FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تحریر نو

شمارہ ۱۴

مدیر ______________ظہیر انصاری

حصہ دوم

 

قتیلِ مسدس ___بسمل اعظمی

_________________رؤف خیر

          مسدس کا فارم اردو شعر و ادب میں  زیادہ تر کربلائی واقعات کو نظم کرنے  کے  لئے  مختص ہو کر رہ گیا تھا۔ مگر علامہ اقبال نے  اسے  مشرف بہ الہام کیا اور شاہکار دنیا کو دیئے۔ ویسے  اقبال سے  اک ذرا پہلے  خواجہ الطاف حسین حالی جیسے  نابغۂ روزگار شاعر نے  ’’ مدر و جزر اسلام‘‘ کے  ذریعے  مسدس کو وقار بخشا ورنہ یہ فارم یکسانیت کا شکار ہو کر بے  روح ہو چکا تھا۔ حالی نے  اپنی شاہ کار نظم کے  ذریعے  مسدس کو نئی زندگی عطا کی۔ پھر اقبال نے  بانگِ درا میں  ’’ ہمالہ ‘‘ سے  لے  کر ’’ شکوہ، جواب شکوہ‘‘ تک مسدس میں  کئی جدید نظمیں  کہہ کر اپنی پہچان قایم کی۔

           جناب بسمل اعظمی بھی مسدس کو محبوب رکھتے  ہیں۔ ان کی تقریباً تمام نظمیں  اسی مسدس سے  ان کی شیفتگی کی مظہر ہیں۔ البتہ انھوں  نے  کسی خاص بحر کو اپنے  اوپر لازم نہیں  کر لیا۔ جیسے  خوں  نابۂ دل ہے :

آج رک رک کر چل رہی ہے  ہوا        کیا ہوا کچھ بتا اے  بادِ صبا

اتنی مغموم ہو گئی ہے  صبا         کیا کوئی زخم پھر سے  تازہ ہوا

کس کی فرقت ستا رہی ہے  آج

 یاد ماضی کی آ رہی ہے  آج

اور نظم ’’مرد مومن ‘‘بھی مسدس ہی کی ہیئت میں  ہے  :

اٹھو مرے  عہد کے  جیالو      تم اپنی لغزش لو اب سنبھالو

جو گر پڑے  ہیں  انھیں  اٹھالو   متاعِ فکر و نظر بچالو

یہی ہے  سچ مچ شعارِ مومن

مزاجِ مومن، وقارِ مومن

اور کہیں  کہیں بسمل اعظمی نے  مسدس کو غنائیت سے  بھر دیا ہے  :

یہ صبح نو کا  تھا سماں    گئے  تھے  ہم جہاں  جہاں

سبھی ہمارے  مدح خواں        کوئی نہیں  تھا بد گماں

اسی میں   دل بہل گیا

                         ہو اکا رخ بدل گیا

( ہوا کا رخ)

          اسی مسدس کے  فارم میں  اردو کی جو تعریف کی ہے  وہ حق ہے  :

دورِ قلی میں  جس کی حسیں  ابتدا ہوئی   دلی کے  رنگ ڈھنگ سے  بھی آشنا ہوئی

پھر کوچۂ اودھ کی حسیں  دلربا ہوئی        آخر مریضِ شعر و سخن کی دوا ہوئی

شیدائی اس کے  حسن کا سارا جہان ہے

اردو ہے  جس کا نام ہماری زبان ہے

گویا بسمل شعر و سخن قتیلِ مسدس ہے۔ جناب بسمل کو مسدس کا فارم اس قدر مرغوب  و محبوب ہے  کہ ہدیہ خلوص بھی اسی اسلوب میں  پیش کرتے  ہیں  :

خدا کا شکر ہے  ایمان ہے  مرا کامل          ہیں  جتنے  اہل نظر ان کا ہے  کرم شامل

   مری نگاہوں  میں  ہر وقت ہے  مری منزل         کیا ہے  مجھ کو سلامت روی نے  ہی بسمل

شکار تیری اداؤں  نے  کل جہاں  کو کیا

زمیں  کو جیت لیا فتح آسمان کو کیا

          جناب بسمل نے  یہاں اپنا تخلص ذو معنی استعمال کیا ہے۔ شوکت علیگ کی ادارت میں  شائع ہونے  والے  ماہنامہ ’’ زاد سفر‘‘ کے  لئے  انھوں  نے  جو مسدس کہی ہے  وہ بھی بڑی معنی خیز ہو جائے  اگر اس پر سے  محدود کر دینے  والا نوٹ نکال دیا جائے  :

اردو ادب کا بیش بہا ترجمان ہے           اسلوب فکر و فن کا یہی پاسبان ہے

ہر شخص مطمئن ہے  بہت خوش گمان ہے   زادِ سفر رسالۂ اردو زبان ہے

اوراقِ زندگی کا مصور یہی تو ہے

حالاتِ روز و شب کا مبصر یہی تو ہے

           اردو کا ہر رسالہ خوش ذوق کے  لئے  زاد سفر ثابت ہو تا ہے۔

           جناب بسمل نے  مختلف مدرسوں  کے  لئے  ترانے  بھی لکھے  تو اسی مسدس میں۔ حتیٰ کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے  لئے  بھی ترانا لکھا تو اسی مسدس میں۔ البتہ اس کا آخری مصرع ٹیپ کا مصرع قرار پاتا ہے  :

قوم و ملت کے  لئے  خوابوں  کی تعبیر ہے     اس میں  پنہاں  نہالوں  کی تقدیر ہے

روحِ غالب ؔ ہے  یہ پیکر میر ؔ ہے  اس سے  اردو زباں  کی بھی تشہیر ہے

فکر آزاد ہے  اس پہ سایہ فگن

یہ ہے  اردو چمن یہ ہے  اردو چمن

          غرض کہ جناب بسمل نے  اس دور میں  مسدس جیسی ہیئت کو بھلا دیئے  جانے  سے  بچا لیا ___جس طرح ایک مردہ سنت کو زندہ کرنے  پر سو شہیدوں  کے  ثواب کی بشارت ہے  اسی طرح ایک از کار رفتہ ہیئت کو حیات نو بخشنے  کا صلہ بھی انھیں  ملنا چاہئے اور  پھر ایسے  بدعات سے  پر دور میں  جہاں  ہائیکو، ماہئے، ثلاثی، آزاد غزل، نثری غزل،تنکا بلکہ یک مصرعی نظموں  کی ہر طرف بہتات ہے۔

           یہ ساری بدعات در اصل شعراء کی تساہلی پسندی کی مظہر ہیں۔ مسدس جیسی پابند نظم کہنے  کے  لئے  حوصلہ Staminaچاہئے  جب کی رونے  چلانے  کا مقصد بھی پیش نظر نہ ہو۔ جناب بسمل نے  اس ہیئت میں  جو نمونے  چھوڑے  ہیں  ان کی صلابت سخن کے  غماز ہیں۔

          ایک مشکل ہیئت میں  جب انھوں  نے  سلامت روی دکھائی ہے  تو غزل تو ان کے  لئے  بائیں  ہاتھ کا کھیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ دو مصرعوں  میں  بھی بسمل صاحب نے  بہت کچھ رکھ دیا ہے  :

دوریاں اور  بڑھتی جاتی ہیں

جب کوئی درمیاں  نہیں  ہو تا

نہ سوچا تھا کہ وہ ایسا کریں  گے

بھری محفل میں  بھی رسوا کریں  گے

بکھر رہے  ہیں  یہ اوراقِ زندگی ان کو

سمیٹ لو کہ یہاں  آندھیوں  کا موسم ہے

کوئی جلوہ نمائی کر رہا ہے

خود اپنی جگ ہنسائی کر رہا ہے

ملی جن کی بدولت اس کو منزل

انھیں  سے  بے  وفائی کر رہا ہے

           یہ وہ خوش ذوق جو آج تک غزل کو عورتوں  کی باتیں  یا عورتوں  سے  باتیں  کرنے  تک محدود رکھتے  ہیں  انھیں  کوئی اور در کھٹکھٹانا چاہئے  کہ بسمل اعظمی کی غزل مختلف تجربات، مشاہدات اور احساسات کی ترجمان ہے۔ وہ بہو بیٹی کو نظم کا موضوع تو بناتے  ہیں  غزل میں  اسے  بے  نقاب کر کے  بے  وقار نہیں  ہو نے  دیتے۔ آپ خود دیکھ لیجئے۔ ٭٭٭

 

انٹرویو

…..اور میرا قلم رواں  دواں  ہے   ______پروفیسر محمد علی اثر

ڈاکٹر عرشیہ جبیں

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :ڈاکٹر صاحب آپ کے  تخلیقی سفر کی ابتدا کب اور کیسے  ہوئی؟

پروفیسر محمد علی اثر : آج میں  پیچھے  کی طرف مڑ کر اپنے  تخلیقی سفر کے  نقطہ آغا ز پر نظر ڈالتا ہوں  تو ذہن کے  پر دے  پر بے  شمار یادیں  پرچھائیوں  کی طرح اُبھر نے  لگتی ہیں۔ سب سے  پہلے  میں  اس بات کی وضاحت کر نا ضروری سمجھتا ہوں  کہ ادب میں  میرا پہلا عشق شاعری ہے۔ جب میں  ہا ئی اسکول کا طا لب علم تھا تو اس زمانے  میں  مجھے  نثر کے  مقابلہ میں  شاعری اچھی لگتی تھی۔ غزلوں  کے  اشعار اور نظموں  کے  بند بلا کاوش حافظہ میں  محفوظ ہو جاتے  تھے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ کی پہلی غزل اور پہلا مضمون کب اور کہاں  شائع ہوا اور آپ اپنے  کلام پر کس سے  اصلاح لیتے  تھے۔

پروفیسر محمد علی اثر :میری پہلی غزل اور پہلا مضمون ۱۹۷۰ء میں  کالج میگزین ’’انوار‘‘ میں  شائع ہوا۔ ابتدا ً  میں  نے  اپنے  اُستاد محترم احمد جلیس صاحب مرحوم کے  والد علامہ حیرت بدایونی سے  کلام پر اصلا ح لی اور پھر بعد کو جب شاذؔ تمکنت مرحوم ہمارے  اُردو کے  اُستاد مقرر ہوئے  تو کچھ عرصہ تک ان کو کلام دکھا تا رہا۔ جب میں  نے  ۱۹۷۲ء میں  آرٹس کالج عثمانیہ یو نیور سٹی کے  شعبۂ اُردو میں  داخلہ لیا تو یہاں  پروفیسر مغنی تبسم سے  مشورہ سخن کر تا رہا۔ ۷۳۔ ۱۹۷۲ء سے  میرا کلام ہندو پاک کے  رسائل و جرائد میں  چھپنے  لگا۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں ہ :زمانہ طالبِ علمی میں  آپ کے  مشاغل کیا تھے؟

پروفیسر محمد علی اثر :چھٹیوں  میں  میرا زیادہ تر وقت کتب خانہ آصفیہ میں  شعری مجموعوں اور  خصوصاً مجموعہ ہائے  غزل سے  محظوظ ہو تے  گذر تا تھا، پی۔ یو۔ سی اور پھر ڈگری کالج میں  داخلہ لینے  کے  بعد کالج کی بیت بازی ٹیم میں  میرا انتخاب عمل میں  آیا اور میں متعدد بین کلیاتی اور بین جامعاتی مقابلوں  میں  ٹیم پرائز کے  علاوہ انفرادی انعامات سے  بھی سر خ رو ہو ا۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :دکنی ادب پر آپ نے  متعدد کتابیں  لکھی ہیں اور  عصر حاضر کے  ممتاز ماہر دکنیات میں  آپ کا شمار ہوتا ہے۔ دکنی ادب سے  دلچسپی آپ کو کب اور کیسے  ہوئی؟

پروفیسر محمد علی اثر : ایم اے  میں  داخلہ لینے  کے  بعد مجھے  دکنی ادب سے  دلچسپی پیدا ہو ئی،اس کے  محرک پروفیسر غلام عمر خاں  تھے۔ مو صوف کے  درس و تدریس کا انداز اتنا پر کشش اور پر از معلومات ہو تا تھا کہ مجھے  تحقیق و تنقید، مخطوطہ شناسی اور تدوینِ متن سے  جنون کی حد تک لگا ؤ پیدا ہو گیا۔ اسی جنون نے  مجھے  مولوی احمد خاں  دُرویش مرحوم کے  آستانہ پر پہنچا یا۔ مو صوف کے  توسط سے  میں  نے  کئی ایک خانقاہوں  کی خاک چھانی، درویش صاحب کے  یہاں  موجود کئی مخطوطات کو پڑھنے  کی مشق کی اور مو صوف کی اجازت سے  متعدد جواہر گراں  ما یہ کو اپنی ڈائری میں  محفوظ بھی کر لیا۔ ایم اے  سال آخر میں  میں  نے  امتحان کے  ایک پرچے  کے  متبادل کے  طور پر ملک الشعرا ء غواصی کی شخصیت اور شاعری پر داد تحقیق دی۔ اس مقالہ کے  ممتحن پروفیسر ابو محمد سحر مرحوم تھے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ نے  ایم اے  کا امتحان کس سنہ میں اور  کس درجے  کامیاب کیا؟

پروفیسر محمد علی اثر :ایم اے  کا امتحان میں  نے  ۱۹۷۴ء میں  درجہ اول میں  کامیاب کیا تھا اور چونکہ ساری جامعہ میں  سب سے  زیادہ نشانات حاصل کیے  تھے۔ اس لئے  مجھے  عثمانیہ یونیورسٹی سے  رائے  جانکی پرشاد میموریل گولڈ میڈل اور اُتر پر دیش گورنمنٹ کی طرف سے  ایک گولڈ میڈل عطا کیا گیا۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ کی شادی کب اور کس سے  ہوئی۔

پروفیسر محمد علی اثر :میری شادی قا ری محمد عبدالعلی فا روقی والا جاہی کی دختر اول راحت سلطانہ عرف عطیہ فاروقی سے  ۳۰/اپر یل ۱۹۷۶ء کو ہو ئی، یوں  تو وہ مجھے  اپنے  ہم جماعت کی حیثیت سے  جانتی تھیں۔ لیکن شادی میں  دونوں  کے  والدین ہی کا عمل دخل تھا۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ کی شریک حیات کے  بارے  میں  کچھ بتائیں؟ کہا جاتا ہے  کہ ہر کامیاب آدمی کے  پیچھے  ایک عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ یقیناً آپ کی کامیابی کے  پیچھے  بھی آپ کی شریکِ حیات کا ہاتھ ضرور ہو گا۔

پروفیسر محمد علی اثر :بے  شک میری کامیابی کے  پیچھے  میری بیگم کا ہاتھ ضرور ہے۔ میرے  لکھنے  پڑھنے  میں  وہ میری بہت مدد کرتی ہیں اور آ پ تو جانتی ہیں  کہ لکھنے  پڑھنے  کے  سلسلے  میں جس پر سکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے  وہ انہی کی بدولت گھر میں  میسر آتا ہے۔ بچوں  کی تعلیم و تربیت اور تمام گھریلو  کاموں  کی ذمہ داری وہ خود اٹھا لیتی ہیں اور پھر آج کل میری طبیعت بھی ناساز رہتی ہے  ایسے  میں  ان کی مدد کے  بغیر کچھ کرنا  میرے  لیے  دشوار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ بحیثیت شاعر بھی ادبی حلقوں  میں  جانے اور  پہچانے  جاتے  ہیں۔ کیا طالب علمی کے  زمانے  ہی سے  آپ کی غزلیں  شائع ہوتی تھیں اور  آپ کیا اسی زمانے  سے  مشاعروں  میں  کلام سنانے  لگے۔

پروفیسر محمد علی اثر :جی ہاں  مختلف رسائل میں  میری غزلوں  اور نظموں  کی اشاعت کا سلسلہ اسی زمانے  میں  شروع ہوا اور یہی وہ زمانہ ہے  جب میں  اپنے  عہد کے  صف اول کے  حیدر آباد ی شعراء جیسے  مغنی تبسم، کنول پر شاد کنول، ندیم، ڈاکٹر علی احمد جلیلی، شا ذ تمکنت، وقار خلیل وغیرہ کے  ساتھ مشاعروں  میں  کلام سنایا کر تا تھا۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :کہا جاتا ہے  کہ اکثر دانشور جو محقق اور نقاد ہوتے  ہیں  وہ اپنی شاعری کو اہمیت نہیں  دیتے۔ کیا آپ کے  ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ رہا ہے؟

پروفیسر محمد علی اثر :جی نہیں۔ بقول شخصے ’’تحقیق کی قربان گاہ پر میں  نے  کبھی اپنی شاعری کو بھینٹ نہیں  چڑھا یا ‘‘۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’ملاقات‘‘۱۹۸۰ء میں  شالیمار پبلیکیشنز حیدرآباد سے  شائع ہوا اور دوسرا شعری مجموعہ ’’حرف نم دیدہ ‘‘  ٹامل ناڈو اُردو پبلیکیشنز،مدراس سے  ۱۹۹۰ء میں  شائع ہوا۔ اور تیسرا ’’خرابے  میں روشنی‘‘ حیدرآباد کے  نشاط پبلکیشنز سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ قلمی اور مطبوعہ کتابوں  کی اوراق گر دانی کر تے  کر تے  جب میں  تھک جاتا ہوں  تو شعرو سخن کی سر سبز و شا داب فضاؤں  میں  پہنچ کر تا زہ دم ہونے  کی کو شش کر تا ہوں، شعر کہنے  یا شاعری کا مطالعہ کر نے  کے  بعد میرا قلم پہلے  سے  زیادہ رواں  دواں  ہو جاتا ہے۔ مذکورہ تین شعری مجموعوں کے  علاوہ  حمد اور نعت کے  سلسلے  میں  حمد کا ایک مجموعہ’’ اَللّہ جلِّ جلا لہٗ ‘‘، نعت کا مجموعہ ’’ نعت رسول خدا‘‘ اور ایک مجموعہ حمد و نعت ( انوارِ خط روشن) شائع ہو چکا ہے۔ اس کے  علاوہ ایک مجموعہ قطعات حمد و منا جات اور رباعیات ’’قلم کی سجدہ ریزیاں ‘‘زیرِ طبع ہے۔ ان دنوں  طبعیت کا رجحان زیادہ تر حمدو نعت کی طرف ہے  تا ہم کبھی کبھی غز لیں  بھی کہہ لیتا ہوں  لیکن اس ۴۰ سالہ ادبی سفر میں  کو ئی بھی موڑ ایسا نہیں  آیا کہ میں  نے  اپنے  آپ کو صرف تحقیق و تنقید یا صرف شعر و سخن کے  دائرے  میں  مقید کیا ہو۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ نے  اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ کس کی نگرانی میں  مکمل کیا اور اس کا موضوع کیا تھا؟

پروفیسر محمد علی اثر :ایم اے  کے  طا لب علم کی حیثیت سے  میں  نے  ڈاکٹر غلام عمر خاں  کی نگرانی میں  دکنی ادب پر تحقیقی کام کا آغا ز کیا تھا۔ جس کا نقطہ عروج میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’دکنی غزل کی نشو و نما ‘‘ ہے  جو ۱۹۸۶ء میں  کتابی شکل میں  منظر عام پر آیا۔ اس کتاب کی اشاعت محکمہ تہذیبی اُمور حکومت آندھرا پر دیش کے  ما لی تعاون سے  عمل میں  آئی تھی۔ اس کو نہ صرف اُردو اکیڈیمی نے  انعام اول سے  سر فراز کیا تھا بلکہ اُتر پر دیش،ویسٹ بنگال اور بہار اُردو اکیڈیمی نے  بھی ادبی ایوارڈ عطا کیا۔ دکنی غزل اولاً مدراس یو نیور سٹی کے  نصاب میں  شامل ہو ئی اور پھر بشمول جامعہ عثمانیہ متعدد جامعات میں  سفارشی کتاب کی حیثیت سے  شامل نصاب کی گئی۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  : کیا ابتدا ہی سے  آپ چلنے  پھرنے  سے  معذور تھے  یا پھر کسی مرض کی وجہ سے  یہ بیماری لاحق ہوئی؟

پروفیسر محمد علی اثر :میں  بچپن سے  معذور نہیں  تھا مجھے  فٹبال اور دوسرے  کھیلوں  سے  دلچسپی تھی۔ ۱۹۸۶ء میں  جامعہ عثمانیہ کے  شعبۂ اُردو میں  ایسو سی ایٹ پروفیسر کے  عہدہ پر میرا انتخاب عمل میں  آنے  کے  بعد میں  اعصاب کی ایک بیماری میں  مبتلا ہو گیا اس کے  آغا ز کی کو ئی قطعی تاریخ نہیں  بتا ئی جا سکتی۔ مجھے  سیڑھیاں  چڑھنے، زیادہ دور تک چلنے، با جماعت نماز پڑھنے، بھا گنے  دوڑنے  میں  دشواری محسوس ہو نے  لگی۔ چند برسوں  تک اس بیماری کی صحیح تشخیص نہ ہو پا ئی اور جب تشخیص ہو ئی تو اس کانام Progressive Spinal Muscular Distorphy  بتا یا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ لا علاج بیماری ہے  جس کا امر یکہ میں  کسی حد تک علاج ممکن ہے۔ اس سلسلہ میں  نے  اپنے  برادر نسبتی محمد عبد الحئی ساجد فاروقی سے  رابطہ کر کے  بیماری کے  علاج اور سیر و تفریح کی غرض سے  راحت کے  ساتھ اپنے  زیر تعلیم بچوں  کو دادی کے  سپرد کر کے  ۷/جو لائی ۱۹۸۸ء کو وسکا نسن کے  شہرملواکی (MILWAUKE)پہنچا۔ اور چھے  مہینے  علاج و معالجہ کے  بعد اپنے  شہر واپس آ گیا۔ بیماری کے  علاج کے  سلسلہ میں  یہ سفر بے  سود ثابت ہوا۔ یہاں  کے  ڈاکٹروں  نے  بتا یا کہ آپ نے  امر یکہ جا کر نہ صرف سفرِ خرچ برباد کیا بلکہ چند نئی بیماریوں  کو خریدا بھی ہے۔ امر یکہ کے  ڈاکٹروں  نے  مجھ سے  کہا تھا کہ آپ اب سروس نہیں  کر سکتے، اپنے  کمرے  ہی میں  ضرورت کی ہر چیز مہیا کر لیجئے، زیادہ سے  زیادہ آپ مزید دس برس بقیدِ حیات رہ سکیں  گے۔ بیماری کے  بارے  میں  بتا یا کہ "No body knows how it comes and how it goes”  میں  نے  ڈاکٹروں  کی ان مایوس کن باتوں  سے  کو ئی اثر قبول نہیں  کیا۔ حیدر آباد پہنچنے  کے  دوسرے  ہی دن میں  نے  ڈیو ٹی جوائن کر لی۔ پروردگار نے  مجھے  بہت ہی با ہمت فعال اور متحرک بنایا ہے  جس سال ڈاکٹروں  نے  میرے  دنیا سے  رخصت ہونے  کی پیشن گوئی کی تھی۔ اللہ نے  اسی سال یعنی ۱۹۹۸ء  میں مجھے  پروفیسر کے  عہدہ پر ترقی دی اور اس کے  ۱۱ سال بعد دسمبر ۲۰۰۹ ء میں  وظیفہ حسن پر سبکدوش ہوا اور پھر یکم جنوری ۲۰۱۰ء سے  Academic Consultant   کی حیثیت سے  کار گذار ہوں۔

          سفر امر یکہ کے  بعد بیماری اپنا کام کر تی رہی اور میں  اپنے  کام(تصنیف و تا لیف )میں  منہمک رہا، میرے  تخلیقی سفر اور تحقیقی کام کی رفتار نے  بیماری کو بھی گھٹنے  ٹیکنے  پر مجبور کر دیا۔ سال گذشتہ ریٹائر ہوا اور اسی سال میری ۵۰ ویں  کتاب شائع ہو ئی اور ابھی بھی تخلیقی و تحقیقی کام جاری ہے اور  میرا قلم رواں  دواں  ہے۔ میری بیشتر کتابوں  کو آندھرا پر دیش، اُتر پر دیش، ویسٹ بنگال،بہار اور راجستھان اُردو اکیڈ یمیوں  نے  ادبی انعامات سے  سر فراز کیا۔ آل انڈیا میرؔ اکیڈیمی لکھنو نے  امتیاز میرؔ، اور آندھرا پر دیش اُردو اکیڈمی نے  تحقیق کے  سلسلے  میں ’’ ڈاکٹر زور کار نامہ حیات‘‘ (Life Time Achievement Award)ایوارڈ عطا کیا ہے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :غزل کے  علاوہ آپ نے  کن کن اصناف سخن میں  طبع آزمائی کی ہے؟

پروفیسر محمد علی اثر :جہاں  تک شعرو سخن کا تعلق ہے  میں  نے  حمد، نعت، منقبت، نظم آزاد، معریٰ نظم، پا بند نظم، نثری نظم، ما ہیے، ثلا ثی، قطعات، رباعیاں  وغیرہ کم و بیش سبھی اصناف پر طبع آز مائی کی ہے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :شاعری کے  سلسلے  میں  آ پ نے  کن کن اساتذہ سے  مشورۂ سخن کیا؟

 پروفیسر محمد علی اثر :شاعری میں  نے  مذکورہ بالا اساتذہ کے  علاوہ اپنے  احباب فاروق شکیل،راہی فدائی، علیم صبا نویدی اور اب شاہ حسین نہری سے  بھی مشورۂ سخن کر تا رہتا ہوں۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :آپ جامعہ عثمانیہ کے  مخلص اور ہمدرد اساتذہ میں  شمار ہوتے  ہیں۔ آپ اپنی ملازمت کے  بارے  میں  کچھ بتائیں۔

پروفیسر محمد علی اثر :میں  جامعہ عثمانیہ کے  شعبۂ اُردو میں  طالب علم بھی رہا اور استاد بھی۔ مجھے  ایم۔ اے  کا امتحان کامیاب کر نے  کے  بعد ایم۔ اے  کے  طلباء کو درس دینے  کا امتیاز حاصل رہا۔ شعبے  اُردو آرٹس کالج کے  اساتذہ میں  مجھ کو سب سے  کم عمر اُستاد ہو نے  کا اعزاز حاصل ہے۔ خرابی صحت سے  پہلے  میں  کچھ عرصے  تک سیف آباد اور سکندر آباد کالج کا صدر شعبہ رہا اور گلبرگہ یونیورسٹی اور آندھرا یو نیور سٹی کا چیرمن بورڈ آف اسٹڈیز رہا لیکن زوالِ صحت کے  بعد عثمانیہ یو نیور سٹی سے  صدر شعبۂ اُردو، چیرمین اور پرنسپل کا عہدہ بار بار پیشکش کئے  جانے  کے  باوجود میں  نے  قبول نہیں  کیا۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :کیا آپ کی نگرانی میں  ایم فل اور پی ایچ ڈی کے  طلبہ نے  تحقیقی کام کیا ہے؟

پروفیسر محمد علی اثر : جی ہاں۔ میری نگرانی میں  متعدد ریسرچ اسکالر س نے  پی ایچ ڈی اور ایم فل کے  مقالے  قلمبند کر کے  ڈگری حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں : آپ نے  بہت لکھا ہے  یقیناً آپ کی شخصیت اور خدمات پر تحقیقی کام ضرور ہوا ہو گا؟کیا آپ اس سلسلے  میں  کچھ بتائیں  گے۔

 پروفیسر محمد علی اثر: جی ہاں۔ میری شخصیت،شاعری اور فن کے  موضوع پر بہار یونیورسٹی سے  ڈاکٹر سید سا دات علی نے  ’’محمد علی اثر: شخصیت اور ادبی خدمات‘‘ کے  عنوان سے  پروفیسر ناز قادری کی نگرانی میں  پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور  شفیق النسا ء نے  ’’محمد علی اثرؔ بحیثیت شاعر‘‘ کے  موضوع پر سنٹرل یونیورسٹی آف حیدر آباد سے  ڈاکٹر نسیم الدین فریس کی نگرانی میں  ایم فل کی سند حاصل کی ہے۔ پی ایچ ڈی کے  دو اور مقالے  مرٹھواڑہ  یونیورسٹی اور جامعہ عثمانیہ کے  ریسرچ اسکالرس لکھ رہے  ہیں۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :کیا عصر حاضر میں  اردو کی جو صورتحال ہے  وہ آپ کی نظر میں  تشفی بخش ہے اور  کیا آپ اس سے  مطمئن ہے؟

پروفیسر محمد علی اثر :اردو کی موجودہ صورتِ حال سے  میں  پوری طرح مطمئن بھی نہیں  ہوں اور  نہ مجھے  بہت زیادہ مایوسی ہے۔ میرے  خیال میں  اردو کو سب سے  زیادہ نقصان اردو کی روٹی کھانے  والوں  سے  پہنچ رہا ہے۔ اگر اہل اردو اپنے  بچوں کی ابتدائی تعلیم پر توجہ کریں اور  دیگر زبانوں  کے  ساتھ ساتھ اردو کی نوشت و خواند پر بھی تو جہ دیں  تو اردو کا مستقبل روشن اور تابناک ہو سکتا ہے  اہل اردو کی نظر آج کل انگلش میڈیم مدارس کی طرف ہوتی ہے  جہاں  میٹرک کا نتیجہ سو فیصد رہتا ہے اور  آگے  چل کر ان کے  بچے  سائنس ٹیکنالوجی،میڈیسن اور انجنیرنگ کی تعلیم میں  مہا رت حاصل کر سکیں  وہ یہ بھول جاتے  ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے  سے  بچوں  کی ذہنی نشو نما اور ان کی پوشیدہ صلاحیتیوں  میں  زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کے  بڑے  بڑے  صوبوں  کے  مقابلے  میں  ریا ست آندھرا پردیش میں  بہ ظاہر اردو کی صورت حال بہتر معلوم ہوتی ہے۔ یہاں  پوسٹ گریجویشن کی سطح پر اردو کی تعلیم پانچ یونیورسٹیوں اور  ایک گورنمنٹ کالج میں  دی جاتی ہے۔ اس کے  علاوہ تین جامعات میں  فاصلاتی تعلیم و تدریس کا انتظام اور سہولت مہیا ہے۔ متعدد ڈگری کالجس میں  اردو اختیاری مضمون اور زبان دوم کے  طور پر پڑھائی جاتی ہے  لیکن ہم جو ں جوں نچلی سطح پر اتر تے  چلے  جائیں  اردو زبان کی تعلیم حاصل کرنے  والے  طلباء کی تعداد گھٹتی جائے  گی۔ انٹر میڈیٹ میں اور  ہائی اسکول میں  طلبا ء ایسے  مضامین کی تعلیم حاصل کرنا پسند کر تے  ہیں۔ جس میں  بغیر محنت کے  زیادہ سے  زیادہ نشانات حا صل کر نے  کے  مواقع ہیں۔ انٹر میں  اردو کا راست مقابلہ عربی اور فارسی ہی سے  نہیں  بلکہ ہندی اور سنسکرت بڑی تگ و دو کے  بعد حاصل کرتے  ہیں۔ جب کہ دیگر مضامین میں   70 تا 80 فیصد نشانات آسانی سے  حاصل کیے  جاتے  ہیں۔

          اردو کے  مستقبل کو تابناک بنانے  کے  سلسلے  میں  میرا خیال یہ کہ اردو کی جڑیں  مضبوط کی جائیں اور  اس کی پوری ذمہ داری ماں  باپ پر عاید ہوتی ہے۔ اگر وہ اردو و میڈیم کے  بجائے  انگریزی میڈیم اسکول کو ترجیح دینا چاہتے  ہیں  تو ایسے  اسکول کا انتخاب کریں  جس میں زبان دوم یا اختیاری زبان اردو بھی ہو اور اگر وہ ایسے  مدارس کو پسند نہیں کرتے  لیکن اردو سے  محبت کرتے  ہیں تو اپنے  گھر میں عربی کے  ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم کا بھی انتظام کریں  میرے  خیال میں  ہندوستان کے  دوسرے  صوبوں  کے  مقابلہ میں  حیدر آباد میں  اردو کی صورتحال بہتر ہے  چند سال پہلے  مجھے  لکھنو، علیگڑھ اور دلّی کی سیر و سیاحت کا موقع ملا تھا۔ میں  نے  دیکھا کہ ان علاقوں  کے  لوگ گفتگو اردو میں  کرتے  ہیں لیکن لکھتے  ہیں  ہندی میں  وہ اردو کے  رسائل نہیں  پڑھ سکتے،کہتے  ہیں  کہ اردو کا رسم الخط بہت مشکل ہے  یا انہیں  اردو کی تعلیم کا موقع ہی نہیں  ملا۔ گفتگو کی زبان اردو ہے  لیکن تحریر ہندی میں  ہوتی ہے  یہاں  تک کہ قبروں  کی تختیاں  بھی ہندی میں  لگائی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عرشیہ جبیں  :کیا آپ نے  اپنے  بچوں  کو اردو زبان میں  تعلیم دلائی ہے؟

پروفیسر محمد علی اثر :میں  نے  ابتداً اپنے  بچوں  کو ایسے  انگریزی میڈیم اسکول میں  شریک کروایا تھا جہاں  بچوں  کو تیسری جماعت سے  اردو اور عربی کی تعلیم کا تیقن دیا گیا تھا لیکن تیسرے  سال بتایا گیا کہ اردو نہیں  پڑھائی جا رہی ہے  اسکے  بجائے  ہندی کی تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے  میں  نے  اپنے  بچوں  کی وہاں  سے  TCحاصل کر لی اور دوسرے  ایسے  انگریزی میڈیم اسکول میں  داخلہ دلوایا جہاں  اردو کی تعلیم کا انتظام تھا۔ اس طرح میرے  تمام بچوں  نے  میٹرک تک زبان دوّم کی حیثیت سے  اردو کی تعلیم حاصل کی ماشاء اللہ سبھی اردو میں  لکھ پڑھ سکتے  ہیں  بڑی بیٹی جس نے  بی ایڈ میں  جامعہ عثمانیہ سے  ٹاپ کر کے  طلائی تمغے  حاصل کئے  تھے اور  جو،اب ایم اے -ایم ایڈ ہے  اردو میں  سائنسی مضامین لکھتی ہیں۔ بڑے  بیٹے  کو جو ابوظہبی میں  انجنیر ہے  اردو شاعری سے  دلچسپی ہے۔ دو بیٹیاں  ڈاکٹر ہیں اور  سب سے  چھوٹا لڑکا انجنیئرنگ کا امتحان پاس کرنے  کے  بعد ایم-بی-اے  کی ڈگری میں  اپنے  کالج میں  سب سے  زیادہ نشانات حاصل کیے  ہیں۔

٭٭٭

 

نظمیں

قاضی عبد الستار

آشوب ادب

مائک پہ وہ کوے  کی طرح بول رہے  ہیں

بلبل جو زمانے  کے  ہیں  خاموش کھڑے  ہیں

سب صدر میں  بیٹھے  ہیں  بجاتے  تھے  جو بھونپو

فن کار ہیں  جتنے  وہ کناروں  پہ پڑے  ہیں

اس ہاتھ میں  تحفے  ہیں  تو اس ہاتھ میں  پرچے

دفتر میں  مدیروں  کے  وہ چھپنے  کو ڈتے  ہیں

محفوظ ہیں  وہ علم سے  محروم ادب سے

سینے  پہ خریدے  ہوئے  تمغے  تو لگے  ہیں

تقریر کی بوتل سے  نکلتا ہو ا پانی

تحریر کی ہر سطر میں  کھانچے  سے  پڑے  ہیں

بیساکھی ہے  چاندی کی تو سونے  کی سفارش

دہلیز پہ ایوارڈ کمیٹی کے  بچھے  ہیں

ابلیسؔ مرید ان کا ہے  جبریلؔ بھی خوش ہیں

ہر فن میں  وہ مولا ہیں  خوشامد میں  ٹِرے  ہیں

جَو بیچ کے  پائی تھی پراوٹ کی جو ڈگری

حالات کی کروٹ سے  گہر اس میں  جڑے  ہیں

خالہ ہیں  وزیر ان کی تو ساڑھو ہیں  گورنر

ہر بورڈ کی کرسیِ صدارت پہ جمے  ہیں

بیگم کی چھما چھم پہ ہیں  قربان مناصب

’’ ریڈر‘‘ کی ہے  پازیب ’’ پروفیسر ‘‘ کے  کڑے  ہیں

ہر دور کا ہر وقت کلائی پہ بندھا ہے

دن رات مہ و سال حضوری میں  بچھے  ہیں

گردن میں  جو رسی ہے  تو وہ سات رتن کی

کس ٹھاٹ سے  یاقوت کے  کھونٹے  میں  بندھے  ہیں

سونے  کا جو بھوسہ ہے  تو پکھراج کھلی ہے

ہر رنگ کے  موتی ہیں  جو راتب میں  پڑے  ہیں

ہر سینگ پہ اس بیل کے  اک دنیا کھڑی ہے

ہر’کھر‘ میں ’کڑک بجلی‘‘ کے  دس نعل بندھے  ہیں

ہر چال فلک سیر ہے  دلکی ہو کہ پویہ

’شب دیز‘ ہیں  جتنے  بھی وہ شرمندہ کھڑے  ہیں

نیلم بھی زمرد بھی ’اندھیری‘ میں  ٹنکے  ہیں

جتنے  بھی جواہر ہیں وہ ’ پٹھے ‘ میں  جڑے  ہیں

’ عنبر‘ کی زمیں  تک ہے  ’کھراہند‘ سے  بھبکتی

زربفت کے  قالین پہ گوبر وہ کرے  ہیں

وہ ’ ناتھ‘ دھنک پیس کے  بنوائی گئی ہے

اپنوں  سے  شفق کی وہ کلاوے  کے  رنگے  ہیں

تحریک ادب کا وہ کیا کرتے  ہیں  پاگر

زرکار سی اک ناند کے  کولھے  سے  لسے  ہیں

پگڑی میں   سجائے  ہوئے  راونؔ کی کھڑاویں

دربار میں  وہ رامؔ کے  چرنوں   میں  پڑے  ہیں

کیا تخت پہ طاؤس کے  بیٹھے  گا شہنشاہ

جس شان سے  گدی پہ وہ موٹر کی جمے  ہیں

سرقے  کی تو عادت ہے  تراجم سے  ہیں  مجبور

کتنی ہی کتابوں  کے  مصنف وہ بنے  ہیں

ہیں  صبح کراچی میں، سرِ شام ہیں  لندن

امریکہ و جاپان تو جاتے  ہی رہے  ہیں

طلباء پہ گرجتے  ہیں، برستے  ہیں  شب و روز

تحصیل کے  دربار میں  چپ چاپ کھڑے  ہیں

ہر طرح سے  لائق ہیں  ہم اعزازِ’ پدم‘ کے

بابو کو کمشنر کے  وہ سمجھاتے  رہے  ہیں

ہر ’ میر سمیلن‘ کو لکھا کرتے  ہیں  وہ ’ پتر‘

جس بھاؤ بلا لو ہمیں  آنے  پہ تلے  ہیں

نالے  میں  جو کیڑوں  کی طرح رینگ رہے  تھے

دیکھو کہ وہ اب چرخ چہارم پہ کھڑے  ہیں

 

ڈاکٹر عبا س علی امید

خالی لمحوں  کی نظم

نہ منزلوں  کا تعین نہ راستوں  کا پتہ

سلگتی دھول، تپے  پتھروں  کے  سینے  پر

کبھی ملا نہ ملے  گا کسی کا نقشِ پا

اسیر سیلِ گماں  ہے  عروسِ عمرِ رواں

لباس تنگ۔۔۔  لہو رنگ

موج خوں  پیاسی

صدا بہ صحرا ہیں چیخیں،دریدہ جسم زمیں

تمام دل زدہ چہرے، بجھی بجھی نظریں

تمام بکھرے  ارادے، دھواں  دھواں  یادیں

قرآن و وید کے  سایہ لہو کی گردش پر

پشیماں  دشمن آدم خود اپنی سازش پر

ہوا میں، آگ میں،پانی میں  ٹوٹتے  رشتے

شکستہ قصرِ محبت اداس نسلوں کا

شکستہ سانس کی ابتر سی کوششیں  پیہم

وجود ڈھونڈنے  کی۔۔۔  حادثوں  کے  صحرا میں

وجود ڈھونڈنے  کی۔۔۔  فیصلوں  کی وادی میں

شکستہ سانس کی سعیِ گراں  ___گراں  مایہ

شکستہ سانس کی سعیِ گراں  کا سرمایہ

اک اضطراب، تجسس، فسردگی، الجھن

خیال و خواب کی لذت، حقیقتوں  کی چبھن

شکستہ سانس کی سعیِ گراں  کا سرمایہ

نہ منزلوں  کا تعین نہ راستوں  کا پتہ

سلگتی دھول، تپے  پتھروں  کے  سینے  پر

کبھی ملا نہ ملے  گا کسی کا نقشِ پا!

کبھی ملا نہ ملے  گا کسی کو نقشِ پا!!

٭٭٭

 

سردار سلیم

اکیسویں  صدی

          آسماں  سے  بات کرتی بلڈنگیں

          شاپنگ مال

          آسائشوں  کے  ڈھیر

          پب، ڈسکو،سنیما، پارک

          لمبی چوڑی سڑکیں

          دوڑتی کاریں

          دوا خانے، ملیں،اسکول

          کالج، میوزیم

          سیل فون، انٹرنیٹ

          ٹراؤزرز،جینس

          اونچی ہیل والی سینڈلیں

          بے  باک چنچل لڑکیاں

          دفتر کے  ہنگامے

          گھروں  میں

          ٹیلی ویژن سیریل کی طرز پر

          ہنستی ہمکتی بیویاں

          رشتے  کی سولی پر ٹنگی قربت

          زمیں  سے  آسماں  تک

          چیختی پرچھائیوں  کا سلسلہ

          چاروں  طرف کہرام

          خوشحالی کی لَے  پر ناچتی پریاں

          مشینوں  سے  بھرا با زار ہے

          لیکن!بھرے  بازار میں  انسان

          کتنا خالی خالی ہے۔۔۔!

٭٭

 

نینا جوگن

انجانے  پنچھی کے  بوسے

          زندگی جس کی تجسس سے

          پریشاں، حیراں

          ایسے  لمحات میں  بھی

          خواب دکھائے  ہیں  بہت

          آرزو نرم ہواؤں  میں

          الجھتی ہوئی پل پل

          شب تیرہ سے  گزرتی ہی گئی

          سبز بیلوں  کا لبادہ اوڑھے

          اندھی چاہت کے  سفر کی کرنیں

          رقص پر رقص کریں

          کوئی انجانا سا پنچھی چہکے

          فن سے  آراستہ

          بیداری کے  لمحوں  پہ

          مسلسل بوسے  برسیں!!

٭٭٭

 

ظفر انصاری ظفر

ناگن سی لڑکی

مری ماں

خواب میں  جب دیکھتی ہیں

مجھ کو اک آوارہ سا پھرتا

شہر کی گلیوں  میں

ہر جانب

تلاشِ رزق میں

تو چونک سی اٹھتی ہیں  اپنی نیند سے

اور

میری خاطر دونوں  ہاتھوں  کو اٹھا کر

کرنے  لگتی ہیں  خدا سے  یہ دعا

کہ میرے  بیٹے  کو خدایا

کوچہ کوچہ

یوں  نہ سر گرداں  پھرا

باب رحمت کھول دے

اور میں  ایسا کہ گم ہوں

شہر کی پر پیچ گلیوں  میں

نہ کرتا ہوں  کبھی بھی یاد ان کو

وہ میرے  خوابوں  میں  آتی ہی نہیں  ہیں

بجائے  ان کے  اک ناگن سی لڑکی

میرے  دل کے  قریں  بیٹھی ہوئی ہے

جو مجھے  لمحہ لمحہ ڈس رہی ہے!

٭٭

 

غزلیں

 مناظر عاشق ہر گانوی

اس دنیا میں  ہم نے  اب تک دیکھے  کیسے   کیسے  لوگ

مکار و عیار فریبی،سیدھے  سادے  سچے  لوگ

درویشوں  کے  ساتھ ادب میں  آج بھی حاتم طائی ہے

آج بھی ہیں، بے  سر پاؤں  کی، فن میں  لکھنے  والے  لوگ

واسطہ یوں  تو سینکڑوں  ہی افراد سے  ہر دن پڑتا ہے

لوگوں  کی اس بھیڑ میں  لیکن کب ملتے  ہیں  اپنے  لوگ

ان کے  جیسی باتیں  کرتے  فراٹے  سے  بچے  بھی

دے  بیٹھے  ہیں  جیسے  وراثت وقت سے  پہلے  بوڑھے  لوگ

وقت آنے  پر جان کے  دشمن اپنے  بھی بن جاتے  ہیں

کام مصیبت میں  آ جائیں، گاہے  کچھ بیگانے  لوگ

ظالم اور مظلوم بھی دیکھے  قاتل اور مقتول  مگر

دہشت گردی کے  ہاتھوں  سے  دیکھے  خون میں  لپٹے  لوگ

جان و مال و آبرو عزت انساں  کی بے  قیمت ہے

ہر سو ہیں  خونخوار لٹیرے،قاتل اور درندے  لوگ

یہ تحفہ تہذیب نو سے  ہم نے  مناظر پایا ہے

خول میں  اپنی ذات کے  ہر دم رہتے  ہیں  جو سمٹے  لوگ

٭٭

 

طارق شاہین

رگ و پہ میں  اتر گیا سور ج

جسم کو دھوپ کر گیا سورج

دور ہی سے  چمک رہے  ہیں  بدن

سارے  کپڑے  کتر گیا سورج

ایک لمحے  کی ہو گئی غفلت

مجھ کو پتھر سا کر گیا سورج

مجھ کو خوابوں  میں  باندھ کر رکھا

اور ہنس کر گذر گیا سورج

پانیوں  میں  چتائیں  جلنے  لگیں

ندّیوں  میں  اتر گیا سورج

میں  نے  سایوں  کی بھیک مانگی تھی

میری چھت سے  گذر گیا سورج

شام کے  ایک نرم پتھر سے

ریزہ ریزہ بکھر گیا سورج

دھوپ کیا سایے  سے  بھی جلنے  لگے

اتنا کمزور کر گیا سورج

سازشیں  ایسی کیں  چراغوں  نے

وقت سے  پہلے  مر گیا سورج

٭٭

 

ڈاکٹر محبوب راہی

زباں  سے  بات جو بے  مدعا نکلتی ہے

کبھی کبھی تو بہت دور جا نکلتی ہے

مجھے  اے  لذت آزار بخشنے  والے

ترے  لئے  مرے  دل سے  دعا نکلتی ہے

وہ اقتدار سے  محروم ایسا لگتا ہے

کسی غبار سے  جیسے  ہوا نکلتی ہے

عجیب بات ہے  جس اجنبی سے  ملتا ہوں

ہر ایک شکل مری آشنا نکلتی ہے

جھلک خلوص کی پا کر جو پاس جاتا ہوں

دکھاوا ہوتا ہے  اکثر، ریا نکلتی ہے

چہار سمت جہاں  صورتیں  فنا کی ہوں

بقا کی ایسے  میں  صورت بھلا نکلتی ہے ؟

دکھائی دیتی ہے  جو دور سے  الگ ہی کچھ

قریب جاؤ تو صورت جدا نکلتی ہے

وہ جو کسی کی تغافل روی نے  بخشی تھی

خلش وہ دل سے  مرے  کب بھلا نکلتی ہے

شب مصائب و آلام کاٹنے  کے  بعد

عزیزو! صبح بڑی کیف زا نکلتی ہے

اے  کاش! میں  وہاں  پیوند خاک ہو جاؤں

وہ سر زمیں  جہاں  خاک شفا نکلتی ہے

میں  وہ کہاں  ہوں  کہ جس کے  ہر ایک مصرعے  پر

صدائے  مرحبا صد مرحبا نکلتی ہے

شکست آؤ تلاشیں  غزل میں  راہیؔ کی

روا نکلتی ہے  یا نا روا نکلتی ہے

٭٭

 

خورشید طلب

(ظفر اقبال کی نذر)

محبت میں  تمہیں  جو سرخرو ہونا ضروری ہے

تو پھر اس کام میں  دل کا لہو ہونا ضروری ہے

مسلسل فاصلے  سے  بدگمانی اور بڑھتی ہے

سو اب میرا تمہارا رو برو ہونا ضروری ہے

چلو ایسا کریں  اشکِ ندامت سے  نہا لیں  ہم

اسے  ملنے  سے  پہلے  با وضو ہونا ضروری ہے

بھنور سے  معرکہ ہے  چند تنکے  ساتھ رکھ لینا

ہمارے  ساتھ کوئی جنگ جو ہونا ضروری ہے

چڑھا لو جتنی بھی کم بخت نشّہ ہی نہیں  چڑھتا

سبو کے  ساتھ کوئی ہم سبو ہونا ضروری ہے

برائی سے  برائی کا ازالہ ہو نہیں  ممکن

ہمیں  بھی یار تھوڑا نیک خو ہونا ضروری ہے

یہی موذی تو ہم کو چاق اور چوبند رکھتے  ہیں

ہماری زندگی میں  اک عدو ہونا ضروری ہے

وہ خود کیا ہیں  طلبؔ جو ہم کو دہشت گرد کہتے  ہیں

ضروری ہے  اب اس پر گفتگو ہونا ضروری ہے

٭٭٭

 

خورشید طلب

 (نذرِ غالب)

یہ کس کے  سامنے  بیٹھے  ہو، قبلہ رو کیا ہے

نماز ہی نہیں  قائم تو پھر وضو کیا ہے

یہ کون لہر اٹھاتا ہے  دل کے  دریا میں

یہ موج موج اچھلتا ہوا لہو کیا ہے

اٹھا کے  ہاتھ اسے  میں  خدا سے  مانگ نہ لوں

اگر پتہ ہو مجھے  میری آرزو کیا ہے

جو اک طلسم تخیل نے  باندھ رکھا ہے

حضور اس کے  یہ دنیائے  رنگ و بو کیا ہے

بجھا جو میں  تو افق پر لہو کے  پھول کھلے

میں  زرد رو ہوں  تو مجھ سایہ سرخ رو کیا ہے

میں  خواب پر نہیں  اس پر نگاہ رکھتا ہوں

کہ میرا خواب حقیقت کے  رو برو کیا ہے

نگل چکی ہے  زمیں  جب پہاڑ جیسے  لوگ

تری بساط ہی کیا مشت خاک تو کیا ہے

کہاں  سے  آتی ہے  پیہم صدائے  کن فیکون

یہ کیسا شور ہے  دنیا میں  ہاؤ و ہو کیا ہے

وہ ایک پھانس جو آ کر گلے  میں  اٹکی ہے

پہاڑ چیر کے  رکھ دے  رگِ گلو کیا ہے

’’ رگوں  میں  دوڑنے  پھرنے  کے  ہم نہیں  قائل‘‘

لہو کے  کام نہ آئے  تو پھر لہو کیا ہے

خدا سے  جوڑا ہے  رشتہ جو خاک زادے  نے

خدا ہی جانے  طلبؔ اس کی آرزو کیا ہے

٭٭

 

شمیم قاسمی

جس نے  مرے  شعور کو ذوقِ غزل دیا

جدت طراز ذہن میں  آیا جو اک خیال

تصویر اس کو کرنے  میں  بس ایک پل دیا

پہلے  تو باغباں  کی خبر لی کہ جاگ جا!

جاگا نہیں  تو باغ کا نقشہ بدل دیا

کنگال ایک پل میں  کیا بادشاہ کو

چاہا تو اک فقیر کو اس نے  محل دیا

اس کی تلاش ہی مرا مقصد ہے  اب شمیمؔ

جس نے  مری حیات کو طرز عمل دیا

ڈاکٹر مسعود جعفری

بادلوں  میں  حسین چہرہ ہے

 اس کا ہی عکس دل پہ گہرا ہے

روشنی کا کہیں  سراغ نہیں

در و دیوار پر اندھیرا ہے

ساری گلیاں  مہک مہک اٹھیں

آج پھر گل بدن کا پھیرا ہے

کوئی آواز جا نہیں  سکتی

راستہ ہر گلی کا بہرا ہے

جعفری دور تک نہیں  جانا

بے  یقینی کا دور صحرا ہے

٭٭

ڈاکٹر مسعود جعفری

گھور سناٹا آس پاس بہت

آج کی رات ہے  اداس بہت

یاد آتا رہے  گا صحرا میں

ہم کو تیرا حسیں  لباس بہت

جانے  کس موڑ پہ ہے  وہ دریا

بھر گئی ہے  لبوں  میں  پیاس بہت

میری تنہائی کے  اندھیرے  میں

تیری آنکھوں  کا اک گلاس بہت

کیسے  لکھے  گا یہ قلم تجھ پر

نہیں  الفاظ میرے  پاس بہت

بے  یقینی میں  انتظار ترا

نا مرادی میں  ایک آس بہت

اس کی باتیں  کہاں  حقیقی ہیں

اس کی باتوں  میں  ہے  قیاس بہت

خوں  رلاتا ہے  آج بھی مسعودؔ

اس کہانی کا اقتباس بہت

٭٭

 

سردار پنچھی

دیوتاؤں  کو پھٹے  دامن میں  بھر کر لے  گیا

ایک دیوانہ ترے  کوچے   کے  پتھر لے  گیا

دن دہاڑے  کاٹ کر قاتل مرا سر لے  گیا

اور منصف کہتے  ہیں  اپنا مقدر لے  گیا

بارہا غیرت نے  روکا، عقل نے  ٹوکا مگر

دل ہمیں  مجبور کر کے  تیرے  در پر لے  گیا

آج پھر مقتل میں  کوئی آ گیا عزت مآب

آج پھر جلاد اک سونے  کا خنجر لے  گیا

حاکموں  کی خواب گا ہوں  کو سجانے  کے  لئے

ایک سودا گر کسی معصوم کا سر لے  گیا

شرم آنکھوں  کی بدن کا لوچ اور ہونٹوں  کا رس

زر کے  بدلے  میں  وہ کیسے  کیسے  زیور لے  گیا

اے  سبک باد صبا گر تو نہیں  تو اور کون

چیتھڑے  میرے  اڑا کر آ ج گھر گھر لے  گیا

حکم ہے  پنچھیؔ کے  دونوں  ہاتھ پاؤں  کاٹ دو

کیوں  یہ راہ عام کے  سب خار چن کر لے  گیا

٭٭

 

تعزیر بستوی

دامن پہ داغ وقت نے  آخر لگا دیا

سچ بولنے  کا شوق تھا جھوٹا بنا دیا

ڈھلتے  ہی اس کے  شہر میں  لاکھوں  دیے  جلے

سورج سمجھ رہا تھا اجالا مٹا دیا

جب  آ گئیں  شباب پہ گلشن کی رونقیں

پہرہ مری نگاہ پہ اس نے  لگا دیا

کترا رہے  ہیں  اس کی شعاعوں  سے  خود ہی ہم

سورج تو انقلاب کا ہم نے  اگا دیا

وہ میرے  گھر جو آئے  تو ایسا لگا مجھے

جیسے  دیا کسی نے  کھنڈر میں  جلا دیا

تعزیرؔ جس کا کھیل ہے  شیشوں  کو توڑنا

پتھر یہ کس نے  ہاتھ میں  اس کے  تھما دیا

٭٭

 

عبد السلام کوثر

جو گی جی رکو اک بات سنو گھر چھوڑ کے  بن میں  جانا کیا

ہر سانس میں  اس کا ذکر ہے  جب پھر بستی کیا ویرانا کیا

سرمدؒ ؔ نے  پڑھا آدھا کلمہ میراؔ کیوں  جوگن بن بیٹھی

کیوں  گوتم ؔ نے  گھر چھوڑ دیا یہ راز کسی نے  جانا کیا

سقراط تو ہے  خاموش مگر یہ زہر کا پیالہ کہتا ہے

انصاف جہاں   دم  توڑ چکا وہاں  جینا کیا مر جانا کیا

دنیا کی خاطر دکھ جھیلے  گھر سے  بھی گئے، سولی پہ چڑھے

وہ لوگ تو سچے  تھے  لیکن جگ نے  ان کو پہچانا کیا

جیتے  جی ہوئی دنیا کس کی اک نام تو ایسا بتلاؤ

مانے  گی مگر اک روز ہمیں  یہ سوچ کے  دل بہلانا کیا

جب کشتی ڈوب بھی سکتی ہے  ساحل کے  قریب آتے  آتے

پھر تیز ہوا سے  ڈرنا کیا پھر طوفاں  سے  گھبرانا کیا

جو پھول کھلا مرجھائے  گا اور چاندنی کب پائندہ ہے

یہ حسن کی دولت دو دن کی جانم اس پر اترانا کیا

کیا عید دوالی کی خوشیاں  کیا ہولی کرسمس بیساکھی

مفلس کی جیب تو خالی ہے  تیوہار کا آنا جانا کیا

کیا پوچھ رہے  ہو برہن سے  مو سم کے  مست ارادوں  کا

کیا اس کے  لئے  آموں  کی مہک، کوئل کا گیت سنانا کیا

مانا تم اچھے  رہبر ہو پھر دیش میں  کیوں  بدحالی ہے

کوثرؔ اس راز سے  واقف ہے  سمجھے  تھے  اسے  دیوانا کیا

٭٭

 

مقصود بستوی

حرف جو آئے  انا پر نہیں  دیکھا جاتا

کون کتنا ہے  قد آور نہیں  دیکھا جاتا

اس کو خوشبو کی طرح دل میں  بسا لو اپنے

پیکر حسن کو چھو کر نہیں  دیکھا جاتا

ہو نہ جاؤ کسی جادو کے  اثر سے  پتھر

وادیِ عشق میں  مڑ کر نہیں  دیکھا جاتا

جس کے  لہجے  سے  کھلا کرتے  تھے  الفت کے  گلاب

اب اسی ہاتھ میں  خنجر نہیں  دیکھا جاتا

منکشف ہو گئی چہرے  پہ مرے  گرد ملال

ڈھلتے  سورج کا یہ منظر نہیں  دیکھا جاتا

دل کے  کوچے  میں  وہی قہر بپا ہے  اب تک

کھلی آنکھوں  سے  یہ منظر نہیں  دیکھا جاتا

آؤ مل جل کے  کریں  شمعِ تمنا روشن

یہ اندھیروں  کا سمندر نہیں  دیکھا جاتا

٭٭

 

ڈاکٹر نسیم نگہت

دروازے  پر آنکھیں  روشن آہٹ بوجھیں  کان مرے

لوٹ کے  اب تک گھر نہیں  آئے  کیسے  ہیں  مہمان مرے

اوپر والا سوچتا ہو گا بندے  ہیں انجان مرے

آگ لگائے  چاہے  کوئی مرتے  ہیں  انسان مرے

میں  مزدور ہوں  حال اور ماضی، مستقبل میرا روٹی

آنکھیں  میری سونی سونی سپنے  ہیں  ویران مرے

رنگوں  کو چھو کر دیکھیں  گے  اکثر یہ ضد کرتے  ہیں

تتلی کے  پیچھے  ہیں  پاگل،بچے  ہیں  نادان مرے

میں  وہ حویلی گاؤں  کی جس کو سارے  مالک چھوڑ گئے

دروازے  بانہیں  پھیلائے  راہ تکیں  دالان مرے

میں  نے  ہر مشکل میں  اس کا ساتھ دیا تھا ہر لمحہ

بھائی مرا کیسا ہے  نگہتؔ بھول گیا احسان مرے

٭٭

 

ڈاکٹر انجمن آرا انجمؔ

حوادث سے  جو ٹکراتے  چلے  ہیں

وہ انساں  سنگ و آہن میں  ڈھلے  ہیں

جسے  دیکھو وہ ہے  دست و گریباں

سیاست کے  عجب چکر چلے  ہیں

کریں  گے  کچھ وہی کارِ نمایاں

غموں  کے  زیرِ سایہ جو پلے  ہیں

ابھی آزادیِ کامل کہاں  ہے

ابھی باقی بہت سے  مرحلے  ہیں

لکھیں  تاریخِ استبداد کیوں  کر

ہمارے  ہاتھ تو پتھر تلے  ہیں

جلی ہے  نفرتوں  کی آگ جب بھی

غریبوں  ہی کے  کاشانے  جلے  ہیں

نہ ٹھہریں  گے  کبھی راہ طلب میں

یہ کہہ کر سوئے  منزل ہم چلے  ہیں

کریں  کس کس کو حل انجمؔ بتاؤ

ہزاروں  زندگی کے  مسئلے  ہیں

٭٭

 

عادل حیات

حقیقت ہے، طرف داری نہیں  ہے

مری پہچان ہشیاری نہیں  ہے

گھروں  کے  فاصلے  تو کم ہوئے  ہیں

مزاجوں  میں  ملنساری نہیں  ہے

ڈھلا جاتا ہے  سورج میرا لیکن

سفر کی کوئی  تیاری نہیں  ہے

کھلی ہیں  کھڑکیاں  کمرے  کی پھر بھی

ہوا کا سلسلہ جاری نہیں  ہے

گلی کوچوں  میں  بھی ملتی ہیں  لاشیں

کہاں  پر جنگ اب جاری نہیں  ہے

اٹھاتا ہوں  جسے  میں  روز عادلؔ

وہ پتھر ہے  مگر بھاری نہیں  ہے

٭٭

 

سفید ہاتھی

__________ڈاکٹر ریاض توحیدی

          آسیب۔۔۔  گہری نیند کا آسیب۔۔۔  ان کی سوچ پر چھایا ہوا تھا۔ وہ۔۔۔  ان کی بے  خودی دیکھ کر بے  چین ہو جاتا تھا اور ان بے  حس سوچ رکھنے  والوں  کے  بند پڑے  دماغوں  کے  دریچوں  کو کھولنے  کی کوشش میں  لگا رہتا لیکن بار بار کوشش کرنے  کے  با وجود  اسے  کبھی کبھی محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے  دماغ زنگ آلودہ سوچوں  کے  جمودی کھنڈرات بن چکے  ہیں۔ وہ جب ان کے  اندھیرے  دنیا کی چھتوں  پر بیداری کی روشن قندیلیں  لٹکائے  رکھتا اور ان کے  گونگے  پن کو آواز میں  بدلنا چاہتا تو وہ ان کی آنکھوں  میں  بصیرت کے  چراغوں  کو ٹمٹماتے  ہوئے  پاتا اور ان کی زبانوں  کو اندرونی گروہ بندی کے  بکھیڑوں  میں  الجھنے  کی وجہ سے  ہکلے  پن کا شکار پاتا۔ ان کے  فرسودہ خیالات پر اسے  ترس آ رہا تھا۔۔۔  طوفان کے  گھپ اندھیرے  میں  خیالی ابابیلوں  کا انتظار۔۔۔  خوش فہمی۔۔۔  صرف خوش فہمی کا دھوکہ،اور خوش فہمی کا نتیجہ۔۔۔  مقدر کا سراب۔۔۔  وہ سوچتا رہتا کہ خواب غفلت میں  مست یہ مخلوق۔۔۔  سورج سنسار میں  ہو رہی دھماکہ خیز تبدیلیوں  سے  بے  پروا۔۔۔  اپنی اپنی پنجر نما بلوں  کو گوشۂ عافیت کے  فریب میں  ڈبوتی چلی جا رہی ہے۔ ان کند ذہنوں  کا عالم، ابھرتے  ڈوبتے  سورج کی گردش تک محدود ہو کے  رہ گیا ہے۔ کار گاہ ہستی کے  گھمسان رن میں  ان کے  ٹوٹے  قدموں  کی اپاہج آہٹ بھانپ کر اور ان کے  کھوکھلے  لفظوں  کی جھنکار سن کر۔۔۔ اس کا وجود لرز اٹھتا تھا۔ وہ چلاتا رہتا کہ کھوکھلے  لفظوں  کی تکرار بونوں اور  بے  ہمتوں  کی نشانی ہو تی ہے۔ ان کی بے  حسی کو کوستے  ہوئے  وہ انھیں  ایسی جمادات نما مخلوق قرار دیتا تھا جو صرف ادھار سانسوں کا حساب رکھنا جانتی ہوں۔ وہ ان کے  خوابیدہ ذہنوں  میں  انقلاب برپا کرنا چاہتا تھا لیکن ان کی سرد مہری دیکھ کر اسے  یقین ہو جاتا تھا کہ یہ مخلوق تو رزم گاہ میں  کودنے  سے  خوف کھا رہی ہے اور  صرف توکل کے  نام پر حیات مستعار پر ہی قانع کے  متمنی ہے۔

           سفید ہاتھی آندھیوں  کی طرح ان کے  گلستانوں  کی طرف بڑھ رہے  تھے اور  ان کے  کھیت کھلیانوں  کو تباہ کرتے  جا رہے  تھے۔ وہ اپنی لمبی لمبی سونڈوں  کی بدبو دار سانسوں  سے  ان کی خوشبو دار چمن زاروں  کو زہر آلود کرتے  جا رہے  تھے اور  اپنے  پتھر جیسے  بھاری پاؤں  سے  ان چمن زاروں  کے  رنگ برنگے  پھولوں  کو مسل رہے  تھے۔

          سفید ہاتھیوں  کا یہ وحشی قافلہ عرصہ ہائے  دراز سے  ان پر حملہ آور ہوا تھا۔ یہ درندہ صفت قافلہ اس جمادات نما مخلوق کو صفحۂ ہستی سے  نیست و نابود کرنے  پر تلا ہوا تھا۔ وہ، بڑے  غور سے  سفید ہاتھیوں  کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران پڑ جاتا تھا کہ ان حملہ آور ہاتھیوں  کے  پیچھے  قُقنُس کا مسحور کن ساز بج رہا ہے اور  اس ساز کی بدلتی رہتی آوازیں  ان ہاتھیوں  کی وحشیانہ سوچ پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔۔۔  ان کے  حیوانی جذبات کو بھڑکا رہی ہیں اور  ان کو اپنے  مقصد کو پورا کرنے  تک متحد رہنے  کی صدائیں  دے  رہی ہیں۔

          ساز کی دلفریب دھنیں  سفید ہاتھیوں  کے  جوش کو ابال دینے  میں  مگن تھیں۔ سونڈوں  سے  شعلے  برس رہے  تھے  جن کی لپٹوں  سے  مظلوم مخلوق کی تاریخی عمارتیں، آگ کی خندقیں  بن رہی تھیں اور  تباہی مچانے  کے  بعد وہ بد مست ہاتھی محکوم مخلوق کے  کنوؤں  سے  آبِ حیات پیتے  ہوئے  راحت محسوس کر رہے  تھے۔

          وہ۔۔۔  ان سفید ہاتھیوں  کے  عزائم، ان کی ہمت اور مادی مقاصد کے  رازوں  کو جاننے  کے  لئے  بے  چین ہو رہا تھا۔ وہ یہ جان کر سخت حیران ہوا کہ نہ صرف ققنس کے  راگ سفید ہاتھیوں  کی رہنمائی کر رہے  ہیں  بلکہ پردے  کے  پیچھے  چھپے  کالے  ناگ بھی پھن مارتے  ہوئے  انھیں  آگے  بڑھنے  کے  لئے   اکسا رہے  ہیں۔ وہ سوچنے  لگا کہ یہ کالے  ناگ تو اپنی فطرت پر برابر قائم ہیں  یہ تو آستین کے  سانپ ہی نکلے۔ مکاری اور دغا بازی کے  جراثیم تو ان کے  رگوں  میں  خون کی طرح گردش کر رہے  ہیں۔۔۔ احسان فراموش۔۔۔!

          اس کے  سامنے  کالے  ناگوں  کا وہ دور آیا جب ان کی دھرتی بنجر نما جنگل تھا۔۔۔  وہاں  تہذیب و تمدن کا کہیں  نام و نشان بھی نہ تھا۔۔۔  اس نیم مردہ مخلوق نے  ہی ان کے  چمن کو تہذیب و تمدن کا گہوارا بنایا تھا اور ان کی دھرتی ہیرے  موتی اگلنے  لگی تھی اور ان ہیرے  موتیوں  کی چمک دمک سے  ان سفید ہاتھیوں  کی آنکھیں  سرخ ہو گئی تھیں اور  انھوں  نے  ان کے  چمن کو تاراج کر ڈالا تھا۔ اس وقت ان بزدل کالے  ناگوں  کی ہمت اسی مظلوم مخلوق نے  بڑھائی تھی۔ جن کے  خلاف آج یہ سفید ہاتھیوں  کے  ساتھ مل کر در پردہ سازش رچا رہے  ہیں۔ اگر یہ کالے  ناگ اپنی دھرتی سے  آج بھی پوچھیں  گے  کہ تجھے  آزادی کیسے  نصیب ہوئی تو اس دھرتی کی سچی تاریخ اس محکوم مخلوق کے  کارناموں  کو ضرور دہرائے  گی۔۔۔ بنجر زمین کے  یہ کالے  ناگ سب احسان بھول بیٹھے۔۔۔!

           اس اندوہناک صورت حال کا مشاہدہ کر کے  وہ دوبارہ بے  حس مخلوق کو بیدار کرنے  لگا۔ ان کو تمام حقیقتوں  سے  با خبر کرنے  لگا۔ وہ انھیں، ان کے  دور اقتدار کی داستانیں سناتا رہا اور انھیں  چلّا چلّا کر پکارتا رہا کہ اٹھو! ان وحشی درندوں  کو ماضی کی طرح سبق سکھاؤ۔ اپنی بہادری اور جواں  مردی کے  جوہر دکھاؤ۔۔۔  تمہارے  چمن کے  چند بہادر شاہین سے  پہلے  ہی ان وحشیوں  پر جھپٹ پڑے  ہیں۔۔۔  ہوش میں  آ جاؤ، تم کمزور نہیں  ہو۔۔۔  تم میں  صرف اتحاد کا فقدان ہے۔ متحد ہو کر ان بزدلوں  پر ٹوٹ پڑو۔۔۔  اندھیرا مٹنے  والا ہے اور  اجالا تمہارا انتظار کر رہا ہے۔۔۔  اٹھو! اپنے  گلستانوں  کو بچاؤ۔۔۔  اپنے  نخلستانوں  کو بچاؤ۔۔۔  یہ کہتے  ہوئے  وہ آسمان کی طرف آب دیدہ نگاہوں  سے  دیکھنے  لگا۔ اس کے  اندر سے  سرد آہیں  نکل رہی تھیں۔ اسے  محسوس ہونے  لگا کہ اس کی سرد آہوں  سے  افلاک کے  پردے  چاک ہو رہے  ہیں۔ بارانِ رحمت کا نزول ہو رہا ہے اور  چمن کے  پھولوں  کا نکھار بڑھ رہا ہے۔ اسے  نظر آنے  لگا کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں  سے  نیم مردہ  مخلوق کی بند پڑی آنکھیں  آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں اور  بھینی بھینی خوشبوؤں  سے  ان کے  دماغوں  نے  سوچنا شروع کر دیا اور ان کے  جسم سفید ہاتھیوں  کے  شعلوں  کی تپش محسوس کرتے  حرکت کرنے  لگے۔ دھوپ نکلنے  کے  ساتھ ہی۔۔۔ وہ۔۔۔  دور دور تک چیونٹیوں  کی لمبی لمبی قطاروں  کو پھیلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ سفید ہاتھیوں  کی بد صورت سونڈیں  کنوؤں  سے  آبِ حیات چرانے  میں  ڈوبی ہوئی تھیں۔ چیونٹیوں  نے  مخصوص حکمتِ عملی کے  تحت آہستہ آہستہ ان سونڈوں  میں  گھسنا شروع کر دیا اور ان کے  دماغوں  کو نوچ کر ان کے  جسموں  کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرنے  لگے، سفید ہاتھی اندرونی زلزلے  سے  تھر تھرا کر دھڑا دھڑ زمین پر گرنے  لگے اور  سازشی ققنس کا گلہ شاہینوں  کے  ڈر سے  بیٹھنے  لگا اور وہ کرگسوں  کی طرح چمن سے  بھاگنے  لگے۔ کالے  ناگ اپنے  حلیفوں  کی یہ شکست خوردہ اور وحشت ناک صورت حال دیکھ کر بزدلوں  کی طرح مکاری کے  بلوں  میں  چھپ گئے۔ دیکھتے  ہی دیکھتے  نیم مردہ مخلوق نے  ایک طاقت ور قافلے  کی صورت اختیار کر لی۔ چمن دوبارہ خوشبو دار ہواؤں  سے  مہک رہا تھا اور۔۔۔  وہ۔۔۔  خوشی سے  جھوم رہا تھا کہ اس کی صدائیں  محکوم مخلوق کو جگانے  میں  بانگِ درا ثابت ہوئیں۔۔۔ وہ۔۔۔  انھیں  شاباشی دیتے  ہوئے  کہہ رہا تھا کہ وہ مردہ بن گیا تھا لیکن اب وہ زندہ ہے۔۔۔ زندہ۔۔۔!

٭٭٭

 

خاموشیوں  کی صدائیں

_________________جبیں  نازاں

          ’’ بچاؤ!۔۔۔  بچاؤ۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔؟ ارے  بھئی کوئی ہے۔۔۔؟؟ مدد کو آؤ!۔۔۔  میری مدد کو آؤ!۔۔۔ ‘‘

           دور بہت دور سے  آواز آ رہی تھی، سہیل کی آنکھ کھل گئی، سہیل کی کچھ سمجھ نہیں  آیا، وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کمرے  میں  تاریکی، نیند بھری آنکھوں  سے  دیکھتا ہوا، اپنی آنکھوں  کو ہاتھوں  سے  ملنے  لگا شاید بجلی چلی گئی ہے۔ وہ زیر لب بڑبڑایا۔ پھر آواز کی طرف کان لگا دیا۔۔۔  غالباً دور کہیں بھیڑ اکٹھا ہے  جو مسلسل چیخ و پکار کر ہی ہے۔ آخر یہ چیخ و پکار کیوں ؟؟۔۔۔  کسی ناگہانی آفت کا نتیجہ تو نہیں،۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے  ان کے  گھروں  میں  آگ لگ گئی ہو یا لگا دی گئی ہو! یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ ان کے  گھروں  میں  چور، لٹیرے  گھس آئے  ہوں۔۔۔!یا ہو سکتا ہے  کہ ان کے  محلے  میں  دہشت گردانہ کاروائی پولیس کی نگرانی میں  انجام دی جا رہی ہو۔۔۔  ہونے  کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔  بہر حال! اب ہمیں  ان کی مدد کرنی چاہئے۔۔۔!

          سہیل سوچتا ہوا کھڑکی کے  نزدیک آیا۔ پردہ سرکایا۔ کھڑکی سے  باہر جھانکا،بیرون خانہ فضا بالکل پر سکون تھی۔ گرد و نواح میں  سناٹوں  کی حکمرانی تھی لیکن آواز ہے  کہ، ان سناٹوں  کو چیرتی۔۔۔  در و دیوار سے  ٹکراتی اس کے  کمرے اور  کان میں  آ رہی تھی۔۔۔

          سہیل کی کھڑکی کے  ٹھیک سامنے  دس قدم کی دوری پہ طارق کی عظیم الشان بلڈنگ تاریکی کے  بانہوں  میں  لپٹی کھڑی تھی۔ سہیل یہ دیکھ کر حیران ہوا،کیوں  کہ اس نے  عمر میں  پہلی بار اس عمارت کو اندھیروں  کی زلفوں  میں منھ چھپاتے  ہوئے  دیکھا تھا۔ عقبی دروازہ سمیت عمارت کے  احاطے  میں  ہمیشہ سولر بلب روشن رہا کرتا تھا۔ لیکن آج طارق کی یہ عمارت تاریکی کی نذر کیوں  ہوئی؟

طارق نے  آواز سن کر اپنی عمارت کو سیاہی کی پناہ میں  دینا بہتر سمجھا۔۔۔؟ خوف و دہشت میں  نیند کہاں  آتی ہے  بھلا۔۔۔؟لیکن خوف کی وجہ۔۔۔؟ خوف زدہ ہونے  کی بجائے  اسے  ہمت سے  کام لینا تھا۔ اسے  گھر سے  باہر نکلنا چاہئے۔۔۔! دیکھنا چاہئے  کہ یہ آواز کہاں  سے  آ رہی ہے اور  کیوں۔۔۔؟؟ ہمیں  مصیبت کے  ماروں  کی مدد کرنی چاہئے۔۔۔!کوئی نکلے  یا نہ نکلے، مجھے  گھر سے  نکلنا چاہئے۔۔۔۔۔۔!سہیل سوچتا ہوا اپنے  بستر پہ واپس آتا ہے۔ پلنگ کی دائیں  جانب دیوار پہ لگی کھونٹی ٹٹولتا ہے۔ شرٹ اتارتا ہے۔ اندھیرے  میں  ٹٹول کر الٹے  سیدھے  شرٹ کی تمیز کرتا ہوا، دائیں  ہاتھ میں  دائیں  آستین اور بائیں  ہاتھ میں بائیں۔۔۔  پہنتا ہے، پھر ٹارچ ڈھونڈ نے  لگتا ہے۔ رات سونے  سے  قبل ٹارچ سرہانے  رکھنا بھول گیا تھا شاید۔۔۔  وہ ٹیلی ویژن سیٹ کے  قریب آتا ہے  کیوں  کہ اکثر وہ ٹارچ ریموٹ کے  پاس رکھ دیا کرتا تھا __لیکن آج اسے  ٹارچ یہاں  بھی نہیں  ملی۔ وہ واپس ہوتا ہے۔ میز کا ایک کونہ اس کے  پیٹ اور سینے  کے  درمیان گھپ جاتا ہے۔ وہ چوٹ زدہ حصے  کو بائیں  ہاتھ سے  رگڑتا ہوا جھلاتا ہے۔۔۔  مزید ٹارچ کی تلاش کو تضیع اوقات سمجھتا ہے اور  باہر نکل جاتا ہے۔

          ’’ کمبخت بجلی کو بھی پتہ نہیں  آج کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟‘‘ بڑبڑاتا ہوا دروازے  کے  باہر قدم رکھا ہی تھا کہ اسے  یہ آواز چہار سمت سے  آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ آواز اس قدر صاف اور اتنی شدید تھی کہ اسے  لگا کہ یہ بھیڑ قریب ہی اکٹھا ہے۔ سہیل سوچ کر مغموم ہوا کہ اس کا محلہ غفلت کے  کنویں  میں  غرق ہو چکا ہے۔ یہی غفلت تو اپنے  ملک و قوم کا مستقبل سیاہ حرفوں  سے  لکھتی ہے۔

          سہیل اپنے  ذہن کو جھٹک کر شمال و جنوب کے  پس و پیش میں  پڑے  بغیر مغرب کی جانب چل پڑا۔ سہیل نے  نصف کلو میٹر سفر طے  کیا تھا کہ ندی آ گئی، وہ خاموش بہتی ہوئی ندی میں  اترا، پانی میں  قلقل کی آواز پیدا ہوئی۔ سہیل کو یہ آواز بہت پسند تھی۔ وہ پہروں  ندی میں  ڈوبا رہتا صرف اس لئے  کہ وہ اس آواز سے  محظوظ ہوتا رہے  لیکن آج وہ نہایت سرعت سے  ندی عبور کر گیا۔ ڈھلان پر چڑھتا ہوا لڑکھڑا کر گر پڑا۔ ٹخنے  چھل گئے۔ دائیں  کہنی میں  زبردست چوٹ لگی۔ وہ کہنی پکڑکر بیٹھ گیا جوں  ہی اسے  خیال آیا کہ دیر نہ ہو جائے۔ وہ دھڑاک سے  اٹھا۔ اسے  دو سال قبل کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اس کے  پڑوس میں  آگ لگی تھی۔ گھر کے  تمام افراد چیختے  چلاتے  رہے۔ آگ بجھانے  کی تمام تر کوششیں  کرتے  رہے۔۔۔  آگ تھی کہ بھڑکتی ہی جا رہی تھی۔ لوگوں  کے  اکٹھا ہوتے  ہوتے  دیپک  کی سولہ سالہ خوبصورت بہن راگنی جل کر راکھ ہو چکی تھی۔

          اور پھر ایک واقعہ اور۔۔۔  ایک ہفتہ قبل صبح صادق کے  وقت ترائی گاؤں  میں  چند نکسلائٹ وارد ہوئے اور  دو خاندان کے  سات افراد کو تیز دھار اوزار سے  قتل کر دیا، عورت، بچے،دہشت زدہ اور بد حواس تھے  یہ منظر دیکھ کر،آس پاس کے  گھروں  کا دروازہ کھٹکھٹاتے  رہے۔۔۔  مدد کی بھیک مانگتے  رہے۔ لیکن کسی نے  دروازہ کھولنے  کی زحمت نہ کی اور نہ ہی کوئی جواب دینا اخلاق سمجھا۔۔۔  پولیس شام کے  وقت جائے  واردات پر پہنچی۔۔۔  جب کہ نکسلائٹ اپنے  محفوظ ٹھکانوں  پر خوشیاں  منا رہے  تھے۔

          سہیل نے  دوڑنا شروع کیا۔۔۔  دوڑتا ہوا جنگل میں  جا پہنچا، لمبے  لمبے  گھنے  درخت قطار در قطار کھڑے  تھے۔  ایک تو رات کی تاریکی اور پھر جنگل کا گھنا اندھیرا۔۔۔  ٹمٹماتے  تاروں  کی تھرتھراتی کانپتی روشنی کا گذر  نا ممکنات میں  شامل ہے۔۔۔  اسے  ایک آواز سنائی دی۔

          ’’ کس سمت جا رہے  ہو پیارے !؟آواز چہار سو سے  آ رہی ہے۔۔۔! کون و مکان میں  خاموشی کی پکار، ان سنی رہ جاتی ہے  پیارے !۔۔۔  دشتِ بلا میں  عصرِ شاہ تنہا رہ جاتے  ہیں۔۔۔  ان کی مدد کو کوئی نہیں  آتا۔۔۔! اغیار تو خیر! دشمن ٹھہرے ! اپنے  بھی نہیں۔۔۔۔۔۔!‘‘

          سہیل چونکتا ہے۔ چاروں  طرف دیکھتا ہے۔ کہیں، کوئی نہیں  ہے۔۔۔  شاید یہ آواز غیب سے  آئی ہو۔۔۔! میری ہمت افزائی کے  لئے۔۔۔  سہیل نے  سوچا، اور پھر اپنا قدم بڑھایا۔ سہیل کی پشت سے  وہی بھیڑکی آواز آنے  لگی ___سہیل کشمکش میں  تھا کہ وہ آگے  بڑھے  یا پیچھے  کی طرف جائے۔ دائیں  مڑے  یا بائیں۔۔۔  اسے  یہ آواز چار سو سے  سنائی دے  رہی تھی۔

          وہ ایک قدم آگے  بڑھاتا۔ دو قدم پیچھے  ہٹتا ___پھر دائیں  مڑتا __ اس کے  بعد بائیں  وہ گویا ’’ چکری‘‘ کی مانند گھوم رہا تھا (بچپن میں  شبِ برات کے  موقع پر آتش بازی کے  دوران،’’چکری‘‘ خوب جلایا کرتا تھا۔ اور اسے  ’’ چکری‘‘ کا گھومنا ان آنکھوں  کو بھلا لگتا تھا ) آواز بالکل قریب سے  سنائی دے  رہی تھی۔ لیکن بھیڑکا دور دور تک نام و نشان نہ تھا ___وہ مسلسل گھوم رہا تھا۔ گویا وہ چکری میں  تبدیل ہو چکا تھا اور اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا!!!

٭٭٭

 

دشمن کون

__________________ام سلمیٰ

          ’’میں  اس گھر کو بناؤں  گا، میرے  جیجا کا تھا۔ ‘‘ اس لڑکے  نے  سڑک کی دوسری طرف اشارہ کیا۔

           وہاں  کھڑے  کچھ کھمبے اور  شہتیر جہاں  اپنی اجڑی دنیا کا ماتم کر رہے  ہیں  وہیں  خود رو پودوں اور  برساتی جھاڑیوں  نے  بچے  کھچے  حصوں  کو چھپانے  کی بھرسک کوشش بھی کی ہیں۔

          ’’ انھوں  نے  اس مکان کو کیوں  چھوڑ دیا؟‘‘

          ’’ چھوڑا نہیں، انھیں  مار ڈالا گیا۔ ‘‘

          ’’ کس نے  مار ڈالا اور کیوں؟ ‘‘ ہم نے  پوچھا۔

          ’’ جاراواؤں  نے۔ وہ اپنے  ساتھیوں  کے  ساتھ جنگل گئے  تھے۔ پانچ جَن تھے۔ دو کا شَو مل گیا۔ دو کا نہیں۔ اس میں  سے  ایک جیجا ہیں۔ ان کا ایک ساتھی دونگی میں  بیٹھا تھا۔ اس کی ناک میں  تیر لگا تھا۔ وہ کسی طرح چپّو کھیتے  ہوئے  جان بچا کر بھا گا تھا۔ دس ورش بیت گئے۔ ‘‘لڑکا چپ ہو گیا۔

          ’’ اوہ دکھد گھٹنا ہے۔ ‘‘ اور بیقراری بھرے  لہجے  میں ہم نے  پوچھا ’’ کیا جاراوا یہاں  بھی آتے  ہیں؟‘‘

          ’’کبھی نہیں۔ سانتنو میں  ان کے  نہ آنے  کا ریکارڈ ہے۔ ہاں  کدم تلاّ میں  آتے  ہیں۔ ‘‘

          ہم نے  اطمینان کی سانس لی۔ اس نے  کہا ’’ دیدی میرا گاؤں  بہت دور ہے۔ یہاں  چھپر ڈال لوں  گا۔ اسکول آنے  جانے  میں  سُوِدھا ہو گی۔ ‘‘

          ہم نے  بھی اسے  دلاسا دیا۔ ’’ اسکول تمہارے  لئے  ہی ہے۔ پڑھنے  لکھنے  کی امنگ رکھنے  والوں  کے  لئے  یہاں  کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ ‘‘ وہ آنکھیں  نیچی کئے  اپنے  دونوں  ہاتھ جوڑ دیتا ہے۔ وہ چلا جاتا ہے۔

          اور ہم دیکھتے  رہ جاتے  ہیں  اوبڑ کھابڑ کھمبوں  کو جو دس سال پہلے  تک اپنی چہار دیواری میں  ایک بھرا پرا سنسار سمیٹے  زندگی کی ہمک سے  سرشار تھے۔ کھمبے  جو کسی بھی مکان کے  لئے  ریڑھ کی ہڈی ہوتے  ہیں۔ آج دیواروں  کے  بنا بے  کسی کے  ساتھ آدھے  ادھورے  ٹکے  ہوئے  ہیں۔

          آدِم جَن جاتی جاراواؤں  کے  بارے  میں  ہم بچپن سے  سنتے  آ رہے  ہیں۔ درمیانہ قد، گٹھیلا جسم، چمکتا ہوا کالا رنگ، سرخی لئے  زرد آنکھیں، جوٹ جیسے  بال اور مٹی سے  جسم پر بنائے  نقش و نگار ان کے  سراپا کو اور بھی ہیبت ناک بنا دیتے  ہیں۔ کہتے  ہیں  کہ وہ چوں  کہ نمک کا استعمال نہیں  کرتے۔ ان کا تھوک زہریلا ہوتا ہے۔ تیر سے  نشانہ سادھنے  سے  پہلے  یہ اس کی نوک پر تھوک لگا دیتے  ہیں۔ تیر جسم کو بیدھ ڈالتا ہے اور  شکار وہیں  ڈھیر۔ یہ زہر والی بات کہاں  تک صحیح ہے  آج اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔

          دوسری عالمی جنگ کے  بعد جب ہم اسکول میں  پڑھ رہے  تھے۔ ایک بار شور ہوا کہ دو جاراوا پکڑکر لائے  گئے  ہیں۔ پورٹ بلیئر میں  ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس رات گھروں  کے  دروازوں اور  کھڑکیوں  کی کنڈیوں  کو کئی بار چیک کر کے  تسلّی کی گئی کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ اس اطمینان کے  باوجود کتنی ہی آنکھوں  سے  نیند ہوا ہو گئی تھی۔ دوسرے  ہی دن ڈھنڈورا پٹ گیا کہ دونوں  جاراوا لوہے  کی سلاخوں  کا بھرکس نکال کر نو دو گیارہ ہو گئے  ہیں۔

          پھر سے  تہلکہ مچ گیا کہ نہ جانے  کس کس کی شامت آنے  والی ہے۔ اپھان کی طرح ابھرا ڈر وقت کے  ساتھ دھیرے  دھیرے  شانت ہو گیا۔ زندگی کی مصروفیات نے  ان لوگوں  سے  متعلق باتوں  کو دماغ کے  کسی تاریک تہہ خانے  میں  بند کر دیا تھا۔ گاہے  گاہے  ان کے  چرچے  سنے  جاتے، کچھ تحریریں  چھپتیں،ایک عام انسان کی طرح ہم بھی سنتے، پڑھتے، کچھ بحث و مباحثہ اور بس۔ کبھی کبھار جاراواؤں  کے  کسی نہ کسی پر حملے  سے  پچھلے  واقعات تازہ ہو جاتے۔ ان کی بربرتا اور وحشیانہ حرکتوں  کی داستان لوگ آنکھیں  پھاڑے اور  منھ بائے  سنتے  رہتے۔

          جب ہمارا تبادلہ مِڈل انڈمان کے  اس حصے  میں  ہوا۔ ہماری اطلاع کے  لئے  توپ کے  گولے  کی طرح سب سے  پہلی بات داغی گئی کہ وہ جاراوا ایریا ہے۔ اسی طرح جب ہمارا ٹرانسفر کار نکو بار ہوا تھا۔ کچھ بہی خواہوں  نے  مچھروں  کے  سنگیت اور چونا پانی کے  وہ قصیدے  پڑھے  کہ بخدا ہم بھی پل بھر کو ڈگمگا گئے  تھے۔

           آج ہم یہ سوچنے  پر مجبور ہیں  کہ جن آدِم جَن جاتی کے  ساتھ ہماری سرکار اپنائیت قائم کرنے  کے  لئے  کوشاں ہے  وہی یہ جاتی ہماری آنکھ کی کر کری کیوں  بنی ہوئی ہے ؟ اس دکھتی رگ کو تلاش کر اس پر ہاتھ رکھنا چاہتے  ہیں  ہم۔ ہمیں یاد آیا تِمر نے  کہا تھا۔ ہاں  اس لڑکے  کا نام تِمر ہی ہے۔ اس نے  کہا تھا جاراوا کدم تلّا میں  آتے  رہتے  ہیں۔

          اسی اثنا میں  ہماری ملاقات پولیس تھانہ کے  S.H.Oسے  ہوئی۔ انھوں  نے  جنوری ماہ میں  اپنے  ساتھ گذرے  حادثے  کو کچھ اس طرح بیان کیا تھا :

          ’’ آدھی رات کے  ایک بجے  کوئی دکھیارا اپنی شکایت لکھوانے  پہنچا تھا۔ شکایت لکھی ہی جا رہی تھی کہ انھوں  نے  تھانے  کے  باغیچے  میں  کچھ آہٹ محسوس کی۔ باہر اندھیرا تھا اور انھوں  نے  خاص دھیان بھی نہیں  دیا۔ کچھ لمحوں  کے  بعد ایک انسانی سایہ جھاڑوں  کے  پیچھے  سے  اچھل کر کھڑکی کے  پاس آ کر اوجھل ہو گیا۔ S.H.Oنے  سمجھا کہ جو شخص شکایت لکھوانے  آیا ہے  اس کی مخالف پارٹی کا کوئی آدمی ہے  جو مخبری کرنے  پہنچ گیا ہے۔ ان کا پارہ چڑھ گیا۔ انھوں  نے  چیخ کر ڈانٹا اور پوری طاقت سے  میز پر مکا رسید کر دیا۔ سوئی ہوئی اندھیاری رات دہل گئی اور تھانہ کے  اندر باہر جیسے  بھونچال آ گیا۔ چند جاراوا تھانہ کے  اندر ساتھ والے  رہائشی کمرے  میں  تھے اور  ایک گروہ بار۔ بد حواسی میں  سب گرتے  پڑتے  بھاگنے  لگے۔ پل بھر کے  لئے  تھانہ انچارج سمجھ نہ پائے  کہ یہ کیا ہو رہا ہے  اور  سرپٹ دوڑنے  والے  لوگ کون ہیں۔ دیکھتے  ہی دیکھتے  پیڑ پودوں، جھاڑ جھنکاڑ کو پھلانگتے  وہ سب کے  سب آنکھوں  سے  اوجھل ہو گئے۔

           انھوں  نے  بتایا  تھا کہ جاراواؤں  کا جماؤ لگ بھگ آٹھ بجے  شروع ہو گیا تھا۔ اس وقت پتوں  کی سرسراہٹ سے  وہ یہ سمجھے  تھے  کہ شاید جانور گھس آئے  ہیں۔ بعد میں  کمروں  کی جانچ کرنے  پر معلوم ہوا کہ پاؤں، سبّل وغیرہ سب غائب تھے۔ یہاں  تک کہ دھوبی کے  یہاں  سے  آئے  کپڑے  جو کھڑکی کے  پاس رکھے  تھے  ندارد۔ دوسرے  دن تمام کپڑے  ادھر ادھر بکھرے  ملے۔ نہیں  ملیں  تو لوہے  کی چیزیں۔

           اصل میں  جو جاراوا موقع پا کر کمرے  کے  اندر آ گئے  وہ ان چیزوں  کو کھڑکی کے  باہر اپنے  ساتھیوں  کو دیتے  جا رہے  تھے۔ کسی کے  پاس تیر کمان نہیں  تھا۔ وہ آئے  تھے  ان چیزوں  کو لینے  جن کی انھیں  ضرورت پڑتی۔ ایک ٹیکرے  پر بنے  ہری مندر میں  بھی اپنی ضرورت کی چیزیں  تلاش کرتے  وہ آ چکے  ہیں۔ دونوں  ہی جگہوں  میں  ان کے  قدموں  کے  نشان بھی ملے  ہیں۔ موقع پا کر رات کو گھروں  میں  گھس جاتے  ہیں اور  اوزار، ہتھیار،برتن وغیرہ کے  علاوہ کھانے  کی چیزیں  اٹھا لے  جاتے  ہیں۔ باغیچوں  سے  کیلے  کے  گود کاٹ لے  جانا نئی بات نہیں۔

           تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ جب جاراوا شکار کی تلاش میں  جنگل جنگل پھر رہے  ہو تے  ہیں۔ نام نہاد مہذب دنیا کے  میٹھے  لوگ ان کے  جھونپڑیوں  پر دھاوا بول دیتے  ہیں۔ ڈاکہ ڈالتے  ہیں۔ امبر، شہد اور دوسری چھوٹی موٹی چیزیں  لوٹ کر تسلی نہیں  ہوتی تو ان کے  سوئے  ہوئے  معصوم بچوں  کو بھی مار ڈالتے  ہیں اور  ان کی جھونپڑی میں  آگ لگا دیتے  ہیں۔

          کہتے  ہیں  جاراوا ایسے  لوگوں  کو کبھی نہیں  بخشتے۔ وہ مانو ان کی بو پا لیتے  ہیں اور  گھات لگا کر ان کے  مکان تک پہنچ تیروں  سے  چھلنی کر ڈالتے  ہیں۔ جنگل سے  پیڑ کاٹے  جائیں انھیں  گوارہ نہیں۔ ہاتھی چھوڑے  جائیں  وہ برداشت نہیں  کر سکتے۔ وہ اچھی طرح جانتے  ہیں  کہ ان سے  ان کی بربادی ہے۔ کہتے  ہیں   کہ ایک بار ان لوگوں  نے  ایک مہاوت اور اس کے  ایک ساتھی کو ہاتھی نہ چھوڑنے  کا اشارہ کیا تھا۔ جب وہ نہ مانے  تو جاراواؤں  نے  کام کر رہے  کئی مزدوروں  کے  بیچ سے  صرف ان دونوں  کو ہی اپنے  تیروں  کا نشانہ بنا ڈالا۔

          اس حقیقت سے  انکار نہیں  کیا جا سکتا کہ مٹھی بھر بچے  ان انسانوں  کی بربادی کے  ذمے  دار ہم ہیں۔ ترقی یافتہ سماج ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ ان کو پیچھے  دھکیلتے  دھکیلتے  ایک چھوٹے  سے  حصے  میں  قید کر دیا ہے  Penetretthutسے  پہلے  ان جزیروں  کے  سدا بہار گھنے  جنگلوں  پر ان ہی کا راج تھا۔ اپر ڈین کے  علاقے  میں  ان کا مقابلہ ہو تا تھا پولیس کے  ساتھ یا پھر قیدیوں  سے۔ ان کی ساری زمین ہم نے  ہتھیا لی۔ ان کے  یہاں  کھانے  کے  لالے  پڑے  ہیں۔ ان کو بچانے  کے  لئے  سرکار کی کوششیں  سراہنئے  سہی تا ہم ناکافی ہیں۔

           جاراواؤں  کے  بارے  میں  ہم جو سنتے  آئے  تھے  وہ سب باتیں  اب ایک ڈراؤنے  خواب سے  زیادہ اہمیت نہیں  رکھتیں۔ جنگل کے  یہ راجہ آج بے  چارگی کی زندگی جی رہے  ہیں۔ وہ سرکشا چاہتے  ہیں۔ ان کی حفاظت ہو سکتی ہے  اگر ہم سب ایک ہو جائیں اور  یہ نا ممکن نہیں۔ پھر کسی تمر کے  جیجا کا گھر نہیں  اجڑے  گا اور نہ کسی جاراوا کی جھونپڑی شعلوں  کی نذر ہو گی۔ کیوں  کہ چراغ سے  چراغ جلتا ہے۔

٭٭٭

 

افسانچے

_______________سراج فاروقی

 مسلمان کی مسجد

          ’’ تم نے  کہاں  نماز پڑھی۔۔۔؟

           اقبال نے  محمد علی سے  پوچھا۔

          ’’ غوثیہ مسجد میں۔۔۔ ‘‘ محمد علی نے  اپنے  دوست سے  کہا۔

          ’’ ارے  وہ تو وہابی لوگوں  کی ہے۔ ‘‘

          ’’ میں  تو سمجھا کہ مسلمان کی ہے۔۔۔ ‘‘

          ’’ نہیں، وہ وہابی لوگوں  کی ہے۔۔۔ ‘‘

          ’’ اچھا تو پھر مسلمان کی کہاں  ہے۔۔۔؟ جہاں  دیکھو وہاں  وہابی لوگوں  کی، شیعہ لوگوں  کی،سنّی لوگوں  کی۔ مگر اس شہر میں  ہم نے  مسلمان کی ایک نہ دیکھی۔۔۔؟‘‘

          ’’ دیکھو گے  بھی نہیں۔۔۔؟‘‘ ایک تیسرا آدمی وہاں  آ کر بولا۔

          ’’ کیوں۔۔۔؟‘‘ ان دونوں  نے  اس سے  سوال کیا۔

          ’’ کیوں  کہ۔۔۔؟‘‘ تیسرا آدمی بولا۔ ’’ جو لوگ بھی یہاں  پر ہیں۔ سبھی شیعہ، سنّی، وہابی ہیں۔ کوئی تو مسلمان ہے  ہی نہیں۔۔۔؟‘‘

          ’’ سچ کہا۔۔۔ ‘‘ محمد علی نے  سنجیدگی سے  جواب دیا۔ میں  نے  سوچا ہے، اب میں  یہاں  ایک ایسی مسجد بناؤں  گا جو صرف مسلمان کی ہو گی۔۔۔ ‘‘

جانور

          قربانی کا موسم تھا۔

          مسلمان لوگ قربانی کر رہے  تھے۔ بمشکل ایک گائے  چھڑا کر بھاگ گئی۔ مسلمان اس کا پیچھا کرتے  کرتے  ہندوؤں  کے  علاقے  میں  پہنچ گئے۔

          ہندوؤں  نے  گائے  پکڑ لی اور مسلمانوں  کو دینے  سے  انکار کر دیا۔ کافی بحث و مباحثہ کے  بعد ہندو، مسلمان کی انا کا مسئلہ بن گیا۔

           کچھ لمحہ بعد۔

           شہر میں  اس بات کو لے  کر فساد پھوٹ پڑا۔ تھوڑی دیر پہلے  جہاں  جانور کٹ رہے  تھے۔ اب وہاں  انسان کٹنے  لگے  تھے۔!!!

مردہ

          جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو کلیم نے  قلم اٹھا کر پھینک دیا۔ ’’ہشت۔۔۔ ‘‘ اس کو آج بڑا غصہ آ رہا تھا اپنی قوم پر۔ سمجھا سمجھا وہ تھک گیا۔ لکھ لکھ کر وہ ہار گیا۔ مگر وہ نہ مانے۔

          دفتر میں  اخبار کے  مالک داخل ہوئے۔ ’’ کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

          ’’ میں  آج سے  یہ نوکری چھوڑتا ہوں۔۔۔ ‘‘

          ’’کیوں۔۔۔ ‘‘ اخبار کے  مالک نے  حیرت و تعجب سے  سوال کیا۔

          ’’ جن کے  لئے  لکھ لکھ کر انگلیاں  چھلنی ہو گئیں۔ قلم گھس گھس کر ڈنڈی ہو گئی۔ کلیجہ ماٹھا ہو گیا۔ آج مجھ کو معلوم پڑا، وہ مردہ سے  مردہ ہیں۔۔۔ ‘‘ وہ ان کو الیکشن کے  نتائج دکھاتے  ہوئے  بولا۔

          ’’ یہ ہے  ہماری قوم! ٹکے  میں  بک گئی۔ آخر فرقہ پرست جماعتوں  کے  ہاتھ مضبوط کئے، کیا فائدہ؟ان کے  لئے  کیا لکھنا؟ اتنا اگر میں  سور کے  لئے  لکھتا تو وہ پاکیزہ ہو گئی ہوتی، ہرن ہو گئی ہو تی۔۔۔  اگر کتوں  کے  لئے  لکھا ہو تا تو وہ شیر ہو گئے  ہو تے۔ اگر مردوں  کے  لئے  لکھا ہو تا تو وہ زندہ ہو گئے  ہوتے  ا ور کافروں  کے  لئے  لکھا ہوتا تو وہ مومن ہو گئے  ہوتے۔ مگر یہ ہشت۔۔۔ ‘‘ وہ نفرت کی شدت سے  دھاڑا۔

           اخبار کے  مالک رشید میاں  بھی قوم کی اس حقیقت کو سمجھتے  تھے۔ دونوں  کا مشن ایک تھا۔ لیکن آج دونوں  فیل ہو گئے  تھے۔ رشید میاں  کسی تھکے  ہارے  مسافر کی طرح وہیں  کرسی پر گر گئے اور  اپنے  لائق ایڈیٹرکو جاتا ہوا بھیگی آنکھوں  سے  دیکھتے  رہے۔

قربانی

          اصغر علی کے  دل میں  کب سے  تھا کہ وہ بھی ایک بار قربانی کرے۔ مگر اس کی مالی حالت اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی۔

          بڑے  دنوں  بعد،آج اس کی یہ حالت ہوئی تھی کہ وہ قربانی کر سکے۔ وہ آج بہت خوش تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر رہا تھا۔ وہ اپنے  بیٹے  کو لے  کر دیونار گیا۔ اور وہاں  سے  اپنی حیثیت کے  مطابق ایک بکرا خرید لایا۔

           بقر عید کے  دن، بعد نماز اس نے  خشوع خضوع اس بکرے  کی قربانی  دی۔ اور باپ بیٹے  نے  مل کر اس کی کھال نکالی اور تمام آلائشوں  سے  اس کو پاک و صاف کیا۔ اس کے  بعد گوشت کو ٹکڑوں  میں  بانٹ کر، ترازو میں  تول کر تین برابر حصے  کئے۔ ایک غریبوں  کے  لئے۔ دوسرا رشتہ داروں  و دوستوں  کے  لئے اور  تیسرا خود گھر کیلئے  رکھا۔ جب سب گوشت تقسیم ہو گیا حقداروں  کا تو اصغر علی نے  دیکھا  ابھی اور ضرورت مند پڑے  ہیں۔

          آج اس کو وہ دن یاد آیا۔ جب وہ سنتا تھا۔ لوگ فرج میں  رکھ کر ۳۔ ۳ مہینہ گوشت کھاتے  ہیں۔ مگر غریبوں، محتاجوں  کو نہیں  دیتے۔ لیکن آج وہ ایسا نہیں  کرنا چاہتا تھا۔ آج اللہ نے  اس کو یہ دن دکھایا ہے  تو ضرورت مندوں  کی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا تھا۔

           اور پھر وہ گوشت بھی ( جو اپنے  گھر کے  لئے  رکھا تھا) اٹھایا اور غریبوں، ناداروں  میں  تقسیم کرنے  لگا۔ شام تک جب سب گوشت تقسیم ہو گیا اور اس کی نگاہ میں  کوئی ضرورت مند نہیں  رہا، تو اس نے  اللہ کا شکر ادا کیا۔

          چھٹا بیٹا پاس آ کر بولا، ’’لیکن ابا اپنے  لئے  تو کچھ نہ بچا۔۔۔ ‘‘

          باپ نے  صابرانہ و شاکرانہ نظروں  سے  بیٹے  کو دیکھ کر کہا،’’ بیٹے،یہی تو قربانی ہے۔۔۔ ‘‘

           بیٹے  نے  دیکھا باپ کے  چہرے  پر اس وقت جنت سا سکون اور آب زم زم کی سی پاکیزگی ہے۔ بیٹا بھی حلال و پاکیزہ کمائی کا پلا بڑھا تھا۔ باپ کے  صابرانہ و شاکرانہ قربانی کے  اس جذبے  سے  بہت خوش ہوا۔

          رات کا کھانا بیوی نے  وہی دال روٹی بنایا اور سب لوگوں  نے  ہنسی خوشی سے  صبر و شکر کے  ساتھ کھایا۔۔۔!!

٭٭٭

 

بول کہ لب آزاد ہیں   تیرے

سات برسوں  بعد ہندوستانی اردو زبان میں  واپسی

(تحریرنو،ظہیر انصاری اور شوکت حیات کے  حوالے  سے )

___________مشرف عالم ذوقی

تنہائی میرا سب سے  بڑا ہتھیار ہے۔ تنہائی میری سب سے  بڑی مضبوطی ہے۔ میں  تنہا ہوتا ہوں اور  اپنی دنیا کا سکندر اعظم بن جاتا ہوں۔ جو بس اس خیال سے  پیدا ہوا ہے  کہ اسے  ساری دنیا کو فتح کرنا ہے ___بند کمرہ___آنکھوں  میں  چھائی ہوئی دھند___میری میز___میری جانی پہچانی کرسی___شیلف میں  سجی کتابیں۔ جب بھی گھبراتا ہوں  ’پریشان ہوتا ہوں، کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کمرہ بند کر لیتا ہوں ___آنکھوں  میں  آہستہ آہستہ دھند کے  اترنے  کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دھند کی وادیاں  در اصل میری سلطنت ہیں۔ دھند کی ان وادیوں  میں  اچانک ہزاروں  قمقموں  کے  برابر روشنی پھیل جاتی ہے۔ میں  دیکھتا ہوں، میں  ہوا کے  رتھ پر سوار ہوں۔ بس اڑتا جاتا ہوں۔ خوش رنگ مناظر حیرت سے  اپنے  آقا کی نہ ختم ہونے  والی اڑان دیکھ رہے  ہیں۔ خوش رنگ مناظر اور آقا___! لیکن یہ سارے  گل بوٹے  میرے  ہیں۔ یہ منظر میرے  دم سے  خوش رنگ ہیں اور  میرے  وجود کی خوشبو سے  کھلکھلا اٹھتے  ہیں۔

میں  ایک لمحے  کو ٹھہرتا ہوں۔ آنکھوں  میں  جلتے  ہوئے  چراغ کانپ رہے  ہیں۔

کیا ہوا___؟

کچھ نہیں۔

کچھ کیسے  نہیں ___؟

کیا بتاؤں، کسی نے  میرے  اب تک کے  کمٹمنٹ کا مذاق اڑایا ہے۔

تو اڑانے  دو۔ یہ بادشاہوں  کے  ساتھ ہوتا رہا ہے۔

لیکن میں  دکھ جاتا ہوں۔

کیوں؟

بس___یونہی___ساری زندگی لٹا کر بھی پوچھا جائے  کہ تم نے  کیا کیا ہے  تو___؟ بس وہی چار کیلیں، جو مضبوطی سے  ادب کے  چورا ہے  پر ’گاڑ‘ دی گئی ہیں۔ مدتوں  سے ___چورا ہے  پر تو چار راستے  ہیں۔ چار مختلف سمتوں  میں۔۔۔؟

ہاں۔۔۔  تو۔۔۔؟

’دیکھنے  والوں  کی نظر کمزور ہے۔ ‘

’اس سے  کیا ہوتا ہے۔ ‘

’دیکھنے  والے  کل تمہیں  بھی دیکھیں  گے اور  دیکھتے  رہ جائیں  گے ___گھبراؤ مت۔ موسم کا مزاج بدل رہا ہے۔ ہوا تیز ہے۔ ابھی حال میں  ممبئی میں  بارش نے  لوگوں  کا جینا دوبھر کر دیا۔ سونامی ہزاروں  لاکھوں  نشانیاں  اپنے  ساتھ لے  گئی۔ ایک دن ایک تیز آندھی آئے  گی۔ یہ چار کیلیں، اکھڑ جائیں  گی۔ پھر نئی کیلیں  نکلیں  گی۔ گھبراتے  کیوں  ہو۔

٭٭

حقیقت یہ ہے  کہ میں  کبھی نہیں  گھبرایا۔ گھبراتا کیسے۔ یاد ہے۔ ہم چھوٹے  تھے۔ تین بھائی، تین بہن۔ ابا سارے  بچوں  کو گھیر کر کہانیاں  سنایا کرتے  تھے۔ ان کہانیوں  میں  داستان امیر حمزہ سے  لے  کر ملفوظات خواجگان چشت، رامائن، مہابھارت، ورڈس ورتھ سے  غالب اور طلسم ہوش ربا سے  دمیجک ماؤنٹین تک اور سراج انور کی کالی دنیا سے  لے  کر ہومی جہانگیر بھابھا جیسے  سائنسدانوں  کی کہانیاں  یا آپ بیتی بھی ہوتی‘ جنہیں  سنتا‘ سناتا ہوا میں  کب اپنی سلطنت کا امیر بن بیٹھا‘ یاد نہیں ___بچپن میں  کھیل مجھے  کبھی راس نہیں  آئے۔ ہر کھیل میں  ہار جاتا تھا۔ یاد ہے  اس رات ابا خواجہ بابا (حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری) کے  بارے  میں  بتا رہے  تھے۔ جب انہیں  خواجہ عثمان ہارونی کی پابوسی کی دولت نصیب ہوئی۔ وہ خواجہ کو لے  کر بدخشاں  میں  آئے۔ ایک بزرگ سے  ملے، جس کی عمر سو سال سے  بھی زیادہ تھی۔ وہ خدا کی یاد میں  زندگی کے  باقی ماندہ دن گزار رہا تھا لیکن اس کا ایک پاؤں  نہ تھا۔ پوچھنے  پر اس نے  بتایا کہ اک بار نفسانی خواہش کی خاطر اس نے  جھونپڑی سے  باہر قدم نکالا ہی تھا کہ آواز آئی کہ لے، آج تو اپنے  اقرار سے  پھر گیا۔ ہیبت طاری ہوئی۔ چھری پاس پڑی تھی۔ اس نے  چھری اٹھائی۔ آنکھیں  بند کیں۔ پاؤں  کاٹ ڈالا اور باہر پھینک دیا___

ابا کہانی سنا چکے  تھے۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میں  کمرے  میں  آیا۔ دھند کے  بننے اور  پھیلنے  کا سلسلہ شاید یہیں  سے  شروع ہوا۔

میں  نے  آنکھیں  بند کیں۔ میں  ہوں۔۔۔  میں  ہوں۔۔۔

میں  مشرف عالم ذوقی۔۔۔  میں  ہوں۔۔۔

آواز آئی۔ لیکن تم کہاں  ہو۔ تم تو کہیں  بھی نہیں  ہو۔ تم تو معمولی سے  معمولی کھیل میں  بھی ہار جاتے  ہو۔۔۔

جی پر لرزہ طاری تھا۔۔۔  میں  ہوں۔۔۔  میں  ہوں

میں  اب نہیں  ہاروں  گا‘ میں  اب صرف جیتوں  گا‘ میں  نے  کھلونے  اٹھائے۔ باہر پھینک دیئے۔ کھیل سے  توبہ کر لی۔ قلم اٹھایا۔ آنکھوں  سے  لگایا۔ اب صرف جیتوں  گا۔۔۔  صرف جیتوں  گا۔

تنہائی سے  یہ میری پہلی خود کلامی تھی جس نے  مجھ میں  جینے  کا الکھ جگایا۔۔۔  مدتوں  بعد پروفیسر ایس کی عجیب داستان لکھتے  ہوئے  یہ خود کلامی مجھ پر سوار تھی، جسے  پروفیسر ایس کے  کردار میں  ڈھالتے  ہوئے اور  تین مونو لاگ کی شکل میں  پیش کرتے  ہوئے  ایک عجیب سی تخلیقی سرشاری میرے  وجود پر حاوی رہی۔۔۔

تنہائی اور قلم___مجھے  میرے  جینے  کا سہارا مل گیا تھا۔ میں  اپنی تنہائیوں  کو قصے  جمع کرنے  کے  لیے  چھوڑ دیتا۔ چھوٹے  چھوٹے  نوٹس تیار کرتا۔ پھر ان قصوں  کو لکھ ڈالتا___یہاں  تک کہ میری کہانیاں  رسائل میں  شائع ہونے  لگیں۔ زندگی سے  بہت کچھ سیکھنے  کو ملا۔ یہ بھی کہ غرور کسی بھی تخلیق کار کے  لیے  موت سے  کم نہیں ___مجھے  یاد ہے، اسکول سے  کالج تک میں  اپنے  ’ہونے ‘ کے  نشہ میں  گم تھا۔ مجھے  اپنی خوبصورتی اپنے  خوبصورت چہرے  اپنی بلا کی ذہین آنکھوں  پر غرور تھا۔ بچپن میں  اکثر یہ مکالمہ دوسروں  سے  سننے  کو ملا کہ مشرف جیسی آنکھیں  تو صدیوں  میں  کسی کے  یہاں  دیکھنے  کو ملتی ہیں۔ بس یہ نشہ بڑھتا گیا۔ اپنے  آپ سے  محبت کا یہ نشہ اتنا گہرا تھا کہ میں  کسی کو بھی خاطر میں  نہ لاتا۔ مگر آہ اسی غرور نے  مجھے  انسان بنانے  کا بھی کام کیا۔ مجھے  اپنے  الجھے  الجھے  گیسو پسند تھے۔ دہلی آنے  کے  بعد سر سے  بال کم ہوتے  گئے۔ مجھے  اپنی آنکھوں  پر ناز نہیں، بلکہ غرور تھا۔ خدا نے  ان آنکھوں  کو کمزور کر دیا اور ہمیشہ کے  لیے  ایک سیاہ چشمہ میری آنکھوں  پر آ گیا۔

میری خود کلامی کا دوسرا دور تھا___

خود پسندی کے  صحرا سے  باہر نکل آؤ۔

ہوں؟

یہ تمہیں  تباہ کر دے  گی۔

کر دے ، بلا سے ___

تمہارے  اندر کا تخلیق کار مر جائے  گا۔

میرے  اندر کا تخلیق کار___میں  کانپ رہا تھا۔ یہ مر جائے  گا تو میں۔۔۔  میں  زندہ کب رہوں  گا___؟ سوال نے  پھر سر نکالا۔ دہلی کی بھیڑ بھری سڑکوں  پر کون تم سے  چھوٹا ہے؟ یہاں  پرائم منسٹر رہتے  ہیں۔ کوئی بھی پتھر چلا کر دیکھو، کسی گیان پیٹھ انعام یافتہ یا پھر کسی بڑے  آدمی کے  گھر گرے  گا۔

’تو۔۔۔؟‘

آدمی بن جاؤ۔ اب بھی وقت ہے۔ سب تمہارے  جیسے  ہیں۔ بڑا پیڑ’ بوڑھا ہو کر جھک جاتا ہے۔ ہر بڑے  آدمی کے  اندر ایک خاکساری ہوتی ہے۔ اور میاں  تم تو خاکساری کو خاطر میں  ہی نہیں  لاتے۔

لیکن میں  مغرور کہاں  ہوں ___؟

ہو کیسے  نہیں ___تنہائی کا سانپ ڈس رہا تھا۔ بال اڑ گئے۔ آنکھیں  کمزور ہو گئیں۔ مگر غرور کا دامن نہیں  چھوڑا۔ لکھنا چاہتے  ہو نا، تو لکھو۔ اپنے  ادب کو پھیلاؤ۔ اردو سے  ہندی کی طرف بڑھو۔ پہلا قدم پھر اس کے  بعد دوسرا قدم بڑھاؤ۔ دوسری زبانوں  کی طرف۔ مگر خبردار،غرور اور انا کا بوجھ کچھ تو کم کر دو یار۔

میں  نے  اپنا جائزہ لیا___دھند بڑھ گئی تھی۔ دھند میں  قمقمے  روشن تھے اور  تیز روشنی میں،  میں  اپنے  سہمے  ہوئے  ہمزاد کو پہچان سکتا تھا___

تم دوسروں  سے  مختلف ہو۔ مختلف ہونا برا نہیں  ہے۔ بس ذرا اس خود پسندی کے  نشہ سے  دور نکل آؤ۔ پھر دیکھو۔ یہ ساری دنیا تمہاری ہے۔ تمہاری ہے۔

٭٭

یہ سچ ہے  کہ دہلی آنے  کے  بعد ایک نئے  ذوقی کا جنم ہوا تھا۔ جو سب سے  ہنستا ملتا تھا۔ مسکراتا تھا۔ جو محفلوں  میں  اینگری ینگ مین تو مشہور تھا لیکن جس سے  ملنے  والے  یہ کہنے  سے  نہیں  گھبراتے  کہ یار تم سے  پہلے  ملتے  ہوئے  گھبراتا تھا۔ سوچتا تھا، کہیں  تم ٹھیک سے  بات نہ کرو تو۔۔۔  میں  اکثر و بیشتر خود سے  دریافت کرتا ہوں  کہ لوگ میرے  بارے  میں  ایسی رائے  کیوں  رکھتے  تھے۔ ممکن ہے، یہ غرور، یہ انا، انہیں  میری کہانیوں  میں  بھی دکھائی دے  جاتی ہو۔ مگر سچ یہ ہے  کہ میں  نے  خود کو بدلنا شروع کر دیا تھا اور میری اس تبدیلی میں  سب سے  بڑا ہاتھ تبسم کا تھا۔ تبسم، جو شاید میری زندگی میں  نہ آئی ہوتی تو نہ میں  یہ ادبی مہمات سر کرتا اور نہ ہی ایک اچھا انسان بننے  کی کوشش کرتا۔ اور اب بھی اس یقین کے  ساتھ نہیں  کہہ سکتا کہ میں  تبسم کے  اس قول کو کس قدر پورا کر پایا ہوں ___کہ پہلے  تم اچھے  انسان بن جاؤ۔ پھر لوگ تمہیں  خود ہی پیار کرنے  لگیں  گے۔

دھند مجھ پر حاوی تھی۔ تنہائی آہستہ آہستہ مجھے  اپنی گرفت میں  لے  رہی تھی۔ محبتیں  مجھے  خوش آمدید کہہ رہی تھیں اور  زندگی کی الجھنیں  میرا راستہ روک رہی تھیں۔ لیکن قلم ہر بار میرا ساتھی تھا۔ دوستوں  سے  بڑھ کر میرے  دکھ اور سکھ میں  شریک۔ پھر میں  سب سے  ملنے  لگا۔ پھر میں  سب سے  بچھڑ گیا۔ کچھ سال پہلے  انعمتہ میری جان، دو برس کچھ مہینے  کی یادیں  سونپ کر ہمیشہ کے  لیے  وداع کی گھاٹیوں  میں  کھو گئی۔ میں  نے  ملنا جلنا ترک کر دیا۔ پاکستان سے  محمود واجد، ناصر بغدادی اور قافلے  آتے  رہے۔ میں  فون پر گفتگو تو کر لیتا تھا مگر کسی سے  بھی ملنا نہیں  چاہتا تھا۔ محفلوں، سیمیناروں  میں  جانا چھوڑ دیا۔ پھر یوں  ہوا کہ میں  تنہائی کی وحشت کا اسیر ہو گیا۔ بند کمرہ مجھے  پاگل کر دیتا تھا۔ لفٹ میں  داخل ہونے  سے  گھبراتا تھا۔ پلین میں  سفر نہیں  کر سکتا تھا۔ ٹرین کے  ایرکنڈیشنڈ ڈبے  میں  بند ہونے  کا خوف میری جان لے  لیتا تھا۔ یہ بیماری بڑھتی گئی۔ اور اس بیماری کا علاج کسی نفسیاتی معالج، کسی ڈاکٹر کے  پاس نہیں  تھا۔ میرے  پاس اب ایک ہی راستہ بچا تھا۔ میں  نے  پروفیسر ایس کی تخلیق کی، اور اس کے  کردار میں  یہ بیماری ڈال دی۔ اس پر بھی بس نہیں  ہوا تو میں  نے  بے  رحمی سے  اس کردار کو ’موت‘ دے  دی۔ ایک گھٹن بھری موت۔

کہتے  ہیں  گابرئیل گارسیا مارخیز اداسی کے  سو سال، لکھنے  کے  بعد جی بھر کر رویا تھا۔ وہ کردار اس کے  اپنے  کردار تھے۔ اس کے  آس پاس گھومتے  ہوئے  لوگ اس کے  ناول کے  کردار بن گئے  تھے۔ لیکن میں  نے  تو پروفیسر ایس کی عجیب داستان میں  اپنا ہی قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کے  بعد مجھے  سکون میسر تھا۔ تخلیقی سرشاری کا احساس بھی تھا۔ ایک بوجھ میں  نے  اتار دیا تھا۔ اب میں  آزاد تھا۔ اب تیسرے  مونولاگ کا وقت تھا۔

ادب ایک مافیا بن چکا ہے؟

تو۔۔۔؟

دوہرے  چہرے  والے ___ان میں  ہر شخص اردو کو کیش کرنے  میں  لگا ہے۔۔۔

جنگ کا بگل بجانا ہو گا۔

اس کے  لیے  تمہیں  سب سے  لڑنا ہو گا۔ لڑ سکو گے؟

کیوں  نہیں ___

تحریر نو، ظہیر انصاری، اور شوکت حیات

اس سوال کا جواب اب میرے  پاس تھا۔ میں  لڑنا بھول گیا تھا۔ کس سے  لڑوں اور  کیوں ___؟ میں  کوئی پروفیسر نہیں  تھا۔ کسی اکادمی یا یونیورسٹی میں  نہیں  بیٹھا تھا___ذوقی کے  سامنے  آ کر خاموش رہنے  والوں  کی ایک جماعت تھی اور ایک جماعت ان لوگوں  کی، جو پیٹھ پیچھے  میری برائیاں  کرتے  تھے۔ کون ذوقی؟ بسیار نویس؟ زود حس ذوقی؟ ایک دن میں  کئی کئی کہانیاں  لکھنے  والا؟

ظہیر انصاری صاحب، شوکت حیات ہماری اردو زبان کا لیجنڈ ہے۔ جس کے  ساتھ ہونے  والی نا انصافیوں  میں  اس کی بے  باک اور گستاخانہ بیانوں  کا بھی حصہ رہا۔ اور یہی عمل میرا بھی رہا۔ یہ چند سطور اس لیے  کہ شوکت نے  میرا بھی ذکر کیا ہے۔۔۔  کہ میرا نام ان کے  متون سے  محذوف کر دیا گیا۔ صرف نام؟ ساہتیہ اکادمی سے  قومی اردو کونسل اور دنیا بھر میں  ہر مہینے  جن لوگوں  کو بلایا جاتا ہے، وہاں  ذوقی کا نام نہیں  ہوتا۔ یہ سچ ہے  کہ میں  جانا بھی نہیں  چاہتا۔ میں  پورے  کمٹمنٹ کے  ساتھ اردو میں  آیا تھا لیکن آہستہ آہستہ مجھے  اردو کی اس سیاست سے  نفرت ہونے  لگی___اور میں  لینڈ اسکیپ کے  گھوڑے  (سنہ ۲۰۰۲) اور پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی (۲۰۰۳) کے  بعد اردو سے  اس حد تک بیزار ہو گیا کہ مکمل طور پر ہندی میں  آ گیا۔ سال میں  دو کہانیاں  لکھنے  والے  کو بسیار نویس کہا گیا۔ خدا جانے  ان لوگوں  نے  ٹیگور، دوستوفسکی، تالستائے، بالزاک وغیرہ کو کس خانے  میں  رکھا ہے ___یا پھر شیو شنکر پلّئی جیسے  ناول نگار کو جس کے  ناول ہزار صفحات سے  کم نہیں  ہوتے۔ میں  نے  سنامی میں  ادب مافیا پر بھی کچھ صفحے  لکھے  تھے اور  نتیجہ یہ ہوا کہ اس ناول کا بائیکاٹ کرنے  کی کوشش کی گئی۔ (عرصہ ہوا۔ ممبئی کے  سکندر احمد صاحب نے  خصوصی طور پر یہ ناول منگوایا تھا اور اس کی بیحد تعریف کی تھی) یہ ناول اردو ناولوں  کی عام روش یا ڈگر سے  مختلف تھا۔ مگر اس میں  اپنے  وقت کے  مافیا کا ذکر تھا___اور اس ناول کو دبانے  کی حتی الامکان کوشش کی گئی جو رائیگاں  نہیں  گئی۔

صلاح الدین پرویز___اس نام سے  وابستہ ہزاروں  کہانیاں  ہیں۔ محسن لکھنؤ سے  آئے۔ مجھے  پرویز سے  ملانے  لے  گئے اور  میں  پرویز کا چھوٹا بھائی بن گیا۔ ای ٹی وی اردو کے  لیے  پروگرام بنانے  کی پیش کش میں  نے  ہی کی تھی___اور وہاں  موجود لوگوں  میں  احمد صغیر (افسانہ نگار) تک سب اس بات سے  واقف ہیں  کہ میرے  خلاف کیا کیا سازشیں  رچی گئیں ___لمبی کہانی ہے ___اس کا ذکر آپ سنامی والی کتاب میں  بھی پڑھ سکتے  ہیں۔

اسی زمانے  میں  حیدر آباد میں، میں  اپنے  بڑے  بھائی اور افسانہ نگار مظہر الزماں  خاں  سے  ملا۔ مظہر الزماں  خاں  نے  ایک انوکھا واقعہ بتایا کہ (سن یاد نہیں ) بیان کو ساہتیہ اکادمی دلانے  کے  لیے  فاروقی صاحب نے  پیش کش کی تھی۔ (میں  نے  تعجب کا اظہار کیا تھا۔ یہ کیسے  ممکن ہے۔ فاروقی نہ مجھے  مانتے  ہیں  نہ بیان کو) مظہر الزماں  خاں  نے  بتایا___فاروقی نے  خود یہاں  آ کر میرے  سامنے  اس واقعہ کا ذکر کیا تھا مگر نارنگ صاحب اس کے  لیے  تیار نہ تھے۔ ایک دوسرا واقعہ دو سال قبل کا ہے۔ ایک دن الہ آباد سے  نظام صدیقی صاحب کا فون آیا۔ ساہتیہ اکادمی انعام کے  لیے  جن دس کتابوں  کا انتخاب کیا گیا ہے  آپ کی کتاب سر فہرست ہے۔ آپ جلدی سے  نارنگ صاحب سے  مل آئیے۔ میں  اس سلسلے  میں  نارنگ صاحب سے  ملنے  نہیں  گیا۔ آج بھی مجھے  انعام و اعزاز جیسی کسی چیز پر بھروسہ نہیں۔ کس طرح انعام لیے  جاتے  ہیں  مجھے  خوب پتہ ہے۔ اور اگر انعام کے  لیے  میرا نام تجویز ہی کیا گیا ہے  یا کسی بھی تخلیق کار کا، تو اسے  ملنے  ملانے  کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بات مجھے  کچھ ہضم نہیں  ہوئی___

ظہیر بھائی، ایسی ہزاروں  کہانیاں  ہیں، کن کن کا ذکر کروں۔ سات برسوں  کے  بعد ہندستانی اردو زبان میں  واپسی کر رہا ہوں۔ اس درمیان ہندی اور پاکستان تک سمٹ گیا تھا۔ کہاں  جاؤں اور  کیوں  جاؤں؟ لوگ کس طرح مرغ و ماہی کی دعوت کے  ساتھ خود کو پروجیکٹ کر رہے  ہیں، یہ بات کسی سے  چھپی نہیں  ہے۔ اس درمیان میں  کئی ناولوں  پر کام کرتا رہا۔ اور انشاء اللہ بہت جلد میرا نیا ناول ’ لے  سانس بھی آہستہ‘ آپ کے  ہاتھوں  میں  ہو گا۔ اس شمارے  میں  اشرف کے  مضمون کی یہ بات مجھے  پسند نہیں  آئی___ہم عصر جواں  سال آدمیوں  کے  ناولوں  میں  شاید کوئی کوئی ایسا ناول ہو جو اس ناول کو آئینہ دکھا سکے۔ ترنم اچھا لکھ رہی ہیں  لیکن یہ ناول کمزور ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے  رحمن عباس نے  بہت اچھا ناول تحریر کیا ہے ___اشرف نے  پڑھا بھی نہیں  ہو گا۔ ترنم ریاض یقیناً اردو ادب میں  ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خاص کر ان کا ایک افسانہ ساحلوں  کے  اس طرف۔۔۔ ‘ یقیناً ایک چونکا دینے  والا اور بڑا افسانہ ہے۔ یہ ناول زبان و بیان کی سطح پر عمدہ ہے  مگر فکر کے  لحاظ سے  کمزور___

ظہیر بھائی، میں  ایک بار پھر اسی باغیانہ لہجہ اور انداز کے  ساتھ واپس آ گیا ہوں۔ ادب سود و زیاں  کے  تاجرانہ اصولوں  پر نہیں  چلتا۔ اس لیے  نہ میں  اپنا فائدہ دیکھتا ہوں اور  نہ نقصان۔ لیکن ہاں، ادب کی سرگرم سیاست اب پہلے  کی طرح پھر میرے  نشانے  پر ہو گی اور شاید کچھ زیادہ ہی سفاک انداز میں۔

 ٭٭٭

 

تبصرہ و تجزیہ

ایک ممنوعہ محبت کی کہانی

_______________شموئل احمد

          ندا فاضلی کا شعر ہے  :

اٹھ اٹھ کے مسجدوں  سے  نمازی چلے  گئے

دہشت گری کے  ہاتھ میں  اسلام رہ گیا

          رحمن عباس کا ناول ’’ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی ‘‘ اس شعر کی تفسیر ہے۔ یہ ممنوعہ محبت کا المیہ کم ہے اور  دہشت گردی کا نوحہ زیادہ ہے۔ ناول کی کہانی مہاراشٹر کے  کوکن کلچر میں  سانس لیتی ہے۔ ناول نگار کے  مطابق کوکن گرم مرطوب ہوا کا خطہ ہے  جس کے  کنارے  کنارے  بحر عرب کی لہریں  صدیوں  سے  ایک تاریخ کا قبرستان اپنے  ساتھ لئے  موجزن ہیں۔۔۔  ایک ایسا سمندر جس کا دوسرا کنارہ دوسری دنیا کی پر اسرار تہذیب سے  جا ملتا ہے۔ بعض پرانے  لوگ فرماتے  ہیں  کہ موہن جودرو سے  ’’ ممنوع محبت‘‘ کرنے  والے  جس گھرانے  کو شہر بدر کیا گیا تھا در اصل سب سے  پہلے  وہی اس خطے  میں  آ بسا تھا۔۔۔  ناول کی کہانی اسی ممنوعہ محبت کے  اسرار بیان کرتی ہے  جس کے  سینے  میں  بدلتا وقت مذہبی جنون کا خنجر اتار دیتا ہے۔

          ناول کا مرکزی کردار عبد العزیز اپنی کمسنی میں  ایک شادی شدہ عورت سکینہ کی محبت میں  گرفتار ہو جاتا ہے  جو اس سے  عمر میں  کئی سال بڑی ہے۔ یہ واقعہ ان دنوں  کا ہے  جب اس کی مسیں  بھیگ چلی تھیں اور  سمندر شریانوں  میں سر اٹھانے  کا فن سیکھ رہے  تھے۔ انھیں  دنوں  وہ سکینہ کے  ساتھ اپنے  پہلے  جنسی تجربے  سے  دوچار ہوتا ہے اور  اس طرح پہلی بار اپنے  جسم کے  اسرار سے  واقف ہوتا ہے۔

           سکینہ کا جسم بھی پیا سا ہے اور  روح بھی۔ سکینہ کا شوہر تبلیغی جماعت سے  متاثر ہے اور  سکینہ کی گود ویران ہے۔ سکینہ کی پرورش دینی ماحول میں  ہوئی ہے۔ خود شوہر اسے  دینی نصاب کی باتیں  پڑھ کر سناتا رہتا ہے۔ سکینہ بھی چاہتی ہے  کہ ساری زندگی شوہر کی محبت اور خوشنودی میں  گذار دے۔ لیکن شوہر سے  مثالی محبت کی جو گانٹھ اس نے  دل کی شاخ پر باندھی ہے  وہ رفتہ رفتہ ڈھیلی پڑنے  لگتی ہے اور  شادی کے  تقریباً چار سال بعد اس کو احساس ہوتا ہے  کہ اس کے  اندر زندگی کی جو للک تھی اسے  شوہر کی دینی باتیں اور  اصلاحی حکایات پورا کرنے  سے  قاصر ہیں اور  آخر کار عبد العزیزکی ممنوعہ محبت میں  گرفتار ہو تی ہے۔

          ناول میں  املی کے  ایک پیڑ کا ذکر ہے  جس کی حیثیت تاریخی ہے  یہ چھ سو سال پرانا پیڑ ہے  جس پر شگفتہ کی روح بسیرا کرتی ہے۔ رحمن عباس پیڑ کے  وسیلے  سے  اپنی ایک متھ کریئٹ کرنا چاہتے  ہیں۔ شگفتہ ممنوعہ محبت کی ماری ہوئی ہے۔ سکینہ نے  پیار کیا جس کے  پاداش میں  وہ قتل ہو تی ہے اور  اس کی روح قتل کے  بعد پیڑ کو مسکن بناتی ہے۔ اس پیڑپر پہلے  جنوں  کا ڈیرہ تھا جو شگفتہ کی مسلسل گریہ زاری سے  گھبرا کر گھنے  جنگل میں  پناہ لیتے  ہیں اور  پیڑ پر شگفتہ کی حکمرانی ہو جاتی ہے۔

          سکینہ عبد العزیز سے  حاملہ ہوتی ہے اور  یوسف کو جنم دیتی ہے۔ عبد العزیز تعلیم مکمل کر کے  ملازمت کے  لئے  گلف کا رخ کرتا ہے۔ گاؤں  کے  نوجوان ملازمت کے  لئے  کویت کوچ کرتے  ہیں۔ گاؤں  کا کایا کلپ ہوتا ہے۔ گاؤں  میں  بجلی آتی ہے اور  ساتھ ساتھ جرمنی اور کوریا کے  برقی آلات آتے  ہیں۔ مٹی کی دیواریں  مسمار ہوتی ہیں  ان کی جگہ سمنٹ کے  پختہ مکانات تعمیر ہوتے  ہیں۔ لکڑی کے  چولہے  مٹی کے  برتن پائے  موسل اپنی افادیت کھو دیتے  ہیں۔ گھر کی زینت آرائشی سامانوں  سے  ہوتی ہے اور  زیتون کا تیل لکس صابن اور عطریات کی بہتات ہوتی ہے۔ یہ واپسی میں  خلیج دولت کے  ساتھ عرب کی ثقافت بھی ساتھ لاتے  ہیں۔ عورتوں  کے  لئے  برقعے  بزرگوں  کے  لئے  جانماز اور اندھیرے  میں  چمکنے  والی تسبیحات۔۔۔! ہر بات میں  اسلامی آداب کا ذکر ہونے  لگتا ہے۔ بچوں  کے  نام بھی عربی طرز کے  رکھے  جاتے  ہیں۔ عورتوں  کو نماز کی تلقین ہوتی ہے۔ لوگ سفید کرتا اور ٹخنوں  کے  اوپر پائجامہ پہنتے  ہیں اور  ثواب اور گناہ کے  موضوع پر بحث کرتے  ہیں۔ اب برقعہ نہیں  پہننا بے  حیائی اور بد چلنی کی علامت ہے۔ اب ہندو کافر ہیں اور  مراٹھی زبان کافروں اور  بت پرستوں  کی زبان ٹھہرا دی گئی ہے۔ اردو مذہب سے  جڑ گئی ہے۔ لوگ خوشحال تو ہو گئے  ہیں لیکن ثقافتی اور تہذیبی سطح پر مقامی کلچر سے  دور ہو گئے  ہیں۔ گاؤں  اب دلوں  کی انجمن نہیں  ہے۔ گاؤں  اب محض گھروں  کا مجموعہ ہے۔

          عبد العزیز کا ناجائز بیٹا دینی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ وہ غضب کا ذہین ہے۔ کم عمری میں  ہی مفتی بن جاتا ہے اور  اپنا مدرسہ قایم کرتا ہے اور  احکامات جاری کرتا ہے۔ مثلاً ہندوؤں  کے  تہواروں  میں  شرکت گناہ ہے۔۔۔  ٹوپی پہننا لازمی ہے۔۔۔  ٹیلی ویژن کو فوراً پھینک دو۔۔۔  بچوں  کو اردو میں  ہی تعلیم دلوائی جائے۔۔۔  عرس اور مزاروں  کا اسلام میں  کوئی مقام نہیں  ہے۔۔۔  وغیرہ۔۔۔  وغیرہ۔۔۔!لیکن عبد العزیز کی سوچ ایسی نہیں  ہے۔ بیرون ملک جا کر اس میں اور  بھی روشن خیالی آ گئی ہے۔ وہ جب گاؤں  واپس آتا ہے  تو اسے  بدلا ہوا ماحول پسند نہیں  آتا۔ اسے  ان قدروں  کی تلاش ہے  جن میں  پل کر وہ جوان ہوا ہے۔۔۔  جہاں  اس کے  گاؤں  کا اپنا کلچر ہے۔ کھلی فضا ہے۔۔۔  آزادی ہے۔۔۔  محبت ہے  لیکن گاؤں  کے  انتہا پسندوں  کو اس کے  خیالات اسلام کے  لئے  مضر معلوم ہوتے  ہیں۔ اس کا اپنا خون یوسف جو اب مفتی کی حیثیت رکھتا ہے  اس سے  متنفر ہو جاتا ہے۔ اس کو مرتد سمجھتا ہے اور  آخرش اس کا قتل کر دیتا ہے۔ جس وقت عبد العزیز کی جان نکلتی ہے  تو شگفتہ کی روح املی کے  پیڑ سے  پرواز کر جاتی ہے۔ گویا اس کی جگہ اب عبدالعزیز کی روح لگے  گی۔

          کوکن کلچر کے  بیان میں  مصنف نے  بہت سے  کوکن الفاظ اردو زبان کو عطا کئے  ہیں  مثلاً ’’ پٹری‘‘ ’’ منکیلدار‘‘ ’’ گڑگے ‘‘ وغیرہ۔ ناول کے  مطالعے  سے  پتہ چلتا ہے  کہ رحمن عباس نے  مغربی ناولوں  سے  براہ راست استفادہ کیا ہے۔ ان کی تحریر پر اردو ناولوں  کا اثر نہیں  ہے۔ ان کا اسلوب مغربی طرز تحریر کا کاک ٹیل ہے۔ ان کا بیانیہ کہیں  کہیں  چھوٹے  ٹکروں  میں  تقسیم ہے  جو میلان کندیرا کا انداز ہے۔ وہ قاری کو صرف اپنی موجودگی کا احساس نہیں  دلاتے  بلکہ شدت سے  اپنی بات باور کرانے  کی بھی کوشش کرتے  ہیں۔ مارکیز کے  انداز میں  فنتاسی کا رنگ بھی شامل ہے اور  بیانیہ میں  مستقبل حال اور ماضی کو گڈ مڈ کر کے  میجک ریلزم کا سا تاثر قایم کرنے  کی کوشش کی گئی ہے۔ ٭٭٭

 

گاہے  گاہے

___________مبصر:رفیق جعفر

          ’ گاہے  گاہے ‘سعید راہی کی غزلوں  کے  مجموعہ کا نام ہے۔ اس مجموعہ کو بہت پہلے  ہی شائع ہونا چاہئے  تھا۔ کیوں  کہ سعید راہی کی غزلیہ شاعری کی کی شہرت تقریباً ۲۵ برس سے  مشاعروں اور  غزل گائیکی کے  حوالے  سے  ادبی دنیا میں  ہے۔ رسائل اور جرائد میں  ان کا کلام کم کم ہی شائع ہوا ہے۔ نقادوں  کی رہبری انھوں  نے  کبھی قبول نہیں  کی اور نہ ہی کسی ازم، نظریے  یا استاذ کے  زیر اثر رہے اور  نہ ہی کسی ’ ادبی لابی‘ کا اسیر بن کر رہنا انھوں  نے  پسند کیا، اپنے  طور پر اپنے  مزاج کی شاعری کرتے  رہے۔ بقول ندا فاضلی:

          ’’ سعید راہی کی شاعری میں  حال و ماضی کی تشریح و تعبیر دوسروں  سے  مختلف بھلے  ہی ہو لیکن وہ ان کی اپنی ہے۔ ‘‘ اپنی راہ اور اپنے  سخن پر قائم رہنا اپنے  آپ میں  ایک مشکل کام ہے۔ اس مشکل کو راہی نے  کس طرح آسان کر لیا یہ تو وہی جانیں، ہم ان کے  سامع اور قاری یہ جانتے  ہیں  کہ ان کے  شعر سہل زبان میں  دل کو چھونے  والے  ہوتے  ہیں۔ یہ بھی کیا کم ہے۔

          زیر تبصرہ کتاب میں  ندا فاضلی کے  علاوہ عبد الاحد ساز اور ڈاکٹر رام پنڈت نے  بھی سعید راہی کی غزل پر اپنی رائے  دی ہے۔ دونوں  کے  آرء اپنی جگہ اہم ہیں اور  سعید راہی کی غزل کی انفرادیت کی تائید کرتے  ہیں۔ میں  نے  ’’ گاہے  گاہے ‘‘ کا مطالعہ گاہے  گاہے  ہی کیا ایک ساتھ تین گھنٹے  صرف کئے، نتیجے  میں  میں  بھی ان کی غزل گوئی اور ان کی الگ روش کا قائل ہو گیا، ان کی شعر گوئی بے  ساختہ ہے اور  ان کا لہجہ دھیما اور پر اثر ہے۔ ان کے  کلام میں  گہرائی، گیرائی، پیچیدگی یا فلسفیانہ سوچ کی گنجائش نہیں۔ جو بھی ہے  راست گوئی ہے، سچے  احساس کے  پکے  رنگ ہیں۔ شعر گوئی میں  انھوں  نے  دماغ کا دخل اتنا ہی ضروری سمجھا ہے  جس کی مدد سے  دل کی بات مؤثر ڈھنگ سے  قرطاس تک پہنچ جائے اور  یہ اس میں  کامیاب بھی ہیں۔ رومانیت اور سماجیت کے  امتزاج ان کی غزل کا مزاج ہے۔ یہ اس وقت اپنا جادو جگاتا نظر آتا ہے   جب سعید راہی مائیک پر ترنم میں  غزل پڑھتے  ہیں۔ یا ان کی غزل کوئی غزل سنگر گاتا ہے۔ ان کا ترنم اور سنگر کی گائیکی ان کی غزل کو سامعین تک پہنچانے  میں  بے  شک کامیاب ہے  لیکن کہتے  ہیں  ’’ شعر کاغذ پر بولتا ہے  ‘‘ اب جب کہ ان کی غزلیں  کتابی صورت میں  شائع ہوئی ہیں  تو بحیثیت قاری میں  نے  محسوس کیا کہ ان کی غزل کا ہر شعر ان کے  لہجے  میں  بولتا ہے۔ زبان خاص و عام کے  لئے  قابل قبول ہو سکتی ہے  لیکن وہ تاثر جو ترنم اور گائیکی کی سجاوٹ سے  پیدا ہو تا ہے  اس میں  کچھ کمی ضرور واقع ہوتی ہے۔ وہ قارئین جنھوں  نے  سعید راہی کو مشاعروں  میں  نہیں  سنا ہے  یا ان کے  کلام کو کسی سنگر کو گاتے  ہوئے  نہیں  سنا ہے  اس کے  لئے  اس کتاب کی غزلیں  آج کی غزلیہ شاعری سے  مختلف لگیں  گی۔ اس کے  باوجود غزل کا با ذوق قاری ان کے  اشعار کو اس لئے  بھی پسند کر سکتا ہے  کہ ان کے  کلام میں  ماضی کی کلاسیکیت کے  ساتھ ساتھ حال کی غنائیت بھی ہے۔ اس کے  علاوہ نرم ملائم لہجے  میں  انسان کے  اندر چھپے  دبے  ایسے  جذبات ہیں  جسے  محسوس کر کے  قاری چونک بھی سکتا ہے اور  لطف اندوز بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے  طور پر صرف چار اشعار پیش خدمت ہیں :

چلو اک فیصلہ باہم یہ کر لیں

کہ ہم میں  فاصلہ کتنا رہے  گا

بعد مدت کے  مرے  کہنے  پر

تیری تصویر مسکرائی ہے

تم خود کو کسی راز کی مانند چھپا لو

کیوں  بند کواڑوں  کو ابھی کھول رہے  ہو

میں  اس کے  در پہ دستک دوں  بھی کیسے

مری آہٹ کو وہ پہچانتا ہے

          ۱۲۸ صفحات کی اس کتاب میں  ایسے  کئی شعر غزل پسند قارئین کو مطمئن کر سکتے  ہیں۔ مجموعی طور پر غزل کا یہ مجموعہ قابل مطالعہ ہے۔ آخر میں  ان کے  ہی ایک مشہور شعر کا حوالہ ضروری ہے  :

گاہے  گاہے  اسے  پڑھا کیجے

دل سے  بہتر کوئی کتاب نہیں

           اعتراف گروپ بمبئی کے  سربراہ وقار قادری کے  زیر اہتمام شائع ہوئی اس کتاب کی قیمت۲۰۰ روپے  مناسب ہے۔ جو مکتبہ جامعہ کی دہلی، ممبئی اور علی گڑھ کی بک اسٹالوں  کے  علاوہ کتاب دار، ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی ۸ سے  خریدی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭

 

جہان اردو

 یوسف ناظم نے  اپنے  پیش رَو مزاح نگاروں  سے  کسبِ فیض ضرور کیا لیکن کسی سے  متاثر نہیں  ہوئے۔ ڈاکٹر عرفان فقیہ ہمارے  زمانے  کو یوسف ناظم جیسے  نکتہ چیں  کی ضرورت تھی اور کل بھی رہے  گی:  ڈاکٹر افسر فاروقی

 ممبئی یونیورسٹی کے  شعبۂ اُردو میں  ’’یوسف ناظم کی شخصیت اور فن ‘‘پر دو روزہ قومی سمینار

____________________ ند یم صد یقی

          ممبئی:۲۹ مارچ۔ جامعہ ممبئی کے  شعبۂ اُردو اور قومی کونسل برائے  فروغ اردو زبان(نئی دہلی) کے  زیر اہتمام آج صبح اُردو کے  ممتاز اور ممبئی کے  مشہور طنز و مزاح نگار اور ادیب و شاعر یوسف ناظم کی شخصیت اور فن پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد ہوا۔ جس میں  اُردو کے  مشہور ادبا اور اہلِ علم نے  شرکت کی۔

          آج صبح ساڑھے  دس بجے  اس سمینار کے  افتتاحی اجلاس  میں  ڈاکٹر صاحب علی (صدرِ شعبۂ اُردو جامعہ، ممبئی) کے  خیرمقدمی خطاب سے  کاروائی کی ابتدا ہوئی۔ اس اجلاس کا افتتاح کرتے  ہوئے  مشہور ادیب و شاعر شمیم طارق نے  کہا کہ یوسف ناظم نے  طنزو مزاح کا ایک ایسا معیار قائم کیا جس میں  پھکڑ پن، ابتذال اور اِستہزا  کا کہیں  گزر نہیں۔ اس اِجلاس کی صدارت مشہور و ممتاز ادیبہ محترمہ سلمیٰ صدیقی نے  کی۔ جبکہ علیگڑھ سے  پروفیسر شافع قدوائی( صدر شعبۂ صحافت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اور یوسف ناظم کے  رفیقِ دیرینہ،مدیر شگوفہ ڈاکٹر مصطفے ٰ کمال حیدر آباد سے  خصوصی طور پر اس سمینار میں  شرکت کیلئے  تشریف لائے  تھے۔

          ڈاکٹر مصطفے ٰ کمال نے  اپنے  کلیدی خطبے  میں  یوسف ناظم کی مزاح نگاری کا مختلف جہتوں  سے  احاطہ کرتے  ہوئے  اپنے  ذاتی تعلق اور یوسف ناظم اور شگوفہ کی خصوصی اشاعتوں  کے  تعلق سے  سیر حاصل گفتگو کی۔

            اس اجلاس کے  مہمانِ خصوصی پروفیسر شافع قدوائی نے  یوسف ناظم کی ظرافت نگاری کا ساختیات کے  حوالے  سے  ایک جائزہ لیتے  ہوئے  مرحوم کو ایک اہم مزا ح نگار گردانا اور اُن کی مزاح نگاری کا خاصا علمی انداز سے  تجزیہ کیا۔

           صدرِ افتتاحی اِجلاس محترمہ سلمیٰ صدیقی نے  اپنے  خطبے  میں  نہایت شائستہ انداز سے  مرحوم یوسف ناظم کے  فن پر نظر نقد ڈالتے  ہوئے  کہا کہ ان کے  ہاں  لفظوں  کا اسراف بہت ہے۔ محترمہ نے  اجلاس میں  موجود معروف مزاح نگار فیاض احمد فیضی کو ایک مشفقانہ انداز سے  اس اسراف سے  بچنے  کی ترغیب بھی دی۔

           سمینار کا پہلا اِجلاس ڈاکٹر یونس اگاسکر کی صدارت میں  منعقد ہوا جس میں  ڈاکٹر خورشید نعمانی، انور قمر اور مہاراشٹر کالج کے  استاد عَالَم ندوی نے  اپنی اپنی تحریریں  پیش کیں۔ عَالَم ندوی نے  مقالے  کے  بجائے  خاکہ سنایا جس کا عنوان  تھا’’ ادب کا خادم یوسف ناظم‘‘ یہ خاکہ زبان و بیان اور مرحوم کے  محاسن کا ایک نمونہ تھا۔ مقفیٰ و مسجع اس خاکے  میں  عالم ندوی نے  ایک جگہ کیا سچی تصویر کشی کی ہے  کہ ’حسنِیوسف کا کوئی کمال تو ان میں  نہیں  تھا مگر حسنِ محفل وہ ہمیشہ بنے  رہے۔ ان کو دیکھ کر کسی حسینہ نے  پھل کی جگہ انگلی کاٹنے  کی تمنا بھی نہ کی ہو گی مگر ان کی شگفتہ اور ظرافت سے  پُر تحریریں  پڑھ کر بہت سی ادب نواز مہ جبینوں  نے  آہ سرد ضرور کھینچا ہو گا۔ ‘‘ مگر ایک جگہ ان کا یہ جملہ ’’………….. تب ہی مدار میاں  بیٹا دیتے  ہیں۔ ‘‘ ادب کی حدوں  کو پھلانگنے  کی سعیِ خفی کرتا ہوا محسوس ہوا۔ ممتاز افسانہ نگار انور قمر نے ’’ شگفتہ تحریروں  کے  خوش مزاج قلم کار‘‘ کے  زیرِ عنوان اپنے  مقالے  میں  کہا کہ مرحوم یوسف ناظم زود نویس تھے  ( ہمارا خیال ہے  کہ انور قمر یہاں  بسیار نویس کہنا چاہتے  تھے۔ ن۔ ص) مگر ان کی تحریروں  کے  ذریعے  تمام جزئیات کے  ساتھ معاشرے  سے  ہمیں  واقفیت ہو جاتی ہے۔

           انور قمر نے  یہ بھی کہا کہ مرحوم نے  آسمان کے  نیچے  مختلف عنوان سے اور  ہر موضوع پر لکھا اور خوب لکھا، باقر مہدی پر تو اُن کا خاکہ شاہ بیت کا درجہ رکھتا ہے۔

          ڈاکٹر خورشید نعمانی نے  اپنے  مقالے  ’’ یوسف ناظم کی خاکہ نگاری باقر مہدی کے  خاکے  کی روشنی میں ‘‘ ذرا الگ انداز سے  گفتگو کی تو بعض لوگوں  کو یہ کہتے  سنا گیا کہ شاید مقالے  کا کاغذ بدل گیا ہے۔ جس پر صدر اِجلاس ڈاکٹر یونس اگاسکر نے  مداخلت کی اور کہا کہ’’ ہمارے  سیمیناروں  میں  مقالہ نگاری کی ایک طرز بن گئی ہے  مگر کوئی اپنے  مقالے  میں  اپنے  انداز سے  بات کہنا چاہتا ہے  تو اسے  سنا جانا چاہئے۔ ‘‘

           ڈاکٹر خورشید نعمانی چونکہ رُودَولی سے  ہی تعلق رکھتے  ہیں اور  یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے  کہ باقر مہدی بھی اسی مردم خیز دیار کے  سپوت تھے۔ خورشید نعمانی اپنے  ہم وطن باقر مہدی کے  خاندانی اور نوعمری کے  حالات سے  بخوبی واقف تھے  لہٰذا وہ اپنے  مقالے  سے  یہ ثابت کرنا چاہتے  تھے  کہ یوسف ناظم اگر باقر مہدی کے  ابتدائی حالات سے  واقف ہوتے  تو ان کا یہ خاکہ کچھ مختلف ہوتا۔ بہر حال ڈاکٹر خورشید نعمانی نے  اپنی بات کہی اور تفصیل سے  کہی جسے  لوگوں  نے  توجہ سے  سنا بھی۔ ڈاکٹر خورشید نعمانی نے  بصد اصرار یہ بات بھی کہی کہ یوسف ناظم کا یہ خاکہ خاصا مقبول و مشہور ہوا۔

           پرتکلف ظہرانے  کے  بعد دوسرا اِجلاس فارسی کے  استاد پروفیسر نور السعید اختر کی صدارت میں  شروع ہوا۔ جس میں  اندور سے  آنے  والے  ڈاکٹر حدیث انصاری، فیاض احمد فیضی، ڈاکٹر کلیم ضیا اور ڈاکٹر عرفان فقیہ نے  مرحوم یوسف ناظم پر کلام کیا۔

           فیاض احمد فیضی نے  کہا کہ یوسف ناظم کا ادبی سفر فراز سے  نشیب کی طرف رہا ہے۔ ’ کیف و کم‘ میں  وہ اپنے  فن کی بلندی پر نظر آتے  ہیں  مگر بعد میں زود نویسی( یہاں  بھی بسیار نویسی ہی ہم نے  مراد لی۔ ن۔ ص ) نے  اُنکے  معیارِ ظرافت کو متاثر کیا۔

          ڈاکٹر عرفان فقیہ نے  مثبت انداز اختیار کرتے  ہوئے  حاضرین کو بتایا کہ اُنہوں  نے  اپنے  پیش رَو مزاح نگاروں  سے  کسبِ فیض ضرور کیا لیکن کسی سے متاثر نہیں  ہوئے اور  اپنی الگ راہ بنائی۔

           تیسرے  اِجلاس کی صدارت ڈاکٹر عرفان فقیہ نے  کی اور محمد ایوب واقف، ڈاکٹر عبد الباری اور مہاراشٹر کالج کے  استاد ماجد قاضی نے  اپنے  اپنے  مقالے  نذرِ سامعین کئے۔

          سیمینار کے  دوسرے  دن کا پہلا اجلاس ڈاکٹر خورشید نعمانی کی صدارت میں  منعقد ہوا۔ جس میں  پہلا مقالہ( بہ عنوان: یوسف ناظم بہ حیثیت خاکہ نگار) عباس مجتہد نے  پڑھا۔ جس میں  انہوں  کہا کہ یوسف ناظم نے  اپنے  خاکوں  میں  مراتب کا بھی خیال رکھا اور ان کے  ہاتھوں  سے  مزاح کا دامن بھی نہیں  چھوٹا۔ واضح رہے  کہ عباس مجتہد یوسف ناظم پر تحقیقی کام کر چکے  ہیں۔

          دوسرا مقالہ( قوسین کے  ماہر فنکار یوسف ناظم) ناندیڑ کے  ڈاکٹر شجاعت علی نے  سنایا۔ جس میں  اُنہوں  نے  ’’ قوسینِ یوسفی‘‘ کے  جلوؤں  پر خوب خوب روشنی ڈالنے  کی کوشش کی۔

           اُن کے  بعد صدر اجلاس ڈاکٹر خورشید نعمانی نے  شجاعت علی کے  مقالے  پر کلام کرتے  ہوئے  کہا کہ’’ یوسف ناظم کا فن قوسین کا فن ہے۔ ‘‘

           اِسماعیل یوسف کالج (جو گیشوری) میں  اُردو کی ریڈر  ڈاکٹر افسر فاروقی نے  ’ یوسف ناظم اور عصری حسیت‘ جیسے  عنوان سے  اپنی تحریر حاضرین کے  گوش گزار کی۔ محترمہ نے  کہا کہ یوسف ناظم نے  اپنے  قلم سے  عصر حاضر کے  مسائل اور  معاشرے  میں  پھیلے  ہوئے  جرائم کی نشاندہی کی ہے۔ مرحوم نے  معاشرے  کی غربت کی تصویر کشی بھی کی اور خوب خوب کی۔ مسز فاروقی نے  بصد اصرار کہا کہ ’’ہمارے  دور کو یوسف ناظم جیسے  نکتہ چیں  کی ضرورت تھی، ہے اور  کل بھی رہے  گی۔ ‘‘ مسماۃ فاروقی کے  مقالے  پر پہلا اِجلاس ختم ہوا۔

           ظہرانے  کے  بعد دوسرا اِجلاس یوسف ناظم کے  مربی و محبی مدیر شگوفہ ڈاکٹر مصطفے ٰ کمال کے  زیر صدارت شروع ہوا جس میں  پہلی تحریر نوی ممبئی سے  شائع ہونے  والے  جریدے  ’تحریر نو‘ کے  مدیر ظہیر انصاری نے  پڑھی۔ جس میں  اُنہوں  نے  ’’یوسف ناظم اور ان کے  جملوں  کی برجستگی‘‘  پر کلام کیا۔ انہوں  نے  کہا کہ جب ہم مرحوم کی تحریروں  پر نظر ڈالتے  ہیں  تو ہمیں  نت نئے  موضوعات کا ٹھاٹھیں  مارتا سمُندر نظر آتا ہے۔

           انصاری نے  یوسف ناظم کی شاعری میں  سنجیدگی اور نثر میں  مزاح کے  حوالے  سے  کہا کہ وہ جب شاعری اختیار کرتے  تھے  تو بڑی آہستگی سے  مزاح کو کنارے  کر دیتے  تھے۔ اس حوالے  سے  انصاری نے  یوسف ناظم کی شعری نمونے  بھی  نذرِ سامعین کیے۔

            ظہیر انصاری کے  مضمون پر صدر اِجلاس نے  کہا کہ مقالہ نگار نے  جس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے  وہ یوسف ناظم کے  فن کا ایک اہم عنصر ہے  کہ یوسف ناظم کا فن ہی نہیں  زندگی بھی برجستگی سے  ہی عبارت ہے۔ مصطفیٰ کمال نے  بڑی اچھی بات کی کہ برجستگی کیلئے  فطانت درکار ہوتی ہے  جو یوسف ناظم کے  ہاں  بہ درجہ اتم موجود تھی۔

           اس اجلاس کے  دوسرے  مقالہ نگار تھے  اُردو کے  مشہور اور جدید افسانہ نگار مقدر حمید۔ مقدر حمید نے  مقالہ خوانی سے  قبل مرحوم کے  تعلق سے  اپنے  مراسم کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کو رخصت ہوئے  ابھی ایک برس بھی نہیں  گزرا کہ یہ دو روزہ سیمینار ان کی یاد میں  ہو رہا ہے  جو بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس دو روز میں  میں  نے  یہ دیکھا کہ ہر مقالہ نگار اپنی تحریر میں  ان کے  شگفتہ اور کٹیلے  جملے  یہاں  دُہرا کر ہمیں  اس کا احساس دلا رہا تھا کہ وہ تو ہمارے  ساتھ ہیں  ہمارے  دل میں  ہمارے  قلب میں۔ اس امر پر میں  نے  غور کیا تو یہ احساس بھی ہوا کہ یوسف ناظم کا فنِ لطیف ایک طرح کا ثوابِ جاریہ ہے۔

           یوسف ناظم کی یادوں  پر مبنی مقدر حمید نے  اپنے  مقالے  میں  یہ بات بڑی سنجیدگی سے  کہی کہ’ ناظم مرحوم نے  شہرت کی طلب میں  ریس نہیں  لگائی۔ ‘ مقدر حمید صاف ستھرے  ذہن اور ادبی سیاست سے  دور رہنے  والے  قلم کار ہیں، انہوں  نے  اپنے  اسی کردار کی روشنی میں  بہت سنجیدگی سے  کہا کہ’’اچھے  انسان کیسے  ہوتے  ہیں اور  اچھا ادب کیسا ہوتا ہے، یوسف ناظم کے  کردار اور اُن کی تحریروں  کو پڑھ کر ہم نے  جانا۔ ‘‘

           سچ یہ ہے  کہ یہ تحریر محبت کرنے  والے  انسان کیلئے  مقدر حمید جیسے  محب کی طرف سے  ایک خراجِ عقیدت تھی۔

            اس مقالے  پر صدر نشست نے  مقدر حمید کی باتوں  پر صاد کرتے  ہوئے  کہا کہ یوسف ناظم کے  کنٹری بیوشن کو یاد کرنے اور  یاد رکھنے  کی ضرورت ہے۔

            مدیر شگوفہ نے  فن ظرافت کی ادب میں  اہمیت پر کلام کیا اور اسے  دوسرے  درجے  کا فن سمجھنے  کو نہایت سختی سے  رد کیا اور کہا کہ کوئی بتائے  مشتاق یوسفی جیسے  ظرافت نگار کی تحریروں کو کیا دوسرے  درجے  کا ادب کہا جائے  گا۔ حقیقت تو یہ ہے  کہ مشتاق یوسفی سے  آگے  کوئی نثر (ظرافت)نگار ہے  ہی نہیں۔

           مقدر حمید کے  بعد مشہور شاعر و ادیب اور فلمی نغمہ نگار ابراہیم اشک نے  اپنی تحریر حاضرین کے  گوش گزار کی۔ جس کے  عنوان( ظرافت میں  کرامت کے  علمبردار یوسف ناظم) پر سب چونکے اور  داد بھی دی گئی۔ اشک کی نثر میں  شاعری کا رنگ نمایاں  تھا۔ انہوں  نے  کہا کہ یوسف ناظم سے  ملتے  ہی پتہ چل جاتا تھا کہ یہ شخص ظرافت کی پوٹلی ہے۔

           اشک نے  یہ بھی کہا کہ ہمارے  اکثر مزاح نگار اپنا فن پیش کرتے  ہوئے  حماقت کا شکار ہو جاتے  ہیں اور  اسے  ہی مزاح سمجھ لیتے  ہیں  مگر یوسف ناظم کے  ہاں  ایسا نہیں  ہے۔

           اشک نے  اپنی تحریر میں  کلیم الدین احمد کے  بدنام جملے  کو دہراتے  ہوئے  کلیم پر پھبتی بھی کسی۔ اشک نے  اپنے  مقالے  میں  لہجۂ ابراہیمی  اختیار کرتے  ہوئے  کہا کہ یوسف ناظم اپنے  طرز کے  موجد بھی تھے اور  خاتم بھی۔ اشک کا خیال تھا کہ  یوسف ناظم کی رحلت ظرافت کے  دبستان کی موت ہے۔

          مراٹھی تحریروں  کو اُردو کا جامہ دینے  والے اور  مہاراشٹر اُردو اکادیمی کے  افسر وقار قادری نے  یوسف ناظم سے  اپنے  ذاتی تعلقات کا خلوص سے  ذکر کیا اور کہا کہ ناظم مرحوم اپنی نثر میں  بسیار نویس  ضرور تھے  مگر شاعری میں  انہوں  نے  اس سے  پرہیز کیا۔ انہوں  نے  اپنی زندگی ہی میں  ہندوستانی مزاح نگاروں  میں  اپنی  اہمیت کو منوا لیا تھا۔ پروفیسر یونس اگاسکر کا مقالہ آج کے  سمینار کی آخری تحریر تھی۔ انہوں  نے  کہا کہ میں  نے  ابھی تک اس مقالے  کا کوئی عنوان طے  نہیں  کیا ہے  بلکہ میرا خیال ہے  کہ سننے  والے  اسے  جو عنوان دینا چاہیں  وہ مجھے  بھی قبول ہو گا۔

           اردو میں  کہاوتیں اور  محاورے  جیسے  موضوع سے  شغف رکھنے  والے  ڈاکٹر اگاسکر نے  یوسف مرحوم کے  بارے  میں  یہ کہا کہ وہ کسی بھی محفل میں  شمع فروزی کے  بجائے  پھلجھڑیاں  چھوڑنے  کو ترجیح دیتے  تھے۔

           ڈاکٹر اگاسکر نے  باقر مہدی کے  حوالے  سے  یوسف ناظم کے  مشہور ترین خاکے  کا تذکرہ کرتے  ہوئے  کہا کہ بعض مضامین اپنی کشش ہمیشہ برقرار رکھتے  ہیں۔ باقر مہدی کا خاکہ ایسی ہی خوبی کا حامل ہے۔ موصوف نے  شگفتگی بھرے   لہجے  میں  کہا کہ ناظم مرحوم کے  اس خاکے  کے  جملے  مغل اعظم اور شعلے  جیسی فلموں  کے  مکالموں  کی طرح لوگوں  کو ازبر ہیں اور  یہ خاکہ اردو کے  بعض منتخب خاکوں  میں  سے  ایک خاکہ ہے۔ دونوں  ہی دن حاضرین کی تعداد خاصی تھی۔

٭٭٭

 

طنز و مزاح کے  بغیر کسی زبان کے  ادب کا تصور ممکن نہیں  : گوپی چند نارنگ

ظرافت کے  لیے  ظریف ہونا ہی نہیں  باظرف ہونا بھی ضروری : مجتبیٰ حسین

ساہتیہ اکادمی کے  زیر اہتمام ’اردو ادب میں  طنز و مزاح‘ کے  موضوع پر سہ روزہ سمینار کا انعقاد

          نئی دہلی، 19 مارچ (پریس ریلیز)۔ طنز و مزاح ادب کا ضروری حصہ ہے  اس کے  بغیر کسی زبان کے  ادب کا تصور ہی ممکن نہیں۔ زندگی کی شدت اور سختیوں  کو گوارہ بنانے  کے  لیے  زندہ دلی، شگفتگی اور شوخی کی راہ کھلی رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح معاشرہ کی کجیوں اور  بوالعجبیوں  پر طنز کے  ذریعے  ہی کارگر وار کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے  ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ نے  ساہتیہ اکادمی کی جانب سے  ’اردو ادب میں  طنز و مزاح‘ کے  موضوع پر منعقدہ سہ روزہ قومی سمینار کی صدارت کرتے  ہوئے  اپنے  ان خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں  نے  کہا کہ معاشرے  کی اصلاح کے  لیے  کوئی دوسرا ادبی حربہ اتنا کارگر نہیں  جتنا طنز و مزاح۔ سماجی بے  انصافی کے  خلاف ہمیشہ طنز کو ہتھیار بنایا گیا ہے  جس کا وار کبھی خالی نہیں  جاتا۔ انھوں  نے  کہا کہ دنیا کے  عظیم ادیبوں اور  شاعروں  کے  یہاں  یہ عنصر فطری طور پر ان کے  اعلیٰ ادب کا حصہ ہے۔ شیکسپیئر، غالب اور کالی داس سامنے  کی مثالیں  ہیں۔ لیکن وہ شاعر اور ادیب جو فقط طنز و مزاحیہ ادب کے  لیے  خود کو وقف کر دیتے  ہیں  اکثر و بیشتر اُن کی درجہ بندی الگ کی جاتی ہے۔ تاہم طنز و مزاح کے  ادیب ادب میں  تیسرے  درجے  کے  شہری نہیں، اگر انھوں  نے  اعلیٰ ادبی معیاروں  کی پاسداری کی ہے  تو وہ اُسی ادبی مقام کے  مستحق قرار پاتے  ہیں  جو شعر و ادب کی دوسری اصناف کے  اعلیٰ ادیبوں  کے  لیے  مقرر ہے۔ مثال کے  طور پر ہمارے  عہد میں  رشید احمد صدیقی، کنہیا لال کپور، راجہ مہدی علی خاں، رضا نقوی واہی، کرنل محمد خاں  یا مشتاق احمد یوسفی کا مقام و مرتبہ کسی دوسرے  اعلیٰ ادیب یا شاعر سے  کم نہیں۔ انھوں  نے  مزید کہا کہ ادھر ہندوستان کے  اردو ادب میں  طنز و مزاح پر توجہ کم ہے۔ ملک کے  اردو اخباروں، رسائل و جرائد، نیز ملک کی اردو اکادمیوں  کو چاہیے  کہ ایسے  ادیبوں  کی زیادہ سے  زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس سے  قبل سمینار کا افتتاح کرتے  ہوئے  جناب مجتبیٰ حسین نے  کہا کہ میں  مرزا غالب کو طنز و مزاح نگاری کا پہلا شاعر مانتا ہوں۔ غالب جدید طنز و مزاح کے  امام ہیں  انھوں  نے  اردو ادب کو بے  مثال شاہکاروں  سے  روشناس کرایا۔ غالب نے  نامساعد حالات میں  بھی اپنے  آپ پر ہنسنے  کی بے  مثال روایت قائم کی ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ ظرافت کے  لیے  آدمی کا ظریف ہونا ہی ضروری نہیں  بلکہ باظرف ہونا بھی ضروری ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ ساہتیہ اکادمی نے  طنز و مزاح کو اس کا بھرپور منصب دلانے  کی کوشش کی ہے۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے  ہوئے  جناب نصرت ظہیر نے  کہا کہ اردو طنز و مزاح نگار تنقید نگاروں  کو خواہ کتنا ہی تضحیک کا نشانہ بنائیں  لیکن بغیر تنقید کے  طنز و مزاح اپنے  مرتبے  کو نہیں  پہنچ پائے  گا۔ اردو میں  طنز و مزاح پر ابھی تک تنقیدنگاروں  کی نگاہ نہیں  پہنچ سکی ہے  خصوصاً ہم عصر طنز و مزاح پر۔ افتتاحی اجلاس کے  آغاز میں  ساہتیہ اکادمی کے  سکریٹری اے  کرشنامورتی نے  خیرمقدمی کلمات پیش کیے  جبکہ افتتاحی اجلاس کے  اختتام پر جناب عنبر بہرائچی، کنوینر اردو مشاورتی بورڈ ساہتیہ اکادمی نے  سمینار میں  آئے  تمام مندوبین کا تہ دل سے  شکریہ ادا کیا۔

افتتاحی اجلاس کے  بعد تنقید و تجزیہ کے  پہلے  اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے  کی۔ انھوں  نے  کہ طنزیہ مزاحیہ ادب کتنا کامیاب ہے  اس کا پیمانہ تنقیدی مضامین نہیں  بلکہ یہ ہے  کہ طنز و مزاح کا اسلوب، لفظیات اور لہجے  کا اثر تنقید پر کتنا پڑتا ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ تمام اصناف پر سوالات اٹھتے  رہے  ہیں  اس لیے  طنز و مزاح کے  تعلق سے  اصطلاحات کے  چکر میں  نہ پڑیں  بلکہ صحت مند خطوط پر کام کریں۔ اس اجلاس میں  پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے  ’کلاسیکی اردو شاعری میں  طنز و مزاح کی روایت‘، سید مصطفی کمال نے  ’طنز و مزاح اور انشائیہ‘ اور ڈاکٹر ہمایوں  اشرف نے  ’اردو طنز و مزاح : اکبرالٰہ آبادی سے  دلاور فگار تک‘ کے  عنوانات سے  اپنے  مقالات پیش کیے۔

          ظہرانے  کے  بعد نثری نشست کی صدارت سید ضمیر حسن دہلوی نے  کی جس میں  فیاض احمد فیضی نے  ’ماہر تعلیم‘ اور عظیم اختر نے  ’عزت اُسے  ملی جو‘ اور معین اعجاز نے  ’اصلی سیکولرزم بمقابلہ نقلی سیکولرزم‘ کے  عنوانات سے  اپنے  طنزیہ مزاحیہ مضامین پیش کیے۔ آخر میں  شعری نشست کی صدارت کرتے  ہوئے  عنبر بہرائچی نے  کہا کہ طنز و مزاح کی شعری روایت کو زندہ رکھنے  کی ضرورت ہے۔ اس نشست میں  پاپولر میرٹھی، غوث خواہ مخواہ، ظفر کمالی، مختار ٹونکی، مصطفی علی بیگ، مسرور شاہجہاں  پوری اور سنیل کمار تنگ نے  اپنے  مزاحیہ کلام سے  سامعین کو محظوظ کیا۔

سمینار کے  دوسرے  دن کے  پہلے  اجلاس میں  ممتاز ناقد اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ نے  آئرنی اور طنز پر گفتگو کرتے  ہوئے  کہا کہ آئرنی ایک اصطلاح ہے  جو جدیدیت کے  زمانے  میں  خوب استعمال ہوئی، آئرنی میں  درد کی لہر چلتی ہے  لیکن جب لفظ کے  لغوی معنی کسی اظہار میں  آ کر ساخت کے  اعتبار سے  یا نحوی اعتبار سے  بدل جاتے  ہیں  تو طنز بنتا ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ میں  محدود اصطلاح کو ادب میں  استعمال کرنے  کے  حق میں  نہیں  ہوں۔ انھوں  نے  کہا کہ منٹو المناک مزاح کا بادشاہ ہے۔ ’کھول دو‘، ’ٹٹوال کا کتا‘، ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’سیاح حاشیے ‘ اس کی بہترین مثالیں  ہیں۔ انھوں  نے  کہا کہ ادیب طنز سے  نشتر سے  سماج کو آئینہ دکھانے  کا کام کرتا ہے۔ منٹو نے  بھی یہی کام کیا ہے۔ اس کے  جینئیس میں  آرٹ کے  کئی جہات ہیں۔ پروفیسر نارنگ نے  کہا کہ کرشن چندر کا معاملہ فکشن میں  وہی ہے  جو شاعری میں  میر تقی میر کا ہے۔ پہلے  اجلاس کی صدارت کرتے  ہوئے  ڈاکٹر سید تقی عابدی نے  کہا کہ جو چیز غالب کی شخصیت میں  اضافہ کرتی ہے  وہ ان کی اعلیٰ ظرافت ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کے  بعد اگر کوئی بڑا طنز و مزاح کا شاعر ہے  تو وہ ہیں  سید محمد جعفری۔ سید محمد جعفری نے  اکبر کی پیروی کی ہے۔ جعفری کے  طنز و مزاح کا تعلق اکبر الٰہ آبادی کے  پہلے  جعفر زٹلی سے  جا ملتا ہے۔ سید محمد جعفری نے  سماجی شعور کو بیدار کرنے  کا کام کیا ہے۔ اس اجلاس میں  فیاض رفعت ’اردو میں  طنزیہ و مزاحیہ کالم نگاری : اودھ پنج سے  تقسیم ہند تک‘، الیاس شوقی نے  ’اردو نثر میں  طنز و مزاح کا بنیاد گزار غالب‘ اور امام اعظم نے  ’اردو میں  طنزیہ مزاحیہ کالم نگاری : تقسیم ہند کے  بعد کا منظرنامہ‘ کے  عنوانات سے  مقالے  پیش کیے۔ دوسرے  اجلاس کی صدارت کرتے  ہوئے  پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے  فرمایا کہ اس سمینار کی خصوصیت یہ ہے  کہ طنز و مزاح پر صرف تنقیدی مضامین ہی نہیں  جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے  بلکہ طنزیہ اور مزاحیہ نثری و شعری تخلیقات بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ انھوں  نے  کہا کہ طنزیہ مزاحیہ ادب کے  لیے  بھی فکشن اور شاعری کی طرح زبان کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ مزاح نگاری میں  تاثیر تہذیبی شعور سے  آتی ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ نقاد کا کام یہ ہے  کہ تخلیق کار اور قاری و سامع کے  درمیان پل کا کام کرے۔ اس اجلاس میں  منظور عثمانی نے  ’اردو طنز و مزاح کے  شمس و قمر کو ایک ناچیز کا سلام‘ اور ساجد رشید نے  ’اردو افسانہ میں  طنز و مزاح‘ کے  عنوان سے  اپنا مقالہ پیش کیا جبکہ پورن سرین نے  ٹیلی ویژن اور طنزیہ مزاحیہ ادب پر اپنے  تاثرات کا اظہار کیا۔ اس اجلاس میں  مقالوں  کے  بعد الیکٹرانک میڈیا اور طنز و مزاح پر اظہارِ خیال کرتے  ہوئے  پروفیسر گوپی چند نارنگ نے  کہا کہ جو چیز کمرشیلائز ڈ ہو جاتی ہے  وہ ذلیل ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں  میں  ماس کمیونی کیشن کو ری فارم کرنے  کی ضرورت ہے۔ ایسے  ادیبوں  کو آگے  آنے  کی ضرورت ہے  جو اسکرین پلے اور  اسکرپٹ رائٹنگ میں  مہارت حاصل کریں۔ ڈاکٹر مولا بخش نے  مقالوں  پر اظہارِ خیال کرتے  ہوئے  کہا کہ فکشن کے  فارم کو استعمال کیے  بغیر شاعری میں  یا کسی بھی صنف میں  مزاح پیدا نہیں  کیا جاسکتا ہے۔ انھوں  نے  کہا کہ طنز و مزاح کے  متون کو سامنے  رکھ کر سیریل بنایا جائے  تاکہ متن کی معنویت برقرار رہے  اس کے  ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں  کیا جائے۔ پروفیسر بیگ احساس نے  کہا کہ کرشن چندر کے  یہاں  اسلوب کے  دھارے  میں  طنز شامل ہے۔ منٹو اور عصمت کے  مقابلے  کرشن چندر کے  یہاں  طنز زیادہ ہے۔

لنچ کے  بعد نثری نشست کی صدارت پروفیسر صغریٰ مہدی نے  کی جس میں  مجتبیٰ حسین نے  ’ہماری بے  مکانی دیکھتے  جاؤ‘، پروفیسر خالد محمود نے  ’سٹی بس کا سفر‘، اسد رضا نے  ’گھریلو شوہر‘ اور ڈاکٹر حلیمہ فردوس نے  ’چچا چھکن کے  سیل فون کی تلاش‘ کے  عنوانات سے  اپنے  طنزیہ و مزاحیہ مقالات پیش کیے۔

شعری نشست پر مبنی آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر گوپی چند نارنگ نے  کی جس میں  سید طالب خوندمیری، متین امروہوی، اسرار جامعی، امیر احمد ممکن اور اقبال فردوسی نے  اپنے  طنزیہ و مزاحیہ کلام سے  سامعین کو لطف اندوز کیا۔ آخر میں  عنبر بہرائچی نے  مندوبین اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

سمینار کے  آخری دن کے  پہلے  اجلاس کی صدارت کرتے  ہوئے  پروفیسر وہاب اشرفی نے  کہا کہ اگر اردو میں  کوئی صنف موجود ہے  جو بہتر طور پر اپنی تہذیب و ثقافت کی تصویر کشی کر سکتی ہے  تو وہ طنز و مزاح ہے۔ طنز و مزاح ملغوبہ ہے، آپ آزاد ہیں  کہ کسی بھی فارم میں  طنز و مزاح کا استعمال کریں۔ طنز و مزاح اول درجے  کا ادب ہے اور  طنز و مزاح نگار حقیقت پسند ہوتے  ہیں۔ اس اجلاس میں  پروفیسر بیگ احساس نے  ’اردو طنز و مزاح اور فکشن : کرشن چندر اور عصمت کے  حوالے  سے ‘، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے  ’اردو میں  مزاح نگاری : پطرس اور شفیق الرحمن کے  حوالے  سے ‘ اور حقانی القاسمی نے  ’طنز و مزاح میں  تنوع‘ کے  عنوان سے  اپنے  مقالے  پیش کیے۔ دوسرے  اجلاس کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم نے  کی جس میں  ڈاکٹر مولا بخش نے  ’اردو کی طنزیہ و مزاحیہ نثر معاصر منظرنامہ‘ پر اور سیفی سرونجی نے  ’اردو طنز و مزاح اور کنہیا لال کپور‘ کے  عنوان سے  مقالہ پیش کیا۔

تیسرے  اجلاس کی صدارت نظام صدیقی نے  کی جس میں  منظور عثمانی نے  ’اب عناصر میں  اعتدال کہاں ‘ اور عباس متقی نے  ’کچرا‘ کے  عنوانات سے  اپنے  طنزیہ و مزاحیہ تخلیقات پیش کیں اور  چوتھے  اجلاس کی صدارت نریندر لوتھر نے  کی جس میں  نصرت ظہیر کے  نثر پارے  ’جوتے  کی صحافت‘ کو ظفر کمالی نے  پڑھ کر سنایا۔ سمینار کے  آخر میں  پروفیسر گوپی چند نارنگ نے  کہا کہ اس سمینار نے  واضح کر دیا ہے  کہ طنز و مزاح نگاروں  کو احساس کمتری میں  مبتلا ہونے  کی ضرورت نہیں  ہے۔ طنز و مزاح نگاری ایک حوصلہ مندی کی فضا پیدا کرتی ہے۔ طنز و مزاح ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس کے  بغیر ادب کا کوئی تصور نہیں  کیا جا سکتا۔ آخر میں  عنبر بہرائچی نے  مہمانوں  کا شکریہ ادا کرتے  ہوئے  کہا کہ طنز و مزاح پر ساہتیہ اکادمی کا ایک تاریخی سمینار ہمیشہ یاد رکھا جائے  گا۔ ساہتیہ اکادمی کی ڈپٹی سکریٹری رینو موہن بھان نے  بھی تمام مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔ ساہتیہ اکادمی کے  پروگرام آفیسر مشتاق صدف نے  کہا کہ ’اردو ادب میں  طنز و مزاح‘ سمینار انتہائی کامیاب رہا اور اس کامیابی کا سہرا ان مزاحیہ اور طنزیہ نگاروں  کو جاتا ہے  جنھوں  نے  اس سہ روزہ قومی سمینار میں  شرکت کی۔ اس موقع پر اردو زبان و ادب کے  ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ پر ساہتیہ اکادمی کے  زیر اہتمام بنائی گئی دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ جس کی ناظرین نے  خوب پذیرائی کی اور کہا کہ پروفیسر نارنگ کی شخصیت اور جملہ خدمات پر بنائی گئی فلم قابل دید اور قابل تحسین ہے۔

اس سمینار میں  مہمان شرکا کے  علاوہ جن اہم شخصیات نے  شرکت کی اُن میں  پروفیسر مشیرالحسن، ستیہ پال آنند، پروفیسر اخترالواسع، محترمہ منورما نارنگ، ڈاکٹر شہزاد انجم، نند کشور  وکرم، رئیس احمد، ذیشان خاں، ایڈو وکیٹ ایم قمرالدین، محترمہ رخشندہ جلیل، آر سی ورما ساحل، ڈاکٹر کوثر مظہری، جناب ابرار کرتپوری، ڈاکٹر وسیم بیگم، ڈاکٹر ابوظہیر ربانی، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ظہیر احمد برنی، موسیٰ رضا، محمد ہادی رہبر، بیگم بیگ احساس، پروفیسر محمد نعمان خاں، منصور احمد عثمانی، زاہد عیش، اشفاق عارفی، معین شاداب، انور باری، ڈاکٹر سہیل انور، ڈاکٹر محمد کاظم، جاوید رحمانی، عرفان احمد وغیرہ کے  اسمائے  گرامی شامل ہیں۔

٭٭٭

ماخذ

http://www.tahreerenav.com/

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید