فہرست مضامین
- بدن کے غارِ حرا میں
- افضل خان
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- دل اس کی یاد میں جس شب ملول ہو جائے
- تو پھر وہ عشق، یہ نقد و نظر برائے فروخت
- مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی
- جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے
- شکستِ زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا
- تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
- راہ بھولا ہوں مگر یہ مِری خامی تو نہیں
- تیرے جانے سے زیادہ ہیں، نہ کم پہلے تھے
- اس لمحے تشنہ لب ریت بھی پانی ہوتی ہے
- وہ جو اک شخص وہاں ہے وہ یہاں کیسے ہو
- رے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
- نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
- آج ہی فرصت سے کل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
- Related
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- افضل خان
بدن کے غارِ حرا میں
افضل خان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
دل اس کی یاد میں جس شب ملول ہو جائے
ہمارے واسطے بستر ببول ہو جائے
اب اس کے بعد مروّت کا موڑ آئے گا
اسی مقام پہ ردّ و قبول ہو جائے
زباں کی جنگ تو شاید نہ تھم سکے پھر بھی
بزرگ جمع ہیں ،حلف الفظول ہو جائے
خدا سے سیکھئے الفت کی انتہا کہ جہاں
جو آخری ہو وہ پہلا رسول ہو جائے
صلہ بس اتنا ملے سانس لینے والوں کو
کہ زیر و بم کی مشّقت وصول ہو جائے
بدن کے غارِ حرا میں خموش بیٹھا ہوں
کہ شاید ایسے غزل کا نزول ہو جائے
جنابِ قیس کا مجھ کو لحاظ ہے ورنہ
یہ دشت ایک ہی ٹھوکر میں دھول ہو جائے
٭٭٭
تو پھر وہ عشق، یہ نقد و نظر برائے فروخت
سخن برائے ہنر ہے، ہنر برائے فروخت
پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پہ آخر
لکھا ہوا ہے شجر پہ، شجر برائے فروخت
میں پہلے کوفہ گیا، اس کے بعد مصر گیا
اُدھر برائے شہادت، اِدھر برائے فروخت
میں قافلے سے بچھڑ کر بھلا کہاں جاؤں
سجائے بیٹھا ہوں زادِ سفر برائے فروخت
عیاں کیا ہے ترا بھید فی سبیل اللہ
خبر نہ تھی کہ ہے یہ بھی خبر برائے فروخت
ذرا یہ دوسرا مصرع درست فرمائیں
مرے مکان پہ لکھا ہے، گھر برائے فروخت
٭٭٭
مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی
محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی
ہمارا دل ذرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر
یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی
ہوا کے خوف سے لپٹا ہوا ہوں خشک ٹہنی سے
کہیں جانا نہیں ،جانے کی تیاری نہیں کرنی
تحمل اے محبت! ہجر پتھریلا علاقہ ہے
تجھے اس راستے پر تیز رفتاری نہیں کرنی
غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور رکھتا ہوں
مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی
وصیت کی تھی مجھ کو قیس نے صحرا کے بارے میں
یہ میرا گھر ہے اس کی چار دیواری نہیں کرنی
٭٭٭
جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے
مِرے یقیں کو قرین قیاس اتارتی ہے
ہمارے شہر کی یہ وحشیانہ آب و ہوا
ہر ایک روح میں جنگل کی باس اتارتی ہے
یہ زندگی تو لبھانے لگی ہمیں ایسے
کہ جیسے کوئی حسینہ لباس اتارتی ہے
میں سیخ پا ہوں بہت زندگی کی گاڑی پر
یہ روز شام مجھے گھر کے پاس اتارتی ہے
تمہارے آنے کی افواہ بھی سر آنکھوں پر
یہ بام و در سے اداسی کی گھاس اتارتی ہے
ہمارا جسم سکوں چاہتا ہے اور یہ رات
تھکن اتارنے آتی ہے، ماس اتارتی ہے
٭٭٭
شکستِ زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا
تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا
کہا نہیں تھا مرا جسم اور بھر یا رب
سو اب یہ خاک ترے پاس بچ گئی ہے نا
میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں
مگر جو بیچ میں کمبخت شاعری ہے نا
یہ کور چشم اجالوں سے عشق کرتے ہیں
جو گھر جلا کے بھی کہتے ہیں روشنی ہے نا
تُو میرے حال سے انجان کب ہے اے دنیا
جو بات کہہ نہیں پایا سمجھ رہی ہے نا
میں جان بوجھ کے آیا تھا تیغ اور تِرے بیچ
میاں! نبھانی تو پڑتی ہے، دوستی ہے نا
٭٭٭
تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
اب اس بات پہ میرے یار الجھتے ہیں
کہ ہر بات سن لیتا ہوں، جذباتی نہیں ہوتا
گرفتارِ وفا! رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا
تجھے دل میں جگہ دی ہے نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے، مضافاتی نہیں ہوتا
بچھڑنے کا ارادہ ہو تو مجھ سے مشورہ کرنا
محبت میں کوئی بھی فیصلہ، ذاتی نہیں ہوتا
٭٭٭
راہ بھولا ہوں مگر یہ مِری خامی تو نہیں
میں کہیں اور سے آیا ہوں مقامی تو نہیں
اونچا لہجہ ہے فقط زورِ دلائل کے لئے
یہ مِری جان! مِری تلخ کلامی تو نہیں
ان درختوں کو دعا دو کہ جو رستے میں نہ تھے
جلدی آنے کا سبب تیز خرامی تو نہیں
تیری مسند پہ کوئی اور نہیں آ سکتا
یہ مِرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں
میں ہمہ وقت محبت میں پڑا رہتا تھا
پھر کسی دوست سے پوچھا یہ غلامی تو نہیں
برتری اتنی بھی اپنی نہ جتا اے میرے عشق
تُو ندیم و علی و کاشف و کامی تو نہیں
٭٭٭
تیرے جانے سے زیادہ ہیں، نہ کم پہلے تھے
ہم کو لاحق ہیں وہی اب بھی جو غم پہلے تھے
کوئی راہرو ہی ملا، اور نہ کوئی نقشِ قدم
عشق کی راہ میں لگتا ہے کہ ہم پہلے تھے
میں نے تیشے سے مقدر کی لکیریں بدلیں
اب نہیں سانحے قسمت میں رقم پہلے تھے
بن گئے پار اتر کر سبھی موسیٰؑ، ورنہ
غم کے دریا میں ہمارے ہی قدم پہلے تھے
اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے
ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں، عدم پہلے تھے
٭٭٭
کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشک بار ہوتے ہوئے
پرندے آئے تو گنبد پہ بیٹھ جائیں گے
نہیں شجر کی ضرورت مزار ہوتے ہوئے
ہے ایک اور بھی صورت رضا و کفر کے بیچ
کہ شک بھی دل میں رہے اعتبار ہوتے ہوئے
مرے وجود سے دھاگا نکل گیا ہے دوست
میں بے شمار ہوا ہوں شمار ہوتے ہوئے
ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک
بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے
وہ قید خانہ غنیمت تھا مجھ سے بے گھر کو
یہ ذہن ہی میں نہ آیا فرار ہوتے
٭٭٭
اس لمحے تشنہ لب ریت بھی پانی ہوتی ہے
آندھی چلے تو صحرا میں طغیانی ہوتی ہے
نثر میں جو کچھ کہہ نہیں سکتا شعر میں کہتا ہوں
اس مشکل میں بھی مجھ کو آسانی ہوتی ہے
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
عشق تمہارا کھیل ہے باز آیا اس کھیل سے میں
میرے ساتھ ہمیشہ بے ایمانی ہوتی ہے
کیوں اپنی تاریخ سے نالاں ہیں اس شہر کے لوگ
ڈھ دیتے ہیں جو تعمیر پرانی ہوتی ہے
یہ نکتہ اک قصہ گو نے مجھ کو سمجھایا
ہر کردار کے اندر ایک کہانی ہوتی ہے
اتنی ساری یادوں کے ہوتے بھی جب دل میں
ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے
٭٭٭
وہ جو اک شخص وہاں ہے وہ یہاں کیسے ہو
ہجر پر وصل کی حالت کا گماں کیسے ہو
بے نمو خواب میں پیوست جڑیں ہیں میری
ایک گملے میں کوئی نخل جواں کیسے ہو
تم تو الفاظ کے نشتر سے بھی مر جاتے تھے
اب جو حالات ہیں اے اہل زباں کیسے ہو
آنکھ کے پہلے کنارے پہ کھڑا آخری اشک
رنج کے رحم و کرم پر ہے رواں کیسے ہو
بھاؤ تاؤ میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی
ہاں مگر تجھ سے خریدار کو ناں کیسے ہو
ملتے رہتے ہیں مجھے آج بھی غالبؔ کے خطوط
وہی انداز تخاطب کہ میاں کیسے ہو
٭٭٭
رے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں
اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں
ادھوری سی نظر کافی ہے اس آئینہ داری پر
اگر ہم غور سے دیکھیں تو حیرانی سے مر جائیں
بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی
وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں
اگر وحشت کا یہ عالم رہا تو عین ممکن ہے
سکوں سے جیتے جیتے بھی پریشانی سے مر جائیں
کہیں ایسا نہ ہو یا رب کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مر جائیں
٭٭٭
نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ
سو یوں ہوا کہ پریشانیوں میں پینے لگے
غم حیات سے منہ موڑتے ہوئے سگریٹ
مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ
کل اک ملنگ کو کوڑے کے ڈھیر پر لا کر
نشے نے توڑ دیا جوڑتے ہوئے سگریٹ
ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضلؔ
یہ خاکدان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ
٭٭٭
آج ہی فرصت سے کل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
مسئلہ حل ہو تو حل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
وصل و ہجراں میں تناسب راست ہونا چاہئے
عشق کے رد عمل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
دیکھنا سب لوگ مجھ کو خارجی ٹھہرائیں گے
کل یہاں جنگ جمل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
کشتیوں والے مجھے تاوان دے کر پار جائیں
ورنہ لہروں میں خلل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
مل ہی جائیں گے کہیں تو مجھ کو بیدلؔ حیدری
کوزہ گر والی غزل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
اس شجر کی ایک ٹہنی پرلے آنگن میں بھی ہے
اپنے ہمسائے سے پھل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
٭٭٭
ماخذ: رنگ اردو، ریختہ ڈاٹ آرگ وغیرہ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید