فہرست مضامین
برف میں دھنسی عورت کچھ کہتی ہے
سلمیٰ اعوان
انتساب
میں نے اُس سے پیار نہیں، محبت نہیں، عشق کیا۔ دل کی مسند پر بڑے ارمانوں، بڑی چاہتوں سے بٹھایا۔ پر وہ تو نر گیسیت کا مارا نکلا۔ پھر اُوپر دیکھا، دل کا دریچہ وا کیا۔ اُسے اندر آنے کی دعوت دی۔ سمے کی ساعتیں گزرتی گئیں۔ بالوں میں چاندی چھلکی اور اعضاء پھُولے۔ میری کھوج ہوئی پر میں تو وہاں تھی ہی کب۔
برف میں دھنسی عورت کچھ کہتی ہے
دیواریں دھوئیں کی سیاہی سے لُتھڑی پڑی تھیں۔ کمرے کو تین حصوں میں تقسیم کرتے کندہ کاری سے مزّین چوبی ستون بھی اس سیاہی سے نہال یوں لشکارے مارتے تھے جیسے ابھی ابھی اُن پر کالے رنگ کے پینٹ کا کوٹ پھیرا گیا ہو۔ کمرے کے وسط میں جلتی آگ اس میں سے زبانیں لہراتے شعلوں کی روشنی میں نظر آنے والا سازوسامان غربی دیوار سے ٹنگی تار پر گدّے، بد رنگ رضائیاں اور کچھ دوسرے بے ترتیبی سے لٹکے ہوئے کپڑے۔ مشرقی دیوار میں بنی الماری میں سستے ایلومینیم اور پلاسٹک کے مختصر سے برتن چند دیگچیوں اور پتیلیوں کی صورت میں پڑے تھے۔
بارہ تیرہ سال کی صبیح چہرے والی ایک لڑکی چپ چاپ بیٹھی کسی مُورت کی مانند دِکھتی تھی۔ چند بوریاں اور کونے میں ٹوٹی سی کُرسی بھی دھری تھی۔
سیاہ پرانے لبادے میں لپٹی پوشن بی بی جس کے چہرے پر پھیلی جھُریوں میں موسموں اور غالباً حالات کی سختیاں تحریر تھیں۔ آگ کی زرد روشنی میں اس کا گلا سیروں کے حساب سے رنگ برنگے موتیوں کے ہاروں سے اٹا پڑا نظر آتا تھا۔ سر پر سفید کوڈیوں کی ٹوپی دھری تھی جو پُشت سے بالشت بھر چوڑی پٹی کی صورت میں اس کی کمر تک جاتی تھی۔ کمر میں بندھی پٹی پر پھول بوٹیوں کے ساتھ گھنگرو بھی لٹک رہے تھے۔ کبھی اس چہرے کی رنگت سیندور ملے میدے جیسی ہو گی۔ سفیدی تو اب بھی تھی پر سُرخی کہیں نہیں تھی۔
’’کیتھرائن یہیں اسی کمرے میں میرے ساتھ دو سال رہی تھی۔ وہ جرمن تھی۔ بہت خوبصورت تھی۔ پر جتنی خوبصورت تم ہو وہ اتنی نہیں تھی۔ تمہاری طرح وہ بھی ہم پر کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں کام کرنے آئی تھی۔ تمہاری طرح وہ بھی بہت محبت والی لڑکی تھی۔ میرے بیٹے آژور کے ساتھ خوب باتیں کیا کرتی تھی۔ یکدم وہ خاموش ہو گئی تھی۔
دیر بعد جیسے خوابناک سی آواز میں سلسلہ گفتگو پھر شروع ہوا تھا۔ میرا بیٹا میرا آژور جو دُنیا کی اس بھیڑ میں جانے کہاں ہے ؟ تم اُسے دیکھتیں تو بہت پسند کرتیں۔ وہ ایسا ہی تھا چاہنے اور پسند کئے جانے کے قابل۔‘‘
وہ کمرے میں اِدھر اُدھر گھومتی پھرتی دھیمے دھیمے اُس سے پر جیسے اپنے آپ سے باتیں کرتی جاتی تھی۔ دُکھی اور افسردہ سی۔
خستہ حال اُدھڑے پُدھڑے سے نمدے پر دھرے اپنے وجود کو اُس خوبصورت لڑکی نے جو ڈاکٹر خدیجہ تھی زمانوں پہلے کسی کوئلے کی کان میں جیسے محسوس کیا تھا۔ ایک لمبی سی سانس اس کے اندر سے نکل کر باہر آئی تھی۔
کبھی شعلوں اور کبھی اپنے عین سامنے بیٹھی پوشن کو جواب آگ میں مکئی کا سٹہ بھون رہی تھی دیکھتے ہوئے اُس کا جی اس کی بے بسی ولا چارگی اور کمرے میں رچی غُربت پر پہلے دن کی طرح آج تیسرے روز بھی رونے کو چاہ رہا تھا۔ پر اُس نے بڑے ضبط اور حوصلے سے آنکھوں میں اُمنڈ تا پانی روکا تھا جو اُس کی گھنیری پلکوں میں دو موتیوں کی صورت اکٹھا ہو گیا تھا۔
’’کیتھرائن نے جب رہنے کے لئے میرے گھر کو پسند کیا تو جانتی ہو آژور نے یہاں نیا نمدہ بچھایا تھا۔ اُس نے کمرے میں اور بُہت سی چیزیں بدلنے کے لئے بھی کہا پر میں نہیں مانی تھی۔ ہمارے پاس اتنے پیسے کب تھے ؟ میری اور آژور کی لڑائی صفائی پر بھی ہوتی تھی۔‘‘
’’اُردو اچھا بول اور سمجھ لیتی ہیں آپ۔ وگرنہ بڑی دشواری ہونی تھی مجھے۔‘‘
’’آنکھ کھولی تو سیاحوں کی صورتیں دیکھیں۔ اُن سے باتیں کرنا بھی ضروری ٹھہرا۔ کیتھرائن تو مجھے جرمن بھی خاصی سکھا گئی تھی۔ پر اُردو تو مجھے اسماعیل شاہ کی بیوی نے سکھائی تھی۔ جب ہم بریر میں رہتے تھے بونی کا اسماعیل بریر کے پرائمری سکول کا ٹیچر بن کر آیا تو وہ اپنی نئی نویلی دُلہن کو بھی ساتھ لے آیا۔ میرا اُن سے بہت پیار ہو گیا تھا۔ وہ بہت اچھا اُردو بولتی تھی اُس کا باپ فوج میں تھا اور وہ پنجاب کے کسی سکول سے چار جماعتیں پاس تھی۔‘‘
اُس نے سٹہ بھون کر اُسے ہاتھوں سے جھاڑا کہ اس پر لگی ہوئی فالتو راکھ اُتر جائے۔ لڑکی سے کلاشوار (کلاشی)میں کچھ کہا۔ لڑکی نے بوری میں سے چند اخروٹ نکالے انہیں توڑ ا اور ان کا مغز ہاتھوں میں لے آئی۔ اُسنے ڈپٹ کر پھر کچھ کہا۔ لڑکی نے الماری کا پٹ کھول کر پلاسٹک کی پلیٹ نکالی اور اخروٹ کی گریاں اُس میں ڈال دیں۔ اُس نے بھُٹے کو درمیان سے دو ٹوٹے کیا اور ایک ٹکڑے کے چند دانے اُگھیر کر اُس کی ہتھیلی پر اخروٹ کی گریوں کے ساتھ رکھتے ہوئے محبت سے کہا۔
’’لو اِسے کھاؤ۔ مکّی ہمیشہ اخروٹ کی گری کے ساتھ کھانی چاہیے۔‘‘
یہ ایک نیا انکشاف تھا۔ شاید کچھ چیزیں ماحول کے مطابق ہوتی ہیں اُس نے سوچا اور پھکّا لگایا۔
دونوں ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ پہاڑوں کی شام اِس قدر حسین ہو گی ساری کی ساری سونے اور سبزے میں نہائی ہوئی۔ چشموں اور آبشاروں کی گنگناہٹوں میں ڈوبی ہوئی۔ اپنے بلند و بالا پر بتوں اور اُن پر چھائے جنگلوں پر نازاں۔ میدانی حُسن سے آشنا آنکھ نے کوہستانی رعنائی کو کہاں دیکھا تھا؟
چلتے ہوئے اُس کے لباس پر ٹنگے گھنگرو بجتے تھے۔ ایک تو چال کا بانکپن اُوپر سے پہناوے کا پھیلاؤ۔ سب خوبصورت لگتے تھے۔
پوشن دُکھی اور تنہا ہونے کے ساتھ ساتھ ممتا سے بھی بھری ہوئی تھی۔ زبان کا جاننا بھی نعمت تھا۔ خدیجہ کو اُس نے جس طرح اجنبی جگہ پر فوراً اپنے بازوؤں میں سمیٹا اور بھرپور تعاون دیا وہ اُس کے لئے بڑی طمانیت کا باعث تھا۔
پر معلوم ہوتا تھا جیسے زندگی سے بھری ہوئی یہ عورت اپنے دُکھوں اور بیماری کے ہاتھوں ڈھے سی گئی ہو۔
اُس کا اندر اُس بھرے ہوئے پھوڑے جیسا ہی تھا جسے صرف سوئی چبھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدیجہ نے اک ذرا چھیڑا تو بس جیسے پھٹ پھٹا ہو گیا۔
بہت سارے سال گزر گئے اگر یہ کہوں کہ ایک زمانہ بیت گیا اپنے کلیجے میں اِس راز کو سنبھالے ہوئے تو غلط نہ ہو گا۔ جی چاہتا تھا کسی سے کچھ کہوں۔ کسی کو بتاؤں۔ اپنا اندر جو سرطان کے پھوڑے کی طرح دُکھتا ہے کسی ہم راز کو دکھاؤں۔ پر ڈرتی تھی میری ممتا مجھے روکتی تھی۔ میرا بچہ میرے آگے آتا تھا۔ تم تو بڑی پیاری سی لڑکی ہو تمہیں تو سب کچھ سناؤں گی میں۔
چلتے چلتے وہ رُک گئی۔ ایک بڑے سے پتھر کے پاس جو ایک کشادہ قطعہ زمین پر صنوبر کے درخت کے پاس دھرا تھا۔
پہلی مرتبہ میں نے اُسے یہاں کھڑے دیکھا تھا۔ وہ شام بھی ایسی ہی تھی خوبصورتی میں ڈوبی ہوئی، رنگوں میں نہائی ہوئی۔ تب بریر سے ہم نقل مکانی کر کے بتریک(بمبوریت) میں نئے نئے آئے تھے۔ میری عمر یہی کوئی بارہ تیرہ سال ہو گی۔ چھوٹی تھی تو شفاف پانی میں پڑتا میرا عکس مجھے بتاتا تھا کہ میں بہت حسین ہوں۔ پھر گل بانوا سماعیل شاہ کی بیوی نے مجھے ٹوٹے آئینے کا ایک ٹکڑا دے دیاجسے میں نے اپنے گھر کے سامنے دریائے بریر کے کنارے پر پڑے پتھروں میں ایک جگہ چھپادیا۔ دن میں دو بار وہاں جانا اور اس آئینے میں خود کو دیکھنا میرے لئے کھانے ہی کی طرح ضروری بھی تھا اور محبوب بھی۔
ہمارے ماحول میں آزادی ہے لڑکے لڑکیوں کا ایک دوسرے سے ملنا قطعی معیوب نہیں۔ شاید اسی لئے ان کی چھیڑ چھاڑ مجھے لطف دیتی تھی۔ پر یہ سب تب تک تھا جب تک میں نے اُسے نہیں دیکھا تھا۔
پہلی نظر میں وہ مجھے اپنی لوک کہانیوں کا کوئی ماورائی کردار لگا جس کے گیت ہم ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی گانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں گنگ کھڑی اُسے دیکھتی تھی۔ مردانہ وجاہتیں اور مردانہ حُسن میرے لئے نئی چیزیں نہیں تھیں۔ میرے کافرستان میں دونوں کی فراوانی ہے۔ پر میرے سامنے جو نظارہ تھا اُس نے مجھے سحر زدہ کر دیا تھا۔ ٹھٹھک کر میں رُک گئی تھی۔
درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی کرنوں کے بتاشوں میں نہاتا وہ مجھے ایک ایسا کردار لگا تھا جس کی شجاعت و دلیری اور حُسن و جمال کے قصے ہمیں سنائے جاتے ہیں۔ سکندر اعظم کی طرح۔ نیلی آنکھوں اور چٹانوں جیسی سختی والے چہرے جیسا۔
اُس نے مجھے دیکھا ضرور پر ایک اُچٹتی سی نظرسے۔ پتہ نہیں میرا دل کیوں یہ چاہاکہ وہ میرے ساتھ اُسی طرح پیش آئے جیسے میرا جدّ امجد سکندر اعظم صحرائے سغد میں باختری سردار کے قبیلے کی لڑکی روشنک سے پیش آیا تھا۔ سکندر قلعہ فتح کرنے کے بعد زنان خانے میں گیا۔ سردار کی بیٹی روشنک باہر آئی تھی۔ اس وقت اُس کی دونوں چوٹیاں اُس کے سینے پر سانپوں کی طرح بکھری ہوئی تھیں۔ روشنک کی طرح میری سنہری چوٹیاں بھی میرے سینے پر دھری تھیں۔ روشنک اتنی خوبصورت تھی کہ سکندر اُس کے چہرے سے نظریں نہ ہٹا سکا تھا۔ حُسن تو میرا بھی جہاں سوز تھا، پر کیا ہوا؟ اُس نے مجھے دیکھا اور نگاہوں کا رُخ بدل لیا۔ میرا جی مچلا تھا وہ بھی مجھ سے سکندر کی طرح میرا نام پوچھتا اور پھر سکندر کی طرح کہتے ہوئے تم جیسی لڑکی تو میں نے سارے جہاں میں نہیں دیکھی۔ اور پھر اُسی کی طرح اپنی کلائی یا اُنگلی سے کوئی چیز اُتار کر میرے ہاتھوں میں پہناتے ہوئے مجھے کہتا۔
’’اسے پہنے رکھنا۔ میں تم سے شادی کروں گا۔‘‘
پروہ تو کسی سنگی بُت کی طرح درختوں کے درمیان پہاڑوں پر نظریں جمائے جانے کیا دیکھتا اور سوچتا تھا۔
میرے پندارِ غرور کو چوٹ لگی تھی۔
کون تھا وہ ؟ میں نے اُسے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ رات تک اُس کے بارے میں جان چکی تھی۔ ہماری وادی بتریک کے امیر کبیر مسلمان گھرانے گلباز خان کا مہمان تھا۔ مردان کے کسی بڑے زمیندار کا بیٹا تھا۔ اس خاندان کے کسی قتل کے کیس میں ملوث ہونے پر پولیس کی گرفتاری سے بچنے کے لئے یہاں پناہ گزین ہوا تھا۔
وہ ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئی تھی۔ خدیجہ کو بھی اُس نے اپنے پاس بٹھا لیا تھا۔ پون فرلانگ پر مشتمل درختوں سے گھرے اس میدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولی۔
’’یہاں ہمارا موسم گرما کا تہوار چلم جوشی ہوتا ہے۔ پار سال یہیں رقص کرتے ہوئے لڑکے مجھ پر دیوانہ وار فدا ہوئے تھے۔ اور یہیں اُس نے مجھے میرے آگے بڑھنے اور اس سے بات چیت کرنے کی کوشش کو سرے سے نظر انداز کیا تھا۔‘‘
دونوں پھر چل پڑی تھیں۔ وادی بتریک کے مُکھیا کا گھر آ گیا تھا۔ آ تلاخ خان گھر میں تھا۔ خدیجہ اُس سے وادی اور خصوصی طور پر صحت اور تعلیم کے مسائل پر باتیں کرنے لگی۔ اتلاخ خان کے ڈھیروں شکوے شکایات پر اُس نے کہا۔
’’در اصل آپ لوگ اپنی پرانی اقدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ حکومت پاکستان بھی آپ کو اسی طرح محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ وادی سیاحتی نظر سے سونے کا انڈا ہے۔ گو اب سیاحت بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ جاہل، کم علم اور لٹھ بردار مولوی اور پادری آپ لوگوں کو مسلمان اور عیسائی بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سچی بات ہے نئے رجحانات اپنانے میں آپ لوگوں کے خوف اور تحفظات کچھ معنی نہیں رکھتے۔ ایک انقلاب آپ کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ اور اس سے آپ لوگ آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔‘‘
دیر بعد جب پوشن اُسے لے کر چلی۔ باہر رات کی پھیلی ہوئی سیاہی شب کے اس اولین پہر میں بڑی خوفناک نظر آئی تھی۔ درخت بھُوت پریتوں کے ہیولے بن کر سامنے آئے تھے۔ چشموں کا گونج دار آواز سے بہنا اور ٹھنڈی ہواؤں کا زور و شور سے چلناسب اُس جیسی لڑکی کے لئے نامانوس اور دل دہلانے والا تھا۔
پوشن نے اُسے اُس کے ہوٹل چھوڑا۔ ابھی اُسے یہاں آئے چند دن ہی ہوئے تھے پر لگتا تھا جیسے سال ہو گئے ہوں۔ وقت یہاں جیسے پاؤں پسارے بیٹھا تھا۔ بستر پر لیٹی تو جیسے پوشن سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے چند آنسو نکلے اور گالوں سے بہتے ہوئے کہیں بالوں کے جنگل میں گم ہو گئے۔ پھر پتہ نہیں کب وہ نیند کی وادی میں اُتر گئی؟
صبح کی آنکھ کا بانکپن اُس نے کھڑکی میں بیٹھ کر دیکھا۔ دریائے بمبوریت کی جولانیاں اور پہاڑوں کی ہیبت کو خاموش اُداس نظروں سے محسوس کیا۔ ناشتے کے بعد کر اکال گاؤں کا چکر لگا کر آئی۔
سکول دیکھا۔ بچوں کی کلاسوں میں گئی۔ ٹیچرز سے باتیں کیں۔
بچوں کا طبّی معائنہ کیا۔ رپورٹ بنائی۔ مکئی کے کھیتوں کا ایک سمندر اور خوبانی وسیب کے درختوں کا بے حد وحساب پھیلاؤ اور دو منزلہ سہ منزلہ گھروں سبھوں کو اُس نے رُک رُک کر دیکھا اور جب وہ ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی کے سامنے بیٹھی خالی خالی نظروں سے اپنے سامنے بکھرے منظروں کو دیکھتی تھی تو لگتا تھا بیٹھے بیٹھے جیسے ایک یُگ بیت گیا ہو۔ پھر جیسے خودبخود کسی معمول کی طرح اُس کے قدم اُٹھتے چلے گئے پوشن بی بی کے گھر کی طرف۔ اُس کا خیر مقدم محبت بھرا تھا۔ اُس نے اُس کے منع کرنے کے باوجود اخروٹ کی کوٹی گری اور کشمش کے آمیزے میں گُندھی روٹی پکائی۔ یہ پوڑے کی قسم تھی جسے وہ کیلاڑ کا نام دیتی تھی۔ خوبانی کے تیل والا پیالہ اُس نے اُس کے سامنے رکھا اور نوالے تیل میں بھگو بھگو کر چائے کے ساتھ کھانے کو کہا۔
یہ کھانا اُس کے لئے نیا تھا پر مزیدار تھا۔ چائے کے گرم گرم گھونٹ نوالے کا لُطف بڑھاتے تھے۔
’’تو اب بتاؤ آگے کیا ہوا؟‘‘ اُس نے خالی کپ چولہے کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
’’رات اضطراب سے بھری ہوئی تھی۔ میرے اندراُس کے وجود میں گھُل جانے کی بے کلی تھی۔ والدین کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے میرا باپ میرے وجود سے بود لک بچے کا متمنّی تھا۔ ایک خوبصورت، صحت مند، بہادر اور دلیر بچہ۔ اور مجھے ماہ ستمبر میں بودلک سے ہم بستری کے لئے جانا تھا۔‘‘
خدیجہ کی آنکھوں میں چھلکتی حیرت پوشن سے چھُپی نہ رہی تھی۔ وہ ہونقوں کی طرح اُسے دیکھتی تھی۔
’’اوہ۔‘‘ پوشن رُک گئی تھی۔
مجھے خیال ہی نہیں رہا تمہیں اس کے متعلق بتانا چاہیے تھاویسے یہ رسم اب تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ نوجوان نسل اُس کی سب سے زیادہ مخالف تھی۔ یوں بھی یہ وادی بریر میں رائج تھی۔ قدیم یونانیوں کی طرح نسل کشی کے لئے ایک صحت مند فرد کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ چھ ماہ کے لئے اُسے اُوپر پہاڑوں پر رکھا جاتا۔ بہترین خوراک کھلا پلا کر ہٹا کٹا بنایا جاتا۔ پھر نیچے وادی میں لا کر تقریباً تیس 30نوجوان غیر شادی شدہ لڑکیوں سے ایک رات کی ہم بستری کروائی جاتی تھی۔ اس سے مقصود دلیر بہادر اور صحت مند بچوں کی پیدائش ہوتی تھی۔
میرے باپ کے ہاں صرف میں نے جنم لیا۔ پتہ نہیں میرے بعد کوئی بچہ کیوں نہیں ہوا۔ میرے باپ کے اندر بیٹے کی ایک حسرت، ایک تمنا تھی جو وہ اب میرے وجود سے لگائے بیٹھا تھا۔
اُن دنوں چلم جوشی کے تہوار کے لئے تیاریاں شروع تھیں۔ اپنے سیاہ لبادے پر ڈوریاں لگاتے پٹی پر موتی اور کوڈیاں سجاتے میرے اندر کے محبت بھرے جذبے میرے ہاتھوں کی ہر ہر پور میں سے ہوتے ہوئے اُن ٹانکوں پر اُبھرے جنہیں ٹانکتے ہوئے میں نے دعائیں مانگیں کہ وہ مجھے اور اِن سب کو دیکھے۔
وہ بھی کیسی صبح تھی۔ پاکیزگی کے نور اور نکہتوں میں لپٹی ہوئی۔ رسیلے توت کی خوشبو، نیم پختہ خوبانی اور سیب کی مہک، بہار کے پھولوں، جنگل کے درختوں اور گھروں کے ہمسایوں میں اُگنے والی فصلوں کی مہکار سب نے صبح کی فضا کو نشیلی اور خمار آلود کر رکھا تھا۔
ایسے میں ڈھول کی ڈھم ڈھم شنگبھائے رسم ادا کرنے کے لئے ایک پُکار تھی۔ وادی نے انگڑائی لی۔ یہ جنگل میں جانے بیشا، کے زرد پھول اور اخروٹ کی سبز ٹہنیاں لانے کے لئے ایک اعلان تھا۔ اور جب میں اُوپر جنگل کی طرف بھاگتی تھی میرے ہر اُٹھتے قدم پر یہ دعا میرے ہونٹوں پر تھرکتی تھی کہ وہ دلبر مجھے نظر آئے۔
میری نظروں نے اُسے آبشاروں کے کناروں پر، بیشا کے پھولوں میں، درختوں کے تنوں کے ساتھ ہر جا دیکھا اور وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ موٹے موٹے آنسو میری گالوں پر بہہ گئے۔
پر جب میں اخروٹ کی سبز ٹہنیوں اور میرا باپ بیشا کے پھولوں سے گھر کا مرکزی دروازہ سجاتے تھے مجھے وہ نظر آیا تھا۔ اور جیسے میں اپنے حواسوں میں ہی نہ رہی۔ بیشا کے پھول لے کر اس کی طرف بھاگی۔ حالانکہ میرا انہیں ہاتھ لگانا ہماری مذہبی روایات کے مطابق ممنوع تھا۔
میں نے ٹہنی اس کی طرف بڑھائی اور کہا۔
’’تم کہاں تھے ؟ میری آنکھوں نے اتنے دن تمہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈا۔‘‘
حیرت کا ایک جہان اس کے چہرے پر ظاہر ہوا۔ ہکّا بکّا ساوہ میری طرف دیکھتا رہا۔ ٹہنی اس نے پکڑ لی۔ نرمی سے میری طرف دیکھا اور بغیر ایک لفظ کہے اپنے راستے پر ہو لیا۔
میرے باپ نے قدرے خفگی سے میری طرف دیکھا۔ ہمارے ماحول میں بہت آزادی ہے پر صرف اپنے قبائل کے لوگوں کے لئے۔ مسلمانوں کے لئے بالکل نہیں۔ میں کون سا کم تھی۔ ہٹیلی، اکھڑ اور سرکش۔ گردن جھُلاتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی جس نے میرے باپ کو پیغام دیا تھا کہ مجھے کسی کی ذرّہ برابر پروا نہیں۔
مجھے کیا ہو گیا تھا؟ میری سانسوں کے ہر تار سے وہ اُلجھ رہا تھا۔ میرے ہر خیال اور ہر احساس میں وہ کسی دھاگے کی گانٹھ کی طرح بندھ گیا تھا۔ جب دھیان گیان بٹا ہوا ہو تو کام اُلٹے پلُٹے ہوتے ہیں۔
بریر کے خاص انگوروں سے کشید کی ہوئی شراب کے چھوٹے بڑے تین مٹکے جنہیں میرا باپ کسی قیمتی اثاثے کی طرح سنبھالتے ہوئے بمبوریت لا یا تھا۔ اُن میں سے ایک میری بے دھیانی کی بھینٹ چڑھا تھا کہ گھی اور پنیر کو برتنوں میں اُنڈیلتے ہوئے میں نے ایک مٹکے میں پنیر اُلٹ دیا تھا۔ میرا باپ پھنکارے مارتا پھرتا تھا۔ اُس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ مجھے اُٹھا کر زمین پر پٹخ دے۔
اُس نے ڈی سی چترال کے کارندوں کو اس کی ایک بوتل نہیں دی تھی۔ صاف مُکر گیا تھا اور گھر تلاشی کے لئے کھول دیا تھا۔
بیچارہ پلی پلی جوڑتا رہا تھا اپنی برادری کی تواضع اور انہیں خوش کرنے کے لئے اور میں نے کُپا لنڈھا دیا تھا۔
اُس رات میں جشتگان میں گئی، وہاں بیٹھی۔ اپنے دیوتا مہاندیو کو تصّور میں لائی۔ میرے انداز میں وحشیانہ پن تھا تناؤ اور غصہ تھا۔
’’یاد رکھنا ۔ میں نے تنبیہی انداز میں جیسے ڈپٹ کر کہا۔
شیشاؤک والے دن اگر اُس نے میری چاہت کا جواب نہ دیا تو میں تیرے ٹوٹے کر دوں گی۔ اپنے دل سے نکال کر تجھے بمبوریت ندی میں پھینک دوں گی۔ میں سولی پر چڑھ گئی ہوں اور اُسے میری پرواہ نہیں۔‘‘
شیشاؤک کا دن وادی کی ہر لڑکی کا ایک خواب ہوتا ہے۔ کھلکھلاتی، قہقہے لگاتی لڑکیوں کے پرے اپنی اپنی آرائشی چیزوں اور کپڑوں کے ساتھ ندی پر جاتی ہیں۔ مہینوں کی جمی میل پانیوں کو سونپتے ہوئے نئی سج دھج کے ساتھ گھنگرو بجاتی دھرتی کے سینے پر غرور و تمکنت سے چلتی واپس آتی ہیں۔ میں نے بال بال میں موتی سجائے، روم روم کو مشاطِ جام کیا۔ دریا کنارے پتھروں میں چھُپے اُس آئینے نے مجھے بتایا کہ میری آنکھیں آتش شوق سے دہک اُٹھی ہیں اور میرے چہرے پر صبح کے گلابوں کی شگفتگی اور لالی کے عکس بکھرے ہوئے ہیں۔ یقیناً اسی لئے ہر کسی نے مجھے حیرت سے دیکھ کر کہا تھا۔
’’پوشن لگتا ہے نورستان کے پہاڑوں کی پریاں تیرے اُوپر اپنے رنگ چھوڑ گئی ہیں۔‘‘
اور شام کو میں اخروٹ کے درختوں تلے پکائی روٹیاں جب مختلف گھروں میں تقسیم کرنے نکلی تو سب سے پہلے گلباز خان کے گھر جا دھمکی۔ وہ برآمدے میں تنہا بیٹھا تھا۔ میں عین اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اُس نے مجھے دیکھا اور پھر وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا۔ بہت دیر بعد اس کی زبان سے نکلا۔
’’تم انسان ہو یا پروردگار کا کوئی شاہکار۔‘‘
میری کانچ جیسی بلوری آنکھوں میں خوشی کسی پھلجھڑی کی صورت ناچی۔ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔
’’اگر یہ سچ ہے تو مجھے چوبی پُل کے پاس رات کو ملو۔‘‘
میں نے اُس کا انتظار کیا۔ وہ آیا۔ میرے پاس بیٹھا۔ نہ میرا وجود زمین پر تھا اور نہ میرا دماغ، سب کہیں ہواؤں میں اُڑتے پھرتے تھے۔
’’اسفند! مجھے تم سے عشق ہو گیا ہے۔ مجھے بھگا کر لے چلو یہاں سے۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘
اُس نے سگریٹ کے جلتے شعلے میں میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔
’’کہاں ؟میں تو خود بھاگا پھرتا ہوں۔ میرا تو پورا خاندان مصیبت کی چکّی میں پس رہا ہے۔ دیکھو نا میری یہ عمر ہے چھپ کر بیٹھنے کی۔ بے کار بے مقصد دن گزار رہا ہوں۔ میرا دادا اور میرا باپ تو روایتی زمیندار، وڈیروں اور خانوں جیسے بھی نہیں۔ وہ تو بڑے خدا ترس اور دیندار لوگ ہیں کہ میں یہ کہوں کہ یہ ہمیں ہمارے کسی گناہ کی سزا ملی ہے۔‘‘
وہ اُداس تھا۔ مجھے اُس کے دُکھ کا اُس شدت سے اُس وقت اندازہ نہیں ہوا جس کا وہ اظہار کرتا تھا۔ شاید یہ میری بالی عمر کا قصور تھا کہ جس کے سامنے صرف میرے اپنے جذبے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی اُسے بھی مجھ سے محبت ہوئی یا نہیں تاہم اتنا ضرور ہوا کہ اب گاہے بگاہے مجھ سے ملنے لگا اور جس دن میں نے اُس سے کہا۔
’’تم مجھے بھگا نہیں سکتے ہو پر بچہ تو دے سکتے ہو۔ یہ دان پُن تو کر دو۔‘‘
بھونچکا سا ہو کر اُس نے دیکھا اور بولا۔
’’تم نے کیا کہا ہے ؟ کیا تم حواسوں میں ہو؟‘‘
یقیناً وہ ہمارے کلچر سے ناواقف تھا۔ کنوار پنے کا اس معاشرے میں کوئی تصور نہیں ہے۔ لڑکی کا جب اور جس سے جی چاہتا ہے وہ جنسی تعلق قائم کر لیتی ہے۔ میرے ساتھ پتہ نہیں کیا معاملہ تھا کہ میں تیرہ سال کی عمر میں بھی ابھی تک کنواری تھی۔ وادی کے لڑکے تو مدتوں سے تعاقب میں تھے پر پتہ نہیں دل اُن پر کیوں نہیں آیا تھا؟ اور اب یہ بے قدرہ سا مسلمان میری آرزو کی انتہاء بن گیا تھا اور جو میری اس خواہش کے اظہار پر یوں اُچھلا تھا جیسے بچھو نے ڈنگ ما ردیا ہو۔
’’یہ تو زنا ہے۔ گناہ ہے۔ حرام کاری ہے۔‘‘
اور میں نے گلو گیر لہجے میں اُس کے شانے پر سر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’یہ سب کچھ مجھے مت سناؤ۔ جو کچھ بھی ہے میری مجبوری سمجھو۔ میرا باپ مجھے بودلک کا بچہ دلانے کے لئے مر رہا ہے اور میں تم سے بچہ چاہتی ہوں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کروں ؟‘‘
یہ سسّی کی طرح صحراؤں میں میری آبلہ پائی تھی۔ یہ سوہنی کی طرح کچے گھڑے پر دریا کو پار کرنے کی مہم جوئی تھی۔ یہ فرہاد کی طرح دودھ کی نہر نکالنے والی کشٹ تھی۔ میں اُس کوہ نور کے ہیرے کو اپنی قوم قبیلے کی برچھی جیسی نوکیلی نگاہوں سے بچانے کے لئے کن کن پہاڑوں کی کھوہ کھڈوں میں لئے لئے پھری اور جب وادی کے لڑکوں اور کچھ بڑوں کو ہماری خفیہ ملاقاتوں کا علم ہوا میں نے اُسے اپنی چاہتوں کے زیر اثر چت کر لیا تھا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ جسمانی تعلق کے بعد اُس کا میرے ساتھ دلی تعلق کا آغاز ہوا۔ پر اُسے تو واپس جانا تھا اور جب وہ واپس جا رہا تھا اس کی ایک ایک حرکت، ایک ایک بات سے ندامت، تاسف اور دُکھ مترشح تھا۔
وہ کیا تھا؟ عظمت کے کِس مینار پر کھڑا تھا؟ یہ تو اُس وقت سمجھ میں آئی جب سیاحوں کی آنکھ میں ناچتی غلاظت پڑھنی آ گئی۔
اور میرے لئے بھی وہ دن کسی خدائی عذاب سے کم نہیں تھے۔ وادی کے لڑکے تو پہلے ہی خار کھائے بیٹھے تھے۔ بڑے بھی جتھے کی صورت ہمارے مذہبی پیشوا کے گھر اکٹھے ہو گئے تھے اور مجھے بھی بُلا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا تھا اور اس سوال پر کہ میرا کوئی اس سے جنسی تعلق قائم ہوا؟ میں نے زور دار نفی میں گردن ہلائی۔
’’ اگر کوئی بچہ ہوا تو یا در کھنا اُسے دریا بُرد کر دیا جائے گا۔‘‘
پھر میری تطہیر کے لئے مجھے مالوش (قربان گاہ ) لے جا یا گیا۔ بکرا ذبح ہوا۔ میرے ہاتھوں کی اوک میں خون ڈالا گیا جسے میں نے مالوش میں کھڑے چاروں چوبی گھوڑوں کے سروں پر چھڑکاؤ کیا اور جب مجھے دیودار کے سبز پتوں کی گاڑھی اور کسیلی دھونی میں پاک کیا جا رہا تھا اور کھانستے کھانستے میرا بُرا حال تھا میرے انگ انگ اور مُو مُو سے ایک دُعا نکلتی تھی۔
مہا ندیو اُس کا بیج میری کوکھ میں پھُولے۔
میری آنکھوں کے دہکتے انگارے اور میرے چہرے پر پھوٹتی گلابیاں افسردگیوں میں ڈھل رہی تھیں۔ اور چند دنوں میں ہی ہم بریر کے لئے روانہ ہو گئے۔ بریر تو جیسے رنگ و آہنگ میں نہایا ہوا تھا۔ پوری وادی بودلک کے لئے سراپا انتظار تھی۔
سنہری شام میں میں نے ایک سانڈ کی طرح پلے انسان کو لوگوں کے جلو میں پہاڑ سے اُترتے دیکھا۔ لڑکیوں کی شوخیاں اور اتراہٹیں بھی قابل دید تھیں۔ چار سو میں رونق تھی جشتگان (عبادت گاہ) میں چوبی مشعلیں روشن تھیں۔ جلوس جشتگان کی طرف رواں تھا۔ لڑکیوں کو بشمول میرے اکٹھا کیا گیا اور ہمارے مذہبی پروہت نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
جشتگان کے باہر پہرے دار کھڑے ہوئے۔ طبل کی تیز گونج دار آواز میں پہلی لڑکی کی گل چینی اختتام پذیر ہوئی۔ طبل بجتے رہے گل چینی کا عمل جاری تھا جب میری باری آئی میرا نمبر اکیسواں تھا۔
پتہ نہیں کیوں مجھے کراہت کا احساس ہوا۔ حالانکہ ایسے احساسات کی ہمارے معاشرے میں تو کوئی گنجائش ہی نہیں۔ میں نے خود کو پیش کیا اپنے آپ پر جبر کر کے کہ مجھے اپنے محبوب کا بچہ دنیا میں سلامتی کے ساتھ لانا ہے اور میں جانتی تھی کہ میں بار آور ہو چکی ہوں۔
بیٹے کی پیدائش تک میں اپنے باپ اور ماں کی ہتھیلی کا پھپھولا بنی رہی اور صحت مند خوبصورت بچے کی پیدائش پر میرا باپ ہواؤں میں اُڑتا پھر رہا تھا۔ یہ میرا نہیں اُس کا بیٹا تھا۔ بودلک سے پیدا شدہ بچے لڑکی کے والدین پالتے ہیں۔
یہ دل کی باتیں تھیں جو غم ناک ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور تحیّر آمیز تھیں اور خدیجہ کوتو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب شام ڈھلی؟ کب رات اُتری؟ نہ بھوک کا کوئی احساس، نہ پیاس کی کوئی طلب۔
پوشن نے فوراً کہا۔ ’’چلو میں بکری کا تازہ دودھ لاتی ہوں۔‘‘
پر اُس نے پوشن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’نہیں اب جانے دو میں ہوٹل والوں کو رات کے کھانے کا کہہ کر آئی تھی۔‘‘
فضا میں آج خنکی کا زور تھا۔ چھوٹے سے ڈائننگ ہال میں خوشگوار سی نگھی حرارت کا لطیف سا احساس رگ و پے میں طمانیت دوڑاتا تھا۔ پلاؤ گرم تھا۔ ساتھ پیاز، ٹماٹر، نیازبو اور ہرے دھنیے کے پتوں کا سلاد اور دہی تھا۔ کھانے کے بعد چائے کا کپ لے کر وہ اُوپر اپنے کمرے میں آ گئی۔
باہر تاریکی میں دیکھتے، ہواؤں کے جھکڑوں اور دریا کے طغیانی جیسے بہاؤ کے گونج بھرے شور کو سنتے وہ پوشن اور اس کے بچے کے بارے میں سوچتی رہی۔ پاکستان میں رہنے والے کتنے لوگ اس عجیب و غریب دنیا کو جانتے ہیں۔ انوکھی اور حیران کن دنیا اور اس کے کردار جو لمحہ بہ لمحہ انکشافات کے ساتھ اُس کے سامنے آ رہے تھے۔
آژور جب دو سال کا ہوا تو شادی کی پراسفند ہمیشہ قریب رہا۔ بند آنکھوں نے ہر عمل اُسی کی قربت میں ہی کیا۔ یوں یہ اور بات ہے کہ شادی سے نہ کوئی بچہ ہوا اور نہ وہ زیادہ عرصہ چلی۔
وہ دونوں تھوڑی دیر قبل کراکال آئی تھیں۔ آج رات کلاشیوں کے گڑھ اس گاؤں کے جشتگان میں رقص ہونا تھا۔ ابھی دیر تھی۔ یہاں دریائے بمبوریت کے کنارے درختوں کے نیچے ہری کچور گھاس پر بیٹھنے کا ایک اپنا مزہ تھا۔
’’بیٹا عجیب سی عادتوں کا مالک تھا۔ ایک تو ہر بات کے بارے میں سوال جواب سے ہی مت مارے رکھتا۔ تین سال کا تھا جب ایک دن مسلمانوں کی مسجد کے دروازے پر جا کر بیٹھ گیا اور وہیں بیٹھے بیٹھے سو گیا۔ وہاں سے اُٹھا کر لائی تو عجیب سی سوچیں دماغ میں ناچنے لگی تھیں۔
زرتاج گلباز خان کی بیوی سے دوستی کے باوجود میں نے کبھی اسفند کے بارے میں اس سے بات نہیں کی تھی۔ اپنے بچے کے چھن جانے کے خوف نے ہمیشہ میرے ہونٹوں پر تالے لگائے رکھے۔ جب وہ ذرا بڑا ہوا تو سکول جانے کے لئے مچلنے لگا۔ کراکال میں گورنمنٹ پاکستان کی طرف سے پرائمری سکول تھا۔ وہیں جانے لگا۔ ایک بار کوئی افسر معائنے کے لئے آیا اُس نے مجھے بلایا اور کہا۔
’’ ایسا ذہین بچہ اُس نے آج تک نہیں دیکھا۔ اُسے پڑھانے میں کوتاہی نہ کرنا۔‘‘
جیسے جیسے وہ بڑا ہو رہا تھا اُس کے عجیب سے رویے سامنے آ رہے تھے۔ روٹی اگر پیٹ کی ضرورت ہے تو جنس جسم کی ہے۔ ہمارے یہاں نفس پر قابو پانے یا اُسے کنٹرول کرنے کا کوئی رواج، کوئی طریقہ، کوئی اخلاقی قانون یا ضابطہ ہے ہی نہیں۔ جب جس وقت جی چاہا اور جس سے چاہا اس ضرورت یا خواہش کی تکمیل کر لی۔ اور میں نے محسوس کیا تھا کہ آژور میرے مردوں سے اس طرح گھلنے ملنے، شراب پینے اور پی کر غل غپاڑہ اور موج مستی کرنے کے عمل کو ناپسند کرتا تھا۔ اگر میں اُٹھ کر کسی مرد کے ساتھ جانے لگتی تو وہ میری کمر پر بندھی پٹی پر ہاتھ ڈال لیتا۔ مجھے روکتا، پاؤں پٹختا، چلّاتا، شور مچاتا اور ایسی حرکتوں سے اپنا رد عمل ظاہر کرتا۔
وہ نہانے کا، صاف کپڑے پہننے کا بڑا شوقین تھا۔ ہر دوسرے دن کپڑے بدلنے پر جھگڑتا۔ ہم لوگ تو ہفتوں کیا مہینوں کپڑے نہیں بدلتے تھے۔ ماہواری کے ایام کے لئے جب میں بشالینی (نرسنگ ہوم) جاتی وہ میرے پیچھے بھاگتا۔ باہر دروازے کے پاس کھڑا ہو کر آوازیں لگاتا۔
’’یہاں کیوں آتی ہو؟ میرے پاس رہو۔ گھر چلو۔‘‘
اور پھر جیسے آنسوؤں کا ایک فوارہ پوشن کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔
’’دیکھو تو اب میں اکیلی ہوں اور وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اب اُسے کچھ یادنہیں۔‘‘
بازؤں سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے وہ پھر بولی۔
کلاشی بنانے کے لئے رسم کے مطابق جب اُسے سیاہ اُون کی شلوار پہنا کر مالوش (قربان گاہ) بھیجا جا رہا تھا پہلے تو وہ وہاں جانے سے انکاری ہوا اور جب چلا گیا تو مالوش میں اپنے ہم عمر لڑکوں کو مارا اور مذہبی پیشوا کی کئی باتوں کی حکم عدولی کی۔ آٹھ سال کی عمر میں جب اُس کے گلے میں سونے کا حلقہ پہنایا جانے لگا تب بھی اُس نے بڑی بحث کی اس کی کیا ضرورت ہے ؟ مجھے نہیں پہننا اسے۔
میرے ماں باپ دونوں حیران تھے۔ دونوں کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ مجھے سمجھ آتی تھی پر میں نے تو ہونٹوں پر تالا لگایا ہوا تھا۔
اپنے طور پر میں نے اور میرے باپ نے بہت چاہا کہ وہ کسی طرح کھیتی باڑی اور غلّہ بانی کی طرف آ جائے پر ایک تو مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر نے اس کی آگے پڑھائی کی پُر زور سفارش ہی نہیں کی بلکہ مہتر چترال ناصر الملک کے ہائی اسکول میں داخلے کا بھی بندوبست کر دیا۔ اور وہ چترال پڑھنے کے لئے چلا گیا۔
اور جیسے آنسوؤوں کا ایک پرنالہ پھر اس کی بوڑھی آنکھوں سے بہنے لگا۔
رات تو پتہ ہی نہیں چلا کب اُتر آئی تھی۔ اُس نے دھیرے سے پاس بیٹھی پوشن کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو اپنے بیگ سے نکالے ٹشو پیپروں میں سمیٹا۔
وہ چترال کیا گیاسمجھ لو میری زندگی سے نکل گیا۔ شروع میں ہر ماہ ایک بار آتا پھر وقفہ بڑھتا گیا۔ پر جب بھی آتا اُسے کمرے کے اتنے دھوئیں میں لپٹے ہونے پر غصہ آتا۔ وہ مُجھ سے بھی اُلجھتا کہ آخر میں مہینوں کیوں نہیں نہاتی؟سر میں کنگھی نہیں کرتی۔ اپنے گھر کا شہد نہیں کھاتی ہوں اور اگر شامت اعمال سے ہمارے گھر میں کوئی مرد ہوتا تو اس کا مزاج اور بھی برہم ہو جاتا۔ اب وہ کھُل کر میرے شراب پینے کو بھی نا پسند کرنے لگا تھا۔
’’میں جس لڑکے کے گھر میں رہتا ہوں اُس کا باپ مرا ہوا ہے۔ اس کی ماں اتنی نیک عورت ہے کہ میرا جی چاہتا ہے میری ماں بھی ویسی ہی ہو۔‘‘
مجھے غصہ آیا۔ تنک کر میں نے کہا۔
’’تو اُسی کو ماں بنا لونا۔ اور ہاں تم مسلمان ہو گئے ہو؟‘‘
’’ تم کیا سمجھتی ہو؟‘‘
’’تمہاری اُلٹی پُلٹی سوچیں اور حرکتیں تو مجھے یہی بتاتی ہیں۔‘‘
’’ابھی تو تک تو نہیں ہوا۔ ہاں جب ہوا تو چھپاؤں گا تھوڑی۔ اور ہاں مسلمان بھی کون سا سب اچھے ہیں۔ مہتر چترال تو اوّل درجے کا بدمعاش انسان ہے۔‘‘
اور جب وہ آخری بار آیا اس وقت وہ پشاور میں پڑھ رہا تھا۔ اُن دنوں چاؤمس کے تہوار کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ شراب اور شباب دونوں کی فراوانی۔ لڑکیاں، عورتیں، مرد سب مئے ناؤ نوش کے لئے مرے جار ہے تھے۔
’’ماں شراب کوئی اچھی چیز ہے۔ بندے کی صحت کا ناس مار دیتی ہے۔‘‘
ہمارے درمیان تو تو میں ہوئی۔ اُس نے غصے سے کہا۔
’’اگر تم نے یہ گندی عادتیں نہ چھوڑیں تو میں یہاں نہیں آؤں گا۔‘‘
میں بھی اُس وقت تپی بیٹھی تھی۔ اُسے کوستے ہوئے بولی۔
’’ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔ مت آنا۔ میرے لئے تو عذاب بن جاتے ہو۔ میری اس رُوکھی پھیکی سی زندگی میں ذرا سی خوشی تمہارے دیدوں میں چبھنے لگتی ہے۔ سب کو دیکھو موج میلے میں لگے ہوئے ہیں اور تم چاہتے ہو میں جوگ لے کر بیٹھ جاؤں۔ جاؤ یہاں سے۔‘‘
اور وہ پھر غائب ہو گیا تھا۔
’’چلو آؤ دیکھو اندھیرا بہت بڑھ گیا ہے اور تمہیں اِن راستوں پر چلنے کی عادت نہیں۔ آؤ۔‘‘
پوشن کھڑی ہو گئی تھی اور اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا رہی تھی۔
جشتگان سرمائی تہواروں کا مرکز ہے۔ ایک لمبا چوڑا بارہ چوبی ستونوں پر مشتمل ہال جس کے ستونوں پر منبت کاری کا کام بڑا نمایاں تھا۔ آگ کے لئے ایک جانب جگہ تھی۔ دیودار کی سبز ٹہنیوں کی سجاوٹ تھی اور بکری کے سینگوں کی آرائش فوراً نظروں کو متوجہ کرتی تھی۔ گھوڑے کے سر کا بت بھی وہیں سجا تھا۔ شعلوں کی تیز روشنی میں ماحول حد درجہ پُرسرار اور ہیبت زدہ سا تھا۔
رقص شروع ہونے والا تھا۔ طبل کی آواز جیسے صورِ اسرافیل کی طرح ہی تھی۔ حسین چہروں کا جمگھٹا تھا یہاں۔ نشے میں ڈوبی آنکھیں۔ یقیناً شراب زیادہ پی گئی تھی۔ رقص تو بس ایسے ہی تھا نامانوس گیتوں پر آگے پیچھے کی چلت پھرت۔
خدیجہ کو بھی رقص میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی پر ہنستے ہوئے وہ انکاری ہوئی۔ خاصی دیر تک یہ ہنگامہ رہا۔ پھر وہ پوشن کے ساتھ باہر آ گئی۔ فضا میں آج زیادہ خنکی تھی۔
ہوٹل جانے اور پوشن کو خدا حافظ کہنے سے پیشتر اُس نے اُسے اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ شاید اُسے بھی زمانوں بعد کوئی ایسا راز دار ملا تھا جس کے سامنے وہ اپنے اندر دُکھ کاپکتاسارا لا وہ باہر نکال رہی تھی اور جب پوشن کوئی تین گھنٹے بعد رخصت ہوئی۔ وہ افسردہ ہوئی۔
’’کاش میں اسے اپنے ساتھ نہ لاتی۔‘‘ اُس نے بے اختیار سوچا۔
اُسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس درجہ دل گرفتہ ہے اور یوں بیٹے کی باتیں کرتے کرتے بکھر جائے گی کہ اُس کے لئے اُسے سمیٹنا مشکل ہو جائے گا۔
’’وہ کون سا منحوس وقت تھا جب میں نے اُسے لعن طعن کی۔ دھتکارا۔ آن بان والا لڑکا کیسے سب برداشت کرتا۔ نکل گیا میری زندگی سے۔‘‘
چھ سال سے وہ اُس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس سے پہلے وہ سال ڈیڑھ سال کے وقفے سے اپنی صورت دکھا جاتا۔ اب تو جیسے جُگ بیت گیا تھا۔
کیا وہ باہر چلا گیا؟ کہاں ہے ؟ اُسے کچھ نہیں معلوم تھا۔ ہاں البتہ اُسے پیسے ضرور ماہ دو ماہ بعد مل جاتے۔ چترال سے بینک کا بندہ آتا اور اُسے رقم دے جاتا۔
’’تم تو نیچے سے آئی ہو۔ ہمارے علاقے پر کام کرنے کے لئے۔ تمہارے تعلقات بھی ہوں گے۔ تم بڑے شہروں میں بڑے لوگوں کو جانتی بھی ہوں گی۔ کیا تم میرے بیٹے کا کھوج لگاؤ گی کہ وہ کہاں ہے ؟‘‘
اور جب وہ بستر پر لیٹی تو بار بار اِن الفاظ کی بازگشت اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’کیا تم میرے بیٹے کا کھوج لگاؤ گی؟‘‘
اُس کی دل گرفتگی، اس کے اندر کی شکستگی اُس کے لئے حد درجہ تکلیف اور دُکھ کا باعث بن رہی تھی۔ بے شمار آنسو اُس کی آنکھوں سے بہہ گئے تھے۔ ممتا کی تڑپ اور کسک کو سمجھناعورت یا لڑکی کے لئے کوئی مشکل نہیں۔
اُس رات خدیجہ نے اگلے دن چترال شہر جانے اور اُس کے لئے دو تین جوڑے بنانے اور کچھ ضروریات کی چیزیں خریدنے کا سوچتے ہوئے آنکھیں موند لی تھیں۔
چترال شہر کے اتالیق بازار سے کپڑے اور ڈوریوں کی خریداری کے بعد سلائی کے لئے درزی سے بات ہوئی۔ ایک تو اُس نے شام تک سی دینے کا کہا اور دوسرے دو جوڑوں کے لئے چند دن مانگے۔ ’’چلو ٹھیک‘‘ کہتے ہوئے اُس نے بازار سے مزید چیزوں کی خریداری کی۔ پولو کا میچ دیکھا۔ شاہی قلعہ کی سیر کی اور شام کو واپس بمبوریت آ گئی۔
اگلے دن پوشن کے پاس گئی۔ اُسے دیکھتے ہی وہ مضطربانہ انداز میں بولی۔
’’کل کہاں تھیں ؟ تمہیں نہیں دیکھا تو کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا۔‘‘
خدیجہ کی آنکھیں بھیگ سی گئیں۔
اُس نے شاہی حکم صادر کر دیا۔
’’ پوشن نہانا ہے۔ صاف کپڑے پہننے ہیں۔‘‘
اب وہ ناں ناں کر تی رہی۔ ٹھنڈ اور طبیعت کی خرابی کا کہتی رہی پر خدیجہ نے تو پانی گرم کرنا رکھ دیا تھا۔ پھر پورے گھر میں نہانے کی موزوں جگہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اُسے وہاں لے گئی۔ اُسے بے حد دُکھ ہو رہا تھا۔ بیچاری زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھی۔ اب یہ بھی نہیں کہ اُس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ تھے پر خود پر خرچ کرنے کی عادت نہیں تھی۔
وہ نہائی۔ خدیجہ نے اُس کی کمر صابن سے ملی۔ نئے کپڑے پہنائے۔ بال خشک کر کے تیل لگایا۔ مینڈھیاں گوندھیں اور چوٹیاں کی۔
’’پوشن تھوڑی دیر کے لئے اس من پکے بوجھ کو سر پر مت رکھو۔ سر کو ذرا سکون آنے دو۔ میں تو حیران ہوں تم لوگوں کے سر کیا لوہے کے ہیں۔‘‘
اُس نے شونگ (ٹوپی) ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ چولہے کے آگے خدیجہ نے چھوٹا سا نیا نمدہ بچھا دیا تھا اور پوشن سے بولی تھی۔
’’اب تم چائے بناؤ۔ میں لکڑیاں نہیں جلا پاؤں گی۔‘‘
’’خدیجہ مجھے اپنا ایسا اسیر نہ بناؤ کہ میں تمہارے جانے کے بعد تمہیں بھی رویا کروں۔‘‘
اُس کا لہجہ اِس قدر شکستہ تھا کہ خدیجہ چند لمحوں کے لئے کانپ سی گئی۔ پر پھر خود پر ضبط کرتے ہوئے شگفتگی سے بولی۔
’’پوشن میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔‘‘
پوشن اُسے دیکھ رہی تھی۔ چُپ چاپ۔ پھر دفعتاً وہ گلوکیرسے لہجے میں بولی تھی۔
’’خدیجہ تم میری بیٹی کیوں نہیں ہو؟ تم نیچے کیوں پیدا ہوئیں ؟ تم نے میری کوکھ سے کیوں جنم نہیں لیا؟‘
اور ڈھیر سارے آنسو اُس کی آنکھوں سے بہہ گئے۔ خدیجہ کی اپنی آنکھیں بھی گیلی ہو گئیں۔ پر وہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’میں تمہاری بیٹی ہوں۔ کبھی کبھار محبت اور پیار کے رشتے خون کے رشتوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایک بات مانو گی پوشن۔‘‘
خدیجہ کے ملتجی سے لہجے پر اُس نے نگاہیں اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ اُس وقت دیگچی سے چائے کپوں میں اُنڈیل رہی تھی۔
’’بولو کچھ کہنا چاہتی ہو۔‘‘
کپ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے وہ حیرت زدہ سی اُسے دیکھتی تھی۔
’’پوشن میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ یقین مانو تمہارے بیٹے کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھوں گی۔ جس اسپتال میں میں کام کرتی ہوں۔ اُس کے مالک بے حد خدا ترس اور نیک دل ہیں۔ تمہارا علاج بھی ہو جائے گا اور تمہارے بیٹے کا بھی پتہ چل جائے گا۔‘‘
خدیجہ نے دیکھا اُس کے چہرے پر کرختگی سی پھیل گئی تھی۔ اس کی آواز میں تلخی اور نروٹھا پن تھا جب وہ بولی۔
’’کیوں، کیوں ؟ اُسے ڈھونڈنے جاؤں۔ وہ اپنی جنم بھومی کا راستہ بھول گیا ہے وہ دنیا کے میلے میں گم ہو گیا ہے۔ وہ اگر ضدی ہے تو میں بھی اُس کی ماں ہوں۔ دیکھو میں نے خود کو کتنا بدل لیا ہے ؟ ممتا کی چادر اُوڑھ لی ہے۔ ساری وادی کی ماں دادی بن گئی ہوں۔‘‘
خدیجہ شاید کچھ اور کہتی پر پوشن کی ہمسائی شنگلی نے کمرے میں آ کر ان کی گفتگو کا سلسلہ توڑ دیا۔ وہ دو گلاس چاول اُدھار لینے آئی تھی۔ اُن دونوں کو باتیں کرتے دیکھ کر خود بھی بیٹھ گئی۔ شنگلی کو اُردو کی بس تھوڑی بہت شُد بُد تھی۔ خدیجہ کو عصر کی نماز پڑھنی تھی۔ پوشن سے اجازت لے کر اُٹھ گئی تھی۔
پر دو ایک دن بعد ہی خدیجہ زیر بحث آ گئی۔
’’خدیجہ تم نے اپنے بارے میں تو کچھ نہیں بتایا۔ مجھے بھی تو اپنے آپ میں شامل کرو۔‘‘
اور وہ ہنس پڑی۔
’’کیا بتاؤں زندگی تو ایسے ہی بس اونچ نیچ کا نام ہے۔‘‘
پوشن نے پوچھا تھا کہ کیا اُس نے پسند کی شادی کی ہے ؟ خدیجہ نے سر نفی میں ہلایا اور بولی۔
پوشن میں نے تو اپنے شوہر کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ ہمارا باپ تو ہمیں طالب علمی میں ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ چھ ماہ ہوئے ماں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ پوشن میرا باپ بُہت عظیم انسان تھا۔ میں تو اُسے سمجھ ہی نہیں سکی اور یہی تاسف مجھے بے کل رکھتا ہے۔ وہ ڈاکٹر تھا۔ نرم گداز دل کے ساتھ ساتھ مسیحائی کا تحفہ بھی اُسے خدا نے دے رکھا تھا۔
ساری زندگی اُس نے دھن دولت غریب لوگوں پر لُٹائی۔ غریب رشتہ داروں اور غیروں کو پالتا رہا۔ ایک دن اُس نے مجھ سے کلینک پر پارٹ ٹائم کام کرنے والے ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کے بارے میں تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے کہا کہ وہ اُسے میرے لئے بہت موزوں انسان سمجھتا ہے۔
میں نے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑتے ہوئے کہا۔
’’پاپا میں کسی غریبڑے اور ماڑے انسان سے شادی کرنا نہیں چاہتی ہوں۔ آپ کو نہیں پتہ ان لوگوں کی محرومیاں بہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں کو ان کی شخصیتوں میں جنم دے کر انہیں عجیب سے رویوں کا حامل بنا دیتی ہیں اور یہ لوگ اکثر اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا جینا بھی حرام کر دیتے ہیں۔ یوں بھی میں ان کے خاندانوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے کے
لئے خود کو کولہو کا بیل نہیں بنانا چاہتی ہوں۔‘‘
پاپا بالکل خاموش ہو گئے تھے۔ انہیں شاید مجھ سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔
سچی بات ہے میں اُن کی دریا دلی سے بھی بُہت تنگ تھی۔ ہمارے گاؤں کا ہر غریب لڑکا شہر میں پڑھ رہا تھا اور اُس کا خرچہ میرا باپ اُٹھاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بہت آسودہ سی زندگی گزار رہے تھے۔ پر یہ اُس معیار زندگی کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا جو میری دوستوں کو حاصل تھا۔ پھر میرے باپ کے ایکا میر ترین دوست نے اپنے بیٹے کے لئے میرا رشتہ مانگا۔ بڑی دھوم دھڑکے سے منگنی ہوئی۔ میری خوشی کی بھی انتہا نہ تھی۔ مجھے منگنی پر انہوں نے ہیروں سے نہال کر دیا۔
لیکن پھر وہ ہوا جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ہمارا باپ لوگوں کی مسیحائی کرتے کرتے دم توڑ گیا۔ میری عُمر اُس وقت کتنی تھی ؟فقط بیس20سال۔ پندرہ سالہ چھوٹی بہن تھی اور دل کش و خوبصورت چالیس40سالہ ہماری ماں۔ میں اُس وقت میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی۔
سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ منگنی بھی ٹوٹ گئی اور قربان ہونے والے رشتہ دار بھی چھوٹی موٹی جائیداد میں سے حصہ بٹورنے کے لئے عدالتوں میں چڑھ گئے تھے۔
زندگی کی گاڑی کو گھسیٹنے کے لئے میدان میں نکلنا پڑا۔ بڑی کڑی اور گرم دھوپ تھی جو جھُلسائے جا رہی تھی۔ اُن دنوں ایک خیال، ایک سوچ، ایک احساس مجھے چمٹ گیا تھا۔
میں نے اپنے باپ کو دُکھی کیا۔ اُس کی نیکیوں کا مذاق اُڑایا۔ یقیناً قدرت کو میرا تکبّر پسند نہیں آیا۔ اُس کے بندوں کی غربت کو باعث تضحیک بنانا اُسے بُرا لگا۔ یہ سزا ہے۔
اِن تلخ احساسات کی یہ جونکیں مجھے چمٹ گئی تھیں اور میرا خون پی پی کر کُپا ہو رہی تھیں۔ پھر پتہ نہیں ایک دن کیا ہوا؟ جیسے میں پھٹ پڑی۔
’’پروردگار! میں جھُلس گئی ہوں۔ معافی چاہتی ہوں۔ عہد کرتی ہوں آئندہ زندگی اپنے باپ کی طرح تیرے بندوں کی خدمت میں بسر کروں گی۔‘‘
’’خدیجہ!‘‘ دفعتاً پوشن کی تیز آواز اُس کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’خدیجہ تم اُوپر والے کو خوش کرنے کے لئے جو مرضی کرو پر تم نے مجھے یہ نہیں کہنا کہ میرے ساتھ چلو۔ دیکھو وہ تمہارے شوہر کا گھر ہے۔‘‘
’’ارے پوشن میری جان۔‘‘ اُس نے پوشن کا پلپلا سا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا اور اس کی نیلی کچور آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
’’اب یہ تو ممکن ہی نہیں کہ میں یہاں سے اکیلی جاؤں۔ گھبراؤ نہیں۔ میرا شوہر ہمدرد اور مخلص انسان ہے۔ اُس نے بستر مرگ پر میری ماں کی اُسی انداز میں خدمت کی جیسے ایک تابعدار اور فرمانبردار بیٹا کرتا ہے۔ وہ انسان دوست ہے۔‘‘
’’خدیجہ میں اُسے کیوں کھوجنے نکلوں۔ نہیں نہیں۔‘‘
وہ رو رہی تھی پھوٹ پھوٹ کر۔ خدیجہ کے بھی آنسوبہہ نکلے تھے۔
اور ماہ بغدوہ اپنی سروے رپورٹوں اور پوشن کو ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ وادی کے لوگوں نے خدیجہ کو ایسے ہی رُخصت کیا جیسے خدیجہ اُن کی بھی بیٹی ہو۔ خدیجہ اِن غریب اور سادہ لوح لوگوں کی محبت اور خلوص سے بُہت متاثر تھی اور اُن کے لئے کچھ کرنے کا عزم لے کر رُخصت ہو رہی تھی۔
اور جب وہ پشاور کے لئے جہاز میں بیٹھی۔ اُس نے پوشن کی کمر کے گرد سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے اُسے دیکھا۔ وہ نڈھال سی سر سیٹ سے ٹکائے آنکھیں بند کئے چہرے
پر ہلدی جیسی زردیاں بکھرائے نیم دراز سی تھی۔
خدیجہ نے اُس کی پیشانی کو چوما اور دل میں کہا۔
’’میں تمہیں ایسے ہی سمیٹ لوں گی جیسے تمہارے بیٹے آژور نے امریکہ سے واپسی پر ہمیں سمیٹا۔ تمہارا بیٹا میرے باپ کی نیکیوں کا وہ انعام ہے جو قدرت نے مجھے دیا ہے۔‘‘
٭٭٭
گوری اور کالی عقلمند لڑکیاں
سچی بات ہے Divide and ruleکبھی میری پالیسی نہیں رہی۔ ایک بڑے تعلیمی ادارے میں گذشتہ پندرہ سال سے بطور پرنسپل کام کر رہی ہوں۔ کوئی سو کے قریب آساتذہ میری زیرِ نگرانی کام کرتے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو ان کی خوشیوں اور غموں میں ہمیشہ شامل رکھا ہے۔ کسی نے میرے پاس آ کر آنسو بہائے تو میں نے اس کی اشک شوئی کی، دلاسہ دیا، حوصلہ بڑھایا اور اگر کوئی خوشی کی خبر سنانے آیا تو میں نے بھی مسکراہٹیں بکھیریں۔ ٹیچرز کے آپس کے جھگڑوں کو پیار اور محبت بھری ڈانٹ سے نپٹایا۔ یقیناً یہ میرا طرز عمل ہے کہ میری ٹیچرز مجھ سے اپنے دُکھ سکھ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں۔
یہ بڑی گرم دوپہر تھی۔ لُو کے تھپیڑوں نے میرا چہرہ جھُلس دیا تھا۔ میں آخری راؤنڈ سے فارغ ہو کر ابھی آفس میں آ کر بیٹھی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ذرا اس فائل کو کھولوں جسمیں انتظامیہ کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کی رپورٹ نتھی کی گئی تھی۔ ابھی میں نے رپورٹ پڑھنی شروع کی ہی تھی جب مس تہمینہ دفتر میں داخل ہوئی۔
تہمینہ کے بارے میں مختصراً عرض کیے دینا چاہتی ہوں۔ مخلص، ہمدرد، عام سے نقش و نگار والی لڑکی ہے۔ ایم اے بی ایڈ تک تعلیم ہے۔ خاندانی پس منظر اچھا ہے۔ چھوٹی سی فیملی جس میں دو بہنیں ایک بھائی ماں اور باپ شامل ہیں۔ باپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا گھر خریدا تھا۔ معاشی حالات بس نارمل سے ہیں۔ زندگی سکون سے گزر رہی ہے۔ بس اگر پریشانی ہے تو تہمینہ کے لیے موزوں رشتے کی۔ تہمینہ کی عمر تیس کے قریب قریب ہے مگر نک سک سے آراستہ رہنے اور اپنا خیال رکھنے کی وجہ سے اتنی دکھتی نہیں۔
وہ میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ آج صبح سے میں نے اُسے نہیں دیکھا تھا اب بغور دیکھا تو کچھ پریشان سی نظر آئی۔
کوئی بات؟پریشان لگتی ہو میں نے نرمی سے پوچھا۔
’’میڈم مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کتنے چاہئیں ؟‘‘
’’یہی کوئی پچاس ہزار۔ بس دو تین ماہ میں لوٹا دوں گی۔‘‘
پچاس ہزار اچھی معقول رقم تھی۔ میں نے ذرا گہرائی میں اترنا مناسب خیال کیا۔
’’کہاں ضرورت ہے ؟‘‘
اور اس کے تفصیلی جائزے سے مجھے محسوس ہوا کہ وہ کچھ گومگو کی کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔
’’کھل کر بات کرو میں تمہاری باس ہی نہیں بہن بھی ہوں۔ ٹھیک مشورہ دوں گی۔‘‘ اور اس نے بتا نا شروع کیا۔
’’ہمارے دائیں ہاتھ جو لوگ رہتے ہیں وہ شیخ ہیں۔ شیخ اقبال احمد کے دو بچے ہیں توصیف اور نجمہ۔ توصیف میڈیکل کے تیسرے سال میں اور نجمہ فائن آرٹس میں ایم اے کر رہی ہے۔ بہت گھلنے ملنے والے اور مخلص لوگ نہیں ہیں۔ بس کبھی کبھار ہی آنا جانا ہوتا ہے یا آتے جاتے ٹکراؤ ہو جائے تو ہیلو ہائے ہو جاتی ہے۔ کوئی تین دن پہلے اماں ہمارے ماموں کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ بھائی ٹیوشن پڑھنے چلا گیا اور میں گھر میں اکیلی تھی۔ کبھی کبھی اکیلا پن بھی کیسی اُداسی پیدا کر دیتا ہے ؟آدمی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ میں نے کچھ وقت لان میں پودوں کی کانٹ چھانٹ پر ضائع کیا۔ کچھ وقت گھر میں ہی اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے میں کاٹا اور بالآخر میں نے نجمہ کے گھر کی طرف قدم اٹھا دئیے۔ میں اپنی بوریت کو کچھ کم کرنا چاہ رہی تھی۔
’’چلو ٹھیک سے بات وات نہ کریں گے تو بھی خیر۔ تھوڑا سا وقت تو کٹے گا۔‘‘
میں اپنے گھر سے نکل کر ان کے گیٹ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ گیٹ بند تھا اور میرا ہاتھ اطلائی گھنٹی پر جانے ہی والا تھا جب ایک سائیکل سوار لڑکے نے میرے پاس آ کر پوچھا۔
’’توصیف احمد شیخ کا گھر یہی ہے۔‘‘
میں نے گھنٹی بجانے کے بجائے رخ پھیر کر اسے دیکھا۔ ۲۱، ۲۲ برس کا کمزور سا لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا۔ سائیکل کو اس نے دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔ زرد چہرہ، گال پچکے ہوئے، آنکھیں موٹی موٹی مگر اُداسی میں ڈوبی ہوئیں۔ بے ترتیب سے بال۔ لباس بھی عام سا تھا۔
’’یہی گھر ہے۔ تمہیں توصیف سے ملنا ہے کیا؟‘‘
اور میں نے اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر گھنٹی پر انگلی رکھ دی۔ ساز بجا اور گیٹ کھُل گیا۔ دروازے پر ملازمہ تھی۔ میں نے نجمہ اور توصیف کے بارے میں پوچھا۔ دونوں گھر پر تھے۔ میں نے اندر جاتے ہوئے ملازمہ سے کہا۔ ’’توصیف کو بتا دو کہ اُس سے کوئی ملنے آیا ہے ؟‘‘
نجمہ اپنے کمرے میں تھی میں کچھ سوچ کر وہیں چلی گئی۔ وہ غالباً چائے پینے لگی تھی۔ ٹرالی سامنے رکھی تھی۔ کمرہ ٹھنڈا تھا اور ماحول بہت خوشگوار سا۔ میں نے ڈھیٹ بن کر کہا۔
’’میرا خیال ہے میں ٹھیک وقت پر آئی ہوں۔‘‘
’’آئیے آئیے۔‘‘ نجمہ نے خاصی خوش دلی سے کہا۔
’’بھئی گھر میں بور ہو رہی تھی تھوڑے سے وقت کو خوش گوار بنانے کے لیے آئی ہوں امید ہے محسوس نہیں کرو گی۔‘‘
اور نجمہ نے جواباً خاصی فراخدلی سے کہا۔ ’’ارے نہیں کیسی بات کرتی ہیں آپ۔ اکٹھے چائے پیتے ہیں اور تھوڑی سی گپ شپ بھی لگاتے ہیں۔‘‘
چائے پی اور گپ شپ لگی۔ نجمہ نے یونیورسٹی کے لطیفے سنائے اور میں نے بھی اسے سکول کی باتیں بتائیں اور تھوڑی سی بات چیت فلم اور ٹی وی پر ہوئی اور گھنٹہ گزر گیا۔ میں نے وقت دیکھا اور کھڑی ہو گئی۔ نجمہ نے بیٹھنے کے لیے کہا مگر میں نے معذرت کرتے ہوئے بتایا۔ ’’گھر میں کوئی نہیں۔ نوکر بھی نہیں ایسے ہی کھلا چھوڑ آئی ہوں اماں آ گئیں تو بولیں گی۔‘‘
جب میں گیٹ سے نکلی اور اپنے گھر کی طرف بڑھی تو وہی لڑکا میرے سامنے آ گیا میں نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا اس وقت سورج ڈوب چکا تھا اور ہلکا ہلکا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ہماری لین میں مرکری ٹیوبیں نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا وقت سے پہلے ہی چھانے لگتا ہے۔
’’میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مجھ سے۔‘‘ حیرت میری آنکھوں میں نمایاں تھی اور میرا داہنا ہاتھ میرے سینے پر تھا۔
’’جی میں توصیف کا کلاس فیلو ہوں۔‘‘
گویا وہ میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا اور میڈیکل کے سٹوڈنٹ سے بات کرنے میں قطعی ہرج نہ تھا۔ میں نے سوچا۔
’’بات لمبی ہے تو گھر آ جاؤ۔‘‘
میں نے گھر کی طرف اپنے قدم بڑھا دئیے۔ وہ سائیکل کو گیٹ کے پاس کھڑا کرنے لگا تو میں نے کہا۔
’’اسے اندر لے آؤ کوئی اٹھا لے سکتا ہے۔‘‘ سیاہ گیٹ کا ایک پٹ میں نے کھول دیا۔ اس نے سائیکل دیوار کے ساتھ ٹکائی۔ جب تک وہ فارغ نہ ہوا میں اس کے پاس کھڑی رہی۔
اس کا حلیہ اُسے کسی بہت غریب گھر سے تعلق کا پتا دیتا تھا۔ ڈرائینگ روم میں صوفے پر بیٹھ کر میں نے بغور اُسے دیکھا اور پوچھا۔
’’کہو کیا بات ہے ؟‘‘
’’مجھے میٹرک یا ایف ایس سی کی کوئی ٹیوشن دلانے میں آپ کچھ مدد کر سکتی ہیں۔‘‘
’’توصیف کے پاس تم اسی کام کے لیے آئے تھے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی نہیں ان کے پاس میں کسی اور کام کے لیے آیا تھا۔‘‘
’’کیا کام تھا وہ۔‘‘ میں اس کے بارے میں کچھ جاننا چاہتی تھی۔
اور مجھے احساس ہواجیسے وہ تذبذب میں پھنس گیا ہے کہے یا نہ کہے۔ میں خاموش بیٹھی اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد وہ بولا۔
’’غریبی بھی خدا کا بہت بڑا عذاب ہے۔ میں اپنی دو سالہ بیاہی بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ پڑھنے میں بہت لائق ہوں۔ ہمیشہ وظیفہ لیا۔ میڈیکل کرنا میری بہت بڑی تمنا ہے۔ ٹیوشنوں اور وظیفوں کے بل پر ڈاکٹری کی لائن میں تو آ گیا مگر اس کے بیشمار اخراجات کو برداشت کرنا اب میرے لئے بہت مشکل ہو رہا ہے۔ بیس ہزار کسی واقف کار سے پکڑا تھا کتابوں کی ضرورت تھی۔ کچھ دوسرے سال میں میں نے ٹیوشنز نہیں کیں۔ پہلے سال وقت بہت ضائع ہو گیا اور اپنی پوزیشن قائم نہیں رکھ سکا۔ ان پیسوں سے ضروریات پوری کرتا رہا۔ اب اس نے ناک میں دم کر دیا ہے کہ میرے پیسے واپس کرو۔ میں توصیف کے پاس آیا تھا مگر اُس نے معذرت کر دی ہے۔‘‘
تہمینہ نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
’’یہ روپے مجھے متین کو دینے ہیں۔ ایک ہفتہ کا وعدہ کیا تھامیں نے۔ میرے خیال میں متین جیسے ہونہار نوجوان کی مالی اعانت کرنا نیکی ہی نہیں اس ملک کی بھی خدمت ہے۔‘‘
مجھے تہمینہ کے نظرئیے سے بالکل اتفاق تھا مگر میں اسے دیکھنا چاہتی تھی اور اپنی اس خواہش کا اظہار میں نے اس سے بھی کر دیاجس پر وہ بولی۔
ُُ ’’میں کہہ دوں گی وہ آپ سے مل لے۔‘‘
اگلے دن میں نے رقم بینک سے نکلوا کر اُسے دے دی۔
تہمینہ اور متین کے درمیان طے پا گیا تھا کہ وہ اسے پیسے دینے کہاں آئے گی؟یہ مقام ہسپتال کا تھا جو میڈیکل کالج کے ساتھ ملحق تھا۔
گیارہ بجے وہ سکول سے چھٹی لے کر چلی گئی۔ متین اسی جگہ اس کا منتظر تھا وہ اسے دیکھتے ہی کھل اٹھا۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے خاموش کھڑے تھے۔ تہمینہ نے پرس سے پیسوں کا لفافہ نکالا اس کی طرف بڑھایا اور آہستگی سے کہا۔
’’اسے قرض مت سمجھنا۔ یہ مدد ہے ایک انسان کی دوسرے انسان کو آئندہ بھی جہاں تک ممکن ہو سکامیں تمہارے لئے کچھ کرتی رہوں گی۔ ٹیوشنز کے چکروں کو چھوڑو اور اپنی تعلیم کی طرف توجہ دو۔‘‘
معلوم نہیں یہ جذبہ ممنونیت کی انتہا تھی یا وہ صورتحال سے اس درجہ متاثر تھا کہ اس سے ایک لفظ بھی نہ بولا گیا۔ تہمینہ کو اس کی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہوئی۔ اس کے ہونٹ بھی پھڑپھڑانے لگے تھے۔ وہ ایک ٹک تہمینہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے گھبرا کر اسے دیکھا اور بولی۔
’’کیا بات ہے متین؟‘‘
’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اس نے بے بسی سے کہا۔
’’یقین نہ آنے والی کون سی بات ہے ؟ آخر انسان ہی ایک دوسرے کا دُکھ بانٹتے ہیں۔ جانور تو آ کر احوال پُرسی کرنے سے رہے۔
وہ اسے کنٹین میں لے گیا جہاں اس نے تہمینہ کو چائے پلائی اور یہ پوچھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ اسے کہاں مل سکتی ہے۔ تہمینہ نے اسے سکول کا پتہ بتا یا اور مجھ سے ملنے کو بھی کہا۔
یہ اکتوبر کے خوشگوار دن تھے۔ آفس کے سامنے چھوٹے سے گلاب کے باغیچے میں پھول مُسکرا رہے تھے۔ میری نظریں بہت دیر سے ان پر جمی ہوئی تھیں۔ ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں سے وہ دائیں بائیں لہرا تے خوبصورت لگ رہے تھے۔ جب میری محویت ’’میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘ جیسے اجازتی جملے سے ٹوٹ گئی۔ ایک نوجوان سا لڑکا میرے سرکو اثبات میں ہلتے دیکھ کر اندر آ گیا۔ آتے ہی اس نے سرکو قدرے جھکایا اور بولا۔
’’میں متین احمد ہوں مس تہمینہ نے شاید میرا ذکر آپ سے کیا ہو۔‘‘ میں نے یکدم خوش ہو کر کہا۔
’’اچھا اچھا تو آپ متین ہیں بیٹھئے۔‘‘
وہ کرسی کھینچ کر میرے سامنے بیٹھ گیا۔ میں نے گہری تنقیدی نگاہ اس پر ڈالی۔ اس
کی آنکھیں موٹی موٹی سی تھیں مگر معلوم نہیں مجھے وہ کچھ عجیب سی لگیں۔ اس کا چہرہ معصومیت بھرا نہیں تھا۔ میں کچھ پریشان سی ہو گئی۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے بارے میں اتنی جلدی فیصلے نہیں ہوتے۔ اس ذات کی اتنی تہیں ہیں کہ بعض اوقات سالوں ساتھ رہ کر بھی پتہ نہیں چلتا مگر پھر بھی میں جو عمر کی درمیانی منزل میں ہوں۔ چہرے مہروں سے تھوڑا بہت جاننے کا دعویٰ ضرور رکھتی ہوں۔
اس کے چہرے نے مجھے متاثر نہیں کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی باتیں بڑی حقیقت پسندانہ تھیں۔ ان میں غم کی جھلک تھی اور حوادث سے نپٹنے کا عزم بھی۔ میں نے تہمینہ کو بلایا۔ میرا خیال اسے چائے پلائے کا تھامگر تہمینہ کی موجودگی میں۔
اور میں نے دیکھا تہمینہ جوں ہی کمرے میں داخل ہوئی۔ متین کو دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں اور رخساروں پر جیسے گلاب سے کھل اٹھے اور جس انداز میں اس نے متین کو دیکھا تھا وہ مجھے یہ سمجھانے اور بتانے کو کافی تھا کہ وہ ہمدردی سے آگے بڑھ گئی ہے۔ میں نے متین کے چہرے پر جو کچھ بکھرا دیکھا تھا اُس سے صرف یہی جان سکی کہ وہاں مسکراہٹ ضرور تھی مگر سنجیدہ سی۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے رخصت چاہی۔ تہمینہ اس کے ساتھ ہی باہر نکل گئی۔ میں نے کھڑی کے شفاف شیشے میں سے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ خاموش سایہ انداز دید ان کی محبت کی چغلی کھاتا تھا۔ مجھے قدرے حیرت بھی تھی کہ تہمینہ اچھی بھلی سمجھ دار لڑکی کیسے بیوقوف بن گئی ہے ؟اسے اپنی اور اس کی عمروں کے درمیان فرق کا احساس نہیں۔ زمانہ کون سا جا رہا ہے۔ یہ اسے مالی لحاظ سے سپورٹ کرتی رہے گی اور وہ اسے بیوقوف بناتا رہے گا۔ ڈاکٹر بن کر کسی اچھی خوبصورت لڑکی سے بیاہ رچا لے گا اور یہ بیٹھی قسمت کو روئے گی۔
اسے رخصت کرنے کے بعد جب تہمینہ واپس آئی تو میرے پاس ہی آ گئی۔ اس نے آتے ہی پوچھا۔
’’مسز محسن کیسا لگا آپ کو متین؟‘‘
’’اچھا ہے۔‘‘ میں نے قدرے توقف سے کہا۔
’’تہمینہ دیکھو میں ایک بات تم سے ضرور کہنا چاہتی ہوں۔ انسانی فطرت مطلب برآری کے لئے گدھے کو باپ بنانے سے نہیں چوکتی۔ ایسا نہ ہو کہ تم ہمدردیوں کی لپیٹ میں اپنا آپ لٹاتی ر ہو اور وہ ایک دن احسان فراموشی کی داستان بن کر تمہارے سامنے آ جائے اس وقت تم دکھ اور کرب کی جس منزل سے گزرو گی اس کا اندازہ مجھے ابھی سے ہو رہا ہے۔‘‘
اس نے میرے ان خدشات کے جواب میں کچھ نہ کہا بس سر جھکائے چپ چاپ میری باتیں سنتی رہی۔ بریک کی گھنٹی بجی اور وہ اٹھ کر چلی گئی۔
بہت عرصے تک مجھے کچھ پتہ نہ چل سکامگر ایک بات میں نے ضرور محسوس کی تھی کہ تہمینہ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا۔ ایک دو بار میں نے اس سے پوچھا بھی مگر وہ ٹال گئی۔ ایک دن اتفاق سے جب میں ٹیچرز کے پاس بیٹھی ہوئی تھی تہمینہ زیرِ بحث آ گئی۔ مسز رحمان نے تنک کر میرے اس اندیشے کی تردید کی جو مجھے اس کی صحت کے بارے میں تھا۔
’’تین ٹیوشنز تو وہ سکول ختم ہو جانے کے بعد پڑھاتی ہے اور تین چار کے گھروں میں جاتی ہے۔‘‘
اور جیسے میرے دل پر گھونسہ پڑا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ وہ اس مشقت کی چکی میں کس لئے پس رہی ہے ؟میں خاموش تھی اور مسز رحمان غالباً منتظر تھی کہ وہ میرے کسی بھی حیرت کے اظہار کے بعد حقیقت سے پردہ اٹھائے اور میں اپنی ہی سوچ میں گم تھی جب اس نے کہا۔
’’کسی ڈاکٹر کے پیچھے لگی ہوئی ہے اُسے پڑھا رہی ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی طنزیہ سا قہقہہ فضا میں اچھال دیا۔
’’احمق!جب وہ ڈاج دے جائے گا تو بیٹھی قسمت کو روئے گی۔‘‘
میں خاموش رہی تبصرے کرنا مجھے قطعی پسند نہیں۔
ایک دن میں نے مسکراتے ہوئے ٹوہ لینے کی خاطر کہا۔
’’میرا خیال ہے تم محبت کر بیٹھی ہو۔‘‘ میں نے موضوع کی تلخی کو مسکراہٹ کی آڑ دی۔ اور اس نے شرمانے یا سر جھکانے کے بجائے سکون سے کہا۔
’’شاید اسی کا نام محبت ہے مجھے متین اچھا لگنے لگا ہے۔‘‘
’’مگر وہ تم سے شادی کر لے گا۔‘‘
’’مسز محسن شادی بیاہ تو مقدروں کی بات ہے۔ میں نے اگر اسے مالی اعانت دی ہے یا دے رہی ہوں تو یہ عوض نہیں مجھے اس کی مدد کر کے خوشی ہوتی ہے۔ اس بار اس نے ٹاپ کیا ہے۔‘‘
’’کیسی لڑکی ہے۔ کتنا بڑا دل رکھتی ہے خدا کرے خوش رہے۔‘‘
متین کے ساتھ اس کی دوستی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ سب لوگ جان گئے تھے۔ بیشتر کا نظریہ میرے جیسا تھا۔
اور جس دن متین ڈاکٹر بنا اس دن اس نے بہت شاندار پارٹی دی۔ سب لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ متین کو بھی بلا لے۔ متین بھی آیا۔ اس نے پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی۔
میں نے کافی مدت بعد اُسے دیکھا تھا۔ وہ خاصا صحت مند اور اچھا لگ رہا تھا۔
مسز رحمان نے پوچھا ’’شادی کب کرو گے ؟‘‘
’’ابھی تو کوئی پروگرام نہیں جی۔ ہاؤس جاب کرنا ہے پھر باہر جانے کے لیے وظیفہ متوقع ہے۔‘‘
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ تہمینہ نہایت سکون سے کپوں میں چائے ڈالنے اور سب لوگوں کو پیش کرنے میں مصروف تھی۔ اس کے اندر کوئی طوفان برپا تھا یا وہ پرسکون تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
متین کے جانے کے بعد ایک دو نے کہا بھی۔ ’’تہمینہ ریت سے گھر بنانے کی کوشش کر رہی ہو۔‘‘ اور وہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’میں نے تو گھر بنانے کا سوچا نہیں تم بلا وجہ سوچیں پیدا کر رہی ہو۔ گھر اوپر والا بناتا ہے۔ چاہے گا تو جو بنیاد میں نے رکھی ہے اس پر بن جائے گا اور اگر نہیں تو میں بجری، سیمنٹ، چپس لے کر بھی نہیں بنا پاؤں گی۔‘‘
متین ان دنوں ہاؤس جاب کر رہا تھا۔
پھر بہار کی ایک رنگوں سے بھری صبح کو وہ بہار کی طرح کلائی اور بازوؤں تک مہندی کے پھول پتیوں سے سجی قیمتی زرتار جوڑا پہنے اور پھولوں کے زیورات سے لدی پھندی سکول میں آئی اور متین سے اپنے نکاح کی دھماکہ خیز خبر سنائی۔ ہم سب کے چیخنے اور چلانے پر اُسکا معذرت بھرا اظہار تھا کہ بس سادگی سے نکاح ہوا ہے۔ باہر سے تو کوئی مدعو ہی نہیں تھا۔
چلو خوشی کی بات تھی۔ اس کی بے کیف سی زندگی میں خوشیوں کے رنگ تو گھلے۔
سال بعد بچہ آ گیا۔ وہ واقعی بہت خوش تھی۔ مسرور و مطمئن اور سرشارسی۔
متین پڑھنے کے لیے انگلینڈ چلا گیا۔ پانچ سال بعد واپس آ کر اُس نے گلبرگ میں
ایک شاندار اسپتال اور گھر بنایا۔ تہمینہ نے نوکری چھوڑ دی اور اسپتال کی منتظم اعلیٰ کی ڈیوٹی سنبھال لی۔
انسانوں کو پرکھنے، پڑھنے اور ان کو جانچنے کے میرے سارے دعوے غلط نکلے تھے۔
ہم سب کا خیال تھا کہ تہمینہ بختاور ہے۔ قسمت کی دھنی ہے۔ مقدر نے اُس کا بہت ساتھ دیا ہے۔
یہ جاتی سردیوں کے دن تھے۔ میرے بچے چائنیز کھانے کے لیے ضد کر رہے تھے میں انہیں لے کر ایک چینی ریستوان میں چلی گئی۔ بڑا خوابناک سا ماحول تھا۔ بہت زیادہ لوگ نہیں تھے۔ میں میزوں کے گرد بیٹھے لوگوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ جب ذرا فاصلے پر کونے میں ایک نوجوان چہرے نے مجھے فی الفور اپنی طرف کھینچ لیا۔ لڑکی کا حسن نیم اندھیرے میں لشکارے مارتا تھا۔ بار بار میری نظریں اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ مجھے تجس سا تھا کہ ساتھ بیٹھا مرد کیسا ہے ؟دونوں جب اٹھے میں ششدر رہ گئی۔ وہ متین تھا۔ بہت وجیہ لگ رہا تھا۔ دُبلا پتلا جسم اب بھر گیا تھا۔ باہر کی تعلیم و تربیت نے زبردست گرومنگ کر دی تھی۔ دونوں اپنی ترنگ میں میرے قریب سے گزر کر چلے گئے۔
تو میرے خدشات درست تھے۔ انسانوں کے بارے میں میری ریڈنگ بھی غلط نہ تھی۔ ایسے ہی ہوتا ہے۔
اگلے دن میں نے تہمینہ کو فون کیا۔ ایک دُکھ بھری جھجھک آمیز تشویش میرے لب و لہجے سے ہویدا تھی۔ میں حیران رہ گئی۔
’’مسز محسن اُس کی آواز میں طمانیت سے بھرا ہوا محبت بھرا رچاؤ تھا۔ وہ ثمرہ تھی۔ متین کے بچپن کے انتہائی بُرے دنوں کی ساتھی۔ اُس کی محبت، اُس کی بیوی۔
میں تو سناٹے کی سی کیفیت میں تھی وہ چند لمحوں کے لیے رکی تھی پھر سلسلہ کلام جاری
رکھتے ہوئے بولی۔
ثمرہ کے بارے میں تو اُس نے پہلی چند ملاقاتوں کے بعد ہی بتا دیا تھا۔
مسز محسن جب تیس سال کی ایک سمجھ دار، پختہ عمر کی، اپنے مستقبل سے مایوس لڑکی خود سے نوسال چھوٹی عمر کے لڑکے سے اس کی مجبوریوں اور اپنی تشنہ خواہشوں کے تانے بانوں سے ایک رشتہ بننے لگتی ہے تو سمجھوتے کی لچک کو بھی ساتھ رکھتی ہے۔ متین کی بیوہ ماں ثمرہ کے گھر کی ملازمہ تھی۔ اُن کی جھوٹن سے اپنا اور بچے کا پیٹ بھرتی تھی۔ ثمرہ کا گھر اس کی ماں کی وہ پناہ گاہ تھی کہ جہاں اُس نے اپنا وقت عزت و آبرو سے کاٹا۔
دونوں میں کوئی تین چارسال کی چھوٹائی بڑائی تھی۔ دونوں میں بے پناہ محبت تھی۔ متین میرے خلوص اور قربانیوں سے بھی متاثر تھا۔ میری زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کا آرزومند تھا۔ مگر ثمرہ کی محبت کی ڈوریوں میں بندھا ہوا تھا۔ میں سوچتی رہی اور بالآخر ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔
متین دو کشتیوں میں پیر رکھ بیٹھا تھا۔ میری دانش مندی نے اُسے ڈولنے نہیں دیا۔ اُس کے انگلینڈ جانے سے قبل ثمرہ کا اغوا، نکاح، اُسکی تعلیم اور گرومنگ سب میری نگرانی میں ہوئے۔ پانچ سال وہ میرے ساتھ میرے زیرِسایہ رہی۔ بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘
میں ہونقوں کی طرح منہ کھولے آنکھیں پھاڑے یہ سب سنتی تھی جانے کیوں یہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔
’’تمہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ ’’ارے مسز محسن میں تو اُس کے سارے نظام کی گاڈ مدر ہوں۔ میرے خمار کے لیے تو یہی کافی ہے۔‘‘
٭٭٭
پھُک نہ ویکھے سالنا
’’کہیں اندر کھول کر دکھانا ممکن ہوتا تو یقیناً سینہ پھاڑ کر اس کے سامنے کر دیتی اور کہتی۔ کمبخت لے دیکھ لے جن خود ساختہ اور فرضی گمانوں کی تو لپیٹ میں آئی ہوئی ہے اُن کا ایک چھوٹا سا ٹوٹا بھی یہاں ہے کہیں۔ بھلا کوئی بات تھی کہ اڑیل ٹٹو کی طرح اکڑ گئی تھی اور کچھ سُننے اور سمجھنے کی کوشش میں ہی نہیں تھی۔ ہزار سمجھایا، لاکھ بار کہا مگر وہاں وہی آنکھوں میں بے اعتباری کا زہر سا گھُلا ہوا۔‘‘
سچ تو یہ تھا کہ بات تو کچھ بھی نہ تھی۔ بس ذرا سی، رائی کے دانے جتنی۔
جامعہ پنجاب کے شعبہ کیمیاء میں آل پاکستان لیول پر سیمینار ہو رہا تھا۔ پنڈال کھچا کھچ طلبہ و طالبات سے بھرا پڑا تھا۔ اسلام آباد یونیورسٹی سے میرا عم زاد رجب علی اپنے چند دوستوں کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ وہاں موسم اتنا گرم نہیں تھا۔ لاہور میں باقاعدہ گرمی کا آغاز ہو چکا تھا اور اس وقت باوجود پنکھوں کے طلبا کے چہرے اورجسم پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ ایک تو گرمی اُوپر سے Radio-Activity جیسے موضوع پر غیر مُلکیوں کے مقالے۔
کوئی بوریت سی بوریت تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب صبیحہ ڈائس پر آئی۔ یہ فیصلہ کرنا بہر حال دشوار تھا کہ پنڈال میں خاموشی پیدا کرنے میں اس کی شخصیت کے کِس پہلو نے زیادہ اثر کیا تھا۔ موٹی ململ کے دوپٹے میں لپٹے اس کے چہرے نے جو یقیناً گرما کی چاندنی رات جیسا ہی تھا جو دھرتی کے ذرّے ذرّے کو تابناکی دینے کے لیے زمین پر اُتری ہوئی ہو۔
اس کے خوبصورت لب و لہجے میں انگریزی بولنے اور مقالے کے مندرجات فصلوں سے لے کر مچھلیوں اور پھلوں سے لے کر کینسر تک اس نے انسانی زندگی سے متعلق ریڈیو ایکٹیویٹی پر خوب بولا تھا۔ آواز کا اُتار چڑھاؤ بہت دل نشین تھا۔ بہت سوں نے اُسے بغور سنا تھا اور بہت سوں نے صرف اس کے چہرے پر ہی توجہ دئیے رکھی تھی اور میرا کزن رجب علی بھی شاید ان میں سے ایک تھا کیونکہ جب میں نے کہا۔
’’صبیحہ نے مقالہ تیار کرنے میں بہت محنت کی ہے۔‘‘
وہ چونک کر میری طرف متوجہ ہوا اور بولا۔
’’مقالہ۔ وہ تو میں نے سُنا ہی نہیں۔‘‘
’’تو ہونقوں کی طرح بیٹھے کیا جھک مارتے رہے ؟‘‘
وہ ہنسا اور آنکھوں میں خمار سا پیدا کرتے ہوئے بولا۔
’’بس گلاب کی دو پنکھڑیوں کو ہلتے دیکھتا رہا۔‘‘
’’خیال رہے ان دو پنکھڑیوں کے ارد گرد بڑے نوکیلے کانٹے ہیں۔ ایک بار چُبھ جائیں تو جان ہی نکال دیتے ہیں۔‘‘
’’مجھے کیا ڈرا رہی ہو؟‘‘ اس نے اپنی گھنی چھوٹی مونچھوں کو انگشتِ شہادت سے سنوارتے ہوئے کہا۔
میں یقیناً اس کا جواب دیتی پر اُس کا ایک دوست آ گیا تھا۔
کھانے کے لیے باہر لگے شامیانے کی طرف جاتے ہوئے میں نے اُسے گھر آنے کا کہا تھا۔
’’دیکھوں گا‘‘ کہتے ہوئے وہ ہجوم میں گُم ہو گیا۔
ہم بہن بھائی اوّل درجے کے بھانڈ ہیں۔ شام کی چائے پر میں نے سب کو مخاطب کیا اور انہیں رجب علی کے صبیحہ پر عاشق ہونے کی خبر سُنائی۔ صبیحہ میری کلاس فیلو ہی نہیں بلکہ دوست تھی۔ ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا بھی تھا۔ بھائی بہن سبھی جانتے تھے۔
’’کتنا سکوپ ہے بچارے کا۔‘‘ بڑی باجی نے پوچھا۔
’’کمال ہے یعنی جان نہ پہچان اور بی خالہ سلام۔ آپ کی بھی عقل سٹھیا گئی ہے۔ صبیحہ تو نِری زہر کی سُنڈی ہے۔ جس نے ہاتھ بڑھایا اس کے سارے شریر میں زہر ہی زہر گھُل گیا۔‘‘
جانے کیوں جیسے مجھے اُمید نہیں یقین تھا کہ رجب علی شام کو ضرور آئے گا اور واقعی وہ آیا۔ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ اندر داخل ہوا تو سارے اس کے پیچھے پڑ گئے۔
’’تُف ہے اس لُتری پر۔‘‘ وہ میری طرف غصیلی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’یعنی آپ مجھے کیا ایسا ہی گِرا پڑا سمجھتے ہیں۔ بھئی خوبصورت لڑکی ہے۔ ڈائس پر کھڑی بولتی اچھی لگی تھی۔ میں نے تعریف کر دی۔ اب یہ مطلب تو نہیں کہ میں اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔‘‘
رات کا کھانا کھا کر جب وہ جانے لگا۔ ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر ایک لمحہ کے لئے اس نے جیسے مجھ سے سرگوشی کی۔
’’کیا تم میری کچھ مدد نہیں کرو گی؟‘‘
اور میں تو جیسے ہکا بکا ہی رہ گئی۔ وہ واقعی سیریس تھا۔
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .
کیفے ٹیریا میں ٹھنڈا کوک اور سموسے کھاتے ہوئے میں نے رجب علی کے بارے میں اس سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔ صبح سے میں موقع کی متلاشی تھی مگر وہ غیر مُلکی مہمانوں کے ساتھ نیو کیمپس چلی گئی۔ گیارہ بجے آئی تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا اُس کے لئیے پیغام تھا۔ وہاں سے نکلی تو میں نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ لیا۔
ٹھنڈا یخ کوک اور گرم سموسے، باہر لوؤں کے جھکڑ اور سامنے بیٹھی صبیحہ، میں نے جی کڑا کر کے ساری بات کہہ دی۔
اس نے سارا سموسہ منہ میں ٹھونس لیا۔ سارا کوک پَل بھر میں چڑھا گئی۔ ڈکار لئے۔ کتابیں اُٹھائیں اور میں جو اس ساری کاروائی کو احمقوں کی طرح بیٹھی دیکھتی تھی ہڑبڑا کر اُٹھی۔ اس نے قہر آلود نگاہوں سے مجھے گھورا اور بولی۔
’’چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرو۔ عاشقوں کے سندیسے میرے پاس لاتی ہو۔‘‘
’’لیکن۔ ۔ ۔ ۔‘‘
’’بند کرو یہ بکواس۔‘‘ اس نے فوراً میری بات کاٹ دی۔
’’میری ماں ڈیڑھ سال سے مظفر گڑھ کے تھلوں میں اپنی بد دماغ بھاوج کی کھٹی میٹھی باتیں سُن رہی ہے۔ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے۔ تھلوں کی لُو نے میرے بہن بھائیوں کو جھُلسا دیا ہے۔ یہ عذاب وہ میری خاطر سہہ رہی ہے کیونکہ میرے باپ کی تنخواہ میرے اور گھریلو اخراجات اُٹھانے کی متحمل نہیں اور میں یہاں عشق کروں۔ چھی چھی۔ تھُو تھُو۔
اُس نے اتنی نفرت سے یہ سب کہا کہ میری تو سِٹی گُم ہو گئی۔ ایڑیاں بجاتی وہ پَل بھر میں غائب ہو گئی۔
وہ باقاعدہ مجھ سے ناراض ہو گئی۔ بات چیت سب ختم۔ صُلح صفائی کی ہر کوشش بے سُود۔
’’بھاڑ میں جائے رجب علی۔ ارے مجھے کیا باؤلے کُتّے نے کاٹا تھا جو میں اس جھمیلے میں پڑی!‘‘ میں اپنے آپ کو کوستی۔
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .
اُس گھر کی پھٹی پُرانی گودڑی میں ایک نہیں کئی لعل تھے۔ چمکتے دمکتے، ہیروں
جیسی آنکھوں اور لعلین لبوں والے۔ مِلنے جُلنے والے رشتہ دار اور عزیز سبھوں کو حیرت تھی کہ صفیہ کے بچے اتنی غربت کے باوجود جتنے حسین ہیں اُتنے ہی ذہین۔ صبیحہ سب سے بڑی بیٹی تھی۔ اس سے چھوٹے دو بھائی اور تین بہنیں۔ صبیحہ کے والد ایک فرم میں ٹائیپسٹ تھے۔ گھر میں سلیقہ تھا۔ قناعت اور سادگی تھی۔ تھوڑی سی تنخواہ میں گزر بسر ہو رہی تھی۔
صبیحہ بہت چھوٹی سی تھی جب اس کی خالہ نے اپنے بیٹے نعیم کے لیے بہت چاہت سے اُسے مانگا تھا۔ دونوں کی عمروں میں یہی کوئی سات آٹھ سال کا فرق ہو گا۔ نعیم کھُلے ہاتھ پاؤں کا تیکھے نقش و نگار والا لڑکا تھا۔ پڑھائی میں اوسط درجے کا تھا۔ ایف ایس سی کی تو فوج میں کمیشن مل گیا۔ ماں، بیٹے کے شاندار مستقبل سے خوش تھی اور صفیہ کو بیٹی مقدر والی نظر آ رہی تھی۔
نعیم لیفٹیننٹ بن کر ایبٹ آباد پوسٹ ہوا۔ یہاں اس کی ملاقات ایک بڑے کاروباری گھرانے سے ہوئی۔ گھر کے مالک کا کاروبار پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ اخلاق اور مروت اس گھرانے کی امتیازی نشانی تھی۔ نعیم ان لوگوں میں بہت جلد گھُل مِل گیا۔ یہیں اس نے گُل رُخ کو دیکھا۔ شوخ و چنچل جس نے نعیم کو چاہت کی ڈوریوں میں جکڑ لیا کہ اُسے تو کچھ یاد ہی نہ رہا۔ وہ تو یہ بھی بھول بیٹھا کہ ہیروں جیسی چمکتی آنکھوں والی ایک لڑکی اپنے خوابوں میں اُسے سجائے بیٹھی ہے۔ نہ ماں یاد رہی اور نہ صفیہ خالہ کی چاہت اور محبت۔
پت جھڑ کے اُداس اور ویران سے دِنوں میں صبیحہ کو اِس دُکھ بھرے حادثے کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ اس وقت وہ کچن میں کھانا پکانے میں مصروف تھی۔ چولہے میں دہکتے کوئلے اور ہنڈیا کے تلے کو چاٹتے آگ کے شعلے دفعتاً اُسے اپنے کلیجے میں اُترتے محسوس ہوئے تھے۔
یہ درست تھا کہ نعیم کا اس کے ساتھ کوئی قول و قرار نہ تھا مگر آنکھوں کے بھرپور اظہار کے بعد بھی کیا زبانی اظہار کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ وہ جب بھی اُن کے گھر آیا اس کی آنکھوں میں محبت و شوق کی دُنیا اُمڈی نظر آتی تھی۔ جب بھی دونوں کا ٹکراؤ ہوا اس نے دل
کے سارے پیغام آنکھوں کے راستے صبیحہ کو پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ اور بات تھی کہ صبیحہ کی گھنی پلکیں ہمیشہ ان پیغامات کی وصولی میں پورا تعاون نہ کرتیں۔
یوں بھی کان تو بچپن سے یہ سُنتے سُنتے پک سے گئے تھے کہ وہ نعیم کی ٹھیکرے کی مانگ ہے۔ ٹھیکرے کی اس مانگ کو توڑنے میں پَل بھی نہیں لگا تھا۔ اور وہ چکنا چور کر کے رکھ دی گئی تھی۔
رات کو جب وہ سارے کاموں سے فارغ ہو کر کمرے میں آئی تو بہت دیر تک جاگتی رہی اور اپنے آپ سے پوچھتی رہی کہ اُس نے ایسا آخر کیوں کیا؟ کیا وہ خوبصورت نہیں ہے ؟یہ بات نہیں۔ اندر سے تردید آئی۔ دولت پر مَر گیا۔
’’لعنتی کیا اپنے زور بازو پر بھروسہ نہیں تھا۔ ایسا مرد کِس کام کا؟
نفرت کی چنگاریاں جیسے پھوٹ پڑیں۔
چھی چھی۔ تھُوتھُو۔ اس نے کروٹ بدلی۔ زمین پر تھُوکا اور آنکھیں موند لیں یہ چھی چھی اور تھُو تھُوجیسے اس کی زندگی کا حصّہ بن گئے۔ مردوں کے لئے دل کا نرم گوشہ پتھر بن گیا۔
میٹرک کا نتیجہ نکلا تو ذہانت اور محنت سامنے آ گئی۔ ٹاپ کر کے اُس نے اپنا اگلا راستہ صاف کر لیا تھا۔
’’بی جان میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میرے لئیے پریشان ہونا چھوڑ دیں۔ خدا کے ہر کام میں مصلحت ہے۔ ہمیں اس پر توکل کرنا چاہئیے۔‘‘
ماں کی اجازت سے اُس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔
ٍٍ ایف۔ ایس۔ سی میں اس نے پھر کالج میں ٹاپ کیا۔ بی ایس سی آنرز کے لیے وہ
یونیورسٹی آ گئی۔ موٹی ململ کا لمبا چوڑا دوپٹہ اُس نے اپنے گرد لپیٹ لیا۔ کانوں میں روئی ٹھونس لی اور آنکھوں کو غیر ضروری کھولنے سے پرہیز کیا۔ اس کی شخصیت پُراسرار ہو گئی تھی۔ بہت سے لڑکے اس کی طرف بڑھے مگر اُس نے نفرت سے منہ پھیر کر تھُو تھُو کیا اور اپنے راستے پر بڑھ گئی۔
اب بھلا فوزیہ کا یہ کزن رجب علی بیچارہ کِس گنتی شمار میں تھا۔ جب وہ فائنل ائیر سے فارغ ہوئی اور ابھی ڈھنگ سے آرام بھی نہ کر پائی تھی کہ اُسے اسلام آباد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ مرکزی دارالحکومت کی نئی یونیورسٹی سے اساتذہ کا ایک بورڈ پاکستان کے چاروں صوبوں سے قابل طلبہ کو منتخب کرنے نکلا۔ پنجاب سے وہ اکیلی منتخب ہوئی۔ سرحد سے ایک، بلوچستان سے ایک، سندھ سے دو اور اسلام آباد سے ایک۔
اور جب وہ جانے کے لیے بستر بند میں تکئیے گھسیڑ رہی تھی۔ ماں اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے ماں کی طرف دیکھا تک نہیں۔ بس کام میں جُتی رہی۔ وہ جانتی تھی ماں اُداس ہے اور اپنے آنسو مشکل سے ضبط کئے ہوئے ہے۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ اب پڑھائی کا سلسلہ تُرک کر دے اور اپنے شہر میں ہی نوکری کرے۔ اتنا ڈھیر سارا تو پڑھ لیا تھا۔ رات کو اس نے جب بیٹی سے یہ سب کہا تو وہ متانت سے بولی تھی۔
’’بی جان میں زندگی میں کچھ بننا چاہتی ہوں۔ میرے سامنے ربیعہ، سمیعہ، ذکیہ، ہمایوں اور ٹیپو ہیں۔ آپ جانتی ہی ہیں بی جان آجکل انسان دولت کے ترازو میں تولے جاتے ہیں۔ جہاں اور جس کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے وہ بازی جیت لیتا ہے۔‘‘
اسلام آباد یونیورسٹی ابھی زیر تعمیر تھی۔ مختلف ڈیپارٹمنٹز نے مختلف کوٹھیاں کرائے پر لے رکھی تھیں۔ چھ طلبہ کی اس کلاس نے جس میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں
اپنا پہلا دن تعارف میں گزارا۔ رجب علی بڑی شستہ انگریزی بول رہا تھا۔ وقار سے کھڑا تھا اور اپنی غیر نصابی سرگرمیوں پر روشنی ڈال رہا تھا۔ صبیحہ سر جھکائے سفید نازک ہاتھ کی لانبی پوروں میں قلم پکڑے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھی۔ کبھی کبھی غیر اختیاری طور پر اس کا قلم رجب علی کے بولتے لفظوں میں سے کوئی لفظ لکھ جاتا۔
گروپ ورک کرتے ہوئے اسے احساس ہوا رجب علی اس پر گہری نظریں ڈالتا ہے۔ ایک دن جب ان میں سے دو غیر حاضر تھے۔ ایک کہیں باہر گیا ہوا تھا اور بقیہ تین صبیحہ، رجب علی اور عائشہ کمرے میں کِسی موضوع پر باتیں کر رہے تھے رجب علی نے ایکا ایکی کہا۔
’’میں آپ کی سہیلی فوزیہ جمال کا کزن ہوں اور آپ سے واقف ہوں البتہ آپ میرے بارے میں نہیں جانتیں۔‘‘
اور جیسے اُسے سب یاد آ گیا۔ فوزیہ کے ساتھ اپنی نوک جھونک بھی آنکھوں کے سامنے جلوہ دکھاگئی۔ اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات اُبھرے جو رجب علی سے پوشیدہ نہ رہے۔ عائشہ کام میں مگن تھی جب رجب علی نے آہستگی سے کہا۔
’’دل کے دروازوں پر اتنے کڑے پہرے بٹھا رکھے ہیں کہ دستک دینا جرم بن گیا ہے۔‘‘ فوزیہ نے ساری بات اُسے بتا دی تھی۔ اُس نے گہری نظروں سے اُسے دیکھا اور بڑے سخت لہجے میں بولی۔
’’میں فضول اور واہیات باتیں سُننے کی عادی نہیں۔‘‘
رجب علی کا چہرہ ندامت سے سرخ ہو گیا۔
پھر ایک حادثہ ہوا۔ رجب علی کی والدہ اچانک فوت ہو گئی۔ ماں کا لاڈلا اوندھے منہ گِرا۔ ایسے کڑے وقت میں صبیحہ کا حوصلہ اور دلاسا دینا، اکثر کنٹین پر لے جانا ’’ اچھا چلو میرے ساتھ باتیں کرو۔ بیوقوف مجھے بتاؤ کبھی کوئی مرنے والے کے ساتھ بھی مرا ہے‘‘ جیسے جملے کہنا اُسے اُس غم کے حصار سے نکالنے میں بہت مددگار ثابت ہوا جس میں وہ اچانک گھِر گیا تھا۔
ایسے ہی ایک دن جب اُس نے بے اختیار کہا۔
’’صبیحہ میں تمہارا شکر گزار ہوں۔‘‘
ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا جب صبیحہ قلم رکھ کر اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’عجیب ہو تم بھی۔ شکر گزاری والی کیا بات ہے ؟‘‘
ایک دن جب وہ اتفاق سے اکیلے تھے۔ انار اور آلوچوں کے پیڑوں کے پاس کھڑے تھے۔ انار کے پیڑ پر بور آیا ہوا تھا اور بھینی بھینی سی خوشبو اُن کے نتھنوں میں گھُس رہی تھی۔ رجب علی نے اُس سے کہا۔
’’صبیحہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ تمہارے بغیر میں بڑا ادھورا انسان ہوں تو تم میری اس بات پر یقین کرو گی؟‘‘
وہ ذرا سا ہنسی اور رجب علی یہ نہ جان سکا کہ یہ ہنسی طنزیہ ہے یا سادہ۔ وہ پتوں کو توڑتی رہی، مسلتی رہی اور دیر بعد بولی۔
’’اصل میں کوئی ادھورا نہیں ہوتا رجب علی۔ سب ذہن کی سوچ اور سمجھ کا ہیر پھیر ہے۔‘‘
اتنا دل شکن جواب تھا کہ اس کو مزید بات کرنے کا حوصلہ ہی نہ پڑا۔ اسے یہ ماننا پڑا کہ صبیحہ بہت مختلف اور گہری لڑکی ہے۔
یہ اسلام آباد یونیورسٹی کے آغاز کا زمانہ تھا۔ یونیورسٹی سائنس مضامین میں ڈاکٹریٹ کروانے میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ بورڈ آف ڈائیریکٹرز ذہین ترین طلبا کے
وقت کا ضیاع نہیں چاہتے تھے۔ فیصلہ کیا گیا کہ ہر طالب علم کو کِسی نہ کِسی غیر مُلکی یونیورسٹی میں بھیج دیا جائے۔ سب لوگ اپنی اپنی تھیسس اور مکمل کوائف بھیج کر انتظار میں تھے کہ دیکھو قسمت کہاں کہاں لے کر جاتی ہے ؟
ایسے ہی انتظار کے دنوں میں ایک دن پھر رجب علی نے اس سے کہا۔
’’صبیحہ تم کنوار کوٹھا تو چھتو گی نہیں۔ میں کیا تمہیں اچھا نہیں لگتا؟
اور پہلی بار صبیحہ نے قدرے نرم اور بوجھل آواز میں کہا۔
’’کچھ چیزیں اچھا لگنے سے روکتی ہیں۔‘‘
مثلاً۔
’’کندھوں کے بوجھ۔‘‘ صبیحہ نے اُٹھ کر جانا چاہا۔ جب اُس نے آنچل پکڑ کر کہا۔
’’تفصیلی بتاؤ۔ ایسے نہیں جانے دوں گا۔‘‘
اور جب وہ ساری تفصیل جان چکا تو سنجیدہ لہجے میں بولا۔
’’مل کر بھی تو یہ بوجھ اُٹھا سکتے ہیں۔ میرا دنیا میں کون ہے ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
اس کا لہجہ اتنا فیصلہ کُن تھا کہ رجب علی کو اصرار اپنی حماقت لگا۔
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .
صبیحہ کا نمبر سب سے پہلے آیا وہ امریکہ کی ریاست نیو یارک جا رہی تھی۔ رجب علی کے لیے جرمنی کا شہر ہیمبرگ منتخب ہوا۔ عائشہ اور جاوید فرانس اور انگلینڈ، ریاض اور خالد برلن
اور کینیڈا۔
جانے سے قبل صبیحہ مجھ سے ملنے آئی تھی اور اُس نے دن کا کافی حصّہ بھی میرے ساتھ گزارہ تھا۔ رجب علی اُس کی ساری گفتگو میں صرف ایک بار سرسری طور پر آیا۔ میں نے بھی دانستہ پرہیز کیا۔
امریکہ سے مجھے صرف اُس کے گنتی کے چند خطوط مِلے تھے۔ جن کا لبِ لباب کچھ یہ تھا۔
نئی دُنیا اجنبی جگہیں میرے سامنے ہیں۔ میں ساڑھے تین سو ڈالر کے وظیفہ پر آئی ہوں۔ ڈیڑھ سو ڈالر گھر بھیجتی اور ڈیڑھ سو میں گزارا کرتی ہوں۔
ڈاکٹریٹ شاید جلد مکمل ہو جاتی مگر میجر ایڈوائیزر جان سمتھ کے مرنے کی وجہ سے مدت طول پکڑ گئی ہے۔
میں نے بی جان کو لکھ دیا ہے کہ لڑکیوں میں سے جس جس کا رشتہ آتا جائے وہ بغیر چھوٹی بڑی کی تمیز کے فارغ ہوتی جائیں اور شاید تمہیں علم ہی ہو کہ ذکیہ اور سمیعہ بہت اچھے گھروں میں چلی گئی ہیں۔ ربیعہ کے لیے بھی اس کے ساتھی کلاس فیلو کا پروپوزل آیا جو بی جان نے منظور کر لیا۔ دونوں بھائی ڈاکٹری کے چوتھے اور پانچویں سال میں ہیں۔
میری شادی پر اُس کا نیک خواہشات سے لبالب بھرا خط بس آخری تھا۔ اب تو عرصے سے خاموشی تھی۔
کوئی پانچ سال بعد مجھے رجب علی کا خط امّاں کے ایڈرس پر لکھا ہوا ملا تھا۔ حیرت اور خوشی کے مِلے جُلے جذبات سے میں نے اِسے کھولا۔ پڑھتی گئی، پڑھتی گئی اور جب فارغ ہوئی تو حیرتوں کے اتھاہ سمندر میں دھڑام سے گِر پڑی۔
صبیحہ اپنے تفصیلی پسِ منظر کے ساتھ میرے سامنے تھی۔ معاشرتی تہذیب و تمدّن کے جس گہوارے میں اُس نے آنکھ کھولی اور زندگی کے اکیّس 21سال گزارے اس کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
گھر اس کا گو مشن ہائی اسکول چوک رنگ محل سے ایک گلی چھوڑ کر اگلی میں تھا پر چوک کی جامع مسجد سے گونجنے والی پنج وقتہ اذانوں کی گونج کا اثر جس کے نتیجے میں بے اختیار ہی ڈوپٹوں کا سروں پر جانا اور مخصوص الفاظ کا زیرِ لب ورد کرنا بچپن سے ہی اُن بہنوں بھائیوں کی سرشت میں کھانے پینے کی ضرورت جیسا ہی رَچا بسا تھا۔ اُس کا بی اے پاس باپ کہ جس کے لیے شرعی لباس پہننا اور آندھی جائے طوفان آئے جیسی موسمی صورت سے بے نیاز مسجد حاضر ہونا لازمی تھا۔ جمعے کے دن اُس کے لباس کا اہتمام کرنا صبیحہ کی ڈیوٹی تھی۔ تڑکے نور پیر کے سمے اُٹھنا اور مصلّے بچھا کر فرض عبادت کے علاوہ نفلی سلسلوں میں لمبے لمبے سجدے بھی کہیں عادتوں میں شامل تھے۔
شب برات، عیدین، چلچلاتی گرمیوں کے روزے، سحری و افطار کے مزے، تراویح میں خضوع و خشوع، نفلی روزے سب اُس کی گٹھی میں پڑے تھے اور کہیں بغاوت یا سر کشی جیسا کوئی عنصر نہیں تھا۔ سارے رضا و رغبت اور چاہت والے معاملے تھے۔ قناعت، سنجیدگی و متانت بھی ڈھیروں ڈھیر پاس تھی۔
رجب علی کے خط کو ملے آج تین ماہ اور تیرہ دن ہو گئے ہیں۔ پہلی بار خط پڑھنے کے بعد تو مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ میں اُس سے بھی کہیں زیادہ اُلجھاؤ کی دلدل میں پھنسی اس میں دھُنستی ہی چلی گئی تھی اور بار بار سوالوں پر سوال کئیے جاتی تھی۔
درمیانہ وقت تو یہی کوئی چار پانچ سال کا ہی تھا تو پھر اتنی جلدی یہ کایا کلپ۔ جب اِس یلغار نے مجھے عاجز کر دیا تو اُسے چٹھی لکھ بیٹھی کہ اس کا ایڈریس رجب علی نے لکھ دیا تھا۔
میں یقین سے کہہ سکتی ہوں۔ صبیحہ کے خط کے انتظار نے شاعروں کے جذبات
سے مجھے عملی طور پر آگاہ کر دیا تھا۔ درمیانے وقت میں اکثر رجب علی کا خط دراز میں سے نکالنا اور اُسے پڑھنا بھی دوسرے تیسرے دن ضروری تھا۔
میرے جرمنی آنے سے صبیحہ کہیں اِدھر اُدھر نہیں ہوئی تھی۔ کمبخت ناہنجار میرے ساتھ آئی تھی۔ یہ بھی نہیں کہ میں ہیمبرگ میں کِسی لڑکی سے متاثر نہیں ہُوا۔ ہُوا۔ جینی سے، ریٹا سے پر صبیحہ نے درمیان میں اپنا لُچ تلنا بند نہ کیا۔
میں خود سے پوچھتا تھا۔ آخر مسئلہ کیا ہے میرے ساتھ؟کہیں میری میل ایگو ہرٹ ہونے کا تو نہیں۔ کبھی اندر ہاں کہتا اور کبھی ناں۔ بس دل تھا کہ بیچ میں ہی اُس کے لیے مچلتا اور ہمکتا رہتا۔ کچھ واضح ہی نہ ہوتا تھا۔ یوں آغاز میں ایک آدھ دفعہ کے میں نے بھی رابطے کی کوشش نہیں کی تھی۔
پھر پورے پانچ سال بعد میں امریکہ گیا۔ نیویارک میں میرا کزن توصیف مجھے لینے آیا تھا۔ لانگ آئی لینڈ کی ہائی وے پر اطراف کے خوبصورت بلندو بالا صنوبر اور چنار کے درختوں میں سے صبیحہ لشکارے مارتی اور میرے دل کو اُتھل پتھل کرتی رہی۔ پتہ تو پاس نہیں تھا۔ ٹامک ٹوئیاں والی بات تھی۔ پر وہ جو کہتے ہیں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مِل جاتا ہے تو بھلا صبیحہ نہ ملتی۔
مِلی۔
مین ہٹن کے ایک اپارٹمنٹ کی بیل پر دروازہ اُسی نے کھولا تھا۔ ڈوپٹے کے بغیراُس کا چہرہ دیکھنا میرے تصور میں ہی نہیں تھا۔ وہ لمبی سی قمیض نما میکسی پہنے کھڑی تھی۔ سیاہ چمکدار بال کَس کر بندھے ہوئے تھے۔ خوبصورت آنکھیں نتھری ہوئی جیسے ابھی ابھی انہیں گلاب کے پانیوں میں غوطے دیتی آئی ہو۔ وہ ویسی ہی خوبصورت تھی بلکہ متانت اور وقار کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اس کی پہلے لمحے کی حیرت نے مجھے گڑبڑا کر رکھ دیا پر اگلے لمحے وہ بشاشت سے مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کی دعوت دیتی تھی اور اپنے مزاج کے خلاف ہنستے ہوئے پوچھتی تھی۔
تم نے مجھے کیسے ڈھنڈو لیا؟
’’لو بندے میں طلب ہونی چاہیے۔‘‘
وہ پھر ہنسی اور بولی۔ میرے خیال میں کافی بہتر رہے گی۔ تم ٹھنڈ پھانکتے ہوئے آ رہے ہو۔
اور جب وہ کچن میں تھی ایک درمیانی قامت اور سانولی سی رنگت والا مرد اندر آیا تھا کہ بیل کی آواز پر دروازہ میں نے ہی کھولا تھا۔
آنے والے کا انداز صاحب خانہ کا سا تھا۔ عین اُسی لمحے صبیحہ چھوٹی ٹرے ہاتھوں میں تھامے نمودار ہوئی اور مسکراتے ہوئے تعارف کے مراحل طے کرنے لگی۔ وہ صبیحہ کا شوہر تھا۔ اشوک ورما۔
میں کوئی متعصب مسلمان ہوں نہ بنیاد پرست۔ پر اپنی ساری روشن خیالی کے باوجود چکرا کر رہ گیا تھا۔
بہت روکنے کی کوشش کی دونوں نے۔ مگر میرے لئیے مزید ٹھہرنا مشکل تھا۔ سچ مانو تو میں ابھی تک اِس اُلجھن سے نہیں نکل پا رہا ہوں۔
اور میں کونسا اُلجھن میں نہیں تھی۔ اب انتظار میں بیٹھی دن گنتی تھی۔
مہینوں بعد اُس کا جواب آیا تھا۔ خط کھولتے وقت اضطراب، تجسّس، بے چینی جیسے جذبات سانس پھُلائے دے رہے تھے۔ خالی صفحے پر بس یہ شعر کہہ لو میرا منہ جیسے چڑا رہا تھا۔
پھُک نہ ویکھے سالنا
تے عشق نہ پُچھے ذات
نیند نے ستھر ملیا
جھتے پے گئی رات
٭٭٭
دامن ہوا خالی
کہاں ہوئی تھی میری اُس سے پہلی ملاقات؟
کس قدر مہمل اور فضول سا سوال تھا جو اُس نے اُس شام اپنے آپ سے کیا تھا۔
بھلا کوئی بھُولنے والی بات تھی۔ وہ سہ پہر دل کے کینوس پر اپنی تمام تر جزئیات، البیلے رنگوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ نقش تھی۔ بس ذرا گردن جھُکانے کی دیر تھی اُس نے جھُکائی اور دیکھا۔
بڑی حبس اور اُمس والی صبح تھی وہ۔ سورج ابھی اُوپر نہیں آیا تھا۔ دھوپ منڈیروں سے ذرا سی نیچے اُتری تھی۔ مگر اندر باہر تپش تھی۔ اماں لانبے بالوں کا بڑا سا جوڑا بنائے فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھی تھیں۔ فل اسپیڈ پر چلتا پنکھا بھی ان کے لئے ناکافی تھا۔ ملگجے دوپٹے سے گردن صاف کرتے ہوئے اُنہوں نے کوئی دس بار کہا ہو گا۔
’’اے مولا۔ تیرے بندوں سے کونسی ایسی خطا سرزد ہو گئی جو معاف ہونے میں نہیں آ رہی ہے۔ ساون آدھا گزر گیا ہے مگر تیری مخلوق پانی کی ایک بوند کو ترس رہی ہے۔
رحم کر مولا۔ رحم کر۔‘‘
وہ چُولہے کے آگے بیٹھی ناشتہ بنانے میں جُتی ہوئی تھی۔ چھوٹا سا باورچی خانہ، اس پر گرمی کا زور، اُس کی پیشانی سے، چہرے سے، گردن سے پسینہ دھاریوں کی شکل میں بہہ رہا تھا۔ چھوٹی کھڑکی سے اُس نے آسمان کو دیکھا۔ نیلا شفاف آسمان جس پر قسم کھانے کو بادل کا ٹکڑا نہ تھا۔ اُس نے آج شاہدہ کے ہاں جانے پروگرام بنایا تھا۔ گھنٹہ بھر اماں کے گھٹنے پکڑے اُن کی ڈھیروں خوشامدیں کرنی پڑی تھیں تب کہیں دو گھنٹے کی چھٹی ملی تھی۔ چھٹیاں کیا آتیں اس کی تو جان عذاب میں پھنس جاتی۔ اچھا بھلا گھر کو سنبھالتی اماں چھٹیاں ہوتے
ہی سب کچھ اس پر چھوڑ چھاڑ کر اپنے ہی گھر میں مہمان بن کر بیٹھ جاتیں۔ وہ جز بز ہوتی تو اماں پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جاتی۔
’’لو اور سنو۔ اب یہ تھوڑا سا کام کرنا اُنہیں بے حد کھِلتا ہے۔‘‘
’’ ارے بی مَیں کیا کہیں کی مہارانی ہوں یا باوا کہیں کا نواب ہے جو تمہیں جہیز میں لونڈیاں دے گا۔ دس مہینے تو تم ہڑ بونگ مچاتی پھرتی ہو یہ چند دن ہیں ان میں بھی تمہیں گھر میں ٹکنا اور کام کرنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ پِتّہ مارو اپنا پِتّہ۔ کام کاج میں جی لگاؤ۔ سسرال والے تو اچھے اچھوں کو پانی پلا دیتے ہیں۔ توکس کھیت کی مُولی ہے ؟‘‘
وہ تلملاتی اندر باہر پھُوں پھُوں کرتی پھرتی۔ اماں کی کسی بات کا بھی جواب دینا گویا بھڑوں کے چھتّے کو چھیڑنے کے برابر تھا۔ کون ناحق میں اپنا فضیحتا کرواتا۔
دوپہر کے لئے اُس نے ہنڈیا پکا لی۔ روٹیاں پکا کر صافی میں لپیٹیں۔ باورچی خانے کی صفائی ستھرائی سے فارغ ہو کر اندر آئی۔
اماں کو جیسے سبھی کچھ یاد تھا اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’اتنے تپتے دن میں کہاں خجل خوار ہوتی پھرے گی۔ آرام سے گھر بیٹھ جس دن ٹھنڈ ہو گی چلی جانا۔‘‘
اب اس میں ضبط کایارا نہ تھا۔ بھڑک ہی تو اُٹھی تھی۔
’’صبح سے پکانے ریندھنے میں یہ وقت آ گیا ہے۔ آپ کو تو کسی کا ذرہ برابر احساس نہیں۔ دو دنوں سے کہہ رہی ہوں۔ ذرا سی حامی بھری اور اب پھر پٹٹری سے اُتر گئیں۔ میں تو آج ضرور جاؤں گی۔‘‘ اُس نے دو ٹوک انداز میں بات ختم کر دی۔
دو بجے وہ نہائی دھوئی، تیار ہوئی اور کوئی تین بجے گھر سے نکل پڑی۔ اُس وقت آسمان بادلوں سے بھر گیا تھا اور موسم بے حد خوشگوار تھا۔ مسرت وانبساط کی لطیف لہریں اس
کے سارے جسم میں دوڑ گئی تھیں۔
شاہدہ اُس کے ساتھ پڑھتی تھی۔ فسٹ ائیر سے ساتھ چلا تھا اور اب چوتھا سال جا رہا تھا۔ وہ اندرونِ شہر رہتی تھی جبکہ شاہدہ کا گھر چھاؤنی میں تھا۔ وہ تو دو تین بار اس کے گھر آئی بھی مگر اس سے چھاؤنی نہ جایا جا سکا۔ ان چھٹیوں میں بھی اُس کا بہت اصرار تھا۔ ہمت کر کے وہ چل پڑی تھی۔ بس شفاف سڑک پر بھاگتی جا رہی تھی۔
’’یہ جگہ کیسی پرُسکون اور خوبصورت ہے۔‘‘
اُس نے اپنے دل میں سوچا۔ مطلوبہ بس سٹاپ پر اُتر کر اُس نے پرس سے ایڈریس والی چِٹ نکالی۔ چوک میں سپاہی کھڑا تھا۔ اُس سے مدد مانگی۔ کانسٹیبل نے بڑی ملائمت سے اُسے ایڈریس سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ سیدھی سڑک پر چل پڑی۔ چلتی گئی۔ دو رویہ کوٹھیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ دائیں بائیں دیکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ جب ایکا ایکی موٹی موٹی بوندیں پڑنی شروع ہو گئیں، خوف زدہ سی ہو کر اُس نے چاروں طرف دیکھا۔ سڑک سُنسان پڑی تھی۔ بارش تیز ہو گئی تھی۔ ڈھنگ کا کوئی درخت بھی آس پاس نہ تھا۔ ایسے میں تلاش فضول تھی۔ آم اور جامنوں کے درختوں سے گھری پرانے وقتوں کی ایک وسیع و عریض کوٹھی اُسے اپنے داہنے ہاتھ نظر آئی۔ وہ بھاگ کر اس کے ورانڈے میں جا کھڑی ہوئی۔
لمبے برآمدے میں چار ایزی چیئرز رکھی تھیں۔ لان میں اُگی گھاس کا فی لمبی تھی چار درخت تھے تین پر جامنوں کے گچھے لٹک رہے تھے۔ چوتھا آم کا تھا۔ پیلے پیلے آم کس قدر خوبصورت لگ رہے تھے۔ کِسی سراغرساں کُتّے کی طرح اُس نے فضا کو زور زور سے سونگھا۔ کانوں کو چوکنا کیا۔ برتنوں کی کھٹکھٹاہٹ، قدموں کی چاپ، کوئی انسانی آواز سننے کی کوشش کی مگر کچھ سنائی نہ دیا۔ برآمدے میں کھلنے والے کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں۔
’’اللہ میرے۔ اس اجنبی جگہ پر اگر کوئی بدمعاش آ جائے۔ بھلا میں کچھ کر سکوں گی؟‘‘
یہ ایسا خوفناک خیال تھا کہ اس کی رَگوں میں دوڑتا خون ایک پل کے لئے جیسے منجمد ہو گیا۔ بھاگ جانے کے خیال سے اُس نے گیٹ کی طرف دیکھا مگر وہاں زوروں کی بارش کا پانی نالہ سا بنا رہا تھا۔
’’خدایا کہاں جاؤں ؟ کس عذاب میں پھنس گئی؟‘‘
اُس کا چہرہ فق تھا۔ آنکھوں میں وحشت تھی۔ ہونٹ سفید ہو رہے تھے اور دل یوں پھڑ پھڑا رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل پڑے گا۔
کتنی دیر گزر گئی۔ بارش رُکنے کی بجائے تیز ہو رہی تھی۔ آسمان شاید آدھا ساون سُوکھا گزارنے کا بدلہ چُکا رہا تھا۔
ایکا ایکی وہ اپنی جگہ سے اُچھل پڑی۔ تیز نسوانی چیخ سنائی دی تھی۔ چیخ یقیناً اندر سے آئی تھی اور اب کراہنے کی آواز صاف تھی۔ یہ آواز بلاشبہ کسی عورت کی تھی۔ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ عجب گومگو کی سی کیفیت تھی۔ پھر جیسے اس نے بڑا حوصلہ کیا۔ اور دروازہ کھولا۔
کھلے کمرے میں صوفے کے پاس ایک عورت گری پڑی تھی۔ بھاگ کر وہ اُس کے قریب پہنچی۔ اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ آنکھیں اُلٹی ہوئی تھیں۔ ہاتھ پیر قدرے مڑے ہوئے اور یخ تھے۔ حواس باختہ سی وہ کبھی اُس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتی، کبھی اُس کے منہ سے جھاگ صاف کرتی، کبھی اُس کے ہاتھ سہلانے لگتی۔ اپنے دوپٹے سے اس نے اس کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوؤں کو سہلایا۔ کنپٹیوں کو دبایا۔ اسے طبی امداد کی ضرورت ہے اور یہ کیسی ہونی چاہیے وہ نہیں جانتی تھی۔ جو کچھ اس سے ہو رہا تھا اور جو وہ اس لمحے مناسب سمجھ رہی تھی کرتی جا رہی تھی۔ کوئی بیس منٹ بعد خاتون کو جیسے ہوش آیا۔ آنکھوں کے ڈیلے سیدھے ہو گئے۔
’’پانی۔‘‘ اس کی زبان سے نکلا۔
وہ ننگے سر اور ننگے پاؤں باہر دوڑی۔ دائیں دیکھا۔ بائیں دیکھا۔ کس کمرے میں جائے، باورچی خانہ کدھر ہے۔ عقبی سمت ایک اور برآمدہ نظر آیا۔ وہاں بھاگی۔ دروازے سے نکلی اور دھم سے سائیکل سے ٹکرائی۔ سر دیوار میں لگا اور دونوں ہاتھ سائیکل کے اگلے پہئیے کی تاروں میں جا پھنسے۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ بارش میں نہایا ہوا نوجوان جو سائیکل پکڑے حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ وحشت زدہ آنکھوں والی لڑکی جو حد درجہ سراسیمہ نظر آ رہی تھی۔ اُسے غالباً احساس ہو گیا تھا کہ وہ ننگے سر ہے۔ تاروں میں اُلجھے ہاتھوں کو اُس نے تیزی سے چھڑانا شروع کر دیا تھا۔
’’ٹھہرئیے۔‘‘
اس نے سائیکل یوں کھڑا کیا کہ اس کے ہاتھ کسی طور بھی مزید اُلجھنے نہ پائیں۔ اس کے قریب بیٹھ کر اُس نے تاروں کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر چوڑا کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ہاتھ نکل آئے۔ تین چار جگہوں سے چھِل گئے تھے۔
’’یہ درد تو نہیں کر رہے ہیں ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔ اچھا یہ بتائیے یہ آپ کا گھر ہے۔‘‘ اس کی آواز میں ہکلاہٹ سی تھی۔
’’جی ہاں۔‘‘
’’اِس گھر کی خاتون کو دَورہ پڑا ہوا ہے۔ میں پانی کی تلاش میں آئی تھی۔‘‘
’’اوہ۔ امّن‘‘ ۔ نوجوان لڑکے نے فوراً اُٹھتے ہوئے کہا۔
وہ غالباً پانی لینے بھاگ گیا اور وہ واپس جانے کے لئے مڑی۔ اس کی کوشش فوراً کمرے میں پہنچنے کی تھی تاکہ دوپٹہ اوڑھ سکے۔ مگر اندر جا کر دیکھا تو وہ عورت کو اپنے بازوؤں کے ہالے میں سمیٹے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگائے بیٹھا تھا اس نے ایک پل کے لئے اُسے سر تاپا دیکھا اور اگلے لمحے نگاہیں جھُکا لیں۔ خجل سی وہ بھی پاس ہی بیٹھ گئی۔ پانی پلانے کے بعد اس نے اسے لٹا دیا۔ عورت کی آنکھیں بند ہو گئیں۔
’’آپ ذرا ان کا خیال رکھئیے۔ میں کپڑے بدل کر ابھی آیا۔‘‘
اب اُس نے غور کیا۔ وہ بالکل بھیگا ہوا تھا۔ کپڑوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ عورت کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔
’’یہ کیسی بیماری ہے ؟‘‘ اس نے سوچا اور اس کے بازو دبانے لگی۔ کوئی پانچ منٹ بعد وہ بھی آ گیا۔ سفید شلوار قمیض میں۔ اُس نے محسوس کیا تھا کہ وہ ایک وجیہ نوجوان تھا۔
’’آپ۔‘‘ اُس نے نگاہیں اُٹھا کر اُسے دیکھا اور پوچھا۔
’’غالباً یہاں کہیں پاس ہی رہتی ہیں ؟‘‘
’’نہیں۔ میں تو اپنی ایک دوست سے ملنے آئی تھی۔ بارش کی وجہ سے یہاں رُکنا پڑا۔ اِن کی چیخ سن کر اندر آ گئی۔‘‘
’’یہ میری والدہ ہیں۔ طویل عرصے سے بیمار ہیں۔ بس اچانک دَورہ پڑتا ہے۔ کوئی آدھ گھنٹے تک اثر رہتا ہے۔ بہت علاج کروایا ہے۔ مگر کوئی افاقہ نہیں۔ ہم انہیں تنہا نہیں چھوڑتے۔ میرے والد میجر ہیں اور آج کل ایکسرسائز پر چترال گئے ہوئے ہیں۔ ہم تین بھائی ہیں۔ دونوں معلوم نہیں کدھر چلے گئے ہیں۔ میں ان کے پاس ہی تھا۔ بس ذرا
گوشت لینے مارکیٹ تک گیا اور بعد میں اُنہیں دورہ پڑ گیا۔ آج کل بیٹ مین بھی چھٹی پر گیاہوا ہے۔‘‘
وہ سرجھکائے چپ چاپ بیٹھی اُس کی باتیں سنتی رہی۔
’’ا مّن کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟‘‘
خاتون نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ بیٹے نے سہارا دے کر بٹھایا وہ ابھی تک اسے دبائے جار ہی تھی۔ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ سے اس کے شانے تھپتھپائے۔ بیٹے نے اس کے بارے میں جو کچھ سنا تھا ماں کو بتایا۔
’’جاؤ بیٹے چائے بنا لاؤ۔‘‘
اس نے انکار کرنا چاہا مگر خاتون دھیرے سے بولیں۔
’’میں بھی پیوں گی۔‘‘
اس نے باہر جھانکا۔ بارش رُک گئی۔
جلد ہی چائے آ گئی۔ قالین پر ہی اس نے ٹرے رکھ دی چائے بنا کر ماں کو دی۔ پھر اسے پکڑائی۔ پلیٹوں میں نمکین اور میٹھے بسکٹ بھی تھے۔ چائے کے ساتھ ساتھ خاتون اُس سے اُس کے گھر اور تعلیمی مشاغل کا پوچھتی رہی اور جب اس نے جانے کی اجازت مانگی وہ بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔
’’رضوان گاڑی نکالو بیٹے۔‘‘
’’جی میں گاڑی میں نہیں جاؤں گی۔ بس کا یہاں سے سیدھا راستہ ہے۔‘‘
گاڑی کا سنتے ہی وہ تو گھبرا گئی۔ کسی نے دیکھ لیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
ماں بیٹے کے اصرار کے باوجود وہ بس سے جانے کے لئے بضد رہی۔ چلو تو پھر بس میں بٹھا آؤ۔ شاہدہ کے گھر جانے کا تو اب کو وقت ہی نہیں رہا تھا۔ چلتے وقت خاتون نے اُسے گلے سے لگا یا اور دوبارہ آنے کی تاکید کی۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ مگر دونوں خاموش تھے۔ درختوں کی مٹی جھڑ گئی تھی اور وہ اٹکھیلیاں کرتی چہرے سے ٹکراتی کپڑوں سے کھیلتی بہت لطف دے رہی تھی۔ یہاں خاموشی تھی، سکوت تھا۔ سڑک کی سیاہی نمایاں ہو گئی تھی۔
بس سٹاپ پر بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ بس بھی فوراً ہی آ گئی۔ چڑھنے سے قبل اس نے اک ذرا رُخ پھیر کر اُسے دیکھا اور وہ خاموش کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے خدا حافظ کہا اور بھیڑ میں گھُس گئی۔
پر پتہ نہیں کیوں اس کا جی شدت سے چاہا کہ وہ بس سے چھلانگ لگا دے۔ بھاگ کر وہاں پہنچ جائے اور سفید براق کپڑوں والے لڑکے کے ساتھ ساتھ اس سڑک پر چلتی جائے، چلتی جائے اوربس چلتی جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی کوئی پانچ منٹ پہلے ملکہ اور شہید کلچرل پروگرام کا دعوت نامہ اسے دے کر گئے تھے۔ وہ کوریڈور کی دیوار کے پاس کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔ فزکس کی نوٹ بکسز سیمنٹ کی چوڑی دیوار پر دھری تھیں۔ ٹنگائیل کی سادہ عنابی ساڑھی اس کی چمپئی رنگت پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ کوٹن کے ہمرنگ بلاؤز میں سڈول بازو اور گردن دلکش نظر آر ہی تھی۔ کاریڈور میں لڑکے لڑکیوں کی آمد و رفت جاری تھی اور وہ کارڈ پر جھکی پروگرام دیکھنے میں محو تھی۔
کوئی اس کے پاس آ کر رُکا۔ چونک کر اُس نے نگاہیں اُٹھائیں۔ بصارت کو دھوکہ نہیں ہوا تھا۔ ایک ہزار میل کا فاصلہ آناً فاناً ختم ہو گیا۔ ڈیڑھ سال کی درمیانی مدت بھی کہیں سرک گئی۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ سفید براق کپڑوں والے وجیہہ نوجوان کے ساتھ اس روشن راستے پر چلی جا رہی ہو جس پر نمی سے بوجھل ہوائیں سر سراتی پھر رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں حیا تھی۔ اُس کے ہونٹوں پر خاموشی، جسے اُس جیسی محتاط طبیعت کی لڑکی نے
پسند کیا تھا۔ اٹھارہ سالہ زندگی میں پہلی بار اس کا جی بس سے چھلانگ لگانے اور اس کے
ساتھ چلتے رہنے پر مچلا تھا۔
اور اب وہی لڑکا آنکھوں میں حیرت واستعجاب لئے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
’’آپ یہاں کیسے ؟‘‘ اُس نے پُوچھا۔
’’ایکسچینج پروگرام کے تحت یہاں ایم ایس سی کے لئے آئی ہوں۔‘‘
بالائی ہونٹ کے اوپری حصے پر اُس نے داہنے ہاتھ کی درمیانی انگلیوں کی پوریں پھیریں۔ اُسے یوں لگا تھا جیسے وہ جگہ پسینے کی ننھی ننھی بوندوں سے بھیگ گئی ہے۔
اب کے سوال اس نے کیا تھا۔ اس کی آواز میں خفیف سی لرزش تھی۔ سوال وہی تھا۔
’’آپ یہاں کیسے ؟‘‘
وہ اُس کے قریب ریلنگ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
’’میں یہاں آدم جی جیوٹ مل میں کیمیکل انجنیئر ہو کر آیا ہوں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں میرا ایک دوست ہے جس سے ملنے کا پروگرام تھا۔‘‘
’’آپ کی والدہ اب کیسی رہتی ہیں ؟‘‘
’’آپ اُس کے بعد کبھی آئی نہیں۔ وہ اکثر آپ کو یاد کیا کرتی ہیں۔ طبیعت تو ان کی زیادہ خراب ہی رہتی ہے۔ میرے والد ریٹائر ہو گئے ہیں۔ لاہور میں ہی گھر خرید لیا ہے۔‘‘
دونوں نیچے دیکھ رہے تھے۔ پانچ مرلے کا خالی پلاٹ جس کے گردا گرد تین چار ڈیپارٹمنٹ تعمیر تھے۔ روشنی، ہوا کے نکاس کے لئے یہ جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ یہاں لمبی لمبی گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اینٹوں اور روڑوں کی بہتات تھی۔
’’کیسے ہیں یہاں کے حالات؟‘‘
’’خطرناک!‘‘ اس نے مختصراً کہا اور اُسے دیکھا۔
کیسی عجیب سی بات تھی وہ آج بھی سفید کپڑوں میں ہی تھا۔ بے داغ پینٹ اور اکڑے ہوئے کالروں والی قمیض۔
’’آئیے کینٹین چلتے ہیں۔‘‘
اُس نے کتابیں کاپیاں سمیٹیں۔ ساڑھی کا پلو ٹھیک کیا اور قدم اُٹھائے۔
اس کی چال ہی با وقار تھی یا یہ وقار اُسے ساڑھی نے بخشا تھا۔ جس پر جا بجا چمٹے ابرق جگنوؤں کی طرح چمک رہے تھے۔ ڈھیلے ڈھالے بال نیم گندھی چوٹی کی شکل میں ساری پشت پر بکھرے پڑے تھے۔
سیڑھیاں اُتر کر جب وہ گراؤنڈ فلور پر آئے تو دفعتاً اسے یاد آیا آج بدھ ہے۔ اور ٹی۔ ایس۔ سی سینٹر میں بریانی کا دن ہے۔ خوش ذائقہ اور لذیذ بریانی جس کے ساتھ کوک چلے گی۔
’’ٹی۔ ایس۔ سینٹر کے ہال میں اس نے ایک خالی میز پر کتابیں رکھیں اوراسے بیٹھنے کے لئے کہا۔
’’بور تو نہیں ہوں گے۔ میں ذرا بریانی لے آؤں یہاں سلف سروس سسٹم ہے۔‘‘
وہ ذرا سا مسکرایا اور بولا۔
’’چلیئے اکٹھے چلتے ہیں۔‘‘
پرچی کٹی تو پیسوں کی ادائیگی اُس نے کی۔ اس نے منع کیا مگر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ کھانا لینے کے لئے قطار میں جا کھڑا ہوا۔
اور جب وہ پلٹیں اپنے اپنے آگے رکھے بریانی کھانے میں مصروف تھے۔ اس نے کہا تھا۔
’’آپ نے یہ اچھا نہیں کیا۔ آپ تو میرے مہمان ہیں۔ اُس کی آنکھوں اور لہجے سے خفیف سا شکوہ نمایاں تھا۔
وہ پلیٹ پر جھکا رہا۔ ہلکی سی مسکراہٹ سے اس کا جیسے سارا چہرہ روشن ہو گیا تھا۔
’’میں کماتا ہوں اور آپ ابھی سٹوڈنٹ ہیں۔‘‘
’’ میں نے کون سا آپ کو انٹر کان میں ڈنر دے دیا تھا۔ اتنی معمولی سی تواضع کے قابل تومیں بہرحال تھی ہی۔‘‘
اس کے دانت خوبصورت نہیں تھے یا وہ ہنسنے میں بخیلی سے کام لیتا تھا موٹے موٹے عنابی مائل ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تیر جاتی۔ زیادہ ہوا تو ہونٹوں کے زاویے پھیل جاتے۔ آنکھیں مسکرا اٹھتیں۔
’’ایک بات بتائیں گی۔‘‘ اس نے کوک پر جھکا چہرہ اٹھایا اور اس کی طرف دیکھا۔
’’پوچھئیے !‘‘
’’یہاں فضا سازگار نہیں۔ غیر بنگالی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ آپ اکیلی لڑکی کیوں چلی آئیں ؟‘‘
اس نے ہال میں تیزی سے بریانی کھاتے لڑکے اور لڑکیوں کو اک نظر دیکھا اپنے سامنے رکھی بوتل پر جمے پانی کے قطروں کو انگلی سے صاف کیا اور بولی۔
’’دو باتیں تھیں۔ بنگال کی سر زمین کا اسرار اور وظیفے کی کشش۔ چلی آئی۔ مگر اب لگتا ہے جیسے غلطی کی۔ اب اُگلتے بنتی ہے نہ نگلتے۔‘‘
دونوں اپنے اپنے کام بھُول گئے۔ اُسے پروفیسر زمان سے فزکس کی کاپیوں پر سائن کروانا تھے اور آج اس کا آخری دن تھا اور وہ اپنے کسی دوست سے ملنے یونیورسٹی آیا تھا۔
اور اب وہ ریس کورس روڈ پر کھڑی اس سے رخصت ہو رہی تھی۔ رکشے والا ان
کے قریب آ کر رُک گیا تھا۔ بیٹھنے سے قبل اس نے آہستگی سے کہا۔
’’آپ کا نام مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘
’’ثریا!‘‘
اس نے خدا حافظ کہا اور رکشہ دھواں اُڑاتا پھٹ پھٹ جناح ایونیو کی طرف مڑ گیا۔
اور جب وہ رقیہ ہال کی طرف جار ہی تھی اسے کچھ یوں احساس ہوا جیسے وہ چل نہیں بلکہ اپنی ٹانگوں کو گھسیٹ رہی ہو۔ دونوں میں سے کسی نے بھی آئندہ ملاقات کے لئے ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ وہ یقیناً اس سے متاثر ہوئی تھی۔ عام نوجوان لڑکوں سے وہ کس قدر مختلف نظر آیا تھا۔
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔
سارے ہوسٹل میں فلوریڈا اسٹیٹ سے آنے والی اُس امریکن لڑکی نے مصیبت ڈالی ہوئی تھی۔ پر ووسٹ اور ہاؤس ٹیوٹر دونوں کی عقل کام نہیں کر رہی تھی کہ اسے کس کمرے میں ایڈجسٹ کیا جائے۔ وہ اس وقت پوکھر (تالاب) کے کنارے بیٹھی پانی پر پھیلی جل بیل دیکھ رہی تھی۔ سامنے پانچ منزلہ عمارت بن رہی تھی۔ مزدور کام کر رہے تھے لتا اور شمشاد ’’بچپن کی محبت کو دل سے جدا نہ کرنا‘‘ اونچے اونچے گار ہی تھیں جب کینیا کی آغا خانی زرتاج بیگم نے اس کے پاس آ کر پھُولی سانسوں کے درمیان اسے بتایا کہ ’’میری فیلبوس کو اس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔
’’چلو جان چھٹی مجھے تو اپنا خدشہ نظر آ رہا تھا۔‘‘
’’ارے میں تو پھنس گئی۔‘‘
’’موج اڑانا ڈارلنگ، ایک سے ایک بڑھ کر اس کے بوائے فرینڈز ہیں یہاں۔‘‘
اور عین اس وقت دربان نے اُسے اطلاع دی کہ کوئی اس سے ملنے کے لئے آیا ہے۔
’’مجھ سے ؟‘‘ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔ ’’کون ہو سکتا ہے ؟‘‘ یہ اس نے اپنے آپ سے پُوچھا تھا۔
دل کی تیز دھڑکنوں نے جو جواب دیا تھا اس کا چہرہ اسے جان قدرے سرخ ہو گیا تھا۔
اور ریسپشن روم کی طرف بڑھتے ہوئے وہ خود سے بولی۔
’’میں نے یہ کیسے جان لیا کہ وہی ہے۔ ارے سرِ راہ چلنے والوں سے دل کے معاملات استوار کر لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ڈیڑھ ماہ سے بھی زیادہ ہو گیا ہے اس نے رُخ پھر کر یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ کوئی لاشعوری طور پر ہر شام دربان کی زبان سے یہ سننے کا متمنّی ہے کہ کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔ اُس کے بال کھُلے تھے۔ جوگیا رنگ کی ملگجی سی ساڑھی پہنے ہوئے تھی۔
اور ریسپشن روم میں واقعی وہ تھا۔ اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’آپ بہت دنوں بعد آئے۔‘‘
نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کہنے سے بازنہ رہ سکی۔
’’میں گومگو میں تھا۔ تذبذب کا شکار تھا۔ آپ کیا سوچیں گی پتہ نہیں کیا محسوس کریں گی۔ آپ کچھ محسوس نہ کریں۔‘‘
اس کی آنکھوں میں بڑی پُر خلوص مسکراہٹ تھی۔
وہ ہنس پڑی۔
اچھا ہی محسوس ہونا تھا۔ اتنی تو ہوم سکنس ہو جاتی ہے بندے کو۔ کوئی اپنی زبان بولنے والا اپنے شہر کا رہنے والا بڑی نعمت لگتا ہے۔
ریسپشن روم میں لوگوں کی کافی گہما گہمی تھی۔
’’آئیے کہیں باہر چلتے ہیں۔‘‘
اُس نے اپنے کپڑوں کو دیکھا۔ باہر جانے والا حلیہ ہرگز نہ تھا۔
’’میں تیار ہو کر ابھی آئی۔‘‘
اُس نے بالوں کا جوڑا بنایا۔ راج شاہی سلک کی ساڑھی پہنی۔ ہونٹوں پر ہلکی ہلکی لپ اسٹک کا ٹچ دیا۔ پرفیوم کا سپرے کیا۔
دونوں رمنا پارک آ گئے۔ نومبر کا آسان شفاف تھا۔ موسم خوشگوار اور ہوا میں لطافت تھی۔ یہاں پارک میں ہر سو سبزہ اور خوش رنگ پھول تھے۔ لوگ بھی زیادہ نہ تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ تنہائی والی جگہوں پر جا نے اور بیٹھنے سے گریز کرتا ہے۔ سنسان اور ویران گوشوں میں ڈیرہ لگانے کی بجائے پارک میں بنے سٹال کی کرسیوں پر بیٹھے اور ملکی سیاست پر باتیں کرتے رہے۔ شام کا کھانا انہوں نے رمنا ریسٹورنٹ میں کھایا۔ یہاں اس نے باتوں کے دوران کہا۔
’’آپ کے ذاتی معاملات میں مداخلت والی بات ہو گی لیکن اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ واپس چلی جائیں۔ Son Of The Soil کے نعرے انسانیت کا دامن تار تار کرنے پر تُلے نظر آتے ہیں۔‘‘
دونوں کے درمیان چند لمحے خاموشی کے تھے۔ نیلگوں مدھم روشنی میں اس نے پل بھر کے لئے اسے دیکھا اور آہستگی سے کہا۔
’’قوموں کی زندگی میں مسائل سر تو اٹھایا ہی کرتے ہیں۔ مجھے یہاں ڈر نہیں لگتا شاید میرے اندر دلیری آ گئی ہے یا میں نے اپنی ذات پر اعتماد کرنا سیکھ لیا ہے۔ ویسے میری
دوست کے بھائی کرنل آصف جو میرے لوکل گارجین ہیں۔ ان کے بیوی بچے بھی یہیں ہیں۔ وہ سب بہت پر اُمید ہیں اور مجھے بہت اطمینان دلاتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد دیر تک دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی۔
اور جب وہ اسے ہوسٹل چھوڑنے آیا۔ اس نے کہا تھا۔
’’خدا آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔‘‘
وہ گیٹ میں داخل ہو رہی تھی۔ دل کے تار اتنے پُر خلوس دُعائیہ جملوں پر چھن سے بج اُٹھے تھے۔ مڑ کر اس نے دیکھا۔ مدھم روشنی میں معلوم نہیں رضوان کو نظر آیا تھا یا نہیں مگر عظمیٰ کی آنکھوں میں دل کاسارا پیار مو جیں ما ررہا تھا۔
چھاجوں پانی برستا تھا۔ ہوائیں نمی سے بوجھل تھیں۔ سیاسی اُفق پر چھائی گھٹا ٹوپ تاریکی کی شدت میں زیادہ کمی تو نہ آئی تھی پر چند دلیر اور جرأت مند کرنیں ان تاریکیوں کا سینہ چیر کر پھوٹ نکلی تھیں اور امید کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا تھا وہ دونوں اس وقت جب شام گہری ہو رہی تھی وہ بوڑھی گنگا کے سینے پر تیرتے پھر رہے تھے۔ بوڑھا ملآح کشتی کھے رہا تھا اور رضواں اسے واپس چلے جانے کا مشورہ دے رہا تھا۔
’’کوئی اور بات کرو‘‘ ۔ شاید اسے یہ کہنے میں عار محسوس ہوتی تھی کہ اب تمہارے بغیر یہاں سے جانے کا سول ہی نہیں۔
’’اچھا۔‘‘ وہ ہلکے سے مسکرایا۔
’’انجنیئر نگ یونیورسٹی میں سوڈان کا ایک لڑکا ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔ بڑا اچھا پامسٹ تھا۔ میں لکیروں پر یقین نہیں رکھتا، ایک دن اس نے میرا ہاتھ دیکھا اور کہا۔
’’تم شادی اپنی پسند سے کرو گے یعنی تمہاری لَو میرج ہو گی۔‘‘
مجھے اس وقت بہت ہنسی آئی۔ زوردار آواز میں مَیں نے کہا تھا۔ ناممکن ایسا ہو ہی
نہیں سکتا۔ اصل میں ایک تو فطرتاً میں ذرا ریز رو قسم کا انسان ہوں۔ دوسرے گھر کا ماحول کچھ ایسا ہے کہ کسی لڑکی سے وابستگی کا خیال ہی بڑی بات ہے مگر۔ ۔ ۔‘‘
وہ خاموش ہو گیا تھا۔ عظمیٰ دونوں ہاتھ گود میں رکھے بیٹھی تھی۔ سامنے لانچیں اور راکٹ اپنی اپنی منزلوں کی طرف گامزن تھے۔ دن کا شور خاموشی کو مسلسل توڑ رہا تھا۔
اور جب دیر تک وہ چُپ رہا ثریا آہستہ سے بولی۔
’’بات پوری کر دیتے تو اچھا نہ تھا۔‘‘
اس نے گود میں رکھے ثریا کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ نرم اور ملائم ہاتھ جو اس کے لمبے چوڑے ہاتھوں میں آ کر چھوٹے چھوٹے سے لگ رہے تھے۔
’’میں سمجھتا ہوں اس نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘
واپسی پر موٹر رکشا نہیں ملا۔ سائیکل رکشے پر بیٹھنا پڑا۔ چھوٹی سی سیٹ جس میں دو آدمی جڑ کر ہی بیٹھ سکتے تھے۔ راستہ بہت خراب تھا۔ تخریب کاروں نے دستی بموں سے سڑک جا بجا توڑ ڈالی تھی۔ ہچکولے لگتے۔ بار بار وہ نشست ٹھیک کرتی شاید اسے اس کی تکلیف کا احساس ہوا تھا اس کا جی چاہا تھا۔ بازو پھیلا کر اس نے ثریا کو سمیٹ لیا تھا۔ وہ بھی اپنا سراس کے شانوں سے ٹکا کر دبک سی گئی۔ یہاں محبت کی گرمی تھی۔ سکون اور عافیت کا گہرا احساس تھا۔ اب آنکھوں کو بند تو ہونا ہی تھا۔
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..
زمین اسوک کے پھولوں کی طرح سرخ ہو گئی تھی۔ بقا کی جنگ میں سبھی کچھ ملیامیٹ ہو گیا تھا۔ دھرتی اور انسان کے ساتھ ناطہ جوڑنے میں زمانے لگے تھے اور اب ان کی توڑ پھوڑ یوں ہو گئی تھی کہ آنکھ ساکت اور زبان گنگ تھی۔
وہ کھڑکی سے سرٹکائے باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ویرانیوں کے ڈیرے تھے۔ اُلجھے ہوئے بال، گندے کپڑے۔ گاڑی یکسانیت سے چلتی جا رہی تھی۔ تاڑ، ناریل اور سپاری کے لانبے درخت گزر رہے تھے۔ کیلوں کے جھنڈ ہواؤں کے بوجھ سے جھُکے پڑتے تھے۔ مگر اس سارے منظر میں کوئی حسن نہ تھا اور نہ کوئی رعنائی۔ سب کچھ داغدار ہو گیا تھا۔
’’وہ کہاں جا رہے تھے ؟ ان کی منزل کونسی تھی؟ یہ سب اسے نہیں معلوم تھا۔
رضوان کہاں تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا۔ کسک، تڑپ اور بے چینیوں نے جیسے سارے جذبات جلا ڈالے تھے۔ نہ شعلے تھے اور نہ دھُواں۔ ہر طرف راکھ بکھری ہوئی تھی۔
آگرہ کیمپ میں وہ اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اجتماعیت کے دائرے میں داخل ہو گئی تھی۔ ملک ٹکڑے ہو گیا تھا۔ رسوائی کی دلدل میں جا گرا تھا۔ تماشا بن گیا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی تو آنسوؤوں کی بہتی لڑیوں میں وطن کے شہر ڈوبے نظر آتے۔ کبھی کبھی آنکھوں کے سامنے چھم سے کوئی سفیدبراق کپڑوں میں ملبوس آ دھمکتا۔ عجیب سے یاس بھرے احساسات میں ڈوب جاتی۔ کبھی کبھی دعا مانگ لیتی کہ وہ جہاں بھی ہو خیریت سے ہو اور کبھی کبھی یہ دُعا ہونٹوں پر آنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی۔ اپنی آرزوئیں، خواہشات اور اُمنگیں نفس اور غرض کے بندھنوں میں بندھی نظر آتیں۔ ہر شخص المیہ کا سوالیہ نشان بنا ہوا تھا۔
ڈیڑھ سال کیمپ میں گزارنے کے بعد جب اُس کی واپسی ہوئی۔ تو اس نے دیکھا قوم اپنے حال میں مست ہے، مہینوں کسی دِق زدہ مریض کی طرح بستر پر لیٹنے کے بعد وہ اُٹھی۔ اسے کوئی یاد آتا تھا۔ وہ اس کے گھر پہنچ گئی تھی۔ کال بیل پر انگلی رکھنے سے پہلے اس نے گرد و پیش دیکھا۔ بُہت خُنکی تھی فضا میں۔ آسمان کے بیچوں بیچ چمکتا سورج ماند پڑا ہوا تھا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا اور اس کی حالت اُس مجرم کی سی تھی جسے ایک پل میں زندگی اور موت کا فیصلہ سنایا جانے والا ہو۔ دل دھڑکتا رہا اور پیشانی پسینے میں بھیگتی رہی۔ جب ایک لمبا تڑنگا لڑکا موٹر سائیکل پر اس کے پاس آ کر رُکا۔ اس نے تعجب سے اسے دیکھا۔ وہ سٹپٹائی اور پریشانی سے بولی۔
’’مجھے اندر جانا ہے۔‘‘
’’کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘
’’اس گھر کی خاتون سے۔ میرا مطلب ہے۔‘‘
وہ گھبرائی ہوئی تھی اپنا مافی الضمیر ٹھیک طرح ادانہ کر پار ہی تھی۔
’’آپ کو ہماریا مّن سے ملنا ہے۔‘‘ لڑکے نے نرمی سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔ اس کے ہونٹوں پر لرزش تھی۔
’’آئیے۔‘‘ وہ اُسے اندر لے آیا۔ ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ دوسرے صوفے پر خود بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’آپ غالباً ثریا ہیں ؟‘‘
اس نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
’’میں ثریا ہوں لیکن آپ مجھے کیسے جانتے ہیں ؟‘‘
وہ خاموش رہا۔ سامنے دیوار پر ٹنگے شالیمار باغ کے پورٹریٹ کو گھُورتا رہا عظمیٰ کے لئے یہ خاموشی بڑی اذیت ناک تھی۔ اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔
’’پانی۔‘‘ اس کے سُوکھے ہونٹوں سے نکلا۔
لڑکا فوراً اٹھا۔ پانی لے کر آیا۔ ٹھنڈا پانی جسے پی کر اس کا دھڑ دھڑ کرتا دل ذرا درست ہوا۔
’’ہماری امّن فوت ہو گئی ہیں۔ کوئی تین ماہ ہوئے ابو بھی ان کے پاس چلے گئے ہیں۔‘‘
کمرے میں جیسے پُر ہول سناٹا طاری ہو گیا۔ فضا اتنی بوجھل ہو گئی تھی کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔
اور عین اس وقت ایک اور لڑکا اندر آیا۔ ہو بہو رضوان جیسا، قامت بھی اُس جیسی اور صورت بھی ویسی۔
صوفے پر بیٹھے لڑکے نے فوراً کہا۔
’’یہ ثریا باجی ہیں۔‘‘
’’اوہ۔ اچھا۔‘‘ کہتے ہوئے وہ لڑکا بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
تو یہ سب مجھے جانتے ہیں۔ رضوان نے میرے بارے میں انہیں سب کچھ بتا رکھا ہے۔ ثریا نے سوچا۔
اُمید کے وہ دئیے جو زندگی کی سانسوں کے ساتھ ساتھ جلتے اور بجھتے ہیں اس لمحے وہ دیا پوری لَو کے ساتھ عظمیٰ کے سینے میں جل اٹھا۔ پُر امید نگاہوں سے اس نے دونوں کو دیکھا اور رضوان کے بارے میں استفسار کیا۔
بڑی ٹھنڈی آہ بھری تھی دونوں نے۔ وہ چپ تھے اور اُن کے سر جھُکے ہوئے تھے۔ جیسے وہ اس سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ رکھتے ہوں۔
امید کا وہ دِیا جو ابھی چند لمحے پیشتر پوری آب و تاب سے جلا تھا۔ فوراً بجھ گیا۔ ان کے جھکے سراور خاموشی، کربناک حقیقت کا اظہار کر رہی تھی اور وہ اُسے سننا نہیں چاہتی تھی۔
آنکھوں نے ساون بھادوں کی رُت لگا دی تھی۔ دل کا درد کھارے پانی کی شکل میں بہتا رہا۔ صوفے کی بیک پر سر رکھے اس کی سسکیاں سارے کمرے میں گونجتی رہیں اور باہر شام دھیرے دھیرے ڈھلتی رہی۔
چھوٹا لڑکا اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ چائے کا کپ اس کے ہاتھ میں تھا۔
’’ثریا باجی ہم مشیت ایزدی کے سامنے مجبور ہیں۔ آپ ہمیں دیکھئے۔ ہمارا بھرا پُرا گھر اُجڑ گیا ہے۔‘‘
اس کے آنسونہ تھمتے تھے جب چراغ جل اُٹھے اور سڑکوں پر گھمبیر سناٹا چھا گیا تو وہ گھر جانے کے لئے اُٹھی۔ نوکر نے ایک بڑا سا پیکٹ لا کر میز پر رکھ دیا بڑے لڑکے نے اسے اٹھا کر ثریا کو دیتے ہوئے کہا۔
’’رضوان بھائی کی چند چیزیں جوان کے ایک دوست کے ذریعے ہم تک پہنچی تھیں ان میں یہ بھی تھا۔‘‘
اُس نے خاموشی سے پیکٹ تھام لیا اور باہر نکل آئی۔ گھر آ کر کھولا۔ نفیس اور خوبصورت ریشمی اور سوتی ساڑھیاں اور ان کے ساتھ سیاہ رنگ کی چھوٹی سی ڈائری۔ ۔ ۔ ورق اُلٹے۔ لکھا تھا۔
’’میں اسے کہنا چاہتا ہوں کہ ثریا ساڑھی تم پر بہت خوبصورت لگتی ہے۔ مگر الفاظ ہونٹوں پر آ کر رُک جاتے ہیں۔ لیکن گنی اسٹور میں میرے ہاتھ جیب سے پیسہ نکالنے سے رُک نہیں سکتے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ سارے ڈھاکہ کی خوبصورت اور نفیس ساڑھیاں اس کے لئے خرید لوں۔‘‘
ایک دوسرے صفحے پر لکھا ہوا تھا۔
’’ا مّن کا خط آیا ہے رابعہ کے لئے اُنہوں نے لکھا ہے۔ خط پڑھ کر مجھے ہنسی آ گئی
اور میں نے اپنے آپ سے کہا۔ اب توکسی رابعہ کا سوال ہی نہیں وہ تو میرے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
بس یہی لکھا ہوا تھا۔ ساری ڈائری خالی تھی۔
اس نے جیسے دل پر پتھر رکھ لیا۔ کتنا روتا جائے آدمی۔ ساڑھیاں سمیٹ کر بکس میں رکھ دیں اور ڈائری سنبھال لی۔
اور وقت گزر تا رہا۔ ایم ایس سی مکمل کرنے کے بعد وہ لیکچرار ہو گئی۔ چھٹیوں میں گھر آتی اماں شادی کے لئے کہتی۔ کھوکھلی ہنسی اس کے ہونٹوں پر بکھر جاتی۔
’’چھوڑو اماں، تہی دامن لوگ کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔ مفت میں جھنجھٹ پالنے سے فائدہ؟‘‘
٭٭٭
تصویر کا یہ رُخ بھی
سچی بات تو یہ ہے کہ میں زندگی میں رکھ رکھاؤ اور معیار کا بہت قائل ہوں۔ عشق نہ پُچھّے ذات یہ مشہور زمانہ کہاوت قطعی بکواس۔ اب بھلا ایسا بھی اندھا عشق کیا کہ انسان مخمل میں ٹاٹ کے پیوند جوڑے اور جوڑ کر بڑا خوش ہو، جیسے وہ سٹوپِڈ آصف بشیر تھا۔ متوسط طبقے کی ایک لڑکی کے پیچھے ایسا دیوانہ ہوا کہ شادی کی اور بچّے پیدا کیے۔ کبھی مِلو، حال احوال پُوچھو تو خود کو دُنیا کا خوش قسمت انسان سمجھتا ہے۔
بہرحال ایسی حماقتوں کی میری زندگی میں تو قطعی گنجائش نہیں۔
بڑی گرم دوپہر تھی۔ ڈرائنگ روم میں بڑے صوفے میں دھنساہیرالڈThe Heraldدیکھ رہا تھا جب وہ پاگل سی میری ممیری بہن اُونچے اُونچے بولتی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
’’یہاں ایک میرا بے حد پیارا ممیرا بھائی رہتا ہے۔ بڑا نک چڑھا سا، بد دماغ سا، احمقانہ حد تک سٹیٹسکونشئس۔‘‘
میری پیشانی شکن آلود ہو گئی تھی۔
جونہی وہ اندر داخل ہوئی۔ میں نے بھی ہانک لگائی۔ ’’ہے ایک میری کزن۔ نِری کریک پانڈا، ہیومن رائٹس کی علمبردار، مساوات محمدیؐ کی قائل، دسترخوان پر گھر کے ملازموں کو ساتھ بٹھانے اور اُن کے دُکھ سکھ میں اُن کے ساتھ کھڑی ہونے والی۔ مجھے سخت چِڑ ہے اُس سے اوراُس کی فلاسفی سے۔‘‘
دفعتاً میں نے دروازے کی جانب دیکھا۔ ’’ہیرالڈ‘‘ میرے ہاتھوں سے چھُٹ کر قالین پر گِر گیا۔ ایک لڑکی دہلیز پر پردہ تھامے کھڑی تھی۔ کیسا چہرہ تھا۔ کیا قد بُت تھا۔ یوں لگا جیسے اُستاد اللہ بخش کا کوئی شاہکار دروازے پر آویزاں کر دیا گیا ہو۔
میری کزن صوفے کی بیک پر ہاتھ رکھتے ہوئی بولی:
’’ارے تو تم گھر میں ہو۔ میں تو سمجھی تھی کہیں آوارہ گردی پر نکلے ہوئے ہوں گے۔‘‘
اس کے اس مذاق کو میں نے قطعی پسند نہ کِیا۔ میں جو اب اپنے باپ کے چھوڑے ہوئے ایک بہت بڑے ٹیکسٹائل پروجیکٹ کا مینیجنگ ڈائریکٹر ہوں۔ رُکھائی سے میں نے کہا۔
’’جان چھوڑ دو میرے بچپن کی اب وہ کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔‘‘
وہ ہنسی۔
’’جناب نے غُصّہ کِیا ہے۔ اچھا چھوڑو اِن سے مِلو‘‘ اُس نے اپنے ساتھ آنے والی لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
اور مجھے معلوم ہوا کہ تابناک چہرے والی وہ لڑکی جو بڑی آہستگی سے چلتی ہوئی داہنے ہاتھ والے صوفے پر بیٹھ گئی تھی اور جس نے آبی رنگ کا نفیس کشمیری کڑھت کا سُوٹ پہن رکھا تھا اور بڑی لئیے دئیے سی نظر آ رہی ہے ثالیہ ہے۔ فزکس جیسے خُشک مضمون میں ایم ایس سی ہے۔ پشاور سے تبدیل ہو کر آئی ہے اور مقامی گرلز کالج میں لیکچرار ہے۔ ایسی دھان پان سی لڑکی اور فزکس کی لیکچرار۔ اچھے گھرانے سے ہے تو نوکری کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی گھر سے اتنی دُور۔ میں نے تنقیدی جائزہ لیا۔ اُس کے چہرے پرچھائی بے نیازی اور غرور کاسا احساس۔ مجھے احساس ہوا کہ اُس کا تعلق کِسی غریب گھر سے ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا چہرہ اس کی امارت کا غمّاز تھا۔
اصل میں میری اِس سر پھِری کزن جیسی ہی ہو گی جو کروڑ پتی شوہر کے ہوتے ہوئے بھی نوکری کرتی اور اُسے بہت اچھا سمجھتی ہے۔
آصفہ کے ساتھ ہی وہ بھی اُٹھ گئی تھی۔ دونوں میری ماں سے ملنے چلی گئی تھیں۔
’’ثالیہ‘‘ میں نے زیرِ لب دُہرایا۔
یہ اُس کا نام تھا جسے دُہراتے ہوئے ذرا بھی غنائیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بڑا فضول سا نام ہے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا مگر چند لمحے غور کرنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے یہ منفرد سا نام اُس کی شخصیت ہی کی طرح ہو۔
اپنی کزن کے ہاں مجھے اُسے دیکھنے کا اکثر اتفاق ہوتا۔ اُسی کی زبانی مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ بہت اُونچے گھر کی لڑکی ہے۔ ماں کم عُمری میں مَر گئی۔ باپ نے دوسری شادی کر لی۔ وہ ہوسٹلوں ہی میں پلی بڑھی۔ ہمارے گھر بھی اکثر آتی۔ دو تین بار مجھے بھی اُسے چھوڑنے ہوسٹل جانا پڑا۔ حُسن کیا تھا کہ جیسے گرما کی چاندنی رات کی فسوں خیزی کھیتوں کھلیانوں میں بکھری پڑی آنکھوں کو سحر زدہ سی کرے۔
ایسے ہی دنوں میں میری ماں نے مجھ سے کہا تھا۔
’’تمہاری نخریلی ناک تلے کوئی لڑکی نہیں آتی۔ گھمنڈی پَن کو چھوڑ دو اب۔ سنجیدگی سے اِس ہیراسی لڑکی کے بارے میں سوچ لو۔ مجھے غصّہ آیا تھا۔
’’نہ اَتہ نہ پتہ کِس خاندان کِس قبیل سے ہے جانتی ہیں ؟‘‘
’’انسان کو پرکھنے کا شعور ہے مجھے۔‘‘ جواباً اُنہوں نے اُسی سختی سے کہا۔
اس کے لئیے ہمارے گھر میں میری ماں اہم تھی۔ میں تو قطعی قابلِ توجہ نہ تھا۔ اس کی اسی چیز نے میرے پندار غرور کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
اب اگر یہ کہوں کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی تھی تو غلط نہ تھا۔ اس کا حُسن، تہذیب اور شائستگی ایک مرد کو دیوانہ بنانے کے لیے کافی تھیں اور میں دیوانہ ہو چُکا تھا۔ جب میں نے اس سے شادی کرنے کے ارادے کا اظہار اپنی کزن سے کیا تو وہ ہنس کر بولی:
’’چلو خدا کا شُکر ہے تمہارا کُفر تو ٹوٹا۔‘‘
’’تو تم اُس سے بات کر کے اُس کا عندیہ تو لو۔‘‘ میں نے درخواست کی۔
’’غلط بات۔ شادی تم نے کرنی ہے۔ تمہی پوچھو۔ میں کون؟خواہ مخواہ۔‘‘
آصفہ ان دنوں چھُٹی پر تھی۔ میں ہوسٹل کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے اُسے بُلایا تھا آصفہ کا نام لے کر۔ وہ آئی اور خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ راستے میں بغیر کِسی تمہید کے میں نے اُس سے کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
اُس نے عجیب سے انداز میں مجھے دیکھا اور رُکھائی سے بولی۔
’’مگر میں تو نہیں چاہتی۔‘‘
میں تو یکدم جیسے سناٹے میں آ گیا۔ کچھ بولاہی نہ گیا۔ یہ سوچ تو قرین قیاس ہی نہ تھی کہ میں بھی ردّ کِیا جا سکتاہوں ؟
انا پر جیسے ہتھوڑے پڑے اور اس سوال نے بڑی مکروہ صورت کے ساتھ میرے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔
میرے منت سماجت پر آصفہ نے اُس کے طرلے کئیے۔ پھر اُس نے سوچنے کا وقت مانگ لیا۔ اس کی سوچ بہت لمبی ہو گئی تھی۔ ایک طرح ناک سے لکیریں نکلوانے والی
بات ہو گئی۔ چھ ماہ گزر گئے۔ میں کئی بار ہوسٹل گیا مگر وہ مجھے نہیں ملی۔ بالآخر آصفہ نے ایک دن بتایا کہ وہ سخت تذبذب کا شکار ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے تو اُس کا والد شادی میں شریک نہیں ہو گا۔ ’’میری مانو تو نکاح پڑھا لو۔ ایسی اچھی لڑکی تمہیں زندگی میں نہیں مِلے گی۔‘‘ آصفہ نے مجھے گومگو کی کیفیت سے نکالتے ہوئے کہا۔
شادی سے پہلے اُس نے شرط لگا دی کہ وہ نوکری نہیں چھوڑے گی۔
’’احمق‘‘ ۔ میں نے قدرے غصّے سے آصفہ سے کہا۔‘‘ یہ عورتوں کو اپنی کمائی کی چاٹ کیوں لگ جاتی ہے ؟‘‘
’’تمہاری کھوپڑی میں آخر سیدھی بات کیوں نہیں آتی۔ علم بانٹنے کی چیز ہے۔ بند کر کے زنگ لگانے کی نہیں۔‘‘
پھر میں اُسے بیاہ لایا۔ بارات تو آصفہ کے گھر سادگی سے گئی مگر ولیمہ بڑا شاندار ہوا۔ میری ماں نے اپنے دل کے خوب ارمان نکالے۔ وہ بے چاری تو مایوس ہو چکی تھی کہ میں کبھی شادی بھی کروں گا۔
میری زندگی میں آ کر وہ اتنی اچھی بیوی اور بہو ثابت ہوئی کہ انسان اپنے مقدر کی خوش بختی پر رشک کر سکتا تھا۔ میرا خوبصورت گھر اُس کے ہاتھوں کی محنت اور سلیقے نے اور خوبصورت بنا دیا۔ کھانوں میں لذّت آ گئی تھی۔ دفتر ہو یا گھر تقریباً ہر معاملے میں اُس کی رائے بڑی سوچی سمجھی ہوتی۔ میری ماں جو بیماریوں کا ملغوبہ تھی، اُس کی دیکھ بھال سے اُس کی حالت بہت بہتر ہو گئی تھی۔ مگر اُس کی ایک عادت سے مجھے شدید نفرت تھی وہ تھی شاگرد پیشہ لوگوں سے اُس کا میل جول۔ مالی، خانسا ماں، ڈرائیور اور چوکیدار کی گھر والیاں بِلا روک ٹوک گھر میں آنے لگی تھیں۔ جب بھی میں نے اس کی اس روش پر تنقید کی، اُس نے جواباً کہا وہ انسان ہیں اور ہم سے اچھے سلوک کے مستحق ہیں۔
’’میں نے کب کہا کہ وہ جانور ہیں۔ میں چیخ اُٹھتا۔ ’’میرا کہنے کا مطلب ہے کہ تمہیں اپنے مقام کا خیال رکھنا چاہئیے۔ گندی عادتیں میری ماں جیسی۔ سچ تو یہ ہے بوٹے پہ بوٹا لگ گیا ہے۔‘‘
میں نے اُس کی تنخواہ کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا تھا کہ وہ کیا کرتی ہے اور کہاں خرچ کرتی ہے ؟شاید اس لیے کہ میں اربوں کا مالک تھا۔
ہاں البتہ جب تک وہ ماں نہیں بنی تھی، میں کبھی کبھی اُسے اُداس اور متفکر سا دیکھتا مگر جب سے اُس نے دو جُڑواں بچوں ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو پیدا کیا تھا وہ بڑی بدل گئی تھی۔ کالج سے بھی زیادہ تر چھُٹی پر رہنے لگی تھی۔
اپنے ماں باپ اور عزیزوں رشتہ داروں کے بارے میں مَیں نے اُسے بہت کم بات کرتے سُنا۔ میرا خیال تھا کہ سوتیلی ماں اور باپ کی عدم توجہّی نے اُسے دل برداشتہ کِیا ہوا ہے جبھی وہ اُن کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتی۔
پچھلے دو تین دنوں سے میرے پیٹ میں درد تھا۔ ثالیہ کو میں نے نہیں بتایا۔ اصل میں وہ میری ذرا سی تکلیف پر اتنی پریشان ہو جاتی تھی کہ مجھے افسوس ہوتا۔ پروجیکٹ پر نیا ڈاکٹر آیا تھا۔ پشاور کی کِسی نواحی بستی سے تھا۔ بڑا خوش اخلاق آدمی تھا۔ عُمر یہی پچاس پچپن سال ہو گی۔ تفصیلی معائنے کے بعد دوا دیتے ہوئے بولا:
’’فکر کی بات نہیں۔ معمولی درد ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
تولیے سے اپنے ہاتھوں کو صاف کرتے ہوئے اُس نے پھر کہا:
’’شجاع صاحب یہاں گرلز کالج میں ہماری بستی کی ایک لڑکی ہے۔ ثالیہ نام ہے۔ اُس کے گھر والوں نے کچھ چیزیں میرے ہاتھ بھیجی تھیں۔ بہت دن ہو گئے ہیں۔ اگر آپ کِسی وقت مجھے اپنا ڈرائیور گاڑی دے دیں تو مہربانی ہو گی۔‘‘
میرا اُوپر کا سانس اُوپر اور تلے کا تلے رہ گیا۔ ’’ثالیہ‘‘ ۔ میں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’پڑھتی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں پڑھاتی ہے شاید۔ فزکس کی لیکچرار ہے۔ بڑی ہونہار لڑکی ہے۔ باپ پنجاب کے کِسی گرلز سکول میں چپڑاسی تھا۔ بیٹی کو پڑھنے کا شوق تھا۔ لہذا پڑھایا۔ برسرِروزگار ہوئی تو باپ کی نوکری چھُڑوا دی اور اُنہیں گاؤں لے آئی۔ دو بہن بھائی میڈیکل کے چوتھے سال میں ہیں۔ ایک بہن بیالوجی میں ایم۔ ایس سی کر رہی ہے۔‘‘
وہ اپنی دھُن میں بولے جا رہا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ اُس کا بولا ہوا ہر لفظ جیسے میرے سرپر کِسی وزنی ہتھوڑے کی مانند پڑ رہا ہے۔ میرا رنگ پیلا پڑ گیا ہو گا جبھی تو ڈاکٹر نے حیرت سے کہا ’’ارے آپ کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘
بمشکل اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے میں نے کہا۔
’’یہی تو تکلیف ہے ڈاکٹر۔ ایکا ایکی درد اُٹھتا ہے اور بے چین کر جاتا ہے۔‘‘
’’پریشان نہ ہوں۔ جا کر آرام کیجئیے، پھر کِسی روز دیکھا جائے گا۔‘‘
میں نہیں جانتا۔ میں گاڑی میں کیسے بیٹھا؟مجھے تو بس ایک ہی بات یاد تھی۔ میری بیوی چپڑاسی کی بیٹی ہے۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ درمیان کی سب باتیں میں بھول گیا تھا۔
گھر آیا۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کی۔ خدا کا شُکر تھا کہ میں کِسی حادثے سے دو چار نہیں ہوا۔ وگرنہ جس ذہنی پریشانی سے میں ایکا ایکی دو چار ہوا تھا وہ کِسی بھی خطرے کا باعث بن سکتی تھی۔
برآمدے میں نُور ہمارا نوکر کھڑا تھا۔ بریف کیس میرے ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے اُس نے مجھ سے چائے لانے کا پوچھا۔
’’وہ کہاں ہے ؟‘‘ میں نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا۔
ڈیڑھ سال کی ازدواجی زندگی میں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا تھا کہ میری گاڑی رُکنے کی آواز پر وہ باہر نہ نکلی ہو، اُس کے ہونٹوں نے پیار بھری مسکراہٹ نہ بکھیری ہو۔
نُور شاید میری نگاہوں کا مفہوم سمجھ گیا تھا۔ بولا ’’بیگم صاحبہ بڑی بیگم صاحبہ کے ساتھ گئی ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ آصفہ کے چچا کی بیٹی کی شادی تھی۔ ثالیہ نے دو تین دن پہلے اُس کا ذکر کیا تھا۔ آج صبح بھی اُس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ میرے آنے تک چلی جائے گی۔ ایک دن وہاں ٹھہرنے کا سُن کر میں بولا تھا۔
’’کوئی ضرورت نہیں۔ تم نے مجھے اپاہج بنا دیا ہے۔ مجھے تو تمہارے بغیر کچھ نظر ہی نہیں آتا۔‘‘
پر اب اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے سوچا اچھا ہی ہوا وہ نہیں ہے۔ مجھے اِس وقت مکمل سکون کی ضرورت ہے۔
اُس نے جھوٹ بولا۔ میرے ساتھ فریب کیا۔ خود کو وہ کچھ ظاہر کِیا جو وہ نہیں تھی۔ ایسا اُس نے صرف مجھے پھانسنے کے لیے کیا۔ میں جو اربوں کی جائیداد کا تنہا وارث ہوں۔ گزرے ہوئے وقت کا ایک ایک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے آیا۔ میں ہی پاگل تھا۔ عشق نے میری آنکھوں پر پٹّی باندھ دی تھی، وگرنہ اس کی عادتیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا، اس میں امیر زادیوں والی کوئی بات نہ تھی۔
پورا دن میں سُلگتا نہیں جلتا رہا۔ وہ ابھی نہیں آئی تھی۔ باوجود شدید نفرت کے شعوری طور پر جیسے مجھے اُس کی آمد کا انتظار تھا۔ دوسری شام میں نے کلب میں گُزاری۔ وہیں حبیب الرّحمٰن مِلا۔ اس کا کاروبار سنگاپور، ملایا اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا تھا۔ تقریباًسال بھر سے وہ باہر تھا۔ خوب گلے لگ کر مِلا۔ یاردوستوں نے اُسے میری شادی اور جُڑواں بچوں کا بتا دیا تھا۔ خوب ہنسا اور بولا۔
’’بھئی سُنا ہے تمہاری بیوی خوبصورت ہی نہیں پڑھی لکھی بھی بہت ہے۔‘‘
میرے کلیجے پر جیسے چھُری چل گئی۔ ابھی کچھ بولا بھی نہ تھا کہ اُس نے خود ہی کہا۔ ’’ارے شجاع تمہیں سلیمان تو یاد ہو گا۔‘‘
’’یاد کیوں نہیں وہی جس کا دیوالیہ ہو گیا تھا۔‘‘
’’ہاں ہاں ارے بھئی دیکھو نا انقلابِ زمانہ۔ وقت کا کروڑ پتی آدمی آج کا بھکاری۔ میں پچھلے دنوں لندن گیا تو اُس کی خستہ حالی دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پانچ ہزار پونڈ اُسے دئیے کہ وہ چھوٹا موٹا کام کرے۔ زندگی میں واقعی کِسی چیز کا اعتبار نہیں۔‘‘
وہ سلیمان کے عبرت ناک انجام سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ دیر تک اس کی باتیں کرتا رہا۔
پھر طوفان آیا۔ میں نے اُس کے چیتھڑے کر ڈالے۔ مکّار، دغا باز ایک امیر زادے کو پھانسنے، اس پر اپنے حُسن سے ڈورے ڈالنے کا الزام، خود اپنی سادگی اور حماقت کا اعتراف۔ میرے تو جیسے تلوں سے کھوپڑی تک آگ ہی آگ برس رہی تھی۔
اُس نے پیلے پڑتے چہرے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب سُنا اور پھر جیسے ڈوبتی آواز میں بولی۔ ’’میرا باپ چپڑاسی تھا، غریب ہے مگر حسب نسب والد ہے۔ غریبی کوئی طعنہ نہیں میناں نہیں اور وہ تمہارے باغ باغیچوں کو ہرا بھرا کرنے والا اور تمہاری ماں کی خدمت پر مامور اس کی بیوی بھی بڑی عظمت والے تھے کہ جنہوں نے ایک گھنٹے کا اپنا لخت جگر تیرے والدین کی گود میں ڈال کر تیرے باپ کے بانجھ پن کو اپنے بڑے پَن سے
ہرا بھرا کر دیا تھا۔‘‘
جیسے ایکا ایکی زمین اپنے محور پر گھوم جائے۔ جیسے ہر چیز اُلٹی قلابازیاں کھانے لگ جائے، جیسے طوفان آ جائے، جیسے ساحل پر بیٹھے خوش و خرم لوگوں کو سونامی دبوچ لے۔ تمہیں تمہیں۔ ۔ ۔ میں ہکلا رہا تھا۔ الفاظ جیسے میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔
’’اپنی ماں کے پاس جاؤ۔‘‘
اور میں سر پَٹ بھاگتا دھڑام سے اُس کے کمرے میں داخل ہوا۔ میرے تعاقب میں وہ بھی بھاگتی ہوئی آ موجود ہوئی تھی۔
میں نے سر اس کی گود میں پھینکا۔
’’میں کیا سُن رہا ہوں ؟‘‘ میری ماں نے تڑپ کر میرا سراُوپر کِیا اور جیسے چھُری میرے کلیجے میں اُتار دی۔ جس راز کو تیرا باپ قبر میں لئیے اُتر گیا اور جسے میں اپنے سینے میں لئیے بیٹھی ہوں اُسے زبان مت دو۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر یہ تیسرے کے پاس کیوں پہنچا؟‘‘
’’تیرے علاج کے لیے۔ نخوت و تکبّر میں تُو اپنے باپ سے بھی چار ہاتھ آگے چلا گیا ہے۔ تین لفظوں کے ساتھ چار زندگیاں داؤ پر لگ جانی تھیں۔‘‘
میں نے کہا نا۔ میں گھائل تھا۔ خون اُترا ہوا تھا آنکھوں میں۔ میں بھاگا اپنے کمرے میں آیا اور اُسے لاک کر لیا۔
خوبصورت آنکھوں میں خدشات کا طوفان تھا۔ ہونٹ کانپتے تھے۔ ہاتھ برف جیسے ٹھنڈے تھے۔
کہیں جو ڈی این اے کے چکروں میں پڑ گیا تو۔
اور ساس نے بہو کے پیلے پھٹک چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے میں تھامتے ہوئے سرگوشی کے سے انداز میں کہا تھا۔
’’حوصلہ رکھو میں نے اُسے جنا ہے۔ جانتی ہوں کتنے پانی میں ہے ؟جو ڈوز ہم نے دے دی ہے وہ بہت موثر ہے۔‘‘
٭٭٭
وہ شاخ شجر
رسّی تُڑوا کر اپنے تھان سے بھاگ گیا تھا۔ کہنیوں تک پھنسی سرخ چوڑیوں، مہندی سے لپے پُتے ہاتھوں اور بیر بہوٹی کے رنگ جیسی چمکتی ساٹن کے سوٹ والی دُلہن بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی تھی۔ اس نے سلیقے سے بنی پھول چڑیوں سے سونے کے کلپ نوچ ڈالے اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں لگا دُنبالہ سُرمہ سنہری گوٹے کی مرچیں لگے دوپٹے سے پونچھ ڈالا۔
آنگن میں گھڑونچی کے پاس سوتری چارپائی پر دودھ جیسے رنگ اور سیبوں جیسے دہکتے گالوں والی ماں جی سانپ کی طرح پھنکاری تھیں۔
’’بھاگ گیا ہے۔ بھاگ جانے دو۔ آئے گا۔ ایک دن خود ہی آئے گا۔ اسے خیال نہیں اپنی مرحومہ بہن کی اس یتیم و یسیر بچی کو میں کہاں دھکّا دیتی؟‘‘
اور جالی والے دروازے سے پُشت ٹکائے گھر کی چھوٹی لڑکی رضیہ نے دُکھ بھر نگاہ اپنی ماں پر ڈالی۔ طنز سے ہونٹ سکوڑے اور خود سے بُڑبُڑائی۔
’’ایسی ماں کبھی کِسی نے کا ہے کو دیکھی ہو گی۔ قبروں کو پوجتی ہے اور جو زندہ ہیں انہیں زندہ درگور کرتی ہے ارے جو یہ چودہ سال بڑا ڈھگا ہی اس کے گلے باندھنا تھا تو اُسے اتنا پڑھانے اور افسر بنانے کی کیا ضرورت تھی؟گنوار کیا بُرا لگتا تھا۔ کم از کم موئی بہن کی اِس نشانی کو ہار بنانے سے یوں کنّی تو نہ کتراتا۔‘‘
سامنے کمرے میں دُلہن بیٹھی تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہی رضیہ کے چہرے پر طنزیہ ہنسی بکھر گئی۔
’’یہ خون کے ناطے یہ قرابت داریاں، یہ آٹے ساٹے کے رشتے انہیں تو کِسی کی آئی آ جائے۔ ہماری تو ہڈیوں گوڈوں اور جوڑوں میں اُتر گئے ہیں۔ اب ماں جیسی یہ اُس کے لڑ نہ لگتی اور وہ مرن جو گے میرے بہنوئی میری دونوں بہنوں کو طلاق کی دھمکی نہ دیتے اور یہ میری چنڈال بہنیں کیا تھا جو ڈَٹ جاتیں۔ ارے یہ بھی ایک نمبر کمینیاں اور حرام زادیاں ہیں۔
اور یہ ہماری ماں سدا کی پیچھا پال۔ بہنوں کے اور بھائیوں کے بچوں پر جان فِدا۔ اپنی دو بیٹیاں بہن کے نکھٹو، خود غرض اور مطلب پرست بیٹوں کے سر مُنڈھ دیں۔ ایک لڑکی بڑے بیٹے کے لیے لی اور اب اس بیٹے کو بھی بھینٹ چڑھا دیا جو بڑا لائق اور ہونہار تھا۔‘‘
ظہیر احمد بڑا خوبصورت اور قد آور نوجوان تھا۔ پڑھنے لکھنے میں تیز، کھیلوں میں بھی بڑا نامور۔ میٹرک میں وظیفہ لے کر ایگریکلچرل یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ ایم ایس سی تک اس نے کھیلوں میں ٹرافیاں جیتیں اور امتحانوں میں میڈل لئے۔ ملازمت بھی اونچی مِلی۔
اقبالاں اس کی خلیری بہن۔ پونے چھ فٹی مردانہ ڈیل ڈول کی مالک۔ نزاکت اور نسوانیت سے عاری۔ اُس کے بھائیوں کی ایک عرصے سے اس پر نظر تھی۔ بی ایس سی کرنے کے بعد جب اس نے ایم ایس سی میں داخلہ لینا چاہا تو ماں نے روکا۔
’’پڑھتے پڑھتے کیا بوڑھا ہونے کا ارادہ ہے۔ بس بہتیرا پڑھ لیا اب شادی کرو اور گھر بساؤ۔ پڑھائی میں تو وہ مغز کھپائے جسے نوکری کرنی ہو۔ اللہ رکھے اتنی لمبی چوڑی جائیداد کِس نے سنبھالنی ہے۔‘‘
ظہیر احمد اب کوئی بچہ تھا جو ماں کی گفتگو کے رموز نہ سمجھتا۔ بے نیازی سے بولا۔
’’ماں جی میں پڑھوں گا اور پڑھتے پڑھتے بوڑھا ہو جاؤں گا اور کتابوں سے شادی کر لوں گا اور انہی کے درمیان مر جاؤں گا۔‘‘
’’دیکھا کیسی اول جلول بکتے ہو۔ سیانے اِسی لئے کہتے ہیں کہ پڑھائی دماغ خراب کر دیتی ہے اور آدمی اول فول بکنے لگتا ہے۔‘‘
وہ اُٹھ گیا تھا کون ان پتھروں سے سر پھوڑے ؟
اس نے اپنی من مانی کی۔ ایم ایس سی سے فارغ ہوا تو اچھی ملازمت مِل گئی۔ پندرہ دن کی چھٹیوں میں گھر گیا تو ماں نے اقبالاں سے شادی کی بات کی۔ پہلی بار وہ کُنگ سا ماں کی صورت دیکھتا رہا۔ کیسی اندھی ماں ہے جسے کچھ نظر ہی نہیں آتا اس نے سوچا، تھوڑی دیر خاموش بیٹھا رہا اور پھر دفعتاً بولا۔
’’ماں میں تمہیں کیسے لگتا ہوں ؟‘‘
’’چاند کا ٹکڑا ہو۔‘‘ ماں کی نگاہیں محبت پاش تھیں۔
’’تو تم چاند کو گرہن لگانے پر کیوں تُلی ہوئی ہو؟‘‘ وہ تلخی سے بولا اور ماں کے لہجے میں فوراً تلخی گھُل گئی۔
’’لو اپنے خون کو سہارا دینا، اپنے سگے پیاروں کا دُکھ بانٹنا یہی تو انسان کی بڑائی ہے۔ یہی تو اعلیٰ ظرفی ہے اور یہی خاندانیت ہے۔‘‘
’’ماں خدا کے لیے ان خاندانی عظمتوں کا مجھے سبق نہ دو۔ میں نے قربانی کا بکرا نہیں بننا۔‘‘
وہ پیر پٹختا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
مگر یہ تو اس کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ اس کی اپنی ماں کے ساتھ گفتگو کا ایک ایک لفظ سارے خاندان میں گردش کرتا پھِرے گا۔ بہنیں آنسو برساتی آنکھوں کے ساتھ اس کے سامنے آ کھڑی ہوں گی۔ بھائی منتیں کرے گا کہ اقبالاں خاندان کی عزت ہے۔ وہ اتنے سالوں سے اس کے انتظار میں بیٹھی ہے۔
اس کے دل سے جیسے نفرت کی چنگاریاں پھُوٹ نکلیں۔
’’خود غرض ہو تم لوگ۔ اپنے اپنے مفاد نظر آتے ہیں تمہیں۔
وہ پوری قوت سے جیسے دھاڑا۔
میرے لئے کوئی نہیں سوچتا کہ اس کے لئے اسی کے معیار کی ساتھی چاہئیے۔ ذہنی وابستگی کے بغیر زندگی کیسے گزرتی ہے ؟ جسے آنکھیں دیکھنا گوارا نہیں کرتیں اسے دل کیسے قبول کرے ؟‘‘
مگر اس شوریدہ سرخاندان کے لئے اس کا دل کیا اہمیت رکھتا تھا؟یلغار زبردست تھی۔ اس کا ذہن ماؤف اور اعصاب جواب دے گئے۔ سارے خواب چکنا چور ہو گئے اور زندگی کی بساط پر بازی اُلٹ گئی تھی۔
اور جب دیگیں چڑھنے لگیں۔ رات کے کھانے کے لیے گاؤں والوں کو دعوت بھیج دی گئی تو وہ موقع پا کر بھاگ نکلا تھا۔
وہ گاؤں سے نہیں بھاگا۔ اس شہر سے بھی بھاگ گیاجس کی ایک ایک اینٹ سے اُسے پیار تھا۔ اس مُلک کو بھی چھوڑ گیا جس کے اس پر بہت سے احسان تھے۔ اپنوں سے دُور بیگانوں کے درمیان، مانوس جگہوں سے کوسوں پرے، ان دیکھی اور ان جانی سرزمین پر اسے سکون کا احساس ہوا تھا، شاید اس لئے کہ وہ اپنائیت کا زخم خوردہ تھا۔
ایک سال، دو سال، تین سال اور پھر پانچ سال گزر گئے۔ ماں جی کی آنکھوں سے آنسو نہیں خون ٹپکا تھا۔ تلاش میں کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی۔ اس کے ایک دوست کی منت سماجت کی تو پتہ چلا کہ وہ افریقہ کی طرف چلا گیا ہے اور افریقہ کون جاتا؟
ماں نے مصلیٰ بِچھا لیا۔ رات جب گہری ہو جاتی آسمان پر ستاروں کی محفل سج جاتی تو وہ جیسے اپنے خالق سے باتیں شروع کر دیتیں۔
’’مولا۔ میں نے کیا بُرا کیا؟ بِن ماں باپ کی بچی کو کہاں دھکّا دیتی؟تُو نے اسے بنایا تو نصیب اچھا کیوں نہ لگایا؟بیٹا چلا گیا ہے۔ میں نے اسے جہنم میں جھونک دیا ہے یا وہ مجھے دوزخ میں دھکّا دے گیا ہے اس کا فیصلہ تُو کرنے والا ہے۔ میرے گُناہ اور خطائیں معاف کر اور بیٹے کی شکل مجھے دِکھلا۔‘‘
آہ زاریاں کب تک رنگ نہ لاتیں۔ پیدا کرنے والے نے اپنے بندے کے غلط فیصلوں اور غلطیوں کو معاف کر دیا تھا۔ پورے دس سال بعد وہ لوٹا تھا۔ ماں نے سینے سے لگایا بہنوں بھائیوں نے خوشی کے آنسو بہائے۔
وہ لاکھوں پونڈ کما کر لایا تھا۔ گاؤں میں اس نے اراضی خریدی اور شہر میں کھاد کا چھوٹا پلانٹ لگایا۔ اقبالاں کو وہ اپنے ساتھ شہر لے آیا تھا۔ زمین سونا اُگلنے لگی اور پلانٹ نے پیسے کی بارش کر دی۔
پہلے سال بیٹی ہوئی۔ دوسرے سال بھی بیٹی۔ دونوں بچیاں صحت مند اور خوبصورت تھیں۔ بیوی کو تاکید تو تھی کہ نک سک سے آراستہ پیراستہ رہے پر پینڈو پُنے کی ٹبّے کھائیاں کچھ اتنی گہری تھیں کہ تعلیم و تربیت کی گہری بھرائی کے بغیر بات کہاں بنتی؟ جھُول اتنے پڑے رہتے کہ اس کی نظروں کے سامنے آتے تو ہوک سی دل میں اُٹھتی۔
اُس کی کاروباری مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔ ایک شام وہ کِسی دوسرے شہر سے لَوٹا۔ شام ہو چکی تھی۔ وہ تھکا ہوا تھا۔ بیڈروم میں آ کر لیٹ گیا۔
اقبالاں کو اس کی آمد کی خبر نہیں تھی۔ وہ ملحقہ بیڈ روم میں کِسی سے باتیں کر رہی تھی۔ آوازیں اُونچی اور صاف تھیں۔ دوسری آواز بیگم قاسم کی تھی جن کی فیملی کے اُن لوگوں سے اچھے مراسم تھے۔ اُس نے سُنا بیگم قاسم کہہ رہی تھیں۔
’’بھابھی آپ ڈاکٹر کو دِکھائیں چھوٹی تہمینہ بھی اب بڑی ہو گئی ہے۔‘‘
’’کہتے ہیں دولت عورت کا مقدر ہوتی ہے اور اولاد مرد کا۔ میرے بخت کا جہاں
تک تعلق ہے وہ عروج پر ہے مگر اولاد کے لیے اگر ظہیر کی قسمت یہی ہے تواس میں میرا کیا دوش؟دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹا بھی تو ہو سکتا تھا۔‘‘
ظہیر جیسے دم بخود رہ گیا تھا۔ اقبالاں کے لب و لہجے اور انداز میں کتنا تکبّر اور نخوت تھی؟
تو یہ چِب کھڑبّی اِس سب کو اپنا بخت سمجھتی ہے۔ میری محنت، دن رات کے خون پسینے سے کمایا ہواسرمایہ، میری دلچسپی، لگن، کاروباری ذہانت و فراست اور خدا کی عنایت، اُس کی نظر کرم کِسی کھاتے میں نہیں۔ بیٹا نہیں ہے۔ قصوروار میں ہوں خوب!میں تو اِس پر سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ بڑی زہر خند ہنسی اس کے ہونٹوں پر اُبھری تھی۔
لاہور میں چالو حالت میں ایک کیمیکل فیکٹری کی خریداری میں تین چار دن تک بڑا اُلجھا رہا۔ ذرا فارغ ہوا تو سروسز اسپتال گیا جہاں اس کا گہرا دوست ڈاکٹر منظور تھا۔ فسٹ فلور کی آدھی سیڑھیوں پر ہی تھا کہ دوائیوں کا بیگ ہاتھ میں پکڑے وہ اُسے نظر آیا۔ وہ رُک گیا۔
’’کہیں جا رہے ہو کیا؟‘‘ ظہیر نے پوچھا تھا۔
’’ہاں یار ایک مریضہ کو دیکھنے جانا ہے۔ چلو گاڑی میں باتیں کریں گے۔‘‘
تنگ سی ایک گلی کے پاس ڈاکٹر نے گاڑی رکوائی۔ ظہیر نے اسے لاک کیا۔ ڈاکٹر منظور نے دواؤں کا بیگ ہاتھ میں پکڑ کر اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دو گلیاں پار کرنے کے بعد تیسری گلی میں پہلے دروازے پر ڈاکٹر منظور نے دستک دی۔ غالباً کوئی انتظار میں تھا۔ بھاگ کر دروازہ کھولا گیا۔ ظہیر نے دیکھا ان کے سامنے ایک نو عُمر لڑکی گھبرائی ہوئی کھڑی تھی۔
’’کیسی طبیعت ہے اماں جی کی؟‘‘ منظور نے پوچھا۔
’’بہت سخت دورہ پڑا ہے۔‘‘
چھوٹے سے صحن، چھوٹے سے برآمدے اور چھوٹے سے کمرے والا گھر تھا مگر معلوم نہیں گھر کشادہ اور نِکھرا نِکھرا کیوں محسوس ہو رہا تھا؟ظہیر کُرسی پر بیٹھ گیا تھا اور منظور مریضہ کے معائنے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ گھر میں سلیقہ اور صفائی تھی۔ نہایت معمولی سامان اس طریقے سے رکھا گیا تھا کہ اس سے نہ تو جگہ کی تنگی کا احساس ہوتا تھا اور نہ وہ نظروں کو بُرا لگتا تھا۔ لڑکی لانبے قد اور دُبلے پَتلے جسم کی تھی۔ شکل اچھی تھی۔ گھر میں خوشحالی ہوتی تو یقیناً بہت خوبصورت ہوتی۔ آنکھیں سیاہ چمکدار اور موٹی موٹی تھیں۔
ڈاکٹر منظور انجکشن اور دوائی کے بعد ظہیر کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ ظہیر کی آنکھوں میں استفسارمحسوس کرتے ہوئے وہ بولا۔
’’دمہ کی مریضہ ہے۔ اصل میں موسم کا ذرا سا اُلٹ پھیر اس بیماری میں عذاب بن جاتا ہے۔ آج کل موسم بہت گرم ہے۔ کمرے کی نیچی چھت بہت جلدی تَپ اُٹھتی ہے اور مریضہ کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔ دو لڑکیاں ہیں۔ ایک شادی شُدہ ہے۔ اس کے ڈھیر سارے بچے ہیں۔ دوسری یہ عذرا ہے۔ میٹرک جوں توں کر کے کِیا۔ ماں مشین چلاتی اور یہ اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ مسلسل محنت اور پریشانیوں نے اسے چارپائی پر ڈال دیا۔ عذرا ہمت والی لڑکی ہے۔ ٹیوشنز سے ایم اے تک پڑھ بیٹھی ہے۔ احمد کی کلاس ٹیچر ہے۔ پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ میں طاہرہ سے ملاقات ہوئی۔ کچھ تعلقات بن گئے تو ہم نے بھی تھوڑا خیال رکھنا شروع کر دیا۔
اصل میں یار اس کمرے میں ائیر کنڈیشنر لگنا چاہئیے۔ اس کے بغیر مریضہ کی حالت سُدھرنی بہت مشکل ہے۔‘‘
’’یار تم نے کبھی ذکر ہی نہیں کِیا وگرنہ یہ کونسا مسئلہ تھا؟کل ہی لگ جائے گا۔‘‘
عذرا نے دونوں کے آگے تپائی رکھی۔ شربت کی ٹرے اور گلاس رکھے۔ بہت لذیذ شربت تھا۔ ظہیر نے پوچھا تو ڈاکٹر منظور نے کہا۔
’’کیوں عذرا شربت بازار کا ہے یا گھر بنایا ہے ؟‘‘
’’میں نے خود تیار کیا ہے۔‘‘
اور جب وہ واپس آ رہے تھے ڈاکٹر منظور نے کہا۔
’’شریف النفس سے لوگ ہیں۔ ہاں یار۔ اس لڑکی عذرا کا خیال رکھنا۔ اگر کوئی معقول برسرِ روزگار لڑکا ہو تو بتانا۔ اِس کی ماں کی جان اِس لڑکی کی شادی میں بھی اٹکی ہوئی ہے۔ لڑکی بھی بہت اچھی ہے۔‘‘
مگر ظہیر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چُپ چاپ وِنڈ سکرین سے باہر دیکھتا رہا۔ اور جب اسپتال کے کمپاؤنڈ میں گاڑی رُکی اور منظور نے ظہیر سے باہر آنے کے لیے کہا تو وہ بولا۔
’’نہیں۔ اب چلتا ہوں۔ پھر کِسی وقت آؤں گا۔‘‘
اور جب وہ گاڑی ریورس کر رہا تھا منظور نے ذرا سا آگے بڑھ کر کہا ’’بھئی وہ اے سی بھول مت جانا۔‘‘
اگلے دن کوئی پانچ بجے اس نے منظور کو فون کر کے بتایا کہ اس کے آدمی اے سی لگا آئے ہیں مگر ایک نظر وہ خود دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ اس کے پاس آ جائے تاکہ اکٹھے چلیں۔
مگر منظور نے جانے سے معذرت کی کہ وہ اس وقت فارغ نہیں۔ ’’یار ذرا ہمت کرو اور چکر لگا آؤ۔‘‘
شام ڈھل گئی تھی۔ چراغ بس تھوڑی دیر میں جَلا چاہتے تھے جب وہ عذرا کے گھر میں جب داخل ہوا تھا۔ چارپائی پر نیم دراز اس کی ماں کی حالت کل سے بہتر تھی۔ اس نے سلام کیا۔ معمر عورت نے اسے اپنے قریب بِٹھایا۔ اس کے شانوں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔ لیکن اس نے محسوس کیا عذرا بہت پریشان ہے۔ خاتون نے اس سے گھرداری کے بارے میں سوالات کئے اور یہ جاننے پر کہ اس کے ہاں اولاد نرینہ نہیں اس نے اُمید بھرے لہجے میں کہا تھا۔
’’خدا کے ہاں کِسی چیز کی کمی نہیں۔ وہ تم جیسے دریا دل لوگوں کو بہت دے گا۔‘‘
اس نے شربت پیا اور جانے کی اجازت چاہی۔ اُٹھنے سے پہلے اس نے ایک لفافہ عورت کے تکئے کے نیچے رکھنا چاہا مگر عذرا نے آگے بڑھ کر اسے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ جس سرعت سے وہ گھر سے نکلنے لگا اسی سرعت سے وہ اس کے پیچھے لپکی۔ برآمدے میں وہ رُک گیا۔ عذرا اس کے عین سامنے کھڑی تھی۔ اس کی چمکتی آنکھوں میں گہرا اضطراب تھا۔ بڑی مدھم اور شکستہ سی آواز میں وہ بولی۔
’’میری عدم موجودگی میں آپ کے آدمی اے سی لگا گئے وگرنہ میں لگنے نہ دیتی۔ آپ میری بات کا بُرا نہ منائیں۔ ہم جیسے لوگوں کے پاس عزتِ نفس کے سِوا اور ہے ہی کیا۔
وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ساٹھ کلو واٹ کے بلب کی روشنی میں اس کا چہرہ اور بھی زرد لگ رہا تھا۔ اس کی چمکتی خوبصورت آنکھوں میں اضطراب اور بے چینی موجزن تھی۔ ایک پَل کے لیے ظہیر اسے دیکھتا رہا۔ پھر ٹھہری ہوئی آواز میں بولا۔
’’میرے پاس دولت خدا کی امانت ہے جسے کِسی بھی غرض مند انسان پر صَرف کرنا گویا اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ آپ لوگوں کا ذرا سا دُکھ بانٹ کر مجھے جو خوشی اور سکون مِلا ہے کیا آپ مجھے اس سے محروم کرنا چاہیں گی؟‘‘
وہ گُم صُم کھڑی سُن رہی تھی۔ اس نے چلنے کے لئے قدم اُٹھائے تو وہ جیسے چونکی۔
’’مگر اس کی تو قطعی ضرورت نہیں۔ میری تنخواہ ہمارے لئیے کافی ہوتی ہے۔‘‘ اُس نے لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں‘‘ ۔ اس نے نرمی اور شفقت سے کہا۔
اس کا اصرار واپسی پر تھا۔ غیر اردی طور پر اس نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر پیسوں کا لفافہ ان میں بند کرتے ہوئے کہا۔
’’میں تم سے بہتر جانتا ہوں کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے یا نہیں !‘‘
وہ بوکھلا سی گئی۔ چُپ چاپ اس نے لفافہ پکڑ لیا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر وہ رُکا اور بولا۔
’’اگر میں تھوڑا سا شربت اپنے لئے بنوانے کی فرمائش کروں تو۔ ۔ ۔ ۔‘‘
’’ارے۔ وہ جیسے کھِل اُٹھی۔ آپ کو اتنا پسند آیا ہے میں ضرور بنا دوں گی‘‘ اور اس کے جانے کے بعد وہ دروازے کی کُنڈی ہاتھوں میں پکڑے کتنی دیر تک وہاں کھڑی صرف یہ سوچتی رہی کیا کچھ لوگوں میں دولت کے باوجود دل زندہ رہتا ہے ؟
اگلے دن وہ اپنی خرید کردہ فیکٹری کے دفتر میں بیٹھا منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔ پروجیکٹ مینیجر نے فون پر اطلاع دی کہ یوریا پلانٹ کی گیس لِیک کر گئی ہے اورپلانٹ بند ہو گیا ہے۔ وہ لاہور کے سارے معاملات چھوڑ کر ساہیوال چلا گیا۔ پلانٹ کو دوبارہ چالو کرنے میں کافی دن لگے۔ فارغ ہو کر پھر آیا۔ کچھ ضروری کام نپٹائے۔ شام کو وہ ڈاکٹر منظور سے ملنے اس کے گھر گیا۔ ایک لڑکی اور باداموں کا شربت اسے کئی بار یاد آیا تھا۔
ڈاکٹر منظور اور اس کے بیوی بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے جب وہ ان کے ہاں پہنچا۔ طاہرہ اور بچوں نے اسے دیکھ کر بہت شور مچایا۔ طاہرہ چائے بنانے چلی گئی اور بچے ٹافیاں کھانے میں جُت گئے جب ظہیر ڈاکٹر منظور سے مخاطب ہوا۔
’’یار تم نے عذرا کے لیے کِسی لڑکے کا کہا تھا۔‘‘
’’ہاں‘‘ منظور سکرین سے نظریں ہٹا کر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’لڑکا نہیں ایک مرد ہے میری نظر میں۔‘‘
’’کون ہے ؟کیسا ہے ؟کام وام کیا کرتا ہے ؟تعلیم کتنی ہے ؟‘‘ اس نے ڈھیر سارے سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے تھے۔
ظہیر نے نہایت سکون سے سگریٹ جلایا۔ تیلی ایش ٹرے میں پھینکی۔ نشست سیدھی کی۔ لمبا کَش لیا اور بولا۔
’’بھئی وہ میں ہوں۔‘‘
’’ارے یار۔‘‘ منظور نے زور سے ہنستے ہوئے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
’’داد دیتا ہوں تیرے فیصلہ کی۔ بھابھی تو یوں بھی پچاس سے اوپر کی ہو چکی ہیں۔‘‘
’’منظور یہ عمر والی تو کوئی بات نہیں۔ زندگی کا خوبصورت ترین حصّہ اس کے ساتھ نتھی ہو کر جلنے اور اپنا خون آپ پینے میں گزار دیا۔ اب تو خیر بڑھاپے کی آمد آمد ہے۔ ہاں ایک کسک اور محرومی سی ہے جو اکثر پریشان رکھتی ہے سوچتا ہوں غریبانہ مزاج کی یہ لڑکی شاید میرے زخموں کے لیے پھاہا ہی بن جائے۔‘‘
’’میں عذرا کی ماں سے بات کرتا ہوں۔ یوں بھی ظہیر تمہاری لمبی چوڑی جائیداد کے سلسلے ایک بیٹے کے ضرورت مند تو ہیں نا۔‘‘
’’چھوڑو بھائی اس پر میں نہیں سوچتا۔‘‘
چند دن بعد ایک شام منظور کا فون آیا۔ ظہیر سے اس نے کہا ’’تم آج شام ذرا عذرا کے ہاں جانا۔‘‘
ظہیر ابھی اس سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ بات چیت کا کیا نتیجہ نکلا ؟مگر فون منقطع ہو گیا۔ اس نے چند بار کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ ’’بہر حال شام کو دیکھا جائے گا‘‘ کہتے ہوئے وہ کام میں مصروف ہو گیا۔
چلنے لگا تو بارش شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر انتظار میں بیٹھا کہ بارش ختم ہو تو چلے مگر وہ اور تیز ہو گئی۔ رین کوٹ پہن کر اس کے گھر جا پہنچا۔ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ ذرا سا دھکّا دیا کھُل گیا۔ ٹین کی چھت والا برآمدہ بارش کی بوندوں سے بے ہنگم شور مچا رہا تھا۔
باورچی خانے میں عذرا چولہے کے آگے پیڑھی پر بیٹھی تھی۔ سیاہ کھُلے بال جیسے سیاہ شیش ناگوں کی طرح زمین کر کُنڈلیاں مارے بیٹھے تھے۔ یہ ایک حیرت انگیز سا منظر تھا۔ اتنے لمبے بال اُس نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ دال اُبل کر ہنڈیا سے باہر گِر رہی تھی اور لکڑیاں شُوں شُوں کرتی بُجھتے ہوئے کسیلادھُواں چھوڑ رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھا اور کچن میں دھرے موڑھے پر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ چونک کر عذرا نے دیکھا اورسٹپٹاتے ہوئی بولی۔
’’آپ یہاں کِس لئے بیٹھ گئے۔ اندر بیٹھئے نا۔ یہاں حبس ہے۔‘‘
’’تم بھی تو حبس میں بیٹھی ہو۔‘‘ وہ بغور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’میں تو عادی ہوں۔‘‘ عذرا نے لکڑیوں کو چولہے کی دیواروں سے پٹخکتے ہوئے کہا۔ سُلگتے ہوئے حصّے جھَڑ گئے اور آنچ تیز ہو گئی تھی۔ ہنڈیا اُس نے اُتار لی۔
’’میں بھی منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔‘‘
دونوں چُپ ہو گئے تھے۔ چھوٹے سے باورچی خانے میں پوئزن کی بھینی بھینی خوشبو سی پھیل گئی تھی۔
باہر بارش برس رہی تھی بادل چنگھاڑ رہے تھے۔
’’ڈاکٹر منظور نے فون کیا تھا کہ عذرا کوئی بات کرنا چاہتی ہے کہو۔‘‘
’’میں اگر آپ کی محرومیوں کی تلافی کر سکوں تو اس سے بڑھ کر میرے لئے خوشی
کی بات اور کیا ہو سکتی ہے مگر‘‘ وہ چُپ ہو گئی۔
’’مگر کیا؟‘‘ ظہیر نے بات کاٹ دی تھی۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ عذرا کے چہرے پر جذبات کی کشمکش تھی۔ آنکھوں میں دُکھ تھا۔ اس کے ہونٹ لرزے اور سر جھُک گیا وہ بہت دھیرے سے بولی۔
’’میں اگر آپ کو بیٹا نہ دے سکی تو؟‘‘
ظہیر کے سارے جسم میں خفیف سا ارتعاش ہوا۔ چہرے کے رنگ بدلے اگلے ہی لمحے وہ کہہ رہا تھا۔
’’میرے پاس کونسا تختِ طاؤس ہے جس کے وارث کا ہونا ناگزیر ہے۔ اصل میں عذرا معاشرتی سوسائٹی کا ڈھانچہ کچھ اس ڈھب کا بن گیا ہے کہ اس میں بیٹے کو اوّلیت دے دی گئی ہے۔ یوں بھی انسانی فطرت ہے کہ جس چیز کی محرومی ہو اس کی کسک زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ مجھے تو بہت سی محرومیاں ہیں۔ ایک اچھی، پیاری اور مخلص بیوی کی بھی شدید تمنا ہے۔‘‘
وہ تو شادی کی خبر کو چھُپانے کا قائل نہ تھا مگر طاہرہ اور ڈاکٹر منظور کے اصرار پر خاموش ہو گیا۔
’’چُپ رہو۔ شور شرابے سے جب تک بچ سکتے ہو بچو۔ تمہارا تو خاندان اوّل نمبر سازشی ہے۔‘‘
عذرا اپنی ماں سمیت خوبصورت گھر میں رہنے لگی۔ زندگی کی آسائشیں اس کے قدموں میں ڈھیر ہو گئیں۔ چہرے کی زردیاں سُرخیوں میں بدل گئیں۔ بہت خوبصورت نکل آئی تھی۔ دس ماہ بعد ایک خوبصورت بیٹا بھی آ گیا۔ ظہیر ساہیوال گیا ہوا تھا واپس آیا تو بیٹے کا
پتہ چلا۔ عذرا سروسز اسپتال میں تھی۔ یہ ایسا پُرمسرت واقعہ تھا کہ ڈاکٹر منظور سے گلے مِلتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
زندگی کی ہر خواہش پوری ہو گئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ظہیر کی صحت قابلِ رشک ہو گئی تھی۔ ایسی دلآویز شخصیت تھی کہ مِلنے جُلنے والے حیرت سے کہتے۔
’’ظہیر تو روز بروز جوانی کی طرف قدم اُٹھا رہا ہے۔ ریورس گئیر لگ گیا ہے تجھے تو۔‘‘
تین سال میں تین بیٹے ہو گئے۔ عذرا ہر بیٹے پر پہلے سے زیادہ سمارٹ اور دلکش ہو رہی تھی۔
وہ ساہیوال اور لاہور میں اپنے دن بانٹ کر رہتا۔ جب بھی ساہیوال سے آتا عذرا کھُلے دل اور ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹوں سے اسے خوش آمدید کہتی۔ کبھی کبھی وہ بڑی جذباتی آواز میں کہتا۔
’’میرا جی چاہتا ہے عذرا خود کو تمہارے وجود میں گُم کر لوں۔ اصل میں بچیاں بڑی ہو گئی ہیں۔ مناسب نگرانی کی ضرورت ہے۔ اسی لئے مجھے ساہیوال بھاگنا پڑتا ہے۔‘‘
بڑی بچی پندرہ سال کی ہو رہی تھی اور چھوٹی چودہ کی۔ چھوٹی کے لیے پھوپھی اپنے بڑے بیٹے کے لیے خواہشمند تھی۔ لڑکا ایرفورس کی جی۔ ڈی پائلٹ برانچ کے لئے سلیکٹ ہو گیا تھا۔ نمبر دو بہن آسیہ انجینئرنگ میں پڑھتے بیٹے کے لیے کئی بار کہہ بیٹھی تھی۔
اِس بار ظہیر ساہیوال آیا تو بڑی بہن اور بہنوئی دونوں نے فون پر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے آنے کا کہا۔ وہ منگنی کی رسم ادا کرنے کے لیے بضد تھی۔
اگلے دن دونوں میاں بیوی آ دھمکے منگنی کی تفصیلات طے کرنے۔ وہ منگنی کی رسم ادا کرنے کے لیے بضد تھے۔ ظہیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ گھر کی بات ہے۔ پہلے انہیں پڑھ تو لینے دیجئیے۔‘‘
’’بھئی میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ مجھے اس کے بہت ارمان ہیں۔ ہاں آسیہ کو سمجھا دینا کہ وہ میرے مقابلے پر آنے کی کوشش نہ کرے۔
’’آپا جان!اگر وہ بھی دھوم دھام سے منگنی کرنا چاہیں گی تو بھلا مجھے کیا انکار ہو سکتا ہے ؟‘‘
’’ظہیر دیکھو اِن لوگوں نے ہمیں مصیبت میں ڈال دینا ہے۔‘‘
کیسی مصیبت؟
ظہیر نے حیرت سے پوچھا۔
ابھی ظہیر کا جملہ پورا ہی ہوا تھا کہ جب آسیہ اور اُس کا شوہر بھی آ دھمکے۔ ظہیر کھلکھلاتے ہوئے اُٹھا اور بولا۔
’’بڑے موقع سے آئے ہیں۔ ابھی آپ ہی کا ذکر تھا۔‘‘
’’یہ اپنا لُچ تَل رہے ہوں گے۔ نمبر ٹانکنے کی تو انہیں سدا سے بیماری ہے۔ دیکھو ظہیر یہ کہنے کو میرا بھائی ہے مگر ہے اوّل نمبر کا حاسدی اور لالچی۔‘‘
پَل نہیں لگا تھا جیسے طبل جنگ بج جائے۔ گولہ باری شروع ہو گئی۔
’’ظہیر تمہارے لئیے بہتر ہو گا کہ تم جائیداد کا تصفیہ کر دو۔ ہم ان کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔‘‘
وہ تو کنگ سا بیٹھا تھا۔ پَل پَل اُسے جیسے الیکٹرک شاک لگ رہے تھے۔ اُن کی اندرونی خباثتوں سے وہ اتنا ناواقف تو نہ تھا مگر وہ یوں کھلّم کھلّا سامنے آئیں گی اِس کا اُسے اندازہ نہیں تھا۔
اب ایک اور منظر بھی کہیں پیچھے سے اُٹھ کر نمایاں ہوا۔ وہ دیکھتا تھا اُس کے تینوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں ایک دوسرے کے مقابلے پر صف آرا تھے۔
اِس نئے تصوراتی منظر نے اُسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔
بڑے تدبّر اور بُردباری سے اُسنے صورتِ حال کو سنبھالا اور سب کو رُخصت کیا۔
پر اگلے دن جب وہ اپنے وکیل کے پاس بیٹھا اپنی جائیداد کا تین چوتھائی حصّہ ویلفیئر اور چیریٹی ٹرسٹ کے حوالے کرتے ہوئے کہتا تھا۔
میاں محمد بشیر اور میاں محمد نذیر کو میری ساری جائیداد کی تفصیل سے مطلع کر دو۔ مجھے اپنے بچوں کو علم سے مزین کرنا اور انہیں دُنیا کے صحرا میں دھکیل دینا ہے بس۔
٭٭٭
آپشن
یہ رشتہ کیا آیا تھا حمیدہ بیگم کے لئے سوچوں کا دروازہ کھُل گیا تھا۔ ظفر احمد رشتے میں اس کا بھتیجا لگتا تھا۔ اُونچا لمبا، خوبصورت، چھوٹے سے ذاتی کاروبار پر کھڑا۔ پھر کوئی غیریت نہیں تھی رشتے داری تھی پر ایک بھج سی بھی چمٹی ہوئی تھی ساتھ جیسے گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔
بائیں ہاتھ کی چار اُنگلیاں پیدائشی غائب تھیں۔ بس یہی وہ سوچ تھی جس نے حمیدہ بیگم کو اُلجھن میں ڈالا ہوا تھا۔ پانچ بھائیوں کی لاڈلی دو بہنیں تھیں اس کی بیٹیاں۔ صورت میں اچھی پر سلیقے میں بہت اُونچی۔
یوں بھی ان دِنوں حمیدہ کی نظریں اپنے حقیقی بھانجے پر تھیں۔ قرائن سے لگتا تھا کہ وہ بھی نسیمہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ظفر کی ماں اس کی رشتے میں بھاوج تھی اور وہ ان دِنوں ان کے گھر ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔ اس نے تو بغیر کِسی لگی لپٹی کے کہہ دیا تھا۔
’’دیکھو حمیدہ، نسیمہ کا رشتہ لئے بغیر میں نہیں ٹلوں گی۔ بس مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹانا۔‘‘
’’ارے دیکھو نا بھابھی، بڑے لڑکوں کو آنے دو۔ ان سے مشورہ تو ضروری ہے۔ سائیں سر پر ہو تو عورت من مانی کر سکتی ہے، پر رنڈی عورت بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے۔ آپ مجھے تھوڑا سا وقت تو دیں نا۔‘‘
ظفر کی ماں مُصر تھی۔ حمیدہ بیگم نے ایک دو بار دبے لفظوں میں اس کے ہاتھ کا بھی تذکرہ کر دیا تھا اور بھاوج نے یوں اُچھل کر کہ جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو کہا۔
’’ارے خدا سے ڈرو بیبی کوئی دیر لگتی ہے اُوپر والے کو ٹانگنے میں۔ اس کا یہ کون سا عیب ہے۔ خاندانی، ماشاء اللہ سے خوبصورت، اپنا ذاتی کاروبار بے شک ابھی چھوٹا سا ہے پر آگے بڑھنے کا امکان تو ہے۔
حمیدہ بیگم نے اس کے تین دن رہنے اور بے شمار منتیں کرنے پر بھی رشتے کے لئے حامی نہیں بھری تھی۔ بس بیٹوں کی آڑ لیتی رہی۔ نتیجتاً چوتھے دن وہ مایوس سی گھر لوٹ آئی۔ بیٹے کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے بائیں ہاتھ کو چومتے ہوئے وہ نم آنکھوں سے بولی۔
’’پُتر بس تیرا یہ ہاتھ تیرا عیب بن گیا ہے۔ بے شک حمیدہ نے کھُل کر نہیں کہا پر بیٹا میں نے یہ چونڈہ اب دھوپ میں تو سفید کیا نہیں۔‘‘
اس نے بہت لمبی سانس بھری۔ پھر گُم سُم پلنگ پر بیٹھے بیٹے کو دیکھا اور بولی۔
’’تُو کیوں دل ہلکا کرتا ہے ؟ تیرے لئے رشتوں کی کیا کمی ؟بس مجھے حمیدہ کی لڑکی یوں بہت پسند تھی کہ وہ سلیقہ مند ہے۔ پر خیر اچھی لڑکیوں کا کوئی کال نہیں۔ تیرے لئے میں زمین آسمان ایک کر دوں گی اور ایسی لڑکی لاؤں گی کہ حمیدہ بیگم ایک بار تو دل میں کہے گی کہ یہی وہ لڑکا ہے جسے میں نے دھتکارا تھا۔‘‘
ظفر احمد بہت حساس نوجوان تھا۔ اس نے نسیمہ کو ایک بار کہیں شادی میں دیکھا تھا۔ بس اچھی تھی۔ اس کی ماں نے جب اس سے شادی کے بارے میں پوچھا اور نسیمہ کا نام لیا تو وہ بولا۔
’’امّاں آپ بہتر سمجھتی ہیں۔ میں کیا کہوں ؟‘‘
لیکن اُسے اس بات کا ایک فی صد بھی گُمان نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ اس کے لئے اتنی بڑی گالی بن جائے گا اور اس کی ہر خوبی اس معمولی سے کج کے آگے ماند پڑ جائے گی۔ اُسے یوں لگا جیسے چلتے چلتے لمبی نوکیلی سولوں نے تلووں کو زخمی کر دیا ہے۔ چبھن اور کسک ہلکان کئیے دے رہی تھی۔
امّاں کو بھی ایک ضد سی ہو گئی تھی۔ ساری برادری کے گھروں کو چھان مارا تھا اور پھر نائلہ کو کھوج لائی جو چندے آفتاب اور چندے ماہتاب تھی۔ سچی بات ہے کہ اس نے گھونگھٹ اُٹھایا اور اُسے دیکھ کر اپنے مقدر پر آپ رشک کیا۔ پر وہ کٹی انگلیوں والا ہاتھ بس چھُپاتا پھرا۔ چند دنوں بعد ایک دن اس نے نائلہ سے کہا۔
’’تمہیں میرا یہ ہاتھ بد نما تو نہیں لگتا۔‘‘
’’میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔‘‘ عجیب سی شان بے نیازی تھی اُس کے انداز میں۔
پر چند دِنوں میں ہی اُسے احساس ہو گیا کہ وہ شکل و صورت کے معاملے میں جتنی امیر ہے ذہن کے معاملے میں اتنی ہی غریب ہے۔ لمبی چوڑی سوچ تھی ہی نہیں اُس کے پاس۔ بس اچھا کھاتی اچھا پہنتی اور خوب سوتی۔
ان دنوں ابھی وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔ وہ اس کے گھر والوں کے پاس ہی رہتی تھی۔ ویک اینڈ پر وہ گھر چلا جاتا۔ نئی نویلی دلہنوں والا تپاک اس میں نظر نہ آتا۔ وہ کہیں آنگن میں یا اس کی کسی بہن بھاوج کے ساتھ باتوں میں مصروف یا اپنے کمرے میں سو رہی ہوتی۔ اُسے دیکھ کر مُسکراتی ضرور پر انداز میں والہانہ پن، اُس سے دُور رہنے پر محبت بھری خفگی کا اظہار قطعی مفقود ہوتا۔
اس کا جی چاہتا وہ پوچھے کہ تمہیں معلوم نہیں تھا کہ آج میں نے آنا ہے۔ تمہیں میرا انتظار نہیں تھا۔ تم نے کمرہ بھی اہتمام سے نہیں سنوارا۔ کیا تم مجھے پُر تپاک انداز میں خوش آمدید نہیں کہنا چاہتی تھیں۔
پر وہ یہ سب چاہتے ہوئے بھی نہ پوچھ پاتا۔ یوں جب وہ اس کے گلے لگتی اور پیار بھری باتیں کرتی۔ اُسے ہنس ہنس کر ہفتے بھر کے قصّے کہانیاں سُناتی تب وہ ہر تلخی بھول جاتا۔ محبت سے اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھام کر کہتا۔
’’بس میں مکان کی تلاش میں ہوں۔ جوں ہی مجھے مِلا تم میرے پاس ہو گی۔‘‘
ماں نے اس کے کانوں میں یہ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اُسے زیادہ ڈھیل نہ دے۔ وہ ان عورتوں میں سے نہیں ہے جو مردوں کی خون پسینے کی کمائی سینت سینت کر گھر بناتی ہیں، بلکہ یہ عورتوں کی وہ قسم ہے جو گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو سرائے میں بیٹھا سمجھتی ہیں۔ زبان کا چٹخارہ اور آرام طلبی انھیں مرد کی محنت کی کمائی کی قدر کرنا نہیں سِکھاتی، بلکہ وہ اُجاڑنے کا باعث بنتی ہیں۔ ماں اس کے پھوہڑ پن سے بھی نالاں تھی۔
وہ ان باتوں کا ا تنا نوٹس نہیں لے رہا تھا کیونکہ ابھی وہ دال روٹی کے بھاؤ میں نہیں پڑا تھا اور یوں بھی نیا نویلا عشق تھا۔ ویسے ماں کی اس بات سے وہ سو فی صد متفق ہو چُکا تھا کہ اُس میں سلیقہ، طریقہ نام کو نہیں۔
جب اسے رہائش کے قابل گھر مل گیا وہ نائلہ کو اپنے پاس لے آیا۔ نئے گھر میں آ کر اس نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو جان اتنے عرصے میں شاید تمہیں میری طبیعت کا کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا۔ میں نفاست پسند ہوں۔ روز مرّہ کی اشیاء کا یہاں وہاں پھیلاؤ اور بکھراؤ مجھے پسند نہیں۔ زندگی میں نظم و ضبط کے اصول اپناؤ۔ تمہارے وقت اور محنت دونوں کی بچت ہو گی۔‘‘
مگر وہ بھی اپنی عادت سے مجبور تھی۔ وہ تو ناشتہ چھوڑ کھانے بھی بازار کے چاہتی تھی۔ چند دنوں تک وہ اس کے ناز اُٹھاتا رہا۔ ایک دن کہہ بیٹھا۔
’’نائلہ گھر داری کو اچھے طریقے سے چلاؤ۔ بازار کے مسالوں والے کھانے کھا کھا کر تنگ آ گیا ہوں۔ میرا معدہ ٹھیک نہیں رہا۔‘‘
دو سال تک یہ گاڑی چلتی رہی۔ نائیلہ بیوقوف بیوی تھی، پھوہڑ تھی۔ حُسن پاس تھا پر اس خزانے سے یکسر لا علم تھی۔ بچہ بھی ابھی تک نہیں تھا۔ اس سے زبانی کلامی پیار کا اظہار کرتی پر جان کو تکلیف دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ سو رہی ہوتی اور ظفر خود ہی دودھ گرم کر کے ناشتہ بناتا اور کھا کر چلا جاتا۔ وہ اُٹھتی اور ٹھُسے سے ناشتہ کرتی۔ اس کے دل میں کبھی کبھی تاسف پیدا ہوتا سوچتی کہ اُسے صبح اُٹھ کر ظفر کو ناشتہ خود دینا چاہئیے۔ اگر ظفر کبھی کہہ دیتا تو جھٹ آگے سے کہہ دیتی۔
’’تو تم مجھے اُٹھا دیا کرو نا۔ اس میں آخر کیا بُرائی ہے ؟‘‘
مگر ظفر کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بیوی کو اتنا ذمہ دار ہونا چاہئیے کہ اس کی آنکھ شوہر کو وقت پر ناشتہ دینے کے لئے خود کھُلے نا کہ اُسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اُٹھایا جائے۔ وہ آنکھیں مَلتی ہوئی اُٹھے اور منہ بسورتی ہوئی ناشتہ بنائے۔
اب یہ کیسا اتفاق تھا کہ وہ ایک دن بازار میں سے گزر رہا تھا کہ اُس نے حمیدہ بیگم کو دیکھا جس کے ساتھ ان کی چھوٹی بیٹی تھی۔ ماں بیٹی کے ہاتھوں میں پکڑے لفافے بتاتے تھے کہ دونوں لمبی چوڑی خریداری میں مصروف ہیں۔ ظفر کے دل میں چُبھی پھانس جو وقت کے ہاتھوں مندمل سی ہو چکی تھی ایک بار پھر انہیں دیکھ کر ٹِیس دینے لگی۔ اس نے کنی کترا کر نکل جانا چاہا پر حمیدہ بیگم نے اُسے دیکھ لیا تھا۔ وہ تو لپک کر اس کے پاس آئی۔ اُسے بازو سے تھام لیا اور شوق سے سب کا حال احوال پوچھنے لگی۔
’’ارے تم یہاں کیسے ؟گھر میں سب ٹھیک تو ہیں۔ بھابھی کی صحت ٹھیک رہتی ہے ؟دیکھو ظفر رشتے ناطے تو اللہ کے اختیار کی بات ہے۔ انہیں مجھ سے بہت شکایت ہے۔ انہوں نے مجھ سے مِلنا چھوڑ دیا ہے۔ کبھی نہیں آئیں۔‘‘
ظفر کا جی چاہا کہ ایسی کھَری کھَری سُنائے کہ حمیدہ بیگم کو احساس ہو کہ اُس نے اُسے کتنا زخمی کیا ہے ؟پر اس کی طبیعت میں شروع ہی سے رواداری اور لحاظ تھا۔ وہ چُپ چاپ کھڑا ان کی باتیں سُنتا رہا۔ اب وہ اُس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کیا کام کرتا ہے ؟ کہاں رہتا ہے اور یہ کہ اس کے کتنے بچے ہیں ؟
اس نے اپنے بارے میں تفصیلی بتایا۔ اپنے کاروبار کا ذکر بھی خوب کیا۔ ایک پچھتاوا دینا مقصد تھا۔ اپنی تسکین تھی کہ اُسے ردّ کرنا کتنی بڑی غلطی تھی اور یہ بھی جتلانا تھا کہ دیکھو وہ انسان کاروباری صف میں کھڑا ہو کر کیسا قد آور ہو گیا ہے ؟
حمیدہ بیگم نے اُسے گھر چلنے کو کہا مگر اس نے شائستگی سے انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’اس وقت مجھے کام ہے میں نائلہ کے ساتھ پھر کِسی وقت حاضر ہوں گا۔‘‘ گھر کا پتہ اُس نے سمجھا اور رخصت ہوا۔
’’ضرور آنا میں انتظار کروں گی۔‘‘ حمیدہ بیگم نے آگے بڑھ کر پھر رُخ موڑتے ہوئے تاکید کی۔
کتنے دنوں بعد ایک دن شام کے وقت نائلہ کے ساتھ وہ اُن کے گھر گیا۔ نائلہ کو بہترین لباس اُس نے پہننے کو کہا اور خود بھی بہت اچھی طرح نک سُک سے آراستہ ہوا۔
یہ ایک کشادہ سا سیمنٹ کا بنا ہوا کوٹھی نما مکان تھا۔ یہ گھر حمیدہ بیگم نے کوئی دو سال ہوئے خریدا تھا۔ وہ گیٹ سے اندر داخل ہوا۔ تو سُرخ چمچماتے گملوں میں کھِلے پھولوں نے
اُس کا استقبال کیا۔ برآمدہ یوں لشکارے مارتا تھا کہ پلیٹ نہ مِلے تو چاول فرش پر ڈال کرکھالوجیسے محاورے کی سچائی یاد آ گئی تھی۔
بیلBell کی آواز پر حمیدہ بیگم باہر آئی۔ اُسے دیکھا خوش ہوئی۔ نسیمہ شمیمہ بھی آ گئیں۔ بڑا پُر تپاک خیر مقدم ہوا۔ دونوں میاں بیوی کو لے کر وہ لوگ بڑے کمرے میں آ گئے۔ بیٹھنے کے ساتھ ظفر کو احساس ہوا تھا کہ ایسا صاف ستھرا اور رکھ رکھاؤ والا گھر اس نے کہیں نہیں دیکھا۔ یہ ٹی روم تھا۔ دیواروں پر مِنی پلانٹ کی بیلیں سجی ہوئی تھیں۔ کمرے کا رنگ و روغن، صوفوں، پردوں اور میٹ کے رنگ آپس میں خوبصورت امتزاج کے حامل تھے۔
اس کی بیوی کے حُسن سے وہ سب بہت متاثر ہوئے تھے۔ نسیمہ کو اُس نے بغور دیکھا تھا وہ قبول صورت تھی۔ اس کی بیوی کے تو پاپاسنگ بھی نہ تھی۔
چائے آئی۔ چائے پیش کرنے کا سلیقہ، کھانے پینے کی چیزیں، کٹلری اور برتن سبھی اعلیٰ تھے۔ وہ جب ہاتھ دھونے کے لئے باہر آنگن میں آیا۔ صحن کے ایک طرف واش بیسن، اس پر رکھا صابن، سٹینڈ پر ٹِکا تولیہ سب چیزیں چَم چَم کرتی تھیں۔
اس کے دل سے اک ہوک سی اُٹھی اور سارے سریر میں پھنکارتی ہوئی لبوں پر آ کر دم توڑ گئی۔ اس نے ایسا گھر چاہا تھا۔ ایسی بیوی کی تمنا کی تھی۔ حُسن کے جلوے نظروں کو خیرہ ضرور کرتے ہیں پر ان کی مدت بہت عارضی ہوتی ہے۔ ان جلوؤں کے ساتھ اگر سیرت کی بُنیادی خوبیاں نہ ہوں تو ہرشے زہر لگنے لگتی ہے۔
ایک دو ملاقاتوں کے بعد نسیمہ کے بارے میں حمیدہ بیگم نے خود ہی بات کی تھی کہ وہ اس کے رشتے کے لئے پریشان ہے۔ بہن نے تو پرواہ بھی نہیں کی۔ بیٹے کا بیاہ بہت اُونچی جگہ کر لیا۔ یہ بھی کہا کہ ظفر کِسی اچھے لڑکے کا خیال رکھنا۔ یہ سب سُن کراس کے تپتے ہوئے اندر جیسے برف اُتر گئی۔ سارے بدن میں ٹھنڈ اور سکون دوڑ گیا تھا۔
’’تب تو ہوا میں تلواریں مارتی تھی۔ اب چکھو مزہ۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
اب دونوں گھروں میں آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ وہ گاؤں بڑے بھائی سے ملنے گیا۔ نائلہ کو چھوڑ گیا۔ حمیدہ بیگم کو جاتے ہوئے تاکید کرتا گیا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ جب چار دنوں بعد آیا تو گھر میں داخل ہوتے ہی اسے احساس ہوا کہ اس کا وہ کاٹھ کباڑ والا گھر چمک رہا ہے۔ اس نے ایک ایک شے کو غور سے دیکھا اور نائلہ سے پوچھا۔
’’یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا ؟‘‘
اور وہ بھی ہنستے ہوئے بولی۔
’’ارے ساری کارستانی نسیمہ اور شمیمہ کی ہے۔ دو دن رہیں۔ میں نے تو بہتیرا منع کیا مگر جب تک گھر ٹھیک نہیں کر لیا بیٹھی نہیں۔‘‘
’’دیکھو نائلہ تم بھی ایسے ہی گھر کو صاف رکھا کرو۔ مجھے صاف گھر بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’اچھا اب کوشش کروں گی۔‘‘
جواب میں کوفت اور بیزاری کی صاف جھلک تھی۔
نائلہ کا باپ بیمار تھا وہ اُسے دیکھنے جانا چاہتی تھی۔ اس نے گاؤں سے چھوٹے بھائی کو بُلایا اور اس کے ساتھ اُسے بھیج دیا۔ نائلہ کی عدم موجودگی میں حمیدہ بیگم نے اُسے خود کہا تھا کہ وہ کِسی قسم کی غیریت نہ برتے اور ان کے گھر کھانا کھائے۔ آخر رشتہ داریاں ایسے ہی دُکھ سُکھ کے لئے تو ہوتی ہیں۔ اس نے شروع میں تو ذرا تکلف سے کام لینا ضروری سمجھا مگر حمیدہ بیگم کے پُر خلوص اور چاہت بھرے اصرار پر آمادہ ہو گیا۔
اس گھر میں کھانا کھا کر عجیب سی سرشاری کا احساس ہوتا تھاجیسے آدمی کی روح خوشیوں اور مسرتوں کے پاتال میں گھومتی پھرے۔ جیسے وہ سارے غموں سے آزاد ہو۔ آٹھ بجے سب کھانا کھاتے تھے۔ دسترخوان بِچھ جاتا۔ گرم برتن، گرم گرم بھاپ اور خوشبوئیں اُڑاتا کھانا۔ روز وہ جاتے ہوئے موسمی پھلوں کا لفافہ لے جاتا۔ حمیدہ بیگم نے اس کی اس حرکت کا بُرا منایا۔ اس نے آہستگی سے کہا۔
’’اگر آپ ایسا کریں گی تو میں کھانا کھانے نہیں آؤں گا۔‘‘
نسیمہ بہت کم گفتگو میں حصّہ لیتی تھی پر اس وقت تیزی سے بولی۔
’’تو گویا آپ بدلہ اُتارتے ہیں۔‘‘
اس نے نگاہیں اُٹھائیں۔ اپنے سامنے بیٹھی نسیمہ کو دیکھا اور حسرت زدہ لہجہ میں بولا۔
’’کاش اُتار سکتا۔‘‘
حمیدہ بیگم کے پلّے تو پتہ نہیں کچھ پڑا یا نہیں پر نسیمہ کی آنکھیں اِن نگاہوں کی تاب نہ لا سکیں اور فوراً جھُک گئیں۔
پھر ایک دن اپنی ماں کے سامنے جیسے وہ پھٹ پڑا۔
’’ماں وہ لڑکی ہے کہ گُنوں کی گُتھلی۔ ان کے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی آپکی ساری کلفتیں، آپکی کاروباری اُلجھنیں، آپکی تلخ سوچیں یوں اُڑنچھو ہو جاتی ہیں جیسے کِسی نے پَل جھپکتے میں جادو کی چھڑی پھیر کر آپ کے مسائل کی سیاہی کو بلاٹنگ پیپر کی طرح چوس لیا ہے، جیسے کِسی معمے میں پھنسے ذہن میں ایکا ایکی مسئلے کے حل کا بٹن دب جائے اور کمرہ روشن ہو جائے۔
ماں نے سَر یوں جھُکایا تھا جیسے مراقبے میں چلی گئی ہو۔ نائلہ کے لچھنوں سے وہ کوئی ناواقف نہ تھی۔ دئیے کی اِس لاٹ جیسی کی کھوپڑی میں پیدا کرنے والا شاید بھیجا ڈالنا بھول ہی گیا تھا۔ کوئی ایک بار تھوڑی بیسویں بار تیری میری مثالوں سے اُس نے اس کے کانوں اور دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کی تھی۔ پر وہاں وہ مثال تھی۔ سُنو ایک کان سے، اُڑا دو دوسرے کان سے۔ زندگی کا فارمولا شاید یہی تھا اس کے نزدیک۔ کھاؤ پیو، پہنو، اوڑھو، موجیں مارو اور سرہانے بازو رکھ کر سوجاؤ۔ نہ کوئی سوچ، نہ کوئی چِنتا، ہر سُو راوی کا چین ہی چین تحریر تھا۔
دیر بعد اُس نے سر اُٹھا یا اور کہا۔
’’دیکھ بچہ میں تو اُس دہلیز پر قدم نہیں دھروں گی اب۔ بے عزت ہو کر نکلی تھی وہاں سے۔ باقی جو تیرے دل میں ہے کر لے۔ چلو تُو یہ تو نہ کہے کہ ماں نے میرا بیڑہ غرق کر دیا۔ ایک بار ملنے والی زندگی حسرتوں کی بھینٹ تو نہ چڑھے۔‘‘
اُس نے مقدمہ حمیدہ بیگم کی عدالت میں پیش کیا تو پہلے لمحے بھونچکی سی ہو کر اُس نے اُسے دیکھا۔ دوسرے لمحے نیرنگیِ زمانہ پر اُس کی دُکھ اور یاس میں لپٹی لمبی آہ نکلی۔ تیسرے لمحے اُس کے گود میں دھرے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے خود کو پھٹکارا تھا۔
اب تھوک کر اُسے چاٹنے والی بات ہی ہے نا۔ اُس وقت ٹنگار میرا ساتویں آسمان پر تھا۔ یہ بھی کوئی نقص تھا۔ ہزاروں چھوڑ لاکھوں میں کھیلنے والا ہیرا سا لڑکا۔ عقل پر پتھر پڑ گئے تھے۔
اگلے چند لمحوں میں قطار در قطار رشتہ داروں کی جلی کٹی باتیں تھیں۔
’’سو چنے کی مہلت دو‘‘ جیسے بہانے کے دنوں میں بھی بیٹی کی بڑھتی عمر، یونہی کنواری رہ جانے کا غم، ابھی تو بیٹے کنوارے ہیں جیسی جلی بھُنی سوچیں تھیں۔ آگے کیا بنے گا؟
نسیمہ نے سُنتے ہی کہا تھا۔ ’’ہائے یہ ٹُنڈا ہی مقدر میں تھا تو پہلے کیا بُرا تھا؟دو ہاجو والی بھج تو نہیں تھی۔‘‘
بیٹی رضامند تھی۔ پیسے کی فراوانی دیکھ بیٹھی تھی۔ یوں بھی اب شادی ہو جانی چاہئیے جیسی کیفیت پر اُتری ہوئی تھی۔
اب نائلہ گاؤں میں تھی اور نسیمہ شہر میں۔ شادی کے آغاز کے چند ہفتوں کے سِوا اُس کا ویک اینڈ پر گاؤں آنا، نائلہ اور ماں کے پاس رہنا معمول تھا۔ نائلہ سے شادی کے بعد اگر وہ لکھ پتی تھا تو اب کروڑ پتی بن چُکا تھا۔ خدا نے اولاد سے بھی نواز ڈالا تھا۔
مگر اب کچھ عرصے سے ماں اُس کے چہرے پر پھر پژمردگی کی کیفیات بِکھرے دیکھتی تھی۔ ایک دن جب وہ اُس کے پاس آ کر بیٹھا۔ ماں کے دل اور آنکھوں میں تیرتا سوال اُس کے ہونٹوں پر آ گیا تھا۔
اب تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟تُو مجھے مسرور اور مطمئن کیوں نظر نہیں آتا؟
’’ماں‘‘
وہ یاس گھُلے لہجے میں بولا۔
’’میں دو انتہاؤں میں پھنس گیا ہوں۔‘‘ نسیمہ صفائی کے مالیخولئیے میں مبتلا ہے۔ باہر کے جوتے الگ، کمروں کے الگ، باتھ روم کے الگ، کچن کے الگ، لان کے الگ، میں غلطی کر جاتا ہوں تو ڈانٹ کھاتا ہوں۔ وقت پر اُٹھنا ہے، نہیں اُٹھتے ہو تو اس کی مسلسل بول مار۔ صفائی ادھوری ہے۔ اُسے چین نہیں۔ پرنا تو اس کے کاندھوں پر دھرا رہتا ہے۔
چھوٹی سی بچی ہے۔ یورین پاس ہو گیا۔ پوٹی ہو گئی۔ آدھی رات کو نل کے نیچے دھُلائی شروع ہو جاتی ہے۔ دو بار نمونیے سے مرمر کر بچی ہے۔ اب لاکھ سر پٹخو۔ لاکھ
سمجھاؤ۔ جواب ملتا ہے، میرے دماغ کو چڑھتی ہے بُو۔
میں تو زچ آ گیا ہوں۔ در اصل اُسے ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ Obsession compulsive disorder۔ ماہرِنفسیات نے یہی بتایا ہے مجھے۔
ماں کو انگریزی کے ناموں والی ان پُرانی بیماریوں کا کیا علم؟اس کے لئیے تو یہ بات ہی ناقابلِ برداشت اور توہین آمیز تھی کہ اُس کے اتنے کماؤ اور دریا دل بیٹے کو اس کی بیوی کِسی بات پر ڈانٹے۔
’’تم بھی تو زنخے ہو۔ پہلے سَر پر چڑھا لیتے ہو۔ جب وہ تمہارے مونڈھوں پر چڑھ کر ناچنے لگتی ہیں تب تمہیں ہوش آتا ہے۔‘‘
ماں کی بات پر اُس نے تھوڑا سا غُصّہ کھایا تھا۔
’’کوئی ننھی مُنّی دودھ پیتی بچیاں ہیں ناجو پڑھانے بیٹھوں انہیں۔‘‘
’’بچے زندگی تو گزارنی ہے۔ سمجھوتے تو کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ماں۔‘‘ اُس کے لہجے کی سختی پر وہ چونکی تھی۔
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ آج کل میں کِسی نارمل، سمجھ دار اور اعتدال پسند لڑکی کی تلاش میں ہوں۔‘‘
ماں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔ بے اعتباری سے اُسے دیکھا۔ چند لمحوں تک دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔
’’تو بچے اگر وہ بھی تیرے معیار پر پوری نہ اُتری تو‘‘ ۔
’’تو کیا ماں۔ میرے پاس ابھی چوتھی آپشن کا چانس بھی تو ہے۔‘‘
٭٭٭
ملکہ اِک ویرانے میں
پندرہ اگست کی اُس رات کا پہلا پہر حبس سے بھرپور تھا۔ میں نے ٹرین کی کھڑکی سے پلیٹ فارم پر نظریں دوڑائیں۔ گاڑی کی رفتار بہت آہستہ ہو چکی تھی۔ پلیٹ فارم پر کھڑے لوگ آسانی سے پہچان میں آ رہے تھے پر میرے جگر گوشے کہیں نہیں تھے۔ گاڑی رُکی۔ میں جست لگا کر باہر کوُدی اور دیوانہ وار اپنے سامنے بھاگنے لگی تھی۔ مجھے بہت دُور اپنے چھوٹے بیٹے کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہ میرا کہیں تصوّر تو نہیں ہے کہ مجھے اِن عُمروں کی ہر صورت پر اب اُن کا گمان پڑنے لگا ہے۔ پر نہیں وہ سچ مچ میرے بچے تھے جو اپنے باپ کے ساتھ مجھے لینے آئے تھے کیونکہ اُن کی ماں شمالی علاقوں کی سیاحت سے کوئی بیس ( 20) دن بعد لوٹی تھی۔ چیختے چلّاتے وہ سب مجھ سے لپٹ گئے تھے اور جب نصف ماہ سے زائد کی جدائی کا سُوکھا پن اس ملاپ سے کچھ سیراب ہوا تب اُنہوں نے گردنیں اُٹھا اُٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں اُن کی نظروں کا مفہوم پہچانتی تھی وہ جاننا چاہتے تھے کہ میں اُن کے لئے کیا لائی ہوں ؟ میرے کندھے پر بیگ تھا جس میں فقط، میرے دو جوڑے کپڑوں کے اور غالباً دو تین سو روپے کی ریز گاری ہو گی۔
میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کے گال چُومے اور کہا۔
’’میری جان سکر دو کے عنبری سیب ابھی کچے تھے۔ خوبانیوں کا موسم ختم ہو گیا تھا۔ تُوت تو مئی میں ہی مُک مُکا جاتے ہیں۔ چلو میں تمہیں راستے میں سے جو کہو گے خرید دیتی ہوں۔‘‘
میں اُنہیں بتانا چاہتی تھی کہ میں ڈھیر سارا روپیہ بلتستان کی وادیوں میں کرائے بھاڑوں میں ختم کر آئی ہوں اور اب بمشکل گھر تک پہنچی ہوں۔ راستے میں ایک جگہ گاڑی روک کر میرے میاں نے پھل خریدا کہ گھر میں دیورانیوں کے بچے بھی انتظار میں تھے۔
’’آخر آپ وہاں سے کیا لائی ہیں ؟ اتنے وعدے کر کے گئی تھیں اور خالی ہاتھ لٹکائے آ گئی ہیں۔‘‘ بڑا بیٹا چیخا۔
’’دیکھو بہت سی کہانیاں لائی ہوں۔ سچی، تاریخی، بے حد دلچسپ اور پیاری پیاری۔
اُس رات بیٹی نے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ بیٹے سرہانے پائنتی بیٹھ گئے کہ چلو اب سناؤ جو لائی ہو۔‘‘
اور میں نے اُن رُوح پر ور نظاروں اور رنگا رنگ کہانیوں کے دامن میں جھانکا اوریوں گویا ہوئی۔
’بس تو من و عن وہی نظارہ تھا۔ شام کے گھنے بادلوں میں جب دفعتاً بجلی چمکتی ہے اور اردگرد کا سارا ماحول روشن ہو جاتا ہے۔ اس وقت میں خپلو بالا میں پرانے محل کی بیرونی سیڑھیوں سے چھلانگیں مارتی ہوئی اس کچی جگہ آ کر ٹھہری تھی جس کے مشرقی طرف نیا محل اور اس سے ملحقہ چھوٹا باغیچہ، مغربی سمت بڑے باغ اور بیگم فتح علی خاں کے کمروں کی طرف جانے کا راستہ، جنوب میں پرانا محل اور شمال میں مزید سیڑھیاں اور شکستہ کمرے تھے۔ بس اُسی کچی جگہ پر جو مُجھ سے کوئی چار فٹ کے فاصلے پر تھی کڑکتی بجلی لشکارے پر لشکارے مار رہی تھی۔
میں بٹر بٹر آنکھوں کے پٹ پھاڑے اُسے دیکھتی تھی جس کے گھٹاؤں جیسے سیاہ بال کانوں کے پاس پاس دو چوٹیوں کی صورت تیز گلابی پشم کے پراندوں میں گندھے کمر اور سینے پر جھُول رہے تھے۔ تائیوان کا مہندی رنگا چھوٹے چھوٹے پھُولوں والا خوبصورت چمکتا سوٹ جس کی شلوار کے پائینچوں تلے ایرانی پلاسٹک کا جوتا گورے گورے گداز پاؤں کو مقید کئے کھڑا تھا۔ میں ہیروں کی بُہت سی اقسام سے شناسائی حاصل کر بیٹھی ہوں۔ اسی لئے حق بجانب ہوں کہ اگر کہوں اُن آنکھوں سے پھوٹتی کرنیں ہیروں کی چمک لئے ہوئے تھیں۔
’’کون ہیں آپ؟‘‘
’’میں ایک سیاح جسے وطن کی دلکش وادیاں اپنے نظاروں سے محظوظ کرنے کے لئے کھینچ لائی ہیں۔‘‘
’’اور آپ؟‘‘ میں نے استفہامیہ نظریں اس پر گاڑ دیں۔
’’ شاہ جہاں۔ خپلو کے شاہی یبگو خاندان کی بہو رانی۔‘‘
میں نے دیکھا تھا اس کی تنی گردن جو اب دیتے ہوئے کچھ اور تن گئی تھی میں ہنسی اور بولی۔
’’لگتا ہے آپ کا نام بہت عُجلت میں رکھا گیا یا پھر کسی نے غور ہی نہیں کیا؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔
’’بھئی آپ تو نُور جہاں ہیں۔‘‘
اب اُس کے ہنسنے کی باری تھی۔ وہ ہنسی اور میری طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دوستانہ انداز میں بولی۔
’’تو آئیے پھر آپ کو چائے پلواتے اور راجہ فیملی سے ملواتے ہیں۔‘‘
میرے ساتھ اس وقت خپلو سول اسپتال کے ڈاکٹر اسماعیل کا چھوٹا بھائی یوسف تھا۔ شاہ جہان نے یُوسف سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ جائے اور یہ کہ ان کا نوکر مجھے چھوڑ آئے گا۔
یُوسف نے میری طرف دیکھا۔ مجھے کچھ خفت سی محسوس ہوئی۔ بے چارے کو گائیڈ بنا کرساتھ لائی تھی۔ اب راستے ہی سے وداع کر رہی تھی۔ مجبوری تھی۔ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’ یُوسف میں مغرب تک آ جاؤں گی۔ ڈاکٹر صاحب کو بتا دینا۔‘‘
ساری راجہ فیملی بڑے کمرے میں جمع ہو گئی تھی۔ راجہ کھر منگ کی والدہ فاطمہ بیگم بھی کھرمنگ سے ایک شادی کے سلسلے میں آئی ہوئی تھیں۔ بھتیجے بھتیجیوں اور بھاوج نے روک لیا تھا۔
حسین ماضی مہارانی کھرمنگ کی آنکھوں سے چھلک چھلک پڑتا تھا۔ شاہ جہان کی ساس مہارانی خپلو بھی پاس بیٹھی تھیں۔ میں نے ان آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا۔
’’جاگیرداری ختم ہونے سے کیسا محسوس ہوتا ہے ؟‘‘
لہجے میں زمانے کا درد سمٹ آیا تھا۔
’’حال تو بُہت تکلیف دہ ہے۔ خیر اب عادی ہوتے جار ہے ہیں۔ درد کتنا ہی کیوں نہ بڑھ جائے آخرکار دوا بن جاتا ہے۔‘‘
شاہ جہان پلیٹ میں امنبہ خوبانیاں لائی، سفید، رسیلی خوبانیاں۔ زبان پر رکھو اور گھُلتی ہوئی حلق میں اُتر جائیں۔
میں کھاتی گئی اور فاطمہ بیگم کی باتیں سنتی گئی۔ پھر چائے آ گئی۔ نمکین سبز چائے۔ باہر شام اُتر رہی تھی مہارانی خپلو ایک مورت کی مانند بیٹھی تھی۔ چھوٹے چھوٹے گھونٹ سے چائے پیتی تھی۔
اور جب شاہ جہاں گود کی بچی کو لئے میرے پاس آ کر بیٹھی اس نے کہا۔
’’یہ ہماری چچی مار جوری بلز کی منجھلی بہو ہے۔‘‘ کمرے میں ایک نو عمر دلکش لڑکی داخل ہوئی تھی۔
’’ مار جوری بلز‘‘ یہ نام میں نے گلگت میں سنا۔ اس نام سے میرے کان ہنزہ میں آشنا ہوئے اور جب میں سکر دو آئی تو راجہ افتخار علی خاں اور مارجوری بلز کے نام ایک بار پھر سماعت سے ٹکرائے اور جب میں نے کوہ ہندو کش اور کوہ قراقرم کی وادیوں کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تھا یہ نام وہاں بھی موجود تھا۔
شاہ جہان کے ساتھ میں باہر نکل آئی تھی۔ چیڑ کی لکڑی کے تختوں سے بنی راہداری جس کے چوبی جنگلے پر کہنیاں ٹکائے میں اپنے سامنے جھاگ اُڑاتے شفاف پانی کے چشمے کو شور مچاتے دیکھ رہی تھی۔ کچے پیلے رنگ کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ناک میں گھس کر عجیب سی لطافت پیدا کرتی تھی۔ ان پھولوں کے بارے میں جب میں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ کشمیر سے لا کر لگائے ہیں۔
پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی برف پر سے آتی ہوائیں اب بُہت خنک ہو گئی تھیں۔ تب میں نے کہا۔
’’شاہ جہان اپنی مرحوم چچی مار جوری بلز کے متعلق کچھ نہیں بتاؤ گی؟‘‘
’’سامنے دیکھو!‘‘ اس نے دُور پہاڑوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’دیکھ رہی ہوں۔ بولو۔‘‘ سینکڑوں فٹ اُونچے اُس پہاڑ پر میری نظریں جم گئی تھیں۔
اس پہاڑ پر خپلو کا تاریخی قلعہ اور محل ہے۔ یہ تھور سے کھر کہلاتا ہے۔ قلعہ تو کھنڈر بنا
پڑا ہے پر مسجد جوں کی توں ہے۔ کل وہاں چلیں گے اور تمہیں میں وہیں وہ کہانی سناؤں گی جو سچی ہے اور تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے۔
میں نے سہم کر ایک بار پھر اپنے سامنے اس پہاڑ کو دیکھا جو ایک دیو ہیکل جن کی طرح پر پھیلائے کھڑا تھا اور جس پر ’’تھورسے کھر‘‘ کا شکستہ قلعہ اور محل واقع تھا اور جہاں جا
کر وہ بُتِ طنّازاُس الف لیلوی داستان سُنانے کا کہہ رہی تھی جسے سُننے کی میں زبردست خواہش مند تھی۔
’’کمال ہے۔ تم فضا میں معلّق ہوئے بغیر یہ کہانی نہیں سناسکتی ہو۔‘‘
’’لوسچی اور افسانے سے زیادہ دلکش کہانی کی تم اتنی سی قیمت نہیں دے سکتی ہو کہ خود چل کر اُن جگہوں کو دیکھو جو اُسے بہت محبوب تھیں۔ پہاڑ کے پچھلی طرف ہماری زمینیں ہیں۔ چچی ما رجوری ان دنوں اوپر جایا کرتی تھیں۔‘‘
مغرب کی اذان نے گفتگو اور سوچوں کے سارے راستے بند کر دئیے تھے۔ میں نے سر پر دوپٹہ لیا اور نماز کے لئے چل دی۔
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر جب میں نے اُسے کہا۔
’’سنو!ڈاکٹر اسماعیل میرا انتظار کرتے ہوں گے۔ مجھے واپس بھجواؤ اب۔‘‘ اور وہ پری جمال ایک ادا سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’اس اندھیری رات میں اس وقت تم نے باہر نکل کر کیا اپنے گٹے گوڈے تڑوانے ہیں۔ دوستی کر لی ہے میں نے تم سے بھُول جاؤ اب ڈاکٹر اسماعیل کو۔ جتنے دن خپلو میں رہو گی میرے پاس رہنا ہو گا۔ میرا بیٹا ڈاکٹر اسماعیل کو بتا آیا ہے۔‘‘
رات کو نئے محل کے بڑے کمرے میں راگ و رنگ کی محفل جمی۔ شاہ جہان بتا رہی تھی کہ ابھی پندرہ دن پہلے لاہور کالج کی پروفیسروں کا ایک گروپ خپلو آیا تھا اور اسی کمرے میں اُس رات بھی ایسا ہی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔
صبح فجر کی نماز کے بعد میں رضائی میں دبک کر پھر سو گئی تھی۔ نو بجے کے قریب شاہ جہان نے ریشمی رضائی میرے اوپرسے کھینچ کر کہا۔
’’کچھ خوف خدا کرو۔ چلنانہیں کیا؟ ڈیڑھ گھنٹہ چڑھائی میں لگے گا۔ ادھر پار
گاؤں میں بھی جانا ہے۔‘‘
شاہ جہان نے چھوٹی بیٹی کمبل میں لپیٹ کر چورونگ (تنکوں کی لمبی ٹوکری) میں لٹائی اور اسے کمر پر کس لیا۔ میں نے چائے کی بوتل، کپ، پراٹھے اور انڈے ٹوکری میں ڈالے اور اسے شاہ جہان کی طرح کمر پر لادا اور جب وہ اس کی طنابیں درست کر رہی تھی میں نے کہا۔
’’شاہ جہان تم نے یہ من پکاوزن بھی مجھ پر لاد دیا ہے۔ اگر کہیں میراپاؤں رپٹ گیا تو یاد رکھنا میرا خون تیری گردن پر ہو گا۔‘‘
اس چُلبلی نار نے تیکھی نظروں سے مجھے گھائل کرتے ہوئے کہا۔
’’اوکھلی میں سر دیتی ہو اور موسلوں سے بھی ڈرتی ہو۔ وطن کے دُشوار گزار حصّے دیکھنے اور ان کے بارے میں لکھنے کا شوق بھی ہے اور راستوں کی صعوبتوں سے خوفزدہ بھی ہو۔ چلو سیدھی طرح اور ہاں تمہارے کون سے مرنے کے دن ہیں ؟ دنیا تھوڑی پڑی ہے اس نیک کام کے لئے۔‘‘
شاہ جہان ان لوگوں میں سے تھی جن کے بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے۔
کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک بار
آنکھوں میں جذب ہو گئے دل میں سما گئے
اس نے سارے فاصلے مٹانے میں صرف چند گھنٹے لئے تھے۔
فضا میں خفیف سی خُنکی تھی۔ میرا جسم پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ پہاڑایسا عمودا تھا کہ جب میں ذرا آنکھ کی خفیف سی جھری سے دائیں بائیں جھانکتی تو لمحے بھر کے لئے مجھے اپنا خون جیسے رگوں میں منجمد سا محسوس ہوتا۔ شاہ جہان آگے آگے باتیں کئے جا رہی تھی۔
’’تھورسے کھر‘‘ پر پہنچ کر جب میں نے دیکھا تو مجھے یہ سمجھ نہیں آر ہی تھی کہ وہ
جنہوں نے اسے بنایا انسان تھے یا جن۔ اللہ منوں وزنی پتھر کیونکر ان عمودی پہاڑوں پر لائے گئے ہوں گے ؟
پھر اس نے چورونگ میں سے بیٹی کو نکالا اور پتھروں کے پاس ایک ہموار سی جگہ پر لٹا دیا۔ وہ کم بخت ابھی تک سو رہی تھی۔ معلوم نہیں کیا افیون کھلائی ہوئی تھی اسے۔ جب میں اور وہ دونوں اس نکھری اور روشن فضا میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے لطف اٹھاتے ہوئے چائے پی رہی تھیں۔ سامنے دریائے شیوق چاندی کی طرح ایک لمبی لکیر کی مانند چمکتا تھا اور نیچے خپلو بالا اور خپلو پائن کے گھر گڑیوں کے گھروندوں کی مانند نظر آتے تھے۔
شاہ جہان نے ماضی میں چھلانگ لگا دی تھی۔
وہ اس وقت بانکپن، وجاہت، دلآویزی اور حسن و جمال کے آخری زینے پر کھڑا تھا۔ سچی بات ہے راجہ افتخار علی خاں خپلو کے یبگو خاندان کی انگوٹھی کا وہ بیش قیمت ہیرا تھا جس کے بغیر انگوٹھی دو کوڑی کی رہ جاتی ہے۔ تُرک نسل کی ساری خصوصیات اس کے وجود میں سمٹ آئی تھیں۔ وہ سرینگر کی گلیوں کا ہار سنگار تھا۔ ایس۔ پی کالج سرینگر کا طالب علم جو کالج اور ہوسٹل ہر جگہ اپنے حسن و جوانی کی بنا پر غیر معمولی شہرت رکھتا تھا۔
یہ جاتی بہاروں کی ایک رنگین سی شام تھی۔ چناروں کے پیڑوں پر کھِلے پھولوں نے فضاؤں اور دلوں میں ایک آگ سی لگا رکھی تھی۔ بارش ابھی ابھی برسی تھی اور فضا میں بادلوں کے ٹکڑے یوں تیرتے پھر رہے تھے جیسے جھیلوں کے نیلگوں پانیوں میں گلیشئر کے چھوٹے چھوٹے تودے۔
اِس شام راجہ افتخار اپنے جگری یار کے ساتھا ٹیلیئن کیفے کا دروازہ کھول کر اندر آیا۔ چھ فٹ سے نکلتی قامت پر ڈارک بلیو سوٹ، سُرخ نکٹائی اور سیاہ چم چم کرتے جوتے۔ دروازہ کھول کر وہ جس انداز میں اندر آیا تھا اور بیروں نے جس انداز میں اُسے تعظیم دی تھی وہ پرنس آف ویلز نظر آتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ واقعی وادی خپلو کا شہزادہ تھا۔
مار جوری بلز ایک برطانوی دوشیزہ جو لندن سے سیروسیاحت کے لئے ہندوستان اپنے عزیزوں کے پاس آئی تھی۔ مدراس میں اپنی حقیقی خالہ کے پاس دو ماہ رہنے کے بعد وہ ابھی ایک ہفتہ ہوا اپنی پھوپھی مسز ولیم کے پاس سرینگر آئی تھی اس وقت وہ کیفے کے ایک کونے میں بیٹھی کافی سے دل بہلاتی تھی۔ مسز ولیم جموں گئی ہوئی تھی۔
افتخار، غلام وزیر مہدی ممبر سابق مجلس شوریٰ اور سلطان ڈوپٹہ آف کشمیر تینوں لنگوٹیئے یار ایک میز کے گرد بیٹھے، بیروں نے چائے کی سروس دی۔ وہ کپ ہاتھوں میں تھامے باتیں کرتے تھے جب مار جوری اپنی جگہ سے اُٹھی ان کے پاس آئی اور افتخار کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’آپ عظیم برطانیہ کے کِس حصّے سے ہیں ؟‘‘
افتخار بڑا شوخ و شنگ جوان تھا۔ ہنسی ہونٹوں میں دبا گیا تھا۔ چہرے پر زمانے بھر کی معصومیت لاتے ہوئے بولا۔
’’آپ کو کہاں کا نظر آتا ہوں ؟‘‘
’’سکاٹ لینڈ۔‘‘ مارجوری نے فوراً کہا۔
’’بس تو ٹھیک اندازہ لگایا آپ نے۔ میں وہیں کا ہوں !‘‘
’’ میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟‘‘ مار جوری بولی۔
’’ضرور ضرور شوق سے۔‘‘
پر غلام وزیر مہدی سے ہنسی ضبط نہ ہو سکی۔ وہ کھِلکھلا کر ہنس پڑا اور یوں بھانڈا پھوٹ گیا۔
سلطان ڈوپٹہ نے افتخار کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’معاف کیجئیے گا محترمہ میں نے سکاٹ لینڈ چھوڑ سارا انگلستان دیکھا ہے۔ اس جیسا انمول ہیرا تو وہاں ایک بھی نہیں۔ یہ ہندوستانی مسلمان ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ کہتے ہوئے مار جوری نے کندھے اُچکائے اور بولی۔
’’میں نے ایسا حسین مرد آج تک نہیں دیکھا۔‘‘
غلام وزیر نے بلتی زبان میں ہنس کر کہا۔
’’لو افتخار اب لونڈیا ہوئی عاشق۔‘‘
مارجوری اس وقت بالی عمریا کے دور میں تھی۔ سبز آنکھیں شراب کے چھلکتے پیمانے تھے۔
اگلے دن جب افتخار پھر کیفے گیا۔ مارجوری اپنی پھوپھی مسز ولیم کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ مسز ولیم نے افتخار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ہونٹوں کو گولائی میں لاتے ہوئے بولی۔
’’ہاؤڈیشنگ۔ مارجوری نے کل رات اور آج سارا دن تمہارا ذکر کر کے میرے جذبہ تجسّس کو اتنا شدید کر دیا تھا کہ میں کیفے بھی وقت سے پہلے پہنچ گئی۔ میرا خیال ہے کہ مار جوری تعریف کرنے میں سو فیصد حق بجانب تھی۔‘‘
اب ہوا یہ۔ ۔ ۔ اس سے آگے کہانی کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔ شاہ جہان کی بیٹی جاگ گئی تھی۔ اس نے اسے گود میں لٹایا اور دودھ پلانا شروع کر دیا۔
مجھے بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے کپڑا پھیلایا۔ انڈے پراٹھے نکالے اور ہم دونوں نے کھانا شروع کر دیا۔ سر پر سورج چمک رہا تھا۔ جب ہم نیچے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے یہ دیوتا ’’تھورسے کھر‘‘ کی چوٹی پر لٹکا ہوا ہے۔ وہاں پہنچیں گے تو ہاتھ بڑھا کر اسے توڑ لیں گے۔ پر وہ اتنا ہی اونچا پھر تھا۔
اور جب اس نے کھانے کے بعد چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا تب پھر بولی۔
’’اب ایک گھمبیر مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ خپلو کے اس حسین شہزادے کی محبت کے دو دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ بھتیجی کے ساتھ ساتھ اس کی سگی پھوپھی مسز ولیم جو افتخار کو سمولچا نگل جانا چاہتی تھی۔ جو اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر جھٹکے دیتی اور کہتی افتخار تم جان نہیں پاؤ گے کہ میں تمہیں کتنا پیار کرتی ہوں۔
پر افتخار فلرٹ کرنے والا نوجوان نہیں تھا اور نہ ہی وہ ایسی باتوں کو پسند کرتا تھا۔ اُس کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ تھی۔
ایک دن جب مسز ولیم کسی اہم کام کے سلسلے میں جموں گئی ہوئی تھی مارجوری افتخار سے ملنے آئی۔ دونوں ایک پارک کے ویران سے گوشے میں بیٹھ گئے۔ مارجوری نمناک آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ ساری صورتِ حال اس کے سامنے تھی۔ اس کی پھوپھی ایسی چنڈال اور با اثر شخصیت تھی کہ اُس کے ہوتے ہوئے وہ افتخار کو اپنانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
دفعتاً آنسو اس کی سبز آنکھوں سے موتیوں کی طرح بہنے لگے۔ افتخار نے انہیں اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔ اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور بولا۔
’’مارجوری تمہیں اس ترقی یافتہ آسائشوں سے پُر ماحول سے بہت دُور ایک پس ماندہ علاقے میں جہاں زندگی کی بیشتر سہولتیں حاصل نہیں رہنا ہو گا۔ کیا تم رہو گی؟
مار جوری نے گیلی آنکھوں کو لا بنی پوروں سے صاف کیا اور بچے جیسی معصومیت سے سرہلاتے ہوئے کہا۔
’’رہوں گی!‘‘
جب اس نے یہ کہا تھا کہ میں رہوں گی۔ افتخار کو یوں محسوس ہوا تھا جیسے اس کے
چہرے پر قندیلیں جل اُٹھی ہوں۔
افتخار نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر اُٹھایا۔ اپنے سینے سے لگایا اور پوچھا۔
’’ماجوری تمہیں اپنا مذہب تبدیل کرنا ہو گا۔ کرو گی؟‘‘
اور اس نے اس کے سینے پر سر مارتے ہوئے کہا۔
’’میں کروں گی۔‘‘
تب افتخار جھُکا اس نے اُس کے بالوں پر پیار کیا اور اس کی پیشانی پر ایک طویل بوسہ دیتے ہوئے بولا۔
’’مارجوری تمہیں پردہ کرنا ہو گا۔ کرو گی؟‘‘
’’سب کچھ کروں گی۔ تم کہو گے تو آگ میں کُود جاؤں گی۔‘‘
اور افتخار نے اس کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے ہنس کر کہا۔
’’نہیں جانِ افتخار آگ میں نہیں خپلو کے محل میں کُودنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔‘‘
پر ماجوری ان سب کے باوجود فکرمند تھی۔ یہ فکر اُس کی آنکھوں میں جھلملاتا تھا، اُس کے چہرے پر لکھا تھا۔ اُس کی سوچوں میں نمایاں تھا۔
’’افتخار تم مجھے کیسے حاصل کرو گے ؟۔ یہ انگریز کا دورِ حکومت ہے۔ کہیں تمہیں نہ کچھ ہو جائے !‘‘
’’ارے احمق !بھلا مجھے کیا ہو گا؟ گھبرا یا مت کرو۔ سب ٹھیک ہو گا۔‘‘
اور پھر ماجوری بلز اغوا ہوئی۔ پہلے اُسے پنڈی پہنچایا گیا۔ چند دن بعد اُسے سرینگر میں ایک ہاؤس بوٹ میں رکھا گیا۔ ان دنوں غلام وزیر مہدی (ممبرسابق مجلسِ شوریٰ پاکستان) کی ڈیوٹی لگی کہ وہ اسے ارکانِ اسلام سکھائے۔ وہ ہر روز ہاؤس بوٹ میں پہنچتا اُسے قرآن مجید پڑھاتا اور نماز کے بارے میں سمجھاتا۔
ایک دن جب وزیر مہدی اُسے قرآن مجید پڑھا رہا تھا اس نے دفعتاً کہا۔
’’مارجوری تو جب آپ خپلو چلی جائیں گی تو ہم سے کیا پردہ کریں گی؟‘‘
اور اُس نو عمر دوشیزہ نے نہایت متانت سے کہا۔
’’اس کا انحصار تو افتخار کی مرضی پر ہو گا۔ اب مارجوری بلز تور ہی نہیں۔ فاطمہ صغریٰ ہے جو شوہر کی مرضی کے بغیر قدم نہیں اُٹھائے گی۔‘‘
پھر نکاح ہوا۔ گواہوں میں سلطان ڈوپٹہ آف کشمیر اور غلام وزیر مہدی تھے۔ اسے سرخ لباس پہنایا گیا۔ سرینگر کے ایک معزز گھر میں طعام و قیام کا بندوبست کیا گیا اور جب افتخار نے سرخ دوپٹہ ہٹا کر اس کا چہرہ اُوپر اُٹھایا وہاں آنسو چھلکتے تھے۔
’’افتخار مجھے ڈر لگتا ہے میری پھوپھی جموں سے آ کر طوفان کھڑا کر دے گی۔
’’اوہو۔ سٹوپڈ۔‘‘ افتخار نے اسے بانہوں میں جکڑ لیا۔
’’ تم کیوں ہلکان ہوتی ہو؟یہ دردسری اب میری ہے کہ مجھے اس بلا سے کیسے نپٹنا ہے ؟‘‘
اور پندرہ بیس دن بعد جب مسز ولیم لوٹ کر آئی اور بھتیجی کو غائب پایا تو اس نے آفت مچا دی۔ اسے جیسے پختہ یقین تھا کہ اسے غائب کرنے میں افتخار کے سوا کسی کا ہاتھ نہیں۔ انگریز لڑکی غائب ہو جائے اور طوفان نہ آئے۔ طوفان آیا پر اس طوفان کے آنے سے پہلے ہی افتخار اسے سرینگر سے لے بھاگا۔ جس شام انہیں سرینگر سے روانہ ہونا تھا مار جوری کے ہونٹ نیلے پڑے ہوئے تھے اور اس کی آنکھوں میں دہشت و خوف کے سائے لرزیدہ تھے۔ وہ آزاد ماحول کی پروردہ لڑکی تھی پر افتخار کی محبت اور مسز ولیم کی دبنگ شخصیت نے اُسے بُزدل بنا دیا تھا۔ کہیں یہ بھی سُن لیا تھا کہ میں اسے پاتال سے کھینچ لاؤں گی وہ جاتی کہاں ہے ؟ میرے جیتے جی افتخار کے بازوؤں میں سوئے ؟ ممکن ہی نہیں !‘‘
پر مسز ولیم اور اس کے حواریوں کے کانوں میں اُس گھوڑے کے سموں کی گرد اڑاتی ہوا کا ایک ننھا سا بگولہ بھی نہ پہنچا جس کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر وہ کارگل کے راستے کھرمنگ پہنچی تھی۔
کھرمنگ میں اسے انٹھوک کھر محل کے خوبصورت کمرے میں ٹھہرایا گیا۔
مسلسل گھوڑے کے سفر میں اس کی ٹانگیں خون اُتر جانے کے باعث سوج گئی تھیں۔ پر اُسے تو جیسے کسی دُکھ اور مصیبت کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ ہنستی تھی۔ قہقہے لگاتی تھی اور اب اسے شاید یقین ہو گیا تھا کہ وہ محفوظ ہے۔ اس نے محبت کی بازی جیت لی ہے۔ اس نے اپنے محبوب کو حاصل کر لیا ہے۔
وہ بھی کیسے دن تھے۔ میری زیزی (بلتی زبان میں ماں ) بتاتی تھیں۔ بڑے راجہ صاحب کو معلوم ہو گیا تھا کہ بیٹا ایک انگریز چھوکری بھگائے لا رہا ہے۔ پر وہ جوانی کے منہ زور گھوڑے پر پند و نصائح کی کاٹھی ڈالنے کے خلاف تھے۔ اب جب وہ اسے قبول کر بیٹھا تھا تو بلا وجہ ہنگامہ آرائی کرنے کا فائدہ۔
پر دادی رانی ماں سخت غصے میں تھیں۔ شاہ جہان اپنی جگہ سے اُٹھ کر ایک پتھر کی اوٹ میں ہو گئی تھی۔ دھوپ نے اس کا چہرہ قندھاری انار کی مانند کر ڈالا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ خاندان کے لئے افتخار کا یہ قدم شرمندگی اور ندامت کا باعث ہے۔ اُس صبح وہ راجہ صاحب سے بھی اُلجھی تھیں کہ انہوں نے افتخار پر سختی نہیں کی۔ بھلا اس ماحول میں ایک انگریز لڑکی کیونکر رہ سکتی ہے۔ بھاگ جائے گی وہ چند مہینے رہ کر۔ محبت کا سارا جنون صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔‘‘
’’دیکھو، محبت انسان کو قربانی دینا سکھاتی ہے۔ اگر اسے افتخار سے سچا پیار ہو گا تو وہ نباہ کرے گی۔‘‘
’’خاک کرے گی۔‘‘ دادی رانی ماں جھلّائیں۔
’’غصہ چھوڑو اور استقبال کی تیاریاں کرو۔‘‘
شاہ جہاں نے اس وقت مجھے دیکھا اور کہا۔
’’آج میں سوچتی ہوں دادی رانی ماں کی سوچ کتنی غلط تھی؟‘‘
ہاں تو پھر جاروق (محل میں راجہ کے بیٹھنے کی جگہ) میں بیٹھے بیٹھے راجہ صاحب نے اپنے ولی عہد یعنی میرے سسر راجہ فتح علی خاں کو آواز دی۔ جب وہ آئے تو انہیں کہا۔
’’جاؤ اپنی زیزی سے کہو کہ اس کے لئے بلتی لباس تیار کروایا جائے۔ یہ لباس انہیں کھرمنگ پہنچائے جائیں۔ میں چاہتا ہوں وہ ہمارے اپنے لباس میں ہماری سر زمین پر قدم رکھے۔‘‘
پھر بکسوں کی تہوں سے سرسراتے ریشمی کپڑے نکلے۔ ان کی کتر بیونت شروع ہوئی۔ سارا محل راگ و رنگ میں ڈھل گیا۔
مردوں نے محل کے سامنے چھوٹے لان میں تھیں کار کی چھ دھنیں بجائیں اور دو دو آدمیوں نے مل کر رقص کیا۔
دونوں ابھی کھرمنگ اپنی پھوپھی فاطمہ کے انٹھوک کھر میں ہی تھے۔ خپلو آنے کا اذن ابھی نہیں ملا تھا۔ وہ ہر روز پوچھتی۔
’’افتخار ہم تمہارے گھر کب جائیں گے ؟‘‘
اور وہ بظاہر ہنستے ہوئے کہتا۔
’’ارے بھئی چلے جائیں گے۔ کوئی باہر تھوڑی بیٹھے ہیں۔ باپ کا گھر نہ سہی باپ کی بہن کا سہی۔ پر وہ اندر سے کچھ پریشان بھی تھا۔ اُسے تشویش تھی کہ کہیں باپ اور اماں پھڈا نہ ڈال بیٹھیں۔ جس سہ پہر فتح علی خاں نوکروں کے ساتھ پہنچا اور اس نے صورت حال
واضح کی۔ تب کہیں جا کر ہمہ وقت ذہن میں کلبلاتے اندیشے ختم ہوئے۔
پھر مارجوری کہ جس کا اسلامی نام صغریٰ فاطمہ تھانے بلتی لباس پہنا۔ بلتی گن مو (قمیص) جس کے کھلے بازوؤں کو وہ شوق بھری آنکھوں سے بار بار بازو اٹھا اٹھا کر دیکھتی تھی۔ اس نے گلے میں فلا اور سر پر بلتی ٹوپی جس پر طومار (منقش زیورات) سجے ہوئے تھے پہنے۔ سر پر چادر اوڑھی۔ افتخار اس وقت اس کے پاس موجود تھا۔ جب وہ تیار ہو کر افتخار کی طرف مڑی اور بولی۔
’’دیکھو تو میں کیسی لگتی ہوں ؟‘‘
اس نے سگار اپنے منہ سے نکالا۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ اپنے مضبوط ہاتھوں سے اس کے نازک شانے دبائے اور بولا۔
’’تم خپلو کی ملکہ نظر آتی ہو۔‘‘
وہ ہنسی۔ پر اب افتخار نے سنجیدگی کا روپ دھار کر کہا۔
’’مارجوری۔‘‘ وہ اسے مارجوری ہی کہتا تھا۔
’’دیکھو میری ماں میرے اس قدم پر سخت ناراض ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس ماحول میں تم نباہ نہیں کر سکو گی اور ایک دن مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔ دیکھو مارجوری میں نے اپنے خاندان کی حسین ترین لڑکیاں روند کر تمہیں پسند کیا۔ تمہیں زندگی کے کسی موڑ پر یہ احساس نہیں دلانا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا یہ فیصلہ کرتے ہوئے اندھے جذبات سے کام لیا تھا۔
مارجوری کا چہرہ پہلے دھُلے ہوئے لٹھے کی طرح سفید پڑا، سکڑا، پھر اس کی آنکھوں میں آنسو اُترے۔
’’افتخار تمہاری ماں نے اگر ایسا سوچا تو وہ اپنی سوچ میں حق بجانب ہیں کہ وہ مجھے نہیں جانتیں پر تمہیں تو ایسا نہیں کہنا چاہئیے۔ تمہیں میرا اور میرے اندر کے سارے جذبات کا علم ہے۔‘‘
اور وہ اس شدت سے روئی کہ افتخار کو اُسے سنبھالنا دوبھر ہو گیا۔ جب وہ اس کی گیلی آنکھوں کو خشک کر رہا تھا مارجوری نے کہا تھا۔
’’افتخار۔ ۔ ۔ وفا کو تم مشرق کی میراث سمجھتے ہو۔ میں اس پر سے مشرق کی اجارہ داری کو ختم کر دوں گی۔‘‘
پھر وہ پالکی میں بیٹھی اور کھرمنگ سے اس گلیشئر کے راستے خپلو میں آئی۔ جو گنگچھے کہلاتا ہے۔ سارا خپلو اس وقت پولو گراؤنڈ میں جمع تھا۔ رعایا نے ہاتھوں میں تھالیاں پکڑی ہوئی تھیں جن میں ان کی حیثیت کے مطابق نذرانے تھے۔
اس وقت سنیوپا کی دھنیں بجنی شروع ہوئیں۔ سات مردوں کا تلوار کے ساتھ رقص کا آغاز ہوا اور کہاروں نے پالکی پولو گراؤنڈ کے سامنے لا کر رکھ دی۔
پردے اُٹھائے گئے۔ وہ نکلی۔ پولو گراؤنڈ میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس نے رعایا سے تحائف قبول کئے اور اُن کی دعائیں لیں، افتخار اس کے ساتھ تھا۔
پھر وہ محل میں داخل ہوئی۔ سسرالی عزیزوں سے ملی اور جب افتخار کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوئی وہ اس کے قدموں میں جھُکی تھی اُس نے اُس کے پاؤں پر اپنے مرمریں ہاتھ رکھے اور گلو گیر آواز میں بولی تھی۔
’’افتخار، یہ زندگی تمہارے نام رقم ہوئی۔‘‘
اس وقت میں نے گھڑی دیکھی۔ ظہر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ پینے کے لئے جو پانی ہم بوتل میں ڈال کر لائے تھے اس سے وضو کا ہونا بہت مشکل تھا۔ میں نے شاہجہاں سے پوچھا۔
’’کہیں نزدیک پانی ہے ؟‘‘
وہ بولی۔
’’چلو اس طرف "تھورسے کھر” کی طرف چلتے ہیں۔ ذرا نیچے جہاں ان کی گندم پکی کھڑی تھی۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’کمبخت اب پھر مجھے اتروائے گی چڑھائے گی۔ باز آئی میں تیری زمینیں دیکھنے سے۔‘‘
میں نے تیمم کیا۔ نماز پڑھی۔ یہ حقیقت ہے کہ نماز میں ایسی سپردگی اور ایسا جذب کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ جیسا بلتستان، گللگت، ہنزہ اور نگر کی وادیوں میں۔ شاید خدا کے وجود کا ایک بڑا ذرہ ننگا نظر آتا ہے یہاں۔ انسانی کاریگری اور شان کا فقدان ہی اس کے وجود کا بھرپور احساس دلاتا ہے۔ دعا مانگنے کے بعد میں نے کہا۔
’’شاہ جہان مارجوری بلز کی زندگی کا یہ ایک پہلو تو ختم ہوا۔ میرے خیال میں زوردارقسم کا عشق کرنا تو کوئی معرکے کی چیز نہیں۔ اصل چیز عشق کے بعد اس تعلق اور ناطے کو نباہنا ہے۔ مارجوری کا یہ پہلو بھی دکھاؤ۔‘‘
شاہ جہان نے بیٹی کو اٹھا کر چورونگ میں ڈالا۔ اسے کمر پر کسا بولی۔
’’اس پہلو کے بارے میں میری ساس بہتر جانتی ہیں ان سے پُوچھنا۔‘‘
پھر ہم دھیرے دھیرے نیچے اُتر آئیں۔ اُترائی میں بہت دشواری محسوس ہوئی تھی۔ لڑھکنے والی کیفیت تھی۔
محل میں آ کر میں نے وہ البم دیکھا جو اُس کی تصویروں سے بھرا پڑا تھا۔ کہیں وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہے۔ کہیں اپنی ساس اور جیٹھانیوں کے ساتھ ہنس رہی ہے۔ کہیں
افتخار کے شانے پر ہاتھ رکھے کھڑی ہے اور پھر میری آنکھوں کے سامنے اس کی وہ تصویر بھی تھی جس میں وہ سفید کفن پہنے سرخ پھولوں سے لدی پھندی خاک ہونے جا رہی تھی۔
میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں مجھے اپنے چاروں طرف اس پھول کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے صفحہ پلٹ دیا تھا۔ ایک اور تصویر ہنستی مسکراتی سبز آنکھوں سے محبت اور خلوص کی بارش کرتی ہوئی سامنے آ گئی تھی۔
رات کو مہارانی سے باتیں ہوئیں۔ میں نے وہی سوال کیا تھا جس کے بارے میں شاہ جہان نے کہا تھا۔
’’میری ساس اس پہلو پر زیادہ بہتر بات کر سکتی ہیں۔‘‘
پر ہوا یہ کہ مہارانی نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹا مجھ سے سوال کر دیا۔
’’بولو اگر تمہیں کسی سے عشق ہو جائے اور اس کے ساتھ کسی ایسے ماحول میں رہنا پڑے تو بتاؤ رہ سکو گی؟‘‘
میں سٹپٹا اٹھی تھی۔ پر چند لمحے سوچنے اور اپنے آپ میں ڈوبنے کے بعد میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
’’میرا خیال ہے نہیں۔ یقیناً میں اتنی ایثار پسند ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘
’’میری بچی، جو خپلو تمہیں آج نظر آتا ہے اُس خپلو سے بہت مختلف ہے جب ماجوری یہاں آئی تھی۔ تب بجلی نہیں تھی، ہسپتال نہیں تھے، سڑکیں نہیں تھیں، لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ جاگیرداری روایات میں پلا ہوا گھرانا تھا جس کی عورتیں محلاتی سازشوں کا شکار تھیں۔ توڑ جوڑ جن کی فطرت تھی۔ وہ بہت غمگسار اور شفیق عورت تھی۔ اُسے خپلو آئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا جب گھر کی ایک ملازمہ نے اس کے اُس سوئیٹر کی بہت تعریف کی جو وہ پہنے ہوئے تھے اس نے اشارے سے پوچھا۔
’’لو گی؟‘‘ ملازمہ نے اشارہ سمجھا اور سر اثبات میں ہلا دیا۔ اس نے سوئیٹر اتارا اور اس کے ہاتھوں میں تھما دیا۔
اس واقعے کو بڑی مہارانی کے کانوں تک پہنچنے میں اتنی ہی دیر لگی تھی جتنی اسے اپنے کمرے میں پہنچنے میں۔ بڑی مہارانی آگ بگولہ تھی۔ فی الفور اسے طلب کیا۔ افتخار کے سامنے اسے وہ بے بھاؤ کی سنائیں کہ بیچاری ہونقوں کی طرح ان کی صورت دیکھتی رہی۔ پھر جب کمرے میں آئی تو افتخار نے پوچھا۔
’’تم نے نوکرانی کو سوئیٹر کیوں دیا تھا؟‘‘
اور وہ حیرت زدہ سی بولی۔
’’اس نے مانگا تھا۔ افتخار بھلا کیسے نہ دیتی؟‘‘
’’کل کوئی تم سے مجھے بھی مانگ سکتا ہے۔ دے دو گی مجھے ؟‘‘
’’تمہیں کیوں ؟ کون مانگے گا تمہیں مجھ سے ؟‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
’’میری زیزی جو اُدھار کھائے بیٹھی ہے۔‘‘ افتخار نے تلخی سے کہا۔
’’مارجوری یاد رکھو یہاں رہنا ہے تو ہونٹوں کو سی لو اور کانوں کو کھول لو۔‘‘
اور اُس نے ہونٹوں کو سی لیا تھا اور کانوں کو کھول لیا تھا اورساری زندگی اسی انداز میں اس گھر میں گزار دی تھی۔
’’کیا کوئی لڑکی ایسا کر سکتی ہے ؟ ارے خود ہماری بہو بیٹیاں ایسی نہیں۔‘‘
میں مہارانی کی بات کا کیا جواب دیتی کہ خود مجھے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت تھی۔
٭٭٭
زکوٰۃ واجب ہے
کھڑکی کے راستے اندر آتے آسمان کے چھوٹے سے ٹکڑے کو ایک ٹک دیکھتے اور لال بوٹی جیسی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے پرنالے کے آگے لانبی پونی جیسی انگلیوں کی پوروں کے بند باندھتے ہوئے وہ خود سے بولی تھی۔
’’اب میرے اندر سے نکلتی یہ بھانپڑ مچاتی آہیں تو ساتویں آسمان پر پہنچ کر رب کو متوجہ کرتے ہوئے میرے لئیے فوری ایکشن کا مطالبہ کر بھی لیں تو بھی وقت تو لگنا ہے اور خدا کونسا فارغ بیٹھا ہے۔ دُنیائے اوّل، دوم اور سوم کے غاصبوں، استحصالیوں، مکاروں، عیاروں، فراڈیوں، چور اچکوں، ڈاکوؤں، قاتلوں اور لعنتیوں میں ہراساں سا گھِرا بیٹھا فیصلہ ہی نہیں کر پا رہا ہے کہ کِسے سزا دینی ہے ؟کِس کی فوری داد رَسی کرنی ہے ؟اس کی دُنیا میں مار غدر مچا پڑا ہے۔ کوئی سُنوائی ہی نہیں۔ ایسے میں پِدّی کیا اور اس کی اوقات کیا؟
یوں بھی سلطنتیں، مملکتیں ریاستیں چھوڑو عام آدمی کے بھی جب اپنی کرنی کے پھل بھوگنے کا سمے آتا ہے تو اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ یاد بھی نہیں رہتا کہ یہ جو بھُگت رہے ہیں کِس جُرم کی سزا ہے ؟
نہیں نہیں۔ اتنا لمبا انتظار نہیں۔ مجھے تو ابھی کچھ کرنا ہے۔ پر کیا کرنا ہے ؟سمجھ نہیں آ رہی۔ کمزور ہوں نا۔
اب مصیبت بھی یہ ہے کہنا بھی تجھے ہی ہے۔ بچپن سے عقیدہ جو گھٹی میں ڈال دیا گیا ہے۔ بس راستہ سُجھادے اور تھوڑی سی مدد کر دے۔ باقی میں کچھ کروں گی ہی نا۔ ساراکچھ جل جو رہا ہے میرا۔‘‘
اُس نے آسمان کی طرف شکوے سے لبا لب بھری آنکھوں سے دیکھا۔ چند لمحوں کے لیے شکنوں سے بھرے ہوئے بستر پر اڑی ترچھی لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کیں۔ آنسو ابھی بھی نکل نکل پڑتے تھے۔
پھر جیسے کِسی تاریک راستے پر چلتے چلتے کہیں جگنو سے چمک جائیں والا معاملہ ہوا۔ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں چہرہ حتیٰ کہ سارا وجود غور و فکر میں ڈوب گیا۔ کمزور پہلو اور کمزور قوت فیصلہ اڑنگے ڈالنے لگی تو اُس نے خونخوار انداز میں ڈانٹ پلا دی۔
واش روم میں منہ دھونے میں بہت دیر لگائی۔ پانی کا ایک جھپکا منہ پر ڈالتی اور آنکھیں کھول کر آئینے میں دیکھتی۔ آنسوؤں کی پھر سے اُمنڈتی بوچھاڑ صاف کرتی اور اندر سے اُٹھتے سوال جواب پر اُلجھ کر خود انہیں ایک پھٹکار دیتی، ۔
’’ارے بس بھی کرو اب لعنتیو۔ کچھ حوصلہ، کچھ ہلّا شیری بھی دو گے یا یونہی اِس غریبڑی کو دہلاتے رہو گے۔ ابھی تو یہ بھی پتہ نہیں کچھ تیر تُکّا چلے گا بھی یا یونہی ذلالت مقدر میں ہے۔‘‘
کوئی دو گھنٹے اُوپر رہنے کے بعد وہ سیڑھیاں اُترتے ہوئے نیچے آ رہی تھی۔
چائے کے لئے اس کی ڈھنڈار نہیں پڑی تھی۔ اس نے سوچا بڑی آپا کمرے سے نکل کر باہر آئی ہوں گی اور ٹرالی وہاں پڑے دیکھ کر شاید کچھ سمجھ گئی ہوں۔
بغیر کِسی سے کچھ کہے سُنے وہ اپنے گھر آ گئی۔ امّاں نے اس کی سُوجی آنکھیں دیکھیں اور بولیں۔
’’ اری کیا ہوا تجھے ؟‘‘
’’امّاں میرا سَر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ آپا کی بڑی نند آئی ہیں۔ بس میں نے اُنہیں ڈسٹرب نہیں کیا۔ اب گولی اور چائے لیتی ہوں۔‘‘
متوسط طبقے کی لڑکیاں بھی کیسی حساس اور جذباتی ہوتی ہیں۔ مرتی نہیں مگر زندگی ایسے ہی گزارتی ہیں کہ جیسے بندہ جیتے جی قبر میں اُتر جائے۔
وہ یونیورسٹی میں اُس سے ایک سال سینئر تھی۔ اس کے بارے میں جتنے منہ تھے اُس سے زیادہ باتیں تھیں۔ چند دن پہلے ہی کِسی نے بتایا تھا کہ اُس نے بہت بڑی بوتیک شاپ اور بیوٹی پارلر کھولا ہے۔ پتہ بھی بتایا تھا۔ اللہ توکل گھر سے نکل پڑی تھی اور اب خجل ہو رہی تھی۔ پاؤں تو مانو جیسے ٹوٹنے والے ہو گئے تھے۔
’’ارے قریب ہی ہیں آپ۔ بس پہلی ٹرن پر مُڑ جائیے۔ سامنے ہی نظر آ جائے گا۔‘‘ گِرتی پڑتی وہاں بھی پہنچ گئی۔ ہونقوں کی طرح دائیں بائیں دیکھتی تھی۔ کِسی نے پھر آگے دھکیل دیا۔
اب دھڑام سے گِر پڑنے کی کسر باقی تھی۔ ایک پارکنگ لاٹ کے سامنے صاف سی جگہ پر بیٹھ گئی۔ نِتھرا ہوا آسمان سامنے تھا اور حسرت سے بھری آنکھیں اُسے تکتی اور جیسے کہتی تھیں۔
’’ جو کام تیرے کرنے کا تھا وہ میں کر رہی ہوں۔ کچھ تو احساس ہونا چاہیے تجھے۔ ہلکان ہو گئی ہوں۔ ذرا سی مدد بھی نہیں۔‘‘
لہجہ پور پور شکایت، شکوے اور تھوڑی سی لعن طعن میں ڈوبا ہوا تھا۔
اپنی بے بسی پر پرنالے پھر بہنے لگے تھے۔
’’ہائے لوگ کیا کہیں گے ؟‘‘ ڈوپٹے کے پلّو سے آنکھیں رگڑ لیں۔ دائیں بائیں دیکھنے لگی تو لگا جیسے بالاخانوں کی دیواروں پر تو اُسی کی کہانی لکھی ہوئی ہے۔ وہ ہی پڑھنے لگی تھی۔
ََََ۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔
بس جیسے اُسے پختہ یقین تھا کہ وہ ایک دن قسمت کی صلیب پر ضرور مصلوب ہو جائے گی اور کوئی معجزہ، کوئی انجانا حادثہ، حالات کی کوئی نئی کروٹ اُسے قطعی نہ بچا سکے گی۔ وہ ٹھیکرے کی مانگ تھی۔ اُس مانگ میں ملوث رشتہ داریاں آپس میں یوں اُلجھی ہوئی تھیں کہ بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ ایسے میں اگر اس کی ہیروں جیسی چمکتی آنکھیں کبھی خواب دیکھنے کی کوشش کرتیں تو وہ انہیں لانبی پُونی جیسی سفید پوروں سے یوں مسل ڈالتی کہ وہ انگارہ بن جاتیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ انگارہ بن کر کچھ اور ستم ڈھانے لگتیں۔
کوئی خوبصورت تھی۔ ناک ہونٹ تراشے ہوئے لگتے تھے۔ ایسا ملاحت بھرا چہرہ جس پر ہلکا سا کوئی داغ دھبہ کوئی نشان تک نہ ہو۔ پہروں دیکھو اور جی نہ بھرے والی بات تھی۔ چھوٹی سی تھی یہی کوئی تین چار ماہ کی جب بڑی خالہ جوتائی اماں بھی تھیں ملنے کے لئے آئیں۔ امّاں گھر کا کام کر رہی تھیں اور وہ پالنے میں لیٹی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ بڑی خالہ کی نظر کیا پڑی کہ خوشی کی ایک کلکاری ان کے منہ سے پھوٹی اور سیاہ لیڈی ہملٹن کا بُرقعہ جسے وہ اُتار رہی تھیں یوں ہی ہاتھوں میں پکڑے پکڑے پالنے کی طرف بڑھیں۔
’’ارے یہ تو کہیں کی شہزادی ہے جو تیرے گھر بھٹک کر آ گئی ہے۔ ارے زیبی اتنی پیاری بیٹی۔‘‘
انہوں نے دونوں ہاتھوں کو بڑھا کر اسے باہر نکالا۔ بُرقعہ کہاں گِرا انہیں ہوش نہ تھا۔ وہ تو بس اسے چوم چاٹ رہی تھیں۔ دیر تک جب وہ اس کے لاڈوں سے فارغ نہ ہوئیں تب امّاں نے کہا۔
’’بھئی آپ ذرا سستا تو لیں یہ کہیں بھاگی جاتی ہے۔ سفر نے تھکا ڈالا ہو گا۔ منہ ہاتھ دھوئیں میں چائے دم کرتی ہوں۔‘‘
پر خالہ امّاں تو جیسے اس کی دیوانی ہو گئی تھیں۔
اور یہ بات بھی انہوں نے ایک بار نہیں پندرہ دن کے عرصے میں کوئی سینکڑوں بار کہہ دی ہو گی۔
’’دیکھو بی یہ میرے ایاز کے لئے ہے۔ میں کل کلاں کوئی عُذر نہیں سنوں گی۔ تم چاہو تو ابھی منگنی کر دو۔‘‘
اور امّاں ہنس کر کہتیں۔
’’آپ تو دیوانوں جیسی باتیں کرتی ہیں۔ ابھی تو یہ گو موت کے کیڑے ہیں۔ بڑے ہونے دیں آپ سے بھلا مجھے کون عزیز ہو گا؟‘‘
گو باقاعدہ منگنی کی رسم وغیرہ ادا نہیں ہوئی تھی مگر بات اتنی ہی پکی تھی جیسے پتھر پر لکیر۔ سارے خاندان کو معلوم تھا کہ یاسمین ایاز کی دلہن بنے گی۔
کیسا تھا یہ ایاز بھی؟اللہ جانے کہاں سے سقراط بقراط کی رُوحیں اُس کے جسم و جان میں حلول کر گئی تھیں۔ جو بات بھی ہوتی وہ دلائل کے ترازو میں تُل کر اس کے حلق سے باہر آتی۔ سنجیدہ ایسا کہ معلوم ہوتا تھا بڑھاپے کا لبادہ اس نے ابھی سے اوڑھ لیا ہے۔ یوں بہت سے بوڑھے پیری میں بھی بڑے شگفتہ مزاج ہوتے ہیں۔ کنجوس بھی خاصا تھا۔ مجال جو کِسی بچے کے ہاتھ پر دس بیس روپے رکھ دے۔
ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ ایک کیمیکل فیکٹری میں ملازم ہو گیا۔ اپنے گھر جانے کے لیے اُسے ہمیشہ یاسمین کے گھر پڑاؤ کرنا پڑتا۔ دونوں کا کوئی پردہ تو نہ تھا مگر بے تکلفی نام کی کوئی شے بھی درمیان میں موجود نہ تھی۔ سالہا سال آمدورفت میں شاید چند ہی جملے دونوں کے درمیان بولے گئے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ایاز بریف کیس پکڑے گھر میں داخل ہوتا۔ یاسمین انگنائی میں کِسی کام میں مصروف ہوتی۔ اُس پر نظر پڑتے ہی ایاز فقط چند لمحوں کے بعد فوراً آنکھوں کا رُخ پھیر لیتا۔ بڑی آپا کبھی کبھی حیرت سے سوچتیں، کیسا لڑکا ہے ؟
جوانی تو سرکشی کا دوسرا نام ہے۔ شریف اور مہذب گھروں کے بیٹے بیٹیاں اپنی پسندیدگی اور چاہت کا اظہار اپنی حدود اور پابندیوں میں رہتے ہوئے بھی کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ کِس مٹی کا بنا ہوا ہے کہ سامنے ہیرا پڑا ہو اور اسے معلوم بھی ہو کہ وہ اسے ملنے والا ہے پر اس میں حرکت ہی نہ ہو۔
یاسمین کو تو اس کی کوئی بات، کوئی عادت پسند نہیں تھی۔ آپا سے تو اس نے ایک بار کہہ بھی دیا۔
’’اس قربان گاہ پر تو بھینٹ چڑھانے سے کہیں بہتر تھا کہ بچپن میں ہی زہر کا ٹیکا لگوا کر مار دیا ہوتا۔‘‘
اور آپا نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیسی اول جلول باتیں کرتی ہو؟ کہیں امّاں کے سامنے نہ کچھ بول دینا۔ بڑا لاڈلا بھانجا ہے ان کا۔‘‘
ابّا میاں تو تھے نہیں وگرنہ شاید آپا یہ ٹکڑا بھی لگاتیں کہ بڑا چہیتا بھتیجا ہے ابّا میاں کا۔‘‘
امّاں سے یاسمین بہت ڈرتی تھی۔ رعب داب والی ماں تھی۔ اولاد فرماں بردار اور سعادت مند تھی۔ مجال ہے جو ان کے کِسی فیصلہ کو بچوں میں کِسی نے کبھی ردّ کیا ہو۔
اب ایسے میں یاسمین کی آنکھوں میں آنسوؤں کو چمکنا ہی تھا۔ بے شک اسے کِسی اور سے محبت نہیں تھی۔ اس کی بیس سالہ زندگی میں کوئی مرد ابھی تک داخل نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی وہ جوان تھی، بہت خوبصورت تھی۔ پہلے کالج میں تھی۔ اب یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ اللہ کے بنائے ہوئے کتنے ہی خوبصورت شاہکاروں کو دیکھتی تھی۔ اس کے دل سے ہوک سی اُٹھتی۔ اس کی سہیلیاں جب اپنے اپنے کزنز کی شرارتوں اور شوخیوں کے قصّے سُناتیں تو اس کے سینے پر سانپ سے لوٹ جاتے۔
’’ہائے میرے نصیب میں تو مٹی کا مادھو لِکھا ہے۔‘‘
بس عجیب سا اتفاق تھا کہ بڑی آپا ٹرانسفر ہو کر ان کے پاس آ گئیں۔ بڑی آپا اور ان کے میاں دونوں وہاڑی میں لیکچرار تھے۔ انہوں نے گھر بھی قریب ہی کرائے پر لے لیا۔ مقصد یہ بھی تھا کہ کالج جانا ہوتا تھا۔ بچوں کو امّاں کے پاس چھوڑ جاتیں۔ یاسمین کا زیادہ وقت ان کے گھر میں گزرنے لگا۔
ان دنوں امّاں اس کی شادی کے لئے جہیز بھی اکٹھا کر رہی تھیں۔ ایاز کا چھوٹا بھائی کویت میں ملازم تھا۔ سال بعد اس کی واپسی متوقع تھی۔ امّاں کے لئے یہ وقت غنیمت تھا وہ اپنے طور پر ہلکی پھلکی تیاری میں مصروف تھیں۔
یہ بڑا گرم دن تھا۔ گوبرسات شروع ہو چکی تھی مگر ایک بار کی بارش کے بعد بادل آسمان کے سینے پر پھیلنا اور چھانا بھول سے گئے تھے۔ گرمیوں کی دوپہریں یوں بھی اُداس اور بور سی ہوتی ہیں۔ سب سو گئے تھے۔ سوئی تو وہ بھی تھی مگر جلدی جاگ گئی۔ برآمدے میں ایزی چیئر پر بیٹھے ہوئے وہ مسرور نگاہو۔ں سے آسمان کو دیکھ رہی تھی جہاں گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس کا جی چائے پینے کو چاہ رہا تھا پر یہ سوچتے ہوئے کہ سب اُٹھ جائیں تو اکٹھی پی جائے وہ موسم سے لطف اندوز ہوتی رہی۔
جب اچانک ایک خوبصورت سا نوجوان اٹیچی کیس ہاتھ میں پکڑے اندر داخل ہوا۔ اس پر نظر پڑتے ہی اِک ذرا ٹھٹکا پھر آگے بڑھ آیا۔ تبھی ایک شوخ سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
’’میں عاصم ماموں کے گھر آیا ہوں یا کِسی پرستان میں۔‘‘
اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا تھا۔ سَر جھُک گیا تھا۔ ایک لفظ بھی نہ بولا گیا۔ اُٹھنے اور بھاگ جانے کی کوشش کی مگر محسوس ہوا جیسے کرسی پر لگی سریش نے چپکا لیا ہے۔
’’آپ کون ہیں ؟‘‘ وہ اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔
چند لمحے کھڑے رہنے کے بعد وہ اس کے قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ نہایت دلچسپی سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’کچھ تو بتائیے۔‘‘
اس بار جانے کیسے اُس میں جرأت آ گئی۔ وہ اُٹھی اور کمرے میں بھاگ گئی اور فوراً ہی سارے گھر میں شور مچ گیا۔ بچے آنکھیں مَلتے ہوئے اُٹھے اور اس کے گلے سے جھولنے لگے۔
اور یاسمین کو پتہ چلا کہ وہ بڑی آپا کی نند کا بیٹا ہے۔ ڈاکٹر ہے۔ اور اب ہاؤس جاب کر رہا ہے۔
یہ ساری معلومات بِٹُو نے اُسے مہیا کیں جو فہیم بھائی کے آنے سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
بڑی آپا نے اُسے کمرے سے ہی آواز دی تھی کہ وہ چائے بنا لے۔ وہ تو ان کے کہنے سے پہلے ہی کیتلی چولہے پر چڑھا چکی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ اس کا دل دھڑک رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ چائے اندر کیسے لے کر جائے ؟ مگر چائے تو اندر لے جانی ہی تھی۔
اس نے دوپٹہ سَر اور شانوں پر درست کیا اور ٹرالی گھسیٹتی ہوئی اُن کے پاس آ گئی۔ اندر داخل ہونے سے قبل دروازے میں اِک ذرا رُک کر اس نے دیکھا تھا اور پھر فوراً ہی سَر جھُکا لیا تھا۔ وہ آنکھوں میں شوق و محویت کی دُنیا سمیٹے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ پر قابو پایاپر چائے سرو کرنی اس کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ کِسی بہانے باہر آ گئی۔
یوں جب رات کو وہ سونے کے لئے لیٹی تو اسے لگا جیسے کوئی اس کی بند آنکھوں میں زبردستی گھُسا چلا آ رہا ہے۔ لاکھ اس نے پہلو بدلے، کروٹیں لیں، آنکھوں پر ہاتھ رکھے مگر سب بے اثر تھے۔
’’کیسا دل کش اور شوخ سا نوجوان ہے۔‘‘
اس کے دل سے ایک کراہ نکلی۔ ایاز بھی سامنے آ کھڑا ہوا۔ تقابلی جائزے میں ہی ہلکان ہو گئی تھی۔
وہ اُسی رات اپنے گھر واپس آ گئی تھی مگر اگلے ہی دن بڑی آپا نے آ کر اسے کہا۔
’’ارے تم فہیم کی وجہ سے آ گئی ہو۔ پگلی وہ تو بہت اچھا اور دلچسپ نوجوان ہے۔ آج تم بریانی اور مُرغ روسٹ بنانا۔ اکٹھے کھائیں گے۔ لُطف آئے گا۔‘‘
اور وہ لُطف ہی لُطف میں ماری گئی۔ دسترخوان پر وہ داہنے ہاتھ بیٹھی۔ فہیم اس کے بائیں طرف تھا۔ چُپ چاپ سر نیہوڑے وہ کھانا کھا رہی تھی۔ فہیم گفتار کا شہنشاہ معلوم ہوتا تھا۔ ایسی جاندار گفتگو کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑے۔ وہ بس ذرا سا مسکراتی اور فوراً ہی ہونٹ بھینچ لیتی۔ فہیم بغور اس کے مشاہدے میں مصروف تھا۔ بڑی آپا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ممانی جان گونگے کا گڑ کھلا رکھا ہے انہیں۔‘‘
’’ارے ذرا کم بولتی ہے۔‘‘ بڑی آپا نے فوراً کہا۔
اور جب وہ کچن میں چائے بنا رہی تھی وہ اس کے پاس چلا آیا۔ اس وقت شام گہری ہو رہی تھی۔ روشن آگ کے سامنے اس کا صبیح چہرہ دمک رہا تھا۔ وہ میز پر رکھے چند برتنوں کو چمچ سے کھٹکھٹاتے ہوئے بولا۔
’’فلموں کے تو بہت سے ایسے گیت مجھے یاد ہیں جو آپ پر فِٹ بیٹھتے ہیں مگر یہ عام سے گیت آپ جیسی دل کش لڑکی کے لئے کچھ موزوں نہیں اور اُونچے درجے کے شعروں تک میری ذہنی رسائی نہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کر دیں کہ آپ کو خراج کیسے پیش کروں ؟‘‘
اور پہلی بار اس نے بڑی ہمت سے نگاہیں اُٹھا کر اسے دیکھا اور قدرے تلخی سے کہا۔
’’میں نے کون سا تیر مارا ہے جو مجھے خراجِ تحسین پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔‘‘
’’اگر حُسن سے بھی بڑا کوئی تیر ہے تو بتا دیجئیے۔‘‘
اس وقت بڑی آپا باہر آئیں۔ فہیم کو کچن میں دیکھا تو وہیں آ گئیں۔
’’ارے تم گرمی میں کیا کر رہے ہو۔ اندر چلتے۔ چائے تو بن گئی ہے۔‘‘
’’میں نے سوچا ان کی ذرا مدد کر دوں۔‘‘
اور وہ ہنس کر بولیں۔ ’’چلو میاں وگرنہ تھوڑی دیر اور ٹھہرو گے تو پسینہ پسینہ ہو جاؤ گے اور چائے پینے کا سارا لُطف جاتا رہے گا۔‘‘
پتہ بھی نہ چلا کہ وہ کب دل کے بند دروازوں کو کھولتا ہوا آیا اور مسندِ قلب پر براجمان ہو گیا۔
ایاز تو اُسے پہلے ہی اچھا نہ لگتا تھا اب تو اور بھی بُرا لگنے لگا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنے آپ سے کہتی۔
’’بنانے والے نے ساری مہارت اور کاریگری بس صورت پر ہی صرف کر دی۔ قسمت کے لئے کچھ بھی نہ رکھا۔‘‘
فہیم نے کبھی اس سے شادی بیاہ جیسے موضوع پر بات نہیں کی تھی۔ یاسمین کا خیال تھا کہ شاید وہ حالات کی نزاکت اور سنگینی کو محسوس کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے چُپ ہے۔ بڑی آپا کچھ اس کے دل کا حال جان چکی تھیں۔ ایک دن بولیں۔
’’اگر تم چاہو تو اس سلسلے میں کچھ قدم اُٹھایا جائے۔ گو مجھے کامیابی کی کوئی صورت تو نظر نہیں آتی مگر حالات کوئی کروٹ لے لیں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
اور یاسمین نے گہری افسردگی سے انہیں دیکھا اور کہا۔
’’کہاں ؟مقدر اتنا تیز ہوتا تو رونا کِس بات کا تھا؟اماں توحشر کر دیں گی۔ شاید بڑی آپا کو اس کے کرب کا صحیح اندازہ اب ہوا تھا۔ وہ تڑپ سی اُٹھیں۔
’’لو زندگی تم نے گزارنی ہے نہ کہ اماں نے۔ بھاڑ میں گیا خاندان اور چولہے میں جائیں رشتہ داریاں۔ میں تو مقابلے پر کھڑی ہو جاؤں گی۔‘‘
’’ارے ایسانہ ہو کہ بات بھی نہ بنے اور مفت میں بدنامیاں جھولی میں پڑ جائیں۔‘‘
اور بڑی آپا نے قدرے خفگی سے اُسے گھورا۔
’’محبت کی ہے تو پھر شیر جتنا دل کرو۔ یہ نہ ہو، وہ نہ ہو والے وسوسے دل سے نکال پھینکو۔‘‘
دونوں بہنیں ابھی باتوں میں مگن تھیں کہ فہیم کی والدہ اور چھوٹی بہن آ گئیں۔ گلے مِلا گیا۔ خیر خیریت دریافت ہوئی۔ بڑی آپا نے یاسمین کو چائے تیار کرنے کو کہا۔
اس نے جھٹ پٹ چائے تیار کی۔ شامی کباب تلے۔ میٹھے بسکٹ پلیٹوں میں ڈالے۔ ٹرالی گھسیٹتی ہوئی جب وہ دروازے پر پہنچی اور اس نے چاہا کہ پردے کو ایک ہاتھ سے ہٹا کر ٹرالی اندر لے جائے جب فہیم کی ماں کی آواز نے اُسے وہاں رُک جانے اور کچھ سُننے پر مجبور کر دیا۔ وہ بڑی آپا سے مخاطب تھیں۔
’’بھئی اس لڑکے نے تو میرا ناک میں دم کر دیا ہے۔‘‘
یاسمین کا دل اس تیزی سے دھڑکنے لگا کہ اسے لگا جیسے وہ ابھی گوشت پوست کی تہیں پیچھے ہٹا کر باہر آ جائے گا۔
’’سچی بات ہے میں زیادہ پڑھی لکھی لڑکی گھر میں لانے کی قائل نہیں۔ اسے اپنے اوپر تو تم ہرگز نہ لینا۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ ہماری کون مانے ؟ آج کل کی خودسر اور ضدی اولادیں ایک کہو اور دس سُنو۔ لڑکی بہت امیر گھرانے کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پڑھتی ہے۔ کہتا ہے کہ آپ لوگ تو کنوئیں کے مینڈکوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ زندگی میں اُوپر جانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے خول سے نکلا جائے۔ پرسوں اس نے فون کیا تھا۔ فوراً آنے کی تاکید کی تھی۔ سچی بات ہے میری تو خانہ پُری کروانی ہے۔ معاملات تو سارے اُس نے پہلے ہی طے کر رکھے ہیں۔
اللہ جانے بڑی آپا کا کیا حال تھا؟ وہ تو پسِ پردہ تھی، پر جو کچھ اس پر بیتی یہ صرف وہی جانتی تھی۔ بھاگ کر وہ چھت پر آ گئی تھی اور اُوپر والے کمرے میں گھُس کر اس نے کُنڈی لگالی۔
اتنا بڑا دھوکہ، اتنا بڑا فراڈ۔ اس کا دماغ سوچ سوچ کر پاگل ہوا جا رہا تھا۔
ابھی پرسوں کی ہی تو بات تھی۔ وہ گھر میں اکیلی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہوتا اور اُسے یونیورسٹی بھی نہیں جانا تھا۔ وہ کتھئی پینٹ اور سلک کی ہلکے رنگ کی قمیض پہنے ہوئے تھا۔ قمیض کے اوپر کے دونوں بٹن کھُلے ہوئے تھے۔ اس کے سینے کے گھنے سیاہ بال اندر سے جھانک رہے تھے۔ اور آل اس کے دائیں ہاتھ پر پڑا تھا۔ سٹیتھسکوپ گلے میں جھول رہا تھا۔ بائیں ہاتھ میں میڈیکل کی دو ضخیم کتابیں پکڑی ہوئی تھیں۔ اس حُلیے میں وہ گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔ یاسمین دوپہر کے کھانے کے لئے سبزی بنا رہی تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہی جیسے زندگی کا سارا حُسن اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا۔ قریب آ کر کتابیں بڑے تخت پر پھینکتے ہوئے بولا تھا۔
’’کیسی ہے ہماری جان؟‘‘
وہ ذرا خفگی سے بولی۔
’’ڈھنگ سے بات کیا کریں آپ۔ اور ہاں یہ سٹیتھسکوپ گلے میں جھُلاتے آئے ہیں تاکہ ساری دنیا جان لے کہ خیر سے ڈاکٹر ہیں۔ ہاتھ میں نہیں پکڑ سکتے تھے۔‘‘
’’ہاتھ میں پکڑ کر لاتا تو تم سے دس باتیں کیسے سُنتا؟چلو اسے چھوڑو ایک کپ چائے تو پلاؤ۔‘‘
وہ چائے بنانے گئی تو وہ وہیں اس کے پیچھے آ گیا۔
’’ایک بات میں اکثر سوچتا ہوں۔‘‘ وہ بولا۔
’’ہو گی کوئی اُوٹ پٹانگ بات۔ میں نہیں پوچھوں گی کہ کیا؟‘‘
’’کریزی!اپنے آپ سے اندازے لگانے شروع کر دئیے۔‘‘ اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر دھیرے سے کہا۔
’’بخدا میں سوچتا ہوں کہ یہ ہاتھ گھر کے کام کرنے کے لئے نہیں ہیں۔‘‘
اس نے دھیرے سے ہاتھ چھڑائے۔ اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا تھا اور وہ ذرا گھبرائی ہوئی آواز میں بولی تھی۔
’’پلیز آپ باہر جا کر بیٹھیں نا۔ کوئی آ جائے گا۔‘‘
’’کوئی نہیں آتا ابھی صرف گیارہ بجے ہیں۔‘‘
وہ برآمدے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور وہ کمرے میں چیزیں درست کر رہی تھی۔ جب وہ پھر اس کے پاس چلا آیا۔ ڈریسنگ ٹیبل سامنے تھی اور دونوں کے عکس اس میں نظر آ رہے تھے۔
’’دیکھو دیکھو یاسمین‘‘ وہ اسے اپنے بازوؤں میں بھر کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لا کر کھڑا کرتے ہوئے بولا۔
’’کیسی خوبصورت جوڑی ہے ؟‘‘
وہ شرم سے دوہری ہوئی جا رہی تھی۔ اس کے بازوؤں سے نکلنے کی تگ و دو میں تھی مگر وہ اس کی ٹھوڑی کو اوپر اُٹھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’دیکھو تو!ارے یاسمین دیکھو نا پلیز۔‘‘
اور یہاں دروازے کے پَٹ سے پُشت لگائے یاسمین کی آنکھوں سے دھڑا دھڑ آنسو بہہ رہے تھے۔
حُسن سے دل لگی کرتا تھا اور سٹیٹس کے لئے اُونچے لوگوں سے ناطہ جوڑ رہا تھا۔ ایسا عیّارانسان۔
یاسمین کا بس نہ چلتا تھا کہ کیسے اپنے ہاتھ، اپنے بال، اپنا چہرہ نوچ ڈالے کہ جن پر اس نے پیار کی مہریں ثبت کی تھیں۔ اسے یہ دُکھ بھی کھائے جا رہا تھا کہ اس نے اُسے تفریح کی چیز جانا۔ اللہ ہم لڑکیاں بھی کیسی پاگل ہوتی ہیں۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر لٹو ہو جاتی ہیں۔ گلیمر پر جان دیتی ہیں۔
اس نے نچلا ہونٹ شدت کرب سے کاٹ ڈالا تھا۔ نمکین خون سارے منہ میں گھُل گیا۔ فرش پر تھوک کر اس نے انگلیوں کی پوروں سے ہونٹ دبایا۔
دیواروں پر متحرک کہانی بس یہاں آ کر رُک گئی تھی۔ آگے تو خالی جگہ تھی جہاں سوالیہ نشان بکھرے ہوئے تھے۔ انجام سے متعلق سوالیہ نشان۔ اسی نشان کو کوئی واضح صورت دینے کے لیے وہ جوتیاں چٹخاتی پھر رہی تھی۔
دفعتاً اُس پارکنگ لاٹ میں وہ اُسے گاڑی پارک کرتی نظر آئی۔ پارے کی طرح جست لگا کر وہ اُس کی طرف بھاگی۔ وہ گاڑی لاک کر رہی تھی۔ جب وہ اس کے سامنے دو ہاتھ جوڑ کر مسکینوں کی طرح کھڑی ہو گئی۔
’’مجھے بہت ضروری کام ہے تم سے۔‘‘
اُس مرد مارقسم کی لڑکی نے بہت حیرت سے اِس موہ لینے والی خوبصورتی کی حامل لڑکی کو دیکھا۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ میں چند بار یہ لڑکی ضرور اُس نے دیکھی تھی پر واقف چھوڑ اُسے تو اُس کا نام بھی نہیں معلوم تھا۔ اُس کی معصوم اور مسکین سی صورت پر اُسے بے اختیار ترس سا آ گیا۔ اُس کا ہاتھ تھام کر وہ اُسے اپنے کمرے میں لے آئی۔
بیٹھنے کی بجائے نیم الیستادہ سی اُس نے اُس کے دونوں ہاتھ پھر پکڑ لئیے اور بولی۔
’’فی سبیل اللہ تم نے میرا کام کرنا ہے۔ صرف تم نے۔ میں غریب سے گھر کی لڑکی قطعی طور پر اِس قابل نہیں کہ تمہیں اِس کا معاوضہ دے سکوں۔ بس دُعا ہے میرے پاس۔
اور جیسے ندی میں باڑھ آ گئی۔
’’ارے ارے۔ اس کا پتھر دل جیسے پَل میں موم ہو گیا۔ کہو کہو، بولو، بولو، ایسی من موہنی سی صورت تھی کہ بے اختیار ہی دل کھنچتا چلا جا رہا تھا۔
’’کھُل کر مسئلہ بتاؤ۔‘‘
اس نے کھُل کر ساری بات اور کیا چاہتی ہے یہ بھی بتا دیا۔
’’چلو چلو آنسو پونچھو۔ جیسے چاہتی ہو۔ ویسے ہی ہو گا۔‘‘
رات نے اُترنے میں بہت دیر لگائی یا یہ صرف اس کا خیال تھا۔ گرمی بھی بہت محسوس ہو رہی تھی اور دل بھی ڈوبتا تھا پر ابھی پہلا پہر ہی تھا کہ جیسے سب کچھ طمانیت اور سرور میں ڈوب گیا۔ وہ چُپ چاپ گُم سُم ایک ٹک بڑی آپا کے چہرے اور ہونٹوں کو ہلتے دیکھے چلی جا رہی تھی۔
’’ٹانگ کا تو سمجھو قیمہ ہو گیا ہے۔ اول تو جڑنی مشکل ہے۔ جُڑی بھی تو لنگ پڑ جائے گا۔ ماں بیچاری تو ابھی امیر سمدھیانے کی طرف سے ملنے والے قیمتی جوڑے، شال کی خوبصورتی اور حُسن میں اُلجھی ہوئی تھی جب یہ خبرآسمانی بجلی کیطرح گِری۔ اللہ جانے کون لوگ تھے ؟کیا دشمنی تھی؟
رتّی برابر تاسف کیا بڑی آپا کے لہجے میں بڑی خوشی کا چھلکاؤ تھا جسے بہرحال باریک بین آنکھ ہی دیکھ اور محسوس کر سکتی تھی۔
پَل بھر میں ہی وہ اُس کمرے میں پہنچ گئی تھی۔ جہاں وہ مرد مار لڑکی اُس سے پوچھتی تھی۔
’’پہلے تو یہ بتاؤ تمہیں میرے پاس آنے کے لیے کِس نے کہا؟‘‘
عقلمندی کی جو یہ نہیں کہا کہ تمہارے چھ بھائیوں اور بہنوئیوں کے انڈر گراؤنڈ ورلڈسے تعلق کی لمبی چوڑی کہانیاں تو کیمپس کی راہداریوں تک میں بکھری ہوئی ہیں اور خود تم کِس قدر دبنگ ہو کہ تمہارے نام سے ہی بڑے بڑوں کے چھکّے چھُوٹتے ہیں۔
بس گھگھیاتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اتنا ہی بولی۔ ’’میرے دل نے‘‘ ۔
’’کیا چاہتی ہو؟‘‘
وہ ابھی پٹر پٹر اُس کا چہرہ ہی دیکھ رہی تھی کہ جب وہ خود ہی بول اُٹھی۔
’’قتل۔‘‘
قتل کا لفظ اُس نے اِس انداز اور لہجے میں کہا تھا جیسے کوئی نٹ کھٹ شیطان بچہ اپنے ساتھی سے کہے۔ ’’ابے لگاؤں ایک تھپڑ‘‘ ۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ ننگی وحشت اُس کی آنکھوں سے چھلک اُٹھی۔
’’ٹانگیں توڑ دیں۔ دونوں نہیں صرف ایک۔ اتنا ہی کافی ہے‘‘ ۔
اُس نے اُسی وقت موبائل پر چار لوگوں سے بات کی۔
دو نے غالباً کچھ حیل و حجّت کی تھی جس کے جواب میں وہ گرجی تھی۔
’’کمبختو دن رات تم لوگ اِن بڑے بڑے مگرمچھوں کے اشاروں پر گلیاں، سڑکیں لالوں لال کرتے پھرتے ہو۔ کِسی غریب کے لیے کچھ کرنا پڑ گیا تو تمہیں موت آنے لگی۔ ذلیلو۔ مسلمان ہو تم لوگ۔ اپنے فیلڈ میں صاحبِ حیثیت ہو۔ جانتے ہو مال کی ڈھائی فی صد زکوٰۃ تم پر واجب ہے اور زکوٰۃ صرف غریبوں کا حق ہے۔‘‘
٭٭٭
زاویئے
اس وقت میرے سامنے وادیِ گلگت ایک خوبصورت بلوریں پیالے کی مانند موجود تھی۔ شاہ بلوط کے تر و تازہ، شاداب، سرو قد درختوں کے پتے ہواؤں کے زور سے جب تالیاں بجاتے ہوتے اوپر نیچے ہوتے تو چمکیلی دھوپ میں یوں لگتے جیسے چاندی کے دریا میں غوطے مار کر باہر نکلے ہوں۔
ابھی کوئی ڈیڑھ گھنٹہ قبل میں چلاس سے گلگت پہنچی تھی۔ ویگن نے پورے تین گھنٹے لگائے تھے۔ پر ہیبت بنجر اور خشک پہاڑوں کے سلسلوں اور راستے کی دشوار گزاریوں نے میرا دل دہلائے رکھا تھا۔
اس وقت میں پی آئی اے گلگت ائر پورٹ کی دو منزلہ عمارت کے ٹیرس پر کھڑی آخری جہاز کی روانگی اور وادی کے حُسن کو دیکھ رہی تھی۔ میرے میزبان جو گلگتی ہیں مجھ سے آدھ گھنٹہ کی معذرت کرتے ہوئے نیچے چلے گئے کیونکہ وہ سیکورٹی میں ملازم ہیں اور ہر فلائیٹ پر ان کی موجودگی ضروری تھی۔
ائر پورٹ پر غیر معمولی رش تھا۔ شمالی علاقوں میں گرمیوں کے موسم میں آنے اور جانے کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے۔ اس وقت تو یوں بھی ایک گلگتی دلہن بیاہ کر نیچے جا رہی تھی۔ پورا سُسرالی خاندان اُسے لینے آیا ہوا تھا۔ پتہ چلا تھا کہ حیدر آباد کی ایک فیملی کچھ عرصہ گلگت رہی تھی۔ دلہن والے ان کے ہمسائے تھے۔ بس محبت ہو گئی اور نتیجتا َ تعلقات رشتہ داری میں بدل گئے۔
’’اے کاش چاروں صوبوں میں ایسی ہی محبت اور ایسے ہی تعلقات پیدا ہو جائیں۔ "تب یقیناً یہ مُلک امن اور سکون کا گہوارہ ہو جائے گا۔‘‘
میں نے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے سوچا۔
دھوپ تیز تھی اور زیادہ دیر تک وہاں کھڑے ہونا گویا اپنے آپ کو سن سڑوک کے منہ میں دینے والی بات تھی۔ میں کمرے میں آ گئی۔
کوئی آدھ گھنٹہ بعد غلام محی الدین صاحب میرے میزبان آ گئے۔ موصوف میرے چچا کے دوست تھے۔ اپنی بیمار بیوی کو لے کر لاہور آئے تھے اور تقریباً ایک ماہ چچا کے گھر ٹھہرے تھے۔ میری ملاقات وہیں ان کے گھر ہوتی تھی۔ مِسز غلام محی الدین ہڈیوں کی ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھیں جس نے ان کی دونوں ٹانگوں کو بیکار کر دیا تھا۔
غلام محی الدین اونچے، لمبے، گورے چٹے 45، پچاس کے ہیر پھیر میں تھے۔ کرسی پر بیٹھے تو گردن سے پسینہ پونچھتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولے۔
’’میں حیران ہوں آپ اکیلی عورت ان علاقوں میں کِس دیدہ دلیری سے گھوم پھر رہی ہیں۔‘‘
میں ہنسی تھی۔ ’’ بھئی اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟ اپنا وطن ہے۔ رہے حالات وہ تو سارے مُلک کے ہی خراب ہیں۔ اب اِس ڈر سے کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیں۔ یہ تو ممکن نہیں۔‘‘
میں نے ان کی بیگم کے بارے میں پوچھا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولے۔
’’بس ویسی ہی ہیں۔ آزمائش کی سولی پر لٹکا ہوا ہوں۔‘‘
مجھے دُکھ یا تاسف کی بجائے اُس لہجے میں کوفت اور بے زاری کا سا امتزاج محسوس ہوا تھا۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئے۔
’’میں نے شادی کر لی ہے در اصل اس کی دیکھ بھال کے لئے کِسی عورت کی ضرورت تھی۔‘‘
جیسے انجانے میں بجلی کا جھٹکا لگے میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوئی۔ پر تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ عورت کی بیماری اور اس کا ادھورا پن گھر کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ کوئی سنبھالنے والا نہیں ہو گا نا۔ مزید سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے میرے پروگرام کے بارے میں جانکاری چاہی۔
بارہ بجے وہ اُٹھے، مجھے ساتھ لیا اور ہم دونوں ان کے گھر کشروٹ محلہ کی طرف قدم اٹھانے لگے۔ ان کا گھر یادگار کے پاس تھا۔ پتھروں سے بنے ہوئے کئی گھروں کی گلیاں اور ان گلیوں میں بہتی چھوٹی چھوٹی ندیوں کو عبور کر کے جب ایک پختہ گھر کے دروازے کے سامنے رُکے۔ میں نے چادر ٹھیک کی، ٹشو سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور اندر داخل ہوئی جہاں برآمدے میں مسز غلام محی الدین چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ سیبوں جیسے دہکتے رخساروں والی تین جوان لڑکیاں میرے گرد آ کھڑی ہوئیں۔
میں نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ میری اس حیرت پر مسز محی الدین مسکرائیں۔
’’ارے میری بیٹیاں ہیں۔ تین یہ ہیں اور چوتھی شادی شدہ ہے۔‘‘
میں نے نچلے اور اوپر والے ہونٹوں کو اضطراری حالت میں دانتوں سے کاٹ لیا تھا۔ ایسی پیاری، صحت مند اور جوان بیٹیوں کے ہوتے ہوئے بھلا اور شادی کی کیا ضرورت تھی؟بھلا یہ ماں اور گھر کو نہیں سنبھال سکتی تھیں۔
برآمدے کے آخری کونے میں ایک سہمی ہوئی ہرنی جیسی موٹی سبزآنکھوں والی خوبصورت لڑکی گھنے سنہری بالوں کو سبز فلیٹ کریپ کی اوڑھنی سے ڈھانپے کھڑی تھی۔
’’یہ ۔ .۔ یہ کون ہے ؟ میں ہکلائی۔‘‘
مسز محی الدین نے شوہر کی طرف شاکی نگاہ سے دیکھا اور پھر مجھ سے کہا۔
’’میری سوت۔‘‘
چہرے کے تاثرات اور مختصر سے جملے میں سر تا پا جلن کی آگ دہک رہی تھی۔
میں نے چارپائی پر پاؤں رکھے۔ چادر کو گریبان سے ذرا پرے کرتے ہوئے پنکھے کی ہوا کو گردن اور سینے کے اندر کیا اور لمبا سانس بھر کر اس پتھر کی مورتی کو دیکھا۔
دُکھ کی ایک لمبی سی آہ میرے سینے سے اُبل کر باہر آ گئی تھی جس نے میرے چہرے کو بھی یقیناً افسردہ کر دیا ہو گا۔ میں نے بے دلی سے نظروں کا رُخ بدلا۔ باہر آنگن میں دھوپ کے پسار اور تیزی نے آنکھوں کو چندھیا دیا تھا۔ چارپائی پر نیم دراز ہو کر میں نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئیے۔
فضا میں کِسی اشتہا انگیز کھانے کی تیرتی پھرتی خوشبو انتڑیوں میں بھوک کی طلب کو بڑھا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے کھانے کے لیے ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جس کی چھت چار مضبوط ستونوں پر کھڑی تھی۔ ستون، چھت اور دروازوں کی لکڑی سالوں کی دھواں خوردہ تھی۔ سیاہ رنگ لشکارے مارتا تھا۔ چھت کا درمیانی حصّہ شش پہلو مرکز میں جا کر ایک دوسرے سے ملتا ہوا نظر آتا تھا۔
کمرہ درمیان میں چاروں طرف سے پون فٹ اونچے لکڑی کے تختوں سے منقسم تھا۔ اطراف میں دو طرف گدے بچھے تھے اور دو طرف پلاسٹک کی شیٹ۔ درمیان میں بنائے گئے چولہے پر کھانا پکا تھا۔ میں اسی سمت بیٹھی جہاں کھانے کے برتن سجے تھے اور گھر کی لڑکیاں براجمان تھیں۔ آلو گوشت کا سالن تھا۔ آلو میتھی کی بُجھیا تھی جسے شکر کوژے بتایا گیا۔ قُستہ یعنی خمیری روٹی کے ساتھ اِن سالنوں نے ایک انوکھی لذت کا مزہ دیا۔
کھانے کے بعد تربوز کاٹا گیا۔ صاحب خانہ نے ایک بڑی سی قاش باہر چارپائی پر بیٹھی معذور بیوی کو بھیجی۔ دوسری مجھے تھمائی، بیٹے اور بیٹیوں نے بھی ہاتھوں میں تھام لیں۔ سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ پتھر کا بت اب چولہے کے پاس بیٹھا تھا۔ کِسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی تھی۔ یہ سب باتیں کرتے اور ہنستے تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے
ہاتھ میں پکڑا وہ شہد جیسی لذت والا تربوز کِسی نوجوان کا کوئی کٹا ہوا اعضاء ہے جس سے خون رستا ہو۔
ابکائی سی محسوس ہوئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول اُٹھی۔
’’ارے اسے بھی دو نہ۔‘‘
’’ہاں ہاں یہ لو جواری بیگم۔‘‘ غلام محی الدین نے قاش اُسے پکڑا دی۔
ظہر کی نماز سے فارغ ہوئی۔ برآمدے میں اس وقت مسز محی الدین تکیوں کے سہارے اکیلی بیٹھی تھیں۔ میں نے رُخ ان کی طرف کیا۔ میرے دائیں ہاتھ کو نوداس کے بنجر پہاڑی سلسلے تھے۔ بیک پر پریذیڈنسی کے سبز درخت اور کوہل (نالہ) نظر آتا تھا۔
دفعتاً مجھے محسوس ہوا تھا جیسے دُکھ میں ڈوبی آنکھیں مجھے وہ داستان سُنانا چاہتی ہیں جن کے نتیجے میں سوکن آئی تھی۔ میں آگے جھُک گئی تھی۔ میرے شانے گردن کو جکڑ بیٹھے تھے۔
پتہ نہیں ان دنوں مجھے کائنات اتنی خوبصورت کیوں نظر آتی تھی ؟شاید جوانی کے مہکتے دن تھے۔ اُن دنوں ہم لوگ دنیور میں رہتے تھے۔ دنیور گلگت کے مضافات کی ایک جگہ ہے میرے گالوں پر سیبوں جیسی لالی تھی۔ میرا رنگ چنبیلی کے پھولوں جیسا تھا۔ میری اُٹھان شاہ بلوط کے پیڑوں جیسی تھی۔
نسالو کی رسم شمالی علاقوں میں گوشت اور اشیاء کے موسم سرما کے سٹاک کرنے کی رسم ہے۔ گھر کے پالے ہوئے جانور گائے، بیل یا بکرے ذبح ہوتے ہیں۔ عزیز رشتہ داروں کو کھانوں پر مدعو کیا جاتا ہے۔ خوب رونق میلہ لگتا ہے۔ سال بھر شدّت سے ان دنوں کا انتظار ہوتا ہے۔
بڑی ٹھنڈی صُبح تھی۔ ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے۔ گو اِن میں ابھی برچھی جیسی کاٹ نہیں آئی تھی پر یہ ہوائیں آنے والے پُر مسرت دنوں کی نوید تو سُناتی تھیں۔
میں سویرے سویرے دو چوٹیاں گوندھتی تھی۔ گلابی اونی پشم کے پراندے اُن میں ڈالتی تھی۔ وہ تین ریشمی جوڑے جو میرے چچا نے گاہے بگاہے نیچے سے بھیجے تھے بہانے بہانے انہیں پہننے کے لیے مری جاتی تھی۔ ماں سے گالیاں بھی کھاتی تھی پر نہ آنکھوں میں کاجل لگانے اور نہ ہونٹوں کو دنداسے سے سرخ کرنے سے باز آتی تھی۔ میری آنکھیں چمکتی تھیں یہ چمک ان خوابوں کی تھی جو میں ان دنوں دیکھتی تھی۔
اماں بولے چلی جا رہی تھیں۔ ابّا کو لعن طعن کی سان پر چڑھایا ہوا تھا۔ میرے ابّا خسرو خان مجلسی آدمی تھے۔ اماں ذرا تنہائی پسند تھیں۔ اُس صبح اُن کے کام پر جانے کے ساتھ ہی پھٹکار کا کھٹا میٹھا چٹھا شروع ہو گیا تھا۔
’’اِس خسرو خان کو اللہ سمجھے۔ اب مجھے کہتا ہے۔ نسالو پر ڈنگ دھرم بنایا جائے۔ ارے اِسے بنانا آسان ہے کیا؟آدمی ہلکان ہو جاتا ہے۔ اس کا کیا ہے ؟حکم جاری کرنا ہے۔ دھرم پھٹہ(گندم کے دانوں کو بھگو کر شگوفے پھوٹنے پر انہیں پھر سُکھا کر آٹا بنایا جاتا ہے ) میں ہی اب کتنے دن لگ جاتے ہیں ؟
ایک اس لڑکی کو کہے سُنے کا اثر نہیں۔ ہفتے بھر سے چیخ رہی ہوں اخروٹ اور خوبانی کی گریوں کو نکال کر کُوٹ دے۔ برچ (درخت) کے پتے توڑ کر لے آ۔ پر اِسے اپنے ہار سنگار سے فرصت ملے تو کِسی کام میں میرا ہاتھ پلّا بٹائے۔‘‘
مجھے بھی تپ چڑھی تھی۔
’’بس اماں تجھے اختلاج ہونے لگا ہے۔ تو میرا بننا سنورنا نہیں دیکھ سکتی۔ تو چاہتی ہے میں من من مٹی کپڑوں میں ڈالے رکھوں۔‘‘
’’باوا سے بول کہ مہمانوں کو طریقے اور حساب سے بلائے۔ اپنے خلیرے بھائیوں سے صُلح کر بیٹھا ہے۔ کتنا بڑا ٹبّر ہے ان کا۔ خوشی سنبھالی نہیں جاتی اس کی۔ سب
آئیں گی اس بار رٹ لگائے جا رہا ہے۔ ہر روز نیا ہدایت نامہ سُناتا ہے۔ اپنی پیاری مچھاری گائے کروں گا۔ پٹھو رکس(خشک خوبانیوں ) کا سُوپ، چھوٹی الائچی اور باداموں کے ساتھ بنانا۔ سب سے پہلے اسی سے تواضع کریں گے۔‘‘
میں تو خوشی سے نہال ہو گئی۔ میرے ابّا کے یہ عزیز امیر لوگ تھے۔ میں ان کے بارے بہت کہانیاں سُنتی تھی۔
میں نے امّاں کی دلداری کی۔ ’’تُو کچھ فکر نہ کر۔ ہاں اماں تُو نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘
امّاں کچھ بولی نہیں۔
’’ہاں امّاں شوپن تو بنائیں گے نا۔‘‘
امّاں نے اِس بار بھی میری بات کا جواب نہیں دیا۔
لگتا تھا اماں ناراض سی ہیں۔ میں جی جان سے کام میں جُت گئی تھی۔
نسالو کا دن منانے کے لیے ابّا نے اکیس دسمبر کا دن رکھا۔ دو دن بعد اُن کی دعوت تھی۔ سچی بات ہے میرے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ ہواؤں میں اُڑتی پھرتی تھی۔ بوٹی بوٹی میں جیسے پارہ بھرا ہوا تھا۔
پھر جیسے گھر میں شور مچا کہ عبداللہ خان اور ان کے بیٹے بہوئیں آ گئی ہیں۔ میں نے دیکھا۔ وہ نہایت خوبصورت لوگ تھے۔ ابا نے سب سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا غلام محی الدین نہیں آیا؟‘‘
’’وہ بھی آتا ہے۔‘‘ مجمع میں سے کِسی نے جواب دیا۔
اس وقت شام ہو رہی تھی۔ سورج کی کرنیں سونا بن گئی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ہمارا گھر سونے کے دریا میں ڈوبا ہوا ہو۔ میں باغیچے میں بنی چھوٹی سی کوٹھری میں دبائے ہوئے کھیروں کو نکال رہی تھی جب سر پٹ بھاگتے گھوڑے کی آوازسُن کر مضطرب سی ہو کر باہر نکلی۔ میں نے دیکھا تھا۔ چھ فٹ سے بھی نکلتے قد کا خوبصورت نوجوان گھوڑے سے اُتر رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا گھوڑے کی باگ اس کے ہاتھ میں تھی اور وہ ایک ٹک مجھے یوں دیکھ رہا تھا جیسے مجھ سے بڑا عجوبہ شاید کوئی اور دنیا میں نہ ہو۔ میں بھی حیران تھی۔ اس کی سج دھج شہزادوں جیسی تھی۔ ان شہزادوں جیسی جن کی کہانیاں ہماری تہذیب کا ورثہ ہیں اور جو ہم سرما کی طویل راتوں میں اپنے بڑے بوڑھوں سے سُنتے تھے۔ پھر اس نے گھوڑے کو باندھا۔ میرے قریب آیا اور پوچھا۔
’’ تم کون ہو؟‘‘
’’میں ایک لڑکی ہوں۔ پندرہ سال کی۔ اس گھر کی مالک ہوں اور تم کون ہو؟‘‘
میں ان دنوں بہت شوخ و چنچل ہوتی تھی۔ بات سے بات پیدا کرنے میں مجھے بہت ملکہ تھا۔
وہ دراز قامت جو مجھے گہری نظروں سے دیکھتا تھا، جس کی آنکھوں میں مجھے اپنا آپ نظر آ رہا تھا۔ دھیمے سے بولا تھا یوں جیسے اُسے ڈر ہو کہ کوئی اس کی آواز نہ سُن لے۔
’’میں ایک لڑکا ہوں بائیس سال کا اس گھر میں نسالو کا کھانا کھانے آیا ہوں۔ مہمان ہوں۔‘‘
اور میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
اس نے ہونٹوں پر شی کرتے ہوئے انگلی رکھی۔ اس کی آنکھیں بولتی تھیں کہ اتنا اونچا مت ہنسو۔ پاگل ہو کیا؟
میں اس کی حرکت پر پھر ہنس پڑی تھی۔ کھیرے دونوں ہاتھوں میں اُٹھائے اندر بھاگ گئی۔ ہمارا باغیچہ گھر کی عقبی طرف تھا۔
اماں نے مجھے ڈانٹا کہ کیا کدکڑے لگاتی پھرتی ہو۔ دھیان سے۔ گھر میں لوگ آئے ہوئے ہیں۔
میں نے کوئی دس بار تاک جھانک کی ہو گی کہ مجھے اس کی ایک جھلک نظر آئے۔ جب ان کے گھر والے جانے لگے تب یوں ہوا کہ اس خوبصورت لڑکے نے مجھے سب کی نظر بچا کر سلام کیا۔
وہ رات کیسی تھی؟مجھے نیند نہیں آئی۔ بار بار کوئی میری آنکھوں میں جھانکتا تھا۔ میں آنکھیں بند کرتی اور کھولتی تھی۔ وہ مجھے سونے نہیں دیتا تھا۔ اور پھر کتنے دن گزر گئے
میں چاہتی تھی اماں ان کے گھر جائیں اور مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں۔ ایک دن میں نے کہا۔
’’اماں چلو نا شہینو کے گھر۔ شہینو میری بہت پیاری اور چاہنے والی سہیلی ہے۔ شہینو کا گھر جماعت خانے کے پیچھے تھا۔ اللہ جانے اماں پر خوشی کی کون سی گھڑی قبضہ کئے بیٹھی تھی حامی بھر لی کہ ٹھیک ہے کل چلیں گے۔‘‘
سویرے سویرے مجھے تیار ہوتا دیکھ کر اماں نے کہا۔ ’’ تُو تو معلوم ہوتا ہے جیسے کِسی بارات میں جا رہی ہے۔ دیکھ اتنا سنگار کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بُندے اتار اور چوٹیوں میں پرانے پراندے ڈال۔‘‘ میں نے مجبوراً ایسا کیا۔ نہ کرتی تو مجھے ڈر تھا کہ اماں مجھے چھوڑ جائیں گی۔
دوپہر کا کھانا شہینو کے گھر کھا کر اماں اُٹھیں اور ساتھ ہی کہنے لگیں۔
’’تم یہیں رہو میں غلام محی الدین کے گھر کا چکر لگا آؤں۔ اس کا باپ کچھ ٹھیک نہیں۔‘‘
میں کھڑی ہو گئی اور بولی۔
’’امّاں میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔ چھوٹی بھاوج اس دن بہت زور لگاتی تھیں کہ تم ضرور آنا۔‘‘
مجھے نہیں معلوم اماں کیسے چپکی ہو رہی ؟ہم دونوں یہیں اسی محلے میں آ گئیں۔ سارا راستہ میں دعائیں مانگتی آئی تھی کہ اللہ میرا اس سے سامنا ہو جائے۔ پر میری ساری دعائیں اکارت گئیں۔ وہ گھر میں نہیں تھا اور شام ڈھلنے تک نہیں آیا۔ کم بخت اللہ جانے کہاں مر گیا۔ میں نے اسے جی بھر کر کوسا۔
گھر آ کر مجھ پر اداسی کی ایک ایسی چادر تن گئی جس نے مجھے اپنے آپ میں لپیٹ لیا۔ پھر سردیاں دبے پاؤں گزرنے لگیں۔ ان طویل راتوں میں جب کبھی اردگرد کی خواتین
ہمارے ہاں کہانی سُننے یا سوزخوانی کی کِسی محفل میں شرکت کے لئے آتیں اور مجھے ان کے سامنے خشک پھل اور سماورا میں قہوہ پیش کرنا پڑتا۔ مجھے غصہ آتا۔ میں خود سے کہتی۔
’’ ہائے اللہ آخر یہ عورتیں کیوں آتی ہیں ہمارے گھر ؟کاش غلام محی الدین کے گھر والے آئیں اور میں ان کے سامنے پھل رکھوں۔ بخاری جلا کر انہیں بٹھاؤں، پھر بھاگی بھاگی قہوہ لاؤں اور انہیں پیش کروں۔ مجھے یہ سب کرتے ہوئے کتنی خوشی ہو گی؟‘‘
اور جب گلگت کے پہاڑوں پر برف پگھل رہی تھی، سبزہ پھوٹ رہا تھا، کسان کھیتوں میں تندہی سے ہل چلاتا تھا، ایک دن غلام محی الدین گھوڑے پر ہمارے گھر آیا تھا۔ اس نے دو گھوڑا بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار پہن رکھی تھی۔ گلگتی روایتی ٹوپی اس کے سر پر نہیں تھی۔ بال بہت خوبصورتی سے سنورے ہوئے تھے۔
اماں نے اس کی پذیرائی محبت سے کی۔ پتہ نہیں وہ میری طرح اماں کو بھی اچھا لگتا تھا۔ وہ اماں کے پاس بیٹھا۔ اس نے نمکین چائے کے ساتھ ان بسکٹوں کو کھایا جو میں نے ابھی کل بنائے تھے اور جب وہ کہتا تھا کہ یہ بسکٹ بہت لذیذ ہیں۔ کِس نے بنائے ہیں ؟ میں کمرے سے چھلانگ مار کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔
’’میں نے بنائے ہیں۔ تمہیں پسند آئے ؟‘‘ اس نے اشتیاق سے مجھے دیکھا اور کہا۔
’’یہ تو نے بنائے ہیں۔ تُو تو بہت سلیقہ مند لڑکی ہے۔‘‘
میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پتہ نہیں ان دنوں مجھے کیوں اتنی ہنسی آتی تھی؟
پھر وہ اکثر آنے لگا۔ وہ جب آتا میرا چہرہ میرے اندر کا حال بتانے لگتا۔ پھر ایک دن اس کی ماں بہن اور بھاوج آئیں۔ انہوں نے رشتہ مانگا۔ ہمارے ہاں بالعموم آٹے ساٹے کے رشتے ہوتے ہیں لیکن میرا کوئی بھائی نہیں تھا اماں نے اس سستے زمانے میں دس ہزار روپیہ مانگا جو انہوں نے پورا کیا۔ زیور کپڑا بنا اور میں بیاہ کر غلام محی الدین کے گھر آ گئی۔
خوشی میرے اَنگ اَنگ سے پھوٹی پڑتی تھی۔ میں نے وہ رنگ روپ نکالا تھا کہ دیکھنے والے حیران تھے۔ یہ گھر جس میں میں اب بیٹھی ہوں یہ تب بہت چھوٹا تھا یہی ہمارے حصے میں آیا تھا۔ میں نے گائے رکھی، بکریاں پالیں، مرغیوں سے پیسہ کمایا، باغ کے لئے جگہ خریدی، باغ لگایا اور اوپر تلے بچے پیدا کئے۔ میں نے اس گھر کے لئے خودکو ہلکان کر دیا تھا۔
ہر بچے کی پیدائش پر میں خود کو پہلے سے زیادہ توانا محسوس کرتی۔ غلام محی الدین نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا تھا۔ میں پیسہ کمانے میں اس کی دستِ راست تھی۔ اِس گھر کو کشادگی دینے میں میری محنت ہے۔
لیکن ان تمام قربانیوں کا صلہ کیا ملا؟بیمار ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ لیکن سب کچھ کرنے کے باوجود مجھے زندہ درگور کر دیا۔ میری بچیوں سے بھی چھوٹی عمر کی لڑکی میری سوت بنا کر میرے سینے پر بٹھا دی۔
مسز غلام محی الدین کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے تھے۔ فضا اتنی بوجھل اور اُداس ہو گئی تھی کہ مجھے اپنا سانس سینے میں رُکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ اپنے آنسوؤں کو اپنے ہڈیوں جیسے ہاتھوں کی پوروں سے صاف کرتے ہوئے وہ بولی تھی۔
’’یہ ظلم ہے۔ غریبی کی بنیادوں پر آپ جذبات کے سودے کرتے ہیں۔ غلام محی الدین اِس وقت پچاس کے لگ بھگ ہے۔ لڑکی تو سترہ سے بھی کم ہے۔ چلو دس پندرہ سال زور زبردستی کچھ دوا داروؤں کچھ دیسی بدیسی ٹوٹکوں کے سر پر بُرے بھلے گزر جائیں گے۔ پھر؟ ہمارے معاشرے میں جہاں مرد کے پاس پیسہ آیا۔ اُس نے شادیوں پر زور نکالا۔‘‘
میں ہنسی۔ ’’سبھی جگہ یہی حال ہے۔‘‘
میں نے پوچھا تھا۔ لڑکی دیکھنے میں بہت بھولی بھالی اور معصوم نظر آتی ہے۔
’’ارے بڑی میسنی سی ہے۔ ابھی زبان نہیں کھولتی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سوت تو مٹی کی بھی بُری۔ غلط نہیں۔ ظاہر ہے ایک دن ہوشیار ہو جائے گی اور پورے گھر پر قبضہ جما لے گی۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے میری آنکھوں میں ریت گھُستی جا رہی ہو۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ صریحاً زیادتی والی بات کر رہی تھی۔
شام ہو جانے اور سو جانے کے عرصے تک وہ پتھر جیساوجود بار بار اپنی فلیٹ کریپ کی سبز اوڑھنی لہراتا میرے سامنے سے مختلف کاموں کے سلسلے میں گزرتا رہا۔
اگلی صبح میں ہنزہ جا رہی تھی۔ واپسی پر میرا خیال گلگت اور اس کی قریبی جگہوں کو تفصیلی دیکھنے کا تھا۔ گھر والے میرے یوں تنہا جانے پر خائف سے تھے۔ گزشتہ سال علاقہ پہلی بار شیعہ سُنی فسادات کی لپیٹ میں آیا تھا۔ گلگت ہفتہ بھر کرفیو کی زنجیروں میں جکڑا رہا۔ معتدل مزاج لوگ پریشان تھے کہ یہ سب کیسے ہوا؟زمانوں سے وہ لوگ اکٹھے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ آپس میں رشتے ناطے بھی ہیں۔ کیا یہ نیچے سے آنے والی تبلیغی پارٹیوں کے شاخسانے تھے۔
اور جب میں صبح چائے پیتی تھی ان کے بڑے نے اپنی تشویش سے مجھے آگاہ کرتے ہوئے محتاط رہنے کی تاکید کی تھی۔
تین دن ہنزہ سے خنجر اب تک سفر کے بعد میں جب دوپہر کو واپس آئی اور غلام محی الدین کے گھر میں داخل ہوئی۔ گھر بھائیں بھائیں کرتا تھا۔ میں نے بڑے کمرے میں جھانکا۔ کمرہ خالی تھا۔ ملحقہ کمرے میں گئی وہاں وہ تنہا بیٹھی اپنی پیشانی کے پسینے کو سبز اوڑھنی سے صاف کرتی تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی گھبرا کر اُٹھی۔ میں اندر آ گئی۔
’’سب لوگ کہاں ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ کچھ کچھ اُردو بول اور سمجھ لیتی تھی۔ دوسال ہونے کو آئے تھے اُس کے بیاہ کو۔ اس کی وحشت زدہ آنکھوں سے مجھے گھٹن سی محسوس ہوئی۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور شفقت سے کہا۔
’’جواری بیگم تم اتنی پریشان کیوں ہو گئی ہو؟بیٹھو۔‘‘
وہ بیٹھ گئی۔
ٹوٹی پھوٹی اُردو میں اس کے بتانے پر مجھے پتہ چلا کہ بڑی شادی شدہ لڑکی کے
گھر کوئی تقریب تھی۔ غلام محی الدین صاحب کی بڑی بیگم بھی وہیل چئیر پر بیٹی کے گھر گئی تھی وہ گھر میں اکیلی تھی۔ گھر کی نوکرانی جو پکاتی، ریندھتی تھی۔ سب کے آگے رکھتی تھی پر جسے اپنی مرضی سے نوالہ توڑنے کا حکم نہیں تھا۔
ٹانگوں سے معذور مسز محی الدین اُس کے نوالے گنتی تھی۔ اُسے دیا جانے والا سالن چیک کرتی تھی۔
میرا دل اس کی مظلومیت پر بھر آیا تھا۔ پتہ نہیں یہ میری آنکھوں کا قصور تھا یا پھر میری آواز کا کہ جو بھرائی ہوئی تھی۔ اس نے میرے اند رکے درد کو محسوس کیا تھا وہ رو رہی تھی۔ میں نے اس کے آنسو پونچھے اور پوچھا؟ ’’تمہارے والدین نے تمہاری شادی یہاں کیوں کی؟‘‘
’’اور کہاں کرتے ؟ وہ تو بہت غریب ہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں موتیوں جیسے آنسو تیر رہے تھے۔
اُس جیسی لڑکی کو جس نے نہ دنیا دیکھی تھی نہ اس کے مکرو فریب اور چھلوں سے واقف تھی یہ کہنا کہ بہادر بنو۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ کتنا مشکل تھا؟
یہاں سے کوئی پچاس ساٹھ کلومیٹر دُور ایک بہت خوبصورت وادی ہے پُنیال۔ میں وہاں کی ہوں۔ بہت ٹھنڈا علاقہ ہے۔ ان دنوں میں بھی اکثر جگہوں پر برف جمی رہتی ہے۔ کوئی دو سال پہلے غلام محی الدین ہمارے گھر آیا۔ یہ میری ماں کا بھانجا ہے۔ اس کے ہاتھ میں مالٹوں اور کینوؤں کی بہت بڑی ٹوکری تھی۔ چھوٹا سا اٹیچی کیس بھی دوسرے ہاتھ میں تھا۔ اس نے پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا وہ نیلے رنگ کا تھا۔ اس نے اٹیچی کیس کھولا اس میں میری ماں کے کپڑے، باپ کے، سارے بہن بھائیوں کے اور خود میرے لئے بڑا خوبصورت جوڑا تھا۔ میرا سوٹ ایسا خوبصورت تھا کہ اس پر میری نظر نہ ٹکتی تھی۔ میں نے کبھی ایسے کپڑے نہیں دیکھے تھے۔ سارا گھر خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا۔ اماں اپنا جوڑا دیکھتی تھیں، میری بہن اپنا، میں اپنا اور بھائی اپنے اپنے۔ پھر ہم ایک دوسرے کے دیکھتے ہوئے تبصرے کرتے۔
ماں ان کے پاس بیٹھی ڈھیر ساری باتیں کرتی تھیں۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اُس کی بیوی بیمار ہے۔ وہ اسے لاہور تک علاج کے لئے لے گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ وہ بس تھوڑے عرصے کی مہمان ہے۔
اماں اور ابا چچ چچ کرتے رہے۔ آخر وہ اماں کا بھانجا تھا دوسرے دن شام کو وہ واپس چلا گیا۔ جاتے جاتے کتنے سُرخ نوٹ چھوٹے بھائی کو پکڑا گیا۔
کوئی ماہ بعد وہ پھر آیا۔ اس بار بھی وہ ہمارے لئے ڈھیر ساری چیزیں لایا۔ ان میں چائے کی پتی اور نہانے کا ولایتی صابن تک تھے۔ اماں جب اس کے لئے اس شام چائے بنانے لگیں تو وہ چولہے کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے پانی میں وہ پتی ڈالی جو وہ ہمارے لئے لایا تھا۔ چائے بنی۔ چائے کا ذائقہ ایسا نرالا اور خوشبو ایسی پیاری تھی کہ ہم نے آج تک نہ چکھی تھی اور نہ دیکھی تھی۔
میری طرف اس کے دیکھنے کا انداز بہت میٹھا تھا۔ جب وہ مجھے دیکھتا یوں لگتا جیسے میرے سارے بدن میں سنسناہٹ دوڑ گئی ہے۔ میں بھی اُسے دیکھتی تھی۔ اس وقت وہ مجھے بہت مہربان بہت پیارا اور بہت اچھا انسان لگا تھا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے جنہیں اُس نے اوڑھنی کے پلو سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
اُس وقت مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی۔ میں نے ان کانٹوں کا نہیں سوچا تھا جو کانٹے اُس کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ مجھے اس دنیا میں لے جائے گا جس دنیا کے بارے میں مَیں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس بار وہ دو دن رہا اور چلا گیا۔
پھر اس کی آمدورفت زیادہ شروع ہو گئی۔ ایک دن میں باہر باغ میں سیبوں کے درخت کے پاس کھڑی تھی۔ ہم لوگ نومبر کے آغاز میں سیبوں کو اتار کر موسم سرما کے لئے محفوظ کر لیتے ہیں میں بھی ان دنوں یہی کام کر رہی تھی۔ جب میں نے اسے دیکھا وہ میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ باغ میں آ گیا تھا۔ مجھے گھبراہٹ شروع ہو گئی۔ وہ میرے قریب آیا۔ اس نے میرے سر پر چپت ماری اور کہا۔
’’تم اس بار یہ سیب نہیں کھاؤ گی۔ میں تمہیں گلگت کے سیب کھلاؤں گا۔‘‘
اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ بس ماہ بعد میں نے سُرخ جوڑا پہنا اور اس کے ساتھ بس میں بیٹھ کر یہاں آ گئی۔ جب میں بس میں بیٹھی تھی میرا دل خوشی کے ہنڈولوں میں جھولتا تھا۔ مجھے بس میں بیٹھنا اور سفر کرنا بہت اچھا لگا تھا۔ یہ میرے ساتھ تھا۔ وقفے وقفے سے میری طرف دیکھتا اور پوچھتا تھا تمہارا دل تو نہیں گھبراتا۔ تم ٹھیک ہو۔
ایک جگہ بس رُکی یہاں ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ اس نے مجھے چائے پلائی اور بسکٹ کھلائے۔ رات ہو گئی جب میں اس گھر میں آئی یہاں بتیاں بند تھیں اور سب لوگ سوتے تھے۔ اس کے دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک لڑکی نے دروازہ کھولا۔ کوئی نہیں اٹھا۔ سب سوتے رہے۔ میں اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آ گئی۔ پھر اُس نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور میرا ما تھا چوما اور کہا۔
’’تم کبھی کوئی بات محسوس نہیں کرنا۔ بس جو دُکھ ہو وہ مجھے بتانا۔‘‘
اس وقت مجھے دُکھ کا احساس نہیں تھا پر آج ہے۔ اُس وقت کچھ نہیں سمجھتی تھی آج سب چیزوں کی سمجھ ہے۔ لیکن میں نے ہونٹ سی رکھے ہیں کہ اسی میں میری نجات ہے۔ کبھی کچھ نہیں کہا۔ کبھی شکایت زبان پر نہیں لائی۔ بس مجھے معلوم ہو گیا ہے یہ میرا مقدر ہے وہ رو رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔
میں کمرے میں لیٹ گئی تھی۔ میرا دل بوجھل تھا۔ اس نے چائے بنائی اور مجھے دی۔ شام کے قریب وہ لوگ آئے۔
دو دن بعد میری واپسی تھی۔ موسم ٹھیک نہیں تھا۔ جہاز کی فلائیٹس کینسل تھیں۔ کاغان اور ناران تک دھواں دھار بارشوں کا سلسلہ تھا۔ میں نے ایک بار پھر بس سے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی محض اتفاق ہی تھا کہ ہنزہ میں مجھے ایک فیملی ملی تھی جس کے ساتھ میری واپسی ہوئی تھی اب پنڈی تک جانابھی ان کے ساتھ ہی ٹھہرا۔
جس شام مجھے واپس آنا تھا۔ میں ان سے سب سے ملی۔ مسز محی الدین کے گلے لگی۔ انہوں نے میرے رخسار اور میں نے ان کے رخساروں پر بوسے دئیے۔ بچیاں بھی پاس کھڑی تھیں۔ بڑی پیاری بچیاں تھیں۔ میں نے ان کی پیشانیوں پر پیار کیا۔
پھر جیسے میرا جی چاہا میں اس خاموش پتھر کے بُت کو اپنے سینے سے بھینچ لوں اس زور سے کہ اس کے اندر کا سارا دُکھ باہر آ جائے۔ لیکن میں ایسا نہ کر سکی۔
غلام محی الدین صاحب نے میرا بیگ پکڑا اور میں ان کے ساتھ جوبلی اِن جانے کے لئے باہر آ گئی۔ جب ہم کشادہ سڑک پر آ گئے غلام محی الدین جیسے بارُود کے گولے کی طرح پھٹ پڑا۔
’’تم نے دیکھا۔ میری بہن تم نے دیکھا۔ میری بڑی بیوی کس قدر ظالم ہے۔ اس نے اس معصوم کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ وہ اس کی کتنی خدمت کرتی ہے لیکن وہ سوکناپے کی آگ میں جلتی رہتی ہے۔‘‘
اس نے میرے لئے جان ماری، میرا گھر بنایا۔ میرے بچوں کو پالا پوسا۔ میں نے خدمت میں کون سی کسر چھوڑی؟ستر ہزار روپیہ اس کے علاج پر خرچ کر بیٹھا ہوں اور یہ ناشکری عورت ابھی بھی خوش نہیں۔ اسے گِلہ ہے کہ میں نے اس کی قدر نہیں کی۔ وہ رُکا۔ چند لمحوں بعد تُند آواز میں پھر بولا تھا۔
’’ تم دیکھ لینا۔ تم سُن لینا یہ کُتے جیسی موت مرے گی۔ ابھی اس کا معدہ ٹھیک ہے۔ یہ چارپائی پر بیٹھی سب کچھ ہضم کر رہی ہے۔ جس دن معدے نے جواب دے دیا اس دن یہ ختم ہو جائے گی۔‘‘
’’نرا ڈھکو سلا، نری فراڈ بازی۔‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
اس وقت میرے قدموں میں تیزی تھی۔ میری سوچوں میں تلخی تھی۔ اُس کی مضطرب سی چال اس کے لہجے کی تلخی سب مجھے مکّاری لگی تھی۔ اُس نے غربت کا سودا کیا۔ حُسن و جوانی کو خریدا۔ شب کی تنہائی میں کلیجے سے لگا کر اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے والے میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ اُس کے پیٹ بھر کر روٹی کھانے کی بات کر سکے۔ کمینہ بُزدل مرد۔
مرن کنارے بیٹھی عورت جو جانتی ہے کہ اُسے خالی ہاتھ دو گز قبر میں اُترنا ہے۔ قبضے سے خائف ہے۔ گِن کر روٹی دینے والی اُسے جسمانی طور پر کمزور کر کے اُس کی جنس مارنے کے درپے ہے یا بچت کی دو بوری گندم اپنے ساتھ قبر میں لے جانے کی خواہشمند ہے۔
اور میں بڑی دلیر، خود کو منہ پھٹ سمجھنے والی، حقوق نسواں کی علمبردار پڑھی لکھی لکھاری عورت کِس مصلحت کے تحت چاہتے ہوئے بھی اُسے سینے سے لگا کر اُس کا ما تھا نہ چُوم سکی۔ کِس کا ڈر تھا مجھے ؟
میں یہ بھی نہیں جانتی کہ آج کی یہ مظلوم لڑکی کل خود کتنی ظالم بنے گی اور اپنی محرومیوں کا بدلہ کِس کِس سے لے گی اور ظلم کے کتنے نئے باب کھولے گی؟
ہم سب خواہ جاہل ہوں بہت پڑھے لکھے ہوں۔ نہایت مہذب اور متمدن ہوں یا نرے جنگلی اور وحشی، اپنی اپنی کمینگیوں کے دائروں میں رقصاں ہیں۔
انسانوں کے انسانوں پر ظلم و ستم کی مثالوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ بڑی زہر خند سی ہنسی میرے ہونٹوں پر ابھری تھی۔
یہ ایک قدیم روایتی، جاہل، جدید تہذیبی روشنی سے پرے معاشرے کے افراد پر ہی موقوف نہیں۔ اعلیٰ، تعلیم یافتہ، جدید معاشرے کے انسانی حقوق کے علمبردار لوگوں میں بھی ایسی ہی ذہنیت ہے۔
جدید پڑھی لکھی باعث مثال، باعث تقلید چیئرپرسن کنزرویٹو پارٹی برطانیہ کی سعیدہ وارثی اپنی سہیلی کے شوہر سے دوسری شادی کرتی ہے۔
تتّی ان پڑھ نصرت بی بی چار بچوں کی ماں طلاق کے کاغذات کو بہت دنوں تک یوٹیلٹی بل ہی سمجھتی رہی۔ جب جانی تو کر لائی۔ سعیدہ وارثی نے میرا شوہر چُرا لیا ہے۔
تو اے چارہ گر کچھ تو ہی بتا۔
٭٭٭
رُوپ بہرُوپ
وہ برآمدے میں چمکتے دمکتے فرش پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی اور سفید نازک پاؤں کی کومل گلابی ایڑیوں سے فرش کا سینہ کوٹنے لگی۔ سامنے ہی ماں ہنڈیا بھون رہی تھی۔ ڈوئی چلاتے ہوئے اِک ذرا سارُک کر اس نے اس کی طرف نگاہ کی اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ ماں کی اس بے اعتنائی نے اسے سیخ پا کر دیا۔ گَلا پھاڑ کر وہ روہانسی آواز میں چِلّائی۔
’’امّی جان سُن لیجئے میں اس ناٹے اور کالے کلوٹے سے ہرگز شادی نہیں کروں گی۔‘‘
انگنائی میں ہارسنگار کے پیڑ تلے جہازی پلنگ پر بیٹھے معمر وجود نے ترچھی نگاہوں سے اسے گھورا۔ داہنے ہاتھ کی پیشانی پر اوٹ سی بنا کر گردن آگے جھُکائی کہ سورج کی تیز کرنیں اس ضدی لڑکی کی شکل کو دھندلاسی رہی تھیں۔ چھاؤں نے ذرا صورت واضح کی تو سیب کی باریک ترچھی پھانکوں جیسے ہونٹوں نے کہا۔
’’تُو کہاں کی سروقد ہے جو وہ تجھے ناٹا نظر آتا ہے۔‘‘
’’ماں جی مہربانی سے آپ اس معاملے میں خاموش رہیں۔‘‘
خالد کا ریکٹ سَرہانے رکھا ہوا تھا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ وہی اُٹھایا اور گھُما کر برآمدے میں بیٹھی پوتی پر دے مارا۔
’’لو یہ کَل کی چھوکری اب مجھے بے دخل کرنے لگی ہے۔ میں تیرے افسر باپ کی ماں ہوں ماں۔ تیری شادی جہاں اور جس سے چاہیں گے کریں گے۔‘‘
ریکٹ کا کنارہ فرش پر لگا، اُبھرا اور اس کی ٹانگوں پر گِرا۔ وہ بُری طرح چیخی۔ کچن سے ماں نے کہا۔
’’کیوں گولی لگ گئی ہے ؟‘‘
’’گولی بھی لگ گئی تو آپ نے منہ میں گھنگھنیاں ہی ڈالے رکھنی ہیں۔‘‘
موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں پر بہنے لگے تھے۔
اُبھرے ہوئے ماتھے، اُونچی ناک اور دوہری ٹھوڑی والی ماں جی نے زناٹے دار آواز میں کہا۔
’’ہاں ہاں، کوسو اُسے۔ تمہارے جیسی ہوتی تو مجھے اس پلنگ پر بٹھانے کی بجائے گھر سے نکال باہر پھینکتی۔ میرا بڑھاپا خوار کرتی۔‘‘
اس بار اس نے آواز اُونچی تو نہ نکالی پر بُڑبُرائی ضرور۔
’’جبھی تو آپ سر پر چڑھ کر بیٹھ گئی ہیں۔ کوئی میرے جیسی ہوتی تو ٹھکانے رہتیں !‘‘
یہ بُڑبُڑاہٹ ماں سے پوشیدہ نہ رہی تھی۔ اس نے بیٹی کو گھورا۔ اور بولی۔
’’شرم نہیں آتی بوڑھی جان کا مقابلہ کرتی ہو۔‘‘
اس کا یہ احتجاجی قدم تو اپنی دبّوقسم کی ماں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تھا۔ افراتفری اور جلدبازی میں اسے یہ تو یاد ہی نہ رہا کہ ماں جی باغیچے سے آنگن میں آ چکی ہے اور اپنے پلنگ پر پھیل کر بیٹھی ہوئی ہیں۔
ابھی دم بھر پہلے وہ یونیورسٹی سے آئی تھی۔ بسوں میں گھنٹہ بھر کی خجل خواری کے بعد گھر پہنچی تو میمونہ نے کپڑے بدلنے سے پیشتر ہی اسے چٹخارے دار زبان میں سُنا دیا کہ وقار کی بہن اور بہنوئی آئے تھے اور بس بات پکی ہی سمجھو۔
وہ اُسی وقت کچن کی طرف بھاگی۔ مگر دادی کی ڈانٹ پھٹکار نے کوئی بات ہی نہ بننے دی۔ بسورتے منہ کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
’’میرا نام بھی فرزانہ نہیں۔ اگر اس چغد ناٹے سے میں شادی کر جاؤں۔‘‘
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .
وہ تو سو جان سے اس پر عاشق ہو گیا تھا۔ اپنی ملازمت سے ایڈمنسٹریشن میں ریسرچ کے لیے پنجاب یونیورسٹی آیا۔ ابھی لاہور آئے کوئی پندرہ بیس دن ہی ہوئے تھے کہ بہنوئی کے لاہور بَیس پر تبدیل ہو کر آنے کا پتہ چلا۔ خوش خوش بہن سے ملنے گیا۔
ڈرائنگ روم میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ وہ باہر ہی رُک گیا مگر بھانجی اور بھانجا زبردستی اندر لے گئے۔ بڑی بہن نے منہ ما تھا چوما۔ خیریت پوچھی اور اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔
سامنے والے صوفے پر ایک درمیانی عمر کی عورت اور ایک نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس کے سلام کے جواب میں خاتون نے دعائیہ جملے کہے۔ بس ایک ہی نظر اس نے لڑکی پر ڈالی تھی۔ عجب پُر کشش سا حُسن تھا۔ رنگت دودھ کی طرح سفید اور ناک ایسی ستواں اور پَتلی کہ مانو ابھی ہوا سے اُڑ جائے۔ اس کا جی اسے دوبارہ دیکھنے کو چاہا مگر بہنوئی وہاں آ کر بیٹھ گیا اور دونوں کے درمیان باتیں شروع ہو گئیں۔ بہنوئی سے ہی اسے معلوم ہوا کہ مہمانوں کا تعلق بھی ایرفورس سے ہے اور وہ ان کی ذات برداری کے لوگ ہیں۔
وہ کوئی دل پھینک قسم کا نوجوان تو نہیں تھا۔ اچھا سُلجھا ہوا لڑکا تھا۔ پہلی نظر میں عشق عاشقی پر قطعی یقین نہ رکھتا تھا۔ ریاضی اور عمرانیات میں ڈبل ایم۔ اے تھا۔ یونیورسٹی کے 6سالہ قیام کے دوران بہت سی لڑکیوں سے روابط ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ روابط محض ’’ہیلو ہیلو‘‘ کبھی کبھی کنٹین پر ہلکی پھُلکی چائے تک رہے۔ کچھ لڑکیوں کو اس نے تہ دل سے پسند بھی کیا مگر وہ غالباً ان کے معیار پر پورا نہ اترتا تھا۔ اس لئے شاید اس کی کوشش کے باوجود معاملہ کچھ آگے نہ بڑھ سکا۔
مگر اس بار معاملہ کچھ مختلف ہو گیا یہ نازک سی لڑکی اسے پہلی نظر میں بہت بھائی تھی۔ وہ بے چین تھا۔ اس کا نام جاننے اور یہ کہ وہ کیا کرتی ہے ؟رات کو کھانے کی میز پر اس نے بہن سے پوچھا۔
’’آپ لوگوں کی کب سے واقفیت ہے ؟‘‘
’’مدتوں سے۔ ایرفورس کے لوگ تو یوں بھی اپنے آپ کو ایک خاندان کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔ یہاں تو ذات برادری کا معاملہ بھی ہے۔ ملک صاحب تو اماں جی کے بیٹے بنے ہوئے ہیں۔ تقریباً ہر اسٹیشن پر ہی ہمارا ساتھ رہا ہے۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔‘‘
آپا جان نے غیر ضروری تفصیل تو بہت وضاحت سے بیان کر دیں مگر وہ جو کچھ جاننے کا آرزومند تھا وہ ہنوز اندھیرے میں تھیں۔ منہ پھاڑ کر آپا جان سے کِسی لڑکی کے بارے میں کچھ پوچھنا تو بہت مشکل تھا۔ ایک تو وہ اس سے چار جگہ بڑی تھیں۔ دوسرے کچھ طبیعت کی بھی بہت تیز تھیں۔
اس نے آلو گوشت کا ڈونگہ اپنی طرف سرکایا۔ شامی کباب اپنی پلیٹ میں رکھے اور چُپ چاپ کھانے میں جُت گیا۔
صبح بہت کُہر آلود تھی۔ چھاؤنی کی سڑکیں بہت ویران لگ رہی تھیں۔ سڑک کے اطراف میں اُگے بلند و بالا درخت دھُند کے غبار میں لِپٹے بڑے پُراسرار سے لگ رہے تھے۔ ساڑھے نو بج رہے تھے مگر سورج کا دُور دُور تک نام و نشان نہ تھا۔ آدھ میل پیدل چلنے کے بعد وہ بس اسٹاپ پر پہنچا اور بس کے انتظار میں فٹ پاتھ پر کھڑا ہو گیا۔ سٹاپ پر تین آدمی اور ایک لڑکی کھڑی تھی۔ لڑکی کی پُشت اس کی طرف تھی۔
دفعتاً اس نے بس دیکھنے کے لیے رُخ بدلا تو جیسے اس کے دل نے خوشی سے کلکاری بھری۔ وہ تو وہی لڑکی تھی جس کے بارے میں وہ جاننا چاہتا تھا۔ وہ اس کے قریب گیا اور بڑی اپنائیت سے سلام کیا مگر لڑکی نے ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بیگانگی اور اجنبیت تھی۔
’’شاید پہچانا نہیں۔‘‘ وہ اپنے آپ سے بولا۔
’’میں مسز انیس احمد کا بھائی ہوں۔ کل آپ ان کے ہاں تشریف لائی تھیں۔‘‘
اور اس نے دیکھا لڑکی کی دونوں بھنوؤں کی درمیانی جگہ سُکڑ گئی۔ یہ نخوت کا بڑا واضح انداز تھا۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی شناخت کا کوئی احساس نہیں جاگا تھا۔ ہونٹ ایک دوسرے سے سختی سے پیوست تھے۔
’’آپ کِس کالج میں پڑھتی ہیں ؟‘‘
اس نے رُخ پھیرا۔ جس سڑک سے بس کی آمد متوقع تھی اس پر دُور دُور تک نظریں دوڑائیں اور یہ یقین ہونے پر کہ ابھی اس کے آنے میں دیر ہے اس نے پاس سے گزرتے ہوئے خالی رکشے کو ہاتھ دیا اور اس میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
اور برگد کے بوڑھے درخت تلے کھڑے ہوئے اس لڑکے کو بڑا شاک سا ہوا۔ وہ کھسیانا ساہو کر رہ گیا تھا۔
’’ایسی بد اخلاق اور بدتمیز لڑکی۔‘‘
پر ہزار بار کوسنے کے بعد بھی وہ اس کا خیال اپنے دماغ سے نہ نکال سکا۔
اس واقعہ کو کوئی دس بارہ دن ہوئے ہوں گے۔ وہ ایک ٹھٹھرتی شام کو لائبریری سے نکل کر اپنے ہاسٹل جا رہا تھا۔ فضا میں بڑی خنکی تھی۔ بیمار اور مدقوق سی دھوپ نے یونہی زردیاں بکھیری ہوئی تھیں۔ برائے نام بھی حدّت نہ تھی۔ وہ نوٹس کا پلندہ ہاتھ میں پکڑے جب نہر کے قریب آیا تو وہی لڑکی اسے تین لڑکیوں کے ساتھ دکھائی دی۔ اُداس سا موسم یک دم ہی اسے بڑا خوب صورت سا لگا۔ تیزی سے اس کی طرف لپکا۔ قریب پہنچ کر سلام کرتے ہوئے بولا۔
’’آپ نے اچھی ایکٹویٹی کی اس دن یوں غائب ہو گئیں جیسے۔ ..۔‘‘
جملہ اس نے قصداً ادھورا چھوڑ دیا مگر ایک تیز سی لڑکی نے اسے پورا کر دیا۔
’’جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ گھبرائیے نہیں صاحب یہ ان کی پُرانی عادت
ہے۔ یہ یونہی بیٹھے بٹھائے اچانک غائب ہو جاتی ہیں !‘‘
وہ اب بھی خاموش کھڑی تھی۔ چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ البتہ اس کی سہیلیاں بہت شوخ و زندہ دل معلوم ہوتی تھیں۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کو ترچھی آنکھوں سے مخصوص سگنل دیا جس کا مطلب تھا۔
’’شکار کو ہاتھ سے جانے نہ دو۔ شام کنٹین پر گزرنی چاہئیے۔‘‘
اس کی صورت قطعاً چغدوں جیسی نہ تھی اور نہ ہی کِسی قسم کا احمقانہ پن اس کی کِسی حرکت سے ٹپک رہا تھا۔ کھِلتی سانولی رنگت پر اس کی موٹی موٹی آنکھیں دیکھنے والوں کو اچھا تاثر دیتی تھیں۔ قد البتہ چھوٹا تھا مگر اتنا چھوٹا بھی نہ تھا۔
بس بات صرف اتنی سی تھی کہ وہ اسے دیکھ کر پھول کی مانند کھِل اُٹھا تھا۔ وارفتگی اور شوق کی دُنیا آنکھوں میں اُمڈ آئی تھی اور چُلبُلی لڑکیاں سمجھ گئی تھیں کہ شکاری ابھی نیا نیا پھنسا ہے۔
پر ہُوا یہ کہ اُس نے ساتھی لڑکیوں کی شام کینٹین پر موج میلہ کرنے کی خواہش کو پورا ہی نہ ہونے دیا اور نہ اُسے بُدھو بن کر نظارے لُوٹنے کا موقع فراہم کیا۔ اُس کے جانے کے بعد وہ تینوں اُس پر برس پڑیں۔
’’کمبخت کمینی خود تو چائے پِلانے سے رہی جو کِسی کو گھیرا بھی تو ایڑی نہ لگنے دی۔ بڑی آئی نیک پروین۔‘‘
جہنم میں جاؤ۔ وہ بکتی جھکتی اکیلی ہی بس سٹاپ کی طرف چل دی۔
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .
منڈیر پر کوّا چِلّایا تھا۔ سُلگتے ہوئے اپلوں پر دودھ کی کاڑھنی رکھتے ہوئے بشیراں نے بے جی کو اِک نظر دیکھا تھا۔ وہ اٹیرن پر تیزی سے مُنڈھ لپیٹ رہی تھیں۔
’’آج کوئی آنے والا ہے۔ کوّا صبح سے چِلّا رہا ہے۔‘‘
اور بے جی کا پوپلا منہ ہنس پڑا تھا۔ ہنسی کی اس جھنکار سے کانوں میں جھولتی سونے کی ڈنڈیاں بھی ہِلی تھیں۔
’’کیا معلوم وقار آ جائے !‘‘
اور ضلع مظفر گڑھ کے تھلوں میں تیزی سے چلتا ہُوا وقار احمد سوچتا اور خود سے کہتا تھا۔
’’چلو اس بار بے جی کو کچھ بتاؤں گا تو سہی۔‘‘
اور جب بشیراں بھینس کے لئے سانی بنا رہی تھی اور بے جی کٹ کٹ کرتی مرغیوں کو دانہ ڈال رہی تھیں وہ گھر میں داخل ہُوا تھا۔ ونڈ میں لتھڑے ہاتھوں اور بازوؤں کو ہوا میں لہراتے ہوئے بشیراں پُرمسرت آواز میں بولی تھی۔
’’میں ٹھیک کہتی تھی نابے جی۔‘‘
اور بیٹے کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بے جی بھی خوشی سے بولی تھیں۔
’’میں نے بھی تو ٹھیک ہی کہا تھا۔‘‘
اس بار بے جی اپنے پسندیدہ موضوع کو شاید بھول ہی گئی تھیں۔ وہ ان کے منہ سے کچھ سُن کر لقمہ دینا چاہتا تھا مگر ڈیڑھ دن گزر جانے پر بھی جب بات نہ بنی تو اس نے خود ہی ڈھیٹ بن جانے کاسوچا۔ اپلوں کی آگ سے بھری ہوئی چلم کے ٹین کے ڈھکن کو اس نے اپنی انگلیوں سے بجایا۔ نے بے جی کے منہ میں تھی فوراً اُسے ہٹاتے ہوئے وہ بولیں۔
’’بچہ ہاتھ جل جائے گا آگ تیز ہے۔‘‘
پھر اِدھر اُدھر کی تمہید کے بعد وہ مطلب پر آ گیا۔ مختصراً اتنا ہی کافی تھا کہ لڑکی خوبصورت ہے۔ اپنی ذات برادری کی ہے اور بہن اور بہنوئی لڑکی کے خاندان کو مدتوں سے جانتے ہیں۔
’’تو چلو چلتے ہیں۔ سوال ڈالنے میں کیا ہرج ہے ؟مولوی سبق نہ دے گا تو گھر بھی نہ آنے دے گا۔‘‘ بے جی بولیں۔
’’بے جی سبق پڑھے بغیر گھر نہیں آنا۔‘‘ وقار احمد نے ماں کے شانے تھام لئے۔
وہ اگلے دن بس میں بیٹھے اور لاہور آ گئے۔ بہن کو پتہ چلا تو اس نے کِسی قدر رنجش سے کہا۔
’’اس نے مجھ سے تو بات ہی نہیں کی۔‘‘
بے جی نے سفید چکن کے کُرتے کے بٹنوں کو کھولتے ہوئے بیٹی کو دیکھا اور بولی۔
’’تم سے کیا بات کرتا۔ اس کی ماں نہیں تھی کیا۔‘‘
وہ بے جی کے سامنے کیا بولتی ؟چپکی ہو گئی۔ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اکلوتے بیٹے کے سارے معاملات کا واسطہ براہ راست اپنی ذات سے چاہتی ہیں۔
اور فرزانہ کے بالوں، اس کی پیشانی اور رخساروں کے انہوں نے بے شمار بوسے لے ڈالے۔ اس کی دادی کے دونوں ہاتھوں کو بے جی نے اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر فرزانہ کے والد سے کہا۔
’’وقار میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اسے معاشی طور پر مستحکم رکھنے کے لئے میں تھلوں میں مدتوں سے بیٹھی ہوں۔ ایک مربع اراضی بڑھ کر تین مربعوں تک پہنچ گئی ہے جو صرف اور صرف اسی کی ملکیت ہے۔ بچہ نیک اور سعادت مند ہے۔
میرا ارادہ اپنے بھائی کی بیٹی لانے کا تھا مگر اس نے کہا بے جی میں پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کروں گا اور تم جانتے ہو بیٹے جی اپنے پیٹ سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں۔ میں نے کہا تم جہاں چاہو گے مجھے بتا دینا۔ میں وہیں دستِ سوال دراز کر دوں گی۔‘‘
اور بہن جی اب یہ میری عزت کا سوال ہے مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔‘‘
انہوں نے فرزانہ کی دادی کے گھُٹنوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔
اور اندر فرزانہ نے اپنا آپ پِیٹ لیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کا تو اسے سان گمان بھی نہ تھا۔ ساری رات روتی رہی۔ اگلے دن سوجی آنکھوں کے ساتھ تہمینہ کے گھر گئی۔ وہ اسے اس حال میں دیکھ کر بھونچکی رہ گئی۔ صورتِ حال واضح ہوئی تو وہ تعجب سے بولی۔
’’تو اس میں اتنا واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے ؟کِسی نے تمہیں پسند کیا اور تمہیں اپنانے کے لیے تمہارے گھر پہنچا خوشی کی بات ہے۔‘‘
قریبی میز پر پڑی کتاب اُٹھا کر اس نے تہمینہ کے سر پر ماری اور تلملاتے ہوئے بولی۔
’’بکواس کرتی ہو۔ قد دیکھا ہے اس کا۔ صورت پر غور کیا ہے چغد ناٹا کہیں کا۔‘‘
’’مانا کہ تم خوبصورت ہو۔ تصوراتی ذہن رکھتی ہو لیکن میری جان تصورات کے سہارے گذارا اس دُنیا میں ممکن نہیں۔ جو آئیڈیل تم نے تراشا ہوا ہے اس کا وجود ممکن نہیں۔ آج کل رشتوں کا ویسے ہی قحط ہے۔ ایک انار اور سو بیمار والی بات ہے۔ چُپ چاپ حامی بھر لو۔‘‘
اور وہ اسے کوستی گھر چلی آئی۔
گھر والوں نے خوب سوچا سمجھا۔ ہر لحاظ سے اچھا رشتہ تھا۔ اکلوتا بیٹا جو صاحبِ جائیداد ہونے کے ساتھ لمبی چوڑی ذمہ داریوں سے یکسرمبرا تھا۔ چار بہنیں تھیں اور چاروں شادی شُدہ۔
ماں نے ایک بار دبی زبان سے کہا۔
’’لڑکے کا قد چھوٹا اور شکل معمولی ہے۔ بیٹی تو ہیرا جیسی ہے۔‘‘
شوہر اور ساس ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے۔
’’ارے مرد کی شکل کون دیکھتا ہے ؟سدا اس کے گُن دیکھے جاتے ہیں۔ سارے زمانے کی کاہل اور سُست بھلا اس کا گزارہ ٹبّر میں ممکن ہے۔ لڑکے نے چاہ کر رشتہ مانگا ہے۔ ہمیشہ عیش کروائے گا۔‘‘
’’بس منظوری کا پیغام بھجوا دو۔‘‘ دادی نے فیصلہ دے دیا۔
ماں نے سمجھانے کی اپنی سی کوششیں کر لیں پر وہاں وہی اڑیل ٹٹو کی طرح اکڑنے والی بات تھی۔ زِچ ہو کر وہ بولی۔
’’کان کھول کر سُن لو تمہارا باپ پیام منظور کر لینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس نے یقیناً تمہارے لئے بہتر سوچا ہے۔‘‘
’’دیکھو بیٹی امّاں نے اب نرم لہجہ اختیار کیا۔
قدردانی سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔ خوبصورت شوہر بالعموم اچھے ثابت نہیں ہوتے۔ وہ ناز اُٹھانے کے نہیں بلکہ اُٹھوانے کے عادی ہوتے ہیں اور تمہیں تو ہم نے بہت ناز و نعم میں پالا ہے۔‘‘
وہ ماں سے تو بحث مباحثہ اور لڑائی جھگڑا کر سکتی تھی مگر باپ کے منہ آنے کی اس میں نہ ہمت تھی نہ جرأت۔
بے جی کی خفیہ تھیلی کا منہ کھُل گیا تھا اور یہ منہ اس کے گھر آ کر کھُلا تھا۔ ملگجے نوٹوں کا ڈھیر انہوں نے فرزانہ کے آگے ڈالتے ہوئے کہا۔
’’تیرے لئے زیور اور کپڑے خریدنے کا کام میری بیٹیاں بھی کر سکتی تھیں اور انہوں نے ایسا چاہا بھی، مگر وقار چاہتا ہے کہ تم اپنی پسند سے ہر چیز خریدو۔‘‘
گھر والے خوش تھے۔ بہت اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا۔ دھوم دھام سے شادی ہوئی۔
بس اس کا دل جیسے گھُٹ کر رہ گیا تھا۔ اپنے شریکِ زندگی کے بارے میں جب
بھی سوچا اُونچا لمبا خوبصورت جوان خیالوں میں اُبھرا پر قسمت کِس نے دیکھی ہے ؟
وہ ایک بڑی شوگر مِل میں سینئر مینیجر کی پوسٹ پر تھا۔ فرنشڈ کوٹھی اسے مِلی ہوئی تھی۔ اچھی تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل تھیں۔ ماں بھی وہاں سے پینتالیس پچاس میل کے فاصلے پر تھی۔ ویک اینڈ پر وہاں چلے جاتے۔
خوشگوار اور پُرمسرت ازدواجی زندگی کی وہ اُمنگ جو عموماً نئی نویلی دُلہن کو حُسن اور نِکھار بخشتی ہے وہ یہاں نہیں تھی۔ حسین تو خیر وہ پہلے ہی تھی۔
کام کاج میں کوری تھی۔ پڑھنے لکھنے میں جُتی رہی اور پھر بیاہ دی گئی۔ گھر میں نوکر ہمیشہ رہا۔ کچھ ماں ہمت والی تھی۔ ساس نے وقار سے کہہ دیا تھا۔
’’بیٹے یہ کام وام کی عادی نہیں ہے۔ اُلٹ پلٹ کرے تو گھبرانا نہیں۔ آہستہ آہستہ عادی ہو جائے گی۔‘‘
اور وقار نے ساس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
’’آپ قطعی نہ گھبرائیے۔ بے جی ایک چھوڑ چار نوکر بھیج دیں گی۔‘‘
اور واقعی بے جی نے دو نوکر بھیج دئیے تھے۔ خوب موٹی تازی ہمت والی ایک عورت اور ایک لڑکا۔ نو بجے سے پہلے وہ کبھی نہ اُٹھتی۔ وقار کو آفس ساڑھے سات بجے جانا ہوتا تھا۔ وہ خود ہی اُٹھتا۔ نوکرانی ناشتہ میز پر لگاتی۔ جیسا بھی ناشتہ ہوتا وہ کھا کر چلا جاتا۔ وہ اسے نیند سے کبھی نہ جگاتا۔ پراس کا جی چاہتا کہ ناشتے کی میز پر سروس اسے فرزانہ دے۔ وہ اکٹھے ناشتہ کریں اور پھر وہ اسے چھوڑنے گیٹ تک آئے۔ جب دو بجے وہ آفس سے گھر آئے تو وہ بنی سنوری اس کے انتظار میں ہو۔ مگر اس کی کوئی خواہش پوری نہ ہوتی۔
ایک دن اُس نے یونہی پوچھ لیا۔
’’سچ بتاؤ یہ شادی کہیں تمہاری مرضی کے خلاف تو نہیں ہوئی؟‘‘
اور ایک پَل میں اس کے سامنے اس کا باپ اور ماں آ کھڑے ہوئے۔ دادی کا چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ باپ کے آنسو بوقت رخصتی یاد آ گئے اور فوراً ہی وہ بول اُٹھی۔
’’میری مرضی کے خلاف بھلا ایسا ہونا ممکن تھا۔ بس ذرا نکھٹو ہوں۔
اب یہ کہنا کِس قدر مشکل تھا کہ وہ ہرگز کاہل نہیں تھی۔ بس کام کرنے اور بننے سنورنے کی وہ اُمنگ ہی نہیں رہی تھی۔
یہ گرمیوں کی موتیے اور چنبیلی کی خوشبو اُڑاتی ایک شام تھی۔ وہ کوٹھی کے وسیع و عریض پاہین باغ میں یونہی ذرا دل بہلانے کو آ گئی۔ وقار سو رہا تھا۔ جب دفعتاً ٹھٹھک سی گئی۔ ملحقہ گھر کے اُسی جیسے لان میں کوئی واک کر رہا تھا۔ سفید لان کے کڑھے کُرتے اور سفید ہی شلوار میں سگار منہ میں دبائے۔
’’اُف‘‘
اُس نے لمبی سی سسکاری بھری۔ کِس قدر شاندار مرد ہے۔
دونوں کوٹھیوں کے درمیان سنتھے کی باڑھ تھی اور یہ اکثر جگہ چھدری چھدری تھی۔ ابھی کل ہی وقار نے اِس گھر میں کِسی کیمیکل انجینئر کے آنے کی اُسے خوشخبری سُنائی تھی۔ اچھے لوگ لگتے ہیں۔ تمہاری کمپنی ہو جائے گی۔ وہ خوش دلی سے بولا تھا۔
وہ باڑھ کے گھنے حصّے میں خود کو چھُپاتے ہوئے کہیں کہیں سوراخوں میں سے اُسے دیکھنے لگی تھی۔
کِس قدر پُر کشش چہرہ۔ چھ فٹ سے بھی نکلتا قد۔ ہائے لگتا ہے جیسے کوئی یونانی شہزادہ بھٹک کر ادھر آ گیا ہے۔ رومن بادشاہوں کی فلمیں سب آنکھوں کے سامنے آ گئیں۔ سگار کتنے دل کش انداز میں پی رہا تھا۔
پتہ نہیں بیوی کیسی ہو گی؟اچھی نہیں ہو گی۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ماں کا کہنا تھا۔ خدا کائنات کو بیلنس رکھتا ہے۔
واپس آ کر بھی اسی کے خیال میں کھوئی رہی۔ دل کی ہر دھڑکن پر ایک ہی آواز سُنائی دیتی رہی۔
’’کیسا دلآویز نوجوان ہے۔ اس کی بیوی کِس قدر خوش نصیب ہو گی۔‘‘
اگلے دن دو بجے وقار گھر آیا تو اس نے آتے ہی فرزانہ کو بتایا۔
’’میں مسٹر و مسز اقبال کو آج شام پانچ بجے چائے پر مدعو کر آیا ہوں۔ ٹھیک کِیا ہے نا؟‘‘ اس نے بیوی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اپنے فیصلہ کی توثیق چاہی۔
’’ارے آپ مجھ سے مشورہ تو کر لیتے۔ گھر گندہ ہو رہا ہے۔‘‘
وہ بدحواس سی ہو کر بولی۔
’’تو کیا فرق پڑتا ہے ارے بھائی ہم نئے نویلے دولہا دلہن ہیں اور ان دنوں میں کام وام نہیں سوجھتے اور نہ صفائیاں سُتھرائیاں کرنے کو طبیعت چاہتی ہے۔ یہاں تو ہمہ وقت یونہی پہلو میں بیٹھے رہو والی بات ہے۔‘‘
اس کے لئے تو کھانا کھانا دو بھر ہو گیا۔ جُوں تُوں کر کے کھانا کھایا اور صفائی کے لئے اُٹھنے لگی تو وقار نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’چھوڑو۔ جیرو کو سمجھا دو۔ تھوڑا بہت کر لے گی۔ چل کر آرام کرتے ہیں۔‘‘
’’کیا کرتے ہیں آپ بھی۔ پہلی بار اُنہوں نے آنا ہے۔ اچھا تاثر ہونا چاہئیے۔‘‘
وہ جیرو اور ملازم لڑکے کو ساتھ لگا کر صفائی میں جُت گئی۔ شام تک اس نے گھر آئینے کی طرح چمکا دیا اور چائے کے لئے چیزیں بھی تیار کر لیں۔ جب سے وہ یہاں آئی تھی بہت سے جوڑے ان سے ملنے آئے تھے اور بہت سوں سے وہ بھی ملنے گئی تھی مگر اس بار اتنا اہتمام کیوں تھا؟ اور اس کیوں کا جواب شاید یہ تھا کہ وہ ایک سُگھڑ سلیقہ شعار عورت کے رُوپ میں اس مرد کے سامنے آنا چاہتی تھی۔
پانچ بجے وہ خود اور گھر اس جوڑے کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ جب وہ گیٹ سے اندر آئے تو وہ ایک بار پھر دریائے حیرت میں گِری۔
مرد اگر شاندار تھا تو عورت بھی اس کی ٹکر کی تھی۔ اس کے کان تک پہنچتی قامت پر ملاحتوں سے بھرا چہرہ، رُخساروں پر کھِلتے گُلاب اور ہیروں کی سی چمک والی آنکھیں اُوپر سے خوش اخلاقی کے تڑکے لگے ہوئے۔
مسز جنید اقبال نے مُسکراتے ہوئے اُسے دیکھا اور کہا۔
’’مسز وقار تو بہت دھان پان سی ہیں۔‘‘
اور وقار نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’صاحب ہم نے اِس کانچ کی گڑیا کو بہت آرزوؤں سے پایا ہے۔‘‘
مرد خالی خولی پر سنالٹی کے لحاظ سے ہی شاندار نہ تھا۔ شولری آداب میں بھی کمال کا تھا۔
میرے لئیے تیرے گھر موکھا پڑ گیا تھا۔ اُس کا اندر اُوپر والے سے جنگ کر رہا تھا۔ میری جوڑی کو تُو نے جوڑیاں جگ تھوڑیاں تے نیڑ بہتیرے کی مثال بنانا تھا نا۔
اُس کے اندر جیسے بھانپڑ مچ گیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد ابھی کھلارے کو سمیٹنے کے بہانے کچن اور ڈرائنگ روم کے چکروں میں اِس آگ پر پانی ڈالنے کی کوششوں میں تھی کہ جب وقار نے اُسے بتایا کہ پِنڈ سے کاماں آیا ہے ماں جی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ اُسے ابھی جانا ہے۔
ساری رات جیسے آنکھوں میں، سَرہانے پائنتی ہوتے اور خدا سے گِلے شکووں میں کٹی۔ شام ڈھلی تو جیسے اس کے اندر ہڑک اُٹھی کہ جنید اقبال کے گھر جائے۔ پُرانی طرز کی اِن کوٹھیوں میں کئی جگہ موگھے تھے۔ ایسے ہی ایک موگھے سے اُن کے حصّے میں آ گئی۔
جی چاہا کہیں سے جنید اقبال آ جائے اور اُسے اس طویل برآمدے میں کھڑے دیکھ کر حیرت کا اظہار کرے۔ اُسے خوش آمدید کہے۔ اُسے لے کر ڈرائنگ روم میں آئے۔ اُس سے ڈھیروں ڈھیر باتیں کرے۔
ساری کوٹھی پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ وہ بس یونہی پچھلے برآمدے کی طرف بڑھی کہ اُسے آموں سے لدا پھندا درخت نظر آیا تھا اور ساتھ ہی ایک تیز اور غصیلی آواز اُس نے سُنی۔
’’حرامزادی کنجری مجھے حلال اور حرام کا درس دیتی ہے۔ عورتیں مردوں کی کھیتیاں ہیں۔ وہ جیسے چاہیں اس میں ہَل چلائیں۔‘‘
اس آواز کو پہچاننا مشکل نہ تھا۔ حیرت سی حیرت آنکھوں میں اُچھلی۔
’’یہ روّیہ بیمار اور گندی ذہنیت کی علامت ہے۔‘‘ یہ نسوانی آواز یقیناً مسز جنید اقبال کی تھی۔ ایک زناٹے کی آواز آئی تھی۔
غالباً تھپڑ مارا تھا۔ پھرجیسے برتنوں کے ٹوٹنے کا شور تھا۔ ’’اُف‘‘
ایک تیز چیخ جس میں بین کی سی آمیزش تھی فضا میں اُبھری۔
’’شرم کرو کچھ۔ میری بہن نے اِسے لندن سے بھیجا تھا۔ کِس محبت سے وہ مجھے فون پر کہتی تھی کہ تم جب کپ کے کناروں پر اپنے خوبصورت ہونٹ رکھو گی تو تمہیں میں یاد آؤں گی۔ ہاتھ ٹوٹیں تمہارے۔‘‘
’’تم جیسی خبیث عورت کا علاج صرف تین لفظ ہیں۔‘‘
’’تم کر دو میرا وہ علاج۔ بس یہی میرا کمزور پہلو تمہارے سامنے ہے۔ ڈرتی ہوں نا اپنی ماں سے جو بیٹی کے اس دُکھ پر مَر جائے گی۔ تو مَر جانا ہی بہتر ہے اُس کے لیے۔‘‘
کوئی پسند نہیں آتا تھا اُسے۔ چاند ہے میری بیٹی۔ سِسکیاں اُبھریں جن میں
ڈوبتے لفظ گونجے۔ اِس کے لیے سورج چاہیے۔ تو اُس نے سورج ڈھونڈا۔ یہ کیسا سورج ہے جس کے پاس میرے لئیے نگھی گرمائش نہیں۔ سَوا نیزے پر اُتری دھوپ کا جھلساؤ اور جلاؤ ہے۔
اُس نے جھُرجھُری لی اور سر جھُکا لیا کہ اُس کی آنکھوں میں مزید سُننے کی تاب نہیں تھی۔ کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا۔ گھمبیر سناٹا جس میں دل ڈوبتا ہے اور دماغ کی نسیں پھٹتی ہیں۔
وہ بھاگی تھی۔ سرپٹ بھاگی تھی اور جانتی تھی کہ اُس کے احمقانہ خواب اور خود ساختہ محرومیوں کے جذبات اُس کے قدموں کے تلے آ کر کچلتے جا رہے ہیں اور اُسے اس کا قطعی کوئی ملال نہیں۔
٭٭٭
بارش کا پہلا قطرہ
دونوں سرسوں کے کھیت کی منڈیر پر یوں کندھے سے کندھا جوڑے بیٹھی تھیں جیسے قد آورگنا اور کھوری ایک دوسرے سے لپٹے ہوتے ہیں۔ سورج کہیں دُور کھیتوں کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔ آسمان پر شفق کی لالی میں ابابیلیں اُڑتی ہوئی اپنے ٹھکانوں کی طرف محو پرواز تھیں۔ دن بھر کی گرمی کا اثر ایک مخصوص باس کی صورت سرسوں کے پودوں سے نکل کر فضا میں بکھرا ہوا تھا۔
دونوں کے دائیں بائیں پیتل کی دو بالٹیاں دھری تھیں۔ چمکتی سندوری رنگ والی بالٹیاں جن میں خدا کا نور ننگا آسمانی نور کے نیچے پڑا تھا۔
الہڑ پنے کی جوانی قہقہوں کے طوفان میں پھنسی ہوئی تھی۔ سارا وجود یوں ہلتا تھا جیسے ہوا کے لطیف جھونکوں سے سرسوں کے پودے یا ڈنڈیاں کانوں میں ہلکورے کھاتی تھیں اور ناک میں پڑے لونگ کا لشکارہ شفق میں اور بھی نمایاں ہوتا تھا۔
دونوں کے نام ایک دوسرے سے معنوی مطابقت رکھتے تھے۔ ایک زہرہ تھی تو دوسری مُشتری۔
اور پھر زہرہ نے سرسوں کا لمبا سا پودا پیلی کلغی سے سجا جو عین اس کی آنکھوں کے سامنے کوبراسانپ کی طرح پھن اُٹھائے جھومتا تھا اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں سے پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ وہ زمین سے ٹوٹ کر اُس کے ہاتھ میں آ گیا۔ اُس نے اسے اپنے دانتوں تلے دبایا، چبایا اور اُسے نگلتے ہوئی بولی۔
’’تو میں اپنے پہلوٹھی کے بیٹے کا نام تاج الملوک رکھوں گی اور اس کی شادی تیری بیٹی سے کروں گی۔‘‘
فضا میں چھن کنگن کے گھُنگھُرو بولے تھے کیونکہ مشتری نے اپنی بائیں کلائی اُٹھا کر اس کی پُشت پر ماری تھی۔
’’کم بخت خود پہلوٹھی کے بیٹے لیتی ہے اور میری جھولی میں لڑکیاں ڈالتی ہے۔ میں نے کوئی رب کے ماہ مارے ہیں جو وہ مجھے پہلے پہل لڑکی دے گا۔ دیکھ لینا ایسا پیارا، ایسا شاندار پُوت جنوں گی کہ تُو اپنی انگلیاں دانتوں سے کاٹ لے گی اور نام رکھوں گی سیف الملوک اور بیاہ کروں گی تیری لڑکی سے۔‘‘
اور پھر کھیتوں کے پرے سے چاچا خیر دین کی آواز گونجی۔
’’کموت دیاں ماراں یہاں بیٹھی گپیں ہانکتی ہیں۔ دُودھ کی بالٹیاں ننگی پڑی ہیں چاہے کُتے بِلّے منہ مارتے پھریں۔ بتاتا ہوں ابھی جا کر تمہاری ماؤں کو۔‘‘
انہوں نے منہ میں ڈوپٹے ٹھونس لئیے کہ براچھیں ہنسی سے چِیری جاتی تھیں اور بالٹیاں اُٹھا کر سرپٹ بھاگیں۔ ہلکورے لیتی بالٹیوں سے جب کچھ دودھ نکل کر باہر گِرا تو مشتری نے زہرہ سے چِلّا کر کہا۔
’’کم بخت تھم جا تیری امّاں کلیجہ نکال لے گی تیرا۔ دودھ کی سطح سب کچھ اُگل دے گی۔‘‘
مشتری اور زہرہ میں رشتہ داری نہیں تھی برادری کا ناطہ تھا۔ گھروں کی چھتیں البتہ ایک دوسری سے جُڑی ہوئی تھیں۔ دیہی زندگی میں اخلاقی اقدار کی پاسبانی ہوتی ہے۔ دونوں گھر حُسنِ سلوک اور محبت کی منہ بولتی تصویر تھے۔ زہرہ اور مشتری نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی، اسی میں پروان چڑھیں۔ دونوں ایک دوسری میں یوں مدغم تھیں کہ گھی شَکّر کی مثال سولہ آنے فِٹ بیٹھتی تھی۔ صبح طویلے جاتیں تو اکٹھی۔ پھیتے ویلا لے کر جاتیں تب دونوں کی جوڑی سروں پر لسّی کے کُجے اُٹھائے ان پر روٹیوں کی چنگیریں رکھے جلتے سورج کے نیچے تر پیشانی کو آنچل سے پونچھتیں خراماں خراماں ہنستی کھِی کھِی کرتیں چلی جاتیں۔ ساری دوپہر وہاں گھنے درختوں کے نیچے باتوں میں کاٹتیں۔ دیگر ویلے گائیں بھینسیں دہو کر گھر آ جاتیں۔
جب گھر سے طویلے کے لئے جاتیں تو مائیں ایک دوسری سے کہتیں۔
’’چلو بھول جاؤ اب انہیں۔ باتوں سے فرصت مِلے گی تو آ جائیں گی۔‘‘
اور واقعی اگر انہیں کبھی دیر ہو جاتی اور پرسش پردہ کام کا کہتیں کہ لالہ نے چارہ کاٹنے کا کہا تھا۔ بھینسوں کی سانی کی تھی یا فصلوں سے گھاس کاٹی تھی تو کوئی ان کی بات پر اعتبار نہ کرتا تھا۔
’’لو بڑی کامیاں۔ اللہ نے بنائی جوڑی اِک انّاتے اِک کوڑی بیٹھی باتیں کرتی ہوں گی۔ کام کرنا ہے انہوں نے۔ ارے تمہارے راز و نیاز کبھی ختم ہوں تو تم کام کرو گی۔‘‘
اور وہ دونوں سنجیدہ چہروں سے تکرار کئے جاتیں۔ سوں رب دی بے جی بے شک لالہ سے پوچھ لینا۔
اور وہ بھی آگے سے تڑاخ سے کہتیں۔ ’’چلو چلو جاؤ پوچھا ہوا ہے ہم نے۔ ساتھ رہنے والوں کے کوئی دانت نہیں گنتے۔ وہ تو دیکھے بھالے ہوتے ہیں۔‘‘
زہرہ خالہ زاد سے منسوب تھی۔ مشتری تایا زاد سے۔ دونوں کے منگیتر وہیں گاؤں میں کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔
دونوں کے چھوٹے چھوٹے دُکھ سانجھے تھے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں سانجھی تھیں۔ معصوم سے راز ایک دوسرے کے دلوں میں پوشیدہ تھے اور عین انہی دِنوں میں مُلک بٹوارے کی زد میں آ گیا۔ دونوں خاندان اُٹھے تو ساتھ ساتھ تھے پر کہیں آگے جا کر ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔
زہرہ کا خاندان فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں میں جا آباد ہوا اور مشتری کا گھرانہ گجرات میں بیٹھ گیا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی کچھ خبر نہ تھی۔ دونوں کی راتیں اپنی اپنی جگہ آنسوؤں سے تَر گزرتیں۔ کلیجوں سے آہیں نکلتیں۔ اس بٹوارے نے انہیں مجروح کر دیا تھا۔
پھر زہرہ کا بیاہ ہو گیا۔ اس کا خالہ زاد شہر میں ایک ٹیکسٹائل مِل میں ملازم تھا۔ وہ زہرہ کو اپنے ساتھ شہر میں لے آیا۔
جب اس کے ہاں شادی کے دو سال بعد پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اُس دن اس نے مشتری کو بہت یاد کیا۔
پتہ نہیں کہاں ہو گی؟پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کون جانتا تھا یہ قیامت بھی ہم پر ٹوٹنی تھی۔
’’ارے جو کہیں وہ مجھے مِل جائے تو سو نفل شُکرانے کے پڑھوں، دس روزے رکھوں۔‘‘
اور واقعی زہرہ نے اپنے اس بیٹے کا نام تاج الملوک رکھا۔ بڑا خوبصورت اور پیارا بچہ تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنے شوہر سے کہتی۔
’’تم جانتے ہو میں اور مشتری کیا صلاح کئے بیٹھی تھیں۔ ارے اگر کہیں مِل جائے تو دیکھ کر پھولے نہ سمائے کہ اس کا تاج الملوک کتنا بڑا ہو گیا ہے ؟‘‘ اور ساتھ ہی جیسے برسات اس کی آنکھوں میں اُتر آتی۔
یہ شاید زہرہ کی سچی لگن تھی کہ ایک بار وہ اپنے بھائی سے ملنے لاہور شہر آئی۔ بھاوج کے ہاں بچہ ہونے والا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اسپتال گئی۔ برآمدے میں کھڑی جب وہ آنے جانے والی عورتوں کو دیکھ رہی تھی اور بھاوج کے لئے خدا سے دعائیں بھی کر رہی تھی کہ وہ ساتھ خیریت فارغ ہو۔ اُس نے نسواری بُرقعے میں لِپٹی ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بچے کی انگلی پکڑے سامنے سے چلی آ رہی تھی۔ عورت شاید اپنی ترنگ میں تھی۔ اپنے آپ میں مست اطمینان بھرے قدم سہج سہج اُٹھائے یوں خود میں گُم تھی کہ اس نے یہ تک نہیں دیکھا کہ اس سے چند فٹ پرے ایک عورت اپنا منہ کھولے حیرت کی تصویر بنی اُسے دیکھ رہی تھی۔ پھر جیسے زہرہ چِلّائی۔
’’ارے تُو میری مشتری تو نہیں کہیں۔‘‘
اور وہ بھی چونکی۔ سُست قدموں میں بریک لگ گئے اور جب اس نے آواز کی سمت دیکھا تو جیسے چیخ اس کے حلق سے بھی نکلی اور پھر میری زہرہ کہتے ہوئے وہ بھی آگے بڑھی۔ جپھّی ایسی تھی کہ دونوں کے وجود ایک نظر آتے تھے۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو ٹَپ ٹَپ بہتے تھے۔ دونوں بار بار ایک دوسرے کو چھوڑ چھوڑ اور دیکھ دیکھ کر گَلے مِل رہی تھیں۔
جب وہ ہجر و فراق اور مصائب پر مشتمل داستان ایک دوسری کو سُنانے بیٹھیں تو نہ مشتری کو یاد رہا کہ اس نے گھر واپس جانا ہے، کھانا پکانا ہے، بچوں نے اسکول سے آ جانا ہے اور دروازے کو تالا لگا دیکھ کر پریشان ہونا ہے اور نہ زہرہ کو خیال آیا کہ وہ بھاوج کی ڈیلیوری کے لیے اس کے ساتھ آئی ہوئی ہے۔ اُسے ایک بار اندر لیبر روم میں جا کر جھانک آنا چاہئیے کہ بیچاری بھاوج کِس حال میں ہے۔ وہ تو ایک دوسرے میں گُم تھیں جب اندر سے آیا نے باہر آ کر آواز لگائی کہ بیڈ نمبر۹کی مریضہ کے ساتھ کون ہے ؟
’’ارے میری تو مت ماری گئی۔ تمہارے مِلنے کی خوشی میں کچھ یاد ہی نہیں رہا۔ دیکھو تو نعیمہ کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہے اور میں کِس مزے سے یہاں بیٹھی ہوں۔‘‘
اور آیا چِلّائی۔ ’’بی بی پوست کھا کر بیٹھی ہو۔ اندر بچہ ہو گیا ہے۔ کپڑے لاؤ۔‘‘
اس نے ٹوکری مائی کو پکڑائی اور خود مشتری کا ہاتھ تھام کر اندر بھاگی۔ نعیمہ کا چہرہ پیلا پھٹک ہو رہا تھا۔ تخلیق کے کرب نے اَدھ موا کر ڈالا تھا۔ مشتری کو دیکھتے ہی اس نے بھی بانہیں پھیلا دیں۔ وہیں اس نے مشتری سے بچوں کا پوچھا۔
اور مشتری مسکرائی۔ بڑا تو لڑکا ہے۔ سیف الملوک، اس کے بعد ایک اور لڑکا ہوا، تیسرے نمبر پر بیٹی ہے، اس کے بعد ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔
’’تو پھر تیرے ہاں سیف الملوک آ گیا۔‘‘
’’اور تیرے ہاں تاج الملوک نہیں آیا کیا؟‘‘
’’ارے آیا۔ خدا کی رحمت سے آیا ایسا من موہنا کہ تُو دیکھے گی تو خوش ہو جائے گی۔‘‘
مشتری چلی گئی۔ شام کو خاوند کے ساتھ آنے کا کہہ گئی۔ رات کو نعیمہ کی ماں بیٹی کے پاس آ گئی اور زہرہ مشتری اور اس کے خاوند کے ساتھ اُن کے گھر میں چلی آئی۔
دو کمروں کا یہ صاف سُتھرا گھر جو ایک محنت کَش کی داستان سُناتا تھا گھر والی کا سلیقہ منہ سے بولتا تھا۔ صاف سُتھرے بچے جو ماں کی اچھی تربیت کا نمونہ تھے۔ اس نے ایک ایک بچے کو بھینچ بھینچ کر پیار کِیا پر گڑیا سی زیبی پر تو اسے یوں ٹوٹ ٹوٹ کر پیار آیا کہ وہ اسے کلیجے سے لگا لگا کر نہ تھکتی تھی۔ اس کے رخساروں پر بوسے دیتی تھی۔ پھر اس نے مشتری سے کہا۔
’’تو تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے نا!‘‘
اور مشتری نے اپنی بانہیں اس کے گَلے میں ڈال دیں۔
’’تم سے پیاری اور اچھی چیز میرے لئے اس جہان میں کوئی نہیں، تم جسے چاہو اپنے لئے چُن لو۔ سب تمہارے سامنے ہیں۔‘‘
اور زہرہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
بس تو دو بِچھڑی سہیلیوں کا ملاپ اور نئے تعلقات کا آغاز ہوا۔ زیبی جتنی پیاری بچی تھی اُتنی ہی ذہین بھی تھی۔ ہرکلاس میں اوّل آتی۔ آٹھویں میں اس نے وظیفہ لیا۔ دسویں
میں بورڈ میں دوسری پوزیشن لی۔ تاج الملوک ان دنوں ایف ایس سی کر بیٹھا تھا۔ جب زیبی کے کالج میں داخلے کی بات چلی تو زہرہ نے کہا۔
’’دیکھو مشتری اب اسے مت پڑھاؤ۔ دسویں پاس کر لی ہے۔ کافی ہے۔ کوئی نوکری تھوڑی کروانی ہے ہم نے۔‘‘
’’زہرہ نوکری کرنے میں کیا حرج ہے ؟ اب عورتوں کا کام کرنا طعنہ نہیں رہا۔‘‘ مشتری بڑے شہر میں رہنے کی وجہ سے کافی روشن خیال ہو چکی تھی۔
مشتری نے بیٹی سے بات کی کہ چلو چھوڑوکورس کر لو کوئی۔ کیا اب پڑھتے رہنا ہے ؟ زہرہ تین سال تک بیاہ مانگ لے گی۔
اور زیبی نے مار حشر کر لیا۔ رو رو کر آنکھیں سُجا لیں۔
’’ماں کوئی تمہارے اُوپر بوجھ ہوں۔ دو دو وظیفے مِل رہے ہیں۔ لوگ تمہارے اُوپر رشک کرتے ہیں۔ دیکھو میرے اُوپر یہ ظلم مت کرو۔ مجھے پڑھنے دو۔ جو کہو گی ویسے ہی کر لوں گی۔‘‘
ماں اس کے آنسوؤں سے متاثر تھی۔ اس کی ذہانت پر نازاں تھی۔ سارے محلے میں بیٹی کی وجہ سے سربلند تھی اور زیبی ایف ایس سی میں داخل ہو گئی۔ تاج الملوک نے بی ایس میں داخلہ لے لیا۔
یہ کیسا اتفاق تھا کہ زیبی نے اس بار پورے بورڈ میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ تاج الملوک پاس ہوا پر دوسرے درجے میں اور اس نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ اب وہ آگے نہیں پڑھے گا نوکری کرے گا۔ زہرہ سٹپٹائی۔ زیبی کی تصویریں اور انٹرویو اخباروں میں چھپے تھے۔ بھاگم بھاگ مشتری کے پاس آئی اور گھگھیائی۔
’’دیکھو میری زندگی کی یہ سب سے بڑی تمنا ہے پر اسے اپنے ہاتھوں قتل مت
کرو۔ تم جانتی ہو اور یہ میں بھی جانتی ہوں کہ لڑکی زیادہ پڑھ جائے تو اپنے سے کم پڑھے لکھے لڑکے سے شادی نہیں کرتی اور بات بھی ٹھیک ہے کہ کیوں کرے ؟پر دیکھو مشتری بس میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں اب اسے مزید پڑھانے کا سلسلہ ختم کرو۔‘‘
مشتری عجیب شش و پنج میں پڑ گئی۔ ایک طرف عزیز از جان دوست تھی دوسری طرف بیٹی اور اس کی خداداد قابلیت۔ اس کی اُستانیوں، دوستوں کی پڑھی لکھی ماؤں کا بیحد دباؤ۔ گھر والا اس معاملے میں لاتعلق سا تھا۔
زیبی بہت سمجھ دار لڑکی تھی۔ ماں کے گھٹنے پکڑ کر بولی۔
’’آپ فضول خدشات میں گھُل رہی ہیں اور عجیب باتیں کرتی ہیں میں نے کوئی سرکشی دکھائی ہے ؟ آپ کو کچھ کہا ہے ؟کچھ اعتراض کِیا ہے ؟در اصل سارارونا جہالت کا ہے۔ بچپن کے قول و قرار، اپنی دوستیوں اور چاہتیں اولاد سے زیادہ عزیز ہیں۔‘‘
بیٹی کے یوں بات کرنے پر اُس نے زہرہ سے کہا۔
’’تم تو خود ہی گمان کئیے بیٹھی ہوکہ ڈاکٹر بن کر اس کا دماغ اُونچا ہو جائے گا۔ تاج الملوک ایسا خوبصورت اور وجیہہ لڑکا۔ نہیں زہرہ تم بیکار میں اپنا دماغ خراب مت کرو۔ سب ٹھیک ہو گا۔‘‘
پر زہرہ کہاں مطمئن تھی؟جانتی تھی کہ بازی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ وہ اکڑی بیٹھی تھی۔ دفعتاً زیبی نے آ کر اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اس کے گریبان میں منہ گھسیڑ لیا اور بلک بلک کر روئی تو زہرہ کا کلیجہ دہل گیا۔ اس نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھاما۔ ماتھے پر پیار کِیا پھر اس کے سارے آنسو دوپٹے سے صاف کئے اور بولی۔
’’میری بچی میں تجھے اجازت دیتی ہوں۔ تُو پڑھ جتنا چاہتی ہے۔ میرے مقدر میں ہو گی تو مِل جائے گی۔‘‘
اور زیبی میڈیکل میں داخل ہو گئی۔ تاج الملوک کو یوریا کے ایک پلانٹ پر اسسٹنٹ کیمسٹ کی جگہ مِل گئی۔
میڈیکل کے دوسرے سال کا ابھی آغاز ہی تھا۔ زیبی اُس دن کالج سے جلدی آ گئی تھی۔ ماں نے دھوپ میں اُس کے آگے کینو کیلے رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’چلو شُکر ہے کچھ دیر تو میرے پاس بیٹھو گی۔ میں تو تم سے بات کرنے کو ترس جاتی ہوں۔‘‘ ماں بیٹی کی مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتے ہوتے تاج الملوک اور مشتری پر آ گئی۔ زیبی نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں اُن خدشات کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا جو اُس کی ماں اور مشتری کے دماغ میں رینگتے تھے۔
’’بھئی اگر آپ کی مُراد تعلیمی فرق سے ہے تو یہ میرے نزدیک انتہائی بے بنیاد بات ہے۔ بقیہ فرق تو نہ دونوں گھروں کے ماحول اور نہ ہی معاشرتی حیثیت میں ہے۔ میں ایک حقیقت پسند لڑکی ہوں۔ تاج الملوک کوئی اُجڈ گنوار تو ہے نہیں۔ پڑھا لکھا خوش اطوار لڑکا ہے۔ پرانے وقتوں کے پڑھے لکھے مرد اَن پڑھ بیویوں کے ساتھ گزارہ کرتے تھے اور میرے خیال میں بڑی اچھی طرح کرتے تھے۔ ازدواجی زندگی میں ڈگریوں اور عہدوں سے کہیں زیادہ ذہنی مطابقت اور ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے۔ میں نے تو بڑے بڑے پڑھے لکھوں کی بھی جوتیوں میں دال بٹنے کے قصّے سُنے ہیں۔
اور میں تو یوں بھی اُس غربت زدہ، پس ماندہ، طبی سہولتوں سے محروم علاقے میں کام کرنا چاہتی ہوں جہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں اور نہ ہی کوئی شہری ڈاکٹر وہاں رہنا پسند کرتی ہے۔ کتنے لوگ ہیں اردگرد کے گاؤں اور علاقوں کے جنہیں میری ضرورت ہے۔ آپ بتائیے آپ سب محبت کرنے والے لوگوں کے درمیان تحفظ کی چادر میں لپٹی میں ان دُکھی لوگوں کی کتنی زیادہ خدمت کر سکتی ہوں ؟
زندگی صرف اسٹیٹس، اونچے عہدے، اعلیٰ مرتبے اور بہت سی دولت کمانے کے لیے
کافی نہیں۔ کم از کم میرے لئے کافی نہیں۔ ہمارے دیہی علاقے تعلیم اور صحت جیسی نعمتوں سے محروم ہیں۔ بارش کے ڈھیروں ڈھیر قطروں کی ضرورت ہے تو پہلا قطرہ میں کیوں نہ بنوں ؟
مشتری نے لمبا سکون کا سانس بھرا اور بیٹی کو اُن نظروں سے دیکھا جس میں فخر سے لبالب بھرے جذبات چھلکے پڑتے تھے۔
آنے والے دنوں میں پڑھائی کے اخراجات اتنے بڑھنے لگے کہ زیبی کو اِن اخراجات کو پورے کرنے کے لیے مشقت کی چکّی میں پِسنا پڑا۔ کبھی ٹیوشنز، کبھی کِسی لیبارٹری میں پارٹ ٹائم جاب۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ ہلکان ہو گئی تھی۔
میڈیکل مکمل ہو گیا۔ ہاؤس جاب سے فارغ ہوئی تو مشتری نے اُس سے کہا کہ وہ اب اس کی شادی کے فرض سے سُرخرو ہونا چاہتی ہے۔
وہ اس وقت باہر جانے کیلے موزے پہن رہی تھی۔ ماں کی بات پر سر اُٹھا کر اُس نے بیگانی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’امی جان مجھے کِسی غریبڑے سے شادی نہیں کرنی۔ مجھے مدر ٹریسا بننے کا بھی کوئی ارمان نہیں رہا۔ جن بٹے کھائیوں کو الانگتی پھلانگتی میں اِس منزل تک پہنچی ہوں میں ہرگز نہیں چاہوں گی کہ کل میری بہنیں اور میرے بچے پھر انہی کٹھنائیوں سے گزریں۔ اگلے ہفتے تو میری امریکہ کے لیے روانگی ہے۔‘‘
٭٭٭
پتھر
یُوں اس نے منتیں تو ڈھیر ساری مانی تھیں۔ اپنے رب سے دُعائیں بھی بہت کیں کہ مولا سفر خیریت سے کٹ جائے۔ ایک تو رات اُوپر سے بیمار اماں جی کا ساتھ۔ اماں جی بھی بیماریوں کی پوٹلی تھیں۔ ایک کے حملے سے سنبھلنے نہ پاتیں کہ دوسری کیل کانٹے سے لیس چڑھ دوڑتی۔ جب تک لاہور میں تھے۔ وقت بے وقت ڈاکٹروں کے حضور حاضری کچھ اتنی تکلیف دہ محسوس نہ ہوتی تھی پر جب سے رضا پروجیکٹ کا مینجینگ ڈائرکٹر بن کر سائٹ پر گیا تھا۔ لاہور والی سہولتوں سے محرومی بُری طرح کھٹکنے لگی تھی۔ اب کچھ دنوں سے اماں کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا۔ کویوں میں درد رہتا تھا۔ آنکھوں کے سپیشلسٹ کو دکھانا ضروری ہو گیا تھا۔
پلانٹ تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ رضا کی سائٹ پر موجودگی ناگزیر تھی۔ یوں بھی جب سے اس کی شادی ہوئی تھی وہی ساس کو اُٹھائے اُٹھائے پھرتی تھی۔ ساری تیاری اس نے ڈیڑھ بجے تک مکمل کر لی۔ دو بجے جب رضا کھانے کے لیے آیا تو اُس نے تفصیلات اُسے بتا دیں۔ تینوں بڑے بچوں کو وہ باپ کے پاس چھوڑ رہی تھی۔ صرف چھوٹا بچہ ساتھ کے لیے بضد تھا۔
’’میں نے لاہور آفس کے انچارج کو اطلاع کر دی ہے۔ وہ اور ڈرائیور اسٹیشن پر موجود ہوں گے۔‘‘
شوہر کی اس بات سے اس کا اچھا بھلا موڈ خراب ہو گیا۔ چمچ کو پلیٹ میں زور سے بجاتے ہوئے اس نے تیکھی نگاہوں سے میاں کو گھورا اور بولی۔
’’کیا ضرورت تھی اس کی۔ لاہور کوئی اجنبی شہر ہے جہاں میرے بھول جانے کا خطرہ ہے۔‘‘
’’ارے احمق۔ بیمار آدمی ساتھ ہے۔ ذمہ دار لوگ ہیں حفاظت سے تمہیں گھر پہنچا دیں گے۔ یوں بھی وقت بے وقت ٹیلیفون کی سہولت حاصل رہے گی۔ یہاں بیٹھا میں حالات سے مطلع ہوتا رہوں گا۔‘‘
’’خالد اور ظہیر کو اطلاع تو دے دی ہے۔ تم نہیں جانتے رضا یہ لوگ بہت باتیں بناتے ہیں۔ نجی محفلوں میں بیٹھ کر ایم۔ ڈی کی گھریلو زندگی پر تبصرے کرتے ہیں۔ اس کی بیوی کے بالوں کے سٹائل سے لے کر پاؤں کے جُوتوں تک حاشیہ آرائیاں ہوتی ہیں۔ اور مَیں اپنے بارے میں کوئی بات نہیں سُننا چاہتی!‘‘
’’بلاوجہ پریشان ہو رہی ہو۔ مَیں آدمی کو پہچانتا ہوں۔ لاہور آفس کا انچارج ایسا نہیں ہے۔ قابلِ بھروسہ، قابلِ اعتماد ہے۔
اور پھر وہی ہُوا جس کا ڈر تھا۔ گاڑی میں سوار ہوئے انہیں ابھی گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ اماں بی کو بلڈ پریشر کا دورہ پڑ گیا۔ ائیر کنڈیشنڈ کوپے میں وہ بھاگی بھاگی پھری ساری رات جیسے کانٹوں پر گزری۔ صبح کے قریب اُن کی آنکھ لگی اور وہ دوسری برتھ پر نیم دراز ہو گئی۔ لاہور کا سٹیشن کب آیا اور گاڑی کب ٹھہری؟وہ تو بے سدھ سی لیٹی تھی۔ بچہ بھی کونے میں دبکا سو رہا تھا۔
دروازے میں کھڑا ڈرائیور سمجھ نہ پا رہا تھا کہ صاحب کی بیگم اور ماں کوکیسے بیدار کرے ؟پلیٹ فارم پر کھڑے نوجوان کو اِس نے صورتِ حال سے آگاہ کیا اور پوچھا اَب کیا کِیا جائے ؟‘‘ دونوں آ کر دروازے میں کھڑے ہو گئے۔ ڈرائیور نے پاؤں بجائے۔ بچے کو بیدار کیا۔ تب کہیں جا کر اس کی آنکھ کھلی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں سے اس نے دونوں کو دیکھا اور ساس پر جھک گئی۔ داہنے بازو کا سہارا دے کر اُٹھایا۔ بکھرے بالوں کو سمیٹا اور دوپٹہ سر پر جمایا۔ ان سارے کاموں سے فارغ ہو کر وہ سیدھی ہوئی۔ اس نے آنے والے دونوں مردوں کو دوبارہ دیکھا۔ ڈرائیور کو وہ پہچانتی تھی اور اب دوسرے نوجوان کو بھی پہچان چکی تھی۔ آنکھوں سے نیند کا سارا اثر زائل ہو چکا تھا۔
پر یہ چند لمحے بڑے عجیب سے تھے۔ درمیانی وقت جیسے بیچ میں سے سرک گیا تھا۔ یوں جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ مگر اُس وقت کے کل میں بڑی تلخی تھی۔ اسی تلخی کے احساس نے اس کے چہرے کے زاوئیے بدل دئیے تھے۔ ڈرائیور سے اس نے کہا۔
’’میرے بھائی شاید باہر ہوں۔ ذرا انہیں دیکھئے !‘‘
اب وہاں صرف وہ رہ گیا تھا۔ پہلے صرف لڑکا سا تھا۔ اب لڑکے اور مرد کی درمیانی منزل پر کھڑا تھا۔ کیسے بے تکے سے موڑ پر اس کا سامنا ہُوا تھا۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا لوگ آ جا رہے تھے۔
’’تم عمر ہو نا؟‘‘ اس نے انجان سی بن کر پُوچھا۔
سوال مہمل سا تھا۔ اس کا اُسے خوب احساس تھا مگر کبھی کبھی صورتِ حال کو سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے اور جب ڈرائیور نے آ کر کہا۔
’’دونوں لڑکے باہر تو کہیں نظر نہیں آ رہے۔‘‘ وہ اس وقت اپنی ساس سے عمر کا اپنے عزیز کی حیثیت سے تعارف کروا رہی تھی۔
دونوں مردوں نے بوڑھی عورت کو سنبھالا۔ اس نے بچے کو گود میں اٹھایا اور ایک دوسرے کے پیچھے چلتے باہر آ گئے۔ جب وہ کار میں بیٹھ گئی تواس نے منہ باہر نکال کر بیگمانہ شان سے کہا۔
’’ رضا کا فون آئے تو بتا دینا کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔‘‘
رشتہ داری نہ تو بہت قریبی تھی اور نہ بہت دُور کی بس درمیان میں کہیں اٹکتی تھی۔ ان کا بڑا بیٹا تو بی بی جان کو بے طرح بھا گیا تھا۔ بہو کے پاس بیٹھ کر وہ کہتیں۔
’’ہاتھ پاؤں کا کھلا، دل و دماغ کا اچھا، زبان کارسیلا اور ماں باپ کا فرمانبردار۔ بیٹی کے بھاگ کھل جائیں جو وہاں شادی ہو جائے۔‘‘ وہ سب کچھ سنتی اور ہنستے ہوئے بھاوج سے کہتی۔
’’ماں باپ کے حد درجہ فرمانبردار بیٹے نکمّے شوہر ثابت ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں چاہیں ایسے لوگ۔‘‘
وہ ایم۔ اے کے آخری سال میں تھی۔ یونیورسٹی میں انتخابات زور و شور پر تھے وہ بڑی ایکٹو اور تیز لڑکی تھی۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی۔ اپنی پارٹی کے لیے خوب کنویسنگ کرتی پھرتی۔ کیمسٹری کا شعبہ اولڈ یوینورسٹی میں تھا اور وہی بی بی جان کی بہن کا بیٹا آنرز کر رہا تھا۔ ایک دن جب وہ اولڈ کیمپس آئی تو سوچا کیا مضائقہ ہے کہ اُس سے مل لیا جائے۔ ذرا دیکھ تو لوں بی بی جان کے قصیدوں میں کتنی جان ہے‘‘ وہ اسے سیڑھیوں میں ہی مل گیا۔ اُسی سے اس نے پوچھا۔
’’مجھے عمر سلمان سے ملنا ہے جو تھرڈ ائیر آنرز کے سٹوڈنٹ ہیں۔ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہوں گے ؟‘‘
اور سفید براق پینٹ قمیض میں ملبوس لڑکے نے شائستگی سے کہا۔
’’جی فرمائیے۔ مَیں ہی عمر سلمان ہوں۔‘‘
وہ اس اچانک حملے سے سٹپٹا سی گئی۔ ایک پُر کشش اور ڈیشنگ لڑکا اس کے سامنے کھڑا تھا۔ جس کے متعلق اس کی ماں چاہتی تھی کہ وہ اس کا داماد بن جائے۔
اس نے آنے کی غرض اُسے بتائی۔ پینل اس کے ہاتھ میں تھمایا۔ سپورٹ کرنے اور ووٹ ڈالنے کے لیے کہا۔ اس کے نہ نہ کرنے پر بھی عمر اُسے کیفے ٹیریا لے گیا۔ جہاں انہوں نے ٹھنڈے مشروب کے ساتھ گرم گرم سموسے کھائے اور جب وہ واپس آ رہی تھی تو اس نے
اپنے آپ سے کہا تھا۔
’’اس دفعہ تو بی بی جان کی باتوں میں سو فیصد سچائی ہے۔‘‘
دونوں طرف سے بڑوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا تھا۔ صرف وہ دونوں ہی ایسے تھے جو کبھی ایک دوسرے کے ہاں نہ گئے۔ جب وہ فائنل سے فارغ ہو کر گھر بیٹھی تو اچانک اس کی منگنی عمر سے ہو گئی۔
خوش ہونے کو وہ بہت خوش تھی۔ مگر اس خوشی کے گلے میں جیسے پھانس سی چُبھ گئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے عمر کی ماں اس منگنی سے خوش نہیں۔ ایک بار نہیں کئی مرتبہ اس نے کہا۔
’’پڑھی لکھی لڑکیاں بڑی خرانٹ ہوتی ہیں۔ ان کے کردار بھی اچھے نہیں ہوتے۔ بیٹوں کو ماؤں سے چھین لیتی ہیں۔ اور جو کہیں ساس سُسر کی خدمت کرنی پڑ جائے تو انہیں جیتے جی جہنم رسید کر دیتی ہیں۔‘‘
وہ سب سُنتی۔ دُکھی ہوتی اور اپنے دل میں عہد کرتی کہ وہ ان کی بہت خدمت کرے گی۔ اور اِن کے یہ فضول مفروضے تو وہ ختم کر کے رہے گی۔ مگر ان کے ختم کرنے کا وقت ہی نہ آیا۔ چھ ماہ بعد اچانک ہی منگنی ٹوٹ گئی۔ وجہ وہی بس اس کا زیادہ پڑھا لکھا ہونا اور پڑھی لکھی لڑکیوں کا ساس سُسر کی خدمت نہ کرنا تھا۔
اس کے سارے وجود میں جیسے بھونچال آ گیا۔ ’’پڑھی لکھی لڑکیاں کیا من کی کالی ہوتی ہیں۔ ان میں انسانیت نہیں ہوتی؟‘‘ اُس نے بار بار یہ سوال اپنے آپ سے کیا تھا۔
مہینوں بعد اسے اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا احساس ہُوا۔ اس مالک کی طرح جس کی بے حد قیمتی گاڑی حادثے میں اپنا انجر پنجر تڑوا کر کسی کھڈے لائن لگ جائے۔ اور جس کی مرمّت کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ وہ بھی اپنی طرف متوجہ ہوئی۔ ایک گہری سہیلی کا بھائی برٹش قونصیلیٹ میں ملازم تھا۔ اس کی کوششوں سے اُسے سمندر پار جانے کا وظیفہ مل گیا۔ اور
وہ ایک نئی اور اجنبی سرزمین میں گم ہو گئی۔
رضا سے اس کی ملاقات برمنگھم میں ہوئی۔ وہ بارلے سٹریٹ میں اپنی ایک واقف خاتون کے ہاں پندرہ دن کی چھٹیاں گزارنے آئی تھی۔ رضا خاتونِ خانہ کا رشتہ دار تھا اور تنزانیہ میں پاکستان کی ایک بڑی کیمیکل کمپنی کا پروجیکٹ کامیابی سے چلا کر تین سال بعد وطن لوٹ رہا تھا۔ پاکستان واپس جانے سے قبل انگلینڈ گھومنے پھرنے آیا تھا کہ اُس نے پی ایچ ڈی بھی لندن سے کی تھی۔ رات کے کھانے پر دونوں کا تعارف ہُوا۔ خاتون خانہ مسز محمود جب کھانے کے لیے بیٹھیں تو انہوں نے بیٹے سے کہا۔
’’شہریار مجھے نجمی نظر نہیں آئی۔ کدھر ہے وہ؟‘‘
اور شہریار ہنستے ہوئے بولا۔
’’وہ دادی اماں کو گھمانے باہر لے گئی ہیں۔‘‘
اور مسز محمود نے رضا سے کہا۔
’’بڑی عجیب لڑکی ہے یہاں لیڈز یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہے جب بھی میرے پاس آتی ہے میری ساس کے سینکڑوں کام کر جاتی ہے۔ وہ بھی بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔‘‘
اور عین اسی وقت وہ مسز محمود کی ساس کے ساتھ اندر آئی۔ رضا نے اسے بغور دیکھا تھا۔ اتفاق سے وہ اس کے ساتھ کی کرسی پر بیٹھی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے گندمی رنگے ہاتھ جب سالن کا ڈونگا اٹھانے کے لیے بڑھے تو رضا نے آہستگی سے کہا۔
ڈاکٹریٹ کا پُر مغز مقالہ یہ ننھے منے سے ہاتھ کیسے لکھتے ہیں ؟‘‘
’’یہ کب لکھتے ہیں وہ تو ایک چھوٹا سا سر لکھواتا ہے۔‘‘
وہ ہنس پڑی تھی۔ وہ جب سے انگلینڈ آئی تھی۔ نئی دنیا کو اُس نے شوق اور دلچسپی سے دیکھا تھا اور گذشتہ تلخ حادثے کو بھُلا دیا تھا۔ اس کا چہرہ تر و تازہ تھا۔ آواز میں مٹھاس اور اطوار میں شائستگی تھی۔ چند دنوں کے ساتھ نے رضا کو بتا دیا تھا کہ یہ لڑکی اس کے لیے اچھی ساتھی ثابت ہو سکتی ہے اور ایک دن اس نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔
باہر بہت ٹھنڈ تھی اندر کمرے میں دونوں تھے گھر والے کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ وہ شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے رضا کو سن رہی تھی جو اسے بتا رہا تھا کہ وہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ باپ نے کوئی جائداد نہیں چھوڑی تھی جس کے بل پر وہ انہیں جلدی جلدی بیاہ دیتا۔ زندگی کے لیے اس نے سخت محنت کی۔ بہت کمایا اور انہیں اچھی طرح اپنے دروازے سے اٹھایا۔ اس کی ماں بوڑھی اور دائمی مریض ہے۔ اس کا علاج وہ وی آنا اور لندن تک میں کروا بیٹھا ہے۔ ڈھیروں ڈھیر پیسہ خرچ کرنے کے باوجود ذرا فائدہ نہیں۔ بیماریوں کا ایک ملغوبہ بن گئی ہے۔ وہ شادی کے لیے ایک سلجھی ہوئی نرم دل لڑکی کی تلاش میں ہے جو اس کی بیمار ماں کو بوجھ نہ سمجھے۔
اس نے رضا کو بغور دیکھا۔ اس کے نقش اچھے اور رنگ سانولا تھا۔ جسم بیحد سمارٹ اور کسرتی۔ بہت سے رنگ اس کے چہرے پر پھیلے اور مٹ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھی۔ اس نے اپنا نرم سا ہاتھ اس کے شانوں پر رکھا اور جذبات سے عاری لہجے میں بولی۔
’’تمہاری ماں بیمار رہتی ہے۔ اُسے ایک اچھی بہو کی ضرورت ہے اور مَیں یہ ضرورت پوری کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی وہ تیزی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر چلی گئی۔
وطن لوٹ کر اس نے رضا سے شادی کر لی۔ اس کی دو بہنوں نے اس سے کہاکہ ’’ہم اماں کو سنبھالیں گے تم لوگ گھوم پھر آؤ۔‘‘
مگر اس نے بے نیازی سے کہا۔
’’چھوڑو میں بہتیرا گھومی پھری ہوں۔ اب انہیں میری ضرورت ہے۔‘‘
رضا ایک اچھا شوہر ہی نہیں اچھا انسان بھی تھا۔ سوسائٹی میں اس کا اپنا ایک مقام تھا مگر بڑے لوگوں کی طرح اس کی عادتیں بگڑی ہوئی نہ تھیں۔
آٹھ سالوں میں اس کے چار بچے پیدا ہوئے۔ تین لڑکے اور ایک لڑکی۔ بچوں کو نوکر سنبھالتے مگر ساس کی ساری دیکھ بھال وہ خود کرتی۔ کبھی کبھی اماں بی پیار سے اسے دیکھ کر کہتی۔
’’رضا یہ ہیرا کہاں سے ڈھونڈ نکالا؟‘‘
اور ایسے لمحے میں اس کے سینے میں صرف ایک خواہش ابھرتی۔
’’اے کاش وہ لوگ کبھی اُسے ملیں اور یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔‘‘
اورجب وہ گاڑی میں بیٹھی اپنے میکے جا رہی تھی اس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔ ’’شاید اس تشنہ آرزو کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
اس کی ماں اور بھاوج نے اس کی ساس کو اُتارا۔ دو بجے وہ آفس گئی رضا کو فون کرنا تھا۔ عمر نے باس کی بیوی کا استقبال کیا اور جب وہ شوہر کے ساتھ باتیں کر رہی تھی اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
’’تمہارا بہترین سب آرڈنیٹ تو میرا رشتہ دار نکلا۔‘‘
جواباً رضا نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’تبھی اتنا اچھا ہے۔ اب سمجھا۔ فون دواُسے۔‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے ریسور اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ معلوم نہیں رضا اُس سے کیا کہہ رہا تھا؟وہ خجل سا چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دے رہا تھا۔
اس نے سمجھداری سے آگے آنے اور بڑھنے کے سارے راستے صاف کر دئیے تھے۔ جب وہ عمر کی منگوائی ہوئی چائے پی رہی تھی اُس نے اس کی بیوی بچوں کے بارے میں پوچھا یوں جیسے ماضی کی کوئی بات اُسے یاد نہ ہو۔
رضا کی ماں کا آپریشن ہُوا۔ باس کی ماں اور بیوی اکیلی تھیں۔ سب آفس کا پورا عملہ بڑا مستعد تھا۔ عمر بھی دن میں دو تین چکر لگا تا جس چیز کی ضرورت ہوتی وہ بلا تکلّف کہہ دیتی۔
اور پھر ایک دن عمر کے والدین آئے۔ وہ ساس کو کھلا پلا کر نپکن اتار رہی تھی کہ جب وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ تو کئی دنوں سے ان کی منتظر تھی۔ انہیں دیکھ کر اس نے ایک خوشگوار سا تبسّم اپنے لبوں پر بکھیرا۔ تپاک سے ملی۔ کرسیوں پر بیٹھایا اور ساس کے قریب کھڑی ہو کر بولی۔
’’اماں بی۔ میرے رشتہ دار آپ کی مزاج پرُسی کے لیے آئے ہیں۔
’’عمر کے والدین ہیں۔‘‘
رضا کی ماں نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ آنکھوں پرپٹی بندھی تھی۔ عمر کی ماں نے اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور وہ گلو گیر سی آواز میں بولیں۔
’’اپنی بہو کے رشتہ داروں پر میرا قربان ہونے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے یہ ہیرا میری جھولی میں ڈالا ہے۔ اس نے جتنی خدمت میری کی ہے اور جتنے ناز میرے اٹھائے ہیں۔ دنیا میں کوئی عزیز بیٹی بھی اپنی بے حد چہیتی ماں کے نہیں اٹھاسکتی۔‘‘
’’ارے امّاں بی آپ تو میرے قصیدے پڑھنے بیٹھ گئی ہیں۔‘‘ وہ ادائے بے نیازی سے کھلکھلاتے ہوئے بولی تھی۔ ساس نے اندھوں کی طرح اپنے ہاتھ اُس کی طرف بڑھائے جب وہ اُن کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رہی تھی۔
’’میری بچی تو ہیرا ہے۔ خدا تجھے سدا سربلند رکھے گا۔‘‘
اس کی ساس اُسے ہیرا کہہ رہی تھی اُن لوگوں کے سامنے جنہوں نے اُسے پتھر سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا۔
٭٭٭
انسان خسارے میں ہے
پہلا فون کہہ لیجئیے اطلاعی انداز کا سا تھا۔ ’’فریدہ ہمارے پلازے میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘ بے چینی اور گھبراہٹ جیسے عنصر اُس میں تھے یا نہیں۔ اُس کی بیوی اس کا اندازہ نہ کر سکی۔ ہاں البتہ تعاقب سے آنے والی آوازوں میں ہاہاکار کا شور مچا ہوا تھا۔ وقت یہی کوئی بارہ بجنے میں دس منٹ کا تھا۔
بیوی کو تو پتنگھے لگ گئے۔ اُس نے خود موبائل کے بٹن دبانے شروع کر دئیے تھے۔ کوئی بیس منٹ بعد اُس کی دوسری کال تھی۔ ہاں البتہ اسمیں تشویش اور پریشانی کا بھرپور رچاؤ تھا۔ اس کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی جب وہ بولتا تھا۔ ’’نویں فلور پر میٹنگ ہو رہی تھی۔ ڈائیریکٹر کے ساتھ تیس بندوں کی۔ ہال کے دروازے بند تھے اور سڑک کی سمت کھلنے والی کھڑکیوں پر دبیز پردے تھے۔
میں تو کانفرنس ہال سے ملحقہ اپنے کمرے میں ایک فائل لینے گیا جب میں نے نیچے شعلے دیکھے۔ اُلٹے پاؤں جا کر میں نے بتا یا تو بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ سیڑھیوں کی طرف بھاگے اور کچھ لفٹ کی طرف۔ دو فلور نیچے شعلے خوفناک اژدہوں کی طرح زبانیں کھولے اوپر بڑھ رہے تھے۔ واپسی کا تو کہیں راستہ ہی نہ تھا۔ شیشوں سے نیچے سڑک پر لوگوں کے ٹھٹھ کھڑے آگ کے طوفان کو دیکھتے تھے۔‘‘
اور فون کٹ گیا تھا۔
فریدہ دو ہتڑوں سے سینہ لال کرتے ہوئے پاگلوں کی طرح آنگن میں دوڑی۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کرے ؟دونوں بیٹوں کو کیسے فون کیا کہ نمبر بار بار بھولتی تھی۔ پھر گاڑی میں بیٹھی۔ ہاتھ کانپتے تھے اور گاڑی سٹارٹ ہو کر بند ہو ہو جاتی تھی۔
موبائل کی بیپ نے ایک بار پھر متوجہ کیا۔ اضطراری حالت میں اُسنے کان سے لگایا تو شور اور گھبرائی ہوئی واضح آوازوں کے ساتھ اب وہ پھر بول رہا تھا۔
’’فائر برگیڈ ابھی تک نہیں پہنچا اور فریدہ مجھے امید نہیں کہ میں زندہ بچوں گا اور تم لوگوں کو دیکھوں گا۔‘‘
اور فون بند ہو گیا۔
اُسنے چیخ ماری۔ حواس باختہ سی پہلے گاڑی سے نکلی۔ پھر اسمیں بیٹھی پھر اُتری پھر بیٹھی سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کرے کیا۔ پھر اُسے گولی کی طرح اڑاتی جائے مقام پر پہنچ گئی۔
ایک خلقت امنڈی پڑی تھی۔ شعلے پھنکاریں مارتے اوپر اور اوپر چڑھتے چلے جا رہے تھے۔ نویں فلور پر وہ چکر کاٹ رہا تھا۔ کبھی کوریڈور کبھی اپنے کمرے میں۔ لوگ ماہی بے آب کی طرح بھاگتے پھر رہے تھے۔ آگ کیسے لگی؟سوکھے کانپتے ہونٹوں پر سوال تھے۔ ہراساں اور موت کے خوف سے پھٹی آنکھوں میں جواب بھی تھے کہ شارٹ سرکٹ ہونے سے۔ وہیں چند غصیلی اور جی دار سی آوازیں بھی تھیں۔ ’’ارے اپنے کرتوتوں پر پردے نہیں ڈالنے ان حکمرانوں نے، جہاں ریکارڈ دھرا تھا وہاں ہیرا پھیریوں کے پلندے بھی تھے۔ انہیں الیکشنوں سے پہلے خورد برد نہیں کرنا تھا۔
اُس نے سڑک کی طرف شیشوں سے باہر دیکھا۔ سروں کا جیسے سمندر تھا۔ یہ تو محشر کا سا سماں لگتا تھا۔ آوازوں کا واویلا، بین۔ اوپر نیچے سینہ کوبی کرتے ہاتھ۔ اُس نے پھر نیچے نگاہ کی۔ اگر یہاں سے چھلانگ ماروں کاش سرکس والوں کی طرح کوئی جال نیچے تنا ہوتا۔ اُسنے چیخ کر کہنا چاہا۔
’’ارے ہے کوئی جو مجھے سُنے‘‘ ۔ قیامت تھی۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔ اُسنے ہجوم میں اپنے بیٹوں بیوی کو دیکھنا چاہا مگر نہ دیکھ سکا۔ آنکھوں کے سامنے تر مرے سے ناچنے لگے تھے۔ سر پٹ سے ٹکا لیا۔
آج صبح کا منظر ایک جھماکے سے آنکھوں کے سامنے تیرنے لگا تھا۔ بہت دنوں سے وہ رضائی کے لیے ضد کر رہا تھا۔
’’ارے اب کون سا زمانہ ہے رضائی والا۔ بیڈروم گندہ لگتا ہے۔ الفتح سے سپین کا موٹا کمبل لے آؤں گی۔ بیوی کے اس اعتراض پر اُسنے نرمی سے کہا تھا۔ ’’فریدہ مجھے کمبل میں ٹھنڈ لگتی ہے۔‘‘
اس کی ضد پر رضائی بنی۔ اور اُس پر چڑھانے کے لیے کور وہ خود خرید لایا۔ بالکل سفید بیوی نے دیکھا تو ناک بھوں چڑھائی۔ اسے لانے کی کیا تُک تھی؟وہ جھُنجھلا رہی تھی۔
’’ارے کچھ سنا بھی کرو۔ بولے چلی جاتی ہو۔ بھئی کور سے رضائی جلدی گندی نہیں ہوتی۔‘‘
وہ پھر بھنا کر بولی تھی۔ ’’شہدوں جیسی حرکتیں چھوڑ دو اب۔ دولت کے انبار لگا لیے تم نے۔ گندی ہو جائے گی تو اگلے سال نئی بن جائے گی اور اگر کور لانا بھی تھا تو کوئی رنگدار لاتے۔‘‘
اور آج صبح ناشتے کی میز پر وہ دو ٹوک لہجے میں بولی تھی۔ ’’میں نے اِس منحوس ماری رضائی کو کام والی کو دے دینی ہے۔ زہر لگتی ہے مجھے یہ۔ خدا کی قسم سوتے میں لگتے تھے جیسے کفن پہنے لیٹے ہو۔ میں آج ہی الفتح سے سپین کا مور کمبل لاتی ہوں۔‘‘
یکدم اُسے محسوس ہوا جیسے سانس سینے میں رکنے لگا ہے۔ آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے دھبے رقص کرنے لگے تھے۔ پھر اللہ اکبر، کلمے اور درود کی ملی جلی آوازیں تھیں۔ جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نظر آئے۔ اُس نے بھی فی الفور آیات کا ورد شروع کر دیا۔ کہیں کوئی معجزہ۔ کہیں کوئی انہونی ہو جائے۔ ایسا ممکن ہے خدا کے ہاں تو سبھی امکانات ہیں۔ آگ کو گل و گلزار بنانے کی مثالیں بھی ہیں۔ پر کن کے لیے ؟اندر سے جیسے طنزاً پوچھا گیا تھا۔
اُس نے نگاہوں کا رُخ اندر کے منظروں پر پھیرا۔ اُسے لگا۔ بند پنجروں میں جیسے پرندے پھڑپھڑاتے اور لوہے کی تیلیوں سے ٹکڑا ٹکڑا کر اپنے سروں کو زخمی کر لیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیات یہاں بھی تھیں۔ رونا پیٹنا، بھگدڑ شور فائر برگیڈ ابھی تک نہیں پہنچا وہ پہنچے گا بھی نہیں۔ قریشی صاحب کی آواز جیسے کہیں کِسی کنوئیں سے آئی تھی۔ یہاں تو سب چور ہیں۔ کوئی بڑا چور کوئی چھوٹا چور۔ ارے کیا پتہ یہ آگ بھی خود لگائی ہو۔ کِسی ریکارڈ کو تلف کرنا ہو۔ کیا ہیلی کاپٹروں کا یہاں چھت پر آنا مشکل تھا۔ ریسکو والے کہاں ہیں ؟ارے غریب کوئی انسان تھوڑی ہیں کیڑے مکوڑے ہیں۔ ابھی مسل دیئے جائیں گے۔ اُس کا دل گھڑی کے پنڈولم کی طرح ڈولتا تھا۔ اُس نے باہر دیکھا۔ سورج کی روشنی میں تابانی تھی۔ آسمان صاف تھاجس پر کہیں کہیں اڑتے پرندے اس قیامت سے بے خبر تھے جو یہاں اِس بلند و بالا عمارت میں انسانوں پر ٹوٹ پڑی تھی۔
اُس نے کمرے میں موجود اُن لوگوں کو دیکھا جو یہاں بیٹھتے تھے۔ اپنے دن کے نو دس گھنٹے یہاں گزارتے تھے۔ اپنے مستقبل کے منصوبوں پر باتیں کرتے تھے۔ اپنے دُکھ سُکھ کی کتھائیں ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ یہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل بھی تھا۔ چغلیاں اور حسد جیسے جذبوں کی بھی فراوانی تھی۔ ہمدردی اور محبتیں بھی تھیں اور شاید اب سب کچھ بھسم ہونے جا رہا تھا۔
پھر جیسے اُس نے دیکھا کونے میں رکھی اُس کی آفس الماری کے شیشے والا پٹ دھڑ سے کھل گیا ہے اور اس میں سے ایک فائل نکل کر فرش پر آ گری۔ اُسکی ذاتی فائل جس میں اِس ترقیاتی ادارے کے شہرسے پندرہ میل دور نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اُسکے دو کنال پلاٹ کے کاغذات تھے وہ اسے بس ایک آدھ دن میں گھر لے جانے ولا تھا۔ اِس پلاٹ کے حصول میں اُس نے اپنی جان لڑا دی تھی۔ ہر ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کیا تھا۔ آفس کے ساتھیوں سے بھی پردہ رکھا۔ جب سے یہ معاملہ نپٹا تھا وہ بہت خوش تھا۔ ہواؤں میں اڑتا پھرتا تھا۔
ایک دن کھانے کی میز پر جب اُس کے چاروں بچے اور بیوی بیٹھے ہوئے تھے اُسنے اپنی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے رب کریم کا شکر ادا کیا اور کہا میں تو ایک فقیر تھا۔ جوپچیس سال قبل میٹرک کی سند اور جیب میں چند سکوں کے ساتھ اِس بڑے شہر میں آیا تھا۔ ایک جو نیر کلرک کی سیٹ، کرائے کا ایک کمرے کا گھر۔ فریدہ بھاگوان نکلی میں نے پانچ مرلے کا پلاٹ اس کے نام پر لیا۔ پھر دوسرا لیا۔ اُسے بیچا اور گھر بنایا۔ ثوبیہ دنیا میں آئی تو اسی جگہ اسی کالونی میں دو کمرشل پلاٹ لئیے۔ بچے بڑے مقدروں والے نکلے۔ جو بھی دنیا میں آیا اُسے میں نے دو دو تین پلاٹوں کا مالک بنا دیا۔ کوئی باپ کے نام، کوئی ماں کے نام لیا۔ چلو شکر انتقال میں کوئی پھڈا نہیں پڑا۔ در اصل پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ اسے پھینکو اور چیزوں کو پہیے لگوا لو۔
پھر جیسے شور مچا۔ ٹن ٹن ٹن گھنٹیاں بجیں۔ فائر برگیڈ آ گیا ہے۔ شاید آگ بجھ جائے۔ شاید میں بچ جاؤں۔ اُس نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ یقیناً کہیں نامہ سیاہ بھی سامنے تھا۔ خدایا اگر تو مجھے مہلت دے تو میں تائب ہو جاؤں گا۔
ڈگر ڈگر قدموں کا شور تھا۔ آوازوں نے بتا یا تھا کہ آگ آٹھویں فلور تک پہنچ گئی ہے۔ فضا میں کہیں کلمے کے ساتھ ساتھ بین کی آوازوں کا شور اتنا زیادہ تھا کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ وہ کمرے سے باہر نکلا۔ آگ کسی آدم خور دیو کی طرح آدم بو آدم بو کی طرح شوکریں مارتی اُوپر اُوپر چڑھتی چلی آ رہی تھی۔
اُسے محسوس ہوا تھاجیسے چند فائلیں اپنی پوری طاقت سے کہیں ہواؤں میں اڑتی اُس کے منہ پر آ کر گری تھیں۔
’’ تم نے فلاں کی حق تلفی کی۔ چکر چلائے۔ اور پلاٹ اپنے بیٹے کے نام کروایا۔ تم
نے فلاں وقت فلاں کا حق مارا۔ جھوٹ بولے۔ غلط اندراج بھرے۔ آوازیں تھیں کہ صور اسرافیل۔ کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے۔
’’کیا کہیں معافی کی گنجائش ہے۔ اُس نے دل کو ٹٹولا۔ در توبہ تو بند ہو گیا ہے۔ جہنم کی آگ تمہاری پیشوائی کے لیے بڑھ رہی ہے۔
’’میرے خدایا کانوں پر اضطراری کیفیت میں دونوں ہاتھ آ گئے۔ بند آنکھوں نے ایک اور خوفناک منظر دکھایا تھا۔ اس کی موت کا منظر۔
گوشت کی دیگیں اور بوٹیاں کھاتے اُس کے حاسد اور بدخواہ رشتے دار جو اُس میٹرک پاس سنیئر کلرک کی باتیں بنانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ اُس کا لالچی داماد جو ہمہ وقت کیا چیز سمیٹ کر اپنے گھر لے جا سکتا ہے جیسے چکروں میں رہتا تھا۔ اُس کے سوئم پر پھڈا ڈالے بیٹھا تھا کہ مارکیٹ کی فلاں دوکان اُسے ملنی چاہیے۔ بڑی بہو جو اسی خصلت اور قماش کی ہے اُس نے بھی آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔
’’فلاں دوکان ہماری ہے۔ فلاں پلاٹ میں نے لینا ہے۔ فلاں گھر مجھے ملنا چاہیے۔ یہ میرا ہے وہ تیرا ہے۔‘‘ اندر باہر شور مچا پڑا تھا۔
وہ چکرا کر زمین پر گرا۔ کب آگ کے شعلے آئے۔ کب پانی کا منہ زور ریلا آیا۔ کون اُس کے دائیں ہاتھ تھا، کون بائیں ہاتھ۔
اور کہیں گہری رات ڈھلے اُس کی بیوی بیٹے امدادی پارٹیوں کے ساتھ اوپر پہنچے اور انہوں نے آدھی جلی، آدھی پانی سے تراُس کی لاش اٹھائی۔
انسان بلاشبہ بہت خسارے میں ہے۔
٭٭٭
مصنفہ کی اجازت اور فائل فراہمی کے تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید