام سے  پہچانا ہے۔ ان تازہ نظموں  ( مسافت شب) پر لکھتے  ہوئے  باقر مہدی رقم طراز ہیں  :

          ’’ زبیر رضوی کی چند نظموں  کے  مطالعے  کے  بعد میری رائے  میں  اچانک تبدیلی آئی ہے اور  اب میں  سمجھتا ہوں  کہ زبیر نے  اپنی نئی نظموں  میں  اخلاقی مسائل کو افسانوی شعری انداز میں کچھ اپنی نشریت کے  ساتھ پیش کیا ہے  کہ اس کی نظمیں  غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ اور یہ تبدیلی انتظار حسین کے  افسانوں  کے  وجہ سے  ہوئی یا زبیر نے  اپنی جڑیں  تلاش کرنے  کی فکر میں  حکایات کا سہارا لیا ہے۔ ‘‘

          مسلسل تبدیلیوں  سے  گزرنے  کے  اضطراب نے  زبیر کے  کلام کو، اظہار و بیان کے  پیرایوں  کو نت نئے  چہروں  سے  ضرور آراستہ کیا ہے  مگر مختلف چہروں  کی بھیڑ میں ان کی شناخت کا اپنا کوئی چہرہ مشکل سے  دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح میر کو غالب سے، اقبال کو جوش سے،یگانہ کو حسرت سے،فیض کو راشد سے  لب و لہجہ کی سطح پر الگ سے  جانا پہچانا جا سکتا ہے۔ زبیر کی اپنے  ہم عصروں  میں  ایسی کوئی پہچان تعمیر نہیں  ہوتی۔ محمد علوی، بشیر بدر اور بانی جس طرح اپنی انفرادیت کا احساس دلاتے  ہیں۔ زبیر اس سے  دور نظر آتے  ہیں۔ ان کی شاعری مختلف رنگوں  کا آمیزہ ہے۔ زبیر کے  کلام میں، جو ان کے  کئی مجموعوں  میں  بکھرا ہوا ہے۔ ان سے  چند مثالوں  سے  اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے  :

          ڈھولک جاگی مہندی لاگی، رنگ رنگیلا ساون

           سکھیاں  مل مل ہولی کھیلیں  سانوریا کے  آنگن

          گھونگھٹ میں  گوری شرمائے  پیا ملن کے  کارن

           یہ ہے  میرا ہندوستان

                             ( لہر لہر ندیا گہری)

          سلیقہ جوہو تا تمہیں  لغزشوں  کا

          تو یوں  خاندانی شرافت، وجاہت

           نہ مٹی میں  ملتی نہ بد نام ہوتی

                             (خشت دیوار)

          علی بن متقی مسجد کے  منبر پر کھڑا

          کچھ آیتوں  کا ورد کرتا تھا

           جمعہ کا دن تھا، مسجد کا صحن

           اللہ کے  بندوں  سے  خالی تھا

                             (دامن)

          وہ اکثر راتوں  کو

          پرانے اور  برسوں  کا استعمال شدہ جسم لے  کر

           سڑکوں  پر نکل آتی تھی

                             ( دھوپ کا سائبان)

           زبیر نے  اپنی شاعری کی مختلف صورتوں  کے  تعلق سے  ایک مصاحبہ میں  کہا ہے۔ میں  نے  تہذیبی سطح پر بہت شاندار زمانے  دیکھے  ہیں۔ ان کی ترقی اور زوال کو بھی دیکھا۔۔۔  ہوتا یوں  ہے  عہد کی تبدیلیوں  کے  ساتھ ادب میں  بھی تبدیلیاں  آتی رہتی ہیں۔۔۔  میرے  پہلے  مجموعے  سے  کلیات تک آپ کو واضح طور پر تبدیلیوں  کا احساس ملے  گا۔

          زبیر کاروان ادب کے  جدید ہم راہیوں  میں  ہیں۔ ان کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ انھوں  نے  سرگزشت بھی لکھی ہے۔ سیاسی موضوعات پر بھی قلم چلائی ہے اور  نظم گیت اور غزلوں  میں  بھی اپنے  اندر کی آگ جلائی ہے۔ ان کی کلیات آ چکی ہے۔ لیکن ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ ان کی ادارت میں  ذہن جدید اردو کا ایک اہم جریدہ ہے۔ اس کی ادارت سے  انھیں  فائدہ بھی ہوا ہے۔ خطوط نویس زبیر جو نہیں  ہیں،وہ بھی ان کی شخصیت میں  جوڑنے  لگے  ہیں۔ اس بے  تعریف و تحسین کے  غلبہ میں  زبیر جیسا فن کار بہک سکتا ہے،یہ ممکن نہیں۔

٭٭٭

 

غالب کی حب الوطنی کے  آئینہ دار __خطوطِ غالب

______________________ڈاکٹر شہناز صبیح

          ۱۸۵۷ء غدر کی ڈیڑھ سو سالہ یاد گار کے  سلسلہ میں  جو نام سب سے  پہلے  ذہن میں  ابھرتے  ہیں  وہ بہادر شاہ ظفرؔ اور مرزا اسد اللہ خاں  غالب ؔ ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کی حب الوطنی،رعایا پروری،شرافت،بزرگی،ان کے  کمزور ہوتے  ہوئے  سینے  میں  غلامی کا دل  دہلا دینے  والا تصور، ان کے  شاعرانہ مزاج، حساس طبیعت، ان کی پسپائی، مظلومیت،بے  وطنی کی بے  بسی، ہجرت کی اذیت اور اس پر مستزاد جگر کے  پیارے  کے  قلم کردہ سر طشت میں  پیش کئے  جانے  پر جواں  مردی کا ثبوت دینا اور یہ کہنا کہ مغل شاہزادے  اسی طرح سرخ رو ہو کر اپنے  باپ کے  سامنے  آیا کرتے  ہیں۔ ان حالات کو بیان کرنے  کے  لئے  ایک الگ مضمون درکار ہے۔ امتحان میں  جو جان سے  گذر جاتے  ہیں  اگر چہ وہ نا کام رہے  ہوں، ان سے  بدرجہا بہتر ہوتے  ہیں  جو ان کا غم منانے  کو زندہ درگور ہو جاتے  ہیں۔ اُس کا جینا ایک ایسے  جری کے  مترادف ہوتا ہے  جو کہ اپنے  لشکر سے  بچھڑ جائے اور  جب راہ مل جائے  تو تنہائی کے  سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ ایسی شخصیت غالبؔ کی ہے۔

          غالبؔ کے  وہ خطوط جو کہ ۱۸۵۷ء کے  بعد ملتے  ہیں  ان ترش چاشنی کا احساس ہوتا ہے۔ اگر فراق گورکھپوری کے  الفاظ میں  کہیں تو ’’ اشکوں  میں  تیرتی ہوئی کچھ مسکراہٹیں  ‘‘ نظر آتی ہیں۔ ایک موقع پر استاذ محترم فضل امام صاحب نے  غزل کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی کہ ہرن ’’ غزال‘‘ کی شہ رگ پر جب صیاد کا تیر آر پار ہونے  کے  بجائے  نیم کشی کی حالت میں  پیوست ہو جاتا ہے  اس وقت اس کی حلق سے  ’’غَزْ غَزْ‘‘ کی ایک آواز نکلتی ہے  غزل اسی کیفیت سے  گذر کر وجود میں  آتی ہے۔ میری ناقص سمجھ میں  یہ آیا کہ تجربات کی چکی میں  حساس شاعر جب پستا ہے اور  طبیعت کی جولانی اس کیفیت کو بیان کرنے  کے  لئے  بے  قرار کرتی ہے  تو غزل ہو جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو فراق شعر کہہ لینے  کے  بعد ایک اندرونی ’’ خستگی‘‘ اور ’’ تھکن‘‘ سے  تعبیر کرتے  ہیں۔

          خطوط غالبؔ کا مطالعہ کرتے  وقت یہی احساس ہوتا ہے  کہ غالبؔ کا زندہ بچ جانا ایک سزا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی شگفتگیِ بیان بھی اس کسک کی چغلی کھاتی ہے۔ یہ اجتماعی نقصان جو غدر کے  ہنگامہ کے  طفیل دلی والوں  کے  نصیب میں  آیا، معمولی نہیں  ہے۔ اس گہرائی کو ماپنے  کا پیمانہ ابھی تک ایجاد نہیں  ہو سکا ہے۔ یہ سطور اس ضمن میں  قابل غور ہیں:

          ’’۔۔۔  مرزا تفتہ اس غمزدگی میں  مجھ کو ہنسانا تمہارا ہی کام ہے۔۔۔  وہ ایک جنم تھا جس میں  ہم تم باہم دوست تھے اور  طرح طرح کے  ہم میں  تم میں  معاملات مہر و محبت درپیش آئے۔ شعر کہے، دیوان جمع کئے۔ میں  جس شہر میں  ہوں  اس کا نام دلّی اور اس محلہ کا نام بلّی ماروں  کا محلہ ہے  لیکن ایک دوست اس جنم کے  دوستوں  میں  سے  نہیں  پایا جاتا۔ اللہ ڈھونڈنے  کو مسلمان اس شہر میں  نہیں  ملتا، کیا امیر کیا غریب، کیا اہلِ حرفہ۔۔۔  اگر کچھ ہیں  تو باہر کے  ہیں۔۔۔  یہ کوچہ محفوظ رہا ورنہ میں  کہاں اور  یہ شہر کہاں۔۔۔  مبالغہ نہ جاننا امیر، غریب سب نکل گئے۔ پنشن دار، دولت مند اہل حرفہ کوئی بھی نہیں  ہے۔۔۔۔ ‘‘

           اس عالم تنہائی میں  غالبؔ کس طرح رہنے  کو مجبور ہیں، اس خط میں  رقم طراز ہیں  :

          ’’۔۔۔  غرض کہ اپنے  مکان میں  بیٹھا ہوں،دروازہ سے  باہر نہیں  نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں  جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے  پاس آوے۔ شہر میں  ہے  کون جو آوے ؟ گھر کے  گھر بے  چراغ پڑے  ہیں۔ مجرمِ سیاست پائے  جاتے  ہیں۔ جرنیلی بند و بست یازدہم مٹی سے  آج تک یعنی شبینہ پنجم دسمبر ۱۸۵۷ء تک بدستور ہے۔۔۔  تم زنہار یہاں  کا ارادہ نہ کرنا۔۔۔ ‘‘

           ان حالات میں  زندہ رہنا دل گردے  کی بات ہے۔ مستزاد یہ کہ پیارے  دوست کو ملاقات کے  لئے  نہ آنے  کی درخواست ہے۔ میر مہدی مجروح کو بڑے  خوش گوار موڈ میں خط لکھنا شروع کرتے  ہیں۔ فطری شوخی پر سوگواری غالب آنے  کی پوری قوت سے  کوشش کرتی ہے، خط شروع ہوتا ہے  :

’’ واہ واہ سید صاحب! تم تو بڑی عبارت آرائیاں  کرنے  لگے۔ نثر میں  خود نمائیاں  کرنے  لگے۔۔۔  حیران ہوں  کہ کیا سحر سازی کروں  جو سخن پردازی کروں۔ بھائی تم تو اردو کے  مرزا قتیل بن گئے  ہو۔ اردو بازار میں  نہرکے  کنارے  رہتے  رہتے  رود نیل بن گئے  کیا قتیل کیا رودِ نیل یہ سب ہنسی کی باتیں  ہیں۔۔۔۔ ‘‘

          آخر دل کے  زخم ہوا دینے  لگے اور  ان میں  سے  یہ لہو آمیز خوشبو آنے  لگی۔۔۔

          ’’۔۔۔  لو سنو اب تمہاری دلّی کی باتیں  ہیں۔ چوک میں  بیگم کے  باغ کے  دروازہ کے  سامنے  حوض کے  پاس جو کنواں  تھا، اس میں  سنگ و خشت ڈال کر بند کر دیا۔ بلّی ماروں  کے  دروازے  کے  پاس کئی دوکانیں  ڈھا کر راستہ چوڑا کر لیا۔۔۔  یہ ستم پیشہ میر مہدی آپ کی جناب میں  گستاخیاں  کرتے  ہیں، کیا کہوں؟ میں  کہیں  تم کہیں۔ وہاں  ہوتا تو دیکھتا کہ کیوں  کر تم سے  بے  ادبیاں  کر سکتے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جب یکجا ہوں  گے  تو انتقام لیا جائے  گا۔۔۔  ہے۔ ہے۔ کیوں  کر یکجا ہوں  گے۔ دیکھئے  زمانہ اور کیا دکھاتا ہے۔ اللہ۔۔۔  اللہ

          غدر ۱۸۵۷ جس کے  نتیجے  میں  تباہی، بربادی اور کشت و خون سے  سرزمین دہلی لالہ زار ہو گئی، اس نے  غالب کو شدت سے  متاثر کیا۔ غلام رسول مہر کے  الفاظ میں :

          ’’۔۔۔  ان کے  اردو مکاتیب کے  دامن کا ہر گوشہ ان شدتوں  پر آنسو بہاتا نظر آتا ہے  جو انگریزوں  نے  ہندوستان پر اور باغی ہندوستانیوں  نے  انگریزوں  خصوصاً ان کی معصوم بیگمات اور بچوں  پر روا رکھیں۔۔۔ ‘‘

          غالبؔ کے  قلم سے  اس خونچکاں  داستان کی شرر انگیزیاں  جا بجا نظر آتی ہیں۔ پروفیسر قمر رئیس یہ کہنے  میں  حق بجانب ہیں  :

          ’’۔۔۔  یہ نوحے  غالب ؔ کی امن پسندی اور انسان دوستی کا شفاف آئینہ ہیں۔ وہ دہلی میں  قلزم خوں  کے  شناور رہے۔۔ ‘‘

          ( تلاش و توازن ص ۱۸۲بطع اپریل ۱۹۹۸ء)

          غالبؔ کی طبعی شوخی اور ظرافت جس نے  ہر زخم کو خندۂ پیشانی سے  برداشت کرنے  کا حوصلہ بخشا تھا اور پھر یہ بھی کہ :

پختہ تر ہے  گردشِ پیہم سے  جامِ زندگی

          ہر زخم یکے  بعد دیگرے  گہرا لگتا ہی گیا اور غالب ’’ درد کا حد سے  گزرنا ہے  دوا ہو جانا ‘‘ میں  یقین کرنے  لگے اور  غم کو بہلانے  کے  نئے  نئے  انداز اختیار کرتے  گئے  مثلاً : میر مہدی مجروح کی آنکھیں  دکھنے  آئی ہیں  غالب بذریعہ خط عیادت کا فرض ادا کرتے  ہیں  :

          ’’ چشم بیمار ایسی چیز ہے  جس کی کوئی شکایت کرے ؟۔۔۔ تمہاری آنکھوں  کی غبار کی وجہ یہ ہے  کہ جو مکان دہلی میں  ڈھائے  گئے اور  جہاں  جہاں  سڑکیں  نکلیں۔ جتنی گرد اڑی، اس کو آپ نے  از راہ محبت اپنی آنکھوں  میں  جگہ دی۔۔۔ ‘‘

           اس خط کے  متعلق مرحوم پروفیسر قمر رئیس کے  خیالات کی تائید کرتے  ہوئے  یہ الفاظ وابستہ ہیں  :اس لطیف توجیہہ سے  ایک طرف تو دہلی سے  غالب کی محبت اور اس کی تباہی پر ان کے  ملال کا اظہار ہوتا ہے اور  دوسری طرف اس میں  ان حضرات پر طنز کا پہلو بھی پنہاں  ہے  جنھوں  نے  قدیم دہلی کی تاراجی کے  غم کو زندگی کا آزار بنا لیا تھا۔ اس لئے  کہ غالبؔ کے  بیدار شعور نے  اس خرابی میں  تعمیر کی ایک صورت بھی دیکھی تھی۔ برطانوی اقتدار کے  تحت حسن تعمیر اور توسیع و ترقی کے  جو نئے  امکانات سامنے  آ رہے  تھے  وہ کھلے  دل سے  ان کا استقبال کر رہے  تھے۔۔۔ ‘‘          (تلاش و توازن  ص ۱۸۲)

          غالب کی انفرادیت اسی بات میں  مضمر ہے  کہ ان کا انداز فکر عوام سے  ہمیشہ جدا رہا۔ وہ ہمیشہ ایک فاصلہ بنا کر چلے۔ جب ہوشیار۔ عیار، چالاک اور ہندوستانیوں  کے  مقابلے  میں  جدید تعلیم سے  آراستہ و پیراستہ سو سال کی محنت و مشقت نیز اپنے  ہم وطنوں  کی غداری، مفاد پرستی۔ بے  وفائی کا فائدہ اٹھا کر سلطنت مغلیہ میں  سیندھ لگا کر آ ہی گئی تو اب ہر وقت اس کا ماتم کرنے  سے  گزرا وقت واپس نہیں  آ سکتا تھا۔ لہٰذا سمجھداری اسی میں  تھی جو کہ اقبال نے  بھی تجویز کی :

ربط و ضبط ملتِ بیضا میں  ہے  مشرق کی نجات

          ایک جری حاکم سے  مقابلہ کی اور کیا صورت ہو سکتی تھی؟ اس کا مطلب یہ نہیں  نکالا جا سکتا کہ غالبؔ غدار وطن تھے۔ اپنی حیثیت کو پہچانتے  ہوئے  وہ انگریزی قوم پر چھینٹا کشی سے  وہ کبھی باز نہیں  رہے  لیکن ’’ جان ہے  تو جہان ہے ‘‘ اس فارمولہ کے  تحت وہ قلم چلاتے  رہے۔ چنانچہ حافظ محمد بخش کے  مقدمہ میں  انگریزوں  کی تضحیک رمز و کنایہ میں  خوب خوب کرتے  ہیں  :

          ’’۔۔۔  حاکم نے  پوچھا حافظ محمد بخش کون؟ عرض کیا ’’ میں  ‘‘ پھر عرض کیا حافظ ممو کون؟ عرض کیا کہ ’’میں ‘‘اصل نام میرا محمد بخش ہے۔ مموں  مموں  مشہور ہوں۔ فرمایا یہ کچھ بات نہیں۔۔۔  حافظ محمد بخش بھی تم، مموں  بھی تم،سارا جہان تم، جو دنیا میں  ہے  وہ بھی تم۔ ہم دکان کس کو دیں ؟ مثل داخلِ دفتر ہوئی، میاں  مموں  اپنے  گھر چلے  آئے۔ ‘‘

          یہ مزاحیہ فیچر نہیں  ہے  کہ مسکرا کر آگے  بڑھ جایا جائے۔ یہ ایک شدید طنز اس چالاک قوم کی نا منصفی پر ہے  جو اپنی ایمان داری اور انصاف پسندی کی لن ترانیاں  کر کے  بے  بس غلام ہندوستانیوں  کی حق تلفی سے  محفوظ ہو رہی تھی۔ افسوس کہ یہ بیج ہماری عدالتوں  میں  آج خوب برگ و بار لا رہے  ہیں اور  جھوٹی شہادتوں  سے  بڑے  بڑے  مجرم سرخ رو ہو رہے  ہیں اور  غیر مجرم بے  بس ہیں۔

           غالب اور میر کے  یہاں  نمایاں  فرق یہ ہے  کہ غالب کی ہمت اور جرأت خود رونے اور  دوسروں  کو رلانے  کے  بجائے  لطیف پیرایہ اختیار کر کے  اس موضوع کو اس طرح بیان کرتی ہے  جیسے  وہ انگاروں  کے  بجائے  گلگشت چمن سے  واپس آر ہے  ہیں :

          ’’ سنو عالم دو ہیں۔ ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔۔۔  ہر چند کہ قاعدہ عام یہ ہے  کہ عالم آب و گل کے  مجرم عالم ارواح میں  سزا پاتے  ہیں  لیکن اسی طرح عالم ارواح کے  گناہ گار کو دنیا میں  بھیج کر سزا دیتے  چنانچہ ۱۲۱۲ھ کو مجھ کو رو بکاری کے  واسطے  یہاں  بھیجا۔

          ۱۳ برس حوالات میں  رہا۔ ۱۷ رجب ۱۲۳۵ھ کو میرے  واسطے  حکم دوام حبس صادر ہوا اور ایک بیڑی میرے  پاؤں  میں  ڈلا دیا۔ نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں  بعد میں  جیل خانہ سے  بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ میں  پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے  کلکتہ سے  پکڑ لائے اور  پھر اسی مجلس میں  بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے  دو ہتھکڑی اور بڑھا دیں۔ پاؤں  بیڑیوں  سے  فگار۔ ہاتھ ہتھکڑیوں  سے  زخم دار۔۔۔  حکم رہائی دیکھئے  کہ کب صادر ہو۔ ‘‘

           اس بیتی میں  کیسے  کیسے  نشتر ہیں، دل والے  ہی سمجھ سکتے  ہیں۔

          ہندوستان کا دل یعنی دلی کی تباہی و بربادی انھیں  دل کی گہرائیوں  تک چوٹ پہنچاتی ہے۔ وہ اس غم سے  گذر جاتے  اگر احباب اس پھوڑے  کو چھیڑ چھاڑ کر سارے  مواد کو بہہ جانے  کے  مواقع میسر نہ کراتے۔ میر مہدی کو بڑے  محبت سے  خط لکھنا شروع کرتے  ہیں  لیکن قلم کی رفتار پر دل کی کسک غالب آ جاتی ہے اور  آخر میں  انداز کیا سے  کیا ہو جاتا ہے۔ اس خط کو اول تا آخر پڑھنا لطف سے  خالی نہیں  اس لئے  حاضر ہے  :

          ’’ جانِ غالبؔ تمہارا خط پہنچا۔ ارے  میر مہدی تجھے  شرم نہیں  آتی میاں  یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے۔ ارے  اب اہلِ دہلی۔۔۔  یا اہل حرفہ ہیں  یا خاکی ہیں  یا پنجابی ہیں  یا گورے  ہیں۔ ان میں  تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے۔۔۔  خس کی ٹٹی، پوروا ہوا، اب کہاں ؟ وہ لطف تو اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں  وہ چھت اور سمت بدلی ہوئی ہے۔۔۔  مصیبت عظیم یہ کہ قاضی کنواں  بند ہو گیا  لال ڈگی کے  کنویں یک قلم کھاری ہو گئے۔ خیر کھاری ہی پیتے  ہیں۔۔۔  گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں  میں  سوار ہو کر کنویں  کا حال دریافت کرنے  گیا تھا۔ مسجد جامع ہوتا ہوا راج گھاٹ دروازہ کو چلا۔ جامع مسجد سے  راج گھاٹ دروازہ تک بلا مبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں  کے  ڈھیر جو پڑے  ہیں  وہ اگر اٹھ جائیں  تو ہُو مکان ہو جائے۔۔۔  پنجابی کٹرہ، دھوبی واڑہ، رام جی گنج،سعادت خاں  کا کٹرہ، جرنیل کی بی بی کی حویلی، رام جی داس گودام والے  کے  مکانات، صاحب رام کا باغ، حویلی ان میں  سے  کسی کا پتہ نہیں  ملتا۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہو گیا تھا۔ اب جو کنویں  جاتے  رہے اور  پانی گوہر نایاب ہو گیا تو یہ صحرائے  کربلا ہو جائے  گا۔ اللہ اللہ دلّی نہ رہی اور دلّی والے  اب تک یہاں  کی زبان کو اچھا کہے  جاتے  ہیں۔ واہ رے  حسن اعتقاد۔ ارے  بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا، اردو کہاں؟ دلّی کہاں  واللہ اب شہر نہیں  کیمپ ہے، چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ ہے  نہ شہر، نہ بازار نہ نہر۔۔۔ ‘‘

           دلّی سے اور  دلّی والوں  سے  پیار کرنے  والے  کا دل گوروں  کی مچائی ہوئی اس تباہی سے  کیسا کیسا داغ داغ ہے۔ ایک خط میں  میر مہدی کو لکھتے  ہیں  :

          ’’۔۔۔  اس چرخ کج رفتار کا برا ہو، ہم نے  اس کا کیا بگاڑا تھا۔ ملک و مال جاہ و جلال کچھ نہیں  رکھتے  تھے  ایک گوشہ و توشہ تھا۔ چند مفلس و بے  نوا ایک جگہ فراہم ہو کر کچھ ہنس بول لیتے  تھے۔۔۔  سو صاحب اب تم ہی بتاؤ، میں  تم کو کیا لکھوں، وہ صحبتیں اور  تقریریں  جو یاد کرتے  ہو تو اور تو کچھ بن نہیں  آتی مجھ سے  خط پر خط لکھواتے  ہو۔ آنسوؤں  پیاس نہیں  بجھتی، یہ تحریر تلافی تقریر کی نہیں  کر سکتی۔۔۔ ‘‘

          یہ بات سچ ہے  کہ غالبؔ اپنے  باپ اور چچا کی نا گہانی موت، غدر، انگریزی حکومت میں  پنشن کا بند ہو جانا، ایسے  جان لیوا مسائل میں  الجھ کر رہ گئے  کہ انھیں  روٹی حاصل کر نے  کے  لئے  حاکم سے  سفارش اور خوشامد کرنا پڑی اور ایسے  حالات میں  کون ایسے  اقدامات نہیں  اٹھاتا؟ یا اگر غالبؔ حکیموں  کی گلی میں  مقیم تھے  جو راجہ بختاور سنگھ کے  خاندانی حکیم تھے  سو ہنگامہ غدر میں  بچ رہے  تو کیا انھیں  غدار کہا جائے اور  باغیوں  کا ہمنوا کہنا کہاں  تک درست ہے ؟ وہ مرزا حاتم علی مہر کو ایک تفصیلی خط کے  آخر میں  ان پریشانی کے  حالات میں  اٹھائے  گئے  اقدامات کا اعتراف اور توجیہہ بیان کرتے  ہیں  :

          ’’۔۔۔  میں  نے  سکّہ کہا نہیں اور  اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے  کو کہا۔ یہ گناہ نہیں اور  اگر یہ گناہ بھی ہے  تو کیا ایسا سنگین ہے  کہ ملکۂ معظمہ کا اشتہار بھی اس کو نہ مٹا سکے۔۔۔  سبحان اللہ گورا انداز کا بارود بنانا، توپیں  لگانی، بینک گھر اور میگزین کا لوٹنا معاف ہو جائے اور  شاعر کے  دو مصرعے  معاف نہ ہوں۔ ‘‘

          یہ الفاظ خود حاکم کی طاقت، عیاری، ستم گری کی چغلی کھاتے  ہیں اور  غالبؔ کی بے  بضاعتی کا کچا چٹھا پیش کرتے  ہیں۔ ایسے  حالات میں  ۱۸۵۷ کے  تناظر میں  ہماری نئی نسل غالبؔ کو باغی اور گوروں  کا ہم نوا کہے  یہ ایسی فاش غلطی ہے  جس کو نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا ہے۔۔۔  غالب ؔ کی اہمیت ایسی تحریروں  کے  غبار میں  دھندلانے  والی نہیں  ہے۔

٭٭٭

 

راسخ ؔ عظیم آبادی کا شاعرانہ اختصاص

______محمد توحید عالم انصاری

          بہار کی ابتدائی دور کی شاعری میں  شیخ غلام علی راسخ عظیم آبادی ایک خاص مرتبے  کے  حامل تصور کئے  جاتے  ہیں۔ ان کا دور اردو شاعری کے  شباب کا دور ہے۔ جب کہ سیاسی اعتبار سے  یہ زوال و انحطاط کا دور ہے۔ اس دور مغل سلطنت کی شمع جھلملا رہی تھی یعنی مغل اقتدار آخری ہچکیاں  لے  رہا تھا جب کہ اردو شاعری پر بہار آئی ہوئی تھی۔

          چنانچہ اسی دور میں  ’خدائے  سخن‘ میر تقی میرؔ،میر حسنؔ، خواجہ میر دردؔ،نظیر اکبر آبادی،اور مرزا محمد رفیع سوداؔ بھی تھے۔ سودا کا ہم مرتبہ اردو قصیدہ نگاری کے  میدان میں  کوئی پیدا نہ ہو سکا۔ اسی طرح اردو کی صوفیانہ شاعری میں خواجہ میر دردؔ کا امتیاز و اختصاص مسلم ہے۔ اسی عہد سے  وابستہ آگرہ میں  نظیر اکبر آبادی دکھائی دیتے  ہیں۔ جنھیں  ’ وحید العصر‘ قرار دینا نا مناسب نہ ہو گا۔ اس موقع پر ہم اردو کے  بلند قامت نقاد کلیم الدین احمد کے  قول کو نظر انداز نہیں  کر سکتے  کہ’’ نظیر اکبر آبادی آسمان شاعری کے  واحد درخشاں  ستارے  کے  مانند ہیں۔ ‘‘ لیکن میں  سمجھتا ہوں  کہ اس عہد میں  بالخصوص اردو شاعری کی دنیا میں  اکابرِ شعراء کی حیثیت اس قول کے  مصداق ہے  کہ’’ جو ذرہ جس جگہ ہے  وہیں  آفتاب ہے ‘‘لیکن ہر آفتاب کی ضو پاشی اور نور افشانی کا انداز الگ ہے۔ جو ان کے  انفراد و اختصاص کے  تعین میں معاون ہوتا ہے۔

           راسخ عظیم آبادی کے  آبا و اجداد شاہجہاں  آباد کے  رہنے  والے  تھے۔ مگر راسخ کی پیدائش عظیم آباد پٹنہ کے  قصبہ سائیں  میں  ہوئی۔ ان کی تاریخِ ولادت کے  سلسلے  میں  اختلاف پایا جاتا ہے۔ پھر بھی قاضی عبدالودوداور ڈاکٹر ممتاز احمد کا خیال ہے  کہ راسخ ۱۸۷۱ء کے  قریب پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت کے  سلسلے  میں  کوئی تفصیلی معلومات حاصل نہیں  لیکن ان کے  احوال و کوائف کے  جائزہ سے  معلوم ہوتا ہے  کہ وہ عربی اور فارسی کے  با ذوق عالم تھے اور  عروض و بلاغت کے  فن پر عبور و دسترس رکھتے  تھے۔ ان کے  حلیہ اور وضع قطع کی صراحت کرتے  ہوئے  شاد عظیم آبادی نے  اپنے  استاد فریادؔ کے  حوالے  سے ’’نوائے  وقت‘‘ میں  لکھا ہے  کہ :’’ میانہ قد، گندم رنگ تھے،کبھی ضدی، کبھی شنجرفی کرتہ پہنتے  تھے، اکثر کام دار ٹوپی ایک طرف جھکی ہوئی زیب سر رہتی تھی………مشاعرے  کی سج دھج دوسری تھی۔ اگرئی رنگ کی پگڑی کرتے  پر بڑی بڑی آستینوں  کے  قبا پہنے  ہوئے  مؤدب دو زانوں  ہو کر بیٹھے  رہتے  تھے۔ ‘‘

          محولہ بالا اقتباس سے  پتہ چلتا ہے  کہ انھوں  نے  مشرقی تہذیب کی قدیم روایت سے  کبھی بغاوت نہیں  کی۔ یعنی Ancient Customکی پیروی و پاسداری انھیں  عزیز تھی اور اپنی Moral Values پر ہمیشہ کھرے  اترے۔

          کلامِ راسخ کے  مطالعہ سے  پتہ چلتا ہے  کہ انھوں  نے  ملک کے  مختلف مقامات کے  اسفار کئے۔ جیسے  لکھنؤ، دہلی، مرشد آباد، اور کلکتہ وغیرہ۔ واضح رہے  کہ یہ سفر انھوں  نے  اپنی اقتصادی بد حالی سے  تنگ آ کر کیا۔ لکھنؤ میں  تو ان کا قیام سات برسوں  تک رہا۔ نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتے  ہوئے  دہلی گئے اور  پھر دہلی سے  غازی الدین حیدر کے  زمانے  میں  لکھنؤ آئے۔ لیکن ۱۲۲۵ھ میں  پھر عظیم آباد واپس آ گئے۔ اس کے  بعد بھی انھیں  چین و سکون نہیں  ملا بالآ خر انھوں  نے  کلکتہ اور مرشد آباد کا رخ کیا۔ کلکتہ اس زمانے  میں  East India Company  کا Metropolitan Cityتھا۔ ۱۲۳۲ھ میں  وطن واپس لوٹنے  کی خبر ملتی ہے۔ ۶۷ برس کی عمر میں  ۳۰ جمادی الثانی۱۲۳۸ھ کو انتقال ہوا اور وہیں  مدفون ہوئے۔ سال وفات کے  سلسلے  میں  بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ قاضی عبد الودود نے  یہ نتیجہ اخذ کیا ہے  :’’ حقیقت یہ کہ شاد پہلے  شخص ہیں  جنھوں  نے  یہ سن ولادت ۱۲۶۲ھ بتایا ہے۔ ان کے  بعد لکھنے  والوں  نے  ان سے  بالواسطہ اور بلا واسطہ نقل کیا ہے۔ اس کی تغلیط کے  لیے  یہ کافی ہے  کہ عبرقی عظیم آبادی نے  جو رحلت ناسخ کے  وقت نوجوان تھے  ’’ ریاض الافکار‘‘ نسخہ خدا بخش میں  بتایا ہے  کہ راسخ کی وفات ساٹھ برس میں  ہوئی۔ چوں  کہ تذکرہ مذکور میں  سالِ وفات ۱۱۷۶ھ قرار پاتا ہے۔ لیکن صحیح سالِ وفات ۱۲۳۸ھ ہے۔ اس وقت اگر ساٹھ برس کے  تھے  تو پیدائش ۱۱۷۸ھ کے  قریب ٹھہرتی ہے۔ میرا خیال ہے  کہ ۱۱۷۶ھ سے  چند سال قبل متولد ہوئے  ۱۱۷۱ھ کے  لگ بھگ……..‘‘

          ڈاکٹر گیان چند جین نے  قاضی عبد الودود کے  بیان کو فوقیت دی ہے۔ فرماتے  ہیں  :

          ’’ راسخ کے  سوانح نگار حمید عظیم آبادی کے  مطابق راسخ کا زمانۂ حیات ۱۱۶۲ھ تا ۱۲۳۸ھ ہے۔ لیکن قاضی عبدالودود کا خیال ہے  کہ راسخ ۱۱۷۱ھ کے  قریب پیدا ہوئے۔ ‘‘

          راسخ عظیم آبادی کی شادی اور اولاد کے  بارے  میں  قدیم ذرائع سے  نہ توثیق ہوئی ہے  نہ تردید۔

          راسخ نے  اگر چہ مختلف اصناف سخن میں  طبع آزمائی کی۔ لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے  شاعر تھے اور  غزل گوئی میں  ایک خاص مقام رکھتے  تھے۔ وہ میرؔ کے  رنگ سے  متاثر دکھائی دیتے  ہیں۔ ان دونوں  با کمال شاعروں  کے  اسلوب سخن میں  اتنی مشابہت اور مماثلت ملتی ہے  کہ اسی بنیاد پر راسخ کو ’ثانیِ میر‘ کہا جاتا ہے۔ راسخ عظیم آبادی کس کے  شاگرد تھے ؟ اس باب میں  خاصی بحث ملتی ہے۔ ابتدا میں  موصوف نے  فدوی سے  ضرور اصلاح لی تھی لیکن اصلاً وہ میرؔ کے  شاگرد تھے۔ غزل کے  ایک مقطع میں  انھوں  نے  فدوی کو بھی استاد تسلیم کیا ہے۔

شاگرد ہوں  گے  حضرت فدوی کے  بے  شمار

راسخ ہوں  ایک میں  بھی ولے  کس شمار کے

           میر تقی میرؔ کی شاگردی کے  سلسلے  میں  انھوں  نے  متعدد اشعار میں  نہ صرف اشارے  کئے  ہیں  بلکہ اس امر پر بھی فخر کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں   ؂

جناب میر کا شاگرد ہے  وہ

خوشا انداز راسخ کے  سخن کا

یا رب رہیں  سلامت تا حشر حضرت میر

فیض سخن نے  ان کو میرا سخن بنایا

راسخ کو ہے  میر سے  تلمذ

یہ فیض ہے  ان کی تربیت کا

کروں  کیوں  کر نہ میں  راسخ مبایات

کہ ہیں  استاد میرے  حضرت میر

شاگرد ہیں  ہم میر سے  استاد کے  راسخ

استادوں  کا استاد ہے  استاد ہمارا

          ( بحوالہ : راسخ عظیم آبادی ( مونو گراف) لطف الرحمن ص ۸)

           راسخ میر تقی میر کی شاگردی پر فخر کرتے  ہیں اور  عظیم آباد میں  انھیں  میر کی حیثیت دی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں  خیالات کی سادگی، احساسات کی صفائی اور اسلو ب بیان نہایت سادہ اور سلیس دکھائی دیتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں     ؂

راسخ اس عہد میں متاعِ وفا

کیمیا کی طرح سے  ہے  نایاب

زندگی کرنے  کا ہم ڈھنگ ہی بھولے  تجھ بن

ورنہ یہ مہلت کم، کاٹنا دشوار نہ تھا

آنکھ لگتی نہیں  تری راسخ

پھر کہیں  ان دنوں  لگا ہے  دل

           ان اشعار میں  ہر جگہ جذبات کی صداقت، زبان کی سلاست اور بیان کی صفائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ذاتی تجربات جب پر خلوص انداز میں  نہایت سادگی اور صداقت کے  ساتھ بیان کئے  جاتے  ہیں  تو فطری طور پر کلام میں  سوز و گداز کا عنصر نمایاں  ہو جاتا ہے۔ راسخ کی شاعری میں  ظاہر اور باطن خارج اور داخل فکر اور جذبہ ایک دوسرے  سے  ہم آمیز دکھائی دیتے  ہیں۔ ان کا انداز سب سے  جدا اور سب سے  انوکھا اور نرالا ہوتا ہے۔ ان کے  شعری بیان میں  بیان بازی نہیں  ملتی بلکہ ایک خاص کیفیت پائی جاتی ہے  جو قاری کو اپنے  حلقۂ اثر میں  لے  لیتی ہے۔ راسخ کہتے  ہیں

لاگ اس پلک کی اتنی تو معلوم ہے  کہ آہ

کانٹا سا کچھ جگر میں  ہے  اپنے  چبھا ہوا

دل خوں  تھا دیدہ خوں  فشاں  تھا

تم بن عجیب ایک رنگ یاں  تھا

نہ تارِ پیرہن زنہار بھاویں

مجھے  بس آنسوؤں  کے  تار بھاویں

           راسخ کی شاعری دل سے  نکلی ہوئی اس آہ کی طرح ہے  جس کو کوئی اہلِ دل ہی سمجھ سکتا ہے، سن سکتا ہے اور  متاثر ہو سکتا ہے۔ راسخ کی اسلوب تغزل کی دوسری اہم خصوصیات اختصار پسندی اور ایجاز بیانی ہے۔ چند اشعار  ملاحظہ ہوں     ؂

مت پوچھ مجھ سے  حال میرا      حیرت زدہ کیا بیان کرے  گا

نازک ہے  مزاج تیرا            دل سے  بھی کہو نہ راز تیرا

ٹپکے  پڑے  آنسو راسخ  دل ہے  کتنا گداز تیرا

           راسخ کی غزل گوئی کی تیسری خصوصیت یہ ہے  کہ ان کے  اشعار نغمگی اور موسیقی سے  لبریز آب رواں  کے  مانند ہیں۔ ایک بہاؤ کی سی کیفیت رکھتے  ہیں  جو توانائی و کشش کی حامل ہے۔ چند اشعار دیکھیں     ؂

جو بندہ کہ رحمت کا سزاوار نہیں  ہے      اس کا یہ گنہ ہے  کہ گنہ گار نہیں  ہے

ہم کو ڈرا اس سے  گذر جائے  گا زاہد     دن حشر کا فرقت کی شبِ تار نہیں  ہے

          شکیب ایاز راسخ کے  متعلق لکھتے  ہیں  کہ  :

          ’’ اپنی علمی، فکری اور فنی صلاحیتوں اور  کاوشوں  کی بدولت دنیائے  ادب میں  متعارف ہوئے اور  تمام حد بندیوں اور  دبستانوں  کی سرحدوں  کو عبور کر کے  آگے  نکل گئے اور  ایک خطِ امتیاز ایسا کھینچ دیا کہ محمد حسین آزادؔ کو آبِ حیات میں  لکھنا پڑا :

          ’’ راسخ عظیم آبادی کا دیوان میں  نے  دیکھا ہے، بہت سنجیدہ کلام ہے۔ پرانے  مشاق اور سب ادھر کے  لوگ انھیں  استاد مانتے  ہیں۔ ‘‘

          (بحوالہ: دیوان راسخ عظیم آبادی،تدوین ڈاکٹر شکیب ایاز ص۹)

          محولہ بالا اقتباس کی روشنی میں  کہا جا سکتا ہے  کہ راسخ اپنے  دور کے  یکتائے  روز گار تھے۔ کہا جاتا ہے  کہ ان کے  یہاں  میرؔ کا رنگ جھلکتا ہے اور  جہاں  تک مثنوی نگاری کا تعلق ہے  تو راسخ واضح طور پر میرؔ کے  زیرِ اثر دکھائی دیتے  ہیں۔ میرؔ نے  خود ہی مثنوی کو واقفیت شعاری عطا کرنے  کی کوشش کی۔ اگر ہمارے  شعرا ء مثنوی نگاری کے  سلسلے  میں  میرؔ کی تقلید کی طرف مائل ہوتے  تو شائد ہماری مثنویاں  وقت سے  پہلے  اپنے  ارتقائی مراحل کو طے  کر کے  بامِ عروج تک پہنچ جاتیں۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

          راسخ نے  اس چراغ کو جلائے  رکھنے  میں  محدود سی کوشش کی اور شاید اسی وجہ سے  ان کی مثنویاں  ڈاکٹر ممتاز احمد کی زبان میں  میرؔ اور سوداؔ دونوں  میں  ڈھب اور ڈھانچہ کے  اعتبار سے  زیادہ اہمیت کی حامل ہو گئیں۔ راسخ کی مثنوی میں  جذبِ عشق،کششِ عشقِ حسن و عشق،ہو یا اعجاز عشق، گنجینۂ حسن ہو یا نیرنگ محبت تقریباً ساری مثنویاں  میرؔ کے  بنائے  ہوئے  سانچے  میں  ڈھلی ہوئی ہیں  ان کا اندازِ کلام ملاحظہ کریں     ؂

ا یک جاگہ تھا ا اک پر ی تمثال   آفتاب سپہر حسن و جمال

تازہ گل، گلشنِ جوانی کا        سبز باغ اس کی زندگانی کا

دیکھنے  میں  وہ شمع بزم افروز      لپک پروانہ سا ں  ہمہ تن سوز

تھی محبت کی اک لاگ اس سے           گرم ملتی تھی کچھ یہ آگ اس سے

                             (جذب عشق)

مرا مطلوب دل ہے  وہ یگانہ     جو ہے  شایانِ عشق غائبانہ

وہی اہلِ بصیرت کا ہے  منظور     جہاں  اس کی تجلی ہے  معمور

جمال بے  مثال اس کا عیاں  ہے     ولے  ہم کو یہ بینائی کہاں  ہے

                                       (گنجینۂ حسن)

وہ قابلِ مدحت و ثنا ہے          وہ فرطِ ظہور سے  چھپا ہے

ہر فرد کو اس سے  فی الحقیقت     ہے  معنی و لفظ کی سی نسبت

                                          ( حسن و عشق)

           مذکورہ اشعار میں  ہر جگہ جذبات کی صداقت، زبان کی سلاست و روانی اور بیان کی صفائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ بقول ڈاکٹر ممتاز احمد راسخ کا یہ کمال ہے  کہ  ’’ معنی کو گنجلک نہیں  ہونے  دیا ہے اور  نہ یہ ہی کہ کہیں  شاعرانہ تعبیر کم ہوئی ہے۔ مشکل الفاظ بھی کم آئے  ہیں۔ جن سے  روانی میں  رکاوٹ پہنچے اور  الفاظ بھی ملائم ہیں جو زبان پر آسانی سے  گھوم جاتے  ہیں۔ اسی طرح قوافی اور موزونیت اور ترنم کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور  یہ بڑی بات ہے۔ ‘‘ (بحوالہ۔۔۔ : مثنویات راسخ۔ ڈاکٹر ممتاز احمد ص۱۵۲)

           درج بالا سطور میں  راسخ کی غزل گوئی اور مثنوی کے  سلسلے  میں  مشاہیر کے  جو اقتباسات نقل کئے  گئے  ہیں  یا راقم الحروف نے  جو کچھ راسخ کے  شاعرانہ اوصاف کی بابت عرض کیا ہے  اس کا مقصد یہ ہے  کہ راسخ جیسے  عظیم شاعر جسے  تقریباً فراموش کیا جا چکا ہے  اس کی بازیافت ہو اور راسخ کی تفہیم کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی اوریجنل Originalفن کار کے  لئے  یہ سب سے  بڑا خراج ہے۔

٭٭٭

 

میرا تخلیقی سفر

میں  نے  قلم کی حرمت کا ہمیشہ خیال رکھا ہے

_______________علقمہ شبلی

          ریاست بہار میں  واقع بہار شریف جو پٹنہ سے  ۱۰، ۱۲ کلو میٹر کے  فاصلے  پر جنوب مشرق کی طرف ایک گاؤں  ہے، میر غیاث چک، جہاں  میری پیدائش ہوئی۔ سرٹی فیکٹ کے  مطابق تاریخ پیدائش یکم  نومبر ۱۹۳۰ء ہے۔ میں  نے  ایک مذہبی علمی گھرانے  میں  آنکھیں  کھولیں۔ ابھی انجمن حمایت اسلام، لاہور کی ابتدائی کتابیں  پڑھ رہا تھا کہ والد مرحوم کے  ساتھ الٰہ آباد چلا گیا۔ یہاں  میں  نے  سعدی شیرازی کی ’ گلستاں  ‘ ’ بوستاں  ‘ اور عربی کی ابتدائی کتابیں  پڑھیں  پھر والد محترم کے  ساتھ دربھنگہ منتقل ہو گیا، جہاں  سے  میٹریکولیشن امتحان پاس کیا۔ مجھے  ہمیشہ اساتذہ کی شفقت حاصل رہی اور انھوں  نے  دل میں  وہ ذوق مطالعہ پیدا کر دیا جس نے  ایک نئی دنیا کی سیر کا حوصلہ دیا اور پھر اسے  سند اعتبار بخشنے  کے  لئے  کالج اور یونیورسٹی کی خاک بھی چھانی۔

          اس زمانے  میں گاؤں  میں  بڑی بوڑھیاں  امیر حمزہ اور چہار در ویش وغیرہ کی داستانیں  بچوں  کو سنایا کرتی تھیں۔ اس سے  داستان خوانی کی رغبت ہوئی اور کم عمری میں  ہی وہ تمام داستانیں جو اس وقت ہاتھ آئیں، پڑھ ڈالیں۔ اس وقت ان داستانوں  کو محض دلچسپ قصہ سمجھ کر پڑھ لیا مگر اس سے  اتنا ضرور ہوا کہ نئے  نئے  الفاظ و تراکیب، روز مرہ اور محاوروں  سے  کان آشنا ہو گئے  جس سے  بعد میں  نثر نگاری کے  لئے  راہ ہموار ہوئی۔ والد صاحب کو مذہبی اور علمی کتابوں  کے  ساتھ اخبار بینی کا بھی شوق تھا۔ وہ پابندی سے  اخبارات پڑھا کرتے  تھے اور  مجھ سے  خبروں اور  منظومات پڑھوا کر سنا کرتے  تھے اور  اعراب و تلفظ پر خصوصی توجہ دیتے  تھے۔ وہ باضابطہ شاعر تو نہ تھے  مگر ان کے  درس میں  عروض بھی تھا جس کے  رموز و نکات سے  انھیں  واقفیت تھی۔ کبھی کبھی ولادت و وفات کے  تاریخی قطعات اردو اور فارسی میں  منظوم کیا کرتے  تھے اور  ہم لوگوں  سے  پڑھوا کر سنتے  بھی تھے۔ اسی لئے  کان شعر کے  آہنگ سے  آشنا تھے۔ میرے  بڑے  والد حافظ مطلوب حسن کو ادب کا ذوق تھا اور ادبی رسالے  ان کے  زیر مطالعہ رہا کرتے  تھے، جن سے  ہم لوگ بھی فیض یاب ہوتے  تھے۔ ہائی اسکول میں  مولوی ذا کر حسین برقؔ ہم لوگوں  کو اردو پڑھایا کرتے  تھے۔ انھیں  شعر گوئی سے  بھی شغف تھا اور کلاس میں  اکثر مصرعے  پر مصرع لگانے  کو دیا کرتے  تھے۔ انھیں  عوامل نے  شعر و ادب سے  دلچسپی پیدا کی اور ایک آدھ شعر کہنے  کاعمل دس بارہ سال ہی کی عمر سے  شروع ہو گیا لیکن با ضابطہ شاعری کا آغاز بعد میں  ہوا۔

          میری ادبی زندگی افسانہ نگاری سے  شروع ہوئی اور کئی افسانے  بھی شائع ہوئے  لیکن میں  اپنی اس کاوش سے  مطمئن نہیں  ہوا اور مجھے  ایسا لگا کہ میرے  تخلیقی اظہار کو کسی اور وسیلے  کی ضرورت ہے۔ ۱۹۴۷ء میں  تقسیمِ ملک کے  ساتھ آزادی ملی۔ اس آزادی کے  نتیجے  میں  ملی ہوئی بر بریت، وحشت اور اجنبیت کے  شدید احساس اور شرافت و  وضع داری کے  اقدار کی شکست و ریخت نے  حساس اذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خاندان بٹ گئے،گھر تقسیم ہو گئے،ہونٹوں  پر تالے  لگ گئے اور  انسان خود اپنے  وطن میں  اجنبی بن کر رہ گیا۔ ان نا گفتہ بہ حالات میں  اظہار خیال کے  لئے  غزل ہی مناسب اور موثر وسیلہ نظر آئی کیوں  کہ یہ رمز و ایماں  کا فن ہے اور  اس میں  اظہار جذبات اشارات و استعارات میں  ہو سکتا ہے۔ اسے  اتفاق کہہ لیجئے  کہ ۱۹۴۸ء میں  جب میں میٹرک کے  امتحان سے  فارغ ہوا تو دربھنگے  میں  ایک آل انڈیا طرحی مشاعرے  کا اعلان ہوا۔ میں  نے  بھی مصرع طرح پر طبع آزمائی کی اور پہلا مشاعرہ ۵! مئی ۱۹۴۸ء کو ٹاؤن ہال دربھنگہ میں  پڑھا۔ یہی میری پہلی غزل ہے۔ اس وقت دربھنگہ میں  شعر و شاعری کا بڑا چرچہ تھا اور شعری محفلیں  برا بر منعقد ہوتی تھیں، جن میں  زیادہ تر غزلیں  پڑھی جاتی تھیں۔ اسی فضا میں  میری غزل گوئی نے  بال و پر کھولے اور  کلام رسالوں  میں  بھی شائع ہونے  لگا۔

           ۱۹۵۲ء میں  تلاش معاش میں  کلکتہ آیا۔ دربھنگے  جیسے  چھوٹے  شہر سے  کلکتہ جیسے  بڑے  شہر میں  جب آیا تو یہاں  کی تیز رفتار زندگی، حد سے  بڑھی ہوئی مصروفیت،جلسے  جلوسوں اور  شور و ہنگاموں  نے  کچھ دنوں  تک مجھے  اس طرح حیرت زدہ رکھا کہ جیسے  تخلیقی سوتے  خشک ہو گئے  ہوں  لیکن میں  نے  جلد ہی حالات کو ساز گار بنانا سیکھ لیا۔ یہاں  کی زندگی اور ماحول نے  میری شاعری کو جدید موضوعات اور نئے  جہات و آفاق سے  آشنا کیا۔ نت نئے  خیالات اور نوع بہ نوع تجربات نے  ذہن میں کشادگی اور نظر میں  وسعت پیدا کی۔ اس وقت یہاں  ادیبوں اور  شاعروں  کی ایک بڑی جماعت متحرک اور فعال تھی۔ ہر طرف علم و ادب اور شعر و شاعری کی گونج سنائی دیتی تھی۔ میری ادبی زندگی کی تشکیل میں یہاں  کی شعری ادبی نشستوں  کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ یہیں  میری غزلوں، نظموں، نعتوں اور  رباعیوں کے  مجموعے  منظر عام پر آئے اور  فکر و فن کو توانائی ملی۔

          دربھنگہ کے  دوران قیام ہی اردو کے  کلاسیکی ادب سے  دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور میر، سودا، غالب،مومن، اقبال،جوش اور سیماب کا متعد بہ کلام نظروں  سے  گزر چکا تھا مگر پڑھنے  میں  کوئی ترتیب نہ تھی۔ جو کتاب مل گئی، وہ پڑھ لی۔ کلکتہ آ کر نہ صرف ان کی باز خوانی ہوئی بلکہ طلبہ کے  ساتھ پڑھنے اور  تبادلۂ خیال کا موقع بھی ملا جس سے  ان کے  مفاہیم اور خصوصیات تک رسائی ہوئی اور ادبی منظر نامے  کی واضح تصویر نگاہوں  کے  سامنے  آئی۔ اس سلسلے  میں  پیش روؤں  کے  ساتھ ساتھ معاصرین کے  اشعار و افکار کے  مطالعے  کا بھی موقع ملا۔ سعدی شیرازی،جلال الدین رومی، حافظ شیرازی،نظیری و فیضی وغیرہ کے  کلام سے  بھی آشنائی ہوئی اور خسرو و غالب کے  فارسی کلام سے  بھی استفادہ کا موقع ملا۔

           دربھنگے  میں  ہی مولانا ابوالا علیٰ مودودی کی تصنیفات سے  بھی روشناس ہونے  کا موقع ملا اور ان کی استقرائی اور منطقی طرز اظہار نے  متاثر بھی کیا۔ اس کے  باوجود میں  خذما صفا ودع ما کدر (خوبیوں  کو اپناؤ اور خامیوں  سے  صرف نظر کرو)پر عمل کرتا ہوا آگے  بڑھتا رہا۔ زندگی کی طرح ادب و شعر میں  بھی اندھی تقلید اور بے  جا قید و بند مرغوب طبع نہیں  رہی۔ جب میں  کلکتے  آیا تو وہ زمانہ ترقی پسند تحریک کے  عروج کا تھا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے  جلسے  پابندی سے  ہوا کرتے  تھے۔ میں  بھی کبھی کبھی ان جلسوں  میں  شریک ہو نے  لگا۔ ترقی پسندی اور ترقی پسندوں  سے  رشتہ استوار ہونے  کے  باوجود ادب اور پروپیگنڈہ کا امتیاز ہمیشہ پیشِ نظر رہا۔ نظریے  سے  ادب کو مفر نہیں  لیکن کوشش یہ رہی کہ فن پر نظریہ حاوی نہ ہونے  پائے۔ زندگی اور زمانے  کا ہر تغیر نگاہوں  میں  رہا اور اپنی شاعری کو بھی اس سے  جلا بخشی۔ لیکن اس دھن میں  تخلیقی جمالیات سے  صرف نظر نہیں  کیا۔ جب جدیدیت کی ہوا چلی تو اس جوش میں  مریضانہ خیالات کو شاعری میں  جگہ نہ دی اور اسے  اہمال و ابہام کی سرحدوں  سے  دور رکھا۔

           آج نئی نئی سائنسی ایجادات اور ان کے  استعمال نے  ہماری زندگی کو میکانکی بنا دیا ہے۔ ہم مشین کے  پرزے  بن کر رہ گئے  ہیں۔ مادی ترقیات ہماری روحانی ارتفاعات کو مغلوب کرنے  پر تلی ہیں۔ ایسی صورت میں  ادب و شعر ہی ایسا وسیلہ ہے  جو روح و جسم میں  توازن بر قرار رکھ سکتا ہے۔ انسان دوستی، بین الاقوامی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کو فروغ دے  سکتا ہے۔ اسی لئے  ادب کی مثبت قدروں  پر میرا ایمان ہے۔ میں  نے  قلم کی حرمت کا ہمیشہ خیال رکھا ہے  تاکہ ایک حسین اور پر امن دنیا کی تشکیل و تعمیر ہو سکے۔

           اپنے  تخلیقی سفر کے  آخری پڑاؤ پر ایسا محسوس ہو تا ہے  کہ ذہن کے  دروازے  پر کوئی بار بار دستک دے  رہا ہے  :

گماں  میر کہ بہ پایاں رسید کار مغاں

ہزار بادۂ نا خوردہ درگ تاک است

٭٭٭

 

منظر پس منظر

حسین الحق کی کہانی

_________________رتن سنگھ

          حسین الحق کی کہانی ’’غم زدہ ‘‘کا آخری جملہ ہے

          ’’ بو بو کی موت کا اس طرح بیان کہانی بن سکتا ہے  یا نہیں  ‘‘

           اس سوال کا جواب ہے  ’’ ہاں  کہانی بن گئی ہے۔ ‘‘

          عام سی عورت کی عام سی زندگی کی تصویر اس طرح نقش ہوتی ہے  کہ ایک خوبصورت کہانی تخلیق ہو گئی ہے۔ اور اس پرطرہ یہ کہ کہانی کا کوئی خاص تانا بانا نہیں۔ کوئی ایسا واقعہ نہیں  کہ تجسس بنا رہے  کہ آگے  کیا ہوا۔ مگر پھر بھی کہانی اس لئے  بن گئی کہ قدم قدم پر انسان کے  دل سے  سچی محبت اور خلوص کا جذبہ چھلک پڑتا ہے۔

          اپنی چچا زاد بہن بو بو کے  مرنے  کی خبر ملی ہے  اسے  اپنی بیوی سے، اور اس کی نظروں  کے  سامنے  مرحومہ کی زندگی یا یوں  کہہ لیجئے  کہ اس کے  ساتھ بتائے  ہوئے  لمحے  منظر در منظر گذر رہے  ہیں اور  وہ ان لمحوں  کو دوبارہ جی رہا ہے۔

           دوبارہ جی رہا ہے۔

          اور بو بو کو زندگی بخش رہا ہے۔

          بیوی بولتی ہوئی بتاتی جا رہی ہے۔ ’’ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ان کو کینسر نکل آیا۔ معلوم ہوا کہ بالکل آخری مرحلہ ہے۔ تین چار ماہ بوبو نے  بہت تکلیف میں  گزارے۔ ‘‘

          بو بو کی اس تکلیف دہ خبر نے  سننے  والے  کو اس طرح پریشان کر دیا ہے  کہ جیسے  مرنے  والی کادرد، اس کا درد بن گیا ہو۔ وہ اس درد کو اس طرح جھیل رہا ہے  جیسے  سب کچھ اس پر گذر گیا ہو۔

          ’’ اس نے  منھ کھول کر زور زور سے  سانس لینے  کی کو شش کی تو اسے  لگا جیسے  اس کا دم گھٹ رہا ہو۔ ‘‘

           ایسے  میں  مرحومہ کی یاد ’’پکشیوں  کے  پنکھوں کی پھڑپھڑاہٹ ‘‘ بن کر سنائی دے  رہی ہے۔ اس سے  عمر میں  صرف ایک سال بڑی تھیں، اس لئے  دونوں  ایک جگہ رہتے  تھے اور  کتنی اپنائیت تھی۔ اسی اپنائیت کی وجہ سے  چچا کے  ان دنوں  نے  اس کے  تصور میں  ڈیرا ڈال دیا جب غربت کی وجہ سے  بو بو کی شادی کے  لئے  انھوں  نے  اپنا گھر بیچ دیا تھا۔

          ’’ بو بو کی شادی کے  بعد کرایے  کے  مکان میں  بہ شکل چھ ماہ رہے  ہوں  گے  کہ موت آئی اور وہ عدم آباد روانہ ہو گئے۔

           بو بو کی موت کے  غم سے  ہی اسے  نجات نہیں  ملی تھی کہ اس کے  بارے  میں  سوچتے  سوچتے  چچا کی غربت اور موت کا دکھ دل پر بوجھ بن کر اتر آیا۔

           رات بستر پر پڑے  پڑے  بہت دیر بعد اسے  احساس ہوا کہ نیند نہیں  آ رہی ہے۔ ظاہر ہے  ایسے  درد مندانسان کے  دل میں  دکھ کے  تیر چبھتے  رہیں  گے۔

          حسین الحق لکھتے  ہیں  :

          ’’ رات بھر دھوپ چھاؤں  کا کھیل رہا۔ ‘‘

          رات کے  اندھیرے  میں  اسے  نیند نہیں  آ رہی۔ اس رات میں  چھائی دھوپ کی انیاں  اس کے  جسم کو بیند رہی ہیں، آگ بن کر جھلسا رہی ہیں۔ اس رات میں  چھاؤں  کے  سایے  اس کے  وجود کو سانپ بن کر ڈس رہے  ہیں۔ ایسا  اس لئے  ہو رہا ہے  کہ یہی بو بو جب زندگی کی تکلیفوں  کا سامنا کرتی ہوئی اس کے  پاس آئی تھی تو وہ لاکھ چاہتے  ہوئے  بھی اس کی خاص مدد نہیں  کر پایا تھا۔

          وہ جل بن مچھلی کی طرح چھٹپٹایا تھا۔۔۔  مگر بوبو اور میاں  بھائی کی مدد نہیں  کر پایا تھا۔ یوں  جاتے  وقت وہ اسے  کچھ پیسے  دیتا ہے۔ اس کی بیوی نے  کچھ پرانے  کپڑے  بھی دیئے  تھے  لیکن کیا یہ کافی تھا۔

          اس بو بو کے  لئے  جو۔۔۔

          ’’ گرمی کی دوپہروں  میں۔۔۔  مزاروں  کے  بیچ تمکوئی چننے  کے  چکر میں۔۔۔  کیسی دھما چوکڑی مچتی تھی۔۔۔  بو بو کے  دھمکانے  پر۔۔۔  وہ اپنے  حصے  کا آدھا ان کے  حوالے  کر دیتا تھا۔ وہ بو بو جو بچپن میں  اس کے  حصے  کا آدھا بھی اس سے  لے  لیتی تھی، اب بڑا ہو جانے  پر حقیقی ضرورت کے  وقت اس کی مدد نہ کر پانے  کی صورت میں  آپ خود اندازہ لگا سکتے  ہیں  کہ اچھے  دردمند انسان کے  دل پر کس کس طرح کا درد نہ اٹھا ہو گا۔

           مگر یہ بو بو محض چچا زاد بہن ہی نہیں  تھی۔۔۔  کچھ اور بھی تھی۔

          ’’ جب کبھی وہ اپنے  گھر پکی ایک پھلکی یا سموسہ چپکے  سے  دیتیں۔۔۔  یا پھر میدان سے  بیر توڑکر دامن میں  چھپائے  آتیں اور  اشارے  سے  بلاتیں  تو اسے  لگتا کہ یہ تو سچ مچ اس کی ماں  ہے۔

          ’’ اماں  بھی مر گئیں، بو بو بھی مر گئیں۔

          ’’ ماں  جیسی بو بو۔ ‘‘اور اب اسے  افسوس ہو رہا ہے  کہ میں  نے  پیسہ کمایا، عیش کے  کوچے  کو چلا، دنیا گھومی۔‘‘

           لیکن بو بو کی کوئی مدد نہیں  کر پایا۔

           خطا کس کی ہے۔ وہ خود سے  سوال کرتا ہے۔

           اور اپنے  اندر سے  اسے  کوئی جواب نہیں  ملتا۔۔۔  وہ بھنور میں  ہچکولے  کھانے  لگتا ہے۔

          مگر یہ پچھتاوا کیا اسے  سونے  دے  گا؟

          نہیں۔ زندگی بھر نہیں۔

          حسین الحق صاحب۔ اسی لئے  یہ کہانی بن گئی ہے۔

          کہانی جو درد مند قاری کی نیند بھی حرام کر دے  گی۔

٭٭٭

 

ذکیہ مشہدی کی کہانی

_________________رتن سنگھ

          ذکیہ مشہدی کی کہانی ’’بِدا نہیں  مری‘‘ پڑھتے  پڑھتے  مجھے  صبیح الحسن رضوی کی کہانی ’’ مٹی‘‘ یاد آ گئی جو انھوں  نے  احتشام صاحب کے  ہاں  ترقی پسند کے  ایک جلسے  میں  سنائی تھی۔ یہ بات غالباً ۵۵۔ ۱۹۵۴ء کی ہے۔

          پاکستان گیا کوئی مہاجر کچھ دنوں  کے  لئے  لکھنؤ لوٹ کر آیا تو اپنے  گھر کے  در و دیوار کو دیکھ کر اس کے  آنسو تھم نہیں  رہے۔ وہ کہانی سنتے  سنتے  مجھے  لگا تھا جیسے  صبیح صاحب کا وہ کردار نہیں  بلکہ میں  پاکستان میں  چھوڑ آئے  اپنے  گاؤں  کی گلیوں  میں  بھٹکتا رو رہا ہوں۔ ( اس کہانی میں  مزاح کا پہلو تب نکلا جب اپنی کہانی کی کامیابی اور اس کے  اتنے  پر اثر ہونے  پر ساتویں  آسمان میں  بیٹھے  صبیح الحسن کو احمد جمال پاشا نے  یہ کہہ کر ذہن پر لا دیا، کہ صبیح صاحب حقیقت یہ ہے  کہ رتن سنگھ یہ سوچ کر رو پڑے  تھے  کہ کیسی گھٹیا کہانی سننے  کو ملی )۔

           لیکن مجھے  یہ کہانی اتنی اپنی اپنی سے  لگی تھی کہ میں  اپنے  آ پ کو سنبھال نہ پایا پھپھک پھپھک کر رو پڑا۔

          ذکیہ مشہدی کی کہانی بھی ایسا ہی کوئی جذبہ قاری کے  دل میں  جگاتی نظر آتی ہے۔

           فطری طور پر انسان چاہتا ہے  کہ دوسرے  اسے  دل سے  پیار کریں،اسے  اپنا سمجھیں، اس کے  دل کا پیالہ ایسے  پیار بھرے  جذبوں  سے  لبریز رہے۔ ایسا ہونے  پر اسے  سچی خوشی ملتی ہے۔ سرشاری کے  عالم میں  اس کی روح ایسے  مقام پر پہنچ جاتی ہے، جہاں  صدیاں  سمٹ کر ایک لمحہ بن جاتی ہیں، جہاں  ایک لمحہ صدیوں  پر پھیل جاتا ہے، اور اس پر کل عالم کے  راز آشکارا ہونے  لگتے  ہیں۔ اس پر وجد کا سا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ اسے  ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے  اسے  الہام ہو رہا ہو کہ اس کے  ارد گرد جتنی بھی مخلوق بستی ہے، ان سب میں  سنت کبیر کے  خیال کے  مطابق ایک ہی خدا کا نور چمک رہا ہے۔

          ایسے  میں  یہ دھرتی گل و گلزار بن جاتی ہے۔

          کچھ ایسے  ہی ماحول میں  بَدا ور حسنو، اور کلو بالی عمر کی زندگی کی رنگا رنگی میں  کھوئے  ایسے  لگ رہے  ہیں  جیسے  وہ چھوٹی چھوٹی تتلیاں  بن کر زندگی کی کیاری میں  لگے  خوشنما پھولوں  کے  گرد منڈلا تے  کبھی اس پھول پر بیٹھتے  ہیں  کبھی اس پھول پر۔ اور گلی کے  در و دیوار اپنے  پہیہ زندگی کو اس طرح رکتے  ہوئے، پھلتے  پھولتے  ہوئے  دیکھ کر یہ بھول گئے  ہیں  کہ کون سی دیوار کچی ہے اور  کون سی پکی۔ یا اس گھر میں  رہنے  والوں کا کون سا عقیدہ ہے۔ ہوا یہ ہے  کہ سب عقیدے  آپس میں  گڈمڈ ہو کر ایک ہی عقیدے  میں  ڈھل گئے  ہیں۔ اسی لئے  وہاں  رہنے  والوں  کے  دلوں  میں  اس عقیدے  کی لہریں  موجزن ہوتی ہیں  تو پھر ساری دیواریں  ہٹ جاتی ہیں، سارے  فاصلے  مٹ جاتے  ہیں۔

           قربتوں  کے  اس ماحول میں آپسی پیار کا عکس دائمی ہو جاتا ہے

           تبھی تو صفیہ کو احساس ہوتا ہے  کہ گھنے  بادلوں  کا ریشم جیسا لمس بہت دن تک ہتھیلی پر یوں  ہی رہ گیا تھا تازہ اور نیا۔ ‘‘

           اور یہ لمس اس کالو کا ہے  کہ ’’ جہاں  کا تو رہے، وہاں  کوئی ہڑکمپ نہ مچے  بھلا۔ صفیہ کی جان جلتی تھی اس کی صورت دیکھ کر۔ مگر بدا کے  گَونے  کے  دن اسے  اس پر بڑا ترس آیا تھا۔ بدا پر مرکھنڈے  بیل کی طرح سینگ چلانے  والا کالو سسک سسک کر رو رہا تھا۔

           اسے  کالو کے  سر پر محبت بھرا ہاتھ رکھ کر اگر صفیہ کو ہمیشہ تازہ رہنے  والا لمس ملتا ہے۔ تو کچھ ایسا ہی احساس کلو کو صفیہ کی رخصتی کے  موقع پر ملتا ہے۔

           ’’ اس کی آنکھیں  نم تھیں۔ اکلوتی بہن بڑی شدت سے  یاد آتی تھی، جو گھر گرہستی میں  ایسی آ بچھی تھی کہ برسوں  مائیکے  کا رخ نہیں  کر پاتی تھی۔ ‘‘محبت کا جذبہ بدا کو صفیہ میں  مدغم کر دیتا ہے اور  پھر وہ وہی صفیہ کلو کے  لئے  بدا بن جاتی ہے۔ سچی الفت کے  یہ جذبے  جب میں اور  تو کے  فاصلوں  کو مٹا دیتے  ہیں  تو یہ پیار شعوری بن کر دلوں  میں  ہر وقت مہکتا رہتا ہے، اور انسان کو ایسے  لگتا ہے  جیسے  پنکھوں  کے  بغیر ہی ہوا میں  پرواز بھرتا ہوا زندگی کو بسر کر رہا ہو۔ ایسے  میں  سکھ تو سکھ ہو تے  ہی ہیں، دکھ بھی سکھ بن جاتے  ہیں۔ اسی کستوری کی مہک کو اپنے  دل میں  بسائے  ایک عرصہ کسی شجر تلک میں  گزارنے  کے  بعد صفیہ وطن واپس لوٹتی ہے  تو وہ ایسے  ہی محبت بھرے  ماحول کو دیکھنا چاہتی ہے۔ جیسا وہ چند سال قبل چھوڑ کر گئی تھی۔

          اسی ماحول میں  سانس لینے  کے  لئے  وہ ماحول کو سونگھتی ہے۔

          ’’ ہوا میں  دیوالی کی خوشبو تھی۔ شہر کی سڑکوں  پر کھلیں  قبا سے  بکھرے  پڑے  تھے اور  مٹی کی خوشبو والے  دیئے۔ ‘‘

           وہ سوچتی ہے  ابھی ’’ بدا‘‘ کہیں  سے  تھال بھر کھیلیں اور  بتاشے  و مٹھائی لئے  بر آمد ہو گی۔۔۔ اور  پھلجھڑیوں  کی روشنی میں  دونوں  کے  چہرے  ایک ساتھ گلنار ہو اٹھیں  گے۔ ‘‘

           لیکن اس لمبے  عرصے  میں  جس میں  صفیہ کے  دل میں پیار کی کستوری مہکتی رہی، حالات نے  زندگی کے  آنگن میں  زہر گھول دیا تھا۔

          بھاوج تلخ لہجے  میں  رنجیدہ ہو کر کہتی ہے۔

          ’’ کن سنتا ہے  ان پرانے  دقیانوس بڑوں  کی جو امن و آشتی کی باتیں  کرتے  ہیں۔ ‘‘ایسا کہتے  کہتے  وہ حقیقت آشکار کرتی ہوئی کہتی ہے۔

          ’’ وہ اب آؤٹ ڈیٹیڈ ہیں۔ ‘‘

          یہاں  آؤٹ ڈیٹیڈ کا لفظ پر معنی ہے۔

          ’ وہ لوگ جو پیار و محبت سے  جینا چاہتے  ہیں  ‘ جو امن و آشتی کے  ماحول میں  سانس لینا چاہتے  ہیں  لیکن وہ اب گئے  وقتوں  کے  لوگ ہو گئے۔ وہ دقیانوسی ہیں۔ آج کے  دور کے  لئے  بے  معنی۔

           ذکیہ مشہدی کہانی لکھتے  لکھتے  اس ماحول سے  اوب کر زمانے  کے  بدلتے  ہوئے  رنگ کو دیکھ کر طنز کر رہی ہیں۔

          یہی طنزیہ لب و لہجہ وہ اس وقت اختیار کرتی ہیں  جب وہ صفیہ کو یہ

 بتانا چاہتی ہیں  کہ کاکی اور اماں  دونوں  بہنیں  رہیں۔ ان کے  رہنے  کی خبر بتاتے ہوئے  وہ بدا کی طبعی، سماجی اور اقتصادی زندگی کی عکاسی کر رہی ہیں۔

          ’’ کچے  پکے  بچے  پیدا کرتی، ان کی شادی بیاہ، زچگی اور جاپے  نپٹاتی، آمدنی کو ربر کی طرح کھینچنے  کی کوشش کرتی، اپنی صحت کی طرف سے  لا پرواہ۔۔۔  دونوں  نہیں  رہیں۔ ‘‘

           ایسا خوبصورت تجزیہ ذکیہ مشہدی نہیں  ان کے  اندر کی عورت کر رہی ہے، جو متوسط اور غریب گھرانوں  میں  زندگی بسر کر رہی عورتوں  کے  مسائل سے  پوری طرح واقف ہے۔

           یہاں  قاری کے  لئے  یہ بات بھی ذہن میں  رکھنا ضروری ہے  کہ یہاں  ان لوگوں  کے  نہ رہنے  کا ذکر ہو رہا ہے  جو صحت مند سماجی قدروں  کی علم بردار تھیں۔

          ایسے  میں  جب صفیہ کو پتہ چلتا ہے  کہ اس کی بچپن کی سہیلی بدا بھی مر گئی تو وہ ذکیہ مشہدی کے  لفظوں  میں یوں  محسوس کرتی ہے،جیسے  کسی نے  پھونک مار کر سارے  شہر کے  دیے  گل کر دیئے۔ ظاہر ہے  جب محبت کے  پیکر ہی موت جیسے  کالے  اندھیروں  کے  نوالے  بن جائیں گے  تو دیوالی کے  لاکھوں  دیے  جلتے  ہوئے  بھی ایسا لگے  گا جیسے  شہر بھر کے  دیے  گل ہو گئے  ہوں۔

          صفیہ ابھی تصور ہی تصور میں  اس شہر کے  اندھیروں  میں  بھٹک رہی تھی کہ کوئی اسے  بتاتا ہے  :

          ’’ سارا شہر جل گیا تھا پھوپھی۔ ‘‘

          اس جلے  ہوئے  شہر میں  بھٹکتی ہوئی صفیہ کالو کے  گھر پہنچتی ہے  تو اسے  پتہ چلتا ہے  کہ وہاں  کا ماحول جو اس کے  لئے  اپنا اپنا تھا، اب اجنبی اجنبی ہو گیا ہے۔ ایسے  صدمے  میں  وہ سمجھ ہی نہیں  پاتی کہ کالو، راجہ رام کب سے  ہو گیا؟

          اسی لئے  کالو کی ننھی سی لڑکی یہ سوچ کر حیران ہو رہی ہے  صفیہ اس کی بوا کیسے  ہو سکتی ہے۔ مگر ان بھاری لمحوں  میں  بھی ذکیہ مشہدی یہ نہیں  بھولتیں  کہ نفرتوں  کی وہ ناگن جس نے  کالو کو ڈس لیا ہے، اس کا زہر نئی نسل تک نہ پہنچے۔

          اس لئے  ذکیہ پر امید ہو کر لکھتی ہے۔

          ’’ مگر محبت کی مٹھاس کا ذائقہ اس کی سمجھ سے  پرے  نہیں  ہے۔۔۔  اس لئے  وہ صفیہ کو دیکھ کر مسکراتی ہے۔

          کہانی کے  اس موڑ پر اجنبی لا تعلقی کے  تمام احساسات زائل ہونے  لگتے  ہیں۔ اور یہی لڑکی جب اپنے  باپ کو بتاتی ہے  کہ۔۔۔

          ’’ پاپا۔ پا پا۔ امی ہماری بوا آ گئیں۔ ‘‘

           تو صفیہ کے  لئے  بدا زندہ ہو جاتی ہے۔

           بدا کو زندہ رہنا چاہئے۔

          آپسی محبت اور میل جول کے  ماحول میں  انسانی رشتے  استوار کرتی ذکیہ مشہدی کی یہ کہانی اردو افسانوی ادب میں  اضافہ ہے اور  ذکیہ مشہدی کی فنی قابلیت کا آئینہ دار۔

 ٭٭٭

 

آئینۂ رفتہ

اخلاق احمد دہلوی

_____________ابوالحسن نغمی

          میں  روز نامہ ’’ زمیندار ‘‘ لاہور میں  روزانہ فکاہی کالم لکھتا تھا اور حالات حاضرہ پر روزانہ ایک قطعہ نظم کرتا تھا۔ بالعموم ہفتے  میں  ایک مرتبہ قطعے  کے  بجائے  مکمل نظم لکھا کرتا تھا۔ چند روز کے  لئے  ایک ایسا وقت آیا کہ بازار سے  سفید کاغذ اور نیوز پرنٹ دونوں  غائب ہو گئے اور  اشاعت و طباعت کے  کار و بار میں  شدید پریشانیوں  کا سامنا تھا۔ ’’ زمیندار‘‘ میں  میری ایک نظم شائع ہوئی جس کا ایک شعر یہ تھا:

نہ کاغذ کی قلت کا احوال پوچھو

پریس میں  پڑی ہے  احوالِ محبت

           جس روز میری یہ نظم شائع ہوئی، اسی روز مجھے  کسی کام سے  ریڈیو اسٹیشن جانے  کا اتفاق ہوا۔ ریڈیو اسٹیشن کی بالائی منزل پر سردیوں  کی جاں  نواز دھوپ میں  چھت کی منڈیر پر شوکت تھانوی دھوپ سے  لطف اندوز ہو رہے  تھے۔ ان کے  برابر میں  ایک صاحب بیٹھے  تھے  جن کی شخصیت کی سب سے  نمایاں  چیز بالوں  سے  یکسر فارغ ان کا سر تھا۔ بالوں  سے  محروم کھوپڑیاں  تو ہمارے  گرد و پیش میں  ہمہ وقت موجود ہوتی ہی ہیں  مگر ان صاحب کا سر ان کے  جسم کے  تناسب سے  قدرے  چھوٹا تھا۔

           میں  نے  دور ہی سے  شوکت تھانوی کو اشارے  سے  سلام کیا تو انھوں  نے  کہا۔ ’’ نغمی یہاں  آؤ‘‘ میں  نزدیک گیا تو کہنے  لگے۔ ’’ نغمی یہ ہیں  اخلاق احمد دہلوی۔ آج کاغذ کی قلت پر تمہاری جو نظم ’’ زمیندار‘‘ میں  شائع ہوئی ہے، وہ انھیں  بہت پسند آئی ہے۔ ان کی اپنی ’’ کتابِ محبت‘‘ بھی اردو مرکز والے  ظہیر صاحب کے  پاس پڑی ہوئی ہے۔ ‘‘

          میں  نے  اخلاق صاحب کو سلام کیا، ہاتھ ملایا۔ نظم پسند کرنے  کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح ہمارے  مراسم کا افتتاح ہوا۔ پھر ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی ہندوستان سے  آئے  اور  ڈبلیو زیڈ احمد کے  گھر پر ایک محفل کا اہتمام ہوا۔ جوش صاحب اپنی رباعیاں  سنا رہے  تھے۔ اخلاق صاحب نے  جوش صاحب سے  فرمائش کرتے  ہوئے  کہاَ’’ وہ رباعی سنائیے  جس کا ایک مصرع یہ ہے  کہ۔۔۔ ‘‘

           اب جو اخلاق صاحب نے  مصرع سنایا وہ سرے  سے  رباعی کا مصرع تھا ہی نہیں۔ مجھے  دھچکا سا لگا کہ اخلاق احمد دہلوی ہونے  کے  باوجود اس شخص کو رباعی کی بحر کا شعور کیوں  نہیں  ہے ؟ جوش صاحب نے  اخلاق صاحب سے  کہا۔ ’’ یہ مصرع رباعی کا نہیں  ہے۔ ‘‘ اخلاق صاحب خاموش ہو گئے اور  جوش صاحب اپنی دوسری رباعیاں  سنانے  لگے۔

           پھر جب وہ ریڈیو میں  میرے  رفیق ہوئے، ان کی تحریر پر بھی اتفاقاً نظر پڑگئی وہ بلا شک و شبہ صاحبِ طرز انشاء پرداز تھے۔ چاہے  زمانہ ان کی قدر کرے  یا نہ کرے، نقاد ان کی طرف متوجہ ہوں  یا نہ ہوں  لیکن علمیت کی سطح پر ان کی اس طرح کی تربیت نہ ہو سکی جیسی کہ ہونا چاہئے  تھی۔ مثلاً اگر انھیں  کسی عورت کے  بارے  میں  یہ لکھنا ہو کہ وہ بڑی ضدی تھی تو وہ لفظ ضدی کو ہندوی انداز سے  ضدن کہنے  پر اصرار کرتے  تھے  مگر وہ ضدن کو ’’ ضداً‘‘ یعنی الف پر دو زبر لگانا ضروری خیال کرتے  تھے  لیکن یہ باتیں  نہایت درجہ معمولی ہیں اور  ان سے  ان کے  اس مقام و مرتبے  میں  کوئی فرق نہیں  پڑتا ہے  جو فطرت نے  انھیں  عطا کیا تھا۔

          اخلاق صاحب جوش ملیح آبادی کی شاعری اور لتا منگیشکر کی موسیقی کے  دل و جان سے  مداح تھے۔ صرف لطف کی خاطر ایک دن میاں  لطیف الرحمن نے  ڈیوٹی روم میں  اخلاق صاحب سے  کہا۔ ’’ جوش نے  لتا کے  بارے  میں  کیا خوب کہا ہے۔ ‘‘

          ’’ ارے  اچھا!! کیا کہا ہے ؟‘‘ اخلاق صاحب نے  فرطِ مسرت سے  مضطرب ہو کر پوچھا۔ میاں  صاحب نے  جوش کے  ایک شعر کے  پہلے  مصرعے  میں  رد و بدل کرتے  ہوئے  سنایا :

وہ گونجا نغمۂ شیریں  لتا کا

زمین و آسماں  خاموش خاموش

           اخلاق صاحب نے  فوراً ایک کاغذ پر یہ شعر لکھ لیا۔ یہ ۱۹۶۵ء سے  پہلے  کا زمانہ تھا اور ان دنوں  ریڈیو پاکستان سے  طلعت محمود، شمشاد بیگم، محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے  گانے  نشر ہوا کرتے  تھے۔

           دوسری مجلس کا وقت ہو چکا تھا۔ اخلاق صاحب فلمی گانوں  کے  ریکارڈوں  کا بوجھ اٹھا کر اسٹوڈیو کی طرف روانہ ہو گئے  تو چا چا ( میاں  صاحب کو ہر عمر کا شخص چا چا کہا کرتا تھا، ابھی پاکستانی معاشرہ انکل کے  ولایتی لفظ سے  آلودہ نہ ہوا تھا ) نے  کہا۔ ’’ ارے  کوئی جا کے  اسے  روکو، یہ مردِ ناداں  کہیں  تحریف شدہ شعر نشر نہ کر دے۔ ‘‘ ابھی یہ غور و خوض ہو ہی رہا تھا کہ اخلاق صاحب کو کس پیرائے  میں  سمجھا یا جائے  کہ اخلاق صاحب نے  آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہ شعر نشر بھی کر دیا کہ دیکھئے  حضرتِ جوش ملیح آبادی نے  لتا کو کس انداز سے  ہدیۂ تحسین پیش کیا ہے۔ جب اخلاق صاحب اسٹوڈیو سے  باہر نکلے  تو چا چا اس قدر جھینپے  ہوئے  تھے  کہ مارے  شرم سے  اخلاق صاحب سے  آنکھ نہیں  ملا رہے  تھے۔ ڈیوٹی روم کے  احباب بہت شرمندہ تھے۔ اخلاق صاحب کی سمجھ میں  کچھ نہیں  آ رہا تھا کہ آخر یہ ڈیوٹی روم کا ماحول بدلا بدلا سا کیوں  ہے ؟

          ’’ کیا کوئی خاص بات ہوئی ہے ؟‘‘ اخلاق صاحب نے  پوچھا۔

          ’’ کچھ نہیں  اخلاق صاحب، جو ہونا تھا،وہ ہو گیا۔ ‘‘ سبز آنکھوں  والے  ڈیوٹی آفیسر مسعود چشتی نے  کہا اور قدرے  توقف سے  یہ بھی کہا۔ ’’ اب جو ہو گا، دیکھا جائے  گا۔ ‘‘

           ’’ مگر آخر ہوا کیا؟‘‘

           ’’ اخلاق صاحب آپ نے  جوش کا جو شعر ابھی نشر کیا ہے، وہ ہے  تو جوش ہی کا مگر وہ یوں  ہے  کہ :

وہ گونجا نغمۂ شیرینِ جاناں

زمین و آسماں  خاموش خاموش

          ’’ مگر چا چا۔۔۔  ‘‘

          ’’ بھئی مجھے  جس طرح یاد تھا، اسی طرح سنا دیا۔۔۔ لیکن اس میں  شک نہیں  کہ یہ شعر لتا ہی کے  لئے  کہا گیا ہے۔ ‘‘ چا چانے  سخن سازی سے  کام لیتے  ہوئے  کہا۔

           وقت گزر گیا، کسی نے  کوئی توجہ نہ کی، بقول چشتی جو ہونا تھا، ہو گیا۔

          جگت بازی اور فقرے  چست کرنے اور  بات سے  بات پیدا کرنے  میں  اخلاق صاحب کا کوئی جواب نہ تھا۔ ایک دن اقبال بانو نے  پوچھا۔ ’’آپ کا مذہب کیا ہے ؟ ہم نے  تو سنا ہے  کہ آپ دہریے  ہیں ؟‘‘

          ’’ بھئی ہم تو مادہ پرست ہیں۔ ‘‘ اخلاق صاحب نے  مادی کو تشدید کے  بغیر جنس کے  مفہوم میں  کہا اور اقبال بانو سمیت تمام محفل کشتِ زعفران بن گئی۔

          لاہور کی کسی پارٹی میں  شراب بھی موجود تھی جنھیں  بادہ نوشی کا شوق تھا، وہ پی رہے  تھے  مگر عشرت رحمانی مے  نوشی میں  شریک نہ تھے، وہ صرف کھا رہے  تھے اور  اخلاق صاحب کو یہ گمان ہو رہا تھا کہ یہ شخص تو بس کھائے  چلا جا رہا ہے۔ اخلاق صاحب کیف و مستی کی کیفیت میں  اٹھے اور  عشرت صاحب کے  پاس جا کر کھڑے  ہو گئے۔

          عشرت صاحب نے  پوچھا۔ ’’ فرمائیے ؟‘‘

           اخلاق صاحب نے  نشیلی آواز میں  کہا۔ ’’ اے  عشرت رحمانی اس رزق سے  موت اچھی۔ ‘‘

           وہ اس مصرعے  کو بار بار دہراتے  رہے اور  آس پاس بیٹھے  ہوئے  لوگ قہقہے  لگا رہے  تھے۔ عشرت رحمانی ریڈیو پاکستان لاہور کے  اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر  تھے  اگر وہ کینہ پرور ہوتے  تو وہ اخلاق صاحب کے  خلاف کسی نہ کسی پیرائے  میں  انتقامی کاروائی بھی کر سکتے  تھے  مگر ان کے  لطف اور مہر و محبت میں  ذرا بھی فرق نہ آیا۔ ہائے  کیا زمانہ تھا، کیا لوگ تھے۔

           ایک دن اخلاق صاحب نے  شوکت تھانوی سے  کہا۔ ’’ شوکت صاحب میری بیوی آگرے  کی ہیں۔ اچھی خاصی اردو بولتی ہیں  مگر تولئے  کو مؤنث بولتی ہیں۔ مثلاً یوں  کہتی ہیں کہ الگنی سے  تولیا گر پڑی ہے  تو جس دن وہ تولئے  کو مؤنث بولتی ہیں، وہ تمام دن اچھا نہیں  گزرتا۔ بار بار غصہ آتا ہے  کہ سمجھانے  کے  باوجود یہ خاتون باز کیوں  نہیں  آتیں اور  تولئے  کو مؤنث بول کر میری طبیعت کو کیوں  مکدر کرتی ہیں  تو شوکت صاحب آپ اپنی نئی بیگم کے  ساتھ کس طرح گزر بسر کرتے  ہوں  گے ؟‘‘

          ’’ اخلاق صاحب میں  تو یہی سوچتا ہوں  کہ اگر میری بیگم قصور میں  پیدا ہوئی تو اس میں  ان کیا قصور ہے؟‘‘ شوکت تھانوی نے  جواب دیا۔

          اخلاق صاحب قیامِ پاکستان سے  پہلے  کے  اناؤنسر تھے۔ ۳  جون ۱۹۴۷ء کی شام تمام عمر ان کے  حافظے  پر محیط رہی۔ وہ اپنی تصنیف’’ اپنا بیان‘‘ میں  لکھتے  ہیں  :

          ’’ وہ بھی کیا شام تھی! ایک دنیا ہمہ تن گوش تھی۔ میں  آل انڈیا ریڈیو میں  اناؤنسر ہو چکا تھا اور ۳!جون ۱۹۴۷ء کی شام قائدِ اعظم قیام پاکستان کا اعلان فرمانے  دلی ریڈیو اسٹیشن اسٹوڈیو میں  تشریف فرما ہوئے۔ تقریریں  تو اس شام لارڈ ماؤنٹ بیٹن، پنڈت جواہر لال نہرو اور بلدیو سنگھ کی بھی تھیں  لیکن سب سے  زیادہ اہمیت قائدِ اعظم کی تقریر کو حاصل تھی کیوں  کہ اسی تقریر پر اس کا دار و مدار تھا کہ ہندوستان میں  مسلمانوں  کی جیت ہوئی یا ہار۔ سب مقرر یعنی لارڈ ماؤنٹ بیٹن،پنڈت جواہر لال نہرو، سردار بلدیو سنگھ مع سردار ولبھ بھائی پٹیل جو اس وقت کی مسلم لیگ اور کانگریس کی ملی جلی عارضی حکومت کے  وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیر داخلہ تھے اور  مولانا ابو الکلام آزاد بھی مقررہ وقت سے  آدھ گھنٹہ پہلے  آل انڈیا ریڈیو دلی کے  اسٹوڈیو میں  پہنچ گئے  لیکن قائدِ اعظم کا دور دور تک پتہ نہ تھا اور سب ان کی آمد کے  منتظر تھے۔ جوں  جوں  وقت گزرتا جا رہا تھا، اس وقت کے  آل انڈیا ریڈیو کے  ڈائریکٹر جنرل لکشمن اور ڈائریکٹر آف نیوز بھنوٹ کا اضطراب و اضطرار بڑھتا جاتا تھا اور پہلی تقریر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے  نشر کرنی شروع بھی کر دی تو بھنوٹ صاحب نے  عالم بد حواسی میں ۱۰ اورنگ زیب روڈ نئی دلی یعنی قائد اعظم کی کوٹھی پر ٹیلی فون کر دیا۔ وہاں  جب قائدِ اعظم بولے  توآل انڈیا ریڈیو کے  ڈائریکٹر آف نیوز کے  ہاتھ سے  ٹیلی فون کا رسیورچھوٹ گیا۔ قائدِ اعظم ٹیلی فون پر اپنا نام ’’ مسٹر جناح ‘‘لیتے  تھے اور  ان کی آواز میں  وہ رعب اور دبدبہ اور گرج تھی کہ اچھے  اچھوں  کے  چھکے  چھوٹ جاتے۔ چنانچہ بھنوٹ صاحب کے  ہاتھ سے  ریسیور چھوٹ جانا کوئی اچنبھے  کی بات نہ تھی۔ دوبارہ ٹیلی فون کیا تو ان کے  سکریٹری نے  بتایا کہ قائدِ اعظم ابھی تیار ہو رہے  ہیں۔ غرضیکہ ماؤنٹ بیٹن کی تقریر کے  بعد پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر شروع ہو گئی جس کے  بعد قائدِ اعظم کی تقریر تھی لیکن ان کے  وہاں  پہنچنے  کے  کہیں  آثار نہ تھے  جب جواہر لال کی آدھی تقریر ہو چکی تو قائدِ اعظم کی گاڑی گیٹ میں  داخل ہوتی ہوئی نظر آئی لیکن اس گاڑی میں  ان کے  سکریٹری تھے اور  یہ معلوم کرنے  آئے  تھے  کہ قائد اعظم کی گاڑی پارک کہاں  ہو گی؟ یعنی ان کے  حسبِ منصب جگہ موٹر کھڑی کرنے  کی ہے  یا نہیں ؟ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور سردار ولبھ بھائی پٹیل بھاگے  ہوئے  سٹوڈیو سے  باہر آئے اور  اس وقت کے  وائسرائے  لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے  کے  ایچ خورشید کو بتایا کہ ’’ ان کی گاڑی میرے  کار کے  برابر پارک ہو گی۔ ‘‘ تب دوسرے  گیٹ سے  کے  ایچ خورشید صاحب باہر چلے  گئے اور  قریب دو منٹ بعد دو گاڑیاں  اندر آئیں۔ ایک میں  قائدِ اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے  ڈرائیور آزاد اور دوسری میں  پروفیسر احمد شاہ بخاری جو آل انڈیا ریڈیو کے  ڈائریکٹر جنرل کے  عہدے  سے  فارغ ہو کر واپس گورنمنٹ کالج لاہور اپنی پروفیسری کی پوسٹ پر جا چکے  تھے۔ کے  ایچ خورشید صاحب قائد اعظم کے  سکریٹری، بڑے  بخاری صاحب ( یعنی احمد شاہ بخاری) نے  پیچھے  کی کار سے  اتر کر قائد اعظم کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور قائدِ اعظم، محترمہ فاطمہ جناح کے  ساتھ اپنی کار سے  باہر تشریف لائے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پٹیل نے  ان کا استقبال کیا۔ وقت کا ایسا کمال کا حساب رکھا تھا کہ جیسے  ہی قائدِ اعظم اسٹوڈیو میں  داخل ہوئے  لاؤڈ اسپیکر پر جواہر لعل کی تقریر کے  آخری الفاظ نشر ہو رہے  تھے۔ ’’ جے  ہند‘‘ جواہر لعل کے  منھ سے  جے  ہند کا نعرہ سن کر قائدِ اعظم کے  چہرے  کا رنگ متغیر ہو گیا اور جو سامنے  آیا اور اس وقت اتفاق سے  سامنے  آنے  والا یہ خاکسار تھا، قائدِ اعظم نے  مخاطب فرما کر خاصے  غصے  میں  ارشاد کیا۔ ’’ سینڈ ماؤنٹ بیٹن‘‘ اور میں  نے  سارا پروٹوکول بالائے  طاق رکھ کر ماؤنٹ بیٹن سے  کہا۔ ’’ یور ایکسی لینسی مسٹر جناح وانٹس یو۔ ‘‘ اور ماؤنٹ بیٹن صاحب یہ سنتے  ہی بھاگے، قائدِ اعظم کے  اسٹوڈیو کی طرف۔ بعد میں  معلوم ہوا کہ جے  ہند کا نعرہ جواہر لعل نہرو صاحب کے  مسودے  میں  نہیں  تھا، یہ انھوں  نے  جوشِ خطابت میں  اپنی طرف سے  لگا دیا تھا جس پر قائدِ اعظم برافروختہ ہو گئے اور  ماؤنٹ بیٹن نے  قائدِ اعظم کو بھی مسودے  سے  باہر بولنے  کی اجازت دے  دی لیکن قائدِ اعظم نے  ایک فقرہ اپنی تقریر کے  شروع میں  بھی بڑھا دیا اور وہ فقرہ یہ تھا۔ ’’ مجھے  یہ پہلا موقع ملا ہے  کہ میں  اپنی قوم کو اس میڈیم کے  ذریعے  مخاطب کر سکوں۔ ‘‘ اس پر ہندو پریس نے  بہت لے  دے  کی کہ مسودے  میں  جو کچھ تحریر تھا، اس کے  علاوہ مسٹر جناح کیا بولے۔ قائدِ اعظم نے  جو آخر میں  ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کہا، وہ بھی مسودے  میں  نہیں  تھا لیکن یہ جواہر لعل نہرو کے  ’’جے  ہند ‘‘ کا جواب تھا۔

          اخلاق احمد دہلوی ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کہتے  ہوئے  لاہور آ گئے۔ لاہور آ کر وہ بہت خوش تھے  مگر ایک دن جب وہ لاہور کے  ایک دانشور کے  گھر رسم و راہ بڑھانے  کے  سلسلے  میں  پہنچے  تو ان دانشور صاحب نے  اتنا بھی لحاظ نہ کیا کہ یہ تو گھر آئے  ہوئے  مہمان ہیں، ان کی خاطر تواضع اور مدارات تو میزبان کا اخلاقی فرض ہے  بلکہ وہ پیشانی پر بل ڈال کے  بولے۔ ’’ صاحب آپ لوگ جو ہجرت کر کے  یہاں  آ رہے  ہیں  تو اس سے  ہمارے  پنجاب کا کلچر برباد ہو جائے  گا۔ ‘‘

           اخلاق صاحب موقع ہی پر کیش پے  منٹ کر دینے  کے  عادی تھے۔ انھوں  نے  دانشور صاحب کو جواب دیتے  ہوئے  کہا:

           ’’ صاحب، ہم جب تک دلی میں  رہے،ہم نے  پنجاب کے  ایگری کلچر کی بے  حد تعریف سنی لیکن یہ بات میری فہم سے  بالا ہے  کہ ہم لوگوں  کے  آنے  سے  پنجاب کا کلچر کیوں  کر برباد ہو جائے  گا۔ پنجاب میں  تو ہزاروں  سال سے  لوگ باہر سے  آتے  رہے  ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو آج آپ اپنے  اس ڈرائنگ روم کے  بجائے  چھپر کے  نیچے  تہہ بند، لمبا کرتا اور پگڑی باندھ کر منجھی پر بیٹھ کر لسی پی رہے  ہوتے۔ یہ جو آپ شلوار پہنے  ہیں، یہ آپ کو افغانستان والوں  نے  دی ہے اور  یہ جو آج صوفی تبسم صاحب کا تمباکو والے  پان کے  بغیر دو گھڑی بھی گزارا ممکن نہیں، یہ اردو بولنے  والوں  کا اثر ہے۔ ‘‘

           پھر ایک ریڈیو پاکستان کے  ایک افسر اعلیٰ نے  اخلاق صاحب کو اپنے  دفتر میں  بلایا، تشریف رکھنے  کو کہا اور پھر ارشاد فرمایا۔ ’’ اخلاق صاحب، آپ ابھی ریڈیو پاکستان میں  نئے  نئے  ملازم ہوئے  ہیں اور  پاکستان بھی نیا نیا قائم ہوا ہے، لہٰذا اگر شروع ہی میں  تبدیلی کر دی جائے  تو مناسب ہو گا ورنہ جتنے  دن گزرتے  جائیں  گے، تبدیلی کرنا مشکل ہو جائے  گی۔ ‘‘

          ’’ فرمائیے؟‘‘

          ’’ اخلاق صاحب، آپ میری بات کا برا تو نہیں  مانیں  گے ؟‘‘

          ’’ جی امید تو یہی ہے  کہ آپ جیسے  نفیس آدمی کی بات کا برا نہ مانوں  گا۔ ‘‘

          ’’ یہ تو میری گزارش ہے  کہ آپ اپنے  نام کے  ساتھ یہ ’’ دہلوی‘‘ لکھنا ترک کر دیں اور  ریڈیو پر بھی صرف اخلاق احمد ہی کہا کیجئے۔ یہ میرا حکم نہیں  بلکہ نا چیز کا پر خلوص مشورہ ہے۔ ‘‘

          ’’ آپ جو اتنا پر خلوص مشورہ دے  رہے  ہیں  تو اس میں  بھی یقیناً کوئی حکمت ضرور ہو گی، ذرا مجھے  بھی اس حکمت سے  آگاہ فرمائیے۔ ‘‘

          ’’ دیکھئے  دہلی تو اب بھارت میں  رہ گیا ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر  ریڈیو پاکستان سے  دہلوی کہتے  ہوئے  کانوں  کو کچھ اچھا نہیں  لگتا۔ اب یہ دہلی شہلی کے  قصہ کو چھوڑیئے۔ ‘‘

          ’’ میں  اس کے  لئے  بالکل تیار ہوں۔ ‘‘ اخلاق صاحب نے  نہایت پر سکون لہجے  میں  کہا۔ ’’ لیکن میں  تنہا نہیں  ہوں اور  بھی لوگ ہیں  جو ہندوستان کے  شہروں  کی نسبتوں  کو اپنے  نام کا جز بنائے  ہوئے  ہیں۔ پہلے  ان سے  توذرا کہہ کے  دیکھئے  مثلاً ریڈیو پاکستان کے  ایک افسرِ اعلیٰ ہیں  جو حفیظ ہوشیار پوری ہیں، ایک اور عہدے  دار ہیں  جو شاد امرتسری ہیں، پھر ذرا ابو الاثر حفیظ جالندھری سے  بھی کہئے  کہ جالندھر تو اب ہندوستان میں  رہ گیا ہے،لہٰذا اب ریڈیو سے  جب بھی ان کا کلام نشر ہو گا تو ان کے  نام نامی اسم گرامی کے  ساتھ ’’ جالندھری‘‘ نہیں  کہا جائے  گا۔ پھر دیکھئے، وہ کیا فرماتے  ہیں اور  جناب والا دہلی تو وہ شہر ہے  کہ جس کی عظمت اور دلآویزی کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے  رومۃ الکبریٰ میں  بھی یاد رکھا کہ وہ ہمارے  بر عظیم کے  مسلمانوں  کی عظمتِ رفتہ کا نشان ہے۔ کیا جالندھر اور ہوشیار پور بھی دہلی کے  مرتبے  کے  شہر ہیں ؟‘‘

          مشورہ دینے  والے  افسرِ اعلیٰ اخلاق صاحب کے  استدلال سے  ساکت تو ہو گئے اور  ’’ بندۂ گستاخ ‘‘ کا منھ تو نہ بند کر سکے  لیکن اخلاق صاحب اپنی ان باتوں  کے  سبب ریڈیو پاکستان میں  پھل پھول نہ سکے۔ بہت ہی قلیل تنخواہ پر ملازم ہوئے  تھے۔ سال پیچھے  تنخواہ میں  پانچ دس روپے  سالانہ ترقی ہوتی رہی۔

          اخلاق احمد دہلوی جو قائدِ اعظم کی عظمتِ کردار اور ان کی قیادت کے  مداح تھے، اپنے  وطن موعود ’’ پاکستان‘‘ کے  یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر شدید یاسیت اور رنج و غم کا شکار ہو گئے۔ ہندوستان سے  لوگ ہجرت کر کے  پاکستان آئے  تو انھوں  نے  اپنی کھوئی ہوئی جائدادوں  کے  عوض میں  کلیم کئے اور  اپنے  نام جائدادیں  الاٹ کرائیں  لیکن اخلاق صاحب نے  یہ ماجرا بھی دیکھا کہ جن لوگوں کا مہاجرت سے  مطلق کوئی تعلق نہ تھا جو سات پشتوں  سے  مقامی تھے، انھوں  نے  بھی بڑی بڑی جائدادوں  پر قبضے  کر لئے۔ بے  چارے  اخلاق صاحب اس میلے  میں  اکیلے  تھے۔ وہ چند روز اچھرے  میں  سید ابو الاعلیٰ مودودی کے  بڑے  بھائی سید ابو الخیر مودودی کے  مکان کے  ایک حصے  میں  پڑے  رہے۔ بعد ازاں  تمام عمر کرایے  کے  مکانوں  میں  رہتے  رہے اور  انھوں  نے  کبھی ایک بالشت بھی زمین الاٹ کرانے  کی کوشش نہ کی۔

          پاکستان آ کر تمام عمر عسرت اور تنگ دستی کا شکار رہے۔ چند خوشحال دوستوں  کا ایک حلقہ تھا جن سے  وہ ہر مہینے  ادھار لے  کر اپنے  اخراجات پورے  کیا کرتے  تھے اور  پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتے  ہی ایک مذہبی فریضے  کی طرح نہایت پابندی کے  ساتھ ادھار لی ہوئی رقم واپس کر کے  شکر گزاری کا اظہار کیا کرتے  تھے  جب کہ دفتر میں  کچھ ایسے  احباب بھی تھے  جو قرض لی ہوئی رقم کو اپنی آمدنی کا حصہ سمجھا کرتے  تھے اور  کبھی واپس نہ کیا کرتے  تھے۔ میں  جب ایسے  لوگوں  کی مثالیں  دیا کرتا تھا تو اخلاق صاحب ہنس کر کہا کرتے  تھے۔ ’’ واہ، بھلا یہ کیسے  ممکن ہے  کہ میں  پہلی تاریخ کو اپنے  دوستوں  سے  قرض لی ہوئی رقم واپس نہ کروں، بس یہی تو وہ تکنیک ہے  جس کے  سہارے  میں  جی رہا ہوں۔ اگر یہ اعتبار بھی اٹھ گیا تو پھر سر وایؤ(survive)کیسے  کر سکوں  گا؟‘‘

          وہ تمام عمر چند گنے  چنے  لوگوں  سے  ہر مہینے  ادھار لیتے  رہے  مگر انھوں  نے  کسی افسرِ اعلیٰ سے  ایک مرتبہ بھی اشارتاً کنایتاً یہ نہ کہا کہ ’’ سر اس تنخواہ میں  تو کسی طرح بھی گزر اوقات ممکن نہیں  ہے۔ اس مرتبہ میری سالانہ تنخواہ میں  اگر پچاس روپے  اضافہ ہو جائے  میں  آپ کا بے  حد شکر گزار ہوں  گا۔ ‘‘ چنانچہ بس وہی دس روپے  سالانہ ترقی ہوتی رہی اور دوستوں  سے  ادھار لینے  کا سلسلہ قائم رہا۔

           وہ مجھ سے  ریڈیو پاکستان کے  ایک اسٹاف آرٹسٹ کا ذکر کیا کرتے  تھے  جو ایک افسرِ اعلی کے  دربار میں  پسندیدہ نظر سے  دیکھے  جاتے  تھے۔ ایک مرتبہ جب سالانہ ترقی کا وقت آیا تو افسرِ اعلیٰ نے  ان سے  کہا۔ ’’ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تمہاری تنخواہ میں  کتنا اضافہ کر دیا جائے  کہ تم مطمئن ہو جاؤ؟ اور ہاں  ذرا خوب سوچ بچار کے  جواب دینا۔ ‘‘

          ’’ حضور اگر میری تنخواہ میں  ستّر روپے  اضافہ کر دیا جائے  تو پھر انشاء اللہ زندگی آسائش سے  بسر ہو گی اور بال بچے  حضور کو دعائیں  دیں  گے۔ ‘‘

          ’’ نہیں  بھئی یہ نہیں  ہو سکتا۔ ‘‘ افسرِ اعلیٰ نے  جواب دیا۔

          اور اسٹاف آرٹسٹ کے  چہرے  پر افسردگی چھا گئی۔

          ۔۔ ’’ سنو، ہم نے  تمہاری تنخواہ میں  ایک سو سّتر روپے  کا اضافہ کر دیا ہے۔ ‘‘ افسرِ اعلیٰ اس طرح نوید جان فزا سناتے  تھے  جیسے  کوئی  ہفت اقلیم کا شہنشاہ کسی بھکاری کو  ہفت  ہزاری کا منصب عطا کر رہا ہو۔

          مجھے  محمود سرحدی کا ایک قطعہ یاد آ رہا ہے۔ دوسرا مصرع جس طرح مجھے  یاد رہ گیا ہے، وہ یقیناً درست نہیں  ہے  لیکن بہر حال یہ قطعہ اخلاق احمد دہلوی پر پوری طرح صادق آتا ہے  کہ :

ہم نے  اقبال کا کہا مانا

ان کی باتوں  پہ کان دھرتے  رہے

جھکنے  والوں  نے  رفعتیں  پائیں

ہم خودی کو بلند کرتے  رہے

           وہ ایک طویل عرصے  تک ریڈیو پاکستان لاہور سے  سامعین کے  خطوں  کا جواب دیتے  رہے۔ واقعہ یہ ہے  کہ انھیں  خطوں  کا جواب دینے  کا سلیقہ آتا تھا۔ ان کی اردو بے  عیب اور سننے  والوں  کے  لئے  صحتِ زبان کا عمدہ نمونہ تھی۔ ریڈیو پر ان کی گفتگو سن کر الفاظ کا درست تلفظ سیکھا جاتا تھا۔ وہ ریڈیو پاکستان لاہور کے  مثالی اناؤنسر تھے۔ خطوں  کے  جواب دینے  کا انھیں  نہ تو کوئی الاؤنس ملتا تھا، نہ اس فریضے  کی ادائیگی پر ان کی تنخواہ میں  کوئی معقول اضافہ کیا گیا۔ پھر بھی وہ اس فریضے  کی ادائیگی سے  بہت خوش تھے اور  بہت ہی جی جان سے  خطوں  کا جواب دیا کرتے  تھے  لیکن ریڈیو کے  افسروں  نے  ان کی اس مسرت کو بھی ان سے  چھین لیا اور کسی اور ہی اناؤنسر کو یہ کام سونپ دیا۔ اب جو دوسرے  اناؤنسر نے  خطوں  کے  جواب دینا شروع کئے  تو وہ اخلاق صاحب والی بات ہی نہ تھی۔ اخلاق صاحب خطوں  کے  جواب اس طرح دیا کرتے  تھے  جیسے  وہ ایک ہی سامع سے  نزدیک ہو کر چہرہ بہ چہرہ پر لطف باتیں  کر رہے  ہیں۔

           ان کی جگہ پر جو دوسرے  اناؤنسر صاحب خطوں  کا جواب دینے  پر مامور ہوئے، وہ کچھ اس طرح خطوں  کا جواب دیا کرتے  تھے  جیسے  کسی جلسہ گاہ میں  لاکھوں  فرزندان توحید سے  لاؤڈ سپیکر پر خطاب کیا جاتا ہے۔ یہاں  امریکہ میں  ٹی وی کے  مشہور نیوز ریڈر جم وینس نے  اپنی خبر خوانی کی پچیسویں  سالگرہ کے  موقع پر  انٹرویو دیتے  ہوئے  کہا تھا کہ ’’ میں  خبریں  سناتے  وقت ہمیشہ تصور کرتا ہوں  کہ میری خبریں  لاکھوں  افراد نہیں  فقط ایک اور بس ایک ہی شخص جو میرے  بالکل قریب بیٹھا ہے، میری خبریں  سن رہا ہے۔ ‘‘ اخلاق صاحب کو یہ ہنر کسی نے  سکھایا نہ تھا، ان کی فطرت سلیم نے  اس سلسلے  میں  ان کی رہنمائی کی تھی۔

          واقعات و حوادث کا مختلف طبیعتوں  پر مختلف اثر مرتب ہو تا ہے۔ بھلا ایسا کون مہاجر ہو گا، جسے  ہجرت کے  بعد پاکستان کے  مقامی باشندوں  کے  تمسخر، طنز و استہزا کا نشانہ نہ بننا پڑا ہو۔

           مہاجر پنجاب میں  وارد ہوئے  تو انھیں  تلئیر، مڑوا اور ہندستوڑا کہا گیا، سرحد اور بلوچستان میں  پہنچے  تو پان خور اور دال خور کا خطاب ملا۔ سندھ میں  آئے  تو ’’ پناہ گیڑ‘‘ کہلائے۔ بقول مجید لاہوری:

ہم ہوئے  تم ہوئے  کہ میر ہوئے

سندھ میں  سب ’ پناہ گیر‘ ہوئے

           طنز و تمسخر کا سلسلہ اپنی جگہ پر چلتا رہا اور مقامی لوگوں  کی مہر و محبت، لطف و کرم اور تعاون و ہمدردی کی لا زوال مثالیں  ساتھ ساتھ قائم ہوتی چلی گئیں۔ مقامی باشندوں  نے  مہاجروں  کو اپنی زمینوں  ہی پر نہیں  اپنے  دلوں  میں  بھی بسایا، آپس میں  بیاہ شادیاں  بھی کیں۔ ایک دوسرے  کی گیت اور رسمیں  بھی اپنائیں۔ ترک وطن کرنے  والوں اور  اجنبی زمینوں  پر بسنے  والوں  کے  ساتھ سینکڑوں  سال سے  یہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور  یہی ہوتا رہے  گا۔ اس صورت حال سے  پریشان ہونے  کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔

          اخلاق احمد دہلوی بڑے  جوش اور ولولے  سے  پاکستان آئے  تھے۔ یہ سوچ کر آئے  تھے  کہ پاکستان میں  سب پاکستانی کہلائیں  گے  لیکن یہاں  لاہور میں  جب ایک نام نہاد دانشور نے  ان سے  کہا کہ آپ لوگ جو یہاں  تشریف لائے  ہیں  تو آپ کے  آنے  سے  ہمارے  پنجاب کا کلچر برباد ہو جائے  گا اور پھر جب ریڈیو پاکستان کے  افسر نے  انھیں  مشورہ دیا کہ وہ اپنے  نام کے  ساتھ ’’ دہلوی‘‘ کہنا اور لکھنا چھوڑ دیں  تو ان کا تو سر ہی گھوم گیا اور ان کے  سر کا سائز تو پہلے  ہی سے  چھوٹا تھا۔ انھوں  نے  یہ نہ سوچا کہ چند ’’ منفی الافکار‘‘ لوگوں  کی مریضانہ فکر سے  بھلا ہوتا ہی کیا ہے۔۔۔  لیکن ہوا یہ کہ اخلاق صاحب کے  وہ خیالات جو ’’ نو بالغ‘‘ لڑکوں  میں  تیرہ سال سے  انیس سال کی عمر تک بالعموم ہوا کرتے  ہیں، عود کر آئے۔ کسی مفکر نے  کیا خوب کہا ہے  کہ اگر بیس (۲۰) سال کی عمر سے  پہلے  آپ فلسفۂ اشتراکیت سے  متاثر نہیں  ہوئے  ہیں  تو آپ کے  سینے  میں  دل نہیں  ہے اور  اگر بیس (۲۰) سال کے  بعد بھی آپ فلسفۂ اشتراکیت سے  متفق ہیں  تو پھر آپ کی کھوپڑی میں  دماغ نہیں  ہے۔

          جب میں  اخلاق صاحب سے  متعارف ہوا تو میں  نے  انھیں  کارل مارکس کا گرویدہ پایا۔ ایک دن وہ بڑے  وثوق سے  کہنے  لگے  کہ ’’ اب تو پاکستان میں  کمیونزم آ کے  رہے  گا۔ ‘‘ ان کی یہ بات سن کر پروفیسر سید وقار عظیم نے  مسکراتے  ہوئے  کہا ’’ کمیونزم سب سے  پہلے  سو ویت یونین میں  آنا چاہئے  کیوں  کہ وہاں  تو عدم مساوات اپنے  نقطۂ عروج پر ہے۔ ‘‘

          اخلاق صاحب خواہ کچھ بھی تھے  لیکن وہ کمیونسٹ تو قطعاً نہ تھے۔ گرد و پیش کے  ماحول سے  ان کا دل جل جل کر کباب ہو چکا تھا۔ اس لئے  وہ اپنے  ڈپریشن کے  اظہار کے  لئے  اشتراکیت کا دم بھرتے  تھے۔ مذہب بلکہ مذاہب سے  بیزاری کا اظہار کرتے  تھے۔ ہندوستان سے  دائمی مفارقت کی وجہ سے  انھیں  دلی کے  ’’ اوراق مصور‘‘ کوچے  بہت یاد آتے  تھے اور  ہندوانہ رسم و رواج بھی بہت یاد آتے  تھے۔ ایک دن مجھ سے  کہنے  لگے۔ ’’ میں  کمیونسٹ تو ضرور ہوں  لیکن میرے  ہاں  ماسکو کا راستہ بنارس ہوتے  ہوئے  جاتا ہے۔ ‘‘ ان کی یہ باتیں  محض لطفِ کلام کی خاطر تھیں، عملاً وہ کچھ بھی نہ تھے۔ سچ پوچھو تو وہ ’’ ذات کے  براڈ کاسٹر‘‘ تھے۔ اندھیرے، اجالے،سوتے  جاگتے، چلتے  پھرتے، حاضر غائب،وہ بس براڈ کاسٹر ہی تھے۔

          ان کی جواب طلبی ایک دن ریڈیو اسٹیشن کے  ریجنل ڈائریکٹر آغا بشیر احمد کے  دفتر میں  ہو گئی۔ بات یہ ہے  کہ اناؤنسمنٹ ہر چند کہ سکرپٹ کی صورت میں  ہوا کرتے  تھی لیکن وہ سب مقرر جملے  ہوا کرتے  تھے  جو دوسرے  اناؤنسروں  کی طرح اخلاق صاحب کو بھی حفظ ہو چکے  تھے  مگر ہوا یوں  کہ ایک طویل عرصے  کے  بعد ان کی ڈیوٹی صبح کے  بجائے  شام کی ہو گئی اور صرف اتنا ہی نہیں  بلکہ یہ بھی ہوا کہ جو ریڈیو انجینئر صبح کی ٹرانسمشن میں  آیا کرتا تھا، وہ بھی شام کی ڈیوٹی دینے  لگا۔ غرض یہ کہ اخلاق صاحب شام کے  وقت بھی ذہنی طور پر صبح کی کیفیت میں  تھے۔ اب جو سرخ بتی آئی تو انھوں  نے  سکرپٹ دیکھے  بغیر اناؤنسمنٹ فرمائی۔ ’’ یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے، صبح کے  سات بجے  ہیں۔ تلاوتِ کلام پاک سنئے، پہلے  اردو میں  پھر انگریزی میں۔ ‘‘ تلاوت کلام پاک نہ تو اردو میں  ہوئی نہ انگریزی میں  بلکہ حسبِ معمول ریڈیو پاکستان سے  شکیل احمد نے  خبریں  سنانا شروع کر دیں اور  ان کے  بعد پھر حسبِ معمول انگریزی میں  خبریں  ہوئیں۔

          آغا بشیر احمد نے  لکھ کر نہیں، یوں  ہی اپنے  دفتر میں  بلا کر پوچھا کہ ’’ اخلاق صاحب، کل شام کیا ہوا تھا؟‘‘

          ’’ بات یہ ہے  کہ آغا صاحب کہ وہ کمبخت صبح والا انجینئر بھی عین سامنے  بیٹھا تھا اور میں  بھی ایک زمانے  کے  بعد صبح کے  بجائے  شام کی ڈیوٹی پر آیا تھا، سرخ بتی آئی تو میں  صبح والے  مقرر فقرے  بولنے  لگا اور پھر جلد ہی کنفیوژ ہو گیا۔ ‘‘

          آغا صاحب ہنسنے  لگے  لیکن چند ہی روز بعد ایک اور واقعہ ہو گیا۔ ہر چند کہ یہ براڈ کاسٹ تو نہیں  ہوا لیکن تعلق اس کا بھی آغا بشیر سے  تھا اور اخلاق صاحب نے  انھیں  دوبارہ ہنسنے  پر مجبور کر دیا۔ ہوا یوں  کہ پاکستان کے  ایک نہایت معروف سیاست داں  شدید طور پر بیمار ہوئے،کئی دن تک ان پر نزع کی کیفیت طاری رہی۔ ایک دن لاہور میں  افواہ پھیل گئی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان دنوں  جب بھی کوئی اہم واقعہ ہوتا تھا تو لوگ کثرت سے  ریڈیو اسٹیشن فون کر کے  تصدیق طلب کرتے  تھے۔ مثلاً رمضان کی انتیسویں  ۲۹تاریخ کی شام کو لوگ فون کر کے  پوچھا کرتے  تھے  کہ چاند ہوا کہ نہیں ؟ جہاں  کہیں  ریڈیو سننے  کی سہولت نہ ہوتی تھی، وہاں  سے  کرکٹ کے  ٹیسٹ میچوں  کا سکور معلوم کرنے  کے  لئے  بکثرت فون کالز آیا کرتی تھیں  چنانچہ اب جو یہ افواہ پھیلی کہ ان سیاسی رہنما کا انتقال ہو گیا ہے  تو ڈیوٹی روم والوں  کو بہت بھاری ڈیوٹی دینا پڑ گئی۔ ٹیلی فون ریسیور کو ہینگر پر رکھنا نا ممکن تھا۔ ادھر فون کو ہینگر پر رکھا، ادھر پھر گھنٹی بجنے  لگی۔ فون کالز کا جواب اخلاق صاحب دے  رہے  تھے۔ ان کا یہ حال تھا کہ وہ فون کرنے  والے  کا سوال سنے  بغیر ہی از خود کہتے  تھے۔ ’’ ابھی نہیں  مرے  ‘‘ اور یہ کہہ کر ریسیور رکھ دیتے  تھے۔ ’’ ابھی نہیں  مرے، ابھی نہیں  مرے، ابھی نہیں  مرے، ابھی نہیں  مرے۔ ‘‘

          ایک مرتبہ جیسے  ہی انھوں  نے  ریسیور اٹھایا، ان کے  بولنے  سے  پہلے  آواز آئی۔ ’’ اخلاق میں  آغا بشیر احمد بول رہا ہوں۔ ‘‘

          ’’ اوہ،معاف کیجئے  گا۔ جی آغا صاحب، فرمائیے۔ ‘‘

          ’’ یہ آپ نے  ابھی نہیں  مرے  کی کیا رٹ لگا رکھی ہے ؟‘‘

          ’’ جی بات یہ ہے  کہ صبح سے  کئی گھنٹے  ہو چکے  ہیں  لوگ۔۔۔  کے  بارے  میں  پوچھ رہے  ہیں  کہ ان کا انتقال ہوا کہ نہیں، آپ فرمائیے  آپ نے  کیسے  یاد فرمایا؟‘‘

          ’’ معلوم تو مجھے  بھی یہی کرنا تھا کہ ان کا انتقال ہوا کہ نہیں ؟‘‘

          ’’ جی ابھی نہیں  مرے۔ ‘‘ اخلاق صاحب نے  جواب دیا اور آغا صاحب ہنسنے  لگے۔

           اخلاق صاحب میں  ہنسنے  ہنسانے  کی صلاحیت مصائب و آلام کے  باوجود تا حیات باقی رہی الفاظ سے  کھیلنے اور  فقرہ چست کرنے  میں  ان کی توانائیاں  ہمہ وقت صرف ہوتی رہتی تھیں۔ واقعی یہ ایک تخلیقی عمل تھا جس سے  وہ خود بھی بے  حد لطف اندوز ہوا کرتے  تھے۔

           ایک خاتون قیمتی ملبوسات اور خوشبوؤں  میں  بسی ہوئی لگژری کار میں  ریڈیو اسٹیشن آیا کرتی تھیں۔ وہ نہایت کسی امیر کبیر تاجر کی داشتہ تھیں۔ انھیں  کار میں  آتا دیکھ کر انھوں  نے  مجھ سے  کہا۔ ’’ نغمی صاحب، ملاحظہ فرمایئے۔ داشتہ آید بکار۔ ‘‘

          ڈراما آرٹسٹ ایم اے  رشید کا سر غیر معمولی طور پر بہت بڑے  سائز کا تھا۔ ان کے  سر کو اخلاق صاحب ’’ سر سید‘‘ کہا کرتے  تھے۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں  ایم اے  رشید کے  بڑے  بھائی ایم اے  لطیف تھے  جو اپنے  نام کے  ساتھ بی اے  لکھنا ضروری خیال کرتے  تھے  یعنی ان کا مکمل نام تھا ایم اے  لطیف بی اے۔ اخلاق صاحب کہا کرتے  تھے  کہ ملاحظہ فرمائیے، یہ تو بی اے  سے  پہلے  ہی ایم اے  ہو گئے۔

          آل انڈیا ریڈیو کے  زمانے  کی باتیں  کرتے  ہوئے  انھیں  اسرار الحق مجاز کی باتیں  بہت یاد آیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ اخلاق صاحب کو ساتھ میں  لے  کر کسی کام سے  اسٹیشن ڈائریکٹر کے  دفتر میں  گئے۔ وہ اس وقت اس حد تک مطالعے  میں  غرق تھے  کہ انھوں  نے  ان دونوں  کو سر اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ یہ دونوں  ان کے  بالمقابل کرسیوں  پر بیٹھ گئے۔ وہ بدستور پڑھنے  میں  منہمک رہے۔ مجاز نے  اخلاق صاحب سے  کہا۔ ’’ شاید کچھ پڑھ رہے  ہیں۔ ‘‘ یہ فقرہ سن کر وہ چونک اٹھے اور  معذرت خواہ ہوئے۔ اخلاق صاحب اس لطیفے  کو سنا کر کہا کرتے  تھے  کہ مجاز کے  فقرے  میں   لفظ ’’ شاید‘‘ میں  سارا لطف ہے۔

           میرا جی کے  بھائی لطیفی ریڈیو پاکستان لاہور کے  ڈراما آرٹسٹ تھے  اور  ان کی صورت اپنے  بھائی سے  اس قدر مشابہ تھی کہ لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے  تھے۔ مجاز لاہور آئے  تو ریڈیو اسٹیشن بھی آئے۔ اخلاق صاحب نے  لطیفی کی طرف اشارہ کرتے  ہوئے  مجاز سے  کہا۔ ’’ کیا انھیں  دیکھ کر آپ کو کوئی یاد آیا؟‘‘ مجاز لطیفی کو دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ انھیں  یوں  محسوس ہوا جیسے  میرا جی زندہ ہو کر قبر سے  اٹھ کر آ گئے  ہیں۔ مجاز لطیفی کے  نزدیک گئے اور  انھوں  نے  قدیم داستانوں میں  لکھے  ہوئے  ایک فقرے  کو ادا کرتے  ہوئے  حیرت زدہ ہو کر کہا۔ ’’اے  شخص تو کون ہے ؟‘‘

          مجاز کا یہ لطیفہ بھی میں  نے  اخلاق صاحب ہی سے  سنا ہے  کہ ایک صاحب کا قد چار فٹ دس انچ تھا اور وہ کسی ٹریڈ یونین کے  لیڈر تھے۔ ان کا تعارف کراتے  ہوئے  کسی نے  مجاز سے  کہا۔ ’’ یہ مزدوروں  کے  قائدِ اعظم ہیں۔ ‘‘

           وہ صاحب خوش ہو کر چہک کر بولے۔ ’’ جی ہاں، یہ درست ہے۔ لوگ اب مجھے  بھی قائدِ اعظم کہنے  لگے  ہیں۔ ‘‘

          مجاز نے  کہا ’’ ارے  پہلے  قد آدم تو ہو لیجئے۔ ‘‘

          اخلاق صاحب مرحومین میں  مجاز کو بہت یاد کرتے  تھے اور  زندوں  میں  شان الحق حقی کی باتیں  بکثرت کیا کرتے  تھے۔ وہ حقی صاحب کو ’’ چاند میاں ‘‘ کہا کرتے  تھے  کہ ان کے  گھر میں  ان کی یہی عرفیت تھی۔ وہ حقی صاحب کی خود فراموشیوں  کے  لطیفے  سنا کر مجھے  بہت محظوظ کیا کرتے  تھے۔ ایک مرتبہ حقی صاحب اپنی بیگم کے  ہمراہ لاہور آئے۔ قیام ماڈل ٹاؤن میں  کسی رشتے  دار کے  ہاں  تھا،دونوں  میاں  بیوی اخلاق صاحب سے  ملنے  ریڈیو اسٹیشن آئے۔ پر لطف باتیں  ہوئیں۔ دونوں  رخصت ہونے  کے  لئے  اٹھے۔ ارادہ تھا کہ اخلاق صاحب ان دونوں  کے  ساتھ ریڈیو اسٹیشن کے  گیٹ تک جائیں  گے اور  فٹ پاتھ پر کھڑے  ہو کر کسی ٹیکسی کو اشارے  سے  روک کر ماڈل ٹاؤن چلے  جائیں  گے  لیکن اتفاق دیکھئے  کہ وہ تینوں  جہاں  کھڑے  تھے، عین اسی ٹھکانے  پر بس اسٹاپ بھی تھا اور ادھر کیفیت یہ تھی کہ حقی صاحب کراچی میں  روزانہ بس میں  سفر کرنے  کے  اس حد تک خوگر تھے  کہ وہ ذہنی طور پر بس کی آمد کے  ساتھ ہی اس میں  لپک کر سوار ہو جانے  کے  جی بھر کے  عادی ہو چکے  تھے۔ اب وہ اپنے  خیالات کے  ا تھاہ سمندر میں  ڈوبے  ہوئے  اخلاق صاحب سے  باتوں  میں  محو تھے اور  قطعی طور پر بھول چکے  تھے  کہ وہ اس وقت کراچی میں  نہیں، لاہور میں  ہیں اور  انھیں  اپنے  بس کا نہیں  ٹیکسی کا انتظار ہے  جس میں  بیٹھ کر انھیں  اپنی بیگم کے  ہمراہ ماڈل ٹاؤن جانا ہے۔ چنانچہ جیسے  ہی ایک بس آئی، وہ لپک کر سوار ہو لئے اور  انھوں  نے  اپنی بیگم اور اخلاق صاحب کو ہاتھ ہلا کر ’’ خدا حافظ‘‘ کہا اور اس سے  قبل کہ وہ اخلاق صاحب کے  چیخنے  چلانے  پر دھیان دیں، بس چل پڑی۔ ان کی بیگم اس لئے  خاص طور پر بے  حد پریشان تھیں  کہ حقی صاحب کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کا قیام ماڈل ٹاؤن میں  ہے  لیکن یہ نہیں  معلوم تھا کہ کس بلا ک میں  ہے اور  کس نمبر کی کوٹھی میں  انھیں  پہنچنا ہے۔

           اخلاق صاحب بتایا کرتے  تھے  کہ خود فراموشی میں حقی صاحب کے  والد ان سے  بھی بڑھ کر تھے  جن کے  ذاتی کتب خانے  میں  مستقل طور پر ایک  پاڑ جیسی چیز استادہ تھی اور اس سے  متصل قدیم کتب اور مخطوطات کی الماریاں  تھیں، وہ کسی نہ کسی الماری سے  اپنی مطلوبہ کتاب نکال کر پاڑ پر بیٹھے  بیٹھے  یا لیٹے  لیٹے  کتاب پڑھنے  میں  ایسے  محو ہو جاتے  تھے  کہ انھیں  دنیا و ما فیہا کی خبر نہ رہتی تھی اور بھوک کے  باوجود کھانے  پینے  کی بھی خواہش نہ رہتی تھی۔ حویلی کے  ملازم پتیلیاں اور  ہانڈیاں  لے  کر پاڑ کے  نیچے  آتے  تھے اور  ڈھکن ہٹا کر اشتہا انگیز کھانوں  کی خوشبو ہوا میں بکھیرتے  تھے  کہ اس طرح شاید کھانے  کا خیال آ جائے۔۔۔ اور  وہ پاڑ سے  اتر کر نیچے  آ کر کھانا کھالیں۔

           اخلاق صاحب، چاند میاں  ( شان الحق حقی) اور جوش ملیح آبادی سے  بیک وقت محبت کرتے  تھے۔ حالاں  کہ دونوں  ہی ایک دوسرے  کے  شدید مخالف تھے۔ وہ جوش کو اردو کا سب سے  بڑا شاعر تسلیم کرتے  تھے اور  مبالغہ آمیز باتیں  کیا کرتے  تھے اور  کہا کرتے  تھے  کہ جوش کے  مقام و مرتبے  کا تعین مستقبل قریب میں  ممکن ہی نہیں  ہے۔ ان کی عظمت کے  تعین کے  لئے  ابھی خاصا وقت درکار ہے۔

           آل انڈیا ریڈیو دہلی سے  منسلک فنکاروں  میں  وہ آوارہ صاحب کو یاد کر کے  کہا کرتے  تھے  ’’ ان جیسا محفل آرا اور داستان گوئی کے  فن میں  منفرد بزرگ اب کہاں ؟‘‘ وہ بتایا کرتے  تھے  کہ آل انڈیا ریڈیو میں کوئی خاتون آرٹسٹ آوارہ صاحب کو اتنی اچھی لگتی تھیں  کہ انھوں  نے  ہیرے  کے  جڑاؤ زیور انھیں  تحفے  میں دیئے  تھے۔ کہا کرتے  تھے  کہ ’’ بھلا اب ہے  کوئی ایسا سکرپٹ رائٹر جو قدر دانی کے  طور پر کسی خاتون آرٹسٹ کو ہیرے  موتی کے  زیور لا کر دے  ‘‘۔

           میں  پہلے  ذکر کر چکا ہوں  کہ اخلاق صاحب شیروانی کے  ساتھ انگریزوں  کے  عہد حکومت کا وہ خاکی ہیٹ پہنا کرتے  تھے  جو دھوپ سے  بچنے  کے  لئے  پہنا جاتا تھا۔

          اخلاق احمد دہلوی کا کسی مذہب سے  کوئی سر و کار نہ تھا۔ بعض اوقات وہ مذہب پر اتنی شدید نکتہ چینی کرتے  تھے  کہ وہ ناقابل برداشت ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں  نے  ان سے  اعلان کئے  بغیر ایک طرح کا ترک تعلق سا کر لیا اور بول چال بند کر دی لیکن کچھ دنوں  کے  بعد تعلقات معمول پر آ گئے۔ وہ مذہبی تو نہ تھے  لیکن بلا شک و شبہ وہ با اصول آدمی تھے۔ انھوں  نے  کبھی کسی سے  بد عہدی نہ کی، وعدہ خلافی نہ کی۔ ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ کو کبھی شکایت کا موقع نہ دیا۔ انھوں  نے  خود کو کبھی اپنے  متعین کردہ مقام بلند سے  گرنے  نہیں  دیا۔ عسرت اور تنگ دستی ان کا لائف اسٹائل بن چکی تھی لیکن انھوں  نے  غیرت اور خود داری کو ہمیشہ قائم رکھا۔ بہت کم لوگوں  کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ انھیں  قرض دیں  جس طرح کوئی مذہبی فریضہ ادا کرتا ہے، اس طرح وہ اپنے  وعدے  کے  عین مطابق قرض واپس کر دیا کرتے  تھے۔

          ان میں  رشک و حسد نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ دوسروں  کی کوئی بات پسند آ جائے  تو دل کھول کر تعریف کیا کرتے  تھے۔ میرے  مزاحیہ خاکوں  پر مبنی ایک پروگرام نشر ہوا، دوسرے  دن ملاقات ہوئی تو بے  حد تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ’’ اتنے  اچھے  خاکے  لکھنے  والے  کی تنخواہ کم از کم دو گنا زیادہ ہونا چاہئے۔ ‘‘انھوں  نے  اپنے  بارے  کبھی نہ کہا کہ’’ یار میری تنخواہ بہت کم ہے۔ ‘‘ نہ دوستوں  سے  کہا، نہ کبھی کسی اعلیٰ افسر سے  کہا۔

           دوستوں  کو ہنسانے  کی خاطر محض تفنن طبع کے  طور پر ازدواجی زندگی کا بڑا مذاق اڑایا کرتے  تھے۔ کہا کرتے  تھے  کہ ’’ یار یہ تو بس حسرت ہی رہی کہ کبھی کوئی ایسا شخص ملتا جس کی بیوی مستقل طور پر بیمار نہ ہوتی۔ بیوی اور بیماری دونوں  لازم ملزوم ہیں۔ ‘‘

          ایک دن ان کے  ایک دوست ان سے  ملنے  آئے، وہ اس وقت ڈیوٹی روم میں  بیٹھے  تھے۔ ان کے  دوست نے  سرگوشیوں  میں  اپنی روداد غم سنائی اور رونا شروع کر دیا اور بتایا کہ ان کی بیوی انھیں  چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔ اخلاق صاحب نے  بلند آواز سے  کہا۔ ’’ یار تم کتنے  خوش نصیب ہو کہ تمہاری بیوی بھاگ گئی، میری بیوی تو مجھے  کسی قیمت پر بھی چھوڑنے  کو تیار نہیں۔ ‘‘ مگر یہ سب ہنسنے  ہنسانے  کی باتیں  تھیں  ورنہ حقیقت یہ ہے  کہ وہ اپنی بیگم سے  بے  حد محبت کرتے  تھے۔۔۔  لیکن محبت کرنے  کا مطلب یہ نہ تھا کہ حسین عورتوں  کے  حسن و جمال کا ان کے  مذاقِ سلیم پر کوئی عکس ہی نہ پڑتا تھا۔ ایک سراپا’’ صباحت‘‘ خاتون کے  بارے  میں  وہ اکبر الٰہ آبادی کی رباعی کا مصرع پڑھا کرتے  تھے۔ ’’ روشن دلِ عارف کی طرح ہے  بدن اس کا ‘‘

           ایک خوشبو میں  بسی ہوئی نازنین زہرہ جبین اسٹوڈیو کے  کاریڈور میں  برق رفتاری سے  آ رہی تھیں، بھولے  سے  ٹکر ہو گئی، بے  ساختہ خاتون نے  ’’ آئی یم ویری سوری‘‘ کہا تو اخلاق صاحب نے  فوراً جواب دیا۔ ’’ بٹ آئی ایک تھینک فل ٹویو۔ ‘‘ وہ خاتون ہنسنے  لگیں اور  انھوں  نے  کہا :

"I have never received such compliment.”

          ’’ چھیڑ خوباں  سے  چلی جائے  اسدؔ‘‘ کے  دائرے  سے  باہر کبھی کوئی  بات سننے  میں  نہ آئی۔ چھیڑ چھاڑ کے  سلسلے  میں  مجھے  ایک خاتون یاد آ گئیں جنھیں  اخلاق صاحب اکثر چھیڑا کرتے  تھے۔ خاتون کی کل تنخواہ ڈھائی تین سو روپے  ماہوار تھی مگر ان کا بیٹا بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ اپنے  بیٹے  کو پانچ سو روپے  ماہوار بھیجا کرتی تھیں۔ اخلاق صاحب طنز ملیح کے  طور پر کہا کرتے  تھے  ’’ بھئی کس قدر سلیقے  والی خاتون ہیں، کل تین سو روپے  ماہوار تنخواہ ہے۔ اسی میں  سے  پانچ سو روپے  ہر مہینے  اپنے  بیٹے  کو بھیجا کرتی ہیں۔ ‘‘ اس جملے  میں  جو ’’ اسی میں  سے ‘‘ والا جز تھا، اس کی دھار بہت تیز تھی۔ اس جملے  کو سن کر ڈیوٹی روم کے  تمام احباب تو قہقہہ لگاتے  تھے  مگر وہ خاتون اخلاق صاحب کو کوسنے  لگتی تھیں۔ ’’ اللہ کرے  تم مر جاؤ۔ آدھی رات کو تمہارا جنازہ اٹھے۔ ‘‘

          میں  نے  کوسنے  والی خاتون سے  پوچھا کہ ’’ تم جب بھی اخلاق صاحب کو کوستی ہو، ہمیشہ جنازہ اٹھنے  کا وقت آدھی رات مقرر کرتی ہو، اس میں  بھلا کیا مصلحت ہے ؟‘‘

          ’’ ہمیں  نئیں  مالوم ( معلوم) ہم نے  بڑی بوڑھیوں  کو اسی طرح کوستے  سنا ہے۔ ‘‘ انھوں  نے  جھنجھلا کے  جواب دیا۔

          ’’ میں  بتاتا ہوں۔ ‘‘ اخلاق صاحب نے  وضاحت کرتے  ہوئے  کہا۔ ’’ بھئی جب آدھی رات کو جنازہ اٹھے  گا تو اس میں  شریک ہونے  والوں  کی تعداد ہی کتنی ہو گی۔ گنتی کے  چند ہی لوگ شریک ہوں  گے۔ ‘‘

           ہائے  کیا کالی زبان تھی اس گوری عورت کی!!!چند سال ہوئے  میں  پاکستان گیا تو میرا بے  حد پیارا دوست ناصر قریشی مجھے  ملا۔ ریڈیو کے  مرحوم دوستوں  کا ذکر چھڑ گیا۔ اخلاق صاحب کا ذکر آیا تو ناصر نے  بتایا کہ اخلاق صاحب کا جنازہ بہت رات گئے  اٹھا تھا اور اس میں  ناصر قریشی سمیت کل تین یا چار لوگ شریک تھے۔ اس قدر کم لوگوں  کو دیکھ کر گور کن ڈر گیا۔ اس نے  پوچھا بھی کہ موت کس طرح واقع ہوئیَ کہیں  آپ لوگ مجھ سے  کوئی غلط کام تو نہیں  لے  رہے  ہیں ؟اخلاق صاحب کے  بیٹے  نے  گورکن سے  اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ سول سروس کے  اعلیٰ افسر ہیں، موت بالکل قدرتی طور پر ہوئی ہے، ڈرنے  کی کوئی بات نہیں۔

          ناصر مجھے  یہ بتانے  سے  قاصر رہا کہ ایسا کیوں  ہواَ آہ دہلی کے  کوچۂ چیلان کا بلبلِ ہزار داستان، شیریں  مقال و خوش بیان اپنے  قفس عنصری سے  پرواز کر گیا۔ ریڈیو پاکستان کو اتنا مہذب، اتنا شائستہ، اتنی دلنواز اردو بولنے  والا اناؤنسر اب کبھی نہ ملے  گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

٭٭٭

ماخذ

http://www.tahreerenav.com/

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید