FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بہشتی گوہر

فہرست مضامین

               اشرف علی تھانوی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

دو لفظ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جاننا چاہیے کہ جو احکام الٰہی بندوں کے افعال اعمال کے متعلق ہیں ان کی آٹھ قسمیں ہیں۔ فرض واجب۔ سنت۔ مستحب۔ حرام۔ مکروہ تحریمی۔ مکروہ تنزیہی۔ فرض وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو اور اس کا بغیر عذر چھوڑنے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں۔ فرض عین اور فرض کفایہ فرض عین وہ ہے جس کا کرنا ہر ایک پر ضروری ہے اور جو کوئی اس کو بغیر کسی عذر کے چھوڑے وہ مستحق عذاب اور فاسق ہے جیسے پنج وقتی نماز اور جمعہ کی نماز وغیرہ۔ فرض کفایہ وہ ہے جس کا کرنا ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ بعض لوگوں کے ادا کرنے سے ادا ہو جائے گا اور اگر کوئی ادا نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے جیسے جنازہ کی نماز وغیرہ واجب وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو سکا بلا عذر ترک کرنے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہے بشرطیکہ بغیر کسی تاویل اور شبہ کے چھوڑے اور جو اس کا انکار کرے وہ بھی فاسق ہے کافر نہیں سنت وہ فعل ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کیا ہو اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ سنت مؤکدہ وہ فعل ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے ہمیشہ کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے کبھی ترک نہ کیا ہو۔ لیکن ترک کرنے والے پر کسی قسم کا زجر اور تنبیہ نہ کی ہو اس کا حکم بھی عمل کے اعتبار سے واجب کا ہے یعنی بلا عذر چھوڑنے والا اور اس کی عادت کرنے والا فاسق اور گنہگار ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے گا۔ ہاں اگر کبھی چھوٹ جائے تو مضائقہ نہیں مگر واجب کے چھوڑنے میں بہ نسبت اس کے چھوڑنے کے گناہ زیادہ ہے۔

سنت غیر مؤکدہ وہ فعل ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے کبھی ترک بھی کیا ہو اس کا کرنے والا ثواب کا مستحق ہے اور چھوڑنے والا عذاب کا مستحق نہیں اور اس کو سنت زائدہ اور سنت عادیہ بھی کہتے ہیں مستحب وہ فعل ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کیا ہو لیکن ہمیشہ اور اکثر نہیں بلکہ کبھی کبھی۔ اس کا کرنے والا ثواب کا مستحق ہے اور نہ کرنے والے پر کسی قسم کا گناہ نہیں اور اس کو فقہاء کی اصطلاح میں نفل اور مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں حرام وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو اس کا منکر کافر ہے اور اس کا بے عذر کرنے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہے مکروہ تحریمی وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو اس کا انکار کرنے والا فاسق ہے جیسے کہ واجب کا منکر فاسق ہے اور اس کا بغیر عذر کرنے والا گنہگار اور عذاب کا مستحق ہے مکروہ تنزیہی وہ فعل ہے جس کے نہ کرنے میں ثواب ہو اور کرنے میں عذاب نہ ہو مباح وہ فعل ہے جس کے کرنے میں ثواب ہو اور نہ کرنے میں عذاب نہ ہو۔

 

دیباچہ جدیدہ بہشتی گوہر

یہ تو معلوم ہے کہ بہشتی گوہر کوئی مستقل تالیف نہیں ہے بلکہ منتخب ہے رسالہ علم الفقہ مؤلفہ مولانا عبدالشکور صاحب سے جیسا کہ اس کے دیباچہ قدیمہ سے ظاہر ہے۔ مگر اس مرتبہ بعض مسائل کو علم الفقہ سے ملا کر دیکھا گیا تو اس کے اور اس کے بعض مسائل میں کچھ اختلاف ملا۔ اس پر بہشتی گوہر کا مسودہ تلاش کیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ یہ اختلاف کس وجہ سے ہوا ہے۔ انتخاب کے وقت ہی یہ اختلاف پیدا ہوا ہے یا بعد میں کسی نے کمی زیادتی کی لیکن مسودہ نہ ملا سکا۔ نیز بعض مسائل خود اصل علم الفقہ میں بھی محتاج تحقیق مکرر نظر پڑے۔ لہذا اب دوبارہ کل بہشتی گوہر پر نظر کرنا ضروری ہوا۔ لہذا احقر کے عرض کرنے پر حکیم الامۃ مجدد الملۃ معظم و محترم حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب نور اللہ مرقدہ العالی نے بوجہ کثرت مشاغل اس مرتبہ اس طرح نظر فرمائی کہ بہشتی گوہر کو اول سے آخر تک ایک سرسری نظر سے ملاحظہ فرمایا اور اس میں جس مسئلہ میں شبہ ہوا اس پر نشان کر دیا۔ پھر ان مقامات کو برادر مکرم مولانا ظفر احمد صاحب کی خدمت میں احقر نے حسب الحکم حضرت حکیم الامۃ رحمہ اللہ اس غرض سے پیش کیا کہ ان نشان زدہ مقامات کو کتب فقہ میں نکال کر بہشتی گوہر کی عبارت کو درست کر دیا جائے۔ چنانچہ بھائی صاحب موصوف نے نہایت جانفشانی سے اس کام کو انجام دیا اور مواقع ضرورت میں حضرت حکیم الامۃ رحمہ اللہ سے مشورہ بھی فرماتے رہے۔ اسی طرح ان تمام مقامات نشان زدہ کو درست فرما دیا جزاہم اللہ تعالی اور چونکہ اس مرتبہ بہشتی گوہر کو دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ ان کا حوالہ نہیں ہے۔

لہذا میرے مکرم احباب مولانا مولوی وصی اللہ صاحب اعظم گڈھی زاد مجدہ و مولانا مولوی عبدالکریم صاحب گمتھلوی مرحوم نے نہایت محنت و عرق ریزی سے تمام کتب فقہ سے تلاش کر کے ان سب مسائل کے حوالے درج کیے اور جن مسائل میں پہلے سے حوالے تھے ان میں صفحات کا حوالہ نہ تھا ان سب میں صفحات کے حوالے درج ہوئے اور اگر پہلی لکھی ہوئی کتاب میں باوجود تلاش کے مسئلہ نہ مل سکا تو اس کتاب کی جگہ دوسری کتاب کا حوالہ دیا گیا اور مواقع ضرورت میں بعد مشورہ عبارت میں بھی تغیر فرمایا۔ غرضیکہ اس مرتبہ اس قدر ترمیم ہوئی ہے کہ گویا بہشتی گوہر کو دوبارہ تالیف کیا گیا ہے اور بہشتی زیور میں تو اس امر کا التزام کیا تھا کہ اس مرتبہ جو کچھ کمی یا اضافہ ہوا ہے اس کی اطلاع حاشیہ پر کر دی ہے لیکن چونکہ بہشتی گوہر میں تغیر بہت زیادہ ہوا ہے اس لیے اس میں اس کا التزام نہیں ہو سکا بلکہ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اس سے پہلے کے جس قدر مطبوعہ بہشتی گوہر ہیں ان کو اس سے درست کر لیا جائے کیونکہ اس جدید نسخہ کے مسائل صحیح اور مطبوعہ سابق میں بعض مسائل غلط ہیں۔

 

ضروری التماس

بہشتی زیور اور بہشتی گوہر پر چونکہ پوری طرح نظر ثانی حضرات متذکرہ بالا نے فرمائی ہے حضرت حکیم الامتہ رحمہ اللہ نے تو محض ایک سرسری نظر فرمائی ہے لہذا ان میں جو کوتاہیاں رہ گئی اگرچہ اپنے نزدیک تو کوتاہی چھوڑی نہیں ہے ان کو حضرت حکیم الامۃ دام ظلہم کی طرف نسبت کر کے خواہ مخواہ معاندانہ اعتراض سے بچیں۔ ہاں طلب حق کے لیے اگر کسی مسئلہ کی بابت دریافت کرنا ہو تو پوچھیں مگر طرز سوال سے طلب حق یا عناد صاف طور پر معلوم ہو ہی جاتا ہے۔

محمد شبیر علی تھانوی عفی عنہ1344 ھ

 

پانی کے استعمال کے احکام

مسئلہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے۔ نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے اور اگر تینوں وصف نہیں بدلے تو اس کا جانوروں کو پلانا اور مٹی میں ڈال کر گارا بنانا اور مکان میں چھڑکاؤ کرنا درست ہے مگر ایسے گارے سے مسجد نہ لیپے۔

مسئلہ دریا ندی اور وہ تالاب جو کسی کی زمین میں نہ ہو اور وہ کنواں جس کو بنانے والے نے وقف کر دیا ہو تو اس تمام پانی سے عام لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کو اس کے استعمال سے منع کرے یا اس کے استعمال میں ایساطریقہ اختیار کرے جس سے عام لوگوں کو نقصان ہو جیسے کوئی شخص دریا یا تالاب سے نہر کھود کر لائے اور اس سے وہ دریا یا تالاب خشک ہو جائے یا کسی گاؤں یا زمین کے غرق ہو جانے کا اندیشہ ہو تو یہ طریقہ استعمال کا درست نہیں اور ہر شخص کو اختیار ہے کہ اس ناجائز طریقہ استعمال سے منع کر دے۔ مسئلہ کسی شخص کی مملوک زمین میں کنواں یا چشمہ یا حوض یا نہر ہو تو دوسرے لوگوں کو پانی پینے سے یا جانوروں کو پانی پلانے یا وضو و غسل و پارچہ شوئی کے لیے پانی لینے سے یا گھڑے بھر کر اپنے گھر کے درخت یا کیاری میں پانی دینے سے منع نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں سب کا حق ہے البتہ اگر کثرت جانوروں کی وجہ سے پانی ختم ہونا کا یا نہر وغیرہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو روکنے کا اختیار ہے اور اگر اپنی زمین میں آنے سے روکنا چاہے تو دیکھا جائے گا کہ پانی لینے والے کا کام دوسری جگہ سے بآسانی چل سکتاہے مثلاً کوئی دوسرا کنواں وغیرہ ایک میل شرعی سے کم فاصلہ پر موجود ہے اور وہ کسی کی مملوک زمین میں بھی نہیں یا اس کا کام بند ہو جائے گا اور تکلیف ہو گی اگر اس کی کارروائی دوسری جگہ سے ہو سکے تو خیر ورنہ اس کنویں والے سے کہا جائے گا کہ یا تو اس شخص کو اپنے کنویں یا نہر وغیرہ پر آنے کی اس شرط سے اجازت دو کہ نہر وغیرہ توڑے گا نہیں ورنہ اس کو جس قدر پانی کی حاجت ہے تم خود نکال کر یا نکلوا کر اس کے حوالہ کرو۔

البتہ اپنے کھیت یا باغ کو پانی دینا بدون اس شخص کی اجازت کے دوسرے لوگوں کو جائز نہیں اس سے ممانعت کر سکتا ہے یہی حکم ہے خود رو گھاس کے اور جس قدر نباتات بے تنہ ہیں سب گھاس کے حکم میں ہیں البتہ تنہ دار درخت زمین والے کی مملوک ہیں۔

مسئلہ اگر ایک شخص دوسرے کے کنویں یا نہر سے کھیت کو پانی دینا چاہے اور وہ کنویں یا نہر والا اس سے کچھ قیمت لے تو جائز ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ مشائخ بلخ نے فتوی جواز کا دیا ہے۔

مسئلہ دریا۔ تالاب۔ کنویں وغیرہ سے جو شخص اپنے کسی برتن میں مثل گھڑے۔ مشک وغیرہ کے پانی بھر لے تو وہ اس پانی کا مالک ہو جائے گا اس پانی سے بغیر اس شخص کی اجازت کے کسی کو استعمال کرنا درست نہیں۔ البتہ اگر پیاس سے بے قرار ہو جائے تو زبردستی بھی چھین لینا جائز ہے جبکہ پانی والے کی سخت حاجت سے زائد موجود ہو مگر اس پانی کا ضمان دینا پڑے گا۔ مسئلہ لوگوں کے پینے کے لیے جو پانی رکھا ہوا ہو جیسے گرمیوں میں راستوں پر پانی رکھ دیتے ہیں اس سے وضو۔ غسل درست نہیں۔ ہاں اگر زیادہ ہو تو مضائقہ نہیں اور جو پانی وضو کے واسطے رکھا ہو اس سے پینا درست نہیں۔

مسئلہ اگر کنویں میں ایک دو مینگنی گر جائے اور وہ ثابت نکل آئے تو کنواں ناپاک نہیں ہوتا۔ خواہ وہ کنواں جنگل کا ہو یا بستی کا اور من ہو یا نہ ہو۔

پاکی ناپاکی کے بعض مسائل

مسئلہ غلہ گاہنے کے وقت یعنی جب اس پر بیلوں کو چلاتے ہیں اگر بیل غلہ پر پیشاب کر دیں تو ضرورت کی وجہ سے وہ معاف ہے یعنی غلہ اس سے ناپاک نہ ہو گا اور اگر اس وقت کے سوا دوسرے وقت میں پیشاب کریں تو ناپاک ہو جائے گا اس لیے کہ یہاں ضرورت نہیں۔

مسئلہ کافر کھانے کی شے جو بناتے ہیں اس کو اور اسی طرح ان کے برتن اور کپڑے وغیرہ کو ناپاک نہ کہیں گے تاوقتیکہ اس کا ناپاک ہونا کسی دلیل یا قرینہ سے معلوم نہ ہو۔

مسئلہ بعض لوگ جو شیر وغیرہ کی چربی استعمال کرتے ہیں اور اس کو پاک جانتے ہیں یہ درست نہیں۔ ہاں اگر طبیب حاذق دیندار کی یہ رائے ہو کہ اس مرض کا علاج سوا چربی کے اور کچھ نہیں تو اسی حالت میں بعض علماء کے نزدیک درست ہے لیکن نماز کے وقت اس کو پاک کرنا ضروری ہو گا۔

مسئلہ راستوں کی کیچڑ اور ناپاک پانی معاف ہے بشرطیکہ بدن یا کپڑے میں نجاست کا اثر نہ معلوم ہو فتوی اسی پر ہے باقی احتیاط یہ ہے کہ جس شخص کی بازار اور راستوں میں زیادہ آمد و رفت نہ ہو وہ اس کے لگنے سے بدن اور کپڑے پاک کر لیا کرے چاہے ناپاکی کا اثر بھی محسوس نہ ہو۔

مسئلہ نجاست اگر جلائی جائے تو اس کا دھواں پاک ہے وہ اگر جم جائے اور اس سے کوئی چیز بنائی جائے تو وہ پاک ہے جیسے نوشادر کو کہتے ہیں کہ نجاست کے دھوئیں سے بنتا ہے۔

مسئلہ نجاست کے اوپر جو گرد و غبار ہو وہ پاک ہے بشرطیکہ نجات کی تری نے اسمیں اثر کر کے اس کو تر نہ کر دیا ہو۔

مسئلہ نجاستوں سے جو بخارات اٹھیں وہ پاک ہیں۔ پھل وغیرہ کے کیڑے پاک ہیں لیکن ان کا کھانا درست نہیں اگر ان میں جان پڑ گئی ہو اور گولر وغیرہ سب پھلوں کے کیڑوں کا یہی حکم ہے۔

مسئلہ کھانے کی چیزیں اگر سڑ جائیں اور بو کرنے لگیں تو ناپاک نہیں ہوتیں جیسے گوشت۔ حلوہ وغیرہ مگر نقصان کے خیال سے ان کا کھانا درست نہیں

مسئلہ مشک اور اس کا نافہ پاک ہے اور اسی طرح عنبر وغیرہ۔

مسئلہ سوتے میں آدمی کے منہ سے جو پانی نکلتا ہے وہ پاک ہے

مسئلہ گندہ انڈا حلال جانور کا پاک ہے بشرطیکہ ٹوٹا نہ ہو۔

مسئلہ سانپ کی کیچلی پاک ہے۔

مسئلہ جس پانی سے کوئی نجس چیز دھوئی جائے وہ نجس ہے خواہ وہ پانی پہلی دفعہ کا ہو یا دوسری دفعہ کا یا تیسری دفعہ کا لیکن ان پانیوں میں اتنا فرق ہے کہ اگر پہلی دفعہ کا پانی کسی کپڑے میں لگ جائے تو یہ کپڑا تنچ دفعہ دھونے سے پاک ہو گا او اگر دوسری دفعہ کا پانی لگ جائے تو صرف دو دفعہ دھونے سے پاک ہو گا اور اگر تیسری دفعہ کا لگ جائے تو ایک ہی دفعہ دھونے سے پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ مردہ انسان جس پانی سے نہلایا جائے وہ پانی نجس ہے۔

مسئلہ سانپ کی کھال نجس ہے یعنی وہ جو اس کے بدن سے لگی ہوئی ہے کیونکہ کیچلی پاک ہے۔

مسئلہ مردہ انسان کے منہ کا لعاب نجس ہے۔

مسئلہ اکہرے کپڑے میں ایک طرف مقدار معافی سے کم نجاست لگے اور دوسری طرف سرایت کر جائے اور ہر طرف مقدار سے کم ہو لیکن دونوں کا مجموعہ اس مقدار سے بڑھ جائے تو وہ کم ہی سمجھی جائے گی اور معاف ہو گی ہاں اگر کپڑا دوہرا ہو یا دو کپڑوں کو ملا کر اس مقدار سے بڑھ جائے تو وہ زیادہ سمجھی جائے گی اور معاف نہ ہو گی۔

مسئلہ دودھ دوہتے وقت دو ایک مینگنی دودھ میں پڑ جائیں یا تھوڑا سا گوبر بقدر دو ایک مینگنی کے گر جائے تو معاف ہے بشرطیکہ گرتے ہی نکال ڈالا جائے اور اگر دودھ دوہنے کے وقت کے علاوہ گر جائے گی تو ناپاک ہو جائے گا مسئلہ چار پانچ سال کا ایسا لڑکا جو وضو کو نہیں سمجھتا وہ اگر وضو کرے یا دیوانہ وضو کرے تو یہ پانی مستعمل نہیں۔

مسئلہ پاک کپڑا برتن اور نیز دوسری پاک چیزیں جس پانی سے دھوئی جائیں اس سے وضو اور غسل درست ہے بشرطیکہ پانی گاڑھا نہ ہو جائے اور محاورے میں اس کو ماء مطلق یعنی صرف پانی کہتے ہوں اور اگر برتن وغیرہ میں کھانے پینے کی چیز لگی ہو تو اس کے دھوون سے وضو اور غسل کے جواز کی شرط یہ ہے کہ پانی کے تین وصفوں سے دو صف باقی ہوں گو ایک وصف بدل گیا ہو اور اگر دو وصف بدل جائیں تو پھر درست نہیں۔

مسئلہ مستعمل پانی کا اور کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا مکروہ ہے اور وضو غسل اس سے درست نہیں ہاں ایسے پانی سے نجاست دھونا درست ہے۔

مسئلہ زمزم کے پانی سے بے وضو کو وضو کرنا نہ چاہیے اور اسی طرح وہ شخص جس کو نہانے کی حاجت ہو اس سے غسل نہ کرے اور اس سے ناپاک چیزوں کا دھونا اور استنجا کرنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر مجبوری ہو کہ پانی ایک میل سے ورے نہ مل سکے اور ضروری طہارت کسی اور طرح بھی حاصل نہ ہو سکتی ہو تو یہ سب باتیں زمزم کے پانی سے جائز ہی۔

مسئلہ عورت کے وضو اور غسل کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو اور غسل نہ کرنا چاہیے گو ہمارے نزدیک اس سے وضو وغیرہ جائز ہے مگر امام احمد کے نزدیک جائز نہیں اور اختلاف سے بچنا اولی ہے۔

مسئلہ جن مقاموں پر خدائے تعالی کا عذاب کسی قوم پر آیا ہو جیسے ثمود اور عاد کی قوم اس مقام کے پانی سے وضو اور غسل نہ چاہیے مثل مسئلہ بالا اس میں بھی اختلاف ہے مگر یہاں بھی اختلاف سے بچنا اولی ہے۔ اور مجبوری کو اس کا بھی وہی حکم ہے جو زمزم کے پانی کا ہے۔

مسئلہ تنور اگر ناپاک ہو جائے تو اس میں آگ جلانے سے پاک ہو جائے گا بشرطیکہ بعد گرم ہونے کے نجاست کا اثر نہ رہے۔ مسئلہ ناپاک زمین پر مٹی وغیرہ ڈال کر نجاست چھپا دی جائے اس طرح کہ نجاست کی بو نہ آئے تو مٹی کا اوپر کا حصہ پاک ہے۔

مسئلہ ناپاک تیل یا چربی کا صابون بنا لیا جائے تو پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ فصد کے مقام یا اور کسی عضو کو جو خون پیپ کے نکلنے سے نجس ہو گیا ہو اور دھونا نقصان کرتا ہو تو صرف تر کپڑے سے پونچھ دینا کافی ہے اور بعد آرام ہونے کے بھی اس جگہ کا دھونا ضروری نہیں۔

مسئلہ ناپاک رنگ اگر جسم میں یا کپڑے میں لگ جائے یا بال اس ناپاک رنگ سے رنگین ہو جائیں تو صرف اس قدر دھونا کہ پانی صاف نکلنے لگے کافی ہے اگرچہ رنگ دور نہ ہو۔

مسئلہ اگر ٹوٹے ہوئے دانت کو جو ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا ہے اس کی جگہ پر رکھ کر جما دیا جائے خواہ پاک چیز سے یا ناپاک چیز سے اور اسی طرح اگر کوئی ہڈی ٹوٹ جائے اور اس کے بدلے کوئی ناپاک ہڈی رکھ دی جائے یا کسی زخم میں کوئی ناپاک چیز بھر دی جائے اور وہ اچھا ہو جائے تو اس کو نکالنا نہ چاہیے بلکہ وہ خود بخود پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ ایسی ناپاک چیز کو جو چکنی ہو جیسے تیل گھی مردار کی چربی اگر کسی چز میں لگ جائے اور اس قدر دھوئی جائے کہ پانی صاف نکلنے لگے تو پاک ہو جائے گی اگرچہ اس ناپاک چیز کی چکناہٹ باقی ہو۔

مسئلہ ناپاک چیز پانی میں گرے اور اس کے گرنے سے چھینٹیں اڑ کر کسی پر جا پڑیں تو وہ پاک ہیں بشرطیکہ اس نجاست کا کچھ اثر ان چھینٹوں میں نہ ہو

مسئلہ دوہرا کپڑا یا روئی کا کپڑا اگر ایک جانب نجس ہو جائے اور ایک جانب پاک ہو تو کل ناپاک سمجھا جائے گا نماز اس پر درست نہیں بشرطیکہ ناپاک جانب کا ناپاک حصہ نمازی کے کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے کی جگہ ہو اور دونوں کپڑے باہم سلے ہوئے ہوں اور اگر سلے ہوئے نہ ہوں تو پھر ایک کے ناپاک ہونے سے دوسرا ناپاک نہ ہو گا بلکہ دوسرے پر نماز درست ہے بشرطیکہ اوپر کا کپڑا اس قدر موٹا ہو کہ اس میں سے نیچے کی نجاست کا رنگ اور بو ظاہر نہ ہوتی ہو۔

مسئلہ مرغی یا اور کوئی پرند پیٹ چاک کرنے اور اس کی لائش نکالنے سے پہلے پانی میں جوش دیں جیسا کہ آجکل انگریزوں اور ان کے ہم مشن ہندوستانیوں کا دستور ہے تو وہ کسی طرح پاک نہیں ہو سکتی۔

مسئلہ چاند یا سورج کی طرف پائخانہ یا پیشاب کے وقت منہ یا پیٹھ کرنا مکروہ ہے نہر اور تالاب وغیرہ کے کنارے پاخانہ پیشاب کرنا مکروہ ہے اگرچہ نجاست اس میں نہ گرے اور اسی طرح ایسے درخت کے نیچے جس کے سایہ میں لوگ بیٹھتے ہوں اور اسی طرح پھل پھول والے درخت کے نیچے جاڑوں میں جس جگہ دھوپ لینے کو لوگ بیٹھتے ہوں۔ جانوروں کے درمیان میں مسجد اور عید گاہ کے اس قدر قریب جس کی بدبو سے نمازیوں کو تکلیف ہو۔ قبرستان میں یا ایسی جگہ جہاں لوگ وضو یا غسل کرتے ہوں راستے میں اور ہوا کے رخ پر۔ سوراخ میں راستے کے قریب اور قافلہ یا کسی مجمع کے قریب مکروہ تحریمی ہے حاصل یہ ہے کہ ایسی جگہ جہاں لوگ اٹھتے بیٹھتے ہوں اور ان کو تکلیف ہو اور اسی جگہ جہاں سے نجاست بہہ کر اپنی طرف آئے مکروہ ہے۔

پیشاب پاخانہ کے وقت جن امور سے بچنا چاہیے

بات کرنا۔ بلا ضرورت کھانسنا۔ کسی آیت یا حدیث اور متبرک چیز کا پڑھنا۔ ایسی چیز جس پر خدا یا نبی یا کسی فرشتے یا کسی معظم کا نام یا کوئی آیت یا دعا لکھی ہوئی ہو اپنے ساتھ رکھنا۔ البتہ اگر اسی چیز جیب میں ہو یا تعویذ کپڑے وغیرہ میں لپٹا ہوا ہو تو کراہت نہیں۔ بلا ضرورت لیٹ کر یا کھڑے ہو کر پائخانہ پیشاب کرنا تمام کپڑے اتار کر برہنہ ہو کر پائخانہ پیشاب کرنا داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا ان سب باتوں سے بچنا چاہیے

وضو کا بیان

مسئلہ ڈاڑھی کا خلال کرے اور تین بار منہ دھونے کے بعد خلال کرے اور تین بار سے زیادہ خلال نہ کرے۔

مسئلہ جو سطح رخسارہ اور کان کے درمیان میں ہے اس کا دھونا فرض ہے خواہ ڈاڑھی نکلی ہو یا نہیں

مسئلہ ٹھوڑی کا دھونا فرض ہے بشرطیکہ ڈاڑھی کے بال اس پر نہ ہوں یا ہوں تو اس قدر کم ہوں کہ کھال نظر آئے۔

مسئلہ ہونٹ کا جو حصہ کہ ہونٹ بند ہونے کے بعد دکھائی دیتا ہے اس کا دھونا فرض ہے۔ مسئلہ ڈاڑھی یا مونچھ یا بھوں اگر اس قدر گھنی ہوں کہ کھال نظر نہ آئے تو اس کھال کا دھونا جو اس سے چھپی ہوئی ہے فرض نہیں ہے بلکہ وہ بال ہی قائم مقام کھال کے ہیں ان پر سے پانی بہا دینا کافی ہے۔

مسئلہ بھویں یا ڈاڑھی یا مونچھ اگر اس قدر گھنی ہوں کہ اس کے نیچے کی کھال چھپ جائے اور نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں اس قدر بالوں کا دھونا واجب ہے جو حد چہرہ کے اندر ہیں باقی بال جو حد مذکورہ سے آگے بڑھ گئے ہوں ان کا دھونا واجب نہیں۔

مسئلہ اگر کسی شخص کے مشترک حصہ کا کوئی جزو باہر نکل آئے جس کو ہمارے عرف میں کانچ نکلنا کہتے ہیں تو اس سے وضو جاتا رہے گا خواہ وہ اندر خود بخود چلا جائے یا کسی لکڑی کپڑے ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ سے اندر پہنچایا جائے۔

مسئلہ منی اگر بغیر شہوت خارج ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ مثلاً کسی نے کوئی بوجھ اٹھایا یا کسی اونچے مقام سے گر پڑا اور صدمہ سے منی بغیر شہوت خارج ہو گئی۔

مسئلہ اگر کسی کے حواس میں خلل ہو جائے لیکن یہ خلل جنون اور مدہوشی کی حد کو نہ پہنچا ہو تو وضو نہ جائے گا۔

مسئلہ نماز میں اگر کوئی شخص سو جائے اور سونے کی حالت میں قہقہہ لگائے تو وضو نہ جائے گا۔

مسئلہ جنازے کی نماز اور تلاوت کے سجدے میں قہقہہ لگانے سے وضو نہیں جاتا بالغ ہو یا نابالغ۔

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

مسئلہ بوٹ پر مسح جائز ہے بشرطیکہ پورے پیر کو مع ٹخنوں کے چھپائے اور اس کا چاک تسموں سے اس طرح بندھا ہو کہ پیر کی اس قدر کھال نظر نہ آئے جو مسح کو مانع ہو

مسئلہ کسی نے تیمم کی حالت میں موزے پہنے ہوں تو جب وضو کرے تو ان موزوں پر مسح نہیں کر سکتا اس لیے کہ تیمم طہارت کاملہ نہیں خواہ وہ تیمم صرف غسل کا ہو یا وضو و غسل دونوں کا ہو یا صرف وضو کا۔

مسئلہ غسل کرنے والے کو مسح جائز نہیں خواہ غسل فرض ہو یا سنت مثلاً پیروں کو کسی اونچے مقام پر رکھ کر خود بیٹھ جائے اور سوا پیروں کے باقی جسم کو دھوئے اس کے بعد پیروں پر مسح کرے تو یہ درست نہیں۔

مسئلہ معذور کا وضو جیسے نماز کا وقت جانے سے ٹوٹ جاتا ہے ویسے ہی اس کا مسح بھی باطل ہو جاتا ہے اور اس کو موزے اتار کر پیروں کا دھونا واجب ہے۔ ہاں اگر اس کا مرض وضو کرنے اور موزے پہننے کی حالت میں نہ پایا جائے تو وہ بھی مثل اور صحیح آدمیوں کے سمجھا جائے گا۔ مسئلہ پیر کا اکثر حصہ کسی طرح دھل گیا اس صورت میں موزوں کو اتار کر پیروں کو دھونا چاہیے۔

حدث اصغر یعنی بے وضو ہونے کی حالت کے احکام

مسئلہ قرآن مجید اور پاروں کے پورے کاغذ کا چھونا مکروہ تحریمی ہے خواہ اس موقع کو چھوئے جس میں آیت لکھی ہے یا اس موقع کو جو سادہ ہے اور اگر پورا قرآن نہ ہو بلکہ کسی کاغذ یا کپڑے یا جھلی وغیرہ پر قرآن کی ایک پوری آیت لکھی ہوئی ہو باقی حصہ سادہ ہو تو سادہ جگہ کا چھونا جائز ہے جبکہ آیت پر ہاتھ نہ لگے۔

مسئلہ قرآن مجید کا لکھنا مکروہ نہیں۔ بشرطیکہ لکھے ہوئے کو ہاتھ نہ لگے گو خالی مقام کو چھوئے مگر امام محمد کے نزدیک خالی مقام کو بھی چھونا جائز نہیں اور یہی احوط ہے۔ پہلا قول امام ابو یوسف کا ہے اور یہی اختلاف مسئلہ سابق میں بھی ہے اور یہ حکم جب ہے کہ قرآن شریف اور سیپاروں کے علاوہ کسی کاغذ یا کپڑے وغیرہ میں کوئی آیت لکھی ہو اور اس کا کچھ حصہ سادہ بھی ہو۔

مسئلہ ایک آیت سے کم کا لکھنا مکروہ نہیں اگر کتاب وغیرہ میں لکھے اور قرآن شریف میں ایک ایک آیت سے کم کا لکھنا بھی جائز نہیں۔

مسئلہ نابالغ بچوں کو حدث اصغر کی حالت میں بھی قرآن مجید کا دینا اور چھونے دینا مکروہ نہیں۔

مسئلہ قرآن مجید کے سوا اور آسمانی کتابوں میں مثل توریت و انجیل و زبور وغیرہ کے بے وضو صرف اسی مقام کا چھونا مکروہ ہے جہاں لکھا ہو۔ سادے مقام کا چھونا مکروہ نہیں اور یہی حکم قرآن مجید کی منسوخ التلاوۃ آیتوں کا ہے۔

مسئلہ وضو کے بعد اگر کسی عضو کی نسبت نہ دھونے کا شبہ ہو لیکن وہ عضو متعین نہ ہو تو ایسی صورت میں شک دفع کرنے کے لیے بائیں پیر کو دھوئے۔ اسی طرح اگر وضو کے درمیان کسی عضو کی نسبت یہ شبہ ہو تو ایسی حالت میں اخیر عضو کو دھوئے مثلاً کہنیوں تک ہاتھ دھونے کے بعد یہ شبہ ہو تو منہ دھو ڈالے اور اگر پیر دھوتے وقت یہ شبہ ہو تو کہنیوں تک ہاتھ دھو ڈالے یہ اس وقت ہے کہ اگر کبھی کبھی شبہ ہوتا ہو اور اگر کسی کو اکثر اس قسم کا شبہ ہوتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اس شبہ کی طرف خاھل نہ کرے اور اپنے وضو کو کامل سمجھے۔

مسئلہ مسجد کے فرش پر وضو کرنا درست نہیں۔ ہاں اگر اس طرح وضو کرے کہ وضو کا پانی مسجد میں نہ گرنے پائے تو خیر۔ اس میں اکثر جگہ بے احتیاطی ہوتی ہے کہ وضو ایسے موقع پر کیا جاتا ہے کہ پانی وضو کا فرش مسجد پر بھی گرتا ہے۔

غسل کا بیان

مسئلہ حدث اکبر سے پاک ہونے کے لیے غسل فرض ہے اور حدث اکبر کے پیدا ہونے کے چار سبب ہیں۔

پہلا سبب خروج منی یعنی منی کا اپنی جگہ سے بشہوت جدا ہو کر جسم سے باہر نکلنا خواہ سوتے میں یا جاگتے میں۔ بیہوشی میں یا ہوش میں۔ جماع سے یا بغیر جماع کے کسی خیال و تصور سے یا خاص حصے کو حرکت دینے سے یا اور کسی طرح سے۔

مسئلہ اگر منی اپنی جگہ سے بشہوت جدا ہوئی مگر خاص حصہ سے باہر نکلتے وقت شہوت نہ تھی تب بھی غسل فرض ہو جائے گا۔ مثلاً منی اپنی جگہ سے بشہوت جدا ہوئی مگر اس نے خاص حصہ کے سوراخ کو ہاتھ سے بند کر لیا یا روئی وغیرہ رکھ لی تھوڑی دیر کے بعد جب شہوت جاتی رہی تو اس نے خاص حصہ کے سوراخ سے ہاتھ یا روئی ہٹا لی اور منی بغیر شہوت خارج ہو گئی تب بھی غسل فرض ہو جائے گا۔

مسئلہ اگر کسی خاص حصے سے کچھ منی نکلی اور اس نے غسل کر لیا بعد غسل کے دوبارہ کچھ بغیر شہوت کے نکلی تو اس صورت میں پہلا غسل باطل ہو جائے گا دوبارہ پھر غسل فرض ہے بشرطیکہ یہ باقی منی قبل سونے کے اور قبل پیشاب کرنے کے اور قبل چالیس قدم یا اس سے زیادہ چلنے کے نکلے مگر اس باقی منی کے نکلنے سے پہلے اگر نماز پڑھ لی ہو تو وہ نماز صحیح رہے گی اس کا اعادہ لازم نہیں۔

مسئلہ کسی کے خاص حصے سے بعد پیشاب کے منی نکلے تو اس پر بھی غسل فرض ہو گا بشرطیکہ شہوت کے ساتھ ہو

مسئلہ اگر کسی مرد یا عورت کو اپنے جسم یا کپڑے پر سو اٹھنے کے بعد تری معلوم ہو تو اس میں بہت سی صورتیں ہیں منجملہ ان کے آٹھ صورتوں میں غسل فرض ہے یقین یا گمان غالب ہو جائے کہ یہ منی ہے اور احتلام یاد ہو یقین ہو جائے کہ یہ منی ہے اور احتلام یاد نہ ہو یقین ہو جائے کہ یہ مذی ہے اور احتلام یاد ہو شک ہو کہ یہ منی ہے یا مذی ہے اور احتلام یاد ہو شک ہو کہ یہ منی ہے یا ودی ہے اور احتلام یاد ہو شک ہو کہ یہ مذی ہے یا ودی ہے اور احتلام یاد ہو شک ہو کہ یہ منی ہے یا مذی ہے یا ودی ہے اور احتلام یاد ہو شک ہو کہ یہ منی ہے یا مذی اور احتلام یاد نہ ہو۔

مسئلہ اگر کسی شخص کا ختنہ نہ ہوا ہو اور اس کی منی خاص حصہ کے سوراخ سے باہر نکل کر اس کھال کے اندر رہ جائے جو ختنہ میں کاٹ ڈالی جاتی ہے تو اس پر غسل فرض ہو جائے گا اگرچہ وہ منی اس کھال سے باہر نہ نکلی ہو۔

دوسرا سبب ایلاج یعنی کسی باشہوت مرد کے خاص حصہ کے سر کا کسی زندہ عورت کے حصہ میں یا کسی دوسرے زندہ آدمی کے مشترک حصہ میں داخل ہونا خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا خنثی اور خواہ منی گرے یا نہ گرے اس صورت میں اگر دونوں میں غسل کے صحیح ہونے کی شرطیں پائی جاتی ہیں یعنی دونوں بالغ ہوں تو دونوں پر ورنہ جس میں پائی جاتی ہیں اس پر غسل فرض ہو جائے گا۔

مسئلہ اگر عورت کمسن ہو مگر ایسی کم سن نہ ہو کہ اس کے ساتھ جماع کرنے سے اس کے خاص حصے اور مشترک حصے کے مل جانے کا خوف ہو تو اس کے خاص حصے میں مرد کے خاص حصے کا سر اگر کسی کے مشترک حصہ یا عورت کے خاص حصے میں داخل ہو تب بھی غسل دونوں پر فرض ہو جائے گا اگر دونوں بالغ ہوں ورنہ اس پر جو بالغ ہو۔

مسئلہ اگر کسی مرد کے خاص حصہ کا سر کٹ گیا ہو تو اس کے باقی جسم سے اس مقدار کا اعتبار کیا جائے گا یعنی اگر بقیہ عضو میں سے بقدر حشفہ داخل ہو گیا تو غسل واجب ہو گا ورنہ نہیں۔ مسئلہ اگر کوئی مرد اپنے خاص حصے کو کپڑے وغیرہ سے لپیٹ کر داخل کرے تو اگر جسم کی حرارت محسوس ہو تو غسل فرض ہو جائے گا مگر احتیاط یہ ہے کہ جسم کی حرارت محسوس ہو یا نہ ہو غسل فرض ہو جائے گا۔

مسئلہ اگر کوئی عورت شہوت کے غلبہ میں اپنے خاص حصہ میں کسی بے شہوت مرد یا جانور کے خاص حصہ کو یا کسی لکڑی وغیرہ کو یا اپنی انگلی کو داخل کرے تب بھی اس پر غسل فرض ہو جائے گا منی گرے یا نہ گے مگر یہ شارح کی رائے ہے اور اصل مذہب میں بدون انزال غسل واجب نہیں۔ تیسرا سبب حیض سے پاک ہونا۔ چوتھا سبب نفاس سے پاک ہونا۔

جن صورتوں میں غسل فرض نہیں

مسئلہ منی اگر اپنی جگہ سے بشہوت جدا نہ ہو تو اگرچہ خاص حصہ سے باہر نکل آئے غسل فرض نہ ہو گا مثلاً کسی شخص نے کوئی بوجھ اٹھایا یا اونچے سے گر پڑا یا کسی نے اس کو مارا اور اس صدمہ سے اس کی منی بغیر شہوت کے نکل آئی تو غسل فرض نہ ہو گا۔

مسئلہ اگر کوئی مرد کسی کمسن عورت کے ساتھ جماع کرے تو غسل فرض نہ ہو گا بشرطیکہ منی نہ گرے اور وہ عورت اس قدر کمسن ہو کہ اس کے ساتھ جماع کرنے میں خاص حصے اور مشترک حصے کے مل جانے کا خوف ہو۔

مسئلہ اگر کوئی مرد اپنے خاص حصے میں کپڑا لپیٹ کر جماع کرے تو غسل فرض نہ ہو گا بشرطیکہ کپڑا اس قدر موٹا ہو کہ جسم کی حرارت اور جماع کی لذت اس کی وجہ سے نہ محسوس ہو مگر احوط یہ ہے کہ غیبت حشفہ سے غسل واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ اگر کوئی مردف اپنے خاص حصے کا جزو مقدار سر حشفہ سے کم داخل کرے تب بھی غسل فرض نہ ہو گا۔

مسئلہ مذی اور ودی کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔

مسئلہ استحاضہ سے غسل فرض نہیں ہوتا۔

مسئلہ اگر کسی شخص کو منی جاری رہنے کا مرض ہو تو اس کے اوپر اس منی کے نکلنے سے غسل فرض نہ ہو گا۔

مسئلہ سو اٹھنے کے بعد کپڑوں پر تری دیکھے تو ان صورتوں میں غسل فرض نہیں ہوتا۔ یقین ہو جائے کہ یہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو شک ہو ہ یہ منی ہے یا ودی اور احتلام یاد نہ ہو شک ہو کہ یہ مذی ہے یاودی ہے اور احتلام یا د نہ ہو یقین ہو جائے کہ یہ ودی ہے اور احتلام یاد ہو یا نہ ہو شک ہو کہ یہ منی ہے یا مذی ہے یا ودی ہے اور احتلام یاد نہ ہو۔ ہاں پہلی دوسری اور چھٹی صورت میں احتیاطا غسل کر لینا واجب ہے اگر غسل نہ کرے گا تو نماز نہ ہو گی اور سخت گناہ ہو گا کیونکہ اس میں ابو یوسف اور طرفین کا اختلاف ہے۔ امام ابو یوسف نے غسل واجب نہیں کہا اور طرفین نے واجب کہا ہے۔ اور فتوی قول طرفین پر ہے۔

مسئلہ حقنہ عمل کے مشترک حصے میں داخل ہونے سے غسل فرض نہیں ہوتا

مسئلہ اگر کوئی شخص خواب میں اپنی منی گرتے ہوئے دیکھے اور منی گرنے کی لذت بھی اس کو محسوس ہو مگر کپڑوں پر تری یا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو تو غسل فرض نہ ہو گا۔

جن صورتوں میں غسل واجب ہے

اگر کوئی کافر اسلام لائے اور حالت کفر میں اس کو حدث اکبر ہوا ہو اور وہ نہ نہایا ہو یا نہایا ہو مگر شرعاً وہ غسل صحیح نہ ہوا ہو تو اس پر بعد اسلام لانے کے نہانا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص پندرہ برس کی عمر سے پہلے بالغ ہو جائے اور اسے پہلا احتلام ہو تو اس پر احتیاطا غسل واجب ہے اور اس کے بعد جو احتلام ہو یا پندرہ برس کی عمر کے بعد محتلم ہو تو اس پر غسل فرض ہے مسلمان مرد کی لاش کو نہلانا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔

جن صورتوں میں غسل سنت ہے

جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد سے جمعہ تک ان لوگوں کو غسل کرنا سنت ہے جن پر نماز جمعہ واجب ہو۔ عیدین کے دن بعد فجر ان لوگوں کو غسل کرنا سنت ہے جن پر عیدین کی نماز واجب ہے حج یا عمرے کے احرام کے لیے غسل کرنا سنت ہے۔ حج کرنے والے کو عرفہ کے دن بعد زوال کے غسل کرنا سنت ہے۔

جن صورتوں میں غسل کرنا مستحب ہے

اسلام لانے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ اگر حدث اکبر سے پاک ہو کوئی مرد یا عورت جب پندرہ برس کی عمر کو پہنچے اور اس وقت تک کوئی علامت جوانی کی اس میں نہ پائی جائے تو اس کو غسل کرنا مستحب ہے۔ پچھنے لگوانے کے بعد اور جنون اور مستی اور بیہوشی دفع ہو جانے کے بعد غسل کرنا مستحب ہے۔ مردے کو نہلانے کے بعد نہلانے والوں کو غسل کرنا مستحب ہے۔ شب برأت یعنی شعبان کی پندرہویں رات کو غسل کرنا مستحب ہے۔ لیلۃ القدر کی راتوں میں اس شخص کو غسل کرنا مستحب ہے جس کو لیلۃ القدر معلوم ہوئی ہو۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے دسویں تاریخ کو صبح کو طلوع فجر کے بعد غسل مستحب ہے طواف زیارت کے لیے غسل مستحب ہے خوف اور مصیبت کی نماز کے لیے غسل مستحب ہے کسی گناہ سے توبہ کرنے کے لیے غسل مستحب ہے سفر سے واپس آنے والے کو غسل مستحب ہے جب وہ اپنے وطن پہنچ جائے مجلس عامہ میں جانے کے لیے نئے کپڑے پہننے کے لیے غسل مستحب ہے۔ جس کو قتل کیا جاتا ہے اس کو غسل کرنا مستحب ہے۔

حدث اکبر کے احکام

مسئلہ جب کسی پر غسل فرض ہو اس کو مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی سخت ضرورت ہو تو جائز ہے۔ مثلاً کسی کے گھر کا دروازہ مسجد میں ہو اور دوسرا کوئی راستہ اس کے نکلنے کا سوا اس کے نہ ہو اور نہ وہاں کے سوا اور دوسری جگہ رہ سکتا ہو تو اس کو مسجد میں تیمم کر کے جانا جائز ہے۔ یا کسی مسجد میں پانی کا چشمہ یا کنواں یا حوض ہو اور اس کے سوا کہیں پانی نہ ہو تو اس مسجد میں تیمم کر کے جانا جائز ہے

مسئلہ عیدگاہ میں اور مدرسے اور خانقاہ وغیرہ میں جانا جائز ہے

مسئلہ حیض و نفاس کی حالت میں عورت کی ناف اور زانو کے درمیان کے جسم کو دیکھنا یا اس سے اپنے جسم کو ملانا جب کوئی کپڑا درمیان میں نہ ہو اور جماع کرنا حرام ہے۔

مسئلہ حیض و نفاس کی حالت میں عورت کا بوسہ لینا اور جھوٹا پانی وغیرہ پینا اس سے لپٹ کر سونا اور اس کے ناف اور ناف کے اوپر اور زانو اور زانو کے نیچے کے جسم سے اپنے جسم کو ملانا اگرچہ کپڑا درمیان میں نہ ہو اور ناف اور زانو کے درمیان میں کپڑے کے ساتھ ملانا جائز ہے بلکہ حیض کی وجہ سے عورت سے علیحدہ ہو کر سونا یا اس کے اختلاط سے بچنا مکروہ ہے۔

مسئلہ اگر کوئی مرد سو اٹھنے کے بعد اپنے خاص عضو پر تری دیکھے اور قبل سونے کے اس کے حصے کو استادگی ہو تو اس پر غسل فرض نہ ہو گا اور وہ تری مذی سمجھی جائے گی بشرطیکہ احتلام یاد نہ ہو اور اس تری کے منی ہونے کا غالب گمان نہ ہو اور اگر ران وغیرہ یا کپڑوں پر بھی تری ہو تو غسل بہر حال واجب ہے۔

مسئلہ اگر دو مرد یا عورتیں یا ایک مرد اور ایک عورت ایک ہی بستر پر لیٹں پ اور سو اٹھنے کے بعد اس بستر پر منی کا نشان پایا جائے اور کسی طریقہ سے یہ نہ معلوم ہو کہ یہ کس کی منی ہے اور نہ اس بستر پر ان سے پہلے کوئی اور سویا ہو تو اس صورت میں دونوں پر غسل فرض ہو گا اور اگر ان سے پہلے کوئی اور شخص اس بستر پر سو چکا ہے اور منی خشک ہو تو ان دونوں صورتوں میں کسی پر غسل فرض نہ ہو گا۔

مسئلہ کسی پر غسل فرض ہوا اور پردہ کی جگہ نہیں تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ مرد کو مردوں کے سامنے برہنہ ہو کر نہانا واجب ہے اسی طرح عورت کو عورتوں کے سامنے بھی نہانا واجب ہے اور مرد کو عورتوں کے سامنے اور عورتوں کو مرد کے سامنے نہانا حرام ہے بلکہ تیمم کرے۔

تیمم کا بیان

مسئلہ کنویں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور نہ کوئی کپڑا ہو جس کو کنویں میں ڈال کر تر کر لے اور اس سے نچوڑ کر طہارت کرے یا پانی مٹکے وغیرہ میں ہو اور کوئی چیز پانی نکالنے کی نہ ہو اور مٹکا جھکا کر بھی پانی نہ لے سکتا ہو اور ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا شخص ایسا نہ ہو جو پانی نکال دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے ایسی حالت میں تیمم درست ہے

مسئلہ اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گان ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب دوبارہ پڑھنا چاہیے مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی شخص اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو میں تجھ کو مار ڈالوں گا اس تیمم سے جو نماز پڑھی ہے اس کو پھر دہرانا پڑے گا۔

مسئلہ ایک مقام سے ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں درست ہے۔

مسئلہ جو شخص پانی اور مٹی دونوں کے استعمال پر قادر نہ ہو خواہ پانی اور مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری سے تو اس کو چاہیے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس کو طہارت سے لوٹا لے۔ مثلاً کوئی شخص ریل میں ہو اور اتفاق سے نماز کا وقت آ جائے اور پانی اور وہ چیز جس سے تیمم درست ہے جیسے مٹی اور مٹی کے برتن یا گردو غبار نہ ہو اور نماز کا وقت جاتا ہو تو ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے اسی طرح جیل میں جو شخص ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو بے وضو اور تیمم کے نماز پڑھ لے اور دونوں صورتوں میں نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا۔

مسئلہ جس شخص کو اخیر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو اس کو نماز کے اخیر وقت مستحب تک ہے پانی کا انتظار کرنا مستحب ہے۔ مثلاً کنویں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقین یا گمان غالب ہو کہ اخیر وقت مستحب تک رسی ڈول مل جائے گا یا کوئی شخص ریل پر سوار ہوا اور یقیناً یا ظنا معلوم ہو کہ اخیر وقت تک ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے تو اخیر وقت مستحب تک انتظار مستحب ہے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص ریل پر سوار ہو اور اس نے پانی نہ ملنے سے تیمم کیا ہو اور اثناء راہ میں چلتی ہوئی ریل سے اسے پانی کے چشمے تالاب وغیرہ دکھلائی دیں تو اس کا تیمم نہ جائے گا اس لیے کہ اس صورت میں وہ پانی کے استعمال پر قادر نہیں۔ ریل نہیں ٹھیر سکتی اور چلتی ہوئی ریل سے اتر نہیں سکتا۔

نماز کے وقتوں کا بیان

مدرک وہ شخص جس کو شروع سے اخیر تک کسی کے پیچھے جماعت سے نماز ملے اور اس کو مقتدی اور موتم بھی کہتے ہیں۔ مسبوق وہ شخص جو ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہو جانے کے بعد جماعت میں آ کر شریک ہوا ہو۔ لاحق وہ شخص جو کسی امام کے پیچھے نماز میں شریک ہوا ہو اور بعد شریک ہونے کے اس کی سب رکعتیں یا کچھ رکعتیں جاتی رہیں خواہ اس وجہ سے کہ وہ سو گیا ہو یا اس کو کوئی حدث ہو جائے اصغر یا اکبر۔

مسئلہ مردوں کے لیے مستحب ہے کہ فجر کی نماز ایسے وقت شروع کریں کہ روشنی خوب پھیل جائے اور اس قدر وقت باقی ہو کہ اگر نماز پڑھی جائے اور اس میں چالیس پچاس آیتوں کی تلاوت اچھی طرح کی جائے اور بعد نماز کے اگر کسی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا چاہیں تو اسی طرح چالیس پچاس آتیں اس میں پڑھ سکیں۔ اور عورتوں کو ہمیشہ اور مردوں کو حالت حج میں مزدلفہ میں فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا مستحب ہے۔

مسئلہ جمعہ کی نماز کا وقت بھی وہی ہے جو ظہر کی نماز کا ہے۔ صرف اس قدر فرق ہے کہ ظہر کی نماز گرمیوں میں کچھ تاخیر کر کے پڑھنا بہتر ہے خواہ گرمی کی شدت ہو یا نہیں اور جاڑوں کے زمانہ میں جلد پڑھنا مستحب ہے۔ اور جمعہ کی نماز ہمیشہ اول وقت پڑھنا سنت ہے جمہور کا یہی قول ہے۔

مسئلہ عیدین کی نماز کا وقت آفتاب کے اچھی طرح نکل آنے کے بعد شروع ہوتا ہے دوپہر سے پہلے تک رہتا ہے آفتاب کے اچھی طرح نکل آنے سے یہ مقصود ہے کہ آفتاب کی زردی جاتی رہے اور روشنی ایسی تیز ہو جائے کہ نظر نہ ٹھیرے اس کی تعیین کے لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ بقدر اک نیزے کے بلند ہو جائے۔ عیدین کی نماز کا جلد پڑھنا مستحب ہے مگر عیدالفطر کی نماز اول وقت سے کچھ دیر میں پڑھنا چاہیے۔

مسئلہ جب امام خطبے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو اور خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا حج وغریہ کا تو ان وقتوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اور خطبہ نکاح اور ختم قرآن میں بعد شروع خطبہ کے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

مسئلہ جب فرض نماز کی تکبیر کہی جاتی ہو اس وقت بھی نماز مکروہ ہے ہاں اگر فجر کی سنت نہ پڑھی ہوں اور کسی طرح یہ یقین یا ظن غالب ہو جائے کہ ایک رکعت جماعت سے مل جائے گی۔ یا بقول بعض علماء تشہد ہی مل جانے کی امید ہو تو فجر کی سنتوں کا پڑھ لینا مکروہ نہیں یا جو سنت مؤکدہ شروع کر دی ہو اس کو پورا کر لے۔

مسئلہ نماز عیدین کے قبل خواہ گھر میں خواہ عیدگاہ میں نماز نفل مکروہ ہے اور نماز عیدین کے بعد فقط عیدگاہ میں مکروہ ہے۔

اذان کا بیان

مسئلہ اگر کسی ادا نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اس کے لیے اس نماز کے وقت کاہونا ضرور ہے۔ اگر وقت نے سے پہلے اذان دی جائے تو صحیح نہ ہو گی بعد وقت نے کے پھر اس کا عادہ کرنا ہو گا خواہ وہ اذان فجر کی ہو یا کسی اور وقت کی۔

مسئلہ اذان اور اقامت کا عربی زبان میں انھیں خاص الفاظ سے ہونا ضروری ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اگر کسی اور زبان میں یا عربی زبان میں کسی اور الفاظ سے اذان کہی جائے تو صحیح نہ ہو گی اگرچہ لوگ اس کو سن کر اذان سمجھ لیں اور اذان کا مقصود اس سے حاصل ہو جائے۔

مسئلہ مؤذن کا مرد ہونا ضروری ہے عورت کی اذان درست نہیں اگر کوئی عورت اذان دے تو اس کا اعادہ کرنا چاہیے اور اگر بغیر اعادہ کیے ہوئے نماز پڑھ لی جائے گی تو گویا بے اذان کے پڑھی گئی۔

مسئلہ مؤذن کا صاحب عقل ہونا بھی ضروری ہے اگر کوئی ناسمجھ بچہ یا مجنون یا مست اذان دے تو معتبر نہ ہو گی۔

مسئلہ اذان کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اذان دینے والا دونوں حدثوں سے پاک ہو کر کسی اونچے مقام پر مسجد سے علیحدہ قبلہ رو کھڑا ہو اور اپنے دونوں کانوں کے دو سوراخوں کو کلمہ کی انگلی سے بند کر کے اپنی طاقت کے موافق بلند آواز سے نہ اس قدر کہ جس سے تکلیف ہو ان کلمات کو کہے اللہ اکبر چار بار پھر اشہد ان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ پھر اشہد ان محمدا رسول اللہ دو بار پھر حی علی الصلوۃ دو مرتبہ پھر حی علے الفلاح دو مرتبہ پھر اللہ اکبر دو مرتبہ پھر لا الہ الا اللہ ایک مرتبہ اور حی علی الصلوۃ کہتے وقت اپنے منہ کو داہنی طرف پھیر لیا کرے اس طرح کہ سینہ اور قدم قبلہ سے نہ پھرنے پائے اور حی علی الفلاح کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیر لیا کرے اس طرح کہ سینہ اور قدم قبلہ سے نہ پھرنے پائے اور فجر کی اذان میں بعد حی علی الفلاح کے الصلوۃ خیر من النوم بھی دو مرتبہ کہے پس کل الفاظ اذان کے پندرہ ہوئے اور فجر کی اذان میں سترہ۔ اور اذان کے الفاظ کو گانے کے طور پر نہ ادا کرے اور نہ اس طرح کہ کچھ پست آواز سے اور کچھ بلند آواز سے۔ اور دو مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر اس قدر سکوت کرے کہ سننے والا اس کا جواب دے سکے اور اللہ اکبر کے سوا دوسرے الفاظ میں بھی ہر لفظ کے بعد اسی قدر سکوت کرے کہ دوسرا لفظ کہے۔

مسئلہ اقامت کا طریقہ بھی یہی ہے صرف فرق اس قدر ہے کہ اذان مسجد سے باہر کہی جاتی ہے یعنی یہ بہتر ہے اور اقامت مسجد کے اندر۔ اور اذان بلند آواز سے کہی جاتی ہے اور اقامت پست آواز سے۔ اور اقامت میں الصلوۃ خیر من النوم نہیں بلکہ بجائے اس کے پانچوں وقت میں قد قامت الصلوۃ دو مرتبہ۔ اور اقامت کہتے وقت کانوں کے سوراخوں کا بند کرنا بھی نہیں اس لیے کہ کان کے سوراخ آواز بلند ہونے کے لیے بند کیے جاتے ہیں اور وہ یہاں مقصود نہیں۔ اور اقامت میں حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہے وقت داہنے بائیں بائیں جانب منہ پھیرنا بھی نہیں ہے یعنی ضرور نہیں ہے ورنہ بعض فقہاء نے لکھا ہے۔

اذان و اقامت کے احکام

مسئلہ سب فرض عین نمازوں کے لیے ایک بار اذان کہنا مردوں پر سنت مؤکدہ ہے۔ مسافر ہو یا مقیم جماعت کی نماز ہو یا تنہا ادا نماز ہو یا قضاء۔ اور نماز جمعہ کے لیے دو بار اذان کہنا۔

مسئلہ اگر نماز کسی ایسے سبب سے قضا ہوئی ہو جس میں عام لوگ مبتلا ہوں تو اس کی اذان اعلان کے ساتھ دی جائے اور اگر کسی خاص سبب سے قضا ہوئی ہو تو اذان پوشیدہ طور پر آہستہ کہی جائے تاکہ لوگوں کو اذان سن کر نماز قضا ہونے کا علم نہ ہو اس لیے کہ نماز کا قضا ہو جانا غفلت اور سستی پر دلالت کرتا ہے اور دین کے کاموں میں غفلت اور سستی گناہ ہے اور گناہ کا ظاہر کرنا اچھا نہیں اور اگر کئی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور سب ایک ہی وقت پڑھی جائیں تو صرف پہلی نماز کی اذان دینا سنت ہے اور باقی نمازوں کے لیے صرف اقامت۔ ہاں یہ مستحب ہے کہ ہر ایک کے واسطے اذان بھی علیحدہ دی جائے۔

مسئلہ مسافر کے لیے اگر اس کے تمام ساتھی موجود ہوں اذان دینا مستحب ہے سنت مؤکدہ نہیں۔ مسئلہ جو شخص اپنے گھر میں نماز پڑھے تنہا یا جماعت سے اس کے لیے اذان اور اقامت دونوں مستحب ہیں بشرطیکہ محلہ کی مسجد یا گاؤں کی مسجد میں اذان اور اقامت ہو چکی ہو اس لیے کہ محلہ کی اذان اور اقامت تمام محلے والوں کو کافی ہے۔

مسئلہ جس مسجد میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز ہو چکی ہو اس میں اگر نماز پڑھی جائے تو اذان اور قامت کا کہنا مکروہ ہے ہاں اگر اس مسجد میں کوئی مؤذن اور امام مقرر نہ ہو تو مکروہ نہیں بلکہ افضل ہے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص ایسے مقام پر جہاں جمعہ کی نماز کے شرائط پائے جاتے ہوں اور جمعہ ہوتا ہو ظہر کی نماز پڑھے تو اس کو اذان اور اقامت کہنا مکروہ ہے خواہ وہ ظہر کی نماز کسی عذر سے پڑھتا ہو یا بلا عذر اور خواہ قبل نماز جمعہ کے ختم ہونے کے پڑھے یا بعد ختم ہونے کے۔ مسئلہ عورتوں کو اذان اور اقامت کہنا مکروہ ہے خواہ جماعت سے نماز پڑھیں یا تنہا۔

مسئلہ فرض عین نمازوں کے سوا اور کسی نماز کے لیے اذان و اقامت مسنون نہیں خواہ فرض کفایہ ہو جیسے جنازے کی نماز یا واجب ہو جیسے وتر اور عیدین یا نفل ہو جیسے اور نمازیں۔

مسئلہ جو شخص اذان سنے مرد ہو یا عورت طاہر ہو یا جنبی اس پر اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور بعض نے واجب بھی کہا ہے مگر معتمد اور ظاہر مذہب استحباب ہی ہے۔ یعنی جو لفظ موذن کی زبان سے سنے وہی کہے مگر حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول ولا قوۃ الا باللہ بھی کہے اور الصلوۃ خیر من النوم کے جواب میں صدق وبررت اور بعد اذان کے درود شریف پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللہم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ والصلوۃ القائمۃ ات سیدنا محمد الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقامًا محمود الذی وعدتہ انک لا تخلف المیعاد۔

مسئلہ جمعہ کی پہلی اذان سن کر تمام کاموں کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لیے جامع مسجد جانا واجب ہے خریدو فروخت یا کسی اور کام میں مشغول ہونا حرام ہے۔

مسئلہ اقامت کا جواب دینا بھی مستحب ہے واجب نہیں اور قد قامت الصلوۃ کے جواب میں اقامہا اللہ وادامہا کہے۔

مسئلہ آٹھ صورتوں میں اذان کا جواب نہ دینا چاہیے۔ نماز کی حالت میں۔ خطبہ سننے کی حالت۔ میں خواہ وہ خطبہ جمعہ کا ہو یا اور کسی چیز کا۔ حیض و نفاس میں یعنی ضروری نہیں۔ علم دین پڑھنے پڑھانے کی حالت میں۔ جماع کی حالت۔ میں پیشاب یا پاخانہ کی حالت۔ میں کھانا کھانے کی حالت میں۔ یعنی ضروری نہیں ہاں بعد ان چیزوں کی فراغت کے اگر اذان ہوئے زیادہ دیر نہ ہوئی ہو تو جواب دینا چاہیے ورنہ نہیں۔

اذان اور اقامت کے سنن اور مستحبات

اذان اور اقامت کے سنن دو قسم کے ہیں بعض مؤذن کے متعلق ہیں اور بعض اذان اور اقامت کے متعلق لہذا ہم پہلے نمبر پانچ تک مؤذن کی سنتوں کا ذکر کرتے ہیں اس کے بعد اذان کی سنتیں بیان کریں گے۔ مؤذن مرد ہونا چاہیے عورت کی اذان و اقامت مکروہ تحریمی ہے اگر عورت اذان کہے تو اس کا اعادہ کر لینا چاہیے اقامت کا اعادہ نہیں۔ اس لیے کہ تکرار اقامت مشروع نہیں بخلاف تکرار اذان کے۔ موذن کا عاقل ہونا مجنون اور مست اور ناسمجھ بچے کی اذان اور اقامت مکروہ ہے اور ان کی اذانوں کا اعادہ کر لینا چاہیے نہ اقامت کا مؤذن کا مسائل ضروریہ اور نماز کے اوقات سے واقف ہونا۔ اگر جاہل آدمی اذان دے تو اس کو مؤذن کے برابر ثواب نہ ملے گا۔ مؤذن کا پرہیزگار اور دیندار ہونا اور لوگوں کے حال سے خبردار رہنا۔ جو لوگ جماعت میں نہ آتے ہوں ان کو تنبیہ کرنا۔ یعنی اگر یہ خوف نہ ہو کہ مجھ کو کوئی ستائے گا موذن کا بلند آواز ہونا اذان کا کسی اونچے مقام پر مسجد سے علیحدہ کہنا اور اقامت کا مسجد کے اندر کہنا۔ مسجد کے اندر اذان کہنا مکروہ تنزیہی ہے۔ ہاں جمعہ کی دوسری اذان کا مسجد کے اندر منبر کے سامنے کہنا مکروہ نہیں بلکہ تمام اسلامی شہروں میں معمول ہے اذان کا کھڑے ہو کر کہنا اگر کوئی شخص بیٹھے بیٹھے اذان کہے تو مکروہ ہے اور اس کا اعادہ کرنا چاہیے ہاں اگر مسافر سوار ہو یا مقیم اذان صرف اپنی نماز کے لیے کہے تو پھر اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اذان کا بلند آواز سے کہنا۔ ہاں اگر صرف اپنی نماز کے لیے کہے تو اختیار ہے مگر پھر بھی زیادہ ثواب بلند آواز میں ہو گا اذان کہتے وقت کانوں کے سوراخوں کو انگلیوں سے بند کرنا مستحب ہے۔

اذان کے الفاظ کا ٹھیر ٹھیر کا ادا کرنا اور اقامت کا جلد جلد سنت ہے یعنی اذان کی تکبیروں میں ہر دو تکبیر کے بعد اس قدر سکوت کرے کہ سننے والا اس کا جواب دے سکے اور تکبیر کے علاوہ اور الفاظ میں ہر ایک لفظ کے بعد اسی قدر سکوت کرے کہ دوسرا لفظ کہے اور اگر کسی وجہ سے اذان بغرن اس قدر ٹھیرے ہوئے کہہ دے تو اس کا اعادہ مستحب ہے۔ اور اگر اقامت کے الفاظ ٹھیر ٹھیر کر کہے تو اس کا اعادہ مستحب نہیں۔ اذان میں حی علی الصلوۃ کہتے وقت داہنی طرف کو منہ پھیرنا اور حی علی الفلاح کہتے وقت بائیں طرف منہ کو پھیرنا سنت ہے خواہ وہ اذان نماز کی ہو یا کسی اور چیز کی مگر سینہ اور قدم قبلہ سے نہ پھرنے پائے اذان اور اقامت کا قبلہ رو ہو کر کہنا بشرطیکہ سوار نہ ہو۔ بغیر قبلہ رو ہونے کے اذان و اقامت کہنا مکروہ تنزیہی ہے اذان کہتے وقت حدث اکبر سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اور دونوں حدثوں سے پاک ہونا مستحب ہے اور اقامت کہتے وقت دونوں حدثوں سے پاک ہونا ضروری ہے اگر حدث اکبر کی حالت میں کوئی شخص اذان کہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اس اذان کا اعادہ مستحب ہے اسی طرح اگر کوئی حدث اکبر یا اصغر کی حالت میں اقامت کہتے تو مکروہ تحریمی ہے مگر اقامت کا اعادہ مستحب نہیں۔ اذان اور اقامت کے الفاظ کا ترتیب وار کہنا سنت ہے اگر کوئی شخص مؤخر لفظ کو پہلے کہہ جائے مثلاً اشہد ان لا الہ الا اللہ سے پہلے اشہد ان محمدا رسول اللہ کہہ جائے یا حی علی الصلوۃ سے پہلے حی علی الفلاح کہہ جائے تو اس صورت میں صرف اسی مؤخر لفظ کا اعادہ ضروری ہے جس کو اس نے مقدم کہہ دیا ہے۔ پہلی صورت میں اشہد ان لا الہ الا اللہ کہہ کر اشہد ان محمدا رسول اللہ پھر کہے اور دوسری صورت میں حی علی الصلوۃ کہہ کر حی علی الفلاح پھر کہے پوری اذان کا اعادہ کرنا ضروری نہیں۔ اذان اور اقامت کی حالت میں کوئی دوسرا کلام نہ کرنا۔ خواہ وہ سلام یا سلام کا جواب ہی کیوں نہ ہو۔

اگر کوئی شخص اثنائے اذان و اقامت میں کلام کرے تو اگر بہت کلام کیا ہو تو اذان کا تو اعادہ کرے اقامت کا نہیں۔

متفرق مسائل

مسئلہ اگر کوئی شخص اذان کا جواب دینا بھول جائے یا قصداً نہ دے اور بعد اذان ختم ہونے کا خیال آئے یا دینے کا ارادہ کرے تو اگر زیادہ دیر نہ ہوئی ہو تو جواب دے دے ورنہ نہیں۔

مسئلہ اقامت کہنے کے بعد اگر زیادہ زمانہ گزر جائے اور جماعت قائم نہ ہو تو اقامت کا اعادہ کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کچھ تھوڑی سی دیر ہو جائے تو کچھ ضرورت نہیں اگر اقامت ہو جائے اور امام نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اور پڑھنے میں مشغول ہو جائے تو یہ زمانہ زیادہ فاصل نہ سمجھا جائے گا اور اقامت کا اعادہ نہ کیا جائے گا اور اگر اقامت کے بعد دوسرا کام شروع کر دیا جائے جو نماز کی قسم سے نہیں جیسے کھانا پینا وغیرہ تو اس صورت میں اقامت کا اعادہ کر لینا چاہیے۔ مسئلہ اگر موذن اذان دینے کی حالت میں مر جائے یا بیہوش ہو جائے یا اس کی آواز بند ہو جائے یا بھول جائے اور کوئی بتلانے والا نہ ہو یا اس کو حدث ہو جائے اور وہ اس کے دور کرنے کے لیے چلا جائے تو اس اذان کا نئے سرے سے اعادہ کرنا سنت موکدہ ہے۔

مسئلہ اگر کسی کو اذان یا اقامت کہنے کی حالت میں حدث اصغر ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ اذان یا اقامت پوری کر کے اس حدث کے دور کرنے کو جائے۔

مسئلہ ایک مؤذن کا دو مسجدوں میں اذان دینا مکروہ ہے جس مسجد میں فرض پڑھے وہیں اذان دے۔

مسئلہ جو شخص اذان دے اقامت بھی اسی کا حق ہے ہاں اگر وہ اذان دے کر کہیں چلا جائے یا کسی دوسرے کو اجازت دے تو دوسرا بھی کہہ سکتا ہے۔

مسئلہ کئی مؤذنوں کا ایک ساتھ اذان کہنا جائز ہے۔

مسئلہ مؤذن کو چاہیے کہ اقامت جس جگہ کہنا شروع کرے وہیں ختم کر دے۔

مسئلہ اذان اور اقامت کے لیے نیت شرط نہیں ہاں ثواب بغیر نیت کے نہیں ملتا اور نیت یہ ہے کہ دل میں یہ ارادہ کرے کہ میں یہ اذان محض اللہ تعالی کی خوشنودی اور ثواب کے لیے کہتا ہوں اور کچھ مقصود نہیں۔

نماز کی شرطوں کا بیان

مسائل طہارت

مسئلہ اگر کوئی چادر اس قدر بڑی ہو کہ اس کا جس حصہ اوڑھ کر نماز پڑھتے ہوئے نماز پڑھنے والے کے اٹھنے بیٹھنے سے جنبش نہ کرے تو کچھ حرج نہیں۔ اور اسی طرح اس چیز کا بھی پاک ہونا چاہیے جس کو نماز پڑھنے والا اٹھائے ہو بشرطیکہ وہ چیز خود اپنی قوت سے رکی ہوئی نہ ہو۔ مثلاً نماز پڑھنے والا کسی بچے کو اٹھائے ہوئے ہو اور وہ بچہ خود اپنی طاقت سے رکا ہوا نہ ہو تب تو اس کا پاک ہونا نماز کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اور جب اس بچہ کا بدن اور کپڑا اس قدر نجس ہو جو مانع نماز ہے تو اس صورت میں اس شخص کی نماز درست نہ ہو گی۔ اور اگر خود اپنی طاقت سے رکا ہوا بیٹھا ہو تو کچھ حرج نہیں اس لیے کہ وہ اپنی قوت اور سہارے سے بیٹھا ہے پس یہ نجاست اسی کی طرف منسوب ہو گی اور نماز پڑھنے والے سے کچھ اس کو تعلق نہ سمجھا جائے گا۔

اسی طرح اگر نماز پڑھنے والے کے جسم پر کوئی ایسی نجس چیز ہو جو اپنی جائے پیدائش میں ہو اور خارج میں اس کا کچھ اثر موجود نہ ہو تو کچھ حرج نہیں مثلاً نماز پڑھنے والے کے جسم پر کوئی کتاب بیٹھ جائے اور اس کے منہ سے لعاب نہ نکلتا ہو تو کچھ مضائقہ نہیں اس لیے کہ اس کا لعاب اس کے جسم کے اندر ہے اور وہی اس کے پیدا ہونے کی جگہ ہے پس اس نجاست کے ہو گا جو انسان کے پیٹ میں رہتی ہے جس سے طہارت شرط نہیں اسی طرح اگر کوئی ایسا انڈا جس کی رزدی خون ہو گئی ہو نماز پڑھنے والے کے پاس ہو تب بھی کچھ حرج نہیں اس لیے کہ اس کا خون اسی جگہ ہے جہاں پیدا ہوا ہے خارج میں اس کا کچھ اثر نہیں بخلاف اس کے کہ اگر شیشی میں پیشاب بھرا ہو اور وہ نماز پڑھنے والے کے پاس ہو اگرچہ منہ اس کا بند ہو اس لیے کہ یہ پیشاب ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پیشاب پیدا ہوتا ہے۔

مسئلہ نماز پڑھنے کی جگہ نجاست حقیقیہ سے پاک ہونا چاہیے ہاں اگر نجاست بقدر معافی ہو تو کچھ حرج نہیں نماز پڑھنے کی جگہ سے وہ مقام مراد ہے جہاں نماز پڑھنے والے کے پیر رہتے ہیں اور اسی طرح سجدہ کرنے کی حالت میں جہاں اس کے گھٹنے اور ہاتھ اور پیشانی اور ناک رہتی ہو۔ مسئلہ اگر صرف ایک پیر کی جگہ پاک ہو اور دوسرا پیر کو اٹھائے رہے تب بھی کافی ہے۔

مسئلہ اگر کسی کپڑے پر نماز پڑھی جائے تب بھی اس کا اسی قدر پاک ہونا ضروری ہے پورے کپڑے کا پاک ہونا ضروری نہیں خواہ کپڑا چھوٹا ہو یا بڑا۔

مسئلہ اگر کسی نجس مقام پر کوئی پاک کپڑا بچھا کر نماز پڑھی جائے تو اس میں یہ بھی شرط ہے کہ وہ کپڑا اس قدر باریک نہ ہو کہ اس کے نیچے کی چیز صاف طور پر اس سے نظر آئے۔

مسئلہ اگر نماز پڑھنے کی حالت میں نماز پڑھنے والے کا کپڑا کسی سوکھے نجس مقام پر پڑتا ہو تو کچھ حرج نہیں۔

مسئلہ اگر کپڑے کے استعمال سے معذوری بوجہ دیوں کے فعل کے ہو تو جب معذوری جاتی رہے گی تو نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا مثلاً کوئی شخص جیل میں ہو اور جیل کے ملازموں نے اس کے کپڑے اتار لیے ہوں یا کسی دشمن نے اس کے کپڑے اتار لیے ہوں یا کوئی دشمن کہتا ہو کہ اگر تو کپڑے پہنے گا تو میں تجھے مار ڈالوں گا اور اگر آدمیوں کی طرف سے نہ ہو تو پھر نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں مثلاً کسی کے پاس کپڑے ہی نہ ہوں۔

مسئلہ اگر کسی کے پاس ایک کپڑا ہو کہ چاہے اس سے اپنے جسم کو چھپا لے چاہے اس کو بچھا کر نماز پڑھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے جسم کو چھپا لے اور نماز اسی نجس مقام پر پڑھ لے اگر پاک جگہ میسر نہ ہو۔

قبلے کے مسائل

مسئلہ اگر قبلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں جماعت سے نماز پڑھی جائے تو امام اور مقتدی سب کو اپنے غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی مقتدی کا غالب گمان امام کے خلاف ہو گا تو اس کی نماز اس امام کے پیچھے نہ ہو گی اس لیے کہ وہ امام اس کے نزدیک غلطی پر ہے اور کسی کو غلطی پر سمجھ کر اس کی اقتداء جائز نہیں لہذا ایسی صورت میں اس مقتدی کو تنہا نماز پڑھنا چاہیے جس طرف اس کا غالب گمان ہو محشی

نیت کے مسائل

مسئلہ مقتدی کو اپنے امام کی اقتداء کی نیت کرنا بھی شرط ہے۔

مسئلہ امام کو صرف اپنی نماز کی نیت کرنا شرط ہے امامت کی نیت کرنا شرط نہیں ہاں اگر کوئی عورت اس کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے اور مردوں کے برابر کھڑی ہو اور نماز جنازہ اور جمعہ اور عیدین کی نہ ہو تو اس کی اقتداء صحیح ہونے کے لیے اس کی امامت کی نیت کرنا شرط ہے اور اگر مردوں کے برابر نہ کھڑی ہو یا نماز جنازہ یا جمعہ یا عیدین کی ہو تو پھر شرط نہیں۔

مسئلہ مقتدی کو امام کی تعیین شرط نہیں کہ وہ زید ہے یا عمر بلکہ صرف اسی قدر نیت کافی ہے کہ میں اس امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں ہاں اگر نام لے کر تعیین کر لے گا اور پھر ا سکے خلاف ظاہر ہو گا تو اس کی نماز نہ ہو گی مثلاً کسی شخص نے یہ نیت کی کہ میں زید کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں حالانکہ جس کے پیچھے نماز پڑھتا ہے وہ خالد ہے تو اس مقتدی کی نماز نہ ہو گی۔ مسئلہ جنازے کی نماز میں یہ نیت کرنا چاہیے کہ میں یہ نماز اللہ تعالی کی خوشنودی اور اس میت کی دعا کے لیے پڑھتا ہوں اور اگر مقتدی کو یہ نہ معلوم ہو کہ یہ میت مرد ہے یا عورت تو اس کو یہ نیت کر لینا کافی ہے کہ میرا امام جس کی نماز پڑھتا ہے اس کی میں بھی پڑھتا ہوں بعض علماء کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فرض اور واجب نمازوں کے سوا اور نمازوں میں صرف نماز کی نیت کر لینا کافی ہے اس تخصیص کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ نماز سنت ہے یا مستحب اور سنت فجر کے وقت کی ہے یا ظہر کے وقت کی یا یہ سنت تہجد ہے یا تراویح یا کسوف ہے یا خسوف مگر راجح یہ ہے کہ تخصیص کے ساتھ نیت کرے۔

تکبیر تحریمہ کا بیان

مسئلہ بعض ناواقف جب مسجد میں آ کر امام کو رکوع میں پاتے ہیں تو جلدی کے خیال سے آتے ہی جھک جاتے ہیں اور اسی حالت میں تکبیر تحریمہ کہتے ہیں ان کی نماز نہیں ہوتی اس لیے کہ تکبیر تحریمہ نماز کی صحت کی شرط ہے اور تکبیر تحریمہ کے لیے قیام شرط ہے جب قیام نہ کیا وہ صحیح نہ ہوئی اور جب وہ صحیح نہ ہوئی تو نماز کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔

فرض نماز کے بعض مسائل

مسئلہ آمین کے الف کو بڑھا کر پڑھنا چاہیے اس کے بعد کوئی سورت قرآن مجید کی پڑھے۔

مسئلہ اگر سفر کی حالت ہو یا کوئی ضرورت درپیش ہو تو اختیار ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد جو سورت چاہے پڑھے اگر سفر اور ضرورت کی حالت نہ ہو تو فجر اور ظہر کی نماز میں سورہ حجرات اور سورہ بروج اور ان کے درمیان کی سورتوں میں سے جس سورت کو چاہے پڑھے فجر کی پہلی رکعت میں بہ نسبت دوسری رکعت کے بڑی سورت ہونا چاہیے۔ باقی اوقات میں دونوں رکعتوں کی سورتیں برابر ہونی چاہئیں ایک دو آیت کی کمی زیادتی کا اعتبار نہیں۔ عصر اور عشاء کی نماز میں والسماء والطارق اور لم یکن اور ان کے درمیان کی سورتوں میں سے کوئی سورت پڑھنی چاہیے۔ مغرب کی نماز میں اذازلزلت سے آخر قرآن تک۔

مسئلہ جب رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو تو امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد اور منفرد دونوں کہے پھر تکبیر کہتا ہوا دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے ہوئے سجدے میں جائے تکبیر کی انتہا اور سجدہ کی ابتداء ساتھ ہی ہو یعنی سجدے میں پہنچتے ہی تکبیر ختم ہو جائے۔

مسئلہ سجدے میں پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھنا چاہیے پھر ہاتھوں کو پھر ناک کو پھر پیشانی کو منہ دونوں ہاتھوں کے درمیان ہونا چاہیے اور انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رو ہونی چاہئیں اور دونوں پیر انگلیوں کے بل کھڑے ہوئے اور انگلیوں کا رخ قبل کی طرف اور پیٹ زانو سے علیحدہ اور بازو بغل سے جدا ہوں۔ پیٹ زمین سے اس قدر اونچا ہو کہ بکری کا بہت چھوٹا بچہ درمیان سے نکل سکے۔

مسئلہ فجر مغرب عشاء کے وقت پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسری سورت اور سمع اللہ لمن حمدہ اور سب تکبیریں امام بلند آواز سے کہے اور منفرد کو قرأت میں تو اختیار ہے مگر سمع اللہ لمن حمدہ اور تکبیریں آہستہ کہے اور ظہر عصر کے وقت امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ اور سب تکبیریں بلند آواز سے کہے اور منفرد آہستہ اور مقتدی ہر وقت تکبیریں وغیرہ آہستہ کہے۔ مسئلہ بعد نماز ختم کر چکنے کے دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھا کر پھلائے اور اللہ تعالی سے اپنے لیے دعا مانگے اور امام ہو تو تمام مقتدیوں کے لیے بھی اور بعد دعا مانگ چکنے کے دونوں ہاتھ منہ پر پھیر لے۔ مقتدی خواہ اپنی اپنی دعا مانگیں یا امام کی دعا سنائی دے تو خواہ سب آمین آمین کہتے رہیں۔

مسئلہ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں جیسے ظہر مغرب عشاء ان کے بعد بہت دیر تک دعا نہ مانگے بلکہ مختصر دعا مانگ کر ان سنتوں کے پڑھنے میں مشغول ہو جائے اور جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں جیسے فجر عصر ان کے بعد جتنی دیر تک چاہے دعا مانگے اور امام ہو تو مقتدیوں کی طرف داہنی یا بائیں طرف کو منہ پھیر کر بیٹھ جائے اس کے بعد دعا مانگے بشرطیکہ کوئی مسبوق اس کے مقابلہ میں نماز پڑھ رہا ہو۔

مسئلہ بعد فرض نمازوں کے بشرطیکہ ان کے بعد سنتں د نہ ہوں ورنہ سنت کے بعد مستحب ہے کہ استغفراللہ الذی لا الہ الا ہوالحئی القوم تین مرتبہ۔ آیت الکرسی۔ قل ہواللہ احد۔ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ایک ایک مرتبہ پڑھ کر تینتیس بار سبحان اللہ اور اسی قدر الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھے۔

مسئلہ عورتیں بھی اسی طرح نماز پڑھیں صرف چند مقامات پر ان کو اس کے خلاف کرنا چاہیے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کو چادر وغیرہ سے ہاتھ نکال کر کانوں تک اٹھانا چاہیے اگر کوئی ضرورت مثل سردی وغیرہ کے اندر ہاتھ رکھنے کی نہ ہو۔ اور عورتوں کو ہر حال میں بغیر ہاتھ نکالے ہوئے کندھوں تک اٹھانا چاہیے بعد تکبیر تحریمہ کے مردوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا چاہیے اور عورتوں کو سینہ پر۔ مردوں کو چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنا کر بائیں کلائی کو پکڑنا چاہیے اور داہنی تین انگلیاں بائیں کلائی پر بچھانا چاہیے اور عورتوں کو داہنی ہتھیلی بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ دینا چاہیے۔ حلقہ بنانا اور بائیں کلائی کو پکڑنا نہ چاہیے مردوں کو رکوع میں اچھی طرح جھک جانا چاہیے کہ سر اور سرین اور پشت برابر ہو جائیں اور عورتوں کو اس قدر نہ جھکنا چاہیے بلکہ صرف اس قدر جس میں ان کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں مردوں کو رکوع میں انگلیاں کشادہ کر کے گھٹنوں پر رکھنا چاہیے اور عورتوں کو بغیر کشادہ کیے ہوئے بلکہ ملا کر مردوں کو حالت رکوع میں کہنیاں پہلو سے علیحدہ رکھنا چاہیے اور عورتوں کو ملی ہوئی مردوں کو سجدے میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنا چاہیے اور عورتوں کو ملا ہوا مردوں کو سجدے میں کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی رکھنا چاہیے اور عورتوں کو زمین پر بچھی ہوئی مردوں کو سجدے میں دونوں پیر انگلیوں کے بل کھڑے رکھنا چاہیے اور عورتوں کو نہیں مردوں کو بیٹھنے کی حالت میں بائیں پیر پر بیٹھنا چاہیے اور داہنے پیر کو انگلیوں کو بل کھڑا رکھنا چاہیے اور عورتوں کو بائیں سرین کے بل بیٹھنا چاہیے اور دونوں پیر داہنی طرف نکال دینا چاہیے اس طرح کہ داہنی ران بائیں ران پر جائے اور داہنی پنڈلی بائیں پنڈلی پر عورتوں کو کسی وقت بلند آواز سے قرات کرنے کا اختیار نہیں بلکہ ان کو ہر وقت آہستہ آواز سے قرأت کرنا چاہیے۔

تحیۃ المسجد

مسئلہ یہ نماز اس شخص کے لیے سنت ہے جو مسجد میں داخل ہو۔

مسئلہ اس نماز سے مقصود مسجد کی تعظم  ہے جو درحقیقت خدا ہی کی تعظم  ہے اس لیے کہ مکان کی تعظیم صاحب مکان کے خیال سے ہوتی ہے پس غیر خدا کی تعظم  کسی طرح اس سے مقصود نہیں۔ مسجد میں آنے کے بعد بیٹھنے  سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے بشرطیکہ کوئی مکروہ وقت نہ ہو

مسئلہ اگر مکروہ وقت ہو تو صرف چار مرتبہ ان کلمات کو کہہ لے۔ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر اور اس کے بعد کوئی درود شریف پڑھ لے اس نماز کی نیت یہ ہے۔ نویت ان اصلی رکعتی تحیۃ المسجد یا اردو میں اس طرح کہہ لے خواہ دل ہی میں سمجھ لے کہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ دو رکعت نماز تحیۃ المسجد پڑھوں۔

مسئلہ دو رکعت کی کچھ تخصیص نہیں اگر چار رکعت پڑھی جائیں تب بھی کچھ مضائقہ نہیں اگر مسجد میں آتے ہی کوئی فرض نماز پڑھی جائے یا اور کوئی سنت ادا کی جائے تو وہی فرض یا سنت تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہو جائے گی یعنی اس کے پڑھنے سے تحیۃ المسجد کا ثواب بھی مل جائے گا اگرچہ اس میں تحیۃ المسجد کی نیت نہیں کی گئی۔

مسئلہ اگر مسجد میں جا کر کوئی شخص بیٹھ جائے اور اس کے بعد تحیۃ المسجد پڑھے تب بھی کوئی حرج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے پڑھ لے۔ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد جایا کرے تو جب تک دو رکعت نماز نہ پڑھ لے نہ بیٹھے۔ مسئلہ اگر مسجد میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہو تو صرف ایک مرتبہ تحیۃ المسجد پڑھ لینا کافی ہے خواہ پہلی مرتبہ پڑھ لے یا اخیر میں۔

نوافل سفر

مسئلہ جب کوئی شخص اپنے وطن سے سفر کرنے لگے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ دو رکعت نماز گھر میں پڑھ کر سفر کرے اور جب سفر سے آئے تو مستحب ہے کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ لے اس کے بعد اپنے گھر جائے حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی اپنے گھر میں ان دو رکعتوں سے بہتر کوئی چیز نہیں چھوڑ جاتا جو سفر کرتے وقت پڑھی جاتی ہیں۔ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ لیتے تھے۔

مسئلہ مسافر کو یہ بھی مستحب ہے کہ اثنائے سفر میں جب کسی منزل پر پہنچے اور وہاں قیام کا ارادہ ہو تو قبل بیٹھنے کے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

نماز قتل

مسئلہ جب کوئی مسلمان قتل کیا جاتا ہو تو اس کو مستحب ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے گناہوں کی مغفرت کی اللہ تعالی سے دعا کرے تاکہ یہی نماز و استغفار دنیا میں اس کا آخر عمل رہے۔ حدیث ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے چند قاریوں کو قرآن مجید کی تعلیم کے لیے کہیں بھیجا تھا اثنائے راہ میں کفار مکہ نے انھیں گرفتار کیا۔ سوائے حضرت خبیب کے اور سب کو وہیں قتل کر دیا۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو مکہ میں لے جا کر بڑی دوم اور بڑے اہتمام سے شہید کیا جب یہ شہید ہونے لگے تو ان لوگوں سے اجازت لے کر دو رکعت نماز پڑھی اسی وقت سے یہ نماز مستحب ہو گئی۔

تراویح کا بیان

مسئلہ وتر کے بعد تراویح کے پڑھنا بہتر ہے اگر پڑھ لے تب بھی درست ہے۔

مسئلہ نماز تراویح میں چار رکعت کے بعد اتنی دیر تک بیٹھنا جتنی دیر میں چار رکعتیں پڑھی گئی ہیں مستحب ہے۔ ہاں اگر اتنی دیر تک بیٹھنے میں لوگوں کو تکلیف ہو اور جماعت کے کم ہو جانے کا خوف ہو تو اس سے کم بیٹھے اس بیٹھنے میں اختیار ہے چاہے تنہا نوافل پڑھے چاہے تسبیح وغیرہ پڑھے چاہے چپ بیٹھا رہے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد تراویح پڑھ چکا ہو اور بعد پڑھ چکنے کے معلوم ہو کہ عشاء کی نماز میں کوئی بات ایسی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے عشاء کی نماز نہیں ہوئی تو اس کو عشاء کی نماز کے اعادہ کے بعد تراویح کا بھی اعادہ کرنا چاہیے۔

مسئلہ اگر عشاء کی نماز جماعت سے نہ پڑھی گئی ہو تو تراویح بھی جماعت سے نہ پڑھی جائے اس لیے کہ تراویح عشاء کے تابع ہے ہاں جو لوگ جماعت سے عشاء کی نماز پڑھ کر تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہوں ان کے ساتھ شریک ہو کر اس شخص کو بھی تراویح کا جماعت سے پڑھنا درست ہو جائے گا جس نے عشاء کی نماز بغیر جماعت کے پڑھی ہے اس لیے کہ وہ ان لوگوں کا تابع سمجھا جائے گا جن کی جماعت درست ہے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص مسجد میں ایسے وقت پر پہنچے کہ عشاء کی نماز ہو چکی ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے عشاء کی نماز پڑھ لے پھر تراویح میں شریک ہو اور اگر اس درمیان میں تراویح کی کچھ رکعتیں ہو جائیں تو ان کو بعد وتر پڑھنے کے پڑھے اور یہ شخص وتر جماعت سے پڑھے۔ مسئلہ مہینے میں ایک مرتبہ قرآن مجید کا ترتیب وار ترویح میں پڑھنا سنت مؤکدہ ہے لوگوں کی کاہلی یا سستی سے اس کو ترک نہ کرنا چاہیے ہاں اگر یہ اندیشہ ہو کہ اگر پورا قرآن مجید پڑھا جائے گا تو لوگ نماز میں نہ آئیں گے اور جماعت ٹوٹ جائے گی یا ان کو بہت ناگوار ہو گا تو بہتر ہے کہ جس قدر لوگوں کو گراں نہ گزرے اسی قدر پڑھا جائے۔ الم ترکیف سے اخیر تک کی دس سورتیں پڑھ دی جائیں ہر رکعت میں ایک سورت پھر جب دس رکعتیں ہو جائیں تو انہیں سورتوں کو دوبارہ پڑھ دے یا اور جو سورتیں چاہے پڑھے۔

مسئلہ ایک قرآن مجید سے زیادہ نہ پڑھے تاوقتیکہ لوگوں کا شوق نہ معلوم ہو جائے۔

مسئلہ ایک رات میں پورے قرآن مجید کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ لوگ نہایت شوقین ہوں کہ ان کو گراں نہ گزرے اگر گراں گزرے اور ناگوار ہو تو مکروہ ہے۔

مسئلہ تراویح میں کسی سورت کے شروع میں ایک مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھ دینا چاہیے اس لیے کہ بسم اللہ بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے اگرچہ کسی سورت کا جزو نہیں پس اگر بسم اللہ بالکل نہ پڑھی جائے گی تو قرآن مجید کے پورے ہونے میں ایک آیت کی کمی رہ جائے گی۔ اور اگر آہستہ آواز سے پڑھی جائے گی تو مقتدیوں کا قرآن مجید پورا نہ ہو گا۔

مسئلہ تراویح کا رمضان کے پورے مہینے میں پڑھنا سنت ہے اگرچہ قرآن مجید قبل مہینہ تمام ہونے کے ختم ہو جائے۔ مثلاً پندرہ روز میں پورا قرآن شریف پڑھ دیا جائے تو باقی زمانہ میں بھی تراویح کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔

مسئلہ صحیح یہ ہے کہ قل ہو اللہ کا تراویح میں تین مرتبہ پڑھنا جیسا کہ آجکل دستور ہے مکروہ ہے۔

نماز کسوف و خسوف

مسئلہ کسوف سورج گرہن کے وقت دو رکعت نماز مسنون ہے۔

مسئلہ نماز کسوف جماعت سے ادا کی جائے بشرطیکہ امام جمعہ یا حاکم وقت یا اس کا نائب امامت کرے اور ایک روایت میں ہے کہ ہر امام مسجد اپنی مسجد میں نماز کسوف پڑھا سکتا ہے مسئلہ نماز کسوف کے لیے اذان یا اقامت نہیں بلکہ لوگوں کا جمع کرنا مقصود ہو تو الصلوۃ جامعۃ پکار دیا جائے۔

مسئلہ نماز کسوف میں بڑی بڑی سورتوں کا مثل سورہ بقرہ وغیرہ کا پڑھنا اور رکوع اور سجدوں کا بہت دیر تک ادا کرنا مسنون ہے اور قرأت آہستہ پڑھے۔

مسئلہ نماز کے بعد امام کو چاہیے کہ دعا میں مصروف ہو جائے اور سب مقتدی آمین آمین کہیں جب تک کہ گرہن موقوف نہ ہو جائے دعا میں مشغول رہنا چاہیے ہاں اگر ایسی حالت میں آفتاب غروب ہو جائے یا کسی نماز کا وقت آ جائے تو البتہ دعا کو موقوف کر کے نماز میں مشغول ہو جانا چاہیے۔

مسئلہ خسوف چاند گرہن کے وقت بھی دو رکعت نماز مسنون ہے مگر اس میں جماعت مسنون نہیں سب لوگ تنہا علیحدہ علیحدہ نمازیں پڑھیں اور اپنے اپنے گھروں میں پڑھیں مسجد میں جانا بھی مسنون نہیں۔

مسئلہ اسی طرح جب کوئی خوف یا مصیبت پیش آئے تو نماز پڑھنا مسنون ہے مثلاً سخت آندھی چلے یا زلزلہ آئے یا بجلی گرے یا ستارے بہت ٹوٹیں یا برف بہت گرے یا پانی بہت برسے یا کوئی مرض عام مثل ہیضے وغیرہ کے پھیل جائے یا کسی دشمن وغیرہ کا خوف ہو مگر ان اوقات میں جو نمازیں پڑھی جائیں ان میں جاعت نہ کی جائے ہر شخص اپنے اپنے گھر میں تنہا پڑھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی مصیبت یا رنج ہوتا تو نماز میں مشغول ہو جاتے۔

مسئلہ جس قدر نمازیں یہاں بیان ہو چکیں ان کے علاوہ بھی جس قدر کثرت نوافل کی جائے باعث ثواب و ترقی درجات ہے خصوصاً ان اوقات میں آج کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے اور ان میں عبادت کرنے کی ترغیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے مثل رمضان کے اخیر عشرہ کی راتوں اور شعبان کی پندرھویں تاریخ کے ان اوقات کی بہت فضیلتیں اور ان میں عبادت کا بہت ثواب احادیث میں وارد ہوا ہے ہم نے اختصار کے خیال سے ان کی تفصیل نہیں کی۔

استسقاء کی نماز کا بیان

جب پانی کی ضرورت ہو اور پانی نہ برستا ہو اس وقت اللہ تعالی سے پانی برسنے کی دعا کرنا مسنون ہے استسقاء کے لیے دعا کرنا اس طریقہ سے مستحب ہے کہ تمام مسلمان مل کر مع اپنے لڑکوں اور بوڑھوں اور جانوروں کے پا پیادہ خشوع و عاجزی کے ساتھ معمولی لباس میں جنگل کی طرف جائیں اور توبہ کی تجدید کریں اور اہل حقوق کے حقوق ادا کریں اور اپنے ہمراہ کسی کافر کو نہ لے جائیں پھر دو رکعت بلا اذان اور اقامت کے جماعت سے پڑھیں اور امام جہر سے قرأت پڑھے پھر دو خطبے پڑھے جس طرح عید کے روز کیا جاتا ہے پھر امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہو جائے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی سے پانی برسنے کی دعا کرے اور سب حاضرین بھی دعا کریں تین روز متواتر ایسا ہی کریں تین روز کے بعد نہیں کیونکہ اس سے زیادہ ثابت نہیں۔ اور اگر نکلنے سے پہلے یا ایک دن نماز پڑھ کر بارش ہو جائے تو جب بھی تین دن پورے کر دیں اور تینوں دنوں میں روزہ بھی رکھیں تو مستحب ہے اور جانے سے پہلے صدقہ خیرات کرنا بھی مستحب ہے۔

فرائض و واجبات صلوۃ کے متعلق بعض مسائل

مسئلہ مدرک پر قرأت نہیں امام کی قرات سب مقتدیوں کی طرف سے کافی ہے اور حنفیہ کے نزدیک مقتدی کو امام کے پیچھے قرات کرنا مکروہ ہے۔

مسئلہ مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتوں سے ایک یادو رکعت میں قرأت کرنا فرض ہے۔

مسئلہ حاصل یہ ہے کہ امام کے ہوتے ہوئے مقتدی کو قرأت نہ چاہیے ہاں مسبوق کے لیے چونکہ ان گئی ہوئی رکعتوں میں امام نہیں ہوتا اس لیے اس کو قرأت چاہیے۔

مسئلہ سجدے کے مقام کو پیروں کی جگہ سے آدھ گز سے زیادہ اونچا ہونا چاہیے اگر آدھ گز سے زیادہ اونچے مقام پر سجدہ کیا جائے تو درست نہیں ہاں اگر کوئی ایسی ہی ضرورت پیش آ جائے تو جائز ہے مثلاً جماعت زیادہ ہو اور لوگ اس قدر مل کر کھڑے ہوں کہ زمین پر سجدہ ممکن نہ ہو تو نماز پڑھنے والوں کی پیٹھ پر سجدہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ جس شخص کی پیٹھ پر سجدہ کیا جائے وہ بھی وہی نماز پڑھتا ہو جو سجدہ کرنے والا پڑھ رہا ہے۔

مسئلہ عیدین کی نماز میں علاوہ معمولی تکبیروں کے چھ تکبیریں کہنا واجب ہے۔

مسئلہ امام کو فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب کی اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں خواہ قضا ہوں یا ادا اور جمعہ اور عیدین اور تراویح کی نماز میں اور رمضان کے وتر میں بلند آواز سے قرأت کرنا واجب ہے۔

مسئلہ منفرد کو فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اختیار ہے کہ چاہے بلند آواز سے قرأت کرے یا آہستہ آواز سے۔ بلند آواز ہونے کی فقہاء نے یہ حد لکھی ہے کہ کوئی دوسرا شخص سن سکے اورہستہ آواز کی یہ حد لکھی ہے کہ خود سن سکے دوسرا نہ سن سکے۔

مسئلہ جو نفل نمازیں دن کو پڑھی جائیں ان میں آہستہ آواز سے قرأت کرنا چاہیے اور جو نفلیں رات کو پڑھی جائیں ان میں اختیار ہے۔

مسئلہ منفرد اگر فجر۔ مغرب عشاء کی قضاؤں میں پڑھے تو ان میں بھی اس کو آہستہ آواز سے قرأت کرنا واجب ہے اگر رات کو قضا پڑھے تو اسے اختیار ہے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص مغرب کی یا عشاء کی پہلی دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت ملانا بھول جائے تو اسے تیسری چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت پڑھنا چاہیے اور ان رکعتوں میں بھی بلند آواز سے قرأت کرنا واجب ہے اور اخیر میں سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔

نماز کی بعض سنتیں

مسئلہ تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کا اٹھانا مردوں کو کانوں تک اور عورتوں کو شانوں تک سنت ہے عذر کی حالت میں مردوں کو بھی شانوں تک ہاتھ اٹھانے میں کچھ حرج نہیں۔

مسئلہ تکبیر تحریمہ کے بعد فورا ہاتھوں کو باندھ لینا مردوں کو ناف کے نیچے اور عورتوں کو سینہ پر سنت ہے۔

مسئلہ مردوں کو اس طرح ہاتھ باندھنا کہ داہنی ہتھیلی بائیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور داہنے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے بائیں کلائی کو پکڑ لینا اور تین انگلیاں بائیں کلائی پر بچھانا سنت ہے۔

مسئلہ امام اور منفرد کو بعد سورہ فاتحہ کے ختم ہونے کے آہستہ آواز سے آمین کہنا اور قرأت بلند آواز سے ہو تب بھی سب مقتدیوں کو بھی آہستہ آمین کہنا سنت ہے۔

مسئلہ مردوں کو رکوع کی حالت میں اچھی طرح جھک جانا کہ پیٹھ اور سر اور سرین سب برابر ہو جائیں سنت ہے۔

مسئلہ رکوع میں مردوں کے دونوں ہاتھوں کا پہلو سے جدا رکھنا سنت ہے۔ قومے میں امام کو صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہنا اور مقتدی کو صرف ربنا لک الحمد کہنا اور منفرد کو دونوں کہنا سنت ہے۔

مسئلہ سجدے کی حالت میں مردوں کو اپنے پیٹ کا زانو سے اور کہنیوں کا پہلو سے علیحدہ رکھنا اور ہاتھوں کی باہوں کا زمین سے اٹھا ہوا رکھنا سنت ہے۔

مسئلہ قعدہ اولی اور اخری دونوں میں مردوں کو اس طرح بیٹھنا کہ داہنا پیر انگلیوں کے بل کھڑا ہو اور اس کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو اور بایاں پیر زمین پر بچھا ہو اور اسی پر بیٹھے ہوں اور دونوں ہاتھ زانوں پر ہوں۔ انگلیوں کے سرے گھٹنوں کی طرف ہوں یہ سنت ہے۔

مسئلہ امام کو سلام بلند آواز سے کہنا سنت ہے

مسئلہ امام کو اپنے سلام میں اپنے تمام مقتدیوں کی نیت کرنا خواہ مرد ہوں یا عورت یا لڑکے ہوں اور ساتھ رہنے والے فرشتوں کی نیت کرنا اور مقتدیوں کو اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی اور ساتھ رہنے والے فرشتوں کی اور اگر امام داہنی طرف ہو تو داہنے سلام میں اور بائیں طرف ہو تو بائیں سلام میں اور اگر محاذی ہو تو دونوں سلاموں میں امام کی بھی نیت کرنا سنت ہے

مسئلہ تکبیر تحریمہ کہتے وقت مردوں کو اپنے ہاتھوں کا آستین یا چادر وغیرہ سے باہر نکال لینا بشرطیکہ کوئی عذر مثل سردی وغیرہ کے نہ ہو سنت ہے۔

جماعت کا بیان

چونکہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب یا سنت مؤکدہ ہے اس لیے اس کا ذکر بھی نماز کے واجبات و سنن کے بعد اور مکروہات وغیرہ سے پہلے مناسب معلوم ہوا اور مسائل کے زیادہ اور قابل اہتمام ہونے کے سب سے اس کے لیے علیحدہ عنوان قائم کیا گیا جماعت کم سے کم دو آدمیوں کے مل کر نماز پڑھنے کو کہتے یں اس طرح کہ ایک شخص ان میں تابع ہو اور دوسرا متبوع۔ متبوع کو امام تابع کو مقتدی کہتے ہیں

مسئلہ امام کے سوا ایک آدمی کے شریک نماز ہو جانے سے جماعت ہو جاتی ہے خواہ وہ دو آدمی مرد ہو یا عورت۔ غلام ہو یا آزاد بالغ ہو یا سمجھدار نابالغ بچہ۔ ہاں جمعہ و عیدین کی نماز میں کم سے کم امام کے سوا تین آدمیوں کے بغیر جماعت نہیں ہوتی۔

مسئلہ جماعت کے ہونے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ فرض نماز ہو بلکہ اگر نفل بھی دو آدمی اس طرح ایک دوسرے کے تابع ہو کر پڑھیں تو جماعت ہو جائے گی خواہ امام اور مقتدی دونوں نفل پڑتے ہوں یا مقتدی نفل پڑھتا ہو۔ البتہ جماعت کی نفل کا عادی ہونا یا تین مقتدیوں سے زیادہ ہونا مکروہ ہے۔

جماعت کی فضلیت اور تاکید

جماعت کی فضیلت اور تاکید میں صحیح احادیث اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ اگر سب ایک جگہ جمع کی جائیں تو ایک بہت کافی حجم کا رسالہ تیار ہو سکتا ہے ان کے دیکھنے سے قطعاً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعت نماز کی تکمیل میں ایک اعلی درجہ کی شرط ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کو ترک نہیں فرمایا حتی کہ حالت مرض میں جب آپ کو خود چلنے کی قوت نہ تھی دو آدمیوں کے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی تارک جماعت پر آپ کو سخت غصہ آتا تھا اور ترک جماعت پر سخت سے سخت سزا دینے کو آپ کا جی چاہتا تھا۔ بے شبہ شریعت محمدیہ میں جماعت کا بہت بڑا اہتمام کیا گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ نماز جیسی عبادت کی شان بھی اسی کو چاہتی تھی کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو وہ بھی تاکید کے اعلی درجہ پر پہنچا دی جائے ہم اس مقام پر پہلے اس آیت کو لکھ کر جس سے بعض مفسرین اور فقہاء نے جماعت کو ثابت کیا ہے چند حدیثیں بیان کرتے ہیں قولہ تعالی وارکعوا مع الراکعین نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر یعنی جماعت سے۔ اس آیت میں حکم صریح جماعت سے نماز پڑھنے کا ہے مگر چونکہ رکوع کے معنی بعض مفسرین نے خضوع کے بھی لکھے ہیں لہذا فرضیت ثابت نہ ہو گی۔ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جماعت کی نماز میں تنہا نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب روایت کرتے ہیں۔

حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنہا نماز پڑھنے سے ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنا بہت بہتر ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ اور بھی بہتر ہے اور جس قدر زیادہ جماعت ہو اسی قدر اللہ تعالی کو پسند ہے حدیث انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ بنی سلمہ کے لوگوں نے ارادہ کیا کہ اپنے قدیمی مکانات سے چونکہ وہ مسجد نبوی سے دور تھے اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر قیام کریں تب ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اپنے قدموں میں جو زمین پر پڑتے ہیں ثواب نہیں سمجھتے۔ فائدہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص جتنی دور سے چل کر مسجد میں آئے گا اسی قدر زیادہ ثواب ملے گا۔ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا وقت نماز کے انتظار میں گزرتا ہے وہ سب نماز میں شمار ہوتا ہے۔ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز عشاء کے وقت اپنے ان اصحاب سے جو جماعت میں شریک تھے فرمایا کہ لوگ نماز پڑھ پڑھ کر سو رہے اور تمہارا وہ وقت جو انتظار میں گزرا سب نماز میں محسوب ہوا حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بشارت دو ان لوگوں کو جو اندھیری راتوں میں جماعت کے لیے مسجد جاتے ہیں اس بات کی کہ قیامت میں ان کے لیے پوری روشنی ہو گی۔ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت سے پڑھے اس کو نصف شب کی عبادت کا ثواب ملے گا۔ اور جو عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھے گا اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملے گا۔

حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ ایک روز آپ نے فرمایا کہ بے شک میرے دل میں یہ ارادہ ہوا کہ کسی کو حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کرے پھر اذان کا حکم دوں اور کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کے گھروں پر جاؤں جو جماعت میں نہیں آتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں۔ حدیث اک روایت میں ہے کہ اگر مجھے چھوٹے بچوں اور عورتوں کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز میں مشغول ہو جاتا اور خادموں کو حکم دیتا کہ ان کے گھروں کے مال و اسباب کو مع ان کے جلا دیں۔ مسلم عشاء کی تخصیص اس حدیث میں اس مصلحت سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ سونے کا وقت ہوتا ہے اور غالباً تمام لوگ اس وقت گھروں میں ہوتے ہیں۔ امام ترمذی اس حدیث کو لکھ کر فرماتے ہیں کہ یہی مضمون ابن مسعود اور ابودرداء اور ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے یہ سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معزز اصحاب میں ہیں حدیث ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی آبادی یا جنگل میں تین مسلمان ہوں اور جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو بے شک ان پر شطاان غالب ہو جائے گا پس اے ابو درداء جماعت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لو دیکھو بھیڑیا شیطان اس کی بکری آدمی کو کھاتا بہکاتا ہے جو اپنے گلے جماعت سے الگ ہو گئی ہو حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ جو شخص اذان سن کر جماعت میں نہ آئے اور اس کو کوئی عذر بھی نہ ہو تو اس کی وہ نماز جو تنہا پڑھی ہو قبول نہ ہو گی۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ عذر کیا ہے حضرت نے فرمایا کہ خوف یا مرض۔ اس حدیث میں خوف اور مرض کی تفصیل نہیں کی گئی۔ بعض احادیث میں کچھ تفصیل بھی ہے۔

حدیث حضرت محجن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ اتنے میں اذان ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے اور میں اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔ حضرت نے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ اے محجن تم نے جماعت سے نماز کیوں نہ پڑھی کیا تم مسلمان نہیں ہو۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان تو ہوں مگر میں اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسجد میں آؤ اور دیکھو کہ جماعت ہو رہی ہے تو لوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیا کرو اگرچہ پڑھ چکے ہو۔ ذرا اس حدیث کو غور سے دیکھو کہ نبی صلی اللہ علی وسلم نے اپنے برگزیدہ صحابی محجن رضی اللہ تعالی عنہ کو جماعت سے نماز نہ پڑھنے پر کیسی سخت اور عتاب آمیز بات کہی کہ کیا تم مسلمان نہیں ہو۔ چند حدیثیں نمونے کے طور پر ذکر ہو چکیں اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم کے اقوال سنیے کہ انہیں جماعت کا کس قدر اہتمام مد نظر تھا اور ترک جماعت کو وہ کیسا سمجھتے تھے اور کیوں نہ سمجھتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور ان کی مرضی کا ان سے زیادہ کس کو خیال ہو سکتا ہے۔ اثر اسود کہتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر تھے کہ نماز کی پابندی اور اس کی فضیلت اور تاکید کا ذکر نکلا اس پر حضرت عائشہ نے تائیداً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کا قصہ بیان کیا کہ ایک دن نماز کا وقت آیا اور اذان ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں۔ عرض کیا گیا کہ ابوبکر ایک نہات رقیق القلب آدمی ہیں جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو بے طاقت ہو جائیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے آپ نے پھر وہی فرمایا۔

پھر وہی جواب دیا گیا تب آپ نے فرمایا کہ تم ایسی باتیں کرتی ہو جیسے یوسف علیہ السلام سے مصر کی عورتیں کرتی تھیں ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ خیر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نماز پڑھانے کو نکلے اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض میں کچھ تخفیف معلوم ہوئی تو آپ دو آدمیوں کے سہارے سے نکلے میری آنکھوں میں اب تک وہ حالت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک زمین پر گھسٹتے ہوئے جاتے تھے یعنی اتنی قوت بھی نہ تھی کہ زمین سے پیر اٹھا سکیں۔ وہاں حضرت ابوبکر نماز شروع کر چکے تھے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور انہیں سے نماز پڑھوائی۔ اثر ایک دن حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سلیمان بن ابی حثمہ کو صبح کی نماز میں نہ پایا تو ان کے گھر گئے اور ان کی ماں سے پوچھا کہ آج میں نے سلیمان کو فجر کی نماز میں نہیں دیکھا انہوں نے کہا کہ وہ رات بھر نماز پڑھتے رہے اس وجہ سے اس وقت ان کو نیند گئی تب حضرت فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے فجر کی نماز جماعت سے پڑھنا زیادہ محبوب ہے بہ نسبت کہ تمام شب عبادت کروں۔ مؤطا امام مالک شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ صبح کی نماز با جماعت پڑھنے میں تہجد سے بھی زیادہ ثواب ہے اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ اگر شب بیداری نماز فجر میں مخل ہو تو ترک اس کا اولی ہے اشعتہ اللمعات۔

اثر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک ہم نے آزما لیا اپنے کو اور صحابہ کو کہ ترک جماعت نہیں کرتا مگر وہ منافق کہ جس کا نفاق کھلا ہوا ہو یا بیمار مگر بیمار بھی تو دو آدمیوں کا سہارا دے کر جماعت کے لیے حاضر ہوتے تھے بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی راہیں بتلائیں اور منجملہ ان کے نماز ہے ان مسجدوں میں جہاں اذان ہوتی ہو۔ یعنی جماعت ہوتی ہو۔ دوسری ہدایت میں ہے کہ فرمایا جسے خواہش ہو کل قیامت میں اللہ تعالی کے سامنے مسلمان جائے اسے چاہیے کہ پنج وقتی نمازوں کی پابندی کرے ان مقامات میں جہاں اذان ہوتی ہو یعنی جماعت سے نماز پڑھی جاتی ہو بے شک اللہ تعالی نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے طریقے نکالے ہیں اور یہ نماز بھی ان ہی طریقوں میں سے ہے اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرو گے جیسے کہ منافق پڑھ لیتا ہے تو بے شک تم سے چھوٹ جائے گی تمہارے نبی کی سنت اور اگر تم چھوڑ دو گے اپنے پیغمبر کی سنت کو تو بے شبہ گمراہ ہو جاؤ گے اور کوئی شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لیے مسجد نہیں جاتا مگر اس کے ہر قدم پر ایک ثواب ملتا ہے اور ایک مرتبہ عنایت ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ہم نے دیکھ لیا کہ جماعت سے الگ نہیں رہتا مگر منافق۔ ہم لوگوں کی حالت تو یہ تھی کہ بیماری کی حالت میں دو آدمیوں پر تکیہ لگا کر جماعت کے لیے جاتے تھے اور صف میں کھڑے کر دیئے جاتے تھے۔ اثر ایک مرتبہ ایک شخص مسجد سے بعد اذان کے بے نماز پڑھے ہوئے چلا گیا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اور ان کے مقدس حکم کو نہ مانا مسلم شریف دیکھو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تارک جماعت کو کیا کہا۔

کیا کسی مسلمان کو اب بھی بے عذر ترک جماعت کی جرأت ہو سکتی ہے کیا کسی ایمان دار کو حضرت ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی گوارا ہو سکتی ہے اثر حضرت ام درداء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ میرے پاس اس حال میں آئے کہ نہایت غضب ناک تھے میں نے پوچھا کہ اس وقت آپ کو کیوں غصہ آیا کہنے لگے اللہ کی قسم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اب کوئی بات نہیں دیکھتا مگر یہ کہ وہ جماعت سے نماز پڑھ لیتے ہیں یعنی اب اس کو بھی چھوڑنے لگے اثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت اصحاب سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو کوئی اذان سن کر جماعت میں نہ جائے اس کی نماز ہی نہ ہو گی یہ لکھ کر امام ترمذی لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ حکم تاکیدی ہے مقصود یہ ہے کہ بے عذر ترک جماعت جائز نہیں۔ اثر مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ جو شخص تمام دن روزے رکھتا ہو اور رات بھر نماز پڑھتا ہو مگر جمعہ اور جماعت میں نہ شریک ہوتا ہو اسے آپ کیا کہتے ہیں فرمایا کہ دوزخ میں جائے گا ترمذی امام ترمذی اس حدیث کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ جمعہ و جماعت کا مرتبہ کم سمجھ کر ترک کرے تب یہ حکم کیا جائے گا لیکن اگر دوزخ میں جانے سے مراد تھوڑے دن کے لیے جانا لیا جائے تو اس تاویل کی کچھ ضرورت نہ ہو گی۔ اثر سلف صالحین کا یہ دستور تھا کہ جس کی جماعت ترک ہو جاتی سات دن تک اس کی ماتم پرسی کرتے احیاء العلوم صحابہ کے اقوال بھی تھوڑے سے بیان ہو چکے جو درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ہیں۔

اب ذرا علمائے امت اور مجتہدین ملت کو دیکھئے کہ ان کا جماعت کی طرف کیا خیال ہے اور ان احادیث کا مطلب انہوں نے کیا سمجھا ہے ظاہر یہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بعض مقلدین کا مذہب ہے کہ جماعت نماز کے صحیح ہونے کی شرط ہے بغیر اس کے نماز نہیں ہوتی امام احمد کا صحیح مذہب یہ ہے کہ جماعت فرض عین ہے اگرچہ نماز کے صحیح ہونے کی شرط نہیں۔ امام شافعی کے بعض مقلدین کا بھی یہی مذہب ہے امام شافعی کے بعض مقلدین کا یہ مذہب ہے کہ جماعت فرض کفایہ ہے امام طحاوی جو حنفیہ میں ایک بڑے درجے کے فقیہ اور محدث ہیں ان کا بھی یہی مذہب ہے اکثر محققین حنفیہ کے نزدیک جماعت واجب ہے محقق ابن ہمام اور حلبی اور صاحب بحرالرائق وغیرہم اسی طرف ہیں بعض حنفیہ کے نزدیک جماعت سنت مؤکدہ ہے مگر واجب کے حکم میں اور درحقیقت حنفیہ کے ان دونوں قولوں میں کچھ مخالفت نہیں ہمارے فقہاء لکھتے ہیں اگر کسی شہر میں لوگ جماعت چھوڑ دیں اور کہنے سے بھی نہ مانیں تو ان سے لڑنا حلال ہے قنیہ وغیرہ میں ہے کہ بے عذر تارک جماعت کو سزا دینا امام وقت پر واجب ہے اور اس کے پڑوسی اگر اس کے فعل قبیح پر کچھ نہ بولیں تو گنہگار ہوں گے اگر مسجد جانے کے لیے اقامت سننے کا انتظار کرے تو گنہگار ہو گا یہ اس لیے کہ اگر اقامت سن کر چلا کریں گے تو ایک دو رکعت یا پوری جماعت چلے جانے کا خوف ہے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور جماعت کے لیے تیز قدم جانا درست ہے بشرطیکہ زیادہ تکلیف نہ ہو تارک جماعت ضرور گنہگار ہے اور اس کی گواہی قبول نہ کی جائے بشرطیکہ اس نے بے عذر صرف سہل انگاری سستی سے جماعت چھوڑی ہے اگر کوئی شخص دینی مسائل کے پڑھنے پڑھانے میں دن رات مشغول رہتا ہو اور جماعت میں حاضر نہ ہوتا ہو تو معذور سمجھا جائے گا اور اس کی گواہی مقبول نہ ہو گی۔

جماعت کی حکمتیں اور فائدے

اس بارے میں حضرات علماء رحمہم اللہ تعالی نے بہت کچھ بیان کیا ہے مگر جہاں تک میری نظر قاصر پہنچی ہے حضرت شاہ مولانا ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بہتر جامع اور لطیف تقریر کسی کی نہیں اگرچہ زیادہ لطف یہی تھا کہ انہی کی پاکیزہ عبارت سے وہ مضامین سنے جائیں مگر بوجہ اختصار کے میں حضرت موصوف کے کلام کا خلاصہ یہاں درج کرتا ہوں وہ فرماتے ہیں کوئی چیز اس سے زیادہ سود مند نہیں کہ کوئی عبادت رسم عام کر دی جائے یہاں تک کہ وہ عبادت ایک ضروری عبادت ہو جائے کہ اس کا چھوڑنا ترک عادت کی طرح ناممکن ہو جائے اور کوئی عبادت نماز سے زیادہ شاندار نہیں کہ اس کے ساتھ یہ خاص اہتمام کیا جائے مذہب میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہی جاہل بھی عالم بھی لہذا یہ بڑی مصلحت کی بات ہے کہ سب لوگ جمع ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اس عبادت کو ادا کریں کسی سے کچھ غلطی ہو جائے تو دوسرا اسے تعلیم کر دے گویا اللہ تعالی کی عبادت ایک زیور ہوئی کہ تمام پرکھنے والے اسے دیکھتے ہیں جو خرابی اس میں ہوتی ہے بتلا دیتے ہیں اور جو عمدگی ہوتی ہے اسے پسند کرتے ہیں پس یہ ایک عمدہ ذریعہ نماز کی تکمیل کا ہو گا جو لوگ بے نمازی ہوں گے ان کا حال بھی اس سے کھل جائے گا اور ان کو نصیحت کرنے کا موقع ملے گا چند مسلمانوں کا مل کر اللہ تعالی کی عبادت کرنا اور اس سے دعا مانگنا ایک عجیب خاصیت رکھتا ہے نزول رحمت اور قبولیت کے لیے اس امت سے اللہ تعالی کا یہ مقصود ہے کہ اس کا کلمہ بلند اور کلمہ کفر پست ہو اور زمین پر کوئی مذہب اسلام سے غالب نہ رہے اور یہ بات جب ہی ہو سکتی ہے کہ یہ طریقہ مقرر کیا جائے کہ تمام مسلمان عام اور خاص مسافر اور مقیم چھوٹے بڑے اپنی کسی بڑی اور مشہور عبادت کے لیے جمع ہوا کریں اور شان و شوکت اسلام کی ظاہر کریں ان ہی سب مصالح سے شریعت کی پوری توجہ جماعت کی طرف مصروف ہو گئی اور اس کی ترغیب  دی گئی اور اس کے چھوڑنے کی سخت ممانعت

کی گئی جماعت میں یہ فائدہ بھی ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حال پر اطلاع ہوتی رہے گی اور ایک دوسرے کے درد و مصیبت میں شریک ہو سکے گا جس سے دینی اخوت اور ایمانی محبت کا پورا اظہار و استحکام ہو گا جو اس شریعت کا ایک بڑا مقصود ہے اور جس کی تاکید اور فضیلت جا بجا قرآن عظما اور احادیث نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم میں بیان فرمائی گئی ہے افسوس ہمارے زمانے میں ترک جماعت ایک عام عادت ہو گئی ہے جاہلوں کا ذکر ہم بعضے لکھے پڑھے لوگوں کو اس بلا میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔ افسوس یہ لوگ احادیث پڑھتے ہیں اور ان کے معنی سمجھتے ہیں مگر جماعت کی سخت تاکیدیں ان کے پتھر سے زیادہ سخت دلوں پر کچھ اثر نہیں کرتیں قیامت میں جب قاضی روز جزا کے سامنے سب سے پہلے نماز کے مقدمات پیش ہوں گے اور اس کے نہ ادا کرنے والے یا ادا میں کمی کرنے والوں سے باز پرس شروع ہو گی یہ لوگ کیا جواب دیں گے۔

جماعت کے واجب ہونے کی شرطیں

مرد ہونا۔ عورتوں پر جماعت واجب نہیں بالغ ہونا نابالغ بچوں پر جماعت واجب نہیں آزاد ہونا غلام پر جماعت واجب نہیں عاقل ہونا۔ مست بیہوش۔ دیوانے پر جماعت واجب نہیں تمام عذروں سے خالی ہونا۔ ان عذروں کی حالت میں جماعت واجب نہیں مگر ادا کر لے تو بہتر ہے نہ ادا کرنے میں ثواب جماعت سے محروم رہے گا ترک جماعت کے عذر چودہ ہیں لباس بقدر ستر عورت کے نہ پایا جانا مسجد کے راستے میں سخت کیچڑ ہو کہ چلنا سخت دشوار ہو امام ابو یوسف نے حضرت امام اعظم سے پوچھا کہ کیچڑ و غیرہ کی حالت میں جماعت کے لیے آپ کیا حکم دیتے ہیں۔

فرمایا کہ جماعت کا چھوڑنا مجھے پسند نہیں پانی بہت زور سے برستا ہو ایسی حالت میں امام محمد نے مؤطا میں لکھا ہے کہ اگرچہ نہ جانا جائز ہے مگر بہت یہی ہے کہ جماعت سے جا کر نماز پڑھے سردی سخت ہونا کہ باہر نکلنے میں یا مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہو جانے کا یا بڑھ جانے کا خوف ہو مسجد جانے میں مال و اسباب کے چوری ہو جانے کا خوف ہو مسجد جانے میں کسی دشمن کے مل جانے کا خوف ہو مسجد جانے میں کسی قرض خواہ کے ملنے کا اور اس سے تکلیف پہنچنے کا خوف ہو بشرطیکہ اس کے قرض کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور اگر قادر ہو تو وہ ظالم سمجھا جائے گا اور اس کو ترک جماعت کی اجازت نہ ہو گی اندھیری رات ہو کہ راستہ نہ دکھلائی دیتا ہو لیکن اگر روشنی کا سامان خدا نے دیا ہو تو جماعت نہ چھوڑنا چاہیے رات کا وقت ہو اور آندھی بہت سخت چلتی ہو کسی مریض کی تیمار داری کرتا ہو کہ اس کے جماعت میں چلے جانے سے اس مریض کی تکلیف یا وحشت کا خوف ہو کھانا تیار ہو یا تیاری کے قریب اور بھوک ایسی لگی ہو کہ نماز میں جی نہ لگنے کا خوف ہو پیشاب یا پاخانہ زور کا معلوم ہوتا ہو سفر کا ارادہ رکھتا ہو اور خوف ہو کہ جماعت سے نماز پڑھنے میں دیر ہو جائے گی قافلہ نکل جائے گا ریل کا مسئلہ اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے مگر فرق اس قدر ہے کہ وہاں ایک قافلے کے بعد دوسرا قافلہ بہت دنوں میں ملتا ہے اور یہاں ریل ایک دن میں کئی بار جاتی ہے اگر ایک وقت کی ریل نہ ملے تو دوسرے وقت جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہی سخت حرج ہوتا ہو تو مضائقہ نہیں ہماری شریعت سے حرج اٹھا دیا گیا ہے کوئی ایسی بیماری ہو جس کی وجہ سے چل پھر نہ سکے یا نابینا ہو یا لنجا ہو یا کوئی پیر کٹا ہوا ہو لیکن جو نابینا بے تکلف مسجد تک پہنچ سکے اس کو ترک جماعت نہ چاہیے۔

جماعت کے صحیح ہونے کی شرطیں

شرط اسلام۔ کافر کی جماعت صحیح نہیں۔ شرط عاقل ہونا۔ مست بیہوش دیوانے کی جماعت صحیح نہیں۔

مسئلہ شرط مقتدی کو نماز کی نیت کے ساتھ امام کے اقتداء کی بھی نیت کرنا یعنی یہ ارادہ دل میں کرنا کہ میں اس امام کے پیچھے فلاں نماز پڑھتا ہوں نیت کا بیان اوپر بہ تفصیل ہو چکا ہے شرط امام اور مقتدی دونوں کے مکان کا متحد ہونا خواہ حقیقۃ متحد ہوں جیسے دونوں ایک ہی مسجد یا ایک ہی گھر میں کھڑے ہوں یا حکما متحد ہوں جیسے کسی دریا کے پل پر جماعت قائم کی جائے اور امام پل کے اس پار ہو مگر درمیان میں برابر صفیں کھڑی ہوں تو اس صورت میں اگرچہ امام کے اور ان مقتدیوں کے درمیان جو پل کے اس پار ہیں دریا حائل ہے اور اس وجہ سے دونوں کا مکان حقیقتہ متحد نہیں مگر چونکہ درمیان میں برابر صفیں کھڑی ہوئی ہیں اس لیے دونوں کا مکان حکما متحد سمجھا جائے گا اور اقتداء صحیح ہو جائے گی۔

مسئلہ اگر مقتدی مسجد کی چھت پر کھڑا ہو اور امام مسجد کے اندر تو درست ہے اس لیے کہ مسجد کی چھت مسجد کے حکم میں ہے اور یہ دونوں مقام حکما متحد سمجھے جائیں گے اسی طرح کسی کی چھت مسجد سے متصل ہو اور درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو تو وہ بھی حکما مسجد سے متحد سمجھی جائے گی اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر اس امام کی اقتداء کرنا جو مسجد میں نماز پڑھ رہا ہے درست ہے۔

مسئلہ اگر مسجد بہت بڑی ہو اور اسی طرح اگر گھر بہت بڑا یا جنگل ہو اور امام اور مقتدی کے درمیان اتنا خالی میدان ہو کہ جس میں دو صفیں ہو سکیں تو یہ دونوں مقام یعنی جہاں مقتدی کھڑا ہے اور جہاں امام ہے مختلف سمجھے جائیں گے اور اقتداء درست نہ ہو گی۔

مسئلہ اسی طرح اگر امام اور مقتدی کے درمیان کوئی نہر ہو جس میں ناؤ وغیرہ چل سکے یا کوئی اتنا بڑا حوض ہو جس کی طہارت کا حکم شریعت نے دیا ہو یا کوئی عام رہگزر ہو۔ جس سے بیل گاڑی وغیرہ نکل سکے اور درمیان میں صفیں نہ ہوں تو وہ دونوں متحد نہ سمجھے جائیں گے اور اقتداء درست نہ ہو گی البتہ بہت چھوٹی گول اگر حائل ہو جس کی برابر تنگ راستہ نہیں ہوتا وہ مانع اقتداء نہیں۔

مسئلہ اسی طرح اگر دو صفوں کے درمیان میں کوئی ایسی نہر یا ایسا رہگذر واقع ہو جائے تو اس صف کی اقتداء درست نہ ہو گی جو ان چیزوں کے اس پار ہے۔

مسئلہ پیادے کی اقتداء سوار کے پیچھے یا ایک سوار کی دوسرے سوار کے پیچھے صحیح نہیں اس لیے کہ دونوں کے مکان متحد نہیں ہاں اگر ایک ہی سواری پر دونوں سوار ہوں تو درست ہے۔ شرط مقتدی اور امام دونوں کی نماز کا مغایر نہ ہونا۔ اگر مقتدی کی نماز امام کی نماز سے مغایر ہو گی تو اقتداء درست نہ ہو گی۔ مثلاً امام ظہر کی نماز پڑھتا ہے اور مقتدی ظہر عصر کی نماز کی نیت کرے۔ یا امام کل کی ظہر کی قضا پڑھتا ہو اور مقتدی آج کے ظہر کی۔ ہاں اگر دونوں کل کے ظہر کی قضا پڑھتے ہوں یا دونوں آج ہی کے ظہر کی قضا پڑھتے ہوں تو درست ہے۔ البتہ اگر امام فرض پڑھتا ہو اور مقتدی نفل تو اقتداء صحیح ہے اس لیے کہ امام کی نماز قوی ہے۔

مسئلہ مقتدی اگر تراویح پڑھنا چاہے اور امام نفل پڑھتا ہو تب بھی اقتداء نہ ہو گی کیونکہ امام کی نماز ضعیف ہے۔ شرط امام کی نماز کا صحیح ہونا اگر امام کی نماز فاسد ہو گی تو سب مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی تو سب مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی خواہ یہ فساد ختم ہونے سے پہلے معلوم ہو جائے یا بعد ختم ہونے کے مثل اس کے کہ امام کے کپڑوں میں نجاست غلیظہ ایک درم سے زیادہ تھی اور بعد نماز ختم ہونے کے یا اثنائے نماز میں معلوم ہوئی یا امام کو وضو نہ تھا اور بعد نماز کے یا اثنائے نماز میں اس کو خیال آیا۔

مسئلہ امام کی نماز اگر کسی وجہ سے فاسد ہو گئی ہو اور مقتدیوں کو نہ معلوم ہو تو امام پر ضروری ہے کہ اپنے مقتدیوں کی حتی الامکان اس کی اطلاع کر دے تاکہ وہ لوگ اپنی نمازوں کا اعادہ کر لیں خواہ آدمی کے ذریعہ سے کی جائے یا خط کے ذریعہ سے شرط مقتدی کا امام سے آگے نہ کھڑا ہونا خواہ برابر کھڑا ہو یا پیچھے۔ اگر مقتدی امام سے آگے کھڑا ہو تو اس کی اقتداء درست نہ ہو گی۔ امام سے آگے کھڑا ہونا اس وقت سمجھا جائے گا کہ جب مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سےآگے ہو جائے اگر ایڑی آگے نہ ہو اور انگلیاں آگے بڑھ جائیں خواہ پیر کے بڑے ہونے کے سبب سے یا انگلیوں کے لمبے ہونے کی وجہ سے تو یہ آگے کھڑا ہونا نہ سمجھا جائے گا۔ اور اقتداء درست ہو جائے گی شرط مقتدی کو امام کے انتشالات کا مثل رکوع قومے سجدوں اور قعدوں وغیرہ کا علم ہونا خواہ امام کو دیکھ کر یا اس کی یا کسی مکبر تکبیر کہنے والے کی آواز سن کر یا کسی مقتدی کو دیکھ کر۔ اگر مقتدی کو امام کے انتقالات کا علم نہ ہو خواہ کسی چیز کے حائل ہونے کے سبب سے یا اور کسی وجہ سے تو اقتداء صحیح نہ ہو گی اور اگر کوئی حائل مثل پردے یا دیوار وغرزہ کے ہو مگر امام کے انتقالات معلوم ہوتے ہوں تو اقتداء درست ہے۔

مسئلہ اگر امام کا مسافر یا مقیم ہونا معلوم نہ ہو لیکن قرائن سے اس کے مقیم ہونا کا خیال ہو بشرطیکہ وہ شہر یا گاؤں کے اندر ہو اور نماز پڑھائے مسافر کی سی یعنی چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیرے دے اور مقتدی کو سلام سے امام کے متعلق سہو کا شبہ ہو تو اس مقتدی کو اپنی چار رکعتیں پوری کر لینے کے بعد امام کی حالت کی تحقیق کرنا واجب ہے کہ امام کو سہو ہو یا وہ مسافر تھا اگر تحقیق سے مسافر ہونا معلوم ہوا تو نماز صحیح ہو گئی اور اگر سہو کا ہونا مستحق ہوا تو نماز کا اعادہ کرے اور اگر کچھ تحقیق نہ کیا بلکہ مقتدی اسی شبہ کی حالت میں نماز پڑھ کر چلا گیا تو اس صورت میں بھی اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے

مسئلہ۔ اگر امام کے متعلق مقیم ہونے کا خیال ہے مگر وہ نماز شہر یا گاؤں میں نہیں پڑھا رہا بلکہ شہر یا گاؤں سے باہر پڑھا رہا ہے اور اس نے چار رکعت والی نماز میں مسافر کی سی نماز پڑھائی اور مقتدی کو امام کے سہو کا شبہ ہوا اس صورت میں بھی مقتدی اپنی چار رکعت پوری کر لے اور بعد نماز کے امام کا حال معلوم کر لے تو اچھا ہے۔ اگر نہ معلوم کرے تو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی کیونکہ شہر یا گاؤں سے باہر امام کا مسافر ہونا ہی ظاہر ہے اور اس کے متعلق مقتدی کا یہ خیال کہ شاید اس کو سہو ہوا ہے ظاہر کے خلاف ہے لہذا اس صورت میں تحقیق حال ضروری نہیں اسی طرح اگر امام چار رکعت والی نماز شہر یا گاؤں میں پڑھائے یا جنگل وغیرہ میں اور کسی مقتدی کو اس کے متعلق مسافر ہونے کا شبہ ہو لیکن امام نے پوری چار رکعت پڑھائیں تب بھی مقتدی کو بعد نماز کے تحقیق حال امام واجب نہیں اور فجر اور مغرب کی نماز میں کسی وقت بھی امام کے مسافر یا مقیم ہونے کی تحقیق ضروری نہیں کیونکہ ان نمازوں میں مقیم و مسافر سب برابر ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس تحقیق کی ضرورت صرف ایک صورت میں ہے جب کہ امام شہر یا گاؤں میں یا کسی جگہ چار رکعت کی نماز میں دو رکعت پڑھائے اور مقتدی کو امام پر سہو کا شبہ ہو شرط مقتدی کو تمام ارکان میں سوائے قرأت کے امام کا شریک رہنا خواہ امام کے ساتھ ادا کرے یا اس کے بعد یا اس سے پہلے بشرطیکہ اسی رکن کے اخیر تک امام اس کا شریک ہو جائے پہلی صورت کی مثال۔ امام کے ساتھ ہے۔ رکوع سجدہ وغیرہ کرے۔ دوسری صورت کی مثال امام رکوع کر کے کھڑا ہو جائے اس کے بعد مقتدی رکوع کرے۔ تیسری صورت کی مثال۔ امام سے پہلے رکوع کرے اور مقتدی رکوع نہ کرے یا امام دو سجدے کرے اور مقتدی ایک ہی سجدہ کرے یا کسی رکن کی ابتداء امام سے پہلے کی جائے اور اخیر تک امام اس میں شریک نہ ہو۔

مثلاً مقتدی امام سے پہلے رکوع میں جائے اور قبل اس کے کہ امام رکوع کرے مقتدی کھڑا ہو جائے ان دونوں صورتوں میں اقتداء درست نہ ہو گی۔ شرط مقتدی کی حالت کا امام سے کم یا برابر ہونا۔ مثال قیام کرنے والے کی اقتداء قیام سے عاجز کے پیچھے درست ہے شرع میں معذور کا قعود بمنزلہ قیام کے ہے تیمم کرنے والے کے پیچھے خواہ وضو کا ہو یا غسل کا وضو اور غسل کرنے والے کی اقتداء درست ہے اس لیے کہ تیمم اور وضو اور غسل کا حکم طہارت میں یکساں ہے کوئی کسی سے کم زیادہ نہیں مسح کرنے والے کے پیچھے خواہ موزوں پر کرتا ہو یا پٹی پر دھونے والے کی اقتداء درست ہے اس لیے کہ مسح کرنا اور دھونا دونوں ایک ہی درجے کی طہارت ہیں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں معذور کی اقتداء معذور کے پیچھے درست ہے بشرطیکہ دونوں ایک ہی عذر میں مبتلا ہوں۔ مثلاً دونوں کو سلسل بول ہو یا دونوں کو خروج ریح کا مرض ہو۔ امی کی اقتداء امی کے پیچھے درست ہے۔ بشرطیکہ مقتدیوں میں کوئی قاری نہ ہو عورت یا نابالغ کی اقتداء بالغ مرد کے پیچھے درست ہے عورت کی اقتداء عورت کے پیچھے درست ہے نابالغ عورت یا نابالغ مرد کی اقتداء نابالغ مرد کے پیچھے درست ہے۔ نفل پڑھنے والے کی اقتداء واجب پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔

مثلاً کوئی شخص ظہر کی نماز پڑھ چکا ہو اور وہ کسی ظہر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے یا عید کی نماز پڑھ چکا ہو اور وہ دوبارہ پھر نماز میں شریک ہو جائے نفل پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے قسم کی نماز پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے اس لیے کہ قسم کی نماز بھی فی نفسہ نفل ہے یعنی ایک شخص نے قسم کھائی کہ میں دو رکعت نماز پڑھوں گا اور پھر کسی متنفل کے پیچھے اس نے دو رکعت پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی اور قسم پوری ہو جائے گی نذر کی نماز پڑھنے والے کی اقتداء نذر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے بشرطیکہ دونوں کی نذر ایک ہو مثلاً ایک شخص کی نذر کے بعد دوسرا شخص کے کہ میں نے بھی اس چیز کی نذر کی جس کی فلاں شخص نے نذر کی ہے اور اگر یہ صورت نہ ہو بلکہ ایک نے دو رکعت کی مثلاً الگ نذر کی۔ اور دوسرے نے الگ تو ان میں سے کسی کو دوسرے کی اقتداء درست نہ ہو گی حاصل یہ کہ جب مقتدی امام سے کم یا برابر ہو گا تو اقتداء درست ہو جائے گی اب ہم وہ صورتیں لکھتے ہیں جن میں مقتدی امام سے زیادہ ہے خواہ یقیناً یا احتمالا اور اقتداء درست نہیں بالغ کی اقتداء خواہ مرد ہو یا عورت نا بالغ کے پیچھے درست نہیں۔ خنثی اس کو کہتے ہیں جس میں مرد اور عورت ہونے کی علامات ایسی متعارض ہوں کہ نہ اس کا مرد ہونا تحقیق ہو نہ عورت ہونا اور ایسی مخلوق شاذ و نادر ہوتی ہے جس عورت کو اپنے حیض کا زمانہ یاد نہ ہو اس کی اقتداء اسی قسم کی عورت کے پیچھے درست نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں مقتدی کا امام سے زیادہ ہونا متحمل ہے۔

اس لیے اقتداء جائز نہیں کیونکہ پہلی صورت میں جو خنثی امام ہے شاید عورت ہو اور جو خنثی مقتدی ہے شاید مرد ہو اسی طرح دوسری صورت میں جو عورت امام ہے شاید یہ زمانہ اس کے حیض کا ہو اور جو مقتدی ہے اس کی طہارت کا ہو خنثی کی اقتداء عورت کے پیچھے درست نہیں اس خیال سے کہ شاید وہ خنثی مرد ہو۔ ہوش و حواس والے کی اقتداء مجنون ہست بیہوش بے عقل کے پیچھے درست نہیں طاہر کی اقتداء معذور کے پیچھے مثل اس شخص کے جس کو سلسل بول وغیرہ کی شکایت ہو درست نہیں ایک عذر والے کی اقتداء دو عذر والے کے پیچھے درست نہیں مثلاً کسی کو صرف خروج ریح کا مرض ہو اور وہ ایسے شخص کی اقتداء کرے جس کو خروج ریح اور سلسل بول دو بیماریاں ہوں ایک طرح کے عذر والے کی اقتداء دوسری طرح کے عذر والے کے پیچھے درست نہیں مثلاً سلل بول والا ایسے شخص کی اقتداء کرے جس کو نکسیر بہنے کی شکایت ہو قاری کی اقتداء امی کے پیچھے درست نہیں۔ اور قاری وہ کہلاتا ہے جس کو اتنا قرآن صحیح یاد ہو جس سے نماز ہو جاتی ہے اور امی وہ جس کو اتنا بھی یاد نہ ہو امی کے پیچھے جبکہ مقتدیوں میں کوئی قاری موجود ہو درست نہیں کیونکہ اس صورت میں اس امام امی کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ اس لیے کہ ممکن تھا کہ وہ اس قاری کو امام کر دیتا اور اس کی قرأت سب مقتدیوں کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے اور جب امام کی نماز فاسد ہو گئی تو سب مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی جن میں وہ امی مقتدی بھی ہے۔

امی کی اقتداء گونگے کے پیچھے درست نہیں اس لیے کہ امی اگرچہ بالفعل قرأت نہیں کر سکتا مگر قادر تو ہے اس وجہ سے کہ وہ قرأت سیکھ سکتا ہے گونگے میں تو یہ قدرت بھی نہیں جس شخص کا جسم جس قدر ڈھانکنا فرض ہے چھپا ہوا ہو اس کی اقتداء برہنہ کے پیچھے درست نہیں رکوع سجود کرنے والے کی اقتداء ان دونوں سے عاجز کے پیچھے درست نہیں اور اگر کوئی شخص صرف سجدے سے عاجز ہو اس کے پیچھے بھی اقتداء درست نہیں فرض پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں۔ نذر کی نماز پڑھنے والے کی اقتداء نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں اس لیے کہ نذر کی نماز واجب ہے نذر کی نماز پڑھنے والے کی اقتداء قسم کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں مثلاً اگر کسی نے قسم کھائی کہ میں آج چار رکعت پڑھوں گا اور کسی نے چار رکعت نماز کی نذر کی تو وہ نذر کرنے والا اگر اس کے پیچھے نماز پڑھے تو درست نہ ہو گی اس لیے کہ نذر کی نماز واجب ہے اور قسم کی نفل۔ کیونکہ قسم کا پورا کرنا ہی واجب نہیں ہوتا بلکہ اس میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفارہ دے دے اور وہ نماز نہ پڑھے۔ جس شخص سے صاف حروف نہ ادا ہو سکتے ہوں مثلاً سین کو ثے یا رے کو غین پڑھتا ہو یا کسی اور حرف میں ایسا ہی تبدیل تغیر ہوتا ہو تو اس کے پیچھے صاف اور صحیح پڑھنے والے کی نماز درست نہیں۔ ہاں اگر پوری قرأت میں ایک آدھ حرف ایسا واقع ہو جائے تو اقتداء صحیح ہو جائے گی۔ شرط امام کا واجب الانفراد نہ ہونا یعنی ایسے شخص کے پیچھے اقتداء درست نہیں جس کا اس وقت منفرد رہنا ضروری ہے جیسے مسبوق کہ اس کو امام کی نماز ختم ہو جانے کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کا تنہا پڑھنا ضروری ہے پس اگر کوئی شخص کسی مسبوق کی اقتداء کرے تو درست نہ ہو گی۔

شرط امام کو کسی کا مقتدی نہ ہونا یعنی ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہیے جو خود کسی کا مقتدی ہو خواہ حقیقتہ جیسے مدرک یا حکما جیسے لاحق لاحق اپنی ان رکعتوں میں جو امام کے ساتھ اس کو نہیں ملیں مقتدی کا حکم رکھنا ہے لہذا اگر کوئی شخص کسی مدرک یا لاحق کی اقتداء کرے تو درست نہیں اسی طرح مسبوق اگر لاحق کی یا لاحق مسبوق کی اقتداء کرے تب بھی درست نہیں۔ یہ بارہ شرطیں جو ہم نے جماعت کے صحیح ہونے کی بیان کیں اگر ان میں سے کوئی شرط کسی مقتدی میں نہ پائی جائے گی تو اس کی اقتداء نہ ہو گی۔ اور جب کسی مقتدی کی اقتداء صحیح نہ ہو گئی تو اس کی وہ نماز بھی نہ ہو گی جس کو اس نے بحالت اقتداء ادا کیا ہے۔

جماعت کے احکام

مسئلہ جماعت جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں شرط ہے یعنی یہ نمازیں تنہا صحیح ہی نہیں ہوتیں۔ پنج وقتی نمازوں میں واجب ہے بشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو اور تراویح میں سنت مؤکدہ ہے اگرچہ ایک قرآن مجید جماعت کے ساتھ ہو چکا ہو اور اسی طرح نماز کسوف کے لیے اور رمضان کے وتر میں مستحب ہے سوائے رمضان کے اور کسی زمانے کے وتر میں مکروہ تنزیہی ہے۔ یعنی جبکہ مواظبت کی جائے اور اگر مواظبت نہ کی جائے بلکہ کبھی کبھی دو تین آدمی جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں اور نماز خسوف میں اور تمام نوافل میں جبکہ نوافل اس اہتمام سے ادا کی جائیں جس اہتمام سے فرائض کی جماعت ہوتی ہے یعنی اذان و اقامت کے ساتھ یا اور کسی طریقہ سے لوگوں کو جمع کر کے تو جماعت مکروہ تحریمی ہے۔

ہاں اگر بے اذان اقامت کے اور بے بلائے ہوئے دو تین آدمی جمع ہو کر کسی نفل کو جماعت سے پڑھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں اور پھر بھی دوام نہ کریں اور اسی طرح مکروہ تحریمی ہے ہر فرض کی دوسری جماعت مسجد میں ان چار شرطوں سے مسجد محلے کی ہو اور عام رہگذر پر نہ ہو اور مسجد محلے کی تعریف یہ لکھی ہے کہ وہاں کا امام اور نمازی معین ہوں پہلی جماعت بلند آواز سے اذان و اقامت کہہ کر پڑھی گئی ہو پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلے میں رہتے ہوں اور جن کو اس مسجد کے انتظامات کا اختیار حاصل ہے دوسری جماعت اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت اور اہتمام سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے اور یہ چوتھی شرط صرف امام ابو یوسف کے نزدیک ہے اور امام صاحب کے نزدیک ہیئت بدل دینے پر بھی کراہت رہتی ہے پس اگر دوسری جماعت مسجد میں نہ ادا کی جائے بلکہ گھر میں ادا کی جائے تو مکروہ نہیں اسی طرح اگر کوئی شرط ان چار شرطوں میں سے نہ پائی جائے مثلاً مسجد عام رہگذر پر ہو محلے کی نہ ہو جس کے معنی اوپر معلوم ہو چکے تو اس میں دوسری بلکہ تیسری چوتھی جماعت بھی مکروہ نہیں یا پہلی جماعت بلند آواز سے اذان اور اقامت کہہ کر نہ پڑھی گئی ہو تو دوسری جماعت مکروہ نہیں۔ یا پہلی جماعت بلند آواز سے اذان اور اقامت کہہ کر نہ پڑھی گئی ہو تو دوسری جماعت مکروہ نہیں۔ یا پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلے میں نہیں رہتے نہ ان کو مسجد کے انتظامات کا اختیار حاصل ہے یا بقول امام ابو یوسف کے دوسری جماعت اس ہیئت سے نہ ادا کی جائے جس ہیئت سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے جس جگہ پہلی جماعت کا امام کھڑا ہوا تھا دوسری جماعت کا امام وہاں سے ہٹ کر کھڑا ہو تو ہیئت بدل جائے گی اور امام ابو یوسف کے نزدیک جماعت مکروہ نہ ہو گہ۔

تنبیہ ہر چند کہ بعض لوگوں کا عمل امام ابو یوسف کے قول پر ہے لیکن امام صاحب کا قول دلیل سے بھی قوی ہے اور اس وقت دینیات میں اور خصوصاً امر جماعت میں جو تہاؤں سستی اور تکاسل ہو رہا ہے اس کا مقتضاء بھی یہی ہے کہ باوجود تبدل ہیئت کراہت پر فتوی دیا جائے ورنہ لوگ قصداً جماعت اولی کو ترک کریں گے کہ ہم اپنی دوسری کر لیں گے۔

مقتدی اور امام کے متعلق مسائل

مسئلہ مقتدیوں کو چاہیے کہ تمام حاضرین میں امامت کا لائق جس میں اچھے اوصاف زیادہ ہوں اس کو امام بنائیں اور اگر کئی شخص ایسے ہوں یا امامت کی لیاقت میں برابر ہوں تو غلبہ رائے پر عمل کریں یعنی جس شخص کی طرف زیادہ لوگوں کی رائے ہو اس کو امام بنائیں۔ اگر کسی ایسے شخص کو ہوتے ہوئے جو امام کرے زیادہ لائق ہے کسی ایسے شخص کو امام کر دیں گے جو اس سے کم لیاقت رکھتا ہے تو ترک سنت کی خرابی میں مبتلا ہوں گے۔

مسئلہ سب سے زیادہ استحقاق امامت اس شخص کو ہے جو نماز کے مسائل خوب جانتا ہو بشرطیکہ ظاہرا اس میں کوئی فسق وغیرہ کی بات نہ ہو اور جس قدر قرأت مسنون ہے اسے یاد ہو اور قرآن صحیح پڑھتا ہو پھر وہ شخص جو قرآن مجید اچھا پڑھتا ہو یعنی قرأت کے قواعد کے موافق پھر وہ شخص جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو پھر وہ شخص جو سب سے زیادہ عمر رکھتا ہو۔ پھر وہ شخص جو سب میں زیادہ خلیق ہو پھر وہ شخص جو سب میں زیادہ خوبصورت ہو پھر وہ شخص جو سب میں زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز سب سے عمدہ ہو پھر وہ شخص جو عمدہ لباس پہنے ہو پھر وہ شخص جس کا سر سب سے بڑا ہو مگر تناسب کے ساتھ۔ پھر وہ شخص جو مقیم ہو بہ نسبت مسافروں کے پھر وہ شخص جو اصلی زاد ہو پھر وہ شخص جس نے حدث اصغر سے تیمم کیا ہو بہ نسبت اس کے جس نے حدث اکبر سے تیمم کیا ہو۔ اور بعض کے نزدیک حدث اکبر سے تیمم کرنے والا مقدم ہے۔ اور جس شخص میں دو وصف پائیں جائیں وہ زیادہ مستحق ہے بہ نسبت اس کے جس میں ایک ہی وصف پایا جاتا ہو مثلاً وہ شخص جو نماز کے مسائل بھی جانتا ہو اور قرآن مجید بھی اچھا پڑھتا ہو زیادہ مستحق ہے یہ نسبت اس کے جو صرف نماز کے مسائل جانتا ہو اور قرآن مجید اچھا نہ پڑھتا ہو

مسئلہ اگر کسی کے گھر میں جماعت کی جائے تو صاحب خانہ امامت کے لیے زیادہ مستحق ہے اس کے بعد وہ شخص جس کو وہ امام بنائے۔ ہاں اگر صاحب خانہ بالکل جاہل ہو اور دوسے لوگ مال سے واقف ہوں تو پھر ان ہی کو استحقاق ہو گا۔

مسئلہ جس مسجد میں کوئی امام مقرر ہو اس مسجد میں اس کے ہوتے ہوئے دوسرے کو امام کا استحقاق نہیں۔ ہاں اگر وہ کسی دوسرے کو امام بنا دے تو پھر مضائقہ نہیں۔

مسئلہ قاضی یعنی حاکم شرع یا بادشاہ اسلام کے ہوتے ہوئے دوسرے کو امامت کا استحقاق نہیں۔

مسئلہ بے رضا مندی قوم کے امامت کرنا مکروہ تحریمی ہے ہاں اگر وہ شخص سب سے زیادہ استحقاق امامت رکھتا ہو یعنی امامت کے اوصاف اس کے برابر کسی میں نہ پائے جائیں تو پھر اس کے اوپر کچھ کراہت نہیں بلکہ جو اس کی امامت سے ناراض ہو وہی غلطی پر ہے۔

مسئلہ فاسق اور بدعتی کا امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ہاں اگر خدانخواستہ ایسے لوگوں کے سوا کوئی دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں۔ اسی طرح اگر بدعتی و فاسق زور دار ہوں کہ ان کے معزول کرنے پر قدرت نہ ہو یا فتنہ عظیم برپا ہوتا ہو تو بھی مقتدیوں پر کراہت نہیں۔

مسئلہ غلام کا یعنی جو فقہ کے قاعدے سے غلام ہو وہ نہیں جو قحط وغیرہ میں خرید لیا جائے اس کا امام بنانا اگرچہ وہ زاد شدہ ہو اور گنوار یعنی گاؤں کا رہنے والے کا اور نابینا کا جو پاکی ناپاکی کی احتیاط نہ رکھتا ہو یا ایسے شخص کا جسے رات کو کم نظر آتا ہو اور ولد الزنا یعنی حرامی کا امام بنانا مکروہ تنزیہی ہے۔ ہاں اگر یہ لوگ صاحب علم و فضل ہوں اور لوگوں کو ان کا امام بنانا ناگوار نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں۔ اسی طرح کسی ایسے حسین نوجوان کو امام بنانا جس کی ڈاڑھی نہ نکلی ہو اور بے عقل کو امام بنانا مکروہ تنزیہی ہے۔

مسئلہ نماز کے فرائض اور واجبات میں تمام مقتدیوں کو امام کی موافقت کرنا واجب ہے ہاں سنن وغیرہ میں موافقت کرنا واجب نہیں پس اگر امام شافعی المذہب ہو اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو اٹھائے تو حنفی مقتدیوں کو ہاتھوں کا اٹھانا ضروری نہیں اس لیے کہ ہاتھوں کا اٹھانا ان کے نزدیک بھی سنت ہے اسی طرح فجر کی نماز میں شافعی مذہب قنوت پڑھے گا تو حنفی مقتدیوں کو ضروری نہیں ہاں وتر میں البتہ چونکہ قنوت پڑھنا واجب ہے لہذا اگر شافعی امام اپنے مذہب کے موافق بعد رکوع کو پڑھے تو حنفی مقتدیوں کو بھی بعد رکوع کے پڑھنا چاہیے۔

مسئلہ امام کو نماز میں زیادہ بڑی بڑی سورتیں پڑھنا جو مقدار مسنون سے بھی زیادہ ہوں یا رکوع سجدے وغیرہ میں بہت زیادہ دیر تک رہنا مکروہ تحریمی ہے بلکہ امام کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کی حاجت اور ضرورت اور ضعف وغیرہ کا خیال رکھے جو سب میں زیادہ صاحب ضرورت ہو اس کی رعایت کر کے قرأت وغیرہ کرے بلکہ زیادہ ضرورت کے وقت مقدار مسنون سے بھی کم قرأت کرنا بہتر ہے تاکہ لوگوں کا حرج نہ ہو جو قلت جماعت کا سبب ہو جائے۔

مسئلہ اگر ایک ہی مقتدی ہو اور وہ مرد ہو یا نابالغ لڑکا تو اس کو امام کے داہنی جانب امام کے برابر یا کچھ پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونا چاہیے اگر بائیں جانب امام کے پیچھے کھڑا ہو تو مکروہ ہے۔

مسئلہ اور اگر ایک سے زیادہ مقتدی ہوں تو ان کو امام کے پیچھے صف باندھ کر کھڑا ہونا چاہیے اگر امام کے داہنے بائیں جانب کھڑے ہوں اور دو ہوں تو مکروہ تنزیہی ہے اور اگر دو سے زیادہ ہوں تو مکروہ تحریمی ہے اس لیے کہ جب دو سے زیادہ مقتدی ہوں تو امام کا آگے کھڑا ہونا واجب ہے

مسئلہ اگر نماز شروع کرتے وقت ایک ہی مرد مقتدی تھا اور وہ امام کے داہنے جانب کھڑا ہوا اس کے بعد اور مقتدی گئے تو پہلے مقتدی کو چاہیے کہ پیچھے ہٹ آئے تا کہ سب مقتدی مل کر امام کے پیچھے کھڑے ہوں اگر وہ نہ ہٹے تو ان مقتدیوں کو چاہیے کہ پیچھے ہٹ آئے تاکہ سب مقتدی مل کر امام کے پیچھے کھڑے ہوں اگر وہ نہ ہٹے تو ان مقتدیوں کو چاہیے کہ اس کو کھینچ لیں اور اگر نادانستگی سے وہ مقتدی امام کے داہنے یا بائیں جانب کھڑے ہو جائے پہلے مقتدی کو پیچھے نہ ہٹائیں تو امام کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ جائے تاکہ وہ مقتدی سب مل جائیں اور امام کے پیچھے ہو جائیں اسی طرح اگر پیچھے ہٹنے کی جگہ نہ ہو تو تب بھی امام ہی کو چاہے کہ آگے بڑھ جائے لیکن اگر مقتدی مسائل سے ناواقف ہوں جیسا ہمارے زمانے میں غالب ہے تو اس کو ہٹانا مناسب نہیں کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جس سے نماز ہی غارت ہو

مسئلہ اگر مقتدی عورت ہو یا نابالغ لڑکی تو اس کو چاہیے کہ امام کے پیچھے کھڑی ہو خواہ ایک ہو یا ایک سے زائد۔

مسئلہ اگر مقتدیوں میں مختلف قسم کے لوگ ہوں کچھ مرد کچھ عورت کچھ نابالغ تو امام کو چاہیے کہ اس ترتیب سے ان کی صفیں قائم کرے پہلے مردوں کی صفیں بھر نابالغ لڑکوں کی پھر نابالغ لڑکیوں کی۔

مسئلہ امام کو چاہیے کہ صفیں سیدھی کرے یعنی صف میں لوگوں کو آگے پیچھے ہونے سے منع کرے سب کو برابر کھڑے ہونے کا حکم دے۔ صف میں ایک کو دوسرے سے مل کر کھڑا ہونا چاہیے درمیان میں خالی جگہ نہ رہنا چاہیے۔

مسئلہ تنہا ایک شخص کا صف کے پیچھے کھڑا ہونا مکروہ ہے بلکہ ایسی حالت میں چاہیے کہ اگلی صف سے کسی آدمی کو کھینچ کر اپنے ہمراہ کھڑا کر لیں کھینچنے میں اگر احتمال ہو کہ وہ اپنی نماز خراب کر لے گا یا برا مانے گا تو جانے دے۔

مسئلہ پہلی صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔

مسئلہ مرد کو صرف عورتوں کی امامت کرنا ایسی جگہ مکروہ تحریمی ہے جہاں کوئی مرد نہ ہو نہ کوئی محرم عورت مثل اس کی زوجہ یا ماں بہن وغیرہ کے موجود ہو ہاں اگر کوئی مرد یا محرم عورت موجود ہو تو پھر مکروہ نہیں

مسئلہ اگر کوئی شخص تنہا فجر یا مغرب یا عشاء کا فرض آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اسی اثناء میں کوئی شخص اس کی اقتداء کرے تو اس میں دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ یہ شخص دل میں قصد کر لے کہ میں اب امام بنتا ہوں تا کہ نماز جماعت سے ہو جائے۔ دوسری صورت یہ کہ قصد نہ کرے بلکہ بدستور اپنے کو یہی سمجھے کہ گویہ میرے پیچھے کھڑا ہوا لیکن میں امام نہیں بنتا بلکہ بدستور تنہا پڑھتا ہوں پس پہلی صورت میں تو اس پر اسی جگہ سے بلند آواز سے قرأت کرنا واجب ہے پس اگر سورہ فاتحہ یا کسی قدر دوسری سورت بھی آہستہ آواز سے پڑھ چکا ہو تو اس کو چاہیے کہ اسی جگہ س بقیہ فاتحہ یا بقیہ سورت کو بلند آواز سے پڑھے اس لیے کہ امام کو فجر و مغرب و عشاء کے وقت بلند آواز سے قرأت کرنا واجب ہے اور دوسری صورت میں بلند آواز سے پڑھنا واجب نہیں اور اس مقتدی کی نماز بھی درست رہے گی کیونکہ صحت صلوۃ مقتدی کے لیے امام کا نیت امامت کرنا ضروری نہیں۔

مسئلہ امام کو اور ایسا ہی منفرد کو جبکہ وہ گھر یا میدان میں نماز پڑھتا ہو مستحب ہے کہ اپنی ابرو کے سامنے خواہ داہنی جانب یا بائیں جانب کوئی ایسی چیز کھڑی کر لے جو ایک ہاتھ یا اس سے زیادہ اونچی اور ایک انگلی کے برابر موٹی ہو ہاں اگر مسجد میں نماز پڑھتا ہو یا ایسے مقام میں جہاں لوگوں کا نماز کے سامنے سے گزر نہ ہوتا ہو تو اس کی کچھ ضرورت نہیں اور امام کا سترہ تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہے بعد سترہ قائم ہو جانے کے سترہ کے آگے سے نکل جانے میں کچھ گناہ نہیں لیکن اگر سترہ کے اندر کوئی شخص نکلے گا تو وہ گنہگار ہو گا۔

مسئلہ لاحق وہ مقتدی ہے جس کی کچھ رکعتیں یا سب رکعتیں بعد شریک جماعت ہونے کے جاتی رہیں خواہ بعذر مثلاً نماز میں سو جائے اور اس درمیان میں کوئی رکعت وغیرہ جاتی رہے یا لوگوں کی کثرت سے رکوع سجدے وغیرہ نہ کر سکے یا وضو ٹوٹ جائے اور وضو کرنے کے لیے جائے اور اس درمیان میں اس کی رکعتیں جاتی رہیں نماز خوف میں پہلا گروہ وہ لاحق ہے اسی طرح جو مقیم مسافر کی اقتداء کرے اور مسافر قصر کرے تو وہ مقیم بعد امام کے نماز ختم کرنے کے لاحق ہے یا بے عذر جاتی رہیں مثلاً امام سے پہلے کسی رکعت کا رکوع سجدہ کر لے اور اس وجہ سے رکعت اس کی کالعدم سمجھی جائے تو اس رکعت کے اعتبار سے وہ لاحق سمجھا جائے گا۔ پس لاحق کو واجب ہے کہ پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو اس کی جاتی رہی ہیں بعد ان کے ادا کرنے کے اگر جماعت باقی ہو تو شریک ہو جائے ورنہ باقی نماز بھی پڑھ لے۔

مسئلہ لاحق اپنی گئی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے گا۔ یعنی جیسے مقتدی قرأت نہیں کرتا ویسے ہی لاحق بھی قرأت نہ کرے بلکہ سکوت کیے ہوئے کھڑا رہے اور جیسے مقتدی کو اگر سہو ہو جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہوتی ویسے ہی لاحق کو بھی

مسئلہ مسبوق یعنی جس کی ایک دو رکعت رہ گئی ہو اس کو چاہیے کہ پہلے امام کے ساتھ شریک ہو کر جس قدر نماز باقی ہو جماعت سے ادا کرے بعد امام کی نماز ختم ہونے کے کھڑا ہو جائے اور اپنی گئی ہوئی رکعتوں کو ادا کرے۔

مسئلہ مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتیں منفرد کی طرح قرأت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اور اگر ان رکعتوں میں کوئی سہو ہو جائے تو اس کو سجدہ سہو بھی کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتیں اس ترتیب سے ادا کرنا چاہیے کہ پہلے قرأت والی پھر بے قرأت کی اور جو رکعتیں امام کے ساتھ پڑھ چکا ہے ان کے حساب سے قعدہ کرے یعنی ان رکعتوں کے حساب سے جو دوسری ہو اس میں پہلا قعدہ کرے جو تیسری رکعت ہو اور نماز تین رکعت والی ہو تو اس میں اخیر قعدہ کرے وعلی ہذا القیاس۔ مثال ظہر کی نماز میں تین رکعت ہو جانے کے بعد کوئی شخص شریک ہو اس کو چاہیے کہ بعد امام کے سلام پھیر دینے کے کھڑا ہو جائے اور گئی ہوئی تین رکعتیں اس ترتیب سے ادا کرے پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملا کر رکوع سجدہ کر کے پہلا قعدہ کرے اس لیے کہ یہ رکعت اس ملی ہوئی رکعت کے حساب سے دوسری ہے پھر دوسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے اور اس کے بعد قعدہ نہ کرے اس لیے کہ یہ رکعت اس ملی ہوئی رکعت کے حساب سے تیسری ہے پھر تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت نہ ملائے کیونکہ یہ رکعت قرأت کی نہ تھی اور اس میں قعدہ کرے کہ یہ قعدہ اخیر ہے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص لاحق بھی ہو اور مسبوق بھی مثلاً کچھ رکعتیں ہو جانے کے بعد شریک ہوا ہو اور بعد شرکت کے پھر کچھ رکعتیں اس کی چلی جائیں تو اس کو چاہیے کہ پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو بعد شرکت کے گئی ہیں جن میں وہ لاحق ہے مگر ان کے ادا کرنے میں اپنے کو ایسا سمجھے جیسا وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے یعنی قرأت نہ کرے اور امام کی ترتیب کا لحاظ رکھے اس کے بعد اگر جماعت باقی ہو تو اس میں شریک ہو جائے ورنہ باقی نماز بھی پڑھ لے بعد اس کے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جن میں مسبوق ہے۔ مثال عصر کی نماز میں ایک رکعت ہو جانے کے بعد کوئی شخص شریک ہوا اور شریک ہونے کے بعد ہی اس کا وضو ٹوٹ گیا اور وضو کرنے گیا اس درمیان میں نماز ختم ہو گئی تو اس کو چاہیے کہ پہلے ان تینوں رکعتوں کو ادا کرے جو بعد شریک ہونے کے گئی ہیں پھر اس رکعت کو جو اس کے شریک ہونے سے پہلے ہو چکی تھی اور ان تینوں رکعتوں کو مقتدی کی طرح ادا کرے یعنی قرأت نہ کرے اور ان تین کی پہلی رکعت میں قعدہ کرے اس لیے کہ یہ امام کی دوسری رکعت ہے اور امام نے اس میں قعدہ کیا تھا۔ پھردوسری رکعت میں قعدہ نہ کرے اس لیے کہ یہ امام کی تیسری رکعت ہے پھر تیسری رکعت میں قعدہ کرے اس لیے کہ یہ امام کی چوتھی رکعت ہے اور اس رکعت میں امام نے قعدہ کیا تھا پھر اس رکعت کو ادا کرے جو اس کے شریک ہونے سے پہلے ہو چکی تھی اور اس میں بھی قعدہ کرے اس لیے کہ یہ اس کی چوتھی رکعتوں کے ادا کرنے میں منفرد کا حکم رکھتا ہے۔

مسئلہ مقتدیوں کو ہر رکن کا امام کے ساتھ ہی بلا تاخیر ادا کرنا سنت ہے۔ تحریمہ بھی امام کے تحریمہ کے ساتھ کریں رکوع بھی امام کے ساتھ قومہ بھی اس کے قومے کے ساتھ سجدہ بھی اس کے سجدے کے ساتھ۔ غرضیکہ ہر فعل اس کے ہر فعل کے ساتھ۔ ہاں اگر قعدہ اولی میں امام قبل اس کے کھڑا ہو جائے کہ مقتدی التحیات تمام کریں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ التحیات تمام کر کے کھڑے ہوں اسی طرح قعدہ اخیرہ میں اگر امام قبل اس کے کہ مقتدی التحیات تمام کریں سلام پھیر دے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ التحیات تمام کر کے سلام پھیریں۔ ہاں رکوع سجدہ وغیرہ میں اگر مقتدیوں نے تسبیح نہ پڑھی ہو تو بھی امام کے ساتھ ہی کھڑا ہونا چاہیے۔

جماعت میں شامل ہونے نہ ہونے کے مسائل

مسئلہ اگر کوئی شخص اپنے محلے یا مکان کے قریب مسجد میں ایسے وقت پہنچا کہ وہاں جماعت ہو چکی ہو تو اس کو مستحب ہے کہ دوسری مسجد میں بتلاشی جماعت جائے اور یہ بھی اختیار ہے کہ اپنے گھر میں واپس کر گھر کے آدمیوں کو جمع کر کے جماعت کرے

مسئلہ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں فرض نماز تنہا پڑھ چکا ہو اس کے بعد دیکھے کہ وہی فرض جماعت سے ہو رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ جماعت میں شریک ہو جائے بشرطیکہ ظہر عشاء کا وقت ہو اور فجر عصر مغرب کے وقت شریک جماعت نہ ہو اس لیے کہ فجر عصر کی نماز کے بعد نفل نماز مکروہ ہے اور مغرب کے وقت اس لیے کہ یہ دوسری نماز نفل ہو گی اور نفل میں تین رکعت منقول نہیں۔

مسئلہ اگر کوئی شخص فرض نماز شروع کر چکا ہو اور اسی حالت میں فرض جماعت سے ہونے لگے تو اگر وہ فرض دو رکعت والا ہے جیسی فجر کی نماز تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تو اس نماز کو قطع کر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا ہو اور دوسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تو بھی قطع کر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا ہو اور دوسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تو بھی قطع کر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا ہو تو دونوں رکعت پوری کر لے اور اگر وہ فرض تین رکعت والا ہو جیسے مغرب کا تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر دوسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تو قطع کر دے اور اگر دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا ہو تو اپنی نماز کو پوری کرلے اور بعد میں جماعت کے اندر شریک نہ ہو کیونکہ نفل تین رکعت کے ساتھ جائز نہیں اور اگر وہ فرض چار رکعت والا ہو جیسے ظہر۔ عصر و عشاء تو اگر پہلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تو قطع کر دے اور اگر سجدہ کر لیا ہو تو دو رکعت پر التحیات وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے اور جماعت میں مل جائے اور اگر تیسری رکعت شروع کر دی ہو اور اس کا سجدہ نہ کیا ہو تو قطع کر دے اور اگر سجدہ کر لیا ہو تو پوری کر لے اور جن صورتوں میں نماز پوری کر لی جائے ان میں سے مغرب اور فجر اور عصر میں تو دوبارہ شریک جماعت نہ ہو اور ظہر اور عشاء میں شریک ہو جائے اور جن صورتوں میں قطع کرنا ہو کھڑے کھڑے ایک سلام پھیر دے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص نفل نماز شروع کر چکا ہو اور فرض جماعت سے ہونے لگے تو نفل نماز کو نہ توڑے بلکہ اس کو چاہیے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اگرچہ چار رکعت کی نیت ہو۔

مسئلہ ظہر اور جمعہ کی سنت مؤکدہ اگر شروع کر چکا ہو اور فرض ہونے لگے تو ظاہر مذہب یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیر کر شریک جماعت ہو جائے اور بہت سے فقہاء کے نزدیک راحج یہ ہے کہ چار رکعت پوری کر لے اور اگر تیسری رکعت شروع کر دی تو اب چار کا پورا کرنا ضروری ہے

مسئلہ اگر فرض نماز ہو رہی ہو تو پھر سنت وغیرہ نہ شروع کی جائے بشرطیکہ کسی رکعت کے چلے جانے کا خوف ہو۔ ہاں اگر یقین یا گمان غالب ہو کہ کوئی رکعت نہ جانے پائے گی تو پڑھ لے مثلاً ظہر کے وقت جب فرض شروع ہو جائے اور خوف ہو کہ سنت پڑھنے سے کوئی رکعت فرض کی جاتی رہے گی تو پھر سنتیں مؤکدہ جو فرض سے پہلے پڑھی جاتی ہیں چھوڑ دے پھر ظہر اور جمعہ میں بعد فرض کے بہتر یہ ہے کہ بعد والی سنت مؤکدہ اول پڑھ کر ان سنتوں کو پڑھ لے مگر فجر کی سنتیں چونکہ زیادہ مؤکدہ ہیں لہذا ان کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر فرض شروع ہو چکا ہو تب بھی ادا کر لی جائیں بشرطیکہ ایک رکعت مل جانے کی امید ہو اور اگر ایک رکعت کے ملنے کی بھی امید نہ ہو تو پھر نہ پڑھے اور پھر اگر چاہے بعد سورج نکلنے کے پڑھے۔

مسئلہ اگر یہ خوف ہو کہ فجر کی سنت اگر نماز کے سنن اور مستحبات وغیرہ کی پابندی سے ادا کی جائے گی تو جماعت نہ ملے گی تو ایسی حالت میں چاہیے کہ صرف فرائض اور واجبات پر اقتصار کرے سنن وغیرہ کو چھوڑ دے۔

مسئلہ فرض ہونے کی حالت میں جو سنتیں پڑھی جائیں خواہ فجر کی ہوں یا کسی اور وقت کی وہ ایسے مقام پر پڑھی جائیں جو مسجد سے علیحدہ ہو اس لیے کہ جہاں فرض نماز ہوتی ہو پھر کوئی دوسری نماز وہاں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور اگر کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو صف سے علیحدہ مسجد کے کسی گوشے میں پڑھ لے۔

مسئلہ اگر جماعت کا قعدہ مل جائے اور رکعتیں نہ ملیں تب بھی جماعت کا ثواب مل جائے گا۔

مسئلہ جس رکعت کا رکوع امام کے ساتھ مل جائے تو سمجھا جائے گا کہ وہ رکعت مل گئی۔ ہاں اگر رکوع نہ ملے تو پھر اس رکعت کا شمار ملنے میں نہ ہو گا۔

نماز جن چیزوں سے فاسد ہوتی ہے

مسئلہ حالت نماز میں اپنے امام کے سوا کسی کو لقمہ دینا یعنی قرآن مجید کے غلط پڑھنے پر آگاہ کرنا مفسد نماز ہے۔ تنبیہ چونکہ لقمہ دینے کا مسئلہ فقہا کے درمیان میں اختلافی ہے بعض علماء نے اس مسئلہ پر مستقل رسالے تصنیف کیے ہیں اس لیے ہم چند جزئیات اس کی اس مقام پر ذکر کرتے ہیں۔ مسئلہ صحیح یہ ہے کہ مقتدی اگر اپنے امام کو لقمہ دے تو نماز فاسد نہ ہو گی خواہ امام بقدر ضرورت قرأت کر چکا ہو یا نہیں۔ قدر ضرورت سے وہ مقدار قرأت کی مقصود ہے جو مسنون ہے البتہ ایسی صورت میں امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ رکوع کر دے جیسا اس سے اگلے مسئلہ میں آتا ہے۔

مسئلہ امام اگر بقدر ضرورت قرأت کر چکا ہو تو اس کو چاہیے کہ رکوع کر دے مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور نہ کرے ایسا مجبور کرنا مکروہ ہے اور مقتدیوں کو چاہیے کہ جب تک ضرورت شدید نہ پیش آئے امام کو لقمہ نہ دیں یہ بھی مکروہ ہے ضرورت شدیدہ سے مراد یہ ہے کہ مثلاً امام غلط پڑھ کر آگے پڑھنا چاہتا ہو یا رکوع نہ کرتا ہو یا سکوت کر کے کھڑا ہو جائے۔ اور اگر بلا ضرورت شدیدہ بھی بتلا دیا تب بھی نماز فاسد نہ ہو گی جیسا اس سے اوپر مسئلے میں گذرا۔

مسئلہ اگر کوئی شخص کسی نماز پڑھنے والے کو لقمہ دے اور وہ لقمہ دینے والا اس کا مقتدی نہ ہو خواہ وہ بھی نماز میں ہو یا نہیں تو یہ شخص اگر لقمہ لے لے گا تو اس لقمہ لینے والے کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ ہاں اگر اس کو خود بخود یاد آ جائے خواہ اس کو لقمہ دینے کے ساتھ ہی یا پہلے یا پیچھے اس کو لقمہ دینے کو کچھ دخل نہ ہو اور اپنی یاد پر اعتماد کر کے پڑھے تو جس کو لقمہ دیا گیا ہے اس کی نماز میں فساد نہ آئے گا۔

مسئلہ اگر کوئی نماز پڑھنے والا کسی ایسے شخص کو لقمہ دے جو اس کا امام نہیں خواہ وہ بھی نماز میں ہو یا نہیں ہر حال میں اس لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

مسئلہ مقتدی اگر کسی دوسرے شخص کا پڑھنا سن کر یا قرآن مجید میں دیکھ کر امام کو لقمہ دے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی اور امام اگر لے لے گا تو اس کی نماز بھی۔ اور اگر مقتدی کو قرآن میں دیکھ کر یا دوسرے سے سن کر خود بھی یاد آ گیا اور پھر اپنی یاد پر لقمہ دیا تو نماز فاسد نہ ہو گی۔

مسئلہ اسی طرح اگر حالت نماز میں قرآن مجید دیکھ کر ایک آیت قرأت کی جائے تب بھی نماز فاسد ہو جائے گی۔ اور اگر وہ آیت جو دیکھ کر پڑھی ہے اس کو پہلے سے یاد تھی تو نماز فاسد نہ ہو گی۔ یا پہلے سے یاد تو نہ تھی مگر ایک آیت سے کم دیکھ کر پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی۔

مسئلہ عورت کا مرد کے ساتھ اس طرح کھڑا ہو جانا کہ ایک کا کوئی عضو دوسرے کے کسی عضو کے مقابل ہو جائے ان شرطوں سے نماز کو فاسد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہاں تک کہ اگر سجدے میں جانے کے وقت عورت کا سر مرد کے پاؤں کے محاذی ہو جائے تب بھی نماز جاتی رہے گی۔ عورت بالغ ہو چکی ہو خواہ جوان ہو یا بوڑھی یا نابالغ ہو مگر قابل جماع ہو تو اگر کوئی کمسن نابالغ لڑکی نماز میں محاذی ہو جائے تو نماز فاسد نہ ہو گی دونوں نماز میں ہوں پس اگر ایک نماز میں ہو دوسرا نہ ہو تو اس محاذات سے نماز فاسد نہ ہو گی کوئی حائل درمیان میں نہ ہو پس اگر کوئی پردہ درمیان میں ہو یا کوئی سترہ حال ہو یا بیچ میں اتنی جگہ چھوٹی ہو جس میں ایک آدمی بے تکلف کھڑا ہو سکے تو بھی فاسد نہ ہو گی۔ عورت میں نماز کے صحیح ہونے کی شرطیں پائی جاتی ہیں۔ پس اگر عورت مجنون ہو یا حالت حیض و نفاس میں ہو تو اس کی محاذات سے نماز فاسد نہ ہو گی اس لیے کہ ان صورتوں میں وہ خود نماز میں نہ سمجھی جائے گی نماز جنازے کی نہ ہو پس جنازے کی نماز میں محاذات مفسد نہیں محاذات بقدر ایک رکن کے باقی رہے گی اس سے کم محاذات رہے تو مفسد نہیں۔ مثلاً اتنی دیر تک محاذات رہے کہ جس میں رکوع وغیرہ نہیں ہو سکتا اس کے بعد جاتی رہے تو اس قلیل محاذات سے نماز میں فساد نہ آئے گا۔ تحریمہ دونوں کی ایک ہو یعنی یہ عورت اس مرد کی مقتدی ہو یا دونوں کسی تیسرے کے مقتدی ہوں امام نے اس عورت کی امامت کی نیت نماز شروع کرتے وقت یا درمیان میں جب وہ آ کر ملی ہو اگر امام نے اس کی امامت کی نیت نہ کی ہو تو پھر اس محاذات سے نماز فاسد نہ ہو گی بلکہ اسی عورت کی نماز صحیح نہ ہو گی۔

مسئلہ اگر امام بعد حدث کے لیے خلیفہ کیے ہوئے مسجد سے باہر نکل گا تو مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

مسئلہ امام نے کسی ایسے شخص کو خلیفہ کر دیا جس میں امامت کی صلاحیت نہیں مثلاً کسی مجنون یا نابالغ بچے کو یا کسی عورت کو تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

مسئلہ اگر مرد نماز میں ہو اور عورت اس مرد کا اسی حالت نماز میں بوسہ لے تو اس مرد کی نماز فاسد نہ ہو گی۔ ہاں اگر اس کے بوسہ لیتے وقت مرد کو شہوت ہو گئی ہو تو البتہ نماز فاسد ہو جائے گی۔ اور اگر عورت نماز میں ہو اور کوئی مرد اس کا بوسہ لے لے تو عورت کی نماز جاتی رہے گی خواہ مرد نے شہوت سے بوسہ لیا ہو یا بلا شہوت اور خواہ عورت کو شہوت ہوئی ہو یا نہیں

مسئلہ اگر کوئی شخص نمازی کے سامنے سے نکلنا چاہے تو حالت نماز میں اس سے مزاحمت کرنا اور اس کو اس فعل سے باز رکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس روکنے میں عمل کثیر نہ ہو اور اگر عمل کثیر ہو گیا تو نماز فاسد ہو گئی۔

نماز جن چیزوں سے مکروہ ہو جاتی ہے

مسئلہ۔ حالت نماز میں کپڑے کا خلاف دستور پہننا یعنی جو طریقہ اس کے پہننے کا ہو اور جس طریقے سے اس کو اہل تہذیب پہنتے ہوں اس کے خلاف اس کا استعمال کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ مثال کوئی شخص چادر اوڑھے اور اس کا کنارہ شانے پر نہ ڈالے یا کرتہ پہنے اور آستینوں میں ہاتھ نہ ڈالے اس سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے۔

مسئلہ برہنہ سر نماز پڑھنا مکروہ ہے ہاں اگر تذلل اور خشوع کی نیت سے ایسا کرے تو کچھ مضائقہ نہیں۔

مسئلہ۔ اگر کسی کی ٹوپی یا عمامہ نماز پڑھنے میں گر جائے تو افضل یہ ہے کہ اسی حالت میں اسے اٹھا کر پہن لے لیکن اگر اس کے پہننے میں عمل کثیر کی ضرورت پڑے پھر نہ پہنے۔

مسئلہ مردوں کو اپنے دونوں ہاتھوں کی کہنیوں کا سجدے کی حالت میں زمین پر بچھا دینا مکروہ تحریمی ہے۔

مسئلہ امام کا محراب میں کھڑا ہونا۔

عیدین کی نماز کا بیان

مسئلہ۔ شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر کہتے ہیں اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عیدالضحی۔ یہ دونوں دین اسلام میں عید اور خوشی کے دن ہیں۔ ان دونوں میں دو دو رکعت نماز بطور شکریہ کے پڑھنا واجب ہے جمعہ کی نماز کی صحت وجوب کے لئے جو شرائط اور ذکر ہو چکے ہیں وہی سب عیدین کی نماز میں خطبہ فرض اور شرط ہے اور نماز سے پہلے پڑھا جاتا ہے اور عیدین کی نماز میں شرط یعنی فرض نہیں سنت ہے اور پیچھے پڑھا جاتا ہے مگر عیدین کے خطبے کا سننا بھی مثل جمعہ کے خطبے کے واجب ہے یعنی اس وقت بولنا چالنا نماز پڑھنا سب حرام ہے عیدالفطر کے دن تیرہ چیزیں مسنون ہیں۔ شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔ غسل کرنا۔ مسواک کرنا۔ عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس موجود ہوں پہننا۔ خوشبو لگانا صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔ عیدگاہ میں بہت سویرے جانا۔ قبل عیدگاہ جانے کے کوئی شیریں چیز مثل چھوہارے وغیرہ کے کھانا۔ قبل عیدگاہ جانے کے صدقہ فطر دے دینا۔ عید کی نماز عیدگاہ میں جا کر پڑھنا یعنی شہر کی مسجد میں بلا عذر نہ پڑھنا۔ جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا۔ پیادہ پا جانا اور راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد آہستہ آواز سے پڑہتے ہوئے جانا چاہیے۔ مسئلہ۔ عید الفطر کی نماز پڑھنے کا یہ طریقہ ہے کہ یہ نیت کرے نویت ان اصلی رکعتی الواجب صلوة عید الفطر مع ست تکبیرات واجبة یعنی میں نے یہ نیت کی کہ دو رکعت واجب نماز عید کی چھ جب تکبیروں کے ساتھ پڑھوں۔ یہ نیت کر کے ہاتھ باندھ لے اور سبحانک اللہم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ کے دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور بعد تکبیر کے ہاتھ لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تک توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ اس کیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ باندھ لے اور اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورة پڑھ کر حسب دستور رکوع سجدہ کر کے کھڑا ہو اور دوسری رکعت میں پہلے سورۃ فاتحہ اور سورة پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہے لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں جاوے۔

مسئلہ بعد نماز کے دو خطبے منبر پر کھڑے ہو کر پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان میں اتنی ہی دیر تک بیٹھے جتنی دیر جمعے کے خطبے میں۔

مسئلہ۔ بعد نماز عیدین یا بعد خطبہ کے دعا مانگنا۔ گو نبی اور ان کے صحابہ اور تابعین اور تباتابعین رضی اللہ تعالی عنہم سے منقول نہیں مگر چونکہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اس لئے بعد نماز عیدین بھی دعا مانگنا مسنون ہو گا۔

مسئلہ۔ عیدین کے خطبے میں پہلے تکبیر سے ابتداء کرے۔ اول خطبے میں نو مرتبہ اللہ اکبر کہے دوسرے میں سات مرتبہ۔ مسئلہ۔ عید الضحی کی نماز کا بھی یہی طریقہ ہے اور اسمیں بھی وہ سب چیزیں مسنون ہیں جو عید الفطر میں۔ فرق اس قدر ہے کہ عیدالضحی کی نیت میں بجائے عیدالفطر کے عید الضحی کا لفظ داخل کرے۔ عید الفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی چیز کھانا مسنون ہے اور عید الفطر میں راستے میں چلتے وقت آہستہ تکبیر کہنا مسنون ہے اور یہاں بلند آواز سے۔ اور عیدالفطر کی نماز دیر کر کے پڑھنا مسنون ہے اور عیدالضحی کی سویرے اور یہاں صدقہ فطر نہیں بلکہ بعد میں قربانی ہے اہل وسعت پر۔ اور اذان و اقامت نہ یہاں ہے نہ وہاں۔

مسئلہ۔ جہاں عید کی نماز پڑھی جائے وہاں اس دن اور کوئی نماز پڑھنا مکروہ ہے نماز سے پہلے بھی اور پیچھے بھی۔ ہاں بعد نماز کے گھر میں آ کر نماز پڑھنا مکروہ نہیں اور قبل نماز کے یہ بھی مکروہ ہے

مسئلہ عورتیں اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھیں ان کو قبل نماز عید کے کوئی نفل وغیرہ پڑھنا مکروہ ہے۔

مسئلہ۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام اور عیدالضحی کے خطبہ میں قربانی کے مسائل اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کرنا چاہیے۔ تکبیر تشریق یعنی ہر فرض عین نماز کے بعد ایک مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الہ اللہ واللہ اکبر اللہ وللہ الحمد کہنا واجب ہے بشرط کہ وہ فرض جماعت سے پڑھا گیا ہو اور وہ مقام مصر ہو۔ یہ تکبیر عورت اور مسافر پر واجب نہیں اگر یہ لوگ کسی ایسے شخص کے متقدی ہوں جس پر تکبیر واجب ہے تو ان پر بھی تکبیر واجب ہو جائے گی لیکن اگر منفرد اور عورت اور مسافر بھی کہہ لے تو بہتر ہے کہ صاحبین کے نزدیک ان سب پر واجب ہے۔

مسئلہ۔ یہ تکبیر عرفہ یعنی نویں تاریخ کی فجر سے تیرھویں تاریخ کی عصر تک کہنا چاہیے۔ سب تیئیس نمازیں ہوئیں جن کے بعد تکبیر واجب ہے۔

مسئلہ۔ اس تکبیر کا بلند آواز سے کہنا واجب ہے۔ ہاں عورت اگر کہیں تو آہستہ آواز سے کہیں۔

مسئلہ۔ نماز کے فورا بعد تکبیر کہنا لازمی ہے۔

مسئلہ اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ فورا تکبیر کہ دیں یہ انتظار نہ کریں کہ جب امام کہے تب کہیں۔

مسئلہ۔ عیدالضحی کی نماز کے بعد بھی تکبیر کہہ لینا بعض کے نزدیک واجب ہے۔

مسئلہ۔ عیدین کی نماز بالاتفاق متعدد مواضع میں جائز ہے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا نماز عید نہیں پڑھ اس کتا اسلیے کہ جماعت اسمیں شرط ہے اسی طرح اگر کوئی شخص شریک نماز ہوا ہو اور کسی وجہ سے نماز فاسد ہو گئی ہو وہ بھی اس کی قضا نہیں پڑھ اس کتا نہ اس پر اس کی قضا واجب ہے۔ ہاں اگر کچھ اور لوگ بھی اس کے ساتھ شریک ہو جائیں تو پڑھنا واجب ہے۔

مسئلہ۔ اگر کسی عذر سے پہلے دن نماز نہ پڑھی جا اس کے تو عیدالفطر کی نماز دوسرے دن اور عید الضحی کی بارہویں تاریخ تک پڑھی جا اس کتی ہے۔

مسئلہ۔ عید الضحی کی نماز میں بے عذر بھی بارہویں تاریخ تک تاخیر کرنے سے نماز ہو جائے گی مگر مکروہ ہے اور عیدالفطر میں بے عذر تاخیر کرنے سے بالکل نماز نہیں ہو گی۔ عذر کی مثال کسی وجہ سے امام نماز پڑھانے نہ آیا ہو پانی برس رہا ہو۔ چاند کی تاریخ محقق نہ ہو اور بعد زوال کے جب وقت جاتا رہے محقق ہو جائے۔ ابر کے دن نماز پڑھی گئی ہو اور بعد ابر کھل جانے کے معلوم ہو کہ بے وقت نماز پڑھی گئی۔

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص عید کی نماز میں ایسے وقت آ کر شریک ہوا ہو کہ امام تکبیروں سے فراغت کر چکا ہو تو اگر قیام میں آ کر شریک ہوا ہو تو بعد نیت باندھنے کے تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام قرأت شروع کر چکا ہو۔ اور اگر رکوع میں آ کر شریک ہوا ہو تو اگر غالب گمان ہو کہ تکبیروں کی فراغت کے بعد امام کا رکوع مل جائے گا تو نیت باندھ کر تکبیر کہہ لے بعد اس کے رکوع میں جائے اور رکوع نہ ملنے کا خوف ہو تو رکوع میں شریک ہو جائے اور حالت رکوع میں بجائے تسبیح کے تکبیریں کہہ لے مگر حالت رکوع میں تکبیریں کہتے وقت ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر قبل اس کے کہ پوری تکبیریں کہہ چکے امام رکوع سے سر اٹھا لے تو یہ بھی کھڑا ہو جائے اور جس قدر تکبیریں رہ گئی ہیں وہ اس سے معاف ہیں۔

مسئلہ اگر کسی کی ایک رکعت عید لیکن چونکہ اس طریقے سے دونوں رکعتوں میں تکبیریں پے در پے ہوئی جاتی ہیں اور یہ کسی صحابی کا مذہب نہیں ہے اسلیے اس کے خلاف حکم دیا گیا۔ اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے اور رکوع میں اس کو چاہیے کہ حالت رکوع میں تکبیر کہہ لے پھر قیام کے طرف نہ لوٹے اور اگر لوٹ جائے تب بھی جائز ہے یعنی نماز فاسد نہ ہو گی لیکن ہر حال میں بوجہ کثرت اژدہام کے سجدہ سہو نہ کرے۔

کعبہ مکرمہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان

مسئلہ۔ جیسا کہ کعبہ شریف کے باہر اس کے رخ پر نماز پڑھنا درست ہے ویسا ہی کعبہ مکرمہ کے اندر بھی نماز پڑھنا درست ہے استقبال قبلہ ہو جائے گا خواہ جس طرف پڑھے۔ اس وجہ سے کہ وہاں چاروں طرف قبلہ ہے جس طرف منہ کیا جائے کعبہ ہی کعبہ ہے اور جس طرح نفل نماز جائز ہے اسی طرح فرض نماز بھی۔

مسئلہ۔ کعبہ شریف کی چھت پر کھڑے ہو کر اگر نماز پڑھی جائے تو وہ بھی صحیح ہے اس لئے کہ جس مقام پر کعبہ ہے وہ زمین اور اس کے محاذی جو حصہ ہوا کا آسمان تک ہے سب قبلہ ہے۔ قبلہ کچھ کعبہ کی دیواروں میں منحصر نہیں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی شخص بلند پہاڑ پر کھڑے ہو کر نماز پڑھے جہاں کعبہ کی دیواروں سے بالکل محاذات نہ ہو تو اس کی نماز بالاتفاق درست ہے لیکن چونکہ اسمیں کعبہ کی بے تعظیمی ہے ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ متقدی امام سے آگے بڑھ کر نہ کھڑے ہوں۔ اگر مقتدی کا منہ امام کے منہ کے سامنے ہو تب بھی درست ہے اس لئے کہ اس صورت میں وہ مقتدی امام سے آگے نہ کہا جائے گا آگے جب ہوتا کہ جب دونوں کے منہ ایک ہی طرف ہوتا اور پھر مقتدی آگے بڑھا ہوا ہوتا۔ مگر اس صورت میں نماز مکروہ ہو گی۔ اس لئے کہ کسی آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی چیز بیچ میں حائل کر لی جائے تو یہ کراہت نہ رہےگی۔

مسئلہ۔ اگر امام کعبہ کے اندر اور مقتدی کعبہ سے باندھے ہوئے کھڑے ہوں تب بھی نماز ہو جاوےگی لیکن اگر صرف امام کعبہ کے اندر ہو گا اور کوئی مقتدی اس کے ساتھ نہ ہو گا تو نماز مکروہ ہو گی اس لئے کہ اس صورت میں بوجہ اس کے کہ کعبہ کے اندر کی زمین اونچی ہے امام کا مقام بقدر ایک قد کے متقدیوں سے اونچا ہو گا۔ مسئلہ۔ اگر مقتدی اندر ہوں اور امام باہر تب بھی نماز درست ہے بشرطیکہ مقتدی امام سے آگے نہ ہوں۔

مسئلہ۔ اور اگر سب باہر ہوں اور ایک طرف امام ہو اور چاروں طرف مقتدی حلقہ باندھے ہوئے ہوں جیسا کہ عام عادت وہاں اسی طرح نماز پڑھنے کی ہے تو بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جس طرف امام کھڑا ہے اس طرف کوئی مقتدی بہ نسبت امام کے خانہ کعبہ کے زیادہ نزدیک نہ ہو اس صورت میں وہ امام سے آگے سمجھا جائے گا جو کہ مانع اقتدا ہے۔ البتہ اگر دوسری طرف کے مقتدی خانہ کعبہ سے بہ نسبت امام کے نزدیک بھی ہوں تو کچھ مضر نہیں اور یہ اس کی صورت ہے۔

ا۔ ب۔ ج۔ ی کعبہ ہے اور ہ امام ہے جو کعبہ سے دو گز فاصلہ پر کھڑا ہے اور و اور ز مقتدی ہیں جو کعبہ سے ایک گز کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ مگر و تو ہ کی طرف کھڑا ہے اور ذ دوسری طرف کھڑا ہے و کی نماز نہ ہو گی ز کی ہو جاوے گی۔

سجدہ تلاوت کا بیان

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص کسی امام سے آیت سجدہ سنے اس کے بعد اس کی اقتدا کرے تو اس کو امام کے ساتھ سجدہ کرنا چاہئے۔ اور اگر امام سجدہ کر چکا ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں ایک جس رکعت میں آیت سجدہ کی تلاوت امام نے کی ہو وہی رکعت اس کو اگر مل جائے تو اس کو سجدہ کی ضرورت نہیں اس رکعت کے مل جانے سے سمجھا جائے گا کہ وہ سجدہ بھی مل گیا۔ دوسری یہ کہ وہ رکعت نہ ملے تو اس کو بعد نماز تمام کرنے کے خارج نماز میں سجدہ کرنا واجب ہے۔

مسئلہ۔ مقتدی سے اگر آیت سجدہ سنی جائے تو سجدہ واجب نہ ہو گا نہ اس پر نہ اس کے امام پر نہ لوگوں پر جو اس نماز میں شریک ہیں۔ ہاں جو لوگ اس نماز میں شریک نہیں خواہ وہ لوگ نماز ہی نہ پڑہتے ہوں یا کوئی دوسری نماز پڑھ رہے ہوں تو ان پر سجدہ واجب ہو گا۔

مسئلہ۔ سجدہ تلاوت میں قہقہے سے وضو نہیں جاتا لیکن سجدہ باطل ہو جاتا ہے۔ مسئلہ عورت کی محاذات مفسد سجدہ تلاوت نہیں۔

مسئلہ۔ سجدہ تلاوت اگر نماز میں واجب ہوا ہو تو اس کا ادا کرنا فورا واجب ہے تاخیر کی اجازت نہیں

مسئلہ۔ خارج نماز کا سجدہ نماز میں اور نماز کا خارج میں بلکہ دوسری نماز میں بھی نہیں ادا کیا جا اس کتا۔ پس اگر کوئی شخص نماز میں آیت سجدہ پڑھے اور سجدہ نہ کرے تو اس کا سجدہ گناہ اس کے ذمہ ہو گا۔ اور اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں کہ توبہ کرے اور ارحم الراحمین اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے۔

مسئلہ۔ اگر دو شخص علیحدہ علیحدہ گھوڑوں پر سوار نماز پڑہتے ہوئے جا رہے ہوں اور ہر شخص ایک ہی آیت کی تلاوت کرے اور ایک دوسرے کی تلاوت کو نماز ہی میں سنے تو ہر شخص پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا جو نماز ہی میں ادا کرنا واجب ہے۔ اور ایک ہی آیت کو نماز میں پڑھا اور اسی کو نماز سے باہر سنا تو دو سجدے واجب ہوں گے ایک تلاوت کے سبب سے دوسرا سننے کے سبب سے۔ مگر تلاوت کے سبب سے جو ہو گا وہ نماز کا سمجھا جائے گا اور نماز ہی میں ادا کیا جائے گا اور سننے کے سبب سے جو ہو گا وہ خارج نماز کے ادا کیا جائے گا۔

مسئلہ۔ اگر آیت سجدہ نماز میں پڑھی جائے اور فورا رکوع کیا جائے یا بعد دو تین آیتوں کے اور اس رکوع میں جھکتے وقت سجدہ تلاوت کی بھی نیت کر لی جائے تو سجدہ ادا ہو جائے گا۔ اگر اسی طرح آیت سجدہ کی تلاوت کے بعد نماز کا سجدہ کیا جائے یعنی بعد رکوع وقومہ کے تب بھی سجدہ ادا ہو جائے گا اور اس میں نیت کی بھی ضرورت نہیں۔

مسئلہ۔ جمعے اور عیدین اور آہستہ آواز کی نمازوں میں آیت سجدہ نہ پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وہ سجدہ کرنے میں مقتدیوں کے اشتباہ کا خوف ہے۔

میت کے غسل کے مسائل

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص دریا میں ڈوب کر مر گیا ہو تو وہ جس وقت نکالا جائے اس کا غسل دینا فرض ہے پانی میں ڈوبنا غسل کے لئے کافی نہیں اس لئے کہ میت کا غسل دینا زندوں پر فرض ہے اور ڈوبنے میں کوئی ان کا فعل نہیں ہوا۔ ہاں اگر نکالتے وقت غسل کی نیت سے اس کو پانی میں حرکت دیدی جائے تو غسل ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر میت کے اوپر پانی برس جائے یا اور کسی طرح سے پانی پہنچ جائے تب بھی اس کا غسل دینا فرض رہے گا۔

مسئلہ۔ اگر کسی آدمی کا صرف سر کہیں دیکھا جائے تو اس کو غسل نہ دیا جائے گا بلکہ یوں ہی دفن کر دیا جائے گا۔ اور اگر کسی آدمی کا بدن نصف سے زیادہ کہیں ملے تو اس کا غسل دینا ضروری ہے خواہ سر کے ساتھ ملے یا بے سر کے۔ اور اگر نصف سے زیادہ نہ ہو بلکہ نصف ہو تو اگر سر کے ساتھ ملے تو غسل دیا جائے گا ورنہ نہیں۔ اور اگر نصف سے کم ہو تو غسل نہ دیا جائے گا خواہ سر کے ساتھ ہو یا بے سر کے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی میت کہیں دیکھی جائے اور کسی قرینے سے نہ معلوم ہو کہ یہ مسلمان تھا یا کافر۔ تو اگر دارالاسلام میں یہ واقع ہوا تو اس کو غسل دیا جائے گا اور نماز پڑھی جائے گی۔

مسئلہ۔ اگر مسلمانوں کی نعشیں کافروں کی نعشوں میں مل جائیں اور کوئی تمیز نہ باقی رہے تو ان سب کو غسل دیا جائے گا۔ اور اگر تمیز باقی ہو تو مسلمانوں کی نعشیں علیحدہ کر لی جائیں اور صرف ان کو غسل دیا جائے کافروں کا نعشوں کو غسل نہ دیا جائے۔

مسئلہ۔ اگر کسی مسلمان کا کوئی عزیز کافر ہو اور وہ مر جائے تو اس کی نعش اس کے ہم مذہب کو دے دی جائے۔ اگر اس کا کوئی ہم مذہب نہ ہو یا ہو مگر لینا قبول نہ کرے تو بدرجہ مجبوری وہ مسلمان اس کافر کو غسل دے مگر نا مسنون طریقے سے یعنی اس کو وضو نہ کرائے اور سر اس کا نہ صاف کرایاجائے کافور وغیرہ اس کے بدن میں نہ ملا جائے بلکہ جس طرح نجس چیز کو دھوتے ہیں اسی طرح اس کو دھوئیں اور کافر دھونے سے پاک نہ ہو گا حتی کہ اگر کوئی شخص اس کو لئے ہوئے نماز پڑھے تو اس کی نماز درست نہ ہو گی۔

مسئلہ۔ باغی لوگ یا ڈاکہ زن اگر مارے جائیں تو ان کے مردوں کو غسل نہ دیا جائے اور اگر اس کے اہل مذہب اس کی نعش مانگیں تو ان کو بھی نہ دی جائے۔

مسئلہ مرتد اگر مر جائے تو اس کو بھی غسل نہ دیا جائے اور اگر اس کے اہل مذہب اس کی نعش مانگیں تو ان کو بھی نہ دی جائے۔

مسئلہ۔ اگر پانی نہ ہونے کے سبب سے کسی میت کو تیمم کرایا گیا ہو اور پھر پانی مل جاوے تو اس کو غسل دے دینا چاہئے۔

میت کے کفن کے بعض مسائل

مسئلہ۔ اگر انسان کا کوئی عضو یا نصف جسم بغیر سر کے پایا جائے تو اس کو بھی کسی نہ کسی کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے۔ ہاں اگر نصف جسم کے ساتھ سر بھی ہو یا نصف سے زیادہ حصہ جسم کا ہو گو سر بھی نہ ہو تو پھر کفن مسنون دینا چاہئے۔

مسئلہ۔ کسی انسان کی قبر کھل جائے یا اور کسی وجہ سے اس کی نعش باہر نکل آنے اور کفن نہ ہو تو اس کو بھی کفن مسنون دینا چاہئے بشرطیکہ وہ نعش پھٹی نہ ہو اور اگر پھٹ گئی ہو تو کسی کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے۔ مسنون کفن کی حاجت نہیں

جنازے کی نماز کے مسائل

نماز جنازہ درحقیقت اس میت کے لئے دعا ہے ارحم الرحمین سے

مسئلہ۔ نماز جنازہ کے واجب ہونے کی وہی سب شرطیں ہیں جو اور نمازوں کے لئے ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔ ہاں اس میں ایک شرط اور زیادہ ہے وہ یہ کہ اس شخص کی موت کا علم بھی ہو پس جس کو یہ خبر نہ ہو گی وہ معذور ہے نماز جنازہ اس پر ضروری نہیں۔

مسئلہ۔ نماز جنازے کے صحیح ہونے کے لئے دو قسم کی شرطیں ہیں۔ ایک قسم کی وہ شرطیں ہیں جو نماز پڑھنے والوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ وہی ہیں جو اور نمازوں کے لئے اوپر بیان ہو چکیں یعنی طہارت ستر عورت استقبال قبلہ نیت ہاں وقت اس کے لئے شرط نہیں اور اس کے لئے تیمم نماز نہ ملنے کے خیال سے جائز ہے مثلاً نماز جنازہ ہو رہی ہو اور وضو کرنے میں یہ خیال ہو کہ نماز ختم ہو جائے گی تو تیمم کر لے بخلاف اور نمازوں کے کہ انہیں اگر وقت کے چلے جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز نہیں۔

مسئلہ آج کل بعضے آدمی جنازے کی نماز جوتہ پہنے ہوئے پڑہتے ہیں ان کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ وہ جگہ جس پر کھڑے ہوئے ہوں اور جوتے دونوں پاک ہوں اور اگر جوتہ پیر سے نکال دیا جائے اور اس پر کھڑے ہوں تو صرف جوتے کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اکثر لوگ اس کا خیال نہیں کرتے اور ان کی نماز نہیں ہوتی۔ دوسری قسم کی وہ شرطیں ہیں جن کو میت سے تعلق ہے وہ چھ ہیں۔ شرط میت کا مسلمان ہونا پس کافر اور مرتد کی نماز صحیح نہیں مسلمان اگرچہ فاسق یا بدعتی ہو اس کی نماز صحیح ہے سوا ان لوگوں کے جو بادشاہ برحق سے بغاوت کریں یا ڈاکہ زنی کرتے ہوں۔

بشرطیکہ یہ لوگ بادشاہ وقت سے لڑائی کی حالت میں مقتول ہوں اور اگر بعد لڑائی کے اپنی موت سے مر جائیں تو پھر ان کی نماز پڑھی جائے گی اسی طرح جس شخص نے اپنے باپ یا ماں کو قتل کیا ہو اور اس کی سزا میں وہ مارا جائے تو اس کی نماز بھی پڑھی جائے گی اور ان لوگوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی اور جس شخص نے اپنی جان خود کشی کر کے دی ہو اس پر نماز پڑھنا صحیح یہ ہے کہ درست ہے۔

مسئلہ۔ جس نابالغ لڑکے کا باپ یا ماں مسلمان ہو وہ لڑکا مسلمان سمجھا جائے گا اور اس کی نماز پڑھی جائے گی۔

مسئلہ۔ میت سے مراد وہ شخص ہے جو زندہ پیدا ہو کر مر گیا ہو۔ اور اگر مرا ہوا بچہ پیدا ہو تو اس کی نماز درست نہیں۔ شرط میت کے بدن اور کفن کا نجاست حقیقیہ اور حکمیہ سے طاہر ہونا۔ ہاں اگر نجاست حقیقیہ اس کے بدن سے بعد غسل خارج ہوئی اور اس سبب سے اس کا بدن بالکل نجس ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں نماز درست ہے

مسئلہ۔ اگر کوئی میت نجاست حکمیہ سے طاہر نہ ہو یعنی اس کو غسل نہ دیا گیا ہو یا در صورت ناممکن ہونے غسل کے تیمم نہ کرایا گیا ہو اس کی نماز میت نہیں ہاں اگر اس کا طاہر ہونا ممکن نہ ہو مثلاً بے غسل یا تیمم کرائے ہوئے دفن کر چکے ہوں اور قبر پر مٹی بھی پڑ چکی ہو تو پھر اس نماز اس کی قبر پر اسی حالت میں پڑھنا جائز ہے۔ اگر کسی میت پر بے غسل یا تیمم کے نماز پڑھی گئی ہو اور وہ دفن کر دیا گیا ہو اور دفن کے علم ہو کہ اس کو غسل نہ دیا گیا تھا تو اس کی نماز دوبارہ اس کی قبر پر پڑھی جائے اس لئے کہ پہلی نماز صحیح نہیں ہوئی۔ ہاں اب چونکہ غسل ممکن نہیں ہے لہذا نماز ہو جائے گی۔

مسئلہ اگر کوئی مسلمان بے نماز پڑھے ہوئے دفن کر دیا گیا ہو تو اس کی نماز اس کی قبر پر پڑھی جائے جب تک اس کی نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو۔ جب خیال ہو کہ نعش اب پھٹ گئی ہو گی تو پھر نماز نہ پڑھی جائے اور نعش پھٹنے کی مدت ہر جگہ کے اعتبار سے مختلف ہے اس کی تعیین نہیں ہو اس کتی یہی اصح ہے اور بعض نے تین دن اور بعض نے دس دن اور بعض نے ایک ماہ مدت بیان کی ہے۔

مسئلہ۔ میت جس جگہ رکھی گئی ہو اس جگہ کا پاک ہونا شرط نہیں۔ اگر میت پاک پلنگ یا تخت پر ہو اور اگر پلنگ یا تخت بھی ناپاک ہو یا میت کو بدون پلنگ و تخت کے ناپاک زمین پر رکھ دیا جائے تو اس صورت میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک طہارت مکان میت شرط ہے اس لئے نماز نہ ہو گی اور بعض کے نزدیک شرط نہیں لہذا نماز صحیح ہو جائے گی۔ شرط میت کے جسم اور واجب الستر کا پوشیدہ ہونا۔ اگر میت شرط بالکل برہنہ ہو تو نماز درست نہیں۔ شرط میت کا نماز پڑھنے والے کے آگے ہونا۔ اگر میت نماز پڑھنے والے کے پیچھے ہو تو نماز درست نہیں۔ شرط میت کا یا جس چیز پر میت ہو اس کا زمین پر رکھا ہوا ہونا۔ اگر میت کو لوگ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں یا کسی گاڑی یا جانور پر ہو اور اسی حالت میں اس کی نماز پڑھی جائے تو صحیح نہ ہو گی۔ شرط میت کا وہاں موجود ہونا۔ اگر میت وہاں موجود نہ ہو تو نماز صحیح نہ ہو گی۔

مسئلہ۔ نماز جنازہ میں دو چیزیں فرض ہیں۔ چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا۔ ہر تکبیر یہاں قائم مقام ایک رکعت کے سمجھی جاتی ہے قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھنا جس طرح فرض واجب نمازوں میں قیام فرض ہے اور بے عذر کے اس کا ترک جائز نہیں۔ عذر کا بیان نماز کے بیان میں اوپر ہو چکا ہے۔

مسئلہ رکوع سجدہ۔ قعدہ وغیرہ اس نماز میں نہیں۔

مسئلہ۔ نماز جنازہ میں تین چیزیں مسنون ہیں اللہ تعالی کی حمد کرنا نبی پر درود پرہنا میت ک لئے دعا کرنا۔ جماعت اسمیں شرط نہیں پس اگر ایک شخص بھی جنازے کی نماز پڑھ لے تو فرض ادا ہو جائے گا خواہ وہ نماز پڑھنے والا عورت ہو یا مرد بالغ ہو یا نابالغ۔

مسئلہ ہاں یہاں جماعت کی ضرورت زیادہ ہے اس لئے کہ یہ دعا ہے میت کے لئے اور چند مسلمانوں کا جمع ہو کر بارگاہ الہی میں کسی چیز کے لئے دعا کرنا ایک عجیب خاصیت رکھتا ہے نزول رحمت اور قبولیت کے لئے۔

مسئلہ۔ نماز جنازہ کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے کہ میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینہ کے مقابل کھڑا ہو جائے اور سب لوگ یہ نیت کریں۔ نویت ان اصلی صلوة الجنازة للہ تعالی ودعاء للمیت یعنی میں نے یہ ارادہ کہ نماز جنازہ پڑھوں جو خدا کی نماز ہے اور میت کے لئے دعا ہے یہ نیت کر کے دونوں ہاتھ مثل تکبیر تحریمہ کے کانوں تک اٹھا کر ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ مثل نماز کے باندھ لیں پھر سبحانک اللھم آخر تک پڑھیں۔ اس کے بعد پھر ایک بار اللہ اکبر کہیں مگر اس مرتبہ دونوں ہاتھ نہ اٹھائیں بعد اس کے درود شریف پڑھیں بہتر یہ ہے کہ وہی درود پڑھا جائے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ پھر ایک مرتبہ اللہ اکبر اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ اٹھائیں اس تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کریں اگر وہ بالغ ہو خواہ مرد ہو یا عورت تو یہ دعا پڑھیں۔

عربی۔

اور اگر ان دونوں دعاؤں کو پڑھ لے تب بھی بہتر ہے بلکہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے ردالمحتار میں دونوں دعاؤں کو ایک ہی میں ملا کر لکھا ہے۔ ان دونوں دعاؤں کے سوا اور دعائیں بھی احادیث میں آئی ہیں اور ان کو ہمارے فقہاء نے بھی نقل کیا ہے جس دعا کو چاہے اختیار کرے۔ اور اگر میت نابالغ لڑکا ہو تو دعا پڑھے –

اور اگر نابالغ لڑکی ہو تو بھی یہی دعا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ تینوں عربی کی جگہ عربی اور عربی پڑھیں۔ جب یہ دعا پڑھ چکیں تو پھر ایک مرتبہ اللہ اکبر کہیں اور اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ اٹھائیں اور اس تکبیر کے بعد سلام پھیر دیں جس طرح نماز میں سلام پھیرتے ہیں۔ اس نماز میں التحیات اور قرآن مجید کی قرأت وغیرہ نہیں ہے۔

مسئلہ۔ نماز جنازہ امام اور مقتدی دونوں آہستہ آواز سے باقی چیزیں یعنی ثنا اور درود اور دعا مقتدی بھی آہستہ آواز سے پڑھیں گے اور امام بھی آہستہ آواز میں پڑھے گا۔

مسئلہ۔ جنازے کی نماز کے مستحب ہے حاضرین کی تین صفیں کر دی جائیں یہاں تک کہ اگر صرف سات آدمی ہوں تو ایک آدمی ان میں امام بنا دیا جائے اور پہلی صف میں تین آدمی کھڑے ہوں اور دوسری میں دو اور تیسری میں ایک۔

مسئلہ۔ جنازے کی نماز بھی ان چیزوں سے فاسد ہو جاتی ہے جن چیزوں سے دوسری نمازوں میں فاسد آتا ہے۔ صرف اس قدر فرق ہے کہ جنازہ کی نماز میں قہقہہ سے وضو نہیں جاتا اور عورت کی محاذات سے بھی اسمیں فساد نہیں اتا۔ مسئلہ۔ جنازے کی نماز اس مسجد میں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے جو پنج و قتی نمازوں یا جمعے یا عیدین کی نماز کے لئے بنائی گئی ہو خواہ جنازہ مسجد کے اندر ہو یا مسجد سے باہر ہو اور نماز پڑھنے والے اندر ہوں۔ ہاں جو خاص جنازہ کی نماز کے لئے بنائی گی ہو اس میں مکروہ نہیں۔

مسئلہ۔ کی نماز میں اس غرض سے زیادہ تاخیر کرنا کہ جماعت زیادہ ہو جائے مکروہ ہے

مسئلہ۔ جنازے کی نماز بیٹھ کر یا سواری کی حالت میں پڑھنا جائز نہیں جبکہ کوئی عذر نہ ہو۔

مسئلہ۔ اگر ایک ہی وقت میں کئی جنازے جمع ہو جائیں تو بہتر یہ ہے کہ ہر جنازے کی نماز علیحدہ پڑھی جائے اور اگر سب جنازوں کی ایک ہی نماز پڑھی جائے تب بھی جائز ہے اور اس وقت چاہیے کہ سب جنازوں کی صف قائم کر دی جائے جس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک جنازے کے آگے دوسرا جنازہ رکھ دیا جائے کہ سب کے پیر ایک طرف ہوں اور سب کے سر ایک طرف اور یہ صورت اس لئے بہتر ہے کہ اس میں سب کا سینہ امام کے مقابل ہو جائے گا جو مسنون ہے۔

مسئلہ۔ اگر جنازے مختلف اصناف کے ہوں تو اس ترتیب سے ان کی صف قائم کی جائے کہ امام کے قریب مردوں کے جنازے ان کے بعد لڑکوں کے اور ان کے قسموں بعد بالغہ عورتوں کے ان کے بعد نابالغہ لڑکیوں کے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص جنازہ کی نماز میں ایسے وقت پہنچا کہ کچھ تکبیریں اس کے آنے سے پہلے ہو چکی ہوں تو جس قدر تکبیریں ہو چکی ہوں ان کے اعتبار سے وہ شخص مسبوق سمجھا جائے گا اور اس کو چاہیے کہ فورا آتے ہی مثل اور نمازوں کی تکبیر تحریمہ کہ کر شریک نہ ہو جائے بلکہ امام کی تکبیر کا انتظار کرے جب امام تکبیر کہے تو اس کے ساتھ یہ بھی تکبیر کہے اور یہ تکبیر اس کہ حق میں تکبیر تحریمہ ہو گی۔ پھر جب امام سلام پھیر دے تو یہ شخص اپنی گئی ہوئی تکبیروں کو ادا کرے اور اس میں کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی شخص ایسے وقت پر پہنچے کہ امام چوتھی تکبیر بھی کہہ چکا ہو تو وہ شخص اس تکبیر کہ حق میں مسبوق نہ سمجھا جاوے گا اس کو چاہئے کہ فورا تکبیر کہ کر امام کہ سلام سے پہلے شریک ہو جائے اور ختم نماز کے بعد اپنی گئی ہوئی تکبیروں کا اعادہ کر لے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص تکبیر تحریمہ یعنی پہلی تکبیر یا کسی اور تکبیر کے وقت موجود تھا اور نماز میں شرکت کے لئے مستعد تھا مگر سستی یا اور کسی وجہ سے شریک نہ ہوا تو اس کو فورا تکبیر کا اعادہ اس کے ذمے نہ ہو گا بشرطیکہ قبل اس کے کہ امام کی دوسری تکبیر کہے۔ یہ اس تکبیر کو ادا کرے گو امام کی معیت نہ ہو۔ مسئلہ۔ جنازے کی نماز کا مسبوق جب اپنی گئی ہوئی تکبیروں کو ادا کرے اور خوف ہو کہ اگر دعا پڑھے کا تو دیر ہو گی اور جنازہ اس کے سامنے سے اٹھا لیا جاوے گا تو دعا نہ پڑھے۔

مسئلہ۔ جنازے کی نماز میں کوئی شخص لاحق ہو جائے تو اس کا وہی حکم ہے جو اور نمازوں کے لاحق کا ہے۔

مسئلہ۔ جنازے کی نماز میں امامت کا استحقاق سب سے زیادہ بادشاہ وقت کو ہے گو تقوی اور ورع میں اس سے بہتر لوگ بھی وہاں موجود ہوں۔ اگر بادشاہ وقت وہاں نہ ہو تو اس کا نائب یعنی جو شخص اس کی طرف سے حاکم شہر ہو وہ مستحق امامت ہے گو ورع اور تقوی میں اس سے افضل لوگ وہاں موجود ہوں۔ اور وہ بھی نہ ہو تو قاضی شہر۔ وہ بھی نہ ہو تو اس کا نائب۔ ان لوگوں کے ہوتے ہوئے دوسرے کا امام بنانا بلا ان کی اجازت کے جائز نہیں ان ہی کا امام بنانا واجب ہے۔ اگر یہ لوگ کوئی وہاں موجود نہ ہوں تو اس محلہ کا امام مستحق ہے بشرطیکہ میت کے اعزہ میں کوئی شخص اس سے افضل نہ ہو ورنہ میت کے وہ اعزہ جن کو حق ولایت حاصل ہے امامت کے مستحق ہیں یا وہ شخص جاس کو وہ اجازت دیں۔ اگر بے اجازت ولی میت کے کسی شخص نے نماز پڑھا دی ہو جس کو امامت کا استحقاق نہیں تو ولی کو اختیار ہے کہ پھر دوبارہ نماز پڑھے حتی کہ اگر میت دفن ہو چکی ہو تو اس کی قبر پر نماز پڑھ اس کتا ہے تاوقتیکہ نعش کے پھٹ جانے کا خیال نہ ہو۔ مسئلہ۔ اگر بے اجازت ولی میت کے کسی شخص نے نماز پڑھا دی ہو جاس کو امامت کا استحقاق ہے تو پھر ولی میت نماز کا اعادہ نہیں کر اس کتا۔ اسی طرح اگر ولی میت نے بحالت نہ موجود ہونے بادشاہ وقت وغیرہ کے نماز پڑھا دی ہو تو بادشاہ وقت وغیرہ کو اعادہ کا اختیار نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ اگر ولی میت بحالت موجود ہونے بادشاہ وقت وغیرہ کے نماز پڑھ لے تب بھی بادشاہ وقت وغیرہ کو اعادہ کا اختیار نہ ہو گا گو ایسی حالت میں بادشاہ وقت کے امام نہ بنانے سے ترک واجب کا گناہ اولیائے میت پر ہو گا۔ حاصل یہ کہ ایک جنازہ کی نماز کئی مرتبہ پڑھنا جائز نہیں مگر ولی میت کو جبکہ اس کی بے اجازت کسی غیر مستحق نے نماز پڑھا دی ہو دوبارہ پڑھنا درست ہے۔

دفن کے مسائل

مسئلہ۔ میت کا دفن کرنا فرض ہے جس طرح اس کا غسل اور نماز۔

مسئلہ۔ جب میت کی نماز سے فراغت ہو جائے تو فورا اس کو دفن کرنے کے لئے قبر کھدی ہو لے جانا چاہئے۔

مسئلہ۔ اگر میت کوئی شیر خوار بچہ یا اس سے کچھ بڑا ہو تو لوگوں کو چاہیے کہ اس کو دست لے جائیں یعنی ایک آدمی اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھا لے پھر اس سے دوسرا آدمی لے لے۔ اسی طرح بدلتے ہوئے لے جائیں اور اگر میت کوئی بڑا آدمی ہو تو اس کو کسی چارپائی وغیرہ پر رکھ کر لے جائیں اور اس کے چاروں پایوں کو ایک ایک آدمی اٹھائے۔ میت کی چارپائی ہاتھوں سے اٹھا کر کندھوں پر رکھنا چاہیے۔ مثل مال و اسباب کے شانوں پر لادنا مکروہ ہے۔ اسی طرح بلاعذر اس کا کسی جانور یا گاڑی وغیرہ پر رکھ کر لے جانا بھی مکروہ ہے اور عذر ہو تو بلا کراہت جائز ہے مثلاً قبرستان دور ہو۔

مسئلہ۔ میت کے اٹھانے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کا اگلا داہنا پایا اپنے داہنے شانے پر رکھ کر پھر پچھلا بایاں پایا بائیں شانے پر رکھ کر کم سے کم دس دس قدم چلے تا کہ چاروں پایوں کو ملا کر چالیس قدم ہو جائیں۔

مسئلہ۔ جنازے کا تیز قدم لے جانا مسنون ہے مگر نہ اس قدر کہ نعش کو حرکت و اضطراب ہونے لگے۔

مسئلہ۔ جو لوگ جنازے کے ہمراہ جائیں ان کو قبل اس کے کہ جنازہ شانوں سے اتارا جائے بیٹھنا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی ضرورت بیٹھنے کی پیش آئے تو کچھ مضائقہ نہیں۔

مسئلہ۔ جو لوگ جنازے کے ساتھ نہ ہوں بلکہ کہیں بیٹھے ہوئے ہوں ان کو جنازے کو دیکھ کر کھڑا ہو جانا چاہئے۔

مسئلہ۔ جو لوگ جنازے کے ہمراہ ہوں ان کو جنازے کے پیچھے چلنا مستحب ہے اگرچہ جنازے کے آگے بھی چلنا جائز ہے۔ ہاں اگر سب لوگ جنازے کے آگے ہو جائیں تو مکروہ ہے اسی طرح جنازے کے آگے کسی سواری پر چلنا بھی مکروہ ہے۔

مسئلہ۔ جنازے کے ہمراہ پیادہ پا چلنا مستحب ہے اور اگر کسی سواری پر ہو تو پیچھے چلے۔ مسئلہ۔ جنازے کے ہمراہ جو لوگ ہوں ان کو دعا یا ذکر بلند آواز میں پڑھنا مکروہ ہے۔ میت کی قبر اس کے نصف قد کے برابر گہری کھودی جائے اور قد سے زیادہ نہ ہونی چاہئے اور موافق اس کے قد لمبی ہو اور بغلی قبر بہ نسبت صندوقی کے بہتر ہے ہاں اگر زمین بہت نرم ہو کہ بغلی کھودنے میں قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہو تو پھر بغلی قبر نہ کھودی جائے۔

مسئلہ۔ یہ بھی جائز ہے کہ اگر بغلی قبر نہ کھد اس کے تو میت کو کسی صندوق میں رکھ کر دفن کر دیں خواہ صندوق لکڑی کا ہو یا پتھر کا یا لوہے کا مگر بہتر یہ کہ اس صندوق میں مٹی بچھا دی جائے۔

مسئلہ۔ جب قبر تیار ہو چکے تو میت کو قبلے کی طرف سے قبر میں اتار دیں اس کی صورت یہ ہے کہ جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھا جائے اور اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہو کر میت کو اٹھا کر قبر میں رکھدیں۔

مسئلہ۔ قبر میں اتارنے والوں کا طاق یا جفت ہونا مسنون نہیں۔ نبی کو آپ کی قبر مقدس میں چار آدمیوں نے اتارا تھا۔

مسئلہ۔ قبر میں رکھتے وقت بسم اللہ وعلی ملة رسول اللہ کہنا مستحب ہے۔

مسئلہ۔ میت کو قبر میں رکھ کر داہنے پہلو پر اس کو قبلہ رو کر دینا مسنون ہے۔

مسئلہ۔ قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی وہ گرہ جو کفن کھل جانے کے خوف سے دی گئی تھی کھول دی جائے۔

مسئلہ۔ بعد اس کے کچی اینٹوں یا نرکل سے بند کر دیں۔ پختہ اینٹوں یا لکڑی کے تختوں سے بند کرنا مکروہ ہے ہاں جہاں زمین بہت نرم ہو کہ قبر کے بیٹھ جانے کا خوف ہو تو پختہ اینٹ یا لکڑی کے تختے رکھ دینا یا صندوق میں رکھنا بھی جائز ہے۔

مسئلہ۔ عورت کو قبر میں رکھتے وقت پردہ کر کے رکھنا مستحب ہے اور اگر میت بدن کے ظاہر ہو جانے کا خوف ہو تو پھر پردہ کرنا واجب ہے۔

مسئلہ۔ مردوں کے دفن کے وقت قبر پر پردہ کرنا نہ چاہئے ہاں اگر عذر ہو مثلاً پانی برس رہا ہو یا برف گر رہی ہو یا دھوپ سخت ہو تو پھر جائز ہے۔

مسئلہ۔ جب میت کو قبر میں رکھ چکیں تو جس قدر مٹی اس کی قبر سے نکلی ہو وہ سب اس پر ڈال دیں اس سے زیادہ مٹی ڈالنا مکروہ ہے جبکہ بہت زیادہ ہو کہ قبر ایک بالشت سے بہت زیادہ اونچی ہو جائے اور اگر تھوڑی سی ہو تو پھر مکروہ نہیں۔

مسئلہ۔ قبر میں مٹی ڈالتے وقت مستحب ہے کہ سرہانے کی طرف سے ابتداء کی جائے اور ہر شخص اپنے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر قبر میں ڈال دے اور پہلی مرتبہ پڑھے منھا خلقنکم اور دوسری مرتبہ وفیھا نعیدکم اور تیسری مرتبہ ومنھا نخرجکم تارة اخری۔

مسئلہ بعد دفن کے تھوڑی دیر تک قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لئے دعائے مغفرت کرنا یا قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب اس کو پہنچانا مستحب ہے۔

مسئلہ بعد مٹی ڈال چکنے کے قبر پر پانی چھڑک دینا مستحب ہے۔

مسئلہ کسی میت کو چھوٹا ہو یا بڑا مکان کے اندر دفن نہ کرنا چاہیے اس لئے کہ یہ بات انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔

مسئلہ قبر کا مربع بنانا مکروہ ہے مستحب یہ ہے کہ اٹھی ہوئی مثل کوہان شتر کے بنائی جاوے اس کی بلندی ایک بالشت یا اس سے کچھ زیادہ ہونا چاہیے۔

مسئلہ قبر کا ایک بالشت سے بہت زیادہ بلند کرنا مکروہ تحریمی ہے قبر پر گچ کرنا یا اس پر مٹی لگانا مکروہ ہے۔

مسئلہ بعد دفن کر چکنے کے قبر پر کوئی عمارت مثل گنبد یا قبے وغیرہ کے بنانا بغرض زینت حرام ہے اور مضبوطی کی نیت سے مکروہ ہے میت کی قبر پر کوئی چیز بطور یاد داشت کے لکھنا جائز ہے بشرطیکہ کوئی ضرورت ہو ورنہ جائز نہیں لیکن اس زمانہ میں چونکہ عوام نے اپنے عقائد اور اعمال کو بہت خراب کر لیا ہے اور ان مفاسد سے مباح بھی ناجائز ہو جاتا ہے اس لئے ایسے امور بالکل ناجائز ہوں گے اور جو جو ضرورتیں یہ لوگ بیان کرتے ہیں سب نفس کے بہانے ہیں جن کو وہ دل میں خود بھی سمجھتے ہیں۔

شہید کے احکام

اگرچہ شہید بھی بظاہر میت ہے مگر عام موتی کے سب احکام اس میں جاری نہیں ہو اس کتے اور فضائل بھی اس کے بہت ہیں۔ اس لئے اس کے احکام علیحدہ بیان کرنا مناسب معلوم ہوا۔ شہید کے اقسام احادیث میں بہت وارد ہوئے ہیں۔ بعض علماء نے ان اقسام کے جمع کرنے کے لئے مستقل رسالے بھی تصنیف فرمائے ہیں مگر ہم کو شہید کے جو احکام یہاں بیان کرنا مقصود ہیں وہ اس شہید کے ساتھ خاص ہیں جس میں یہ چند شرطیں پائی جائیں۔ شرط مسلمان ہونا پس غیر اہل اسلام کے لئے کسی قسم کی شہادت ثابت نہیں ہو اس کتی۔ شرط مکلف یعنی عاقل بالغ ہونا پس جو شخص حالت جنون وغیرہ میں مارا جائے یا عدم بلوغ کی حالت میں تو اس کے لئے شہادت کے وہ احکام جن کا ہم ذکر آگے کریں گے ثابت نہ ہوں گے۔ شرط حدث اکبر سے پاک ہونا اگر کوئی شخص حالت جنابت میں یا کوئی عورت حیض و نفاس میں شہید ہو جائے تو اس کے لئے بھی شہید کے وہ احکام ثابت نہ ہوں گے۔ شرط بے گناہ مقتول ہونا۔ پس اگر کوئی شخص بے گناہ نہیں مقتول ہوا بلکہ کسی جرم شرعی کی سزا میں مارا گیا ہو یا مقتول ہی نہ ہوا ہو بلکہ یونہی مر گیا ہو تو اس کے لئے بھی شہید کے وہ احکام ثابت نہ ہوں گے۔ شرط اگر کسی مسلمان یا ذمی کے ہاتھ سے مارا گیا ہو تو یہ بھی شرط ہے کہ کسی آلہ جارحہ سے مارا گیا ہو اگر کسی مسلمان یا ذمی کے ہاتھ سے بذریعہ آلہ غیر جارحہ کے مارا گیا ہو مثلاً کسی پتھر وغیرہ سے مارا جاوے تو اس پر شہید کے احکام جاری نہ ہوں گے۔ لیکن لوہا مطلقا آلہ جارحہ کے حکم میں ہے گو اسمیں دھار نہو۔ اور اگر کوئی شخص حربی کافروں یا باغیوں یا ڈاکہ زنوں کے ہاتھ سے مارا گیا ہو یا ان کے معرکہ جنگ میں مقتول ملے تو اسمیں آلہ جارحہ سے مقتول ہونے کی شرط نہیں حتی کہ اگر کسی پتھر وغیرہ سے بھی وہ لوگ ماریں اور مر جائے تو شہید کا احکام اس پر جاری ہو جائیں گے بلکہ یہ بھی شرط نہیں کہ وہ لوگ خود مرتکب قتل ہوئے ہوں بلکہ اگر وہ سبب قتل بھی ہوئے ہوں یعنی ان سے وہ امور وقوع میں آئیں جو باعث قتل ہو جائیں تب بھی شہید کے احکام جاری ہو جائیں گے۔ مثال کسی حربی وغیرہ نے اپنے جانور سے کسی مسلمان کو روند ڈالا اور خود بھی اس پر سوار تھا کوئی مسلمان کسی جانور پر سوار تھا اس جانور کو کسی حربی وغیرہ نے بھگایا جس کی وجہ سے مسلمان اس جانور سے گر کر مر گیا۔

شرط کسی حربی وغیرہ نے کسی مسلمان کے گھر یا جہاز میں آگ لگا دی جس سے کوئی جل کر مر گیا۔ شرط اس قتل کی سزا میں ابتداء شریعت کی طرف سے کوئی مالی عوض نہ مقرر ہو بلکہ قصاص واجب ہوا ہو۔ پس اگر مالی عوض مقرر ہو گا تب بھی اس مقتول پر شہید کے احکام جاری نہ ہوں گے ظلماً مارا جائے مثال کوئی مسلمان کسی مسلمان کو غیر آلہ جارحہ سے قتل کر دے کوئی مسلمان کو آلہ جارحہ سے قتل کر دے مگر خطاء۔ مثلاً کسی جانور پر یا کسی نشانے پر حملہ ہو اور کسی انسان کے لگ جائے کوئی شخص کسی جگہ سوائے معرکہ جنگ کے مقتول پایا جائے اور کوئی قاتل اس کا معلوم نہ ہو ان سب صورتوں میں چونکہ اس قتل کے عوض کے مقرر ہونے میں ابتداء کی قید اس وجہ سے لگائی گئی کہ ابتداء قصاص مقرر ہوا ہو مگر کسی مانع کے سبب سے قصاص معاف ہو کر اس کے بدلے میں مال واجب ہوا ہو شہید کے احکام جاری ہو جائیں گے۔ مثال کوئی شخص آلہ جارحہ سے قصداً ظلما مارا گیا لیکن قاتل میں اور ورثہ مقتول میں کچھ مال کے عوض صلح ہو گئی ہو تو اس صورت میں ابتداء قصاص واجب ہوا تھا اور مال ابتداء میں واجب نہیں ہوا تھا بلکہ صلح کے سبب سے واجب ہوا اس لئے یہاں شہید کے احکام جاری ہو جائیں گے کوئی باپ اپنے بیٹے کو آلہ جارحہ سے مار ڈالے تو اس صورت میں ابتداء قصاص ہی واجب ہوا تھا مال ابتداء واجب نہیں ہوا لیکن باپ کے احترام و عظمت کی وجہ سے قصاص معاف ہو کر اس کے بدلہ میں مال واجب ہوا ہے لہذا یہاں بھی شہید کے احکام جاری ہو جائیں گے۔ شرط بعد زخم لگنے کہ پھر کوئی امر راحت و تمتع زندگی کا مثل کھانے پینے سونے دوا کرنے خرید و فروخت وغیرہ کے اس سے وقوع میں نہ آئے اور نہ بمقدار وقت ایک نماز کے اس کی زندگی حالت ہوش و حواس میں گذرے اور نہ اس کو حالت ہوش میں معرکہ سے اٹھا کر لائیں۔ ہاں اگر جانوروں کے پامال کرنے کے خوف سے اٹھا لائیں تو کچھ حرج نہ ہو گا۔ پس اگر کوئی شخص بعد زخم کے زیادہ کلام کرے تو وہ شہید کے احکام میں داخل نہ ہو گا اس لئے زیادہ کلام کر نا زندوں کی نشان سے ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وصیت کرے تو وہ وصیت اگر کسی دنیاوی معاملہ میں ہو شہید کے حکم سے خارج ہو جائے گا اور اگر دینی معاملہ میں ہو تو خارج نہ ہو گا۔ اگر کوئی شخص معرکہ جنگ میں شہید ہو اور اس نے یہ باتیں صادر ہوں تو شہید کے احکام سے خارج ہو جائے گا ورنہ نہیں لیکن یہ شخص اگر محاربہ میں مقتول ہوا ہے اور ہنوز حرب ختم نہیں ہوئی تو باوجود تمتعات مذکورہ کے بھی شہید ہے۔ مسئلہ۔ جس شہید میں یہ سب شرائط پائی جائیں اس کا ایک حکم یہ ہے کہ اس کو غسل نہ دیا جائے اور اس کا خون اس کے جسم سے زائل نہ کیا جائے اسی طرح اس کو دفن کر دیں۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ جو کپڑے پہنے ہوئے ہو ان کپڑوں کو اس کے جسم سے نہ اتاریں۔ ہاں اگر اس کے کپڑے کفن مسنون سے زیادہ ہوں تو زائد کپڑے اتار لئے جائیں۔ اور اگر اس کے جسم پر ایسے کپڑے ہوں جن میں کفن ہونے کی صلاحیت نہ ہو جیسے پوستین وغیرہ کو نہ اتارنا چاہئے۔ ٹو پی جوتہ ہتھیار وغیرہ ہر حال میں اتار لیا جائے گا اور باقی سب احکام جو اور موتے کے لئے ہیں مثل نماز وغیرہ کے وہ سب ان کے حق میں بھی جاری ہوں گے۔ اگر کسی شہید میں ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جاوے تو اس کو غسل بھی دیا جائے گا او مثل دوسرے مردوں کے نیاء کفن پہنایا جاوے گا۔

جنازے کے متفرق مسائل

مسئلہ۔ اگر میت کو قبر میں قبلہ رو کرنا یاد نہ رہے اور بعد دفن کرنے اور مٹی ڈال دینے کے خیال آئے تو پھر قبلہ رو کرنے کے لئے اس کی قبر کھولنا جائز نہیں۔ ہاں اگر صرف تختے ہٹا کر قبلہ رو کر دینا چاہئے۔

مسئلہ۔ عورتوں کو جنازے کے ہمراہ جانا مکروہ تحریمی ہے۔

مسئلہ۔ رونے والی عورتوں کا یا بیان کرنے والیوں کا جنازے کے ساتھ جانا ممنوع ہے۔

مسئلہ۔ میت کو قبر میں رکھتے وقت اذان کہنا بدعت ہے

مسئلہ۔ اگر امام جنازے کی نماز میں چار تکبیر سے زیادہ کہے تو حنفی مقتدیوں کو چاہئے کہ ان زائد تکبیروں میں اس کا اتباع نہ کریں بلکہ اس کوت کئے ہوئے کھڑے رہیں جب امام سلام پھیرے تو خود بھی سلام پھیر دیں۔ ہاں اگر زائد تکبیریں امام سے نہ سنی جائیں بلکہ مکبر سے تو مقتدیوں چاہیے کہ اتباع کریں اور ہر تکبیر کو تکبیر تحریمہ سمجھیں یہ خیال کر کے شاید اس سے پہلے جو چار تکبیریں مکبر نقل کر چکا ہے وہ غلط ہوں امام نے اب تکبیر تحریمہ کہی ہو۔

مسئلہ۔ اگر کوئی شخص جہاز وغیرہ پر مر جائے اور زمین وہاں سے اس قدر دور ہو کہ نعش کے خراب ہو جانے کا خوف ہو تو اس وقت چاہئے کہ غسل اور تکفین اور نماز سے فراغت کر کے اس کو دریا میں ڈال دیں اور اگر کنارہ اس قدر دور نہ ہو اور جلدی اترنے کی امید ہو تو اس نعش کو رکھ چھوڑیں اور زمین میں دفن کر دیں۔

مسئلہ اگر کسی شخص کو نماز جنازے کی وہ دعا جو منقول ہے یاد نہ ہو تو اس کو صرف ا للھم اغفر للمومنین والمومنات کہہ دینا کافی ہے اگر یہ بھی نہ ہو اس کے اور صرف چار تکبیروں پر اکتفا کی جائے تب بھی نماز ہو جائے گی اس لئے کہ دعا فرض نہیں بلکہ مسنون ہے اور اسی طرح درود شریف بھی فرض نہیں ہے۔

مسئلہ جب قبر میں مٹی پڑ چکے تو اس کے بعد میت کا قبر سے نکالنا جائز نہیں۔ ہاں اگر کسی آدمی کی حق تلفی ہوتی ہو تو البتہ نکالنا جائز ہے۔ مثال جس زمین میں اس کو دفن کیا ہے وہ کسی دوسرے کی ملک ہو اور وہ اس کے دفن پر راضی نہ ہو کسی شخص کا مال قبر میں رہ گیا ہو۔

مسئلہ۔ اگر کوئی عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اس کا پیٹ چاک کر کے وہ بچہ نکال لیا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کا مال نگل کر مر جائے اور مال والا مانگے تو وہ مال اس کا پیٹ چاک کر کے نکال لیا جائے لیکن اگر مردہ مال چھوڑ کر مرا ہے تو اس کے ترکہ میں سے وہ اںدا کر دیا جائے اور پیٹ چاک نہ کیا جائے۔

مسئلہ قبل دفن کے نعش کا ایک مقام سے دوسرے مقام میں دفن کرنے کے لئے لے جانا خلاف اولی ہے جبکہ وہ دوسرا مقام ایک دو میل سے زیادہ نہ ہو۔ اور اگر اس سے زیادہ ہو تو جائز نہیں اور بعد دفن کے نعش کھود کر لے جانا تو ہر حالت میں نا جائز ہے۔

مسئلہ میت کی تعریف کرنا خواہ نظم میں ہو یا نثر میں جائز ہے بشرطیکہ تعریف میں کسی قسم کا مبالغہ نہ ہو وہ تعریفیں بیان نہ کی جائیں جو اس میں نہ ہوں۔

مسئلہ میت کے اعزہ کو تاس کین و تسلی دینا اور صبر کے فضائل اور اس کا ثواب ان کو سنا کر ان کو صبر پر رغبت دلانا اور ان کے اور نیز میت کے لئے دعا کرنا جائز ہے اسی کو تعزیت کہتے ہیں۔ تین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ تنزیہی ہے لیکن اگر تعزیت کرنے والا یا میت کے اعزہ سفیر میں ہوں اور تین دن کے بعد آئیں تو اس صورت میں تین دن کے بعد بھی تعزیت مکروہ نہیں جو شخص ایک مرتبہ تعزیت کر چکا ہو اس کو پھر دوبارہ تعزیت کرنا مکروہ ہے۔

مسئلہ اپنے لئے کفن تیار رکھنا مکروہ نہیں قبر کا تیار رکھنا مکروہ ہے۔

مسئلہ میت کے کفن پر بغیر روشنائی کے ویسے ہی انگلی کی حرکت سے کوئی دعا مثل عہد نامہ وغیرہ کے لکھنا یا اس کے سینے پر بسم اللہ الرحمن الر حیم اور پیشانی پر کلمہ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ لکھنا جائز ہے مگر کسی صحیح حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے اس لئے اس کے مسنون یا مستحب ہونے کا خیال نہ رکھنا چاہیے۔

مسئلہ قبر پر کوئی سبز شاخ رکھ دینا مستحب ہے اور اگر اس کے قریب کوئی درخت وغیرہ نکل آیا ہو تو اس کا کاٹ ڈالنا مکروہ ہے

مسئلہ ایک قبر میں ایک سے زیادہ نعش کا دفن کرنا نہ چاہئے مگر بوقت ضرورت شدیدہ جائز ہے پھر اگر سب مرد آئے مرد ہی مرد ہوں تو جو ان سب میں افضل ہو اس کو آگے رکھیں باقی سب کو اس کے پیچھے درجہ بدرجہ رکھ دیں۔ اور اگر کچھ مرد ہوں اور کچھ عورتیں تو مردوں کو آگے رکھیں اور ان کے پیچھے عورتوں کو۔

مسئلہ قبروں کی زیارت کرنا یعنی انکو جا کر دیکھنا مردوں کے لئے مستحب ہے بہتر یہ ہے کہ ہر ہفتے میں کم سے کم ایک مرتبہ زیارت قبور کی جائے اور بہتر یہ ہے کہ وہ دن جمعہ کا ہو۔ بزرگوں کی قبروں کی زیارت کے لئے سفر کر کے جانا بھی جائز ہے جبکہ کوئی عقیدہ اور عمل خلاف شرع نہ ہو جیسا آجکل عرسوں میں مفاسد ہوتے ہیں۔

دوسرا سبب ایلاج یعنی کسی با شہوت مرد کے خاص حصہ کے سر کا کسی زندہ عورت کے حصہ میں یا کسی دوسرے زندہ آدمی کے مشترک حصہ میں داخل ہونا خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا خنثی اور خواہ منی گرے یا نہ گرے اس صورت میں اگر دونوں میں غسل کے صحیح ہونے کی شرطیں پائی جاتی ہیں یعنی دونوں بالغ ہوں تو دونوں پر ورنہ جس میں پائی جاتی ہیں اس پر غسل فرض ہو جائے گا۔

مسئلہ اگر عورت کمسن ہو مگر ایسی کم سن نہ ہو کہ اس کے ساتھ جماع کرنے سے اس کے خاص حصے اور مشترک حصے کے مل جانے کا خوف ہو تو اس کے خاص حصے میں مرد کے خاص حصے کا سر اگر کسی کے مشترک حصہ یا عورت کے خاص حصے میں داخل ہو تب بھی غسل دونوں پر فرض ہو جائے گا اگر دونوں بالغ ہوں ورنہ اس پر جو بالغ ہو۔

مسئلہ اگر کسی مرد کے خاص حصہ کا سر کٹ گیا ہو تو اس کے باقی جسم سے اس مقدار کا اعتبار کیا جائے گا یعنی اگر بقیہ عضو میں سے بقدر حشفہ داخل ہو گیا تو غسل واجب ہو گا ورنہ نہیں۔ مسئلہ اگر کوئی مرد اپنے خاص حصے کو کپڑے وغیرہ سے لپیٹ کر داخل کرے تو اگر جسم کی حرارت محسوس ہو تو غسل فرض ہو جائے گا مگر احتیاط یہ ہے کہ جسم کی حرارت محسوس ہو یا نہ ہو غسل فرض ہو جائے گا۔

مسئلہ اگر کوئی عورت شہوت کے غلبہ میں اپنے خاص حصہ میں کسی بے شہوت مرد یا جانور کے خاص حصہ کو یا کسی لکڑی وغیرہ کو یا اپنی انگلی کو داخل کرے تب بھی اس پر غسل فرض ہو جائے گا منی گرے یا نہ گے مگر یہ شارح کی رائے ہے اور اصل مذہب میں بدون انزال غسل واجب نہیں۔ تیسرا سبب حیض سے پاک ہونا۔ چوتھا سبب نفاس سے پاک ہونا۔

مسجد کے احکام

یہاں ہم کو مسجد کے وہ احکام بیان کرنا مقصود نہیں جو وقف سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ ان کا ذکر وقف کے بیان میں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہم یہاں ان احکام کو بیان کرتے ہیں جو نماز سے یا مسجد کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔

مسئلہ مسجد کے دروازہ کا بند کرنا مکروہ تحریمی ہے ہاں اگر نماز کا وقت نہ ہو اور مال و اسباب کی حفاظت کے لئے دروازہ بند کر لیا جاوے تو جائز ہے

مسئلہ مسجد کی چھت پر پائخانہ پیشاب یا جماع کرنا ایسا ہی ہے جیسا مسجد کے اندر۔

مسئلہ جس گھر میں مسجد ہو اس پورے گھر کو مسجد کا حکم نہیں اسی طرح اس جگہ کو بھی مسجد کا حکم نہیں جو عیدین یا جنازے کی نماز کے لئے مقرر کی گئی ہو

مسئلہ مسجد کے در و دیوار کا منقش کرنا اگر اپنے خاص مال سے ہو تو مضائقہ نہیں مگر محراب اور محراب والی دیوار پر مکروہ اور اگر مسجد کی آمدنی سے ہو تو نا جائز ہے

مسئلہ مسجد کی در و دیوار پر قران مجید کی آیتوں یا سورتوں کا لکھنا اچھا نہیں۔

مسئلہ مسجد کے اندر یا مسجد کی دیواروں پر تھوکنا یا ناک صاف کرنا بہت بری بات ہے اور اگر نہایت ضرورت در پیش آئے تو اپنے کپڑے وغیرہ میں تھوک وغیرہ لے لے۔

مسئلہ مسجد کے اندر وضو یا کلی وغیرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

مسئلہ جنب اور حائض کو مسجد کے اندر جانا گناہ ہے

مسئلہ مسجد کے اندر خرید و فروخت کرنا مکروہ تحریمی ہے ہاں اعتکاف کے حالت میں بقدر ضرورت مسجد کے اندر خرید و فروخت کرنا جائز ہے۔ ضرورت سے زیادہ اسوقت بھی جائز نہیں مگر وہ چیز مسجد کے اندر موجود نہ ہونا چاہئے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کے پیر میں مٹی وغیرہ بھر جائے تو اس کو مسجد کی دیوار یا ستون سے پونچھنا مکروہ ہے۔

مسئلہ۔ مسجد کے اندر درختوں کا لگانا مکروہ ہے اس لئے کہ یہ دستور اہل کتاب کا ہے ہاں اگر اسمیں مسجد کا کوئی فائدہ ہو تو جائز ہے مثلاً مسجد کی زمین میں نمی زیادہ ہو کہ دیواروں کے گر جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں اگر درخت لگایا جائے تو وہ نمی کو جذب کر لے گا۔ مسئلہ۔ مسجد کو راستہ قرار دینا جائز نہیں ہاں اگر سخت ضرورت لاحق ہو تو گاہے گاہے ایسی حالت میں مسجد سے ہو کر نکل جانا جائز ہے۔

مسئلہ۔ مسجد میں کسی پیشہ ور کو پیشہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ مسجد دین کے کاموں خصوصاً نماز کے لئے بنائی جاتی ہے اسمیں دنیا کے کام نہ ہونا چاہییں حتی کہ جو شخص قرآن وغیرہ تنخواہ لے کر پڑھاتا ہو وہ بھی پیشہ والوں میں داخل ہے اس کو مسجد سے علیحدہ بیٹھ کر پڑھانا چاہئے۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد کی حفاظت کے لئے مسجد میں بیٹھے اور ضمناً اپنا کام بھی کرتا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مثلاً کوئی کاتب یا درزی مسجد کے اندر بغرض حفاظت بیٹھے اور ضمناً اپنی کتابت یا سلائی بھی کرتا جائے تو جائز ہے۔

روزے کا بیان

مسئلہ۔ ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسرے شہر والوں پر بھی حجت ہے۔ ان دونوں شہروں میں کتنا ہی فصل کیوں نہ ہو حتی کہ اگر ابتدائے مغرب میں چاند دیکھا جائے اور اس کی خبر معتبر طریقے سے انتہا آئے مشرق کے رہنے والوں کو پہنچ جائے تو ان پر اس دن کا روزہ ضروری ہو گا۔

مسئلہ۔ اگر دو ثقہ آدمیوں کی شہادت سے رویت ہلال ثابت ہو جائے اور اسی حساب سے لوگ روزہ رکھیں بعد تیس روزے پورے ہو جانے کے عیدالفطر کا چاند نہ دیکھا جائے خواہ مطلع صاف ہو یا نہیں تو اکتیسویں دن افطار کر لیا جاوے اور وہ دن شوال کی پہلی تاریخ سمجھی جائے۔ مسئلہ۔ اگر تیس تاریخ کو دن کے وقت چاند دکھلائی دے تو وہ شب آئندہ کا سمجھا جائے گا شب گذشتہ کا نہ سمجھا جائے گا اور وہ دن آئندہ ماہ کی تاریخ نہ قرار دیا جائے گا خواہ رویت زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد۔

مسئلہ۔ جو شخص رمضان یا عید کا چاند دیکھے اور کسی سبب سے اس کی شہادت شرعاً قابل اعتبار نہ قرار پائے اس پر ان دونوں دنوں کا روزہ رکھنا واجب ہے۔

مسئلہ۔ کسی شخص نے بسبب اس کے کہ اس کو روزے کا خیال نہ رہا کچھ کھا پی لیا یا جماع کر لیا اور یہ سمجھاکہ میرا روزہ جاتا رہا اس خیال سے قصداً کچھ کھا پی لیا تو اس کا روزہ اس صورت میں فاسد ہو جائے گا اور کفارہ لازم نہ ہو گا صرف قضا واجب ہے اور اگر مسئلہ جانتا ہو اور پھر بھول کر ایسا کرنے کے بعد عمداً افطار کر دئیے تو جماع کی صورت میں کفارہ بھی لازم ہو گا اور کھانے کی صورت میں اس وقت بھی صرف قضا ہی ہے۔

مسئلہ کسی کو بے اختیار قے ہو گئی یا احتلام ہو گیا یا صرف کسی عورت وغیرہ کے دیکھنے سے انزال ہو گیا اور مسئلہ نہ معلوم ہونے کے سبب سے وہ یہ سمجھا کہ میرا روزہ جاتا رہا اور عمداً اس نے کھا پی لیا تو روزہ فاسد ہو گیا اور صرف قضا لازم ہو گی نہ کفارہ۔ اور اگر مسئلہ معلوم ہو کہ اس سے روزہ نہیں جاتا اور پھر عمداً افطار کر دیا تو کفارہ بھی لازم ہو گا

مسئلہ مرد اگر اپنے خاص حصہ کے سوراخ میں کوئی چیز ڈالے تو وہ چونکہ جوف تک نہیں پہنچتی اس لئے روزہ فاسد نہ ہو گا۔

مسئلہ کسی نے مردہ عورت سے یا ایسی کمسن نابالغہ لڑکی سے جس کے ساتھ جماع کی رغبت نہیں ہوتی یا کسی جانور سے جماع کیا یا کسی کو لپٹا یا بوسہ لیا یا جلق کا مرتکب ہوا اور ان سب صورتوں میں منی کا خروج ہو گیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا اور کفارہ واجب نہ ہو گا۔ مسئلہ کسی روزہ دار عورت سے زبردستی یا سونے کی حالت میں یا بحالت جنون جماع کیا تو عورت کا روزہ فاسد ہو جائے گا اور عورت پر صرف قضا لازم آئے گی اور مرد بھی اگر روزہ دار ہو تو اس پر قضاء و کفارہ دونوں لازم ہیں۔

مسئلہ وہ شخص جس میں روزے کے واجب ہونے کے تمام شرائط پائے جاتے ہوں رمضان کے اس ادائی روزہ میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کر چکا ہو عمداً منہ کے ذریعے سے جوف میں کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی دوا یا غذا میں مستعمل ہوتی ہو یعنی اس کے استعمال سے کسی قسم کا نفع جسمانی یا لذت متصور ہو اور اس کے استعمال سے سلیم الطبع انسان کی طبیعت نفرت نہ کرتی ہو گو وہ بہت ہی قلیل ہو حتی کہ ایک تل کی برابر یا جماع کرے یا کرائے لواطت بھی اسی حکم میں ہے جماع میں خاص حصے کے سر کا داخل ہو جانا کافی ہے منی کا خارج ہونا بھی شرط نہیں۔ ان سب صورتوں میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوں گے مگر یہ بات شرط ہے کہ جماع ایسی عورت سے کیا جائے جو قابل جماع ہو بہت کمسن لڑکی نہ ہو جس میں جماع کی بالکل قابلیت نہ پائی جائے۔

مسئلہ اگر کوئی شخص سر میں تیل ڈالے یا سرمہ لگائے یا مرد اپنے مشترک حصے کے سوراخ میں کوئی خشک چیز داخل کرے اور اس کا سر باہر رہے یا تر چیز داخل کرے اور وہ موضع حقنہ تک نہ پہنچے تو چونکہ یہ چیزیں جوف تک نہیں پہنچتیں اس لئے روزہ فاسد نہ ہو گا اور نہ کفارہ واجب ہو گا نہ قضاء اور اگر خشک چیز مثلاً روئی یا کپڑا وغیرہ مرد نے اپنی دبر میں داخل کی اور وہ ساری اندر غائب کر دی یا تر چیز داخل کی اور وہ موضع حقنہ تک پہنچ گئی تو روزہ فاسد ہو جائے گا اور صرف قضاء واجب ہو گی۔

مسئلہ جو لوگ حقہ پینے کے عادی ہوں یا کسی نفع کی غرض سے حقہ پیئیں روزہ کی حالت میں تو ان پر بھی کفارہ اور قضاء دونوں واجب ہوں گے۔

مسئلہ اگر کوئی عورت کسی نابالغ بچے یا مجنون سے جماع کرائے تب بھی اس کو قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

مسئلہ جماع میں عورت اور مرد دونوں کا عاقل ہونا شرط نہیں۔ حتی کہ اگر ایک مجنون ہو اور دوسرا عاقل تو عاقل پر کفارہ لازم ہو گا۔

مسئلہ سونے کی حالت میں منی کے خارج ہونے سے جاس کو احتلام کہتے ہیں اگرچہ بغیر غسل کئے ہوئے روزہ رکھے روزہ فاسد نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر کسی عورت کے یا اس کا خاص حصہ دیکھنے سے یا صرف کسی بات کا خیال دل میں کرنے سے منی خارج ہو جائے جب بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا۔

مسئلہ مرد کا اپنے خاص حصے کے سوراخ میں کوئی چیز مثل تیل یا پانی کے ڈالنا خواہ پچکاری کے ذریعہ سے یا ویسے ہی۔ یا سلائی وغیرہ کا داخل کرنا اگرچہ یہ چیزیں مثانے تک پہنچ جائیں روزے کو فاسد نہیں کرتا۔

مسئلہ کسی شخص نے بسبب اس کے کہ اس کو روزہ کا خیال نہیں رہا یا ابھی کچھ رات باقی تھی اس لئے جماع شروع کر دیا یا کچھ کھانے پینے لگا اور بعد اس کے جیسے ہی روزہ کا خیال آ گیا یا جونہی صبح صادق ہوئی فورا علیحدہ ہو گیا یا لقمے کو منہ سے پھینک دیا اگرچہ بعد علیحدہ ہو جانے کے منی بھی خارج ہو جائے تب بھی روزہ فاسد نہ ہو گا اور یہ انزال احتلام کے حکم میں ہو گا

مسئلہ مسواک کرنے سے اگرچہ بعد زوال کے ہو تازی لکڑی سے ہو یا خشک سے روزے میں کچھ نقصان نہ آ وے گا۔

مسئلہ عورت کا بوسہ لینا اور اس سے بغلگیر ہونا مکروہ ہے جبکہ انزال کا خوف ہو یا اپنے نفس کے بے اختیار ہو جانے کا اور اس حالت میں جماع کر لینے کا اندیشہ ہو اور اگر یہ خوف و اندیشہ نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں۔

مسئلہ کسی عورت وغیرہ کے ہونٹ کا منہ میں لینا اور مباشرت فاحشہ یعنی خاص بدن برہنہ ملانا بدون دخول کے ہر حال میں مکروہ ہے خواہ انزال یا جماع کا خوف ہو یا نہیں۔

مسئلہ اگر کوئی مقیم بعد نیت صوم کے مسافر بن جائے اور تھوڑی دور جا کر کسی بھولی ہوئی چیز کے لینے کو اپنے مکان واپس آئے اور وہاں پہنچ کر روزے کو فاسد کر دے تو اس کو کفارہ دینا ہو گا اس لئے کہ اس پر اس وقت مسافر کا اطلاق نہ تھا گو وہ ٹھہرنے کی نیت سے نہ گیا تھا اور نہ وہاں ٹھہرا۔

مسئلہ سو اجماع کے اور کسی سبب سے اگر کفارہ واجب ہوا ہو اور کیا کفارہ ادا نہ کرنے پایا ہو کہ دوسرا واجب ہو جائے تو ان دونوں کے لئے ایک ہی کفارہ کافی ہے اگرچہ دونوں کفارے دو رمضانوں کے ہوں۔ ہاں جماع کے سبب سے جے روزے فاسد ہوئے ہوں تو اگر وہ ایک ہی رمضان کے روزے ہیں تو ایک ہی کفارہ کافی ہے۔ اور دو رمضان کے ہیں تو ہر ایک رمضان کا کفارہ علیحدہ دینا ہو گا۔ اگرچہ پہلا کفارہ نہ ادا کیا ہو۔

اعتکاف کے مسائل

مسئلہ۔ اعتکاف کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں مسجد جماعت میں ٹھہرنا بہ نیت اعتکاف ٹھہرنا۔ پس بے قصد و ارادہ ٹھہر جانے کو اعتکاف نہیں کہتے چونکہ نیت کے صحیح ہونے کے لئے نیت کرنے والے کا مسلمان اور عاقل ہونا شرط ہے۔ لہذا عقل اور اسلام کا شرط ہونا بھی نیت کے ضمن میں آ گیا حیض و نفاس سے خالی اور پاک اور جنابت سے پاک ہونا

مسئلہ سب سے افضل وہ اعتکاف ہے جو مسجد حرام یعنی کعبہ مکرمہ میں کیا جائے اس کے بعد مسجد نبوی کا۔ اس کے بعد مسجد بیت المقدس کا۔ اس کے بعد اس جامع مسجد کا جس میں جماعت کا انتظام ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت کا انتظام نہ ہو تو محلے کی مسجد اس کے بعد وہ مسجد جس میں زیادہ جماعت ہوتی ہو۔

مسئلہ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں واجب سنت موکدہ مستحب واجب ہوتا ہے اگر نذر کی جائے نذر خواہ غیر معلق ہو جیسے کوئی شخص بے کسی شرط کے اعتکاف کی نذر کرے یا معلق جیسے کوئی شخص یہ شرط کرے کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے گا تو میں اعتکاف کروں گا۔ اور سنت مؤکدہ ہے رمضان کے اخیر عشرے میں نبی سے بالالتزام اعتکاف کرنا احادیث صحیحہ میں منقول ہے مگر یہ سنت مؤکدہ بعض کے کر لینے سے سب کے ذمے سے اتر جائے گی اور مستحب ہے اس عشرہ رمضان کے اخیر عشرے کے سوا اور کسی زمانے میں خواہ وہ رمضان کا پہلا دوسرا عشرہ ہو یا اور کوئی مہینہ۔

مسئلہ اعتکاف واجب کے لئے صوم شرط ہے۔ جب کوئی شخص اعتکاف کرے گا تو اس کو روزہ رکھنا بھی ضروری ہو گا بلکہ اگر یہ بھی نیت کرے کہ میں روزہ نہ رکھوں گا تب بھی اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص رات کے اعتکاف کی نیت کرے تو وہ لغو سمجھی جاوے گی۔ کیونکہ رات روزے کا محل نہیں۔ ہاں اگر رات دن دونوں کی نیت کرے یا صرف کئی دنوں کی تو پھر رات ضمناً داخل ہو جائے گی اور رات کو بھی اعتکاف کرنا ضروری ہو گا۔ اور اگر صرف ایک ہی دن کے اعتکاف کی نذر کرے تو پھر رات ضمناً بھی داخل نہ ہو گی روزے کا خاص اعتکاف کے لئے رکھنا ضروری نہیں خواہ کسی غرض سے روزہ رکھا جائے اعتکاف کے لئے کافی ہے مثلاً کوئی شخص رمضان میں اعتکاف کی نذر کرے تو رمضان کا روزہ اس اعتکاف کے لئے بھی کافی ہے۔ ہاں اس روزہ کا واجب ہونا ضروری ہے نفل روزے اس کے لئے کافی نہیں۔ مثلاً کوئی شخص نفل روزہ رکھے اور بعد اس کے اسی دن اعتکاف کی نذر کرے تو صحیح نہیں اگر کوئی شخص پورے رمضان کے اعتکاف کی نذر کرے اور اتفاق سے رمضان میں نہ کر سکے تو کسی اور مہینے میں اس کے بدلے کر لینے سے اس کی نذر پوری ہو جائے گی مگر علی الاتصال روزے رکھنا اور ان میں اعتکاف کرنا ضروری ہو گا

مسئلہ اعتکاف مسنون میں تو روزہ ہوتا ہی ہے اس لئے اس کے واسطے شرط کرنے کی ضرورت نہیں

مسئلہ اعتکاف مستحب میں بھی احتیاط یہ ہے کہ روزہ شرط ہے اور معتمد یہ ہے کہ شرط نہیں۔

مسئلہ اعتکاف واجب کم سے کم ایک دن ہو سکتا ہے اور زیادہ جس قدر نیت کرے اور اعتکاف مسنون ایک عشرہ اس لئے کہ اعتکاف مسنون رمضان کے اخیر عشرے میں ہوتا ہے اور اعتکاف مستحب کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں ایک منٹ بلکہ اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔

مسئلہ حالت اعتکاف میں دو قسم کے افعال حرام ہیں یعنی ان کے ارتکاب سے اگر اعتکاف واجب یا مسنون ہے تو فاسد ہو جائے گا اور اس کی قضا کرنا پڑے گی اور اگر اعتکاف مستحب ہے تو ختم ہو جائے گا۔ اس لئے کہ اعتکاف مستحب کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں پس اس کی قضا بھی نہیں۔ پہلی قسم اعتکاف کی جگہ سے بے ضرورت طبعی میں داخل ہے جبکہ کوئی شخص کھانا لانے والا نہ ہو۔ شرعی ضرورت جیسے جمعہ کی نماز۔

مسئلہ جس ضرورت کے لئے اپنے اعتکاف کی مسجد سے باہر جائے بعد اس کے فارغ ہونے کے وہاں قیام نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو ایسی جگہ اپنی ضرورت رفع کرے جو اس مسجد سے زیادہ قریب ہو۔ مثلاً پائخانے کے لئے اگر جائے اور اس کا گھر دور ہو اور اس کے کسی دوست وغیرہ کا گھر قریب ہو تو وہیں جائے۔ ہاں اگر اس کی طبیعت اپنے گھر مانوس ہو اور دوسری جگہ جانے سے اس کی ضرورت رفع نہ ہو تو پھر جائز ہے۔ اگر جمعے کی نماز کے لئے کسی مسجد میں جائے اور بعد نماز کے وہیں ٹھہر جائے اور وہیں اعتکاف کو پورا کرے تب بھی جائز ہے مگر مکروہ ہے۔

مسئلہ بھولے سے بھی اپنی اعتکاف کی مسجد کو ایک منٹ بلکہ اس سے بھی کم چھوڑ دینا جائز نہیں

مسئلہ جو عذر کثیر الوقوع نہ ہوں ان کے لئے اپنے معتکف کو چھوڑ دینا منافی اعتکاف ہے مثلاً کسی مریض کی عیادت کے لئے یا کسی ڈوبتے ہوئے کو بچانے کے لئے یا آگ بجھانے کو یا مسجد کے گرنے کے خوف سے گو ان صورتوں میں معتکف سے نکل جانا گناہ نہیں بلکہ جان بچانے کی غرض سے ضروری ہے مگر اعتکاف قائم نہ رہے گا۔ اگر کسی شرعی یا طبعی ضرورت کے لئے نکلے اور اس درمیان میں خواہ ضرورت رفع ہونیکے پہلے یا اس کے بعد کسی مریض کی عیادت کرے یا نماز جنازے میں شریک ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔

مسئلہ جمعہ کی نماز کے لئے ایسے وقت جاوے کہ تحیۃ المسجد اور سنت جمعہ وہاں پڑھ سکے اور بعد نماز کے بھی سنت پڑھنے کے لئے ٹھہرنا جائز ہے اس مقدار وقت کا اندازہ اس شخص کی رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر اندازہ غلط ہو جائے یعنی کچھ پہلے سے پہنچ جائے تو کچھ مضائقہ نہیں

مسئلہ اسی طرح اگر کسی شرعی یا طبعی ضرورت سے نکلے اور راستہ میں کوئی قرض خواہ روک لے یا بیمار ہو جائے اور پھر معتکف تک پہنچنے میں کچھ دیر ہو جائے تب بھی اعتکاف قائم نہ رہے گا۔ دوسری قسم ان افعال کی جو اعتکاف میں ناجائز ہیں جماع وغیرہ کرنا خواہ عمداً کیا جائے یا سہوا۔ اعتکاف کا خیال نہ رہنے کے سبب سے مسجد میں کیا جائے یا مسجد سے باہر۔ ہر حال میں اعتکاف باطل ہو جائے گا۔ جو افعال کہ تابع جماع کے ہیں جیسے بوسہ لینا یا معانقہ کرنا وہ بھی حالت اعتکاف میں ناجائز ہیں مگر ان سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا تاوقتیکہ منی نہ خارج ہو۔ ہاں اگر ان افعال سے منی کا خروج ہو جائے تو پھر اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ البتہ صرف خیال اور فکر سے اگر منی خارج ہو جائے تو اعتکاف فاسد نہ ہو گا۔

مسئلہ حالت اعتکاف میں بے ضرورت کسی دنیاوی کام میں مشغول ہونا مکروہ تحریمی ہے مثلاً بے ضرورت خریدو فروخت یا تجارت کا کوئی کام کرنا۔ ہاں جو کام نہایت ضروری ہو مثلاً گھر میں کھانے کو نہ ہو اور اس کے سوا کوئی دوسرا شخص قابل اطمینان خریدنے والا نہ ہو ایسی حالت میں خرید و فروخت کرنا جائز ہے مگر مبیع کا مسجد میں لانا کسی حال میں جائز نہیں بشرطیکہ اس کے مسجد میں لانے سے مسجد کے خراب ہو جانے یا جگہ رک جانے کا خوف ہو۔ ہاں اگر مسجد کے خراب ہونے یا جگہ رک جانے کا خوف نہ ہو تو بعض کے نزدیک جائز ہے۔ مسئلہ حالت اعتکاف میں بالکل چپ بیٹھنا بھی مکروہ تحریمی ہے ہاں بری باتیں زبان سے نہ نکالے جھوٹ نہ بولے غیبت نہ کرے بلکہ قرآن مجید کی تلاوت یا کسی دینی علم کے پڑھنے پڑھانے یا کسی اور عبادت میں اپنے اوقات صرف کرے خلاصہ یہ کہ چپ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں۔

زکوٰۃ کا بیان

مسئلہ۔ سال گذرنا سب میں شرط ہے۔

سائمہ جانوروں کی زکوٰة کا بیان

مسئلہ۔ ایک قسم جانوروں کی جنمیں زکوٰۃ فرض ہے سائمہ ہے۔ اور سائمہ وہ جانور ہیں جنمیں یہ باتیں پائی جاتی ہیں سال کے اکثر حصے میں اپنے منہ سے چر کے اکتفا کرتے ہوں اور گھر میں ان کو کھڑے کر کے نہ کھلایا جاتا ہو۔ اگر نصف سال اپنے منہ سے چر کے رہتے ہوں اور نصف سال ان کو گھر میں کھڑے کر کے کھلایا جاتا ہو تو پھر وہ سائمہ نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر گھاس ان کے لئے گھر میں منگائی جاتی ہو خواہ وہ بے قیمت یا بے قیمت تو پھر وہ سائمہ نہیں ہیں۔ دودھ کی غرض سے یا نسل کے زیادہ ہونے کے لئے یا فربہ کرنے کے لئے رکھے گئے ہوں اگر دودھ اور نسل اور فربہی کی غرض سے نہ رکھے گئے ہوں بلکہ گوشت کھانے کے لئے یا سواری کے لئے تو پھر سائمہ نہ کہلائیں گے۔

مسئلہ سائمہ جانوروں کی زکوٰۃ میں یہ شرط ہے کہ وہ اونٹ اونٹنی یا گائے بیل بھینس بھینسا بکرا بکری بھیڑ دنبہ ہو جنگلی جانوروں پر جیسے ہرن وغیرہ زکوٰۃ فرض نہیں۔ ہاں اگر تجارت کی نیت سے خرید کر رکھے جائیں تو ان پر تجارت کی زکوٰۃ فرض ہو گی۔ جو جانور کسی دیسی اور جنگلی جانور سے مل کر پیدا ہوں تو اگر ان کی ماں دیسی ہے تو وہ دیسی سمجھے جائیں گے اور اگر جنگلی ہے تو جنگلی سمجھے جائیں گے مثال بکری اور ہرن سے کوئی جانور پیدا ہو تو وہ بکری کے حکم میں ہے اور نیل گائے اور گائے سے کوئی جانور پیدا ہو تو وہ گائے کے حکم میں ہے۔

مسئلہ جو جانور سائمہ ہو اور سال کے درمیان میں اس کو تجارت کی نیت سے بیع کر دیا جائے تو اس سال اس کی زکوٰۃ نہ دینا پڑے گی اور جب سے اس نے تجارت کی نیت کی اس وقت سے اس کا تجارتی سال شروع ہو گا۔

مسئلہ جانوروں کے بچوں میں اگر وہ تنہا ہوں تو زکوٰۃ فرض نہیں۔ ہاں اگر ان کے ساتھ بڑا جانور بھی ہو تو پھر ان پر بھی زکوٰۃ فرض ہو جائے گی اور زکوٰۃ میں وہی بڑا جانور دیا جائے گا اور سال پورا ہونے کے بعد اگر وہ بڑا جانور مر جائے تو زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی

مسئلہ وقف کے جانوروں پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

مسئلہ گھوڑوں پر جب وہ سائمہ ہوں اور نر و مادہ مخلوط ہوں زکوٰۃ ہے یا تو فی گھوڑا ایک دینار یعنی پونے تین تولہ چاندی دیدے اور یا سب کی قیمت لگا کر اسی قیمت کا چالیسواں حصہ دیدے

مسئلہ گدھے اور خچر پر جبکہ تجارت کے لئے نہ ہوں زکوٰۃ فرض نہیں۔

اونٹ کا نصاب

یاد رکھو کہ پانچ اونٹ میں زکوٰۃ فرض ہے اس سے کم میں نہیں پانچ اونٹ میں ایک بکری اور دس میں دو۔ اور پندرہ میں تین اور بیس میں چار بکری دینا فرض ہے خواہ نر ہو یا مادہ مگر ایک سال سے کم نہ ہو اور درمیان میں کچھ نہیں پھر پچیس اونٹ میں ایک ایسی اونٹنی جاس کو دوسرا برس شروع ہو۔ اور چھبیس سے پینتیس تک کچھ نہیں پھر چھتیس اونٹ میں ایک ایسی اونٹنی جس کو تیسرا برس شروع ہو چکا ہو اور سینتیس سے پنتالیس تک کچھ نہیں۔ پھر چھیالیس اونٹ میں ایک ایسی اونٹنی جس کو چوتھا برس شروع ہو۔ اور سینتالیس سے ساٹھ تک کچھ نہیں۔ پھر اکسٹھ اونٹ میں ایک ایسی اونٹنی جاس کو پانچواں برس شروع ہو اور باسٹھ سے پچھتر تک کچھ نہیں۔ پھر چہتر اونٹ میں دو ایسی اونٹنیاں جن کو تیسرا برس شروع ہو۔ اور ستتر سے تک کچھ نہیں۔ پھر اکیانوے اونٹ میں دو ایسی اونٹنیاں جن کو چوتھا برس شروع ہو۔ اور بانوے سے ایکسوبیس زیادہ ہو جائیں تو پھر نیا حساب کیا جائے گا۔ یعنی چار زیادہ ہیں تو کچھ نہیں۔ جب زیادتی پانچ تک پہنچ جائے یعنی ایک سو پچیس ہو جائیں تو ایک بکری اور دو وہ اونٹنیاں جن کو چوتھاسال شروع ہو جائے اسی طرح ہر پانچ میں ایک بکری بڑھتی رہے گی ایک سو چوالیس تک۔ اور ایک سو پینتالیس ہو جائیں تو ایک دوسرے برس والی اونٹنی اور دو تین برس والی ایک سو اننچاس تک۔ اور جب ایک سو پچاس ہو جائیں تو تین اونٹنیاں چوتھے برس والی واجب ہوں گی جب اس سے بڑھ جائیں تو پھر نئے سرے سے حساب ہو گا یعنی پانچ اونٹوں میں چوبیس تک فی پانچ اونٹ ا یک بکری تین چوتھے برس والی اونٹنی کیساتھ۔ اور پچیس میں ایک دوسرے برس والی اونٹنی۔ اور چھتیس میں ایک تیسرے برس والی اونٹنی۔ پھر جب ایک سو چھیانوے ہو جائیں تو چار تین برس والی اونٹنی دو سو تک۔ پھر جب اس سے بڑھ جائیں تو ہمیشہ اسی طرح حساب چلے گا جیسا کہ ڈیڑھ سو کے بعد سے چلا ہے مسئلہ۔ اونٹ کی زکوٰۃ میں اگر اونٹ دیا جائے تو مادہ ہو چاہئے البتہ نر اگر قیمت میں مادہ کے برابر ہو تو درست ہے۔

گائے کا نصاب

گائے اور بھینس دونوں ایک قسم میں ہیں دونوں کے ملانے سے نصاب پورا ہوتا تو دونوں کو ملا لیں گے مثلاً بییس گائے ہوں تو دس بھیینسیں تو دونوں کو ملا کر تییس کا نصاب پورا کر لیں گے مگر زکوٰۃ میں وہی جانور دیا جائے گا جاس کی تعداد زیادہ ہو یعنی اگر گائے زیادہ ہیں تو زکوٰۃ میں گائے دی جائے گی اور اگر بھینس زیادہ ہیں تو زکوٰۃ دے جائے گی اور جو دونوں برابر ہوں تو قسم اعلی میں جو جانور کم قیمت کا ہو یا قسم ادنی میں جو جانور زیادہ قیمت کا ہو دیا جائے گا پس تیس گائے بھینس میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ جو پورے ایک برس کا ہو نر ہو یا مادہ تیس سے کم میں کچھ نہیں اور تیس کے بعد انتالیس تک بھی کچھ نہیں۔ چالیس گائے بھینس میں پورے دو برس کا بچہ نر یا مادہ اکتالیس سے انسٹھ تک کچھ نہیں جب ساٹھ ہو جائیں تو ایک ایک برس کے دو بچے دیئے جائیں گے۔ پھر جب ساٹھ سے زیادہ ہو جائیں تو ہر تیس میں ایک برس کا بچہ۔ اور ہر چالیس میں دو برس کا بچہ۔ مثلاً ستر ہو جائیں تو ایک ایک برس کا بچہ اور ایک برس کا بچہ۔ کیونکہ ستر میں ایک تیس کا نصاب ہے اور ایک چالیس کا واجب اسی ہو جائیں تو دو برس کے دو بچے۔ کیونکہ اسی میں چالیس کے دو نصاب ہیں۔ اور نوے میں ایک ایک برس کے تین بچے۔ کیونکہ نوے میں تیس کے اور ایک نصاب چالیس کا ہے۔ ہاں جہاں کہیں دونوں نصابوں کا حساب مختلف نتیجہ پیدا کرتا ہو وہاں اختیار ہے چاہے جاس کا اعتبار کریں مثلاً ایک سو بیس میں چار نصاب تو تیس کے ہیں اور تین نصاب چالیس کے پس اختیار ہے چاہے جاس کا اعتبار کریں مثلاً ایک سو بیس میں چار نصاب تو تیس کے ہیں اور تین نصاب چالیس کے پس اختیار ہے کہ تیس کے نصاب کا اعتبار کر کے ایک ایک برس کے چار بچے دیں خواہ چالیس کے نصاب کا اعتبار کر کے دو دو برس کے تین بچے دیں۔

بکری بھیڑ کا نصاب

زکوٰۃ کے بارے میں بکری بھیڑ سب یکساں ہیں خواہ بھیڑ دمدار ہو جس کو دنبہ کہتے ہیں یا معمولی ہو۔ اگر دونوں کا نصاب الگ الگ پورا ہو تو دونوں کی زکوٰۃ ساتھ دی جائے گی اور مجموعہ ایک نصاب ہو گا اور اگر ہر ایک کا نصاب پورا نہ ہو مگر دونوں کے ملا لینے سے نصاب پورا ہو جاتا ہے تب بھی دونوں کو ملا لیں گے۔ اور جو زیادہ ہو گا تو زکوٰۃ میں وہی دیا جائے گا اور دونوں برابر ہوں تو اختیار ہے چالیس بکری یا بھیڑ میں ایک بکری بھیڑ۔ چالیس کے بعد ایکسوبیس تک زائد میں کچھ نہیں۔ پھر ایک سو اکیس میں دو بھیڑ یا بکریاں اور ایک سو بائیس سے دو سو تک زائد میں کچھ نہیں۔ پھر دو سو ایک میں تین بھیڑ یا بکریاں۔ پھر تین سو ننانوے تک زائد میں کچھ نہیں پھر چار سو میں چار بکریاں یا بھیڑیں پھر چار سو سے زیادہ میں ہر سو میں ایک بکری کے حساب سے زکوٰۃ دینا ہو گی سو سے کم میں کچھ نہیں مسئلہ بھیڑ بکری کی زکوٰۃ میں نرمادہ کی قید نہیں ہاں ایک سال سے کم کا بچہ نہ ہونا چاہئے خواہ بھیڑ ہو یا بکری۔

زکوٰۃ کے متفرق مسائل

مسئلہ اگر کوئی شخص حرام مال کو حلال کے ساتھ ملا دے تو سب کی زکوٰۃ اس کو دینا ہو گی۔

مسئلہ اگر کوئی شخص زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مر جائے تو اس کے مال کی زکوٰۃ نہ لی جائے گی۔ ہاں اگر وہ وصیت کر گیا ہو تو اس کے تہائی مال میں سے زکوٰۃ لے لی جائے گی گویہ تہائی پوری زکوٰۃ کو کفایت نہ کرے۔ اور اگر اس کے وارث تہائی سے زیادہ دینے پر راضی ہوں تو جس قدر وہ اپنی خوشی سے دے دیں لے لیا جائے گا۔

مسئلہ اگر ایک سال کے بعد قرض خواہ اپنا قرض مقروض کو معاف کر دے تو قرض خواہ کو زکوٰۃ اس ایک سال کی نہ دینا پڑے گی۔ ہاں اگر وہ مدیون مالدار ہے تو اس کو معاف کرنا مال کا ہلاک کرنا سمجھا جائے گا اور دائن کو زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کے ہلاک کر دینے سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی۔

مسئلہ فرض و واجب صدقات کے علاوہ صدقہ دینا اسی وقت میں مستحب ہے جبکہ مال اپنی ضرورتوں اور اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں سے زائد ہو ورنہ مکروہ ہے۔ اسی طرح اپنے کل مال کا صدقہ میں دے دینا بھی مکروہ ہے ہاں اگر وہ اپنے نفس میں توکل اور صبر کی صفت بہ یقین جانتا ہو اور اہل و عیال کو بھی تکلیف کا احتمال نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں بلکہ بہتر ہے۔

مسئلہ اگر کسی نابالغ لڑکی کا نکاح کر دیا جائے اور وہ شوہر کے گھر میں رخصت کر دی جائے تو اگر وہ لڑکی مالدار ہے تب تو اس کے مال میں صدقہ فطر واجب ہے۔ اور اگر مالدار نہیں تو دیکھنا چاہیے کہ اگر قابل خدمت شوہر کے یا اس کی مونست کے ہے تو اس کا صدقہ فطر نہ باپ پر واجب ہے نہ شوہر پر نہ خود اس پر۔ اور اگر وہ قابل خدمت کے اور قابل موانست کے نہیں ہے تو اس کا صدقہ فطر اس کے باپ کے ذمے واجب رہے گا۔ اور اگر شوہر کے گھر میں رخصت نہیں کی گئی تو وہ قابل خدمت کے اور قابل موانست ہو ہر حال میں اس کے باپ پر اس کا صدقہ فطر واجب ہو گا۔

بالوں کے متعلق احکام

مسئلہ پورے سر پر بال رکھنا نرمہ گوش تک یا کسی قدر اس سے نیچے سنت ہے اور اگر منڈائے تو پورا سر منڈوا دینا سنت ہے اور کتروانا بھی درست ہے مگر سب کتروانا اور آگے کی طرف کسی قدر بڑے رکھنا جو کہ آجکل کا فیشن ہے جائز نہیں اور اسی طرح کچھ حصہ منڈوانا کچھ رہنے دینا درست نہیں اسی سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ آجکل بابری رکھنی یا چند وا کھلوانے یا اگلے حصہ سر کے بال بغرض گلائی بنوانے کا جو دستور ہے درست نہیں

مسئلہ اگر بال بہت بڑھا لئے تو عورتوں کی طرح جوڑا باندھنا درست نہیں۔

مسئلہ عورت کو سرمنڈانا بال کتروانا بال کتروانا حرام ہے حدیث میں لعنت آئی ہے۔

مسئلہ لبوں کا کتروانا اسقدر کہ لب کے برابر ہو جائے سنت ہے اور منڈانے میں اختلاف ہے۔ بعضے بدعت کہتے ہیں بعضے اجازت دیتے ہیں لہذا نہ منڈانے میں ہی احتیاط ہے۔

مسئلہ مونچھ دونوں طرف درا رہنے دینا درست ہے بشرطیکہ لبیں دراز نہ ہوں۔

مسئلہ داڑھی منڈانا کتروانا حرام ہے البتہ ایک مشت سے جو زائد ہو اس کا کتروا دینا درست ہے۔ اسی طرح چاروں طرف سے تھوڑا تھوڑا لے لینا کہ سڈول اور برابر ہو جائے درست ہے۔

مسئلہ رخسارے کی طرف جو بال بڑھ جاویں ان کو برابر کر دینا یعنی خط بنوانا درست ہے اسی طرح اگر دونوں ابرو کسی قدر لے لیے جاویں اور درست کر دی جاویں یہ بھی درست ہے۔

مسئلہ حلق کے بال منڈوانا نہ چاہئے مگر ابو یوسف سے منقول ہے کہ اسمیں بھی کچھ مضائقہ نہیں۔

مسئلہ ریش بچہ کے جانبین لب زیریں کے بال منڈوانے کو فقہا نے بدعت لکھا ہے اس لئے نہ چاہئے۔ اسی طرح گدی کے بال بنوانے کو بھی فقہا نے مکروہ لکھا ہے۔

مسئلہ بغرض زینت سفید بال کا چننا ممنوع ہے البتہ مجاہد کو دشمن پر رعب و ہیبت ہونے کے لئے دور کرنا بہتر ہے۔

مسئلہ ناک کے بال اکھیڑنا نہ چاہئے قینچی سے کتر ڈالنا چاہئے۔

مسئلہ سینے اور پشت کے بال بنانا جائز ہے مگر خلاف ادب اور غیر اولی ہے۔

مسئلہ موئے زیر ناف میں مرد کے لئے استرے سے دور کرنا بہتر ہے۔ مونڈتے وقت ابتداء ناف کے نیچے سے کرے اور ہڑتال وغیرہ کوئی اور دوا لگا کر زائل کرنا بھی جائز ہے۔ اور عورت کے لئے موافق سنت کے یہ ہے کہ چٹکی یا چمٹی سے دور کرے استرہ نہ لگے۔

مسئلہ موے بغل میں اولی تو یہ ہے کہ موچنے وغیرہ سے دور کئے جائیں اور استرے سے منڈوانا بھی جائز ہے۔

مسئلہ اس کے علاوہ اور تمام بدن کے بالوں کا مونڈنا اور رکھنا دونوں درست ہے ق

مسئلہ پیر کے ناخن اس ترتیب سے کتروانا بہتر ہے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے شروع کرے اور چھنگلیاں تک بہ ترتیب کتروا کر پھر بائیں چھنگلیا پھر بہ ترتیب بہتر ہے اور اولی ہے اس کے خلاف بھی درست ہے۔

مسئلہ کٹے ہوئے ناخن اور بال دفن کر دینا چاہئے دفن نہ کرے تو کسی محفوظ جگہ ڈال دے یہ بھی جائز ہے مگر نجس گندی جگہ نہ ڈالے اس سے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے۔

مسئلہ ناخن کا دانت سے کاٹنا مکروہ ہے اس سے برص کی بیماری ہو جاتی ہے۔

مسئلہ حالت جنابت میں بال بنانا ناخن کاٹنا موئے زیر ناف وغیرہ دور کرنا مکروہ ہے۔

مسئلہ ہر ہفتے میں ایک مرتبہ موئے زیر ناف موئے بغل لبیں ناخن وغیرہ دور کر کے نہا دھو کر صاف ستھرا ہونا افضل ہے اور سب سے بہتر جمعہ کا دن ہے کہ قبل نماز فراغت کر کے نماز کو جاوے۔ ہر ہفتہ نہ ہو تو پندرہویں دن سہی انتہا درجہ چالیسویں دن اس کے بعد رخصت نہیں۔ اگر چالیس دن گذر گئے اور امور مذکورہ سے صفائی حاصل نہ کی تو گنہگار ہو گا۔

شفعہ کا بیان

مسئلہ جس وقت شفیع کو خبر بیع کی پہنچی اگر فورا منہ سے نہ کہا کہ میں شفعہ لوں گا تو شفعہ باطل ہو جائے گا پھر اس شخص کو دعوی کرنا جائز نہیں حتی کہ اگر شفیع کے پاس خط پہنچا اور اس کے شروع میں یہ خبر لکھی ہے کہ فلاں مکان فروخت ہوا اور اس وقت اس نے زبان سے نہ کہا کہ میں شفعہ لوں گا یہاں تک کہ تمام خط پڑھ گیا اور پھر کہا کہ میں شفعہ لوں گا تو اس کا شفعہ باطل ہو گیا۔

مسئلہ اگر شفیع نے کہا کہ مجھ کو اتنا روپیہ دو تو اپنے حق شفعہ سے دستبردار ہو جاؤں تو اس صورت میں چونکہ اپنا حق ساقط کرنے پر رضامند ہو گیا اس لئے شفعہ تو ساقط ہوا لیکن چونکہ یہ رشوت ہے اس لئے یہ روپیہ لینا دینا حرام ہے۔

مسئلہ اگر ہنوز حاکم نے شفعہ نہیں دلایا تھا کہ شفیع مر گیا وارثوں کو شفعہ نہ پہنچے گا اور اگر خریدار مر گیا شفعہ باقی رہے گا۔

مسئلہ شفیع کو خبر پہنچی کہ اس قدر قیمت کو مکان بکا ہے اس نے دستبرداری کی۔ پھر معلوم ہوا کہ کم قیمت کا بکا ہے اس وقت شفعہ لے اس کتا ہے اسی طرح پہلے سنا تھا کہ فلاں شخص خریدار ہے پھر سنا کہ نہیں بلکہ دوسرا خریدار ہے یا پہلے سنا تھا کہ نصف بکا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ پورا بکا ہے۔ ان صورتوں میں پہلی دستبرداری سے شفعہ باطل نہ ہو گا۔

مزارعت یعنی کھیتی کی بٹائی اور مساقاۃ یعنی پھل کی بٹائی کا بیان

مسئلہ ایک شخص نے خالی زمین کسی کو دے کر کہا کہ تم اس میں کھیتی کرو جو پید اہو گا اس کو فلاں نسبت سے تقیسم کر لیں گے یہ مزارعت ہے اور جائز ہے۔

مسئلہ ایک شخص نے باغ لگایا اور دوسرے شخص سے کہا کہ تم اس باغ کو سینچو خدمت کرو جو پھل آوے گا خواہ ایک دو سال یا دس بارہ سال تک نصفا نصف یا تین تہائی تقسیم کر لیا جاوے گا یہ مساقاة ہے اور یہ بھی جائز ہے۔

مسئلہ مزارعت کی درستی کے لئے اتنی شرطیں ہیں۔ زمین کا قابل زراعت ہونا۔ زمیندار اور کسان کا عاقل و بالغ ہونا۔ مدت زراعت کا بیان کرنا۔ بیج کا بیان کر دینا کہ زمیندار کا ہو گا یا کسان کا۔ جنس کاشت کا بیان کر دینا کہ گیہوں ہوں گے یا جو۔ مثلاً کسان کے حصے کا ذکر ہو جانا کہ کل پیداور میں کس قدر ہو گا۔ زمین کو خالی کر کے کسان کے حوالہ کرنا۔ زمین کی پیداوار میں کسان اور مالک کا شریک رہنا۔ زمین اور تخم ایک شخص کا ہونا اور بیل اور محنت وغیرہ امور دوسرے کے ہونے یا ایک کی فقط زمین اور باقی چیزیں دوسرے کے متعلق ہوں۔

مسئلہ اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو مزارعت فاسد ہو جائے گی۔

مسئلہ مزارعت فاسدہ میں سب پیداوار بیج والے کی ہو گی اور دوسرے شخص کو اگر وہ زمین والا ہے تو زمین کا کرایہ موافق دستور کے ملے گا اور اگر وہ کاشتکار ہے تو مزدوری موافق دستور کے ملے گی مگر یہ مزدوری اور کرایہ اس قدر سے زیادہ نہ دیا جائے گا جو آپس میں دونوں کے ٹھہر چکا تھا یعنی اگر مثلاً آدھا آدھا حصہ ٹھہرا تھا تو کل پیداور کی نصف سے زیادہ نہ دیا جائے گا۔ مسئلہ بعد معاملہ مزارعت کے اگر دونوں میں سے کوئی شرط کے بموجب کام کرنے سے انکار کرے تو اس سے بزور کام لیا جائے گا لیکن اگر بیج والا انکار کرے تو اس پر زبردستی نہ کی جائے گی۔

مسئلہ بعض جگہ دستور ہے کہ بٹائی کی زمین میں جو غلہ پیدا ہوتا ہے اس کو تو حسب معاہدہ باہم تقسیم کر لیتے ہیں اور جو اجناس چری وغیرہ پیدا ہوتی ہے اس کو تقسیم نہیں کرتے بلکہ بیگھوں کے حساب سے کاشتکار سے نقد لگان وصول کرتے ہیں سو ظاہرا تو بوجہ اس کے کہ یہ شرط خلاف مزارعت ہے ناجائز معلوم ہوتی ہے مگر اس تاویل سے کہ اس قسم کی اجناس کو پہلے ہی سے خارج از مزارعت کہا جائے اور باعتبار عرف کے معاملہ سابقہ میں یوں تفصیل کی جائے کہ دونوں کی مراد یہ تھی کہ فلاں اجناس میں عقد مزارعت کرتے ہیں اور فلاں اجناس میں زمین بطور اجارہ کے دیجاتی ہے اس طرح جائز ہو اس کتا ہے مگر اس میں جانبین کی رضا مندی شرط ہے

مسئلہ بعض زمینداروں کی عادت ہے کہ علاوہ اپنے حصہ بٹائی کے کاشتکار کے حصہ میں سے کچھ اور حقوق ملازموں اور کمیوں کے بھی نکالتے ہیں سو اگر بالمقطع ٹھہرا لیا کہ ہم دو من یا چار من ان حقوق کا لیں گے یہ تو ناجائز ہے اور اگر اس طرح ٹھہرایا کہ ایک من میں ایک سیر مثلاً تو یہ درست ہے۔

مسئلہ بعض لوگ اس کا تصفیہ نہیں کرتے کہ کیا بویا جائے گا پھر بعد میں تکرار و قضیہ ہوتا ہے یہ جائز نہیں۔ یا تو اس تخم کا نام تصریحاً لے لے یا عام اجازت دیدے کہ جو چاہے بونا

مسئلہ بعض جگہ رسم ہے کہ کاشتکار زمین میں تخم پاشی کر کے دوسرے لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے اور یہ شرط ٹھہرتی ہے کہ تم اسمیں محنت و خدمت کرو جو کچھ حاصل ہو گا ایک تہائی مثلاً ان محنتیوں کا ہو گا سو یہ بھی مزارعت ہے جس جگہ زمیندار اصلی اس معاملہ کو نہ روکتا ہو وہاں جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

مسئلہ اس اوپر کی صورت میں بھی مثل صورت سابقہ عرفا تفصیل ہے بعض اجناس تو ان عاملوں کو بانٹ دیتے ہیں اور بعض میں فی بیگھہ کچھ نقد دیتے ہیں پس اس میں بھی ظاہرا وہی شبہ عدم جواز کا اور وہی تاویل جواز کی جاری ہے

مسئلہ اجارہ یا مزارعت میں بارہ سال یا کم و بیش مدت تک زمین سے منتفع ہو کر موروثیت کا دعوی کرنا جیسا اس وقت رواج ہے محض باطل اور حرام اور ظلم و غصب ہے بدو طیب خاطر مالک کے ہرگز اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ اگر ایسا کیا تو اس کی پیداوار بھی خبیث ہے اور کھانا اس کا حرام ہے۔

مسئلہ مساقاة کا حال سب باتوں میں مثل مزارعت کے ہے۔

مسئلہ اگر پھل لگے ہوئے درخت پرورش کو دے اور پھل ایسے ہوں کہ پانی دینے اور محنت کرنے سے بڑہتے ہوں تو درست ہے اور اگر ان کا بڑھنا پورا ہو چکا ہو تو مساقات درست نہ ہو گی جیسے مزارعت کہ کھیتی تیار ہونے کے بعد درست نہیں۔

مسئلہ اور عقد مساقات جب فاسد ہو جائے تو پھل سب درخت والے کے ہوں گے اور کام کرنے والے کو معمولی مزدوری ملے گی جس طرح مزارعت میں بیان ہوا۔

نشے دار چیزوں کا بیان

مسئلہ جو چیز پتلی بہنے والی نشے دار ہو خواہ شراب ہو یا تاڑی یا اور کچھ اور اس کے زیادہ پینے سے نشہ ہو جاتا ہو اس کا ایک قطرہ بھی حرام ہے اگرچہ اس قلیل مقدار سے نشہ نہ ہو۔ اسی طرح دوا میں استعمال کرنا خواہ پینے میں یا لیپ کرنے میں نیز ممنوع ہے خواہ وہ نشہ دار چیز اپنی اصل ہیئت پر رہے خواہ کسی تصرف سے دوسری شکل ہو جائے ہر حال میں ممنوع ہے۔ یہاں سے انگریزی دواؤں کا حال معلوم ہو گیا جن میں اکثر اس قسم کی چیزیں ملائی جاتی ہیں۔

مسئلہ اور جو چیز نشہ دار ہو مگر پتلی نہ ہو بلکہ اصل سے منجمد ہو جیسے تمباکو جائفل افیون وغیرہ اس کا حکم یہ ہے کہ جو مقدار بالفعل نشہ پیدا کرے یا اس سے ضرر شدید ہو وہ تو حرام ہے اور جو مقدار نشہ نہ لائے نہ اس سے کوئی ضرر پہنچے وہ جائز ہے۔ اور اگر ضماد وغیرہ میں استعمال کیا جائے تو کچھ بھی مضائقہ نہیں۔

شرکت کا بیان

شرکت دو طرح کی ہے ایک شرکت املاک کہلاتی ہے جیسے ایک شخص مرگیا اور اس کے ترکہ میں چند وارث شریک ہیں یا روپیہ ملا کر دو شخصوں نے ایک چیز خریدی یا ایک شخص نے دو شخصوں کو کوئی چیز ہبہ کر دی۔ اس کا حکم یہ ہے کہ کسی کو کوئی تصرف بلا اجازت دوسرے شریک کے جائز نہیں۔ دوسری شرکت عقود ہے یعنی دو شخصوں نے باہم معاہدہ کیا کہ ہم تم شرکت میں تجارت کریں گے اس شرکت کے اقسام و احکام یہ ہیں۔

مسئلہ ایک قسم شرکت عقود کی شرکت عنان ہے یعنی دو شخصوں نے تھوڑا تھوڑا روپیہ بہم پہنچا کر اتفاق کیا کہ اس کا کپڑا یا غلہ یا اور کچھ خرید کر تجارت کریں اسمیں یہ شرط ہے کہ دونوں کا راس المال نقد ہو خواہ روپیہ یا اشرفی یا پیسے۔ سو اگر دونوں آدمی کچھ اسباب غیر نقد شامل کر کے شرکت سے تجارت کرنا چاہیں۔ یا ایک کا راس المال نقد ہو اور دوسرے کا غیر نقد یہ شرکت صحیح نہیں ہو گی

مسئلہ شرکت عنان میں جائز ہے کہ ایک کا مال زیادہ ہو ایک کا کم اور نفع کی شرکت باہمی رضا مندی پر ہے یعنی اگر یہ شرط ٹھرے کہ مال تو کم و زیادہ ہے مگر نفع برابر تقسیم ہو گا۔ یا مال برابر ہے مگر نفع تین تہائی ہو گا تو بھی جائز ہے۔

مسئلہ اس شرکت عنان میں ہر شریک کو مال شرکت میں ہر قسم کا تصرف متعلق تجارت کے جائز ہے بشرطیکہ خلاف معاہدہ نہ ہو۔ لیکن ایک شریک کا قرض دوسرے سے نہ مانگا جائے گا۔

مسئلہ اگر بعد اقرار پانے اس شرکت کے کوئی چیز خریدی نہیں گئی اور مال شرکت باطل نہ ہو گی مال خرید دونوں کا ہو گا اور جس قدر اس مال میں دوسرے شریک کا حصہ ہے اس حصے کے موافق زر ثمن اس دوسرے شریک سے وصول کر لیا جائے گا۔ مثلاً ایک شخص کے دس روپے تھے اور دوسرے کے پانچ۔ دس روپے والے نے مال خرید لیا تھا اور پانچ روپے والے کے روپے ضائع ہو گئے سو پانچ روپے والا اس مال میں ثلث کا شریک ہے اور دس روپے والے نے مال خرید لیا تھا اور پانچ روپے والے کے روپے ضائع ہو گئے سو پانچ روپے والا اس مال میں ثلث کا شریک ہے اور دس روپے والا اس سے دس روپے کا ثلث نقد وصول کر لے گا یعنی تین روپے پانچ آنے چار پائی۔ اور آئندہ یہ مال شرکت پر فروخت ہو گا۔ مسئلہ اس شرکت میں دونوں شخصوں کو مال کا مخلوط کرنا ضرور نہیں صرف زبانی ایجاب و قبول سے یہ شرکت منعقد ہو جاتی ہے۔

مسئلہ نفع نسبت سے مقرر ہونا چاہئے یعنی آدھا آدھا یا تین تہائی مثلاً اگر یوں ٹھہرا کہ ایک شخص کو سو روپے ملیں گے باقی دوسرے کا یہ جائز نہیں۔

مسئلہ ایک قسم شرکت عقود کی شرکت صنائع کہلاتی ہے اور شرکت تقبل بھی کہتے ہیں جیسے دو درزی یا دو رنگریز باہم معاہدہ کر لیں کہ جو کام جاس کے پاس آئے اس کو قبول کر لے اور جو مزدوری ملے وہ آپس میں آدھوں آدھ یا تین تہائی یا چوتھائی وغیرہ کے حساب سے بانٹ لیں یہ جائز ہے۔

مسئلہ جو کام ایک نے لے لیا دونوں پر لازم ہو گیا مثلاً ایک شریک نے ایک کپڑا سینے کے لئے لیا تو صاحب فرمائش جس طرح اس پر تقاضا کر اس کتا ہے دوسرے شریک سے بھی سلوا اس کتا ہے۔ اسی طرح جیسے یہ پکڑا سینے والا مزدوری مانگ اس کتا ہے دوسرا بھی مزدوری لے اس کتا ہے اور جس طرح اصل کو مزدوری دینے سے مالک سبکدوش ہو جاتا ہے اسی طرح اگر دوسرے شریک کو دیدی تو بھی بری الذمہ ہو اس کتا ہے۔

مسئلہ ایک قسم شرکت کی شرکت وجوہ ہے یعنی نہ ان کے پاس مال ہے نہ کوئی ہنر و پیشہ ہے صرف باہمی یہ اقرار دیا کہ دوکانداروں سے ادھار مال لیکر بیچا کریں اس شرکت میں بھی ہر شریک دوسرے کا وکیل ہو گا اور اس شرکت میں جس نسبت سے شرکت ہو گی اسی نسبت سے نفع کا استحقاق ہو گا یعنی اگر خریدی ہوئی چیزوں کو بالنصف مشترکہ قرار دیا گیا تو نفع بھی نصفا نصف تقسیم ہو گا۔ اور اگر مال کو تین تہائی مشترکہ ٹھیرایا گیا تو نفع بھی تین تہائی تقسیم ہو گا۔

موت اور اس کے متعلق اور زیارت قبور کا بیان

فرمایا جناب رسول اللہ نے کثرت سے موت کو یاد کرو اس لئے کہ وہ یعنی موت کا یاد کرنا گناہوں کو دور کرتا ہے اور دنیائے مذموم اور غیر مطلوب اور فضول سے بیزار کرتا ہے یعنی جب انسان موت کو بکثرت یاد کرے گا تو دنیا میں جی نہ لگے گا اور طبیعت دنیا کے سامان سے نفرت کرے گی اور زاہد ہو جائے گا اور آخرت کی طلب اور وہاں کی نعمتوں کی خواہش اور وہاں کے عذاب درد ناک کا خوف ہو گا پس ضرور ہے کہ نیک اعمال میں ترقی کرے گا اور معاصی سے بچے گا۔ اور تمام نیکیوں کی جڑ زہد ہے یعنی دنیا سے بیزار ہونا۔ جب تک دنیا سے اور اس کی زینت سے علاقہ ترک نہ ہو گا پوری توجہ اللہ کی طرف نہیں ہو اس کتی۔ اور بار ہا عرض کیا جا چکا ہے کہ امور ضرور یہ دنیاویہ جو موقوف علیہا ہیں عبادت کے وہ مطلوب ہیں اور دین میں داخل ہیں لہذا اس مذمت سے وہ خارج ہیں بلکہ جس دنیا کی مذمت کی جاتی ہے اس سے وہ چیزیں مراد ہیں جو حق تعالی سے غافل کریں گو کسی درجہ میں سہی۔ جس درجہ کی غفلت ہو گی اسی درجہ کی مذمت ہو گی پس معلوم ہوا کہ موت کی یاد اور اس کا دھیان رکھنا اور اس نازک اور عظیم الشان سفر کے لئے توشہ تیار کرنا ہر عاقل پر لازم ہے۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جو بیس بار روزانہ موت کو یاد کرے تو درجہ شہادت پاوے گا۔ سو اگر تم اس کو یا د کرو گے تو نگری کی حالت میں تو وہ یاد کرنا اس غنا کو گرا دے گا۔ یعنی جب غنی آدمی موت کا دھیان رکھے گا تو اس غنا کی اس کے نزدیک وقعت نہ رہے گی جو باعث غفلت ہے کیونکہ یہ سمجھے گا کہ عنقریب یہ مال مجھ سے جدا ہونے والا ہے اس سے علاقہ پیدا کرنا کچھ نافع نہیں بلکہ مضر ہے کیونکہ محبوب کا فراق باعث اذیت ہوتا ہے۔ ہاں وہ کام کریں جو وہاں کام آئے جہاں ہمیشہ رہنا ہے پس ان خیالات سے مال کا کچھ برا اثر نہ پڑے گا اور اگر تم اسے فقر اور تنگی کی حالت میں یاد کرو گے تو وہ یاد کرنا تم کو راضی کر دے گا تمہاری بسر اوقات سے یعنی جو کچھ تمہاری تھوڑی سی معاش ہے اس سے راضی ہو جاؤ گے کہ چند روزہ قیام ہے پھر کیوں غم کریں اس کا عوض حق تعالی عنقریب نہایت عمدہ مرحمت فرمائیں گے۔ فرمایا جناب رسول اللہ نے بیشک زمین البتہ پکارتی ہے ہر دن ستر بار اے بنی دم کھالو جو چاہو اور جس چیز سے رغبت کرو پس خدا کی قسم البتہ میں ضرور تمہارے گوشت اور تمہارے پوست کھاؤں گی۔ اگر شبہ ہو کہ ہم تو آواز زمین کی سنتے نہیں تو ہم کو کیا فائدہ۔ جواب یہ ہے کہ جناب رسول کریم کے ارشاد عالی سے جب یہ معلوم ہو گیا کہ زمین اس طرح کہتی ہے تو جیسے زمین کی آواز سے دنیا دل پر سرد ہو جاتی ہے اسی طرح اب بھی اثر ہونا چاہئے کسی چیز کے علم کیواسطے یہ کیا ضرور ہے کہ اس کی آواز ہی سے علم ہو بلکہ مقصود تو اس کا علم ہوتا ہے خواہ کسی طریق سے ہو مثلاً کوئی شخص دشمن کے لشکر کو آتا دیکھ کر جیسا گھبراتا ہے اور اس سے مدافعت کے سامان کرتا ہے اسی طرح کسی معتبر شخص کے خبر دینے سے بھی گھبراتا ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں اس کو دشمن کے لشکر کا نا معلوم ہو گیا جو گھبرانے اور مدافعت کے سامان کا باعث ہے اور کوئی مخبر جناب رسالت مآب علیہ افضل الصلوة و السلام سے بڑھ کر بلکہ آپ کے برابر بھی نہیں ہو اس کتا پس جب اور لوگوں کے کہنے کا اعتبار کیا جاتا ہے تو پکے فرمودہ کا تو بطرق اولی اعتبار ہونا چاہئے کیونکہ آپ نہایت سچے ہیں حدیث میں ہے کفی بالموت واعظا وبالیقین عنا ترجمہ یہ ہے کہ کافی ہے موت باعتبار واعظ ہونے کے یعنی موت کا وعظ کافی ہے کہ جو شخص اس کی یاد رکھے اس کو دنیا سے بے رغبت کرنے کے لئے اور کسی چیز کی حاجت نہیں اور کافی ہے یقین روزی ملنے کا باعتبار غنا کے۔ یعنی جب انسان کو حق تعالی کے وعدہ پر یقین ہے کہ ہر ذی حیات کو اس اندازہ سے جو اس کے حق میں بہتر ہے رزق ضرور دیا جاتا ہے تو یہ کافی غنی ہے ایسا شخص پریشان نہیں ہو اس کتا بلکہ جو مال سے غنا حاصل ہوتا ہے اس سے یہ اعلی ہے کہ اس کو فنا نہیں اور مال کو فنا ہے کیا معلوم ہے کہ جو مال اسوقت موجود ہے وہ کل کو بھی باقی رہے گا یا نہیں اور خداوند کریم کے وعدہ کو بقا ہے جسقدر کہ رزق موعود ہے ضرور ملے گا خوب سمجھ لو۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص پسند کرتا ہے حق تعالی سے ملنا تو حق تعالی بھی اس سے وصال چاہتے ہیں اور جو حق تعالی سے ملنا ناپسند کرتا ہے اور دنیا کے مال و جاہ اور سازو سامان سے جدائی نہیں چاہتا تو اللہ تعالی بھی اس سے ملنا ناپسند فرماتے ہیں اور ظاہر ہے کہ بغیر موت کے خدائے تعالی سے ملاقات غیر ممکن ہے پس چونکہ موت ذریعہ ملاقات محبوب حقیقی ہے لہذا مومن کو محبوب ہونی چاہئے اور ایسے سامان پیدا کرے جس سے موت ناگوار نہ ہو یعنی نیک اعمال کرے تاکہ بہشت کی خوشی میں موت محبوب معلوم ہو اور معاصی سے اجتناب کرے تاکہ موت مبغوض نہ معلوم ہو کیونکہ گنہگار کو بوجہ خوف عذاب شدید موت سے نفرت ہوتی ہے اس لئے کہ موت کے بعد عذاب ہوتا ہے۔ اور نیک بخت کو بھی گو عذاب کا خوف ہوتا ہے اور جنت کی بھی امید ہوتی ہے مگر تجربہ ہے کہ نیک بخت کو باوجود اس دہشت کے موت سے نفرت نہیں ہوتی اور پریشانی نہیں ہوتی اور امید کا اثر بمقابلہ خوف کے غالب ہو جاتا ہے اور اسی طرح یہ بھی تجربہ ہے کہ کافر و فاسق پر اثر امید غالب نہیں ہوتا اس لئے وہ موت سے نہایت گھبراتا ہے۔ حدیث میں ہے جو نہلاوے مردے کو پاس ڈھک لے اس کو یعنی کوئی بری بات مثلاً صورت بگڑ جانا وغیرہ ظاہر ہو اور اس کے متعلق پورے احکام بہشتی زیور حصہ دوم میں گذر چکے ہیں وہیں ضرور دیکھ لینا چاہئے۔ چھپا لے گا اللہ تعالی اس کے گناہ یعنی آخرت میں گناہوں کیوجہ سے اس کی رسوائی نہ ہو گی اور جو کفن دے مردے کو تو اللہ تعالی اس کو منحوس سمجھتے ہیں۔

یہ سخت بیہودہ بات ہے کیا ان کو مرنا نہیں۔ چاہئے کہ خوب مردے کی خدمت کو انجام دے اور ثواب جزیل حاصل کرے اور اپنا مرنا یاد کرے کہ اگر ہم سے بھی لوگ ایسے بچیں جیسے کہ ہم بچتے ہیں تو ہمارے جنازہ کی کیا کیفیت ہو گی اور عجب نہیں کہ حق تعالی بدلہ دینے کو اس کو ایسے ہی لوگوں کے حوالہ کردیں۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ فرمایا جناب رسول اللہ نے جو غسل دے مردے کو اور اسے کفن دے اور اس کے حنوط لگائے حنوط ایک قسم کی مرکب خوشبو کا نام ہے اس کے بجائے کافور بھی کافی ہے اور اٹھاوے اس کے جنازہ کو اور اس پر نماز پڑھے اور نہ افشا کرے اس کی وہ بری بات جو دیکھے اس سے دور ہو جائے گا اپنے گناہوں سے اس طرح جیسے کہ اس دن جبکہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا گناہوں سے دور تھا یعنی صغائز معاف ہو جائیں گے علی ما قالوا۔ حدیث میں ہے جو نہلاوے مردے کو پس چھپا لے اس کے عیب کو تو اس کے چالیس کبیرہ یعنی صفائر میں جو بڑے صغائر ہیں گناہ معاف کر دے جائیں گے اور جو اسے کفن دے اللہ تعالی اس کو جنت کا سندس اور استبرق پہنا وے گا اور جو میت کے لئے قبر کھودے پس اس کو اسمیں دفن کرے جاری فارمائے گا اللہ تعالی اس شخص کے لئے اسقدر اجر جو مثل اس مکان کے ثواب کے ہو گا جس میں قیامت تک اس شخص کو رکھتا یعنی اس کو اسقدر اجر ملے گا جتنا کہ اس مردے کو رہنے کے لئے قیامت تک مکان عاریت دینے کا اجر ملتا واضح ہو کہ جسقدر فضیلت اور ثواب مردے کی خدمت کا اس وقت تک بیان کیا گیا سب اس صورت میں ہے جبکہ محض اللہ تعالی کیواسطے خدمت کی جائے ریا اجرت وغیرہ مقصود نہ ہو۔ اور اگر اجرت لی تو ثواب نہ ہو گا اگر چہ اجرت لینا جائز ہے گناہ نہیں مگر جواز اجرت امر دیگر ہے اور ثواب امر دیگر۔ اور تمام دینی کام جو اجرت لیکر کئے جاتے ہیں بعضے تو ایسے ہیں جن پر اجرت لینا حرام ہے اور انکا ثواب بھی نہیں ہے مگر ان امور کے متعلق ایک مفید ضروری بات عرض کرتا ہوں تاکہ اہل بصیرت کو تنبہ ہو وہ یہ ہے کہ جن اعمال دینیہ پر اجرت لینا جائز ہے ان کے کرنے سے بالکل ثواب نہیں ملتا مگر بچند شروط ثواب بھی ملے گا خوب غور سے سنو۔ کوئی غریب آدمی جاس کی بسر اوقات اور نفقات واجبہ کا سوائے اس اجرت کے اور کوئی ذریعہ نہیں وہ بقدر حاجت ضرور یہ دینی کام کر کے اجرت لے اور یہ خیال کرے سچی نیت سے کہ اگر ذریعہ معیشت کوئی اور ہوتا تو میں ہرگز اجرت نہ لیتا اور حسبة اللہ کام کرتا۔ یا اب حق تعالی کوئی ذریعہ ایسا پیدا کردیں تو میں اجرت چھوڑ دوں اور مفت کام کروں تو ایسے شخص کو دینی خدمت کا ثواب ملے گا کیونکہ اس کی نیت اشاعت دین ہے مگر معاش کی ضرورت مجبور کرتی ہے اور چونکہ طلب معاش بھی ضروری ہے اور اس کا حاصل کرنا بھی ادائے حکم الہی ہے اس لئے اس نیت یعنی تحصیل معاش کا بھی ثواب ملے گا اور نیت بخیر ہونیسے یہ دونوں ثواب ملیں گے مگر ان قیود پر نظر غائر کر کے عم کرنا چاہئے خواہ مخواہ کے خرچ بڑھالینا اور غیر ضروری اخراجات کو ضروری سمجھ لینا اور اسپر حیلہ کرنا اس عالم غیب کے ہاں نہیں چلے گا وہ دل کے ارادوں سے خوب واقف ہے۔ یہ تدقیق نہایت تحقیق کیساتھ قلمبند کی گئی ہے اور ماخذ اس کا شامی وغیرہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جس میں توکل کے شرائط جمع ہوں اور پھر وہ نیک کام پر اجرت لے تو اگر وہ ان نیتوں کو بھی جمع کر لے جن کے اجتماع سے ثواب تحریر ہوا ہے تب بھی اس کو گو ثواب ملے گا مگر توکل کی فضیلت فوت ہو جائیگی۔ تامل فانہ دقیق۔ مسلمانوں کو خصوصاً ان میں سے اہل علم کو اس بات میں خاص توجہ و احتیاط کی ضرورت ہے کہ خالق اکبر کے دین کی خدمت کر کے اس کی رضا حاصل نہ کرنا اور بغیر کسی سخت مجبوری کے ایک منفعت قلیلہ عاجلہ پر نظر اتنا ضرور کہیں گے کہ ثواب کی ہم سب کو سخت حاجت ہے فمن شاء فلیقلل ومن شاء فلیکثرو اللہ تعالی اعلم بقلوب عبادہ کفے بہ خبیر البصیرا۔ حدیث میں ہے کہ پہلا تحفہ مومن کا یہ ہے کہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں اس شخص کے جو اس کے جنازے کی نماز پڑہتا ہے یعنی صغیرہ گناہ علی ماقولوا۔ حدیث میں ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ وہ مرجائے اور اس کے جنازے پر تین صفیں مسلمانوں کی نماز پڑھیں مگر واجب کر لیا اس نے جنت کو یعنی اس کی بخشش ہو جاوے گی حدیث میں ہے کہ نہیں ہے کوئی ایسا مسلمان کہ وہ مرجائے پس کھڑے ہوں یعنی نماز پڑھیں اس کے جنازے پر چالیس مرد ایسے جو شرک نہ کرتے ہوں خدا تعالی کے ساتھ۔ مگر بات یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے والے شفاعت قبول کئے جائیں گے اس مردے کے باب میں یعنی جنازے کی نماز جو حقیقت میں دعا ہے میت کے لئے قبول کر لے جاوے گی اور اس مردے کی بخشش ہو جاوے گی۔ حدیث میں ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے جنازے پر ایک جماعت نماز پڑھے مگر یہ بات ہے کہ وہ لوگ شفاعت قبول کئے جاویں گے اس میت کے باریمیں حدیث میں ہے کہ نہیں ہے کوئی مردہ کہ اسپر ایک جماعت مسلمانوں کی نماز پڑھے جو عد د میں سوہوں پس سفارش کریں وہ نمازی یعنی دعا پڑھیں اس کے لئے مگر یہ بات ہے کہ وہ سفارش قبول کئے جائیں گے اس کے باریمیں یعنی ان کی دعا قبول ہو گی اور اس مردے کی مغفرت ہو جاوے گی حدیث میں ہے جو اٹھاوے چاروں طرفین چارپائی جنازے کی تو اس کے چالیس کبیرہ گناہ بخش دئے جائیں گے اس کی تحقیق اوپر گذر چکی ہے حدیث میں ہے افضل اہل جنازہ کا یعنی جو جنازے کے ہمراہ ہوتے ہیں ان میں وہ ہے جو ان میں بہت زیادہ ذکر اللہ تعالی کا کرے اس جنازے کیساتھ اور جو نہ بیٹھے یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھ دیا جائے اور زیادہ پورا کرنے والا پیمانہ ثواب کا وہ ہے جو تین بار اس پر مٹھی بھر خاک ڈالے یعنی ایسے شخص کو خوب ثواب ملے گا

حدیث میں ہے کہ اپنے مردوں کو نیک قوم کے درمیان میں دفن کرو اس لئے کہ بیشک مردہ اذیت پاتا ہے بوجہ برے پڑوسی کے یعنی فاسقوں یا کافروں کی قبروں کے درمیان ہونے سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے اور صورت اذیت کی یہ ہے کہ فساق و کفار پر جو عذاب ہوتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے روتے چلاتے ہیں اس واویلا کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ اذیت پاتا ہے زندہ بوجہ بری پڑوسی کے۔ حدیث میں ہے جنازے کے ہمراہ کثرت سے لاالہ الا اللہ پڑھو۔ جنازے کے ہمراہ اگر ذکر کرے تو آہستہ کرے اس لئے کہ زور سے ذکر کرنا جنازے کے ساتھ شامی میں مکروہ لکھا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے جاس کو حاکم نے روایت کیا ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ نے میں نے تم کو منع کیا تھا قبروں کی زیارت سے ایک خاص وجہ سے جواب باقی نہیں رہی۔ گاہ ہو جاؤ پس اب زیارت کرو ان کی یعنی قبروں کی اس لئے کہ وہ زیارت قبور دل کو نرم کرتی ہے اور دل کی نرمی سے نیکیاں عمل میں تی ہیں اور رلاتی ہے ہر آنکھ کو اور یاد دلاتی ہے آخرت کو اور تم نہ کہو کوئی غیر مشروع بات قبر پر۔ حدیث میں ہے میں نے تم کو منع کیا تھا قبروں کی زیارت سے پس اب ان کی زیارت کر و اس لئے کہ وہ زیارت بے رغبت کرتی ہے دنیا سے اور یاد دلاتی ہے آخرت کو۔ زیارت قبور سنت ہے اور خاص کر جمعہ کے کے روز اور حدیث میں ہے کہ جو ہر جمعہ کو والدین کی یا والد یا والدہ کی قبر کی زیارت کرے تو اس کی مغفرت کی جائے گی اور وہ خدمت گذار والدین کا لکھ دیا جائے گا نامہ اعما میں رواہ اطبہقی مرسلا۔ مگر قبر کا طواف کرنا۔ بوسہ لینا منع ہے خواہ کسی نبی کی قبر ہو یا ولی کی یا کسی کی ہو۔ اور قبروں پر جا کر اول اس طرح سلام کرے السلام علیکم یا اھل القبور من الموئمنین والمسلمین یغفر اللہ لنا ولکم وانتم سلفنا ونہن با لاثر۔ جیسا کہ ترمذی اور طبرانی مین یہ الفاظ سلام موتی کے لئے آئے ہیں اور قبلہ کی طرف پشت کر کے اور میت کی جانب منہ کر کے قرآن مجید پڑھے جسقدر ہو اس کے۔ حدیث میں ہے کہ جو قبروں پر گذرے اور سورہ اخلاص گیارہ بار پڑھ کر مردے کو بخشے تو موافق شمار مردوں کے اس کو بھی ثواب دیا جاوے گا۔ نیز حدیث میں ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہو پھر سورہ الحمد اور سورہ اخلاص اور سورہ تکاثر پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبرستان کو بخشے مردے اس کی شفاعت کریں گے اور نیز حدیث میں ہے کہ جو کوئی سورہ یسین قبرستان میں پڑھے تو مردوں کے عذاب میں اللہ تعالی تخفیف فرمائے گا اور پڑھنے والے کو بیشمار ان مردوں کے ثواب ملے گا۔ یہ تینوں حدیثیں مع سند ذیل میں عربی میں لکھدی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نہیں ہے کوئی مرد کہ گذرے کسی ایسے شخص کی قبر پر جسے وہ دنیا میں پہچانتا تھا پھر اسپر سلام کرے۔ مگر یہ بات ہے کہ وہ میت اس کو پہچان لیتا ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتا ہے گو اس جواب کو سلام کرنے والا نہیں سنتا

خرج ابو محمد السم قندی فی فضائل قل ھواللہ احد عن علی مرفو عا من مرعلی المقابر و قراقل ھواللہ احد اہد عشرة مرة ثم وھب اجرہ للاموات اعطے من الا جربعد دالا موات اخرج ابو القاسم سعد بن علی الزنجانی فی فوائد ہ عن ابی ھریرة مرفو عا من دخل المقابر ثم قرائ فاتحة الکتاب وقل ھواللہ احد والہکم التکاثر ثم قال اللھم انی جعلت ثواب ماقرات من کلامک لاھل المقابر من المومنین والمومنات کا نواشفعائ لہ الی اللہ تعالی اخرج عبدالعزیز صاحب الخلال بسندہ عن انس ان رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم قال من دخل المقابر فقرائ سورة یس خفف اللہ عنھم وکانلہ بعد ومن فیھا حسنات ھذہ احادیث اور آدھا الامام السیوطی فی شرح الصد وربشرح احوال الموتی والقبور ص مطبوعہ مصر قال المعلق علی رسالة بھشتی گوھر الحدیث الاول والثالث ید لا ظاھر علے ان الثواب الحاصل من الاحیائ للاموات یصل الیھم علی السواء ولا یتجزی تامل۔

قل ہواللہ شریف کے فضائل میں ابو محمد سمر قندی حضرت علی سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں جو شخص قبرستان میں گذرے وہ گیارہ مرتبہ اس سورہ شریف کو پڑھکر اہل قبور کو اس کا ثواب بخش دے تو پڑھنے والے کو اتنا ثواب ملے گا جسقدرمردے کہ اس قبرستان میں دفن ہیں۔ ابو القسم سعد بن علی رنجانی حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً اس کے فضائل میں بیان کرتے ہیں کہ جو شخص قبرستان میں جائے اور سورہ الحمد اور قل ہواللہ احد اور الہکم التکاثر پڑھے اور کہے الہی میں نے اس پڑھنے کا ثواب اس قبرستان کے مسلمان مرد عورتوں کو بخشا تو وہ سب مردے روز جزا اس کی شفاعت کریں گے۔ عبدالعزیز صاحب خلال نے بروایت حضرت انس بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا جو قبرستان میں آئے پھر سورہ یسین پڑھے اس قبرستان کے جن مردوں پر عذاب ہو رہا ہے خدا تعالی اسمیں تخفیف فرما دیتے ہیں اور پڑھنے والے کو اتنا ثواب ہوتا ہے جسقدر مردے اس قبرستان میں ہیں ان احادیث کو امام سیوطی نے کتاب شرح الصددرفی احوال الموتے والقبور ص طبع مصر میں بیان کیا ہے بہشتی گوہر کا محشی کہتا ہے کہ حدیث اول وثالث بظاہر اس پر دلالت کرتی ہے کہ ثواب زندوں کی طرف سے مردوں کو بغیر تقسیم کے برابر ملتا ہے۔ احقر اس کی توضیح میں کہتا ہے کہ مطلب اس قبرستان کے مردوں کے برابر ثواب ملنے سے یہ ہے کہ ثواب بخشنے والے نے ایک نیکی کی ہے اس کے معاوضہ میں اس کو اس قبرستان کے تمام مدفون مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی کیونکہ خداوند تعالی جب اپنی رحمت سے مدفون مردوں کو ثواب بغیر تقسیم کئے پورا عنایت فرمائیں گے تو پڑھنے والے کے لئے بھی جزا اس طرح ملے گی گویا اس نے ہر مردے کے لئے علیحدہ علیحدہ پڑھ کر ثواب بخشا۔

مسائل

سوال جماعت میں امام کے قرات شروع کرنے کے بعد کوئی شخص کر شریک ہو تو اب اس کو ثنا یعنی سبحانک اللہم پڑھنا چاہئے یا نہیں۔ اگر چاہئے تو نیت باندھنے کے ساتھ ہی یا کس وقت۔ جواب۔ نہیں پڑھنا چاہیے۔ سوال کوئی شخص رکوع میں امام کیساتھ شریک ہو ا اب رکعت تو اس کو مل گئی مگر ثنا فوت ہوئی۔ اب اس کو دوسری رکعت میں ثنا پڑھنی چاہئے یا کسی اور رکعت میں یا ذمے سے ساقط ہو گئی۔ جواب کہیں نہ پڑھے۔ سوال رکوع کی تسبیح سہو سے سجدے میں کہی یعنی بجائے سبحان ربی الاعلی کے سبحان ربی العظیم کہتا رہا یا برعکس اس کے تو سجدہ سہو تو نہ ہو گا یا نماز میں کوئی خرابی تو نہ ہو گی۔ جواب اس سے ترک سنت ہوا اس سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا رکوع کی تسبیح سجدہ سہو میں کہہ چکا تھا اور پھر سجدہ ہی میں خیال یا کہ یہ رکوع کی تسبیح ہے تو اب سجدے کی تسبیح یاد آنے پر کہنا چاہئے یا رکوع کی تسبیح کافی ہو گی۔ جواب اگر امام یا منفرد ہے تو تسبیح سجدے کی کہہ لے اور اگر مقتدی ہے تو امام کیساتھ کھڑا ہو۔ سوال نماز میں جمائی جب نہ رکے تو منھ میں ہاتھ دے لینا چاہئے یا نہیں۔ جواب جب ویسے نہ رکے تو ہاتھ سے روک لینا جائز ہے۔ سوال ٹوپی اگر سجدے میں گر پڑے تو اسے پھر ہاتھ سے اٹھا کر سر پر رکھ لینا چاہئے یا ننگے سر نماز پڑھے۔ جواب سر پر رکھ لینا بہتر ہے اگر عمل کثیر کی ضرور نہ پڑے سوال نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد جب کوئی سورة شروع کرے تو بسم اللہ کہہ کر شروع کرے اور اگر دو رکوع والی سورت پڑھے تو شروع سورت پر بسم اللہ کہے اور دوسری رکعت میں جب اسی سورت کا دوسرا رکوع شروع کرے تو بسم اللہ کہے یا نہیں۔ جواب سورة کے شروع میں مندوب ہے اور رکوع پر نہیں۔

واللہ اعلم کتبہ اشرف علی تھانوی

مسئلہ۔ امام کو بغیر کسی ضرورت کے محراب کے سوا اور کسی جگہ مسجد میں کھڑا ہو نا مکروہ ہے مگر محراب میں کھڑے ہونے کے وقت پیر باہر ہونے چاہئیں۔

مسئلہ۔ جو دعوت نام وری کے لئے کی جائے تو اس کا قبول نہ کرنا بہتر ہے۔

مسئلہ۔ گواہی پر اجرت لینا حرام ہے لیکن گواہ کو بقدر ضرورت اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لینا جائز ہے بقدر اس وقت کے جو صرف ہوا ہے جبکہ اس کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ ہو

مسئلہ۔ اگر مجلس دعوت میں کوئی امر خلاف شرع ہو سواگر وہاں جانے کے قبل معلوم ہو جائے تو دعوت قبول نہ کرے البتہ اگر قوی امید ہو کہ میرے جانے سے بوجہ میری شرم اور لحاظ سے وہ امر موقوف ہو جائے گا تو جانا بہتر ہے اور اگر معلوم نہ تھا اور چلا گیا اور وہاں جا کر دیکھا۔ سواگر یہ شخص مقتدائے دین ہے تو لوٹ آئے اور اگر مقتدی انہیں عوام الناس سے ہے سو اگر عین کھانے کے موقع پر وہ امر خلاف شرع ہے تو وہاں نہ بیٹھے اور اگر دوسرے موقع پر ہے تو خیر بمجبوری بیٹھ جائے اور بہتر ہے کہ صاحب مکان کو فہمائش کرے اور اگر اس قدر ہمت نہ ہو تو صبر کرے او ر دل سے اسے برا سمجہے اور اگر کوئی شخص مقتدائے دین نہ ہو لیکن ذی اثر صاحب وجاہت ہو کہ لوگ اس کے افعال کا اتباع کرتے ہوں تو وہ بھی اس مسئلہ میں مقتدائے دین کے حکم میں ہے مسئلہ۔ بنک میں روپیہ جمع کر کے اس کا سود لینا تو تو قطعی حرام ہے بعض لوگ بنک میں اپنا روپیہ صرف حفاظت کے خیال سے رکھتے ہیں سود نہیں لیتے مگر یہ ظاہر ہے کہ بنک اس رقم کو محفوظ نہیں رکھے گا۔ بلکہ سودی کاروبار میں لگا آئے گا اسطرح اسمیں بھی ایک قسم کی اعانت گنائ پائی جاتی ہے جو احتیاط کے خلاف ہے۔ ہاں روپیہ کی حفاظت کے لئے صاف بے غبار صورت یہ ہے کہ بنک کی تجوریوں کے ایک دو خانے جتنی ضرورت کرایہ پر لے لئے جائیں اور ان میں روپیہ۔ کھا جائے۔ زیادہ روپیہ ہو تو پوری تجوری کرایہ پر لے لے جائے۔ جب روپیہ رکھنے کی ضرورت ہو اسمیں رکھدے اور جب ضرورت ہو نکال لے اس طرح روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور سودی وغیرہ کا گناہ بھی نہ ہو گا۔ اس طرح پوری تجوری یا اس کے خانے کرایہ پر لینے کو بنک کی اصطلاح میں لاکر میں رکھنا کہتے ہیں یہ ضرور ہو گا کہ اس طرح بجائے روپیہ کا منافع ملنے کے اپنے پاس سے کرایہ کی رقم خرچ کرنا ہو گی ایک عظیم گناہ سے بچنے اور اپنی پاک کمائی میں سود جیسی ناپاک چیز کی آمیزش کرنے سے بچ اس کتے ہیں مسلمان کے لئے ایک عظیم مقصد کا درجہ رکھتا ہے جس کے سامنے یہ خرچ بہت معمولی ہے۔ مسئلہ۔ جو شخص پاخانہ پھر رہا ہو یا پیشاب کر رہا ہو تو اس کو سلام کرنا حرام ہے اور اس کا جواب دینا بھی جائز نہیں۔ مسئلہ۔ اگر کوئی شخص چند لوگوں میں کسی کا نام لے کر اس کو سلام کرے مثلاً یوں کہے اسلام علیک یا زید تو جس کو سلام کیا ہے اس کے سوا کوئی اور جواب دیوے تو وہ جواب نہ سمجھاجائے گا اور جاس کو سلام کیا ہے اس کے ذمہ جواب فرض باقی رہے گا اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہو گا مگر اس طرح سلام کرنا خلاف سنت ہے۔ سنت کا طریق یہ ہے کہ جماعت میںکسی کو خاص نہ کرے اور اسلام علیکم کہے مولف اور اگر کسی ایک ہی شخص کر سلام کرنا ہو جب بھی یہی لفظ استعمال کرے اور اسی طرح جواب میں بھی خواہ جواب جاس کو دیا جاتا ہے ایک ہی شخص ہو زیادہ ہوں و علیکم اسلام کہنا چاہئے۔

مسئلہ۔ سوار کو پیدل چلنے والے کو سلام کرنا چاہئے اور جو کھڑا ہو وہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے سے لوگ بہت سے لوگوں کو سلام کرنا ممنوع ہے اسی طرح خطوں میں لکھ کر بھیجنا یا کسی کے ذریعہ سے کہلا کر بھیجنا اور اسی طرح نا محرم عورتوں کے لئے مردوں کو سلام کرنا بھی ممنوع ہے اسی لئے کہ ان صورتوں میں سخت فتنہ کا اندیشہ ہے اور فتنہ کا سبب بھی فتنہ ہوتا ہے۔ ہاں اگر کسی بڈھی عورت کو یا بڈھے مرد کو سلام کیا جائے تو مضائقہ نہیں مگر غیر محرم سے ایسے تعلقات رکھنا ایسی حالت میں بھی بہتر نہیں۔ ہاں جہاں کوئی خصوصیت اس کی مقتضی ہو اور احتمال فتنہ کا نہ ہو تو وہ اور بات ہے۔ مسئلہ جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو کافروں کو نہ سلام کرے اور اسی طرح فاسقوں کو بھی اور جب کوئی حاجت ضروری ہو تو مضائقہ نہیں اور اگر اس کے سلام اور کلام کرنے سے انکے ہدایت پر نیکی امید ہو تو بھی سلام کر لے۔ مسئلہ جو لوگ علمی مذاکرہ کر رہے ہوں یعنی مسائل کی گفتگو کرتے ہوں پڑھتے پڑھاتے ہوں یا ان میں سے ایک علمی گفتگو کر رہا ہو اور باقی سن رہے ہو تو ان کو سلام نہ کرے اگر کرے گا تو گنہگار ہو گا اور اسی طرح تکبیر اور اذان کے وقت بھی مذن یا غیر مذن کو سلام کرنا مکروہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ ان تینوں صورتوں میں جواب نہ دے۔

http://bzewar.ueuo.com/?page_id=240

تشکر: اردو محفل کے رکن اسد، جنہوں نے متن کی فائل فرام کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭