FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بائی فوکل کلب اور دوسرے مضامین

 

 

"خاکم بدہن‘‘ سے انتخاب

 

مشتاق احمد یوسفی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

دست زلیخا

 

 

بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ہمیں بھی اس کلیّے سے حرف بہ حرب اتّفاق ہے، بشرطیکہ کتاب سے مراد وہی ہے جو ہم سمجھے ہیں، یعنی چیک بک یا روکڑ بہی۔ دیباچے میں یہ وضاحت ازبس ضروری ہے کہ یہ کتاب کس مالی یا الہامی دباؤسے نڈھال ہو کر لکھی گئی۔ چنانچہ جو اہل قلم ذہین ہیں، وہ مشک کی طرح خود بولتے ہیں۔ جو ذرا زیادہ ذہین ہیں، وہ اپنے کندھے پر دوسروں سے بندوق چلواتے ہیں۔ یعنی تاریخ وفات، آلۂ قتل اور موقع واردات کا انتخاب صاحب معاملہ خود کرتا ہے۔ اور تعزیرات پاکستان میں یہ واحد جرم ہے، جس کی سزا صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ملزم ارتکاب جرم میں کامیاب نہ ہو۔ 1961 میں پہلی ناکام کوشش کے بعد بحمد للہ ہمیں ایک بار پھر یہ سعادت بقلم خود نصیب ہو رہی ہے۔ تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد۔

یہ کتاب ’چراغ تلے ’کے پورے آٹھ سال بعد شائع ہو رہی ہے۔ جن قدر دانوں کو ہماری پہلی کتاب میں تازگی، زندہ دلی اور جواں سالی کا عکس نظر آیا، ممکن ہے، ان کو دوسری میں کہولت کے آثار دکھلائی دیں۔ اس کی وجہ ہمیں تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی عمر میں آٹھ سال کا اضافہ ہو چکا ہے۔

انسان کو حیوان ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ اس لیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہو جاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلاق عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدود گریہ بخشے ہیں۔ کثرت استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہو جاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزش غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آ جاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کر لو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فضیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوار قہقہہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہو گا؛

ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم

نہ شبنم، نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

حس مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرط اول یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کر دیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ”یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟ "مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیر لب کا سزا وار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہل دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے۔ ان کی بے مہری و کم نگاہی سے۔ ان کی سرخوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تر دامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کر دیکھنے والا ہاتھ۔

صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

ایک صاحب طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرفدار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا۔۔ ۔۔ ۔۔ کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخیِ تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوز و گداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصراً اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہو جاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہو جائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و روا داری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے بر عکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آ گئی ہیں۔ مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

فقیر گالی، عورت کے تھپڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہئیے۔ یہ قول فیصل ہمارا نہیں، مولانا عبید زاکانی کا ہے (از دشنام گدایاں و سیلیِ زناں و زبان شاعراں و مسخرگاں مرنجید) مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ ممکن ہے، اس میں بھی تفنّن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو، جو غالباً موسم کی خرابی کے سبب اس کی سمجھ نہیں آ رہا۔ اس بنیادی حق سے دستبردار ہوئے بغیر، یہ تسلیم کر لینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ ہم زبان اور قواعد کی پابندی کو تکلّف زائد تصور نہیں کرتے۔ یہ اعتراف عجز اس لیے اور بھی ضروری ہے کہ آج کل بعض اہل قلم بڑی کوشش اور کاوش سے غلط زبان لکھ رہے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار بے دھیانی یا محض آلکس میں صحیح زبان لکھ جائیں تو اور بات ہے۔ بھول چوک کس سے نہیں ہوتی؟

٭٭٭

 

 

 

 

یہاں کچھ پھول رکھے ہیں

 

 

 

اس تقریب میں شرکت کے دعوت نامے کے ساتھ جب مجھے مطلع کیا گیا کہ میرے تقریباتی فرائض خالصتاً رسمی اور حاشیائی ہوں تو مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا۔ ایک گونہ میں رواروی میں لکھ گیا، ورنہ سچ پوچھئے تو دو گونہ اطمینان ہوا۔ اس لئے کہ مجھے اطمینان دلایا گیا کہ رسم اجرا نہایت مختصر و سادہ ہو گئی۔ اس میں وہی ہو گا جو اس طرح کے شاموں میں شایان شان ہوتا ہے یعنی کچھ نہیں ہو گا۔ بس صاحب شام (میں نے جان بوجھ کر صاحبہ شام نہیں کہا) شاہدہ حسن کی تاج پوشی نہیں ہو گی۔ میرے تردّد تامّل اور اس وضاحت کا سبب یہ تھا کہ ایک ہفتے قبل میں شاہدہ کا ایک خیال انگیز تعارفی مضمون مخدومی و مکرمی جناب جاذب قریشی کی تاج پوشی کی تقریب سعید میں سن چکا تھا۔ جاذب صاحب کی شاعری اور تنقید کا دل پذیر سلسلہ، نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ ایک عمر کے ریاض، مہارت تامّہ، ژرف نگاہی، وضعداری اور ادبی سیر چشمی کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ تعجب اس پر ہوا کہ جیسا تاج پیر و مرشد کو عقیدت مندوں نے پہنایا، ویسا تاج امریکہ میں حسینۂ عالم کو اور پنجاب میں صرف دلہن کو پہنایا جاتا ہے۔ دولہا کے سر پر تو سہ غزلے کی لمبائی کے برابر اونچی طرّے دار کُلاہ ہوتی ہے۔ پنجاب میں اگر دولہا ایسا زنانہ تاج پہن کر آ جائے تو قاضی نکاح پڑھانے سے انکار کر دے گا۔ اور اگر نکاح ایک دن قبل ہو چکا ہے تو دلہن والے نکاح ٹوٹنے کا اعلان کر دیں گے۔ دلہن اپنے بائیں دستِ حنائی سے دائیں ہاتھ کی ہری ہری چوڑیاں توڑ دے گی اور دائیں ہاتھ سے بائیں کی۔ پھر اُن ہی سونٹا سے ہاتھوں سے دھکّے دے کر ہریالے بنڑے کو عقد گاہ سے یہ کہہ کر باہر نکال دے گی کہ

عقد کو عقد سمجھ مشغلۂ دل نہ بنا

برات کو رات کے ساڑھے گیارہ بجے، کوکا کولا کی بوتل پلائے بغیر کھڑے کھڑے واپس کر دیا جائے گا۔ تاج اور ادھورے ویڈیو سمیت!

تاج پوشی کی تصویریں کلِک کلِک کر کھنچنے لگیں تو مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر خدا نخواستہ یہ پنجاب کے اخباروں میں چھپ گئی تو لوگ کہیں گے کہ کراچی کے اہل زبان حضرات بزرگوں کے ساتھ دلہنوں کا سلوک کرتے ہیں اور عَرُوسی زیورات کے استعمال میں تذکیر و تانیث کا ذرا خیال نہیں رکھتے! جب کے الفاظ کے نر و مادہ نہ پہچاننے پر اب بھی لے دے ہوتی ہے۔

ہم نے دیکھا کہ حضرت جاذب براتِ دلدادگاں میں گھِرے، تصویریں کھنچوا رہے تھے تو ہمارے دوست پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔ اے۔ بی۔ ٹی کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے وہ گھر میں ہوتے ہیں تو اسی حصّہ جسم پر معصوم بچے لوٹتے ہیں۔ مرزا نے ہمارے کان کو ہاتھ سے اپنے منہ کے قریب کھینچ کر اُن شعراء کے نام گنوائے جو حسد سے جلے مر رہے تھے۔ کہنے لگے کہ حاسدین کی فہرست میں ایک نثر نگار کا نام بھی ہے۔ پوچھا بھلا کون؟ بولے مشتاق احمد یوسفی۔ پھر اکبر الہٰ آبادی کے اشعار میں اپنی تحریف وہ سکتے کے ساتھ سنائے:

اوجِ بختِ مُلاقی اُن کا

چرخ ہفت طباقی ان کا

محفل و تاج طِلائی اُن کا

آنکھیں میری باقی اُن کا

یہ معروضات از راہِ تعفّن نہیں ہیں۔ اگر سِن و سال کا بیّن تفاوت راہِ حسنِ عقیدت و ارادت مندی میں حائل نہ ہوتا تومیں محترم المقام جناب جاذب قریشی اور ان کے استاد مکّرم، بلکہ استاذ الاساتذہ حضرت فرمان فتح پوری کو اپنا پیر و مرشد کہنے میں فخر محسوس کرتا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اُسی رشتہ ارادت و نیاز مندی کے باعث رسم تاج پوشی کچھ عجیب سی لگی۔ یادش بخیر، تیس پینتیس برس اُدھر کی بات ہے۔ ایسی ہی تاج پوشی ایک شاعرہ مس بلبل کی ہوئی تھی جو اپنے والد کے ہم راہ اندرون سندھ سے تشریف لائی تھیں۔ ان کے سر پر ابنِ انشا نے دستِ خاص سے تاج رکھا اور ملِکہ تغّزل کے لقب سے نوازا۔ اپنے تیکھے انداز میں ایک مضمون بھی پڑھا جسے مدحیہ ہجویاہجویہ قصیدہ کہا جائے تو دونوں تعریفیں درست ہوں گی۔ بعد کو ابن انشا نے مِس بُلبُل پر چار پانچ مزیدار کالم بھی لکھے۔ اس زمانے میں مس بلبل اور ہیر ڈریسرز انجمن کے صدر سلمان، ان کے کالموں کے دل پسند موضوع تھے۔ ہال کا کرایہ، باسی سموسوں اور خالص ٹین کے تاج کی قیمت خود ملکۂ عالیہ نے جیبِ خالص سے ادا کی۔ رہی ان کی شاعری تو اتنا اشارہ کافی ہے ملکۂ اقلیم سخن کی طبعِ آزاد، عروض کی غلام نہ تھی۔ غزل میں دو رنگی نہیں پائی جاتی تھی۔ مطلب یہ کہ مطلع سے مقطع تک ہر شعر وزن اور بحر سے یکساں خارج ہوتا تھا۔ پڑھتے وقت ہاتھ، آنکھ اور دیگر اعضاء سے ایسے اشارے کرتیں کہ شعر تہذیب سے بھی خارج ہو جاتا! ان اشاروں سے شعر کا مطلب تو خاک سمجھ میں نہیں آتا، شاعرہ کا مطلب ہم جیسے کُند ذہنوں کی سمجھ میں بھی آ جاتا تھا۔ بے پناہ داد ملتی جسے وہ حُسنِ سماعت سمجھ کر آداب بجا لاتی تھیں۔ وہ در اصل ان کے حسن و جمال پر واہ واہ ہو جاتی تھی۔ بقول مرزا عبد الودود بیگ، سامعینِ بے تمکین کے مردانہ جذبات کے فی البدیہہ اخراج کو عفیفہ خراجِ عقیدت سمجھتی تھی! لوگ انہیں مصرع طرح کی طرح اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے۔

تقریب اجرا کا ماجرا قدرے تفصیل سے بیان کرنے کی دو وجہیں ہیں۔ اوّل، یہ کہ میرے خوش گوار فرائض رسمِ اجرا ہی سے متعلق ہیں۔ دوم، قوی اندیشہ ہے کہ اگر تاجِ شہی کے وصول کُنندگان اور تاج دہند گان کی بر وقت حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو یہ بدعتِ فاخرہ یعنی رسم تاج پوشی اب ہر تقریب رونمائی و اجرا کا لازمی حصّہ بن جائے گی، جس سے صرف ہر دو قسم کے ان کاریگرانِ با کمال کو فائدہ ہو گا جو چاندی پر سونے کا ایسا ملمّع کرتے ہیں کہ

نسیمِ صبح جو چھو جائے، رنگ ہو میلا

(دستِ نقّاد جو چھو جائے، رنگ ہو میلا)؟

جو اہلِ قلم اب تک کمالِ فن، تمغہ حسن کارکردگی، ہلالِ امتیاز اور اکیڈمی آف لیٹرس کے انعامات کے لئے تگ و دَو کرتے اور آپس میں لڑتے بھِڑتے رہتے ہیں وہ اب تاج اور منصبِ تاجوری کے لیے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار پیزار ہوں گے۔ ایک دوسرے کے کام اور کلام الملوک ملوک الکلام میں پورے مصرعے کے برابر لمبے کیڑے نکالیں گے۔ مجھ جیسا ہر گیا گزرا ادیب اور شاعر خود کو ARY کے ۲۲ کیریٹ گولڈ کے تاج کا اکلوتا حق دار قرار دے گا۔

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے تاج!

کیسی یہ انوکھی بات!

مرزا عبد الودود بیگ کہتے ہیں کہ چھوٹے بڑے اور اچھے بُرے کی قید نہیں، genuine شاعر کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ صرف میر اور غالب کو اوپری دل سے شاعر تسلیم کر لیتا ہے۔ وہ بھی محض اس لیے کہ وہ بر وقت وفات پا چکے ہیں۔ بر وقت سے مراد اِن کی پیدائش سے پہلے۔

صاحبو، غزل کی زمین کی ہمیشہ یہ خاصیت رہی ہے

ذرا نم ہو تو یہ مِٹّی بہت زرخیز ہے ساقی

خدشہ ہے کہ تاج پوشی کی رسم اس زر دوز زمین میں جڑ پکڑ گئی تو صرف کراچی میں ہی اَقلیم سُخن کے پانچ چھ سو تاجدار نظر آئیں گے۔ بے تخت و سلطنت! جھوٹ کیوں بولیں۔ ہم خود بھی 22 کیرٹ گولڈ سے الرجک نہیں ہیں۔ تاج کو پگھلا کر روٹھی ملِکہ کے لیے پازیب بھی تو بنوائی جا سکتی ہے۔

جہاں اتنے تاج داروں کی گھمسان کی ریل پیل ہو، وہاں خون خرابا لازمی ہے۔ بادشاہ لوگ نیشنل اسٹیڈیم میں ایک دوسرے کے تاج سے فٹبال کھیلیں گے۔ اور ایک دوسرے کے دیوان اور ناول ان کے سرچشمے یعنی متعلقہ سر پہ دے ماریں گے۔ طوائف الملوکی کا یہ عالم ہو گا کہ وہ مخلوق بھی جس کا نام اس بدنام محاورے میں آتا ہے، اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے گی۔ دلہنیں تاج پہننا چھوڑ دیں گی۔ محض اس ڈر سے کہ تاج دیکھتے ہی لوگ ان سے تازہ غزل یا نیا مزاحیہ مضمون سنانے کی فرمایش کر دیں گے۔

ناں، بابا ناں، ہمیں تاج سے زیادہ اپنا سر عزیز ہے۔

صاحبو، اصل بات یہ ہے کہ ہمارے بادشاہ اور شہنشاہ تو مدتیں ہوئیں ایک بغل میں تاج شہی اور دوسری میں نعلّین دبائے رخصت ہوئے مگر ہمارا جذبہ اطاعت و بیعت سلطانِ وقت اور مٹی کے پیر والوں کی قدم بوسی کی صدیوں پرانی عادت برقرار ہے۔ رعب اور دبدبہ شاہی دل کی پاتال گہرائیوں میں جا گُزیں ہے۔ تجربہ کار سائنس اور سلوتری کہتے ہیں کہ بعض گھوڑے سواری دینے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر ان پر کوئی سوار نہ ہو تو دو قدم نہیں چل سکتے۔ اپنی چال بھول جاتے ہیں۔ وِراثت میں ملا جذبہ محکومیت اتنا راسخ ہے کہ بادشاہی ہمارے نزدیک انسانی کمال و فضیلت اور برتری کی معراج ہے۔ اوراس کا اطلاق عالموں، کاملوں اور فن کاروں پر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ جب تک ہم اپنے محبوب فن کار کو شہنشاہِ غزل، ملکۂ ترنم، اور ملکۂ غزل کے لقب سے نہ نوازیں اور تاج شہی ان کے سر پر نہ رکھیں، ہماری تسکین نہیں ہوتی۔ اگلے وقتوں میں عورتیں اگر شوہروں کو خط میں سرتاجِ من سلامت کہہ کر مخاطب کرتی تھیں تو بالکل بجا تھا۔ اس لیے کہ تاج خاص خاص موقعوں پر پہننے کے بعد اتار کر رکھ دیا جاتا ہے۔ بد بخت ہوتا بھی اسی لائق ہے۔

ہمارے سنتری بادشاہ سے لے کر رئیس المتغزلین، بادشاہِ حسن، شاہِ خوباں اور شاہِ شمشاد قداں تک اسی کمپلیکس کی کار فرمائی بلکہ شاہ فرمائی نظر آتی ہے۔ اور تو ایک صاحب شہنشاہ ظرافت کہلاتے ہیں۔ میرا اشارہ اپنی طرف نہیں ہے۔ ظریف آدمی court jester اور فالسٹاف تو ہو سکتا ہے، تخت پر نہیں بیٹھ سکتا۔ ہاں تاج و تخت یا ہماری طرح ملازمت چھننے، چھوٹنے یا چھوڑنے کے بعد ظرافت پر اتر آئے تو بات نہ صرف سمجھ میں آتی ہے بلکہ دل کو بھی لگتی ہے۔

بات پرانی ہوئی، اس لیے کہ آتش اُس زمانے میں بھی جوان نہیں تھا۔ ایک ناظرین کے دل سے اور سِن سے اُتری ایکٹریس ملکہ جذبات کہلاتی تھیں وہ اس مرحلے سے گزر رہیں تھیں جب، مرد ہو یا عورت، صرف جذبات پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ میں یہ تو نہیں بتا سکتاکہ کسی خاتون کو عمر کے کس مرحلے میں ملکہ جذبات کہا جا سکتا ہے۔ اتنا ضرور عرض کر سکتا ہوں کہ کم وبیش 70 برس کے بعد ننانوے فی صد مرد غالبؔ کی طرح اُس عمرِ یاس کو پہنچ جاتے ہیں جس کی طرف اس نے اپنے شعر میں (ہماری تحریف کے ساتھ) اشارہ کیا ہے۔

منفعل ہو گئے قوی غالبؔ

اب عناصر میں ابتذال کہاں

جب آخرِ شب کے ہم سفر اس منزل نا مقصود پر پہنچتے ہیں تو ہر مرد نرا شہنشاہِ جذبات ہوکے رہ جاتا ہے۔ نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز اور جذبات گھوڑے کے سے اور یہ جو ننانوے فی صد کی قید ہم نے لگائی ہے تو دانستہ ہے۔ ایک فی صد کی گنجائش داستشناب پاس خاطرِ نازک خیالاں رکھا ہے۔ آخر اپنا بھی تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔

“اک تارہ ہے سرہانے میرے” سے "یہاں کچھ پھول رکھے ہیں” میں سات برس کا وقفہ اور سات ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ سفر اور ہجرت اس کا خاص موضوع بھی ہے جس کے اطراف وہ رہ رہ کر لوٹتی ہیں۔ شعر کے موضوع کی حیثیت سے سفر اور ہجرت میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر شرط یہ ہے کہ مسافت طے کرتے وقت قدم قدم پراحساس مُسافرت ڈنک نہ مارے۔ بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح ہجرت باعث ’صد’ خیر و برکت ہے بشرطیکہ ہجرت کے بعد احساس و عذابِ مہاجرت میں اس حد تک نہ مبتلا ہو جائے کہ حاضر و موجود سے آنکھیں پھیر لے۔ شاہدہ کا سفر کیسا گزرا، انہیں سے سنیئے:

اگرچہ زعم مجھے بھی بہت سفر کا ہے

کمال سارا مگر اس کی رہ گزر کا ہے

ہاتھ آنکھوں پہ دھرے چلنا تھا

راستہ دیکھتی جاتی کیسے

"سات سمندر کی دوری سے ایک نظم” اداس کر دینے والی نظم ہے "دور افتادہ زمینوں میں انہیں اپنے شہر کی یاد” ستاتی ہے۔

اشکوں کی روانی میں ڈوبا ابھرا وہ شہر

چہرہ چہرہ مجھ میں تصویر ہوا وہ شہر

کراچی شہر بڑا البیلا، انوکھا اور اوکھا شہر ہے۔ بہت ظالم شہر ہے۔ انسان جب تک اس شہر میں رہتا ہے شاکی و نالاں ہی رہتا ہے۔ جب وہ اسے چھوڑ دیتا ہے تواُس پر کھُلتا ہے کہ اب وہ کسی اور شہر میں رہنے کے لائق نہیں رہا۔ پھر یہ شہر کوہِ ندا کی مانند اُسے بلاتا ہے یا اخی، یا اخی یا اخی! اور وہ کھنچا چلا جاتا ہے۔

جب بیسویں صدی کا بھولا اکیسویں صدی میں گھر لوٹتا ہے تو ایک سال میں پوری ایک صدی اپنا ورق بدل چکی ہوتی ہے۔

میں جب گھر آئی ایک سال کے بعد

سانسیں لیں کمروں نے، بستر جاگ گئے

یہ کتاب زیادہ آٹو بایوگرافیکل اُن معنوں میں بھی ہے کہ شاہدہ کی maturity اور اختیاری جلا وطنی کی روداد ہے۔

مغرب میں فیمینزم در حقیقت ایک سماجی، سیاسی اور معاشی تحریک تھی جس کی بانی و محرک و ہراول اہل قلم خواتین بہنیں تھیں۔ میرے نزدیک feminism نسائیت کا متبادل نہیں۔ نسائیت اور نسوانیت femininity کا مترادف متبادل ہو سکتی ہے، feminism کا ہرگز نہیں۔ female feminine شاعری اور ادب کا اپنا مقام ہے۔ feminist بالکل علاحدہ صنف ہے لیکن ایک دوسرے پر برتری و فوقیت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ فیمینزم کے ساتھ عام طور سے strident aggressive/ abrasive یعنی متشدد اور جارحانہ اور مرد آزار کی صفات استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارے شاعرات ادا جعفری، زہرا نگاہ، پروین شاکر، شاہدہ اور فاطمہ حسن کی شاعری کو feminist poetry نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی ثقافتی روایت یا پرم پرا مہذب و شائستہ لہجہ اُنہیں وہ اسلوب ڈکشن اور انداز بیان اختیار کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جو فیمی نزم کی سب سے نامور ادیبہ مصنفہ Germen Greer مصنفہ The Female Eunuch کی چھاپ بن چکا ہے زہرا نگاہ عورت کے دکھ درد کا پورا احساس و ادراک اور اس کے مصائب ومسائل سے ماہرانہ واقفیت رکھتی ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ سمجھوتے کی چادر بُننا اور اسے سلیقے سے بچھانا، اوڑھنا اور استعمال کرنا جانتی ہیں:

اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا

اسی کو تان کر بن جائے گا گھر

بچھا لیں گے تو کھِل اٹھے گا آنگن

اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن

یہ فیمی نزم نہیں، اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ اس کے تانے بانے میں صدیوں کی سہار، قرنوں کی بصیرتوں اور ایک با وقار شیوہ تسلیم و رضا کے تار جھلملاتے ہیں۔

شاہدہ کے ہاں وہ وصف تو ہے جسے اب نسائی حسیّت سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن جارحانہ feminism کا شائبہ نہیں۔ نسائی حسیّت اور feminism کو اس منزل تک آنے میں کئی صبر و مرد آزما مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ ادا جعفری کی دل آویز حسرت دیکھئے۔

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے توسہی بر سرِ الزام ہی آئے

پھر اس کا موازنہ فہمیدہ ریاض کے بوسے سے کیجیے جس کے دوران یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "تم۔۔ ۔۔ پاتال سے میری جان کھینچتے ہو۔” ہونٹوں پر نام آئے سے پیار کی پاتال گہرائیوں تک اترنے میں دو نسلوں اور نہ جانے کتنی ذہنی صدیوں اور موروثی inhabitations کا فاصلہ ہے۔ یہ جوگ بیراگ اور جنم جنم کی پیاس سے بھوگ بِلاس تک کا سفر ہے۔ اسی سفرِ پُر خطرمیں ایک اور جرأت مند شاعرہ محوِ خرام نظر آتی ہے جو سب کچھ چھپا کر سب کچھ دکھا دینے کا ہنر سیکھ رہی ہے۔

میں یہ بھی چاہتی ہوں ترا گھر بسا رہے

اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ تو اپنے گھر نہ جائے

مرزا کب چُوکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ خواہش تو تمہارے رومینٹک vegetarianism کی مانند ہے۔ تم در اصل یہ چاہتے ہو کہ جس مرغے کو روسٹ تم شام کو کھاؤ، وہی مرغا صبح اٹھ کر اذان بھی دے! مطلب یہ کہ ذبح کیے بغیر اس کا گوشت کھانا چاہتے ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

 

 

اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیز و تکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کو ضرور ساتھ لیتا ہوں۔ ایسے موقعوں پر ہر شخص اظہارِ ہمدردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطعۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ صِرف پس ماندگان کو بلکہ خُود مجھے بھی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ لیکن مرزا نے چپ ہونا سِیکھا ہی نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صحیح بات کو غلَط موقع پر بے دغدغہ کہنے کی جو خدا داد صلاحیّت اُنہیں ودیعت ہوئی ہے وہ کچھ ایسی ہی تقریبوں میں گل کھلاتی ہے۔ وہ گھپ اندھیرے میں سرِ رہگزر چراغ نہیں جلاتے، پھلجھڑی چھوڑتے ہیں، جس سے بس ان کا اپنا چہرہ رات کے سیاہ فریم میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ اور پھلجھڑی کا لفظ تو یونہی مروّت میں قلم سے نکل گیا، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ

جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اُٹھے

اس کے با وصف، وہ خدا کے ان حاضر و ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلّے کی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں، شادی ہو یا غمی، موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتے اور سب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اِس اندازِ نشست و برخاست میں ایک کھُلا فائدہ یہ دیا ہے کہ وہ باری باری سب کی غیبت کر ڈالتے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں کر پاتا۔

چنانچہ اس سنیچر کی شام کو بھی میوہ شاہ قبرستان میں وہ میرے ساتھ تھے۔ سورج اس شہر خموشاں کو جسے ہزاروں بندگانِ خُدا نے مرمر کے بسایا تھا، لال انگارہ سی آنکھ سے دیکھتا دیکھتا انگریزوں کے اقبال کی طرح غُروب ہو رہا تھا۔ سامنے بیری کے درخت کے نیچے ایک ڈھانچہ قبر بدر پڑا تھا۔ چاروں طرف موت کی عمل داری تھی اور سارا قبرستان ایسا اداس اور اجاڑ تھا جیسے کسی بڑے شہر کا بازار اتوار کو۔ سبھی رنجیدہ تھے۔ (بقول مرزا، دفن کے وقت میّت کے سوا سب رنجیدہ ہوتے ہیں۔) مگر مرزا سب سے الگ تھلگ ایک پُرانے کتبے پر نظریں گاڑے مسکرا رہے تھے۔ چند لمحوں بعد میرے پاس آئے اور میری پسلیوں میں اپنی کُہنی سے آنکس لگاتے ہوئے اُس کتبے تک لے گئے، جس پر منجملہ تاریخِ پیدائش و پنشن، مولد و مسکن، ولدیّت و عہدہ (اعزازی مجسٹریٹ درجہ سوم) آسُودہ لحد کی تمام ڈگریاں مع ڈویژن اور یونیورسٹی کے نام کے کندہ تھیں اور آخر میں، نہایت جلی حروف میں، مُنہ پھیر کر جانے والے کو بذریعہ قطعہ بشارت دی گئی تھی کہ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اُس کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔

میں نے مرزاسے کہا "یہ لوحِ مرزا ہے یا ملازمت کی درخواست؟ بھلا ڈگریاں، عہدہ اور ولدیت وغیرہ لکھنے کا کیا تُک تھا؟”

انھوں نے حسبِ عادت بس ایک لفظ پکڑ لیا۔ کہنے لگے "ٹھیک کہتے ہو۔ جس طرح آج کل کسی کی عمر یا تنخواہ دریافت کرنا بُری بات سمجھی جاتی ہے، اِسی طرح، بالکل اِسی طرح بیس سال بعد کسی کی ولدیّت پُوچھنا بد اَخلاقی سمجھی جائے گی!”

اب مجھے مرزا کی چونچال طبیعت سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انھیں ولدیّت کے مستقبل پر مسکراتا چھوڑ کر میں آٹھ دس قبر دُور ایک ٹکڑی میں شامل ہو گیا، جہاں ایک صاحب جنّت مکانی کے حالاتِ زندگی مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ خُدا غریقِ رحمت کرے، مرحُوم نے اِتنی لمبی عُمر پائی کہ ان کے قریبی اعزّہ دس پندرہ سال سے ان کی اِنشورنس پالیسی کی امّید میں جی رہے تھے۔ ان امّید واروں میں سے بیشتر کو مرحُوم خود اپنے ہاتھ سے مٹیّ دے چکے تھے۔ بقیہ کو یقین ہو گیا تھا کہ مرحُوم نے آبِ حیات نہ صرف چکھا ہے بلکہ ڈگڈگا کے پی چکے ہیں۔ راوی نے تو یہاں تک بیان کیا کہ ازبسکہ مرحُوم شروع سے رکھ رکھاؤ کے حد درجہ قائل تھے، لہٰذا آخر تک اس صحّت بخش عقیدے پر قائم رہے کہ چھوٹوں کو تعظیماً پہلے مرنا چاہیے۔ البتّہ اِدھر چند برسوں سے ان کو فلکِ کج رفتار سے یہ شکایت ہو چلی تھی کہ افسوس اب کوئی دشمن ایسا باقی نہیں رہا، جسے وہ مرنے کی بد دُعا دے سکیں۔

ان سے کٹ کر میں ایک دوسری ٹولی میں جا ملا۔ یہاں مرحوم کے ایک شناسا اور میرے پڑوسی ان کے گیلڑ لڑکے کو صبرِ جمیل کی تلقین اور گول مول الفاظ میں نعم البدل کی دعا دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ برخوردار! یہ مرحوم کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ حالانکہ پانچ منٹ پہلے یہی صاحب، جی ہاں، یہی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مرحوم نے پانچ شال قبل دونوں بیویوں کو اپنے تیسرے سہرے کی بہاریں دکھائی تھیں اور یہ ان کے مرنے کے نہیں، ڈوب مرنے کے دن تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے انگلیوں پرحساب لگا کر کانا پھوسی کے انداز میں یہ تک بتایا کہ تیسری بیوی کی عمر مرحوم کی پنشن کے برابر ہے۔ مگر ہے بالکل سیدھی اور بے زبان۔ اس اللہ کی بندی نے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا کہ تمہارے منہ میں کے دانت نہیں ہیں۔ مگر مرحوم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ انہوں نے محض اپنی دعاؤں کے زور سے موصوفہ کا چال چلن قابو میں کر رکھا ہے۔ البتہ بیاہتا بیوی سے ان کی کبھی نہیں بنی۔ بھری جوانی میں بھی میاں بیوی 62 کے ہند سے کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیرے رہے اور جب تک جیے، ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار رہے۔ ممدوحہ نے مشہور کر رکھا تھا کہ (خدا ان کی روح کو نہ شرمائے) مرحوم شروع سے ہی ایسے ظالم تھے کہ ولیمے کا کھانا بھی مجھ نئی نویلی دلہن سے پکوایا۔

میں نے گفتگو کا رُخ موڑنے کی خاطر گنجان قبرستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھتے ہی چپّہ چپّہ آباد ہو گیا۔ مرزا حسب معمول پھر بیچ میں کود پڑے۔ کہنے لگے، دیکھ لینا، وہ دن زیادہ دور نہیں جب کراچی میں مردے کو کھڑا گاڑنا پڑے گا اور نائیلون کے ریڈی میڈ کفن میں اوپر زِپ (ZIP) لگے گی تاکہ منہ دیکھنے دکھانے میں آسانی رہے۔

مری طبیعت ان باتوں سے اوبنے لگی تو ایک دوسرے غول میں چلا گیا، جہاں دو نوجوان ستارے کے غلاف جیسی پتلونیں چڑھائے چہک رہے تھے۔ پہلے "ٹیڈی بوائے” کی پیلی قمیض پر لڑکیوں کی ایسی واہیات تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ نظر پڑتے ہی ثقہ آدمی لاحول پڑھنے لگتے تھے اور ہم نے دیکھا کہ ہر ثقہ آدمی بار بار لاحول پڑھ رہا ہے۔ دوسرے نوجوان کو مرحوم کی بے وقت موت سے واقعی دلی صدمہ پہنچا تھا، کیونکہ ان کا سارا "ویک اینڈ” چوپٹ ہو گیا تھا۔

چونچوں اور چہلوں کا یہ سلسلہ شاید کچھ دیر اور جاری رہتا کہ اتنے میں ایک صاحب نے ہمت کر کے مرحوم کے حق میں پہلا کلمہ خیر کہا اور میری جان میں جان آئی۔ انہوں نے صحیح فرمایا "یوں آنکھ بند ہونے کے بعد لوگ کیڑے نکالنے لگیں، یہ اور بات ہے، مگر خدا ان کی قبر کو عنبریں کرے، مرحوم بلاشبہ صاف دل، نیک نیت انسان تھے اور نیک نام بھی۔ یہ بڑی بات ہے۔”

"نیک نامی میں کیا کلام ہے۔ مرحوم اگر یونہی منہ ہاتھ دھونے بیٹھ جاتے تو سب یہی سمجھتے کہ وضو کر رہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔” جملہ ختم ہونے سے پہلے مدّاح کی چمکتی چندیا یکایک ایک دھنسی ہوئی قبر میں غروب ہو گئی۔

اس مقام پر ایک تیسرے صاحب نے (جن سے میں واقف نہیں) کہا "روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ” والے لہجے میں نیک نیتی اور صاف دلی کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی پیدائشی بزدلی کے سبب تمام عمر گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بعضوں کے دل و دماغ واقعی آئینے کی طرح صاف ہوتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ یعنی نیک خیال آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔

شامتِ اعمال کہ میرے منہ سے نکل گیا "نیت کا حال صرف خدا پر روشن ہے مگر اپنی جگہ یہی کیا کم ہے کہ مرحوم سب کے دکھ سکھ میں شریک اور ادنیٰ سے ادنیٰ پڑوسی سے بھی جھک کر ملتے تھے۔”

ارے صاحب! یہ سنتے ہی وہ صاحب تو لال بھبھوکا ہو گئے۔ بولے "حضرات! مجھے خدائی کا دعویٰ تو نہیں۔ تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اکثر بوڑھے خرّانٹ اپنے پڑوسیوں سے محض اس خیال سے جھک کر ملتے ہیں کہ اگر وہ خفا ہو گئے تو کندھا کون دے گا۔”

خوش قسمتی سے ایک خدا ترس نے میری حمایت کی۔ میرا مطلب ہے مرحوم کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے، ماشا اللہ، اتنی لمبی عمر پائی۔ مگر صورت پر ذرا نہیں برستی تھی۔ چنانچہ سوائے کنپٹیوں کے اور بال سفید نہیں ہوئے۔ چاہتے تو خضاب لگا کے خوردوں میں شامل ہو سکتے تھے۔ مگر طبیعت ایسی قلندرانہ پائی تھی کہ خضاب کا کبھی جھوٹوں بھی خیال نہیں آیا۔

وہ صاحب سچ مچ پھٹ پڑے "آپ کو خبر بھی ہے؟ مرحوم کا سارا سر پہلے نکاح کے بعد ہی سفید گالا ہو گیا تھا۔ مگر کنپٹیوں کو قصداً سفید رہنے دیتے تھے تاکہ کسی کو شبہ نہ گزرے کہ خضاب لگاتے ہیں۔ سلور گرے قلمیں! یہ تو ان کے میک اپ میں ایک نیچرل ٹچ تھا!”

"ارے صاحب! اسی مصلحت سے انہوں نے اپنا ایک مصنوعی دانت بھی توڑ رکھا تھا” ایک دوسرے بد گو نے تابُوت میں آخری کیل ٹھونکی۔

"کچھ بھی سہی وہ ان کھوسٹوں سے ہزار درجے بہتر تھے جو اپنے پوپلے منہ اور سفید بالوں کی داد چھوٹوں سے یوں طلب کرتے ہیں، گویا یہ ان کی ذاتی جد و جہد کا ثمرہ ہے۔” مرزا نے بگڑی بات بنائی۔

اُن سے پیچھا چھڑا کر کچی پکی قبریں پھاندتا میں منشی ثناء اللہ کے پاس جا پہنچا، جو ایک کتبے سے ٹیک لگائے بیری کے ہرے ہرے پتے کچر کچر چبا رہے تھے اور اس امر پر بار بار اپنی حیرانی کا اظہار فرما رہے تھے کہ ابھی پرسوں تک تو مرحوم باتیں کر رہے تھے۔ گویا ان کے اپنے آداب جانکنی کی رُو سے مرحوم کو مرنے سے تین چار سال پہلے چپ ہو جانا چاہیے تھا، بھلا مرزا ایسا موقع کہاں خالی جانے دیتے تھے۔ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے، یاد رکھو! مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

یوں تو مرزا کے بیان کے مطابق مرحوم کی بیوائیں بھی ایک دوسرے کی چھاتی پر دو ہتّڑ مار مار کر بین کر رہی تھیں، لیکن مرحوم کے بڑے نواسے نے جو پانچ سال سے بے روزگار تھا، چیخ چیخ کر اپنا گلا بٹھا لیا تھا۔ منشی جی بیری کے پتوں کا رس چوس چوس کر جتنا اسے سمجھاتے پچکارتے، اتنا ہی وہ مرحوم کی پنشن کو یاد کر کے دھاڑیں مار مار کر روتا۔ اسے اگر ایک طرف حضرت عزرائیل سے گلہ تھا کہ انہوں نے تیس تاریخ تک انتظار کیوں نہ کیا تو دوسری طرف خود مرحوم سے بھی سخت شکوہ تھا

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور؟

ادھر منشی جی کا سارا زور اس فلسفے پر تھا کہ برخوردار! یہ سب نظر کا دھوکا ہے۔ در حقیقت زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں۔ کم از کم ایشیا میں۔ نیز مرحوم بڑے نصیبہ ور نکلے کہ دنیا کے بکھیڑوں سے اتنی جلدی آزاد ہو گئے۔ مگر تم ہو کہ ناحق اپنی جوان جان کو ہلکان کیے جا رہے ہو۔ یونانی مثل ہے کہ

وہی مرتا ہے جو محبُوبِ خُدا ہوتا ہے

حاضرین ابھی دل ہی دل میں حسد سے جلے جا رہے تھے کہ ہائے، مرحوم کی آئی ہمیں کیوں نہ آ گئی کہ دم بھر کو بادل کے ایک فالسئی ٹکڑے نے سورج کو ڈھک لیا اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ منشی جی نے یکبارگی بیری کے پتّوں کا پھوک نگلتے ہوئے اس کو مرحوم کے بہشتی ہونے کا غیبی شگون قرار دیا۔ لیکن مرزا نے بھرے مجمع میں سر ہلا ہلا کر اس پیشگوئی سے اختلاف کیا۔ میں نے الگ لے جا کر وجہ پوچھی تو ارشاد ہوا:

"مرنے کے لیے سنیچرکا دن بہت منحوس ہوتا ہے۔”

لیکن سب سے زیادہ پتلا حال مرحوم کے ایک دوست کا تھا، جن کے آنسو کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے کہ انھیں مرحوم سے دیرینہ ربط و رفاقت کا دعویٰ تھا۔ اِس رُوحانی یک جہتی کے ثبوت میں اکثر اس واقعے کا ذکر کرتے کہ بغدادی قاعدہ ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہم دونوں نے ایک ساتھ سگرٹ پینا سیکھا۔ چنانچہ اس وقت بھی صاحب موصوف کے بین سے صاف ٹپکتا تھا کہ مرحوم کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت داغ بلکہ دغا دے گئے اور بغیر کہے سنے پیچھا چھڑا کے چپ چپاتے جنت الفردوس کو روانہ ہو گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اکیلے ہی اکیلے!

بعد میں مرزا نے صراحتہً بتایا کہ باہمی اخلاص و یگانگت کا یہ عالم تھا کہ مرحوم نے اپنی موت سے تین ماہ پیشتر موصوف سے دس ہزار روپئے سکّہ رائج الوقت بطور قرض حسنہ لیے اور وہ تو کہیے، بڑی خیریّت ہوئی کہ اسی رقم سے تیسری بیوی کا مہر معجّل بیباق کر گئے ورنہ قیامت میں اپنے ساس سسر کو کیا منہ دکھاتے۔

 

(۲)

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ گنجان محلّوں میں مختلف بلکہ متضاد تقریبیں ایک دوسرے میں بڑی خوبی سے ضم ہو جاتی ہیں۔ گویا دونوں وقت مل رہے ہوں۔ چنانچہ اکثر حضرات دعوت ولیمہ میں ہاتھ دھوتے وقت چہلُم کی بریانی کی ڈکار لیتے، یا سویم میں شبینہ فتوحات کی لذیذ داستان سناتے پکڑے جاتے ہیں۔ لذّتِ ہمسایگی کا یہ نقشہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایک کوارٹر میں ہنی مون منایا جا رہا ہے تو رت جگا دیوار کے اس طرف ہو رہا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ دائیں طرف والے گھر میں آدھی رات کو قوال بلّیاں لڑا رہے ہیں، تو حال بائیں طرف والے گھر میں آ رہا ہے۔ آمدنی ہمسائے کی بڑھتی ہے تو اس خوشی میں ناجائز خرچ ہمارے گھر کا بڑھتا ہے اور یہ سانحہ بھی بارہا گزرا کہ مچھلی طرحدار پڑوسن نے پکائی اور

مدّتوں اپنے بدن سے تری خوشبو آئی

اس تقریبی گھپلے کا صحیح اندازہ مجھے دوسرے دن ہوا جب ایک شادی کی تقریب میں تمام وقت مرحوم کی وفات حسرت آیات کے تذکرے ہوتے رہے۔ ایک بزرگ نے، کہ صورت سے خود پا بہ رکاب معلوم ہوتے تھے، تشویش ناک لہجے میں پوچھا، آخر ہوا کیا؟ جواب میں مرحوم کے ایک ہم جماعت نے اشاروں کنایوں میں بتایا کہ مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہو گئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے۔ لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہو گیا تھا۔

"پھر بھی آخر ہوا کیا؟” پا بہ رکاب مرد بزرگ نے اپنا سوال دہرایا۔

"بھلے چنگے تھے۔ اچانک ایک ہچکی آئی اور جاں بحق ہو گئے” دوسرے بزرگ نے انگوچھے سے ایک فرضی آنسو پوچھتے ہوئے جواب دیا۔

"سنا ہے چالیس برس سے مرض الموت میں مبتلا تھے” ایک صاحب نے سوکھے سے مُنہ سے کہا۔

"کیا مطلب؟”

"چالیس برس سے کھانسی میں مبتلا تھے اور آخر اسی میں انتقال فرمایا۔”

"صاحب! جنّتی تھے کہ کسی اجنبی مرض میں نہیں مرے۔ ورنہ اب تو میڈیکل سائنس کی ترقی کا یہ حال ہے کہ روز ایک نیا مرض ایجاد ہوتا ہے۔”

"آپ نے گاندھی گارڈن میں اس بوہری سیٹھ کو کار میں چہل قدمی کرتے نہیں دیکھا جو کہتا ہے کہ میں ساری عمر دمے پر اتنی لاگت لگا چکا ہوں کہ اب اگر کسی اور مرض میں مرنا پڑا تو خدا کی قسم، خودکشی کر لوں گا۔ "مرزا چٹکلوں پر اتر آئے۔

"واللہ! موت ہو تو ایسی ہو! (سسکی) مرحوم کے ہونٹوں پر عالم سکرات میں بھی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔”

"اپنے قرض خواہوں کا خیال آ رہا ہو گا” مرزا میرے کان میں پھُسپھُسائے۔ "گنہ گاروں کا منہ مرتے وقت سؤرجیسا ہوتا ہے، مگر چشم بد دُور۔ مرحوم کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا۔”

"صاحب! سلیٹی رنگ کا گلاب ہم نے آج تک نہیں دیکھا” مرزا کی ٹھنڈی ٹھنڈی ناک میرے کان کو چھونے لگی اور ان کے منہ سے کچھ ایسی آوازیں نکلنے لگیں جیسے کوئی بچہ چمکیلے فرنیچر پر گیلی انگلی رگڑ رہا ہو۔

اصل الفاظ تو ذہن سے محو ہو گئے، لیکن اتنا اب بھی یاد ہے کہ انگوچھے والے بزرگ نے ایک فلسفیانہ تقریر کر ڈالی، جس کا مفہوم کچھ ایسا ہی تھا کہ جینے کا کیا ہے۔ جینے کو تو جانور بھی جی لیتے ہیں، لیکن جس نے مرنا نہیں سیکھا، وہ جینا کیا جانے، ایک متبسم خود سپردگی، ایک بے تاب آمادگی کے ساتھ مرنے کے لیے ایک عمر کا ریاض درکار ہے۔ یہ بڑے ظرف، بڑے حوصلے کا کام ہے، بندہ نواز!

پھر انہوں نے بے موت مرنے کے خاندانی نسخے اور ہنستے کھیلتے اپنی روح قبض کرانے کے پینترے کچھ ایسے استادانہ تیور سے بیان کیے کہ ہمیں عطائی مرنے والوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نفرت ہو گئی۔

خاتمۂ کلام اس پر ہوا کہ مرحوم نے کسی روحانی ذریعہ سے سن گن پالی تھی کہ میں سنیچر کو مر جاؤں گا۔

"ہر مرنے والے کے متعلّق یہی کہا جاتا ہے” با تصویر قمیض والا ٹیڈی بوائے بولا۔

"کہ وہ سنیچر کو مر جائے گا؟” مرزا نے اس بد لگام کا منہ بند کیا۔

انگوچھے والے بزرگ نے شئے مذکور سے، پہلے اپنے نری کے جوتے کی گرد جھاڑی، پھر پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے مرحوم کے عرفان مرگ کی شہادت دی کہ جنت مکانی نے وصال سے ٹھیک چالیس دن پہلے مجھ سے فرمایا تھا کہ انسان فانی ہے!

انسان کے متعلق یہ تازہ خبر سن کر مرزا مجھے تخلیے میں لے گئے۔ در اصل تخلیے کا لفظ انھوں نے استعمال کیا تھا، ورنہ جس جگہ وہ مجھے دھکیلتے ہوئے لے گئے، وہ زنانے اور مردانے کی سرحد پر ایک چبوترہ تھا، جہاں ایک میراثن گھونگھٹ نکالے ڈھولک پر گالیاں گا رہی تھی۔ وہاں انھوں نے اس شغف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو مرحوم کو اپنی موت سے تھا، مجھے آگاہ کیا کہ یہ ڈراما تو جنت مکانی اکثر کھیلا کرتے تھے۔ آدھی آدھی راتوں کو اپنی ہونے والی بیواؤں کو جگا کر دھمکیاں دیتے کہ میں اچانک اپنا سایہ تمھارے سر سے اٹھا لوں گا۔ چشم زون میں مانگ اجاڑ دوں گا۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے بھی کہا کرتے کہ و اللہ! اگر خود کشی جرم نہ ہوتی تو کبھی کا اپنے گلے میں پھندا ڈال لیتا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ اپنے آپ کو مردہ تصور کر کے ڈکرانے لگتے اور چشم تصور سے منجھلی کے سونٹا سے ہاتھ دیکھ کر کہتے: بخدا! میں تمہارا رنڈاپا نہیں دیکھ سکتا۔ مرنے والے کی ایک ایک خوبی بیان کر کے خشک سسکیاں بھرتے اور سسکیوں کے درمیان سگرٹ کے کش لگاتے اور جب اس عمل سے اپنے اوپر وقت طاری کر لیتے تو رو مال سے بار بار آنکھ کے بجائے اپنی ڈبڈبائی ہوئی ناک پونچھتے جاتے۔ پھر جب شدت گریہ سے ناک سرخ ہو جاتی تو ذرا صبر آتا اور وہ عالم تصّور میں اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے تینوں بیواؤں کی مانگ میں یکے بعد دیگرے ڈھیروں افشاں بھرتے۔ اس سے فارغ ہو کر ہر ایک کو کہنیوں تک مہین مہین، پھنسی پھنسی چوڑیاں پہناتے (بیاہتا کو چوڑیاں کم پہناتے تھے)۔

حالانکہ اس سے پہلے بھی مرزا کو کئی مرتبہ ٹوک چکا تھا کہ خاقانیِ ہند استاد ذوقؔ ہر قصیدے کے بعد منہ بھر بھر کے کُلّیاں کیا کرتے تھے۔ تم پر ہر کلمے، ہر فقرے کے بعد واجب ہیں، لیکن اس وقت مرحوم کے بارے میں یہ اول جلول باتیں اور ایسے واشگاف لہجے میں سن کر میری طبیعت کچھ زیادہ ہی منغّض ہو گئی۔ میں نے دوسروں پر ڈھال کر مرزا کو سُنائی:

"یہ کیسے مسلمان ہیں مرزا! دعائے مغفرت نہیں کرتے، نہ کریں۔ مگر ایسی باتیں کیوں بناتے ہیں یہ لوگ؟”

"خلق خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے۔ لوگوں کا منہ تو چہلم کے نوالے ہی سے بند ہوتا ہے۔ ”

 

(۳)

مجھے چہلم میں بھی شرکت کا اتفاق ہوا۔ لیکن سوائے ایک نیک طینت مولوی صاحب کے جو پلاؤ کے چاولوں کی لمبائی اور گلاوٹ کو مرحوم کے ٹھیٹ جنّتی ہونے کی نشانی قرار دے رہے تھے، بقیہ حضرات کی گل افشانی گفتار کا وہی انداز تھا۔ وہی جگ جگے تھے، وہی چہچہے!

ایک بزرگوار جو نان قورمے کے ہر آتشیں لقمے کے بعد آدھا آدھا گلاس پانی پی کر قبل از وقت سیر بلکہ سیراب ہو گئے تھے، منہ لال کر کے بولے کہ مرحوم کی اولاد نہایت نا خلف نکلی۔ مرحوم و مغفور شدومد سے وصیت فرما گئے تھے، کہ میری مٹی بغداد لے جائی جائے۔ لیکن نافرمان اولاد نے ان کی آخری خواہش کا ذرا پاس نہ کیا۔

اس پر ایک منہ پھٹ پڑوسی بول اٹھے "صاحب! یہ مرحوم کی سراسر زیادتی تھی کہ انہوں نے خود تو تا دم مرگ میونسپل حدود سے قدم باہر نہیں نکالا۔ حد یہ کہ پاسپوڑٹ تک نہیں بنوایا اور۔۔ ۔۔”

ایک وکیل صاحب نے قانونی موشگافی کی "بین الاقوامی قانون کے بموجب پاسپورٹ کی شرط صرف زندوں کے لیے ہے۔ مردے پاسپورٹ کے بغیر بھی جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔”

"لے جائے جا سکتے ہیں” مرزا پھر لقمہ دے گئے۔

"میں کہہ رہا تھا کہ یوں تو ہر مرنے والے کے سینے میں یہ خواہش سلگتی رہتی ہے کہ میرا کانسی کا مجسّمہ (جسے قدِ آدم بنانے کے لیے بسا اوقات اپنی طرف سے پورے ایک فٹ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے) میونسپل پارک کے بیچوں بیچ استادہ کیا جائے اور۔۔ ۔۔ ۔”

"اور جملہ نازنینان شہر چار مہینے دس دن تک میرے لاشے کو گود میں لیے، بال بکھرائے بیٹھی رہیں” مرزا نے دوسرا مصرع لگایا۔

"مگر صاحب! وصّیتوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ چھٹپن کا قصّہ ہے۔ پیپل والی حویلی کے پاس ایک جھونپڑی میں 39ء تک ایک افیمی رہتا تھا۔ ہمارے محتاط اندازے کے مطابق عمر 66 سال سے کسی طرح کم نہ ہو گی، اس لیے کہ خود کہتا تھا کہ پینسٹھ سال سے تو افیم کھا رہا ہوں۔ چوبیس گھنٹے انٹا غفیل رہتا تھا۔ ذرا نشہ ٹوٹتا تو مغموم ہو جاتا۔ غم یہ تھا کہ دنیا سے بے اولادا جا رہا ہوں۔ اللہ نے کوئی اولاد دیرینہ نہ دی جو اس کی بان کی چارپائی کی جائز وارث بن سکے! اس کے متعلق محلے میں مشہور تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے نہیں نہایا ہے۔ اس کو اتنا تو ہم نے بھی کہتے سنا کہ خدا نے پانی صرف پینے کے لیے بنایا تھا مگر انسان بڑا ظالم ہے

راحتیں اور بھی ہیں غُسل کی راحت کے سوا

ہاں تو صاحب! جب اس کا دم آخر ہونے لگا تو محلے کی مسجد کے امام کا ہاتھ اپنے ڈوبتے دل پر رکھ کر یہ قول و قرار کیا کہ میری میت کو غسل نہ دیا جائے۔ بس پولے پولے ہاتھوں سے تیمّم کرا کے کفنا دیا جائے ورنہ حشر میں دامن گیر ہوں گا۔ ”

وکیل صاحب نے تائید کرتے ہوئے فرمایا "اکثر مرنے والے اپنے کرنے کے کام پسماندگان کو سونپ کر ٹھنڈے ٹھنڈے سدھار جاتے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں دیوانی عدالتیں بند ہونے سے چند یوم قبل ایک مقامی شاعر کا انتقال ہوا۔ واقعہ ہے کہ ان کے جیتے جی کسی فلمی رسالے نے بھی ان کی عُریاں نظموں کو شرمندۂ طباعت نہ کیا۔ لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ مرحوم اپنے بھتیجے کو ایصال ثواب کی یہ راہ سُجھا گئے کہ بعد مُردن میرا کلام حنائی کاغذ پر چھپوا کر سال کے سال میری برسی پر فقیروں اور مدیروں کو بلا ہدیہ تقسیم کیا جائے۔

پڑوسی کی ہمت اور بڑھی "اب مرحوم ہی کو دیکھیے۔ زندگی میں ہی ایک قطعۂ اراضی اپنی قبر کے لیے بڑے ارمانوں سے رجسٹری کرا لیا تھا گو کہ بچارے اس کا قبضہ پورے بارہ سال بعد لے پائے۔ نصیحتوں اور وصیتوں کا یہ عالم تھا کہ موت سے دس سال پیشتر اپنے نواسوں کے ایک فہرست حوالے کر دی تھی، جس میں نام بنام لکھا تھا کہ فلاں ولد فلاں کو میرا منہ نہ دکھایا جائے۔ (جن حضرات سے زیادہ آزردہ خاطر تھے، ان کے نام کے آگے ولدیت نہیں لکھی تھی۔) تیسری شادی کے بعد انہیں اس کا طویل ضمیمہ مرتب کرنا پڑا، جس میں تمام جوان پڑوسیوں کے نام شامل تھے۔”

"ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ مرحوم نہ صرف اپنے جنازے میں شرکا کی تعداد متعین کر گئے بلکہ آج کے چہلم کا ’مینو’ بھی خود ہی طے فرما گئے تھے۔” وکیل نے خاکے میں شوخ رنگ بھرا۔

اس نازک مرحلے پر خشخشی داڑھی والے بزرگ نے پلاؤ سے سیر ہو کر اپنے شکم پر ہاتھ پھیرا اور ’مینو’ کی تائید و توصیف میں ایک مسلسل ڈکار داغی، جس کے اختتام پر اس معصوم حسرت کا اظہار فرمایا کہ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تو یہ انتظامات دیکھ کر کتنے خوش ہوتے!

اب پڑوسی نے تیغ زبان کو بے نیام کیا "مرحوم سدا سے سُوء ہضم کے مریض تھے۔ غذا تو غذا، بچارے کے پیٹ میں بات تک نہیں ٹھیرتی تھی۔ چٹ پٹی چیزوں کو ترستے ہی مرے۔ میرے گھر میں سے بتا رہی تھیں کہ ایک دفعہ ملیریا میں سرسام ہو گیا اور لگے بہکنے۔ بار بار اپنا سر منجھلی کے زانو پر پٹختے اور سہاگ کی قسم دلا کر یہ وصیت کرتے تھے کہ ہر جمعرات کو میری فاتحہ، چاٹ اور کنواری بکری کی سری پر دلوائی جائے۔”

مرزا پھڑک ہی تو گئے۔ ہونٹ پر زبان پھیرتے ہوئے بولے "صاحب! وصیتوں کی کوئی حد نہیں۔ ہمارے محلے میں ڈیڑھ پونے دو سال پہلے ایک اسکول ماسٹر کا انتقال ہوا، جنھیں میں نے عید بقر عید پر بھی سالم و ثابت پاجامہ پہنے نہیں دیکھا۔ مگر مرنے سے پہلے وہ بھی اپنے لڑکے کو ہدایت کر گئے کہ

پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا!

لیکن حضور ابّا کی آخری وصیت کے مطابق فیض کے اسباب بنانے میں لڑکے کی مفلسی کے علاوہ ملک کا قانون بھی مزاحم ہوا۔”

"یعنی کیا؟” وکیل صاحب کے کان کھڑے ہوئے۔

"یعنی یہ کہ آج کل پُل بنانے کی اجازت صرف پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کو ہے۔ اور بالفرض محال کرچی میں چار فٹ گہرا کنواں کھود بھی لیا تو پولیس اس کا کھاری کیچڑ پینے والوں کا چالان اقدام خود کشی میں کر دے گی۔ یوں بھی پھٹیچر سے پھٹیچر قصبے میں آج کل کنویں صرف ایسے ویسے موقعوں پر ڈوب مرنے کے لیے کام آتے ہیں۔ رہے تالاب، تو حضور! لے دے کے ان کا یہ مصرف رہ گیا ہے کہ دن بھر ان میں گاؤں کی بھینسیں نہائیں اور صبح جیسی آئی تھیں، اس سے کہیں زیادہ گندی ہو کر چراغ جلے باڑے میں پہنچیں۔ ”

خدا خدا کر کے یہ مکالمہ ختم ہوا تو پٹاخوں کا سلسلہ شروع ہو گیا:

"مرحوم نے کچھ چھوڑا بھی؟”

"بچے چھوڑے ہیں!”

"مگردوسرا مکان بھی تو ہے۔”

"اس کے کرایے کو اپنے مرزا کی سالانہ مرمت سفیدی کے لیے وقت کر گئے ہیں۔”

"پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ بیاہتا بیوی کے لیے ایک انگوٹھی بھی چھوڑی ہے۔ اگر اس کا نگینہ اصلی ہوتا تو کسی طرح بیس ہزار سے کم کی نہیں تھی۔”

"تو کیا نگینہ جھوٹا ہے؟”

"جی نہیں۔ اصلی امی ٹیشن ہے!”

"اور وہ پچاس ہزار کی انشورنس پالیسی کیا ہوئی؟”

"وہ پہلے ہی منجھلی کے مہر میں لکھ چکے تھے۔”

"اس کے بارے میں یار لوگوں نے لطیفہ گھڑ رکھا ہے کہ منجھلی بیوہ کہتی ہے کہ سرتاج کے بغیر زندگی اجیرن ہے۔ اگر کوئی ان کو دوبارہ زندہ کر دے تو میں بخوشی دس ہزار لوٹانے پر تیار ہوں۔”

"مرحوم اگر ایسا کرتے ہیں تو بالکل ٹھیک کرتے ہیں۔ ابھی تو ان کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہو گا۔ مگر سننے میں آیا ہے کہ منجھلی نے رنگے چنے دوپٹے اوڑھنا شروع کر دیا ہے۔”

"اگر منجھلی ایسا کرتی ہے تو بالکل ٹھیک کرتی ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ایک زمانے میں لکھنؤ کے نچلے طبقے میں یہ رواج تھا کہ چالیسویں پر نہ صرف انواع و اقسام کے پر تکلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا، بلکہ بیوہ بھی سولہ سنگھار کر کے بیٹھتی تھی تاکہ مرحوم کی ترسی ہوئی روح کماحقہ، متمتّع ہو سکے۔” مرزا نے ’ح’ اور ’ع’ صحیح مخرج سے ادا کرتے ہوئے مَرے پر آخری دُرّہ لگایا۔

واپسی پر راستے میں میں نے مرزا کو آڑے ہاتھوں لیا "جمعہ کو تم نے وعظ نہیں سنا؟ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ مَرے ہوؤں کا ذکر کرو تو اچھائی کے ساتھ۔ موت کو نہ بھولو کہ ایک نہ ایک دن سب کو آنی ہے۔”

سڑک پار کرتے کرتے ایک دم بیچ میں اکڑ کر کھڑے ہو گئے۔ فرمایا "اگر کوئی مولوی یہ ذمّہ لے لے کہ مرنے کے بعد میرے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ لکھا جائے گا تو آج ہی۔۔ ۔۔ اِسی وقت، اِسی جگہ مرنے کے لیے تیآر ہوں۔ تمہاری جان کی قس سم!”

آخری فقرہ مرزا نے ایک بے صبری کار کے بمپر پر تقریباً اکڑوں بیٹھ کر جاتے ہوئے ادا کیا۔

(جولائی 1961ء)

 

 

چند تصویرِ بُتاں

 

 

سِیکھے ہیں مۂ رُخوں کے لئے۔۔ ۔۔ ۔

 

رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی نے اپنی شاعری کے تین رنگ بتائے ہیں۔ فاسقانا، عاشقانہ اور عارفانہ۔ مولانا کی طرح چکی کی مشقت تو بڑی بات ہے، مرزا عبد الودود بیگ نے تو مشق سخن سے بھی ذہن کو گراں بار نہیں کیا۔ تاہم وہ بھی اپنے فن (فوٹو گرافی) کو انھیں تین مہلک ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے یہاں یہ ترتیب بالکل الٹی ہے۔ رہا ہمارا معاملہ، تو ابھی ہم رُوسو کی طرح اتنے بڑے آدمی نہیں ہوئے کہ اپنے اوپر علانیہ فسق و فجور کی تہمت لگانے کے بعد بھی اپنے اور پولیس کے درمیان ایک با عزت فاصلہ قائم رکھ سکیں۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ مرزا کی طرح ہم بھی ہلاک فن ہیں اور ہمارا ناتا بھی اس فن سے اتنا ہی پرانا ہے۔ کیونکہ جہاں تک یاد پڑتا ہے، تختی پر "قلم گوید کی من شاہ جہانم” لکھ لکھ کر خود کو گمراہ کرنے سے پہلے ہم ڈک براؤنی کیمرے کا بٹن دبانا سیکھ چکے تھے۔ لیکن جس دن سے مرزا کی ایک ننگی کھلی تصویر (جسے وہ فیگر اسٹڈی کہتے ہیں) کو لندن کے ایک رسالے نے زیور طباعت سے آراستہ کیا، ہماری بے ہنری کے نئے نئے پہلو ان پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔

مرزا جب سے بولنا سیکھے ہیں، اپنی زبان کو ہماری ذات پر ورزش کراتے رہتے ہیں۔ اور اکثر تلمیح و استعارے سے معمولی گالی گلوج میں ادبی شان پیدا کر دیتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے۔ کہنے لگے، یار! برا نہ ماننا۔ تمہارے فن میں کوئی کروٹ، کوئی پیچ، میرا مطلب ہے، کوئی موڑ نظر نہیں آتا۔ ہم نے کہا، پلاٹ تو اردو ناولوں میں ہوا کرتا ہے۔ زندگی میں کہاں؟ بولے ہاں، ٹھیک کہتے ہو۔ تمہاری عکاسی بھی تمہاری زندگی ہی کا عکس ہے۔ یعنی اول تا آخر خواری کا ایک نہ قابل تقلید اسلوب!

ہر چند کہ یہ کمال نے نوازی ہمارے کچھ کام نہ آیا۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ مرزا جیسے فرزانے کان پکڑتے ہیں اور ہماری حقیر زندگی کو اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اسے سامنے رکھ کر اپنی اولاد کو عبرت دلاتے ہیں، تنبیہ و فہمائش کرتے ہیں۔ ان صفحات میں ہم اپنے اسلوب حیات کی توجیہ و تشریح کر کے پڑھنے والوں کے ہاتھ میں کلید ناکامی نہیں دینا چاہتے۔ البتہ اتنا ضرور عرض کریں گے کہ مرزا کی طرح ہم اپنی نالائقی کو ارتقائی ادوار میں تقسیم تو نہیں کر سکتے ہیں، لیکن جو حضرات ہمارے شوق منفعل کی داستان پڑھنے کی تاب رکھتے ہیں، وہ دیکھیں گے کہ ہم سدا سے حاجیوں کے پاسپورٹ فوٹو اور تاریخی کھنڈروں کی تصویریں ہی نہیں کھینچتے رہے ہیں۔

 

گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پربھی

 

لیکن ہم کس شمار قطار میں ہیں۔ مرزا اپنے آگے بڑے بڑے فوٹو گرافروں کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ ایک دن ہم نے پوچھا، مرزا! دنیا میں سب سے بڑا فوٹو گرافر کون ہے؟ یوسف کارش یا سیسل بیٹن؟ مسکراتے ہوئے بولے، تم نے وہ حکایت نہیں سنی کسی نادان نے مجنوں سے پوچھا، خلافت پر حق حضرت حسین کا ہے یا یزید لئین کا؟ اگر سچ پوچھو تو لیلیٰ کا ہے!

ادھر چند سال سے ہم نے یہ معمول بنا لیا ہے کہ ہفتہ بھر کی اعصابی شکست و ریخت کے بعد اتوار کو مکمل "سبت ” مناتے ہیں۔ اور سنیچر کی مرادوں بھری شام سے سوموار کی منحوس صبح تک ہر وہ فعل اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں، جس میں کام کا ادنیٰ شائبہ یا کمائی کا ذرا بھی اندیشہ ہو۔ چھ دن دنیا کے، ایک دن اپنا۔ (مرزا تو اتوار کے دن اتنا آزاد اور کھلا کھلا محسوس کرتے ہیں کہ فجر کی نماز کے بعد دعا نہیں مانگتے۔ اور پیر کے تصور سے ان کا جی اتنا الجھتا ہے کہ ایک دن کہنے لگے، اتوار اگر پیر کے دن ہوا کرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا!) یہ بات نہیں کہ ہم محنت سے جی چراتے ہیں۔ جس شغل(فوٹو گرافی) میں اتوار گزرتا ہے، اس میں تو محنت اتنی ہی پڑتی ہے جتنی دفتری کام میں۔ لیکن فوٹو گرافی میں دماغ بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اور ’ماڈل’ اگر نچلے نہ بیٹھنے والے بچے ہوں تو نہ صرف زیادہ بلکہ بار بار استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے مرزا نے اب ہمیں چند استادانہ گر سکھا دیئے ہیں۔ مثلاً ایک تو یہی کہ پرندوں اور بچوں کی تصویر کھینچتے وقت صرف آنکھ پر فوکس کرنا چاہئیے۔ کہ ان کی ساری شخصیت کھنچ کر آنکھ کی چمک میں آ جاتی ہے۔ اور جس دن ان کی آنکھ میں یہ چمک نہ رہی، دنیا اندھیر ہو جائے گی۔ دوسرے یہ کہ جس بچے پر تمہیں پیار نہ آئے اس کی تصویر ہرگز نہ کھینچو۔ فرانس میں ایک نفاست پسند مصور گزرا ہے جو نجیب الطرفین گھوڑوں کی تصویریں پینٹ کرنے میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔ نشاط فن اسے اس درجہ عزیز تھا کہ جو گھوڑا دوغلا یا بیس ہزار فرینک سے کم قیمت کا ہو، اس کی تصویر ہرگز نہیں بناتا تھا، خواہ اس کا مالک بیس ہزار محنتانہ ہی کیوں پیش کرے۔

مہینہ یاد نہیں رہا۔ غالباً دسمبر تھا۔ دن البتہ یاد ہے، اس لئے کہ اتوار تھا۔ اور مذکورہ بالا زریں اصولوں سے لیس، ہم اپنے اوپر ہفتہ وار خود فراموشی طاری کیے ہوئے تھے۔ گھر میں ہمارے عزیز ہم سایے کی بچی ناجیہ، اپنی سیفو (سیامی بلی) کی قد آدم تصویر کھنچوانے آئی ہوئی تھی۔ قد آدم سے مراد شیر کے برابر تھی۔ کہنے لگی، “انکل! جلدی سے ہماری بلی کا فوٹو کھینچ دیجیے۔ ہم اپنی گڑیا کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں۔ کل صبح سے بے چاری کے پیٹ میں درد ہے۔ جبھی تو کل ہم اسکول نہیں گئے۔ "ہم نے جھٹ پٹ کیمرے میں تیز رفتار فلم ڈالی۔ تینوں “فلڈ لیمپ” ٹھکانے سے اپنی اپنی جگہ رکھے۔ پھر بلی کو دبوچ دبوچ کے میز پر بٹھایا۔ اور اس کے منھ پر مسکراہٹ لانے کے لئے ناجیہ پلاسٹک کا چوہا ہاتھ میں پکڑے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ہم بٹن دبا کر 1/100 سیکنڈ میں اس مسکراہٹ کو بقائے دوام بخشنے والے تھے کہ پھاٹک کی گھنٹی اس زور سے بجی کہ سیفو اچھل کر کیمرے پر گری اور کیمرہ قالین پر۔ ہر دو کو اسی حالت میں چھوڑ کر ہم نا وقت آنے والوں کے استقبال کو دوڑے۔

 

حج کا ثواب نذر کُروں گا حضُور کی

 

پھاٹک پر شیخ محمد شمس الحق کھڑے مسکرا رہے تھے۔ ان کے پہلو سے روئی کے دگلے میں ملفوف و مستور ایک بزرگ ہویدا ہوئے، جن پر نظر پڑتے ہی ناجیہ تالی بجا کے کہنے لگی

"ہائے! کیسا کیوٹ سینٹا کلاز ہے!”

یہ شیخ محمد شمس الحق کے ماموں جان قبلہ نکلے، جو حج کو تشریف لے جا رہے تھے اور ہمیں ثواب دارین میں شریک کرنے کے لئے موضع چاکسو (خورد) سے اپنا پاسپورٹ فوٹو کھنچوانے آئے تھے۔

"ماموں جان تو بضد تھے کہ فوٹو گرافر کے پاس لے چلو۔ بلا سے پیسے لگ جائیں، تصویر تو ڈھنگ کی آئے گی۔ بڑی مشکلوں سے رضا مند ہوئے ہیں یہاں آنے پر” انہوں نے شان نزول اجلال بیان کی۔

ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی شیخ محمد شمس الحق صاحب کے ماموں جان قبلہ دیواروں پر قطار اندر قطار آویزاں تصویر بتاں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے لگے۔ ہر تصویر کو دیکھنے کے بعد مڑ کر ایک دفعہ ہماری صورت ضرور دیکھتے۔ پھر دوسری تصویر کی باری آتی۔ اور ایک دفعہ پھر ہم پر وہ نگاہ ڈالتے، جو کسی طرح غلط انداز نہ تھی۔ جیسی نظروں سے وہ یہ تصویریں دیکھ رہے تھے، ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ صاحب نظر کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے کلدار روپے پر بنی ہوئی ملکہ وکٹوریہ کے بعد کسی عورت کی تصویر نہیں دیکھی۔ ایک بانکی سی تصویر کو ایک ذرا قریب جا کر دیکھا۔ لاحول پڑھی۔ اور پوچھا، یہ آپ کے لڑکے نے کھینچی ہے؟ عرض کیا، جی، نہیں! وہ تو تین سال سے ساتویں میں پڑھ رہا ہے۔ بولے ہمارا بھی یہی خیال تھا، مگر احتیاطاً پوچھ لیا۔

شیخ محمد شمس الحق صاحب کے ماموں جان قبلہ (اپنی اور کاتب کی سہولت کے مد نظر آئندہ انہیں فقط ’ماموں’ لکھا جائے گا۔ جن قارئین کو ہمارا اختصار ناگوار گزرے، وہ ہر دفعہ ’ماموں’ کے بجائے شیخ محمد شمس الحق صاحب کے ماموں جان قبلہ، پڑھیں) ہماری رہبری کے لئے اپنے تایا ابا مرحوم کی ایک مٹی مٹائی تصویر ساتھ لائے تھے۔ شیشم کے فریم کو حنائی انگوچھے سے جھاڑتے ہوئے بولے "ایسی کھینچ دیجیے”۔ ہم نے تصویر کو غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ماموں کے عمّ بزرگوار بھی وہی روئی کا دگلا پہنے کھڑے ہیں، جس پر الٹی کیریاں بنی ہوئی ہیں۔ تلوار کو بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جھاڑو کی طرح۔ عرض کیا، قبلہ! پاس پورٹ فوٹو میں تلوار کی اجازت نہیں۔ فرمایا، آپ کو ہمارے ہاتھ میں تلوار نظر آ رہی ہے؟ ہم بہت خفیف ہوئے۔ اس لئے کہ ماموں کے ہاتھ میں واقعی کچھ نہ تھا۔ بجز ایک بے ضرر گلاب کے، جسے سونگھتے ہوئے وہ پاسپورٹ فوٹو کھنچوانا چاہتے تھے۔

ماموں کے کان ’ط’ کی مانند تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ باہر کو نکلے ہوئے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جسمانی عیوب کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ در حقیقت اس تشبیہ سے ہمیں کانوں کی افادیت دکھانی مقصود ہے۔ کیوں کہ خدا نخواستہ کانوں کی ساخت ایسی نہ ہوتی تو ان کی ترکی ٹوپی سارے چہرے کو ڈھانک لیتی۔ ابتدائی تیاریوں کے بعد بڑی منتوں سے انہیں فوٹو کے لئے کرسی پر بٹھایا۔ کسی طرح نہیں بیٹھتے تھے۔ کہتے تھے "بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کھڑے رہیں اور میں بیٹھ جاؤں۔” خدا خدا کر کے وہ بیٹھے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی گردن ہلتی ہے۔ ظاہر ہے، ہمیں فطری رعشے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اصل مصیبت یہ تھی کہ گردن اگر دو سیکنڈ ہلتی تو ٹوپی کا پھندنا دو منٹ تک ہلتا رہتا۔ ہر دو عمل کے ایک نایاب وقفے میں ہم نے "ریڈی "کہا تو گویا عالم ہی کچھ اور تھا۔ ایک دم اکڑ گئے اور ایسے اکڑے کہ جسم پر کہیں بھی ہتھوڑی مار کر دیکھیں تو ٹن ٹن آواز نکلے۔ ڈیڑھ دو منٹ بعد تیسری دفعہ ’ریڈی’ کہہ کر کیمرے کے دید بان (VIEW-FINDER) سے دیکھا تو چہرے سے خوف آنے لگا۔ گردن پر ایک رسّی جیسی رگ نہ جانے کہاں سے ابھر آئی تھی۔ چہرہ لال۔ آنکھیں اس سے زیادہ لال۔ یکلخت ایک عجیب آواز آئی۔ اگر ہم ان کے منہ کی طرف نہ دیکھ رہے ہوتے تو یقیناً یہی سمجھتے کہ کسی نے سائیکل کی ہوا نکال دی ہے۔

"اب تو سانس لے لوں؟ "سارے کمرے کی ہوا اپنی ناک سے پمپ کرتے ہوئے پوچھنے لگے۔ اب سوال یہ نہیں تھا کہ تصویر کیسی اور کس پوز میں کھینچی جائے۔ سوال یہ تھا کہ ان کا عمل تنفّس کیوں کر برقرار رکھّا جائے کہ تصویر بھی کھنچ جائے اور ہم قتل عمد کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ اپنی نگرانی میں انہیں دو چار ہی سانس لوائے تھے کہ مسجد سے مؤذّن کی صدا بلند ہوئی۔ اور پہلی ’اللہ اکبر’ کے بعد، مگر دوسری سے پہلے، ماموں کرسی سے ہڑبڑا کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ شیشے کے جگ سے وضو کیا۔ پوچھا، قبلہ کس طرف؟ ہمارے منہ سے نکل گیا مغرب کی طرف۔ فرمایا، ہمارا بھی یہی خیال تھا، مگر احتیاطاً پوچھ لیا۔ اس کے بعد جا نماز طلب کی۔

ماموں نے پلنگ پوش پر ظہر کی نماز قائم کی۔ آخر میں بآواز بلند دعا مانگی، جسے وہ لوگ، جن کا ایمان قدرے ضعیف ہو، فرمائشوں کی فہرست کہہ سکتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو ہمیں مخاطب کر کے بڑی نرمی سے بولے "چار فرضوں کے بعد دو سنّتیں پڑھی جاتی ہیں۔ تین سنّتیں کسی نماز میں نہیں پڑھی جاتیں۔ کم از کم مسلمانوں میں!”

دوسرے کمرے میں طعام و قیلولہ کے بعد چاندی کی خلال سے حسب عادت قدیم اپنے مصنوعی دانتوں کی ریخیں کریدتے ہوئے بولے، "بیٹا! تمہاری بیوی بہت سگھڑ ہے۔ گھر بہت ہی صاف ستھرا رکھتی ہے۔ بالکل ہسپتال لگتا ہے۔” اس کے بعد ان کی اور ہماری مشترکہ ’جانکنی’ پھر شروع ہوئی۔ ہم نے کہا "اب تھوڑا رلیکس (RELAX) کیجئے۔” بولے، "کہاں کروں؟ ” کہا،”میرا مطلب ہے، بدن ذرا ڈھیلا چھوڑ دیجیے۔ اور یہ بھول جائیے کہ آپ کیمرے کے سامنے بیٹھے ہیں۔” بولے، "اچھا! یہ بات ہے!”فوراً بندھی ہوئی مٹھیاں کھول دیں۔ آنکھیں جھپکائیں اور پھیپھڑوں کو اپنا قدرتی فعل پھر شروع کرنے کی اجازت دی۔ ہم نے اس "نیچرل پوز” سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے دوڑ دوڑ کر ہر چیز کو آخری "ٹچ ” دیا، جس میں یہ بندھا ٹکا فقرہ بھی شامل تھا، "ادھر دیکھئیے میری طرف۔ ذرا مسکرائیے!”۔ بٹن دبا کر ہم "شکریہ ” کہنے والے تھے کہ یہ دیکھ کر ایرانی قالین پیروں تلے سے نکل گیا کہ وہ ہمارے کہنے سے پہلے ہی خدا جانے کب سے رلیکس کرنے کی غرض سے اپنی بتّیسی ہاتھ میں لے ہنسے چلے جا رہے تھے۔ ہم نے کہا "صاحب! اب نہ ہنسیے!” بولے "تو پھر آپ سامنے سے ہٹ جائیے!”

ہمیں ان کے سامنے سے ہٹنے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کرنا پڑا۔ اس لئے کہ اُسی وقت ننھی ناجیہ دوڑی دوڑی آئی اور ہماری آستین کا کونہ کھینچتے ہوئے کہنے لگی "انکل! ہری اپ! پلیز! جا نماز پہ بلّی پنجوں سے وضو کر رہی ہے! ہائے اللہ! بڑی کیوٹ لگ رہی ہے!”

پھر ہم اس منظر کی تصویر کھینچنے اور ماموں لاحول پڑھنے لگے۔

اگلے اتوار کو ہم پروفیسرقاضی عبد القدوس کے فوٹو کی”ری ٹچنگ”میں جٹے ہوئے تھے۔ پتلون کی پندرھویں سلوٹ پر کلف استری کر کے اب ہم ہونٹ کا مسّا چھپانے کے لیے صفر نمبر کے برش سے مونچھ بنانے والے تھے کہ اتنے میں ماموں اپنی تصویریں لینے آ دھمکے۔ تصویریں کیسی آئیں، اس کے متعلّق ہم اپنے منہ سے کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ مکالمہ خود چٹاخ پٹاخ بول اٹھے گا:

"ہم ایسے ہیں؟”

"کیا عرض کروں!”

"تمہیں کس نے سکھایا تصویر کھینچنا؟”

"جی! خود ہی کھینچنے لگ گیا۔ ”

"ہمارا بھی یہی خیال تھا مگر احتیاطاً پوچھ لیا۔”

"آخر تصویر میں کیا خرابی ہے؟”

"ہمارے خیال میں یہ ناک ہماری نہیں ہے۔”

ہم نے انہیں مطّلع کیا کہ اُن کے خیال اور ان کی ناک میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے یہ جاننا چاہا کہ اگر تصویر کو خوب بڑا کیا، تب بھی ناک چھوٹی نظر آئے گی کیا؟

 

پندِ سُود مند

 

دوسرے دن مرزا ایک نئی طرز کے ہوٹل "مانٹی کارلو "کے بال روم میں اتاری ہوئی تصویریں دکھانے آئے۔ اور ہر تصویر پر ہم سے اس طرح داد وصول کی جیسے مرہٹے چوتھ وصول کیا کرتے تھے۔ یہ اسپین کی ایک اسٹرپ ٹنر ڈانسر (جسے مرزا اندلوسی رقاصہ کہے چلے جا رہے تھے) کی تصویریں تھیں، جنہیں برہنہ تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس لئے کہ سفید دستانے پہنے ہوئے تھی۔ گرم کافی اور تحسین نا شناس سے ان کی طبیعت میں انشراح پیدا ہونے لگا تو موقع غنیمت جان کر ہم نے ماموں کی زیادتیاں گوش گزار کیں اور مشورہ طلب کیا۔ اب مرزا میں بڑی پرانی کمزوری یہ ہے کہ ان سے کوئی مشورہ مانگے تو ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے سچ مچ مشورہ ہی دینے لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ہماری صورت میں کوئی ایسی بات ضرور ہے کہ ہر شخص کا بے اختیار نصیحت کو جی چاہتا ہے۔ چنانچہ پھر شروع ہو گئے:

"صاحب! آپ کو فوٹو کھینچنا آتا ہے، فوٹو کھنچوانے والوں سے نمٹنا نہیں آتا۔ سلامتی چاہتے ہو تو کبھی اپنے سامنے فوٹو دیکھنے کا موقع نہ دو۔ بس دبیز لفافے میں بند کر کے ہاتھ میں تھما دو اور چلتا کرو۔ وکٹوریہ روڈ کے چورا ہے پر جو فوٹو گرافر ہے۔ لہسنیا داڑھی والا۔ ارے بھئی! وہی جس کی ناک پر چاقو کا نشان ہے۔ آگے کا دانت ٹوٹا ہوا ہے۔ اب اس نے بڑا پیارا اصول بنایا ہے۔ جو گاہک دوکان پر اپنی تصویر نہ دیکھے، اسے بل میں 25 فیصد نقد رعایت دیتا ہے۔ اور ایک تم ہو کہ مفت تصویر کھینچتے ہو۔ اور شہر بھر کے بد صورتوں سے گالیاں کھاتے پھرتے ہو۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ تم نے کسی کی تصویر کھینچی ہو اور وہ ہمیشہ کے لیے تمہارا جانی دُشمن نہ بن گیا ہو۔”

 

تربیتِ اَولاد اور یہ فقیرِ پُر تقصیر

 

نصیحت کی دھن میں مرزا یہ بھول گئے کہ دُشمنوں کی فہرست میں اضافہ کرنے میں خود انہوں نے ہمارا ہاتھ بٹایا ہے۔ جس کا اندازہ اگر آپ کو نہیں ہے تو آنے والے واقعات سے ہو جائے گا۔ ہم سے کچھ دور پی۔ ڈلیو۔ ڈی کے ایک نامی گرامی ٹھیکیدار تین کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔ مارشل لاء کے بعد سے بچارے اتنے رقیق القلب ہو گئے ہیں کہ برسات میں کہیں سے بھی چھت گرنے کی خبر آئے، ان کا کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے۔ حُلیہ ہم اس لئے نہیں بتائیں گے کہ اسی بات پر مرزا سے بری طرح ڈانٹ کھا چکے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ "ناک فلپس کے بلب جیسی، آواز میں بنک بلنیس کی کھنک، جسم خُوبصورت صراحی کے مانند۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ یعنی وسط سے پھیلا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔” ہم نے آؤٹ لائن ہی بنائی تھی کہ مرزا گھایل لہجے میں بولے، "بڑے مزاح نگار بنے پھرتے ہو۔ تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ جسمانی نقائص کا مذاق اڑانا طنز و مزاح نہیں۔” کروڑ پتی ہیں، مگر انکم ٹیکس کے ڈر سے اپنے آپ کو لکھ پتی کہلواتے ہیں۔ مبدءِ فیّاض نے ان کی طبیعت میں کنجوسی کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔ روپیہ کمانے کو تو سبھی کماتے ہیں۔ وہ رکھنا بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں، آمدنی بڑھانے کی سہل ترکیب یہ ہے کہ خرچ گھٹا دو۔ مرزا سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کو اس وجہ سے جہیز نہیں دیا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی، جو خود لکھ پتی تھا۔ اور دوسری بیٹی کو اس لئے نہیں دیا کہ اس کا دولہا دوالیہ تھا۔ سال چھ مہینے میں ناک کی کیل تک بیچ کھاتا۔ غرض لکشمی گھر کی گھر میں رہی۔

ہاں، تو انہی ٹھیکیدار صاحب کا ذکر ہے، جن کی جائداد منقولہ و غیر منقولہ، منکوحہ و غیر منکوحہ کا نقشہ شاعر شیوہ بیاں نے ایک مصرع میں کھینچ کر رکھ دیا ہے:

ایک اک گھر میں سو سو کمرے، ہر کمرے میں نار

اس حسین صورت حال کا نتائج اکثر ہمیں بھگتنے پڑتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ہر نو مولود کے عقیقہ اور پہلی سال گرہ پر ہمیں سے یاد گار تصویر کھنچواتے ہیں۔ اور یہی کیا کم ہے کہ ہم سے کچھ نہیں لیتے۔ ادھر ڈھائی تین سال سے اتنا کرم اور فرمانے لگے ہیں کہ جیسے ہی خاندانی منصوبہ شکنی کی شبھ گھڑی قریب آتی ہے تو ایک نوکر، دائی کو اور دوسرا ہمیں بلانے دوڑتا ہے، بلکہ ایک آدھ دفعہ ایسا بھی ہوا کہ "وہ جاتی تھی کہ ہم نکلے” جن حضرات کو اس بیان میں شرارت ہمسایہ کی کار فرمائی نظر آئے، وہ ٹھیکیدار صاحب کے البم ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ کی ایک نہیں، درجنوں تصویریں ملیں گی، جن میں موصوف کیمرے کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر نو مولود کے کان میں اذان دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

آئے دن کی زچگیاں جھیلتے جھیلتے ہم ہلکان ہو چکے تھے، مگر بوجہ شرم و خوش اخلاقی خاموش تھے۔ عقل کام نہیں کرتی تھی کہ اس کاروبار شوق کو کس طرح بند کیا جائے۔ مجبوراً (انگریزی محاورے کے مطابق) مرزا کو اپنے اعتماد میں لینا پڑا۔ احوال پُر ملال سن کر بولے، صاحب! ان سب پریشانیوں کا حل ایک پھولدار فراک ہے۔ ہم نے کہا، مرزا! ہم پہلے ہی ستائے ہوئے ہیں۔ ہم سے یہ ابسٹریکٹ گفتگو تو نہ کرو۔ بولے، تمہاری ڈھلتی جوانی کی قسم! مذاق نہیں کرتا۔ تمہاری طرح ہمسایوں کے لخت ہائے جگر کی تصویریں کھینچتے کھینچتے اپنا بھی بھُرکس نکل گیا تھا۔ پھر میں نے تو یہ کیا کہ ایک پھول دار فراک خریدی اور اس میں ایک نو زائیدہ بچے کی تصویر کھینچی۔ اوراس کی تین درجن کاپیاں بنا کر اپنے پاس رکھ لیں۔ اب جو کوئی اپنے نو مولود کی فرمائش کرتا ہے تو یہ شرط لگا دیتا ہوں کہ اچھی تصویر درکار ہے تو یہ خوبصورت پھولدار فراک پہنا کر کھنچواؤ۔ پھر کیمرے میں فلم ڈالے بغیر بٹن دباتا ہوں۔ اور دو تین دن کا بھلاوا دے کر اسی امّ التصاویر کی ایک کاپی پکڑا دیتا ہوں۔ ہر باپ کو اس میں اپنی شباہت نظر آتی ہے!

 

حادثات اور اِبتدائی قانونی اِمداد

 

ہمارے پرانے جاننے والوں میں آغا واحد آدمی ہیں، جن سے ابھی تک ہماری بول چال ہے۔ اس کی واحد وجہ مرزا یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے کبھی ان کی تصویر نہیں کھینچی، گو کہ ہماری فنکارانہ صلاحیتوں سے وہ بھی اپنے طور پر مستفید ہو چکے ہیں۔ صورت استفادہ یہ تھی کہ ایک اتوار کو ہم اپنے "ڈارک رُوم” (جسے پیر سے سنیچر تک گھر والے غسل خانہ کہتے ہیں) میں اندھیرا کیے ایک مار پیٹ سے بھرپور سیاسی جلسے کے پرنٹ بنا رہے تھے۔ گھپ اندھیرے میں ایک منّا سا سرخ بلب جل رہا تھا، جس سے بس اتنی روشنی نکل رہی تھی کہ وہ خود نظر آ جاتا تھا۔ پہلے پرنٹ پر کالی جھنڈیاں صاف نظر آنے لگیں تھیں، لیکن لیڈر کا چہرہ کسی طرح ابھر کے نہیں دیتا تھا۔ لہٰذا ہم اسے بار بار چمٹی سے تیزابی محلول میں غوطے دیے جا رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے پھاٹک کی گھنٹی بجائی اور بجاتا ہوا چلا گیا۔ ہم جس وقت چمٹی ہاتھ میں لیے پہنچے ہیں، تو گھر والے ہی نہیں، پڑوسی بھی دوڑ کر آ گئے تھے۔ آغا نے ہتھیلی سے گھنٹی کا بٹن دبا رکھا تھا اور لرزتی کپکپاتی ہوئی آواز میں حاضرین کو بتا رہے تھے کہ وہ کس طرح اپنی سدھی سدھائی مرنجاں مرنج کار میں اپنی راہ چلے جا رہے تھے کہ ایک ٹرام دندناتی ہوئی "رانگ سائڈ” سے آئی۔ اور ان کی کار سے ٹکرا گئی۔ ہمارے منھ سے کہیں نکل گیا، "مگر تھی تو اپنی ہی پٹری پر؟” تنتناتے ہوئے بولے "جی، نہیں! ٹیک آف کر کے آئی تھی!” یہ موقع ان سے الجھنے کا نہیں تھا، اس لیے وہ جلدی مچا رہے تھے۔ بقول ان کے رہی سہی عّزت خاک کراچی میں ملی جا رہی تھی۔ اور اسی کی خاطر ٹکر ہونے سے ایک دو سیکنڈ پہلے ہی وہ کار سے کود کر غریب خانہ کی سمت روانہ ہو گئے تھے تاکہ چالان ہوتے ہی اپنی صفائی میں بطور دلیل 2 حادثہ کا فوٹو مع فوٹو گرافر پیش کر سکیں۔ دلیل نمبر 1 یہ تھی کہ جس لمحے کار ٹرام سے ٹکرائی، وہ کار میں موجود ہی نہیں تھے۔

ہم جس حال میں تھے، اسی طرح کیمرہ لے کر آغا کے ساتھ ہو لیے اور ہانپتے کانپتے موقع واردات پر پہنچے۔ دیکھا کہ آغا کی کار کا بمپر ٹرام کے بمپر پر چڑھا ہوا ہے۔ اگلا حصہ ہوا میں معلق ہے اور ایک لونڈا پہیا گھما گھما کر دوسرے سے کہہ رہا ہے "ابے فلوم! اس کے تو پہیے بھی ہیں!”

آغا کا اصرار تھا کہ تصویریں ایسے زاوئیے سے لی جائیں، جس سے ثابت ہو کہ پہلے مشتعل ٹرام نے کار کے ٹکر ماری۔ اس کے بعد کار ٹکرائی! وہ بھی محض حفاظت خود اختیاری میں! ہم نے احتیاطاً ملزمہ کے ہر پوز کی تین تین تصویریں لے لیں، تاکہ ان میں مبینہ زاویہ بھی، اگر کہیں ہو، تو آ جائے۔ حادثے کو فلماتے وقت ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس پیش بندی کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اس لئے کہ جس زاوئیے سے مرے وبہ ملزمہ پر چڑھی تھی اور جس پینترے سے آغا نے ٹرام اور قانون سے ٹکر لی تھی، اسے دیکھتے ہوئے ان کا چالان اقدام خود کشی میں بھلے ہی ہو جائے، ٹرام کو نقصان پہچانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ادھر ہم کلک کلک تصویر پر تصویر لیے جا رہے تھے، ادھر سڑک پر تماشائیوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ہم نے کیمرے میں دوسری فلم ڈالی۔ اور کار کا "کلوز اپ” لینے کی غرض سے مرزا ہمیں سہارا دے کر ٹرام کی چھت پر چڑھانے لگے۔ اتنے میں ایک گبرو پولیس سارجنٹ بھیڑ کو چیرتا ہوا آیا۔ آ کر ہمیں نیچے اتارا۔ اور نیچے اتار کے چالان کر دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ شارع عام پر مجمع لگا کے عمداً رکاوٹ پیدا کرنے کے الزام میں! اور بقول مرزا، وہ تو بڑی خیریت ہوئی کہ وہ وہاں موجود تھے۔ ورنہ ہمیں تو کوئی ضمانت دینے والا بھی نہ ملتا۔ کھنچے کھنچے پھرتے۔

 

عقدِ ثانی اور عاجز

 

یہ پہلا اور آخری موقع نہیں تھا کہ ہم نے اپنے حقیر آرٹ سے قانون اور انصاف کے ہاتھوں کو مضبوط کیا۔ (معاف کیجئے۔ ہم پھر انگریزی ترکیب استعمال کر گئے۔ مگر کیا کیا جائے، انگریزوں سے پہلے ایسا بجوگ بھی تو نہیں پڑتا تھا) اپنے بے گانوں نے بارہا یہ خدمت بے مزہ ہم سے لی ہے۔ تین سال پہلے کا ذکر ہے۔ عائلی قانون (جسے مرزا قانون انسداد نکاح کہتے ہیں) کا نفاذ ابھی نہیں ہوا تھا۔ مگر پریس میں اس کی موافقت میں تصویریں اور تقریریں دھڑا دھڑ چھپ رہی تھیں۔ جن کے گجراتی ترجموں سے گڑ بڑا کر "بنولہ کنگ” سیٹھ عبد الغفور ابراہیم حاجی محمد اسمعیل یونس چھابڑی والا ایک لڑکی سے چوری چھپے نکاح کر بیٹھے تھے۔ حُلیہ نہ پوچھیں تو بہتر ہے۔ اہل بینش کو اتنا اشارہ کافی ہونا چاہیے کہ اگر ہم ان کا حُلیہ ٹھیک ٹھیک بتانے لگیں تو مرزا چیخ اٹھیں گے "صاحب! یہ طنز و مزاح نہیں ہے!” اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حاشا و کلّا۔ ہم نے کچھ عرصے سے یہ اصول بنا لیا ہے کہ کسی انسان کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس لئے کہ ہم نے دیکھا کہ جس کسی کو ہم نے حقیر سمجھا، وہ فوراً ترقی کر گیا۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ جس دن سے تعدّد ازدواج کا قانون لاگو ہونے والا تھا، اس کی "چاند رات ” کو سیٹھ صاحب غریب خانے پر تشریف لائے۔ انتہائی سراسمیگی کے عالم میں۔ ان کے ہمراہ وجہِ سراسمیگی بھی تھی۔ جو سیاہ بُرقع میں تھی۔ اور بہت خوب تھی۔

رات کے دس بج رہے تھے۔ اور کیمرہ، اسکرین اور روشنیاں ٹھیک کرتے کرتے گیارہ بج گئے۔ گھنٹہ بھر تک سیٹھ صاحب ہماریCANDID FIGURE STUDIES کو اس طرح گھورتے رہے کہ پہلی مرتبہ ہمیں اپنے فن سے حجاب آنے لگا۔ فرمایا، "اجُن بگڑیلی بائیوں کی فوٹو گراف لینے میں تو تم ایک نمبر استاد ہو۔ پن کوئی بھین بیٹی کپڑے پہن کر فوٹو کھچوائے تو کیا تمیرا کیمرا کام کریں گا؟” ہم نے کیمرے کی نیک چلنی کی ضمانت دی اور تپائی رکھی۔ تپائی پر سیٹھ صاحب کو کھڑا کیا۔ اور ان کے بائیں پہلو میں دلہن کو (سینڈل اُتروا کر) کھڑا کر کے فوکس کر رہے تھے کہ وہ تپائی سے چھلانگ لگا کر ہمارے پاس آئے اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں، جس میں گجراتی سے زیادہ گھبراہٹ کی آمیزش تھی، درخواست کی کہ سُرمئی پردے پر آج کی تاریخ کوئلے سے لکھ دی جائے اور فوٹو اس طرح لیا جائے کہ تاریخ صاف پڑھی جا سکے۔ ہم نے کہا، سیٹھ! اس کی کیا تُک ہے؟ تپائی پر واپس چڑھ کے انہوں نے بڑے زور سے ہمیں آنکھ ماری اور اپنی ٹوپی سے ایسی بے کسی سے اشارہ کیا کہ ہمیں ان کے ساتھ اپنی عزّت آبرو بھی مٹی میں ملتی نظر آئی۔ پھر سیٹھ صاحب اپنا بایاں ہاتھ دلہن کے کندھے پر مالکانہ انداز سے رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ دایاں ہاتھ اگر اور لمبا ہوتا تو بخدا اسے بھی وہیں رکھ دیتے۔ فی الحال اُس میں جلتا ہوا سگریٹ پکڑے ہوئے تھے۔ ہمارا "ریڈی” کہنا تھا کہ تپائی سے پھر زقند لگا کر ہم سے لپٹ گئے۔ یا اللہ! خیر! اب کیا لفڑا ہے سیٹھ؟ معلوم ہوا، اب کی دفعہ بچشم خود یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیمرے میں کیسے نظر آ رہے ہیں! خوشامد درامد کر کے پھر تپائی پر چڑھایا۔ اور قبل اس کے کہ گھڑیال رات کے بارہ بجا کر نئی صبح اور قانون انسداد نکاح کے نفاذ کا اعلان کرے، ہم نے ان کے خفیہ رشتۂ مناکحت کا مزید دستاویزی ثبوت کوڈاک فلم پر محفوظ کر لیا۔

اصل دشواری یہ تھی کہ تصویر کھینچنے اور کھنچوانے کے آداب سے متعلق جو ہدایات سیٹھ صاحب بزبان گجراتی یا اشاروں سے دیتے رہے، ان کا منشاء کم از کم ہمارے فہم ناقص میں یہ آیا کہ دلہن صرف اُس لمحے نقاب الٹے جب ہم بٹن دبائیں۔ اور جب ہم بٹن دبائیں تو عینک اتار دیں۔ ان کا بس چلتا تو کیمرے کا بھی ’لینس‘ اتروا کر تصویر کھنچواتے۔ رات کی جگار سے طبیعت تمام دن کسل مند رہی۔ لہٰذا دفتر سے دو گھنٹے پہلے ہی اٹھ گئے۔ گھر پہنچے تو سیٹھ صاحب ممدُوح و منکُوح کو برآمدے میں ٹہلتے ہوئے پایا۔ گردن جھکائے، ہاتھ پیچھے کو باندھے، بے قراری کے عالم میں ٹہلے چلے جا رہے تھے۔ ہم نے کہا ’سیٹھ اسلامُ علیکُم!‘ بولے، ’بالیکُم! پن پھلم کو گسل کب دیں گا؟‘ ہم نے کہا، ’ابھی لو، سیٹھ!‘ پھر انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی شریک حیات کی تصویر کو ان کی موجودگی میں "غسل” دیا جائے ہم نے جگہ کی تنگی کا عذر کیا، جس کے جواب میں سیٹھ صاحب نے ہمیں بنولے کی ایک بوری دینے کا لالچ دیا۔ جتنی دیر تک فلم ڈویلپ ہوتی رہی، وہ فلش کی زنجیر سے لٹکے، اس گُنہ گار کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی کرتے رہے۔

ہم "فکسر” میں آخری ڈوب دے چکے تو انہوں نے پوچھا "کلیر، آئی ہے؟” عرض کیا، بالکل صاف۔ چوبی گیرہ سے ٹپکتی ہوئی فلم پکڑ کے ہم نے انہیں بھی دیکھنے کا موقع دیا۔ شارک اسکن کا کوٹ ہی نہیں بریسٹ پاکٹ کے بٹوے کا ابھار بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ تاریخ نگیٹو میں الٹی تھی، مگر صاف پڑھی جا سکتی تھی۔ چہرے پر بھی بقول اُن کے کافی روشنائی تھی۔ انہوں نے جلدی جلدی دلہن کی انگوٹھی کے نگ گنے اور انہیں پورے پا کر ایسے مطمئن ہوئے کہ چٹکی بجا کر سگرٹ چھنگلیا میں دبا کے پینے لگے۔ بولے، "مسٹر! یہ تو سولہ آنے کلیر ہے۔ آنکھ، ناک، جیب پاکٹ، ایک ایک نگ چگتی سنبھال لو۔ اپنے بہی کھاتے کے مواپھک! اجُن اپنی اومیگا واچ کی سوئی بھی بروبر ٹھیک ٹیم دیتی پڑی ہے۔ گیارہ کلاک۔ اور اپن کے ہاتھ میں جو ایک ٹھو سگرٹ جلتا پڑا ہے، وہ بھی سالا ایک دم لیٹ مارتا ہے۔” یہ کہہ کر وُہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر ایک جھٹکے سے چہرہ اٹھا کر کہنے لگے "بڑے صاحب! اس سگرٹ پہ جو سالا K2 لکھے لا ہے، اس کی جگہ Player’s No-3 بنا دو نی!”

 

دربارِ اکبری میں باریابی

 

خیر، یہاں تو معاملہ سگرٹ ہی پر ٹل گیا، ورنہ ہمارا تجربہ ہے کہ سو فی صد حضرات اور ننانوے فیصد خواتین تصویر میں اپنے آپ کو پہچاننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ باقی رہیں ایک فی صد۔ سو انہیں اپنے کپڑوں کی وجہ سے اپنا چہرہ قبُولنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اتفاق سے کپڑے بھی اپنے نہ ہوں تو پھر شوقیہ فوٹو گرافر کو چاہیے کہ اور روپیہ برباد کرنے کا کوئی اور مشغلہ تیار کرے، جس میں کم از کم مار پیٹ کا امکان تو نہ ہو۔ اس فن میں درک نہ رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے ہم صرف ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ پچھلے سال بغدادی جم خانہ میں تمبولا سے تباہ ہونے والوں کی امداد کے لئے یکم اپریل کو "اکبر اعظم” کھیلا جانے والا تھا اور پبلسٹی کمیٹی نے ہم سے درخواست کی تھی کہ ہم ڈریس رہلسل کی تصویریں کھینچیں تاکہ اخبارات کو دو دن پہلے مہیا کی جا سکیں۔

ہم ذرا دیر سے پہنچے۔ چوتھا سین چل رہا تھا۔ اکبر اعظم دربار میں جلوہ افروز تھے اور استاد تان سین بینجو پر حضرت فراق گورکھپوری کی سہ غزلہ راگ مالکوس میں گا رہے تھے۔ جو حضرات کبھی اس راگ یا کسی سہ غزلہ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، کچھ وہی اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ اگر یہ دونوں یکجا ہو جائیں تو ان کی سنگت کیا قیامت ڈھاتی ہے۔ اکبر اعظم کا پارٹ جم خانے کے پروپیگنڈا سیکریٹری صبغے (شیخ صبغۃ اللہ) ادا کر رہے تھے۔ سر پر ٹین کا مصنوعی تاج چمک رہا تھا، جس میں سے اب تک اصلی گھی کی لپٹیں آ رہی تھیں۔ تاج شاہی پر شیشے کے پیپرویٹ کا کوہِ نور ہیرا جگمگا رہا تھا۔ ہاتھ میں اسی دھات یعنی اصلی ٹین کی تلوار۔ جسے گھمسان کا رن پڑتے ہی دونوں ہاتھوں سے پکڑ کے وہ کدال کی طرح چلانے لگے۔ آگے چل کر ہلدی گھاٹ کی لڑائی میں یہ تلوار ٹوٹ گئی تو خالی نیام سے داد شجاعت دیتے رہے۔ انجام کار، یہ بھی جواب دے گیا کہ رانا پرتاپ کا سر اس سے بھی سخت نکلا۔ پھر مہابلی اس کی آخری پچّر تماشائیوں کو دکھاتے ہوئے داروغہ اسلحہ خانہ کو رائجُ الوقت گالیاں دینے لگے۔ حسب عادت غصے میں آپے سے باہر ہو گئے۔ لیکن حسب عادت، محاورے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ دوسرے سین میں شہزادہ سلیم کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سلیم ابھی انار کلی پر اپنا وقت برباد کر رہا تھا۔ اس کا دور جہانگیری، بلکہ نور جہان گیری ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ دوران سرزنش ظلّ سبحانی نے دست خاص سے ایک طمانّچہ بھی مارا جس کی آواز آخری قطار تک سنی گئی۔ طمانّچہ تو انار کلی کے گال پر بھی مارا تھا، مگر اس کا ذکر ہم نے ماً نہیں کیا، کیونکہ یہ مہابلی نے کچھ اس انداز سے مارا کہ پاس سے تو کم از کم ہمیں یہی لگا کہ وہ دو منٹ تک انار کلی کا میک اپ سے تمتماتا ہُوا رُخسار سہلاتے رہے۔

پانچوں اُنگلیوں پر گال کے نشان بن گئے تھے!

اکبر: شیخو! انار کلی کا سر تیرے قدموں پر ہے، مگراس کی نظر تاج پر ہے۔

سلیم: محبت اندھی ہوتی ہے، عالم پناہ!

اکبر: مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورت بھی اندھی ہوتی ہے!

سلیم: لیکن انار کلی عورت نہیں، لڑکی ہے، عالم پناہ!

اکبر: (آستین اور تیوَری چڑھا کر) اے خاندانِ تیمُوریا کی آخری نشانی! اے نا خلف، مگر (کلیجہ پکڑ کے) اکلوتے فرزند! یاد رکھ میں تیرا باپ بھی ہوں اور والد بھی!

اس ڈرامائی انکشاف کو نئی نسل کی آگاہی کے لئے ریکارڈ از بس ضروری تھا۔ لہذا ہم کیمرے میں "فلیش گن” فٹ کر کے آگے بڑھے۔ یہ احساس ہمیں بہت بعد میں ہوا کہ جتنی دیر ہم فوکس کرتے رہے، مہابلی اپنا شاہی فریضہ یعنی ڈانٹ ڈپٹ چھوڑ چھاڑ سانس روکے کھڑے رہے۔ وہ جو یکلخت خاموش ہوئے تو پچھلی نشستوں سے طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں:

"ابے! ڈائلاگ بھول گیا کیا؟”

"طمانچہ مار کے بیہوش ہو گیا ہے!”

"مہابلی! منھ سے بولو۔”

اگلے سین میں فلمی تکنیک کے مطابق ایک "فلیش بیک” تھا۔ مہابلی کی جوانی تھی اور ان کی مُونچھوں پر ابھی پاؤڈر نہیں بُرکا گیا تھا۔ باغی اعظم، ہیمُو بُقال (تماشائیوں کی طرف منہ کر کے) سجدے میں پڑا تھا۔ اور حضرت ظِلّ سُبحانی تلوار سونتے بھُٹا سا اُس کا سر اُڑانے جا رہے تھے۔ ہم بھی فوٹو کھینچنے لپکے۔ لیکن فٹ لائٹس سے کوئی پانچ گز دور ہوں گے کہ پیچھے سے آواز آئی۔۔ ۔۔ ۔۔ بیٹھ جاؤ، یوسف کارش! اور اس کے فوراً بعد ایک نامہرباں ہاتھ نے بڑی بے دردی سے پیچھے کوٹ پکڑ کے کھینچا۔ پلٹ کے دیکھا تو مرزا نکلے۔ بولے "ارے صاحب! ٹھیک سے قتل تو کر لینے دو۔ ورنہ سالا اٹھ کے بھاگ جائے گا اور پھر علم بغاوت بلند کرے گا!”

دوسرے ایکٹ میں کوئی قابل ذکر واقعہ یعنی قتل نہیں ہوا۔ پانچوں مناظر میں شہزادہ سلیم، انار کلی کو اِس طرح حالِ دل سُناتا رہا، گویا اِملا لکھوا رہا ہے۔ تیسرے ایکٹ میں صبغے، ہمارا مطلب ہے ظِلّ سبحانی، شاہی پیچوان کی گزوں لمبی ربر کی نے (جس سے دن میں جم خانہ کے لان کو پانی دیا گیا تھا) ہاتھ میں تھامے انار کلی پر برس رہے تھے اور ہم حاضرین کی ہوٹنگ کے ڈر سے ” ونگ” میں دبکے ہوئے اس سین کو فِلما رہے تھے کہ سامنے کی "ونگ” سے ایک شیرخوار اسٹیج پر گھٹنیوں چلتا ہوا آیا اور گلا پھاڑ پھاڑ کے رونے لگا۔ بالآخر مامتا، عشق اور اداکاری پر غالب آئی اور اِس عفِیفہ نے تختِ شاہی کی اوٹ میں حاضرین سے پیٹھ کر کے اس کا منھ قدرتی غذا سے بند کیا۔ ادھر مہابلی خُون کے سے گھونّٹ پیتے رہے۔ ہم نے بڑھ کر پردہ گرایا۔

آخری ایکٹ کے آخری سین میں اکبر اعظم کا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ بڑے دھوم دھڑکّے سے نکلا۔ جسے فلمانے کے بعد ہم گرین روم میں گئے اور صبغے کو مبارک باد دی کہ اس سے بہتر مردے کا پارٹ آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ انہوں نے بطور شکریہ کورے کفن سے ہاتھ نکال کر ہم سے مصافحہ کیا۔ ہم نے کہا صبغے! اور تو جو کچھ ہوا، سو ہوا، مگر اکبر کوہِ نور ہیرا کب لگاتا تھا؟ جبھی تو ہم نے نقلی کوہ نور لگایا تھا!

"ڈویلپر "کو برف سے 70 ڈگری ٹھنڈا کر کے ہم نے راتوں رات فلم ڈیولپ کی۔ اوردوسرے دن حسب وعدہ تصویروں کے پروف دِکھانے جم خانہ پہنچے۔ گھڑی ہم نے آج تک نہیں رکھی۔ اندازاً رات کے گیارہ بج رہے ہوں گے۔ اس لئے کے ابھی تو ڈنر کی میزیں سجائی جا رہی تھی، اور ان کو زینت بخشنے والے ممبران "رین بورم” (بار) میں اُونچے اُونچے اسٹولوں پر ٹنگے نہ جانے کب سے ہماری راہ دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی ممبران ہمارے جامِ صحّت کی آخری بُوند نوش کر چُکے، ہم نے اپنے چرمی بیگ سے "رش پرنٹ "نکال کر دکھائے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور صاحب! وہ تو خدا نے بڑا فضل کیا کہ ان میں سے ایک بھی کھڑے ہونے کے قابل نہ تھا۔ ورنہ ہر ممبر، کیا مرد، کیا عورت، آج ہمارے قتل میں ماخوذ ہوتا۔

ظِلّ سبحانی نے فرمایا، ہم نے انارکلی کو اس کی بے راہ روی پر ڈانٹتے وقت آنکھ نہیں ماری تھی۔ شہزادہ سلیم اپنا فوٹو ملاحظہ فرما کر کہنے لگے کہ یہ تو نگیٹیو ہے! شیخ ابو الفضل نے کہا، نور جہاں، بیوۂ شیر افگن، تصویر میں سر تا پا مرد افگن نظر آتی ہے۔ راجہ مان سنگھ کڑک کر بولے کہ ہمارے آب رواں کے انگرکھے میں ٹوڈر مل کی پسلیاں کیسے نظر آ رہی ہیں؟ مُلّا دو پیازہ نے پوچھا، یہ میرے ہاتھ میں دس اُنگلیاں کیوں لگا دیں آپ نے؟ ہم نے کہا، آپ ہِل جو گئے تھے۔ بولے، بالکل غلط۔ خود آپ کا ہاتھ ہل رہا تھا۔ بلکہ میں نے ہاتھ سے آپ کو اشارہ بھی کیا تھا کہ کیمرہ مضبُوطی سے پکڑیے۔ انارکلی کی والدہ کہ بڑے کلّے ٹھلّے کی عَورت ہیں، تنُک کر بولیں، اللہ نہ کرے، میری چاند سی بنّوں ایسی ہو (ان کی بنوں کے چہرے کو اگر واقعی چاند سے تشبیہ دی جا سکتی تھی، تو یہ وہ چاند تھا، جس میں بُڑھیا بیٹھی چرخا کاتتی نظر آتی ہے۔) مختصر یہ کہ ہر شخص شاکی، ہر شخص خفا۔ اکبرِ اعظم کے نَورتن تو نَورتن، خواجہ سرا تک ہمارے خُون کے پیاسے ہو رہے تھے۔

 

پَیدا ہونا پَیسہ کمانے کی صُورت کا

 

ہم سے جم خانہ چھوٹ گیا۔ اوروں سے کیا گلا، صبغے تک کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ ہم نے بھی سوچا، چلو تم روٹھے، ہم چھوٹے۔ وا حسرتا کہ ان کی خفگی اور ہماری فراغت چند روزہ ثابت ہوئی۔ کیوں کہ دس پندرہ دن بعد انہوں نے اپنے فلیٹ واقع چھٹی منزل پر "صبغے ایڈورٹائزرز (پاکستان) پرائیویٹ لمٹیڈ” کا شوخ سا سائن بورڈ لگا دیا، جسے اگر بیچ سڑک پر لیٹ کر دیکھا جاتا تو صاف نظر آتا۔ دوسرا نیک کام انہوں نے یہ کیا کہ ہمیں ایک نئے صابن "اسکینڈل سوپ” کے اشتہار کے لئے تصویر کھینچنے پر کمیشن (مامُور) کیا۔ عجب اتفاق ہے کہ ہم خود کچھ عرصے سے بڑی شِدّت سے محسوس کر رہے تھے کہ ہمارے ہاں عورت، عبادت اور شراب کو اب تک کلوروفارم کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی درد اذیت کا احساس مٹانے کے لئے، نہ کہ سرور و انبساط کے خاطر۔ اسی احساس کو سن کر دینے والی پنک کی تلاش میں تھکے ہارے فنون لطیفہ تک پہنچتے ہیں۔ اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی عیاشی کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا جا سکتا۔ چنانچہ پہلی ہی بولی پر ہم نے اپنی متاع ہنر سے پیچھا چھڑانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر معاوضہ بھی معقول تھا۔ یعنی ڈھائی ہزار روپے۔ جس میں سے تین روپیے نقد انہوں نے ہمیں اسی وقت ادا کر دیئے۔ اور اسی رقم سے ہم نے گیورٹ کی 27 ڈگری کی سست رفتار فلم خریدی، جو جلد کے نکھار اور نرمی کو اپنے اندر دھیرے دھیرے سمو لیتی ہے۔ "چہرہ” سپلائی کرنے کی ذمہ داری اسکینڈل سوپ بنانے والوں کے سر تھی۔ تصویر کی پہلی اور آخری شرط یہ تھی کہ "سیکسی” ہو۔ اس مقصدِ جمیل کے لئے جس خاتون کی خدمت پیش کی گئیں، وہ برقعے میں نہایت بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ برقعہ اترنے کے بعد کھلا کہ

خُوب تھا پردہ، نہایت معرکے کی بات تھی

سیکس اپیل تو ایک طرف رہی، اس دُکھیا کے تو منہ میں مکھن بھی نہیں پگھل سکتا تھا۔ البتہ دوسری ’ماڈل‘ کا با کفایت لباس اپنے ممروات کو چھپانے سے بوجُوہ قاصر تھا۔ ہم نے چند رنگین "شاٹ” تیکھے تیکھے زاویوں سے لئے اور تین چار دن بعد مرزا کو پروجیکٹر سے TRANSPARENCIES دکھائیں۔ کوڈک کے رنگ دہک رہے تھے۔ سرکش خطوط پکار پکار کر اعلانِ جنس کر رہے تھے۔ ہم نے اس پہلو پر توجہ دلائی تو ارشاد ہوا، یہ اعلانِ جنس ہے یا کپڑے کی صنعت کے خلاف اعلان جنگ؟

تیسری "سٹنگ” (نشست) سے دس منٹ پیشتر مرزا حسب وعدہ ہماری کمک پر آ گئے۔ سوچا تھا، کچھ نہیں تو دسراتھ رہے گی۔ پھر مرزا کا تجربہ، بسبب ان طبع زاد غلطیوں کے، جو وہ کرتے رہے ہیں، ہم سے کہیں زیادہ وسیع گوناگوں ہے۔ لیکن انہوں نے تو آتے ہی آفت مچا دی۔ اصل میں وہ اپنے نئے "رول” (ہمارے فنّی مُشیر) میں پھُولے نہیں سما رہے تھے۔ اب سمجھ میں آیا کہ نیا نوکر دوڑ کر ہرن کے سینگ کیوں اکھاڑتا ہے اور اگر ہرن بھی نیا ہو تو

اسدُ اللہ خاں قیامت ہے!

ویسے بھی میک اپ وغیرہ کے بارے میں وہ کچھ تحفظات رکھتے ہیں، جنہیں اس وقت ’ماڈل‘ کے چہرے پر تھوپنا چاہتے تھے (مثلاً کالی عورتوں کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ انہیں سفید سرمہ لگانا چاہیے۔ ادھیڑ مرد کے دانت بہت اجلے نہیں ہونے چاہئیں، ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ مصنوعی ہیں علیٰ ہٰذا القیاس)۔ بولے، لپ سٹک پر ویسلین لگواؤ۔ اس سے ہونٹ VOLUPTUOUS معلوم ہونے لگیں گے۔ آج کل کے مرد ابھرے ابھرے گُرداسے ہونٹ پہ مرتے ہیں۔ اور ہاں یہ پھٹیچر عینک اتار کے تصویر لو۔ ہم نے رفع شر کے لئے فوراً عینک اتار دی۔ بولے، صاحب! اپنی نہیں اس کی۔ بعد ازاں ارشاد ہوا، فوٹو کے لیے نئی اور چمکیلی ساری قطعی موزوں نہیں۔ خیر۔ مگر کم از کم سینڈل تو اتتوا دو۔ پرانا پرانا لگتا ہے۔ ہم نے کہا، تصویر چہرے کی لی جا رہی ہے، نہ کہ پیروں کی۔ بولے، اپنی ٹانگ نہ اڑاؤ۔ جیسے استاد کہتا ہے وہی کرو۔ ہم نے بیگم کا شیمپین کے رنگ کا نیا سینڈل لا کر دیا۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ اسے پہن کر اس کے ” ایکسپریشن” میں ایک خاص تمکنت آ گئی۔ بولے، صاحب! یہ تو جوتا ہے۔ اگر کسی کے بنیان میں چھید ہو تو اس کا اثر بھی چہرے کے ایکسپریشن پر پڑتا ہے۔ یہ نُکتہ بیان کر کے وہ ہمارے چہرے کی طرف دیکھنے لگے۔

 

آنکھیں میری باقی اُن کا

 

ایڑی سے چوٹی تک اصلاح حُسن کرنے کے بعد اُسے سامنے کھڑا کیا اور وہ پیاری پیاری نظروں سے کیمرے کو دیکھنے لگی تو مرزا پھر بِین بجانے لگے "صاحب! یہ فرنّٹ پوز، یہ دوکانوں بیچ ایک ناک والا پوز صِرف پاس پورٹ میں چلتا ہے۔ آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کی گردن لمبی ہے اور ناک کا کٹ یونانی۔ چہرہ صاف کہہ دیتا ہے کہ میں صرف پروفائل کے لئے بنایا گیا ہوں۔ ” ہم نے کہا "اچھا، بابا! پروفائل ہی سہی۔”

اِس تکنیکی سمجھوتے کے بعد ہم نے تُرت پھُرت کیمرے میں "کلوز اپ لینس” فٹ کیا۔ سرمئی پردے کو دو قدم پیچھے کھسکایا۔ سامنے ایک سبز کانٹے دار "کیکٹس” رکھّا اور اس پر پانچ سو واٹ کی سپاٹ لائٹ ڈالی۔ اس کی اوٹ میں گُلِ رُخسار۔ ہلکا سا آؤٹ آف فوکس تاکہ خطوط اور ملایم ہو جائیں۔ وہ دسویں دفعہ تن کر کھڑی ہوئی۔ سینہ بفلک کشیدہ، نچلا ہونٹ صوفیہ لارین کی طرح آگے کو نکالے۔ آنکھوں میں "ادھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے” والی کیفیت لیے۔ اور میٹھی میٹھی روشنی میں بل کھاتے ہوئے خطوط پھر گیت گانے لگے۔ رنگ پھر کُوکنے لگے۔ آخری بار ہم نے دیدبان سے، اور مرزا نے کپڑوں سے پار ہوتی ہوئی نظر سے دیکھا۔ مُسکراتی ہوئی تصویر لینے کی غرض سے ہم نے ماڈل کو آخری پیشہ ورانہ ہدایت دی کہ جب ہم بٹن دبانے لگیں تو تم ہولے ہولے کہتی رہنا:

چیز، چیز، چیز، چیز۔

یہ سننا تھا کہ مرزا نے ہمارا ہاتھ پکڑ لیا اور اسی طرح برآمدے میں لے گئے۔ بولے، کتنے فاقوں میں سیکھی ہے یہ ٹرک؟ کیا ریڑ ماری ہے، مسکراہٹ کی! صاحب! ہر چہرہ ہنسنے کے لئے نہیں بنایا گیا! خصوصاً مشرقی چہرہ۔ کم از کم یہ چہرہ! ہم نے کہا، جناب! عورت کے چہرے پر مشرق مغرب بتانے والا قطب نما تھوڑا ہی لگا ہوتا ہے۔ یہ تو لڑکی ہے۔ بدھ تک کے ہونٹ مسکراہٹ سے خم ہیں۔ لنکا میں ناریل اور پام کے درختوں سے گھری ہوئی ایک نیلی جھیل ہے، جس کے بارے میں یہ روایت چلی آتی ہے کہ اس کے پانی میں ایک دفعہ گوتم بدھ اپنا چہرہ دیکھ کر یونہی مسکرا دیا تھا۔ اب ٹھیک اسی جگہ ایک خوبصورت مندر ہے جو اس مسکراہٹ کی یاد میں بنایا گیا ہے۔ مرزا نے وہیں بات پکڑ لی۔ بولے، صاحب! گوتم بدھ کی مسکراہٹ اور ہے، مونا لزا کی اور! بدھ اپنے آپ پر مسکرایا تھا۔ مونا لزا دوسروں پر مسکراتی ہے۔ شاید اپنے شوہر کی سادہ لوحی پر! بدھ کی مورتیاں دیکھو۔ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں۔ مونا لزا کی کھلی ہوئی۔ مونا لزا ہونٹوں سے مسکراتی ہے۔ اس کا چہرہ نہیں ہنستا۔ اس کی آنکھیں نہیں ہنس سکتیں۔ اس کے بر عکس اجنتا کی عورت کو دیکھو۔ اس کے لب بند ہیں۔ مگر خطوط کھُل کھیلتے ہیں۔ وہ اپنے سموچے بدن سے مسکرانا جانتی ہے۔ ہونٹوں کی کلی ذرا نہیں کھلتی، پھر بھی اس کا ہرا بھرا بدن، اس کا انگ انگ مسکرا اٹھتا ہے۔ ہم نے کہا، مرزا! اس میں اجنتا ایلورا کا اجارہ نہیں۔ بدن تو مارلن منرو کا بھی کھلکھلاتا تھا! بولے کون مسخرا کہتا ہے؟ وہ غریب عمر بھر ہنسی اور ہنسنا نہ آیا۔ صاحب! ہنسنا نہ آیا، اس لئے کہ وہ جنم جنم کی ننداسی تھی۔ اس کا رواں رواں بلاوے دیتا رہا۔ اس کا سارا وجود، ایک ایک پور، ایک ایک مسام

انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا

وہ اپنے چھتنار بدن، اپنے سارے بدن سے آنکھ مارتی تھی۔ مگر ہنسی؟ اس کی ہنسی ایک لذت بھری سِسکی سے کبھی آگے نہ بڑھ سکی۔ اچھا۔ آؤ۔ اب میں تمہیں بتاؤں کہ ہنسنے والیاں کیسے ہنسا کرتی ہیں۔

جات ہتی اِک نار اکیلی، سو بِیچ بازار بھیو مجرائے

آپ ہنسی، کچھو نین ہنسے، کچھو نینن بِیچ ہنسو کجرائے

ہار کے بیچ ہمیل ہنسی، بازو بندن بیچ ہنسو گجرائے

بھویں مرور کے ایسی ہنسی جیسے چندر کو داب چلو بدرائے

مرزا برج بھاشا کی اس چوپائی کا انگریزی میں ترجمہ کرنے لگے اور ہم کان لٹکائے سنتے رہے۔ لیکن ابھی وہ تیسرے مصرع کا خُون نہیں کر پائے تھے کہ صِبغے کے صبر و ضبط کا پَیمانہ چھلک گیا۔ کیونکہ ’ماڈل‘ سو روپے فی گھنٹہ کے حساب سے آئی تھی اور ڈیڑھ سو روپے گُزر جانے کے با وجود ابھی پہلی کِلک کی نوبت نہیں آئی تھی۔

تصویریں کیسی آئیں؟ تین کم ڈھائی ہزار روپے وصُول ہوئے یا نہیں؟ اشتہار کہاں چھپا؟ لڑکی کا فون نمبر کیا ہے؟ ا سکنڈل سوپ فیکٹری کب نیلام ہوئی؟ ان تمام سوالات کا جواب، ہم انشا اللہ، بہت جلد بذریعہ مضمون دیں گے۔ سردست قارئین کو یہ معلُوم کر کے مسرّت ہو گی کہ مرزا کے جس پالے پوسے کیکٹس کو ہم نے رُخِ رَوشن کے آگے رکھا تھا، اُسے فروری میں پھُولوں کی نمائِش میں پہلا انعام ملا۔

 

(جولائی-1964-)

٭٭٭

 

 

بائی فوکل کلب

 

چار مہینے ہونے آئے تھے۔ شہر کا کوئی لائق ڈاکٹر بچا ہو گا جس نے ہماری مالی تکالیف میں حسب لیاقت اضافہ نہ کیا ہو۔ لیکن بائیں کہنی کا درد کسی طرح کم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ علاج نے جب شدت پکڑی اور مرض نے پیچیدہ ہو کر مفلسی کی صورت اختیار کر لی تو لکھنؤ کے ایک حاذق طبیب سے رجوع کیا جو صرف مایوس اور لب گور مریضوں پر عمل مسیحائی کرتے تھے۔ مریض کے جانبر ہونے کا ذرا بھی امکان نظر آئے تو بگڑ جاتے اور اسے دھُتکار کر نکلوا دیتے کہ جاؤ، ابھی کچھ دن اور ڈاکٹر سے علاج کراؤ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں کچھ ایسا اعجاز دیا تھا کہ ایک دفعہ ان سے رجوع کرنے کے بعد کوئی بیمار خواہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو، مرض سے نہیں مرسکتا تھا۔ دوا سے مرتا تھا۔ مرض کے جراثیم کے حق میں تو ان کی دوا گویا آب حیات کا حکم رکھتی تھی۔ غریبوں کا علاج مفت کرتے، مگر رؤسا کو فیس لیے بغیر نہیں مارتے تھے۔ حکیم صاحب اونچا سنتے ہی نہیں، اونچا سمجھتے بھی تھے۔ یعنی صرف مطلب کی بات۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ ہم اس پر اعتراض کرنے والے کون؟ لیکن مصیبت یہ تھی کہ طبابت میں شاعری اور شاعری میں طبابت کے ہاتھ دکھا جاتے تھے۔ مطلب یہ کہ دونوں میں وزن کے پابند نہ تھے۔ حکیموں میں اپنے علاوہ، استاد ابراہیم ذوؔق کے قائل تھے۔ وہ بھی اس بناء پر کہ بقول آزؔاد، استاد نے موسیقی اور نجوم سیکھنے کی سعیِ نا مشکور کے بعد طب کو چند روز کیا۔ مگراس میں خون ناحق نظر آنے لگے۔ چنانچہ انہی صلاحیتوں کارخ اردو شاعری کی طرف موڑ دیا۔ حکیم صاحب موصوف اپنی ذات و بیاض پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ ہاں کبھی اپنی ہی ایجاد کردہ معجون فلک سیرکے زیر اثر طبیعت فراخدلی و فروتنی پر مائل ہو جائے تو سخن فہم مریض کے سامنے یہاں تک اعتراف کر لیتے کہ ایک لحاظ سے غالب ان سے بہتر تھا۔ خط اچھے خاصے لکھ لیتا تھا۔ مگر اب وہ مکتوب الیہ کہاں، جنھیں کوئی ایسے خط لکھے۔

خاندانی حکیم تھے۔ اور خاندان بھی ایسا ویسا! ان کے پردادا قصبہ سندیلہ کے جالینوس تھے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ حکیم جالینوس نابینا و کثیر الازدواج نہ تھا۔ یہ تھے۔ نباضی میں چار دانگ سندیلہ میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ راویان رنگیں بیاں گزارش کرتے ہیں کہ آبائی حویلی میں چار بیگمات (جن میں ہر ایک چوتھی تھی) اور درجنوں حرمیں اور لونڈیاں رلی پھرتی تھیں۔ تہجد کے وقت وضو کرانے کی ہر ایک کی باری مقرر تھی، مگر آدھی رات گئے آواز دے کرسب کی نیند خراب نہیں کرتے تھے۔ ہولے سے نبض چھو کر باری والی کو جگا دیتے تھے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غلط نبض پر ہاتھ ڈالا ہو۔

نبیرۂ جالینوس نے ہماری نبض، زبان، جگر، پیٹ، ناخن، قارورہ، پپوٹے۔۔ ۔ مختصر یہ کہ سوائے کہنی کے ہر چیز کا معائنہ فرمایا۔ فیس کا تعین کرنے سے پہلے ہماری کار کا انجن بھی اسٹارٹ کروا کے بچشمۂ خود ملاحظہ فرمایا اور فیس معاف کر دی۔ پھر بھی احتیاطاً پوچھ لیا کہ مہینے کی آخری تاریخوں میں آنکھوں کے سامنے ترمرے ناچتے ہیں؟ ہم نے سر ہلا کر اقرار کیا تو مرض اور اردو زبان کے مزے لوٹتے ہوئے فرمایا کہ دست بخیر! مقام ماؤف پر جو درد ہے، درد میں جو چپک ہے، چپک میں جو ٹیس ہے، اور ٹیس میں جو کسک رہ رہ کر محسوس ہوتی ہے، وہ ریاحی ہے! بقول مرزا، یہ تشخیص نہ تھی، ہمارے مرض کی توہین تھی۔ ہمارے اپنے جراثیم کے منہ پر طمانچہ تھا۔ چنانچہ یونانی طب سے رہا سہا اعتقاد چوبیس گھنٹوں کے لیے بالکل اٹھ گیا۔ ان چوبیس گھنٹوں میں ہم نے کہنی کا ہر زاویے سے ایکس رے کرایا۔ لیکن اس سے مایوسی اور بڑھی۔ اس لیے کہ کہنی میں کوئی خرابی نہیں نکلی!

پورے دو مہینے مرض میں ہندو یوگ آسن اور میتھی کے ساگ کا اضافہ کرنے کے بعد ہم نے مرزا سے جا کر کیفیت بیان کی۔ استماع حال کے بعد ہماری دائیں چپنی پر دو انگلیاں رکھ کر انہوں نے نبض دیکھی۔ ہم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو بولے، چالیس سال بعد مرد کا دل نیچے اتر آتا ہے! پھر فرمایا، تمہارا علاج یہ ہے کہ فوراً بائی فوکل بنوا لو۔ ہم نے کہا مرزا! تم تو شراب بھی نہیں پیتے۔ کہنی کا آنکھ سے کیا تعلق؟ بولے، چار پانچ مہینے سے دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری پاس کی نظر بھی خراب ہو گئی ہے۔ کتاب نزدیک ہو تو تم پڑھ نہیں سکتے۔ تقاضائے سن ہی کہنا چاہیے۔ تم اخبار اور کتاب کو آنکھ سے تین فٹ دور بائیں ہاتھ میں پکڑ کے پڑھتے ہو۔ اسی لیے ہاتھ کے پٹھے اکڑ گئے ہیں۔ چنانچہ کہنی میں جو درد ہے، درد میں جو۔۔ ۔۔ ۔ الخ۔

مانا کہ مرزا ہمارے مونس و غم خوار ہیں، لیکن ان کے سامنے افشائے مرض کرتے ہوئے ہمیں ہول آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے فقیری چٹکلوں سے اصل مرض کو تو جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینک دیتے ہیں، لیکن تین چار نئے مرض گلے پڑ جاتے ہیں، جن کے لیے پھر انہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ ہر دفعہ اپنے علاج سے ہر مرض کوچارسے ضرب دیتے چلے جاتے ہیں۔ فائدہ اس طریق علاج کا یہ ہے کہ شفائے جزوی کے بعد جی پھر علالت اصلی کے رات دن ڈھونڈتا ہے۔ اور مریض کو اپنے مفرد مرض کے مرحوم جراثیم بے طرح یاد آتے ہیں اور وہ ان کی شفقتوں کو یاد کر کر کے روتا ہے۔ کچھ دنوں کی بات ہے۔ ہم نے کہا، مرزا! تین چار مہینے سے ہمیں تکیے پر صبح درجنوں سفید بال پڑے ملتے ہیں۔ فرمایا، اپنے تکیے پر؟ عرض کیا ہاں! شرلک ہومز کے مخصوص جاسوسی انداز میں چند منٹ گہرے غور و خوض کے بعد فرمایا، غالباً تمہارے ہوں گے۔ ہم نے کہا، ہمیں بھی یہی شبہ ہوا تھا۔ بولے، بھائی میرے! تم نے تمام عمر ضبط و احتیاط سے کام لیا ہے۔ اپنے نجی جذبات کو ہمیشہ شرعی حدود میں رکھا ہے۔ اسی لیے تم 38 سال کی عمر میں گنجے ہو گئے ہو! اس تشخیص کے بعد انہوں نے ایک روغنی خضاب کا نام بتایا، جس سے بال کالے اور مضبوط ہو جاتے ہیں۔ چلتے وقت انہوں نے ہمیں سختی سے خبردار کیا کہ تیل برش سے لگایا جائے ورنہ ہتھیلی پر بھی بال نکل آئیں گے، جس کے وہ اور دوا ساز کمپنی ہرگز ہرگز ذمہ دار نہ ہوں گے۔ واپسی میں ہم نے انتہائی بے صبری کے عالم میں سب سے بڑے سائز کی شیشی خریدی اور دکاندار سے ریزگاری بھی واپس نہ لی کہ اس میں سراسر وقت کا ضیاع تھا۔ چالیس دن کے مسلسل استعمال سے یہ اثر ہوا کہ سر پر جتنے بھی کالے بال تھے، وہ تو ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔ البتہ جتنے سفید بال تھے، وہ بالکل مضبوط ہو گئے۔ چنانچہ آج تک ایک سفید بال نہیں گرا، بلکہ جہاں پہلے ایک سفید بال تھا، وہاں اب تین نکل آئے ہیں۔

بائی فوکل کا نام آتے ہی ہم سنبھل کے بیٹھ گئے۔ ہم نے کہا، مرزا! مگر ہم تو ابھی چالیس سال کے نہیں ہوئے۔ بولے، مرض کے جراثیم پڑھے لکھے نہیں ہوتے کہ کیلنڈر دیکھ کر حملہ کریں۔ ذرا حال تو دیکھو اپنا۔ صحت ایسی کہ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ نام سے بھاگتے ہیں۔ صورت ایسی جیسے، معاف کرنا، ریڈیو فوٹو۔ اور رنگ بھی اب گندمی نہیں رہا۔ خوف الٰہی و اہلیہ سے زرد ہو گیا ہے۔ اگر کبھی یاروں کی بات مان لیتے تو زندگی سنور جاتی۔ ہم نے کہا، ہمارا جو حال ہے وہ تنہا ایک آدمی کے غلط فیصلوں سے ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہمیں تو اس میں پوری قوم کا ہاتھ نظر آتا ہے! فرمایا، جاپان میں فن باغبانی کے ایک مخصوص شعبے بونسائی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ماہر پشت در پشت درختوں کو اس چاؤ چونچلے سے اگاتے اورسینچتے ہیں اور ان کی اٹھان کو اس طرح قابو میں رکھتے ہیں کہ تین تین سو سال پرانے درخت میں پھل پھول بھی آتے ہیں، پت جھڑ بھی ہوتا ہے، مگر ایک بالشت سے اونچا نہیں ہونے پاتا۔ تم نے اپنی شخصیت کو اسی طرح پالا پوسا ہے۔

ہم نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا، مرزا! ہم ایسے نہ ہوتے تو تم کسے نصیحت کرتے؟ کچھ نرم پڑے۔ فرمایا نصیحت سے غرض اصلاح کس مسخرے کو ہے۔ مگر تم نے دماغ سے کبھی کام نہیں لیا۔ خالی چال چلن کے برتے پرساری زندگی گزار دی۔ ہم نے کہا، مرزا! تم تو یہ نہ کہو۔ ہم تمام عمر اپنی خواہشات سے گوریلا جنگ کرتے رہے ہیں۔ تم ہمارے دل کے کھوٹ سے واقف ہو۔ یہ آتش شوق

پوری بجھی نہیں، یہ بجھائی ہوئی سی ہے

جہاں تک اعمال کا تعلق ہے، خدا شاہد ہے کہ ہمارا کوئی کام، کوئی عمل خلاف شرع نہیں۔ لیکن اگر جنت و دوزخ کا فیصلہ فقط نیت کی بناء پر ہوا تو ہمارے دوزخ میں جانے میں خود ہمیں کو شبہ نظر نہیں آتا۔ مسکرا دیے۔ فرمایا، جن خواتین نے اپنی خوبصورتی سے تمہارے دھیان گیان میں خلل ڈالا، ان کی تعداد، کچھ نہیں تو، کراچی کی نصف آبادی کے برابر تو ہو گی؟

ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ لڑکپن ہی سے ہم پر امن زندگی بسر کرنے کے سخت خلاف رہے ہیں۔ مار دھاڑ سے بھرپور جیمس بانڈ جیسی زندگی گزارنے کی خاطر کیسے کیسے جتن کیے۔ انہیں تو کیا یاد ہو گا، قاضی عبد القدوس ان دنوں ہمیں BULL FIGHTING کی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ اور ایک داڑھی دار بوک بکرے کو سرخ ترکی ٹوپی پہنا کر، ہمیں اس کے خلاف اشتعال دلایا کرتے تھے۔ مڈل میں 33 نمبر سے حساب میں فیل ہونے کے بعد ہم نے ذریعہ معاش کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ والدہ اجازت دے دیں تو PIRATE (بحری قزاق) بن جائیں۔ لیکن جب سن شعور کو پہنچے اور انگریز حکمرانوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ نیک و بد کی تمیز بھی پیدا ہوئی تو زندگی کے نصب العین میں، مرزا ہی کے مشورے سے، اتنی اصلاح کرنی پڑی کہ صرف انگریزوں کے جہازوں کو لوٹیں گے۔ مگر ان کی میموں کے ساتھ بد سلوکی نہیں کریں گے۔ نکاح کریں گے۔

فرمایا "یہ سب علامتیں "مڈل ایج” کی ہیں، جو تمہارے کیس میں ذرا سویرے ہی آ گئی ہے۔ ایک روسی انارکسٹ نے ایک دفعہ کیا اچھی تجویز پیش کی تھی کہ 25 سال سے زائد عمر والوں کو پھانسی دے دی جائے۔ لیکن پھانسی سے زیادہ عبرت ناک سزا تم جیسوں کے لیے یہ ہو گی کہ تمہیں زندہ رہنے دیا جائے۔ "مڈل ایج” کا بجز پیری، کوئی علاج نہیں۔ ہاں تنگ دستی اور تصوف سے تھوڑا بہت آرام آ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں سن یاس کے، لے دے کے، دو ہی مشغلے ہیں۔ عیاشی۔۔ ۔۔ ۔ اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو۔۔ ۔۔ ۔ تصوف! اور قوالی میں ان دونوں کا عطر فتنہ ہے!

"اور تمہارا علاج ہے، ایک عدد بائی فوکل اور جمعرات کی جمعرات قوالی! دو دن سے سائیں گلمبر شاہ کا عرس ہو رہا ہے۔ آج رات بھی ہمارے پیر صاحب قبلہ نے محفل سماع کا اہتمام فرمایا ہے۔ مٹکے والے قوالوں کی چوکی کے علاوہ حیدرآباد کی ایک طوائف بھی ہدیۂ نیاز پیش کرے گی۔” ہم نے پوچھا "زندہ طوائف؟” بولے، "ہاں! سچ مچ کی! مرے کیوں جا رہے ہو؟ شین قاف کے علاوہ نک سک سے بھی درست۔ حضرت سے بیعت ہونے کے بعد اس نے شادی بیاہ کے مجروں سے توبہ کر لی ہے۔ اب صرف مزاروں پر گاتی ہے یا ریڈیو پاکستان سے! اور صاحب! ایسا گاتی ہے، ایسا گاتی ہے کہ گھنٹوں دیکھتے رہو! ہنستے کیا ہو۔ ایک نکتہ آج بتائے دیتے ہیں۔۔ ۔۔ گانے والی کی صورت اچھی ہو، تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔”

عشاء کے بعد ہم نے قوّالی کی تیاریاں شروع کیں۔ عید گا کڑھا ہوا کرتا پہنا۔ جمعہ کی نماز والے خاص جوتے نکالے۔ (مسجد میں ہم کبھی عام جوتے پہن کر نہیں جاتے۔ اس لیے کہ جوتے اگر ثابت ہوں تو سجدے میں بھی دل انہیں میں پڑا رہتا ہے) مرزا ہمیں لینے آئے تو نتھنے پھڑکاتے ہوئے دریافت کیا کہ آج تم میں سے جنازے کی سی بو کیوں آ رہی ہے؟ ہم نے گھبرا کر اپنی نبض دیکھی۔ دل تو ابھی دھڑک رہا تھا۔ کچھ دیر بعد بات سمجھ میں آئی تو ہم نے اقرار کیا کہ گرم شیروانی دو سال بعد نکالی ہے۔ کافوری گولیوں کی بو بری طرح بس گئی تھی۔ اسے دبانے کے لیے تھوڑا سا حنا کا عطر لگا لیا ہے۔ کہنے لگے، جہاں آداب محفل کا اتنا لحاظ رکھا ہے، وہاں اتنا اور کرو کہ ایک ایک روپے کے نوٹ اندر کی جیب میں ڈال لو۔ ہم نے پوچھا کیوں؟ فرمایا، جو شعر تمہاری یا میری سمجھ میں آ جائے، اس پر ایک نوٹ ادب کے ساتھ نذر کرنا۔ چنانچہ تمام رات ہماری یہ دہری ڈیوٹی رہی کہ دام شنیدن بچھائے بیٹھے رہیں اور اس شغل شبینہ کے دوران مرزا کے چہرے پر بھی مستقل نظر جمائے رہیں کہ جوں ہی ان کے نتھنوں سے ہویدا ہو کہ شعر سمجھ میں آ گیا ہے، اپنی ہتھیلی پہ نوٹ رکھ کر پیر و مرشد کو نذر گزاریں اور وہ اسے چھو کر قوالوں کو بخش دیں۔

اپنی ذات سے مایوس لوگوں کا اس سے زیادہ نمائندہ اجتماع ہم نے اپنے چالیس سالہ تجربے میں نہیں دیکھا۔ شہر کے چوٹی کے ادھیڑ یہاں موجود تھے، ذرا دیر بعد پیر صاحب تشریف لائے۔ بھاری بدن۔ نیند میں بھری ہوئی آنکھیں۔ چھاج سی داڑھی۔ کترواں لبیں۔ ٹخنوں تک گیروا کرتا۔ سرپر سیاہ مخمل کی چو گوشیہ ٹوپی، جس کے نیچے روپہلی بالوں کی کگر۔ ہاتھ میں سبز جریب۔ ساز ملائے گئے۔ یعنی ہارمونیم کو تالیوں سے اور تالیوں کو مٹکے سے ملایا گیا۔ اور جب کلام شاعر کو ان تینوں کے تابع کر لیا گیا تو قوالی کا رنگ جما۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پائے کے مغنیوں کو تو مغلوں کے زمانے میں پیدا ہونا چاہیے تھا، تاکہ کوئی بادشاہ انہیں ہاتھی کے پاؤں تلے رندوا ڈالتا۔ انہوں نے مولانا جامیؔ کے کلام میں میرا بائی کے دوہوں کو اس طرح شیرو شکر کیا کہ فارسی زبان سراسر مارواڑی بولی ہی کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہونے لگی۔ اور ہم جیسے بے علمے کو تو اصل پر نقل کا دھوکا ہونے لگا۔

قوالی شروع ہوئی ہے تو ہم پانچویں صف میں دو زانو بیٹھے تھے۔ نہیں، محض دو زانو نہیں۔ اس طرح بیٹھے تھے جیسے التحیات پڑھتے وقت بیٹھے ہیں۔ لیکن جیسے ہی محفل رنگ پر آئی، ہم حال کھیلنے والوں کے دھکے کھاتے کھاتے اتنے آگے نکل گئے کہ رات بھر ٹانگیں غلیل کی طرح پھیلائے ایک ہارمونیم کو گود میں لیے بیٹھے رہے۔ ایک نووارد نے ہمیں ایک روپیہ بھی دیا۔ ہمارا حشر یعنی چائے پانی بھی قوالوں کے ساتھ ہوا۔ دھکوں کے ریلے میں ہم قوالوں کی ٹولی کو چیرتے ہوئے دوسرے دروازے سے کبھی کے باہر نکل پڑے ہوتے، مگر بڑی خیریت گزری کہ ایک کلارنیٹ نے ہمیں بڑی مضبوطی سے روکے رکھا۔ یہ کلارنیٹ کوئی سوا گز لمبا ہو گا۔ اس کا بے ضر ر سرا تو سازندے کے منہ میں تھا، لیکن پھن ہمارے کان میں ایسا فٹ ہو گیا تھا کہ زور کے دھکوں کے باوجود ہم ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔

آخر شب حضرت نے بطور خاص فرمائش کر کے طوائف سے اپنی ایک، بحرسے خارج غزل گوائی، جسے اس غیرت ناہید نے سر تال سے بھی خارج کر کے سہ آتشہ کر دیا۔ حضرت اپنا کلام سن کر اس قدر آبدیدہ ہوئے کہ چھپا ہوا رومال (جس کے حاشیے پر چند اشعار کھانے کی فضیلت میں رقم تھے) تر ہو گیا۔ مقطع جی توڑ کر گایا اور زباں پہ بار خدایا شاعر کا نام آیا تو ناچتے ہوئے جا کر سر سامنے کر دیا۔ حضرت نے از راہ پرورش اصلی چھوہارے کی گٹھلیوں کی ہزار دانہ تسبیح اپنے دست غنا آلود سے اس کے گلے میں ڈال دی۔ اور اپنی خاک پا اور حجرۂ خاص کی جاروب بھی مرحمت فرمائی۔ چار بجے جب سب کی جیبیں خالی ہو گئیں تو بیشتر کو حال آ گیا۔ اور ایسی دھمال مچی کہ تکیہ کے گنبد کی ساری چمگادڑیں اڑ گئیں۔ کسی کے پاؤں کی ضرب مستانہ سے حضرت کے خلیفہ کی گھڑی کا شیشہ چور چور ہو گیا اور اب وہ بھی اپنی دستار خلافت، جبہ، بائی فوکل اور چاندی کے بٹن اتار کر میدان میں کود پڑے۔ صرف انگوٹھی اور موزے نہیں اتارے۔ سو وہ بھی بحالت مستی کسی نے اتار لیے۔ نوٹوں کی بوچھار بند ہوئی اور اب ہر بیت پر جزاک اللہ کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔ اس بھاگ بھری نے جو دیکھا کہ بندوں نے اپنا ہاتھ کھینچ کر اب معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے تو جھٹ آخری گلوری کلے میں دبا کے کہروے پر محفل ختم کر دی۔

پانچ بجے صبح ہم کان سہلاتے محفل سمع خراشی سے لوٹے۔ کچھ مہمل کلام کا، کچھ خود رفتگیِ شب کا خمار، ہم ایسے غافل سوئے کہ صبح دس بجے تک سناتے رہے۔ اور بیگم ہمارے پلنگ کے گرد منڈلاتے ہوئے بچوں کو سمجھاتی رہیں "کمبختو! آہستہ آہستہ شور مچاؤ۔ ابا سو رہے ہیں۔ رات بھر اس منحوس مرزا کی مصاحبی کی ہے۔ آج دفتر نہیں جائیں گے۔ اری او نبیلہ کی بچی! گھڑی گھڑی دروازہ مت کھول۔ مکھیوں کے ساتھ ان کے ملاقاتی بھی گھس آئیں گے۔” شام کو مرزا چلتے پھرتے ادھر آ نکلے اور (وہ روحانی طمانیت اور رونق دیکھ کر جو ہمارے منہ پر دفتری فرائض ادا نہ کرنے سے آ جاتی ہے) کہنے لگے، "دیکھا! ہم نہ کہتے تھے ایک ہی صحبت میں رنگ نکھر آیا۔ رات حضرت نے توجہ فرمائی؟ قلب پر کوئی اثر مرتب ہوا؟ رؤیا ہوا؟” ہم نے کہا، "رویا وؤیا تو ہم جانتے نہیں۔ البتہ صبح ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ بغداد میں سفید سنگ مرمر کی ایک عالیشان محل سرا ہے، جس کے صدر دروازے پر قومی پرچم کی جگہ ایک "بیکنی” لہرا رہی ہے۔ چھت وینس ڈی ملو کے مجسموں پر ٹھہری ہوئی ہے۔ حمام کی دیواریں شفاف بلور کی ہیں۔ مرکزی قالین کے گرد اگرد غیر محفوظ فصل سے مخملی گاؤ تکیوں کی جگہ تنک لباس کنیزیں آڑی لیٹی ہیں اور شیوخ ان کی گداز ٹیک لگائے ایک دوسرے کو گاؤ تکیے کو آنکھ مار رہے ہیں۔ سامنے ایک زن پر فن نقاروں پر، اپنی آنکھیں انجیر کے پتے سے ڈھانپے، برہنہ رقص کر رہی ہے اور پاؤں سے انہی نقاروں پرتال دیتی جاتی ہے۔ دل بھی اسی تال کے مطابق دھڑک رہے ہیں۔ غرض کہ ایک عالم ہے۔ امراء کے آزو بازو کنیزوں اور پیش خدمتوں کے پرے کے پرے منتظر ہیں کہ ابروئے طلب کی جنبش نیم شبی پر اپنی لذتیں اس پر تمام کر دیں۔ یہ وقفہ وقفہ سے شراب، کباب اور اپنے آپ کو پیش کرتی ہیں۔ اسی قالین کے سیاہ حاشیے پر چالیس غلام ہاتھ باندھے، نظریں جھکائے کھڑے ہیں۔ اور میں ان میں سے ایک ہوں! اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ، بھاری بدن، نیند میں بھری ہوئی آنکھیں۔ داڑھی اتنی لمبی کہ ٹائی لگائیں تو نظر نہ آئے۔ سبز جریب ٹیکے آ رہے ہیں۔ ہم نے اپنی ہتھیلی پرسو روپے کا نوٹ رکھ کر پیش کیا۔ حضرت نے نوٹ اٹھا کر وہ جگہ چومی، جہاں نوٹ رکھا تھا اور بشارت دی کہ بارہ برس بعد تیرے بھی دن پھر جائیں گے۔ تو باون سال کی عمر میں ایک بھرے پرے حرم کا مالک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔”

مرزا کا چہرہ لال انگارہ ہو گیا۔ قطع کلام کرتے ہوئے فرمایا

"تم جسم شاعر کا، مگر جذبات گھوڑے کے رکھتے ہو!”

پھر انہوں نے لعن طعن کے وہ دفتر کھولے کہ عاجز نے کھڑے کھڑے تمام مکینوں کو، مع لباس مختصر، حرم سے نکال باہر کیا۔

تین نووارد گیشائیں تھیں کہ جن کے ویزا کی ابھی آدھی مدت بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ کیسے کہوں کہ انہیں بھی اس ہڑبونگ میں زاد راہ دیے بغیر نکال دیا!

اور ان کے ساتھ ساتھ تصوف کا خیال بھی ہمیشہ ہمیش کے لیے دل سے نکال دیا۔ سنیے۔ عینک ہمارے لیے نئی چیز نہیں۔ اس لیے کہ پانچویں جماعت میں قدم رکھنے سے پہلے ہماری عینک کا نمبر 7 ہو گیا تھا۔ جو قارئین ننگی آنکھ (انگریزی ترکیب ہے، مگر خوب ہے) سے دیکھنے کے عادی ہیں انہیں شاید اندازہ نہ ہو کہ 7 نمبر عینک کیا معنی رکھتی ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اندھا بھینسا کھیلتے وقت بچے ہماری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے تھے۔ ہمارا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ناک صرف اس لیے بنائی ہے کہ عینک ٹک سکے۔ اور جو بچارے عینک سے محروم ہیں، ان کی ناک محض زکام کے لیے ہے۔۔ ۔۔ ۔ دادا جان قبلہ کا عقیدہ تھا کہ عربی نہ پڑھنے کے سبب سے ہم نصف نابینا ہو گئے ہیں۔ ورنہ اس معزز خاندان کی تاریخ میں ڈیڑھ سو سال سے کسی بزرگ نے عینک نہیں لگائی۔ اللہ اللہ! سستاسماں اور کیسے سادہ دل بزرگ تھے کہ گرلز پرائمری اسکول کی بس کا راستہ کاٹنے کو تماش بینی گردانتے تھے! آج ہمیں اس کا ملال نہیں کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے تھے، بلکہ اس کا ہے کہ ہم خود یہی کچھ سمجھ کر جایا کرتے تھے! اور جب ہم چوری کی چونی سے بائیسکوپ دیکھ کر رات کے دس بجے پنجوں کے بل گھر میں داخل ہوتے تو ڈیوڑھی میں ہمیں خاندان کے تمام بزرگ نہ صرف خود گارڈ آف آنر دیتے، بلکہ اپنی کمک پر بیرونی بوڑھوں کو بھی بلا لیتے تھے کہ مقابلہ ہمارے فسق و فجور سے تھا۔

عینک پر پھبتیاں سنتے سنتے ہمارا کمسن کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا۔ لہٰذا دوسال بعد جب دادا جان کا موتیا بند کا آپریشن ہوا تو ہم نے اس خوشی میں بچوں کو لیمن ڈراپ تقسیم کیں۔ در اصل ہم سب بچے انہیں "پرابلم "بزرگ سمجھا کرتے تھے۔ وہم کے مریض تھے۔ آپریشن سے پہلے مصنوعی بتیسی کے ایک اگلے دانت میں دردمحسوس کر رہے تھے، جس کا علاج ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹرسے کرانے کے بعد، انہوں نے وہ دانت ہی اکھڑوا دیا تھا۔ اور اب اس کی کھڈی میں حقے کی نقرئی مہنال فٹ کر کے گھنٹوں ہمارے تاریک مستقبل کے بارے میں سوچا کرتے تھے۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ آپریشن کے بعد وہ آدھ انچ موٹے شیشے کی عینک لگانے لگے تھے، جس سے ان کی غصیلی آنکھیں ہم بچوں کو تگنی بڑی دکھائی دیتی تھیں۔ اللہ جانے خود انہیں بھی اس سے کچھ دکھائی دیتا تھا یا نہیں۔ اس کا کچھ اندازہ اس سے ہوتا تھا کہ اسی زمانے میں ابّا جان چوکیداری کے لیے ایک سنہری رنگ کا بوڑھا کتا لے آئے تھے، جسے کم نظر آتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دادا جان کو کتا اور کتے کو وہ نظر نہیں آتے تھے۔ ہماری یہ ڈیوٹی لگی ہوئی تھی کہ ہر دو فریقین کو ایک دوسرے کے حلقۂ گزند سے دور رکھیں۔ بالخصوص مغرب کے وقت۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ ہماری غفلت سے وہ وضو کر کے ہرن کی کھال کے بجائے کتے پر بیٹھ جاتے اور مؤخر الذکر، اول الذکر پر بھونکنے لگتا تو وہ راقم الحروف پر چیختے کہ اندھا ہو گیا ہے کیا؟ عینک لگا کے بھی اتنا بڑا کُتا نظر نہیں آتا!

دعویٰ تو مرزا اور عینک ساز دونوں نے یہی کیا تھا کہ بالائی غرفے سے دور کی اور زیریں غرفے سے پاس کی چیزیں صاف نظر آئیں گی۔ پروفیسر قاضی عبد القدوس نے تو یہاں تک امید بندھائی تھی کہ دور کے شیشے سے اپنی بیوی اور پاس کے شیشے سے دوسرے کی بیوی کا چہرہ نہایت بھلا معلوم ہو گا۔

غافل نے اِدھر دیکھا، عاقل نے اُدھر دیکھا

لیکن قدم قدم پر ٹھوکریں کھانے کے بعد کھلا کہ بائی فوکل سے نہ دور کا جلوہ نظر آتا ہے نہ پاس کا۔ البتہ صبر آ جاتا ہے۔ یہاں تک تو بسا غنیمت ہے کہ ہم بندوق کی سببی نچلے شیشے اور مکھی اوپر والے شیشے سے ملاحظہ فرمائیں۔ اور اگر تیتر بندوق کی نال میں چونچ ڈالے کارتوس کا معائنہ کر رہا ہے تو پھر بچ کے نہیں جا سکتا۔ خیر، شکار کو جانے دیجئے کہ یوں بھی ہم جیو ہتیا کے خلاف ہو گئے ہیں۔ (زین بدھ ازم اور اہنسا کی تعلیمات سے قلب ایسا رقیق ہوا ہے کہ اب دلی خواہش یہی ہے کہ خوبصورت پرند کو جان سے مارے بغیر اس کا گوشت کھا سکیں۔) لیکن زینہ سے اترتے وقت

آنکھ پڑتی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتا ہے

اور جہاں پاؤں پڑتا ہے، وہاں سیڑھی نہیں ہوتی۔ مرزا سے اس صورت خاص کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ عینک ہر وقت لگائے رکھو۔ لیکن جہاں نظر کا کام ہو، وہاں ایک خوب صورت سی چھڑی ہاتھ میں رکھا کرو۔ لاہور میں عام ملتی ہیں۔ ہم نے کہا، لاہور میں جو خوب صورت چھڑیاں عام ملتی ہیں، وہ ہمارے شانے تک آتی ہیں۔ ہم انہیں ہاتھ میں نہیں رکھ سکتے۔ بغل میں بیساکھی کی طرح دبائے پھر سکتے ہیں۔ مگر لالہ رخساران لاہور اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ بولے، تو پھر ایک کتا ساتھ رکھا کرو۔ تمہاری طرح وفا دار نہ ہو تو مضائقہ نہیں، لیکن نابینا نہ ہو۔

ہم نو اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاہان سلف، بالخصوص بعض مغل فرماں روا، اپنے سرکش صوبیداروں، شورہ پشت شہزادوں اور تخت و تاج کے دعویدار بھائیوں کی جلاد سے آنکھیں نکلوا کر خود کو تاریخ ہند مؤلفہ ایشوری پرشاد میں خواہ مخواہ رسوا کر گئے۔ ان سب کو (بشمول ایشوری پرشاد) بائی فوکل لگوا دیتے تو اوروں کو کان ہو جاتے اور یہ دکھیارے بھیک مانگنے کے لائق بھی نہ رہتے۔ ہمارا خیال ہے کہ نہ دیکھنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک آلہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ ذرا کھل کر بات کرنے کی اجازت ہو تو ہم یہاں تک کہہ گزریں گے کہ بائی فوکل عفت نگاہ کا ضامن ہے۔ مثلاً عینک کے بالائی حصے سے مقابل بیٹھے ہوئے بت سیم تن کے سرتاج کی جبر جنگ مونچھ کا ایک ایک بال گنا جا سکتا ہے، لیکن جب ریشمی ساری ہمارے ہی رخ سرک کر پنڈلی سے اوپر یوں چڑھ جائے کہ

نہ دیکھے اب تو نہ دیکھے، کبھی تو دیکھے گا

تو صاحب! اس بے حیائی کا مطالعہ یکسوئی سے نہ اوپر کے شیشے سے کیا جا سکتا ہے، نہ نیچے کے شیشے سے۔ اور یوں گرہستی آدمی ایک گناہ سے بچ جاتا ہے

وہ اک گنہ جو بظاہر گناہ سے کم ہے

اتنا ضرور ہے کہ اسے لگانے کے بعد مزید تین عینکوں کا اہتمام لازم آتا ہے۔ ایک دور کی۔ دوسری پاس کی اور تیسری بغیر شیشوں والی۔۔ ۔۔ ۔ دیکھنے کے لیے۔ یہ آلات تشدد اس لئے بھی ضروری ہیں کہ یوں دکھانے کے ادھیڑ آدمی کے منھ پر آنکھ، آنکھ میں پتلی، پتلی میں تل اور تل میں غالباً بینائی بھی ہوتی ہے، لیکن تین سے پانچ فٹ دور کی چیز کسی طور بائی فوکل کے فوکس میں نہیں آتی۔ ایک سانحہ ہو تو بیان کریں۔ پرسوں رات دعوت ولیمہ میں جس چیز کا ڈونگا سمجھ کر ہم نے جھپا جھپ اس میں سے پلاؤ کی ساری بوٹیاں گرا لیں، وہ ایک مولوی صاحب کی پلیٹ نکلی جو خود اس وقت زردے کی کشتی پر بری نظر ڈال رہے تھے۔ یا کل رات گھپ اندھیرے سینیما حال میں انٹرول (جسے مرزا وقفہ تاک جھانک کہتے ہیں) کے بعد شانے پر ہاتھ رکھے، جس سیٹ تک پہنچنے کی کوشش کی، وہ سیٹ ہماری نہیں نکلی۔ اور نہ وہ شانہ ہماری اہلیہ کا!

انسان کی کوئی محرومی خالی از حکمت نہیں۔ جیسے جیسے کچھ درد بقدر ہماری تاب و تحمل کے ہمیں عطا ہوتا ہے، قلب بصیرتوں سے گداز ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان جب چشم و گوش کا محتاج نہ رہے اور اسے اٹکل سے زندگی گزارنے کا ہنر آ جائے تو صحیح معنوں میں نظم و ضبط کا آغاز ہوتا ہے۔ مرزا کے علاوہ بھلا یہ اور کس کا قول ہو سکتا ہے کہ کایا کا سکھ چاہو تو جوانی میں بہرے بن جاؤ اور بڑھاپے میں اندھے۔ ہوس سیر و تماشا تو خیر پرانی بات ہوئی، ہم تو اب بینائی کا بھی ہڑکا نہیں کرتے۔ ہو ہو، نہ ہو نہ ہو۔ اب تو ہر چیز کو اپنی جگہ رکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ الماری میں دائیں طرف پتلون، بائیں طرف پرانی قمیض جنہیں اب صرف بند گلے کے سوئٹر کے نیچے پہن سکتے ہیں۔ دوسرے خانے میں سلیقے سے تہ کیا ہوا بند گلے کا سوئٹر جو اب صرف بند گلے کے کوٹ کے نیچے پہنا جا سکتا ہے۔ آنکھ بند کر کے جو چاہو، نکال لو۔ غرض کہ ہر چیز کا اپنا مقام بن جاتا ہے جا نماز کی جگہ جا نماز۔ رقت انگیز ناول کی جگہ آنسوؤں سے بھیگی ہوئی چیک بک۔ محبوبہ کی جگہ منکوحہ۔۔ ۔۔ ۔۔ تکیہ کی جگہ گاو تکیہ!

ذرا ترتیب بگڑی اور آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی۔ لیکن جس گھر میں بفضلہ تین بچے ہوں وہاں یہ رکھ رکھاؤ ممکن نہیں۔ اور رکھ رکھاؤ تو ہم نے تکلفاً کہہ دیا ورنہ سچ پوچھیے تو کچھ بھی ممکن نہیں۔

دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے

ایک دن ہم نے جھنجھلا کر بیگم سے کہا، یہ کیا اندھیر ہے۔ تمہارے لاڈلے ہر چیز جگہ سے بے جگہ کر دیتے ہیں۔ کل سے چاقو غائب تھا۔ ابھی عقدہ کھلا کہ اس سے گڑیا کا اپینڈکس نکالا گیا تھا! تنک کر بولیں، اور کیا کلہاڑی سے گڑیا کا پیٹ چیرا جاتا؟ ہم نے جھٹ ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ہاں! یہ کیسے ممکن ہے۔ اس لئے کہ کلہاڑی کے ڈنڈے سے تو اس گھر میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں! تم ہی بتاؤ، صبح تازہ مضمون کی ناؤ بلکہ پورا بیڑا ٹب میں صفحہ وار نہیں چل رہا تھا؟ تمہارے گھر میں ہر ایک چیز کا نیا طریقۂ استعمال، ایک نیا فائدہ دریافت ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سوائے میرے! تمہارے سامنے کی بات ہے۔ کہہ دو، یہ بھی جھوٹ ہے۔ پرسوں دوپہر اخبار پڑھتے پڑھتے ذرا دیر کو آنکھ لگ گئی۔ کھلی تو عینک غائب۔ تم سے پوچھا تو الٹی ڈانٹ پڑی” ابھی سے کا ہے کو اٹھ بیٹھے۔ کچھ دیر اور سو لو۔ ابھی تو گڈو میاں تمہارا بائی فوکل لگائے اندھا بھینسا کھیل رہے ہیں! بالکل اپنے باپ پر پڑے ہیں۔” بچے سبھی کے ہوتے ہیں۔ مگر گھرکا گھر وایا کہیں نہیں ہوتا۔ صبح دیکھو تو سگریٹ لائٹر کی لو پر ہنڈ کلیا پکائی جا رہی ہے۔ شام کو خود بیگم صاحب گیلے بال بکھیرے، پندرہ گز گھیر کی شلوار میں ہماری پینسل سے سٹ سٹ کمر بند ڈال رہی ہیں۔

سرخ چوڑیاں چھنکا کر سہاگ راگ چھیڑتے ہوئے بولیں، ہائے اللہ! دفتر کا غصہ گھر والوں پر کیوں اتار رہے ہو؟ کسی نے تمہاری پنسل سے کمر بند ڈالا ہو تو اس کے ہاتھ ٹوٹیں۔ میں نے تو تمہارے "پار کر” سے ڈالا تھا! چاہے جس کی قسم لے لو۔ رہے بچے، تو ان کے نصیب میں تمہاری استعمال لی ہوئی چیزیں ہی لکھی ہیں۔ پھر بھی آج تک ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے چیز واپس وہیں نہ رکھی ہو۔ ہم نے کہا یقین نہ ہو تو خود جا کر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھ لو۔ سیفٹی ریزر کا بلیڈ غائب ہے۔ بولیں، کم از کم خدا سے تو ڈرو۔ ابھی ابھی میرے سامنے نبیلہ نے پنسل چھیل کر واپس ریزر میں لگایا ہے۔ وہ پجاری خود احتیاط کرتی ہے!

مرزا نے موضع چاکسو (خورد و کلاں) کے نیم بزرگوں کی انجمن کی داغ بیل ڈالی تو ہفتوں اس تذبذب میں رہے کہ نام کیا رکھا جائے۔ پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔ اے۔ (گولڈ میڈلسٹ) نے "انجمن افسردہ دلان چاکسو، رجسٹرڈ” تجویز کیا جو اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ ممبری کا دار و مدار محض افسردہ دلی پر رکھا گیا تو چاکسو کے تمام شاعر مع غیر مطبوعہ دیوان گھس آئیں گے۔ خاصی بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ اس غول کہولاں کا نام”بائی فوکل کلب "نہایت موضوع رہے گا کہ بائی فوکل ایک لحاظ سے تمام دنیا کے ادھیڑوں کا قومی نشان ہے۔

انسان کی فطرت بھی ایک طرفہ تماشا ہے۔ بوڑھا ہو یا بچہ، نوجوان ہویا ادھیڑ آدمی ہر منزل پر اپنی عمر کے باب میں جھوٹ ہی کو ترجیح دیتا ہے۔ لڑکے اپنی عمر دو چار سال زیادہ بتا کر رعب جماتے ہیں۔ یہی لڑکے کو جب نام خدا جوان ہو جاتے ہیں تو نوجوان کہلانا پسند کرتے ہیں۔ جو ادھیڑ مرد نسبتاً راست گو واقع ہوئے ہیں، وہ اپنی عمر دس برس کم بتاتے ہیں۔ عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ ایک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ بائی فوکل، السر، بد نظری، گاف، نئی نسل سے بیزاری، رقیق القلبی اور آسودہ حالی۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ عمر وسطیٰ کی جانی پہچانی نشانیاں ہیں۔ ان سات صفات میں سے چھ کی بنا پر (یعنی آسودہ حالی کو چھوڑ کر) جو ہماری ذات کے کوزے میں بند ہو گئی تھیں، ہمیں بلا مقابلہ بائی فوکل کلب کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

کلب کی رکنیت کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آدمی چالیس سال کا ہو۔ اور اگر خود کو اس سے بھی زیادہ محسوس کرتا ہو تو کہنا ہی کیا۔ حضرت حفیظ جالندھری کے الفاظ میں یہ وہ عجب عمر ہے کہ آدمی کو

ہر بری بات، بری بات نظر آتی ہے!

یہ وہ دور عافیت جب آدمی چاہے بھی تو نیکی کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ انڈونیشیا کے سابق صدر سوئیکارنو کا قول ہے کہ تیس بہاروں کے بعد ربر کا درخت اور بنت حوّا کسی مصرف کے نہیں رہتے، جبکہ مرد کسی عمر میں حسن سے مامون نہیں۔ ایسے مقولے کی تردید یا تائید ہمارے بس کا کام نہیں۔ سوئیکارنو تو بزرگ مردم دیدہ و زن گزیدہ ہونے کے علاوہ صدارت کے صدمے بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہم تو ان سے بھی محروم ہیں۔ پھر یہ کہ چھوٹے منھ کو بری بات زیب بھی نہیں دیتی۔ ربر کے بارے میں ہم ابھی صرف اتنا دریافت کر پائے ہیں کہ غلطیوں کو مٹانے کے لئے خاصی کارآمد چیز ہے۔ رہی صنف نازک، سو اپنے محتاط تجربے و مشاہدے کی بنا پر ہم کوئی خوبصورت جھوٹ نہیں بول سکتے۔ شیرنی کو کچھار میں کلیلیں کرتے دیکھنا اور بات ہے اورسرکس کے پنجرے میں بینڈ کی دھن پر لوٹیں لگاتے ہوئے دیکھنا اور بات۔

البتہ اپنے ہم جنسوں کے بارے میں بہت سے بہت کہہ سکتے ہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائیں سائیں کرتا ریگستان جو راتوں رات جیتی جیکو زمین کو نگلتا چلا جاتا ہے، وہ لق و دق صحرائے اعظم جو سن رسیدہ سینوں میں دما دم پھیلتا رہتا ہے، وہ کسی بھی لمحے نمودار ہو سکتا ہے کہ دل آنکھ سے پہلے بھی بوڑھے ہو جایا کرتے ہیں۔ اس ہو کے صحرا میں گونج کے سوا کوئی صدا، کوئی ندا سنائی نہیں دیتی اور کیکٹس کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ مرزا اس بنجر، بے رس، بے رنگ، بے امنگ دھرتی کو NO WOMAN’S LAND کہتے ہیں۔ جس کی ملی جلی سرحدیں صرف بائی فوکل سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ بڑھتے ہوئے سایوں اور بھینی بھینی یادوں کی سر زمین ہے جس کے باسی پیاس کو ترستے ہیں اور بے پیاس پیتے ہیں کہ انہیں

اس کا بھی مزا یاد ہے، اس کا بھی مزا یاد

ایک دن ہمیں اوپر کے شیشے سے صفحہ نمبر اور نچلے سے فٹ نوٹ پڑھتا دیکھ کر مرزا منہ اوپر نیچے کر کے ہماری نقل اتارنے لگے۔ حاضرین کو ہمارے حال پر خوب ہنس اچکے، تو ہم نے جل کر کہا، اچھا، ہم تو محض نیک چلنی کی وجہ سے قبل از وقت اندھے ہو گئے، لیکن تم کس خوشی میں یہ بوتل کے پیندے جتنی موٹی عینک چڑھاتے پھرتے ہو؟ فرمایا، مگر یہ بائی فوکل نہیں ہے۔ ہم نے کہا، تو کیا ہوا؟ جس عینک سے تم منہ اندھیرے تفسیر ماجدی کی ہل ہل کے تلاوت کرتے ہو، اسی سے رات ڈھلے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ستر کشا کیبرے دیکھتے ہو! فرمایا برخوردار! اسی لئے آج تک ہمارا دل سالم ہے!

اور یہ بڑی بات ہے۔ اس لئے کہ مرزا (جو بیس سال سے خود کو مرحوم کہتے اور لکھتے آئے ہیں) اب تک چھوٹے بڑے ملا کر 37 معاشقے کر چکے ہیں۔ ہر محبوبہ کی یاد کو ’لیبل‘ لگا کر اس طرح رکھ چھوڑا ہے جیسے فٹ پاتھ پر مجمع لگا کے دوائیں بیچنے والے زہریلے سانپوں اور بچھوؤں کو اسپرٹ کی بوتلوں میں لئے پھرتے ہیں۔ ان معاشقوں کا انجام وہی ہوا جو ہونا چاہیے، یعنی ناکامی۔ اور یہ اللہ نے بڑا فضل کیا، کیونکہ خدا نخواستہ وہ کامیاب ہو جاتے تو آج مرزا کے فلیٹ میں 37 نفر دلہنیں بیٹھی بلکہ کھڑی ہوتیں۔ لیکن پے در پے ناکامیوں سے مرزا کے پائے حماقت میں ذرا لغزش نہ آئی۔ دو چار ٹانگیں ٹوٹنے سے کھنکھجورا کہیں لنگڑا ہوتا ہے؟ 32 ویں ناکامی کا البتہ قلب نے بڑا اثر لیا۔ اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ راوی کے ریلوے پل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لیں۔ لیکن اس میں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں پہلے ہی ٹرین سے نہ کٹ جائیں۔ متواتر تین چار شب دوسرا سنیما شو بھی اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیکھنے گئے کہ واپسی میں مال پر انہیں کوئی بے دردی سے قتل کر دے۔ لیکن کسی غنڈے نے جاگتی جگمگاتی سڑک پر ان کے فاسد سے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگے۔ ستم یہ کہ کسی نے وہ جیب تک نہ کاٹی، جس میں وہ حفاظتی پستول بھی چھپا کر لے جاتے تھے۔ سب طرف سے مایوس ہو کر انہوں نے حضرت داتا گنج بخش کی درگاہ کا رخ کیا کہ اسی کا مینار سب سے بلند و قریب پڑتا تھا۔ مگر وہاں دیکھا کہ عرس ہو رہا ہے۔ آدمیوں پر آدمی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ موسم بھی کچھ مناسب سا ہے۔ چنانچہ فی الحال ارادہ ملتوی کر دیا اور بانو بازار سے چاٹ کھا کر واپس آ گئے۔ ذرا اتفاق تو دیکھیے کہ دو دن بعد یہ مینار ہی گر گیا۔ مرزا نے اخبار میں خبر دیکھی تو سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ بڑی حسرت سے کہنے لگے، صاحب! عجیب اتفاق ہے کہ میں اس وقت مینار پر نہیں تھا۔ برسوں اس کا قلق رہا۔

اپنی اپنی فکر اور اپنی اپنی ہمت کی بات ہے۔ ایک ہم ہیں کہ جو راتیں گناہوں سے توبہ و استغفار میں گزرنی چاہئیں، وہ اب الٹی ان کی حسرت میں ترستے پھڑکتے بیت رہی ہیں۔ نین کنول کھلے بھی تو پچھلے پہر کی چاندنی میں۔ اور ایک مرزا ہیں کہ نظر ہمیشہ نیچی رکھتے ہیں، لیکن حسینان شہر میں سے آج بھی کوئی سلوک کرے اس سے انکار نہیں۔ انہی کا قول ہے کہ آدمی بو الہوسی میں کمزوری یا کاہلی دکھائے تونری عاشقی رہ جاتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ حالات کیسے ہی نہ مساعد ہوں، بلکہ اگر بالکل نہیں ہوں، لیکن طبیعت حاضر ہے تو مرزا سنگلاخ چٹانوں سے جوئے شیر ہی نہیں، خود شیریں کو برآمد کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ بلکہ ایک آدھ دفعہ تو یہ چوٹ بھی ہوئی کہ وہ کندن، کو ہنز برآوردن!

1958 کا واقعہ ہے۔ ہمارے اصرار پر بے بی شو (شیر خوار بچوں کی نمائش) میں جج بننا منظور کیا اور وہاں ایک والدہ پر عاشق ہو گئے۔ پہلا انعام اسی کو دیا۔

4 اگست 66- دوپہر کا وقت۔ دن پہلے پیار کی مانند گرم۔ بدن کوری صراحی کی طرح رس رہا تھا۔ ہم گرد اڑاتے، خاک پھانکتے مرزا کو اکتالسویں سال گرہ کی مبارکباد دینے گل برگ پہنچے۔ مرزا کراچی سے نئے نئے لاہور آئے تھے اور مقامی ’کلر اسکیم‘ سے اس درجہ اختلاف تھا کہ سفیدے کے تنوں کو نیلا پینٹ کروا دیا تھا۔ ان کے بیرے نے برآمدے سے ہی ہانک لگائی کہ صاحب جی! وہ جو موٹر سائکل رکشا کے آگے ایک چیز لگی ہوتی ہے، صرپھ اس پر بیٹھ کے ایک صاحب ملنے آئے ہیں! لیکن مرزا نے نہ یہ اعلان سنا اور نہ ہماری موٹر سائکل کی پھٹ پھٹ، اس لئے کہ اس وقت وہ سالگرہ کے مرغن لنچ کے بعد آرام کرسی پر آنکھیں بند کے ’کیس نمبر 29’ کو آغوش توجہ میں لئے بیٹھے تھے۔ ہم نے شانہ جھنجھوڑ کر مداخلت بجا کرتے ہوئے کہا، مرزا! عجیب بات ہے۔ ہر سالگرہ ہماری عینک کے نمبر اور بے دلی میں اضافہ کر جاتی ہے اور ہمیں ہر شے میں ایک تازہ دراڑ پڑی نظر آتی ہے۔ مگر تم ہو کہ آج بھی ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہو۔ بولے، شکریہ! نشے کا فیضان ہے۔ ہم نے کہا مگر ہمارا مطلب فلمی ستاروں سے تھا! فوراً شکریہ واپس لیتے ہوئے فرمایا “…۔۔ ET TU BRUTUS؟”

دو چار برس کی بات نہیں، ہم نے مرزا کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی

پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی

ابھی وہ اس لائق بھی نہیں تھے کہ اپنے ٹویاں طوطے کی کفالت کر سکیں، لیکن دل نا صبور کا یہ رنگ تھا کہ الجبرا کے گھنٹے میں بڑی محویت سے اپنے ہاتھ کی ریکھاؤں کا مطالعہ کرتے رہتے۔ عمر کی لکیر ان کی ذاتی ضرورت سے کچھ لمبی ہی تھی۔ مگر شادی کی فقط ایک ہی لائن تھی، جسے رگڑ رگڑ کے دیکھتے تھے کہ شاید پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کوئی شاخ پھوٹی ہو۔ مدت العمر متعدد خاندانی بزرگ ان کی جوانی پر سائے فگن رہے۔ بارے ان کے گھنے گھنے سائے سر سے اٹھے تو پتہ چلا کہ دنیا اتنی بری جگہ نہیں۔ لیکن ایک مدت تک مالی حالات نے رخصت آوارگی نہ دی اور جی مار مار کے رہ گئے۔ ورنہ ان کا بس چلتا تو بچی کھچی متاع عمر کو اس طرح ٹھکانے لگا دیتے، جیسے دلی کے بادشاہ لدے پھندے باغ لونڈیوں سے لٹوا دیا کرتے تھے۔ مرزا 1948 تک مرزایانہ بسر کرتے رہے۔ یعنی مجاز رئیسانہ اور آمدنی فقیرانہ رکھتے تھے۔ شادی کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ خدا بھلا کرے پروفیسر قاضی عبد القدوس کا، جنہوں نے اپنی ہتھیلی پر ایک دن قلم سے ضرب تقسیم کر کے مرزا کو اعداد و شمار سے قائل کر دیا کہ جتنی رقم وہ سگریٹوں پر پھونک چکے ہیں، اس سے سگھڑ شوہر چار دفعہ مہر بییاق کر سکتا تھا۔ آخر ہم سب نے لگ لپٹ کر ان کی شادی کروا دی۔ دو چار دن تو مہر معجل کی دہشت سے سہمے سہمے پھرے اور جیسے تیسے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا، لیکن ہنی مون کا ہفتہ ختم ہونے سے پہلے اس حد تک نارمل ہو گئے کہ بے تکلف دوستوں کو چھوڑ دیئے، خود نئی نویلی دلہن کی زبان پر بھی یوں ہی کوئی زنانہ نام آ گیا تو مرزا تڑپ کر مجسم سوال نامہ بن گئے:

کہاں ہے؟ کس طرف ہے؟ کدھر ہے؟

انہی کے ایک برادر نسبتی سے روایت ہے کہ عین آرسی مصحف کے وقت بھی آئینے میں اپنی دلہن کا منہ دیکھنے کے بجائے مرزا کی نگاہیں اس کی ایک سہیلی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ دنیا گواہ ہے (دنیا سے یہاں ہماری مراد وہی ہے، جو مرزا کی، یعنی عالم نسواں) کہ مرزا نے جس پہ ڈالی، بری نظر ڈالی، سوائے اپنی بیوی کے۔ موصوف کا اپنا بیان ہے کہ بندہ شیر خوارگی کے عالم میں بھی بیس سال سے زیادہ عمر کی آیا کی گود میں نہیں جاتا تھا۔ کبھی کبھی اپنی ندیدی آنکھوں سے خود پناہ مانگنے لگتے تھے۔ زکام کے سہ ماہی حملے کے دوران ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کئی بار وصیت کر چکے ہیں کہ میں مرنے لگوں، تو للہ ایک گھنٹہ پہلے میری عینک اتار دینا، ورنہ میرا دم نہیں نکلے گا۔ ہم نے ایک دفعہ پوچھا مرزا! ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ تمہارے دشمنوں کے مرنے میں اب ایک گھنٹہ رہ گیا ہے؟ بولے، جب میں نرس سے ڈیوٹی کے بعد کا فون نمبر پوچھنے کے بجائے اپنا ٹمپریچر پوچھنے لگوں، تو سمجھ لینا کہ تمہارے یار جانی کا وقت آن لگا ہے!

مگر مرزا کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان کے سینے میں جو بانکا سجیلا ڈانؔ جوان دھومیں مچایا کرتا تھا، وہ اب پچھلے پہر دوہرا ہو ہو کر کھانسنے لگا ہے۔ اب وہ آتش دان کے سامنے کمبل کا گھونگھٹ نکالے، کپکپاتی آواز میں اپنے نیاز مندوں کو اس عہد رنگیں کی داستانیں سناتے ہیں جب وہ علی الصبح FRIDGE کے پانی سے نہایا کرتے تھے۔ وہ تو یہاں تک شیخی مارتے ہیں کہ آج کل کے مقابلے میں اس زمانے کی طوائفیں کہیں زیادہ بد چلن ہوا کرتی تھیں۔

مرزا کا ذکر، اور پھر بیاں اپنا! سمجھ میں نہیں آتا کس دل سے ختم کریں۔ لیکن قلب کے سر پرست اعلیٰ فہیم اللہ خان کا تعارف رہا جاتا ہے۔ یہ انہیں کے دم قدم بلکہ دام و درم کا ظہور ہے جس نے چاکسو خورد و کلاں کے تمام ادھیڑوں کو بغیر کسی مقصد کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ خان صاحب ہر نسل کی امریکی کار اور گھوڑوں کے دلدادہ ہیں۔ آخر الذکر کی رفتار و کردار سے اتنے متاثر ہیں کہ کسی حسین خاتون کی انتہائی تعریف کرنی مقصود ہو تو اسے گھوڑی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اوروں پر بہت ہوا تو رزق کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ ان پر پوری بارہ دری کھلی ہوئی ہے۔ اور وہ بھی روز اول سے ورنہ ہونے کو تو فارغ البالی ہمیں بھی نصیب ہوئی، مگر بقول شاعر

اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو

ہم جب چوتھی جماعت میں پہنچے تو ان کے بڑے صاحبزادے میٹرک میں دوسری دفعہ فیل ہو چکے تھے۔ لیکن پیری کا احساس تو کجا، جب سے ہم نے بائی فوکل لگایا ہے، ہمیں اپنی تازہ ترین یعنی ماہ رواں کی منظور نظر سے "انکل” کہلوا کر حسینوں کی نگاہ میں ہماری عزت اور عمر بڑھاتے ہیں۔ جس مقام پر اب ہم لاحول پڑھنے لگ گئے ہیں، وہاں ان کی زبان ابھی تک سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے سوکھی جاتی ہے۔ ہم نے ان کی جوانی کی گرمیاں نہیں دیکھیں۔ ہاں، بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ جب موصوف کی جوانی محلے کی دوشیزاؤں کے والدین پر گراں گزر نے لگی تو انہوں نے ہم سایوں کے در و دیوار پہ حسرت سے نظر کر کے چاکسو خورد کو خیر باد کہا اور ممبئ کا رخ کیا، جہاں اون کی آڑھت کے ساتھ ساتھ 1947 تک کئی اونچے گھرانوں کی روشن خیالی پر متصرف رہے۔ مرزا کا کہنا ہے کہ ان کا دل شروع ہی سے بہت بڑا تھا۔ ان کا مطلب ہے کہ اس میں بیک وقت کئی مستورات کی سمائی ہو سکتی تھی۔ خوب سے خوب تر کی جستجو انہیں کئی بار قاضی کے سامنے بھی لے گئی۔ اور ہر نکاح پہ پھر پھر کے جوانی آئی کہ یہ

عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لیے

ان کے قہقہے میں جو گونج اور گمک ہے، وہ سندھ کلب کے انگریزوں کی صحبت اور وہیں کی وہسکی سے کشید ہوئی ہے۔ خوش باش، خوش لباس، شاہ خرچ۔ نا جائز آمدنی کو انہوں نے ہمیشہ نا جائز میں خرچ کیا۔ دھوپ گھڑی کی مانند جو صرف روشن ساعتوں کا شمار رکھتی ہے۔ قومی ہیکل، چوڑی چھاتی، کھڑی کمر، کندھے جیسے خربوزے کی پھانک، کھلتی برستی جوانی۔ اور آنکھیں؟ ادھر دو تین سال سے عینک لگانے لگے ہیں، مگر دھوپ کی۔ وہ بھی اس وقت جب سینڈزپٹ کے لباس دشمن ساحل پر غسل آفتابی کے نظارے سے ان کی گدلی گدلی آنکھوں میں ایک ہزار”اسکینڈل پاور” کی چمک پیدا ہو جاتی ہے اور وہ گھنٹوں کسی کو نظروں سے غسل دیتے رہتے ہیں۔ پاس کی نظر ایسی کہ اب تک اپنی جوان جہان پوتیوں کے نام کے خط کھول کر بغیر عینک کے پڑھ لیتے ہیں۔ رہی دور کی نظر، سو جتنی دور نارمل آدمی کی نظر جا سکتی ہے، اتنی دور بری نظر سے دیکھتے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ: ریختہ اور اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل