فہرست مضامین
بد دعا اور دوسری مختصر کہانیاں
علی اکمل تصور
ڈاؤن لوڈ کریں
بد دعا
وہ چاروں اس وقت نہ ہی تو زمین پر تھے اور نہ ہی آسمان پر…
’خود کار‘ کار میں وہ کسی ’کار‘ کے نہیں رہے تھے۔ شیشے بند تھے۔ ہیٹر آن تھا، ایل سی ڈی پر نغمہ چل رہا تھا۔ ووفر سے اٹھنے والی آواز قیامت ڈھا رہی تھی۔ پینے کا دور بھی ساتھ ہی چل رہا تھا۔ مست ماحول میں وہ ہر فکر، ہر غم سے آزاد بس اڑے جا رہے تھے۔ ہو… ہا…ہا ہاہا…کی آوازیں کار کے اندر گونج رہی تھیں اور شیشے کی دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ رہی تھیں۔
”ایک تماشا دیکھو گے …؟“ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود نوجوان خمار بھری آواز میں بولا۔
”ضرور…ضرور…ضرور…!“اس کے ساتھی چلائے۔ دوسرے ہی لمحے کار لہرائی اور پھر ہوا ہو گئی۔ سڑک پر تماشا بن چکا تھا۔
وہ ایک غریب خوانچہ والا لڑکا تھا۔ سب برباد ہو چکا تھا… اس کے خوانچے میں موجود سموسے اور چنا چاٹ سڑک پر بکھرے پڑے تھے۔ وہ سر جھکائے رو رہا تھا۔ پھر اس نے سر اٹھایا، آسمان کی طرف دیکھا اور کانپتی آواز میں بولا،
”بیڑا غرق…!“ مجبوریوں نے غریب کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہوتے ہیں۔ مگر بددعا دینے کے لیے اس کی زبان آزاد ہوتی ہے …!
ایک خطرناک موڑ پر تیز رفتاری کے باعث کار کا ڈرائیور اپنا توازن کھو بیٹھا۔ کار پل کے جنگلے میں سے راستہ بناتے ہوئے کھائی میں جا گری اور پھر خوف ناک دھماکے سے پھٹ گئی۔
وہ چاروں اس وقت بھی… نہ تو زمین پر تھے اور نہ ہی آسمان پر… ایک غریب کی بددعا رنگ لائی تھی۔ بیڑا غرق ہو چکا تھا۔
٭٭
غدار
حادثہ جان لیوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہوئیں تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ زندگی میں اسے اتنا عزت و احترام نہیں ملا تھا جتنا اسے مرنے کے بعد مل رہا تھا۔ یہ بات ابلیس کو گوارا نہیں تھی۔ وہ تو پہلے ہی ابلیس سے ’غداری‘ کر چکا تھا، تب سے ابلیس کا دل جلتا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا مگر ہر بار رسوائی اس کا مقدر بنتی۔ اب بعد از موت اس کی پذیرائی دیکھ کر ’آگ‘ کو ’آگ‘ لگ رہی تھی۔ اب ابلیس نے اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا۔ سب سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک چیلے کی ترکیب ابلیس کو سب سے زیادہ پسند آئی۔ وہ خوش ہو کر بولا،
”اے اولادِ ابلیس…! کام پر لگ جاؤ اور اپنا مقصد حاصل کرو…!“ابلیس کی اولاد کام پر لگ گئی۔ اب اس ’غدار‘ کے ’نقش پا‘ کی تلاش ہو رہی تھی…پھر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر چرچا ہونے لگا…،
”وہ ’غدار‘ گانے گاتا تھا…!“
”وہ ’غدار‘ ڈانس کرتا تھا…!“
”وہ ’غدار‘ مخلوط محفلوں میں آتا جاتا تھا…!“ ابلیس اپنے چیلوں کے کام پر بہت خوش ہو رہا تھا۔ اسے پکا یقین تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ رات کا وقت تھا، مخلوقِ خدا کی رائے جاننے کے لیے وہ چپکے سے لوگوں کے گھروں میں داخل ہوا۔
”آفرین ہے اس پر…! جس نے زندگی کے ہر ’لطف‘ کو ٹھوکر مار دی…!“
”آفرین ہے اس پر…! جس نے جوانی میں توبہ کر لی…!“
”آفرین ہے اس پر…! جس نے دنیا کے مقابلے میں اپنے لیے آخرت کی سعادت کو پسند کیا…!“
مخلوقِ خدا کی رائے سن کر ابلیس کو صدمے سے ہی آگ لگ گئی۔ وہ چیختے چلاتے دسمبر کی دھند میں غائب ہو گیا…!
٭٭
فقیر
چیتھڑوں میں ملبوس وہ ایک آدمی… مقدر کا مارا…اپنوں کا ستایا…ہر طرف سے ٹھوکر کھایا… چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس نے ایک آواز سنی،
”اللہ اکبر…اللہ اکبر…!“ وہ رک گیا۔ سر اٹھا کر دیکھا، اسے پہاڑی ٹیلے پر ایک مسجد نظر آئی۔ اللہ بلا رہا تھا…! وہ اس بلاوے پر لبیک کہتا ہوا مسجد کی طرف چل پڑا۔ سو سیڑھیاں چڑھ کر وہ مسجد تک پہنچا۔ وضو کرتے مغرب کی جماعت نکل گئی۔ اس اکیلے نے ہی اللہ کے ساتھ لو لگا لی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ’اپنی‘ مسجد میں ایک ’فقیر‘ کی آمد ایک ’قابض‘ کو ناگوار گزری تھی۔ وہ گھور گھور کر اس فقیر کو دیکھ رہا تھا اور انتظار میں تھا کہ فقیر نماز مکمل کرے اور وہ اسے اس کی اوقات دکھائے۔ ادھر فقیر نے سلام پھیرا، ادھر قابض نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
”تمہاری یہ جرات… کہ اس حال میں مسجد میں آؤ…!“
”میں تو پاک اللہ کے پاس آیا ہوں …!“
”نکل باہر…!“ ’قابض‘ اسے گریبان سے پکڑ کر باہر لایا اور سیڑھیوں پر سے اسے دھکا دے دیا۔ اسی پر اکتفا نہ کی، اب وہ فقیر کے پیچھے آ رہا تھا۔ لڑھکتے ہوئے فقیر جہاں رک جاتا، وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اسے آگے بڑھا دیتا۔ سو سیڑھیوں کا سفر اس نے ٹھوکروں میں مکمل کیا۔ پہلی سیڑھی تک آتے آتے فقیر پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ قابض اس کے سینے پر پاؤں رکھے فاتحانہ انداز میں کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد فقیر کے حواس بحال ہوئے۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ اب اس نے ایک عجیب حرکت کی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے ’قابض‘ کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔
”کیا کر ہے ہو…؟؟؟“
”آپ نے اتنی مشقت کی، بہت ممکن ہے کہ آپ کی ٹانگیں دکھ رہی ہوں گی…!“ فقیر سسک کر بولا۔ ’قابض‘ کھڑے کھڑے ہی فنا ہو کر رہ گیا…!
٭٭
یقین
وہ میرے آگے چلا جا رہا تھا۔ مجھے گرد آلود راستے پر اس کے قدموں کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ بائیں جوتے کا تلوا نصف تھا، باقی پاؤں کا نشان انگلیوں کی مدد سے مکمل ہو رہا تھا۔ میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے زور کی چھینک آئی تھی۔ منہ صاف کرنے کے لیے میں نے اپنی جیب سے رو مال نکالا تو کسی نے مجھ سے کہا،
”یہ آپ کا ہے صاحب…؟“ میں چونک پڑا…! اس کے ہاتھ میں میرا پرس تھا جو رو مال نکالتے وقت میری جیب سے گر پڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اس کا شکریہ ادا کرتا وہ چل پڑا۔
وہ ایک طالب علم تھا میلے بوسیدہ کپڑے … کندھے پر بستہ…ہاتھ میں تختی…اس گاؤں میں چالیس سال پہلے کا تعلیمی نظام ابھی تک رائج تھا۔ وہ تعلیمی نظام جس نے آج تک مجھے دھوکا نہیں دیا تھا۔
جب میں اس کے سکول پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ ٹاٹ پر بیٹھا قلم، دوات کی مدد سے تختی لکھ رہا تھا۔ میں اس کے پاس اکڑوں بیٹھ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔
”تم نے میرا پرس واپس کیوں کیا جب کہ تمہیں نئے جوتوں کی بھی ضرورت ہے …؟“ میں اس سوال کا جواب لینے کے لیے اس کے پاس آیا تھا۔ وہ مسکرا کر بولا،
”مجھے الف…ب…پہ…یقین ہے صاحب!
٭٭
بچہ جمورا
تماشا دکھا کر دونوں تھک چکے تھے۔ ایک بول بول کر تھکا تھا تو دوسرا قلابازیاں کھا کھا کر اور نخرے دکھا دکھا کر تھکا تھا۔ ہجوم میں سے چند افراد نے ہی اسے نوازا، باقی مفت بر نکلے۔ پاس ہی آئس کریم کون والے کی دکان موجود تھی۔ بندر والے کا دل للچایا۔
”بچہ جمورا… آئس کریم کھائے گا…؟“
بندر کی کھی کھی سن کر وہ کون والے کے پاس آیا۔
”کون والے بھائی صاحب…!“
”کیا ہے …؟“
”دو کون دینا…!“
”دوسری کس کے لیے …؟“
”میرے بندر کے لیے …!“
”خود کھاؤ…اسے کیوں کھلاتے ہو…؟“
”اسے کیوں نہ کھلاؤں …؟“
”آئس کریم کون انسانوں کے لیے ہے، جانوروں کے لیے نہیں …!“
”اوپر اللہ تعالیٰ… اور… نیچے یہ بندر…اس کی وجہ سے تو میں کھاتا ہوں تو اسے کیوں نہ کھلاؤں …؟“
انسان کو چپ لگ گئی تھی…!
خوب صورت
”رکو…رکو…!“
”کیا ہوا…؟“
”شش…وہ دیکھو…!“
”ارے یہ کیا…؟“
”سانپ ہے اور کیا…!“
”چلو بھاگ چلتے ہیں …!“
”نہیں … نہیں … دیکھو تو سہی… کس قدر خوب صورت ہے۔ یوں جیسے قوس و قزح کے رنگ اس نے اپنا لیے ہوں … دل چاہ رہا ہے کہ بس دیکھتا ہی رہوں … اسے پکڑ لوں … اپنے ساتھ لے جاؤں … ہمیشہ اپنے پاس رکھوں …!“
”سمجھ گیا…!“
”کیا…؟“
”جب اجل کی آمد ہوتی ہے تو اس کا پیراہن ایسا ہی ہوتا ہے … خوب صورت…!“
”کیا مطلب…؟“
”کبھی کبھی موت کا احساس مرنے کے بعد ہوتا ہے …!“
٭٭
سزا
”ماہ نور…ہوم ورک..؟“
”میں نہیں کر پائی ٹیچر…!“
”یہ تو اچھی بات نہیں …!“
”کل میری طبیعت خراب تھی ٹیچر…“ماہ نور نے جھوٹ بولا.۔
”میں سب جانتا ہوں … روزانہ تمہاری طبیعت خراب ہوتی ہے مگر آج… آج تمہیں سزا ملے گی…!“ ٹیچر کا رویّہ دیکھ کر ماہ نور ڈر گئی۔ وہ ایک پیاری بچی تھی مگر ساتھ میں کاہل بھی تھی۔ اب ٹیچر نے تنگ آ کر اسے سزا دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
”تمہاری سزا یہ ہے کہ تمہیں اس غبارے میں ہوا بھرنا ہو گی…!“
ٹیچر کی طرف سے ملنے والی یہ سزا بہت پیاری تھی۔ ماہ نور تو خوش ہو گئی۔ اب اس نے غبارہ منہ کے ساتھ لگایا اور لگی زور لگانے … مگر غبارہ سخت تھا۔
”شاباش… تم یہ کام کر سکتی ہو…!“ ٹیچر نے حوصلہ افزائی کی۔
ماہ نور سوچ رہی تھی کہ کیا اس میں اتنا دم بھی نہیں ہے کہ وہ ایک معمولی غبارے میں ہوا بھر سکے۔ غصّے اور جوش کی ملی جلی کیفیت میں ماہ نور نے زور لگایا تو غبارہ پھولتا چلا گیا۔
”شاباش بیٹا شاباش…!“
”میں سمجھ گئی ٹیچر…!“
”کیا…؟“
”جو ہمت کرتا ہے … محنت کرتا ہے … وہ جیت جاتا ہے …!“
٭٭
انتظار
”او…ہو…یہ کیا ہوا..؟“
”کوئی خرابی لگتی ہے …“
”مجھے تو ڈر لگ رہا ہے …!“
”فکر مت کرو… دیکھتا ہوں …“
ایک نوبیاہتا جوڑا کار میں سفر کر رہا تھا۔ انہیں دوسرے شہر جانا تھا۔ شام سر پر تھی۔ ایسے میں کار کی ہیڈ لائٹس اچانک بجھ گئیں . اب راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ تھا۔ ذرا سی غلطی جان لیوا ہو سکتی تھی۔ شوہر نے کار روک لی تھی۔ اب وہ اپنی سی کوشش کر رہا تھا مگر خرابی اس کی سمجھ سے باہر تھی۔
”اب کیا کریں …؟“
”کچھ نہیں …!“
”کیا مطلب…؟“
”کچھ نہیں …!“
تھوڑا وقت گزرا اور پھر انہوں نے ایک دلفریب منظر دیکھا۔ چودھویں رات کا چاند پہاڑوں کے درمیان طلوع ہو رہا تھا۔ اب اندھیرا چھٹ چکا تھا۔ کار اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی… صبر اور انتظار کرنے والے ہمیشہ منزل پر پہنچ جاتے ہیں …!
٭٭
جوا
اس کے اٹھتے قدم رک گئے۔ سامنے چائے کا ایک ہوٹل تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہاں چائے کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے کرکٹ میچ پر جوا کھیلا جاتا ہے۔ نمبروں کی گیم میں کوئی ہار جاتا تھا تو کوئی جیت جاتا تھا۔ آج کوئی ہارا تھا۔ دوست اسے تسلی دے رہے تھے …،
”فکر مت کرو یار…اگلی بار جیت تمہاری ہو گی…!“
ہارنے والا تو چلا گیا…مگر… اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ اچانک ہی بوجھ بہت بھاری ہو گیا تھا۔ صبح اس کے بیٹے نے اکیڈمی فیس کے لیے پانچ ہزار روپے لیے تھے۔ کوئی کھیل کر ہارا تھا تو کوئی مزدوری کرتے ہار گیا تھا…!
٭٭
طاقت
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک خونخوار اژدھا اس لڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا… ایسے میں ایک بزرگ اس کی مدد کے لیے چلا آیا۔
”پیچھے ہٹ جاؤ لڑکی… یہ خوفناک اژدھا تمہیں نگل لے گا…!“
”نہیں بابا جی…! آپ لاٹھی کی مدد سے اس موذی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر ہاں …میرے پاس ایک ایسی طاقت موجود ہے کہ جس کی مدد سے میں اس ظالم کا مقابلہ کر سکتی ہوں …!“
”وہ کون سی طاقت ہے بیٹی…؟“
اس لڑکی کے پاس قلم کی طاقت موجود تھی۔ اس طاقت سے اس نے ’جہالت‘ کے ’اجگر‘ کو کچل کر رکھ دیا…!
٭٭
کالا جادو
”پریشان لگتے ہو بیٹا…!“
”کام نہیں ملتا ماں جی…!“
”مل جائے گا کام…فکر مت کرو…!“
”کیسے نہ کروں …؟آج جاؤں گا کسی عامل کے پاس…اب تو کالے جادو سے ہی مدد ملے گی…!“
”توبہ کر بیٹا توبہ…کافر ہو کر مرنا ہے کیا…؟“
وہ لاکھوں غریب لوگوں میں سے ایک تھا۔ کام مل جائے تو تخت… نہ ملے تو تختہ…!
وہ رنگ و روغن کے کام کا ماہر تھا مگر اس کی اپنی زندگی رنگوں سے خالی تھی۔ صبح ہوتے ہی وہ شہر کے مصروف ترین چورا ہے پر آ بیٹھتا۔ یہاں اس جیسے جانے کتنے ہی روز گار کی تلاش میں آتے۔ ہر کوئی اپنے اپنے کام کا ماہر تھا مگر روزی تو اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔ سب انتظار میں رہتے۔ امید بھری نظروں سے ہر آنے والے کو دیکھتے۔ کوئی پیدل آتا، کوئی موٹر سائیکل پر تو کوئی کار پر…تمام مزدور اور کاریگر اس کی طرف لپکتے۔ معاملات طے ہوتے اور پھر کسی ایک کے مقدر کا تالا کھل جاتا۔ چھٹی والا دن سب کے لیے مبارک ثابت ہوتا۔ اس دن سب کو کام مل جاتا تھا.۔ چھٹی ہونے کی وجہ سے اس ایک دن میں لوگ اپنے ادھورے کام مکمل کروانا پسند کرتے تھے۔ کسی کو پلمبر کی ضرورت ہوتی تو کسی کو مستری اور مزدور کی۔
آج بھی چھٹی کا دن تھا۔ اس کے تمام ساتھی کام پر جا چکے تھے۔ عجیب بات تھی، بس ایک وہی رہ گیا تھا جسے کام نہیں ملا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر پریشانی کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا اور سر جھکائے کچھ سوچ رہا تھا۔
”اگر آج کام نہ ملا تو کیا ہو گا…!“بس اس سوچ کے آگے وہ کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں تھا۔ ایسے میں ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی،
”ابو جی…ابو جی…!“وہ چونک پڑا۔ یہ اس کی بیٹی کی آواز تھی۔
”منی…!تم یہاں کس کے ساتھ آئی ہو…؟“وہ حیرت سے بولا۔
”امی کے ساتھ… ابو جی…! امی نے مجھے نئے کپڑے لے کر دیے ہیں۔ میں آپ کو دکھانے آئی ہوں۔ دیکھیں تو کتنے پیارے ہیں ..!“منی بہت خوش تھی جب کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جو اس نے منی سے چھپا لئے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کپڑے کہاں سے آئے ہیں۔ چھٹی والے دن لنڈا بازار بھی تو لگتا تھا۔
”ارے …ہماری شہزادی کا اسکارف کتنا پیارا ہے …!“ ابو کے منہ سے تعریف سن کر منی تو خوشی سے نہال ہو گئی۔ ابو نے اسے پیشانی پر بوسہ دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک گاڑی سڑک پر آ کر رک گئی۔
”کام کرو گے …؟“
”جی صاحب…!“
”چلو ہمارے ساتھ…!“ گاڑی کا دروازہ کھل گیا۔ اس نے منی کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھ گیا، منی اپنے ساتھ رحمت کا فرشتہ لے کر آئی تھی۔ منی امی کے ساتھ گھر واپس لوٹ گئی اور وہ کام پر چلا گیا…
اگلے دن کام پر جانے سے پہلے وہ منی کے پاس آیا۔ منی سو رہی تھی۔ وہ منی پر جھکا، پیشانی پر بوسہ دیا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ اسے ”کالا جادو“ مل چکا تھا…!
٭٭
ایثار
وہ دونوں اس دنیا میں اکیلے تھے۔ نہ کوئی اپنا… نہ کوئی بیگانہ…! ایک رات سیلاب آیا تھا۔ پانی کا ریلا اپنے ساتھ ان کے سارے سہارے بہا کر لے گیا۔ اب وہ تھے … اور بے رحم دنیا تھی۔ منفی رویّوں نے اسے بھی بے رحم بنا دیا تھا۔ ایک استاد نے اسے روپے کمانے کا ہنر سکھا دیا تھا۔ ہنر وہ نہیں تھا، جو نظر آتا تھا۔ ہنر وہ تھا، جو نظر نہیں آتا تھا۔ اب وہ پان والا بن چکا تھا اور ساتھ ہی چونا لگانے کا ماہر بھی۔
اس دن بھی وہ اپنے گلے میں پان کی دکان لٹکائے گاہک کی تلاش میں تھا۔ اس کی دودھ پیتی بہن اس کے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی۔ گرنے سے بچانے کے لیے اس نے بہن کو کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ دکان داری کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بہن کو بھی سنبھالتا تھا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر ایک آدمی کا دل پسیج گیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی موجود تھی۔
”ہمیں اس با ہمت بچے کی مدد کرنی چاہیے …“
”ہاں …!مگر یہ محنت کر کے کمانے والا بچہ ہے، بھیک قبول نہیں کرے گا…!“
”سچ کہتی ہو…! پان کھانے کے بہانے اس کی مدد کر دیتے ہیں …“ وہ اس پان والے بچے کے پیچھے چل پڑے۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا۔ بچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پان والے لڑکے نے اپنی دکان نیچے رکھ د ی اور بچی کو بہلانے کی کوشش کرنے لگا مگر بچی تو بس روئے جا رہی تھی۔
”کیا ہوا…؟“ وہ آدمی اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
”معلوم نہیں صاحب جی…!“
”میرے لیے میٹھا پان لگاؤ، میں اسے چپ کراتا ہوں …“ اس نے بچی گود میں اٹھا لی مگر بچی تو کسی طور بہل ہی نہیں رہی تھی۔ اب بچی اس آدمی کی بیوی نے اٹھا لی۔ وہ لڑکا جلدی جلدی پان لگانے لگا۔ پھر اس نے نشیلا قوام پان پر ڈال دیا۔ یہی وہ ہنر تھا جو اس نے اپنے استاد سے سیکھا تھا۔ نشیلا پان منہ میں رکھتے ہی کھانے والے کی طبیعت خراب ہونے لگتی تھی۔ وہ قے کے لیے جھکتا تو یہ جیب پر ہاتھ صاف کر کے نکل جاتا۔ اب اس نے پان لپیٹ لیا تھا کہ اچانک ہی وہ چونک پڑا۔ بچی رو نہیں رہی تھی۔ اس نے سر گھما کر دیکھا۔ اس کی منی بہن کو اس آدمی کی بیوی نے اپنے آنچل میں چھپا رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر ممتا کا نور تھا۔
”بھوکے کی بھوک مٹانا بھی نیکی ہے۔‘‘ وہ آدمی مسکرایا۔ پان والے کے ہاتھ میں پان دبے کا دبا رہ گیا۔ ممتا کے ایثار کے آگے ایک لٹیرا خود لٹ چکا تھا۔
٭٭
مسافر
وہ لڑکپن کے دن تھے، ہر کام میں تیزی… ہر کام میں جوش…یوم آزادی تو بہت دھوم سے مناتے تھے۔ گھر کی چھت پر سبز ہلالی پرچم اور آنگن میں جھنڈیاں … اس کے بعد ہم ہوتے اور ٹیلی ویژن ہوتا…۔ ایک ٹی وی اور بیسیوں افراد دیکھنے والے … وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ تبدیلی کا دور تھا۔ گھر بھر کے افراد نور جہاں کے ملی نغمے شوق سے سنتے تھے۔ ”اے پتر ہٹاں تے نہیں و کدے …“سن کر رو پڑتے۔ عنایت حسین بھٹی کا ”دھڑ رگڑا…“سن کر ہنس پڑتے۔ ایسے ماحول میں ایک ملی نغمہ آن ائیر ہوا،
”ایسی زمین اور آسمان…اس کے سوا جانا کہاں …“دیکھنے والے حیرت سے بول پڑے،
”ارے یہ لونڈے لپاڑے کہاں سے آ گئے …“ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملی نغمہ ہٹ ہو گیا۔ موسیقی کی دنیا کو ایک نیا گلوکار ملا۔ وہ آیا…اس نے دیکھا… اس نے فتح کر لیا۔
پھر یوں ہوا کہ کعبہ کو مل گئے پاسبان صنم خانے سے۔
شیطان نے اسے کسی اور کام کے لیے تیار کیا تھا، پاک اللہ نے اسے کسی اور کام کے لیے تیار کر لیا۔
آج خبر ملی کہ ’مسافر‘ رخصت ہوا۔ کسی نے کہا،
”اللہ جنت کی طرف اس کا سفر آسان فرمائے …!“ میں چیخ اٹھا،
”وہ تو دنیا میں ہی دوزخ سے جنت تک کا سفر طے کر چکا تھا…!“
لاجواب کے پاس کوئی جواب نہ تھا…! ٭٭
گناہ گار
بہت سے ’انسانوں ‘ نے مل کر گول دائرہ بنا رکھا تھا اور دائرے کے بیچ و بیچ ایک ’آدمی‘ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ دائرے میں شامل ہر ’انسان‘ کے ہاتھ میں ایک پتھر تھا اور چہرے پر نفرت…’انسان‘ ہوتے ہوئے بھی وہ ’انسان‘ لگ نہیں رہے تھے۔ ’انسانیت‘ تو جیسے اپنے ضمیر کے ساتھ ہی انھوں نے کہیں دفن کر دی تھی… پھر ہاتھ سے پہلے ان سب کی زبان حرکت میں آئی،
”بد کردار ہے یہ…!“
”موقع پرست ہے یہ…!“
”منافق ہے یہ…!“
”شریعت کا منکر ہے یہ…!“
”گستاخ ہے یہ…!“
”موت ہے اس کی سزا…!“
”دوزخی ہے یہ…!“
”مارو…!“
اس سے پہلے کہ پتھر اٹھائے ان کے ہاتھ فضا میں بلند ہوتے …ایک آواز آئی،
”ہاں …ہاں …گناہ گار ہے یہ…! مگر پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی کوئی گناہ نا کیا ہو…!“
اک پل میں ’انسانوں ‘ کا دائرہ غائب ہو گیا مگر ہاں … وہ ’آدمی‘ سر اٹھائے کھڑا تھا…!
نہ جانے کیوں … مجھے ’جنید جمشید‘ یاد آ گیا…!
٭٭
ماں
ان دونوں بہنوں کی ماں مر چکی تھی۔ قحط سالی کی وجہ سے پانی کی قلت تھی۔ چھوٹی بہن کو پیاس ستا رہی تھی۔ اسے روتا دیکھ کر بڑی بہن پانی کی تلاش میں نکلی۔ خود نہیں پیا اس کے لیے لے کر آئی۔ چھوٹی بہن پانی پی رہی تھی… بڑی بہن بولی:
”پیو…پیو…ماں تو میری مری ہے، تمہاری ماں تو زندہ ہے …!“
٭٭
حلال
”کیا ہوا بہن…؟“
”کیا بتاؤں …! دانہ دنکا چن رہی تھی کہ ایک انسان نے مجھے پکڑ لیا اور میری ٹانگ ہی کاٹ لی…!“
”شکر کرو بہن، تمہاری جان بچ گئی…! یہاں تو بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے … انسان تو حرام کھانے سے بھی نہیں گھبراتا… تم تو پھر حلال ہو…!“
٭٭
اپنے جیسا
”کہاں جا رہے ہو..؟“
”مجھے حکم ملا ہے …ایک انسان کی نشاندہی کی گئی ہے … مجھے اس کے وجود میں سرایت کرنا ہے …اور پھر خوب ہنگامہ برپا کرنا ہے …“
وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی۔ وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔
”اتنی جلدی واپس لوٹ آئے ..؟“
”ہاں …اس انسان کے وجود میں سرایت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی…“
”کیوں …؟“
”اس انسان کے گھر میں قرآن موجود تھا…!“
”پھر…؟“
”قرآن کے غلاف پر دھول کی تہہ جمی ہوئی تھی…“
”پھر…؟“
”وہ انسان تو اپنے جیسا ہی ہے، پھر اسے کیوں تنگ کریں …!“
جانے والے
”کیا ہوا ماں جی…؟“
”میرا بچہ چلا گیا…!“
”کہاں …؟“
”اپنے ابو کے پاس…!“
”اس کا ابو کہاں ہے …؟“
”اللہ کے پاس…!“
”یہ بچہ کون تھا…؟“
”میرا پوتا تھا…!“
”اللہ آپ کو صبر دے …!“
”صبر نہیں ہوتا بیٹا…میں بھی ان کے پاس جانا چاہتی ہوں …!“
میں پیچھے ہٹ گیا… کیسے کہتا کہ آپ تو بہت پہلے ہی جا چکی ہیں …!
٭٭
کاسہ
اشارہ بند تھا، وہ سگنل پر رک گیا۔ چند افراد اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ اس کا مذاق اڑانے لگے۔ دیکھنے میں عجیب لگتا تھا۔ کندھے پر سکول بیگ اور بازوؤں کے درمیان پاپڑوں کے بہت سے پیکٹ…اب وہ جوش سے بولا،
”اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے …؟میرے ابو اللہ کو پیارے ہو گئے … میری امی محلے میں دکان چلاتی ہے …ہم محنت کر کے کھاتے ہیں …“
مذاق اڑانے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اچانک دھڑام کی آواز آئی۔ پاس کھڑے ایک جوان بھکاری نے نہ جانے کیوں اپنا کاسہ توڑ دیا تھا…!
٭٭
ظالم لوگ
”مجھے بہت غصہ آ رہا ہے …!“
”غصہ تو مجھے بھی آ رہا ہے …!“
”دل چاہتا ہے کہ کاٹ لوں …اتنے ظالم لوگ…ہمارے حصے کا رزق بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں …!“
دو مسکین بچے غلاظت کے ڈھیر میں کچھ کھانے کے لیے تلاش کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر کتوں کو غصہ آ رہا تھا۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ’کتے‘ تو کہیں اور بیٹھے ان کے مقدر کا رزق ہڑپ کر چکے تھے۔
٭٭
کھلونا
اتنے دن ہو گئے، امی سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے کھلونا دلا دیں مگر وہ تو بات ہی نہیں سنتی۔ مجھے انگلی سے لگائے سارا دن لوگوں کے گھروں میں آتی جاتی رہتی ہے۔ اپنے گھر کی تو صفائی نہیں کرتی مگر لوگوں کے گھروں میں صفائی بھی کرتی ہے اور برتن بھی دھوتی ہے۔ ابو ہوتے تو کھلونا دلا دیتے مگر امی کہتی ہے کہ وہ آسمان پر ستارہ بن چکے ہیں۔ اب اپنے لیے مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ مجھے کھلونا کار بہت پسند ہے …! کھلونا تو میں نے ڈھونڈ لیا ہے، اب سوچ رہا ہوں کہ گھر کیسے لے کر جاؤں …!
٭٭
امن
جشن بہاراں کے اس میلے میں بچوں کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی تھی۔ یہ بچے میری امیدوں کا محور تھے۔ میں ان بچوں کے ساتھ ساتھ تھا۔ اب یہ بچے کھلونوں کے ایک سٹال پر آ کھڑے ہوئے۔
یہاں ہر قسم کے کھلونے موجود تھے۔ چابی والے … لیور والے … بیٹری سیل وا لے … تمام بچے اب اپنے لیے کھلونے پسند کر رہے تھے اور میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ بچے اپنے لیے کون سا کھلونا پسند کریں گے ..! پھر میرا دل ٹوٹ کر رہ گیا! تمام بچوں نے اپنے لیے اسلحہ پسند کیا تھا۔ ان میں کھلونا پستول اور بندوقیں تھیں۔ میرے دل کی کھلتی کلی مرجھا کر رہ گئی۔ مجھے چپ لگ گئی تھی۔ گھر واپسی پر یہ بچے جوش میں تھے۔
”اب ہم جنگ، جنگ کھیلیں گے …!“
”میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں … گولی مار دوں گا…!“
وہ خوش گپیوں میں لگے تھے اور میں نے منہ چھپا لیا تھا۔ میں کھیل کھیل میں بھی بچوں کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر میری پروا کسے تھی۔ گھر پہنچ کر انہوں نے اپنا کھیل کھیلا۔ الیکٹرانک کھلونا پستولوں اور بندوقوں سے روشنیاں نکل رہیں تھیں۔ ٹھاہ…ٹھاہ…دھائیں …دھائیں …تڑ…تڑ…تڑ…میں نے تو اپنے کان بند کر لیے۔
رات کو یہ سب بچے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے ایک ایکشن فلم دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ راکٹ لانچر کی دھائیں دھائیں …مردہ اجسام…کٹی پھٹی لاشیں …بچے تو سہم کر رہ گئے۔ فلم ادھوری چھوڑ کر وہ ایک کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ میں سوگواری کے عالم میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”دیکھا تم نے …؟“
”ہاں …!“
”گولی مارنے سے انسان مر جاتا ہے …؟“
”ہاں …!“
”مرنا اچھی بات نہیں ہے …؟“
”ہاں …!“
”گولی چلانے والے گندے لوگ ہوتے ہیں …؟“
”ہاں …!“
”اب کیا کرنا چاہیے …؟“
وہ سب سوچنے لگے … میں اشتیاق سے ان کی طرف دیکھنے لگا ”یا اللہ…! ان کی سوچ میری سوچ کے مطابق ہو!“ میں نے دعا مانگی۔ پھر میں نے دیکھا۔ ان بچوں نے ’اسلحہ‘ اٹھایا اور دور کھائی میں پھینک دیا۔ میں خوشی سے کھل اٹھا۔ انہوں نے میرا انتخاب کیا تھا۔ اس عمر میں اگر ان کی سوچ کا یہ عالم تھا تو میں امید رکھ سکتا تھا کہ بڑے ہو کر بھی وہ یقیناً مجھے اپنے لیے پسند کریں گے۔ پھر میری حکومت ہو گی، امن کی حکومت ہو گی۔
٭٭
کچرا
”یہ میری زندگی کا تجربہ ہے بیٹا…کبھی کبھی کچرا سونا اگلتا ہے …!“
اس کا باپ ٹی بی کا مریض تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی۔ وہ خود تو کچرا اٹھاتا ہی تھا، اب اس کا بیٹا بھی کچرا اٹھانے لگا۔ اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے وہ کچرے میں ہاتھ ضرور مارتا تھا کہ شاید کوئی کام کی چیز ہاتھ لگ جائے۔ مگر ابھی تک کچرے نے سونا نہیں اگلا تھا۔
ایک دن کچرے کی تلاش میں وہ ایک پاپوش علاقے میں داخل ہوا۔ یہاں ایک دروازے کے پاس اسے کچرے سے بھرا شاپر ملا۔ اس شاپر میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں اور دوسرا کچرا موجود تھا۔ اب جو اس نے دیکھا تو کچرے میں بہت سے کرنسی نوٹ موجود تھے۔ وہ اسی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اس نے کرنسی نوٹ گننے کی کوشش کی مگر اسے تو گنتی ہی نہیں آتی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کتنے ہوں گے …!
اتنے میں اس نے کسی لڑکی کے چیخنے کی آواز سنی۔ کوئی اس پر چلا رہا تھا،
”چور… چور ہو تم…تم نے میری جیب میں سے پچاس ہزار روپے نکال لیے ہیں۔۔ کہاں ہیں روپے …؟“
”میں نے چوری نہیں کی صاحب… میں تو بس گھر کی صفائی کرتی ہوں …!“
”صفائی… تم نے تو صفایا کیا ہے … میں تمہیں پولیس کے حوالے کروں گا…!“
پھر دھڑاکے سے دروازہ کھلا۔ کچرا اٹھانے والے لڑکے نے دیکھا، ایک خوش لباس آدمی نے گھر میں کام کرنے والی ایک غریب لڑکی کو دبوچ رکھا تھا۔
”چلو پولیس اسٹیشن…“ وہ لڑکی رو ہی تھی، تڑپ رہی تھی اور فریاد کر رہی تھی… جانے اس کچرا اٹھانے والے لڑکے کے دل میں کیا آئی۔
”یہ لو صاحب… آپ کا کچرا…“اس نے کرنسی نوٹ اس آدمی کی طرف بڑھا دیے۔ وہ لڑکی شکر گزار نظروں سے کچرا اٹھانے والے لڑکے کی طرف دیکھنے لگی۔ اب وہ اس گھر میں کام کرنا نہیں چاہتی تھی۔ کچرا اٹھانے والا لڑکا اور کام کرنے والی لڑکی وہاں سے چلے گئے۔ وہ آدمی گھر میں داخل ہوا۔ وہ بہت مسرور تھا۔ ہاتھ سے گئی رقم واپس لوٹ آئی تھی۔ اس نے یہ رقم ایک طرف رکھے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال دی۔ اب وہ اپنی بیوی سے بات کر رہا تھا،
”کمینے لوگ…آپس میں ملے ہوے ہیں …“ اتنے میں اس نے ایک منظر دیکھا۔ اس کا نوعمر بچہ کوٹ کے پاس آیا، اس نے کوٹ کی جیب میں سے رقم نکالی اور کوڑے دان میں ڈال دی۔ کچرا پھر سے کچرے کا حصہ بن چکا تھا…!
٭٭
احساس
گاؤں میں دہشت گرد موجود تھے …مخبر کی اس اطلاع پر فوراً کار روائی کی گئی۔ فوج کے ایک یونٹ نے گاؤں کا محاصرہ کر لیا۔ اب گھر گھر تلاشی کا عمل شروع ہوا۔ اس یونٹ میں ایک جوشیلا فوجی موجود تھا۔ اس نے ایک گھر کے دروازے پر لات ماری اور گھر کے اندر گھس گیا۔ سامنے ایک عورت کھڑی تھی۔ آتشی اسلحے سے لیس اس فوجی کو دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔ اسے چکر آیا، وہ تیورا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ ماں کی مدد کے لیے اس کا نوعمر بچہ دوڑ کر آیا۔ وہ باورچی خانے سے ایک چمچ اٹھا لایا تھا۔ اب وہ فوجی کے سامنے ڈٹ گیا۔
”کوئی ملا…؟“ فوجی نے اپنے کمانڈر کی آواز سنی۔
”ہاں …!ایک دہشت گرد موجود ہے سر…!“
”کیا اس کے پاس ہتھیار ہے …؟“
”ہاں …! ہتھیار موجود ہے سر…!“
”تو پھر اڑا دو اسے …!“
”اس کا ہتھیار زیادہ مہلک ہے سر…!“
نہ جانے کیوں وہ جوشیلا فوجی سسک کر رہ گیا…!
یہاں تک لکھنے کے بعد میں رک گیا۔ میرے اندر کے ادیب نے میرے اندر کے حقیقت پسند انسان سے پوچھا،
”کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک فوجی میں ایسا احساس موجود ہو…؟“ میرے اندر کا حقیقت پسند انسان مسکرا کر بولا:
”احمق آدمی اگر احساس موجود ہو تو جنگیں ہوں ہی کیوں …!“
میں لاجواب ہو کر رہ گیا…!
٭٭
سوال
میں پیدائشی مسلمان تھا۔ مذہب مجھے وراثت میں ملا تھا، تحقیق کرنا میرا حق تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد میں تحقیق کرنے نکلا اور الجھ کر رہ گیا۔ ہر عالم سے مجھے مذہب کا تعارف دوسرے سے الگ ملتا۔ کوئی عمل پر تھا تو کوئی فرمان پر تھا…کوئی خوش ہونے والا تھا تو کوئی رونے والا تھا…ہر کوئی کتاب و سنت سے اپنے مطلب کی دلیل ڈھونڈ لاتا تھا…
پیارے نبیﷺ کے میلاد کے حوالے سے بھی اختلاف دیکھا۔ سنت والوں کا کہنا تھا کہ وہ ”یا“ ہیں، اس لیے ہم تو خوشی منائیں گے۔ حدیث والوں کا کہنا تھا کہ اصحاب رسولﷺ نے خوشی نہیں منائی تو ہم کیوں منائیں …!
میں نے الجھن میں اپنی ساری زندگی گزاری اور پھر مرنے کے بعد مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا۔
میں نے زندگی میں بہت دولت کمائی۔ سب کچھ تھا میرے پاس… دولت کے علاوہ زرعی اراضی… پلازہ اور بہت سے مکانات… میں بستر مرگ پر تھا، میری اولاد جائیداد کی تقسیم کے لئے میرے پاس آئی۔ میرا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ اس غم میں مرنا میرے لیے آسان ہو گیا۔ میرا جنازہ ابھی گھر میں تھا اور میری اولاد ’یہ تیرا، وہ میرا‘ کے حصول کے لیے لڑ رہے تھے۔ غم ان لوگوں کو تھا… زندگی مِیں، مَیں جن کے کام آیا تھا۔ یہی تھے وہ جو میری ’نجات‘ کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے، ذکر اذکار میں لگے ہوئے تھے۔ میں جانتا تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ مجھے یاد رکھیں گے …۔
پھر مجھے دفن کر دیا گیا۔ اب میں اکیلا تھا، تنہا تھا۔ پھر روشنی کی لہر میری قبر میں اتری، نورانی فرشتے آ پہنچے تھے۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا،
”من ربّک…من رسولک…من دینک…!“
”تیرا رب کون ہے …؟“
”اللہ…!“
”تیرا رسول کون ہے …؟“
”محمدﷺ …!“
”تیرا دین کیا ہے …؟“
”اسلام…!“
میرے چاروں طرف روشنی پھیل گئی… میری نجات ہو چکی تھی۔ مجھے میرے سوالوں کا جواب مل چکا تھا مگر اب ایک سوال مجھے پھر سے پریشان کر رہا تھا۔ مجھ سے میرے ’فرقہ‘ کے متعلق سوال تو کیا ہی نہیں گیا تھا…!
٭٭
بہن، بھائی
وہ بہت خوش تھا۔ اس کے گھر ننھی منی بہن آئی تھی۔ وہ پہروں بیٹھا اپنی بہن کی طرف دیکھتا رہتا۔ ابھی وہ بس چار دن کی ہی تھی مگر بھائی کے دل میں بہن کے لیے پیار ماہ و سال کی قید سے آزاد تھا۔ ان دونوں بہن بھائی میں ایک فرق تھا، بھائی یتیم پیدا نہیں ہوا تھا مگر بہن یتیم پیدا ہوئی تھی..!
ان کے ابو ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے تھے۔ اب ان کی کل کائنات ان کی امّی تھی مگر اب بہن کے آنے کے بعد امی بستر سے لگ گئی تھی۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ امی اٹھتی کیوں نہیں …!سب اپنے بیگانے ان سے منہ موڑ چکے تھے۔ بہن کو گھر میں آئے آج پانچواں دن تھا۔ اس نے امی کو پریشان دیکھا۔
”کیا بات ہے امّی…؟“
”تمہاری بہنا کو تیز بخار ہے …!“
”میں ابھی اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں …!“اس نے بہن کو گود میں اٹھا لیا۔ امی اسے پکارتی رہ گئی مگر وہ ہوا ہو گیا۔ وہ اپنی بہن کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ قریب ہی ڈاکٹر کا کلینک تھا۔
”ڈاکٹر صاحب…میری بہنا کو بخار ہے …دوائی دے دیں …!“
”سو روپیہ ہے تمہارے پاس…؟“
”نہیں تو…!“
”پہلے سو روپے لے کر آؤ…پھر دوا دوں گا…!“وہ کلینک سے باہر نکل آیا۔ اس کی جیب خالی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ امّی کے پاس بھی کسی رنگ کا نوٹ موجود نہیں ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ وہ کرے تو کیا کرے …!
اس نے دیکھا، قریب ہی ایک بھکاری اوندھے منہ لیٹا بھیک مانگ رہا تھا۔ ترکیب اچھی تھی، وہ بہن کو اپنی گود میں لے کر بیٹھ گیا اور اس نے اپنا ننھا سا ہاتھ پھیلا دیا۔ اب اس کی ہتھیلی پر سکے گرنے لگے۔
اس سے پہلے کہ سو روپیہ پورا ہوتا…بہنا کو دوا کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی…!
٭٭
بزرگی
وہ ایک بزرگ تھا۔ عمل صالح ہوں تو پاک اللہ جوانی میں بھی بزرگی عطا کر دیتا ہے مگر وہ ایک بزرگ تھا۔ اس نے بہت اچھی زندگی گزاری تھی۔ اپنے محکمے کی وہ شان تھا۔ اب وہ ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہا تھالیکن اس کا محکمہ جب بھی کسی مشکل کا شکار ہوتا یا پھر لیبر کی بھرتی ہوتی تو اس کی خدمات ضرور حاصل کی جاتیں۔ وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا، اس کے محکمے میں ملازمت کے لیے ایک کرسی خالی تھی اور اس کے ذمہ جائز حق دار تک اس کا حق پہچانا تھا۔ اس نے ایک ہونہار نوجوان کا انتخاب کر لیا تھا مگر ایک نوجوان کا انٹرویو ابھی باقی تھا۔ اجازت ملنے پر وہ نوجوان اعتماد کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور اپنی فائل اس بزرگ کے سامنے رکھ دی۔ بزرگ نے پہلا صفحہ پلٹا تو اسے ایک سفارشی خط نظر آیا۔
”سر…! آپ ان سے بات کر لیں …!“
”کرتا ہوں …!“ بزرگ نے نمبر ملایا، دوسری طرف ایک بڑا آدمی موجود تھا۔ اس کی بات سننے کے بعد بزرگ بولا،
”ملک و ملت کو ہونہار نوجوانوں کی ضرورت ہے … سالوں کی نہیں …!“ سفارشی ٹھس ’کارتوس‘ کی مانند ’بندوق‘ سے باہر نکل گیا۔ واپسی پر وہ بزرگ مطمئن تھا۔ اس نے حق دار تک اس کا حق پہنچا دیا تھا۔ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا، اس کا ایک سالہ پوتا چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ گر پڑے، اس بزرگ نے لپک کر اپنے پوتے کے ہاتھ تھام لیے۔ یہ منظر دیکھ کر اس کی بہو بولی:
”ابا جی…! آپ آرام کریں، خود ہی چلنا سیکھ لے گا…!“
”میں چلاؤں گا تو راستے پر رہے گا، خود چلے گا تو راستے میں گم ہو جائے گا…!“
بہو کندھے اچکا کر رہ گئی۔ بزرگ کی بات اس کی سمجھ سے باہر تھی…!
٭٭
مالک
”چل بیٹا…!روزی کمانے چلتے ہیں۔‘‘
اپنے مالک کی آواز سن کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مالک نے اسے دلہن کی طرح سجایا۔ اس نے سر جھکا رکھا تھا۔ پھر مالک اس کی مہار پکڑے گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ سر جھکائے پیچھے چل رہا تھا مگر جیسے جیسے وہ ساحل سمندر کے قریب پہنچ رہا تھا، ایک خوف اس کے اعصاب پر چھا رہا تھا…مگر وہ اپنے مالک سے اس بات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اپنے مالک کی رضا میں راضی تھا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ ساحل سمندر پر میلے کا سا سماں تھا۔ اسے دیکھتے ہی بچوں کا دل مچلنے لگا۔
”ابو جی…ہم اونٹ کی سواری کریں گے …!“ بچوں کی خوشی میں والدین کی خوشی تھی۔ مالک بھی خوش ہو رہا تھا۔ آج اچھی دیہاڑی لگنے کی امید تھی۔ بچوں کا ایک گروپ اونٹ پر سوار ہو گیا۔ مالک مہار پکڑے آگے چل پڑا، وہ سر جھکائے پیچھے آ رہا تھا۔ سمندر کی لہریں اس کے قدم چوم رہی تھیں مگر یہ پیار اسے پسند نہیں تھا۔ وہ گیلی ریت پر چلا جا رہا تھا…اس کا یہ سفر سارا دن جاری رہا۔ مالک کی جیب پیسوں سے بھر گئی، اس کا دل شکوے سے بھر گیا۔
رات کو واپسی ہوئی۔ اب بھی وہ سر جھکائے چل رہا تھا۔ گھر پہنچ کر مالک نے اس کے جسم پر سے سجاوٹ کا سامان اتار لیا۔ وہ اب بھی سر جھکائے کھڑا تھا، پھر مالک اس کی گردن سہلاتے ہوئے بولا:
”بیٹھ جا بیٹا…!“
وہ بیٹھ گیا۔ اب مالک اس کے کھروں پر دوا لگا رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں بیٹا…!تو ریگستان کی تپتی ریت پر چلنے کا عادی ہے اور میں تمہیں گیلی ریت پر چلاتا ہوں۔ کیا کروں …! روزی روٹی کا معاملہ ہے …!“
یہ بات سن کر اس کا دل سلگ کر رہ گیا، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا مالک اس کی بات سمجھ نہیں پائے گا مگر پھر بھی وہ بولا:
”مالک…! آپ روزی روٹی کے لیے کر رہے ہیں مگر میں وفاداری میں کر رہا ہوں۔ کیا آپ بھی اپنے مالک کے اتنے ہی وفادار ہیں، جتنا میں اپنے مالک کا وفا دار ہوں …؟“
اس کا اندازہ درست تھا۔ اس کا مالک واقعی اس کی بات سمجھ نہیں پایا تھا…!
٭٭
آہ ۔۔ درد مند
آج دکھ اس کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بہت سے افراد اس کے سامنے کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے۔
”میں پوچھتا ہوں کہ کیا قصور تھا ان کا…؟ آخر قصور تھا ہی کیا ان کا…؟ وہ تو تعلیم حاصل کرنے گئے تھے۔ جنگ لڑنے تو نہیں گئے تھے نا…! بچوں کے سامنے تو ہم مرغی بھی ذبح نہیں کرتے اور وہاں …وہاں بچوں کے سامنے بچے ذبح کیے گئے …!نام پوچھ پوچھ کر ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں …! اتنا پانی تو فرش دھونے پر بھی نہیں لگتا، جتنا اس دن وہاں خون بہہ گیا تھا…! کون تھے وہ بچے …؟ وہ میرے بچے تھے …! وہ آپ کے بچے تھے …! وہ اس قوم کے بچے تھے …! کیا اس نقصان کا مداوا ہو سکتا ہے …ہو سکتا ہے مداوا…؟“
اس کی باتیں سن کر بہت سی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ چند ایک تو سسک بھی پڑے تھے۔ مجھے اس کی باتیں سن کر ایک انجان سی خوشی کا احساس ہوا، پھر وہ چل پڑا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی بیوی نے اسے سبزی لانے کے لیے کہا تھا۔ وہ ایک سبزی فروش کے پاس رک گیا۔
”دو کلو پیاز…ایک کلو ٹماٹر…!“ ایسے میں اس نے ایک آواز سنی،
”صاحب جی…! اپنے بچوں کے لیے بسکٹ، چاکلیٹ بھی لے لیجئے نا…!“
اس نے دیکھا، ہاتھ میں ٹوکری اٹھائے ایک بچہ امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا…
”دور ہٹ…ضرورت نہیں ہے …!“ اس نے پھیری لگانے والے اس بچے کو جھڑک دیا۔ اس بچے میں اسے اپنا…کسی دوسرے کا…یا پھر قوم کا بچہ نظر ہی نہیں آیا تھا…!
میں اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک بچے کی روح ہوں۔ آج مجھے اجازت دی گئی تھی۔ میں انسانوں کے درمیان موجود تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ بھی بس باتیں کرنے والا ’درد مند‘ ہے۔ اسے بہت کچھ یاد تھا، مگر شاید کچھ بھی یاد نہیں تھا…!
٭٭
فنا
منّا رو رہا تھا… زار و زار رو رہا تھا… امّی نے لاکھ جتن کیے۔ بھائی، بہنوں نے بھی بہلانے کی کوشش کی مگر منّا کسی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ وہ کسی ضد کی تکمیل کے لیے رو رہا تھا مگر اس معصوم کی بات کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اتنے میں ان سب کے کانوں سے گڑگڑاہٹ کی آواز ٹکرائی۔ سب نے ایک ساتھ سر اٹھا کر دیکھا، اوپر سے ہوائی جہاز گزر رہا تھا۔ ہوائی جہاز دیکھ کر ایک لمحے کے لیے منّا بھی رونا بھول گیا۔ امی لاڈ سے بولی:
”دیکھ منا…!ابھی جہاز سے پھول گریں گے …!“
منے کو پھولوں سے کیا غرض…مگر بڑے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اب جب بھی اوپر سے جہاز گزرتا، بچے شور مچا دیتے:
”جہاز والے انکل…!پھول گراؤ…پھول… پھول گراؤ … پھول…!!“
جہاز گزر جاتا اور بچے دل برداشتہ ہو کر رہ جاتے۔
ملکی حالات خراب ہو رہے تھے۔ اب امی، ابو اکثر پریشان رہتے تھے …مگر بچے تو بچے تھے۔ وہ اپنی دنیا میں ہی مست تھے ….
اور پھر ایک دن بہت سے جہاز آئے۔ بچے حسب عادت آنگن میں آ کر شور مچانے لگے …اچھلنے لگے …گانے لگے …!
”جہاز والے انکل…!پھول گراؤ… پھول…!“ آج خواہش کی تکمیل کا دن تھا۔ ’پھول‘ گرا دیے گئے …بچے حیرت زدہ رہ گئے ..!ایسے پھول انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ حیرت سے خوف کا سفر لمحوں میں طے ہوا… اور پھر سب ’فنا‘ ہو گیا…!
٭٭
اسم اعظم
وہ بہت پریشان تھا، اتنا پریشان کہ اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ ابو کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ابو کی وفات کے بعد پوری وراثت کا اکیلا حق دار تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ گھر بیٹھ کر کھانے سے قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جاتا ہے۔ اس نے کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کسی نے پوچھا:
”کیا کرو گے …؟“
”میں کھیتی باڑی کروں گا۔ ابا جی کے کام کو چمکا دوں گا…! وہ ’مَیں ‘ پر زور دے کر بولا۔
اب اس نے کھیت تیار کروایا۔ اجرت پر کام کرنے والوں نے پوری محنت کی۔ کونپلوں پھوٹیں، ہر طرف سبزہ نظر آنے لگا۔ ایک دن موسم خراب ہوا، اولے پڑے اور سب برباد ہو گیا۔
کسی نے پوچھا کہ اب کیا کرو گے؟
’مَیں ‘ پولٹری فارمنگ کروں گا…!
اس نے اپنے رقبے پر شیڈز بنوائے۔ بیس ہزار چوزوں سے کام شروع کیا۔ اگلے دو ماہ تک پوری دیکھ بھال کی۔ اس رات سپلائی اٹھانے کے لیے گاڑیوں نے آنا تھا۔ اچھا منافع ملنے کی امید تھی مگر جانے کیا ہوا..! بیماری نے مرغیوں پر حملہ کیا اور سب برباد ہو گیا۔
کسی نے پوچھا اب کیا کرو گے؟
’مَیں ‘ ڈیری فارمنگ کروں گا…!
اس نے دو، دو لاکھ کی ’سجر‘ بھینسیں خریدیں۔ مرغیوں کے لیے بنائے جانے والے شیڈز میں ہی ڈیری فارمنگ کا آغاز کیا۔ اگلے چھ ماہ تک اچھا بیوپار چلا مگر پھر بھینسیں ’توکڑ‘ ہو گئیں۔ اب خرچا تو تھا، منافع نہیں تھا۔ اس نے دو، دو لاکھ والی بھینسیں ساٹھ، ستر ہزار میں فروخت کر دیں۔
اب وہ کنگال ہو چکا تھا۔ اب اس نے کسی سے پوچھا کہ ’مَیں ‘ کیا کروں؟
بتانے والے نے راہنمائی کی،
”دعا فقیر…رحم مولا…!“
”مجھے کسی فقیر کے پاس لے چلو…!“
رہنما اسے ایک لوہار کے پاس لے آیا۔ لوہار داہنے ہاتھ میں ہتھوڑا تھامے گرم لوہے پر ضربیں لگا رہا تھا…
”یہ فقیر ہے …؟“وہ حیرت سے بولا۔
”ہاں …! فقیر فکر سے ہوتا ہے …تم اپنی مشکل بتاؤ…!“
اب وہ اپنی مشکل بتانے لگا۔
’’’مَیں ‘ نے یہ کام کیا… ناکام ہوا…! ’مَیں ‘ نے وہ کام کیا… ناکام ہوا…! ’مَیں ‘…’.مَیں ‘….’مَیں ‘… کوئی اسم اعظم بتا دیں کہ ’مَیں ‘ کامیاب ہو جاؤں …!“
’مَیں ‘ چھوڑ دے …’تو‘ سے لَو لگا لے …رب سوہنا بھلی کرے گا۔ یہی اسم اعظم ہے بیٹا…!“
وہ لوہار کی بات سمجھ نہیں پایا تھا مگر جب رات کی تنہائی اور سناٹے میں اس نے غور کیا تو آگہی کی روشنی اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔
باقی رات اس نے اللہ کی یاد میں رو کر گزاری۔ اگلی صبح اس نے ایک آواز سنی:
”مَیں … مم…مَیں …!“
اس نے دیکھا، اس کی پالتو بکری نے میمنا دیا تھا۔ وہ سسک کر رہ گیا۔ برکت نے اس کے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا…!
٭٭٭
https://asaanurdu.com/ تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں