فہرست مضامین
- ایک مٹھی میں میرے خواب
- سعید کی شاعری – احمد فراز
- عشق کا فیض
- اس نے دیکھا ہے
- زلف ِ جاناں تری خوشبو کے سہارے تک ہے
- جب کسی درد کو سہلاتے ہیں
- حشر کیسا بھی ہو برپا نہیں دیکھا جاتا
- سب سمجھ کر بھی زیادہ نہ سمجھ
- یوں تو کیا کیا راحتیں دامانِ ساحل میں نہیں
- سرِ بازار لُٹ کر بھی دہائی اب نہیں دیتے
- آنکھوں کو زخم زخم تو دل کو لہو کریں
- سپردگی کا قرینہ سبھی کو آتا ہے
- اس شہر میں رسوائی کا سامان بہت ہے
- دوستوں کے درمیاں ہوتے ہوئے
- لب کشا شہرِ ملامت ہے چلو پوچھتے ہیں
- قربت کا سبب ہو بھی تو کھُل کر نہیں ملتے
- کسی بھی سنگِ ملامت سے جی نہیں بھرتا
- جو گریزاں ہو نہ بیباک ملے
- وہ جو ہر لب پہ ہے رنگین فسانے کی طرح
- کیف جنوں سے دیر و حرم بولنے لگے
- ابر سے جیسے ہم آغوش ہو ساون کی ہوا
- وہ کوئے دل ہو کہ اہلِ نظر کے دروازے
- پھول جس کے لب و رخسار کے شیدائی ہیں
- جب وہ صہبا سے بہک جاتی ہے
- پھر کسی آس میں رہ کر دیکھیں
- میں خوش نہیں ہوں کہ شب کے مصاحبین کے ساتھ
- کچھ التفاتِ یار میں رنجیدگی بھی ہے
- دل شکستہ ہیں نہ پامال نظر آتے ہیں
- روشنی کا نشان چاہتے ہیں
- اب لطف و بے خودی کے وہ موسم نہیں رہے
- وہی ہے دل کی ضرورت جو آس پاس رہے
- ہم خانہ خرابوں کو بھلے ٹھیک نہ سمجھو
- دشت پر آب ہے کئی دن سے
- دل کی محفل میں بٹھا کر کبھی نزدیک سے دیکھ
- اسے بکھرے ہوئے لوگوں سے رغبت ہے
- بند گلی
- بارش
- موت کی کشتی
- بقاء کا المیہ
- Cyprus Club
- دھنک
- قیدِ محبت
- عسکری دائرہ
- آئینہ
- بے خودی
- آزادی
- پائل
- ادھر لمحہ لمحہ
- سسی کی سہیلی
- تلاش
- قطعات
- Closure
- میوزیم
- EORA GIRL
- فراز کے نام ایک خط۔ ۔ ۔ اگست2005
- رقصِ طلب
- قصیدہ
- سُن روہی کی رانی
ایک مٹھی میں میرے خواب
سعید
سعید کی شاعری – احمد فراز
اردو شاعری کی فضا میں سعید کی آواز تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔
سعید کے تازہ مجموعہ کلام ایک مٹھی میں مرے خواب میں شامل نظمیں اور غزلیں اس کے خواب سہی مگر ان کا پھیلاؤ اہل دل کی دنیا کو محیط کئے ہوئے ہے۔ سعید نے جس معاشرے میں رہ کر شاعری کی ہے دیگر محاسن کے علاوہ وہاں کے لوگوں کی محرومیوں اور اداسیوں کی جھلک اس کی شاعری میں واضح اور نمایاں نظر آتی ہے اور مغربی معاشرے میں رہ کر سبھی چھوٹے بڑے تجربات کا احاطہ کرتی ہے۔ ہجرت زدگی کی کوکھ سے ابھرنے والے تہذیبی اور سماجی مسائل اس کی شاعری کا خاص موضوع ہیں اور بعض نظموں کے موضوعات اتنے اچھوتے ہیں جن کی مثال ہمیں کہیں اور نہیں ملتی۔
احمد فراز
عشق کا فیض
نوشی گیلانی
عشق ہی تو ہے جو بصارت کو بصیرت میں۔ ۔ ۔ وحشت کو عبادت میں ۔ ۔ ۔ عداوت کو رضاعت میں یوں تبدیل کرتا ہے کہ عمر کے منظر نامے پر نئے رنگوں کے نقش بننے لگتے ہیں۔ زرد پھولوں کی بارش بھی ہوا کے آنچل پر اپنے لمس کے انگار اس طرح چھوڑ جاتی ہے کہ روح کے رخسار ان کی نرمیوں سے دہک اٹھیں۔
بدن کی مٹی میں عشق کا گلاب جڑ پکڑ لیتا ہے تو درویش کا چولا کتنا ہی میلا کیوں نہ ہو اس کا وجدان خوشبو کے معجزے تخلیق کرتا ہے۔ ۔ ۔ روشنی کی آیتیں تحریر کرتا ہے ، کبھی عروسِ شب کی پیشانی پر تو کبھی بادِ صبح کی حیرانی پر۔ اک کیفیت حال دھمال ہے جو اندر کا الاؤ بجھنے نہیں دیتی۔ آہوں کی پکھیاں جھیلتے سانسوں کی تسبیح ٹوٹنے لگتی ہے۔ ہڈیوں کا بالن بن جاتا ہے۔ پر ہستی میں مستی ، فقیری میں بادشاہی ، نیاز مندی میں بے نیازی کا بھید مل جاتا ہے۔ گویا عشق کا فیض بھی دعا کے فیض کی طرح جلد یا بدیر اپنی تاثیر کی گواہی دیتا ہے اور جب اس کیفیت کا دائرہ شاعر کے گرد بنتا ہے تو لفظ قوت اظہار کے ہم سفر ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمسفری خواہ چاند تاروں کی ہو یا شب آثاروں کی اپنے ہنر تو اجاگر کرتی ہے سو شاعری کبھی خیمہ۔ ۔ ۔ میں تو کبھی چاندنی کے جائے نماز پر سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ یہ موسم سعید کے آنگن میں ٹھہرتا ہے تو وہ کہتے ہیں۔
میں آوارہ بادل ہوں
تو ساون کی تیز ہوا
آؤ مل کر خوابوں کو تصویر کریں
جب تھک جائیں
قطرہ قطرہ
رم جھم ، رم جھم
خاک میں سوئی خوشبو کو بیدار کریں
رنگوں کو آزاد کریں۔
کون ہے جو راتوں میں خوابوں کا پڑاؤ نہیں چاہتا مگر یہ کوئی ایسا نگر ہے جو خواہش سے مشروط ہے۔ ہجر و وصال کے جزیروں پر کوئی اور یہ ضابطے ترتیب دینے والا۔ کوئی جذبہ دیوانگی ہے جس کی مدھر ان دیکھی گونگی زنجیریں جو پاؤں پڑ جاتی ہیں اور جو سنائی دیں نہ دکھائی پر ان کیلئے وجود کو کہیں تھمنے نہ دے اور رتجگے جو مسکراتے رہیں آنکھوں کی خوشنما حویلیوں میں
ادھر جبیں پہ سنبھلتے نہیں مرے سجدے
اِدھر خدا کا عبادت سے جی نہیں بھرتا
وہ محوِ شوق ہے کب سے مگر مرے اندر
عجب خلا ہے محبت سے جی نہیں بھرتا
شعلۂ غم آتش دل جو بھی ہو
وقت لگتا ہے دھواں ہوتے ہوئے
صحن شعور میں کیا کیا عالم نہیں گزرتے۔کبھی بھیگتی راتوں میں دور تک پھیلے اجنبی ٹیلوں کے درمیان بنتے راستوں پر قافلے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں تو کوئی صحرائی آواز کونجوں سے ہم کلام گیت گاتی ہے اور راستے بناتی جاتی ہے جیسے جستجو کی تسخیر کو بصارت مل جائے۔
کبھی بچپن والے با غوں میں پرندوں کے پر اکٹھے کرنے کا جنون ماہ و سال گزرنے کا احساس نہیں ہونے دیتا اور بالوں میں چاندنی ڈھلک جاتی ہے۔ منزل کا نشان تو کیا ہر موڑ پر اک نیا سنگ میل ہوتا ہے جس پر نام لکھوں یا مٹاؤں کسے خبر ہونا ہے۔ یہ احساس جب سعید خان کے ہاں قیام کرتا ہے تو لکھتے ہیں
اب ہم کو کسی سے بھی شکایت نہیں رہتی
اس حشر کے آگے تو کوئی قیامت نہیں رہتی
دل اب بھی دھڑکتا ہے ترے نام پہ لیکن
اب دیر تلک کوئی بھی ساعت نہیں رہتی
عمر کے اس آئینہ خانے میں کتنی ہی تصویریں ہیں جنہیں ہاتھ لگائیں تو ہتھیلیوں پر مقدر کی لکیریں پھیکی پڑ جائیں ، ہونٹ چھو لیں تو پیاس کے صحیفے اتریں۔ ۔ ۔ عجیب ہے قصہ شب و روز بھی۔ کبھی تدبیر کی حیرانی ، کبھی تکمیل کی جولانی ، کبھی فتح مندی کا غرور کبھی شکست سے چور چور ، گمان و یقین ہم رقص نظر آتے ہیں۔ اس پر بھی سعید فیصلہ کن استدلال کے ساتھ کہتے ہیں۔
لب کشا شہرِ ملامت ہے چلو پوچھتے ہیں
ہم سے کس کس کو شکایت ہے چلو پوچھتے ہیں
میری رسوائی پہ چپ میرے شناساؤں کی
بے بسی ہے کہ مروت ہے چلو پوچھتے ہیں
کسی بے درد رفاقت کا نشاں ہے شاید
اس کی آنکھوں میں جو وحشت ہے چلو پوچھتے ہیں
ان کی شاعری میں کناروں کے درمیان بہتے ہوئے دریا کی لہروں کا اطمینان اور سرشاری ہے۔ ایک زخم خوردہ آگاہی ، اک خوشگوار سادگی ، اک انا پرست سپردگی ۔ ۔ ۔ دریا جو سیلاب کرتا ہے۔ مگر بے آب کر دینے کے اختیار کے ساتھ۔ غلامی میں بھی طبع حکمرانی سعید کے ہاں غالب ہے۔
وہی ہے دل کی ضرورت جو آس پاس رہے
کسی کے ہجر میں کب تک کوئی اداس رہے
نہ وحشتوں کو رہا ہے خیال رسوائی
نہ کوئے یار کے سنگ آئینہ شناس رہے
نصیب جاں تھے عجب فاصلے محبت میں
نہ اس سے دور رہے ہم نہ اس کے پاس رہے
چند دہائیاں پیشتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردو ادب کے عہد ساز شاعر احمد فراز نے عشق میں انانیت پسندی کو جدید فکری تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے شاعری میں ایک تازہ روایت کی بنیاد رکھی۔ پورے قد سے کھڑے مغلوب وفا کا مدلل اور پر وقار لب و لہجہ مگر ریشمی جذبہ و احساس سے آراستہ۔اس کے بعد لکھی جانے والی نظم و غزل میں اس انداز کا گہرا اثر ملتا ہے۔ سعید بھی متاثر نظر آتے ہیں مگر اس کو خوب نبھاتے ہیں۔
آنکھوں کو زخم زخم تو دل کو لہو کریں
پھر جی یہ چاہتا ہے تری جستجو کریں
حائل ہیں اپنی راہ میں ہم خود انا پرست
خود کو بھلا سکیں تو تری آرزو کریں
جیسے سب اہلِ شہر مرے غم شناس ہو ں
جب گفتگو کریں تو تری گفتگو کریں
اس حرف آخر کے ساتھ کہ سعید اپنے جنون میں حرف کو لفظ ۔ ۔ ۔ لفظ کو معانی ۔ ۔ ۔ معانی کو کہانی کر دینے کی انفرادیت کے امانتدار ٹھہریں۔
نوشی گیلانی
جانے کس دشت کا آزار ہو کل ساتھ مرے
میں ہوائے شب ہِجراں ہوں نہ چل ساتھ مرے
میں تو پابند کروں وحشتِ دل کو لیکن
راہ کہتی ہے کہیں دور نکل ساتھ مرے
تجھ سے اس شہر کے رنگوں میں توانائی ہے
بے وجہ عکسِ پریشان میں نہ ڈھل ساتھ مرے
تجھ میں بے چین پرندوں کی ابھی تاب نہیں
یوں نہ حالات کے پنجرے سے نکل ساتھ مرے
ہم سفر ہے تو پس و پیش تماشائی کیا
گر مرے ساتھ مری جان سنبھل ساتھ مرے
تجھ سے پتھر کو گہر کر دے مرے دل کی تپش
آ کبھی حبسِ شب ِ غم میں پگھل ساتھ مرے
کس نظر نے مجھے نزدیک سے دیکھا ہے سعید
پھر سے سرگوشیاں کرتی ہے غزل ساتھ مرے
٭٭٭
موسم بھی نیا اب کے ٹھکانے بھی نئے ہیں
کچھ دل کے دھڑکنے کے بہانے بھی نئے ہیں
کچھ اپنی کہانی کو نئے موڑ کی خواہش
کچھ اس کی نگاہوں کے فسانے بھی نئے ہیں
اس حسن سے منسوب ہیں حیرت کے کرشمے
وہ پوچھے تو حالات پرانے بھی نئے ہیں
کیا لوٹ کے آئے ہیں سرِ شہرِ تمنا
چہرے ہی نہیں اب کے زمانے بھی نئے ہیں
کچھ رات کے پہلو میں بھی خوشبو کی خبر ہے
کچھ خواب سعید اپنے سرہانے بھی نئے ہیں
٭٭٭
کس قدر تجھ کو تری ذات سے ہٹ کر سوچا
حد تو یہ ہے تجھے اوروں سے لپٹ کر سوچا
محو ہو کر تری خوشبو کے گماں میں اکثر
ہم نے صدیوں کو بھی لمحوں میں سمٹ کر سوچا
عشق بنیاد میں شامل تھا سدا سے اپنی
دل کے محور سے نہ ہم نے کبھی ہٹ کر سوچا
فکر کب شور کے پہلو میں نمو پاتی ہے
سوچنے والوں نے آشوب سے کٹ کر سوچا
ہر تعلق میں ترا نقش ابھر آتا ہے
ہم نے جب بھی کسی مورت سے لپٹ کر سوچا
ہم نے ہجرت کی لہو رنگ سحر سے پہلے
جانے کیا کیا تیری بانہوں میں سمٹ کر سوچا
بارہا کر دیا حالات نے مسمار سعید
اپنی قامت سے نہ ہم نے کبھی گھٹ کر سوچا
٭٭٭
دل چاک ہے سو داغ بھی دامن سے لگے ہیں
کچھ تار غنیمت ہے ابھی تن سے لگے ہیں
اس حبس میں آواز اٹھانے کی سزا ہے
خود ہاتھ مرے اب مری گردن سے لگے ہیں
در آئیں کے دیوار اٹھانے سے ذرا اور
جو خوف کے سائے مرے آنگن سے لگے ہیں
زخموں کو مسیحا کی نظر کھول کے دیکھے
سہمے ہوئے کچھ خواب مرے تن سے لگے ہیں
پھر در پئے آزار ہے فرقت کا مہینہ
پھر ہجر کے آسیب نشیمن سے لگے ہیں
٭٭٭
وہ بت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی
کسے ہوا ہے میسر قریب ہو کر بھی
ملا ہے یار بھی ہم کو سکونِ دل جیسا
نصیب ہو نہیں سکتا نصیب ہو کر بھی
غروبِ شب ہے کہ خود آگہی ستاروں کی
بجھے بجھے ہیں سحر کے نقیب ہو کر بھی
ہم اپنی ذات میں اک انجمن سے کیا کم تھے
تری طلب میں جہاں کے رقیب ہو کر بھی
شکستِ جاں بھی وفا چاہتی ہے خوابوں سے
نبھا رہے ہیں تعلق صلیب ہو کر بھی
قلندری میں نہاں ہے سکندری کا مزا
ہم اپنے آپ میں خوش ہیں غریب ہو کر بھی
سعید ظرف یہی ہے جہانِ حیرت میں
رہے ہیں سادہ روش ہم عجیب ہو کر بھی
٭٭٭
راہ چلتے ہوئے راہی کا گلہ کون کرے
دل کی بے صرفہ تباہی کا گلہ کون کرے
داغ اس دل کی ضرورت بھی ہیں سرمایہ بھی
پھر مقدر کی سیاہی کا گلہ کون کرے
سخت منزل ہو تو سائے بھی بچھڑ جاتے ہیں
تجھ سے بے ربط نگاہی کا گلہ کون کرے
شہر کیا ہے کوئی الزام سرا ہے جیسے
اپنی ناکردہ گناہی کا گلہ کون کرے
آنکھ آئینے سے کترا کے گزرتی ہے یہاں
وقت کی کور نگاہی کا گلہ کون کرے
درد اشعار میں خود عکس کشی کرتا ہے
چشمِ بے بس کی گواہی کا گلہ کون کرے
ہم بھی اس غفلت خود سوز میں شامل ہیں سعید
اب یہاں چور سپاہی کا گلہ کون کرے
٭٭٭
مری فصیلِ انا میں شگاف کر کے رہے
کہ دوست مجھ کو بھی میرے خلاف کر کے رہے
یہ معجزہ ہے کہ اپنے دلوں کی وسعت ہے
محبتوں میں بھی ہم اختلاف کر کے رہے
رکے تو حسن کا کعبہ تھا اپنے پہلو میں
چلے تو اس کی گلی کا طواف کر کے رہے
جنوں میں رنج و ملامت کو رائیگاں نہ سمجھ
یہ داغ وہ ہے جو دامن کو صاف کر کے رہے
ترے فراق نے آخر بتوں کو سونپ دیا
سوادِ ہجر سے ہم انحراف کر کے رہے
ہم اپنے دل کی قیامت کا راز کیا رکھیں
وہ جس نظر میں رہے انکشاف کر کے رہے
میں سر اٹھا کے کچھ اِس شان سے جیا ہوں سعید
مرے عدو بھی مرا اعتراف کر کے رہے
٭٭٭
اس نے دیکھا ہے
اس نے دیکھا ہے
تو ہم تپتے ہوئے صحرا بھی
مدتوں بعد سنور کر گل و گلزار ہوئے
اس نے پوچھا ہے
تو ہم شاعرِ دل بستہ بھی
خامشی چھوڑ کے شرمندہ ِ اظہار ہوئے
اس نے سمجھا ہے
تو ہم خوابِ پریشاں کے اسیر
حرفِ بے نام سے اندازِ ِ بیاں ٹھہرے ہیں
اس نے چاہا ہے
تو ہم خاک بسر اہلِ جنوں
سنگِ بے مایہ سے اب گہرِ ِ گراں ٹھہرے ہیں
٭٭٭
زلف ِ جاناں تری خوشبو کے سہارے تک ہے
یہ سفر صبح کے مجبور ستارے تک ہے
آؤ حالات کو پھر ہجر کا مجرم سمجھیں
ورنہ اس غم کا مداوا بھی ہمارے تک ہے
وقت آساں ہی سہی ہم پہ بظاہر لیکن
دشتِ فرقت میں گزر اپنا گزارے تک ہے
پیڑ ہوتے تو زمینوں کی حفاظت کرتے
اب تو موسم بھی ہواؤں کے اشارے تک ہے
کون رہتا ہے رواں اپنی حدوں سے باہر
شدتِ موج سمندر کے کنارے تک ہے
کچھ نئے زخم ہوئے اب مری پہچان سعید
سلسلہ درد کا سڈنی سے ہزارے تک ہے
٭٭٭
جب کسی درد کو سہلاتے ہیں
کچھ نئے زخم نکل آتے ہیں
زیست وہ کربِ مسلسل ہے کہ ہم
سانس لینے سے بھی گھبراتے ہیں
بے وجہ اتنا بھی مت سوچا کر
وسوسے دل میں اتر جاتے ہیں
کیسا ماحول کہاں کی خوشبو
پھول کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
ہم اُسے سوچنے بیٹھیں تو سعید
فاصلے خود ہی سمٹ جاتے ہیں
٭٭٭
حشر کیسا بھی ہو برپا نہیں دیکھا جاتا
یار اب ہم سے تماشا نہیں دیکھا جاتا
ایسے برزخ سے تڑپنا ہی کہیں بہتر تھا
دل کو محرومِ تمنا نہیں دیکھا جاتا
خوف آتا ہے تو بس خواب کی بے خوفی سے
ورنہ اس آنکھ سے کیا کیا نہیں دیکھا جاتا
ان کی ہستی کی نمو ہے مری بربادی میں
ناصحوں سے مجھے اچھا نہیں دیکھا جاتا
فاصلہ رکھ کے سرِ راہ ملا کر دشمن
دوستوں سے ہمیں یکجا نہیں دیکھا جاتا
ترکِ الفت ہی سہی ، ترکِ تعلق ہی سہی
پھر بھی اپنوں کو پرایا نہیں دیکھا جاتا
ہجر دشوار مسافت ہے مگر یاد رہے
یہ وہ غم ہے کہ جو تنہا نہیں دیکھا جاتا
نقش آنکھوں میں ہے محبوب کی صورت ورنہ
ہم سے اس شہر کا نقشہ نہیں دیکھا جاتا
ایسی شدت سے ہمیں وقت نے بدلا ہے سعید
آئینہ اب نہیں دیکھا ، نہیں دیکھا جاتا
٭٭٭
سب سمجھ کر بھی زیادہ نہ سمجھ
دلِ سادہ اُسے سادہ نہ سمجھ
اُس کی دو دن کی رفاقت کو ابھی
ساتھ چلنے کا ارادہ نہ سمجھ
وسعتیں دل میں ہوا کرتی ہیں
ہر کھلے گھر کو کشادہ نہ سمجھ
ایسی دو دن کی شناسائی کو
کچھ ضرورت سے زیادہ نہ سمجھ
ساقیا ، پاسِ تعلق کو مِرے
کششِ ساغر و بادہ نہ سمجھ
صورتِ ریگِ رواں ہے دنیا
نقشِ پا کو یہاں جادہ نہ سمجھ
جس نے کچھ دن تجھے پہنا تھا سعید
خود کو اُس بُت کا لِبادہ نہ سمجھ
٭٭٭
یوں تو کیا کیا راحتیں دامانِ ساحل میں نہیں
جو نشہ موجِ مسافت میں ہے منزل میں نہیں
اب تو قاتل کے ہنر کی دادا دینا چاہیے
اب تو رنجش کا نشاں تک رقصِ بسمل میں نہیں
یار کو ہم نے بالآخر مہرباں تو کر لیا
آ پڑی ہے دل کو اب مشکل کہ مشکل میں نہیں
اس بتِ کافر کی صحبت کا اثر کہہ لیجئے
کچھ محبت کے سوا اب خانۂ دل میں نہیں
جان سے بھی سخت جاں ہیں روح کی بے چینیاں
اپنی وحشت کا مداوا دستِ قاتل میں نہیں
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشتِ عشق میں
قیس صحرا میں نہیں ، لیلیٰ بھی محمل میں نہیں
ہم کو خوش آیا تری فطرت کا یہ پہلو سعید
یا تو اپنے رنگ میں یا رنگِ محفل میں نہیں
٭٭٭
سرِ بازار لُٹ کر بھی دہائی اب نہیں دیتے
مرے لوگوں کو دکھ اپنے دکھائی اب نہیں دیتے
سرِ محشر کوئی خلقِ خدا سے کیا نباہے گا
یہاں ملزم خود اپنی بھی صفائی اب نہیں دیتے
کبھی چشمِ شناسا کی طرح جو ہنس کے ملتے تھے
وہ آئینے بھی دادِ آشنائی اب نہیں دیتے
جو منظر تھے وہ پس منظر میں پنہاں ہوتے جاتے ہیں
تماشے میں تماشائی دکھائی اب نہیں دیتے
ہماری سرحدوں سے شہ رگوں تک آن پہنچے ہیں
محافظ اپنے پنجوں سے رہائی اب نہیں دیتے
گِلہ کس کس کی رخصت کا سعید اس دشت میں کیجئے
ہمیں خود اپنے سائے بھی دکھائی اب نہیں دیتے
٭٭٭
آنکھوں کو زخم زخم تو دل کو لہو کریں
پھر جی یہ چاہتا ہے تری جستجو کریں
رستا ہے جس کے چاک سے پندار کا لہو
وہ زخم کس کے تارِ نظر سے رفو کریں
دل مضطرب ہے شام سے آ اے غم حیات
تجھ کو سپردِ گردشِ جام و سبو کریں
حائل ہیں اپنی راہ میں ہم خود انا پرست
خود کو بھلا سکیں تو تری آرزو کریں
جیسے سب اہلِ شہر مرے غم شناس ہوں
جب گفتگو کریں تو تری گفتگو کریں
ہم ہیں کہ پچھلے زخم ہمیں بھولتے نہیں
اور دل کہے کہ کوئی نئی آرزو کریں
جس جا گزر ہو میرے بُتِ خود شناس کا
پتھر بھی آئینوں کی طرح گفتگو کریں
ہر شخص اپنے آپ سے نادم ہو جب سعید
کیا لوگ آئینے کے مجھے روبرو کریں
٭٭٭
سپردگی کا قرینہ سبھی کو آتا ہے
سو ابتدا میں پسینہ سبھی کو آتا ہے
شعورِ مے نہ سہی کثرتِ ہوس ہی سہی
شراب لاؤ کہ پینا سبھی کو آتا ہے
یہ اپنے آپ سے بچھڑے ہوؤں کی بستی ہے
یہاں تو ہجر میں جینا سبھی کو آتا ہے
کوئی بھی اب نہیں مرتا یہاں غمِ دِل سے
یہ زہر گھول کے پینا سبھی کو آتا ہے
سعید ایک تمہی ہو کہ سرکشیدہ ہو
غلام بن کے تو جینا سبھی کو آتا ہے
٭٭٭
اس شہر میں رسوائی کا سامان بہت ہے
اب چشمِ تماشائی پشیمان بہت ہے
مدت سے جو در پے تھا مرے شیشۂ جاں کے
اب ٹوٹ گیا ہے تو وہ حیران بہت ہے
اب دشت و بیاباں کا سفر کون کرے گا
جب شہر میں تنہائی کا سامان بہت ہے
یہ سوچ کے میں گھر میں چراغاں نہیں کرتا
یہ روشنیِ طبع مری جان بہت ہے
فرقت میں سکوں ہے نہ تجھے قُرب میں آرام
اے دل تری بنیاد میں ہیجان بہت ہے
مشکل ہیں بہت ترکِ محبت کے مراحل
چپ چاپ بچھڑ جانا تو آسان بہت ہے
٭٭٭
دوستوں کے درمیاں ہوتے ہوئے
ہم یہاں کب ہیں یہاں ہوتے ہوئے
طعنہ زن اک تو نہیں دنیا بھی ہے
اور ہم چپ ہیں زباں ہوتے ہوئے
دشمنوں سے دھوپ کیوں مانگے کوئی
دوستی کا سائباں ہوتے ہوئے
شعلۂ غم آتشِ دل جو بھی ہو
وقت لگتا ہے دھواں ہوتے ہوئے
خاک ہونے کا تماشا کیا کریں
دشت کا دل میں سماں ہوتے ہوئے
تشنگی کا پاس رکھا ہے سعید
صحبتِ پیرِ مغاں ہوتے ہوئے
٭٭٭
لب کشا شہرِ ملامت ہے چلو پوچھتے ہیں
ہم سے کس کس کو شکایت ہے چلو پوچھتے ہیں
میری رسوائی پہ چُپ میرے شناساؤں کی
بے بسی ہے کہ مروت ہے چلو پوچھتے ہیں
کیوں اسے دیکھ کے چلتا ہوا رک جاتا ہے
وقت کو کیسی مصیبت ہے چلو پوچھتے ہیں
میں نے شاید اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
گفتگو کی یہی صورت ہے چلو پوچھتے ہیں
اس کی معصوم خموشی کے پسِ پردہ بھی
کوئی بیتاب شرارت ہے چلو پوچھتے ہیں
لوگ کہتے ہیں یہی مجھ سے محبت ہے اُسے
کس قدر اس میں حقیقت ہے چلو پوچھتے ہیں
کسی بے درد رفاقت کا نشاں ہے شاید
اس کی آنکھوں میں جو وحشت ہے چلو پوچھتے ہیں
وہ نیا بت جو پرستش کے مناسب ہے سعید
اس کی کعبے سے جو نسبت ہے چلو پوچھتے ہیں
٭٭٭
قربت کا سبب ہو بھی تو کھُل کر نہیں ملتے
کچھ یہ بھی ستم ہے کہ ہم اکثر نہیں ملتے
بے مہریِ حالات یا قسمت کا لکھا ہے
دل جس سے بھی ملتا ہے مقدر نہیں ملتے
کچھ خانہ خرابوں کی خبر ہو تو خبر ہو
ہم ڈھونڈنے والوں کو کبھی گھر نہیں ملتے
موسم کا بُرا ہو سرِ بام شبِ ہجراں
اب یاد کے جگنو بھی منور نہیں ملتے
کچھ خواب جو خوشبو کی طرح پھیل چکے ہیں
اب مجھ کو مری ذات کے اندر نہیں ملتے
اس شہرِ خدا ساز میں مجنوں کی دعا سے
بت اتنے زیادہ ہیں کہ پتھر نہیں ملتے
٭٭٭
کسی بھی سنگِ ملامت سے جی نہیں بھرتا
جنونِ دل ترا وحشت سے جی نہیں بھرتا
اِدھر جَبیں پہ سنبھلتے نہیں مرے سجدے
اُدھر خدا کا عبادت سے جی نہیں بھرتا
کسی کو حرصِ ستائش کسی کو حرصِ کرم
یہاں کسی کا ضرورت سے جی نہیں بھرتا
یہ دل بھی کیا ہے کہ اس بے قرار وحشی کا
کسی طرح کی ریاضت سے جی نہیں بھرتا
بلا رہی ہیں مگر کب سے منزلیں مجھ کو
وہ ہم سفر ہے مسافت سے جی نہیں بھرتا
وہ محوِ شوق ہے کب سے مگر مرے اندر
عجب خلا ہے محبت سے جی نہیں بھرتا
کوئی نشہ ہے کہ احساس پر مسلط ہے
تری ادا ، تری صورت سے جی نہیں بھرتا
٭٭٭
جو گریزاں ہو نہ بیباک ملے
ایسے پتھر سے کوئی خاک ملے
یار وحشت کا مزا ہی جب ہے
دل بھی دامن کی طرح چاک ملے
اب ہمیں فرصتِ گریہ بھی نہیں
اور کیا وقت کا ادراک ملے
کچھ تو آوارہ ہے دل بھی اپنا
کچھ ہمیں لوگ بھی بیباک ملے
زخم ہوتے تو رفو کرتے ہم
کیا کریں قلب و جگر چاک ملے
حسن پھر دل کے مقابل ہے سعید
جیسے چالاک سے چالاک ملے
٭٭٭
وہ جو ہر لب پہ ہے رنگین فسانے کی طرح
اس پہ تقدیر بھی مائل ہے زمانے کی طرح
اس کا شیوہ نہ سہی مہر و محبت لیکن
دوست ہو کر کوئی ملتا ہے زمانے کی طرح؟
وہ بھی کھوئے ہوئے راہی کی طرح گُم صُم ہے
میں بھی چُپ ہوں کسی گمنام ٹھکانے کی طرح
اس سے تجدیدِ محبت کی طلب کیا کیجئے
اب وہ اقرار بھی کرتی ہے بہانے کی طرح
عکس در عکس اسے دیکھتی رہتی ہے سعید
آنکھ بے بس ہے کسی آئینہ خانے کی طرح
٭٭٭
کیف جنوں سے دیر و حرم بولنے لگے
ہم روبرو ہوئے تو صنم بولنے لگے
پہلے تو ناگوار تھیں ان کو خموشیاں
اب ان کو یہ گلہ ہے کہ ہم بولنے لگے
یا رب عطا ہو میرے بیاں کو وہ سرکشی
میں چپ رہوں تو میرا قلم بولنے لگے
پھر آئینے نے اپنے برابر کیا ہمیں
پھر ہنس کے اپنے آپ سے ہم بولنے لگے
دل کو زباں کی نوک پہ رکھتے تھے تم سعید
کیا فکر آ پڑی ہے جو کم بولنے لگے
٭٭٭
ابر سے جیسے ہم آغوش ہو ساون کی ہوا
مجھ سے ملنا وہ ترا مل کے جدا ہو جانا
اک ندامت ہے ہنر ٹوٹ کے جڑ جانے کا
دل کو آیا نہ محبت میں فنا ہو جانا
شب کی مستی کو چھپائے گا سحر سے کیسے
اس کی انگڑائی کا خود موجِ صبا ہو جانا
تازگی عشق میں حیرت کی طلب کرتی ہے
حسن وہ ہے جسے آتا ہو نیا ہو جانا
وہ سبق دے ہمیں تسلیم و عبادت کا سعید
جس نے دیکھا ہو کسی بُت کا خدا ہو جانا
٭٭٭
وہ کوئے دل ہو کہ اہلِ نظر کے دروازے
کھلے ہیں تیرے لئے شہر بھر کے دروازے
کسی کی آس پہ تصویر آرزو بن کر
کھڑے ہیں کب سے مرے ساتھ گھر کے دروازے
ہمیں بھی آیا نہ دل میں اتارنے کا ہنر
نظر نہ آئے اسے بھی نظر کے دروازے
کبھی سفر ، کبھی آوارگی نہیں جاتی
ترس گئے ہیں مجھے میرے گھر کے دروازے
غزل کی آہٹیں سن کر چٹکنے لگتے ہیں
کمالِ شوق سے میرے ہنر کے دروازے
زبان و حرف و سماعت پہ ایک سکتہ ہے
کھلے ہیں سچ پہ بظاہر خبر کے دروازے
طلب ہے منزلِ عرفان و آگہی لیکن
مجھے قبول نہیں خیر و شر کے دروازے
ابھی تو آئی تھی شب میرے غم کدے میں سعید
ابھی سے ڈھونڈ رہی ہے سحر کے دروازے
٭٭٭
پھول جس کے لب و رخسار کے شیدائی ہیں
ہم بھی اس غیرتِ گلزار کے شیدائی ہیں
اس نے اک روز مجھے داد سخن بخشی تھی
لوگ جب سے مرے اشعار کے شیدائی ہیں
میں بھی نفرت کا محبت میں روادار نہیں
میرے دشمن بھی مرے یار کے شیدائی ہیں
سچ کا آزار ہی ایسا ہے تڑپ اٹھتے ہیں
لوگ ورنہ لبِ اظہار کے شیدائی ہیں
جو کبھی حرف کی حرمت پہ یقین رکھتے تھے
بِک رہے ہیں کہ خریدار کے شیدائی ہیں
چشمِ عالم ہو ستارے کہ مرا دل ہو سعید
سب کے سب ماہِ رخِ یار کے شیدائی ہیں
٭٭٭
جب وہ صہبا سے بہک جاتی ہے
خود بخود رات مہک جاتی ہے
مجھ کو دیکھے تو محبت کی شفق
اس کے چہرے سے جھلک جاتی ہے
ساتھ جب تک ہے چلے چلتے ہیں
راہ تو دور تلک جاتی ہے
زندگی بھی مری رفتار سے اب
ساتھ چلتے ہوئے تھک جاتی ہے
عشق آنکھوں میں تپکتا ہے سعید
اب کہاں دل سے کسک جاتی ہے
٭٭٭
پھر کسی آس میں رہ کر دیکھیں
اک نیا درد ہی سہہ کر دیکھیں
ہم کو مل جائے کنارہ شاید
آؤ جذبات میں بہہ کر دیکھیں
میری نظروں سے بھی گر جائیں گے
اشک آنکھوں سے تو بہہ کر دیکھیں
ہم کو آرام نہیں خوابوں سے
جس خرابے میں بھی رہ کر دیکھیں
میں سعید اور مرے دل کا غبار
آؤ اک شعر تو کہہ کر دیکھیں
٭٭٭
میں خوش نہیں ہوں کہ شب کے مصاحبین کے ساتھ
گماں بھی جاگ رہے ہیں مرے یقین کے ساتھ
مرا مقام تو آگے تھا ماہ و انجم سے
الجھ گئے ہیں مرے راستے زمین کے ساتھ
میں اس کے جھوٹ پہ سچ کا گمان کر لوں گا
وہ کوئی بات کہے تو سہی یقین کے ساتھ
بجا ہے تیرا مچلنا مگر دل ویراں
کوئی مکاں بھی گیا ہے کبھی مکین کے ساتھ
دکھا رہے ہیں شریعت کے آئینے سب کو
’’فریب کرتے ہیں جو آپ اپنے دین کے ساتھ ‘‘
لہو لہو ہے مرا دل سنبھل کے اے قاتل
چپک نہ جائے کہیں تیری آستین کے ساتھ
سعید خود کو کسی کی نظر سے کیا دیکھوں
میں اپنی ذات میں رہتا ہوں اب یقین کے ساتھ
٭٭٭
کچھ التفاتِ یار میں رنجیدگی بھی ہے
کچھ کچھ مرے مزاج میں سنجیدگی بھی ہے
کچھ میری الجھنیں بھی مرے ساتھ ساتھ ہیں
کچھ رسم و راہِ عشق میں پیچیدگی بھی ہے
کثرت سے جس گلی میں ستادہ ہیں شاہکار
دیکھو جو غور سے وہیں نا دیدگی بھی ہے
اس بزمِ دل کشا کی چمک پر نہ جائیے
اس جلوہ گاہِ عام میں پوشیدگی بھی ہے
یہ شہر ہے مثالِ دلِ ملتفت یہاں
جتنا سکوں ہے اتنی ہی شوریدگی بھی ہے
تم جس کو کہہ رہے ہو فقط دل لگی سعید
اس رسم و راہ میں کہیں سنجیدگی بھی ہے
٭٭٭
دل شکستہ ہیں نہ پامال نظر آتے ہیں
ہم تو ہر حال میں بے حال نظر آتے ہیں
بھر گئے زخم جدائی کے مگر آنکھوں میں
کچھ نشاں ہیں جو بہرحال نظر آتے ہیں
ہنس تو دیتے ہیں مگر جب بھی نظر پڑتی ہے
دل کے شیشے میں نئے بال نظر آتے ہیں
اب وہ منظر جو نگاہوں سے لپٹ جاتے تھے
وقت کی راہ میں پامال نظر آتے ہیں
جیسے ہجرت کے پرندے ہوں مرے خواب سعید
پھول کھلتے ہیں تو ہر سال نظر آتے ہیں
٭٭٭
روشنی کا نشان چاہتے ہیں
ہم نیا آسمان چاہتے ہیں
لوگ اپنی ستائشوں کے عوض
مجھ سے میری زبان چاہتے ہیں
تیری آنکھوں کے اس سمندر میں
ہم بھی اپنا نشان چاہتے ہیں
اصل میں دھوپ کے ہیں سوداگر
جن سے ہم سائبان چاہتے ہیں
نفرتوں کو فروغ دے کے سعید
لوگ امن و امان چاہتے ہیں
٭٭٭
اب لطف و بے خودی کے وہ موسم نہیں رہے
تم تم نہیں رہے ہو کہ ہم ہم نہیں رہے
اک آرزو کے دل سے نکلنے کی دیر تھی
پھر سلسلے نگاہ کے پیہم نہیں رہے
ہم رزم گاہ زیست میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی بھی حال میں بے دم نہیں رہے
سونپا تھا خود کو وقت کے ہاتھوں میں ایک روز
پھر اپنی دسترس میں کبھی ہم نہیں رہے
اُن پر کھُلی ہی کب ہیں محبت کی لذتیں
بے درد جو رہینِ شبِ غم نہیں رہے
کیوں ہم سے دوست یار گلہ مند ہیں سعید
ہم لوگ دشمنوں سے بھی برہم نہیں رہے
٭٭٭
وہی ہے دل کی ضرورت جو آس پاس رہے
کسی کے ہجر میں کب تک کوئی اداس رہے
نہ وحشتوں کو رہا ہے خیالِ رسوائی
نہ کوئے یار کے سنگ آئینہ شناس رہے
جنہیں جنوں کی حقیقت سے آگہی نہ ملی
وہ غم شناس ہوئے بھی تو کم شناس رہے
وفا کی راہ میں زخموں کی پاسداری تھی
سو اہلِ درد محبت میں نا سپاس رہے
نصیبِ دل تھے عجب فاصلے محبت میں
نہ اس سے دور رہے ہم نہ اس کے پاس رہے
اس احتیاط سے جی بھر کے اس کو دیکھ سعید
نظر جو سیر بھی ہو تو ذرا سی پیاس رہے
٭٭٭
ہم خانہ خرابوں کو بھلے ٹھیک نہ سمجھو
سائے کو بھی اس دشت میں نزدیک نہ سمجھو
یہ دل میں اتر جائے تو اک کوہ گراں ہے
تم خارِ غمِ ہجر کو باریک نہ سمجھو
گردش کے مظاہر ہیں نہاں سیلِ جنوں میں
وحشت کو فقط عشق کی تحریک نہ سمجھو
تم جھوٹے نوا گر مری خاموش روی کو
اپنے کسی الزام کی تصدیق نہ سمجھو
وہ حسن کوئی۔۔ ساعتِ بے تاب ہے جیسے
وہ ساتھ اگر ہو بھی تو نزدیک نہ سمجھو
روشن ہیں ابھی اور بھی امکان کی راہیں
اتنا بھی شبِ ہجر کو تاریک نہ سمجھو
جس دور کی اقدار پہ برسے ہوں صحیفے
اس دور کی ہر بات کو اب ٹھیک نہ سمجھو
٭٭٭
دشت پر آب ہے کئی دن سے
دل میں سیلاب ہے کئی دن سے
پھر سفینہ مری محبت کا
پیشِ گرداب ہے کئی دن سے
خواب آنکھوں میں تیرتے ہیں مگر
آنکھ بے خواب ہے کئی دن سے
میں بھی کم کم کسی سے ملتا ہوں
وہ بھی کم یاب ہے کئی دن سے
کس کے قدموں کی نرم آہٹ کو
راہ بے تاب ہے کئی دن سے
اک نیا عکس بامِ دل پہ سعید
رشکِ مہتاب ہے کئی دن سے
٭٭٭
دل کی محفل میں بٹھا کر کبھی نزدیک سے دیکھ
دیکھنا ہے تو مری جان مجھے ٹھیک سے دیکھ
مجھ سے کچھ دور نہیں کوزہ گری خوابوں کی
میری بے خواب سی آنکھیں ذرا نزدیک سے دیکھ
اس سے پہلے کہ ہمیں وقت جدا کر ڈالے
میں ترے سامنے بیٹھا ہوں مجھے ٹھیک سے دیکھ
یہ مری ذات کے پہلو بھی ہیں آئینے بھی
میرے احساس کے زخموں کو نہ تضحیک سے دیکھ
اس میں لرزاں ہیں کہیں تیری انا کا گوہر
اپنے کشکول کی وقعت نہ فقط بھیک سے دیکھ
جس نے طوفان اٹھایا ہے رگوں میں تیری
میں بھی مجبور ہوں دل کی اسی تحریک سے دیکھ
زندگی کم ہے تجسس کی پذیرائی کو
دل جسے دیکھنا چاہے اسے نزدیک سے دیکھ
جب بھی فرصت ہو تجھے شہرِ چراغاں سے سعید
دور نگراں ہیں دریچے کئی تاریک سے دیکھ
٭٭٭
اسے بکھرے ہوئے لوگوں سے رغبت ہے
اسے بکھرے ہوئے لوگوں سے رغبت ہے
اسے چارہ گری میں چین ملتا ہے
وہ جب آغاز میں اپنی مسیحائی دکھاتی ہے
تو اسکی مہرباں نظروں کی حدت سے
پگھل کر ہم شکستہ دل
غم و افسوس کیا اپنی حقیقت بھول جاتے ہیں
اور اس کی پر اثر قربت کا راتوں میں
دل و جاں سے مگن ہو کر
عجب دیوانگی ملتی ہے وحشت بھول جاتے ہیں
ہم اپنی کرچیاں چنتے ہیں آئینے اٹھاتے ہیں
اور اپنے دل کے ہر کونے کو خوابوں سے سجاتے ہیں
اسیرِ آرزو ہو کر
غرض خود کو اکٹھا کر کے اس قابل بناتے ہیں
کہ شاید ہم مسیحا کی نگاہوں میں ٹھہر جائیں
کہ شاید یہ مسیحائی محبت میں بدل جائے
ہمیں کب یاد رہتا ہے
محبت آرزو مندی ۔ ۔ ۔
یہ باتیں ہوش مندی کی
اسے کب راس آتی ہیں
اسے بکھرے ہوئے لوگوں سے رغبت ہے
اسے چارہ گری میں چین ملتا ہے
٭٭٭
بند گلی
چلتے چلتے ۔ ۔ ۔ خوابوں کی مستی سے چور
آخر یہ پُر شوق مسافت
چہروں کے جم گھٹ سے دور
ہم کو ایسی بند گلی میں لے آئی ہے
جس میں چین کے سائے سائے
ارمانوں کے ڈیرے ہیں
لیکن اس کوچے سے آگے
کوئی راہ نہیں جاتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چاہو تو ہم لوٹ چلیں
بھیڑ میں ڈوبے ان رستوں پر
جن پر لمحہ لمحہ ہم کو
کھو جانے کا ڈر رہتا ہے
چاہو تو ہم رک جائیں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
بارش
میں آوارہ بادل ہوں
تو ساون کی تیز ہوا
آؤ مل کر خوابوں کو تصویر کریں
جب تھک جائیں
قطرہ قطرہ
رم جھم رم جھم
خاک میں سوئی خوشبو کو بیدار کریں
رنگوں کو آزاد کریں!
میں آوارہ بادل ہوں
تو ساون کی تیز ہوا
مل کے بچھڑنا اپنی قسمت میں لکھا ہے!
موت کی کشتی
ایسا لگتا ہے کوئی روگ ہے ساحل ساحل
موج در موج کوئی سوگ ہے ساحل ساحل
کوئی ماتم ہے کوئی شور بپا ہے جیسے
اب تو پانی میں اترنا بھی سزا ہے جیسے
غم سسکتی ہوئی لہروں میں نہاں ملتا ہے
یہ سمندر ہے جو اب نوحہ کناں ملتا ہے
موت کی ناؤ میں ساحل سے کہیں دور بہت
یاد آتے ہیں وہ اجڑے ہوئے مجبور بہت
جن میں کمزور بھی کمسن بھی جواں سال بھی تھے
وہ مسافت کے شب و روز سے بے حال بھی تھے
غرق ہوتی ہوئی کشتی نے دہائی دی تھی
ڈوبنے والوں کی آواز سنائی دی تھی
اس جزیرے پہ کئی خوف کے گرداب لئے
وہ جو ایوان میں بیٹھے ہیں سیہ خواب لئے
ان کی فطرت انہیں بیداد پہ اکساتی ہے
بادِ ساحل سے مجھے خون کی بو آتی ہے
آنے والوں کی طرف ہاتھ بڑھا سکتے تھے
ہم کہ ان ڈوبنے والوں کو بچا سکتے تھے
سوچتا ہوں تو خجالت سے پگھل جاتا ہوں
پھر میں ساحل سے کہیں دور نکل جاتا ہوں
ایسا لگتا ہے کوئی روگ ہے ساحل ساحل!
موج در موج کوئی سوگ ہے ساحل ساحل!
٭٭٭
بقاء کا المیہ
مری بقا کا یہ المیہ ہے
مرے سپاہی کچھ اس طرح سے
مری حفاظت پہ ڈٹ گئے ہیں
کہ دشمنی کے سراب سارے
یہ خوف و دہشت کے استعارے
نفاق و نفرت کے سانپ بن کر
بہت دنوں سے
مری سماعت کو ڈس رہے ہیں
مری بقا کا یہ المیہ ہے
کبھی سنبھل کر کھڑا ہوا جب
میں اپنے پاؤں پہ چند لمحے
مرے ارادوں سے خوف کھا کر
مرے محافظ نے جھٹ سے میرے
نحیف پاؤں جکڑ لئے ہیں
مری بقا کا یہ المیہ ہے
مرے محافظ
وہ بیش قیمت لہو کے قطرے
مری رگوں سے نچوڑتے ہیں
کہ جن میں میری تواں کے عنصر
شفا کے مظہر
بصارتوں کے سبھی اشارے تڑپ رہے ہیں
مری بقا کا یہ المیہ ہے
کہ بے بسی اب مری بقا ہے
مرا محافظ مرے خدا میں بدل چکا ہے مری زباں
میرے دست و بازو بھی کٹ گئے ہیں
میں دیکھتا ہوں مرے سپاہی
مری حفاظت پہ ڈٹ گئے ہیں
٭٭٭
Cyprus Club
سدا اپنے جلوؤں کا جادو جگا کر
جو پر سوز نغمے سناتی ہے شب میں
مخالی مرے دوست تیری مرے۔۔۔۔
کوئی دن کی مہمان ہے اس کلب میں
جسے مدتوں شوق سے تو نے سینچا
جسے تو نے پتھر سے ہیرا بنایا
جو سالوں ترے بازوؤں میں پلی ہے
مَریاؔ کہاں اب وہ کچی کلی ہے
یہ وہسکی کی بو یہ دھوئیں کا لپکنا
دلوں کا بزوکی کی لے پہ دھڑکنا
نفس در نفس مست اوزو کی خوشبو
نظر در نظر بس مرَیا کا جادو
کہاں خوش نوا پنچھیوں کا چہکنا
کہاں نرم کلیوں کا شب میں چٹکنا
جو دل پر عبادت کے در کھولتے ہیں
وہ بت اس کی آواز میں بولتے ہیں
دھڑکتے دلوں کی نئی داستاں ہے
اسے اپنی آواز پر اب گماں ہے
اب اس کی نظر میں ٹھکانے نئے ہیں
مرَیا پہ خوابوں کے در کھل گئے ہیں
یہ لگتا ہے خواب آزما کر رہے گی
مرَیا تو یونان جا کر رہے گی
محبت سے ہنس کے اسے تو جدا کر
نہ دیوار بن اس کی راہِ طلب میں
مخالیؔ مرے دوست تیری مرَیاؔ
کوئی دن کی مہمان ہے اس کلب میں!
۔۔۔۔۔۔
(بزوکی۔ یونانی رباب)
(اُوزو۔یونانی سونف کی شراب)
٭٭٭
دھنک
دل کے رنگیں خواب چرا کر
شوخ دھنک مسکائی ہے
میری پشت پہ مہر و محبت کا سورج ہے
میرے آگے تیرے کرم کی بارش ہے
ایک چمک سی
آنکھوں میں در آئی ہے
دل کے رنگیں خواب چرا کر
شوخ دھنک مسکائی ہے!
٭٭٭
قیدِ محبت
ترے قفس میں نئے خوشنما پرندے کو
میں کس طرح سے بتاؤں کہ تیری دلداری
ترا جنوں تیری محبوبیت ترے وعدے
یہ صبح و شام کی باتیں یہ انتہائے کرم
فقط فریبِ محبت ہے اور کچھ بھی نہیں
میں اس کو کیسے بتاؤں جب آرزو میں تری
چمن کے خواب حسیں نو بہار کے نغمے
تمام دل کے اثاثوں کو نذر کر کے تری
یہ اپنی خواہش پرواز تک بھلا دے گا
پھر اس کو اپنے نصیبوں پہ رحم آئے گا
کہ دل کے کھیل میں تسخیر کا جنوں ہے تجھے
میں اس کو کیسے بتاؤں کہ اس کی قسمت بھی
مری مثال محبت کا دردِ پیہم ہے
ترا مزاج ہوئی غفلت و فراموشی
کسی بھی شے پہ ترا دل کہاں ٹھہرتا ہے
محبتوں کو جگانے کی بس ہوس ہے تجھے
محبتوں کا نبھانا ترا شعار نہیں
یہ جو قفس میں ترے خوشنما پرندہ ہے
اب اس غریب کی قسمت میں بھی مری صورت
لکھی ہے قیدِ محبت مگر قرار نہیں
٭٭٭
عسکری دائرہ
سارے چارہ گروں سب مسیحاؤں نے
دور بیٹھے ہوئے
کچھ مرے دور اندیش آقاؤں نے
فیصلہ دیدیا
اب ہے لازم یہی میرے چاروں طرف
حبس ٹھہرا رہے
خود مرے سائے کا مجھ پہ پہرا رہے
میرے حسرت زدہ خواب کی حیثیت
مثلِ ناسور ہے
میری آزادیِ فکر کی نوعیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبحِ جمہوریت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سر کشی کے مصائب سے بھر پور ہے
اس سے پہلے کہ میری جنوں خیزیاں
وجہِ آزار ہوں
میری بے چینیاں پیشِ اظہار ہوں
ٹھہرے ٹھہرے قدم تیز رفتار ہوں
مجھ کو زنجیر کا آسرا چاہیے
میرے چاروں طرف
اک گھنا عسکری دائرہ چاہیے
فیصلہ دے دیا
اب مرے دور اندیش آقاؤں نے
فیصلہ دے دیا
٭٭٭
آئینہ
میں فقط آئینہ ۔ ۔ ۔ میری بینائی میں
نفرتوں کا دھواں ہے نہ چاہت کی دھند
میں فقط آئینہ ۔ ۔ ۔ اور وہ سیمیں بدن
سر سے پاؤں تلک حسن کی داستاں
جب وہ نوخیز تھی
اپنی تصویر کے سحر میں مبتلا
آ کے پہروں ٹھہرتی مرے روبرو
میں فقط آئینہ
اس کے بت میں بھری دلکشی دیکھ کر
ماہِ کامل سے اٹھتی ہوئی روشنی
کو خدا جان کر
دل کی دیوار سے منسلک ہو گیا
میں فقط آئینہ ۔ ۔ ۔ وقت بے درد ہے
میری گہرائی میں
وہ جو اک شوخ لڑکی کو گم کر چکی
اب کئی ماہ سے
اشک سے آہ سے
دے رہی ہے صلہ میری سچائی کا
میری فطرت ہُوا
جس کی صورت سے شام و سحر دیکھنا
اس کے دیدار میں
اب کئی سال سے وہ تسلسل نہیں
میں فقط آئینہ ۔ ۔ ۔ اور وہ سیمیں بدن
دونوں مجبور ہیں
حسن کی آئینوں سے وفاداریاں
درد کی آزمائش سے بھرپور ہیں
٭٭٭
بے خودی
بے خودی
ہونٹ مصروفِ ثنا
اور خوشبوئیں
احساس پر چھائی ہوئیں
یہ تن بدن کی گرمیاں
یہ رات کا پچھلا پہر
کچھ مت کہو
یہ مستیاں
یہ لذتِ خود رفتگی
یہ جراتِ اظہار کی بے چارگی
یہ نرمیِ احساس کی نازک گھڑی
کچھ مت کہو
ان لرزتی ساعتوں کے جوش میں
اس خلوتِ مدہوش میں
وہ مت کہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو صبح دم افسوس کا باعث بنے
کچھ مت کہو
کچھ مت کہو
٭٭٭
آزادی
جواں قوموں کی آزادی
پیامِ مذہب و ملت سے برتر ہے
جنونِ سرحد و زنجیر سے افضل
کوئی بے خوف لمحہ
جو اطاعت سے نہیں ملتا
مری نسلِ خزاں دیدہ کی آزادی
کسی پیدائشی اندھے کا اک خوابِ مسلسل ہے
کوئی نا آشنا ساعت۔ ۔ ۔
کوئی رسمِ جفا ہے
جو قبولِ عام ٹھہری ہے
مری نسلِ خزاں دیدہ کی آزادی
گرفتہ سوچ کی صورت
کہیں ٹھہرا ہوا پانی۔ ۔ ۔
کہیں تاریک سا شیشہ ۔ ۔ ۔
کہیں بجھتی ہوئی آنکھوں کا بے آواز گریہ ہے
مری نسلِ خزاں دیدہ کی آزادی
بزرگوں سے وراثت میں ملے
خوابوں کا وہ نادر خزینہ ہے
جسے مدت سے ہم صرفِ نظر کر کے
سکوتِ مفلسی میں
بے حس و مایوس پھرتے ہیں
٭٭٭
پائل
اک تُو اک تیری پائل ہے
جینے کے دو ہی بہانے ہیں
کچھ تیری سبھا میں چین بہت
کچھ مست ہیں تیرے نین بہت
مرہم جیسی مسکان تری
کچھ اپنا دل بھی گھائل ہے
اک تُو اک تیری پائل ہے
یہ روپ ترا یہ رنگ ترا
انگارہ ہے ہر انگ ترا
برسے جو تیرے جوبن سے
اس آگ سے بچنا مشکل ہے
اک تُو اک تیری پائل ہے
جب رقص میں تو آ جاتی ہے
ہر شے پھر ناچتی گاتی ہے
جھنکار میں تیری پائل کی
پوجا کا رنگ بھی شامل ہے
اک تُو اک تیری پائل ہے
٭٭٭
ادھر لمحہ لمحہ
فرازِ شبِ وصل
عجب کیفیت ہے۔ ۔ ۔
یہ وعدے کی شب اور یہ تیرا شبستاں
نگاہوں کی خود سوز شمعوں سے لو اٹھ رہی ہے
ترے سانس میں بس کے صہبا کی خوشبو
مری مستیوں کو ہوا دے رہی ہے
ادھر تیرے رخسار پر سرخیاں ہیں
افق پر شفق پھیلتی جا رہی ہے
عجب کیفیت ہے
فضا میں کوئی دھیما دھیما ساسر
کوئی میٹھی سی دھن ہے
ڈھلکتے ہوئے سرخ ریشم کے سائے
ترے جسم کی چاندنی سے لپٹ کر
مری مست نظروں کو بہکا رہے ہیں
عجب کیفیت ہے ۔ ۔ ۔
تری گرم نظریں
مرے سخت سینے کی چوڑائیوں پر جمی ہیں
مرے ریشے ریشے کا بے خود تناؤ
تری نرمیوں کو صدا دے رہا ہے
عجب کیفیت ہے ۔ ۔ ۔
ترے نرم ہاتھوں کی بے باکیوں سے
مری شرٹ کے سب بٹن کھل رہے ہیں
ترے نرم ہونٹوں کی بھیگی سی گرمی
مرے تن بدن پر پھسلنے لگی ہے
اچانک امڈ کر یہ بے تاب لہریں
سلگتے لبوں سے جو آ کر ملی ہیں
تو لذت کے چشمے ابلنے لگے ہیں
مرے جسم کے گوشے گوشے میں جیسے
محبت کے چشمے ابلنے لگے ہیں
عجیب کیفیت ہے۔ ۔ ۔
تیرے جسم کی ریشمی نرمیاں اب
مرے تن کی مضبوطیوں سے لپٹ کر
فرازِ شبِ وصل کو چھُو رہی ہیں
تری سسکیاں ، تیری سرگوشیاں
تیری مخمور آہیں ۔ ۔ ۔
محبت کے اس نا رسیدہ سخن کو زباں دے رہی ہیں
جو سب سے جدا ہے
جو امرت سے شیرینیوں میں سوا ہے
عجب کیفیت ہے ۔ ۔ ۔ ترے بازوؤں میں
مجھے چاہے جانے کی لذت کا جیسے
نشاں مل گیا ہے
٭٭٭
سسی کی سہیلی
تری سہیلی بھی جیسے کوئی پہیلی ہے
کبھی خموش کبھی خوش کبھی وہ افسردہ
نہ اس کا دوست کوئی اور نہ کوئی ہمراز
بس ایک تیری رفاقت میں کھوئی رہتی ہے
تری سہیلی کی آنکھوں میں جو پہیلی ہے
عجب نہیں ہے کہ صدیوں سے اضطراب میں ہے
میں اس پہیلی کی بے تابیاں سمجھتا ہوں
کہ جیسے گل کوئی سہما ہوا ہو پتوں میں
کہ جیسے قوسِ قزح دن سے دور ہو جائے
کہ جیسے شب میں ستاروں کو چھپ کے ملنا ہو
سنا ہے سسی کی ایسی ہی اک سہیلی تھی
شبِ فراق جو پنوں کا روپ اپنا کر
وصالِ یار کی صورت نکال لیتی تھی
وہ کوئی ہجر کی بے خواب رات تھی جس میں
یہ بے قرار پہیلی کھلی تھی پنوں پر
جو اس نے اپنی محبت کو اپنے سینے میں
اور اپنے آپ کو صحرا میں دفن کر ڈالا
تری سہیلی کی آنکھوں میں جو پہیلی ہے
لگن ہے یا تھا کوئی تجربہ لڑکپن کا
جسے وہ آج بھی دل سے بھلا نہیں پائی ؟
ترے نصیب میں سسی کی بے زبانی ہے
نہ میرے عشق میں پنوں کی جلد بازی ہی
اگرچہ سچ کی سزاوار ہے مری چاہت
مجھے قبول ہے جو بھی تری وضاحت ہے
مرے نصیب میں ہو یا تری سہیلی کے
مرے لئے تو محبت فقط محبت ہے
٭٭٭
تلاش
میں تیرے تن کے مندر میں جس بت کو ڈھونڈنے آیا ہوں
خالق نے اسے
اک دن مجھ سے
سجدوں کے نشے میں چھینا تھا
اس بت کے سوا میرا جیون
اک وحشت اک بے چینی ہے
جنموں کی ایک تپسیا ہے
اس بت کو تراشا آذر نے
اس بت کو سراہا کعبے نے
رس بس کے زلیخا کے دل میں
اس بت نے یوسف کو چاہا
وہ نس نس میں تھا وینس کی
صدیوں سے محبت کا مظہر وہ بت ہی افرا دیتی *تھی
وہ عشق بھی ہے ، نروان بھی ہے
وہ بت میری پہچان بھی ہے
وہ بت میرا کی حسرت تھا وہ بت رادھا کی صورت تھا
جس کی بے لاگ محبت نے مجھ کو بھگوان بنایا تھا
میری خاطر اس دنیا میں
جتنے بھی پیمبر آئے ہیں
جتنے بھی صحیفے اترے ہیں
سب نیک و بد کے بہانوں سے
اس بت سے مجھ کو ڈراتے ہیں
خود مجھ کو مجھ سے چھپاتے ہیں
اس بت کی خاطر ، جنم جنم
میں کتنے مندر کھوج چکا
میں کتنے بتوں کو پوج چکا
اب جا کے کہیں تیرے اندر اس بت کی خوشبو پائی ہے
میں تیرے تن کے مندر میں جس بت کو ڈھونڈنے آیا ہوں
وہ بت میری پرچھائیں تھا !!!
۔۔۔۔۔۔
*(Aphroditeمحبت کی یونانی دیوی)
٭٭٭
کسی کھوئے ہوئے منظر کا خیال آیا ہے
چُن کے دیوار ہمیں در کا خیال آیا ہے
خود سے ٹکرا گئے پردیس کے آئینے میں
اب کہیں جا کے ہمیں گھر کا خیال آیا ہے
پھر ہمیں خاک بسر لگتی ہے یہ منزلِ دل
جانے کس راہ کے پتھر کا خیال آیا ہے
دل کی پیشانی پہ سجدوں کے نشاں جاگے ہیں
جب کبھی اس بتِ کافر کا خیال آیا ہے
ہم کہ خود اپنی تمنا کے سکندر تھے سعید
اس سے بچھڑے تو مقدر کا خیال آیا ہے
٭٭٭
عجب نہیں کہ بتِ بے نیاز کھل جائے
میں رُخ کروں تو وہ زلفِ دراز کھل جائے
دکھائی دے اُسے تصویر سے تصور تک
جس آئینے پہ ترا عکسِ ناز کھل جائے
وہ جلوہ گاہ میں آئے تو اک جہاں پہ مرے
جنونِ دیدہ و دل کا جواز کھل جائے
ہم اہلِ درد کی صحبت میں یہ بھی ممکن ہے
کھلے نہ فتنہ مگر فتنہ ساز کھل جائے
سعید اُن کو صحیفوں سے کیا غرض جن پر
حدیثِ غالب و فیض و فراز کھل جائے
٭٭٭
قطعات
ایک مٹھی میں میرے خواب
چلو پھر کرچیاں چنتے ہیں آئینے اٹھاتے ہیں
سعید آؤ کسی پتھر سے قسمت آزماتے ہیں
بہت دیکھی ہے ویرانی ہمارے خانۂ دل نے
چلو دیوارِ دل پر اک نئی صورت بناتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرے دن رات پر چھایا ہے عکسِ دلنشیں کوئی
محبت اب مری آنکھوں کی بینائی میں رہتی ہے
سنا ہے اس کی سوچوں میں بھی اب ہلچل مچاتی ہے
وہ بے چینی جو میرے دل کی گہرائی میں رہتی ہے
Closure
مرا دل بے نشاں کشتی
ترے جذبات کے طوفان زدہ
ناراض موسم میں
نجانے کب سے لرزاں ہے
کہاں تک سرد لمحوں میں سلگنا ہے؟
کہاں تک اجنبی موسم نبھانے ہیں ؟
چرا کر دل زدہ خوابوں کے دامن سے
شفق ساماں لفافے میں
سجا کر دو عدد قطرے بہاراں کے
اگر بھیجو
تو شاید شام ڈھل جائے
٭٭٭
عشرتِ بادۂ گلفام اٹھا لائے ہیں
دوست کچھ غم بھی سرِ شام اٹھا لائے ہیں
شاعری ہم تری زینت کیلئے دکھ اپنے
دامنِ دل سے سرِ بام اٹھا لائے ہیں
اور کچھ طعنہ و دشنام کی صورت نہ رہی
یار محفل میں ترا نام اٹھا لائے ہیں
ہم کہ اب گھر میں بھی رہتے ہیں سرائے کی طرح
صبح دم نکلے تھے اور شام اٹھا لائے ہیں
خواب مہکے ہیں سحر دم کہ صبا کے جھونکے
خوشبوئے یارِ گل اندام اٹھا لائے ہیں
شعبدہ باز مرے غم کی تسلی کو سعید
پھر کسی جشن کا پیغام اٹھا لائے ہیں
٭٭٭
میوزیم
لٹ چکے بک چکے پھر بھی آزار میں
کب سے بے بس ہیں مغرب کے بازار میں
یہ کمانیں، یہ شمشیر و تیر و سناں
میرے آباء کی جدوجہد کے نشاں
یہ چاندی یہ سونا یہ لعل و گہر
جاوداں کر گیا جن کو دستِ ہنر
یہ شکستہ صنم یہ حسیں مورتیں
میری تہذیب کی گمشدہ صورتیں
یہ ٹوٹی ہوئی خوشنما طشتری
جس پہ لکھی ہے تاریخِ کوزہ گری
یہ شکستہ صراحی پہ تشنہ سبو
مجھ سے کرتے ہیں بے ساختہ گفتگو
جا بجا یہ نوادر سجائے ہوئے
مجھ سے شاکی ہیں یہ بت چرائے ہوئے
لٹ چکے ، بک چکے ، پھر بھی آزار میں
کب سے بے بس ہیں مغرب کے بازار میں
٭٭٭
EORA GIRL
تیرے الجھے ہوئے جذبات سے کیا کچھ نمایاں ہے
کبھی ان مہرباں آنکھوں سے حیرانی جھلکتی ہے
کبھی اس پھول سے چہرے سے ویرانی جھلکتی ہے
تری چاہت کے اک پل میں کئی موسم نکلتے ہیں
تری خوشیوں کے دامن میں بھی اکثر غم نکلتے ہیں
یہ دکھ ان محترم خوابوں کی ناقدری کا ماتم ہے
جو ٹھکرائے گئے کہہ کر فریبِ داستان اب تک
یہ دکھ اس بے سکوں دھرتی کا بے آواز گریہ ہے
جسے پامال کرتے ہیں ہوس کے کارواں اب تک
یہ دکھ ان بے سرو سامان لوگوں کی امانت ہے
جنہیں تہذیب نے لا کر سجایا قتل گاہوں میں
یہ دکھ ان گمشدہ نسلوں کی پوشیدہ نشانی ہے
جنہیں سونپا گیا تھا چھین کر مذہب کی بانہوں میں
ترے الجھے ہوئے جذبات سے کیا کچھ نمایاں ہے
۔۔۔۔۔
Eoraآسٹریلیا کے آبائی Aboriginalقبیلے کے لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ’’مقامی‘‘ کے ہیں۔
فراز کے نام ایک خط۔ ۔ ۔ اگست2005
فراز تجھ پہ نچھاور ہیں اہلِ دیدہ و دل
تو ایک جاں ہے مگر قافلے کی صورت ہے
فراز تجھ سے ہراساں ہیں اہلِ حرص و ہوس
کہ حرف حرف ترا آئینے کی صورت ہے
ترا فراز مدح خوانِ دست بستہ کو
کسی سند کسی دربار سے نہیں ملنا
ترا فراز کسی ’’بارہویں کھلاڑی‘‘ کو
جنونِ خلعت و دستار سے نہیں ملنا
ترا فراز کسی دستۂ سبک سر کو
فروغِ حلقۂ خونخوار سے نہیں ملنا
ترا فراز کسی خود سِتاں محاسب کو
فریبِ گردشِ بازار سے نہیں ملنا
فراز تجھ پہ نچھاور ہیں اہل دیدہ و دل
٭٭٭
رقصِ طلب
مری افراد یتی
تجھے اک نظر دیکھ کر میرے اندر
یکایک
مری سات پشتوں کی سرگوشیاں
جی اٹھی ہیں
مری روح
جو اک فسردہ خلا تھی
عبادت کدہ ہے
مرے جسم کا دل گرفتہ پجاری
پرستش کی ضد کر رہا ہے
مری افراد یتی
تری مسکراہٹ
تری مائل و کافرانہ نظر سے
یہ لگتا ہے جیسے
تجھے سب خبر ہے
کہ شاید کہیں اس سے پہلے بھی ہم
مور اور مورنی کا یہ رقصِ طلب
کر چکے ہیں
۔۔۔۔۔۔
Aphroditeمحبت کی یونانی دیوی
٭٭٭
قصیدہ
اپنا سب کچھ تری نظروں پہ نچھاور کر کے
اپنی آنکھیں تری صورت سے میں آباد کروں
سانس کی لے ہے کہ منہ زور نشے کے جھونکے
دل کی دھڑکن ہے کہ دستک ہے ترے خوابوں کی
جیسے بے ساختہ نس نس میں لہو رقصاں ہو
جیسے احساس میں بس جائے کسی کی خوشبو
جیسے یہ شام ستاروں کی کوئی منزل ہے
جیسے ان لمحوں میں لرزاں ہے تصور کا بدن
جیسے یہ بزمِ سخن بھی ہے کوئی سادہ سی
ایک ناکام سعی تیری ثناء خوانی کی
کس کی جرات ہے کہ تفسیر کرے حسن ترا
تو کہ بت ہو کے بھی غافل نہیں خاموش نہیں
جیسے لمحوں میں اتر آئی ہے صدیوں کی طلب
میری حیرت کا یہ عالم کہ مجھے ہوش نہیں
اپنا سب کچھ تیری نظروں پر نچھاور کر کے
اپنی آنکھیں تری صورت سے میں آباد کروں
٭٭٭
تو بتا اے دلِ بیتاب کہاں آتے ہیں
ہم کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یکمشت اسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
مدتوں بعد تجھے دیکھ کے دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بیدار نگاہوں میں اگر بھولے سے
نیند آئے بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں
شدتِ درد ہے یا کثرتِ مے نوشی ہے
ہوش میں اب ترے بے تاب کہاں آتے ہیں
ہم کسی طرح ترے در پہ ٹھکانہ کر لیں
ہم فقیروں کو یہ آداب کہاں آتے ہیں
سر بسر جن میں فقط تیری جھلک ملتی تھی
اب میسر ہمیں وہ خواب کہاں آتے ہیں
٭٭٭
سُن روہی کی رانی
کب تک سورج صحرا صحرا تیرا رستہ دیکھے
کب تک چاند ستارے کاٹیں لمبی لمبی راتیں
ریت کا ذرہ ذرہ تیری خوشبو کا متوالا
کب تک اُونٹ قطاریں کھینچیں تیرے ہجر کی مالا
دھرتی اپنا روپ گنوا کر کس کے ناز اُٹھائے
تیری آس میں رستہ رستہ کب تک خاک اُڑائے
سُن روہی کی رانی تجھ بن روٹھ گئیں برساتیں
مان سِوا کیا حسن کی دولت، کیا جھومر کیا ٹیکا
کھو گئ ہار سنگھار کی مستی، کپڑوں کا رنگ پھیکا
اُجڑے اُجڑے میلے سارے، سُونی سُونی ہٹیاں
کسی کے ہجر میں آدھی رہ گئیں نازک نازو جٹیاں
آتا جاتا ہر موسم کرتا ہے تیری باتیں
کب تک سورج صحرا صحرا تیرا رستہ دیکھے
کب تک چاند ستارے کاٹیں لمبی لمبی راتیں
٭٭٭
کیا جانئے عاشق ہے کہ محبوب کوئی ہے
اِس دل کے در و بام سے منسوب کوئی ہے
آرام کہاں عشق و عبادت میں بھی دل کو
بت کوئی مقابل ہے تو مطلوب کوئی ہے
کیا کم ہے تعلق کے اس آشوب میں رہ کر
ہم جیسے خرابوں سے بھی منسوب کوئی ہے
پھر در پئے آزار ہیں فرقت کی ہوائیں
پھر بامِ شبِ ہجر پہ مصلوب کوئی ہے
تحریر بھی تصویر بنا دیتی ہے اس کی
ہاتھوں کی لکیروں سے جو منسوب کوئی ہے
پھرتے ہیں سعید اور سخنور یہاں کتنے
کب تجھ سا مگر صاحبِ اسلوب کوئی ہے
٭٭٭
ماخذ:
مصنف کے بلاگ سے کمپوزنگ فائل کا حصول ہوا
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید