فہرست مضامین
تجزیات
پرویز احمد اعظمی
دیوانِ غالب کی پہلی غزل : تفہیم و تجزیہ
غالب کی تفہیم کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے کو محیط ہے۔ اس عرصے میں کتنے ہی دانشور، شارحین اورمحققین نے غالب کی شاعری کی مختلف جہا ت کا احاطہ کر نے کی کوششیں کیں لیکن کیا ان مفا ہیم تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی؟ کیا شعر کے ان تمام پہلو ؤں کا احاطہ کر لیا گیا؟ جوکہ شاعر کا اصل مد عا تھا۔ کیاحقیقت میں ان مفاہیم تک شارحین پہنچ سکے جوکہ شاعر بیان کرنا چاہتا تھا؟ کیوں کہ غالب نے اپنے اشعار کی جو شرح خود پیش کی تھی، اسے ان کے لائق و فائق شاگرد یعنی حالی نے قبول نہیں کیا اور حالی نے جو تا ویل پیش کی، اس سے مختلف نظم طبا طبا ئی نے شرح پیش کی۔ اسی طرح طبا طبا ئی کو حسرت موہانی نے، حسرت موہانی کو بیخود مو ہانی نے قبول نہیں کیا اور یہ سلسلہ یوں ہی شمس الرحمٰن فاروقی تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ اگر کسی ایک کی تاویل سے دوسرا سخن شناس مطمئن ہو تا تو شاید مزید تشریح کی ضرورت نہ پیش آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرعہد میں سخن فہم حضرات نے غالب کو اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کو ششیں کی ہیں اوراس سلسلے کے آئندہ بھی جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں۔ میں تفہیمِ غالب میں کوئی اضا فہ تو نہیں کر سکتا، پھر بھی دیوانِ غالب کی پہلی غزل کے بارے میں، جسے ان کی سب سے زیادہ مشکل غزل سمجھا جاتا ہے، دو باتیں عرض کر نا چا ہتا ہوں۔
غزل کا مطلع اپنے عہد کی روایت سے مختلف ہی نہیں بلکہ منفرد بھی ہے، جس میں غالب نے تنظیم دوجہاں اورانسانی تقدیر پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی حوصلہ مندی اور فکری بلندی تھی ورنہ زمانے کاعام چلن بنے بنائے راستوں پر ہی چلنے کا رہا ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شو خیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیر ہن، ہر پیکرِتصویر کا
مطلعے کو پڑ ھتے ہی غالب کا یہ شعر :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
بے سا ختہ ذہن میں آجا تا ہے اورغا لب کے ’’گنجینۂ معنی کے طلسم ” کا قا ئل ہو نا پڑ تا ہے۔ کیوں کہ اس شعر میں جس قدر معنوی پہلو پو شیدہ ہیں، اسی قدر صنعتیں بھی موجود ہیں۔ اس طرح کی تہ داری شاعری میں عام نہیں۔ اس شعر کی تشریح خود غا لب نے کی ہے کہ ’’نقش کس کی شو خیِ تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورت تصویر ہے، اس کا پیر ہن کا غذی ہے۔ یعنی ہستی اگر چہ مثل تصا ویر اعتبار محض ہ، موجب رنج و آزار ہے "۔
شعر کی گرہ کھو لنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے شعر کے کلیدی لفظ کو تلاش کر لیا جائے۔ اس کے ہاتھ آجانے کے بعد شعر کی گر ہیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی۔ زیر بحث شعر میں لفظ ’’کِس” کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد ’’نقش” اور’’شوخیِ تحریر” خاص تو جہ کے طالب ہیں۔ اگر ’’کِس” کو خالقِ کونین کا استعارہ تسلیم کر لیا جائے تو شعر کے معنی کسی حد تک واضح ہو جائیں گے لیکن شعر کی معنو یت محدود ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ’’کِس کی” کے استفہام کا لطف بھی جاتا رہے گا، جو کہ اس شعر کی حقیقی جاذبیت ہے۔ پھر بھی اتنا کہا جا سکتا ہے کہ’’کِس” کا اشارہ خالقِ مطلق کی طرف ہی ہے کہ اس نے ازراہِ شوخی تصویر کو ناپائیدار بنایا ہے، اسی لیے تصویر اپنی زبان بے زبانی سے فریاد کر رہی ہے کہ جب ہستی کو نا پا ئیدار ہی بنا نا تھا تو اس میں اس درجہ کمال، اس درجہ کشش رکھنا کیا ضروری تھا ؟
دنیا کی یہ رنگا رنگی یہ کشش یہ دلفر یبی او رمو ہ کیا ہے ؟ جب کہ ہر چیز فانی ہے۔
قدیم زمانےہی میں کیا آج بھی یہ چلن عام ہے کہ شعری مجموعوں کے آغا ز میں حمد، نعت اور منقبت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غالب نے روش عام سے گریز کرتے ہو ئے، دیوان کے پہلے ہی شعر میں تخلیقِ کا ئنات پر سوالیہ نشان لگایا۔ اس شعر کاایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غا لب کا ئنات کے فلسفے کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کا ئنا ت کا راز کیا ہے؟ جہاں ہر شئے مجبورو لاچا ر دکھا ئی دیتی ہے اورشاید اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہی انہوں نے کہا تھا کہ :
سبزہ و گل کہا ں سے آئے ہیں ؟
ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی موجود ہے
پھر یہ ہنگا مہ ائے خدا کیا ہے ؟
اب شعر کے اس مفہوم کی طرف رخ کر تے ہیں، جس کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے کہ ایران میں رسم تھی کہ فریادی فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر دربار میں حاضر ہواکر تے تھے۔ کیوں کہ کاغذ کی کو ئی وقعت نہیں ہوتی، یہ ہوا کے تیز جھو نکے سے، آگ کی گرمی سے، حتٰی کہ ذرا سی رگڑ لگنے سے بھی تار تار ہو سکتا ہے، لہٰذا کا غذی پیرہن فریادی کی بے بساطی کی دلیل سمجھا جاتا تھا یعنی اس دنیا میں انسان کی ہستی ٹھیک کا غذی پیرہن کی طرح ہے، جس کی کہ کو ئی ساکھ، کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ چوں کہ مصور، تصویر کو کاغذ پر بناتا ہے، جس کا وجود عارضی اور بے بساط ہوتا ہے، اس لیے تصویر اپنے خالق سے جدائی پر فریاد کر رہی ہے۔
زیربحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کا غذ ی ہے پیرہن ہرپیکرِتصویرکا” کے ’’ہر” سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی” سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے، لہٰذا ’’شوخیِ تحریر” سے اگر انسانی ’’شعور و احساس” مراد لیے جائیں اورسا تھ ہی ساتھ فرشتوں اور تمام جانداروں کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے، جو کہ خالق کائنات کی ’’شوخیِ تحریر” کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔
غا لب کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے، اس بات کو خاص طورسے ملحوظ رکھنا چا ہیے کہ ان کی شاعری کا اصل جوہر استفہام، فلسفہ، فکر کی بلندی اور احساس کا وہ انو کھا پن ہے، جو ہمارے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ اس لیے ان کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں مذکورہ با توں کا لحاظ خصوصی طورپر رکھنا ہو گا۔ اس شعر پر اگرصنائع لفظی اورمعنوی کے اعتبار سے غور کریں تو تلمیح، استعارہ، تجاہلِ عارفانہ، تجنیس صوتی اور حسن تعلیل کا ذکر کرنا ناگریز ہو گا لیکن ذہن نشین رہے کہ غالب کی شاعری میں ان چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے او رتفکر و تخیل کی اول۔ اس شعر کے مفہوم کو واضح کر نے میں غالب ہی کا ایک شعر ہماری رہنمائی کچھ اس طرح کر رہا ہے کہ :
نہ تھا کچھ، توخدا تھا؛ کچھ نہ ہوتا، تو خدا ہو تا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہو تا؟
اس شعر کا پہلا مصرع بالکل واضح ہے اوردوسرا ہماری رہنمائی اس طرح کر رہا ہے کہ میرے وجود نے یا میرے ہو نے نے، مجھ کو یعنی انسان کو خوار اورسوا کیا ہے ورنہ میں تو ’’کُل” کا ’’جُز” تھا مگر افسوس کہ ’’کُل” سے بچھڑنے کے با عث میں کہیں کا نہیں رہا۔ اس شعر کے اور بھی پہلو ہیں مگر ان کی تفصیل کا محل یہ نہیں۔ اب ایک بار پھر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تصویر مصور سے یا ’’نقش” اپنے خالق سے جدا ہونے اوراپنے وجود کے عارضی ہونے کی شکا یت کر رہا ہے۔
کاو کاوِ سخت جانی ہا ئے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لا نا ہے جوئے شیر کا
اس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ انتظار محبوب میں رات گزارنا، جوئے شیر لانے کے مترادف یعنی اتنہا ئی دشوار گزار امر ہے۔ ائے سخت جان محبوب، میری تنہا ئی کے بارے میں مت پوچھ کیوں کہ جو کاوشیں، جو تدبیریں اور جو کوششیں میں اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے کرتا ہوں وہ جوئے شیر لانے سے کسی صورت بھی کم نہیں۔
اس شعر کا ایک مفہو م یہ بھی ممکن ہے کہ جوئے شیر لانے یا کوہ کنی کی تمام مدت میں جو مشکلیں، صعوبتیں اورجو سختیاں فرہاد پر گذریں، وہ مجھ پر ہر رات گذرجاتی ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر انتظار محبوب میں شام کو صبح کر نے کے اپنے عمل کو، کوہکن کی صعوبتوں سے بڑھ کر ثابت کر نا چا ہ رہا ہو یا یہ کہ فرہاد پر جو گذری ہو سوگذری ہو لیکن میری مشکل، مجھے تو اس سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے۔ اگر شبِ تنہا ئی سے دنیاوی زندگی مراد لی جائے تو اس کی صبح کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ کوہ کنی کرنا۔
اگر صبح کو سفید اور شام کو سیاہی کی تمثیل تسلیم کر لیا جائے تو سیا ہی کے بطن سے سفیدی پیدا کرنے کے عمل کو جوئے شیر لانے کے مترادف کہا جا سکتا ہے۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چا ہیے
سینۂ شمشیر سے باہرہے دم شمشیر کا
اس شعر کی بنیاد ’’حسنِ تعلیل” پر ہے۔ اس لیے سب سے پہلے حسنِ تعلیل کی تعریف جان لینا مناسب ہو گا۔ ’’تعلیل کے معنی ہیں وجہ بیان کرنا، وجہ متعین کرنا۔ یہ اس عمل کی خو بی و ندرت کی مثال ہے جب کہ کسی عمل یا واقعے کے لیے کو ئی ایسی وجہ بیان کی جائے جو چا ہے واقعی نہ ہو مگر اس میں کو ئی شاعرانہ جدت و نزاکت ہو اوربات فطرت اور واقعے سے مناسبت بھی رکھتی ہو تو اسے حسنِ تعلیل کہتے ہیں "۔ چو نکہ ’دَم‘ لفظ اس شعر میں کلیدی حیثیت کاحامل ہے، اس لیے یہاں لفظ ’دَم‘ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ’دَم‘ کے معنی ہیں سانس، روح، جان، تلوار کی دھار، باڑ وغیرہ۔ تلوار کی دھار اندر کی طرف نہیں بلکہ باہر کی طرف ہو تی ہے، جو ایک فطری چیز ہے لیکن غالب نے جس خوبصورتی سے حسنِ تعلیل کی بنیاد پر اس شعر کی بند ش کی ہے، اس کالطف اہلِ نظر ہی جانتے ہیں۔ تلوار کے ’دَم‘ کو یا تلوار کی دھار کے باہر ہو نے کو اس کے قتل کر نے کی آرزو، عاشق کے جذبۂ بے اختیا ر شوق پر محمول کرنا، شا عرانہ جدت اور فکرکی با لید گی کا کمال ہے۔
عاشق کہتا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی آرزو میں تلوار اس قدر بے اختیار، بے قا بو ہوئی جا رہی ہے کہ دمِ شمشیر، سینۂ شمشیر سے با ہر نکل آیا ہے۔
محا ورہ ’’آپے سے باہر ہونا” کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اس قدر بے اختیار ہوئی جا رہی ہے کہ اس کا دم اس کے سینے سے باہرنکل آیا ہے۔
عاشق کے شوقِ شہا دت کو دیکھ کر شمشیر کے بے اختیار ہو نے میں ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمشیر، شمشیرِحقیقی نہ ہو کر محبوب کے ناز و ادا کی شمشیر ہو، جس سے قتل ہو نے کے لیے عاشق بے قرار ہے کہ کاش میرا محبوب مجھے اپنے عشوہ و غمزے سے قتل کر دیتا تو میرے دل کی مراد پوری ہو جاتی۔
آگہی، دامِ شنیدن جس قدر چا ہے بچھا ئے
مدَّعا عنقاہے اپنے عالم تقریر کا
زبان اظہار کا محض ایک ذریعہ ہے۔ شاعر جو کچھ کہنا چا ہتا ہے، اس کا اصل مقصد ان لفظوں اوربین السطور میں پنہاں ہوتا ہے، جن کا کہ وہ استعمال کر تا ہے یعنی اس کا منشا یہ ہو تا ہے کہ فکر و تخیل کی جس سطح سے اس نے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں تک سا مع و قاری کی رسا ئی ان لفظوں کے وسیلے سے ہو جائے، جن کا کہ شاعر نے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر قاری و سامع کی رسائی فکر کی اس سطح تک ہو ہی جائے، جہاں سے کہ شعر کہا گیا ہے کیوں کہ اس میں قاری وسامع کی بصیرت، سخن فہمی اورلیاقت کا دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر زیرِبحث میں غا لب چیلنج کر تے نظر آتے ہیں کہ :
آپ کی قوت فہم، سخن شناسی اور سخن فہمی کی صلا حیت، خواہ کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے، اپنی لیاقت اور عقل مندی کے گھوڑے خواہ کتنے ہی کیوں نہ دوڑا لے مگر میں جس بلندی سے جو بات کہنا چاہتا ہوں، وہاں تک آپ کی رسائی ممکن نہیں ہے اور قطعی نہیں ہے۔ اس مو قع پراس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ غا لب کے ہم عصرانہیں مہمل گو کہا کر تے تھے۔ ممکن ہے اس شعرمیں ان حضرات کی طرف غالب کا تخاطب ہو۔ ساتھ ہی اس شعر میں یہ بات بھی پنہاں ہے کہ شاعر کو اپنی شاعری کے معیار اوراس کی دائمیت کا کسی قدر اندازہ ہو گیا تھا، جبھی تو انہیں بارگاہ ایزدی میں اپنے ہم عصروں کے لیے یہ دعا مانگنی پڑی تھی کہ :
یا رب! نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے او ردل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری شاعری تمہا ری سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہی ہے کہ میں آج کا نہیں بلکہ آئندہ آنے والے زمانے کا شاعر ہوں۔ شاید اسی لیے انہیں یہ کہنا پڑا:
ہوں گر میِ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشنِ ناآفریدہ ہوں
زیر بحث غزل کا آخری شعر ہے :
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتش زیرِپا یعنی اضطرا بی کیفیت، بے چینی اور بے قراری۔ شاعر کہتا ہے کہ قید ہونے کے باوجود میری کیفیت سیمابی ہے اورمیرے جو شِ جنوں کے سامنے زنجیرکی کو ئی حیثیت نہیں ہے۔
گرفتارِ عشق، گرمیِ عشق سے بے قرار ہے اورعاشق کی آتشِ عشق سے زنجیرموئے آتش دیدہ یعنی بے وقعت ہو کے رہ گئی ہے۔ مذکورہ شعر کے مفہوم سے ملتا جلتا غالب کا ایک اور شعر ہے:
گر کیا نا صح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
اب شعر کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ عاشق کو گرفتار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ عاشق کی گرفتاری سے اس کا جنونِ عشق، نہ ہی کم ہوتا ہے اورنہ ہی فنا ہوتا ہے بلکہ اور فروغ پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عاشق کی سیمابی کیفیت نے یعنی اس کی آتش زیرپا ئی نے، زنجیر کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔
اب ہم ایک بار پھر جب غزل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزل کی ابتدا فطرت کے جبر سے ہو ئی تھی، جس کا انسان کے پاس کوئی چا رہ نہیں۔ فطرت کے سامنے انسان مجبور و بےبس ہے لیکن مقطعے تک آتے آتے بات اختیار کی منزل تک آگئی، جہاں انسان کی آتش زیرپائی نے فطرت کی زنجیروں کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی مجبوریوں کو موئے آتش دیدہ بنا دیا ہے اوراس طرح فطرت کے جبر کی گرفت ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے، اتنا ہی اس کا اختیار ہے اور بس۔
٭٭٭
منفرد اسلوب کا شاعر: اختر الایمان
بیسویں صدی کے نصف اول میں اردو شاعری کے دو اہم دھارے تھی۔ اول کا نام ’’ترقی پسند تحریک "تھا، جو اس وقت سب سے زیادہ مقبول اور متحرک تھی۔ یہ جماعت زیادہ تر مارکسی خیالات کے حامی لوگوں کی تھی اور یہاں انہیں خیالات کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ دوم جماعت میں وہ شعرأ تھے، جو ترقی پسند تحریک کی جکڑ بندیوں و پابندیوں کے خلاف تھے۔ اس جماعت کو ’’ حلقۂ ارباب ذوق "کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جماعت ماہرِ نفسیات فرائڈ کے علاوہ دیگر یورپی ناقدین کے خیالات سے متاثر تھی۔ یہ لوگ شعر و شاعری کے لیے کسی بھی طرح کی پابندی کے سخت خلاف تھے۔ اول جماعت نے جہاں خارجی مضامین باندھنے اور ادب برائے زندگی کو پروان چڑھانے کی کوششیں کیں تو وہیں دوسری جماعت نے داخلی شاعری کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ اس طرح یہ دونوں جماعتیں دو الگ الگ سمتوں کی طرف رخ کر گئیں، جو ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں بلکہ انتہا پر بھی تھیں۔ اسی عہد میں ایک شاعر ایسا بھی تھا، جس پران دونوں جماعتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے اپنا نصب العین خود طئے کیا۔ اس نے ان دونوں گروہوں سے دور رہ کر اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے ہم کنار کیا، جسے آگے چل کر تیسری جہت کا نام دیا گیا۔
اردو شاعری کی تاریخ میں اختر الایمان ایک ایسا نام ہے جو اپنی طرز کا موجد بھی ہے اور خاتم بھی۔ اردو میں اس اعتبار سے اختر الایمان یگانہ و یکتا ہیں کہ انہوں نے پابند ہیئتوں کی کبھی پابندی نہیں کی۔ ان کی نظموں میں بند یا شعر کے بجائے تسلسل پایا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں بارہا یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مصرعوں کی تعداد طاق ہے جو کہ اردو شاعری کے مزاج اور روایت سے بالکل الگ ہے۔ وہ اپنے تخیل کو لفظوں کے پیرائے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں اور جہاں بات ختم ہو جاتی ہے، وہیں قلم رک جاتا ہے۔ ہیئت کے معاملے میں بھی انہوں نے اپنی راہ خود متعین کی، جس سے آگے چل کر اردو نظم گوئی کی تاریخ میں ایک نئی راہ کی داغ بیل پڑی۔ ان کے تمام تر شعری مجموعوں اور کلیات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے مروجہ ہیئتوں کی کہیں بھی پابندی نہیں کی ہے۔ وہ اپنی بات کہتے چلے گئے ہیں اور جہاں بات ختم ہو گئی وہیں نظم کا اختتام ہو گیا۔ انہوں نے زیادہ تر نظم معرّیٰ اور آزاد نظم کے پیرائے ہی میں اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی کی ہے۔
۱۹۵۰ء کے بعد کی اُردو شاعری کو میراجی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان کے فن کے طریقۂ کار اور ہیئتی تجربوں کے باعث متاخرین شعرا نے ان سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اس عہد میں مقبول ہونے والے شاعروں میں اختر الایمان، مجید امجد، منیب الرحمن اور عزیز حامد وغیرہ ہیں، جن میں اختر الایمان اور مجید امجد ملک کے ذبیحے سے پہلے ہی اپنا ایک مقام قائم کر چکے تھے لیکن انہیں ان کے غیر نظریاتی رویوں کے سبب آزادی کے بعد مقبولیت نصیب ہو ئی۔
اختر الایمان کا اپنا ایک مخصوص لہجہ ہے اور نظم نگاری کا ایک خاص انداز بھی جو تمام اردو شعرأ سے انہیں ممتاز بناتا ہے۔ ان کی نظموں میں بیانیہ کی کیفیت اور ابتدائی مصرعوں کو بیچ بیچ میں دوہرا کر ان سے ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کی کوشش پائی جاتی ہے جو ان کا اپنا ایک خاص انداز ہے۔ ان کی نظم نگاری کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان ہی رہ کر اپنے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کو بڑی خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں۔ آگے ہم ان کی نظموں کی خصوصیات کے اعتبار سے مختلف عنوانات قائم کرتے ہوئے ان کی نظم نگاری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
خود کلامی
شاعری کی تین جہتیں ہو سکتی ہیں۔ اول جہت وہ ہے، جسے خو د کلامی کی کیفیت کہا جاتا ہے اورجس میں شاعر کا تخاطب خود سے ہو تا ہے یعنی شاعر اس جہت میں اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا معلوم ہو تا ہے یا کبھی کبھی وہ اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کو الگ الگ تسلیم کرتے ہوئے خود سے گفتگو کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ مثلاً:
ضعف بہت ہے میر تمہیں کچھ اس کی گلی میں مت جاؤ
صبر کر و کچھ اور بھی صاحب! طاقت جی میں آنے دو
( میر)
خود کلامی یعنی اپنے آپ سے باتیں کرنے کی کیفیت اس شعر میں ملاحظہ کیجیے:
مو ت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
( غالب)
اوپر درج کیے گئے اشعار میں شاعر کا تخاطب کسی اورسے نہیں بلکہ خود اپنی ذات سے ہے، اس طرح کی شاعری کو عموماً خود کلامی کی کیفیت کہا جاتا ہے۔ اختر الایمان کی بیشتر نظموں میں اسی طرح کی خود کلامی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہی۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کو اسی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً:
اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پو جوں گا
تا کہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
ایسے انسانوں سے پتھر کے صنم اچھے ہیں
جن کے قدموں پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں
اور وہ میری محبت پہ کبھی ہنس نہ سکیں
میں بھی بے رنگ نگاہوں کی شکایت نہ کروں
یا کہیں گوشۂ اہرام کے سناٹے میں
جا کے خوابیدہ فراعین سے اتنا پوچھوں
ہر زمانے میں کئی تھے کہ خدا ایک ہی تھا
اب تو اتنے ہیں کہ حیران ہوں، کس کو پوجوں
(تنہائی میں )
شاعری کی دوم جہت وہ ہے، جس میں شاعر براہِ راست دوسروں سے مخاطب معلوم ہوتا ہے۔ جیسے:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
(اقبال)
تیسری جہت وہ ہے، جس میں شاعر کا تخاطب نہ ہی اپنے آپ سے ہو تا ہے اور نہ ہی کسی اور سے۔ یہاں تخلیق کار کی یہ کوشش ہو تی ہے کہ اس نے دنیا کو جیسے اورجس طرح دیکھا ہے، اسے، اسی طرح پیش کر دے اور بس۔ اس تیسری جہت کی شاعری کی بہترین مثال اختر الایمان کی تخلیقات ہیں۔ یہاں ہمیں ایک بات کو ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ اختر الایمان نے اپنا لب و لہجہ اور اپنی خاص پہچان اس وقت برقرار رکھی، جب کہ ایک طرف ترقی پسند تحریک کے زیر اثر خطیبانہ شاعری اوردوسری طرف حلقۂ اربابِ ذوق کے زیر اثر ایسی شاعری فروغ پا رہی تھی، جسے ذات کی طرف واپسی کا نام دیا جا رہا تھا۔ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سے اختر الایمان نے اپنی راہ نکالی اوراس خو بی سے نکالی کہ ذات کے عرفان سے کائنات کو پہچاننے کا سفر شروع کیا۔ مثال کے طور پر اختر الایمان کی مشہور زمانہ نظم ’’ایک لڑکا” کے ساتھ ساتھ ’’عمر گریزاں کے نام”، ’’دعا” اور’’ میر ناصر حسین ” کا نام لیا جا سکتا ہے۔
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
اس کے دامن سے لپٹتا ہوں منا تا ہوں اسے
واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا
داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے
خواب ادھورے ہیں جو دہراتا ہوں ان خوابوں کو
زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے
صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں
اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ ایک معرّیٰ نظم ہے، جس میں شاعر کا تخاطب بظاہر تو اپنی ذات سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا اشارہ دورِ حاضر کے ہماہمی کے مارے ہوئے انسان سے ہے، جس کے پاس حسرت ویاس تو ہے پر وقت نہیں۔ یہ نظم آج کے مصروف ترین انسان کی زندگی کی عکاس ہے، جس کا لطف مکمل نظم کے مطالعے سے ہی ممکن ہے۔
فلیش بیک کی تکنیک
اختر الایمان کی ابتدائی نظمیں غنا ئی اور نیم غنائی کیفیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر آزاد، معرّا اور بیانیہ نظمیں ہی کہی ہیں۔ نظم کی ہیئت ان کے یہاں دیگر شعرا ٔ کے مقابلے اپنا الگ رنگ اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے نظم اور نثر کی وسعتوں میں نئے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی اوراس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں نثری نظم کے امکانات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اختر الایمان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خیال کے اعتبار سے لفظوں کا انتخاب کیا اور انہیں ایک شکل عطا کر دی۔ اپنی اکثر نظموں میں وہ اپنے آپ کو ایک کر دار کی حیثیت سے بھی پیش کرتے ہیں، جو کہ اردو میں پہلا تجربہ ہے۔ ان کے کلیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر معرّیٰ نظمیں ہی کہی ہیں۔ اپنی نظموں میں اختر الایمان نے ماضی کے دھندلکے کو چیر کر دیکھنے کی کوشش کی ہے، جسے پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے حال کو ملانے کے لیے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کیا ہی۔
فلیش بیک کی تکنیک کااستعمال اختر الایمان کی طویل نظموں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ فلیش بیک کی مثال پیش کرنے سے پہلے اگر اس کی تعریف سمجھ لی جائے تو بہتر ہو گا۔ فلیش بیک کی تعریف پیش کرتے ہوئے پروفیسر کلیم الدین احمد ’’فرہنگ ادبی اصطلاحات” میں تحریر کرتے ہیں :
’’کسی فلم، ناول، افسانہ یا ڈرامے میں ایسے سین(مناظر) کو پیش کرنا جس میں ماضی کے واقعات ہوں۔ یہ ترکیب فلموں میں استعمال ہوتی ہی۔ ۔ ۔ لیکن ادب میں بھی یہ موثر ہوتی ہے۔ ۔ ۔ "
(فرہنگ ادبی اصطلاحات، ص۔ 7)
یہاں یہ عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صرف ماضی کے واقعات کو بیان کردینا ہی فلیش بیک کی تکنیک نہیں ہے بلکہ جب شاعر کسی واقعے یا قصے کا ذکر اپنی تخلیقات میں کرتا ہے، جس کا تعلق حال یا ماضی کے کسی خاص واقعے سے ہو اور ذکر کرتے کرتے وہ ماضی کے کسی واقعے کو من و عن دہراتا چلا جائے اور پھر اچانک چونک کر یا کسی کے یاد دلانے سے وہ پھر حال میں واپس آئے تواسے فلیش بیک کی تکنیک کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تخلیق کار اپنے تخیل کا سہارا لے کر حال سے ماضی یا ماضی قریب کے کسی اہم واقعے کو یاد کرتے ہوئے، اس واقعے میں گم ہو جائے، جیسے کہ کوئی محو خواب ہو اور اچانک کسی کے پکارنے یا خواب کے ٹوٹنے سے وہ پھر واپس اپنی پہلی کیفیت میں آ جائے تو ہم اسے فلیش بیک کی تکنیک کے استعمال کا نام دیتے ہیں۔ اختر الایمان کی طویل نظموں مثلاً: ’’ایک لڑکا”، ’’عمر گریزاں کے نام”، ’’باز آمد: ایک منتاج”، ’’پگڈنڈی”، ’’قبر”، ’’پرانی فصیل” اور’’سبزۂ بیگانہ” وغیرہ میں ہمیں فلیش بیک کی تکنیک کے استعمال کا احساس ہوتا ہے لیکن ان نظموں میں صرف یادیں ہی یادیں ہیں، ان میں فلیش بیک کی اصل تکنیک نظر نہیں آتی ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک کو واضح کرنے کے لیے ہم یہاں ’’پسِ دیوارِ چمن” سے ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے خد و خال پوری طرح اجاگر ہو جائیں۔
پھر چلی سوئے چمن زلفوں کو شانہ کرتی
اس تغافل سے کہ جیسے پئے گلگشت کوئی
یوں ہی جاتا ہو کوئی ملنے کا ارمان نہ ہو
اپنے سائے کے سوا اور سے پہچان نہ ہو
بدرقہ بوئے گلِ تر تھی کہیں بادِ نسیم
وہ ہی وہ فرش پہ تھی عرش پہ تھا ربِّ کریم
لہلہاتا ہوا سبزہ تھا ندی سہج خرام
چال ایسی کہ نہیں جس کا کہیں کوئی بھی نام
عنبر و مشک کا اک قافلہ تھا زلف کا بار
یا کوئی ابرِ رواں دوشِ ہوا پر تھا سوار
پھول بوٹے ہمہ تن گوش تھے کچھ منہ سے کہی
خاک لپٹی چلی جاتی تھی قدم تھامے ہوئی
راہ میں کتنی جگہ شاخوں نے دامن پکڑا
بارہا شانہ سے بے دھیانی میں آنچل ڈھلکا
شاخ سی لچکی، تخیل سی رکی، اٹھلائی
ہر قدم پر نئے انداز سے ٹھوکر کھائی!
میں وہاں گوش بر آواز جو بیٹھا تھا، اٹھا
اور اسے لینے کو آغوش میں جیسے ہی بڑھا
پاؤں الجھا، گرا، یوں آنکھ کھلی پچھلے پہر
اور دیکھا کہ ابھی باقی ہے کچھ شب کا سفر
یوں ہی بیٹھا رہا، دیکھا کیا ہوتے تحلیل
پل کو گھڑیوں میں، دنوں سالوں میں، لمحاتِ جمیل
زخم بنتے گئے، ناسور بنے، اشک بنے
ہم جو اک گردشِ پرکار تھی، ویسے ہی رہے!
ناچتا رہتا ہے آگے سحر و شام یوں ہی
لوحِ تدبیر پہ لکھا ہوا اک حرف ’’نہیں "
مذکورہ مثال سے فلیش بیک کی تکنیک کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بالخصوص ’’پاؤں الجھا، گرا، یوں آنکھ کھلی پچھلے پہر، اور دیکھا کہ ابھی باقی ہے کچھ شب کا سفر” سے فلیش بیک کی تکنیک مکمل طور سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اختر الایمان کے یہاں ماضی اور حال کے واقعات کا ذکر بار بار آتا ہے، اس لیے انہوں نے اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ما فی الضمیر کو کارگر طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔
آئیڈیولوجی
اختر الایمان کا تعلق کسی خاص جماعت یا تنظیم سے نہیں تھا۔ ہر چند کہ ان کا تعلق اس عہد سے ہے، جسے ترقی پسند تحریک کا اصل عہد کہا جا تا ہے۔ ساتھ ہی حلقۂ ارباب ذوق کے عروج کا زمانہ بھی وہی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے لیے ایک نئے راستے کا انتخاب کیا اور اسی پر چلتے رہے اور آخر کار زمانے نے ان کی اس نئی راہ کو تسلیم کر لیا۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا، جن چیزوں کا مشاہدہ کیا یا جن سے ان کا سابقہ پڑا، اس کے بارے میں اپنے ما فی الضمیر کی ادائگی، محسوسات اور نظریات کی تفصیل اپنی مختلف تخلیقات میں پیش کر دیں۔ اپنے ذہنی رویوں، طبقاتی کشمکش، سماجی سروکار اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی وہ سوچتے تھے، ان کے بابت، اپنی شاعری اور شاعری سے متعلق اپنے نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جب سے شاعری پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا ہے مجھے یہ احساس ہوا کہ ہماری شاعری چند چیزوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ان میں سے ایک رومانیت ہے دوسری غزل یا غالباً رومانیت پوری شاعری پر حاوی ہے۔ اس لیے ہے کہ ہم غزل سے نکل کر نہیں جا سکتے۔ غزل کا میدان بہت محدود ہے کسی بھی موضوع کو واضح طور پر بیان کرنے کے لیے دو مصرعے کافی نہیں ہوتے۔ اس حد بندی سے نقصان یہ ہوا نئے نئے موضوعات اور ہیئت کے تجربے نہیں کیے جا سکے اور شاعری میں وہ پھیلاؤ نہیں آسکا جو زندگی میں ہے۔ غزل کسی موضوع پر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتی۔ صرف اس کی طرف اشارے کر سکتی ہے اور کسی موضوع کی طرف اشارہ کافی نہیں ہوتا۔ "
(ص0-11، پیش لفظ، یادیں )
اس اقتباس سے اختر الایمان کے نظریات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نظموں کی شاعری کو ہی اپنے لیے کیوں منتخب کیا۔ حالاں کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن جیسا کہ اقتباس سے ظاہر ہے کہ دو مصرعے کسی خیال کو قلم بند کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ غالباً جب سے انہوں نے اس بات کو محسوس کیا، اس کے بعد پھر کبھی غزلوں کی طرف توجہ نہیں کی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، اختر الایمان کا تعلق اس عہد سے ہے، جب ایک طرف’’ ترقی پسند تحریک” کا ڈنکا بج رہا تھا تو دوسری طرف ’’حلقۂ اربابِ ذوق” کا بول بالا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے جڑے لوگ ایک خاص طرح کے نظریاتی ادب کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے تو حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ تخلیق کار، تخلیق پر کسی بھی طرح کی نظریاتی پابندی کو شاعر کے جذبات کے مغائر تسلیم کرتے تھے۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ سے اختر الایمان نے اپنا راستہ خود نکالا اوراس خوبی سے نکالا کہ اپنی راہ کے خود ہی موجد بھی بنے اور خاتم بھی۔ حالاں کہ اس راہ پر چلنے میں انہیں دقتیں بھی پیش آئیں لیکن ان کے قدم اس راہ پر آگے بڑھتے ہی رہے۔ شروع میں تو ان کی کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی لیکن آج کا ناقد ان کی شاعری کو منفرد اسلوب یا تیسری جہت کی شاعری کا نام دیتے ہوئے یہ تسلیم کرتا ہے کہ انہوں نے اردو نظم نگاری کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ اپنی راہ کے ایسے مسافر ہیں کہ ان کے بعد کوئی دوسرا مسافر آج تک اس راہ پر چلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
نظم معرّیٰ اور آزاد نظم (ہیئت اور فنی خصوصیات)
پچھلے صفحات میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ اختر الایمان نے اپنی اکثر و بیشتر نظمیں نظم معرّیٰ کی ہیئت میں تخلیق کی ہیں۔ اس لیے یہاں نظم معرّیٰ کی ہیئت اور فنی خصوصیات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
نظم معرّیٰ کو انگریزی میں Blank Verse کہتے ہیں اور یہ صنف اردو میں انگریزی کے توسط ہی سے متعارف ہوئی ہی۔ ہیئت کے اعتبار سے اگر اس نظم کو دیکھا جائے تو اس کے تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ اس میں ردیف اور قافیہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح آزاد نظم کو انگریزی میں Free Verse کہتے ہیں اور یہ صنف بھی اردو میں انگریزی ہی کے توسط سے آئی ہی۔ نظم معرّیٰ اور آزاد نظم کے فرق کو تمیز کرنے میں اکثر طلبا دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آزاد نظم میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں لیکن نظم معرّیٰ میں تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ وزن کا اہتمام دونوں ہی میں کیا جاتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نظم معرّیٰ میں جو بحر استعمال میں لائی جاتی ہے وہ پوری نظم میں یکساں طور سے استعمال کی جاتی ہے جب کہ اس کے مقابلے آزاد نظم میں جو بحر استعمال میں لائی جاتی ہے، اس کے لیے یہ اہتمام ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بحرِ رجز: مسدس سالم الارکان کو اگر لیا جائے تو اس کا وزن ہے: مستفعلن مستفعلن مستفعلن۔ اب اگر شاعر معرّیٰ نظم لکھ رہا ہے تو ہر مصرعے میں تینوں ارکان کی پابندی لازم ہو گی۔ اس کے مقابلے شاعر اگر آزاد نظم تخلیق کر رہا ہے تو اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کبھی تینوں ارکان، کبھی دو اور کبھی ایک کا استعمال کر سکتا ہے اور اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وہ سالم رکن کی بجائے مزاحف ارکان کا استعمال اس طرح کرے کہ روانی متاثر نہ ہو۔ نظم معرّیٰ کی مثال کے لیے اس مضمون میں شامل نظم ’’ایک لڑکا” یا ’’ تنہائی میں ” اور آزاد نظم کی مثال کے لیے ’’ باز آمد: ایک منتاج” کو ملاحظہ فرمائیں۔
علامتی نظم نگاری
اختر الایمان کے یہاں سماجی اور معاشرتی مسائل سے گہری دلچسپی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کو علامتوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہنا تے ہیں۔ اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے وہ جس طرح علامتوں کا استعمال کر تے ہیں، وہ بھی خاصے کی چیز ہوتی ہے۔ ان کی اس طرح کی علامتی نظموں کو سمجھنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے لیکن ذراسی ہی دیر لگتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی ایک نظم ’’تنہا ئی میں ” ملاحظہ ہو:
دور تالاب کے نزدیک وہ سوکھی سی ببول
چند ٹوٹے ہوئے ویران مکانوں سے پرے
ہاتھ پھیلائے برہنہ سی کھڑی ہے خاموش
جیسے غربت میں مسافر کو سہارانہ ملے
اس کے پیچھے سے جھجھکتا ہوا اک گول ساچاند
اُبھرا بے نور شعاعوں کے سفینے کو لیے
اور پرسوز دھندلکے سے وہی گول سا چاند
اپنی بے نور شعاعوں کا سفینہ کھیتا
ابھرا نمناک نگاہوں سے مجھے تکتا ہوا
جیسے گھل کر مرے آنسو میں بدل جائے گا
ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول
سوچتی ہو گی کوئی مجھ سا ہے یہ بھی تنہا
آئینہ بن کے شب و روز تکا کرتا ہے
کیسا تالاب ہے جو اس کو ہرا کر نہ سکا؟
یوں گزارے سے گزر جائیں گے دن اپنے بھی
پر یہ حسرت ہی رہے گی کہ گزارے نہ گئے
زیر بحث نظم میں ’’تالاب ” اور ’’ببول” کو علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور بار بار انہیں دہرا کر شاعر ان سے ڈرامائی تاثر پیدا کر نے کی کو شش بھی کر رہا ہے۔ ’’ببول” اجڑی ہوئی، بے برگ و بار اور افسر دہ زندگی کی علامت ہے تو ’’تالاب” امیری اور سرمائے کی علامت۔ اس تالاب میں باہر سے پانی آ تو سکتا ہے مگر جا نہیں سکتا۔ خواہ سڑے یا گلے یا پھر اس میں کیڑے پیدا ہو جائیں، جو ہماری زندگی کے لیے مہلک ثابت ہوں۔ یہ ایک طویل نظم ہے، جس کا لطف پڑھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اختر الایمان کی نظموں کا بیشتر حصہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے اور علامتی شاعری سیدھی سادھی شاعری سے ذراسی مختلف ہو تی ہے۔ ایسے شاعر کے یہاں جو کہ علامتی شاعری کرتا ہو، اس کے پاس مستقبل کا کو ئی خواب نہیں ہوتا۔ اس کاتمامترسرمایہ ماضی اور حال کے واقعات و تجربات کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اختر الایمان کو ’’اقدار کا شاعر” کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اقدار کا تعلق مستقبل سے نہیں ماضی اور حال سے ہوتا ہے اور اسی اقدار سے وابستگی کے سبب وہ روایت پسند بھی ہیں اور جدت پسند بھی۔ اس موقع پران کی نظم ’’ایک لڑ کا” کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، جس سے ہمیں ان کے ماضی اور حال کے رشتے کے تانے بانے کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
مجھے اک لڑکا، آوارہ منش، آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا، جیسے تند چشموں کا رواں پانی
نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے، جیسے یہ بلائے جاں
مرا ہمزاد ہے، ہر گام پر، ہر موڑ پر جولاں
اسے ہمراہ پاتا ہوں، یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے، جیسے میں مفرور ملزم ہوں
یہ مجھ سے پو چھتا ہے اختر الایمان تم ہی ہو؟
یہ لڑ کا پو چھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج، اندوہ پرور، اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں !
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے
کبھی چا ہا تھا اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں !
اس نظم سے یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ شاعر اپنے دل اور دماغ کو الگ الگ کر کے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اپنا محاسبہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ نوجوان جو اس کے اندر موجود تھا اور جس میں امنگیں ہی اُمنگیں، جوش اور ولولے بھرے ہوئے تھے کہ ’’اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا” اس نوجوان کو کیا ہوا؟ آج وہ کہاں ہے؟ کہنے کو تو زندہ ہے مگر وہ خواب، جواس نے اپنی جوانی یا عالمِ عنفوانِ شباب میں دیکھے تھے۔ کیا وہ شرمندۂ تعبیر
تجزیہور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید۰۱۲ءہوئے؟ ن ہیں ہرگز نہیں۔ یہی عالم اختر الایمان کی زیادہ تر نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’ریت کے محل”، ’’قلوپطرہ”، ’’خاک و خون” اور ’’ایک سوال” وغیرہ کو خاص طورسے یاد کیا جاسکتا ہے۔
اس مختصر سے مطالعے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اختر الایمان نے جس طرح ماضی اور حال کو اپنی نظموں میں برتا ہے اور جس طرح سے’’فلیش بیک”، ’’بیانیہ” اور ’’علامتی” شاعری کے ذریعے اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ انہیں کا خاصہ ہے۔ ان کی طویل نظموں میں ابتدائی مصرعوں کو نظم کے بیچ بیچ میں دوہرا کر ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی ایک خصوصی چیز ہے۔ ان کی نظموں میں بیانیہ کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ افسانوی تکنیک کا بھی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے، جس سے اردو نظم کے مستقبل کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اردو نظم کو یہی اختر الایمان کی دین ہے اور بس۔ ان کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے اردو میں نثری نظم کے امکانات روشن نظر آنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے انہیں اردو شاعری کے منفرد اسلوب کا شاعر کہنے کی جرأت کی ہے۔
کتابیات
۱۔ سروساماں، اختر الایمان، رخشندہ کتاب گھر، بمبئی، 1983ء
۲۔ کُلّیاتِ اختر الایمان، بیدار بخت(مرتَّب)، ایجوکیشنل پبلِشنگ ہاؤس، دہلی، 2000
۳۔ یادیں، اختر الایمان، پنجابی پستک بھنڈار، دریباں کلاں، دہلی، 1963ء
۴۔ آبِ جو، اختر الایمان، نیا ادارہ، لاہور، 959ء
۵۔ تاریخِ ادب اردو(عہدِ میر سے ترقی پسند تحریک تک) جلد چہارم، سیدہ جعفر، لنگر حوض، حیدرآباد، 2002ء
۶۔ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام حسین، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 988ء
۷۔ ایوانِ اردو (اختر الایمان نمبر)، اردو اکادمی، دہلی، اپریل 1996ء
۸۔ فرہنگ ادبی اصطلاحات، پروفیسر کلیم الدین احمد، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 986ء
۹۔ اختر الایمان: ایک مطالعہ، ڈاکٹر رضی احمد، (مقالہ )، جے این یو، دہلی، 2003
یگانہ چنگیزی :ہم زبانِ آتَش
کلام یاس سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرت آتَش کا ہم زباں نکلا
بیسویں صدی کے نصف اول میں جن شعرأ کے حصے میں بہت زیادہ شہرت و مقبولیت آئی، ان میں یاس یگانہ چنگیزی کا نام بھی خاص طور سے قابلِ ذکر ہے البتہ یہ بات الگ ہے کہ ان کو جتنی مقبولیت اپنی شاعری سے حاصل ہوئی، اس سے زیادہ تشہیر’’ غالب شکن” ہونے کے باعث نصیب ہوئی۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا ایک مخصوص رنگ ہے۔ ان کا تعلق کسی دبستان سے نہیں تھا۔ روزمرہ، محاورے، زبان اور لفظوں کے در و بست پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی۔ اسی سے اردو شاعری میں انہوں نے اپنی طبیعت کی جولانیاں خوب دکھائیں۔
ان کا نام مرزا واجد حسین تھا۔ پہلے یاس تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں یگانہ ہو گئے۔ آپ کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے تھے اور سلطنت مغلیہ کے دامن سے وابستہ ہو گئے تھے۔ پرگنہ حویلی عظیم آباد میں جاگیریں ملیں اور وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ یگانہ چنگیزی۲۷! ذی الحجہ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۷ /اکتوبر۱۸۸۴ کو پٹنہ کے محلے مغل پورہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ چھ سال کی عمر سے مکتب میں داخل ہوئے۔ فارسی کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد عظیم آباد (پٹنہ) کے محمڈن اینگلو عربک اسکول میں نام لکھوایا گیا۔ اسکول میں ہمیشہ اول رہے۔ پڑھنے میں اچھے تھے، اس لیے ہر سال وظیفہ اور انعام پاتے رہے۔ ۱۹۰۳ میں انٹرنس پاس کیا۔ ۱۹۰۴ میں مٹیا برج، کلکتہ تشریف لے گئے، جہاں شہزادہ مرزا مقیم بہادر کے صاحب زادوں شہزادہ محمود یعقوب علی مرزا اور شہزادہ محمد یوسف علی مرزا کی انگریزی تعلیم کے استاد مقرر ہوئے۔ لیکن کلکتہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور کچھ دنوں بعد وطن واپس چلے آئے۔ علاج کے سلسلے میں لکھنؤ آئے اور لکھنؤ کی فضا ایسی راس آئی کہ اچھے ہو کر بھی واپس جانا گوارا نہیں کیا۔ لکھنؤ ہی میں ۱۹۱۳ میں شادی کر کے اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔
یگانہ کا لکھنؤ کا قیام بڑا ہنگامہ خیز اور معرکہ آرا رہا، جس کا اثر ان کے فن پر بھی پڑا۔ معرکہ آرائیوں نے بھی ان کے فن کو جلا بخشی۔ شروع میں لکھنؤ کے شعرأ سے ان کے تعلقات خوشگوار تھے۔ اتنا ہی نہیں وہ عزیز، صفی، ثاقب و محشر وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ جب عزیز کی سرپرستی میں رسالہ ’’ معیار” جاری ہوا اور معیار پارٹی وجود میں آئی تو یگانہ بھی اس پارٹی کے مشاعروں میں غالب کی زمینوں میں غزلیں پڑھتے تھے۔ ان طرحی مشاعروں کی جو غزلیں ’’ معیار” میں چھپی ہیں، ان میں بھی یگانہ کی غزلیں شامل ہیں۔ لیکن یہ تعلق بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور لکھنؤ کے اکثر شعرأ سے یگانہ کی چشمک ہو گئی۔ اس سلسلے میں مالک رام بہ زبان یگانہ تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ اب اس میں میرا کیا قصور ! یہ خدا کی دین ہے، میرا کلام پسند کیا جانے لگا۔ باہر کے مشاعروں میں بھی اکثر جانا پڑتا۔ میری یہ ہر دل عزیزی اور مقبولیت ان تھڑ دلوں سے دیکھی نہ گئی۔ "
(مرزا یگانہ چنگیزی، مضمون مشمولہ، میرزا یگانہ :شخصیت اور فن, ص:۲۰)
یگانہ سے اہلِ لکھنؤ کی چشمک کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ’’ معیار” پارٹی کے مشاعروں میں ان کے کلام پر خندہ زنی کی جاتی تھی اور بے سروپا اعتراض کیے جاتے تھے مگر یہ سب کچھ زبانی ہوتا تھا۔ اصلی اور تحریری جنگ کا آغاز خود یگانہ نے کیا۔ اس کے بعد ایک دوسرے کے خلاف لکھنے کا سلسلہ چل پڑا، جس کی انتہا ’’ شہرتِ کاذبہ” نامی یگانہ کی کتاب ہے۔ لکھنؤ کے شعرأ غالب کے بڑے قائل تھے، لہٰذا یگانہ کے لیے اب یہ بات بھی ناگزیر ہو گئی کہ وہ غالب کی بھی مخالفت کریں۔ غالب کی مخالفت کے سلسلے میں انہیں اندھا مخالف نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ :
"یہ کس نے آپ کو بہکا دیا کہ میں غالب کا مخالف ہوں، وہ یقیناً بہت بڑا شاعر ہے۔ صاحب ! غالب کی صحیح قدر و منزلت مجھ سے زیادہ کون سمجھے گا۔ مجھے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ لوگ اس کے جائز مقام سے زیادہ اسے دینا چاہتے ہیں۔ اور پھر قسم یہ ہے کہ یہ بھی وہ لوگ نہیں، جو اس کا صحیح مقام سمجھتے ہوں، بلکہ وہ جو تقلیداً اسے بڑا سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ تو صاحب ! میں غالب کے خلاف نہیں تھا، اور نہ ہو ں لیکن میں اس کی جائز جگہ سے زیادہ اس کے حوالے کر دینے پر تیار نہیں۔ "
(مضمون از مالک رام مشمولہ، میرزا یگانہ :شخصیت اور فن، ص: ۱۹ )
یگانہ نے اس مخالفت کے چلتے اپنے آپ کو ’’آتش کا مقلد” کہنا شروع کر دیا اور اپنے مجموعۂ کلام ’’نشترِیاس” کے سرورق پر اپنے نام سے پہلے ’’ خاک پائے آتش ” لکھا اور جب اس کے ایک سال بعد ’’چراغِ سخن” شائع ہوا تو انہوں نے اپنے آپ کو ’’آتش پرست ” کے درجے تک پہنچا دیا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے آتش اور غالب کا تقابلی مطالعہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آتش، غالب سے بڑا شاعر ہے۔ یہ مضمون رسالہ ’’ خیال ” میں نومبر۱۹۱۵ میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ ایک لمبی مدت تک جاری رہا۔ اس غالب شکنی کی انتہا وہ رسالہ ہے، جو انہوں نے ۱۹۳۴ میں ’’ غالب شکن” کے نام سے شائع کیا۔ اس رسالے کو دوبارہ مزید اضافوں کے ساتھ ۱۹۳۵ میں چھاپا۔ اس مخالفت کی وجہ سے یگانہ کا اچھا خاصا وقت ضائع ہو گیا کیوں کہ اس مخالفت سے نہ تو شعرائے لکھنؤ کا کچھ ہوا اور نہ ہی غالب کو کچھ نقصان پہنچا بلکہ یگانہ ہی خسارے میں رہے کہ اپنی شاعری پر پوری طرح توجہ نہ دے سکے۔
ان سب مخالفتوں اور معرکہ آرائیوں کے باوجود یگانہ کا ایک گروپ تھا، جن سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ ۱۹۱۹ میں انہوں نے ’’ انجمن خاصانِ ادب ” کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی۔ اس انجمن کے صدر: بیخود موہانی، سکریٹری: یگانہ اور جوائنٹ سکریٹری: عبدالباری آسی تھے۔ اس انجمن کے اعزازی رکن اور سرپرستوں میں فصاحت لکھنوی اور سید مسعود حسن رضوی ادیب جیسے لکھنوی اہل قلم بھی شامل تھے۔
زندگی کے دوسرے مشاغل کے ساتھ ساتھ یگانہ کی ملازمت کا سلسلہ بھی ناہمواری کا شکار رہا۔ ایک عرصے تک وہ ’’ اودھ اخبار ” سے وابستہ رہے۔ لیکن حتمی طور سے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ کب سے کب تک، البتہ ’’ اودھ اخبار ” کے اڈیٹروں میں یگانہ کا نام شامل ہے۔ ۱۹۲۴ میں یگانہ اٹاوہ چلے گئے، جہاں انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی۔ مارچ۱۹۲۵ کے آس پاس وہ اٹاوہ کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے، وہاں ایک پریس میں انہیں ملازمت مل گئی۔ ۱۹۲۶ میں انہوں نے لاہور کا رخ کیا اور ’’ اردو مرکز ” سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں کا ماحول انہیں راس آیا۔ یہاں کے ادیبوں سے ان کے بہتر مراسم رہے۔ کئی کتابوں اوررسالوں کے چھپنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ اقبال کے یہاں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اقبال بھی یگانہ کے بڑے قائل تھے۔ ۱۹۲۷ میں یگانہ ’’ اردو مرکز” سے علاحدہ ہو گئے لیکن قیام لاہور ہی میں رہا۔ لاہور کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کا رخ غالباً۱۹۲۸ میں کیا۔ حیدرآباد میں ان کا قیام ان کے لیے کافی آسودگی لے کر آیا۔ جہاں ان کا تقرر نثار احمد مزاج کے توسط سے محکمہ رجسٹریشن میں ’’نقل نویس” کی حیثیت ہو گیا۔ یہا ں ان کی آمدنی پچیس تیس روپے ماہوار تھی اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہو جاتی تھی۔ ۱۹۳۱ میں یگانہ محکمۂ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہو گئے۔ یہ جگہ سب رجسٹرار کی تھی۔ اس طور سے وہ ’’ عثمان آباد”، ’’لاتور” اور ’’یادگیر” میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور ۱۹۴۲ میں ۵۵ برس کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا۔ ۱۹۴۶ میں وہ بمبئی گئے اور وہاں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو ملازمت دلوائی۔ حیدرآباد میں نواب معظم جاہ نے انہیں اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہا لیکن یگانہ راضی نہ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یگانہ بار بار حیدرآباد روزگار کی امید سے آتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہی نصیب ہوئی۔ ان کے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے گئے اور اسی عالم میں انہوں نے تین یا چار فروری۱۹۵۶ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
یگانہ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ نشترِ یاس”۱۹۱۴ میں شائع ہوا۔ اس کا بڑا حصہ ان کے ابتدائی اور روایتی کلام پر مشتمل ہے۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’ آیاتِ وجدانی” کے نام سے ۱۹۲۷ میں منظر عام پر آیا۔ یگانہ کی قدر و منزلت کا دارو مدار بڑی حد تک اسی مجموعے پر ہے۔ ’’ آیاتِ وجدانی ” کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ’’ ترانہ ” کے نام سے سات سال بعد ۱۹۳۳ میں شائع ہوا۔ ۱۹۳۴ میں ’’آیاتِ وجدانی ” کا دوسرا اڈیشن منظر عام پر آیا۔ -۱۹۴۵۴۶ میں اس مجموعے کا تیسرا اڈیشن بھی آگیا۔ اس اشاعت کا کام پہلی اشاعتوں سے بہتر تھا۔ ۱۹۴۶میں جب یگانہؔ بمبئی گئے تھے، اس وقت ان کی ملاقات سید سجاد ظہیر سے ہوئی تھی۔ ان کے لیے یگانہ نے اپنے تمام مجموعوں میں شامل کلام کو ’’گنجینہ” کے نام سے مرتب کر دیا۔ یہ مجموعہ کمیونسٹ پارٹی کے اشاعتی ادارے سے ۱۹۴۷ میں شائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے چند کتابچے بھی لکھے تھے۔ مثلاً ’’ شہرتِ کاذبہ ” جسے خرافاتِ عزیز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ’’ غالب شکن ” بھی شائع کیا، جس سے لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں بڑی اٹھا پٹک ہوئی۔
یگانہ کی شاعرانہ خصوصیات
یگانہ ایک کلاسیکی غزل گو شاعر تھے۔ حالانکہ انہوں نے قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں لیکن ان کی اصل پہچان ان کی غزلیں ہی ہیں۔ انہوں نے غزل کے موضوعات کے دائرے کو ایک نئی جہت اور اونچائی عطا کی اور ایسے مضامین نظم کیے جو پہلی بار حقیقت پسندانہ کیفیت کے ساتھ غزل کے افق پر نمودار ہوئے۔ وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں، جس طرح کے شیریں و تلخ تجربات سے گزرے تھے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا جس طرح تجربہ کیا تھا، اس سے ان کے دل و دماغ نے جو تاثرات قبول کیے تھے، انہیں واقعات نے ان کی غزلوں کو اصلیت پسندی اور تابناکی بخشی۔ ان کی غزل گوئی ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے۔ وہ ایک خود دار اور صاف گو انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی اس کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔
یگانہ کی شاعری میں جو چیز سب سے پہلے دل پر اثر کرتی ہے، وہ ہے ان کا زورِ کلام۔ بندش کی چستی کے علاوہ بلند بانگ مضامین کے لیے ایسے الفاظ لے آتے ہیں، جو پوری طرح مفہوم کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ خیالات کو بھی جلا دیتے ہیں۔ دوسری چیز جو ان کی شاعری میں دلکشی پیدا کرتی ہے وہ ہے ’’طنز”، ان کی شاعری کا یہ عنصر کہیں کہیں اتنا تیز اور تیکھا ہوتا ہے کہ زور بیان کا لطف دوبالا کر دیتا ہے۔
انسان کا انسان فرشتے کا فرشتہ
انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
خدا تھے کتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا
کیسے کیسے خدا بنا ڈالے
کھیل بندے کا ہے خدا کیا ہے
حال دونوں کا ہے غیر، اب سامنا مشکل کا ہے
دل کو میرا درد ہے اور مجھ کو رونا دل کا ہے
جو خاک کا پتلا، وہی صحرا کا بگولہ
مٹنے پہ بھی اک ہستی برباد رہے گی
’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو "
زندگی پھر کیوں ہوئی ہے دردِ سر میرے لیے
یگانہ کے کلام میں تخیل کی بلند پروازی اور فکر کی بالیدگی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ وہ حقائق کو عالمِ بالا سے چن کر لاتے ہیں اور نہایت صفائی و سادگی کے ساتھ اشعار میں سمو دیتے ہیں۔ بندش ایسی ہوتی ہے کہ الفاظ و تراکیب میں مطلب و مفہوم الجھنے نہیں پاتا۔ ان کے کلام میں زیادہ تر حوصلہ اور ہمت افزائی کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔ مصیبتوں میں گِھر جانے کے باوجود بھی انسان کو ہمت کسی بھی صورت میں ہارنا نہیں چاہیے۔
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
ہمیں سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
بزم دنیا میں یگانہ ایسی بیگانہ روی
میں نے مانا عیب ہے لیکن ہنر میرے لیے
رات دن شوقِ رہائی میں کوئی سر پٹکے
کوئی زنجیر کی جھنکار سے دیوانہ بنے
واہ کس ناز سے آتا ہے ترا دور شباب
جس طرح دور چلے بزم میں پیمانے کا
باز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے باز آ
ڈوب مرنے کا مزہ دریائے بے ساحل میں ہے
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
یگانہ ایک خود دار، حق گو اور بے باک انسان تھے اور یہی خصوصیات ان کے کلام میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی خود داری کہیں کہیں ’’ اناپرستی ” سے جا ملتی ہے، جسے بعض ناقدین نے ان کی ’’کجروی” سے تعبیر کیا ہے۔ اپنے دور میں انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی، جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کی زندگی کشمکش، آزمائش اور اتار چڑھاؤ سے عبارت تھی، اس کے باوجود ان کی شاعری میں زندگی سے فرار، مایوسی اور پست ہمتی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے کو طئے کرنے کی ان میں بڑی جرأت تھی۔ میرا خیال ہے شاید اسی وجہ سے ان کے کلام میں مایوسی، قنوطیت اور حرماں نصیبی نہیں پائی جاتی۔
ہنوز زندگی تلخ کا مزا نہ ملا
کمال صبر ملا صبر آزما نہ ملا
بہار آئے گی پھر یاس ناامید نہ ہو
ابھی تو گلشن ناپائدار باقی ہے
دل ہے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پیے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں، کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
رہائی کا خیالِ خام ہے یا کان بجتے ہیں ؟
اسیرو، بیٹھے کیا ہو گوش بر آوازِ در ہو کر
پاؤں ٹوٹے ہیں مگر آنکھ ہے منزل کی طرف
کان اب تک ہوس بانگ درا کرتے ہیں
یگانہ کے کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں فارسی ترکیبوں کے استعمال سے کافی لگاؤ تھا۔ تشبیہات کی جدت سے وہ طرزِ بیان میں تازگی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے مصرعے نہایت چست ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ کی بندش سے اشعار میں ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً:
وحشت آباد عدم ہے وہ دیارِ خاموش
کہ قدم رکھتے ہی ایک ایک سے بیگانہ بنے
حسن وہ حسن کبھی جس کی حقیقت نہ کھلے
رنگ وہ رنگ جو ہر رنگ میں شامل ہو جائے
چشمِ نامحرم سے، غافل، روئے لیلیٰ ہے نہاں
ورنہ اک دھوکا ہی دھوکا پردۂ محمل کا ہے
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
یگانہ نے صرف اپنا تخلص ہی یاس سے یگانہ (-۱۹۲۰۲۱ میں ) نہیں کیا بلکہ ۱۹۳۲ تک پہنچتے پہنچتے، اس میں چنگیزی کا اضافہ بھی کر لیا۔ اس کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ:
’’ جس طرح چنگیز نے اپنی تلوار سے دنیا کا صفایا کر دیا تھا، اسی طرح جب سے میں نے غالب پرستوں کا صفایا کرنے کا تہیہ کیا ہے، یہ لقب اختیار کیا ہے۔ "
(بحوالہ : یگانہ سوانحی خاکہ، مشمولہ، کلیاتِ یگانہ چنگیزی، ص ۶۸)
یہ تبدیلی صرف تخلص تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نظریات و افکار میں بھی تبدیلی کی دلالت ہے۔ اہلِ لکھنؤ سے ان کے معرکے نے انہیں اور خود سر اور پر اعتماد بنا دیا۔ انہیں معرکوں کے باعث ان کے لہجے میں تیزی آئی۔ یہاں یگانہ کے کلام سے کچھ ایسے شعر دیکھتے چلیں، جن سے ان کے لہجے کا انوکھا پن ہی نہیں بلکہ تیکھا پن بھی سامنے آ جائے تو شاید کوئی مضائقہ نہ ہو۔
کون دیتا ہے ساتھ مردوں کا
حوصلہ ہے تو باندھ ٹانگ سے ٹانگ
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب ترک دعا کرتے ہیں
کلامِ یاس سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرتِ آتَش کا ہم زباں نکلا
دن چڑھے سامنا کرے کوئی
شمع کیا شمع کا اجالا کیا
صبر کرنا سخت مشکل ہے، تڑپنا سہل ہے
اپنے بس کا کام کر لیتا ہوں آساں دیکھ کر
مندرجہ بالا اشعار یگانہ کی یگانہ روی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ان کا کلام ان کے کسی ہم عصر سے کم تر نہیں ہے۔ روزمرہ، محاوروں کا استعمال، طرزِ ادا، کلام میں روانی اور بے ساختگی یگانہ کی خاص پہچان بن گئے تھے۔ ان کی شاعری کی خصوصیات پر گفتگو ہو اور بات رباعیوں کی نہ کی جائے تو ناانصافی ہو گی۔ انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ایک طرح کی جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ دیگر شعرأ سے ان کا رنگ الگ رہے۔ اس فراق میں انہوں نے ایسی بندشیں اور محاورے استعمال کیے جو منجھے ہوئے نہیں تھے یا جن پر زبان کی صفائی نے ابھی تک جلا نہیں بخشی تھی۔ لیکن یہ بات طئے ہے کہ یگانہ کو رباعی کے فن پر کامل عبور تھا۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ رباعی کے چوتھے مصرعے میں خیال کی تان ٹوٹتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیاں ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔ انہوں نے غالب کے کلام پر بھی رباعی میں اظہار خیال کیا تھا۔ یگانہ کی رباعیوں کے مجموعے کا نام ’’ ترانہ ” ہے، جسے کافی سراہا گیا ہے۔ ان کی رباعیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر رباعیوں کو عنوان دے کر رقم کیا ہے۔ مثلاً : ’’ تحفۂ درد” ملاحظہ ہو:
دل کو پہلے ٹٹول لیتا ہوں
پھر تحفۂ درد مول لیتا ہوں
آثارِ زلال و درد و مستی و خمار
آنکھوں آنکھوں میں تول لیتا ہوں
’’ حسن دو روزہ "
سورج کو گہن میں نہیں دیکھا شاید
کیوں، چاند کو گہن میں نہیں دیکھا شاید
اے حسن دو روزہ پہ اکڑنے والو
یوسف کو کفن میں نہیں دیکھا شاید
’’ٹیڑھے مرزا”
شاہوں سے مری کلاہ ٹیڑھی ہی رہی
بد مغزوں سے رسم و راہ ٹیڑھی ہی رہی
ٹیڑھے مرزا کو کون سیدھا کرتا
سیدھی نہ ہوئی نگاہ ٹیڑھی ہی رہی
یگانہ نے غالب شکنی کے باعث بڑی بدنامی مول لی لیکن یہ بدنامی ایسے ہی نہیں تھی بلکہ انہوں نے بہت سی رباعیاں اس سلسلے میں کہی تھیں۔ ان کی اس رنگ کی بھی چند رباعیاں پیش ہیں تاکہ حقیقت کا اندازہ کیا جاسکے۔
غالب کے سوا کوئی بشر ہے کہ نہیں
اوروں کے بھی حصے میں ہنر ہے کہ نہیں
مردہ بھیڑوں کو پوجتا ہے ناداں
زندہ شیروں کی کچھ خبر ہے کہ نہیں
اللہ ری ہوا و ہو میں خلعت و زر
مرزا کا سر ہے اور انگریز کا در
ہاں کیوں نہ ہوں مورکھوں کے دیوتا غالب
ہے باؤلے گاؤں اونٹ بھی پرمیشر
یگانہ چنگیزی کی شاعرانہ خصوصیات پر ہم نے اب تک جتنی باتیں کیں اور ان کے حوالے سے جتنی مثالیں پیش کیں، ان سے یگانہ کی شاعری اور ان کے زبان و بیان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یگانہ کی شاعری اور ان کے خاص رنگ کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے خاص خاص رنگ اس مضمون سے واضح ہو جائیں۔
٭٭٭
جہدِ آزادی میں اردو شاعری کا حصہ
ادب خواہ کسی زبان کا ہو، وہ اپنے عہد کے غالب کے رویوں کا ترجمان اور عکاس ہوتا ہے۔ خواہ وہ رویے سماجی ہوں، تہذیبی ہوں یا سیاسی۔ اردو ادب کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی شاعروں نے اپنے عہد کے حالات و واقعات پر بلا خوف و خطر اظہار خیال کیا ہے۔ حالاں کہ ان میں سے کچھ کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑی یا جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اردو شاعری میں یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا اور جہدِ آزادی کے دوران یہ رجحان اپنے عروج کو پہنچ گیا۔
کلاسیکی اردو شاعری میں شہر آشوب، ہجو اور دوسری شعری اصناف میں ایسے موضوعات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جنھیں آج کی جدید اصطلاح میں احتجاجی ادب کا نام دیا گیا ہے مگر ہر دور میں اس طرح کے احتجاجی ادب کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے لیے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے ادب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلے میں انیسویں صدی کے ا دب سے بیسویں صدی کا ادب یکسر مختلف ہے۔
ادب ہمیشہ ہی سماج کے موثر رجحانات کا علم بردار رہا ہے۔ سیاست سماج کو پہلے متاثر کرتی ہے اس کے بعد سماج ادب کو متاثر کرتا ہے۔ عوام الناس ہی کی طرح ادیب بھی سماج کی ایک اکائی ہوتا ہے، اس لیے جس طرح ہر شخص پر سماج کا کچھ نہ کچھ فرض ہوتا ہے، اسی طرح ادیب پر بھی سماج کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا نباہ کرنے کے لیے ادیب ایسے مسائل پر بھی قلم اٹھاتا ہے، جن کا تعلق سماج، ملک، قوم اور کبھی کبھی دنیا سے بھی ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے ساحر لدھیانوی نے کہا ہے کہ:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں
روسی انقلاب کے بعد اردو ادب میں ایک لہر بڑی تیزی سے آئی، جس کے قاعد’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” کے خالق محمد اقبال تھے۔ انہوں نے اپنے جذبات کو اس طرح پیش کیا کہ:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرأ کے درو دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
یا پھر یہ کہ:
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کر تا ہے تو سچائی اور حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اورجس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں، وہاں ادیب ان سے متاثر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ انسانیت کی ناقدری، نا انصافی، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں آل احمد سرورلکھتے ہیں :
’’ادب چوں کہ زندگی کی سچائیوں سے منہ موڑ ہی نہیں سکتا، اس لیے سماجی نا انصافیوں، حکمرانوں کے ذریعہ کیے جا رہے استحصال، ایک عام انسان دوستی اور دنیا کی عظمت اور رنگا رنگی کو بھی اپنے سینے میں محفوظ کر لیتا ہے۔ "
حبِ وطن، سماجی مسائل اور ترقی، جنگ اور امن، رنگ اور نسل، یہ ایسے موضوعات ہیں، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہو گا، انسان بے موت مارا جائے گا تو ادیب اپنی آواز ضرور بلند کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا دوسری عالمی جنگ سے نبرد آزما تھی تب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ادب ایک سماجی تاریخ کی بھی حیثیت رکھتاہے، جس میں کسی سماج یا ملک کی بدلتی ہوئی تہذیب کی تصویریں صاف نظر آتی ہیں۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر سماج کی اعلیٰ و ادنیٰ تہذیب کو بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اس اعلیٰ و ادنیٰ تہذیب کی سیاست میں وقت کا اہم رول ہوتا ہے، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ ادیب چوں کہ عام آدمی سے زیادہ حساس ہوتا ہے، اس لیے وہ زیادہ متاثر ہوتا ہے اور جو کچھ اسے محسوس ہوتا ہے، اسے اپنی تخلیقات میں پرو کر معاشرے کے سپرد کر دیتا ہے۔ جیسے:
چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے مجبور ہیں ہم
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
فیض
ادب اور سماج کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے بالخصوص بیسویں صدی کے نصف اول میں، یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا، جب کہ انگریزوں کے ذریعے کیے جا رہے ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھے۔ تقسیمِ بنگال پر پہلی بار یہاں کی عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کھل کر کیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی اور شبلی دو ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور حب وطن کا اظہار سب سے پہلے کیا۔
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو
اٹھو اہلِ وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
ملک ہیں اتفاق سے آزاد
شہر ہیں اتفاق سے آباد
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
شبلی مسلم لیگ کے سخت مخالف اور کانگریس کے زبر دست حمایتی تھے۔ مسلم لیگ کے بننے پر انہوں نے کہا تھا:
لیگ کی عظمت و جبروت سے انکار نہیں
ملک میں غلغلہ ہے شور ہے، کہرام بھی ہے
مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں
محسنِ قوم بھی ہے اور خادمِ حکام بھی ہے
پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اور قومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ جہدِ آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔ ان کی شاعری کے بارے میں کالی داس گپتا رضا اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں :
"اگر چکبست نہ ہوتے تو اردو شاعری بیسوی صدی کے آغاز کی سیاسی بیداری کے تذکرہ سے محروم رہ جاتی”
چکبست کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ جوانوں کے جینے کے ڈھنگ پر افسوس ظاہر کر تے ہوئے وہ کہتے ہیں :
موجود ہے جن بازوؤں میں زور جوانی
طوفاں سے انہیں کشتیِ قومی ہے بچانی
پر ہے مئے غفلت سے سروں میں یہ گرانی
آرام پسندی میں یہ رکھتے نہیں سانی
پہلو میں کسی کے دلِ دیوانہ نہیں ہے
ہیں مرد مگر ہمت مردانہ نہیں ہے
اس سلسلے کی چکبست کی نظمیں ’لارڈ کرزن سے جھپٹ ‘، ’ فریادِ قوم‘، ’ وطن کا راگ‘ اور’ ہم ہوں گے عیش ہو گا اور ہوم رول ہو گا‘، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی نظمیں ہیں، جن میں آزادی کے متوالوں کی ہمت کو بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے۔
آئے ہیں آپ تو کچھ حضرتِ کرزن ! سنیے
آپ اگر منھ کے کڑے ہیں تو ہوں میں بھی منہ پھٹ
آگیا طیش مجھے، دل کا نکالوں گا بخار
صاف کہتا ہوں، نہیں بات میں اپنی بنوٹ
جس سے ناشاد رعایا ہے وہ ہے دور ترا
کر دیا ملک کو اس پانچ برس میں چوپٹ
تو ہو جانے پہ جو راضی تو قسم سر کی ترے
کر کے چندہ تجھے ہم لے دیں ولایت کا ٹکٹ
اور جو تجھ کو نہیں منظور یہ احساں لینا
بھیج دیں ہم تجھے بیرنگ بنا کر پیکٹ
کونسل کے جو ترے ممبرِ سرکاری ہیں
وہ بھی کم بخت ہیں سب چور کے ساتھی گٹھ کٹ
یا الٰہی! یہ چلی بادِ مخالف کیسی
آگیا اُڑ کے جو لندن سے یہ کوڑا کرکٹ
اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوم کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں :
بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤ ہشیار
اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار
تو زیرِ موجِ فنا ہو گا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم و ارجن کا نام ڈوبے گا
اسی طرح مسلم نوجوانوں کے خون کو گرماتے ہوئے کہتے ہیں
:
دکھا دو جوہرِ اسلام ائے مسلمانو!
وقارِ قوم گیا قوم کے نگہبانو!
ستون ملک کے ہو قدرِ قومیت جانو!
جفا وطن پہ ہے، فرضِ وفا کو پہچانو!
نبیِ خُلق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شانِ حمیت کی یادگار ہو تم
یہ ایک طویل نظم ہے جو پوری طرح سے جوش و خروش میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک میں ہوم رول کی مانگ بہت زوروں پر تھی۔ ایسے میں چکبست نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:
یہ جوشِ پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آ کے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
ایک اور نظم جس کا عنوان ہے، ’ہم ہوں گے عیش ہو گا اور ہوم رول ہو گا‘ سے بھی ایک بند ملاحظہ ہو :
ہو ہوم رول حاصل ارمان ہے تو یہ ہے
اب دین ہے تو یہ ہے ایمان ہے تو یہ ہے
برطانیہ کا سایہ سر پر قبول ہو گا
ہم ہوں گے عیش ہو گا اور ہوم رول ہو گا
محمد اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز حب وطن سے سرشار نظموں سے کیا تھا۔ اردو شاعری میں ان کا نام اس وقت سب سے پہلے لیا جاتا ہے، جب ہم روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے مارکسیت سے اقبال ہی متاثر ہوئے اور کہا:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
کاخِ امرأ کے در و دیوار ہلا دو!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
جاگیر دارانہ نظام سے تنگ آ کر یہاں تک کہہ دیا کہ:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
۱۹۲۹ء میں کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، جس میں کانگریس نے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اسے حاصل کرنے کے لیے گاندھی جی کی قیادت میں سِوِل نافرمانی کی تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بھی طئے کیا کہ 26 جنوری ۱۹۳۰ء کو پورے ملک میں یومِ آزادی منایا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ پورے ملک میں یوم آزادی منایا گیا اور کانگریس کا ترنگا جھنڈا لہرا یا گیا۔ اس موقع پر لوگوں نے ایک حلف بھی لیا تھا، جس کے الفاظ اس طرح تھے:
’’ہندوستان میں برطانوی حکومت نے ہندوستانی عوام کو نہ صرف آزادی سے محروم کیا ہے بلکہ اس کی بنیاد ہی عوام کی لوٹ کھسوٹ ہے اور اس نے ہندوستان کو معاشی، سیاسی اور تہذیبی طور سے برباد کیا ہے۔ اس لیے اب ہم اسی میں یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کو برطانیہ سے تعلق توڑ کر مکمل آزادی حاصل کرنا چاہیے۔ "
اس حلف نامے کے الفاظ سے عوامی بیداری، سیاست دانوں کے خیالات اور مکمل آزادی کی مانگ میں شدت کا آنا سبھی کچھ ظاہر ہے۔ سِوِل نافرمانی کی تحریک جیسے ہی شروع ہوئی، گاندھی جی اور جواہر لال نہرو جیسے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے کہا کہ :
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
کیا ان کو خبر تھی، سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں
انگریزوں کے خلاف جوش کے جذبات کا طوفان آتش فشاں کی طرح پھٹا پڑتا ہے۔ اس سے، ان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم’’ نعرۂ شباب” میں دیکھنے کے لائق ہے:
دیکھ کر میرے جنوں کو ناز فرماتے ہوئے
موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے
تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں
ہڈیاں اس کفرو ایماں کی چبا ڈالوں گا میں !
پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا
گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا
ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا
موت کے سائے میں رہ کر، موت پر چھایا ہوا
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
اب تک ہم نے جتنے شاعروں کی تخلیقات سے جہدِ آزادی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ان سبھی نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہدِ آزادی میں حصہ لینے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اکسایا بلکہ وہ خود بھی اس میں بہ نفسِ نفیس شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ وہ کبھی بھی آنے والے کل سے مایوس نہیں ہوئے۔ انہیں یہ بھروسہ تھا کہ آنے والا کل آج جیسا نہیں ہو گا بلکہ وہ آج سے بہتر ہو گا، جس سے ایک نئے عہد کی شروعات ہو گی۔ اس نئی امید کی کرن کے بارے میں جوش نے کہا کہ:
اٹھو وہ صبح کا غُرفہ کھلا زنجیر شب ٹوٹی
وہ دیکھو پَو پھٹی غنچے کھلے، پہلی کرن پھوٹی
اٹھو، چونکو، بڑھو، منھ ہاتھ دھو، آنکھوں کو مل ڈالو
ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو
مجاز نے عمر کے اعتبار سے بہت ہی کم عمر میں رومان سے انقلاب کی طرف رخ کیا۔ اپنی والہانہ شاعری کی بدولت پورے ملک میں نو عمری ہی میں ان کی ایک پہچان قائم ہو گئی تھی۔ جدو جہد آزادی جیسے جیسے تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اردو شاعری کے تیور بھی نکھر تے گئے۔ اس مرحلے پر بھلا وہ پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ مجاز کی نظم ’انقلاب، سے ان کے تیور کی مثال ملاحظہ ہو:
آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
کوہ و صحرا میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی
رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
سر کشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی
ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
خون کی بو لے کے جنگل سے ہوائیں آئیں گی
خوں ہی خوں ہو گا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی
یہاں ایک بات کا ذکر خاص طور سے کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ہم نے جتنی باتیں کیں، ان میں عورتوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں آیا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے یہ محسو س کیا کہ بغیر عورتوں کے شامل ہوئے جد وجہد آزادی میں شدت نہیں پیدا ہو گی، اس لیے اس تحریک میں عورتوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔ یہ سوچ کر ترقی پسند ادیبوں نے عورتوں کو بھی جہد آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اس سلسلے میں مجاز نے عورتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ:
ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے
اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
تو سامانِ جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل کا اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
(نوجوان خاتون سے)
اردو شاعری کی یہ پہلی آواز ہے، جب عورت کو مرد کے ہم قدم چلنے کی دعوت دی جا رہی ہے، اس کے بعد اس آواز کو مزید تقویت سلام مچھلی شہری نے عطا کی۔ انہوں نے مجاز سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ:
مجھے تو ہمدمو ہمراز چاہیے ایسی
جو دستِ ناز میں خنجر بھی چھپائے ہوئے
نکل پڑے سَرِ میداں اڑا کے آنچل کو
بغاوتوں کا مقدس نشاں بنائے ہوئے
اٹھا کے ہاتھ کہے! ’’انقلاب زندہ آباد”
لہو سے مثلِ دلہن مہندیاں رچائے ہوئے( شرائط)
یہ نئی لہر جو اٹھی تو آگے اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تقسیمِ بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی تحریک نہیں، جس میں شامل ہونے اور انگریز مخالف آواز کو تیز سے تیز تر کرنے کے لیے اردو شاعروں نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں۔ یہاں اس مضمون میں کچھ چنندہ شاعروں کی تخلیقات سے ہی مثالیں پیش کی جا سکیں مگر کوشش یہ رہی کہ نمائندہ شاعروں کی نظموں سے ہی مثالیں پیش کی جائیں تاکہ اس وقت کی عوام کی آواز، چل رہی تحریکوں اور عوام کی آرزوؤں و امنگوں کی نشاندہی کی جا سکے۔
اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے مخدوم کا نام لینا ضروری ہے۔ کیوں کہ مخدوم کی آوازپچاس کی دہائی کی نمائندہ آوازوں میں سے ایک تھی۔ مخدوم کا لہجہ اپنے وقت کا انوکھا لہجہ تھا۔ کیوں کہ ’’خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے”۔ یہ بڑی امنگوں اور ولولوں کے شاعر تھے۔ شاید اسی لیے ’’نئی دنیا نیا آدم” بنانے کی سوچ رہے تھے:
وقت ہے آؤ دو عالم کو دگرگوں کر دیں
قلبِ گیتی میں تباہی کے شرارے بھر دیں
پھونک دو قصر کو گر کن کا تماشہ ہے یہی
زندگی چھین لو دنیا سے جو دنیا ہے یہی
زلزلو آؤ دہکتے ہوئے لاؤ آؤ
بجلیو آؤ گرجدار گھٹاؤ آؤ
آندھیو آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ
آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کر ڈالیں
کاسۂ دہر کو معمورِ کرم کر ڈالیں
یہ گرجدار آواز اردو شاعری کی اس وقت کی سب سے مضبوط آواز ہے۔ انگریزوں کی حکومت کے خلاف جو شعلے اردو شاعروں کے دلوں میں دہک رہے تھے، تب تک ٹھنڈے نہیں پڑے، جب تک کہ مادرِ ہند کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ بیسویں صدی کے نصف اول کی شاعری کا ذکر اردو زبان کی تاریخ میں جب بھی کیا جائے گا تو جہدِ آزادی میں اردو شاعری کے رول کو خاص طور سے جگہ دینے کے لیے مورخ اپنے آپ کو مجبور پائے گا۔
کتابیات
ارجن دیو، اندرا ارجن دیو، ۱۹۹۵، تہذیب کی کہانی (حصہ اول و دوم)، این.سی. ای. آر.ٹی.، نئی دہلی
پرویز، اطہر، ۱۹۸۶، ادب کا مطالعہ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
جوش ملیح آبادی، ۱۹۷۷، شعلہ و شبنم، بھارتی پبلیکشنز، دہلی
چکبست، کا لی داس گپتارضا(مرتب)، ۱۹۸۱، کلیاتِ چکبست (نظم)، ساکار پبلشرز پرائیوٹ لمٹیڈ، بمبئی
ساحر لدھیانوی، ۱۹۷۹، آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، اسٹار پبلیکشنز (پرائیوٹ) لمٹیڈ، نئی دہلی
ساحر لدھیانوی، ۱۹۷۹، تلخیاں، انجم بک ڈپو، اردو بازار، دہلی
فیض احمد فیض، ۱۹۹۰، کلامِ فیض، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
مجاز، اسرار الحق، ۱۹۹۵، آہنگ، مکتبہ دین و ادب، امین الدولہ پارک، لکھنؤ
مخدوم محی الدین، ۱۹۶۶، بساطِ رقص، استقبالیہ کمیٹی، جشنِ مخدوم، حیدر آباد (دکن)
عتیق احمد، ۱۹۸۷، اردو ادب میں احتجاج، مکتبہ عالیہ، لاہور
افضال احمد، ۱۹۷۵، چکبست: حیات اور ادبی خدمات، چاندی خانہ، ڈیوڑھی آغا میر، لکھنؤ
خلیل الرحمن اعظمی، ۱۹۹۶، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
درخشاں تاجور، ۱۹۹۱، ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ، B/34، تیواری پور آواس وکاس کالونی، گورکھپور
یوسف تقی، ۱۹۸۰، ترقی پسند تحریک اور اردو نظم، دیارِ فکر و فن، کلکتہ
نوٹ: یہ مضمون ۸ اگست ۲۰۱۰ کو روزنامہ منصف میں شائع ہو چکا ہے
٭٭٭
ماخذ:
http://pervezahmedazmi.blogspot.in/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید