FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اسلام، جہیز اور سماج

 

 

 

 

                   صابر رہبر مصباحی

                   rahbarmisbahi@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

اسلام دینِ فطرت ہے جو انسان اور انسانیت کی رشد و ہدایت کا پیغامبر بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوا۔ اس نے افراط و تفریط سے قطع نظر انسانیت کی تعمیر اور ایک صالح سماج کی تشکیل کے لیے حیاتِ انسانی کا ایک ایسا فلسفہ پیش کیا جس کو اپنا کر آسانی کے ساتھ ایک منظم طریقے سے سماج کو امن و امان کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔  آج ہمارا معاشرہ طرح طرح کی برائیوں کی آماج گاہ بنتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے امن و سکون ، انسانیت، رواداری، انسان دوستی، آپسی الفت و محبت اور بھائی چارگی کی لازوال دولت رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ آج ہمارے سماج کو جن داخلی برائیوں کا سب سے بڑا چیلنج ہے، ان میں سے ایک ’’جہیز‘‘ ہے۔ جہیز ایک خطرناک کیڑے کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سماجی زندگی کے ہڈیوں کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے، جس کا ہمیں ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ، اگر کسی کو ہے بھی تو اس کے سد باب کے لیے کوئی پائدار منصوبہ تیار کرنے کے بجائے وہ بھی شعوری طور پر اس لعنت کا شکار ہو رہا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ وبا جس تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اگر جلد اس پر قابو نہ پایا جا سکا تو مستقبل قریب میں اس کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

اسے اسلام کی حقانیت کی دلیل ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل اس سماجی برائی کی نہ صرف نشان دہی کر دی تھی بلکہ اپنے پیروکاروں کو اس سے بچنے کی تاکید بھی فرما دی تھی۔ اس کے باوجود اسے مسلمانوں کی حرماں نصیبی کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ آج وہ بھی شعوری و لاشعوری طور پر اس مہلک مرض میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔

ٍ        عام طور پر ہماری سوسائٹی میں اس بیماری کی دو شکلیں ہیں : (ا) جہیز۔  (۲)تلک۔

 

                   جہیز کی تعریف

ہر اس سامان کو جہیز کہتے ہیں جو بیٹی کی شادی میں باپ کی طرف سے دیا جائے مطالبہ کے ہو یا بلا مطالبہ کے۔ مثلاً: اوڑھنا، بچھونا، برتن، کرسی و دیگر ساز و سامان وغیرہ۔

                   تلک کی تعریف

 

وہ مقررہ روپیہ ہے جو لڑکی والے شادی کی تعین کے وقت لڑکے والے کو ساز و سامان کے علاوہ ادا کرتے ہیں ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب شادی کی بات چیت شروع ہوتی ہے تو لڑکے والے لڑکی کے والدین سے ساز و سامان (جہیز) کے علاوہ کچھ نقد روپیہ کی فرمائش کرتے ہیں اور اس میں لڑکے کی حیثیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ لڑکا جس معیار کا حامل ہوتا ہے ، اس کی قیمت کا تعین بھی اسی اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ جیسے بھیڑ، بکری وغیرہ کی خرید و فروخت میں پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے۔

                   تلک اور جہیز میںفرق

مذکورہ بالا تعریف کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو جہیز اور تلک کے مابین کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا ہے۔ ہاں کتب تاریخ سے اتنا ضرور واضح ہوتا ہے کہ تلک کا رواج سماج میں جہیز سے بہت بعد میں ہوا ہے، جس کو معاشرہ کے دولت مند افراد کے ذریعہ فروغ ملا ہے۔ لہٰذا ہم اسے جہیز ہی کی ایک دوسری شکل کہہ سکتے ہیں۔ واضح ہو کہ آئندہ سطور میں جہیز کے تعلق سے جو احکام بیان ہوں گے ، وہ تلک کو بھی شامل ہوں گے۔

 

 

 

جہیز کی ابتدا

 

جہیز کے اس تباہ کن رسم کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی خود ہندوستان کی معاشرتی تمدنی روایات، کتب تاریخ کے مطالعہ کرنے کے بعد یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ رواج ہندوستانی سماج کا حصہ کب اور کس طرح بنا ، البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جہیز کی یہ قبیح رسم ہندوستان میں دورِ قدیم سے چلی آ رہی ہے، جس کا تعلق بالکلیہ ہندو سماج سے ہے اور ہندوؤں کے جس قبیلے میں اس رسم کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس کا نام ’’ویشیہ‘‘ ہے۔ لہٰذا اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا باضابطہ آغاز یہیں سے ہوا۔

 

                   جہیز اور اس کے احکام

 

مروّجہ جہیز کی دو قسمیں ہیں ، پہلی یہ ہے کہ والدین اپنی بیٹی کو کچھ ساز و سامان یا نقد روپیہ پیسہ وغیرہ خود اپنی رضا سے بلا مطالبہ دیتے ہیں۔ دوسری یہ کہ لڑکے والے لڑکی والوں سے حسب خواہش نقد روپیہ اور ساز و سامان کی فرمائش کرتے ہیں اور لڑکی والوں کو خواہی نخواہی مجبوراً اسے پورا کرنا پڑتا ہے۔ جسے آج کے معاشرہ میں جہیز کا خوبصورت نام دیا جاتا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم جن احکام کا ذکر کریں گے، ان کا تعلق اسی دوسری قسم سے ہے۔

اسلام میں جہیز کا مطالبہ کرنا سخت حرام اور گناہ ہے، خواہ اس کی مقدار متعین کی گئی ہو یا نہیں ، شادی سے پہلے ہو یا شادی کے بعد، اس لیے کہ جہیز لینا رشوت کے مترادف ہے اور رشوت اسلام میں ناجائز و حرام ہے۔ اگر ہم جہیز اور رشوت کے مقاصد پر نظر کرتے ہیں تو یہ معمہ خودبخود حل ہوتا نظر آتا ہے کہ جہیز رشوت کی ہی دوسری شکل ہے۔ یہاں رشوت کی تعریف اور اس کے مقاصد کو ذکر کرنا از حد ضروری ہے تاکہ مفہوم کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔

 

 

 

رشوت کی تعریف

 

بحرالرائق میں ہے: ’’الرشوۃ ما یعطیہ الشخص للحاکم اوغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی مایرید ‘‘۔ (البحرالرائق۔ج۶۔کتاب القضاء۔ص۴۴۰)یعنی رشوت یہ ہے کہ انسان حاکم یا غیر حاکم کو اپنے حق میں فیصلہ کرنے کے لیے یا اپنی منشا کے مطابق اسے آمادہ کرنے کے لیے کچھ دے۔

 

                   رشوت کا مقصد

 

اگر ہم رشوت دینے والے اور جہیز دینے والے کے مقاصد پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ان دونوں میں یکسانیت نظر آتی ہے، کیوں کہ رشوت دینے والے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سامنے والا اس کے اخلاقی دباؤ میں رہے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے  اور جہیز دینے والے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کا داماد اور اس کے گھر والے ہمارے اخلاقی دباؤ میں رہیں اور وہ ہماری لاڈلی کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہ کرے۔ اس طرح دیکھا جائے تو جہیز اور رشوت کے مقاصد ایک سے ہیں۔

جہیز کے مال کا واپس کرنا واجب ہے:۔ اسلام میں رشوت اور جہیز سمیت کسی بھی ایسے رواج کے راہ پانے کی گنجائش نہیں جس سے سماجی زندگی کا شیرازہ منتشر ہو سکتا ہو۔ اس لیے رشوت اور جہیز میں لیے ہوئے روپیہ اور ساز و سامان کا واپس کرنا لینے والوں پر واجب ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ’’ رجلٌ انفق علی طمع ان یتز و جہا قال الشیخ الامام الاستاذ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ الاصح انہ یرجع زوجت نفسھا منہ اولم لا نھا رشوۃ وہکذا اختارہ فی المحیط۔ اھ ملخصا‘‘۔ (فتاویٰ ہندیہ کتاب النکاح۔ ج:۱۔ ص:۳۲۸۔ الفصل السادس عشر فی جہاز البنت)

یعنی کسی شخص نے کسی عورت پر اس لالچ میں خرچ کیا کہ وہ اُس سے شادی کرے تو استاذ  فرماتے ہیں کہ وہ اسے واپس لے سکتا ہے، وہ عورت اس سے نکاح کرے یا نہ کرے۔ کیوں کہ وہ رشوت ہے۔

 

                   نکاح کے بدلے مال دینا اور لینا کیسا ہے

 

شادی کے وقت لڑکی کا نکاح کے بدلے شوہر کو کسی قسم کا مال و روپیہ دینا جائز نہیں ہے۔ شامی کتاب الہبہ میں ہے:

’’جعلت المال علی نفسھا عوضا عن النکاح و فی النکاح العوض لا یکون علی المرأۃ‘‘۔ (شامی کتاب الہبہ۔ ج۸۔ ص۵۰۸۔ باب الرجوع فی الھبۃ)

یعنی عورت اپنے نکاح کے عوض جو مال دے وہ باطل ہے اس لیے نکاح میں عوض عورت پر نہیں (مرد پر ہے مہر کی شکل میں ) واضح ہو کہ نکاح کے عوض مال لڑکی خود دے یا اس کے گھر والے سب اسی حکم میں شامل ہوں گے۔اسی طرح نکاح کے عوض مہر کے علاوہ لڑکی والے کو کچھ طلب کرنا رشوت اور باطل ہے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:

’’خطب امراۃ فی بیت اخیھا فابی ان ید فعھا حتی ید فع الیہ دراہم فد فع وتزوجہا یر جع بما رفع لانھا رشوۃ کما فی القنیۃ‘‘۔ (فتاویٰ عالم گیری۔ ماخوذ از:ماہنامہ اشرفیہ اپریل ۱۹۸۹u۔ از: مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ)یعنی کسی کی بہن کو نکاح کا پیغام دیا، بھائی نے انکار کر دیا کہ جب تک کچھ روپیے نہیں دو گے یہ مجھے منظور نہیں۔ مرد نے دیا اور نکاح کر لیا(مرد نے) جو دیا ہے (اسے) واپس لے سکتا ہے ، اس لیے کہ یہ رشوت ہے ، ایسا ہی قنیہ میں ہے۔

در مختار و رد المختار میں ہے:’’أخذ اہل المراۃ شیئا عندالتسلیم فللزوج ان یستردہ لانہ رشوۃ ای بان ابیٰ ان یسلمھا اخوھا اونحوہ حتی یا خذ شیئا وکذ الوابیٰ ان یزوجہا فللزوج الاسترد ادقائما او ہالکا لانہ رشوۃ ‘‘۔   (ردالمختار۔ج۴۔ ص۳۰۷۔ باب المہر من کتاب النکاح )

یعنی رخصتی کے وقت لڑکی والوں نے اگر کچھ لیا ہے تو شوہر کو اسے واپس لینے کا حق ہے کیوں کہ وہ رشوت ہے یعنی اگر بھائی وغیرہ نے بغیر کچھ لیے رخصت کرنے سے انکار کر دیا یا شادی کرنے سے انکار کر دیا تو شوہر کو حق حاصل ہے کہ وہ اسے واپس لے لے ، خواہ وہ مال موجود ہو یا ختم ہو گیا ہو، اس لیے کہ یہ رشوت ہے۔

یہی نہیں اگر رخصتی کے وقت لڑکی کے والد نے لڑکے سے کچھ طلب کیا اور اس نے بخوشی دے دیا تو یہ بھی حرام ہے۔ ’ومن السعب مایاخذہ الصھر من الختن بطیب نفسہ‘‘۔یعنی خسر (سسر) داماد سے کچھ لے اگر چہ داماد بخوشی دے مال حرام ہے۔

ذرا سوچیے کہ یہاں معاملہ خوشی اور رضا کا ہے پھر بھی اس مال کا لینا حرام ہے، تو جبر کی صورت میں بدرجۂ اولیٰ حرام ہو گا۔

سامان جہیز کا مالک کون؟:۔  شادی میں جو ساز و سامان لڑکی والے اپنی بیٹی کو دیتے ہیں خواہ وہ نقد روپیہ ہو یا زیور ، جواہرات کی شکل میں ہو یا پھر گھریلو سامان کی صورت میں ان سب کا مالک فقط عورت ہے۔ در مختار میں ہے:’’کل احد یعلم ان الجہاز  للمرأۃ وانہ اذا طلقہا تاخذہ کلہ واذا ماتت یورث عنہا‘‘۔ ( رد المحتار۔ ج: ۲۔ ص: ۶۵۳)

یعنی یہ سب کو معلوم ہے کہ جہیز لڑکی کی ملکیت ہے۔ جب اسے شوہر طلاق دے دے تو عورت جہیز کے تمام سامان واپس لے سکتی ہے اور اگر وہ عورت مر جائے تو اس کے وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

لہٰذا مالک کی اجازت کے بغیر اس کے سامان کو اپنے استعمال میں لانا ناجائز و گناہ ہے اور حق العبد کے گناہ میں مرتکب ہونا ہے۔ لیکن آج ایک نظر سماج کے بے غیرت نوجوانوں پر ڈالیے تو کس قدر وہ اس گناہ میں ملوث نظر آ رہے ہیں اور بیوی کے لائے ہوئے جہیز ی سامان کو اپنا سمجھ کر اس کی اجازت کے بغیر اس کے ذریعہ عیش و مستی کی بزم سجا رہے ہیں ، غالباً وہ یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ جب بیوی ہماری ہے تو اس کے لائے ہوئے سارے سامان بھی ہمارے ہی ہیں ، حالاں کہ یہ ان کا گمان فاسد ہے جو انہیں لاشعوری طور پر آخرت کے عذاب میں مبتلا کر رہا ہے۔ قرآن مقدس میں ہے:’’آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ‘‘ (سورہ بقرہ۔ آیت۱۸۸)

حدیث پاک میں ہے:’’عن ابی حرۃ الرقا شی عن عمہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم الا لا تظلموا الا لا یحل مال امری الابطیب نفس‘‘۔ (بیہقی ماخوذ از انوار الحدیث۔ ص:۳۲۷۔ رضا اکیڈمی ممبئی)

حضرت ابوحرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خبردار کسی پر ظلم نہ کرو اور کان کھول کر سن لو کہ کسی شخص کا مال (تمہارے لیے) حلال نہیں ہو سکتا ، مگر وہ خوش دلی سے راضی ہو جائے۔

دوسری حدیث میں ہے:’’لایحل لاحد من اہل الجنۃ ان یدخل الجنۃ ولاحد قبلہ مظلمۃ‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری۔ ج:۲۔ ص:۴۰۲۔ کتاب المظالم والغضب)

یعنی کوئی بھی حقدار جنت، جنت میں نہیں جا سکتا ہے جس پر کسی کا حق باقی ہو۔

لہٰذا جو لوگ جہیز کے سامان کو اپنا سمجھ کر بیوی کی اجازت کے بغیر صرف کر رہے ہیں وہ نرے جہالت میں بھٹک رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوں اور عفو و درگزر کرا کر اپنی آخرت کو تباہ ہونے سے بچائیں اور آئندہ بھی اس سے بچتے رہیں۔

اس تعلق سے ہمارے سماج کا یہ منفی رویہ بھی ہے کہ اگر کبھی کوئی با شعور بیوی شوہر اور اس کے گھر والے کو اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کو بلا ضرورت خرچ کرنے سے منع کر دے تو اگر چہ اس کا یہ منع کرنا از راہ مشورہ ہی کیوں نہ ہو گھر سے باہر تک اس کے خلاف ہائے توبہ مچ جاتی ہے اور پھر بد چلن، بدمزاج اور بد اخلاق جیسے لفظوں کے ذریعہ اس کو مطعون کر کے اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے، جو سراسر اس پر ظلم اور اصولِ اسلامی کے خلاف ہے۔

 

 

 

تاریخ کا سیاہ ورق

 

رسم جہیز ہمارے سماج کے لیے کسی زخم ناسور سے کم نہیں ، آج جہیز کے نام پر ملت کی بے گناہ بیٹیوں کو جس طرح ہراساں کیا جا رہا ہے، وہ انسانیت کا بڑا ہی شرمناک پہلو ہے۔ روزانہ صبح صبح آپ جب اخبار کی ورق گردانی کیجیے تو جلی حرفوں میں دل دہلانے دینے والی سرخیاں زینت نگاہ بنتی ہیں کہ فلاں جگہ کم جہیز لانے کے جرم میں بدن پر تیل ڈال کر آگ لگا دیا گیا تو فلاں مقام پر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا اور فلاں جگہ جہیزی بھیڑیوں کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر عورت نے خود ہی موت کو گلے لگا لیا وغیرہ وغیرہ۔ آئے دن ایسے رونگٹے کھڑے کر دینے والے حادثات رونما ہو رہے ہیں اور دخترانِ ملت کی نسل کشی کا یہ سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس راہ میں نہ تو ملک کا قانون ان بے گناہوں کا مداوا ثابت ہو رہا ہے اور نہ ہی خود کو حقوقِ نسواں کے علم بردار کہے جانے والے ادارے اس کے وجود کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

ہندوستان میں جہیزی چیتا کی بھینٹ چڑھنے والی صنف نازک کی جو تعداد ہمارے سامنے ہے وہ کسی بھی ہوش مند اور حساس انسان کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ہندوستان میں روزانہ 19عورتیں جہیز کی بلی چڑھ رہی ہیں۔ 2005  کی رپورٹ کے لحاظ سے ہمارے ملک میں ہر 77 منٹ پر ایک عورت جہیز کی سولی پر دم توڑ تی نظر آتی ہے۔ سرکاری ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2003 میں 6208 عورتوں کو کم جہیز لانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یوں ہی 2004 میں ان بدنصیبوں کی تعداد 7026 اور2005 میں 6787 ہے۔ واضح رہے کہ صوبہ اتر پردیش اس طرح کے دل سوز جرائم کی دنیا میں سب سے آگے ہے۔ جہاں 2003 میں 1322، 2004 میں 1708 اور 2005 میں 1564 عورتوں کو کم جہیز لانے کے جرم میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اتر پردیش کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ بہار کا نام آتا ہے ، اس کے بعد ان صوبوں کا نمبر آتا ہے: مدھیہ پردیش، آندھراپردیش، مہاراشٹر، راجستھان، کرناٹک، اڑیسہ، ہریانہ، تمل ناڈو وغیرہ جہاں اس طرح کے اموات کی شرح کچھ کم نہیں ہے۔ (روزنامہ راشٹریہ سہارا لکھنؤ۔ ایڈیشن ۱۳مارچ ۲۰۰۷ء؁)۔اگر ہم مذکور ہ  اعداد  و شمار  کا  مقابلہ ماضی کے  ریکارڈ سے کرتے ہیں تو  ہمیں  اس میں حیرت انگیز  طور پر اضافہ ہوتا نظر آتا ہے کیوں کہ1977 اور 1978 میں اس کے اموات کی شرح  5245  اور  1986 میں 1396،  1987 میں  1228، 1988  1990 میں 11000اور   1998 میں  1397اس طرح کے سامنے آئے تھے۔ (ہفت روزہ عالمی سہارا۔ جنوری 2006

 

 

 

ایک غلط فہمی کا ازالہ

 

مروجہ جہیز کے تعلق سے لوگوں میں کچھ غلط فہمیاں راہ پا گئی ہیں ، جس کو دور کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ گزشتہ صفحات میں پڑھ آئے ہیں کہ مروجہ جہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ بہت سے افراد یہ خیال کر کے جہیز کا ببانگ دہل مطالبہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی ناموری کے لیے اپنی بیٹی کو بہت زیادہ جہیز دیتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی میں جہیز دیا تھا اور ہمارے بعض نیم عالم مقررین بھی جا بجا اپنی تقریروں میں اس کو بیان کرتے رہتے ہیں جو عوام کی اس غلط فہمی کو مزید تقویت پہنچا تا ہے ، جب کہ یہ بات سراسر جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ کی شادی میں اپنی طرف سے جہیز کا کوئی سامان نہیں دیا تھا، ایسے مقررین اور واعظ کو خوفِ خدا کا خیال رکھنا چاہیے، وہ اس طرح کی بے بنیاد اور  موضوع باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر کے اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ حدیث پاک میں پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد ہے ،فرماتے ہیں :

’’من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من الناررواہ البخاری‘‘۔یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ ص:۳۲۔ کتاب العلم )

اگر ان مقررین کی اس روایت کو درست مان لیا جائے تو ہادی عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں ناانصافی کا پہلو راہ پاتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کے علاوہ اپنی بقیہ بیٹیوں کو (حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم، حضرت زینب رضی اللہ عنہم) جہیز میں کچھ بھی نہ دیا تھا، سیرت کی کتابوں میں اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ لہٰذا صحیح یہی ہے کہ غم خوارِ امت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی میں کوئی سامان جہیز نہیں دیا تھا ، رہا وہ سامان جو رخصتی کے وقت ان کو دیا گیا تھا وہ جہیز نہیں تھا ، اس لیے کہ جہیز اس سامان کو کہا جاتا ہے جو والدین کی جانب سے لڑکی کو شادی کے وقت دیا جائے اور یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کیوں کہ وہ سامان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیسے سے خریدے گئے تھے۔ جس کی ہلکی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت فاطمہ کے لیے نکاح کا پیغام لے کر بارگاہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میں آئے تو آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی درخواست قبول فرما لی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس مہر کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ تمھارے پاس کیا سامان ہے تو انہوں نے عرض کیا کہ ایک زرہ اور ایک گھوڑا۔ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ گھوڑا جہاد میں کام آنے والی چیز ہے اسے اپنے پاس رکھو، اور زرہ بیچنے کا حکم دیا۔ جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار سو اسی (480) درہم میں خرید لیا، پھر زرہ مع قیمت حضرت علی کو واپس کر دیا اور حضرت علی نے پوری رقم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے ایک مٹھی حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے حکم فرمایا کہ اس سے حضرت فاطمہ کے لیے خوشبو اور بناؤ سنگھار کے سامان کا انتظام کرے اور بقیہ رقم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والدہ ماجدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے کر فرمایا کہ اس سے حضرت فاطمہ کے لیے خانہ داری کے ساز و سامان اکٹھا کریں۔

حضرت فاطمہ اپنے ساتھ جو مختصر سامان لائی تھیں ، اس پر تا عمر اضافہ نہ ہو سکا ، آپ کے ساز و سامان میں ایک مینڈھے کی کھال تھی جو بستر کا کام دیتی تھی اور اوڑھنے کے لیے ایک مختصر سی چادر تھی ، اگر سر چھپاتے تھے تو پاؤں کھل جاتا اور پاؤں ڈھانکتے تو سر برہنہ ہو جاتا تھا۔ (کنزالعمال۔ ج:۲۔ ص:۴۰۹۔ تاریخ اسلام۔ ج:۱۔ ص:۳۲۸)

بعض کتابوں میں تکیہ، چکی اور مشکیزہ وغیرہ کا بھی ذکر ملتا ہے، لیکن مذکورہ واقعہ سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ جہیز دینا آپ کی سنت ہے، واضح رہے کہ جو لوگ داماد اور اس کے گھر والوں کے مطالبہ کے بغیر اپنی رضا سے بیٹی کو جو سامان جہیز میں دیں وہ تحفہ اور ہدیہ ہے، جس کا دینا جائز اور بہتر ہے۔

 

 

 

حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی معاشی زندگی

 

مالک کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی لخت جگر کی معاشی زندگی نہایت سادگی میں گزری۔ شادی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قدرت کے باوجود اس کو غریبوں پر خرچ کرنا ضروری سمجھا اور حضرت فاطمہ کو کبھی کچھ سامان عطا نہیں فرمایا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا کام خود ہی کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے آپ کے نرم و نازک ہاتھوں میں گھٹے بن گئے۔ کنویں سے ڈول کی رسی کھینچنے کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے، جس سے بسا اوقات خون رسنے لگتا، چولہا پھونکتے پھونکتے رخِ زیبا متغیر ہو جاتا اور دھوئیں سے آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔

ایک دن حضرت علی رضی اللہ تعالی ٰعنہ نے جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حالت دیکھی تو آپ تڑپ گئے اور فرمایا اے فاطمہ! اب تو پانی بھرتے بھرتے سینہ میں بھی درد ہونے لگا ہے آج کل دربارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں بہت سے غلام اور کنیزیں قید ہو کر آئی ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے ہیں۔ جاؤ تم بھی ایک کنیز مانگ لاؤ، حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے کہنے پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے آنے کا مقصد دریافت فرمایا تو وہ شرم و حیا کی وجہ سے اصل مدعا بیان نہ کر سکیں اور عرض کیا کہ  زیارت اور سلام کی غرض سے حاضر ہوئی ہوں اور خالی ہاتھ واپس لوٹ گئیں۔ جب حضرت علی نے معاملہ کی نوعیت جاننا چاہی تو انہوں نے کہا کہ میری شرم و حیا نے ابا حضور کے آگے دست سوال دراز کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پھر دونوں حضرات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ نے بارگاہِ رسالت میں اپنی اپنی پریشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد عرض کیا کہ حضور! بارگاہ میں بہت سے قیدی آئے ہوئے ہیں کرم فرمائیے اور ان میں سے کوئی کنیز یا غلام ہمیں بھی عنایت فرما دیجیے۔ یہ سن کر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اللہ کی قسم میں تم کو کوئی خادم نہیں دوں گا۔ کیا میں اہل صفہ کے حق کو چھوڑ دوں اور ان کو بھول جاؤں جو فقر و فاقہ کی وجہ سے ایک ایک روٹی کے محتاج ہیں ؟؟۔ میرے پاس ان غلاموں اور کنیزوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں جس سے ان کی امداد کروں ، میں انھیں بیچ کر ان کی قیمت اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر دونوں حضرات دامن صبر کو تھامے گھر واپس آ گئے، پھر ان کی دل جوئی کی خاطر خود رسول محتشم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس جو چیز مانگنے آئے تھے کیا میں تم کو اس سے اعلیٰ چیز نہ دوں ؟، انہوں نے عرض کیا ضرور، عطا فرمائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ، الحمدللہ ، اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت ۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳بار الحمدللہ اور ۳۴بار اللہ اکبر کا ورد کیا کرو۔ یہی تمہارے لیے خادم ہے۔ اس سے تمہارے تمام مشکل کام آسان ہو جائیں گے۔ یہ وظیفہ پاکر حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما حد درجہ خوش ہو گئے۔ (خاندانِ مصطفیٰ۔ ص: ۵۷۷۔ از محمد سعیدالحسن شاہ)

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی لخت جگر پر اپنی غریب امت کو ترجیح دے کر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فرمائش کو رد کر کے قیامت تک کے لیے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھیجنے پر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو کنیز عطا فرما دیتے تو آج کا بے غیرت انسان اس کو سنت سمجھ کر ملت کی غریب لڑکیوں کا جینا دشوار کر دیتا اور اپنی فرمائش پوری کرنے کے لیے اپنی بیوی کو اس کے باپ کے گھر بھیجنا سنت حیدری خیال کر لیتا ، مگر غیب داں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ سب معلوم تھا کہ اس سے آنے والے سماج میں مصیبت کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

 

 

 

سماجی تباہ کاریاں

 

سماج میں رسم جہیز نے اپنے ساتھ تباہی و بربادی کا جو نہ تھمنے والا طوفان برپا کیا۔ اس نے ہندوستانی معاشرہ کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ وبا جس سرعت کے ساتھ سماج میں سرایت کرتی جا رہی ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ وہاں سے امن و شانتی ، انسان دوستی کے جواہر پارے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہماری سوسائٹی جہیز کی وجہ سے جن مصیبتوں میں گرفتار ہوتی جا رہی ہے وہ مختلف النوع ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی ضرر رساں پہلوؤں پر محیط ہیں۔ جن کو ہم ان خانوں میں بانٹ سکتے ہیں :

(۱)خانہ تباہی (۲)مہر کی زیادتی (۳) کثرت طلاق (۴) مال کا ضیاع (۵)شکم مادر میں لڑکیوں کی نسل کشی (۶)جنسی بے راہ روی (۷)لڑکیوں کی کالا بازاری (۸)موت کی سوداگری (۹)عورتوں کی حق وراثت سے محرومی۔

اب ہم یہاں قدرے تفصیل ان مذکورہ خاکوں کو بیان کرتے ہیں۔

 

 

 

جہیز اور خانہ تباہی

 

جہیز کی لعنت نے جہاں سماجی زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں اجتماعی و انفرادی زندگی کے پرسکون نظام کو بھی درہم برہم کر  دیا ہے۔ اگر لڑکی اپنے ساتھ اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز لاتی ہے تو اس کے والدین مقروض ہو جاتے ہیں ، پھر وہ قرض سے سبکدوش ہونے کے لیے دن رات ایک کر کے اپنا چین و سکون برباد کر دیتے ہیں ، اور اگر لڑکی اپنی حیثیت کے مطابق جہیز نہیں لاتی ہے یا وہ لڑکے والوں کے حسب منشا نہیں ہوتا تو پھر وہ لوگ کم جہیز لانے کی وجہ سے اس کو بے جا تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اس پر طعن و تشنیع کی بوچھار کر کے اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ پھر یہیں سے نکلتی ہیں خانہ تباہی کی بھیانک راہیں۔ یا تو خود عورت گھر میں آئے دن جھگڑا، تکرار ، مار، گالی اور لعن طعن سے تنگ آ کر اس بے رحم سماج سے نجات حاصل کرنے کے لیے خودکشی کا راستہ اختیار کر لیتی ہے یا پھر مطالبہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے لڑکے والے اسے اپنے سنگ دل ہاتھوں سے اس کے وجود کو موت سے ہم آغوش کر دیتے ہیں ، جب کہ دونوں طریقے نہایت مذموم اور ظالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کا باعث ہیں۔ اگر لڑکی والے طاقت ور ہیں تو پھر ایسا گھناؤنا جرم کرنے والوں کے خلاف ان کا نوٹس لینا ایک فطری امر ہے۔ پھر شروع ہوتا ہے مقدمہ بازی کا ایک لامحدود سلسلہ جہاں مدعی حضرات مجرم کو تختہ دار پر چڑھانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے پر تل جاتے ہیں اور ملزم خود کو قانون کے چنگل سے بچنے کے لیے رشوت کے طور پر لاکھوں روپے پانی کی طرح بہا دیتا ہے۔ اگر لڑکی والے کمزور ہیں تو پھر ان کے پاس اپنی لاڈلی کے غم میں آنسو بہانے اور دامن صبر کے مضبوطی سے تھامنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ملتا۔ جب کہ قرآن مقدس میں ہے:

’’ جس نے جان بوجھ کر کسی کا قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اس کے لیے بنا رکھا ہے دردناک عذاب‘‘۔ (سورہ النساء۔ آیت ۹۳)

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ شادی جو ایک پاکیزہ رسم ہے ، جس کا مقصد دو اجنبی خاندانوں کے درمیان الفت و محبت کے رشتے استوار کرنا اور مہذب طریقے سے ایک اجتماعی زندگی کا آغاز کرنا تھا، رسم جہیز نے اس خانہ آبادی کو خانہ بر بادی اور آپسی نفرت و عداوت میں تبدیل کر دیا۔ ایک شخص اپنے نازوں کی پلی لاڈلی کو ایک اجنبی کے حوالے یہ سوچ کر یہ کہ دونوں مل کر زندگی کی ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے مگر چند سکوں کے بدلے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دینا انسانیت کا کون سا تقاضا ہے۔ اس کا حکم نہ تو قرآن مقدس میں ہے اور نہ ہی احادیث و آثار میں۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’ان اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف۔ ص:۲۷۱۔ کتاب النکاح)

یعنی سب سے بابرکت شادی وہ ہے جس کا بار کم تر ہو۔

لیکن آج شادی کا بوجھ اتنا بھاری ہو گیا ہے کہ اس کے تلے وقت کے بڑے بڑے سورما بھی اپنی نام نہاد عزت و وقار کے ساتھ دبے ہوئے ہیں۔ اس بیہودہ رواج کی وجہ سے اکثر شادی کے وقت فریقین میں تنازع کھڑا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات دروازے سے بارات بھی واپس ہو جاتی ہے۔ آج کے کچھ نئے ترقی یافتہ بے غیرت لوگوں نے لڑکی والوں سے جہیز حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر لڑکی کے گھر والے بار بار دباؤ کے باوجود مطالبہ پورا نہیں کرتے تو وہ آخر کار دلہن کو ہی اس کے باپ کے گھر بٹھا دیتے ہیں اور عہد کر لیتے ہیں کہ جب تک ہمیں مقررہ رقم نہیں مل جاتی ہم لڑکی کو اپنے گھر نہیں بلائیں گے، اس طرح سے دلہن سمیت ان کے گھر والوں کو بھی ذہنی و جسمانی تناؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ طریقہ بھی نہایت ہی مذموم ہے اگر خدا نخواستہ ایسی شادی شدہ لڑکیاں شامتِ نفس سے کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتی ہیں تو اس کا گناہ اس کے روکنے والوں پر ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے:’’عن انس بن مالک انَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال فی التوراۃ مکتوب من بلغت ابنتہ اثنتی عشرۃ ولم یزوجھا فاصابت اثما فاثم ذالک علیہ‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف۔ ص:۲۷۱)

یعنی جس کی لڑکی بارہ برس کی ہو جائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے پھر وہ کوئی گناہ کر جائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔  لیکن اگر روکنے والا باپ کے علاوہ ہو تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا مگر اس طرح مظلوم لڑکیاں یہ سوچ کر آمادۂ گناہ نہ ہو جائیں کہ اس حرکت کا عذاب میرے سر نہیں آئے گا۔ وہ اس قابل ملامت گناہ کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے مستحق عذاب ٹھہرے گی۔

اس طرح سے کبھی کبھی نوبت طلاق تک کی آ جاتی ہے جس کی وجہ سے اجتماعی و انفرادی زندگی کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ جاتا ہے۔

 

 

 

مہر کی زیادتی

 

پہلے سے ہی مصیبتوں کی مار جھیل رہا سماج اب رسم جہیز کی وجہ سے کثرت مہر کی پریشانیوں سے بھی دوچار ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ جب لڑکے والے جہیز کی خاطر اپنی حمیت و غیرت کا سودا کرنے پر بضد ہو جاتے ہیں تو پھر نکاح کے وقت لڑکی والے کی جانب سے مہر میں ایک خطیر رقم کی فرمائش ہوتی ہے۔ لڑکے والے چوں کہ جہیز کے لیے منہ کھول کر انکار کے مواقع گنوا چکے ہوتے ہیں لہٰذا انہیں مجبوراً قبول کرنا پڑتا ہے، جو لڑکے کی حیثیت سے کئی گنا زیادہ اور اس کا ادا کرنا لڑکے کے بس سے باہر کی بات ہوتی ہے۔ حالاں کہ نکاح میں اس طرح مہر کی مقدار متعین کرنا جس کا ادا کرنا دولہے کی طاقت سے سوا ہو مناسب نہیں ہے اور یہ تکلیف مالا یطاق بھی ہے۔ لہٰذا لڑکے کی حیثیت سے زیادہ مہر کی تعداد مقرر کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ چلو مہر کی رقم چاہے جتنی زیادہ ہو کون سا ادا کرنا ہے، آخر وہ تو رہے گی میری ہی بیوی۔ لہٰذا اس کے متعلق میں کسی طرح کی باز پرس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالاں کہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے کبھی دھوکے میں بھی مہر کا مطالبہ کر بیٹھی تو پھر اس کی خیریت نہیں ہے۔ شوہر کی ناراضگی اور اس کے غصہ کا سامنا تو اس کو کرنا ہی پڑتا ہے، اوپر سے ساس، سسر، نند اور دیگر اہل خانہ کی جلی کٹی بھی اس کو سننی پڑتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت اس کا مطالبہ شوہر اور ان کے اہل خانہ کی ناک اور انا کا مسئلہ چھیڑ دیتا ہے۔ لہٰذا اب کوئی عورت بھول سے بھی اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتی۔

حالاں کہ یہ طریقہ نہایت ہی غلط اور فکر سلیم کے خلاف ہے۔ یہ انصاف کا کون سا پیمانہ ہے کہ جہیز جو نہ آپ کا حق ہے اور نہ ہی آپ کی ملکیت ، اس کا مطالبہ کرنا اور اس کو من چاہے انداز میں خرچ کرنا آپ کے لیے درست ٹھہرے اور مہر جو کہ عورت کا جبری حق بھی ہے اور اس کی ملکیت بھی۔ لیکن اس کا اپنے اس جبری حق کا سوال بھی آپ کے نزدیک کسی گناہ عظیم سے کم نہیں۔ مہر عورت کا شوہر پر جبری حق ہے، جس کا ادا کرنا شوہر پر واجب ہے، اگر کوئی مرد ادا نہیں کرتا اور بیوی اس کو معاف بھی نہیں کرتی تو قیامت کے دن اس مرد سے اس کے بارے میں باز پرس ہو گی اور وہ حق العبد کو غصب کرنے کے جرم میں گرفتار ہو گا۔ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’  اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘ (سورہ بقرہ۔ آیت۱۸۸)

مہر عورت کا ایسا حق ہے جو کسی طرح ختم نہیں ہوتا، اگر اس کا شوہر مہر ادا کیے بغیر مر گیا تو وہ اس کے باپ یعنی اپنے خسر سے اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ جس کا ادا کرنا سسر پر واجب ہو گا۔ہمارے معاشرے کے کچھ بے غیرت افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ مہر چاہے جتنا ہو ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں آخر وہ میری شریک حیات جو ٹھہری تو پھر معافی و درگزر کا راستہ کس دن کام آئے گا، اس طرح سے لڑکی کے لائے ہوئے سامان جہیز سے لڑکے والے کو چند دنوں کے لیے اپنے عیش و مستی کے لمحات تو میسر آ جاتے ہیں ، مگر اس کی قیمت بے چارے دولہے راجہ کو اپنی شان و شوکت کی بلی چڑھا کر چکانی پڑتی ہے اور وہ آخر میں مہر کی خطیر رقم ادا نہ کر کے بیوی کے قدموں میں گر کر معافی و درگزر کے سوال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، پھر بات یہاں میاں بیوی کے نازک رشتے کی ہوتی ہے۔ لہٰذا مجبوراً بیوی کو اپنے بے غیرت میاں کی لاج رکھنی پڑتی ہے۔ جب کہ یہ کسی مرد کے شایانِ شان نہیں کہ وہ کسی عورت کے آگے اپنا سر جھکائے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ مرد عورت پر حاکم ہے۔ اِس وجہ سے جو اللہ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے‘‘۔ (سورہ نساء۔ آیت۳۳)

لہٰذا حاکم کا محکوم کے سامنے جھکنا شرمندگی و ندامت کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جس کسی مرد نے بھی کسی عورت سے تھوڑے یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو اس نے اس عورت کو دھوکہ دیا اور اگر بغیر مہر ادا کیے مرگیا تو وہ خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ وہ زنا کا مجرم ہو گا۔(کنزالعمال حدیث ۴۰۴۲)

 

 

 

کثرت مہر کے نقصانات

 

بسا اوقات جہیز میں بھاری بھرکم تقاضوں کے پیش نظر مہر میں ایک خطیر رقم کی فرمائش معاشرہ میں سخت خسران کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں سماج میں بے رہ روی و  بد اخلاقی کو فروغ ملتا ہے وہیں اس کا نتیجہ شوہر و بیوی سمیت دو خاندانوں کی خانماں بربادی کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اسلام نے میاں بیوی کے درمیان مزاج کی عدم موافقت سے در آئی پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے مرد کو جو طلاق کا زریں اصول عطا کیا ہے زیادتی مہر اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

انسانی زندگی میں کبھی کبھی ایسے موڑ بھی آ جاتے ہیں جہاں مرد کے لیے طلاق کا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے مثلاً زوجین کے مابین مزاج کی عدم موافقت، یا پھر بیوی بد چلن و بد اخلاق ہو اور با رہا سمجھانے کے باوجود بھی اپنے معمولات میں سدھار نہ لائے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے حالات میں بھی مرد ذہنی اور جسمانی اذیتوں کو برداشت کرتے رہتا ہے اور اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اپنی عزت کی رسوائی کا تماشہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  محض یہ سوچ کر چاہتے ہوئے بھی اس عورت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا ہے کہ اگر طلاق دیا تو وہ اور اس کے گھر والے مہر کا مطالبہ کر کے پریشان کریں گے، جس کا ادا کرنا  طاقت سے دور کی بات ہے۔ اس طرح بدمزاج عورت اپنے شوہر کے اخلاقی دباؤ کے قطع نظر بر سر عام اپنی عفت و حیا کا سودا کرتی پھرتی ہے اور مرد یہ سب دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ ایک مقید پنچھی کی طرح محض پھڑپھڑا کر صبر و تحمل کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھ جاتی ہیں اور ایک پر مسرت زندگی بادِ خزاں کی نذر ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی با غیرت انسان اس طرح کی بد چلن عورت سے نجات حاصل کرنے کے لیے عزم مصمم کرتا ہے تو مہر کی اس خطیر رقم کو ادا کرنے میں اپنی ہر کوشش صرف کر دیتا ہے پھر نوبت مفلسی اور نان شبینہ کی محتاجگی تک آ پہنچتی ہے۔ جس کا حاصل خانہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

آج کے انسان حرص و نفس کے بہکاوے میں آ کر شادی جیسے مقدس بندھن کو طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار کر کے تباہی و بربادی کے کس موڑ پر لا چھوڑا ہے۔

 

 

 

گمانِ فاسد

 

آج کچھ لوگ زیادتی جہیز کی طرح مہر کی زیادتی کو بھی اپنی شان و عظمت کا سامان سمجھنے لگے ہیں جو سراسر غلط اور شریعت اسلامی کے خلاف ہے۔ حدیث شریف میں ہے :

’’عن عمربن الخطاب قال الا لا تغالوا صدقۃ النساء فانما لوکانت مکرمۃ فی الدنیا و تقوی عندا للّٰہ لکان اولٰکم بھاالنبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم ما علمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم نکح شیئاً من نسائہٖ ولا انکح شیئاً من بناتہ علی اکثر من اثنیٰ عشرۃ اوقیہ رواہ احمد وترمذی‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف باب الصداق ص:۲۷۷)

حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ خبردار! عورتوں کے مہر میں زیادتی نہ کیا کرو کیوں کہ اگر یہ دنیا میں عزت اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ مستحق نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہوتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر اپنی کسی بیوی سے نکاح کیا ہو یا اپنی کسی بیٹی کا نکاح کرایا ہو۔

لہٰذا مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ زیادتی مہر کو اپنی عزت و رفعت تصور کرنا غلط ہے۔

 

 

 

مہر کتنا ہونا چاہیے

 

نکاح کے عوض عورت کا مہر کتنا باندھا جانا چاہیے تو اس بارے میں شریعت اسلامیہ نے کم کی مقدار تو متعین کر دی ہے مگر زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یا اس کے مساوی کوئی اور شئی ہے۔ ہدایہ میں ہے:’’واقل المھر عشرۃ دراہم ‘‘۔ (ہدایہ۔ج۲۔ ص:۳۲۲۔ باب المھر۳۲۳)

حدیث شریف میں ہے :’’روی جابر بن عبداللّٰہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لاینکح النساء الاکفاء ولا یزوجہن الاولیاء ولا مہردون عشرۃ دراہم‘‘۔ (درایہ۔ج۲۔ ص:۳۲۴)

تاہم یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ مہر کی مقدار اتنی ہو جو مرد کی حیثیت کے مطابق اور اس کا ادا کرنا شوہر کے لیے آسان ہو، حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بہترین مہر وہ ہے جس کا ادا کرنا آسان ہو۔

آئیے ہم دیکھتے ہیں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجات مطہرات کا مہر کتنا تھا۔ حدیث پاک میں ہے :’’عن ابی سلمۃ قال سالت عائشۃ کم کان صداق النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم قالت صداقہ لازواجہ اثنی عشرۃ اوقیۃ و نش قالت اتدری ما نش؟ قلت لا قالت نصف اوقیۃ فتلک خمس مائۃ درہم رواہم مسلم‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف۔ باب الصداق۔ ص۲۷۷۔ طبقات النساء لابن سعد۔ ص:۴۳۔ مسند عائشہ۔ ص:۹۴)

یعنی حضرت ابی سلمہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی بیویوں کے متعلق سے مہر کتنا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مہر اپنی بیویوں کے متعلق بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔ بولیں کیا تم جانتے ہو کہ نش کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں ، فرمایا آدھا اوقیہ تو یہ پانچ سو درہم ہوئے۔

حکیم الامت حضرت مفتی محمد احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم ساڑھے چار آنہ کا ہوتا ہے۔ جس کی قیمت باعتبار زمانہ تقریباً ایک سو پینسٹھ روپے ہوتے ہیں ‘‘۔ (حاشیہ مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح۔ ج۵۔ص۶۷۲)

 

 

طلاق کی کثرت

رسم جہیز نے ہمارے سماج میں تباہی و بربادی کے جو دروازے کھولے ہیں ان میں سے ایک کثرت طلاق بھی ہے۔ آج کثرت جہیز کی لالچ میں طلاق دے کر اصولِ اسلام کا کھلا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے۔ جو انتہائی افسوس کی بات ہے۔ اسلام نے کسی ناگزیر حالت میں مرد کو جو طلاق کا اختیار دیا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جب چاہے اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لیے اس کا استعمال کرے۔ طلاق اگرچہ اسلام ہی کا بنا یا ہوا قانون ہے مگر پھر بھی وہ اس کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے:’’عن محارب قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ما احل اللّٰہ شیئاً ابغض للّٰہ من طلاق‘‘۔ (سنن ابوداؤد۔ ج۱۔ص۲۹۶)

حضرت محارب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں اللہ کے نزدیک طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔

جہیز کی پاداش میں واقع ہونے والی طلاق کی نوعیت دو طرح کی ہے۔ پہلی یہ کہ لڑکا اور اس کے اہل خانہ کے لڑکی والے پر جہیز دینے کے لیے بار بار دباؤ ڈالتے رہنے کے باوجود لڑکی والے ان کے اس مطالبہ کو پورا نہ کر سکے، جس کی وجہ سے لڑکا اس کو طلاق دے دیتا ہے۔

دوسری یہ ہے کہ لڑکے کے والدین اس کے لیے دلہن کا انتخاب کرتے وقت لڑکی کے اخلاق و اطوار سے صرف نگاہ کرتے ہوئے یہ پیش نظر رکھتے ہیں کہ کون سی دلہن زیادہ جہیز اپنے ساتھ لائے گی۔ اگر کسی غریب یا متوسط گھرانے کا رشتہ اس کے سامنے آئے تو وہ یہ سوچ کر اس کو خاطر میں نہیں لائے کہ اس کی بیٹی کو گھر میں لانے سے جہیز میں کوئی خاص سامان نہیں مل سکے گا، اگر چہ لڑکی اخلاق و عادات اور حسن و سیرت کے لحاظ سے کتنی ہی اعلیٰ منزل پر فائز کیوں نہ ہو اور اگر امیر آدمی اپنی لڑکی کے رشتے کی پیش کش کے ساتھ ایک موٹی رقم بھی دینے کا وعدہ کرتا ہے تو چاہے اس کی لڑکی بد خلق و بد مزاج ہی کیوں نہ ہو وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لالچ کی وجہ سے پہلے رشتے پر اس کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر اپنے بیٹے کو راضی کرنے کے لیے اس کی ہونے والی بیوی میں زبردستی کی ہزاروں خوبیاں تلاش کر کے اس کے سامنے بیان کرتے ہیں ، جس کا خمیازہ انہیں شادی کے بعد شرمندگی و ندامت اور لڑکے کی ناراضگی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ لڑکا اپنی دلہن میں ہر اس خوبی کو تلاش کرتا ہے ، جس کا ذکر اس کے والدین  کیے ہوتے ہیں ، جو اسے تلاش بسیار کے باوجود نظر نہیں آتا۔ پھر اس کو اپنے اس ازدواجی رشتے کو تا دیر قائم رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ طلاق دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک آباد و شاداب گھر لالچ اور جھوٹ کی بھٹی میں جل کر تباہی کا بدترین منظر پیش کرتا ہے۔جب کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہو کا انتخاب کرتے وقت لڑکی کے حسن سیرت ، دین و مذہب اور اخلاق و عادات کا خاص خیال رکھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں :’’لاتزوجوا النساء لحسنہن فعسی حسنھن یردیہن ولا تزوجہن لاموالہن فعسی اموالہن ان تطغیھن ولکن تزوجوہن علی الدین ولامہ خرماء سوداء ذات دین افضل‘‘۔ (ابن ماجہ۔ص۵۹۷۔ حدیث نمبر۱۸۵۹۔ باب تزویج ذات الدین۔ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت)

عورتوں سے شادی کی بنیاد محض ان کے حسن کو نہ بناؤ، ان کا حسن تمہیں تباہی میں ڈال سکتا ہے اور ان کی دولت و ثروت کو بھی شادی کی بنیاد نہ بناؤ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی دولت تمہیں سرکشی میں مبتلا کر دے۔ لیکن دین کی بنیاد پر شادی کرو،  کالی کلوٹی دین دار کنیز زیادہ اچھی ہے۔

دوسری حدیث ہے:’’من تزوجھا لما لھالم یزدہ الافقر‘‘۔ اور جس نے (کسی عورت سے) اس کی دولت کی وجہ سے نکاح کیا وہ اور محتاج ہی بنے گا۔

حدیث پاک میں ہے:’’عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم تنکح المراۃ لاربع لما لھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھافاظفر بذات الدین تربت یداک‘‘۔ (مسلم شریف۔ ج۱۔ ص۴۷۳۔ مشکوٰۃ شریف باب النکاح۔ص۲۶۷۔ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مال، حسب و نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تو تم دین والی کو اپناؤ۔     حدیث شریف میں ہے:’’عن عبداللّٰہ بن عمر ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ‘‘۔ (مسلم شریف۔ ج۱۔ ص۴۷۵۔ باب الوصیۃللنساء)

یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک دنیا مال ہے اور دنیا کا بہترین مال نیک عورت ہے۔

 

 

 

لڑکیوں کی نسل کشی

 

جہیز کی یہ تباہ کن رسم پھر سے سماج کو انہی ظلمت بھرے ایام کی نذر کرتا جا رہا ہے۔ جہاں سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اسلام نے سسکتی ہوئی انسانیت کو باہر نکالا تھا۔ جہاں غیرت و حمیت شرمسار ہو رہی تھی۔ پورا سماج حرص و ہوس کی آگ میں سلگ رہا تھا۔ لوگ شادی کو غیر مہذب اور رشتۂ دامادی کو کسر شان سمجھ رہے تھے۔ اپنی ہی لاڈلی کو زندہ منوں مٹی تلے دبانے میں فخر و مباہات تصور کر رہے تھے۔ ایسے پراگندہ ماحول میں اسلام اپنے آفاقی پیغام کے ساتھ امن و شانتی کا پیامبر بن کر جلوہ گر ہوا اور نہ صرف ان وحشی صفت اقوام کو ظلمت و گمرہی کے پردے سے باہر نکالا بلکہ انہیں زندگی کے صحیح مفہوم سے بھی آشنا کرایا اور ظلم و تشدد کی چکی میں پستی ہوئی دخترانِ ملت کی کشت حیات میں شادمانی کے گل بوٹے لگائے۔

لیکن آج ہم پھر اسی گدلے، ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں اور معاشرہ میں دخترانِ ملت کو اپنی عزت و عصمت داغدار کرنے اور انہیں ذلت بھری حیات کی گتھیاں سلجھانے کے لیے ان پر جہیز جیسی لعنت کا بارِ گراں ڈالا جا رہا ہے۔ رسم  شادی باعث رحمت اور کمالات انسانی کو فروغ دینے کے بجائے زحمت و ندامت کے چولے میں ملبوس ہوتا جا رہا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں جس تیزی کے ساتھ شکم مادر میں  لڑکیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے وہ انسانیت کا بڑا ہی شرمناک پہلو ہے۔ جب ہم اس گھناؤنے عمل کے پس پردہ محرک عوامل و اسباب کی جستجو کرتے ہیں تو اس کے درپردہ جو عوامل کار فرما نظر آتے ہیں وہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا بھیانک منظر پیش کرتے ہیں۔ کیوں کہ لڑکیوں کے قتل کرنے کے جو اسباب اس وقت تھے تقریباً وہی آج بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زمانے کی دوریوں نے طور طریقے اور راستے بدل دیے ہیں۔ عرب کا بدو رشتۂ دامادی کو ننگ و عار سمجھ کر اور دولت ہاتھ سے جانے کی وجہ سے اس سنگین جرم کا ارتکاب کرتا تھا اور دورِ جدید کا ترقی یافتہ انسان جہیز جیسی لعنت میں گرفتار ہونے کی وجہ سے اپنے ارمانوں کا خون کر رہا ہے۔ انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ آنے والی بچی کی شادی میں جہیز کے نام پر دولت کا ایک بڑا حصہ ہاتھ سے چلا جائے گا۔ دورِ حاضر کے نام نہاد ترقی یافتہ سماج کو یہ کڑوا سچ گلے سے نیچے اتار لینا چاہیے کہ وہ آج بھی عورتوں کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے میں ناکام اور غیر سنجیدہ ہے۔

 

 

 

موت کی سوداگری

 

جہیز کی رسم نے سماج میں انسانی جانوں کی بربادی کے راستے بھی کھول دیے ہیں۔ آج کے سفاک انسان محض چند کھنکتے سکوں کی لالچ میں بے خوف ہو کر جس طرح صنف نازک کا استحصال کر رہے ہیں اس کی ہلکی سی جھلک آپ ’’تاریخ کا سیاہ ورق‘‘ میں پڑھ آئے ہیں کہ روزبروز کیسے کیسے شرمناک حادثات رونما ہو رہے ہیں اور عورتوں پر کس طرح ظلم و تشدد کا پہاڑ توڑا جا رہا ہے۔

ہمارے سماج کے کچھ اونچی فکر رکھنے والے افراد یہ سوچ کر اپنی لڑکی کی شادی میں بہت زیادہ ساز و سامان دیتے ہیں کہ داماد اور اس کے اہل خانہ ہماری بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک کریں ، تاکہ اس کی زندگی کے لمحات خوشگوار فضا میں پروان چڑھتے رہیں۔  مگر ان کی اس سوچ کا بھرم زیادہ دن قائم نہ رہ کر اس وقت غلط ثابت ہو جاتا ہے ، جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کچن روم میں گیس سلنڈر یا اسٹو کے پھٹ جانے سے اس کی لاڈلی کی موت ہو گئی ہے اور ان کے ارمانوں کا بنایا ہوا تاج محل حقیقت کا روپ اختیار کرنے سے پہلے ہی چند لمحوں میں زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ جنہیں بہو اور بیوی تو ناپسند اور اس کے ساتھ لائے سامانِ جہیز بہت زیادہ محبوب ہوتے ہیں یا پھر زوجین کے درمیان مزاج کی عدم موافقت کی وجہ سے تلخیاں در آتی ہیں۔ ایسے عالم میں لڑکا اور اس کے گھر والے کو سب سے آسان اور فائدہ مند راستہ یہی نظر آتا ہے کہ وہ اس کا قتل کر دے کیوں کہ ایسی صورت میں ان کے دونوں ہاتھوں میں لڈّو ہوتا ہے۔ جہیز کے سامان بھی ان کی عیش و مستی کے لیے بچ جاتے ہیں اور راستے کا کانٹا بھی دور ہو جاتا ہے۔ پھر لڑکا اور اس کے اہل خانہ جھوٹی ہم دردی اور اپنی چوری چھپانے کے لیے لڑکی والوں کے سامنے مگر مچھ کے دو بوند آنسو بہا کر ان کے شکوک و شبہات دور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ کہیں ان کا پول نہ کھل جائے اور لڑکی والے حقیقت کا علم ہو جانے کے بعد مقدمہ کے ذریعہ ان کو کسی طرح پریشان نہ کریں۔

اسی طرح جو لوگ اپنی لڑکی کی شادی میں لڑکے والوں کے حسب منشا جہیز نہیں دے پاتے ، ان کی لڑکی کے ساتھ سسرال والے کیسا گھٹیا سلوک کرتے ہیں ، وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ کبھی کبھی اس کے سسرال والے اس کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ  اس کا وجود زمین پر ایک زندہ لاش ہو جاتا ہے۔ جس سے تنگ آ کر کبھی وہ خود کو موت کے حوالے کر کے اپنی آخرت برباد کر لیتی ہے اور کبھی سسرال والے اس کے وجود کو موت سے ہم آغوش کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ نہایت ہی گھٹیا طریقہ ہے۔ کسی بھی بے گناہ انسان کو موت کے منہ میں دھکیلنا گناہِ عظیم اور اس کا بدلہ جہنم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:’’جو شخص جان بوجھ کر کسی جان کو قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (سورہ نساء۔ آیت ۹۳)

 

 

لڑکیوں کی دلالی

 

ہمارے ملک میں آج کل لڑکیوں کی دلالی اور کالا بازاری کا معاملہ عروج پر ہے، اس میں ملک کے بڑے بڑے لیڈر بھی ملوث نظر آرہے ہیں۔ شکم مادر میں لڑکیوں کی نسل کشی کے سبب اب بہتیرے لوگوں کو اپنے بیٹے کے لیے بہو لانے کی فکر میں دن رات ایک کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اب انہیں بہو خریدنے کی نوبت پڑ رہی ہے۔ ملک نیپال، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ وغیرہ ریاستوں کی لڑکیوں کے والدین کو ہمارے کچھ ضمیر فروش لیڈر ہرے باغ دکھا کر ان سے اونے پونے داموں ان کی لڑکیوں کو خرید رہے ہیں اور پھر وہ ان بدنصیبوں کو موٹی رقم کے بدلے کسی اور کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں اور پھر وہ ان لڑکیوں کی ان سے دوگنی عمر کے لڑکوں سے شادی رچا کر ان کو جنسی اذیت دے رہے ہیں۔ جب کہ ان لڑکیوں کے والدین حالات سے بے خبر خوشی میں مگن ہیں کہ ہماری بیٹی بڑے گھر کی بہو بن گئی ہے۔ ملک میں جاری لڑکیوں کی اس دلالی کے پیچھے اگر غور کریں تو اس میں بھی ہمیں رسم جہیز کا بہت بڑا کردار نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ آج لڑکیاں اپنے والدین کے لیے کس قدر دردِ سر بنی ہوئی ہیں ، ذرا ہم اس غریب باپ کے آشیانے میں جھانک کر دیکھیں جہاں ایک لاغر و ناتواں باپ دن بھر کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے پیٹھ کو جلا کر بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے مہیا کر پاتا ہے۔ بھلا وہ انسان اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جہیز کا اتنا بھاری بھرکم بوجھ کہاں سے  اٹھا پائے گا۔ایسے مجبور لوگوں کے پاس جب ملک کا کوئی امیر ترین شخص پہنچ کر ان سے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگتا ہے اور طرح طرح کے ہرے باغ دکھا کر بدلے میں ایک بڑی رقم کی پیش کش بھی کرتا ہے تو اس کے لیے یہ لمحہ کسی بڑی عید سے کم نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان کی یہ خوشی بھی کچھ دنوں کی ہوتی ہے اور جب انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ دھوکے میں کھلونے دے کر بہلایا گیا ہے۔ تب اس کے ہوش ٹھکانے لگتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان غریبوں کو اگر جہیز کا بوجھ برداشت کرنے کی قوت ہوتی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کسی اجنبی کے ہاتھوں فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔

 

 

 

جنسی بے راہ روی

 

آج کے اس ترقی پذیر سماج میں رونما ہونے والے جنسی سیلاب میں جہاں مغربی تہذیب کا اہم رول ہے وہیں رسم جہیز کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔یہ رواج معاشرہ میں جنسی بے راہ روی کو فروغ دے کر سماج کی شفاف فضا کس طرح مکدر کر رہا ہے یہ ہر خاص و عام پر روشن ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں ، جن میں دو بہت اہم ہیں :

پہلی وجہ یہ ہے کہ مسلسل شکم مادر میں جنین کے قتل کی وجہ سے دن بدن لڑکیوں کی مقدار میں حیرت انگیز کمی آتی جا رہی ہے اور اس کے مقابلے لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو اب کہیں کہیں دوگنا یا اس کے قریب ہے۔ پنجاب، ہریانہ، کرناٹک، مہاراشٹر ، یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے بہت کم ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہریانہ اور پنجاب میں 2000 لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد 1200 کے قریب ہے کر نا ٹک میں 1000 لڑکوں کے مقابلے 965 لڑ کیاں ہیں ، جھاڑکھنڈ میں 1500 لڑکوں کے مقابلے  1122  لڑ کیاں ہیں۔ اب بتایا جائے کہ باقی 800 لڑکوں کی شادی کے لیے لڑکیوں کا انتظام کہاں سے ہو گا۔ اب ان ریاستوں میں لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کی شادی میں والدین کو لوہے کے چنے چبانے پڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ باقی بچے کنوارے نوجوان اپنے جنسی جذبات سے مغلوب ہو کر راستہ چلتے ، چوک چوراہے یا جہاں اسے موقع ملے سماج کی عفت مآب بیٹیوں کی ردائے عصمت تار کر رہے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج کے کچھ غریب افراد شادی کی تیاری اور جہیز کے سامان اکٹھا کرنے کی فکر میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ انہیں اس کا خیال بھی نہیں رہتا کہ ان کی بیٹی حد بلوغ کا آنگن بہت پہلے پھلانگ چکی ہے اور اس کے عہد شباب کا بیشتر اور قیمتی حصہ لاپرواہی اور بے حسی کی نذر ہو رہا ہے۔ پھر جب ان کی جنسی خواہشات سر ابھارتی ہیں تو ان بعض پاکیزگی لٹا کر اپنے دامن عفت کو داغدار کر لیتی ہیں اور ان میں بعض وہ ہوتی ہیں جو اپنے نفس پر قابو پاکر دامن صبر کو تو مضبوطی سے تھامے رہتی ہیں۔ مگر اپنے والدین کو ذہنی و جسمانی کوفت میں مبتلا دیکھ کر خود کو اس کا قصوروار ٹھہرا لیتی ہیں اور اپنے وجود کو والدین کی فکری پریشانی کا سبب سمجھ کر اس بے رحم جہیزی سماج کو الوداع کہہ جاتی ہیں۔ اس طرح سے جہیز ہمارے سماج میں جنسی بے راہ روی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

 

 

 

مال کا ضیاع

سماج میں جہیز کی وجہ سے ایک بہت بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ انسان اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی کو چند لمحوں کی خوشیوں کی نذر کر دیتا ہے اور شادی کو سادہ اور بابرکت بنانے کے بجائے پر تکلف اور تجارت کی منڈی میں اتار رہا ہے۔ شادی میں بلاوجہ محض ناموری اور شہرت کے لیے لڑکی والے کی حیثیت سے زیادہ بارات لے کر جاتا ہے۔ بے ضرورت گاڑیوں کی قطاریں لگا دینا جو بیٹی والوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ بن جائے اور وہ اس کے انتظام و انصرام میں مقروض ہو جائے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں غلو کرنا اور اس کو پاؤں تلے روند کر رزق کی بے حرمتی کرنا۔ یہ سب جگ ظاہر ہے۔ حالاں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔

قرآن مقدس میں ہے:’’اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَاْنُواْ اِخْوَاْنَ الشَّیٰطِیْنَ‘‘۔بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔(سورہ بنی اسرائیل۔آیت۲۷)

تو پھر جہیز پانے کی خاطر ظلم و ستم  کے نئے نئے طریقوں کا آغاز ہوتا ہے۔ کبھی لڑکی کو اس کے میکے بٹھا دیا جاتا ہے ، تو کبھی اس کو قتل کی سزا دی جاتی ہے ا ور کبھی طلاق دے کراس کی مچلتی آرزوؤں کے سا تھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر مقدمہ بازی میں لاکھوں روپے بے جا صرف ہو جاتے ہیں۔

 

 

 

عورتوں کی حق وراثت سے محرومی

سماج میں جہیز کی عام چلن نے لڑکیوں کو اپنے حق وراثت سے بھی محروم کر دیا ہے ، جس کی وجہ سے باپ کے ترکہ سے بیٹی کو حصہ نہ دینے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے اور اس کے  بھائی، بہن کی شادی میں ہوئے اخراجات ہی کو اس کا بدل سمجھ کر باپ کے ترکہ میں حصہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ دراصل آج کل لڑکی کی شادی میں بھائی اور اہل خانہ کو سامانِ جہیز اکٹھا کرنے میں جس طرح کی محنتوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا احساس اچھی طرح ا نہیں کو ہو سکتا ہے جو اس پر خار راہ کے مسافر ہو چکے ہیں ،تاہم اپنی بہن کی شادی میں اٹھائی گٔی مشقتوں کے عوض اسے اس کے جبری حق سے محروم کر دینا اور یہ سمجھنا کہ جہیز کی شکل میں اس کا حصہ مل چکا ہے کسی طرح شریعت کی رو سے درست نہیں  اس لیے باپ کے ترکہ میں بیٹی کا حق نص قطعی سے ثابت ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:’مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے۔ ترکہ تھوڑا ہو یا بہت، حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا‘‘۔ (سورہ نساء۔ آیت۷ ترجمہ:کنز الایمان)۔

’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں۔ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگر چہ دو سے اوپر تو ان کو ترکہ کی دو تہائی اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کا آدھا اور میت کے ماں باپ ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہوں اور اگر اس کی اولاد نہ ہوں اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہائی حصہ ، پھر اگر اس کے کئی بہن ہوں تو ماں کا چھٹا بعد اس وصیت کے جو کر گیا اور دین (قرض) کے تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، تم کیا جانو کہ ان میں کون تمہارے زیادہ کام آئے گا، یہ حصہ باندھا ہوا ہے اللہ کی طرف سے۔ بے شک اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘ (سورہ نساء۔ آیت۱۱۔ترجمہ:کنز الایمان)

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں :’’للابنۃ النصف وللاخت من الاب وام ما بقی ان اعیان بنی الام یرثون دون بنی العلات الرجل یرث اخاہ لابیہ وامہ دون اخیہ لابیہ‘‘۔یعنی بیٹی کے لیے آدھا ہے اور جو باقی بچ جائے وہ سگی بہن کے لیے ہے۔ (یہ اس صورت میں ہے کہ جب صرف یہی دونوں میت کے وارث ہوں ) حقیقی بھائی وارث ہوں گے (ان کی موجودگی میں )علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے، آدمی اپنے بھائی کا وارث ہوتا ہے جو ماں باپ دونوں کے طرف سے ہو (سگا بھائی) اور صرف باپ کی طرف سے بھائی کا  بھائی وارث نہ ہو گا۔لہٰذا بھائی کا بہن کی شادی میں ہوئے اخراجات کی وجہ سے باپ کے ترکہ  سے حصہ دینے کو ضروری نہ سمجھنا سخت غلطی ہے۔ بہن ہر حال میں باپ کے ترکہ سے حصہ پائے گی۔ اس کا یہ حق کسی طرح سے ساقط نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ بھائی سے اس کا مطالبہ بھی نہ کرے اور اس کو بھائی کے ہاتھ میں ہی چھوڑ دے پھر بھی اس کا یہ حق ختم نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ جب چاہے ورثہ سے اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ ہاں اگر بھائی ترکہ تقسیم کر کے بہن کو دیدے اور بہن قبضہ کر کے بھائی کو ہبہ کر دے تو یہ الگ بات ہے۔ لیکن یہ کتنی بری بات ہے کہ اگر بہن نے کبھی بھائی سے اس کا مطالبہ کر دیا تو اپنے ہی بھائیوں کی نظر میں اتنی گنہ گار ہو جاتی ہے ، گویا اس کا اس سے کوئی رشتہ ہی نہ ہو ، اس کے گھر آنا جانا حتی کہ سلام و کلام سب بند ہو جاتے ہیں۔ خدا ے تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت دے۔

اس عبارت کے بعد کچھ منفی خیال رکھنے والے انسان یہ سوچ کر کہ بہن کی شادی میں خرچ بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ باپ کے ترکہ سے بھی حصہ پاتی ہے ، لہٰذا کم خرچ میں کام چلاؤ ،کیوں کہ اچھے گھرانے یا اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے سے رشتہ کرنے میں زیادہ روپیے خرچ ہوں گے۔ کہیں اس کے ساتھ ظلم نہ کرنے لگیں اور اس کی زندگی کو تباہی کے دہانے نہ پہنچا دیں ، بلکہ انہیں خدا ے تعالی ٰ کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کا اجر ہمیں عطا کرے گا۔

حدیث شریف میں ہے: ’’عن جابر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم من کان لہ ثلاث بنات او مثلھن من الاخوات فکفلہن وعالہن وجبت لہ الجنۃ‘‘۔ (جمع الجوامع۔ ج۷۔ ص۲۶۱۔  حدیث۲۲۹۱۰) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں یا اتنی ہی بہن ہوں اور وہ ان کی کفالت کرے،اس کے لیے جنت واجب ہے۔

’’عن جابر قال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم من کان لہ ثلاث بنات یکفلھن ویودبھن ویزوجہن وجبت لہ الجنۃ ‘‘۔ (جمع الجوامع۔ ج۷۔ حدیث نمبر ۲۹۱۱)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جن کے پاس تین لڑکی ہو اور ان کی کفالت کرے اور انہیں ادب سکھائے اور ان کی شادی کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہے۔ ’’عن عقبۃ بن عامر قال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم من کانت لہ اختان فاحسن صحبتھما ماصحبتا ہ دخل بھما الجنۃ‘‘۔ (مسند امام احمد بن حنبل۔ ص۱۸۵)حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس کے پاس دو بہن ہوں وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے جیسا کہ ان کا حق ہے۔ تو وہ دونوں اس کو جنت میں لے جائے گی۔

لہٰذا ہمیں آخرت پر یقین رکھ کر اپنی بہن کو باپ کے ترکہ سے بہ خوشی حصہ دینا چاہیے اور اس کی بھرپور کوشش کریں کہ جہیز کی صورت میں دولت رشوت کی نذر نہ ہونے پائے۔ انشاء اللہ اگر ہم جہیز لینا چھوڑ دیں گے تو دھیرے دھیرے دینا بھی کم ہو جائے گا۔ اس طرح کے حالات معمول پر لوٹ آئیں گے۔ شرط یہ ہے کہ خلوص کے ساتھ مشترکہ جدوجہد جاری رکھیں۔

 

 

 

جہیز مخالف ایکٹ ناکام کیوں ؟

 

مذکورہ صفحات میں جہیز کے تخریبی کارناموں کی روداد پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہو گا کہ آخر ہماری حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے جو قانون بنایا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟؟؟ وہ اِس سماجی ظلم و ستم کو روکنے میں ناکام کیوں ہے؟؟؟ قانون کے ہوتے ہوئے سماج میں جہیزی جرائم اتنے عروج پر کیوں ؟؟؟ آخر قانون کے رکھوالے کو کس کا انتظار ہے جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ بیں بنے ہوئے ہیں۔

اگر ان سب سوالات کے جوابات کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو ان کا مثبت اور صحیح جواب یہ ملے گا کہ سماج میں آئے جہیزی جرائم کے لیے محض قانون اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا انصاف ودیا نت کے خلاف ہو گا۔ حکومت اور قانون سے زیادہ  اس کے ذمہ دار ہم اور ہمارا سماج ہے۔ اس لیے کہ حکومت کا کام کسی بھی برائی پر شکنجہ کسنے کے لیے  سخت سے سخت قانون بنا نا اور اس کو نافذ کرنا ہے، مگر اس کا احترام کرنا اور اس کا صحیح استعمال کرنا عوام کے سر ہے۔ لہٰذا جب تک سماج کے با شعور افراد عزم مصمم کے ساتھ جہیز مخالف ایکٹ کا احترام نہ کریں گے اور عملی طور پر اس کو نہ اپنائیں گے چاہے حکومت کتنا ہی سخت قانون کیوں نہ بنا لے وہ موثر نہیں ہو سکتا اور پھر جہیز ایک سماجی برائی ہے لہٰذا اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سماج کے بیدار مغز افراد کو کمر کسنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ایسے ہی افراد  چند سکوں کے  بد لے اپنے فرائض سے غداری کر بیٹھیں تو اس کا کیا علاج!!!

جہیز مخالف ایکٹ بناتے وقت قانون داں کے ذہن و خیال میں بھی یہ نہ آیا ہو گا کہ ہم جس سماج کو مصیبتوں سے بچانے کے لیے یہ قا نون بنا رہے ہیں اسی کے افراد اس کا غلط استعمال کر کے ایک نئی مصیبت کا دروازہ کھولیں گے۔ آج کے کچھ خود غرض لوگ جہیز مخالف قانون کا جس طرح غلط استعمال کر کے فرضی مقدمہ کے نام پر شریف لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں وہ بڑی ہی تشویش کی بات ہے، زوجین کے درمیان آئے رشتے میں درار کی نوعیت چاہے کچھ بھی ہو مگر پولس چوکی اور کورٹ جاتے جاتے کچھ افراد کی کرم فرمائیوں سے وہ جہیز کا روپ دھار ہی لیتا ہے۔ شرمندگی کی بات تو یہ ہے کہ آج کی کچھ جدید تعلیم یافتہ لڑکیاں جہیز کے نام پر اپنے شوہروں سمیت ان کے اہل خانہ کو بلیک میلینگ کرنے سے بھی بعض نہیں آ رہی ہیں۔ ایسے پر فتن دور میں جہیز قانون کے موثر  و غیر موثر ہونے کی بحث چھیڑنا ہی فضول ہے اور اس کا واحد علاج فقط یہی ہے کہ سماج کے افراد اس کے خلاف مشترکہ مہم چھیڑیں اور لوگوں میں بیداری پیدا کریں۔

 

 

اسباب و علاج

 

( یہ اقتباس مولانا احمد مصباحی،پرنسپل الجامعۃ الاشرفیہ کی کتاب ’’ شادی اور آداب زندگی سے ماخوذ ہے)

آج کے ماحول اور حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد بڑے ہی قلق اور افسوس سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روزبروز جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جا رہا ہے اور جو عورت کم جہیز لے جائے اس کو کوسنے سے لے کر ستانے، طلاق دینے، یہاں تک کہ جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات سننے میں آتے ہیں۔ صد افسوس! ایک پاکیزہ رشتہ جسے ربِّ کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقاصد کے لیے جاری کیا جو عہد رسالت ، عہد صحابہ اور عہداسلاف میں بڑے پاکیزہ اور سادہ طریقہ سے عمل میں آتا رہا۔ آج کے بے غیرت خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا ایک کاروبار سمجھ لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا علاج کیا ہے؟ اور اس سلسلہ میں عوام و خواص کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟

ہمیں اس سلسلہ میں پہلے یہ غور کرنا ہو گا کہ جہیز کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو ستانے والے جوانوں اور خاندانوں میں یہ حریصانہ طبیعت اور ظالمانہ جرات کیسے پیدا ہوئی اور اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟جواباً مختصر لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حریصانہ طبیعت حب دنیا کی پیداوار ہے اور ظالمانہ جرأت دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ بلکہ جارحانہ تک حب دنیا بھی دین سے دوری اور اس کے اصول و مقاصد سے بے تعلقی ہی کا شاخسانہ ہے۔ اس لیے کہ جو یہ جانتا ہو کہ دین اسلام اور ہر معتدل قانون اسی کی اجازت دے سکتا ہے کہ آدمی اپنی کوشش و محنت سے جتنا چاہے مال کمائے مگر دوسرے کے مال کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقیناً مذموم اور گھٹیا طبیعت ہی کی پیداوار ہے۔ جو  ایسی طبیعت سے پاک ہو کبھی بھی بیوی کے مال و دولت کا حریص نہیں ہو سکتا۔ اور اسلامی نقطہء نظر سے تو جہیز کا سارا سامان جو بیوی شوہر کے گھر لائے تمام تر بیوی ہی کی ملک ہے۔ اس پر زکوٰۃ اگر فرض ہو تو اس کی ادائیگی بیوی ہی ذمہ داری ہے اور اس کا استعمال کوئی دوسرا اگر کرنا چاہے تو یہ بھی بیوی کی رضامندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔لیکن اس کے خلاف جن خاندانوں اور جوانوں میں یہ عقیدہ جڑ پکڑ چکا ہو کہ دلہن کا سارا مال ہماری ملک ہے اور ہم اسے جیسے چاہیں استعمال کریں۔ ان لوگوں کی دین اور اس کے مسائل و مقاصد سے دوری بالکل روشن و عیاں ہے۔پھر سنت رسول اور احکامِ اسلام کی رو سے نکاح کے بعد مہر اور نان و نفقہ اور سکونت کے سارے معاملات و مصارف شوہر کے سر عائد ہوتے ہیں۔ بیوی کے اوپر قطعاً یہ کوئی واجب یا فرض یا سنت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت شوہر اور اس کے خاندان والوں کے حصہ میں لائے اور وہ بھی اپنی کمائی سے نہیں بلکہ اپنے ماں باپ اور اپنے خاندان و اقارب کی محنت اور پسینہ کی گاڑھی کمائی سے۔ لڑکی کے والدین پر بھی صرف یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ مناسب لڑکے سے اس کا عقد کریں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہرگز نہیں کہ اس لڑکے کو مال و دولت سے بھی سرفراز کریں یا اپنی لڑکی کو ہی زیادہ سے زیادہ سامان سے نوازیں۔ بلکہ عقد نکاح تو وہ عمل ہے جس کی وجہ سے لڑکی کے ذاتی مصارف کی بھی ذمہ داری شوہر کے سر منتقل ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ عجب حرص و ہوس  ہے کہ آج کا نو جوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعہ اپنی ضروریات اور اپنے مصارف کی ذمہ داری بھی نادار و ناتواں قانون کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس ظلم و ستم اور جذبات کے اوندھے پن سے خدا کی پناہ۔

میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے ہیں اور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ظلم  و  ستم اور ننگی جارحیت پر اتر آتے ہیں وہ یا تو دین و شریعت کے مزاج و نہاد اور اصول و قوانین سے نابلد ہوتے ہیں یا جانتے ہوئے بھی وہ احکام ربانی کی خلاف ورزی کے عادی ہوتے ہیں ، ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی دین و شریعت سے انحراف نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔خصوصاً جہیز یا کسی بھی دنیاوی رنجش کی وجہ سے قتل مسلم تو ایسا ظالمانہ عمل ہے کہ اس کا مرتکب وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی دینی روح موت کے قریب پہنچ چکی ہو۔ اس سے متعلق قرآن کریم نے صاف طور پر بتایا ہے کہ ’’جو کسی بھی ایماندار کو قصداً قتل کرے اس کا بدلہ جہنم ہے، جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے‘‘ ظاہر ہے کہ جو خوفِ آخرت سے خالی اور اس بھیانک ظلم پر رب قہار کی ناراضی اور اس کے انتقام سے بے پرواہ ہو وہی اس طرح کی ظالمانہ جسارت کر سکتا ہے۔ یہ ایک رخ ہوا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہیز طلبی کی حریصانہ طبیعت اور نہ ملنے پر ظالمانہ جسارت کیسے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ایک رخ اور ہے جس سے یہ معلوم ہو گا کہ زیادہ جہیز لینے دینے کا عمل کیوں پروان چڑھ رہا ہے اور اس سلسلہ میں کوئی آہ و فغاں اور شور و فریاد کارگر کیوں نہیں ہوتی۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کے نام و نمود کی خاطر یا لڑکی اور داماد سے بے پناہ محبت کی نمائش کی خاطر بذاتِ خود اور بلا مطالبہ اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقہ کی ساری دولت و جائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو۔ ان حضرات کا عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اسی کو عزت و عظمت خیال کرتے ہیں۔ اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی و حقارت محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بہت سے دیندار اور خلوص کار لڑکوں اور خاندانوں نے زیادہ جہیز سے منع کیا۔ پھر بھی لڑکی والوں نے اپنی بساط سے زیادہ ہی دے ڈالا۔ زیادہ دینے کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے خاصے دین دار اور پابند شرع لوگوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص بظاہر خوش حال نظر آتا ہو، لیکن حقیقت میں پریشان حال اور تنگ دست ہو اس لیے اتنا جہیز نہ دے سکے جو معاشرہ میں اس کے برابر اور ہم پلہ شمار کیے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جاتا ہے اور لڑکی ، داماد سے عدم محبت پر محمول کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں لڑکی کو بہت سی اذیتوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب جہیز معزز گھرانوں کا علامتی نشان بن چکا ہو اور فخر و مباہات کے ساتھ اسے عملاً رواج مل رہا ہو، اس ماحول میں اگر یہ تحریک چلائی جائے کہ جہیز مانگنا بند کرو۔ تو یہ کہاں تک کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ پانے والے کہاں تک صبر کر سکتے ہیں۔ خصوصاً جب کہ وہ دینی فکر و مزاج اور شرعی کردار و عمل سے بھی عاری ہوں۔دولت مندوں کے حسب حیثیت لاکھ دو لاکھ اور اس سے زیادہ کے جہیز دے دینا کوئی مسئلہ نہیں اور انہیں کے کردار سے یہ رسم بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے۔ ان کے دامادوں کو دیکھ کر ہر نوجوان آرزومند ہوتا ہے کہ مجھے بھی ایسی لڑکی ملے جو اپنے ساتھ اسی طرح وافر جہیز لائے اور جس کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی وہ اس حد تک بد دل ہوتا ہے کہ لڑکی پر طعن و تشنیع سے لے کر ضرب و قتل تک پہنچ جاتا ہے۔ان حالات و  اسباب کا جائزہ لینے کے بعد اب ان کے ازالہ و علاج پر غور کیجیے تو درجِ ذیل صورتوں کے بغیر جہیز طلبی کی لعنت کا ازالہ اور ظالمانہ و جارحانہ واقعات کا انسداد ناممکن ہے۔معاشرہ میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے۔ اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے آخرت کا خوف پیدا کیا جائے۔ متاعِ دنیا کی حرص اور ثواب آخرت سے بے پروائی دور کی جائے۔

(الف) اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوش حال بنائے اور آخرت بھی سنوارے۔ ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہر حال پرہیز کرے۔ ورنہ اس کا انجام بڑا ہی بھیانک اور خطرناک ہے۔ منتقم حقیقی کی سزا سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔

(ب) یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت و بقا اور انسان کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کے لیے وضع ہوا ہے۔ اس رشتہ کے بعد دو خاندانوں میں قرابت و محبت اور اتحاد و یگانگت بھی برپا ہوتی ہے۔ اور مرد و زن پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ، لیکن مصارف و اخراجات کی ساری ذمہ داری شریعت نے مرد کے سر رکھی ہے اور عورت قطعاً اس کی پابند نہیں کہ شوہر کو اپنی یا اپنے ماں باپ کی دولت سے نفع اندوز کرے۔

(ج) دلوں میں مردانہ غیرت و حمیت پیدا کی جائے اور بتایا جائے کہ مرد کی عزت اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی کمائی ، اپنی محنت اور اپنی دولت پر بھروسہ کرے۔ بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر حریصانہ نظر رکھنا گھٹیا طبیعت پر غماز۔ جس سے ہر شریف اور با غیرت فرد اور خاندان کو بہت دور ہونا چاہیے۔

(د) یہ باتیں لوگوں تک پہنچانے کے لیے پمفلٹ تقسیم کیے جائیں جلسے منعقد کیے جائے، نجی مجلسوں اور ہوٹلوں میں بھی ان خیالات کو عام کیا جائے، کمیٹیوں اور انجمنوں کے ذریعہ ان احکام و افکار کو گھر گھر پہنچایا جائے۔

(۲) عملی طور پر شادی بیاہ کے مواقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے۔ آپ اپنی بیٹی، داماد کو جو چاہیں دے سکتے ہیں ، لیکن اس کا بھی خیال کریں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ معاشرہ میں آوارگی اور بے حیائی کی صورت میں بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ آپ کو دینا ہی ہے تو بعد میں کبھی خفیہ طور پر دے لیں ، لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش کر کے تنگ دست لڑکیوں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔

(۳) ایسی انجمنیں بنائی جائیں جو سماج کے سربرآوردہ ، ذی ثروت، دردمند، صاحب کردار اور مخلص افراد پر مشتمل ہوں ، یہ حضرات جہیز میں دیے جانے والے سامانوں کی مناسب حد بندی کریں اور سب سے پہلے خود اس پر کاربند ہوں ، پھر دوسروں کو اس کا پابند بنائیں۔

(۴) نوجوانوں کو بہرحال یہ یقین دلایا جائے کہ دولت خدا کا ایک عطیہ اور اس کا خاص فضل و انعام ہے جو ہر شخص کے حصے میں آنا ضروری نہیں تم اگر اپنی محنت اور اپنے خاندان کی کمائی سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لیے راحت و عزت کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کے طریقوں اور ناجائز راستوں کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال و اسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں ، تمہاری عظمت اور تمہارا وقار اس میں ہے کہ تم کسی دکھی اور غریب و پریشان حال کے لیے ایک با عزت زندگی کا سہارا بنو اور اسے اپنی زوجیت میں لا کر اس کا دکھ، درد اور اس کا رنج و الم دور کرو، نہ یہ کہ وہ خود اپنے جہیز سے تمہاری محتاجی و غربت کا علاج کرے۔ جہیز اگر بہت زیادہ ہو تو بھی پوری زندگی اور اس کے اخراجات و ضروریات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ بہر حال ایک وقت تمہیں اپنی اور اپنی نسل کی کفالت کے لیے خود محنت کرنی ہو گی، کیوں نہ آج ہی تم سسرال کی بجائے اپنے بازو کی قوت اور اپنے مولیٰ کی عنایت پر بھروسہ کرو۔ قناعت ہی اصل مال داری ہے۔ آدمی کو جو مل جائے اور اس کی محنت سے جو برآمد ہو اگر اس پر اس نے قناعت نہ کی تو مزید پر مزید کی حرص ہمیشہ اسے دل کے اعتبار سے فقیر و محتاج ہی رکھے گی۔ خدا تمہیں غنائے قلب سے نوازے اور طمعِ دنیا سے بچائے۔

مذکورہ بالا تجاویز کا حاصل یہ ہے کہ فکر و مزاج میں تبدیلی لائی جائے تصورات و خیالات ، معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادار طبقہ کے دکھ درد اور اس کے مصائب و مشکلات کا سچے دل سے احساس کرے۔ جبھی جہیز میں افراط و غلو کی لعنت اور اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا سد باب ہو سکتا ہے اور ان دونوں باتوں کو بروئے کار لانے کے لیے شہر شہر، گاؤں گاؤں ، محلہ محلہ ایسی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جو سماج میں موثر اور مخلص و دردمند افراد پر مشتمل ہونے کے ساتھ سرگرمِ عمل بھی ہوں۔ اگر یہ تنظیمیں قائم ہو کر دلچسپی و سرگرمی اور اخلاص و دل سوزی کے ساتھ برائیوں کے خلاف بر سر پیکار رہیں تو ان کے ذریعہ بہت سے دوسرے اصلاحی و فلاحی کام بھی انجام پا سکتے ہیں۔ واللہ الہادی الی سواء السبیل۔ (ماخوذ از: شادی اور آدابِ زندگی۔ ص۲۲ تا۲۷س۔ مصنف  علامہ محمد احمد مصباحیؔ۔ مطبوعہ المجمع الاسلامی مبارکپور)

حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’مسلمانوں میں جو لوگ ذی اثر، دینداری اور قومی جذبہ رکھتے ہیں انہیں لازم ہے کہ اس جہیز کی لعنت کے خلاف ابھی سے صف آرا ہو جائیں اور مسلمانوں میں اسے پھیلنے نہ دیں اور اگر اس کے لیے سمجھانے بجھانے سے کام نہ چلے تو ہر ممکن سختی کریں۔ ابھی ابتدا ہے روک تھام ہو گئی تو رک سکتی ہے، ورنہ بہت مشکل ہو جائے گا۔ حریص، لالچی، بے غیرت نہ مانیں تو ان کا سوشل بائیکاٹ کریں۔ نکاح خواں علماء میاں جی لوگوں کو لازم ہے کہ جہاں معلوم ہو کہ جہیز کے عوض لڑکا خریدا گیا ہے، وہاں نکاح پڑھانے نہ جائیں۔ چند سکوں کی لالچ میں قوم کو تباہ نہ ہونے دیں۔ دس بیس جگہ اگر پابندی ہو گئی تو امید ہے ہندوؤں کی دھتکاری ہوئی یہ بلا مسلمانوں میں نہ پھیلے گی۔(ماہنامہ اشرفیہ اپریل ۱۹۸۹ء)

٭٭٭

القلم ریسرچ لائبریری کی پیشکش

www.alqlmlibrary.org /library

تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید