FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بے زمینی

 

 

               اقبال متین

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

نظمیں

 

 

 

 

انتساب

 

               (بدر منیر کے نام )

 

ان کو !!!

اور انتظار کی تکلیف

رات خط کا جواب لکھنا ہے

 

چھپ کے دنیا کی ساری آنکھوں سے

ایک پیکر کو ہونٹ سے چھو کر

خوب نہلا کے اک تصور کو

دیدہ  تر میں اپنے اشکوں سے

رات خط کا جواب لکھنا ہے

 

آج لفظوں میں ڈھال دینے کو

قلب کا اضطراب ،سوزِ حیات

اور کاغذ میں دفن کر دینے

دل کے جذبات روح افسردہ

رات خط کا جواب لکھنا ہے

 

کیا ہوئیں آج نیند کی پریاں

کیا کسی کو بھی اذنِ خواب نہیں

کتنی نظروں کی زد  مرے معبود!!

کچھ نہ لکھ پاؤں رات کٹ جائے

رات خط کا جواب لکھنا ہے

 

لو ۔۔۔یہ گھڑیال بجا۔۔۔ایک!یہ دو

ارے !کیوں ٹھیر گیا !!ٹھیک تو ہے ؟

سرسراہٹ نہیں ؟ سانسوں کی صدا!!!

کتنا کھویا ہوا  انسان ہوں میں

رات خط کا جواب لکھنا ہے

 

(۲)

 

اف یہ آنکھوں کو ہو گیا کیا ہے

ارے کاغذ نہ بھیگ جائے کہیں

روشنائی نہ پھیلنے پائے

ان کو پڑھنے میں زحمتیں ہوں گی

ان کی آنکھوں کو بار گزرے گا

دور تارے کو چاند چومتا ہے

وقتِ رخصت یہ آخری بوسہ

لو  سویرا  ہوا  کرن  پھوٹی

دل کی باتوں کو میں نے ڈھال لیا

اپنے  لفظوں میں اپنے نامے میں

لیکن اس اضطراب کے معنے ٰ

چوم لیتا ہوں اپنے ہی خط کو

یہ ہے  القاب، یہ ہے دوست کا نام

نام پر کیوں ٹپک پڑا آنسو

خط کے بدلے یہاں تو کاغذ پر

چند دھبے ہیں صرف دھبے ہیں

 

 

(۳)

 

کس نے آواز دی مجھے ؟۔۔۔امی!!!

آپ اس طرح گھور تی کیوں ہیں

یوں ہی گھٹنوں میں سر دیا میں نے

یوں ہی کاغذ کو میں نے پیار کیا

لیجئے میں تو ہنس رہا ہوں ۔۔۔پھر؟

اتنی سوجھی ہوئی ہیں آنکھیں کیوں ؟

اور یہ روشنائی کے دھبے

گال پر ، ہونٹ پر، پپوٹوں پر

میری باتوں کا یہ جواب نہیں

آج بھی پچھلی رات کی مانند

ان کے خط کا جواب لکھنا ہے

ان کو

اور انتظار کی تکلیف !!!

رات خط کا جواب لکھنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تین پیکر

 

               صبح۔۔۔۔۔

 

صبح  رو پہلی تاروں کی جب جھل مل کم ہو جاتی ہے

چاند پہ چرخہ کاتنے والی بوڑھی جب سو جاتی ہے

نیند نگر کو جاتی ہے جب ٹولی سب مہ پاروں کی

اور یہ ٹولی چھپ جاتی ہے چوٹی پر کہساروں کی

کرنیں اپنے دامن میں جب اوس کے موتی رولتی ہیں

دور افق پر نیند کی پریاں اڑنے کو پر تولتی ہیں

جب جلوے سے دھندلے دھندلے سائے لپٹے رہتے ہیں

اوس  کے موتی کرنوں کے دھاگے میں سمٹے رہتے ہیں

ایسے میں ہل کندھوں پر لے ، مستقبل کا شہزادہ

بیلوں کی گھنٹی پر کچھ کچھ گاتا کھیت کو آتا  ہے

 

               دوپہر۔۔۔۔۔۔

 

چاند ستارے اوس کے موتی ،صبح کے سارے راگ گئے

دھن والے سوتے ہیں اب تک ، نردھن سارے جاگ گئے

سورج کا ہنس مکھ بچپن اب ہونے لگا چپکے سے جواں

اوس کے آنسو بننے لگے پھولوں کے غمگیں دل کا دھواں

 

بھاپ کی موجیں رقصاں ہیں ،دھرتی کا  تنفس بڑھنے لگا

آگ کے دریا کا دھارا  ٹھاٹھیں بھر تا چڑھنے لگا

آگ کے شعلے کہساروں کی پیشانی کو چومتے ہیں

جیسے جہنم دوش پہ لے کر بھوت زمیں پر جھومتے ہیں

لیکن کھیت کے مالک کو  ان  باتوں سے کام ہی کیا

اپنی دھن میں گانے والا اپنی دھن میں گاتا ہے

 

               شام۔۔۔۔۔۔۔

 

شاہ خاور نے جا کے شفق کی گودی میں دم توڑ دیا

دنیا کی پرچھائیں نے بھی دنیا سے منہ موڑ لیا

دور افق پر شب کی دیوی زلفوں کو بکھرانے لگی

نیند کی رانی چھپتے چھپتے ہر اک شئے پر چھانے لگی

اجلی اجلی سی بدلی میں چاند کی پیاری صورت ہے

یعنیٰ مرمر کے مندر میں چاندی کی اک مورت ہے

دل کی اک بے نام خوشی  اب کانوں میں کچھ بولتی ہے

کھیت کا راجا پھر اس دھن میں گانے کو لب کھولتا ہے

لیکن ایسے میں گرداور دور سے کچھ چلاتا ہے

اس کا نغمہ آنسو بن کر آنکھوں سے بہہ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

کیوں ؟

 

جب  سرود  و  رقص و نغمہ ہو گئی ہو کائنات

دل ہم آہنگی نہیں کرتا ہے کیوں ادراک سے

 

چاند کی چوکھٹ پہ جب جھکتی ہے تاروں کی جبیں

روح کیوں ہو جاتی ہے سرکش خداۓ پاک سے

 

تیز برساتوں سے جب ہوتی ہے دل کی آگ تیز

مسکراتا ہے کوئی کیوں دیدہ نمناک سے

 

رقص جب کرتی ہے فطرت آسمانی ساز پر

کھیلتا ہوں کیوں میں اپنے دامنِ صد چاک سے

 

وقتِ سجدہ بن کے کیوں مسجود آ جاتے ہیں آپ

دیکھئے آواز دیتا ہے کوئی افلاک سے

 

لاکھ بہلائے دلِ شاعر بہلتا ہی نہیں

تار چھیڑے جا رہے ہیں ساز بجتا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

دن رات

 

نیچے سیلن ہے

ٹھٹھرتے ہوئے شب گزرے گی

کیسی حسرت ہے

کوئی دستِ حنائی بڑھ کر

مجھ سے پوچھے کے اس آتش کدۂ زیست میں تم

راکھ کا ڈھیر بنے ، برف کا تودہ بھی بنے

اب میرے سینے سے لگ کر سو جاؤ

جسم کا  لمس

دل و جاں کی محبت بھی اڑھا دوں تم کو

نیند ٹوٹی ہے تو کمرے میں یہی لگتا ہے

مجھ کو دفنا کے مرے چاہنے والے سب لوگ

کہیں لوٹ گئے

کوئی اس قبر پہ کتبہ ہی لگا کر جاتا

مجھ کو  امید ہے  دروازے پہ آہٹ ہو گی

ایک پل کے لیے تو میرے قریب آئے گا

رسمساتے ترے  ملبوس کی سرگوشی سے

کوئی لوری سی مرے ذہن میں در  آئے گی

نیند کس کو نہیں پیاری ہوتی

کل کسے فرصتِ اظہارِ تمنا ہو گی

رات کا درد  تو بس رات کا حصہ ہو گا

کل  بھی دفتر ہے

میں اک قبر سے اُٹھ کر کل بھی

دوسری قبر میں چپکے سے اتر جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

ایک نظم

 

چلو سینے سے لگ جاؤ

یہ جھگڑے زندگی کا ناس کر دیں گے

بُرا میں بھی نہیں ، تم بھی بہت اچھی سہی لیکن

تمہارے دل میں بس جانے کی جو  اک آرزو  لیکر چلا تھا میں

وہی اک آرزو  ساری  مصیبت ہم پہ لائی ہے

میں ایسی آرزوئیں اپنے ہی دل میں کہیں دفنا کے رکھ لوں گا

مگر اک بات ہے

جب زندگی بھر ساتھ چلنا ہے

تو کیوں نہ اپنے دل میں بھی جگہ دے دو

٭٭٭

 

 

وعدہ

 

 

چلو میں تم سے یہ وعدہ کروں کہ جی لوں گا

کچھ اس طرح کہ اگر سامنے تم آ جاؤ

میں تم کو دیکھتا رہ جاؤں اور کچھ پوچھوں

نظر اُٹھا کے اگر تم کوئی جواب بھی دو

تمہیں سجھائی نہ دے کچھ کہ کیا کہا تم نے

مری سمجھ میں نہ آئے کہ کیا سنا میں نے

مگر دلوں کی زمیں چاپ سے ادھر جائے

٭ ٭ ٭

 

 

 

وراثت

 

چلو استخارہ بھی آ ہی گیا

کہ اس نے بلایا ہے ہم کو متین

مگر  یہ کتابیں  یہ کرسی یہ میز

یہ  میرے قلم ،  سادہ کاغذ، یہ ترشے ہوئے

رسالے کے اوراق ہیں یا تراشے

کوئنک پارکر روشنائی کی بوتل کھلی بھی نہیں

مگر میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے ، اس کا تو انبار ہے

٭

 

یہ سب کچھ تو ہے کوئی وارث نہیں

مرے چار بیٹوں نے مجھ سے کہا بھی نہیں

کہ بابا کو ہم ، پیار سے کاغذی پیرہن تو نہ دیں گے

کاغذوں کے کفن میں مگر سونپ دیں گے

٭

 

کوئی نیک بندہ انھیں یہ بتا دے

کہ ابّا  نے ان کے

کاغذوں اور کتابوں میں اپنا کفن ، بڑے ہی جتن سے چھپا کر رکھا ہے

قلم ان  کے جتنے  بھی ہیں ، سب کے سب روشنائی سے ایسے بھرے ہیں

کہ تم عطر کے بدلے ان کے کفن پر سیاہی چھڑک دو

روشنائی چھڑک دو

اور ان کو انھیں کی کتابوں میں دفنا کے سوچو

کہ ہم ہی تو وارث ہیں

ہم کو  وراثت میں کیا کیا ملا ہے

یہ سب ہو چکے تب پڑھو فاتحہ

٭

 

چلو ایک ہی کام باقی رہا اب

کسی بزم  اردو سے ، بزمِ ادب سے

اُٹھا لا ؤ تختی کوئی

اور ابّا کی بالیں پہ کتبہ لگا دو

٭٭٭

 

 

 

 

مشورہ

 

 

صبر اس کو نہیں کہتے شاید

یہ تحمل بھی نہیں ہے یکسر

ذلّتیں اس طرح سہہ جاؤ کے احساس کو موت آ جائے

یوں اُٹھو مقتلِ دشنام سے جیسے تم نے

کچھ سنا ہی نہیں

اور سن لیتے تو پندار تمھارا بھی تو تھا

٭

 

یہ دریدہ ہے تو دامن نہ کہو

آبدیدہ  ہو،  تورہ سکتے ہو، آنسو کیسے

تم کشیدہ ہو ، تو خاطر کا گزر کیسے ہوا

خوں تپیدہ ہے ، تو تن سوختہ  مت ہونے دو

یہ نہ سوچو کہ کرن ہے تو اجالا بھی ہو

یہ نہ سمجھو کہ امیدوں کا اندھیرا نہیں ہوتا کوئی

٭

 

آج سچ اپنی ہی موت آپ مرے گا لیکن

جھوٹ کے حسن سے انکار نہ کرنا ہرگز

آنکھ دیکھے گی تو دیکھا کرے تم شکر کرو

 

 

ہراسا

 

 

ہراسا ۔۔۔تجھ کو کھیتوں میں ،  بغیچوں میں

مرے بچپن نے دیکھا تھا

ٹھٹک کر رک گیا تھا میں

پکڑ کر ہاتھ منی کا، اسے اپنی طرف میں نے گھسیٹا تھا

کہا تھا ۔۔۔تم مرے پیچھے چلو، پیچھے رہو ۔۔۔دیکھو

کوئی ہے  جو وہاں چھپ کر کھڑا ہے

ہاں  وہیں پر پیڑ کے نیچے ،  ادھر دائیں طرف

٭

 

ہمارے کینوس کے سرخ جوتوں نے

نمی پی لی تھی پودوں کی

تمھاری پنڈلیاں موزوں کے اندر گدگداتی تھیں

مرے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھ کر

ذرا سا جھک گئی تھیں تم

کہ اپنا پیر سہلا لو۔۔۔کھجا لو تو سکوں پالو

مگر جھکنا ہی تھا کہ ننھے ننھے سبز پودوں نے

زمیں کی کوکھ سے اپنے  خزانے سب اگل ڈالے

بہت سی مونگ پھلیاں تھیں

ہرے پتوں کے نیچے بن کے موتی جگمگاتی تھیں

یہ موتی اب تمھارے میرے پیروں میں پڑے تھے

بس اب ان کو اٹھانا تھا کہ دامن تھے تہی اب تک

مگر تم نے ٹھٹک کر پھر مجھے دیکھا

’’کہاں ہے وہ؟،،

’’وہ اب تو پیڑ کے نیچے نہیں ہے !،،

’’ذرا دم بھر کو رک جاؤ۔۔۔مرے پیچھے رہو۔۔۔پیچھے چلو ۔۔۔دیکھیں ،،

٭

 

نظر اٹھی تو بائیں اور دلہن تھی ’ہراسا ‘کی

مری بانہوں میں چٹکی بھر کے تم نے پھر مجھے دیکھا

کہا۔۔۔’’پہچان لو تم بھی،،

ارے ۔۔۔یہ تو ہراسی ہے

مجھے تم پر بہت ہی پیار آیا تھا

’ہراسا‘ کو ضرورت پر ’ہراسی‘ کر دیا تم نے

٭

 

لغت میں لفظ جتنے ہیں

زباں میں نطق کی جتنی فصاحت ہے ، بلاغت ہے

تکّلم میں نبات و قند بھی، دل کی جراحت بھی، تمھارا ہی کرشمہ ہے

سمندر ہی سمندر ہے ، کہ اس لہجے کی گیرائی

کتابیں ہی کتابیں ، مصحفِ رخ کی طرح  وا ہیں

مگر اب پیر اپنے ان کا سارا  لمس کھو بیٹھے

جہاں ہم نے ، ٹھٹک کر پیڑ کے نیچے

کہیں دائیں طرف دیکھا تھا اس کھوسٹ ہراسا کو

جو چھپ چھپ کر ہمارے جذبۂ معصوم پر پتھراؤ کرتا تھا

نہ بڑھ کر راہ روکے تھی

نہ پھینکی تھی کمند  آواز کی دل کے شبستاں پر

بس اک خوف و ہراسانی

بس اک بے نام حیرانی

بس اک ایسی پریشانی جو دل کے سب دریچے بند کرتی تھی

تمھارے کپکپاتے لب

مری آنکھوں کے سارے ہی مناظر ڈھانپ دیتے تھے

پپوٹے منجمد ہو کر تمھارے ، میری پلکوں کو سزا دیتے

کہ جھالر آنسوؤں کی درمیاں ہوتی

کوئی کوہِ گراں ہوتا

یہ کیسی داستاں ہو تی

یہ کیا سود و زیاں ہوتا

٭

 

نہ یگ بیتے

نہ یادوں کے کھنڈر ابھرے

میں اب خود ہی ’ہراسا ‘ہوں

٭

 

کوئی مجھ کو ڈرا تا ہے ۔۔۔اندھیرے پھینک  دیتا ہے مرے دل میں

میں سرگرداں  ہوں اپنی ہی تلاشِ گم شدہ بن کر

میں خود کو کھو جتا ہوں ۔۔۔ڈھونڈتا ہوں ،پا نہیں سکتا

اگر ایسے میں تم آؤ

اگر میں تم سے یہ کہہ دوں

’’ کوئی ہے جو وہاں چھپ کر کھڑا ہے ،،

وہیں پر، ہاں وہیں پراس طرف ،اس پیڑ کے نیچے

ہراسا ہے ، چلو ،چل کر ملیں اس سے

ذرا  پوچھیں کہ وہ کب سے کھڑا ہے

تو تم بھی یہ کہو گی!

’ہراسا، وہ نہیں ہے ، اس سے میں ڈرتی نہیں ہوں اب

ہراسا تو تمہیں ہو ،ہر طرف ہو ، چار سو تم ہو

٭

 

بہت پندار تھا تم کو

بہت مجھ سے محبت تھی

وہ کس جذبِ دروں نے عشق کو اتنی انا  دی تھی

کہ تم ہر بار کہتے تھے

مرے پیچھے رہو، پیچھے چلو۔۔۔دیکھو

کوئی ہے جو وہاں چھپ کر کھڑا ہے

وہیں دائیں طرف، اس پیڑ کے نیچے

مگر اب کیا ہوا تم کو

٭

 

میں سایہ بھی نہیں ہوں

اور نہ میں آواز ہوں کوئی

نہ دستک ہوں

نہ آہٹ ہوں

ہوا کا کوئی جھونکا بھی نہیں ہوں میں

صبا ہوں اور نہ خوش بو ہوں

خیال و  وہم کا بس اک کرشمہ ہوں

مگر تم ہو کہ اب تک میرے پیچھے پیچھے چلتے ہو

نہیں سوچا کبھی

برسوں ہوئے تم نے کہیں چھوڑا تھا مجھ کو بھی

ذرا جا کر تو دیکھ آؤ

کہ میں اب بھی وہیں ، اس پیڑ کے نیچے ، کھڑی ہوں

’’ہرا سا،، تو تمھیں ہو۔۔۔

تمھیں تو ہو ہراسا

تم ہراسا ہو

٭٭٭

 

 

 

بے زمینی

 

               (رابعہ کے نام)

 

تم بھی خاموش ہو

میں بھی چپ ہوں

بس کی اک سیٹ پہ ہم دونوں ہی

اپنے  ہر قرب کا احساس بھُلا بیٹھے ہیں

میں تمہیں ڈھونڈھ  رہا ہوں کہ کہاں ہوں گی تم

تم بظاہر تو گزرتے ہوئے ہر منظر میں

ایسی کھوئی ہو کہ منظر ہی کا اک حصّہ ہو

میں مگر تم کو مرے پاس نہ پا کر چپ ہوں

٭

 

جانے کیا بوجھ سا دل پر ہے کہ میں

اپنے اس غم کا کوئی نام نہیں دے سکتا

تم سے کہتا ہوں ’’ ادھر دیکھو تو،،

تم مگر ہو ہی نہیں

مجھ سے بھی اپنی ہی آواز  نہ  پہچانی گئی

٭

 

بس رُکی ہے تو تم اس طرح پلٹ آئی ہو

جیسے ہم گھر سے کبھی ساتھ ہی نکلے ہوں گے

پھر کہیں دور سے آواز  تمہاری آئی

مجھ کو بمبئی سے کہاں لے آئے

٭٭٭

 

 

 

تجسیمِ تصور

 

میں تجھ کو سوچتا رہتا ہوں

تو میرے ذہن و  دل کی آبرو ہے

تجھے معلوم ہے

مرے دن میری  راتیں  سب تری ہیں

مرے ہر ہر نفس کا  لمس تیرا ہے

میں جب سوچوں تجھے اپنا  بنا لوں

میں جب چا ہوں بسا لوں تجھ کو آنکھوں میں

ترے اعضا کے ہر موئے معطر کو

سمجھ لوں  اپنی پلکیں

جو تیری دوریوں پر آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں

٭٭٭

 

 

ساجھا

 

میں اپنی جھولیوں میں عزت و نا موس کا سارا  اثاثہ بھر کے لے آیا

تجھے آواز دی تجھ کو پکارا

میرے رب ، میرے مالک، میرے آقا

یہ جو کچھ بھی ہے میری جھولیوں میں اس قدر کم ہے

کہ تیرے نام سے وابستگی ممکن نہیں اس کی

میں اس  ادراکِ فن پر ناز بھی تو کر نہیں سکتا

کہ یہ سب کچھ اگر تیری ودیعت تھی

تو شا ید بے کراں ہوتی

کوئی ہل چل کہیں بھی تو میری فریاد سے ہوتی

٭

 

جزیروں میں وہی تھیں مچھلیاں ، چاندی کی سونے کی

وہی دشت و جبل تھے ،وادیاں تھیں سانپ تھے ، ان کی زبانیں تھیں

پپیہے کی وہی پیہو تھی ، کوئل کی وہی تانیں

گل و گلشن دریدہ دامنی کو  سی نہ سکتے تھے

لہو پھیلا ہوا تھا

اور۔۔۔انگشتِ حنائی کو

کوئی شکوہ نہ تھا خارِ مغیلاں سے

٭

 

مجھے  پازیب کی جھنکار پر

بنسی کی تانوں پر

مجھے  چہکار پر چڑیوں کی اور طوطوں کی ٹیں ٹیں پر

غٹرغوں پر کبوتر کی

مجھے کا گا کی کائیں کائیں پر

مجھے مرغِ سحر کی نیم خوابیدہ اذانوں پر

گماں ہوتا تھا شیون کا

٭

 

وہ دن تاریکیوں میں کھو گیا

اک اک کرن کو اس طرح ترسا

کہ جیسے دن نہیں ہو

رات کی تاریکیوں سے بھی زیادہ کوئی کالی شئے

محیطِ بیکراں  بن کر

اتر آئی ہو میرے سینۂ صدر چاک کے ہر ہر رفو میں

میں پھر سنبھلا

قلم کو کاسۂ دل کا لہو دے کر زباں دے دی

٭

 

میں اپنی موت سے  پہلے

نہ  جانے پھر تجھے کس دن پکاروں گا

اگر وہ دن بھی کالی شئے کی طرح نور کو ترسے

تو میں سارا  اثاثہ

جھولیاں  لبریز  جس  سے ہیں

ترے ہی نام سے  منسوب کر دوں گا

کہوں گا زندگی سے

موت کے سینے میں یوں میرا  قلم  گھونپے

کہ تو خود بھی تڑپ کر بول اُٹھے

’’ وہ جو کچھ اپنی زنبیلوں میں لے آیا ہے

مرے ہی نام سے وابستگی اس کی مسلّم ہے

میں حق ہوں

اور وہ حق پر ہے

٭

 

’’مگر وہ کالے کالے دن

مرے بھی قبضۂ قدرت سے

کچھ ایسے گریزاں ہیں

کہ جیسے میں نے سورج کو کسی قعر مذلت میں

کہا ہے کہ اتر جاؤ

اتر جاؤ کہ جو بھی اس کی زنبیلوں میں ہے

شاید وہ اس کا بھی ہے ، میرا بھی !!،،

٭٭٭

 

 

 

 

قرب

 

 

دکھائی دیتی ہے جب بھی وہ را ستے میں مجھے

میں اس کے پاس سے کچھ اس طرح گزرتا ہوں

کہ جیسے ذہن سے یادوں کا قافلہ گزرے

٭

 

خوشی کے ساتھ ہی غم ہیں ، غموں کے ساتھ خوشی

میں ان کی صورتیں دیکھوں مگر نہ پہچانوں

بس اتنی بات ہے اب ذہن و دل کا سرمایہ

کہ کوئی خط مرے جذبوں کے درمیاں نہ رہا

٭

 

گلوں پہ اوس ہے پلکوں پہ آنسوؤں کی نمی

تلاش مجھ کو کسی کی نہیں مگر جاناں

مزہ تو جب ہے کہ چہرے بھی درمیاں نہ رہیں

٭

 

ہر ایک قطرۂ شبنم ہو آنکھ کا موتی

ہر ایک اشک کسی پھول  پر لرزتا  ہو

اور اس کے بعد بھی ہم پاس سے گزر جائیں

٭٭٭

 

 

 

ایک طاغوت کی کہانی

 

 

وہ کوئی بینی بریدہ کسی سے کہتا تھا

میں اپنی ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دوں گا

عذاب بن کے رہوں گا ہر ایک محفل میں

کوئی سنے نہ سنے میں تو چپ نہ بیٹھوں گا

میں اپنی بات کہے جاؤں گا ہزاروں میں

اگر کوئی نہ سنے ، خون بن کے کھولوں گا

میں خود سوال بھی کر لوں جواب بھی دے دوں

میں اپنی علم کی تذلیل کیسے سہہ لوں گا

میں وہ خیال ہوں لفظوں میں ڈھل نہیں سکتا

لغت خرید لی اب خود کو اس میں ڈھونڈوں گا

جو سگ گزیدہ ہیں ان کو پلاؤں گا پانی

نہ  اپنے موئے تپیدہ کو اینٹھنے دوں گا

گہر تو بند ہیں میرے سخن کی سیپی میں

کنارِ آب پرندوں کے پر سمیٹوں گا

شعور و حکمت و علم و ہنر میں یکتا ہوں

جہاں سوئی نہ دھنسے گی میں کیل ٹھونسوں گا

میری خرد  میرے اوہام کا نگینہ ہے

میں اپنا وہم زبوں ، تالوؤں میں ٹھونکوں گا

میں گل کو سونگھ کے خارِ چمن بنا دوں گا

پھر ایسے خار کو نشتر کا کام سونپوں گا

دماغ مغز سے عاری ہے جانتا ہوں میں

دلوں میں سب کے میں اپنا دماغ رکھوں گا

کوئی تو مجھ کو بھی ہمسر میرا نظر آئے

ملے جو  راہ میں ہر  اک سے نام پوچھوں گا

میں شورِ طبلِ وغا کو  وغا  سمجھتا  ہوں

کوئی  دریچے سے جھانکے تو سر اڑا دوں گا

بہ  زعم علم و  اد ب پینترے جو کاٹے گا

تو اپنے  پیروں کی خاکِ انا چٹا دوں گا

میں تھک گیا ہوں خلاؤں کی جس بلندی پر

گروں اگر تو کھجوروں میں کیسے اٹکوں گا

مجھے ابھر نا ہے بن کر یہاں نیا آدم

میں اب تو سارے زمانے کی قبر کھو  دوں گا

کھڑا ہوا تھا وہیں دیر سے کوئی گنجا

کہا  حضور  مرے بال نذر کر دوں گا

٭٭٭

 

 

بجوکا

 

 

پرندے ڈار سے اپنی جدا ہو کر بھی حیراں ہیں

بجو کا یوں کھڑا ہے جیسے سب سنگسار کر دے گا

مگر تتلی اسی ماحول میں اترا تی پھرتی ہے

کبھی بھونرے نے یہ سوچا نہیں کہ وہ بجو کا تھا

وہ جس کی اڑتی بانہوں میں منٹ بھر کو پنہ لی تھی

٭

 

کرن یوں ٹوٹتی ہے گر کے ہر  اک پھول پتی پر

کہ اس کو حسنِ فطرت میں کہیں تکمہ لگانا ہے

کہ  اس کو پھول کی پتی سے شبنم کو اُٹھانا ہے

وہ شبنم جس کے موتی خار پر نوکِ سناں بھی ہیں

٭

 

مگر سورج کی کرنوں کو غرض اس سے نہیں ہے کچھ

سنہری تار کرنوں کے

کبھی تو پنکھڑی چومیں کبھی خارِ گلستاں کو

٭

 

اجالے ہیں تو سب کے ہیں

اندھیرے تھے تو کس کا کون تھا ، کس کے اندھیرے تھے

ہوا کے نرم رو  جھونکے

ہوا کے تند خو جھونکے

انہیں فرصت نہیں چھوکر گزرنے سے

پرندے ہوں کہ گل ہوں

خار و خس ہوں یا بجو کا ہو

مگر سورج کی کرنیں اب ہوا کا رُخ سمجھتی ہیں

وہ آدم جس کو معبودِ حقیقی نے تکبر کی سزا دے کر

کبھی روزِ  ازل فردوس سے اپنی نکالا تھا

وہی آدم یہاں آ کر بجو کا بن گیا شاید

بجو کا یوں کھڑا ہے جیسے سب سنگسار کر دے گا

بجو کا یوں کھڑا ہے جیسے سب مسمار کر دے گا

ازل سے تا ابد  آدم بجو کا ہی بجوکا ہے

٭٭٭

 

 

سنو بھی

               (رابعہ کے نام)

 

 

تم اپنی نفرتیں دل میں بسا کر جی تو سکتی ہو

میں اکثر سوچتا ہوں چاند کو اپنا سمجھ لینا

اگر راس آ گیا تم کو

تو کیا تم  اس حقیقت کو بھلا دو گی

کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے

اک دکھاوا ہے

٭

 

اندھیرے ہی اندھیرے روشنی میں اس کی

ایسے بس گئے ہیں تم سے پہچانے نہیں جاتے

توے کے پیچھے کالک ہے ،  اسے چہرے پہ مل لینا

کسی در گاہ کی بجھتی سلگتی عود دانی سے

اٹھا کر راکھ پلکوں اور پیشانی پہ رکھ لینا

یہ سب یکساں ہے

٭

 

وہ اللہ اور ہے

وہ دانا بھی  ہے بینا بھی  اسے ڈھونڈو

نہیں ملتا ہے وہ جانے کہاں اب جا چھپا ہے

مگر پھر بھی

سنا ہے غم زدوں کے دل میں رہتا ہے

٭

 

تو پھر ۔۔۔اس کو پکڑ لاؤ

بس اک پل کے لیے دل میں رکھو اس کو

پھر اس کے بعد ساری نفرتوں میں جھانک کر دیکھو

وہ تم کو بھی ملے گا

دکھی ہے وہ ، تو رہنے دو

٭

 

مگر اتنا بتا دو ، تم تو خوش ہو

اس کا کیا ہے ،  اس سے کیا لینا

کہ وہ ہے بھی نہیں بھی

٭٭٭

تشکر: شارپ کمپیوٹرس
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید