فہرست مضامین
بے یقین بستیاں
علی اکبر ناطق
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
بے یقین بستیاں
وہ اک مسافر تھا، جا چکا تھا
بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا
کبھی نہ رہنا کہ اُن پہ اتنے عذاب اتریں گے جن کی گنتی عدد سے باہر
وہ اپنے مُردے تمھارے کاندھوں پہ رکھ کے تم کو جُدا کریں گے
تم اُن جنازوں کو قریہ قریہ لیے پھرو گے
فلک بھی جن سے ناآشنا ہے جنہیں زمینیں بھی رد کریں گی
وہ کہ گیا تھا ہمیشہ ذلت سے دُور رہنا
کہ بدنصیبوں کا رزقِ اوّل اُنہیں زمینوں سے پیدا ہوتا ہے
جن زمینوں پہ بھورے گِدّہوں کی نوچی ہڈی کے ریزے بکھریں
تم اپنی رائے کو استقامت کی آب دینا
جسے پہاڑوں کی خشک سنگیں بلندیوں سے خراج بھیجیں
غلام ذہنوں پہ ایسی لعنت کی رسم رکھنا
جو تیری نسلوں پھر اُن کی نسلوں پھر اُن کی نسلوں تلک بھی جائے
تمہیں خبر ہو، شریف لوگوں کی اُونچی گردن لچک سے ایسے ہی بے خبر ہے
سوادِ غربت میں خیمہ گاہوں کی جیسے گاڑی ہوں خشک چوبیں
کبھی نہ شانے جھکُا کے چلنا
کہ پست قامت تمہارے قدموں سے اپنے قدموں کو جوڑ دیں گے
وہی نحوست تمہیں خرابوں کی پاسبانی عطا کرے گی
سراب آنکھوں کے راستوں سے تمھارے گردوں میں ریت پھینکیں گے اور سینے کو کاٹ دیں گے
وہ کہ گیا تھا یہی وہ علت کے مارے وحشی ہیں جن کی اپنی زباں نہیں ہے
یہ جھاگ اُڑاتے ہیں اپنے جبڑوں سے لجلجے کا تو گڑگڑاہٹ کا شور اُٹھتا ہے
اور بدبو بکھیرتا ہے
یہی وہ بدبخت بے ہنر اور بے یقیں ہیں کہ جن کی دیّت نہ خوں بہا ہے
سو اِن کی قربت سے دور رہنا، نجاتِ دل کا سبب بنے گا
وہ اک مسافر تھا کہ گیا ہے
٭٭٭
نیم کے سائے
کچا گاؤں، کچی گلیاں، کچے آنگن، نیم کے سائے
ٹھنڈی مٹی، بہتی ندیاں، کالے ساون، نیم کے سائے
اُڑتے پنچھی، ڈوبتا سورج، شام کی سرخی، پھول گلابی
چَرتی بھیڑیں، پھیلے سبزے، پھولی سرسوں، نیم کے سائے
باغ آموں کے، پیڑ شرینہ کے، کھٹے پیلو، میٹھے پانی
دور تلک کھلیان کا منظر، توت کی خوشبو، نیم کے سائے
چوڑے برگد، اُونچے پیپل، شہد کے چھتّے، لمبے جھولے
ہرنی چالیں، پتلی ناریں، بجتے کنگن، نیم کے سائے
نیلے فلک پر اُڑتے بادل، گھور گھٹائیں، جھومتی فصلیں
چلتی پھرتے ریشم جیسی نرم ہوائیں، نیم کے سائے
سیدھے سادے، بھولے بھالے، گاؤں والے، سچے لوگ
کھیلتے بچے، شوخ شبیلے، لڑکے بالے، نیم کے سائے
لوہار جانتا نہیں
ہمارے گاؤں کا لُہار اب درانتیاں بنا کے بیچتا نہیں
وہ جانتا ہے فصل کاٹنے کا وقت کٹ گیا سروں کو کاٹنے کے شغل میں
وہ جانتا ہے بانجھ ہو گئی زمین جب سے لے گئے نقاب پوش گاؤں کے مویشیوں کو شہر میں
جو برملا صدائیں دے کے خشک خون بیچتے ہیں بے یقین بستیوں کے درمیاں
اُداس دل، خموش اور بے زباں کباڑ کے حصار میں سیاہ کوئلوں سے گفتگو،
تمام دن گزارتا ہے، سوچتا ہے کوئی بات روح کے سراب میں
کُریدتا ہے خاک اور ڈھونڈتا ہے چُپ کی وادیوں سے سُرخ آگ پر وہ ضرب
جس کے شور سے لُہار کی سماعتیں قریب تھیں
بجائے آگ کی لپک کے، سرد راکھ اُڑ رہی ہے دھُونکنی کے منہ سے
راکھ، جس کو پھانکتی ہے جھونپڑی کی خستگی
سیاہ چھت کے ناتواں ستون، اپنے آنکڑوں سمیت پیٹتے ہیں سر
حرارتوں کی بھیک مانگتے ہیں جھونپڑی کے بام و در
جو بھٹیوں کی آگ کے حریص تھے
دھوئیں کے دائروں سے کھینچتے تھے زندگی
مگر عجیب بات ہے ہمارے گاؤں کا لُہار جانتا نہیں
وہ جانتا نہیں کہ بڑھ گئی ہیں سخت اور تیز دھار خنجروں کی قیمتیں
سو جلد بھٹیوں کا پیٹ بھر دے سُرخ آگ سے
٭٭٭
سونے کا پیڑ
میرے گھر کے کچے آنگن میں سونے کا پیڑ
پتّے خاص زمرّد جس کے اور سنہری پھول
جگمگ جگمگ سارا آنگن اور آنگن کا روپ
ساون دھو کر چمکا دیتا، جب پڑتی کچھ دھُول
سونا کھانے آ جاتے پیارے پیارے پنچھی
بُلبل، مینا، طوطی، چڑیا، کوئل، کاگ، چکور
جاڑا آتا تو سونے کا پیڑ سیہ ہو جاتا
پوس کے پالے سے بے بس کو کرنا پڑتا زور
شام سے لیکر صبح تلک کُہرے میں جم جاتا
ظالم اور بے درد وہ موسم لیتا اُس کو گھیر
سرد ہوا کے جھونکوں کے جب زور تھپیڑے لگتے
میرے گھر میں لگ جاتا پھر تُکلوں کا اک ڈھیر
٭٭٭
ریشم بُننا کھیل نہیں
ہم دھرتی کے پہلے کیڑے ہم دھرتی کا پہلا ماس
دل کے لہو سے سانس ملا کے سچا نور بناتے ہیں
اپنا آپ ہی کھاتے ہیں اور ریشم بُنتے جاتے ہیں
خواب نگر کی خاموشی اور تنہائی میں پلتے ہیں
صاف مصفّا اُجلا ریشم تاریکی میں بُنتے ہیں
کس نے سمجھا کیسے بُنے ہیں چاندی کی کرنوں کے تار
کُنجِ جگر سے کھینچ کے لاتے ہیں ہم نُور کے ذرّوں کو
شرماتے ہیں دیکھ کے جن کو نیل گگن کے تارے بھی
ہم کو خبر ہے ان کاموں جاں کا زیاں ہو جاتا ہے
لیکن فطرت کی مجبوری ہم ریشم کے کیڑوں کی
سُچا ریشم بُنتے ہیں اور تا لپٹتے جاتے ہیں
آخر گُھٹ کے مر جاتے ہیں ریشم کی دیواروں میں
کوئی ریشم بُن کے دیکھے ریشم بُننا کھیل نہیں
٭٭٭
رسوائی
جاڑا آیا اور آتے ہی سازش کرلی پیڑوں سے
پھول اور پتّے بار ہیں تم پر، کیونکر بار اُٹھاتے ہو
اِن کے چہرے کی رونق کا باعث جو کچھ، پانی ہے
گر تم سمجھو تو یہ پانی خاص تمہارا حصّہ ہے
اپنا حصہ لے کر تم اپنے سر کا بوجھ اتارو
سارا پانی کھینچ لیا پھر اِن پتّوں کا پیڑوں نے
کیسے ہرے تھے زرد ہوئے، نیچے گِر کر خاکی ہونگے
روندیں گے پھر اِن کو وہ بھی جن پر سایہ کرتے تھے
پتّوں پر تو جو گزری سو گزری لیکن آج ذرا
پوچھو تو اِن لمبے قد کے اونچے اونچے پیڑوں سے
رسوا کر کے پتّوں کو، تم نے کیسی عزت پائی
زیب و زینت خاک ہوئی، سَر سے پا تک ننگے ہو گئے
٭٭٭
ڈگڈگی والے
ڈگڈگی والے تری آنکھ میں کالے کنکر
اِک اذیّت میں مسلسل تجھے رکھتی ہے چُبھن
ہو گیا جس کے سبب تیرا جہاں گرد و غبار
کھو گیا درد کی راہوں میں کہیں تیرا قرار
دائرہ وار ترے چار طرف بِین تری
رقص کرتی ہے کسی شوخ پری کی صورت
جس کی رفتار میں غربت کی نحوست شامل
ایسی منحوس کہ کُوفے کی ہو قطام کوئی
ڈگڈگی تیری، ترا سانپ، جمورا تیرا
ایک اک کر کے تری حُکمِ سرا سے باہر
تُو زمیں بوس ہوا ناک نے مٹی چاٹی
تیرا بندر تری گردن پہ اکڑ کر بیٹھا
جس کے ناخن نے بگاڑے تری چہرے کے نقوش
جسم بے جان ہوا دل پہ خراشیں آئیں
ہو گئی صورتِ حالات مخالف تیرے
ڈگڈگی والے تو اب سوچ رہا ہے شائد
اتنا آسان نہیں روز تماشا کرنا
٭٭٭
تریاق میں لہو کی بوندیں
ایک بد بخت سپیرے کی سیہ میّت پر
پھیلتی رات، اُترتے ہوئے سایوں کا ہجوم
جیسے اُجڑی ہوئی بستی میں نحوست کے عذاب
ہر طرف ناچتی پھرتی ہوں جہاں بد روحیں
قرن ہا قرن سے اوڑھے تھیں خباثت کے نقاب
رانڈ جوگن، کہ ہوئی رقص کناں اوّلِ شب
رات کے پچھلے پہر زور سے سینہ پیٹا
ایسے ماتم میں کھڑی تھی کہ غصیلی ناگن
گھر کے پالے ہوئے سانپوں کا کلیجہ کھایا
اور سینے میں بھرا حاسِد بد خُو کا عناد
چیختی ہے تو لرز جاتا ہے وحشت کا بدن
شدّتِ خوف سے تن جاتی ہیں چھاتی کی رگیں
پی گئی زہر جو پیالوں میں بھرا تھا اُس نے
اور ڈسنے لگی آئے ہوئے غم خواروں کو
نیلگوں جسم پہ اُگ آئے پھپھولے لاکھوں
ہر بُنِ مُو سے اُٹھی سانس دھوئیں کی صورت
سُرمئی دھوپ میں پھیلا ہوا بدبو کا غبار
عمر بھر خستہ ستونوں سے لپٹ کر جو پڑھے
دردِ زہ میں ہیں گرفتار ہزاروں منتر
سڑتی لاشوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں گھر میں
سوکھے پیڑوں سے اُتر آئے گِدہوں کے بادل
سخت چونچوں سے اُکھیڑیں گے بدن کے ریشے
وائے خاموش رہے کتنے برس چارہ گراں
آج تریاق میں شامل ہیں لہو کی بوندیں
٭٭٭
ہجرت
چڑھ آیا جب قاف نگر پر لشکر سرد ہواؤں کا
سورج دھُند میں لپٹے نیزے لے کر دکن بھاگ گیا
پسپا ہوتے دیکھ کے اُس کو پنچھی دُور پہاڑوں کے
دیس پرائے ہجرت کر کے بستی بستی پھیل گئے
پتلی گردن والی کُونجیں اُڑتے اُڑتے شام ڈھلے
میرے گاؤں کے پچھم میں جھیل کنارے آ بیٹھیں
سورج ڈوب رہا تھا اور شَفَق پر سونا بِکھرا تھا
ایسے میں اِک جال لیے بے نام شکاری آ پہنچا
گھات لگا کر معصوموں پر اُس نے اک تکبیر کہی
جینے کی اُمید لیے جو اُونچے سرد پہاڑوں سے
اُڑتے اُڑتے میرے وطن میں سو سو ڈاریں آئی تھیں
تیز شُعاعوں کی دھرتی نے اُن کو سچ مُچ راکھ کیا
٭٭٭
انٹر نیٹ کے مختلف مآخذ سے
بطور خاص پاکستانکِا ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید