FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

شیر کا احسان

 

 

ابن سراج

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

پرانے زمانے میں شہر سے کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آ گیا ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے لاتعداد گھر تباہ و برباد ہو گئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچا تھا۔ گاؤں میں ایک غریب کسان تھا ایک سنار سے اس اچھی کی دوستی تھی اس نے سنار کو تلاش کیا تو اتفاق سے اس کا گھر اور سب گھر والے سلامت تھے۔ کسان اپنی بیوہ کے ساتھ جب اپنے دوست سنار کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی پریشانی بیان کرنے لگا:

’’بھائی! میرا گھر تو چلو سیلاب سے بچ گیا، مگر دکان سیلاب سے برباد ہو گئی اور تمام مال اور زیورات بھی سیلاب کی نظر ہو گئے ‘‘

’’پھر کیا کریں ؟‘‘

کسان نے سنار سے سوال کیا۔

’’میرا خیال ہے کہ شہر چلتے ہیں وہاں جا کر ضرور کہیں نہ کہیں نوکری یا مزدوری مل جائے گی راستہ بہت طویل ہے او ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے ‘‘

’’راستے میں جنگل بھی آتے ہیں ‘‘

کسان نے خیال پیش کرتے ہوئے کہا۔

’’تو کیا ہو ہمت کرو، اللہ مالک ہے۔  یہاں تو کوئی ہماری مدد کیلئے بھی نہیں آئے گا بادشاہ کو کیا پتا کہ ہم پر کیا مصیبت آ کر گزر گئی ہے ‘‘

سنار کے خیالات سے کسان کو بہت حوصلہ ملا اس کی بیوی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا:

’’بھائی سنار! ٹھیک ہی تو کہتے ہیں بادشاہ تک اپنے حالات اور مصیبت کی خبر دینی چاہیے ‘‘

’’ٹھیک ہے تو کل صبح یہاں سے روانہ ہوں گے ‘‘

سنار نے مشورہ دیتے ہوئے کہا:

’’ہم دونوں کے بیوی بچے گاؤں میں ہی رہیں گے دوسرے گاؤں سے میرا بھائی کھانے پینے کا سامان لے کر آنے والا ہے، تم اس کی فکر نہ کرو‘‘

’’ہاں ہاں سنار بھائی! مشورہ تو تم نے ٹھیک ہی دیا ہے ‘‘

آخر دونوں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے چلتے چلتے شام ہو جاتی تو کسی محفوظ درخت پر چڑھ جر آرام کر لیتے، پھر جب دن نکل آتا تو سفر شروع کر دیتے چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہو گیا سنار کو بخار نے آ گھیرا اور وہ بے چارہ چلنے سے بھی معذور ہو گیا آخر کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پر لٹا دیا چاروں طرف آگ روشن کر دی، تاکہ کوئی موذی جانور یا درندہ قریب نہ آ سکے اور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا کچھ دور چلا تھا کہ راستے میں اسے ایک شیر ملا، جو درد کی تکلیف سے بے حال ہوئے جا رہا تھا شیر کو دیکھ کر کسان کو تھرتھری سی لگ گئی، مگر شیر پھر بھی نہ اٹھ سکا، بلکہ کسان سے کہنے لگا:

’’اے بھائی! میں تجھے کچھ نہ کہوں گا، تو میری مدد کر دے، اللہ تیرا بھلا کرے گا‘‘

کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈر گیا۔

شیر نے کہا:

’’ اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے ‘‘

کسان کے اندر ہمت پیدا ہوئی اس نے قریب جا کر پوچھا:

’’اب بتا تیری کیا مدد کروں ؟‘‘

’’بھائی! میرے پچھلے پاؤں میں بہت بڑا کانٹا گھس گیا ہے اس کی تکلیف سے مرا جاتا ہوں، تجھے خدا کا واسطہ یہ کانٹا نکال کر میری جان بچا لے، ورنہ کوئی شکاری ادھر آ گیا تو میر کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مجھے قید کر لے گا‘‘

کسان نے خدشہ ظاہر کیا:

‘کانٹا تو نکال دوں گا مگر کیا بھروسہ کہ تو مجھے کھا نہ جائے ؟‘‘

شیر نے عاجزی سے کہا:

’’وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھے ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا، بھلا کوئی اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے ایسا تو تم انسانوں میں ہوتا ہے ‘‘

کسان نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر شیر کے پاؤں کے اندر تک گھسا ہوا کانٹا نکال دیا زخم کو صاف کر کے اوپر رو مال پھاڑ کر پٹی باندھ دی۔

شیر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

’’ اے نیک انسان! تیری اس نیکی کا میں کیا بدلہ دوں گا آ چل میرے ساتھ چل‘‘

کسان شیر کے ساتھ چل پڑا کسان نے شیر سے کہا:

’’اے شیر بھائی! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہوا ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جا رہا ہے پہلے مجھے کچھ کھانے کیلئے جنگلی پھل وغیرہ کا درخت بتا دے تو مہربانی ہو گی۔ ‘‘

شیر نے کہا:

’’اے نیک انسان! تیرا دوست بھی میرا دوست ہے سن ابھی کچھ دنوں پہلے دو شکاری اس جنگل میں مجھے شکار کرنے آئے تھے میں نے اور میری شیرنی نے موقع پا کر ان دونوں پر حملہ کر انہیں ہلاک کر دیا تھا ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان تھا وہ محفوظ ہے آ پہلے ادھر چل اور وہ سامان تو اٹھا کر لے جا اور پھر میں تجھے ایک ایسی نایاب بوٹی کا پودا دکھاؤں گا چاہے کیسا ہی بیمار ہو اس کی پتیاں پیس کر مریض کو پلا دیں ان شاء اللہ ایک دو دن میں بالکل تندرست اور توانا ہو جائے گا ہم جانور بھی بیمار ہو جاتے ہیں تو اکثر یہی بوٹی تلاش کر کے کھا لیتے ہیں۔ پھر شیر نے ایک درخت کے نیچے کھانے پینے کے سامان کی طرف لے جا کر کہا: ’’اے نیک آدمی! یہ سامان اٹھا لے ‘‘

کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا:

’’یہ ہے وہ پودا جو ہر بیماری میں اللہ کے کم سے شفا دیتا ہے‘‘

غریب آدمی نے جلدی جلدی کچھ پودے توڑ کر سامان میں رکھ لیے

شیر نے مشورہ دیا:

’’یہ بوٹی تم اپنے دوست کو کسی پتھر سے کچل کر پانی سے کھلا دینا، انشاء اللہ کچھ ہی دیر میں تندرست ہو جائے گا‘‘

کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

’’اے اچھے شیر! تیرا بہت بہت شکریہ اب مجھے اجازت چاہیے میرا دوست میرا انتظار کر رہا ہو گا‘‘

شیر نے کہا:

’’اے بھائی! اتنی جلدی نہ کر مجھے کچھ اور بھی خدمت کرنے دے۔ کافی دنوں پہلے ایک شہزادہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا مگر چیتے اور ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کر دیا تھا کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے، مگر شہزادہ اور اس کا ایک ساتھی مارے گئے تھے شہزادے کے گلے میں موتیوں کے ہار تھے چیتا اور ریچھ ان کی لاشوں کو کھا رہے تھے کہ اچانک میرا ادھر سے گزر ہو گیا میں جو زور سے دہاڑا تو وہ ڈر کر بھاگ گئے۔ یہ ہیرے موتیوں کے ہار میں لے آیا اور اپنے غار میں ایک جگہ چھپا دیے تھے۔ یہ تم لے جاؤ اور بادشاہ کو دے دینا شاید بادشاہ اور ملکی شہزادے کے غم میں روتے ہوں گے۔ ‘‘

شیر کسان کو غار کے اندر لے گیا اور پنجے مار کر ایک جگہ گھاس میں چھپے ہوئے ہار کسان کو دکھاتے ہوئے کہا:

’’ اسے تم لے جاؤ، جو چاہو کر لینا، مگر اچھا ہو کہ بادشاہ کو بتا دو تاکہ تمہیں اس سے زیادہ انعام ملے ‘‘

کسان نے شیر کا شکریہ ادا کیا۔

شیر نے کہا:

’’ جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا ‘‘ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آ گیا۔ سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کر پلا دی کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہو گیا اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگا۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور شہزادے کے قیمتی جواہر کے ہار دکھائے تو سنار کے دل میں لالچ پیدا ہو گیا او جواہرات چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا لہذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں آتا ہوا قافلہ مل گیا او وہ بھی قافلے میں شامل ہو کر چل پڑے۔

شہر کے پاس ایک مسافر خانے میں یہ دونوں ٹھہر گئے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا جیسے ہی موقع ملا وہ جواہرات چرا کر بھاگ نکلا اور گھر کی راہ لی۔

ادھر ملکہ بیٹے کے غم میں بیمار ہو کر موت او زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ بادشاہ کا اعلان تھا کہ جو کوئی ملکہ کا علاج کر کے اسے اچھا کرے گا، اسے آدھی سلطنت انعام دی جائے گی ملکہ روز بروز موت کی طرف جا رہی تھی۔ بڑے بڑے مشہور طبیب آ رہے تھے، مگر کسی سے شفا نہیں ہو رہی تھی کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔

بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا:

’’اے شخص! یہاں کئی ملکوں کے معالج آئے ہیں تم تو طبیب بھی نہیں لگتے، کہو پھر کیسے علاج کرو گے ؟ ہم پہلے ہی شہزادے کی جدائی کے غم میں مبتلا ہیں‘‘

کسان نے کہا:

’’اللہ آپ کو اور ملکہ کو سلامت رکھے بادشاہ سلامت! مایوس کیوں ہوتے ہیں آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں ان شاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہونے لگیں گی‘‘

اچھا یہ بات ہے تو آؤ میرے ساتھ‘‘

بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آ گیا۔ کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شروع ہو گئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہو گئی۔ تمام خادم، کنیزیں اور خود بادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے شام تک ملکہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہو گئی۔

بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کیلئے خزانے کے منھ کھول دیے کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کر دیا گیا۔

کسان نے بادشاہ سے کہا:

’’عالی جاہ! شہزادہ شکار کے دوران مارا گیا تھا‘‘

پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ سے خر کرتے ہوئے سناکر بد عہدی اور دھوکے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سنار شہزادے کے قیمتی ہار چرا کر فرار ہو گیا ہے۔ گاؤں میں سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہیوں سے بادشاہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے مدد کرنے کی اپیل بھی کی۔

بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا اس نے فوراَ سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کر دیا اور گاؤں والوں کیلئے امدادی سامان اور مدد کیلئے کارندے علاحدہ روانہ کر دیے سنار کو اس کے گھر سے گرفتار کر کے سرقلم کر دیا گیا۔

بادشاہ نے اعلان کرتے ہوئے غصے سے کہا:

’’چوروں، لٹیروں کیلئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے ‘‘

بادشاہ نے کسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آدھی سلطنت دینے کی خواہش کی تو کسان نے کہا:

’’بادشاہ سلامت! آپ اور آپ کی حکومت کو اللہ سلامت رکھے، آپ کی ضرورت آپ کے ملک کو ہے ‘‘

بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اسے اپنا بیٹا بنا کر بعد میں وزیر اعظم بنا دیا۔

٭٭٭

ماخذ:

https: //urdu.tebyan.net/index.aspx?pid=59259

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل