FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے سلسلے کی چوتھی کڑی

بچوں کی کشور ناہید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

بچوں کی کشور ناہید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

چاند کی بیٹی

ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے ماں باپ مر چکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔

ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچی سے پانی لانے کے لیے کہا۔ بچی پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔ تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔ بچی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔ بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔

بچی نے چاند سے کہا، ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔ یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘

چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔

سورج نے چاند سے کہا، ’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

چاند نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے، اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

چاند بچی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچی چاند میں رہتی ہے۔ جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔

٭٭٭

اپنی مدد آپ

ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔ وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو!، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیئے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

پری ہنستے ہوئے بولی، ’’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

٭٭٭

لڑائی کا نتیجہ

دو لڑکیاں سمندر کے کنارے ٹہل رہی تھیں۔ ایک لڑکی چلائی ’’وہ دیکھو سامنے سیپی پڑی ہے۔‘‘ یہ سن کر دوسری لڑکی آگے بڑھی اور اس نے سیپی اٹھا لی۔

پہلی لڑکی بولی ’’تم یہ سیپی نہیں لے سکتیں۔ یہ میں نے پہلے دیکھی تھی۔ اس لئے اس پر میرا حق ہے۔‘‘

 ’’لیکن اٹھائی تو میں نے ہے۔ اس لئے یہ سیپی میری ہے۔‘‘ دوسری لڑکی نے کہا۔

دونوں لڑنے لگیں۔ ایک نے تھپڑ مارا۔ دوسری نے لات ٹکائی۔ ابھی وہ لڑ ہی رہی تھیں کہ ادھر سے ایک آدمی گزرا۔ کہنے لگا ’’کیا بات ہے؟ کیوں لڑکی ہو؟‘‘

 ’’دیکھئے، آپ ہی انصاف کیجئے۔ یہ سیپی میں نے دیکھی تھی۔ اس لئے یہ میری ہے۔‘‘ پہلی لڑکی بولی۔

 ’’لیکن اٹھائی تو میں نے تھی۔‘‘ دوسری جلدی سے بولی۔

اس آدمی نے کہا ’’مجھے سیپی دکھاؤ میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں۔‘‘

لڑکی نے سیپی اس کو دے دی۔ اس نے سیپی کے دو ٹکڑے کئے تو اس کے اندر سے موتی نکلا۔ اس نے موتی اپنی جیب میں رکھ لیا اور بولا ’’دیکھو بھئی، ایک لڑکی نے سیپی کو دیکھا، دوسری نے اٹھا لیا۔ اس لئے اس پر دونوں کا حق ہے۔ لو، ایک ٹکڑا تم لے لو اور ایک تم۔‘‘

یہ کہہ کر وہ آدمی ہنستا ہوا چلا گیا۔ لڑکیاں ہاتھ ملتی رہ گئیں۔

٭٭٭

شبنم کا تاج

کسی بادشاہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ بہت ضدی تھی۔ ایک دن صبح کو وہ باغ میں ٹہلنے کے لئے گئی تو اس نے پھول پتیوں پر شبنم کے قطرے چمکتے ہوئے دیکھے۔ شبنم کے یہ قطرے ان ہیروں سے زیادہ چمکدار اور خوب صورت تھے جو شہزادی کے پاس تھے۔

شہزادی سیدھی محل میں واپس آئی اور بادشاہ سے کہنے لگی ’’مجھے شبنم کا ایک تاج بنوا دیجئے۔ جب تک مجھے تاج نہیں ملے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی‘‘۔ یہ کہہ کر شہزادی نے اپنا کمرہ بند کر لیا اور چادر اوڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئی۔

بادشاہ جانتا تھا کہ شبنم کے قطروں سے تاج نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر بھی اس نے شہزادی کی ضد پوری کرنے کے لئے شہر کے تمام سناروں کو بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ تین دن کے اندر اندر شبنم کے قطروں کا تاج بنا کر پیش کرو ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔ بچارے سنار حیران پریشان کہ شبنم کا تاج کس طرح بنائیں۔

ان سناروں میں ایک بوڑھا سنار بہت عقل مند تھا۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ دوسرے دن صبح کو محل کے دروازے پر گیا اور سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہی اسے شہزادی کے پاس لے گئے۔ بوڑھے سنار نے شہزادی کو جھک کر سلام کیا اور بولا ’’حضور، میں آپ کا تاج بنانے کے لیے آیا ہوں۔ لیکن میری ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔

 ’’کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ شہزادی نے کہا۔ سنار بولا ’’آپ باغ میں چل کر مجھے شبنم کے وہ قطرے دے دیجئے جن کا آپ تاج بنوانا چاہتی ہیں۔ جو قطرے آپ پسند کر کے مجھے دیں گی میں فوراً ان کا تاج بنا دوں گا‘‘۔

شہزادی سنار کے ساتھ باغ میں گئی۔ پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔ لیکن شہزادی نے جس قطرے کو بھی چھوا وہ اس کی انگلیوں پر پانی کی طرح بہہ گیا۔

تب شہزادی نے کھسیانی ہو کر بوڑھے سنار سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ اب بھی ایسی ضد نہیں کرے گی۔

٭٭٭

سونے کی کلہاڑی

ایک لکڑہارا تھا۔ وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا پیٹ پالتا تھا۔ ایک دن لکڑہارے کی کلہاڑی کھو گئی۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ دوسری کلہاڑی خرید لیتا اس نے سارے جنگل میں کلہاڑی ڈھونڈی لیکن کہیں نہ ملی۔ تھک ہار کر وہ رونے لگا۔ اچانک درختوں کے پیچھے سے ایک جن نکلا۔ اس نے کہا۔ ’’کیا بات ہے میاں لکڑہارے؟ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘

 ’’میری کلہاڑی کھو گئی ہے۔ خدا کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لا کر دو‘‘ لکڑہارے نے کہا۔

جن ایک دم غائب ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک سونے کی کلہاڑی لے کر واپس آیا۔ اس نے لکڑہارے سے کہا ’’لو، میں تمہاری کلہاڑی ڈھونڈ لایا ہوں۔‘‘

 ’’یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔ وہ تو لوہے کی تھی۔‘‘ لکڑہارا بولا۔

جن پھر غائب ہو گیا اور اب وہ چاندی کی کلہاڑی لے کر آیا۔ اس نے کہا ’’لو، یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔‘‘

 ’’نہیں۔ یہ نہیں ہے۔‘‘ لکڑہارے نے کہا۔

اب جن پھر غائب ہو گیا اور اس دفعہ وہ لوہے کی کلہاڑی لے کر آیا۔ کلہاڑی دیکھتے ہی لکڑہارا خوشی سے چیخا ’’ہاں ہاں، یہی ہے میری کلہاڑی۔ اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘

جن بولا ’’تم بہت ایماندار ہو۔ میں یہ تینوں کلہاڑی تمہیں دیتا ہوں۔ یہ تمہارا انعام ہے۔‘‘ لکڑہارے نے کلہاڑی لے لیں اور خوش گھر چلا گیا۔

٭٭٭

بارہ مہینے

ایک دن ایک بوڑھی عورت اپنے کھیت میں سے بند گوبھی توڑنے جا رہی تھی۔ راستے میں ایک غار پڑتا تھا جس میں بارہ آدمی رہتے تھے۔ انہوں نے بڑھیا کو بلا کر کہا: بی اماں ! یہ بتاؤ سب سے اچھا کون سا مہینہ ہے؟

سب ہی اچھے مہینے ہیں بیٹا۔ بڑھیا نے کہا۔ دیکھو تو جنوری میں سفید سفید برف گرتی ہے۔ فروری میں بارش ہوتی ہے اور مارچ میں ہر طرف پھول ہی پھول کھل اٹھتے ہیں۔ باقی سارے مہینے بھی بہت اچھے ہیں۔

بی اماں ! تم نے ہم سب کی تعریف کی۔ اس لیے ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں۔ تم جانتی ہو، ہم ہی بارہ مہینے ہیں۔

انہوں نے ٹوکری میں بہت سا سونا بھر کر بڑھیا کو دے دیا۔ بڑھیا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور گھر چلی گئی۔ گھر آ کر اس نے اپنے بچوں کو سونا دکھایا اور ان سے کہا کہ اب ہم بہت امیر ہو جائیں گے۔ دیکھو تو میں کتنا سونا لائی ہوں۔

اسی وقت بڑھیا کی ایک ہمسائی وہاں آ گئی۔ اس نے سونے کا ڈھیر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بڑھیا نے بارہ مہینوں کی ساری کہانی ہمسائی کو کہہ سنائی۔

بڑھیا کی ہمسائی بہت لالچی تھی۔ وہ دوڑی دوڑی اس غار میں جس میں وہ بارہ آدمی رہتے تھے۔ انہوں نے ہمسائی سے پوچھا: بی اماں ! سب سے اچھا مہینہ کون سا ہے؟

ہمسائی بولی خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ دیکھو نا، جنوری میں برف پڑتی ہے۔ فروری میں بارشیں شروع ہو جاتی ہیں اور اسی طرح ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی بلا نازل ہوتی رہتی ہے۔

آپ کا بہت بہت شکریہ بڑی بی۔ لائیے اپنی ٹوکری دیجئے۔ ہم آپ کو انعام دیں گے۔

بارہ مہینوں نے ہمسائی کی ٹوکری بھر کر اوپر سے پتے ڈھک دیے۔ ہمسائی ٹوکری اٹھا کر گھر کو بھاگی تاکہ جلدی سے کھول کر دیکھے، بھلا بارہ مہینوں نے کیا انعام دیا ہے۔

جب وہ گھر پہنچی تو اس نے اپنے بچوں سے کہا کہ اب ہم بھی اس بڑھیا کی طرح امیر ہو جائیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے ٹوکری میز پر الٹ دی لیکن ٹوکری میں سونے کی جگہ کنکر پتھر بھرے ہوئے تھے۔ ہمسائی بہت ناراض ہوئی اور بھاگی بھاگی بڑھیا کے پاس گئی۔

بڑھیا نے پوچھا کہ جب ان بارہ آدمیوں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کون سا مہینہ اچھا ہوتا ہے تو تم نے کیا جواب دیا تھا؟

میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ موا کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ ہمسائی نے چڑ کر کہا۔

پھر ٹھیک ہے۔ تمہارے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا۔ بھلا کوئی اپنی برائی سن کر بھی انعام دیتا ہے۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل