FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ایک ممنوعہ محبت کی کہانی

 

(ناول)

 

 

 

 

                 رحمن عباس

 

 

 

 

انتساب

 

 

ان تمام محبتوں کے نام جنھیں سماج، مذہب اور اخلاقیات کے خودساختہ دائرے قبول کرنے سے ڈرتے آئے ہیں۔ ان ادیبوں کے نام جو بر صغیر کی مجموعی ثقافتی روایت کے دفاع میں سر گرم ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

"For they lived long enough to know that love was always love, anytime, anyplace, but it was more solid the closer it came to death.”

Gabriel Garcia Marquez

Love in the Time of Cholera -page-345

 

 

 

 

”The worst thing is not that the world is unfree, but that people have unlearned their liberty.”

Milan Kundera

ؒLife is elsewhere- page-46

 

 

باب اول

 

میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو سادہ تھا

 

 

مئی مہینے کے آخری دن تھے۔ دن بھر گرم ہوا چلتی رہتی، البتہ شام ہوتے ہوتے سمندر کی طرف سے آنے والی ہواؤں کے ساتھ ٹھنڈے جھونکے بھی آ جاتے اور ماحول قابل برداشت ہو جاتا۔ دن بھر کی گرمی میں پکے ہوئے آموں اور کاجو کے پھلوں کی مہک شام کے ان جھونکوں میں زیادہ اچھی لگتی۔ کو کن گرم مرطوب آب و ہوا کا خّطہ ہے جس کے کنارے کنارے بحر عرب کی لہر یں صدیوں سے ایک تاریخ کا قبرستان اپنے ساتھ لیے موجزن ہیں۔ ایک ایسا سمندر جس کا دوسرا کنارا دوسری دنیاؤں کی پر اسرار تہذیب سے جا ملتا ہے۔ بعض پرانے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موہن جودارو سے ممنوع محبت کرنے والے جس گھرانے کو شہر بدر کیا گیا تھا در اصل سب سے پہلے وہی اس خطّے میں آبسا۔ خلاف معمول اس شام ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں ایک پر اسرار گرم لہر تحلیل ہو گئی تھی۔ بحر عرب سے آنے والی ہواؤں سے زیادہ سندھ کی تپش کا ایک احساس اس لہر میں پوشیدہ تھا، جس میں بجائے آم اور کا جو کی مہک جنگلی پیڑوں کی بو زیادہ تھی۔

بہت سارے رشتے داروں اور پڑوسیوں کی آمد سے آنگن میں آوازیں رینگ رہی تھیں اور جامن کا پیڑ چپ چاپ حیران نگاہوں سے ادا ہونے والے جملوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قہقہوں اور سرگوشیوں کے درمیان عبد العزیز کے چچا کو مہندی لگائی جانے والی تھی۔ شام سے پہلے ہی آنگن میں لگے مہندی کے پیڑ کی پتیاں نکال کر پاٹے پر مصالحے کی طرح پیس پیس کر مہندی تیار کی گئی تھی۔ اب ایک طرف اندھیرے میں کھڑا برہنہ مہندی کا پیڑ سوکھے ہوئے بیر کے پیڑ کی طرح افسردگی میں ڈوبا لگ رہا تھا اور اس کے تنے کے پاس سورہی چھوئی موئی شرمائی ہو ئی تھی کہ بہت جلد سرخ دلہن کے ہاتھ آ کر کس پیارسے اس کے گالوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں گے۔

عبد العزیز نے اسکول سے ہفتے بھر کی چھٹی لے رکھی تھی۔ مہمانوں کو چائے پلانے کی ذمہ ّداری اسے سونپی گئی تھی اور اس کام میں اسے بھی بہت مزہ آ رہا تھا۔ وہاں ایک ساتھ کئی لوگ آ جاتے تو ایک بڑی پلیٹ میں بہت سارے کپ لیے دھیرے دھیرے چلنے میں اس کا تن اور من دونوں ایک باہمی ارتباط ظاہر کرنے لگ جاتے۔ گو یا وہ کر تب بتا رہا ہو۔ اور ہاں۔ ۔ ۔ جہاں کوئی لڑکی کسی کونے میں اسے نظر آتی جسے اس نے پہلے نہ دیکھا ہو تو اس کی نظریں، لمحہ بھر سہی، اس پر ٹھہر جاتیں۔ وہ آگے بھی اگر بڑھ جاتا، تو اس کی آنکھیں وہیں پیچھے رہ جاتیں۔ وہ مسکراتا اور سوچتا۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کیا سوچے گی؟‘‘ باوجود اس خیال کے وہ خود کو روک نہ پاتا۔ اس روز بالخصوص اپنی مصروفیات کے درمیان انھیں دیکھنا کچھ زیادہ ہی بھلا لگ رہا تھا۔ مانا کہ ابھی اس نے عمر کی وہ سرحد پار نہیں کی تھی، جہاں اس کا جسم ان کی اہمیت سے واقف ہو تا۔ لیکن مسرت کا ایک سر چشمہ اسے اپنے اندر بیکراں محسوس ہوتا تھا گویا اوپر کی زمین تیار ہو گئی تھی کہ برسوں سے اندر ہی اندر پریشاں چشمہ ایک تمازت سے پھوٹ پڑے اور ندی میں ضم ہونے کے لئے پتھروں، جھاڑیوں اور کنکروں کو عبور کرنے کا سفر شروع کرے۔ شاید یہی سبب تھا کہ ایک دفعہ اس کی نظر اس لڑکی پر پڑتے ہی اس کے قدم لڑکھڑائے اور لبالب بھرے کپ آپس میں ٹکرائے اور  ’’ ٹر رر رے ‘‘ کی آواز پھیلی۔ ۔ ۔ کسی نے کہا ارے کیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ تو اس نے فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔  ’’چائے گرم ہے نا؟‘‘

 

{۲}

 

شام دبے پاؤں آئی اور جھٹ سے کو یلوں کی چھتوں پر لیٹ گئی جو مو سم کی تبدیلیوں اور وقت کے بہاؤ کے ساتھ سیاہ پڑ گئے تھے۔ کو کن کی راتیں تنہا اور اداس عورت کے نوحے کی طرح ہوتی ہیں۔ تاریکی میں لوگ لالٹین اور ٹارچ لے کر نکلتے ہیں۔ عبد العزیز کے گا نَو سورل میں بجلی کے کھمبے تو لگائے گئے ہیں مگر تاریں لگنے میں چند مہینوں کا وقت باقی تھا۔ آنگن میں گھانسلیٹ کے دیے جل رہے تھے۔

مغرب کی اذان کا وقت ہوا تو چند بوڑھے مسجد کی طرف چل پڑے۔ عبد العزیز کے گھر سے قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد تھی، جو پچاس لوگوں کے لئے کا فی تھی اور اتنے لوگ صرف جمعہ کی جماعت میں ہی مسجد میں اکٹھا ہوتے تھے۔ عام طور پر لوگ نماز کے پابند نہیں تھے۔ اب تو پھر بھی فجر کی نماز میں پانچ دس لوگ مسجد پہنچ جاتے ہیں، ورنہ دس پندرہ سال پہلے تو صرف امام اور موذن ہی نمازی تھے۔ بعض اوقات تو یہ دونوں بھی خوابوں کی بارگاہ سے نکلنے کی زحمت نہ کرتے۔

٭

نماز بعد اجتماعی کھانا ہوا جس میں گانَو کی جماعت کے اراکین نے کھانا بنایا۔ دال گوشت اور بیگن بٹاٹے کی سبزی کے ساتھ آم کا اچار اور ایک پاپڑ۔ ۔ ۔ ایک پلیٹ میں گوشت کی دو بوٹیاں۔ ۔ ۔ سالن اور چاول پر کوئی پابندی نہ تھی۔ گھر کے اندر اور منگیلدار (پچھواڑے ) میں عورتوں کے کھانے کا اہتمام تھا، جہاں گانو کے لڑکے ہی کھانا تقسیم کرتے رہے۔ کھانے کے بعد پھر چائے کا ایک دور چلا۔ ۔ ۔ چائے تقسیم کرنے کی ذمہ داری عبد العزیز کی تھی۔ جب لوگ زیادہ ہو گئے تو اس کے ہم عمردوست رفیق اور صابر اس کا ہاتھ بٹا نے لگ گئے۔

بالآخر بعد عشاء دُلہے کو آنگن میں کرسی پر بٹھا یا گیا اور مہندی کی رسم شروع ہوئی۔ دلہے کے ہاتھ پر خاندان کی لڑکیوں اور عورتوں نے مہندی لگا ئی۔ اس دوران گانَو کی عورتوں نے خوب گیت گائے۔ عبد العزیز ایک کونے میں کھڑے ہو کر ان گیتوں کو سن رہا تھا۔ اسے گیت سننا بے حد پسندتھا۔ کئی گیتوں کے مکھڑے اسے یاد بھی تھے۔ ہاں !اس رات اسے معلوم نہ تھا کہ ایک دن یہ سُن کر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں گے کہ  ’’گیت گا نا حرام ہے۔ ‘‘

وہاں گیت کی محفل شباب پر آئی اور یہاں اندر سے اس کی پڑوسن نے اسے بُلا بھیجا کہ چائے اور پان لے جاؤ اور گیت گانے والی عورتوں میں پہلے تقسیم کرو۔ وہ پھرتی اور چستی کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا اور اسی بہانے پڑوس کے گانَوسے آئی ہوئی لڑکیوں کو قریب جا کر دیکھنا بھی۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اسے حیرت اس سمئے ہوئی جب اس سے بڑی عمر کی لڑکیوں نے اسے بار بار بلاکر اس سے پان مانگا۔ ایک جو چوبیس پچیس سال کی تھی اس نے اس کو قریب بلا کر کہا: تُجاچوُنیات، مجاموپ یتے۔ ۔ ‘‘[ترے چونے میں مزہ بہت آتا ہے۔ ]

اس نے پٹری (پڑی کوکن کے دسیع و عریض مکانوں میں کیچن کے طور پر استعمال ہونے والے کمرے کو کہتے ہیں۔ اکثر یہ گھر کے پچھواڑے کے دروازے سے لگ کر ہوتی ہے اور عام طور پر ایک طرف موری بھی ہوتی ہے۔ بعض علاقوں میں اسے پڑوی بھی کہتے ہیں۔ ) سے چھلانگ لگائی اور منچا وٹے (درمیانی کمرے ) میں رکھے ہوئے آئینے میں خود کو ایک نظر دیکھا۔ ۔ ۔ وہ آگے نکل گیا مگر اس کا عکس وہیں آئینے میں رہ گیا۔ حیران!!کہ یہ لڑکا جوانی کی دہلیز پر کس قدر محو ذات ہو گیا ہے کے مجھے بھی ساتھ لے جانا بھول گیا۔ اس سے پیشتر کہ وہ عکس آئینے میں تحلیل ہوتا، وہ پان تقسیم کر رہا تھا۔ ۔ ۔ اور یہ دیکھ کر خوش تھا کہ بڑی عمر کی لڑکی کے چہرے پر چونا ملتے ہی کیسی مسکراہٹ ابھری تھی۔ لڑکیوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا جس کی شیرینی اس کے کانوں میں پگھل گئی تھی اور دل کی دُنیا میں ایک اُجالا ہوا تھا اور اس اجالے کی روشنی میں وہ محفل کی عورتوں اور گیت گانے والی لڑکیوں میں پان تقسیم کر رہا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ لڑکیوں نے ایک دوسرے سے کیا کہا اور ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر انہوں نے کس بات پر قہقہہ لگایا۔ وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اس نے ان کا دل جیتا ہے۔ لڑکیوں کے دل میں اس کے لئے جگہ ہے۔ا س وقت ا س نے اسکول کی خاکی رنگ کی ہاف پتلون پہن رکھتی تھی اسے ایسا بھی لگا کہ اب شاید وہ اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ بڑی لڑکیوں کے سامنے ہاف پتلون پہنے۔ کہیں وہ اس کی پتلون پر تو نہیں ہنسی تھیں۔ ۔ ۔ ایساکیوں ہو گا؟وہ تو روزانہ اسی پتلون میں گانَو بھر میں گھومتا ہے، مگر دوسری طرف جوں جوں وہ پان تقسیم کرتا، ایک کونے سے دوسرے کو نے تک پہنچا، اس کے دل نے اس سے کہا اب شاید اسے اپنی رانیں ڈ ھا نکنا چاہیے کیوں کہ اب جب وہ کسی عورت کے پیر ٹخنوں تک بھی دیکھتا ہے تو عجیب طرح کی کیفیت اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ دیکھتا رہے۔ ۔ ۔ دیکھتا رہے، اور اس قدر محو ہو کر دیکھتا رہے کہ ساری دنیا مٹ جائے اور تب بھی وہ دیکھتا رہے۔ اس پاگل پن پر اسے ہنسی تو آتی، مگر اس کیفیت کی لذّت سے جو نور اس کے ذہن میں پیدا ہوتا اس کے راز کو وہ پھر بھی نہ سمجھ پایا۔

وہ چاہتا تھا فوراً جا کر ماں کی پیٹی کھولے اور ازار نکال کر پہن لے پھر آ کر آرام سے بیٹھ کر گیت سنے۔ اتنے میں آنگن کے گڑ گے (پتھر کی دیوار جو پرانے طرز کے مکانوں کے اطراف فصیل کا کام دیتی تھی۔ دیوار کا لفظ غلط فہمی پیدا کر سکتا ہے اس لئے یہ بتانا مناسب ہو گا کہ صرف پتھر ہیئت کی مناسبت سے ایک پر ایک رکھے ہوئے ہوتے۔ سمنٹ کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔ البتہ بعض اوقات سہارے کے لئے گاڑھی مٹی استعمال بھی ہوتی۔ ) پر رکھی ہوئی گیس بتی مدھم پڑ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ’’ارے عبد العزیز۔ ۔ ۔ ۔ اس بتی کو اندر لے جا اور دوسری۔ ۔ ۔ ‘‘ایک آواز آئی۔

اس نے فوراً گیس بتی اٹھا ئی اور پڑی کی طرف چلا گیا جہاں رمضان گیس بتی والادوسری بتیاں روشن کر رہا تھا۔ چوں کہ گانَو میں ابھی بجلی آئی نہیں تھی اس لئے رمضان گیس بتی والے کی بڑی اہمیت تھی، اہم تقریبات پر وہ گیس بتی کرائے پر دیتا تھا اور اسی پر اس کا گزر بسر ہوتا تھا۔

 

{۳}

 

سورل پہاڑی پر بسا ہوا چھوٹا سا گانَو ہے۔ اطراف گھنا جنگل، جس میں کئی طرح کہ جا نور اور پیڑ پودے ہیں جن کے نام اور فوائد سے یہاں کے لوگ واقف ہیں۔ یہاں کی ثقافت مجموعی ہندستان کی ثقافت سے ملتی جلتی ہونے کے باوجود اپنی جداگانہ پہچان رکھتی ہے۔ آبادی کم ہے اور زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ عورتیں ساڑی پہنتی ہیں اور اس پر چولی، مرد پتلون کا استعمال خاص موقعوں پر کرتے ہیں، ورنہ لنگی پہنا کرتے ہیں۔ بوڑھے مرد دھوتی بھی پہنتے ہیں۔ دھوتی پہننے والے مسلمانوں کی یہ آخری نسل تھی۔ اس کے بعد چند ہی برسوں میں دھوتی کو (کافروں کے لباس سے مشابہت رکھنے کی بناء پر) مکروہ قرار دیا گیا۔

عبد العزیز گیس بتی لے کر دوبارہ آنگن میں آیا۔ اس کے چچا کے دونوں ہاتھوں پر خوب مہندی لیپی جا چکی تھی۔ کونے میں خاموش کھڑا مہندی کا برہنہ پیڑ اب بھی جاگ رہا تھا اور اس رسم کو دیکھ کر اپنا غم مندمل کر رہا تھا جو اس کی شاخوں سے پتوں کے توڑ لیے جا نے سے اس کی جڑوں اور ڈنٹھلوں کو ہوا تھا۔ دوران گیت جب اس کی پتیوں کا ذکر ہوا تب اسے واقعی خوشی ہوئی۔ اس خوشی میں ایک شاخ نے جھوک کر چوئی موئی سے کہا۔ ’’ہم لٹ کر بھی ضائع نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ ‘‘چھوئی موئی سے کچھ کہا نہ گیا۔ وہ خود کو اور سکیڑ کر اپنے بھتیرسماگئی۔

عبد العزیز کچھ دیر کے لئے دروازے سے لگ کر کھڑا رہا۔ جہاں منڈ وے کا رنگ برنگی کاغذوں سے سجا ہوا کھمبا تھا۔ کوکن کی شادی میں مانڈوے کی اہمیت بہت ہے جسے باوٹوں ہنڈیوں اور پتانوں سے سجایا جاتا ہے۔ اس کے دائیں پیر کے پاس ہی شمعی جل رہی تھی جس میں تازہ گھی ڈالا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگ مانڈوے کے باہر بیڑی پینے نکل رہے تھے پھر دو دو تین تین وہیں سے ہاتھ ہلا کر، فانوس کی روشنی میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

٭

 

پگڈنڈی کے اطراف چاول کے سوکھے ہوئے کھیتوں کے قطعے ہیں جن کو چھوٹے پتھروں اور گاڑھی سرخ مٹی سے الگ کیا گیا ہے، ان میں بے شمار چوہوں کے بل بھی ہیں مگر کئی بلوں پر زہریلے سانپوں کا قبضہ ہے۔ آئے دن ناگ، گھوس، پھرساں، کھڑے ناگ، رات اور نہ معلوم کتنے ہرے، چاکلیٹی اور خوبصورت فیتوں والے سانپوں پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے، اگر سانپ دور ہو۔ ۔ تو خاموش کھڑے رہ جاتے ہیں۔ مارتے نہیں ہیں۔ البتہ گھر کے کسی حصے یا آنگن میں گھس آئے تب اسے مارنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس لئے فانوس کے بغیر رات میں یہاں گھر سے باہر نکلنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ چند برسوں سے سیل پر چلنے والی ٹارچ بھی عام ہو گئی ہے مگر پرانے وضع کے لوگ اب بھی ایک ہاتھ میں فانوس اور دوسرے ہاتھ میں لاٹھی لئے نظر آتے ہیں۔

٭

 

اب دلہے کے گرد صرف عورتیں، لڑکیاں اور بچیاں بچی تھیں۔ گیت کی آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں، بعض عورتیں گفتگو میں محو تھیں۔ دلہے کی آنکھوں میں نیند صاف نظر آ رہی تھی۔ گیت کا شور مدھم ہوا تو اطراف کے جنگل کا احساس گہرا ہوا۔ اطراف کے گھروں کے دیے بجھ گئے تو رات کی ویرانی بھی بولنے لگی۔ عبد العزیز کو ان باتوں کا احساس نہ تھا اس کی نظریں ایک نوخیز لڑکی پر محیط تھیں جو اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی تھی اور پاندان سے سپاری کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لے کر چبا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں روشن اور بال لمبے تھے، سیدھی ناک اور گورے گال جن پر پھانپرے ( کچے کاجو کا عرق جلد پر لگنے سے سیاہ نشان بن جاتے ہیں جو کئی دنوں تک رہتے ہیں۔ اس نشان کو پھانپراں یا پھانپرے کہتے ہیں۔ ) کے نشان پڑ گئے تھے۔ رات کے اس پہر اور گیس بتی کی بڑھتی گھٹتی روشنی میں وہ نشان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبد العزیز کے دل میں گداز اور کیف پیدا کرنے لگے تھے۔ وہ چاہتا تھا اسے دیکھتا رہے۔ کچھ نہ کہے اس سے کبھی نہ ملے، اس سے کبھی بات نہ کرے مگر ساری عمر وہ وہیں رہے، اسی طرح۔ ۔ ۔ اور وہ نشان اسے خوشی دیتا رہے جو خوشی اس پل وہ محسوس کر رہا تھا۔

اس کی نظر لڑکی کے چہرے پر پڑی اور وہیں ٹھہر گئی تھی اس کے دل میں جو سرور پیدا ہوا تھا اس کا تعلق چہرے سے ہی تھا بدن کی اہمیت سے ابھی وہ پوری طرح واقف بھی نہیں تھا۔ حالانکہ یہاں چند مہینوں سے بڑی عورتوں کے حسین جسم کو دیکھتے ہی وہ آنکھیں دوسری طرف کرنے لگ گیا تھا اسے کچھ ہو جاتا تھا جوں ہی اس کی نظر بھری بھری چولی کی اور اٹھتی تھی اس کی آنکھوں میں ارتعاش سا ہوتا تھا اور ایک مقناطیسی طاقت اسے زیر کر دیتی تھی۔ ان لمحوں اس کا جی چاہتا کہ وہ دھودھیے پر جا کر لمبی چھلانگ لگائے اور زیر آب جا کر اپنے اندر محسوس تبدیلی کی الجھن کو سرد کرے۔ دھودھیا گانو کے شمال میں ایک چھوٹا سا آبشار تھا جو بارش کے موسم میں زیادہ رفتار سے بہتا۔ پھر ندی کی صورت میں بہتا جاتا تھا۔ جہاں آبشار گرتا تھا وہاں گہرائی تھی۔ تیراک سارا سارا دن اس میں تیرتے رہتے تھے۔ کوکن کے لڑکے محبت کرنے سے پہلے تیرنا سیکھ لیتے ہیں۔ ارتعاش کے بارے میں وہ سوچتا۔ ۔ ’’ مجھے ہی ایسا لگتا ہے یا سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ وہاں ایسا کیا ہے کہ میری آنکھیں بدن میں کبھی نا محسوس کیا گیا ذائقہ پھیلا دیتی ہیں اور میں لڑکھڑا جاتا ہوں۔ ایک بادل میرے ذہن پر سایہ پھیلا دیتا ہے اور۔ ۔ اور میں خود میں کھو جاتا ہوں۔ ۔ ۔ مجھے جنگل میں موسلادھار بارش میں بھیگنے جیسا مزہ آتا ہے، خاص کر جب گرم پانی کی ایک لکیر میری پتلون سے بہہ پڑتی ہے۔ شاید کسی اور کو میری یہ بات گندی لگے لیکن مجھے تو اس میں مزہ آتا ہے۔ ‘‘

اس کے چہرے کا پھانپرے کا نشان عبد العزیز کی آنکھوں میں پھیل گیا تھا اور اس نشے میں اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کا ہاتھ کھمبے سے سرک کر شمع کی لو سے جا لگا وہ جھٹ سے چونکا اس کی ایک انگلی پر ہلکا سا جلنے کا نشان بن گیا تھا۔ اس کی زبان سے ’’۔ ۔ ۔ ۔ اوووو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ، نکلا، چند عورتوں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرایا اور انگلی کو پشت پر چھپاتے ہوئے اس نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ موٹو کیڑو ہو تو۔ ۔ ۔ ‘‘(بڑا سا کوئی کیڑا تھا۔ ۔ ۔ ۔ )

کوکن چونکہ جنگلوں سے اٹا ہوا ہے اس لئے شام ہوتے ہی روشنی کے گرد طرح طرح کے کیڑے مکوڑے رقص کرنے چلے آتے ہیں۔ بعض جھینگر سے بھی بڑے اور خوبصورت ہوتے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کاٹنے سے گہرا سبز نشان جلد پر بن جاتا ہے اور ارد گرد کا حصہ سوج جاتا ہے درد بھی شدید ہوتا ہے۔ عموماً صبح دیے کے اطراف یہ بڑے اور خوبصورت کیڑے مرے پڑے ہوے ملتے ہیں جنہیں بچے شیشے کی بوتلوں میں بھر لیتے ہیں اور قیلولے کے وقت جب بڑے آرام کر رہے ہوتے ہیں بچے ان کیڑوں کو فخر سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں۔

عبدا لعزیز  دلہے کی طرف بڑھا اور اس کے پیروں کے پاس رکھی ہوئی پان کی تھالی اٹھا لی، جو خالی ہو چکی تھی۔ اٹھتے وقت اس نے اس لڑکی کو قریب سے دیکھا وہ داغ واقعی گہرا تھا۔ وہ اٹھ کر گھر کے اندر گیا وہ داغ اس لڑکی کے گال سے اس کے دیدوں میں منتقل ہو گیا۔

 

{۴}

 

آخری گیت ختم ہوا اور پڑوس کی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ یا پڑوسیوں کے ساتھ اپنے گھروں کی طرف چل پڑیں۔ وہ مہمان جو دور سے آئے تھے گھر کے اندر چلے گئے۔ اس کے والد نے پڑوسی کے مکان میں سبھی مہمانوں کے ٹھہر نے کا انتظام کر رکھا تھا۔ چار پانچ ضعیف لوگ جودوسرے گانَو سے آئے ہوئے تھے وہ عبد العزیز کے ساتھ ہولیے۔ عبد العزیز نے کندھے پر تین چار گوجڑیاں رکھ لیں۔ (ہاتھوں کی سلی ہوئی گودڑیاں اہل کوکن اوڑھنے اور بچھانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کوکنی عورتیں انھیں سینے میں مہارت رکھتی ہیں۔ یہاں کی گوجڑیاں عمدہ ہوتی ہیں ) پڑوس کے مکان کے وٹے دار (دالان) میں اس نے ان کے لئے گو جڑیاں بچھائی۔ بو ڑھوں کی پلکوں پر نیند منجمد تھی وہ فوراً بستر پر لیٹ گئے۔ ، عبد العزیز فانوس کی روشنی میں گھر کی طرف واپس ہو رہا تھا کہ منگیلدار کے باڑھے کے پاس چنواری(بانس کوٹی) کی بھول بھولیوں میں اسے سر سراہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں راستے پر مر کوز رکھیں اور کان آواز کی اور۔ ۔ ۔ سرسراہٹ لمحے بھر میں خاموشی میں بدل گئی اور فوراً بلیّ کی میاؤں میاؤں اس کے کانوں پر پڑی اس نے پھر بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ ابھی وہ دس قدم آگے بڑھا تھا کہ پگڈنڈی سے متصل ہرلے (نالہ) میں فانوس کی روشنی پڑی اور ایک بھورے رنگ کا خرگوش چھلانگ لگا کر اندھیرے میں دوسرے کھیت میں گھس گیا۔ عبد العزیز خاموش کھڑا رہا۔ وہ بچپن سے سنتا آیا تھا کہ اسی طرح گمراہ کر کے چُڑیلیں بچوں کو بھگا لے جاتی ہیں۔ اور پھر انھیں بے ہوش کر کے چنواریوں میں پھینک دیتی ہیں۔ ان پر جادو بھی کرتی ہیں۔

اس کی نظر میں اس کا گھر تھا جہاں اب بھی آنگن میں چند لوگ بیٹھے تھے اور گیس بتی جل رہی تھی وہیں شمعی روشن تھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا شمعی کی روشنی مقدس ہے۔ اس کی لو جہاں تک نظر آتی ہے وہاں تک کسی بد روح کا سحر کام نہیں کرتا ۔ وہ لمبے لمبے قدم بھرتا ہوا آنگن میں پہنچا۔ فانوس کو اس نے دیوار کے پاس رکھا اور گھر میں داخل ہوا۔

پڑی میں اس کی ماں، کچھ رشتہ دار عورتیں اور وہ نو خیز لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ کسی موضوع پر بات چیت ہو رہی تھی۔ وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پہلے وہ اپنی خالہ زاد بہن صادقہ سے بات کرتا  رہا اس کے ہاتھوں کی مہندی کی تعریف کرتا  رہا۔ نو خیز لڑکی آگے بڑھی اور اسے اپنے ہاتھوں کی مہندی بتانے لگی۔ عبد العزیز نے اس کے ہاتھوں پر نکالے گئے پھولوں کو دیکھتے ہوئے اس سے اس کا نام پوچھا۔

عبد العزیز نے اس بار اس کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کیے بغیر یہ جان لیا تھا کہ اس کا نام شریفہ یونس پاؤسکرہے، وہ چپلون سے آئی ہے۔ ان کی عمر میں زیادہ فرق نہ تھا وہ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔

عبد العزیز نے اسے بتایا ہمارے ڈرائینگ ماسڑپاگل ہیں، ان کی داڑھی سفید ہے اور جب وہ ہمیں سزادیتے ہیں تو ہمارے ہاتھوں کی انگلیوں میں پینسل پھنساکر اتنا زور لگاتے ہیں کہ آنسو نکل آتے ہیں۔ اور ہمارے حساب کے سر کو ہم لوگ ’’پوپٹ[طوطا]۔ ۔ ۔ ‘‘پکارتے ہیں۔ پرنسپل صاحب کو ’’ڈیگ ‘‘کہتے ہیں کیوں کہ ان کا پیٹ کسی دیگچی کی طرح باہر نکل آیا ہے۔ وہ بہت ہنستی رہی۔ عبد العزیز بھی ہنستا رہا۔ وہ چاہتا تھا شریفہ رات بھر یوں ہی ہنستی رہے اور وہیں بیٹھا اسے اپنے استادوں کے پاگل پن کے قّصے سناتا رہے۔ اس دوران اس نے اس کے چہرے کی اور ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ وہ جانتا تھا وہ چہراکیسا ہے۔ اس کے گال پر وہ سیاہ پھانپرے کا نشان کیسا ہے اور اگر اس کی نگاہ اس پر پڑے گی تو وہ کہہ کچھ بھی نہ پائے گا۔ اسے کچھ ہو جائے  گا اس کی سانس میں ایک ہلکاسا ارتعاش ہو گا اور اس کا نظام تنفس بگڑ جائے گا۔ وہ زیادہ تر اس کے ہاتھ پر کاڑے گئے پھول کو دیکھتا رہا اور اس سے باتیں کرتا  رہا۔ وہ پھول بھی ویساہی تھاجیسے عام طور پرادیواسیوں کی گوبرسے لیپی گئی گھاس پھوس کی دیواروں پر چونے سے کاڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان جنگلوں میں ادیواسیوں کی بہت ساری بستیاں ہیں جن کی تہذیب محفوظ ہے۔ یہ لوگ عام طور پر کھیتوں میں روزانہ کی اُجرت پر کام کرتے ہیں۔ ان کی عورتیں گھروں میں پانی بھرتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں اور بچوں کو سنبھالتی ہیں۔ مسلمان عورتوں کا رویہ ان کے ساتھ اچھا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ چھوت چھات اس طرح برتی نہیں جاتی جس طرح سے ان کے ہم مذہب لوگ ان کے اپنے گانَووں میں ان کے ساتھ کرتے ہیں۔ باوجود اس کے ایک فاصلہ ضرور درمیان میں رہتا ہے۔ سارےا نسان مساوی تو ہیں مگر یکساں مساوی نہیں ہیں۔ یہ ان کی سوچ ہے۔

٭

 

صبح سب کو سورج کے ساتھ جاگنا تھا۔ (ویسے بھی یہاں سورج اپنی مرضی سے نہیں بلکہ مر غوں کی بانگ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ جنگل سے پرندوں کے جھنڈ اجتماعی راگ آلاپنے لگ جاتے ہیں۔ آنگن سے مویشیوں کا ترانہ اور ڈربوں سے مرغیوں کی فریاد۔ ۔ ۔ ۔ ایک عجیب سماں ہوتا ہے۔ )اس لئے بالآخر عبد العزیز کی ماں نے اسے ڈانٹنے والے لہجے میں کہا؛ ’’چل بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ اب ہم لوگ یہاں سورہے ہیں تو بھی مالے پر جا اور سو۔ ۔ ۔ ۔ وہاں جگہ نہ ہو تو دادر وٹے میں سوجانا۔ ‘‘ شریفہ کا ہاتھ اتنی دیر سے اس کے ہاتھ میں تھا اس بات کا احساس اسے اس وقت ہوا جب ماں کے ٹوکتے ہی وہ جھٹ سے کھڑا ہو گیا اور اس کی مہندی اچانک اس کی انگلیوں کی رگڑ سے بکھر گئی۔ ۔ ۔ ۔ وہ لمحہ بھر کے لئے ششدر رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ شریفہ کی آنکھوں میں مہندی کے نکل جانے سے زیادہ باتوں کے ختم ہونے کا افسوس تھا۔ جسے سننے میں اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔ عبد العزیز کی نظریں اس بار شریفہ سے ملیں اور اسے ایسا لگا اسے جلدی سے بڑا ہو جانا چاہئے۔ اس کے بازو میں طاقت اور چہرے پر مونچھ ہو اور وہ کبھی ہاف پتلون نہ پہنے۔ اس کی شادی ہو اور اس کے ہاتھوں پر گانو کی ساری عورتیں مل کر مہندی لگائیں۔

اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، شریفہ بھی مسکرائی۔ دونوں نہیں جانتے تھے کہ اس مسکراہٹ کا مفہوم کیا ہے۔ وہ پڑی سے نکل کر منچاوٹن میں آیا۔ جہاں ایک کمرہ ہے۔ پاس ہی مالے پر جانے کے لئے لکڑی کی سیڑھی تھی۔ وہ آ کر ٹھہر گیا، اسے ایسا لگا شریفہ کی مسکراہٹ اس کے تعاقب میں ہے۔ اس نے لمحہ بھر کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ پلکیں بند ہوئیں تو اس نے دیکھا وہ چہرہ اب چاند میں بدل گیا ہے۔ جس کی ٹھنڈک میں ایک ابدی سکون ہے۔ وہ آنگن میں آیا تو وہاں بچھائے گئے پالے اٹھا لیے گئے تھے۔ وہاں صرف شمعی جل رہی تھی۔ باہر اندھیرا پھیل گیا تھا۔ اور حشرات کی نغمگی ہر سو بہہ رہی تھی۔ فضا میں جو گرم لہر تحلیل ہو گئی تھی وہ ختم ہوا چاہتی تھی۔

اس نے ماں کے کباٹ سے ایک پرانی گوجڑی نکالی اور مالے کی طرف بڑھا۔ ۔ ۔ مالے کی سیڑھی کے پاس سکینہ لیٹی ہوئی تھی۔ ابھی وہ جاگ رہی تھی۔ سیٹرھی کے پاس چار عورتوں کے سونے کی جگہ تھی مگر وہ اکیلی یہاں سو رہی تھی۔ اس کی بغل میں اس کی پڑوسن کی بچی سورہی تھی جس کی عمر چھ سال تھی۔ عبد العزیز نے اسے سلام کیا۔ مالے کی سیڑھی پار کر کے وہ مالے پر پہنچا۔ ۔ ۔ ۔ ایک کونے میں ایک بتی جل رہی تھی اور دس پندرہ محلے کی عورتیں پہلے ہی وہاں پیر پھیلا چکی تھیں۔ عبد العزیز واپس مڑ گیا۔ ابھی وہ اترا ہی تھا کہ سکینہ نے اس سے پوچھا؛ ’’ کیا ہوا تم واپس آ گئے !‘‘

’’آپا !!اوپر عورتیں پہلے سے سوئی ہوئی ہیں۔ ‘‘ اس نے کہا۔

سکینہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ اس نے کہا؛ ’’ارے عزیز !ادھر بہت جگہ ہے۔ تو یہاں سو سکتا ہے۔ ‘‘اتنا کہتے ہوئے وہ ذرا سرک گئی اور پاس لیٹی بچی کو سیدھا کیا، جو گہری نیند میں تھی۔ چوں کہ بہت جگہ تھی اس لیے عبد العزیز نے اپنی گوجڑی اس چٹائی پر بچھا دی جس پر سکینہ کی گوجڑی تھی۔ دیوار کے ’’بولے ‘‘ میں ایک چھوٹا سا چراغ جل رہا تھا۔ اس کے اوپر دیوار میں ایک روزن تھا جس سے دن میں روشنی اس کمرے میں آتی تھی۔ آج اسی روزن سے چاند کی مدھم شعاع کمرے میں آ رہی تھی۔ ابھی عبد العزیز لیٹا ہی تھا کہ سکینہ نے اس سے کہا۔ ’’باہر سے چاند کی روشنی کمرے میں آ رہی ہے بتی بجھا دو۔ ‘‘اس نے سکینہ کے فرمان کے مطابق بتی بجھا دی اور بستر پر لیٹ گیا۔

 

{۵}

 

سکینہ کی عمر قریب ستائیس سال ہو گی۔ (اس کے والد سلیمان عمرونو سورل سے دو کلو میٹر دور واقع گانو شیرل کے سر پنچ تھے۔ )بڑے گھر کی لڑکی تھی اور جس گھر میں بیاہی گئی تھی وہ بھی ایک متوسط گھرانہ تھا۔ پرکھوں کی بہت زمین تھی۔ اس کے شوہر مجاور حسین شریف آدمی تھے۔ چند برسوں سے گانو کی جماعت کے اہم رکن تھے۔ شادی کو چھ سال ہو گئے تھے مگر سکینہ کی گود اب تک بھری نہ تھی۔ انھیں اس بات کی زیادہ فکر بھی نہ تھی۔ ان کا یقین اپنے رب پر بہت تھا۔ وہ گانو کے ایسے چند لوگوں میں سے تھے جو نمازی تھے اور دوسروں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ بمبئی ان کا آنا جانا بہت ہوتا تھا اور وہیں انھیں ایک مسجد میں نماز کے بعد اس بات کا علم ہوا تھا کہ ایک جماعت ہے جو مسجدوں میں بعد نماز اجتماع کا اہتمام کرتی ہے اور مذہب کی بنیادی باتوں کو عوام الناس تک پہچانے کی کوشش کرتی ہے۔ انھیں یہ بات بے حد بھلی لگی تھی پھر انہوں نے ایک مرتبہ تین دن جماعت میں گزارے۔ ان کا تاثر عقیدت میں بدل گیا۔ ۔ ۔ انھیں علم ہوا کہ تبلیغ جماعت سارے ملک میں متحرک ہے اور مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح کرتی ہے۔ اسی قیام میں انھیں دین کی بہت ساری معلومات ہوئی۔ اپنی غفلت کا اندازہ ہوا تو ان کی آنکھ بھر آئی۔ ان کا دل اس درد سے بھی بھر گیا کہ ’’میرے گانو کے لوگ دین سے کس قدر دور ہیں اور اگر یہ بات مجھ تک پہنچی ہے تو میرا پہلا فرض ہے کہ میں اپنے لوگوں کی آنکھوں سے جاہلیت کا پردہ ہٹاؤں اور انھیں دین حق کے قریب لے آؤں۔ ۔ ، ورنہ اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ ‘‘یہ جذبہ روز بہ روز ان کے دل میں پروان چڑھتا گیا۔ تبلیغ جماعت کی تعلیمات اور اسلامی تحریک کو وہی گانو لے آئے تھے۔ اس کام کے لیے انہوں نے شہر کی اسی مسجد کے امام کی مدد لی، جنہوں نے دس دن کے لیے ایک جماعت کو گانو بھیجا۔ مجاور حسین نے ان کے رہنے کا انتظام اپنے مکان کے خالی کمرے میں کیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد گانو کی مسجد میں امیر جماعت کی ایک تقریر ہوئی۔ ۔ ۔ مگر اس وقت لوگ پوری طرح سے اس بات کے لیے سنجیدہ نہ تھے یہ سلسلہ بہت ہی سست رہا مگر آنے والے برسوں میں اس کی برکت سے ہی معاشرے کا احیا ء قدامت پرستی کی جانب ہونے والا تھا۔

٭٭

 

سکینہ بھی نماز پڑھنے لگی۔ مغرب کی نماز کے بعد مجاورحسین خود تبلیغی نصاب پڑھ کر سناتے تھے۔ اس وقت بہت کم لوگ تھے جنہیں اردو ٹھیک سے پڑھنے آتی تھی۔ البتہ مراٹھی زبان پر لوگوں کو عبور حاصل تھا۔ بلکہ وہ لوگ بھی جو ضلع پریشد کی اسکول سے ساتویں جماعت تک کی تعلیم اردو میں حاصل کر چکے تھے خط و کتابت کے لئے مراٹھی کو ترجیح دیتے تھے۔ اردو کا اس علاقے کی لسانی ترجیحات کے ساتھ میل نہ تھا۔ اردو اس علاقے کے لوگوں کی مادری زبان نہ بن پائی ہے اور نہ ہی مراٹھی کے مزاج کو کم کر پائی ہے۔ اردو ایک تھوپی ہوئی زبان لگتی ہے جسے ذہنی طور پر مفلوج و محکوم لوگوں نے مذہبی جذباتیت کے سبب قبول کیا ہے۔ سکینہ کو اردو سننے سے ہی چڑ تھی۔ اسے ہنسی آتی تھی۔ لیکن مجاور حسین کا دل بہت نرم تھا وہ سکینہ کو ڈانٹتے نہ تھے بلکہ کوکنی میں وضاحت کرتے اور سمجھاتے۔ وہ جانتے تھے مقصود تو معنی ہے زبان تو ذریعہ ہے۔ انہوں نے اردو میں کئی کتابیں پڑھی تھیں۔ ایک شاعری کا انتخاب بھی پڑھا تھا جس میں انہیں وہ سارے اشعار اچھے لگے تھے جن کے نیچے شاعر کے تخلص کے طور پر ’’نا معلوم ‘‘لکھا ہوا تھا۔ مجاور حسین کا گمان تھا ’نامعلوم ‘اردو کے بہت ہی مشہور شاعر ہوں گے کیونکہ اس انتخاب میں سب سے زیادہ اشعار انہی کے تھے۔ وہ اردو کی شیرینی کے قائل تھے اور کوشش کرتے تھے، ٹھہر ٹھہر کر صاف اردو لہجے میں بات کریں۔ جب کبھی سکینہ ان کی اردو کا مذاق اڑاتی وہ مسکراتے اور دل میں کہتے۔ ’’۔ گدھا کیا جانے زعفران کی قدر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

سکینہ اپنے والدین کی اکلوتی لڑکی تھی اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی کی عادی تھی۔ ساتویں جماعت تک مراٹھی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد گانو کی ایک عورت سے اس نے قرآن پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ وہ ہر جماعت میں اول نمبر سے کامیاب ہوئی تھی، اس سال بھی جب ملیریا کی وجہ سے اس کے دو پرچے رہ گئے تھے۔ اسکول ماسٹر نے بعد میں اس کا امتحان الگ سے لیا۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ وہ پرچے ہیڈماسٹر نے خود ہی لکھے تھے۔ اسی اسکول کے ایک معلم کا دعوی ہے کہ سکینہ کے تمام پرچے سابق ہیڈ ماسٹر ہی لکھا کرتے تھے۔ اور اس کے عوض سکینہ کے والد نے انھیں دو آم کے پیڑ تحفے کے طور پر دیئے تھے۔ وہ چاہتے تھے ان کی بیٹی ہمیشہ سب سے آگے رہے۔

سکینہ کے والد اس کی تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن سکینڈری اسکول دس بارہ کلو میٹر دور تھا اور اپنی نور نظر کو وہ روزانہ اتنی تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے۔ پھر شاید ان کے دل میں یہ بھی ڈر تھا کہ ’’ اتنی دور جا کر اگر وہ اوّل نمبر سے پاس نہ ہوئی تو لوگ کیا سوچیں گے ؟‘‘

’’لوگ کیا سوچیں گے۔ ۔ ۔ ‘‘اس بات کا ڈر یہاں مردوں کو بہت رہتا ہے مگر عورتیں اس خیال سے خود کو آزاد محسوس کرتی ہیں۔ سکینہ ایسی ہی آزاد طبیعت لڑکی تھی۔ سکینہ گھر کے ملازم فخرالدین ڈانگے کو بہت پسند کرتی تھی۔ ڈانگے چو دہ سال کا تھا جب سکینہ پیدا ہوئی تھی۔ وہ اسے اٹھائے کندھوں پر سارے گانو میں گھوما کرتا۔ سکینہ کو نہلاتا، اس کے کپڑے بدلتا۔ پاؤڈر لگاتا اور پھر گوجوڑلے پر اسے سلاتا اور گرمی کے دنوں میں اسے پنکھا دیتا۔ اسے اسکول لے جانے اور لانے کی ذمہ داری اسی کی تھی اور جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی فخرالدین سےا س کا لگاؤ بھی بڑھتا گیا۔

جب فخرالدین کی شادی ہوئی اس وقت وہ آٹھ سال کی ہو چکی تھی۔ اس کی بیوی کو عجیب نظروں سے اس نے دیکھا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی فخرالدین کسی اور کے ساتھ وقت گزارے۔ شادی کے بعد ہفتے بھر فخرالدین چھٹی پر رہا تو وہ مضطرب ہو گئی۔ والد سے ضد کرنے لگی کہ فخرالدین کے گھر چلیں۔ بالآخر والد کے ساتھ فخرالدین کے گھر پہنچی اور اس کے سامنے روٹھ کر بیٹھ گئی۔ فخرالدین نے اسے بہت منایا تب اس نے اپنی جیب سے ایک شیشے کی بوتل نکالی۔ بوتل میں ایک بہت ہی خوبصورت تتلی تھی، سرمئی سرخ اور جامنی رنگ کے امتزاج کا حسین نمونہ… ’’مردہ تتلی ‘‘ …فخرالدین نے حیرت سے دیکھا اور کہا۔ ’’یہ کیا …بیٹا تم نے تو اس ننھی جان کو مار دیا۔ ‘‘

’’یہ آپ کے لیے ہے۔ ‘‘

’’مردہ تتلی …‘‘

’’ہاں …اس میں میرا پیغام ہے۔ ‘‘

’’کیا ہے ‘‘ سکینہ کے والد نے حیرت سے پوچھا۔

’’اگر فخرو چچا کل سے کام پر نہیں آئیں گے تو …‘‘

’’تو کیا؟‘‘فخرالدین نے سوال کیا۔

’’میں بھی اس تتلی کی طرح مردہ ہو جاؤں گی …‘‘

فخرالدین نے سکینہ کے والد کی نظروں میں جھانکا اور کہا … ’’میری بیٹی گندی باتیں نہیں سوچتے …‘‘

’’پھر اتنے دن سے آپ آئے کیوں نہیں ؟‘‘

’’ارے بیٹا میری شادی ہوئی ہے نا۔ !کچھ رشتے داروں کے یہاں دعوت تھی۔ ہاں …کل سے میں آ رہا ہوں۔ تو بے فکر ہو جا۔ ‘‘

وہ مسکرائی اور اپنے والد کی جا نب دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’بابا شادی کرنے کے بعد رشتے دار دعوت دیتے ہیں۔ ؟‘‘

سکینہ کے والد نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’ہاں بیٹا …سب کو ملتی ہے۔ جب تیری ہو گی تو تجھے بھی ملے گی…خوش!!‘‘

’’ٹھیک ہے …کل سے آنا ہاں …‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر یہاں وہاں کی باتیں ہوئیں۔ فخرالدین ڈانگے کوئی غیر نہ تھا۔ قریبی گانَو کا ہی رہنے والا تھا۔ غریب گھر کا انتہائی محنتی اور ایمان دار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں سکینہ کے لیے اب ایسی ہی شفقت تھی جیسی اپنی بیٹی سے ہوتی ہے۔

 

{۶}

 

سکینہ جب سولہو یں سال کی دہلیز پر پہنچی تو اس کے دل میں عجیب سی بے قراری ہوا کرنے لگی۔ سکینہ کی حویلی کے اطراف بہت بڑا کمپاؤنڈ تھا۔ گھر میں یکسوئی رہتی تھی اور اکیلا پن اسے سینے پر رکھے ہوئے بھاری پتھر کی طرح جان پڑتا۔ کمپاؤنڈ میں آم کے کئی پیڑ تھے۔ اطراف کی زمین میں چاول کی فصل بھی ہوتی تھی۔ تین باڑھے تھے جن میں گائے، بکریاں اور جلانے والی لکڑیاں رکھی جاتی تھیں۔ مکان کے پچھواڑے بیگن، بھنڈی اور توسے ( ککڑیوں کی ایک قسم ہے یہ عام ککڑیوں سے بڑی ہوتی ہیں ) اگائے جاتے تھے۔

سکینہ کی ماں کی کمر میں اکثر درد رہتا تھا اس لیے وہ بستر سے کم اٹھا کرتی۔ زیادہ باتیں بھی نہیں کرتی تھی۔ بالآخر سکینہ فخرالدین کے پاس جا کر اس کے کام میں اس کا ہاتھ بٹاتی اور اس سے باتیں کیا کرتی۔ وہ سارے گانو اور آس پاس کے گانوؤں کی خبریں اسے سناتا رہتا۔ رات ریڈیو پر سنی گئی خبریں اسے سناتا۔ دلّی، کلکتہ، بمبئی، حیدرآباد میں کیا ہوا۔ ۔ ۔ کہاں زلزلہ آیا، کہاں پلیگ پھیلا، کہاں طوفان نے تباہی مچائی، کس لیڈر کا قتل ہوا، حکومت نے غریبوں کے لیے کیا کیا اعلانات کئے۔ ۔ ۔ ساری کی ساری باتیں وہ سکینہ کو سناتا رہتا۔ ۔ ۔ اور سکینہ اس سے پوچھتی یہ سب مقامات کہاں ہیں۔ ۔ ۔ وہاں کے لوگ کیسے ہیں۔ ۔ ۔ کیا سب جگہ ایک جیسے انسان ہیں یا ان کی شکلیں الگ ہیں۔ فخرالدین بہت ہنستا۔ سکینہ کی با توں میں معصومیت کی ایک روشنی تھی جس میں فخرالدین کی زندگی اسے زیادہ قابل برداشت لگنے لگی تھی…

یہاں کچھ مہینوں سے سکینہ کے دل کی بے قراری میں ایک طرح کی شدت آ گئی تھی۔ اس کے بدن کی تبدیلیوں نے اس کے اندر ایک عجیب طرح کی عدم تشفی بھر دی تھی۔ اسے ایسالگتا اس کے اندر کوئی شئے راستا ڈھونڈتی ہے۔ اس کے اندر تتلیوں کے رنگ ہیں جو باہر آنا چاہتے ہیں۔ وہ زمین ہے جس کی اندرونی ندیوں میں طوفان اُٹھتے ہیں۔ زلزلے اس کی رگوں میں آتشی سیال پھیلا دیتے ہیں۔ من کا سوناپن ایک پلیگ ہے جو اس کی تار نفس کی میں تشنج اور کھینچا ؤ پیدا کرتا۔ وہ تکیے کو اپنی بانہوں میں بھینچ کر آنکھیں موند لیتی، تو تکیہ ان دیکھے سایوں میں بدل جا تا۔ وہ گو جڑی آنکھوں پر  اوڑھ کر اندھیرے میں نیند تلاش کرتی ہے تو سائے رنگین دائروں میں بدل جاتے اور اس کے گرد رقص کرنے لگ جاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ رنگین سایہ دار دائرے برسات کی راتوں میں بستروں میں گھس آنے والے خوبصورت کیڑوں کی طرح اس کے جسم پر رینگنے لگ جا تے۔ اس کی بند آنکھوں پر دستک دیتے۔ جب وہ آنکھیں کھولتی تو گوجڑی کے اندر کا اندھیرا ایک رنگین شبستان کی طرح جگمگاتا۔ وہ خود سے پوچھتی۔  ’’ وہ رنگ کب نظر آئے گا جو راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ‘‘

سکینہ بدن کی ان تبدیلیوں کو ابھی پوری طرح سمجھ نہ پائی تھی۔ اسے ایسالگتا تھا وہ بیمار ہے، اس کی دماغی حا لت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ جب کبھی کوئی اخبار یا مراٹھی رسالے میں خوب روٗ نوجوان کی تصویریں دیکھتی تو قینچی سے کتر کر پیٹی میں محفوظ کر لیتی اور جب گھر میں کوئی نہ ہوتا تو نکال کر ان کے خدوخال دیکھتی رہتی۔ اس طرح اس کی پیٹی میں کل اٹھارہ تصویر جمع ہو گئی تھیں جن میں چار فٹ بال کھلاڑی، دو کرکٹ کھلاڑی، تین ہندی فلموں کے اداکار، دو اسمگلر، ایک ڈاکٹر، اور ایک باڈی بطور خاص تھے۔ وہ سب کو ایک لائن میں قرینے سے رکھتی اور اوندھے منہ لیٹ کر حسرت و یاس سے انھیں دیکھا کرتی وہ سب بھی اس سے باتیں کیا کرتے تھے۔ سب اس کے ہونٹوں کو کوکم(ایک رس دار پھل جو ٹماٹر کی طرح نظر آتا ہے۔ بہت کھٹا ہوتا ہے، اہل کوکن اسے سوکھا کر اس کا استعمال سالن میں کھٹاس کے لیے کرتے ہیں۔ )اور بالوں کو کالے کالے ریشمی دھاگوں سے تشبیہہ دیتے۔ اس کے پاس ایک بہت خوبصورت گڑیا ہوا کرتی تھی جس کے کالے کالے بال بے حد خوبصورت تھے۔ گا نَو کی کسی لڑکی کے پاس اتنے چمک دار بالوں والی گڑیا نہ تھی بلکہ فخرالدین نے تو اس سے ایک بار یہ بھی کہا تھا: ’’یہ گڑیا دنیا کی سب سے خوبصورت گڑیا ہے۔‘‘ وہ اس سے کہتے کہ وہ اس گڑیا سے بھی خوبصورت ہے۔

وہ ان کی تعریف سے خوش ہوتی اور مسکراتی پھر انھیں اپنے والد کے جنگلوں، کھیتوں اور آم کے باغات کے بارے میں بتاتی۔ وہ انھیں اس کے مکان کے عقب سے بہنے والی ندی کے بارے میں بتاتی۔ وہ اس سے وعدہ کرنے لگے تھے کے جلدی ہی وہ اس سے ملنے آئیں گے۔ حالانکہ ابھی اس دور دراز گانَو میں سڑکیں سرُخ مٹی کا پلندہ تھیں۔ اور پہاڑی ڈھلوانوں کے موڑ بہت ہی خطر ناک تھے، بمبئی سے صرف چوبیس گھنٹے میں ایک ایس۔ ٹی آتی تھی۔ بہت کم لوگوں کے پاس ریڈیو تھے۔ بجلی کے صرف کھمبے بچے تھے جن پر کوّوں نے اپنے گھر بنا لیے تھے بعض جنگلی بیلوں نے انھیں یوں لپیٹ لیا تھا کہ دور سے دیکھنے پر لگتا کوئی پیڑ ہے۔ وہ لوگ جو بمبئی ہو آئے تھے صرف انھیں علم تھا : ایک ڈبہ ہے جس میں انسانوں کی تصویریں بولتی ہیں اور رقص بھی کرتی ہیں جسے ٹیلی ویژن کہتے ہیں۔ ۔ ۔ جب وہ یہ بات گانَو کے بوڑھوں کو بتاتے تو وہ ہنستے رہتے۔ ۔ ۔ انھیں ایسا لگتا ان کو بد ھوسمجھ کر ان کے ساتھ شرارت کی جا رہی ہے۔ ایسے بوڑھے بھی کھل کھلا کر ہنستے جن کے دانتوں نے مدّت ہوئی ان سے بے وفائی کی تھی۔ ۔ ۔

شاید نا ہموار راستوں کے سبب وہ اس کے گھر پہنچنے سے قاصر تھے مگر خوابوں کی شاہراہ تو کھلی تھی۔ اس کے دیدار کے لیے اس کے خوابوں میں جھانکنے لگے۔ لمبی تاریک راتوں میں فانوس کی لو گل ہوتی اور اس کا کمرہ طلسمی نورسے بھر جا تا۔ تب ہاتھوں میں مور کے پنکھ، چمپا کے گجرے، گلاب کی کلیاں، کا جو کی بنی ہوئی چکیاں یا ململ کے کپڑے لیے ان میں سے کوئی نہ کوئی اس سے ملاقات کے لیے آ جاتا۔ وہ خوشی سے سورج مکھی بن جاتی اور اس کے گرد گردش کرنے لگ جاتی وہ اس کے نرم و نازک ہا تھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور اس سے باتیں کرتا  رہتا۔ ۔ ۔ اس کی ملائم انگلیاں چاندی کے روشن رنگ میں بدل جاتیں اور وہ سورج مکھی سے چھوئی موئی میں۔ ۔ ۔ کہیں اس کی روح میں ایک محور تھا جس میں چھوئی موئی کی حیا سمٹ کر خوشبو میں تبدیل ہو جاتی اور مُشک کی ایک لہر اسے اپنے اطراف پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ صدیوں تک اس مہک کے راز کا تعاقب کرتی مگر سوائے حیرانی کے اس کے ہاتھ کچھ نہ لگتا۔ ایسی شب ایک ہزار صدیوں سے طویل ہوتی اور اس نا قابل پیمائش رات میں بھی وہ اپنی ذات کی انتہا کو چھو نہ پاتی۔ صبح جب ماں یا والداسے نیند سے بیدار کرتے تو اس کی آنکھوں کے غلاف میں اٹکے ہوئے گلابی پیلے اور نیلے رنگ آہستگی سے تحلیل ہو جا تے۔ وہ آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوتی اور اپنے چہرے کو آئینے میں ٹٹول کر دیکھتی اسے آئینے میں وہ لمس نظر آتے جو رات کے خواب  میں اسے تحفے میں ملتے۔

وہ نہانے کے بعد جب آنگن میں کھڑے رہ کر اپنے بال جھٹکتی تب اسے یوں لگتا اب بھی اس کی زلفوں میں چمپا کے گجرے یا گلاب کی تازہ کلیوں کی خوشبو ہے۔ ان خوابوں نے بعض اوقات اسے لّذت کے ایسے بادلوں کی بھی سیر کرائی تھی جس کے سبب اس نے اپنے بدن کے احساس اور حّدت سے لطف اٹھایا تھا۔ ان خوابوں نے اس پر ایک راز منکشف کیا۔ ۔ ۔ کہ وہ تنہا ہے۔

وہ اپنی ماں کے ساتھ سورل کسی رشتے دار کی شادی میں گئی تھی اور وہاں مجاور حسین کی والدہ کی نظر اس پر پڑی تھی۔ مذاق مذاق میں بات آگے بڑی اور جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے لیے دونوں گھرانے راضی ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عبد العزیزبستر پر دراز ہوا۔ کمرے میں گہرا اندھیرا تھا۔ اور اس کی آنکھوں میں شریفہ کی مسکراہٹ۔ نیند کے بادل اس کے دیدوں میں سرایت کرنے کے لیے بار بار دستک دے رہے۔ دوسری طرف شریفہ کے چہرے کے تمام خطوط کو ذہن میں اُجاگر کرنے کے لیے وہ ایک کشمکش سے گزر رہا تھا۔ یوں نہ تھا کہ ایسا پہلی بار اس کے ساتھ ہوا تھا۔ یہاں کئی مہینوں اس کے دل کے تار بڑے مقناطیسی ہو گئے تھے۔ جب کوئی خوبصورت لڑکی یا نوجوان عورت اس کے قریب سے گزرتی اسے کر نٹ سا لگ جاتا۔ وہ خاموش ہو جاتا اور اس کے بدن میں ہزار رنگ ایک دوسرے میں مدغم ہو تے۔ بہت پُر سکون اور پر فریب موسیقی کا ایک ٹکڑا اس کی بائیں پسلی سے بہہ کر اس کے ناف میں آ کر ڈوب جا تا۔ اس کا ذہن ایک پر کیف جھیل میں بدل جاتا جسے کہرا کی تہوں نے گھیر رکھا ہو… اس پوری کیفیت میں ایک راگ تھا، ایک نشہ تھا۔ یہ نشہ ہمیشہ اسے ارد گرد کے شور سے بے بہرہ کر دیتا۔

ان دنوں اکثر اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ خود کو اپنی نگاہ سے دیکھے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا اور الماری کے شیشے میں اپنے آپ کو بہ غور دیکھا کیا۔ اب اس کی پنڈلیوں میں گولائی، بازوں میں مچھلیاں نکلنے لگی تھیں۔ اس کی چھاتی پر ہلکے ہلکے بال پھیلنے لگے تھے۔ اس کا چہرہ بدل رہا تھا۔ آواز میں خراش پیدا ہوئی تھی، یہ خراش کبھی کبھی بھاری مردانہ آواز میں بدل جا تی۔ وہ چاہتا تھا اس کی آواز میں تحکمانہ رنگ نظر آئے۔ جس طرح اس کے والد کی آواز میں تھا۔ اس کے ہونٹ پتلے، نرم اور شر بتی رنگ کے تھے۔ ان کے اوپر بالوں کی ریشمی پرت صاف دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ چاہتا تھا یہ ریشم جھٹ سے مونچھوں میں بدل جائے۔

وہ جب کبھی خود کو دیکھتا۔ دیکھتا ہی رہ جا تا۔ خود کو آپ مختلف زاویوں سے دیکھتا۔ خوش ہو تا۔ وہ روشنی کی شعاعوں میں خود کو دیکھتا۔ دیے کی طلسمی روشنی میں دیکھتا۔ نیم اندھیرے میں دیکھتا۔ وہ اپنے بدن کو چھوتا۔ اس کا اپنا لمس اس کے رگ و پے میں پھیلے مقناطیسی تاروں کو برقی روؤں سے بھر دیتا۔ اس کی آنکھوں میں ہلکا اندھیر چھا جا تا۔ کمرے میں اجالا پھیل جا تا۔ اس کا عکس آئینے میں لہراتا اور ایک موج آئینے کی سطح سے بہتے بہتے ابتدا ئی زمانے تک چلی جا تی۔ وہ زمانہ جب انسان اپنے بدن کے اسرار سے پہلی بار واقف ہوا تھا۔

 

{۲}

 

رات بہت آہستہ صبح کی طرف سفر کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شریفہ کے چہرے کے نقوش مدھم پڑنے لگے اور نیند کا نشہ پلکوں کو بھا ری کرنے لگا تھا۔ اس نے کروٹ بدلی تو دیکھا۔ ۔ ۔ سکینہ کی نظریں اس کی جانب مرکوز تھیں۔ اس کی زبان سے کوئی حرف ادانہ ہوا۔ وہ ان آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ رات کے اس پہر ہوا میں کچھ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی اور باہر شاید سبھی سو گئے تھے۔ ساری آواز یں ڈوب گئی تھیں۔ اس ایکانت میں اسے اپنے دل کی دھڑکن گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح سنائی دے رہی تھی۔

’’ٹھنڈ لگ رہی ہے کیا؟‘‘

اس نے اقرار میں پلکیں جھپکائیں۔

سکینہ نے انتہائی آہستگی سے اپنی گوجڑی کو اوپر کھینچا اور اس کا سراعبد العزیز کے پیروں پر سر کا دیا۔ پھر پیار سے اس کے گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اسے بہت اچھا لگا، یوں اس کی خالہ اس کے گالوں کو چھوکر اس کا بوسہ لیا کرتی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور چند ہی لمحوں میں نیند کی پریوں نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹنا شروع کر دیا۔ اس کے دیدوں میں نیند کا خمار پھیلنے لگا۔ پھر وہ خوابوں کی سیر گاہ میں تھا۔ وہ اس دنیا میں نہ تھا جس دنیا میں خواب نہیں ہوتے ہیں۔

خدا ہی جانے رات کی رفتار کتنی تھی اور اندھیرا کتنا گہرا تھا۔

اس کے معصوم چہرے پر ایک کشش تھی اور یہی سکینہ کو مجبور کئے تھی۔ وہ اس کے چہرے کے ایک ایک خط کو بہت قریب سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سیدھی ناک اور کشادہ پیشانی میں مردانہ وجاہت کے جوہر تھے۔ اس کی ناک اور ہونٹ کے درمیان کا حصّہ سکینہ کے دل کو چھو رہا تھا۔ اوپری ہونٹ کمان کی صورت ابھر اہوا اور واضح تھا۔ اس کی جلد گندمی چمک دار تھی۔ بال سیاہ ریشمی تھے۔

سکینہ اس کو دیکھ رہی تھی اور وہ صرف اس کو نہیں دیکھ رہی تھی اس کے چہرے میں سکینہ کو کئی چہرے نظر آ رہے تھے۔ وہ کو ئی دیو ما لا ئی آئینہ تھا جس میں اس کے من میں محفوظ چہرے ایک ایک کر کے اُجاگر ہو رہے تھے اور ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے، ایک کو لاج خلق کر رہے تھے۔ سکینہ اس کو لاج کو بہت قریب سے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس لیے وہ اس کی جانب سرک گئی ۔ اب اس کی نیم گرم سانس کی آنچ کو وہ محسوس کر سکتی تھی۔ اس کی پلکیں لمبی تھیں اور پیشانی پر ایک ہلکا سا نشان تھا۔ شاید یہ کسی زخم کا نشان تھا۔ سکینہ اس نشان کو لمحوں دیکھتی رہی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ ایسا ہی ایک نشان اس کے دل پر بھی ہے، ۔ جسے کوئی نہیں جانتا۔ جسے مجاور حسین نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اور وہ اپنی زبان سے اس کا تذکرہ کرنے کے خلاف بھی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ نشان اسے ہی نظر آتا ہے جس کے دل میں آپ کے لئے محبت ہو۔

 

{۳}

 

محبت تو وہ پہلی رات سے ہی مجا ور حسین سے کرنے لگی تھی۔ ۔ ۔ اس کے باوجود کبھی کبھار مجاور حسین کے چہرے پر دوسرے چہرے کی شباہت اسے نظر آتی۔ خاص کر وہ چہرے جنھیں اس نے رسالوں اور اخباروں سے کاٹ کر اپنی پیٹی میں محفوظ کر رکھا تھا۔ وہ پیٹی تو اس کے والد ین کے گھر ہی رہی مگر وہ چہرے اب اس کے دل دماغ میں اس طرح گہرا گئے ہیں جیسے پتھر پر کوئی نقش۔

٭

 

محبت کا شجر جو اس نے پہلی رات کو لگا یا تھا اب رفتہ رفتہ سوکھنے لگ گیا تھا۔ عورت مرد کی زمین ہے اور اگر مرد اسے جوت کر زرخیزی عطا نہ کرے۔ اسے سر سبز لہراتے کھیت میں نہ تبدیل کرے تو وہ بنجر صحرا میں بدل جاتی ہے۔ سکینہ خود کو ریگستان میں بدلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ اور آس پاس جتنی لڑکیوں کی شادیاں ہوئیں تھیں اب وہ دو تین بچّوں کی ماں بن چکی تھیں۔ بچّے ان کی دولت تھے۔ اور یہ سرمایہ سکینہ کے والد کی تمام جائداد سے زیادہ قیمتی اور انمول تھا۔ اس کی ایک سہیلی نے ایک بار اسے یہ باور بھی کر ایا تھا۔ جب سکینہ نے اس کے بیٹے کو گود میں لیتے ہوئے کہا تھا:ارے !اب تو گھر کا خرچ بڑھ گیا ہو گا؟‘‘

’’سکینہ!‘‘اس کی سہیلی نے جواب میں کہا۔ ۔ ۔ ’’بچوں سے بڑی دولت دنیا میں کیا ہے، ان کے لئے جان بھی قربان کی جا سکتی ہے۔ ‘‘

سکینہ نے کچھ نہ کہا تھا۔ ۔ مگر گھر آ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ اسے پہلی بار اس بات کا احساس ہوا تھا کہ وہ ادھوری ہے۔ اس کے والدین کی جس دولت پر اسے غرور تھا۔ وہ ہیچ ہے۔ عورت کی تکمیل اس کے ماں بننے میں ہے۔ وہ چاہتی تھی یہ بات خود اس کے شوہر اس سے کر یں اور کسیا چھے حکیم یا وید سے کوئی دوا لے آئیں۔ ۔ ۔ گانَو کے امام صاحب سے اچھّی اچھّی آیتوں کا دم کیا ہوا پانی لے آئیں۔ اگر اس پر کسی نے کوئی ٹونا کیا ہے تو اس کا توڑ نکالیں۔ غوث پاک کی درگاہ پر جا کر جو، گانَوسے ۲۵ کلو میٹر دور ہے۔ منّت مانگ آئیں۔ غریب بچوں کو دس روز کھانا کھلا کر گھر سے نحوست کو دور کر یں۔ وہ چاہتی تھی کسی طرح سے ماں بن جائے۔ غالباً دو بار اس نے اشارۃً کہنا چاہا۔ مجاور حسین کا جواب تھا۔ اللہ کی دولت ہے۔ وہ جب چاہے گا عطا کرے گا۔

پھر سکینہ نے اس موضوع پر بات کرنا اپنی ہتک سمجھا۔ ہر ماہ جب وہ گھنے جنگلوں میں بسے اس گانَو سے اوپر آسمان میں روشن پورے چاند کو دیکھتی تو اس کی آنکھیں بھر آتیں۔ ۔ ۔ موری میں کپڑا بدلتے ہوئے اس کی روح پر محرومی کے گہن لگ جا تے۔ وہ اپنے بدن کی قید سے نکل کر کہیں دور بہہ جا نے کا ارادہ کر تی۔ پورے چاند کی راتیں اسے صحرا کی نا آسودگی لگنے لگی تھیں۔ دیمک اس کی روح کو چاٹنے لگی تھی، جس کے سبب وہ اندر ہی اندر خود سے بے ربط ہونے لگی تھی۔ اسی لیے جب مجاور حسین نے گھر میں تبلیغی نصاب کی تعلیم شروع کی تو ان کی باتوں میں اس کا دل نہ لگتا تھا۔ وہ ایسے خدا سے روٹھ گئی تھی جو اس کی کو کھ کا دشمن تھا۔ مجاور حسین نے اسے ابراہیم ٌ کی زندگی کے واقعات سنائے، تو وہ اکیلے میں جا کر بہت ہنستی رہی۔ اسے یقین ہی نہ آیا تھا کہ واقعی انھیں اس عمر میں ا للہ نے اولاد سے سر فراز کیا ہو گا۔ لیکن جب اس نے مریمؐ کی زندگی کے واقعات سنُے، تو وہ سرداگئی۔ اسے عیسیؑ کی کرشماتی ولادت پر حیرانی ہوئی۔ لیکن۔ ۔ ۔ اس واقعے سے وہ اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے یہ مان ہی لیا کہ اللہ کی مرضی ہر بات میں شامل ہوتی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو اس دولت سے نوازتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو چاند کو دو حصّوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ پتھر کے پہاڑوں کو سونے میں بدل سکتا ہے۔ گم راہ کو صراط مستقیم پر لا سکتا ہے۔

مریمؑ کی زندگی کو اپنے طور پر تصور کر کے وہ اس رات بہت روئی تھی۔ اپنے باطن کی فصیل میں مقید وہ مریم سے محبت کرنے لگ گئی تھی۔ جانے عدم تاریخیت کے وہ کیا اسرار تھے جسے بے دینی اور لا علمی کے سبب وہ سمجھنے کی حماقت کر رہی تھی۔ وہ مجاور حسین سے مریم ؑ کے بارے میں اور بھی جاننا چاہتی تھی مگر جس قدر وہ بیچارے جانتے تھے۔ اسے بتا چکے تھے۔ اس معلومات کی بنیاد پر اس نے مریمؑ کی ایک چھبی اپنے ذہن میں بنائی تھی۔ جس کا عکس اس کے دل کے ایک کونے میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا تھا۔ کئی سال بعد جب گانَو میں پہلا ٹیلی ویژن آیا اور  ایک روز جب وہ اس پر ہندوستانی چرچ کے بارے میں ایک فلم دیکھ رہی تھی تب کسی نے بتایا۔

’’دیکھو وہ ہیں مریمؑ…عیسائیوں کے مطابق۔ لیکن اپنے مذہب میں تصویر یں بنانا حرام ہے۔ ‘‘

وہ اس مجسمے کو دیکھتی رہ گئی…وہ چاہتی تھی وہ فلم کبھی ختم نہ ہو …اور وہ صدیوں تک اس مجسمے کو دیکھتی رہے۔ یہاں تک کے ساری کائنات فنا ہو جائے …صرف مریمؑ کا مجسمہ باقی رہے …اس روز وہ بہت شاداں تھی۔ کیوں کہ اس کے من میں مریمؑ کا جو نقش تھا اتفا قاً ٹیلی ویژن پر بتائے گئے مجسمے سے ہو بہ ہو ملتاجلتا تھا۔

 

{۴}

 

عبد العزیز کی آنکھ کے کوا ڑ اندھیرے میں اس وقت کھلے جب اسے لگا کوئی شئے اس کی چھاتی پر رینگ رہی ہے۔ کھلی آنکھوں کے باوجوداسے کچھ نہ دکھائی دیا۔ اسے احساس ہوا کہ گوجڑی اس کے پورے بدن پر ہے۔ اچانک بیداری سے، لمحے بھر کے لئے اس کا ذہن، نیم تاریک سیال میں بدلا ہوا تھا۔ اسے لگا اس کی چھاتی پر جھینگر یا کوئی دوسرا کیڑا تو نہیں رینگ رہا ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں فطری جنبش ہوئی لیکن جھٹ سے دل نے اسے روک لیا۔ اس کی انگلیاں چھوئی موئی کی طرح سمٹ گئیں اور ذہن کی نیم تاریکی میں نیلی روشنی کی لہر یں رواں ہوئیں۔ اس نے پلکوں کو بند کر لیا آنکھ کے رقبے میں ایک آئینہ روشن ہوا۔ جس میں وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ در حقیقت اس کی چھاتی پر سکینہ کی مخروطی انگلیاں ہیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کہیں ایسا تو نہ تھا کہ سکینہ کی آنکھ لگ گئی تھی اور نیند میں اس کا ہاتھ اس کی چھاتی پر پڑ گیا تھا؟اگر یوں ہوا تھا تو اس کے پورے بدن پر گوجڑی کیسے پھیل گئی؟کہیں سکینہ نے یہ تو نہیں سوچاکہ اسے ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ ویسے عام طور پر رات کے آخری پہروں میں اسے ٹھنڈ لگتی تھی۔ مگر آج کام زیادہ کرنے سے وہ اتنا تھک گیا تھا کہ ٹھنڈ لگنے کا سوال ہی نہ تھا۔ وہ حیران تھا۔ اس کا ذہن حیرانی کے سبب بہت تیزی سے خیالات کے بے شمار بھنور اس کے دل میں پیدا کر رہا تھا۔ خیالات کی رفتار کے ساتھ ابھی اس نے ہم آہنگی پیدا نہ کی تھی کہ اس نے محسوس کیا۔ ۔ ۔ رفتہ رفتہ ان مخروتی انگلیوں کا لمس اس کی گردن کے پاس سے ہوتا ہوا اس کے گالوں پر پھیلا۔ اس کی بند پلکوں کو ٹٹول کر وہ اس کے ہونٹوں کی لکیروں کو چھوتا رہا۔ ہو نٹوں کی لکیروں کے تار اس کے سینے سے ملے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو پریشان جانا۔ ۔ ۔ دل کے اس ارتعاش سے وہ واقف تھا۔ یہ ایسا ہی اثر تھا جیسا اس پر اس وقت ہوتا تھا جب گانَو کے کنویں پر ڈول کھینچتی ہوئی نوجوان لڑکیوں کے جھُکے ہوئے جسم کو دیکھ کر اسے ہوتا تھا۔ ساڑی اور بلاؤز کے درمیان کے حصّے کو جب وہ یوں بھیگے کپڑوں میں دیکھتا تو آس پاس کا سارا ماحول شاداب لگنے لگتا۔ کپڑے دھوتے دھوتے جب کوئی لڑکی یا عورت یکا یک اٹھ کر ڈول کنویں میں پھینکتی اور جھک کر کھینچ رہی ہوتی، اس سمئے اگر ساڑی بدن سے چپکی ہوئی ہوتی تب ایک خم سادرمیان میں پڑ جا تا۔ جسے دیکھ کر اسے بے حد خوشی ہوتی۔ شروع شروع میں وہ نظریں چھپا کر یہاں وہاں دیکھنے کے بہانے جھٹ سے ایک نظر ہی اُچک پاتا تھا۔ پھر یہ نشہ۔ ۔ ۔ اُس میں گہرائی تک اتر گیا اور اس کے دیدے اس منظر کے متلاشی ہو گئے۔ یہاں چند مہینوں سے تو اس میں اس کیفیت کو دیکھنے کا جنوں سا پیدا ہو گیا تھا۔ اسی لئے تو وہ کسی نہ کسی بہانے کنویں پر چلا جا تا۔ بات بے بات، ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر بڑی عورتوں سے باتیں کرتا  رہتا۔ کسی کو شبہ تک نہ ہو تا۔ اس کے دل میں کئی رنگ جاگ جاتے اور ایک گرم لہر اس کے اندر گردش کرنے لگ جا تی۔ ۔ ۔ یہ وہ گرم لہر تو نہ تھی جس کا ذکر اس کی ٹیچر نے ایک بار کیا تھا ’’بڑے بڑے سمندروں کو ایک گرم لہر تقسیم کرتی ہے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ وہ سمندر تھا اور یہ لہر اس کے لڑکپن کو نوجوانی میں تقسیم کرنے، اس کے اندر بیدار ہوئی تھی۔ وہ رنگ تھا اور لہر وہ سیال جو اس کے بدن میں مختلف رنگوں کی آمیزش سے ایک نئے دھنک کو ترتیب دے رہا تھا۔

دل کا ارتعاش بدن کے اندر نئے موسم کا سرور بھر دیتا تو اسے یوں لگتا آس پاس کے سارے پیڑوں پر بھنور آ گئے ہیں۔ جنگلی پودوں پر ان گنت رنگوں کے پھول کھل گئے ہیں۔ چاول کے کھیت کے قطعوں میں یکایک فصل لہرا رہی ہے۔ ایک طرف کھڑا باولا (بجوکا)، ہاتھ ہلا ہلا کر اس کا استقبال کر رہا ہے۔ ایک طرف سے مور ناچتے ہوئے آئے ہیں اور کنویں کے اطراف رقص وسرور کا سماں بن گیا ہے۔ وہ کرشنا کے روپ میں ہاتھوں میں بانسری لئے کھڑا ہے۔ موسیقی کا عالم ہے کہ گانَو کی ساری لڑکیاں اور عورتیں اس کے گرد چمپا اور چمیلی کی کلیوں کے ہار پہن کر رقص کر رہی ہیں۔ اسے ان سب سے محبت تھی مگر وہ بانسری کسی اور کے لئے ہی بجا رہا تھا۔ ۔ ۔ کیا وہ بانسری سکینہ کے اس لمس کے لئے بجایا کرتا  تھا۔ ؟؟

لمحے بھر میں جاگتی آنکھ سے دیکھے منظر اور خواب اس کی نگاہ میں ا بھرے اور سکینہ کے لمس کے احساس کے ساتھ ہی دوبارہ ذہن کی جھیل میں ڈوب گئے۔ ۔ ۔ سچ تو یہ تھا کہ سکینہ کو اس نے کبھی کنویں پر نہیں دیکھا تھا۔ اس کے گھر پا نی بھرنے اور کپڑا دھونے کے لئے ایک نو کر انی تھی۔

سکینہ کی مخروطی انگلیوں کے لمس کی بازگشت اس کے بدن کی اندرونی فصیلوں میں پھیلی۔ ۔ ۔ پندرہ برس چار مہینے اور دس دنوں سے برفیلی ساکت جھیل کی سطح پر کر ڑڑ کی آواز کے ساتھ دراڑیں نمایاں ہوئیں، اندر۔ ۔ ۔ یوں بھی چند بر سوں سے ایک آنچ سی رہ رہ کر ابھرتی تھی جس نے گزشتہ سال سے ہلکی تپش کا روپ اختیار کرنا شروع کیا تھا۔ آج یہ تپش، کسی الہامی شر ر کے سبب شعلگی میں بدلنے کے درپے تھی۔ برف پگھلنے والی تھی۔ کچھ لہریں اس کے دل میں یکایک ابھریں اور بیٹھ گئیں۔ اسے ایسا لگا کہ یہ ناممکن ہے۔ اس کے ذہن کا فتور ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو، ایسے کئی خواب تو خود اسے بھی آتے ہیں۔ عرصہ ہوا اس نے خواب دیکھا تھا کہ پڑوس کی ایک لڑکی جو اس کی اسکول میں دسویں جماعت کی مانیٹر تھی۔ اسے باتوں ہی باتوں میں گھنے جنگل میں لے گئی۔ موسلادھار بارش میں بیچ جنگل، ایک برگد کے بوڑھے پیڑ کے نیچے بیٹھا کر اپنے دل کی کہانی سناتی رہی۔ وہ دونوں بہت بھیگ گئے تھے مگر ان کے اندر ایک الاؤ سا جل رہا تھا۔ اس نے عبد العزیز کی انگلیاں اپنی مٹھی میں دبائے رکھی تھیں۔ چوٹیاں سامنے کی طرف کر کے بالوں کو کھول دیا۔ اس کا رنگ یوں تو سانولا تھا مگر خواب میں وہ برہمنوں کی طرح زرد سفید نظر آئی تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی سبز مائل تھیں۔ یکایک بہت ساری رنگ برنگی تتلیاں ان کے گرد منڈلانے لگیں۔ چند منٹوں بعد سب تتلیاں زمین پر پروں کو پھیلا کر بیٹھ گئیں۔ دوسرے ہی پل ان کے پر سبز پیلی اور نیم جامنی بیلوں میں بدل گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا بیلوں نے ان دونوں کو لپیٹ لیا۔ ایک ساتھ۔ ۔ ۔ وہ ایک ساتھ لپٹ گئے تو فوراًموسم بدل گیا۔ اب بارش کی جگہ تیز طوفانی ہوا چل رہی تھی۔ ٹھنڈ سے اس کا بدن کانپ گیا تھا لیکن لمحے بھر میں اس نے پھر محسوس کیا کہ ایک آنچ اس کے اندر ہے جو رفتہ رفتہ پھیل رہی تھی۔ اس کے ہا تھ مانیٹر کے رخسار پر آہستہ آہستہ ایک خواب تلاش کر رہے تھے۔ لطف کی پہلی تمازت میں بدن کی شرکت کا پہلا سرور۔ ۔ ۔ تصورات کی دنیا کی لذت سے جبّلت کا پہلا انبساط۔ ۔ ۔ خیال کی دنیا میں کشیدجسم کا پہلا ذائقہ…اس خواب کا اختتام الہامی اور عبد العزیز کو اپنے ہی رازوں سے ہم کنار کرنے والا تھا۔ وہ خواب اسے مکمل طور پر کبھی یاد نہیں آتا۔ البتہ اس خواب کے جو چند ٹکڑے یادداشت میں محفوظ رہ گئے۔ انھیں وہ بار بار آنکھیں بند کر کے ذہن میں اُجاگر کرتا  رہا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اسے ڈر تھا وہ انھیں بھول جائے گا بلکہ ایک لطف تھا جو ہر بار اس یادداشت کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس طرح کے حسین خواب اس کی روح کی گہرائی سے نیند کے اسٹیج پر ڈرامائی شطرنج بچھانے لگے تھے۔ وہ ہارتا جیتتابساط شطرنج پر اکیلا فاتح تھا۔ اس کی شکست اس کی تمنّا تھی اور اس کی جیت میں اس کی شکست۔

اس طرح کے خواب جو اس نے حالت نیند میں دیکھے تھے۔ گزشتہ چند مہینوں سے وہ جاگتے ہوئے بھی دیکھنے لگ گیا تھا۔ اب وہ اکیلا بیٹھا رہتا تب بھی تنہا نہ ہوتا اور جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتا تب بھی اکیلا ہوتا۔ اس اکیلے پن کی حالت میں ایک طلسمی سیج اس کی دل کی دنیا میں سجا ہو تا۔ جس پر وہ راج کمار کی طرح ہیرے جواہرات کے بنے ملبوسات میں خود کو دیکھتا۔ اس کے گرد سبز گلابی سندور رنگ کی ساڑیٰوں میں ملبوس گانوَ کی چند حسین لڑکیاں بعض شادی شدہ عورتیں ہوتیں۔ ان کے ہاتھوں میں اس کے لئے گلاب کے پھول، مور پنکھ اور چاندی کے گلاس میں شربت ہوتا۔ ایک دفعہ اس کی مراٹھی کی ٹیچر، پا ٹل میڈم بھی اس شبستاں میں جلوہ افروز ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں کہانیوں کی کتاب تھی۔ یہ وہی کتاب تھی جس میں شہزادے اور پریوں کی محبت کی کتھائیں تھیں۔ا سی مجموعے میں سے مہینے میں ایک کہانی وہ کلاس میں سنایا کرتی تھی۔ آج وہ خود پر یوں کے لباس میں اس کے سامنے تھی۔ اس کے بال اس کی کمر پر پھیلے ہوئے تھے۔ پیشانی پر سندور بھی تھا۔ گلے میں منگل سوتر اور پیروں میں چاندی کی خوب صورت پائل …وہ بیوی تو سنتوش پا ٹل کی ہی تھی مگر اپنی محبت کے ہار عبد العزیز کو پہنا رہی تھی۔ وہ اس کے بالوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ اس کے رخسار پر اپنی ہتھیلیاں رکھ کر اس کی آنکھوں میں پھیلنے والے سُرخ ریشوں کے جال کو دیکھتا رہا۔ اس کی سفید بڑی بڑی آنکھوں میں اپنا عکس تلاش کرتا  رہا اور اس کی کا جل بھری پلکوں کی جھلمل سے خوش ہوتا رہا۔ اس نے پاٹل میڈم کے تحفے قبول کیے۔ پھر شہزادے کی طرح ہاتھ پھیلا کراسے اپنی سیج پر دراز ہونے کا اشارہ کیا۔ اس کی پائل کے گھنگروؤں کو کان لگا کر اس کے دل کی موسیقی کو سنتا رہا۔ وہ اس کی خوشبو کو اپنی قوّت سے کشید کرتا رہا۔

اس کے خواب میں جو بھی در آتا وہ اس سے باتیں کرتا  رہتا۔ اس کی باتیں سنتارہتا۔ وہ بہت اچھا سا مع تھا۔ وہ چاہتا تھا سب [خاص طور پر بڑی عمر کی لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں ] ان کی زندگی کی کہانیاں اسے سنائیں۔ شوہروں، بچوں اور شادی سے پہلے کی ادھوری محبتوں کی کہانیاں۔ وہ سنتا رہتا اور اسی سماعت کے دوران وہ ان کی محبت حاصل کرتا۔

بعض اوقات ایک ساتھ کئی عورتیں اس کی تصوراتی سیج پر وارد ہوتیں اور وہ ان سے محبت کے نغمے گانے کی خواہش ظاہر کرتا ۔ یہ وہی گیت تھے جو اس نے شادیوں میں یا ریڈیو پر دو ایک بار سنُے تھے۔ ایک گیت جو اس نے ریڈیو پر سنُا تھا۔ اکثر وہ انھیں سناتا۔

وہ سب اس کی آواز کی تعریف کرتیں اور اس کے پیار پر یکساں خلوص کے ساتھ اعتماد ظاہر کرتیں۔ وہ ان سے وعدہ کرتا  کہ یہ ’’محبت‘‘ راز رہے گی۔ لڑکیوں کے والدین اور جن کی شادیاں ہو چکی ہیں ان کے شوہروں کو اس بات کا کبھی علم ہونے نہ دیا جائے گا۔ اس کے وعدے پر وہ ایمان لاتیں اور عبد العزیز کی محبت میں اس کے ہو نٹوں، انگلیوں اور پیشانی پر بوسہ لتیں۔ ایک بار اس کے تّصور میں ایک طلاق شدہ خاتون آئی تھی وہ اس کی پیشانی پر بوسہ لے رہی تھی۔ عبد العزیز نے اسے روک کر پوچھا۔ ’’کہیں تمھیں، تمھارا بیٹا تو یاد نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘

اس عورت نے جواب دیا۔ ’’نہیں عزیز !میں تمہارے اندر اپنے عاشق کو دیکھتی ہوں جس سے شادی سے پہلے میں بہت پیار کرتی تھی، مگر ماں باپ اس کے خلاف تھے اگر میری شادی اس سے ہوئی ہوتی تو میرا طلاق نہ ہوتا۔ ‘‘

یہ جواب سُن کر عبد العزیز کو اس سے عجیب سی انسیت ہو گئی تھی۔ اصل زندگی میں وہ طلاق شدہ خاتون اس کے گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر رہتی تھی۔ عمر میں اس سے دس پندرہ سال بڑی تھی۔ اس تصوراتی اُنسیت نے عبد العزیز کے دل پر کچھ ایسا اثر کیا تھا کہ وہ اس کے گھر جا کر اس سے ملتا اور اس کے کاموں میں اس کی مدد کرتا۔ اسے ایسا لگتا تھا کہ اس کے تصوّر میں آ کر عورتیں جو باتیں بتاتی ہیں وہ حقیقی اور سچّی ہوتی ہیں۔ علاوہ جو کچھ وہ روبرو بولتی ہیں وہ جھوٹ ہوتا ہے۔

من کی من سے بات ہی سچّی بات ہے اور اس کے لئے ایک من کی خود کلامی بھی در حقیقت دوسرے من کی حاضری ہی ہے۔ ایک ہی من میں کئی روحیں بسیرا کر سکتی ہیں اور کئی روحوں میں ایک من اپنی پیاس جگا سکتا ہے۔ یہ عجیب سی باتیں ہیں جنھیں ہماری زبان اور تعلیم گاہوں میں نفسیات اور فلسفے کے مضامین میں پڑھا یا جاتا ہے، لیکن عبد العزیز کی زندگی میں یہ باتیں اس کی جبّلت کے نہاں خانے سے آئی تھیں۔

اس لئے وہ ابھی اس بات میں فرق نہیں کر پاتا تھا کہ آیا یہ تصّور ہے یا حقیقت ؟کیا واقعی سکینہ اس سے لگ کر سوئی ہوئی ہے اور اس کے ہاتھ کا لمس اس کی نیند کو کاٹ کر اسے بیدار کیے ہے یا ابھی وہ نیند میں ہے اور یہ خواب ہے، یا وہ ابھی سویا نہیں ہے اور یہ تّصور ہے اور وہ یہ سوچ رہا ہے کہ وہ نیند میں ہے۔ وہ غلطاں و حیراں تھا۔ یہ حیرانی اسے غرق کئے تھی کہ کیا تصور کی سیج پر سے ایک منظر زمین کے بستر پر اتر سکتا ہے۔

 

 {۵}

 

سکینہ نے اپنی اب تک زندگی میں سوائے مجاور حسین کسی اور جسم پر یوں پیار بھری چاہت سے اپنی انگلیاں نہ پھریں تھیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کئی دفعہ مجاور حسین کے سینے پر سر رکھ کر جب اس نے ان کے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیری ہیں تو اسے یہ محسوس ہوا کہ مجاور حسین در حقیقت کوئی دوسرا آدمی ہے اور یوں اپنے ہی شوہر کے لمس میں اسے دوسرے چہروں اور ابدان کے لمس کا احساس ہوا ہے۔ سکینہ کی ایک سہیلی شبانہ نے ہی تو اسے بتا یا تھا: ’’عورت اپنے شوہر میں ایک دوسرے آدمی سے محبت کرتی ہے جواسے کبھی نہیں ملتا اور ہر مرد اپنی عورت میں کئی عورتوں کو ڈھونڈتا ہے جن میں سے بعض سے وہ اکثر ملتا رہتا ہے۔ ‘‘

سکینہ نے ہنس کر اس کی اس بات کو ٹال دیا تھا۔ اسے ایسا لگتا تھا کہ وہ شادی کے بعد اپنے شوہر کو رادھا کی طرح، لیلیٰ کی طرح، شیرین کی طرح محبت کرے گی یہ نام گانَو کے لوگ گیتوں میں اس نے سنے تھے۔ وہ سارے گندے خیالات جو اس کے دل میں آتے ہیں۔ انھیں وہ نکال دے گی۔ اپنی پوری زندگی اپنے شوہر کی محبت اور خوشنودی میں گزارے گی۔ وہ اس خیال کو گانٹھ باندھ کر اپنے دل میں رکھنا چاہتی تھی کہ وہ رام کی سیتا کی طرح ہے۔ اور ہر حال میں اور ہر مصیبت میں اپنے رام کا ساتھ دے گی۔ لیکن شادی کے چوتھے سال کے آخری مہینوں میں یہ احساس اس کے دل میں جگہ بنانے لگا کہ مجاور حسین اس کے رام نہیں ہیں۔ وہ اکیلی بن باس میں ہے۔ مجاور حسین کے ترکش میں اس کی روح کی تشنگی کو رام کرنے والے بان نہیں ہیں۔ ان کے پاس وہ مسکراہٹ، وہ ٹھہراؤ، وہ وجاہت، وہ مشاہدہ اور وہ نظر نہیں ہے جو اس کے گانَو کے مندر میں بنی رام کی مورت میں دکھائی دیتی تھی۔ اس نے ہزار بار وہ مورت دیکھی تھی۔ جب بھی وہ آنکھیں موندھ لیتی ہے اس مورت سے نکل کر رام کی شبیہ اس کے سامنے چلنے پھرنے لگتی۔ وہ ان کی آواز سُن سکتی ہے۔ ان کی مسکراہٹ کو محسوس کر سکتی ہے۔ ان کے کاندھے پر لٹکے چاندی کے ترکش میں دھار دار تیروں کے سروں کو دیکھ سکتی ہے۔ اس نے اپنی سہلیوں سے رام کی شادی اور لنکا کو فتح کرنے کے قصّے سن رکھے تھے۔ اسے ان کی بہادری اور قربانی پر ناز تھا۔ گانَو کے مندر میں جو رام کی مورت تھی، جانے وہ کس زمانے کے مورتی کار نے بنائی تھی۔ دیکھنے والے کو یوں لگتا وہ رام کو زندہ و جاوید کھڑا دیکھ رہے ہیں۔ جنھوں نے مورت دیکھی ہے۔ وہ رام کو اس کے بغیر تّصور نہیں کر سکتے۔ اگر رام سورگ سے خود زمین پر آ کر کہیں کہ میں رام ہوں۔ لوگ انھیں ماننے سے ان کار کر دیں گے اور کہیں گے۔ ’’ مورت والی صورت ہی رام کی ہو سکتی ہے۔ ‘‘یہ کمال تھا اس مورت کا اور یہی سبب تھا کہ سکینہ کو رام کی آنکھوں میں جو چمک اور پیار دکھائی دیتا تھا اس کا سایہ بھی مجاور حسین کی آنکھوں میں نہ تھا۔

شوہر سے مثالی محبت کرنے کی جو گانٹھ اس نے دل کی ایک شاخ پر باندھی تھی وہ رفتہ رفتہ ڈھیلی پڑ گئی۔ مجاور حسین کی سادہ مزاجی، توکل اور نرمی اس کے لئے وہ اسم اعظم نہ بن سکا جو اس کی مرکز گزیدہ نسائیت کی خلش کو پھر پا تا۔ اس کے اندر عدم تکمیلیت کا جو احساس تھا۔ اس کے اندر زند گی کی جو للک تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے اندر سارے موسموں میں محبت کی بیلوں پر مچلنے کی جو تر نگ تھی۔ ۔ اس کے اندر محبت کی شیر یں گفتگو میں ڈوبنے رہنے کا جو نشہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ اسے مجاور حسیں کی دینی باتیں اور اصلاحی حکایات پورا کرنے سے قاصر تھیں۔

اس کی دلچسپی مجاور حسین میں کم ہو گئی، کسی اور میں بڑھی بھی نہ تھی۔ وہ ماننے لگی تھی کہ اس کا رام مجاور حسین نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ وہ مجاور حسین کے ہوتے ہوئے کسی غیر سے کوئی تعلق پیدا کرے گی۔ حالانکہ اس کے دل میں دوسری مٹی کی خوشبو سونگھنے کا خیال ابھرتا ضرور، لیکن ہر بار وہ مٹی اور وہ خوشبو مجاور حسین کے بدن میں ضم ہو جا تی۔ چہرے اس کے ذہن کی پیٹی سے نکلتے اور اس کے سامنے اپنے تواں جسم کی نمائش کرتے۔ لیکن پھر مجاور حسین کے بدن میں مد غم ہو جا تے۔ اس کا شوہر اس کے لیے ایک تالاب تھاجس میں اسے نہانا پسند نہ تھا مگر اپنے تمام اصنام کا وسرجن وہ اسی میں کرتی آئی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا تھا، اس تالاب میں اب صرف وسرجن ہو سکتا ہے اس کے پانی میں وہ تازگی اور حیات بخش مادہ نہیں ہے جس کو پینے سے پیاس مٹ جائے اور قلب ماہیت سے چہرہ پر نور ہو جائے۔ یہ پانی شریانوں میں رقصاں خون کی حّدت کے ساتھ گھلنے ملنے کی رمق کھو چکا تھا۔ یہ پانی کوکھ کی آتما کو نئے اوتار عطا کرنے کے فطری جوہر سے محروم ہے۔

٭

 

آج کی رات جہاں اسے شبانہ کی بات یاد آئی تھی وہیں مریمؑ کی حکایت بھی۔ جن لوگوں کا خدا ان کی کوکھ میں مر جاتا ہے ان کے لئے تاریخ اور مذہب بھی بیساکھی کا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان بیساکھیوں کے بغیر نفس کا سفر دشوار گزار ہو جاتا ہے۔ اور انسان ایک ایسی ڈور پر چلنے لگتا ہے جس میں ہر آن ایک داخلی دلدل میں گرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسی دلدل جس کی کوئی تھاہ نہیں ہے۔ جس سے ابھر نے کا کوئی نشان نہیں ہے۔ خدا کی اس یکایک موت سے روح، وجدان اور عرفان فانی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ خدا کی یکایک موت سے بدن کے قفل کھل جاتے ہیں اور خواہشوں کے نخلستان سر سبز ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ کیا واقعی سکینہ کے خدا کی موت کی گھڑی قریب آ گئی تھی ؟؟خدا کی موت کا ماتم نفس کی تذلیل سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن اس تکلیف کے بغیر روح کی سرشاری اور تکمیل ذات کا دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔ اس کیفیت سے کم لوگ گزرتے ہیں۔ زیادہ تر تووہ ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کے دلدل میں گرتے ہیں اور پھر خدا کی لاش کو دل میں دفنائے خدا کی بزرگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ یہ منافق ہوتے ہیں۔ سکینہ منافق نہیں تھی خدا اسے بچپن میں تحفے میں ملا تھا اور جوانی میں اس کے لئے بے ربط ثابت ہو گیا۔ ایک ایسا خدا جو روح کا امین نہ تھا جو صرف انسان کے دل میں صدیوں سے بسا ایک احساس تھا۔ ۔ ۔ سکینہ اس احساس خدا کی موت کو قبول کرنا چاہتی تھی۔

جب سکینہ کی انگلیاں عبد العزیز کے ہو نٹوں پر تھیں تب اس کے دل میں ایک عجیب سی اُلجھن تھی اور وہ اس کشمکش میں تھی کہ وہ کون ہے ؟اس کا رام کون ہے ؟اس کا خدا کون ہے ؟اس کے اندر یہ کیا ہے۔ جو اس کی انگلیوں کو متحرک کیے ہے ؟شاید وہ صرف عبد العزیز کو چھو نا چاہتی تھی۔ اس کے خطوط کو قریب سے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس خواہش نے اس کے اندر الجھن کے ساتھ جسارت کی ایک موج بھی پیدا کر دی۔ وہ اٹھی۔ اس نے اٹھ کر دروازے کا کواڑ آہستہ سے بند کر دیا۔

 

 {۶}

 

 

گوجڑی کو اس نے عبد العزیز کے پورے بدن پر پھیلا دیا اور کروٹ بدل کر اس کی طرف مڑ گئی۔ چند منٹوں تک وہ یوں ہی اندھیرے میں تکتی رہی۔ خاموشی کا عالم تھا کہ باہر درختوں کے پتوں کے ہوا کے ساتھ اتصال سے پیدا دھنوں کو وہ صاف طور پر سن پا رہی تھی۔ کسی کے چلنے یا دور تک بات کرنے کا کوئی شائبہ تک نہ تھا ’’ رات ‘‘باہر چاندنی کی روشنی میں دلہن بن گئی تھی۔ یہ منظر صرف آسمان کی بلندی سے دیکھا جانا چاہیے۔ گھنے جنگل پر چاند کانور یوں سایہ کیے تھا گو یا کسی طلسمی ویرانے پر محبت کے خدا ’’کام دیو‘‘ نے اپنے سحر کو پھیلا دیا ہو۔ پیڑ خاموش مگر اندر ہی اندر ایک دوسرے کی باہوں میں با نہیں ڈالے کام دیو کے اشارے پر محبت کی گفتگو میں محو تھے۔ جو، ایک دوسرے سے کچھ فاصلے کی دوری پر تھے انھیں ہوائیں ایک دوسرے کی تڑپ کا پیغام پہنچا رہی تھیں۔ جنھیں سن کر وہ فراق اور خواہش اتصال میں سسکتے تھے۔ شاخیں دوری کے درد سے چیختیں اور ایک نوحہ سارے جنگل میں گردش کرتا۔ جسے سن کر جنگلی سور، لومڑیاں اور بھینکراں (ہرن سا نظر آنے والا ایک جانور) روتے۔ ان کے رونے سے رات آسیب میں بدل جا تی۔ لیکن یہ شور گھنے جنگل کے درمیانی حصے میں جاری تھا، گانَو کی سرحدوں سے بہت دور، اس لیے ان کی اذیت کا احساس یہاں کے لوگوں کو شاید کبھی نہ ہوا ہو گا۔ رات صدیوں کا سلسلہ تھی جس کی کو کھ میں اب تو کیڑے مکوڑے بھی سوچکے تھے۔

سکینہ نے ایک دھیمی لمبی سانس لی اور اپنا ہاتھ عبد العزیز کی گردن پر ڈال دیا۔ اس کی کہنی عبد العزیز کے سینے پر تھی جس کے نیچے پسلیوں کے پنجرے میں اس کا دل تھا۔ اس نے عبد العزیز کے کانوں کی لو کو اپنی انگلیوں سے چھوا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی ہتھیلی اس کے دل پر آ کر ٹھہر گئی، سینہ مجاور حسین کے سینے کی طرح پھیلا ہوا نہ تھا، لیکن اندر کی دھڑکن کو وہ محسوس کر رہی تھی۔ ایک ایسے دل کی دھڑکن جو ابھی ابھی محبت کے نشے سے معمور ہونے کے لئے، وحشی ہونے کے لئے تیار ہوا تھا۔ وہ اس دل میں اپنے جسم کی حرارت کو محفوظ کر سکتی تھی۔

 

 {۷}

 

پہلے پہل وہ ان کے گھراس کی ساس سے ملنے آیا کرتا تھا جو عبد العزیز کی ماں کی رشتہ دار بھی تھی۔ گھر کے کاموں میں جٹ جاتا تھا۔ اس کی آواز اسے اچھی لگتی تھی۔ جب وہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کوکنی محاورے استعمال کرتا تو سکینہ کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔ سکینہ کے آنگن میں وہ اس کی نند کے لڑکے کے ساتھ گلی ڈنڈا، لنگوری، لنگڑی اور چڑیا اڑی کھیلا کرتا  اور جب پڑوس کی لڑکیاں پھُگڑی کھیلتیں تو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر خوب تالیاں بجا کر مسرور ہوتا تھا۔ دو تین بار سکینہ کے کہنے پر وہ جنگل کی سرحد پر جا کر اس کے لئے کروندے بھی لے آیا تھا۔ ایک بار سکینہ نے اسے گوجڑی سینے کا دھاگا لانے بازار بھیجا تھا۔ دو گھنٹے تک وہ واپس نہیں آیا۔ اسے پریشانی ہونے لگی تھی۔ بازار گانَو سے ایک کلو میڑ دور تھا اور راستے میں قبرستان پڑتا تھا۔ چوں کہ قبرستان سے لگ کر ایک ولی کا مزار بھی تھا اس لئے بد روحوں کا ڈر نہیں تھا مگر سانپ اور بچھو بہت تھے۔

جب وہ نظر آیا تو اس کے چہرے پر پسینہ دیکھ کر سکینہ نے پوچھا؛ ’’اتنی دیر کیوں کر دی، میں تو پریشان ہو گئی تھی۔ ‘‘

اس نے دھاگوں کا بنڈل سکینہ کے ہاتھ میں رکھا، سانس لی پھر کہا: ’’بازار میں مداری کھیل بتا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک جادو گر لڑکا بھی تھا۔ اس نے بہت سارے جادو بتائے۔ ایک آدمی کی جیب سے رو مال نکال کر اسے اپنے ڈبّے میں رکھا اور منتر پڑھا۔ ۔ ۔ پھر کیا ہوا معلوم۔ ‘‘

’’کیا ہوا؟‘‘سکینہ نے حیرت سے پوچھا۔

’’اس لڑکے نے مجھے آگے بلایا۔ میں بند اس گیا۔ اس نے ایک چھری میرے سر پر گھومائی اور میری جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی رو مال نکالا۔ میں حیران ہو گیاسب نے بہت تالیاں بجائیں۔ میرا پوپٹ ہو گیا۔ ‘‘

سکینہ مسکرائی۔ وہ بھی مسکرایا۔

’’سکینہ آپا جادو کیسے ہوتا ہے ؟‘‘اس نے پوچھا

’’جادو گروں کے پاس شاید جنّات لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ان کے کہنے پر سب کام کرتے ہیں !‘‘سکینہ نے جواب دیا۔ جو اس نے بڑوں سے سنا تھا۔

’’لیکن اس کے ساتھ تو جنات نہیں تھے۔ ‘‘

’’ارے بے وقوف جنّات نظر تھوڑی آتے ہیں۔ وہ صرف ان کو دیکھتے ہیں جن کے قابو میں ہوتے ہیں ‘‘

’’جب دیکھتے نہیں تو قابو میں کیوں رہتے ہیں ؟‘‘

تب سکینہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ تھوڑی دیر خاموش رہی۔ اس نے اس طرح کے سوالات خود سے نہیں پوچھے تھے وہ سوچ میں پڑ گئی۔ عبد العزیز کی معصومیت پراسے مسکراہٹ بھی آئی۔ پھر اس نے جواب دیا تھا۔

’’ایساہوتا ہے، جنّات جن سے پیار کرتے ہیں، ان کے قابو میں خود چلے آتے ہیں۔ ‘‘

اس جواب سے وہ مزید حیران ہو گیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا پھر اس نے کہا۔ ’’سکینہ آپا۔ اگر کسی جن کو آپ سے پیار ہو گیا تو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’تو میں بھی اس کو اپنے قابو میں کر لوں گی۔ ۔ ‘‘

’’پھر وہ آپ کے سب کام کرے گا نا ؟‘‘

’’ہاں سب کام۔ ۔ ۔ ‘‘

’’لیکن یاد رکھنا۔ ۔ ۔ دھاگا لانا ہو تو اس کو مت بھیجنا میں آ جاؤں گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’اور میرا ایک کام۔ ۔ ۔ کیا وہ میرا کام کرے گا ؟‘‘

’’میں بولوں گی۔ ۔ تو کرے گا۔ ۔ ۔ کیا کام ہے۔ ؟‘ ‘

’’میراحساب بہت کھراب ہے۔ ماسٹر مرگا بناتے ہیں۔ اس کو بول کر، کر کے دے دینا چلے گا۔ ‘‘

سکینہ مسکرائی اور بولی۔ ۔ ۔ ’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ ، اس کو بول دو گی۔ ‘‘

٭

 

سکینہ کے چہرے پر ہلکی فطری اتراہٹ در آئی تھی۔ عبد العزیز کو اسی سبب یہ لگا تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ سکینہ جانتی تھی یہ صرف باتیں ہیں۔ اس کے باوجود جن کو قابو میں کرنے کا خیال اس پر اثر کر گیا تھا۔ وہ کبھی کبھی سوچتی۔ کاش !وہ کسی جن کو اپنے بس میں کرے یا کسی اچھے سے جن کو اس سے پیار ہو جائے۔ جو اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے من کی باتوں کو سنے اور اسے دوسری دنیاؤں کے راز اور وہاں کی عورتوں کے دل کی حالت سنائے۔ لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ حالانکہ گانو میں عورتوں پر چڑیل سوار ہونے یا گرے کے ذریعے پکڑے جانے کے واقعات تو صدیوں پرانے تھے۔ [گرا۔ در حقیقت بھوتوں کی ایک شکل تھی جو روپ بدلتے تھے جھٹ سے کایا کلپ کرتے تھے ]ان کے اثر کو زائل کرنے کے لئے گانو کی سرحد پر ناریل کا چڑھاوا یا بکریوں کی بلی دینا لازمی تھا۔ جنّات کا تصور چند سال بعد تبلیغ جماعت کے فروغ کے بعد پروان چڑھا۔ تب چڑیلوں نے گانو چھوڑ دیا اور بعد کے سارے واقعات جنّاتوں کے نام درج ہونے لگے۔

٭

 

دیکھتے دیکھتے عبد العزیز اس کے سامنے سمجھ دار ہو گیا اور اب وہ نوجوانی کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ جہاں سکینہ اس کی سانسوں کی آنچ سے اندر ہی اندر پگھل سکتی تھی۔ اس کے بدن نے پختہ خطوط پر تبدیلیوں کا اظہار کر دیا تھا۔ سکینہ بدن کی فطری تبدیلیوں سے گزر چکی تھی۔ جانتی تھی عمر کے اس حصے میں دل کا کیا حال ہوتا ہے۔ ایک ذراسی آنچ بھی خوابیدہ آتش فشاں کو شعلوں میں بدل سکتی ہے اور اور ایک ذرا سا لمس بھی منجمد سمندر کو طوفان میں بدل سکتا ہے۔ ایسا طوفان جو ارادے کی مضبوطی کی ساری کشتیوں کو اپنے گرداب میں غرق کر لیتا ہے۔

سکینہ کے ذہن میں عبد العزیز کی یادوں کے ننھے ننھے جگنو روشن ہوئے اور ان کے اجالوں میں اس پر ایک جن کا سایہ ہو گیا۔ اس سایے نے اس کے اندر عجیب رنگ بھر دیا۔ اس کی ہتھیلی بہہ گئی اور وہ ساکت منجمد جھیل کے اس مرکز گزیدہ محور پر تھی جہاں طلسمی ٹھنڈ کے نیچے گرم رو تھی۔

 

 {۸}

 

ایک روز جب دسویں جماعت میں اس کی جغرافیہ کی ٹیچر نے کہا ’’برف کی چٹانوں کے نیچے آتش فشاں ہوتا ہے، تب عبد العزیز کے چہرے پر ایک الہامی مسکراٹ ابھری تھی اور یاد کا یہ ٹکڑا ذہن کی سب سے محفوظ فائل سے نکل کر اس کی آنکھوں کے سامنے تازہ دم ہو اٹھا تھا۔

نیند کے ہزار برسوں سے میٹھا ذائقہ اس وقت بند آنکھوں سے جا گنے میں تھا، آئندہ زندگی وہ اس ایک لمحے کو امانت کے طور پر اپنے من میں سمیٹ کر جیتا رہا اس رات کے بعد جو بھی ہونا تھا وہ اس دنیا کے کسی دوسرے انسان کے لئے شاید دلچسپی کا باعث نہ بنے مگر ان دونوں کے لئے ساری زندگی کا حاصل تھا۔

اس کے دیدوں میں سیال سا تحلیل ہوا دل کی دھڑ کن اوفان پر تھی۔ بند آنکھوں سے یہ مادہّ باہر کی روشنی میں آنا چاہتا مگر گوجڑی کے اندر اس قدر اندھیرا تھا کہ جب اس نے لمحے بھر کو پلکوں کو وا کیا تب بھی اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اوپر چاند کو سیاہ بادلوں نے گھیر لیا جس کے سبب گانَو پر ہلکا سایہ ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ نتیجتاً روزن سے داخل ہونے والی شعاعیں بھی معدوم ہو گئی تھیں۔

سکینہ اس کے دل کی تیز دھڑکن کو سن رہی تھی اور جانتی تھی اس دھڑکن میں خواہش کا نشہ کتنا گہرا ہے۔ وہ چاندبن گئی اور عبد العزیز اس کے نور میں روح کا مل کی آفرینش کا راز دار۔ ۔ ۔

 

{۹}

 

جب صبح نیند سے بوجھل عبد العزیز کی آنکھیں کھلیں تو گوجڑی میں صرف وہ تھا۔ پل بھر کو وہ چونکا۔ اس نے اپنی پلکوں پر ہاتھ پھیرا۔ کیا وہ خواب میں تھا۔ کیا خواب اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ہمیں ایسا لگے یہی حقیقت میں ہوا ہے یا جو واقعی ہوتا ہے وہ اس قدر ناقابل یقین ہوتا ہے کہ ہمیں لگتا ہے ایسا ہو نا ممکن ہی نہیں ہے یہ خواب ہو گا۔ حقیقت اور خواب کے درمیان کتنا مہین پر دہ ہے۔ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا تھا کہ تین چھوٹے بچّے جو ایک دوسرے کا پیچھا کر رہے تھے آ کر دھڑام سے اس پر گر گئے۔ سب سے چھوٹا بلک بلک کر رونے لگا تو اندر سے دو چار عورتیں آئیں۔ ان میں ایک اس کی خالہ تھی۔ عبد العزیز کو بستر پر دیکھ کر وہ برس پڑی۔ اس سے کچھ کہتے نہ بن پایا وہ اٹھ کر پڑی میں گیا۔ جہاں کچھ رشتہ دار سلیمانی چائے پی رہے تھے۔ اس کی ماں تمباکو کی مسیری سے دانت مانجھ رہی تھی۔ اس نے ماں کی ڈبیا سے تمباکو لیا اور آنگن میں چلا گیا۔ وہ چاہتا تھا ایک طرف بیٹھ کر مسیری لگائے اور رات کے خواب کو محسوس کرے۔ وہاں آنگن میں جوں ہی اس کے قدم پڑے اس کے چچا نے چائے کا خالی کپ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا اندر سے بیڑی بھی جلا کر لانا۔ بیڑی اور کپ کو لینے میں اس کی مسیری گر گئی۔ اس پر چار آدمی جو وہاں بیٹھے تھے، خوب ہنسے اور اس کا مذاق اڑایا۔ وہ پڑی میں واپس آیا اور جلتے ہوے سرخ کوئلے سے بیڑی سلگائی اور لا کر چچا کے ہاتھ میں تھما دی۔

وہ واپس مسیری لینے اندر آیا تو اس کی ماں کی نظر اس پر پڑی۔ ماں نے اندازہ لگا یا کہ اس نے ابھی تک منہ نہیں دھویا ہے تو وہ بگڑی گئی۔ وہ جھٹ سے موری میں گھسا کہ منہ دھو لے، پردے کے اس پار اس وقت کوئی نہا رہا تھا۔ اس نے اچھی ڈپٹ سنائی کہ موری میں گھسنے سے پہلے دیکھ تو لیتا اندر کوئی ہے یا نہیں۔

وہ فوراً ا چک کر واپس باہر آنگن میں گیا اور پترے کے ڈرم سے لوٹے میں پانی لے کر وہیں بیٹھ کر اس نے ہاتھ منہ دھویا۔ پڑی میں اس نے خالہ کی پلیٹ میں سے روا کھا یا اور چائے پی۔ ابھی اس نے چائے پوری طرح ختم بھی نہ کی تھی کہ خالو اور چچا نے اسے کاموں کی لمبی فہرست تھما دی۔ وہ اٹھا اور کام میں لگ گیا۔

دوپہر کے کھا نے کے وقت جب وہ سارے باہر کے کام نپٹا کر واپس پڑی میں آیا تو اس کی ماں نے کہا۔ ’’ابھی تک نہا یا نہیں۔ ‘‘وہ منہ بنا کر رہ گیا۔ ماں نے اس کے چچا کو بلایا۔ چچا نے اپنی الماری سے ایک جوڑا نکال کر اسے دیا اور کہا۔ ’’عصر بعد نکاح ہے، تب تک خراب مت کر نا۔ ‘‘اس کے چہرے پر خوشی پھیلی۔ نئے کپڑے اس نے ہاتھ میں لئے۔ قمیص کا رنگ اسے بہت اچھا لگا۔ لیکن پتلون کو دیکھ کروہ مطمئن نہ تھا۔ اس کا چہرہ اتر گیا۔ یہ دیکھ کر چچا نے پوچھا۔ ’کیا ہوا ریَ؟‘‘

اس نے نظریں اُٹھائیں اور کہا : ’’ہی چڈی ہے مالا پاٹلون ہاوے۔ ‘‘(یہ چڈی ہے مجھے پتلون چاہے۔ )اس جواب پر سب ہنس پڑے۔ چچا نے ہنستے ہوئے پھر سوال کیا۔ ’’کیوں پتلون ؟تیرے کو تواسکول میں بھی چڈی پر ہی جا نا ہوتا ہے نا؟۔ ‘‘

’’ وہ سب ٹھیک ہے لیکن اب میں چھوٹا نہیں ہوں۔ بڑا ہو گیا ہوں۔ ‘‘

اس پر ایک عورت جو یہ سُن رہی تھی اس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’گو مہرون!تو جو پتوس بولیتے تو موٹوجھیلویے۔ ‘‘(مہرون !سنو تمہارا بیٹا کہہ رہا ہے اب وہ بڑا ہو گیا ہے۔ )

ایک زور دار قہقہہ۔ چھوٹے بچوں کو موقعہ مل گیا وہ ایک آواز میں چلائے۔ ۔ ۔ ۔ ’’پوپٹ پوپٹ۔ عبد العزیز چوژیلوپوپٹ۔ ‘‘

وہ ان کو دیکھتا رہا۔ وہ ان کے درمیان تھا لیکن اس کا وجود ایک دوسری زیادہ وسیع کائنات میں تھا۔ وہ اپنے بدن سے باہر آزاد اور خود مکتفی ہو کر اس دنیا کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ وہ کپڑے لے کر مالے پر گیا۔ وہاں اس نے لکڑی کی بڑی پیٹی کھولی اور اس میں رکھی ہوئی پتلون نکالی جو عید پر اس کے ابّا نے اس کے لئے خریدی تھی۔

وہ نیچے آیا تو اس کی ماں پڑی کے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس نے اس کے ہاتھ سے پتلون لی اور کہا۔ ’’چچا نے نئی چڈی لائی ہے وہ کیوں نہیں پہنی۔ ‘‘اس نے ماں کی جانب دیکھا اور کہا! ’’تجاسمجات نائے ینار۔ ۔ ۔ انی ہاں اتاں تو مالا بار کیو چڈیونو کوگھینو۔ ۔ ۔ می خالی مو ٹیوپا ٹلونگوس گھالن۔ ‘‘

(تم نہیں سمجھو گی اور ہاں !اب تم میرے لئے چھوٹی چڈیاں مت لینا میں صرف بڑی پتلونیں ہی پہنوں گا۔ )

ماں اس کے راستہ سے ہٹ گئی۔ آج پہلی بار اس نے اپنے شوہر کا تحکمانہ تیور اپنے بیٹے میں دیکھا تھا۔ وہ یہ بات فوراً مان گئی کہ اب اس کا بیٹا بڑا ہو گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

باب دوم

 

مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

 

ملازمت کا عرصہ قید کے ہزار بر سوں کی طرح اس پر گزرا۔ لیکن آج وہ آزاد پرندہ تھا۔ ہوائی جہاز نے اڑان بھری اور اس کے دل میں گانَو کی یادیں کروٹیں لینے لگیں۔ اگر ماں نے اسے مجبور نہ کیا ہوتا تو وہ ہر گز کویت کے آباد ویرانے میں بینک آفیسر کی ملازمت کے لئے نہ گیا ہوتا۔ اس نے گلف ایرویز کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ۔ ۔ باہر دن کا اُجالا پھیلا ہوا تھا اور نیچے نیلے رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی۔ پھر یکایک وہ چادر سفید دھوئیں میں بدل گئی۔ اس کی آنکھوں نے دن کے اجالے کو کہرا میں بدلتے ہوئے محسوس کیا۔ آج اس کا دل ایک تہہ خانے میں بدل گیا تھا جس میں ہزاروں رنگ رقصاں تھے اور یہ سارے رنگ ہلکے زرد سفید رنگ سے متشکل ہوئے تھے، جوسکینہ کا رنگ تھا۔ اس رات کی یاد دل کے ایک کونے سے ابھر کر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گئی جب سکینہ نے اسے محبت کے سرور سے سر شار کر دیا تھا۔ اس کے بچپن کو اس کی ناف سے کاٹ کر اسے جوان لڑ کے میں بدل دیا تھا۔

 

{۲}

 

دوسرے دن وہ کس بے قراری سے شادی کے منڈوے میں سکینہ کو تلاش کر رہا تھا۔ اس نے اپنے گھر کے علاوہ آس پاس کے مکانات، جہاں کچھ مہمان گپ شپ کر رہے تھے، وہاں بھی اسے تلاش کیا۔ مگر وہ کہیں نہ تھی۔ وہ حیران تھا۔ بس اس کی ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا تاکہ اسے اس بات کا یقین ہو کہ رات اس نے خواب نہیں دیکھا تھا۔ سکینہ کو ہر جگہ تلاش کرنے کے بعد وہ مایوس ہو گیا۔ قاضی نکاح سے پہلے بعض آیتوں کی قرأت کر رہا تھا۔ لوگ دھیان سے سن رہے تھے۔ قرأت ایک ایسی زبان میں ہو رہی تھی جس سے وہ نابلد تھے۔ بہت کم لوگ تھے جو اس وقت عربی زبان سمجھنے کی لیاقت رکھتے تھے۔ خیر!! سمجھ تو وہ قاضی صاحب بھی نہیں رہے تھے جو جھول جھول کر گر دن گھما گھما کر، آواز کی زیر و بم کے ساتھ قرات کر رہے تھے۔

دس بارہ سال بعد جب گانَو کے کچھ لڑکے ایک مدرسے سے فارغ ہو کر آئے تب یہ راز کھلا کہ قاضی صاحب قرآن کی آیات نہیں بلکہ کسی عربی شاعر کا لکھا ہوا قصیدہ پڑھا کرتے تھے جوان کے والد نے نکاح نامے کی بیاض کے صفحہ اول پر کہیں سے اتار رکھا تھا اور عنوان کی جگہ اردو میں لکھا تھا ’’دولہا دلہن کی فریاد در زبان عربی‘‘ ایک لڑکے نے اس قصیدے کا تجزیہ کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ عہد جاہلیت کی فحش شاعری کا نمونہ تھا۔ اسی بناء پر عربی سے واقف ان طلبہ نے قاضی صاحب کا بائیکاٹ کیا اور مستقبل کے نکاح پڑھانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔

٭

 

مجمع قاضی صاحب کی قرأت میں گم تھا لیکن عبد العزیز کا دل سکینہ کے دیدار کے لئے وحشی ہو گیا تھا۔ وہ چپ چاپ اٹھ کر پڑی میں گیا اور وہاں سے پتھروں کی دیوار کو پھلانگ کر…چند مکانوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا وہ عام راستے پر آ گیا۔ اب سکینہ کے گھر کی طرف اس کے قدم بڑھ رہے تھے۔ عصر کا وقت تھا اور سورج کے اطراف سفید زرد بادل مختلف شکلوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ بادلوں کی شکلیں بدلتی ہوئی ایک دوسرے سے ٹکرا کر نئی شکلیں بنا رہی تھیں۔ عبد العزیز کی نظریں بادلوں کے کھیل دیکھ رہی تھیں۔ یہاں چند بادل ملے اور زرد رنگ میں شرابی مائل روشنی کی شعاعیں تحلیل ہوتیں اور فوراً ایک دل کی شبیہ بنی۔ جس کے درمیان گہرا گلابی رنگ اور اطراف میں ہلکا نیلا پن جھلک رہا تھا۔ عبد العزیز بادلوں کو سمجھنے لگا تھا۔ اسے ہمیشہ سے ایسا لگتا تھا کہ بادل خدا کی زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ یہ وہ اشارے ہیں جو پیش آنے والے واقعات سے آپ کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ وہ املی کے پیڑ کے پاس ایک لمحے کے لئے رکا۔ اس کے تنے پر اس نے اپنی ہتھیلی رکھی۔ نظریں املی کی پھیلی ہوئی شاخوں پر مرکوز کیں۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ مگر املی کا پیڑ رو پڑا۔ املی کا پیڑ اس گانوَ کا سب سے پُرانا پیڑ  تھا اور گانَو کی چھ سو سالہ تاریخ کا امین۔ ۔ ۔ بلکہ ایک نجومی، اشعر ابن نجومی ابن اشعر ابن نجومی نے یہاں تک کہا تھا کہ ’’یہ پیڑ نہ صرف ماضی بلکہ مستقبل سے بھی واقف ہے۔ ‘‘

املی کے پیٹر کو دلوں اور نصیبوں کا حال معلوم تھا۔ در اصل اس کی ایک شاخ پر گزشتہ ستّر سال سے ایک محروم روح نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس سے پہلے بعض بے ضر ر مگر مستقبل اور ماضی کے واقعات کا علم رکھنے والے پاک جنوں کا ایک کنبہ رہتا تھا جو اس محروم و مہجور روح کی آہ و زاری سے اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ گھنے جنگل میں چلا گیا۔ تب سے اس پیڑ پر اسی کی حکمرانی ہے۔ جن لوگوں نے املی کے پیڑ کی شاخوں سے رونے کی آوازسُنی ہے۔ انہوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ یہ کسی چڑیل کی شرارت ہے۔ جو لوگوں کو ڈرانے کے لئے جانوروں کی آواز میں روتی ہے۔

٭

 

وہ محروم روح شگفتہ کی تھی، جو عبد العزیز کے داداشبیرحسین کی خالہ زاد بہن تھی۔ اس کی موت فطری نہ تھی بلکہ فطری عمل کو غیر فطری قرار دیے جانے کا نتیجہ تھی۔ ایک منصوبہ تھا۔ بے رحمی سے کیا گیا قتل تھا۔ ہوا یوں تھا کہ سولہویں سال میں قدم رکھنے سے چند ماہ قبل ہی وہ محبت کرنے کی خطا کر بیٹھی تھی۔ اس وقت گانَو کے لوگ چاول کی کھیتی کیا کرتے تھے۔ آس پاس ہندوؤں کے بھی کھیت تھے۔ سب آپس میں گھل مل کر کھیتیاں کیا کرتے تھے۔ مذہب یا دداشت کا حصّہ تھا مگر تفریق کا جواز نہ تھا۔ باوجود اس کے، حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان ایک فاصلہ بھی تھا۔

شگفتہ بدنصیب تھی۔ بارش کا موسم ختم ہوا چاول کے کھیت لہلہانے لگے تھے اور دوسری طرف اس کا بدن ا آنکھ مچولی کے راز اُگلنے لگا تھا۔ وہ گُم صم اپنے بدن کے محور کی تبدیلیوں میں کھوئے رہنے لگی۔ کسی کو اس راز میں شریک نہیں کیا۔ وقت سے پہلے اگر کسی سہیلی سے بات کر لیتی تو رات کے اندھیرے میں بدن کے اندر سے اس زہریلے ناگ کو جڑی بوٹیوں کی مہک سونگھا کر باہر نکال لیا جا تا۔ وہ جانے کس آکاش میں، کس نظام شمسی کے کس سیارے کی مکیں تھی کہ شرم، ڈر اور حیرانی سے بے زبان بنی رہی۔ اس بے زبانی نے رفتہ رفتہ اسے نہ گفتہ موت کے مدار میں ڈھکیل دیا۔ اس کی رگیں تننے لگیں اور سوکھی ہوئی مچھلی کی بوُسے اسے ابکائی آنے لگی۔ ۔ ۔ پہلے تو بدہضمی سمجھ کر نظرانداز کیا گیا مگر جب اسے پیڑوں کے سایوں اور چاول کے کھیت کو کاٹتے وقت چکر آنے شروع ہوئے تو اس کی ماں نے بھانپ لیا۔

ماں بلا آخر ایک عورت ہوتی ہے جو بیٹی کی غلطی کو اپنی جوانی کے آئنے میں جھانک کر دیکھتی ہے۔ شگفتہ کی ماں نے اسے کچھ نہ کہا بلکہ خود صدمے سے گھنٹوں بیٹھتی روتی رہی۔ جب آنسووؤں نے مزید بہنے سے ان کار کر دیا تو اس کے دماغ نے کام کرتا  شروع کیا۔ اس نے جنگل سے دو تین جنگلی پیڑوں کے پھل لائے اور پپیتے کے بیجوں کے ساتھ پیس کر اس کا عرق اسے تین روز تک نہار پیٹ پلایا۔ اس عرق سے گہرائی میں چھپ کر بیٹھے ہوئے سانپ کو بھی بل سے باہر نکالنے میں پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ لیکن پانچ مہینے گزر جانے کے بعد اس عرق کا اثر کام نہیں کرتا یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ چوں کہ اس مرحلے میں اس کا استعمال پہلے نہیں کیا گیا تھا۔ اس لئے بے چاری ماں پر اُمید تھی۔ جب وہ ہار گئی اوراس کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس نے یہ بات اپنے شوہر کو بتا دی۔

مرد کے اندر باپ کے علاوہ ایک آدمی بھی رہتا ہے۔ جو صدیوں سے ایک جیسا ہے۔ ہر مرد کے اندر ایک بچھّو، دو ناگ اور ایک شیطان رہتا ہے۔

 

 

 

 {۳}

 

شگفتہ کی لاش کو گانَو کے قبرستان کی بجائے گانَو کی سرحد کے پاس جنگل کے ابتدائی حصّے میں دفنایا گیا۔

یہ بات مشہور کی گئی کہ اسے ناسور ہو گیا تھا اور ایک پاگل کّتے نے اسے کاٹ لیا تھا چناں چہ اسے ایک کمرے میں بند کر کے چھت پر سے اس پر ابلتے پانی کو انڈیلا گیا۔ ساراگانَو خاموش سورہا تھا البتہ گانَو کے سارے کتّے بے تحاشہ رو رہے تھے۔ چمگاڈروں کا ایک دستہ اس کمرے کے اوپر منڈلاتا رہا۔ اس کی ماں ایک کونے میں پاگلوں کی طرح ماتم کرتی رہی۔ پانچ روز پہلے شگفتہ کو اس منصوبہ کی بھنک لگ گئی تھی اسی سبب وہ چیخ چیخ کر رونے بلکنے لگی تھی۔ گھر کے مردوں پر حملہ کیا کرتی اور انھیں نوچتے ہوئے کچھ بڑ بڑ اتی۔ اس کی تدفین کے بعد ان لوگوں نے میت میں آئے لوگوں کو اپنے گلے سینے اور چہرے پر پڑے اس کے ناخن کی کھرونچ بتائی اور کہا۔ ’’ایسالگتا تھا اس کے پیٹ میں کتّے کے بچے بلکنے لگے تھی۔ ‘‘

لیکن شگفتہ مرنے کے بعد بھی مری نہیں تھی۔ وہ زندہ ہے۔ اس کے اندر جو محبت کی نشانی تھی اس کی کوئی واضح شکل نہ تھی مگر وہ بھی زندہ ہے۔ کہتے ہیں اس کی قبر کے پاس ہر بارش میں کئی مور آتے میں اور اپنے پروں کو پھلا کر اس بے ہیئت روح کا جی بہلاتے ہیں۔ پورے چاند کی رات شگفتہ اسے ملنے وہاں چلی جاتی ہے۔ اس رات املی کے پیڑ کے نیچے اشعر ابن نجومی ابن اشعر ابن نجومی بے اولاد عورتوں، عشق میں ہارے ہوئے لاچاروں اور پریشان حال لوگوں کی مراد پوری ہونے کے لئے آسمانی آیتوں کا ورد کرتا  ہے۔ چڑھاوا چڑھاتا ہے یہ کام اگر وہ کسی اور رات کرے تو شاید شگفتہ اسے موت کے گھاٹ اُتار دیتی یا دیوانہ بنا دیتی۔

٭

 

جب عبد العزیز نے املی کے تاریخی پیڑ کے تنے پر اپنی ہتھیلی رکھی تو شگفتہ نے اس کے دل پر تحریراس کے بدن کی بے قراری کو پڑھ لیا۔ ۔ ۔ وہ جانتی تھی بدن کی لذّت ایک سراب ہے جو موت کی وادی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس نے لمحے بھر میں سدرۃالمنتہی پر چھلانگ لگائی اور لوح محفوظ سے چرائے ہوئے دفتروں کو بزرگ جناتوں کے ہاتھوں سے چھین کراس میں عبد العزیز کی قسمت کا صفحہ تلاش کیا۔ آسمانی دفاتر کی زبان میں الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی علامات کا۔ یہ زبان خالی عبارتوں کا عکس لا تفسیر ہے۔ جب ان پر روح کا عکس پڑتا ہے تب واقعے کی نوعیت زمان و مکان کے ساتھ دکھائی دیتی ہے لیکن ہر روح کے عکس سے یہ صفحات منّور نہیں ہوتے۔

شگفتہ کو یہ بات کام دیو کے ایک خاص راز دار نے بتائی تھی۔ اس کے کہنے کے مطابق ہمالیہ کی ایک وادی میں ایک روز لمبی سفید داڑھی والے بزرگوں کا ایک قافلہ تفریح کے لئے آیا ہوا تھا۔ تب کام دیو کے اس خاص راز دار نے انھیں اپسراؤں کا رقص بتایا۔ پھر انھیں شراب پلائی۔ یہ شراب کام دیوکی خاص شراب تھی۔ اس کی مہک سے حوا کے دل میں خواہش کا دائرہ پھیلا تھا۔ ان بزرگوں نے جب اس شراب کا ذائقہ چکھا تو ان کی ہیئت میں عجیب نشے کی ترنگ پھیلی۔ اور وہ مزید شراب کا تقاضا کرنے لگے۔ بہت ضد کرنے پر کام دیو نے اشارے سے اپنے راز دار سے کہا۔ ’’ان سے پتہ کرو۔ لوح محفوظ کی تحریروں کو پڑھنے کا اصول کیا ہے۔ ‘‘پہلے تو بزرگوں نے ان کار کیا مگر جوں جوں نشہ ان کی روح میں پھیلتا گیا ان کی روح کی بے احساس فضا میں انھیں ایک متحرک خالی پن محسوس ہونے لگا۔ اس بے نشاں احساس نشان کو صرف اور صرف اسی شراب سے پُر کیا جا سکتا تھا۔ وہ بے بس ہو گئے۔ راز دار ان کی اس حالت پر مسکراتا رہا۔ بالآخر شراب کی ایک جھیل کا پتہ جاننے کی لالچ میں انہوں نے بتایا ’’لوح محفوظ کی زبان کو صرف وہی روح پڑ ھ سکتی ہے۔ جو محبت سے معمور ہو‘‘…اسے جنات اور فرشتے پڑھ نہیں پاتے۔ چُرا لیتے ہیں، مگر پھر اپنا ہی سر پھوڑتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ صفحات ان کے لئے ہمیشہ خالی صفحات ہی ہوتے ہیں۔ جس طرح ان کا وجود ان کے لئے و جودی حالت میں بھی بے وجود رہتا ہے۔

’’آپ اس راز کو کب سے جانتے ہیں …‘‘ کام دیو کی شئے پر راز دار نے پوچھا۔ ’’ہم اس راز کو صدیوں سے جانتے تھے۔ ‘‘ سفیدداڑھی والے بزرگ نے جواب دیا۔ ’’پھر آپ نے آج ہمیں بتانے سے ان کار کیوں نہیں کیا…‘‘ راز دار نے پوچھا۔

’’آج ہم وہ نہیں رہے جو آج تک ہم تھے …‘‘سب سے بزرگ نے کہا جسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آج اس سے کون سی خطا ہوئی ہے۔

اتنا کہنا تھا کہ ایک دھواں پھیلا۔ سارے بزرگ پلک جھپکتے ہی برف کی چٹانوں میں بدل گئے۔ کام دیو اور اس کا راز دار برف کی گپھاؤں میں چالیس سال تک قید رہے۔ا چوں کہ یہ بات انہوں نے دوسرے دیوتاؤں کو نہیں بتائی تھی اس لیے اس کا ذکر پرانوں میں بھی نہیں ملتا۔ اس راز کو کام دیو کے راز دار نے شگفتہ کو بتا یا تھا۔ اس کا دل اس وقت پگھل گیا تھا جب اس کے رشتے دار محبت کی سزادینے کے لیے اس پر گرم پانی انڈیل رہے تھے۔

٭٭٭

 

جب عبد العزیزسکینہ کی دہلیز پر پہنچا اس وقت سورج شفق پر پہنچ گیا تھا۔ اطراف کاسارامنظر گلابی زرد روشنی سے الہامی سالگ رہا تھا۔ آنگن میں پیپل کا پیڑ مکان کی چھت پر بانہیں ڈالے کھڑا تھا۔ اس کے سایے میں امرود کا پیڑ تھا اور امرود کے تنے سے قریب چائے میں دالی جا نے والی گھاس تھی جسے ’’پات‘‘ کہا جاتا ہے۔ پات کی جڑوں کے پاس چڑیا شام کا گیت گا رہی تھی۔ اس پرندے کی گردن چاکلیٹی اور دم سفید ہوتی ہے۔ کوئل سے ملتا جلتا یہ پرندہ سنہری رنگ کے انڈے دیتا ہے۔ جن کا استعمال جادو ٹونا کے لئے بہ طور خاص کیا جاتا ہے۔ سورل کے لوگ اسے ’’ہوٹوٹی ‘‘ کہتے ہیں۔

عبد العزیز نے ایک نظر چڑیا کو دیکھا اور دروازے پر دستک دی۔ دستک پر اندر سے کوئی جواب نہ آیا مگر چڑیا بھرسے اڑ گئی۔ اس کی پتلی سی چونچ سے ایک سوکھا ہوا تنکا گر گیا اور ہوا میں لہراتا ہوا دائروں میں تیرتا ہوا زمین پر آ گرا۔ چڑیا نے ایک بار مایوسی سے مڑ کر دیکھا اور پھر پیپل کی لمبی شاخوں کے درمیان کہیں غائب ہو گئی۔

عبد العزیز نے دروازے پر دوبارہ دستک دی۔ کو ئی جواب نہ ملا۔ اس نے دروازے سے ملحق آنگن کی دیوار کو عبور کیا اور منگیدار کے دروازے پر جا کر دستک دی۔ لوہے کی کڑی کو ابھی اس نے کھنچا ہی تھا کہ اسے اندازہ ہوا کڑی اندر سے لگائی ہوئی نہیں ہے۔ اس نے پکارا…

’’سکینہ آ…آپا…‘‘

’’سکینہ آپا…‘‘

’’اے سکینہ آپا…‘‘

غالباً سکینہ کی آنکھ لگ گئی تھی۔ عبد العزیز کی آواز پر وہ چونک کر اٹھی۔ اس نے اپنی ساڑی ٹھیک کی …اور پلنگ کے پاس رکھّے ہوئے آئینے میں جھانک کر بال سیدھے کئے۔

’’سکینہ آپا…تمی گھرات ہاؤں کی نایے …؟‘‘(آپ گھر میں ہویا نہیں ؟)

سکینہ نے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اس کا چہرہ اسے ایک اجنبی چہرہ لگا۔ صبح سے شام تک وہ اپنے آپ سے ہزاروں سوالات پوچھ چکی تھی۔ بار بار خود کو آئینے میں دیکھ کر اپنے چہرے سے بھی اس نے کئی جواب مانگے تھے۔ حالانکہ جن جوابات کی اسے تلاش تھی وہ کہیں موجود نہ تھے۔ وہ پریشان حال اور مضمحل تھی۔ خود سے ناراض اور نفس کے فریب سے مجروح۔ وہ سراب بن گئی تھی۔ اپنے بہاؤ میں خود بہتا ہوا دریا بن گئی تھی۔ وہ جس کہر امیں کھو گئی تھی۔ وہ کہرا بھی، خود ہی تھی۔ وہ جس سیلاب کی جھیج بن گئی تھی وہ سیلابا سی میں مقید تھا۔ وہ رفتار چاہتی تھی اور اس کے آنسو اس کے مژگاں سے روٹھ گئے تھے۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر اس کی حلق میں آواز کی پیٹی غائب تھی۔ وہ خود کو ایذا پہچانا چاہتی تھی مگر اس کا جسم اسے نظر نہ آتا تھا۔ ۔ ۔ وہ جو عورت تھی اب وہ عورت اسی میں گم شدہ عورت کی تلاش تھی۔ ’’آیلوں۔ ۔ ۔ ایک منٹ!‘‘

اس کی زبان سے ادا ہوا۔ یہ جملہ اس نے ہر گز ہر گز ادا نہ کیا تھا۔ عبد العزیز سے نہ وہ ملنا چاہتی تھی نہ اسے دیکھنا۔ کس منہ سے کس ناطے سے اس کے سامنے کھڑے رہ کر، اس سے بات کرے گی۔ وہ بچہ تھا اوراس کے سامنے جوانی کے مدار میں داخل ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ سے شرمندہ تھی۔ ناراض تھی۔ پھر یہ جواب اس کی خلق سے کیسے ادا ہوا۔ اس کے اندر اس سے فریب کرتا ہوا کون تھا؟؟؟

اس کی آواز جوں ہی عبد العزیز کے کانوں پر پڑی اس کے ذہن میں شہید گھل گئی۔ اس کی مغموم آنکھوں میں ایک چمک پھیلی۔ اس کی رگوں میں پھیلا انتظار اس کے دل کا تشنج اور رات کے خواب کا اسرار پگھل کر اس کے بدن میں ایک کیف بن گیا۔ وہ پُر کیف نگاہوں سے اس کے دیدار کا منتظر تھا۔ وہ چاہتا تھا انتظار کے اس لمحے میں گرفتار رہے۔ اس انتظار میں ایک مبہم نشہ تھا۔ اور یہ لطف اس لئے بھی اضافی تھا کیونکہ ابھی وہ اس بات پر ایمان نہیں لا سکا تھا کہ گذشتہ رات کے خواب میں سکینہ بھی شریک تھی۔

سکینہ مڑی تو آئینے میں اس کا عکس مسکرایا اور اس کے سابقہ تحلیل شدہ عکس سے کہنے لگا۔ ۔ ۔ ’’اس عورت کو محبت ہو گئی ہے۔ ‘‘

سکینہ کو ایسا لگا کہ کہیں کوئی سر گوشی ہوئی ہے۔ وہ مڑی اور مڑ کر سارے کمرے کو دوبارہ دیکھا۔ جب اس نے آئینہ کی طرف دیکھا تو وہ عکس تحلیل ہو گیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا عکس تھا جو سکینہ سے بہت مانوس تھا۔ وہ اپنے عکس کو آئینے میں دیکھ کر مسکرائی۔ وہ جانتی تھی اس کے ساتھ ساتھ وہ عکس کیوں مسکرارہا ہے۔

 

 

 

{۴}

 

وہ باہر آئی تو عبد العزیز منگیلدار کے دروازے سے لگا کھڑا تھا۔ پڑی کے ہنبٹے پر رک گئی۔ عبد العزیز نے اسے دیکھا تو اس کے پیروں تلے کی زمین میں ایک طرح کا زلزلہ اسے محسوس ہوا۔ اس نے نظریں اپنے پیروں پر مرکوز کیں …وہ جاننا چاہتا تھا کہ واقعی زمین میں ہلچل ہو رہی ہے۔ یا محض اس کے پیر لڑ کھڑا رہے ہیں ؟

سکینہ خاموش تھی۔ اس خاموشی میں اس کے دل کی دھڑکن بھی شریک ہو گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کی حیرانی کا مرحلہ یہ بھی ہو کہ اس میں اس کا دل بھی حصّہ لے۔ اس نے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو اپنی چھاتی پر آہستہ سے رکھا اور دماغ کو پل بھر کے لیے اس طرف متوجہ کیا۔ واقعی اندر کے گھمسان میں سکون بھی تھا۔ اس کا دل بے حرکت اور بے شور تھا۔ اتنے برسوں سے متلاطم موجوں کی صورت متحرک رہنے والے دل میں آج چپ کا وقفہ اتنا طاقت ور تھا کہ اس کی آنکھوں میں سرخ ریشوں کا ایک جال پھیلا اور مژگاں میں ایک گلابی قطرہ چمکا۔ اس سے پہلے کہ عبد العزیز کی نظر اٹھتی اور اس گلابی آنسو کو دیکھ لیتی وہ گلابی پنکھڑی بن کر جھٹپٹے کی سیاہی میں غائب ہو گیا۔ دونوں کی نظریں ایک ساتھ یکساں قوت نفس ایک دوسرے سے ٹکرائیں …لمحے بھر میں دونوں نے اندر کی قوت کو یکساں رفتار سے زائل ہوتے محسوس کیا۔

سکینہ ہنبٹے کی پائری پر بیٹھ گئی۔ عبد العزیز نے دروازے سے اپنی پیٹھ ہٹائی۔ ذرا آگے جھکا۔ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ سکینہ کی جھکی گردن پر جوں ہی اس کی نظر یں ٹھہریں وہ اپنا سوال بھول گیا۔ اس کے بال ایک طرف تھے اور سبز مائل بلاؤز کا اوپری سرا زیادہ جھک گیا تھا۔ گردن کی ہڈی کا ایک منکا ابھر کر اپنی علیحدہ خوبصورتی کا اظہار کر رہا تھا۔ عبد العزیز کو اس پل سے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ گردن کا ابھار ایک خاص لمحے میں اس قدر کشش کا سبب بن سکتا ہے۔ اس ایک مختصر پل میں اس نے گردن کے ہزار طواف کئے اور اپنی بندگی کا اظہار کیا۔ وہ آگے بڑھ کر عقیدت مند کی طرح اس ابھری ہوئی ہڈی کو اپنی ا آنکھوں سے چومنا چاہتا تھا۔ گویا وہ شفاف جھیل کی سطح پر ایک کنول تھاجس کو آنکھوں سے لگا نے سے سینے کی جلن کم ہو جائے اور روح کو بینائی مل جائے۔ [جب قیام کویت میں اس نے بچوں کو ایک ایسے کھلونے سے کھیلتے دیکھا جس کے بٹن دبانے سے مقامات مقدسہ اس میں نظر آتے۔ تب وہ مغموم ہو گیا تھا۔ اس کیمرہ نما کھلونے میں سعودی اور فلسطین کے اہم مقامات تھے۔ ایک سبزسیاہ پتھر کو ایک عورت بوسہ لے رہی تھی۔ اس نے جب یہ فریم دیکھی اس وقت گویا اس کے دل کے ٹکڑے ہو گئے۔ اسے سکینہ کی یکایک یاد آ گئی تھی۔ سکینہ کی گردن اس کے لیے اسی مقام مقدسہ کی طرح تھی۔

آج تو اسے معلوم نہ تھا ایک روز یہی گردن کی ہڈی اسے کرب میں مبتلا کرے گی۔ اس کے باوجود جانے کیوں اس کے پیر آگے نہ بڑھے۔ زمین کی روح نے اسے جکڑ رکھا تھا۔

سکینہ نے گردن اٹھائی تو شفاف جھیل کی سطح مرصع آئینے میں بدل گئی۔ اس کا چہرہ ہلکا گلابی ہو گیا تھا۔ دن بھر وہ جس اندرونی ہیجان اور بے سکونی کی حالت سے گذری تھی اس کی زردی نے گلابی رنگ کو زیادہ پُر کشش بنا دیا تھا۔ ’’آب صبح سے کہیں پر بھی دکھائی نہیں دئے۔ اس لئے میں آپ کو دیکھنے چلا آیا۔ ‘‘

سکینہ نے کچھ نہیں کہا۔

’’کیا ہوا؟آپ کی تبیت تو کھراب نہیں ہے ؟‘‘

سکینہ نے کچھ نہیں کہا۔

’’پھر آپ نکاح میں کیوں نہیں آئے۔ ‘‘

سکینہ نے کچھ نہیں کہا۔

’’ارے آپ اتنے چپ کیوں ہیں …؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ ابھی مغرب کا وقت ہونے آیا ہے ‘‘…اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔

’’مغرب کا ٹائم ہوا تو کیا ہوا…؟‘‘

’’کچھ نہیں … تو چلے جا…‘‘

اتنا کہہ کر وہ اٹھی اور اندر چلی گئی۔ اس نے کباٹ سے ماچس کی ڈبیا نکالی اور تمام کمروں کے دیے روشن کئے۔ عبد العزیز کچھ دیر وہاں کھڑا رہا۔ پھر باہر نکل گیا۔ سکینہ نے تمام کمروں کو روشن کیا اور کھڑ کی کے پاس کھڑے ہو کر آسمان سے اترتی رات کو دیکھنے لگی۔ وہ جانتی تھی اس کے خالی کمرے کا دیا جلا کر عبد العزیز اندھیرے میں کس سمت چلا جا رہا ہے۔

 

 

 

{۵}

 

وہ راستے بدلتا رہتا کہ اندھیرا  گہرا ہو جائے اور اس کے چہرے کی پژ مرد گی رات کی تہوں میں جانی پہچانی نگاہوں کو نظر نہ آئے۔ گھر پہنچ کر وہ کاموں میں جٹ گیا۔ اسے منہمک دیکھ کر مہرون نے سوچا آج چچا کی شادی کی خوشی میں یہ کس قدر خوش ہے کہ بغیر کہے سارے کام خود ہی کر رہا ہے۔ اس نے مسجد سے لائی ہوئی دریوں کو جھٹک کر اکھٹا کیا۔ خالی کپ جمع کر کے پڑی میں موری کے پاس رکھّے۔ آنگن میں جھاڑو لگائی۔ بچوں کی اچھل کود سے جو رنگ برنگی باوٹے کے کاغذ بکھرے تھے انھیں اٹھا کر ایک چھوٹی بچی کو دیے جو، انھیں پا کر خوشی سے بہت دیر تک ایک کونے میں بیٹھ کر ان سے کھیلتی رہی۔

وہ سب سے نگاہیں چراتا رہا۔ وہ جانتا تھا گانَو کے لوگ آنکھوں کو دیکھ کر دل کا حال پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے دل میں درد تھا۔ یہ درد محبت کی علامت تھی۔ یہ درد سکینہ کے لیے اس کے دل میں بیدار محبت کے سبب تھا۔ محبت کا درد آنکھ کے دائرے میں پھیل جاتا ہے اور مشک کی خوشبو کی طرح سارے ماحول میں اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے۔ اس خوشبو کو اطراف کی تمام روحیں محسوس کر سکتی ہیں خاص کردہ روحیں جو محبت سے محروم ہو ں۔ محبت سے محروم روحیں محبت کو گناہ کہتی ہیں، اور پوری طاقت سے دوسرے کو بھی اس دولت روحانی سے محروم کرنے کی سازش رچنے لگتی ہیں۔

اسے احساس تھا یہ محبت جو اس کے دل میں بیدار ہو رہی ہے اس کا اظہار وہ کسی سے نہ کر پائے گا اور اگر یہ بات عام ہو جائے تو وہ جی نہ سکے گا۔

سارے کام نپٹا کر وہ مالے پر چلا گیا۔ چٹائی بچھا ئی اور لیٹ گیا۔ نیند اس کی آنکھوں میں نہ تھی، یہ اسے پتہ تھا۔ لیکن وہ ڈرا ہوا تھا، یہ اسے معلوم نہ تھا۔ اس کی حلق میں ایک وزنی پتھر پھنس گیا تھا جس نے اس گلے کو تنگ کر دیا تھا۔ اگر وہ کسی سے بات کرتا تو اس کے حلق سے بس ایک روہانسی آواز نکلتی اور دل کی پریشانی اس کے چہرے کو زرد کاغذ میں بدل دیتی۔

وہ یکسوئی کا متلاشی تھا۔ یکسوئی جو محبت کی پناہ گاہ ہے۔ محبت کے کرب کا تریاق ہے۔ وہ خود کلامی کے لئے تنہائی کا متلاشی تھا۔ تنہائی جو خود کلامی کی الاؤ ہے۔ جس میں روح بدن کی شرکت کے بغیر بدن سے مکالمہ کرتی ہے۔ جس میں تن اور من کے درمیان کا باندھ ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی اپنی موجودگی کے با وصف خود سے بیگانہ رہتا ہے۔ اسی بیگانگی میں محبت کا کرب داخلی تاریکی کو منور کرتا ہے۔

عبد العزیز نے اپنے گھٹنوں کو سینے کے قریب موڑ کر دونوں ہاتھوں سے کس کر دبایا۔ یہ حالت ایسی ہی تھی جیسی حمل میں نئی زندگی کی ہوتی ہے۔ وہ آدمی کم اور ایک بدلی ہوئی حالت زیادہ تھا۔ وہ کیڑا مکوڑا نہیں تھا اس کے بدن میں اس کا دل تھا جس میں ایک شر ر تھا یہ شر ر سکینہ کے لمس سے ایک آبشار میں بدل گیا تھا اس آبشار میں اس کی ذات شرابور تھی۔ وہ خود کو سمیٹ کر سکینہ کی محبت کا مسافر بننے کے لئے خود کو تیار کر رہا تھا۔ وہ بیتی ہو ئی رات کو خواب کی طرح فراموش نہیں کر سکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا یہ خواب اس کی ساری زندگی کو نیند میں بدل دے وہ بار بار سکینہ کے چہرے کو اپنی بند آنکھوں میں اُجاگر کرتا رہا مگر ہر بار یہ چہرہ بننے سے پہلے بکھر جاتا آنکھ اور یادداشت دونوں اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے وہ سکینہ کے من موہک چہرے کو اپنی آنکھیں بند کر کے گھنٹوں پیار کرنا چاہتا تھا مگر ادھورے لمس اس کی تشنگی میں اضافہ کرتے تھے۔ ہر بار اس کا اصل چہرہ ابھرتے ہی اس کا زرد سرخ چہرہ درمیان میں آ کر شام کے سردروے کی یاد کو تازہ کر دیتا۔ یہ ایک تضاد تھا۔ جسے سمجھنے کی ہر کوشش میں وہ ناکام تھا۔ اس کے ملال کا ایک سبب یہ بھی تھا۔

کیا وہ مجھ سے پیار کرنے کے بعد میرے ساتھ ایسا سلوک کر سکتی ہے ؟ کیوں اس نے مجھے واپس جا نے کے لئے کہا؟وہاں تو کوئی اور نہ تھا؟کیا وہ مجھے پھر سے پیار نہیں کرے گی؟اس کے چہرے پر اتنی اداسی کیوں تھی ؟کس بے رخی سے اس نے کہا:۔ ۔ ۔ ’’کچھ نہیں۔ ۔ ۔ تو چلے جا۔ ۔ ۔ ‘‘

یہ سوالات اسے پریشان کئے ہوئے تھے۔ اس کے پاس ان کے جواب نہیں تھے۔ جوابات سے محروم سوالات ایک طرح کا گرداب ہے جس میں ذات کے وسوسے پنپتے ہیں اور جب یہ سوالات محبت کے ضمن میں ہوں تو روح کی شاخیں مرجھا جاتی ہیں اور دل میں تشنج کروٹ لینے لگتا ہے۔ اس تشنج میں عبد العزیز کی روح کی شاخوں پر محبت کی پہلی برف باری نے عجیب سا رنگ پھیلا دیا تھا۔ وہ کھلی آنکھوں سے گوجڑی کے اندر سکڑاسمٹا رہا اور سکینہ کا ہیولہ اس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا رہا۔

سکینہ کھڑکی سے مڑی اور پلنگ پر لیٹ گئی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کی وہ ہے کون ؟وہ۔ ۔ جس نے عبد العزیز کو واپس جا نے کے لئے کہا؟ …یا…وہ جو اپنی مرضی کے باوجود اس سے ملنے کے لئے پٹری کے دروازے پر گئی تھی ؟ وہ …جس نے ایک رات پہلے اسے اپنے بدن میں محسوس کیا تھا؟…یا…وہ جس کو اس واقعے پر ندامت ہے ؟

وہ پلنگ پر لیٹ گئی اور اپنے بارے میں سوچنے لگی، ۔ اس تلخی میں ایک مٹھاس اور انتشار میں ایک لذّت تھی۔ چند لمحوں میں اسے نیند لگ گئی۔ یہ بہت مختصر نیند کا جھونکا تھا مگر اس چھوٹے سے وقفے میں اس نے ایک طویل خواب دیکھا۔ ایک خواب جس میں کئی برسوں کا ا فسانہ قید تھا۔ ایسا افسانہ جس میں سکینہ کی زندگی محور تھی اور اس محور پر عبد العزیز کا سایہ تھا۔ اس نے خود کو اسکول کے لباس میں نیلگوں جنگل میں گم ہوتے محسوس کیا۔ وہ راستہ بھول گئی۔ سارا جنگل مہیب شکلیں بنا کر اسے نگلنے کے لئے اس کی طرف سائیں سائیں کرتا بڑھنے لگا۔ ابھی وہ اسے پکڑنے میں کامیاب ہوتا کہ عبد العزیز کا ہاتھ اسے تھام لیتا ہے۔ اور دوسرے ہی لمحے وہ گانَو کے قریب سے بہنے والی ندی کے کنارے کاغذ کی کشتیاں بنا رہی ہوتی ہے کہ ندی میں سیلاب آ جاتا ہے۔ وہ پانی کی سطح پر بہہ کر بہت دور نکل جاتی ہے۔ ندی کے اندر سے آدم قد سبز رنگ کے گلپھڑوں والی مچھلیاں اس کی طرف بڑھتی ہیں۔ وہ چیخ و پکار کرتی ہے۔ ڈوبنے لگتی ہے۔ اب صرف اس کے چہرے کا نصف حصّہ پانی کے باہر ہے۔ کہ وہ دیکھتی ہے ایک ہاتھ اسے کھینچ کر اپنی کشتی میں لے لیتا ہے۔ یہ ایک سرمئی رنگ کی کشتی تھی جس کے بادبان گہرے جامنی رنگ کے تھے۔ جس کے اندرونی حصّے میں گہرے قرمزی سفید اور سبز ریشمی رنگ کے کاغذ سے نقش و نگار بنے تھے۔ اسے عبد العزیز کا چہرہ نظر نہیں آیا مگر اسے پتہ ہے کہ یہ عبد العزیز ہی ہے۔ ندی کی سطح سنہری رنگ میں بدل جاتی ہے۔ ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے اور اسے گل مہر کا شرابی رنگ گلدستہ دیتا ہے۔ وہ جانتی ہے یہ ہاتھ کس کا ہے۔ وہ پلکیں جھپکاتی ہے اور وہ ہاتھ غائب ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دیکھتی ہے۔ آسمان پر ہنس ایک مخصوص دائرے میں رقص کر رہے ہیں۔ یکایک ان کا رنگ بدل کر نیم گلابی ہو جاتا ہے۔ پل بھر میں وہ سب بھی تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اور اس پر آسمان سے گلا بی رنگ کی بارش ہونے لگتی ہے۔

جب گلابی رنگ کی بارش کا منظر ختم ہوتا ہے، تو وہ خود کو مخمل کے بستر پر لیٹی ہوئی دیکھتی ہے۔ کہ وہ محو خواب ہے اور اس خواب میں اسے پتہ ہے کہ وہ سنہری رنگ کے مخمل پر سورہی ہے۔ (خوابوں اور محبت میں شعور اور منطق کی گنجائش کہاں ہوتی ہے )مگر اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ اس شبستاں کے باہر مزید دیواریں ہیں اور وہ باہر کی خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم ہے۔ وہ خواب میں یہ دیکھتی ہے کہ وہ نیند میں بیدار ہوتی ہے اوراس کمرے کے باہر کا نظارہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ دروازے کی طرف بڑھتی ہے۔ دروازے پر ایک پہرے دار ہے جس کی داڑھی اس کی ناف تک بڑھی ہوئی تھی، پر اسے نظر نہیں آئی۔ ۔ ۔ اور سر پر عجیب قسم کی ایک پگڑی تھی۔ کمر پر دودھاری تلوار بندھی ہوئی تھی جس پر فارسی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ سکینہ حروف ملا کر پڑھنے لگتی ہے۔ پڑھ بھی لیتی ہے مگر سمجھنے سے قاصر ہے۔ دو تین بار اس نے اسے دوہرایا۔ پھر بلند آواز میں پڑھا۔

اگر فانیم چست ایں شور ہستی

وگر باقیم ازچہ فانیستم من

پہرے دار نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ جوں ہی سکینہ کی نظر یں اس سے ملتی ہیں۔ پہلے تو اسے لگتا ہے یہ اور نگ زیب ہے۔ کیوں کہ طالب علم کے زمانے میں اس نے اسکول میں ایک ڈرامہ دیکھا تھا جس میں اورنگ زیب کے کردار کو ایسے ہی لباس میں پیش کیا گیا تھا۔ پھر اس نے چہرے کو بہ غور دیکھا۔ اس کی غلط فہمی پلک جھپکتے ہی دور ہو گئی۔ اسے یقین ہو گیا وہ دربان نہیں بلکہ اس کا شوہر مجاور حسین ہے۔

اس سے پہلے کے خواب کی اس طلسمی فضا میں ماجرا کروٹ لیتا اس کی آنکھ کھل گئی۔ در اصل دروازے پر مجاور حسین دستک دے رہے تھے۔ وہ اٹھی اور فوراً دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

 

 

 

 

{۶}

 

ہفتے بھر عبد العزیز نے خود کو مختلف کاموں میں مصروف رکھا۔ نصاب کی کتابوں سے ریاضی کی گتھیاں سُلجھانے میں اپنے ذہن کو لگا رکھا۔ چھٹی کے وقت امرائی میں چلا جاتا اور فصیل پر اُگی جنگلی گھاس پوس کو کاٹتا۔ ہاپوس، پائری اور رتنو آم کے پیڑوں کو پانی دیتا۔ بکھرے پتوں کو جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈالتا۔ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں سے بلاوجہ باتیں کرتا ۔

وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یوں خود کو مصروف کر لینے سے سکینہ کی یاد کم ہو جائے گی۔ وہ ایک لمحہ جس کی آنچ نے اس کے اندر خوابیدہ گرم لہر کو متحرک کر دیا تھا وہ اس لمحے کی یاد سے نکلنا چاہتا تھا۔ وہ بھولنا چاہتا تھا کہ سکینہ نے اس کے بدن پر اپنی انگلیوں سے ایک نقش بنا دیا ہے جس سے دل پر ایک الہامی سرور پھیل گیا ہے۔ وہ سب کچھ بھولنا چاہتا تھا۔ مگرجس قدراس نے سکینہ کو یاد نہ کرنے کی کوشش کی سکینہ کی یاد یں اس کے دل میں گہرائی تک اتر گئیں۔

ہر شب، جب وہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد بستر پر دراز ہوتا اس کا بدن سکینہ کے قرب کے لئے اسے پیاسا جان پڑتا۔ اس کی آنکھیں اس سے تقاضا کرتیں۔ ’’ہم سکینہ کے دیدار سے محروم نہ ہوں۔ ‘‘ اس کی انگلیاں اس سے پوچھتیں۔ ’’ہم کب سکینہ کی انگلیوں میں خود کو سموئیں گے ؟‘‘! اس کے لب اس سے روٹھ جاتے اور کہتے۔ ’’ہمارا آب حیات تو سکینہ کے لب ہیں۔ ‘‘اس کا پورا جسم اس کے سامنے فریادی بن جاتا اور پھر اس کی ہمت ٹوٹ جا تی۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن سنتا جس کا ایک ہی ترانہ تھا۔ سکینہ سکینہ سکینہ۔

ایک رات تو اسے اپنی دھڑکن پر عجیب ساشبہ ہوا۔ اس نے سانسوں کو تھام کر سنناچاہا۔ دھک دھک دھک… کا ردھم اسے سکینہ سکینہ سکینہ سنائی دیا۔ اب اسے یقین ہو گیا کہ وہ کوشش کر کے بھی اس ردھم کو بدل نہ پائے گا۔ اس کی انگلیوں نے تکیے پر ہزار بار سکینہ لکھا۔ جسے اس کے علاوہ کوئی اور پڑ ھ نہیں سکتا تھا۔ اس نے گھر کی دیوار، دروازوں، آنگن کے پیڑوں اور گھر سے اسکول کے درمیان راستے میں پڑنے والے پتھروں پر اس کا نام لکھا۔ وہ صرف اپنی انگلیاں پھیرتا اور اس کی آنکھیں اس نام کو نیلی، گلابی اور گیندے کے پھول کے رنگوں میں محسوس کرتیں۔ جنھیں اس کے علاوہ دوسرا کوئی اور پڑھ سکتا تھا تو وہ تھی شگفتہ!!!

پھر وہ جب ان مقامات کے پاس سے گزرتا۔ یہ نام انہی رنگوں کے ساتھ دوبارہ اسے دکھائی دیتے۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی ابھر آتی۔ مئی کی چھٹیوں کے بعد اسکول کا تیسرا دن تھا۔ کلاس ٹیچر نے چھٹیوں کے دوران اگلی جماعت کی کتابوں کی بعض مشق حل کرنے کے کئے دی تھیں۔ انھیں چیک کرنے کے بعد وہ طلبہ کو تختہ سیاہ پر حل کرنے کے لئے بلا رہے تھے تاکہ بچوں میں خود اعتمادی کا وہ احتساب کر سکیں۔ جب استاد نے عبد العزیز کو بلایا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ…جب کمرہ جماعت میں کوئی نہ تھا اس وقت جن جگہوں پر اس نے سکینہ کے نام کے حروف لکھے تھے وہ سب مختلف رنگوں میں جھلملا رہے ہیں۔

وہ چوک ہاتھ میں لئے گوں گا بنا کھڑا رہا۔ سفید چوک کا ٹکڑا اس کی انگلیوں میں کُر کُرا کر ذرات میں بدل گیا۔ اس کے پیر کانپنے لگے۔ اس کی آنکھیں سکینہ کے نام کے حروف کی روشنی سے چندھیا گئی تھیں۔ وہ خاموش رہا۔ ٹیچر کو لگا اسے مشق حل کرنا نہیں آ رہی ہے۔ اسے غصہّ آیا اور اس نے عبد العزیز کی پیٹ پر چھڑی برسادی۔

اس کی زبان پر قفل لگ گیا تھا۔ ساری کلاس اس کی بھوندی صورت پر ہنستی رہی۔ لیکن اسے اس دن کسی کی ہنسی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بلکہ اس کے دل کی دھڑکن کی بجائے اسے صرف سکینہ سکینہ سکینہ کی موسیقی سنائی دے رہی تھی۔

 

 

 

{۷}

 

جون کے ابتدائی دن تھے۔ آسمان پر بادلوں کے سیاہ بھور ٹکڑے منڈلا نے لگے تھے جس شام عبد العزیز اس سے ملنے گیا تھا اور اس کی زبان سے جس بے تعلقی کے ساتھ ’’کچھ نہیں۔ تو چلے جا‘‘ ادا ہوا تھا اس دن کے بعد سے سکینہ نے عبد العزیز کو ارد گرد کے مکانوں کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ (ورنہ عام طور پر وہ دن بھر میں ایک آدھ بار نظر آ ہی جاتا تھا۔ )

اس کے مکان کے سامنے لڑکے لگورچہ کھیلتے ہوئے، شور مچاتے ہوئے دکھائی دیتے تو اس سے رہا نہ جاتا۔ اس کے قدم اسے کھنچ کر آنگن میں لے جاتے۔ کبھی وہ رسیوّں پر سوکھنے کے لئے پھیلائے ہوئے کپڑوں کو جمع کرنے لگ جاتی، کبھی چوزوں کو بھگاتی، کبھی پیپل کے بکھرے پتوں کو جھاڑو دیتی۔ یہ سارے کام وہ آہستہ آہستہ کیا کرتی۔ اسے ایسا لگتا عبد العزیز جہاں کہیں بھی وہ ہو گا وہاں وارد ہو جائے گا۔

سارے بہانوں میں بہت ساراوقت کاٹنے کے باوجود جب اسے وہ نظر نہ آتا تو وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔ اسے ایک نظر دیکھنے کی خواہش اس کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ وہ جھلَا کر وٹے دار میں چلی جاتی اور دروازے سے لگ کر کھیل میں مگن بچوں کو دیکھا کر تی۔ چند ایک بار یوں بھی ہوا کہ اس نے تخیل کی نیرنگی میں ان لڑکوں کے ساتھ عبد العزیز کو بھی وہاں کھیلتے ہوئے محسوس کیا۔ لیکن وہ کھیل میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ سکینہ کی جانب نہ دیکھتا۔ سکینہ جانتی تھی کہ وہ شرمانے لگا ہے۔ وہ اس سے بے پناہ محبت کرنے لگا ہے۔ اسی لئے وہ اس سے نظر یں چرا رہا ہے۔ اگر ایک بار اس کی نظر یں ٹکرائیں گی تو وہ پتھر کی مورت میں بدل جائے گا اور اسے دیکھتا رہ جائے گا۔ سکینہ اسے دوڑتے ہوئے، لگورچے پر نشانہ لگاتے ہوئے، گیند پھینکتے ہوئے دیکھتی۔ جب وہ ایک قدم آگے بڑھا کر، دائیں ہاتھ میں گیند مضبوطی سے پکڑ کر لگورچے پر نشانہ باندھتا تو سکینہ کو ایسا لگتا وہ لگورچے کی بیلٹی پر نہیں بلکہ اس کے دل پر نشانہ باندھ رہا ہے۔

جوں ہی گیند لگورچے سے ٹکراتی اور بیلٹیوں کا مینار بکھر جاتا اس کی تخیّل کی دنیا بھی بکھر جاتی۔

سیدھا ایک تیر اس کے دل میں آ کر پیوست ہو جاتا۔ اس کا دل دوبارہ اس اتھل پتھل کو محسوس کرتا جو عبد العزیز کے تیر کے سیدھے نشانے پر لگنے سے اس نے اس رات محسوس کیا تھا۔ جب وہ برسوں سے پوشیدہ جذبے کے انتشار میں بہہ گئی تھی۔ وہ ندی کی طغیانی میں بدل گئی تھی، موسلادھار بارش سے شرابور ہو گئی تھی۔ خواہش اور جسارت خواہش کے ہیجان میں گرفتار ہو گئی تھی۔

ایسے لمحوں وہ خود کو زیادہ با حوصلہ اور دلیر محسوس کرتی۔ پیار کی اس رات کے سبب اس کے اندر ندامت اور گناہ کی جو خلیج پیدا ہوئی تھی وہ بھر جاتی اور وہ چاہتی ہزار راتوں سے طویل رات میں وہ عبد العزیز کو پیار کرے۔ جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔ وہ عبد العزیز کو اپنی چھاتی سے لگا کر اسے پیار کرے جس میں ماں کی ممتا کا ایک رنگ بھی ہو، عشق کی خواہش وحشیانہ بھی ہو اور لذت گناہ کا ایک دبتا ہوا ہی سہی احساس جمال بھی ہو۔ عبد العزیز نے اس کے اندر مدفون ان تمام جذبات کو بیدار کر دیا تھا جو اس کی تکمیل کے لئے لازمی تھے مگر کئی برسوں کی یک رنگی کے سبب دب سے گئے تھے۔ وہ ایک مکمل عورت کی روح لے کر پیدا ہوئی تھی مگر زندگی کی بساط اتنی وسیع نہ تھی کہ وہ اپنی شخصیت کے سارے پہلوؤں کو جی پاتی۔ اس کے اندر ایک نیم وحشی عشق ہمیشہ موجود تھا جو سماجی اور خانگی وجوہات کی بناء پر نفس کی جھیل میں ڈوبا ہوا تھا۔ عبد العزیز نے غرق شدہ عشق کو دوبارہ روح کی سطح پر کھینچ لایا تھا۔ اس عمل میں عبد العزیز کے بدن کی کشش سے زیادہ اس کی معصومیت اور سکینہ کے تحت اس کا اعتقاد تھا۔ سکینہ جانتی تھی عبد العزیز اس کو بے حد پسند کرتا ہے اور اس سے باتیں کرنے کے لئے کئی دفعہ بہانے بنا کر وہ اس سے ملنے آ جاتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ عبد العزیز بڑی حیرانی سے اس کے چہرے کو ہمیشہ دیکھا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ شاید یہ انکور تھا جو ابھی شاخ دل پر پوری طرح سے نکلا نہ تھا۔

شروع شروع میں اسے یوں لگا تھا کہ چند روز میں عبد العزیز دوبارہ اس سے ملاقات کے لیے آئے گا مگر جب دس بارہ روز گذر گئے تو اسے تشویش ہونے لگی۔ ڈر تو یہ بھی اس کے دل میں کروٹ لینے لگا تھا کہ کہیں وہ راز عشق، جس کی ابتدا ہی بدن کی شمولیت سے ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اسے کسی پر افشاں نہ کر دے …عشق کی انتہا بدن ہے، لیکن اس عشق کی ابتداء اس کی انتہا سے ہوئی تھی۔

دونوں اپنی اپنی دنیاؤں میں مصروف مگر ایک دوسرے کے خیال میں غرق تھے۔ دونوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ جس حالت انتظار اور خواہش دیدار میں وہ مبتلا ہیں، شاید دوسرے کی وہ کیفیت نہیں ہے۔ دونوں کورہ رہ کر یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ ان کی عمر اور ہئیت میں کس قدر تفاوت ہے۔ دونوں کو یہ بدگمانی تھی کہ اب وہ ایک دوسرے سے محو کلام نہ ہوں گے، دونوں کو یہ ڈر تھا کہ وہ ایک دوسرے کو نا پسند کرنے لگے ہوں گے۔ دونوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ دونوں دوری کے باعث ایک دوسرے کو بری طرح سے مِس کرنے لگے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی یاد تنہائی کے بھنور میں ڈبو چکی تھی۔

ایک طرف سکینہ کو یہ بات بھی چند روز آگ کی طرح کھاتی رہی کہ اس سے گناہ ہوا ہے۔ اس نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر دنیا کا سب سے برا کام کیا ہے۔ اسے خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔ جبکہ عبد العزیز کی روح اس نشے کی ترنگ میں مسرور تھی۔ اس کا بدن اس امرت سے ایک نئی تازگی محسوس کرنے لگا تھا۔

لیکن جب سکینہ کے دل کی کایا کلپ ہوئی اور عبد العزیز کی عدم موجودگی اسے بے قرار کرنے لگی تو اس نے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ سارے خوب رو چہرے اور ابدان جو اس کی نوجوانی سے اس کی یادداشت میں اپنے لئے جگہ بنائے ہوئے تھے۔ اس کے خوابوں میں آ کر اس سے وفا کا وعدہ کرتے تھے، وہ سب چہرے عبد العزیز کے معصوم چہرے کے نیچے ہمیشہ ہمیش کے لئے دفن ہونے والے ہیں۔ اسے یہ احساس تو تھا ہی کہ بہت جلد عبد العزیز کا قد اور نکلے گا…بدن تواں ہو جائے گا۔ اس نے خود کو عبد العزیز کی بانہوں میں تصور کرنا شروع کر دیا۔ اس کے مضبوط بازوؤں میں اس کے لئے راحت اور تکمیل کے خواب تھے۔ اس کی چھاتی پر سر رکھ کر گھنٹوں محبت کی گفتگو میں خود کو مدہوش تصور کرنے لگی تھی۔

ان خیالات نے اس کے احساس گناہ کو کم کر دیا اور ایک مدار پر آ کر اس نے خود سے کہا… ’’مجھے بدن اور روح کا سکھ ساتھ ساتھ چاہئے، جہاں روح خوش نہ ہو وہاں بدن ہمیشہ ناخوش رہے گا اور جہاں بدن خوش نہ ہو وہاں روح کبھی خوش نہ رہ پائے گی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب سوم

 

کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا

 

’’میں تیرے بچّے کی ماں بننے والی ہوں !‘‘

جون کا آخری ہفتہ تھا۔ دو روز سے مو سلادھار بارش ہو رہی تھی۔ جو لوگ چاول اور ناچنے کی کھیتی کیا کرتے تھے وہ گھونگڑی اوڑھے گانو کی سرحد سے لگے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ سکینہ کا شوہر چاول کے کھیت کے پاس مزدوروں کے ساتھ کسی کام میں مصروف تھا۔ سکینہ رائیول آم کے ایک پیڑ کے نیچے کھڑی تھی۔ اس کے پاس پیلے رنگ کی چھتری تھی مگر آج وہ بارش کی دھار میں اپنے تن کے ہر ریشے کو بھیگتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی۔

بارش اس قدر تیز تھی کے اردگرد کے پیڑ اور کھیت نگاہوں سے اوجھل لگتے تھے۔ دور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے لوگ دھندلے آئینے میں نظر آنے والے غیر واضح عکس کی طرح لگتے تھے۔ بارش کے شور میں کھیتوں میں عورتوں کے گیت۔ ۔ ۔ منجمد ہو کر بوندوں کے ساتھ زمین پر برس رہے تھے۔ کل یہی گیت، پکی ہوئی چاول کی فصل کے روپ میں لہرائیں گے۔ چند روز زیادہ گذر گئے تھے۔

پندرہ سال کی عمر سے پورے چاند کی راتوں میں ایک تشنج سکینہ کی نسائیت کا اعلانیہ بن کر اس کی پنڈلیوں میں شدید درد جگاتا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کا اظہار بن گیا تھا۔ شادی کے بعداسے یقین تھا کہ چند مہینوں میں ہی اس کی کوکھ زندگی کی بوندوں کو جذب کرے گی اور اس کا بدن چاول کے کھیت کی طرح لہلہانے لگے گا۔ ہرا بھرا ہو جائے گا۔ اس کے چہرے پر حیا کے نقوش ابھریں گے۔ چھوئی موئی کی طرح لجا کر وہ مجاور حسین کو یہ راز بتائے گی۔ وہ خوشی سے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اس کی پیشانی چوم لیں گے۔

لیکن ایسا نہ ہوا…

اس کی مایوسی دن بدن، مہینہ در مہینہ، سال بہ سال، بڑھتی گئی یہاں تک کے وہ اپنی کوکھ کی ویرانی سے بد ظن ہو گئی۔ اپنے شوہر کے رویے ّ سے مرجھا گئی۔ اسے اپنے مکمل ہونے پر ہی شبہ ہونے لگا۔ پر ماہ وہ ایک کرب سے گذرتی تھی۔ ۔ ۔ ہر دفع وہ امید کی شمع لئے دھیرے دھیرے چلتی، آہستہ سے پانی کے بھرے ہوئے ہنڈے اٹھاتی، برتنوں کی ٹوکری اٹھاتی، آہستہ سے بسنے پر بیٹھتی۔ اپنے طور پر یوں احتیاط کرتی گویا اس کا حمل ٹھہر ہی گیا ہے۔ وہ یہ بھی بھول جاتی یہ تدابیر بعد کے لئے ہوتی ہیں۔

اس کے باوجود وہ تشنج خون کی گاڑھی لکیر بن کر اس کی ایک آنکھ سے رستا۔ وہ افسردہ ہو کر پرانی ساڑی کے کپڑوں کے تختے بنانے بیٹھ جاتی۔ اس وقت اس کی دوسری آنکھ سے آنسوؤں کی ایک قطار شروع ہو جاتی جس میں اس کے دل کا نور بھی بہتا رہتا۔ جب آنسوؤں کا کنواں سوکھ گیا تو اس کی آنکھوں میں برف باری کا آغاز ہوا۔ اس برف باری سے اس کی روح کے شیشے دھندلا گئے اور بہت ساری قریب کی چیزیں بھی اسے غیر واضح دکھائی دینے لگیں۔ سب سے پہلی قریبی شئے جو اس کی آنکھ کے رقبے سے اوجھل ہوئی۔ وہ تھی…مجاور حسین۔

مزید تین سال وہ تنہائی کے کھنڈر میں رہی۔ نو خیزی اور نسائی افتخار جو اس کی شخصیت کی پہچان تھا اس کھنڈر کی تاریکی میں …وہ کھو بیٹھی۔ اب وہ سلسلۂ روز و شب کا ایک ورق تھی۔ جہاں نئی عبارت، نئی کہانی، نئے قصے کا امکان معدوم ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ذات سے منقطع تھی۔ اب وہ بچّوں کو کھیلتا ہوا دیکھ، پرندوں کو اپنے بچّوں کے ساتھ اڑتا ہوا دیکھ، بڑے پیڑوں کی چھاؤں میں چھوٹے پودوں کو اگتا ہوا دیکھ…مزید رنجیدہ ہو جاتی۔ اسے یوں لگتا کائنات کی ہر شئے اس کا مذاق اڑاتی ہے۔

عمر رسیدہ عورتوں کی نظریں جس انداز میں اس کے بدن کا مشاہدہ کرتیں۔ پڑوس کے مرد اپنے بچّوں کو ڈانٹتے ہوئے جب اسے دیکھتے تو جس انداز میں چپ ہو جاتے۔ اس کی سہلیاں جس طرح اپنے کلکاریاں بھرتے بچوں کو گود میں لئے اترایا کرتیں۔ ۔ حتّی کہ پرانے کپڑوں کے تبادلے میں برتن اور کھلونے دینے والی گھاٹن۔ ۔ جس پیرائے میں اس کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے ننھے بچّوں کے کھلونوں کو برتنوں کے نیچے چھپا دیتی۔ ۔ سب اس کی تنہائی میں اضافہ کرتے۔ یہی تنہائی اس کی ذات سے اسے بے ربط کئے دیتی تھی۔

٭

 

اس ماہ بھی سکینہ نے حسب عادت پرانے کپڑے کا تختہ بنایا اور تشنج کی لہروں کا انتظار کرنے لگی لیکن اس بار فطرت اس کے بدن کی پکار سن چکی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی رہتی جہاں سے عام راستہ تھا، وہ گذشتہ چار مہینوں سے اسی کھڑکی کے پاس زیادہ وقت بتاتی رہی ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ اسکول سے لوٹتے ہوئے شاید عبد العزیز اسے نظر آ جائے۔

جب انتظار کر کے وہ تھک گئی تو اسے عجیب سا لگنے لگا۔ اس کے من میں ایک عجیب موسیقی بجنے لگی۔ اتنے برسوں کی محرومی سے اس کا دل سوکھے ہوئے پیڑ کی طرح بے رنگ ہو گیا تھا۔ اسے ہرگز یقین نہ تھا کہ ایک رات کی رم جھم سے چھ سال نو مہینوں اور بارہ دنوں سے بنجر زمین پر ایک تخم زندگی کا خواب دیکھے گا۔

اب اس کا انتظار …اضطراب، لایقینی، تشکیک اور آرزو کا کولاج بن گیا۔ اس غیریقینی کے دھنک رنگوں کے پیچھے سورج بن کر عبد العزیز اس کی روح میں روشن ہو گیا۔ وہ گھنٹوں کھڑکی کے پاس بیٹھی رہتی کہ وہ وہاں سے گزرے گا۔ ۔ وہ ایک پل کے لئے ہی سہی اس کا دیدار کرنا چاہتی تھی…’اگر یہ چند روز اور اسی طرح گزر گئے تو مجھے یقین ہو جائے گا۔ ۔ میرے بدن میں عزیز کی معصومیت ایک نیا روپ لے چکی ہے ‘‘ایک بار اس نے خود سے کہا تھا۔

٭

 

’’میں تیرے بچّے کی ماں بننے والی ہوں ‘‘

عبد العزیز نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ اسے ایسا لگا کہ وہ سکینہ کے سامنے بہت دیر سے کھڑا تھا اور اس دوران اس کا شوہر کھیت سے نکل کر اس کی پشت پر آ کھڑا ہے۔

اس دوران بارش بھی تیز ہو گئی تھی۔ دور کھیت میں جو لوگ کام کر رہے تھے وہ مدھم چاندنی رات میں کھڑے بجوکا سے لگ رہے تھے۔

عبد العزیز نے سکینہ کے چہرے پر نظریں مرکوز کیں۔ سکینہ کے سر پر آم کے پیڑ کی شاخوں اور پتّوں سےر ہ رہ کر پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ اس کی پیشانی سے پانی کی لکیریں بہہ کر اس کے پورے بدن کو مزید بھگوئے جا رہی تھیں۔ جب اس نے یہ جملہ ادا کیا تھا اس وقت اس کے ہونٹوں کے وا ہونے کے سا تھ ہی نیم گرم دھواں اس کے بدن کی بھٹی سے آزاد ہوا تھا۔ جو اب دائروں میں منقسم ہو کر پھیلنے کی بجائے سیدھے اوپر اٹھ کر آم کی ٹہنیوں کے درمیان معلق ہے۔ اس کی آنکھیں سکینہ کی نگاہوں میں اپنا عکس دیکھ رہی تھیں۔

جب دوسری بار سکینہ کے لب کھلے اور وہی جملہ اس نے عبد العزیز کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تب اسے یقین ہوا کہ یہ بات اسی سے کہی جا رہی ہے۔ اور ارد گرد کوئی نہیں ہے۔ وہ لمحے بھر کو ساکت رہا۔ اس کے دل میں جو ہوا کا حلقہ پھنسا ہوا تھا وہ وہیں منجمد ہو گیا۔ سکینہ نے پلکیں جھپکائیں تو عبدسالعزیز نے دیکھا اس کا عکس بھی بند آنکھوں کے ساتھ اس کے دیدوں میں قید ہو گیا ہے۔

سکینہ نے جب آنکھیں دوبارہ کھولیں تو عبد العزیز کو اس کے دیدوں میں اپنا عکس نظر نہیں آیا۔ وہ جان گیا۔ عکس، سکینہ کی آنکھوں سے اتر کر اس کے سارے شریر میں تحلیل ہو چکا ہے۔ اس کے دیدے کا جل کی طرح سیاہ بھور تھے۔ پلکوں پر کاجل پھیل گیا تھا۔ اوپری ہونٹ پر پانی کے چند باریک قطرے ٹھہر گئے تھے۔

’’یوں نہ دیکھ…‘‘ سکینہ نے آہستہ سے کہا۔

عبد العزیز کی نظریں اس کے چہرے سے اترنے لگیں۔ جب اس کی آنکھیں سکینہ کے شکم پر ٹھہریں تو سکینہ کے سینے میں دھڑکن تیز ہو گئی۔ آج اس نے سبز اور جامنی رنگ کی ساڑی پہنی تھی جس پر زرد رنگ کے پھول کاڑھے ہوئے تھے۔ ساڑی کا کنارہ شادابی رنگ کا تھا۔

لمحے بھر کو سکینہ بے زبان ہو گئی۔ اس بے زبانی میں ایک کیف تھا جسے بارش نے ایک اضافی ترنگ میں بدل دیا تھا۔ یہ ترنگ ہی تو محبت کا وہ سرور ہے جسے اس نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اس سرور میں وجدان پر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے اور آدمی ساری موجود چیزوں سے ماورا ہو جاتا ہے۔

یہ بیگانگی ذات کو محور اور اساس عطا کرتی ہے۔ آج وہ اپنے بدن کے اندر اپنی ترنگ میں سرشار تھی۔ عبد العزیز کی نگاہوں کا لمس اس کے بدن کے جس حصے سے گزرتا۔ ۔ ۔ وہاں وہاں وہ ارتعاش سا محسوس کرتی۔ بارش نے اس ارتعاش میں ایک رنگ اور شامل کر دیا تھا ْ۔ جو فطرت کے مظاہر سے علیحدہ ہو کر محبت کے جذبے کو تقویت پہنچا رہا تھا۔ فطرت کا محبت سے ابدی رشتہ ہے۔ کائنات کی ہر شئے محبت کرنے والوں کو ہم نفس وہم جان کرنے کے لئے جواز بننا چاہتی ہے۔ آج ہر شئے سکینہ کے من کے ترانے کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئی تھی۔

عبد العزیز ایک قدم آگے بڑھا اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ اسے بتایا۔ سکینہ نے اس کے ہاتھ کو دیکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ عبد العزیز کی ہتھیلی پر سرخ اور نیلی سیاہی سے چھوٹے چھوٹے حروف میں سکینہ سکینہ سکینہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لکھا ہوا تھا۔ گھنٹوں اس کا جسم بارش میں بھیگ چکا تھا اور اسی سبب ہتھیلی پر لکھے گئے حروف کی سیاہی پھیل گئی تھی اور یوں لگتا تھا وہ نام نہیں بلکہ مینا کاری کا کوئی نمونہ ہے۔ سکینہ نے ہتھیلی پر سے نظریں اٹھائی تو عبد العزیز نے کہا۔ ۔ ’’آپ کو یوں نہ دیکھوں۔ ۔ ۔ ۔ تو کسے دیکھوں۔ ۔ ؟‘‘

سکینہ نے اس کی ہتھیلی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔

’’آپ کو دیکھنے کے لئے اتنے دنوں سے تڑپتا رہا ہوں۔ ۔ ‘‘

’’تجھے میرے گھر آنا چاہئے تھا۔ ‘‘

’’آپ نے اس روز کس بے رحمی سے مجھے جانے کے لئے کہا تھا۔ ‘‘

’’میں بہت پریشان تھی۔ ۔ مجھے خود پر یقین نہ تھا۔ ‘‘

’’پر مجھے تو یوں لگا۔ آپ مجھ سے ملنا نہیں چاہتیں۔ ‘‘

’’نہیں چاہتی تھی۔ ۔ ۔ مگر اس کے باوجود روزانہ ترا راستہ دیکھا کرتی تھی۔ ‘‘

’’پر مجھے تو ایسا لگا۔ آپ میری صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتیں۔ ‘‘

’’آنکھوں میں تیری تصویر لئے تجھے ہر طرف تلاش کر رہی تھی۔ ‘‘

’’جھوٹ جھوٹ جھوٹ!! آپ نے پیغام کیوں نہیں بھیجا۔ ‘‘

’’میرے من میں ڈر تھا۔ ‘‘

’’ڈر میرے من میں بھی تھا۔ مجھے لگا آپ مجھ سے کبھی بات نہیں کرو گی۔ ‘‘

’’سکینہ آ …(سکینہ مسکرائی …وہ ٹھہر گیا)

’’اب مجھے سکینہ آپا مت بول…‘‘(وہ بھی مسکرایا)

اور اس کی مسکراہٹ کے ساتھ وہ ڈرامائی مکالمہ ختم ہو گیا۔ جو ہمیشہ محبت کرنے والوں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ جو ہمیشہ بناوٹی اور غیر حقیقی لگتا ہے۔ باوجود اس کے ہر محبت میں اس کے لئے ایک مرحلہ ہوتا ہے اور وہ واقع ہوتا ہے۔

 

 

 

 

{۲}

 

’’آپ کو ایسا کہنا چاہئے تھا کہ آپ مجھ سے پیار کرتی ہو۔ ایسا کیوں کہا کہ میں تیرے بچّے کی ماں بننے والی ہوں۔ ‘‘

آم کے پیڑ کے پیچھے چند کھیتوں کے بعد ایک اترن تھی جو دس پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر ایک چھوٹی سی برساتی ندی پر ختم ہوتی تھی۔ ندی کے اس پار گھنا جنگل تھا۔ پگڈنڈی، گدگدا گئی تھی اس لئے وہ دونوں ہرلے کے مٹیالے پانی کے اندر سے جلدی جلدی چل کر ندی کے کنارے پہنچ گئے۔ شمال کی جانب ندی پیڑوں اور بیلوں کی ایک بھول بھلیاں میں داخل ہوتی ہے۔ بارش کے سبب بیلیں زیادہ نکل آئی تھیں جن کے نیچے ہلکا اندھیرا تھا۔ عبد العزیز جنگلی بیلوں کو ہٹاتا رہا اور وہ آگے بڑھتے رہے۔

’’بس اس کے آگے مجھے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘سکینہ نے اسے روکتے ہوئے کہا۔

وہیں ایک بڑا سا پتھر تھا۔ دونوں اس پر بیٹھ گئے۔ تب یکایک عبد العزیز کو وہ پہلا جملہ دوبارہ یاد آیا جسے سکینہ نے اس کے رو برو آتے ہی ادا کیا تھا۔ جو خیالات کی طغیانی اور برسات کے کیف کی وجہ سے اس کے ذہن میں اتر کر معنی کی لہر پیدا کرنے سے پہلے ہی ساکت ہو گیا تھا مگر اب جوں ہی وہ اس پتھر پر بیٹھا جس پر درختوں اور بیلوں سے ہو کر ہلکی ہلکی بوندیں گر رہی تھیں اسے یاد آیا۔ اسے ایسا لگا کہ سکینہ چوک گئی ہے وہ جو کہنا چاہتی تھی اس کے بجائے کچھ اور ہی اس کی زبان سے ادا ہوا ہے، تب اس نے کہا : ’’آپ کو ایسا کہنا چاہئے تھا کہ آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔ آپ نے ایسا کیوں کہا کہ ’’میں تیرے بچّے کی ماں بننے والی ہوں ‘‘تجھے کیا لگا میں نے مذاق کیا ہے ؟‘‘

’’ہاں !مجھے ایسا ہی لگا۔ ‘‘

’’تو پھر تو نظریں جھکا کر میرے پیٹ کو کیوں گھور رہا تھا۔ ‘‘

’’مجھے لگا ہو سکتا ہے آپ مجھے یڑا بنا رہی ہیں …میرا  پوپٹ…‘‘

’’پھر کیا نظر آیا تجھے …‘‘

’’کچھ بھی تو نہیں۔ آپ کا پیٹ تو روز جیسا ہی ہے …‘‘

’’مطلب…؟‘‘

’’مطلب بچہ ہوتا ہے تو بڑا ہوتا ہے نا…؟‘‘

سکینہ اس کے جواب کو سن کر مسکرائی۔ پھر اس کا کان کھینچ کر کہا۔ ’’تو بہت چالاک ہے۔ سب سمجھتا ہے اور میں سمجھتی رہی تو ابھی بچّہ ہے۔ ‘‘

بچّہ تو ہوں مگر اتنا تو سمجھتا ہی ہوں۔ سچ بتاؤ۔ ۔ آپ نے مجھے پوپٹ بنانے کے لئے ایسا کہا تھا نا؟

سکینہ نے اس کی پیشانی پر شفقت سے بوسہ لیا اور دھیمی آواز میں کہا…’ہاں …‘‘

عبد العزیز جھٹ سے کھڑا ہو گیا اور ندی میں اتر گیا۔ دونوں ہاتھوں سے سکینہ پر پانی اچھالنے لگا۔ سکینہ نے اسے چڑانے کے لئے کہا۔

پوپٹ… پوپٹ… پوپٹ

وہ پانی اچھالتا رہا۔

پوپٹ…پوپٹ…پوپٹ

وہ اور تیزی سے پانی اچھالنے لگا۔

٭

 

پھر سکینہ بھی ندی میں اتری اور اس پر پانی اچھالنے لگی۔ وہ ہنستے رہے، ہنستے رہے اور ایک دوسرے کے ساتھ مستی میں دیر تک کھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ تھک گئے اور تھک کر ندی کنارے بیٹھ گئے۔ لمبی لمبی سانسوں سے ان کا سینہ پھول گیا تھا۔ وہ چپ چاپ جنگلی پودوں اور بیلوں کو برسات میں نہاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ جب ان کے دلوں کی دھڑکن کا شور کم ہوا تو ندی کے بہاؤ کا نغمہ انہیں سنائی دینے لگا۔ پیڑوں کی بھیگی شاخوں سے بوندوں کے ٹپکنے کی مدھم موسیقی ان کے کانوں میں اترنے لگی۔ درختوں پر برسنے والی برسات کی لڑی کا احساس ہونے لگا۔ تب سکینہ نے عبد العزیز کو اپنے قریب کھینچا اور کہا۔ ۔ ۔ ’’میں تیرے بچّے کی ماں بننے والی ہوں۔ ‘‘

٭٭٭

 

برٹش ائیر ہوسٹیس نے جھک کر انتہائی نرم ملائم لہجے میں پوچھا۔ ’’ایکس کیوز می، ووڈیو لائک ٹو ہیوسم ڈرنک…‘‘

عبد العزیز چونک کر خواب سے بیدار ہوا۔ حیرانی اور استعجاب کو چھپاتے ہوئے اس نے کہا۔ ۔ ’’اے گلاس آف اورینج جوس۔ ‘‘

کلائی پر بندھی گھڑی پر اس نے نظر دوڑائی۔ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ اس نے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بادلوں کے ٹکڑے دور اور پاس چمک رہے تھے۔ سفید چمکتے ہوئے کپاس کی طرح۔ ۔ ۔ ہوائی جہاز بلند اونچائی پر تھا اس لئے نیلا موجیں مارتا ہوا بحر ہند نیند میں متحرک خواب کی طرح لہراتا دکھائی دے رہا تھا۔ البتہ آسمان صاف تھا۔

آسمان اور سمندر میں کون کس کا عکّاس ہے اس کا فیصلہ کرنا عبد العزیز کے لئے مشکل تھا۔ بس ایک خیال اس کے دل میں پیدا ہوا۔ اتنی دوری کے باوجود دونوں ایک دوجے سے کس قدر مربوط ہیں۔ آسمان اور سمندر!گویا دونوں محبت میں گرفتار ہوں۔ ’’سمندر سکینہ ہے اور آسمان !!‘‘وہ مسکرایا۔ ’’کیسے بچّوں جیسے خیالات میرے دل میں آتے ہیں۔ ‘‘اس نے زیر لب کہا۔ اس کی نظریں سمندر کی اور خود بخود مڑ گئیں۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔ لمحے بھر کے لئے وہ ’’خیال مکت ‘‘رہا۔

جوس کا گلاس اس کی فرنٹ ڈیکس پر رکھ کر ائیر ہو سٹیس آگے بڑھ گئی تھی۔ اس نے گلاس اٹھایا اور ایک ہی گھونٹ میں خالی کر دیا۔ اس کے ذہن میں ایک ہلچل ہوئی اور یادداشت کی انگیٹھی سے ایک غبار اٹھ کر اس کی نظروں کے سا منے پھیل گیا۔ دور تک نیلگوں آسمان اور موجیں مارتا شور مچاتا ہوا بحر عرب کا ساحل تھا۔ جو اس کے گانوسے زیادہ دور نہ تھا۔

ساحل کے کنارے کنارے سرو اور ناریل کے باغات تھے۔ چند مقامات پر سپاری اور شالو کے پیڑ بھی کثرت سے دکھائی دیتے۔

سکینہ چوتھے مہینے میں قدم رکھ چکی تھی۔ گانو میں اس وقت اسپتال نہیں تھا۔ عام طور پر گھروں میں ہی زچگی کرائی جاتی تھی۔ مگر سکینہ کے والد بضد تھے کہ گواگر کے سرکاری اسپتال میں اس کا نام درج کرایا جائے اور ہر مہینے ڈاکٹر آتما رام سے چیک اپ کرایا جائے۔ ڈاکٹر آتما رام ان کے پرانے ملنے والوں میں سے تھے۔

ان کی اہلیہ زندہ ہوتی تو انہیں فکر کی کیا ضرورت ہوتی۔ سکینہ کی شادی کے تیسرے سال ہی دل کے دورے سے اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ اور اب اتنے برسوں کے انتظار کے بعد ان کی اکلوتی بیٹی کی گود میں امید کی کلی کھلی ہوئی تھی۔ اس لئے بھی وہ بہت زیادہ فکر مند تھے۔

وہ جانتے تھے گانو میں جو زچگیاں گھروں میں ہوا کرتی ہیں ان میں بعض اوقات بڑی مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ زچّہ خون کی کی کمی کا شکار ہو گئیں، کبھی دودھ بند ہو گیا۔ ایسے وقت بہت ساری جڑی بوٹیوں کے عرق نکالے جاتے جن پر امام صاحب سے قرآنی آیات کا دم بھی کیا جاتا۔

خدا ہی بہتر جانے۔ ۔ امام صاحب کن آیات کو پڑھا کرتے تھے۔

دوسرے گانَووں میں چند برسوں بعد لوگ یہ جان کر حیران ہوئے تھے کی اتنے برسوں سے وہ جن حضرات کے پیچھے نماز ادا کرتے آئے ہیں وہ لوگ اصل میں امام تھے ہی نہیں بلکہ شمالی ہند کی ریاستوں سے بھا گے یا بھگائے ہوئے آوارہ منش تھے۔ ان میں دو لکھنؤ کے شیعہ شاعر تھے جو دعا و فاتحہ کے وقت انیس کے مرثیوں کے بند پڑھا کرتے تھے۔ اس وقت اہل کوکن کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ایک فرقہ ہے جو مذہب اسلام ہی کا ماننے والا۔ ۔ ۔ مگر سنُیوں سے مختلف ہے۔ جسے اہل تشیع کہا جاتا ہے۔ سُنی گھرانوں میں بچوں کو اُن سے نفرت کرنے کا درس دیا جاتا ہے، انھیں بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ جہنمی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اہل کوکن کو قطعی علم نہ تھا کہ سنُیّوں میں بھی دو بڑے گروہ وہابی اور بریلوی ہیں جنھیں یہ کہتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ کہ ہم جنتی ہیں اور وہ دوزخی۔ ‘‘

اس طرح کے تمام تفرقوں کی عدم موجودگی کے سبب ہی خطہّ کوکن پُر امن تھا۔ کوکنی مسلمان غریب تھا۔ (ابھی عرب ممالک کی دولت سے مالامال نہیں ہوا تھا) مگر امن وسکون سے گھر مسجد کھیت اور جنگل میں وقت کاٹ کر اپنے آپ سے مطمئن تھا۔

ابھی کوکن کے بچوں کے دل شدت پسندی کی لہر سے کا لے نہیں ہوئے تھے۔ وہ ہندو اور دلت دوستوں کے ساتھ اسکول میں بھا ئیوں کی طرح کھیلتے اور جھگڑتے۔ مراٹھی زبان ان کی اپنی زبان تھی۔ اردو کا چلن بھی راستہ بنا رہا تھا مگر ابھی یہ نعرہ بلند نہیں ہوا تھا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ کوکن کے لوگوں کا اردوسے کوئی تہذیبی یا ثقافتی رشتہ نہ تھا۔ یہ تو آگے چل کر مدرسوں کی افیون کو فروغ دینے اور طالبانی نظریات کی تبلیغ کرنے کے لئے اردو کو مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ کوکن کو جو بڑے خسارے ہونے تھے اس کی نیو شمالی ہند کی لسانی جگالی اور مذہبی سیاست پر رکھّی جا رہی ہے۔ یہ بات لوگوں کو معلوم نہ تھی۔

وہ تو ہندو ویدوں کی دی گئی جڑی بوٹیوں پر امام سے دم کر لیتے تھے۔ اگر ڈلیوری میں بچہ آڑا آ جاتا تو گجانند  ڈانگے کو بلایا جا تا۔ جو پیشے سے نائی تھا لیکن اطراف کے گانووں کے بچوں کی ختنہ کی ذمہ داری اسے وراثت میں ملی ہوئی تھی۔ اس کے والد تکا رام ڈانگے کافی مشہور آدمی گزرے ہیں۔ ان کے متعلق ایک افواہ ہمیشہ پھیلی رہی کہ سعودی کے ایک بادشاہ کی ختنہ بھی انہوں نے ہی کی تھی جسے اس کے قبیلے کے نام ’سعود‘ سے پکا را جاتا تھا۔ یہ افواہ کس نے پھیلائی، یہ کبھی پتہ نہ چل سکا۔ تکا رام ڈانگے نے اس بات سے ان کار کیا۔ اس پر لوگوں کا کہنا تھا۔ ’’یہ ان کی انکساری ہے۔ ‘‘

گجانند  ڈانگے کو وسترا چلانے میں مہارت تھی۔ بعض چشم دید گواہوں کا کہنا تھا کہ وہ بدن کی تمام رگوں کو سنسکرت ناموں سے جانتا ہے۔ خاص کر زیر ناف حصے کی تمام رگوں اور شریان کے فرائض اور اصولوں کو۔ ۔ ۔ شاید یہی وجہ تھی جن حضرات کو میدان عمل میں دشواری پیش آتی وہ اس سے اکیلے میں ملاقات کرتے۔ وہ دائیں ہاتھ کی نبض پر انگلیاں رکھ کر کچھ حساب کرتا۔ پھر مسئلے کی نوعیت پو چھتا۔ ایک ہفتہ بعد ایک بڑے ڈبّے میں مربّہ سی کو ئی چیز کھا نے دیتا اور کچھ ہدایت بھی کرتا۔ ہر مریض کو دی گئی ہدایت دوسرے سے الگ ہوا کرتی۔ اس نے مریضوں کے نام ہمیشہ پردے میں رکھے۔ یہی اس کی سب سے بڑی خوبی تھی۔

دس برسوں بعد آمدورفت کے و سائل میں اضافہ ہوا تو گجا نند ڈانگے بھی ایک روز اپنے کنبے کے ساتھ قسمت آزمانے نکل گیا۔ حیرت کی بات یہ کہ پھر وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ البتہ جن کی زندگی میں ازدواجی خوشیاں دوبارہ لوٹ آئی تھیں وہ دل ہی دل اسے بہت یاد کیا کرتے۔ اس کا شکریہ ادا کیا کرتے۔

٭

 

مزید پندرہ سولہ سال بعد جب بمبئی سے نکلنے والا ایک اردو روزنامہ ’اسلامی انقلاب کی چابی‘سورل میں دستیاب ہونے لگا۔ اس وقت تک پرائمری اردو اسکول جونیئر کالج میں بدل گیا تھا۔ اسکول کے احاطے میں طلبہ اس اخبار کے صفحات پلٹے رہتے۔ اس اخبار کو وہ کہتے ’اسلامی انقلاب کی نقلی چابی‘ اور خوب ہنستے۔

ایک روز اس اخبار میں۔ ۔ ۔ ’’شولاپور کے بڑے حکیم صاحب بمبئی میں ‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار چھپا تھا۔ اس اشتہار میں ایک بزرگ آدمی کی تصویر بھی تھی۔ جس کے سر پر مولانا آزاد کی ٹوپی سے ملتی جلتی ٹوپی تھی۔ گانَو کا ایک شخص جو اردو سے نابلد تھا وہ بھی وہیں کھڑا تھا۔ جب اس کی نظر اس اشتہار پر پڑی۔ اس نے فوراً پوچھا۔ ’’ارے یہ فو ٹو کس کا ہے ؟اس کی صورت تو گجانند جیسی لگتی ہے۔ ‘‘اردو کے ایک استاد کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ جو مالیگاؤں سے اردو پڑھانے آئے تھے۔ انہوں نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا۔ ’’کون گجانند بے یہ توکوئی شولاپور کے حکیم ہیں۔ ‘‘

’’یہ بتاؤ جناب لکھیلا کیا ہے ؟‘‘

اسکول ماسٹر نے بلند آواز میں اشتہار پڑھا…

’’ شولاپور کے بڑے حکیم صاحب بمبئی میں ‘‘

’’اپنی مردانہ طاقت (sex )میں کسی قسم کی کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ کثرت احتلام، جریان، عضو مخصوص میں کمزوری آ گئی ہو، رکاوٹ میں کمی ہو، یا اولاد نہ ہوتی ہو، گیس، کمر درد۔ پتھری، عورتوں کے لیکوریا وغیرہ کے لیے بلا جھجھک ۵۰سالہ تجربہ کار حکیم صاحب سے ملیں۔ ‘‘

وقت:صبح۱۰بجے سے شام ۵ بجے تک۔

پچیس سال پہلے اس آدمی نے گجانند  ڈانگے سے اپنی مردانہ کمزوری کا علاج کروایا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی اور نہیں گجانند  ڈانگے ہی ہے۔ وہ جانتا تھا اس کی طرح کے پیشے میں روپ بدلنا لازمی ہوتا ہے کیونکہ نہ مریض چاہتا ہے کہ ڈاکٹر اسے یاد رکھّے اور نہ ڈاکٹر چاہتا ہے مریض آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہوں۔

٭

 

لیکن گجانند نائی خدا نہ تھا۔ مہارت کے باوجود ایک دفعہ اس سے بھی غلطی ہوئی تھی۔ جس کے سبب خون تیزی سے بہنا شروع ہوا جسے روکنا دشوار ہو گیا تھا۔

اس بات کا علم بھی سکینہ کے والد کو تھا۔ ایک ڈرسا ان کے دل میں بیٹھ گیا تھا۔ اس لئے انہوں نے خود ہی سکینہ کے معاملے میں پہل کی اور تیسرے مہینے کی شروعات میں اسے گواگر لے گئے۔ سارے معاملات ڈاکٹر سے طے کئے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہر مہینے کے آخری ہفتے سکینہ کو احتیاطی چیک اپ کے لئے جانا لازم تھا۔ دوسری بار سکینہ اپنی پڑوسن کلثوم کے ساتھ گئی تھی۔

تیسری بار اس نے مجاور حسین سے کہا ’’میں عبد العزیز کو ساتھ لے جاؤں گی‘‘ مجاور حسین نے کہا اچھی بات ہے۔ یوں بھی ان دنوں سکینہ کی ساس سے گفتگو بند تھی اور مجاور حسین اسے کسی طرح مجبور بھی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس کی خوشیوں میں ان کی خوشی تھی۔ مجاور حسین کا خیال تھا کہ عبد العزیزسکینہ کو بڑی بہن کی طرح پسند کرتا  ہے۔ اسی لئے ہر سمئے اس کے آگے پیچھے ناچتا رہتا ہے۔

 

 

 

{۴}

 

موجیں مارتا شور مچاتا بحر عرب اس دوپہر اُپھان پر تھا۔ گذشتہ چار روز متواتر بارش بھی بہت ہوئی تھی۔ ستمبر کی آخری بارش تھی۔ ساحل کے کنارے جو پہاڑی سلسلہ تھا وہ سبز رنگ کی لمبی لمبی جنگلی گھاس کے اگ آنے سے بڑا دلکش لگ رہا تھا۔ تیز و تند سمندری ہوا کے جھونکوں سے ایساسماں بندھتا گویا گھاس نہ ہو لہراتی ہوئی ہزاروارساڑی ہو۔

اس دن سکینہ نے پستہ رنگ کے بلاؤز پر ہلکے ہرے رنگ کی ساڑی پہنی تھی جس کے پلّو پر چھوٹے چھوٹے پھول تھے۔ جو اس نے خود کاڑھے تھے۔

عبد العزیز نے چچا کی تین پتلونوں کو سراج انعامدار ٹیلر سے الٹر کروائی تھیں، جنھیں اب وہ استعمال کرنے لگا تھا۔ گہرے نیلے رنگ کی پتلون اسے بے حد پسند تھی۔ اس پتلون میں سامنے کی اور دو بڑے جیب تھے۔

پہاڑی سلسلے پر جہاں سرد کا بن ختم ہوتا وہاں وہ دونوں جا کر بیٹھ گئے۔ سمندران سے باتیں کرنا چاہتا تھا مگر ان کے اندر ایک دوسرے سے کرنے کے لئے اتنی باتیں تھیں کہ سمندر کی موجوں کا شور وہ سن نہ سکے۔ سکینہ اسے مجاور حسین کے مزاج میں آئی ہوئی تبدیلیوں کے بارے میں تفصیل سے بتاتی رہی۔ وہ اسے اپنی اسکول، اپنی پڑھائی اور والدہ کے بارے میں۔ ۔ ۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اب اسے چھوٹے لڑکوں کے ساتھ گلی ڈانڈالنگوری اور امی تمچاپانیات، کھیلنے میں مزہ نہیں آتا البتہ کر کٹ اور کبڈی اسے زیادہ اچھے لگنے لگے ہیں۔ اب اسے پہلے جیسے خواب نہیں آتے۔ جن میں وہ مٹھائیاں، چاول کی گڑ بھری شیں گیں اور سفیدتلوں والے بور کھایا کرتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ دوسروں کے باغوں سے کا جو، آم اور پھنس چراتا تھا۔ ندی میں تیرتا رہتا تھا۔ اب وہ جو خواب دیکھتا ہے اسے یاد نہیں رہتے۔ ان میں وہ مسافروں کی طرح اجنبی بستیوں میں خود کو، ان دیکھے لوگوں کے ساتھ پاتا۔ اب وہ سیلاب، ندی کی طغیانی، چوہوں کی اس کے بدن پر یلغار دیکھتا۔ وہ دیکھتا ایک نیلا سانپ اس کی چھاتی پر رینگتا ہے۔ ایک عورت چوہے میں بدل کر اس کے لبوں کو چومتی ہے۔ وہ اپنے قریبی رشتے داروں کی لاش کو قبرستان میں دفن کر رہا ہے۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ بہت ساری بے چہرہ عورتیں اس کے گرد رقص کر رہی ہیں۔ پھر وہ سب مل کر اس کے بدن سے اپنے اپنے حصّے کی آسودگی چراتی ہیں۔ وہ خالی ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو دوڑتا ہوا دیکھتا ہے۔ اکثر اس کے پیر زمین سے اونچائی پر ہوتے ہیں۔ گویا وہ ہوا میں دوڑ رہا ہو۔ ایک خواب جو اسے یاد تھا وہ اس نے سکینہ کو سنایا جس میں رنگ برنگے سانپ اس کے بستر پر رینگتے رہتے ہیں۔ وہ گہری نیند میں ہے۔ سانپ اس کو ڈسنے کی بجائے اس کے بدن کو چومتے ہیں۔ اس سے پیار کرتے ہیں۔

سکینہ تجسُس کے ساتھ اس کی باتوں کو سنتی رہی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’محبت کرنے والوں کو ہمیشہ عجیب خواب نظر آتے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘سنجیدگی سے عبد العزیز نے جاننا چاہا۔

’’کیوں کہ۔ ۔ ۔ ‘‘وہ ٹھہر گئی۔

’’کیوں کہ محبت کرنے والوں کے دل میں ہزاروں ڈر رہتے ہیں ‘‘

عبد العزیز کو سکینہ کی بات پسند آئی۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا۔ سکینہ برابر اس سے نظریں کب ملاتی تھی۔ اس نے یہاں وہاں دیکھا تاکہ عبد العزیز کی آنکھوں سے نکلنے والی تابکاری سے منتشر نہ ہو جائے۔ عبد العزیز نے کہا ’’کیا آپ کو بھی ڈر لگتا ہے ؟‘‘

لمحے بھر کو سکینہ چپ رہی پھر اس نے سمندر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘ عبد العزیز نے پوچھا۔

’’کیوں کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ ‘‘

’’تو پھر ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘

’’جہاں ڈر نہیں ہو تا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’جہاں ڈر نہیں ہوتا وہاں کیا؟؟؟‘‘

’’وہاں محبت بھی نہیں ہو تی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’عبد العزیزاس جملے پر غور کرنے لگا۔ پھر اس نے کچھ سوچ بچار کے انداز میں پوچھا۔ ‘‘ڈر کس بات کا ہوتا ہے ؟‘‘

’’ہر بات کا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’سب سے زیادہ کس بات کا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’سب سے زیادہ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ سب سے زیادہ ؟‘

سکینہ نے پلو کے سفید پھولوں کو انگلیوں میں دباتے ہوئے کہا۔ ’’جس سے پیار کرتے ہیں اسے پا لینے کا ڈر۔ ۔ ۔ ‘‘

عبد العزیز نے منہ بنایا اور استعجاب سے کہا۔ ’’پا لینے کا ڈر !!!‘‘

’’ہاں ‘‘سکینہ نے اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے رک کر کہا۔ ’’ہاں !جہاں صرف محبت ہو وہاں پانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’کیوں کہ محبت میں کسی کو پا لینا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘

عبد العزیز کا چہرہ کچھ گمبھیر، کچھ کنفیوژ اور کچھ فکر مند دکھائی دیا۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر کہا۔ ’’مطلب پانا بے حد مشکل ہے اس لئے اس کا ڈر۔ ۔ ۔ میں نہیں سمجھا۔ ۔ ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘

سکینہ اس کے چہرے کو پڑھ چکی تھی۔ اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بدھّو!ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ پا کر پھر ہم اسے کہیں کھو نہ دیں۔ جو چیز مل جاتی ہے اسی کو تو کھونے کا ڈر رہے گا نا؟‘‘

عبد العزیز نے سکینہ کی اس سادہ منطق پر غور کیا۔ اسے ایسا لگا وہ ساری بات سمجھ گیا ہے۔ سکینہ ریت میں انگلیاں گاڑے بیٹھی تھی۔ اسے معلوم تھا چند برسوں میں عبد العزیزاس قابل ہو جائے گا کہ وہ سمجھ جائے گا کہ جہاں محبت ہو، وہاں ڈر کھونے کا نہیں بلکہ حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ محبت ہو تو کھونا کیا۔ ؟ساتھ نہ ہونے کا مطلب کھو دینا تو نہیں ہوتا جس طرح سا تھ جینے کا مطلب پا لینا نہیں ہوتا۔

بہت دیر تک وہ یونہی بیٹھے رہے۔ پھر یکایک عبد العزیز کو کیا سوجھی کہ اس نے کہا۔ ’’چلو، سمندر میں تھوڑا سا کھیلتے ہیں۔ ‘‘

عبد العزیز کی یہ بات سن کر پہلے تو وہ حیران رہ گئی پھر اس کے چہرے پر حیا کی ایک دبیز قبا پھیل گئی۔ وہ مسکرائی۔

’’چلو تو۔ ۔ کتنی اچھی دھوپ ہے۔ ‘‘عبد العزیز نے اسے مسکراتے دیکھ کر کہا۔

حیا کی تہہ ایک لہر بن کر اس کے چہرے پر اُبھری۔ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو کھولا۔ اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ ’’عزیزپوٹات تجاپور ہے، تیا لاتکلیف ہوئیل‘‘[عزیز۔ پیٹ میں تیرا بچہ ہے، اسے تکلیف ہو گی۔ ‘‘

عبد العزیز بھول گیا تھا کہ اب سکینہ کا پیٹ ابھر آیا ہے۔ اور وہ اس کے ساتھ سمندر میں کھیلنے نہیں بلکہ گوا گرکے سرکاری ڈاکٹر سے معائنہ کروانے آئی ہے۔ چونکہ ڈاکٹر کو آنے میں دیر تھی اس لئے وہ سمندر کنارے آ گئے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سکینہ ہونے والے بچے کے تعلق سے بے حد فکر مند ہے۔ یادداشت کی واپسی کے ساتھ ہی عبد العزیز کے چہرے پر شرمندگی سی طاری ہو گئی۔

’’معاف کرا۔ ۔ ۔ می اسرلوں ہو توں۔ ۔ ۔ ‘‘اتنا بمشکل کہہ کروہ اس کے اور قریب آ گیا۔

ایک دوسرے سے لگ کر وہ بہت دیر تک یوں ہی بیٹھے رہے۔ ساحل پر شور مچاتی موجوں سے بے پرواہ۔ ۔ ۔ تیزو تند ہواؤں کی سرگوشی کو سننے سے محروم، گویاساری دنیا میں اس لمحے دوسری کوئی شئے ان کے لئے بامعنی نہ تھی۔ چوں کہ وہ سروکے پیڑوں کے عقب اور پہاڑی سلسلے کے قریب جا کر بیٹھے تھے اس لئے کسی کے وہاں آنے کا خیال تک ان کے ذہن میں نہ تھا۔ وہ چپ تھے۔ ان کی روحیں مسرور تھیں۔ دونوں الگ الگ باتیں سوچ رہے تھے۔ مگر دونوں کی باتوں کا محور ایک تھا۔ سکینہ کے بطن میں زندگی کالباس اوڑھتی روح، ان کے اپنے بدن اس لباس کی خوشبو کو محسوس کرنے لگے تھے۔

چند روز قبل عبد العزیز نے سکینہ کی ناف کے اردگرد اپنی انگلیاں ہولے ہولے پھیری تھیں۔ پاس سے گزر نے والی فرشتوں کی جماعت نے ٹھہر کر یہ نظارہ دیکھا تھا۔ ان میں جو کم عمر فرشتہ تھاجسے زمین پر عبادت میں محو لوگوں پر رحمت برسانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس کا دل اس نظارہ عشق سے پسیج گیا تھا۔ بہت دیر تک وہ آئینہ حیرت بنا رہا۔ پھر اس کی نیلی ملائم سبز آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے عمر دراز فرشتہ جس کی داڑھی اس کی ناف تک بڑھی ہوئی تھی اس نے کم عمر فرشتے کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا۔ ’’دل مضبوط کر۔ ۔ ۔ عبداندراج ابن عبد۔ ‘‘

’’دل ہے ہی کہاں سردار۔ ۔ ۔ دل ہوتا تو منکرِ ذاتِ باری نہ ہو جا تا۔ ‘‘

’’یہی ہماری خوش نصیبی ہے اور اسی لئے ہمیں قُربِ حقیقی نصیب ہے۔ ‘‘

’’قُرب حقیقی کے باوجود ہم کیا ہیں۔ ۔ ۔ ؟ہم سے زیادہ بامعنی تو اس خاکی کا سایہ ہے۔ ‘‘

عمر دراز فرشتہ نے کم عمر کی زبان پر انگلی رکھی اطراف حیران و پریشان فرشتوں کو قریب بلایا اور کہا۔ ۔ ۔ ’’یادداشت فرموش، فراموش یاداشت کنم۔ ‘‘

سب نے تین بار دہرایا۔ یہ ان کی تشکیلی ہئیت کا کوڈ تھا۔ جس کا مطلب ہوتا ہے۔ جو کچھ سنا گیا ہے۔ وہ سنا نہیں گیا…

پل بھر میں وہ سب تتلیوں میں بدل کر ان دونوں کے اطراف منڈلاتے رہے۔ اس منظر کو صرف شگفتہ نے دیکھا تھا۔ املی کے پیڑ کو یہ بات بتانے کے لیے اسی پل سے وہ بے چین تھی۔

’’لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا؟پوری روداد سننے کے بعد املی کی ایک شاخ نے دبی زبان پوچھا۔

’’وہ چاہتے تھے محبت میں ڈوبے دو بدن آسمانوں پر لگے کیمروں میں قید نہ ہوں۔ ‘‘

شگفتہ نے پُر اسرار لہجے میں جواب دیا۔

’’کیوں …؟‘‘ایک شاخ نے پوچھا جس کے پّتے سوکھ کر جھڑ گئے تھے۔

’’کیوں …کیوں کہ محبت دستورِ عمل میں جرم ہے۔ ‘‘

’’جرم …کیوں ؟‘‘ایک شاخ نے فوراً پوچھا جو ابھی ہری بھری تھی، اور جس پر ایک نیلے پروں والی چڑیا نے گھونسلا بنایا تھا۔

’’مرد اور عورت کی محبت وہ واحد خوشی ہے جس کے ذائقے سے مکاتب دستور عمل نا آشنا ہیں۔ ‘‘

’’تو وہ آشنائی حاصل کریں ‘‘۔ ۔ ۔ مسکراکر جوان شاخ نے کہا۔

’’ممکن نہیں ہے احمق۔ ۔ ۔ ‘‘شگفتہ نے بر جستہ جواب دیا۔

’’جلدی سے بتاؤ کیوں ؟‘‘ نیلی چڑیا نے گھونسلے کے تنکوں کو پھیلاتے ہوئے کہا۔

’’اس مسرت روحانی کے لئے ابدان کا تحلیل ہونا شرط ہے اور مکاتب دستورعمل بدن سے محروم ہیں۔ ‘‘

’’تو پھر وہ کیا ہیں۔ ‘‘

’’پھر وہ اتنے طاقت ور کیوں ہیں۔ ‘‘

’’وہ طاقت ور نہیں ہیں، بلکہ محروم ہیں۔ ان کی قوت ان کے ارادے میں نہیں بلکہ کیمیا میں ہے۔ ‘‘

’’میں نہیں سمجھی۔ ۔ ۔ ‘‘چڑیا نے کہا۔

’’مطلب وہ اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ وہ خواہش سے بھی محروم ہیں۔ ان کی حیثیت چابی بھرے کھلونوں کی طرح ہے۔ ‘‘

’’اوپ۔ ۔ ۔ ! جوان شاخ نے غور کرنے والے انداز میں کہا۔ ۔ ۔ ‘‘ اسی لئے وہ انسان سے کھار کھاتے ہیں !‘‘

’’بالکل صحیح!کیوں کہ انسان ارادہ کرتا ہے۔ اس سے بڑی طاقت اور کیا ہے۔ ‘‘

’’میری اب سمجھ میں آیا۔ ‘‘چڑیا نے حامی بھری۔

اور ایک بات یاد رکھنا۔ ۔ ۔ کائنات کے سارے عناصر انسان پر ر شک کرتے ہیں کیوں کہ انسان میں محبت کرنے کی صلاحیت ہے۔ ‘‘شگفتہ نے اس کو مخاطب کر کے کہا۔ نیلی چڑیا نے شرماتے ہوئے موسیقی کا ایک بہت ہی چھوٹا ٹکڑا ادا کیا۔ رات کی خاموشی میں دور تک ارتعاش ہوا؛آس پاس کے پیڑوں کے جگنوؤں نے ایک ساتھ روشن ہو کر موسیقی کی معنویت میں اضافہ کیا۔

٭

 

اس کی انگلیوں کے لمس سے سکینہ کے اندر پوشیدہ ممتا کا جذبہ اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا۔ وہ زار زار رونے لگی تھی۔ عبد العزیز حیران وششدراسے دیکھتا رہا۔ پھراس نے ہمت کر کے پوچھا۔ ‘‘بات کیا ہے۔ میرا ہاتھ لگا نا آپ کو خراب لگا؟‘‘

’’نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’پھر آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں ؟‘‘

’’عزیز۔ ۔ ۔ میں ترے بچے کو اپنی گود میں مسکراتے ہوئے دیکھنے کے لیے بے چین ہوں۔ ‘‘

عبد العزیز کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ یہ کیفیت اس کے لئے غیر متوقع تھی۔ وہ کسی طرح سکینہ کو ہنسا نا چاہتا تھا۔ اس نے دماغ پر زور دیا۔ تب اسے ایک ترکیب سجھا ئی دی۔ اس نے فوراً اپنا سر اس کی گود میں ڈال دیا۔ سکینہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ ’’ارے کیا کر رہے ہو۔ ‘‘

’’دیکھو۔ ۔ ۔ جب تک بچہ دنیا میں نہیں آتا آپ اپنی گود میں میرا چہرہ دیکھا کرو۔ ‘‘

اُفوہ۔ ۔ ۔ تم بچہ ہو کیا۔ ‘‘کبھی کبھار وہ اسے تو کی بجائے تم بھی کہنے لگی تھی۔

’’تو کیا ہوا بچے کا باپ تو ہوں نا؟‘‘

وہ مسکرائی۔

عبد العزیز بھی مسکرایا۔

اس نے دوبارہ کہا۔ ۔ ۔ ’’معاف کر، می اسرلوں ہو توں۔ ۔ ۔ ‘‘(معاف کر میں بھول گیا تھا۔ )

٭

 

اس کے پشیمان چہرے کو دیکھ کر سکینہ کے دل میں جا نے کیا خیال آیا۔ وہ کھڑی ہو گئی۔ دھیرے دھیرے سمندر کی طرف بڑھنے لگی۔ عبد العزیز اسے دیکھتا رہا۔ وہ پانی تک پہنچ گئی۔ اس کے پیروں کو سمندر کی لہریں بوسہ دینے لگیں۔ تب وہ مڑی اور اس نے اشارے سے عبد العزیز کو بلایا۔

وہ بہت دیر تک سمندر میں کھیلتے رہے۔

جب اسپتال کی طرف واپس ہو رہے تھے تب عبد العزیز نے پوچھا۔ ’’تم نے تو پہلے کہا تھا۔ ’’پوٹاٹ پور ہے تکلیف ہوئیل‘‘

’’ٹھیک ہی تو کہا تھا۔ ‘‘

پھر خود ہی اٹھ کر پانی میں کیوں گئے۔

’’جو اندر ہے وہ بھی تو، تو ہی ہے۔ ‘‘

’’پوپٹ بنا رہی ہو…؟‘‘

’’نہیں رے …سچ مچ، جب عورت محبت کرتی ہے تو مرد اسے اپنا بچہ ہی لگتا ہے۔ ‘‘

’’قسم سے …‘‘عبد العزیز نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں …ہونے  والا یا وہ جو کبھی نہ ہو۔ ‘‘سکینہ نے نظریں نیچی کرتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو!آج کل آپ ایسی باتیں زیادہ کرتی ہو، جو میری سمجھ کے اوپر سے جاتی ہیں۔ ‘‘

’’میری باتیں تجھے دیر سے۔ ۔ ۔ پر سمجھ میں آئیں گی ضرور…‘‘

٭

 

اسے یکایک ہچکی لگی۔ وہ اپنی سیٹ پر سے اٹھا اور ہوائی جہاز کی لیٹرین میں گیا۔ وہاں اس نے منہ دھویا جیب سے رو مال نکال کر چہرہ پونچھا اور پھر آئینے میں اپنے بال بنائے۔ اپنے چہرے کو دیر تک بغور دیکھتا رہا۔ تب اسے دوبارہ سکینہ کا جملہ ہوبہواس کے لفظوں کے ساتھ یاد آیا۔ ’’میری باتیں تجھے دیر سے۔ ۔ ۔ پر سمجھ میں آئیں گی ضرور۔ ۔ ۔ ‘‘

 

 

 

{۵}

 

واپس آ کروہ اپنی سیٹ پر بیٹھا۔ کال بیل کا بٹن دبایا۔ اس بار ایک دبلی پتلی ائیر ہوسٹس آئی عبد العزیز نے اس سے پانی طلب کیا۔

پانی پینے کے بعد اس نے پیر پھیلائے اور سیٹ کو پیچھے کیا۔ یہ پوزیشن اسے زیادہ آرام دہ لگی۔ اس نے آنکھیں موند لیں، یہاں اس نے آنکھوں کے شٹر گرائے وہاں ایک کلکاریاں مارتا ہوا چہرہ اس کے دیدوں میں اجاگر ہوا۔ یہ چہرہ جب عبد العزیز کے خوابوں میں آتا ہر بار ایک عجب روپ میں بدل کر غائب ہو جاتا۔ اس کی آواز کی طرف وہ بڑھنے لگتا۔

اس چہرے سے متعلق ایک خواب اس نے متواتر کئی بار دیکھا تھا۔ ہر بار اس خواب نے سراسیمگی میں مبتلا کر دیا۔

اسے ایسا لگتا وہ جنگل کے کنارے کھیتوں کے آس پاس کھڑا ہے۔ جنگل کی سرحد سے یہی کلکاریاں اس کے کانوں میں پڑتی ہیں۔ اس کے قدم آواز کی طرح بڑھنے لگتے ہیں۔ وہ آواز اسے اندرون جنگل آہستہ آہستہ لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جنگل کے سب سے گھنے حصے میں پہنچ جاتا ہے۔ پیڑ اسے مہیب چہرے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ سبز و زرد بیلیں زنجیریں بن جاتیں۔ اسے لپیٹ لیتیں۔ دھیرے دھیرے اس کا لہو چوسنے لگتیں۔ مہیب چہروں کے درختوں کی شاخیں لمبے لمبے ناخن دار پنجوں میں بدل جاتیں۔ اس کی چیخ اس کے حلق میں دب جاتی۔ خونی بیلیں اس کے جسم میں اتر جاتیں۔ خون کا آخری قطرہ چوس لینے کے بعد دوبارہ آہستگی سے لوٹ کر اپنے اپنے مقامات پر چلی جاتیں۔ اس کے مردہ جسم کو دیکھ کر مسکراتیں۔

کلکاریاں اس کے مردہ جسم کے اطراف گردش کرنے لگتیں۔ پھر ایک حزنیے میں بدل جاتیں۔ موسم خزاں میں بدل جاتا۔ اس کے جسد خاکی پر پتّوں کی برسات ہونے لگتی۔ پت جھڑکی آواز میں حزیں کلکاری بہنے لگتی ہے۔ سوکھے پتّوں کے انبار تلے اس کا بدن سڑنے گلنے لگتا ہے بے شمار کیڑے اس کے نتھنوں اور دیدوں سے اس کے مردہ جسم میں داخل ہوتے۔ اس کے اندر کے مادوّں کو کرید کرید کر کھانے لگتے۔ بعض کیڑوں نے بائیں پسلی کے پاس سے جہاں خونی بیلوں نے چھید کیا تھا وہاں سے شارٹ کٹ بنا لیا۔ پھر گلتے ہوئے جسم سے گوشت اور چربی کی آخری تہیں نکال نکال کر مزدوروں کی طرح اپنے بلوں اور قلعوں میں لے جانے لگے۔ جب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تو بچھوؤں کے ایک کنبے نے اپنے گھر کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔

بارش آئی۔ مٹی کی جھیج شروع ہوئی۔ اس کی ہڈیوں پر مٹی کی پرتیں جم گئیں۔ چند ہفتوں بعد اتنے حصے میں جہاں اس کا بدن سڑ گل گیا تھا وہاں گھاس پوس اگنے لگی۔ جہاں خونی بیلوں نے اس کی بائیں پسلی میں چھید کیا تھا وہاں سے ایک بیل پھوٹی۔ بارش برابر ہوتی رہی۔ ۔ ۔ مہینہ بیت گیا۔ اب وہ بیل پھیل گئی۔ چند روز بعد اس پر گلابی رنگ کے ستارہ نما پھول آنے لگے۔ ان پھولوں کے ارد گرد تتلیاں، پتنگے، بھنگریاں اور جنگلی کیڑے مکوڑے آآ کر اس کی خوشبوسے اپنا جی بہلانے لگے۔ رات میں جگنو آس پاس جھلملاتے، اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھا کرتے۔

ہر بار خواب کے اس حصے میں اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ اپنے کمرے میں اس ستارہ نما پھول کی مہک کو محسوس کرتا۔ یہ مہک اسے عجیب مخمصے میں ڈال دیتی۔

 

 

 

 

 {۶}

 

اس نے آنکھیں کھولیں اور جیب سے ایک چھوٹی سی بلیک اینڈ وائٹ تصویر نکالی۔

سکینہ کی ڈلیوری کے دوسرے ہی روز اس کے والد نے پانڈو راؤ فوٹو گرافر کو اسپتال بلوا کر یہ تصویر اتاری تھی۔ اس روز عبد العزیز نے پہلی بار کیمرہ دیکھا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ ہو کیا رہا ہے ؟اسے تو یہ لگا تھا کہ یہ بھی کوئی ڈاکٹر ہے جو سکینہ اور بچے کو دیکھنے آیا ہے۔ بعد میں سکینہ نے اسے سمجھایا کہ وہ کوئی مشین نہیں بلکہ کیمرہ تھا۔

اسے سکینہ کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ وہ باہر گیا جہاں احاطے میں اس کی ماں گانو کے لوگوں کے ساتھ بیٹھی بات چیت کر رہی تھی۔

’’ماں !وہ فوٹو نکالنے کی مشین تھی۔ ؟‘‘

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ‘‘مہرون نے کہا۔

’’ہاں۔ ۔ ۔ اپنے گانو میں تو کسی کے پاس نہیں ہے۔ ‘‘

’’بیٹا یہ بہت مہنگی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’اور فوٹو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’وہ سستا ہوتا ہے۔ ‘‘

پھر آپ نے میرا فوٹو آج تک کیوں نہیں نکالا۔ اس نے جھٹ سے سوال داغا۔ مہرون نے اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پاس بیٹھے ہوئے مجاور حسین سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ ہی سمجھایئے اسے۔ ۔ ‘‘پھر گردن گھما کر اس نے عبد العزیز کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ارے بیٹا، ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اور تو گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اپنے بازار میں فوٹو والا بھی نہیں ہے نا۔ تو نے گانو میں کسی کا فوٹو دیکھا ہے۔ ‘‘

یہ دلیل اسے درست لگی۔ کیوں کہ واقعی اب تک اس نے گانو میں کسی کے گھر میں تصویر یں نہیں دیکھی تھیں اور جن دو چار گھروں میں تصاویر تھیں ان میں اس کی رسائی نہ تھی۔ وہ گانو کے سیٹھ لوگوں کے گھر تھے۔

٭

 

اسپتال میں لوگ پھل اور گھر کی بنی چیزیں لے کر مبارک باد دینے آتے رہے۔ شام کے قریب جب مہرون واپسی کے لئے تیار ہونے لگی تب وہ دوبارہ سکینہ کے پاس گیا۔ اتّفاق سے اس وقت وہاں کوئی اور نہ تھا۔

اس نے سکینہ کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ نوزائیدہ کے ہونٹوں کو پیار کیا۔ سکینہ کے چہرے پر خوشیاں تھیں۔ وہ عبد العزیز کو گلے لگا کر گھنٹوں اس سے لپٹی رہنا چاہتی تھی۔ اس نے اسے قریب بلایا اور اس کے کان میں کہا۔ ’’یہ محبت کی نشانی ہے۔ اور محبت کی ہر نشانی خطرناک ہوتی ہے۔ ‘‘

عبد العزیز نے اس کی آنکھوں میں بہ غور دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شادمانی اورسرشاری تھی۔ اسے ماں بننے کی خوشی اس قدر تھی کہ وہ خود، پل بھر میں بھول گئی کہ عبد العزیز کے کان میں اس نے جو بات کہی ہے۔ اس کے معنی کیا ہیں۔ عبد العزیز کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے اس نے کہا۔ ’’شام ہونے آئی ہے۔ ۔ اب تو جا۔ ۔ کل مت آنا۔ ۔ میں پرسوں گھر آ جاؤں گی۔ ‘‘

عبد العزیز اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’تیرا امتحان سر پر ہے اس لئے کہہ رہی ہوں۔ ۔ برا مت ماننا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ یوں بھی پڑھائی نہیں ہوئی ہے۔ لگتا ہے فیل ہو جاؤں گا۔ ‘‘ عبد العزیز نے کہا۔

’’بدھّو!تجھے میری دعا ہے۔ تو کسی امتحان میں فیل نہیں ہو گا۔ گھر پر میرے یہاں پڑھائی کے لئے آ جانا۔ میں نے تیری ماں سے بات کر لی ہے۔ ‘‘

وہ مسکرایا۔ اور مسکراتے ہوئے وارڈ سے باہر نکلا۔ سکینہ کے چہرے پر بہت دیر تک مسکراہٹ پھیلی رہی۔ جس سے اس کی آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہو گیا تھا۔

آج سے بارہ سال پہلے یہ تصویر نکالی گئی تھی۔ اتنے برسوں سے عبد العزیز نے اس تصویر کو بڑی عقیدت سے سنبھالے رکھا تھا۔ اب اسے یہ تصویر آثار قدیمہ کے نمونے کی طرح لگتی ہو گی۔ کیوں کہ اب اس کے ارد گرد زندگی بہت تیزی سے بدل گئی ہے۔ ۱۹۷۵ء میں گانو کے دو نوجوان کویت [ملازمت کے لئے ]جانے نکلے تو پورے گانو میں ماتم کا سماں تھا۔ ہر ایک کا چہرہ اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ پردیس میں ان پر کیا گزرے گی۔ لوگ ان سے ملنے آتے، جدائی کے خیال سے ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔

انھیں ایس ٹی بس سے بمبئی جا کر وہاں سے ہوائی جہاز میں سوار ہونا تھا۔ ۔ ۔ لگ بھگ آدھا گانو ایس ٹی اسٹینٖڈپر انھیں رخصت کرنے گیا تھا۔

لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ایک دوسرے کی غربت کا پیوند تھے۔ کئی دنوں تک گانو کے لوگ، کویت جانے والے نوجوانوں کے گھر کا چکر کاٹتے رہے اور خیرخیریت دریافت کرتے رہے۔ جب ڈاکیہ کویت سے پہلا خط لے کر پہنچا تھا تو اسے خوشی سے شکر کھلائی گئی تھی۔ اس کے بچوں کو مٹھائی کے لئے پانچ روپئے دئے گئے۔

سات آٹھ مہینوں بعد انہوں نے، اپنے قریبی رشتے داروں کے لئے چار ویزا حاصل کئے۔ پھر سلسلہ ہجرت شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تین چار برسوں میں ہر گھر سے ایک نہ ایک آدمی، کویت، قطر، دوبئی اور سعودی میں ملازمت کے لئے چل پڑا۔ دوری اور جدائی کا احساس ماند پڑ گیا۔

اس سال گانو میں بجلی آئی۔ خلیجی ممالک سے چھٹی پر آنے والے افراد نے جاپان، جرمنی اور کوریا کے برقی آلات لانے شروع کئے۔ جن سے ہزاروں برسوں سے چلے آئے چراغ، دئے اور شمعی بجھ گئے۔ لکڑی کے چولہے، مٹی کے برتن، پاٹے، موسل، گھوٹنی، وروٹا، ولن، سالک، کانسے، کھاپڑی، گھونگڑی، ناریل کے کاتے، گونپٹ کے پاپوش، ہاتھوں سے بنائی ہوئی تھیلیاں اور مٹی کے کھلونے اپنی اہمیت اور افادیت کو کھو بیٹھے۔ دولت آتے ہی لوگوں نے مٹی کی دیواروں کو مسمار کر کے چرے، اینٹ اور سمینٹ کے پختہ مکانات بنانے شروع کئے۔ پھر آرائشی لوازمات سے ان کی زینت بڑھانے کی دوڑ شروع ہوئی۔ اب گھروں میں بادام، لونگ، دارچینی، الائچی، زیتون کے تیل، لکس صابن اور عطریات کی بہتات ہو گئی۔ ملبوسات میں یکایک تبدیلی ہو گئی۔ جوتے چپل بھی چین اور انڈونیشیا کے پہننا فیشن بن گیا۔ امرت انجن بام کی جگہ ابو فاس اور ٹائگر بام نے لے لی۔ سونا گہنے کی جگہ نمائش بن گیا۔

خلیجی ممالک سے ان لوگوں نے ایک اور چیز اپنے ساتھ لائی۔ اور وہ تھی عربوں کی ثقافت۔ اب عورتوں کے لئے وہ برقعے اور بزرگوں کے لئے جا نماز اور اندھیرے میں چمکنے والی سبز تسبیحات۔ ہر بات میں اسلامی آداب کا ذکر ہونے لگا۔ بچوں کے نام بھی عربی طرز کے رکھے جانے لگے۔ عورتوں کو نماز کی تلقین کی جانے لگی۔

بعض نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینا لازمی سمجھا۔ چوں کہ اس وقت قرب و جوار میں بھی کوئی باضابطہ مدرسہ نہ تھا۔ اس لئے با حیثیت لوگوں نے اپنے بچوں کو شری وردھن کے ایک مدرسے میں بھیجنا شروع کیا۔

گانو کے لڑکے جو مدرسوں سے چھٹیوں میں واپس آنے لگے تو انہوں نے مدرسے کے خیالات کو پھیلانا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پھرجسے دیکھو۔ ۔ سفید کرتا اور ٹخنوں کے اوپر پائجامہ پہنے، ثواب اور گناہ کے موضوع پر بحث کرنے لگا۔ اس بحث کی گاج عورتوں پر گری۔ ان کے لئے نئے نئے احکامات صادر ہونے لگے۔ عورتوں، لڑکیوں اور نو بالغ بچیوں کو برقعے پہنائے گئے۔ کیونکہ اب برقعہ نہ پہننا بد چلنی اور بے حیائی کی علامت بن گیا۔ بعض نے اپنی بچیوں کو مالیگاؤں کے مدرسوں میں علم دین حاصل کرنے کے لئے بھی بھیجا۔

مختصراً یہ کہ خلیجی ممالک کی دولت نے گانو کی کایا کلپ کر دی۔ جہاں معاشی طور پر لوگ خوشحال ہونے لگے وہیں ثقافتی اور تہذیبی سطح پر مقامی کلچر سے رفتہ رفتہ دور ہونے لگے۔ اب ہندو…کافر ہو گئے تھے۔ اب مراٹھی بت پرستوں اور مشرکوں کی زبان۔ بعض نے صاف کہہ دیا۔ ۔ ’’مراٹھی زبان میں بچوں کو پڑھانا مطلب کافروں کے اثرات قبول کرنا ہے۔ ‘‘

شروع میں لڑکیوں کو ہدایت کی گئی کہ لڑکوں سے ہاتھ ملانا حرام ہے اور چند سال بعد بات چیت کرنے کو بھی غیر شرعی فعل قرار دے دیا گیا۔

کشادہ گھروں میں آرام دہ زندگی پنپنے لگی مگر اس کی قیمت گانو کو بہت بھاری چکانی پڑی۔ اب گانو گھروں کا مجموعہ تھا۔ دلوں کی انجمن نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب چہارم

 

میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا

 

ہوائی جہاز بمبئی کے اوپر سے پرواز کر رہا تھا۔ کمر کا پٹہ باندھنے کی ہدایت کی گئی۔ عبد العزیز نے تصویر دوبارہ جیب میں رکھّی اور بیلٹ باندھ لیا۔

٭٭

 

ائیر پورٹ کے باہر مہرون اس کے والد اور چچا انتظار کر رہے تھے۔ چوں کہ بمبئی میں کوئی قریبی رشتے دار نہیں تھا اس لئے کرائے کی کار سے وہ سیدھے ائیر پورٹ پہنچ گئے تھے۔

مہرون کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ بیٹے کے دیدار کے لئے وہ بے قرار تھی۔ گانؤ سے ممبئی تک نو گھنٹے کے سفر میں ایک پل کے لئے بھی اس کی آنکھ نہیں لگی تھی۔ وہ تھک سی گئی تھی اور اس کا دل ممتا کے جذبے سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی نگاہوں میں عجیب سی الجھن تھی۔

اپنی ٹرالی ڈھکیلتے ہوئے عبد العزیز ایکزٹ ڈور سے باہر نکلا۔ جوں ہی مہرون نے اسے دیکھا اس کے دیدوں میں صبر کئے بیٹھے موتی امڈ پڑے، اور منظر دھندلا گیا۔ ان آنسوؤں میں انتظار کی حدت تھی۔ وقار حسین نے اس کے آنسوؤں کو دیکھا۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھے۔

وہ چند قدم بڑھے ہی تھے کہ عبد العزیز نے انھیں دیکھ لیا۔ وہ ٹھہر گیا۔ پھر مسکراتے ہوئے وہ ان کی جانب بڑھا۔ مہرون کے گلے سے لپٹ گیا۔ وقار حسین کی آنکھ میں بھی ہلکی نمی در آئی تھی۔ انہوں نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے فوراً آنکھوں کے کونوں میں جمع قطروں کو رو مال میں جذب کر لیا۔ مہرون نے عبد العزیز کی پیشانی چومی اور دعائیں دینے لگی۔ عبد العزیز اپنے والد کے گلے ملا۔ اس دوران حمید حسین ٹرولی سنبھالے ہوئے تھے۔ پھر عبد العزیز نے چچا کو گلے لگا یا اور ان سے خیر خیریت دریافت کی۔

مہرون نے پہلے اس کی نظر اتاری، پھر اس سے باتیں کرنے لگی۔ حمید حسین نے ڈرائیور کو آواز دی۔ سامان گاڑی میں رکھنے کے بعد انہوں نے چائے پی اور کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔

٭

 

کار ائیر پورٹ سے باہر نکل کر ہائے وے پر آئی۔ مہرون نے ایک ڈبا کھولا جس میں تلی ہوئی مچھلی، چاول کی روٹیاں اور چٹنی تھی۔ کھانے کی مہک سے عبد العزیز کے منہ میں پانی آ گیا۔

مہرون نے روٹی پر مچھلی کا ٹکڑا رکھا اور اپنے ہاتھوں سے اسے کھلا یا۔ پھر اس نے ڈبا ماں کے ہاتھوں سے لیا اور جلدی جلدی تین روٹیاں اور مچھلی کے چار بڑے ٹکڑے چٹ کر گیا۔ اسے بھوکے آدمی کی طرح کھاتے دیکھ کر مہرون مسکرائی۔ پھر اس نے اپنی پان کی تھیلی نکالی۔ پان بنایا اور منہ میں ڈالا۔ عبد العزیز نے پانی کی بوتل سے پانی پیا۔ والد سے ان کی دکان سے متعلق کچھ پوچھا پھر مہرون کی طرف مڑ کر کہا۔ ۔ ۔ ’’میرے لئے بھی ایک پان بناؤ؟‘‘

’’تو ویسا کا ویسا ہی ہے۔ ذرا نہیں بدلا۔ ‘‘مہرون نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’بدلے گا کیسے !!!تجھ پر جو گیا ہے۔ ‘‘ وقار حسین نے مہرون کو چھیڑا۔

’’تمھیں کیا۔ پان کھانا تو میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گی۔ ‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔ میں کہاں کہہ رہا ہوں چھوڑ دے۔ ‘‘

’’کہہ کہہ کر تو تھک گئے ہو، پر میرا پان کھانا چھڑا نہیں سکے۔ اس لئے اب تانے دے رہے ہو۔ ‘‘

’’ارے نہیں نہیں۔ ۔ میرے کسی تانے کا تم پر اثر ہوا ہے۔ ‘‘ وقار حسین نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’دیکھا عزیز!یہ مجھ سے کیسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ میرا کلیجا جلاتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’ارے وہ مذاق کر رہے ہیں ‘‘عبد العزیز نے ماں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں بیٹا تجھے تو معلوم ہے نا؟یہ ساری باتیں، جوان کے دل میں ہوتی ہیں کہہ دیتے ہیں۔ ‘‘اس نے ایک نظر وقار حسین کی اور دیکھا پھر کہا۔ ۔ ۔ ’’پھر کہتے ہیں مذاق کر رہا تھا۔ یہ سن کر وقار حسین نے قہقہہ لگا یا۔ حمید بھی ہنسے۔

’’بھابھی۔ ۔ ۔ میرے لئے بھی ایک پان بناؤ۔ ۔ ۔ ‘‘حمید حسین نے کہا۔ اب سب کھا رہے ہیں تو۔ ۔ ۔ مہرو ایک ترے ہاتھ کا مجھے بھی کھلا دے۔ وقار حسین نے کہا۔

مہرون کو ان کا یوں پان مانگنا بہت اچھا لگا۔ کیوں کہ ہمیشہ ہی وہ اسے پان کھانے پر ڈانٹتے آئے تھے۔ مگر آج بیٹے کی واپسی پر وہ بھی بے حد خوش تھے۔ مہرون نے سروتا نکلا اور ایک بڑی سپاری دیکھ کر اسے کتر نے لگی۔ پھر تین پان بنائے اور تینوں کو دیے۔ سب پان چباتے اور باتیں کرتے رہے۔

عبد العزیز کویت بینک میں بطور اکاؤنٹینٹ ملازم تھا۔ دو سال مکمل ہونے کے بعد اسے چھٹی ملنے والی تھی لیکن بینک مینیجر کی حادثاتی موت کے سبب اسے مزید نو مہینے گزارنے پڑے۔

اتنے عرصے بعد مہرون اپنے بیٹے سے باتیں کر رہی تھی شاید اسی لئے اس کے اندر ایک قدرتی توانائی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ بہت دیر تک اس سے بے شمار موضوعات پر باتیں کرتی رہی۔

علی الصبح جب کار گانَو میں داخل ہوئی اور وقار حسین نے کہا۔ ’’ارے۔ گھر آ گیا۔ چلو جاگو…‘‘تب گہری بے خواب نیند سے وہ جاگی۔ عبد العزیز کی مانڈی پر مہرون پیر اکڑوں کئے سورہی تھی۔

٭

 

وقار حسین اور حمید حسین دکان پر چلے گئے تھے۔ مہرون اپنی دیورانی شمیم کے ساتھ پڑی میں چاول کے آٹے کی شیں گیں بنا رہی تھی۔ شینگ کھانا عبد العزیز کو بچپن سے بے حد پسند تھا۔ ہاندی پر جالی دار تھا لی رکھ کر مہرون درمیانی کمرے میں گئی۔ جہاں عبد العزیزسورہا تھا۔ صبح سے چار بار وہ اس کمرے میں آئی تھی۔ بیٹے کے چہرے کو دیکھ دیکھ کر اس کے جی میں ہزار خیالات رینگنے لگے تھے۔

عبد العزیز کا قد تو پہلے ہی نکل آیا تھا۔ کویت کے قیام نے اس کی ہڈیوں پر گوشت کی مضبوط تہیں چڑھا دی تھیں۔ اس کے گال بھر گئے تھے اور پیشانی چوڑی ہو گئی تھی۔ چہرے پر جوانی کی رمق نظر آ رہی تھی۔

بیٹے کو گہری نیند میں سوتا دیکھ کر اس نے اسے جگا نا مناسب نہیں سمجھا۔

چار پانچ قریبی رشتے دار ملنے آئے تھے انھیں بھی یہ کہہ کر لوٹا دیا تھا کہ ’’تھکا ہوا ہے۔ ابھی سو رہا ہے۔ اٹھے گا تو بلا لوں گی۔ ‘‘

چار پائی کے کنارے کھڑے رہ کر مہرون اسے ممتا بھری نظروں سے دیکھا ۔ تین سال اور ایک مہینے قبل اس کمرے میں اس نے عبد العزیز کو صلواتیں سنا کر ملازمت کے لئے باہر جا نے پر راضی کیا تھا۔

پہلے اس نے ان کار کر دیا تھا۔ مہرون نے کئی باراسے سمجھا یا۔ وہ نہیں مانا۔ پھر اس نے عبد العزیز کے گال پر تھپڑوں کی بارش کی تھی۔ جتنی دیر وہ اسے زد و کوب کرتی رہی خود بھی دھاڑیں مار کر روتی رہی۔ جب اس کے ہاتھ تھک گئے تب دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی تھی۔ عبد العزیز دوسرے کونے میں بیٹھ کر بہت دیر تک خود بھی روتا رہا۔ قریب ایک گھنٹے بعد وہ اٹھا اور پڑی سے اس نے اسٹیل کے گلاس میں پانی لایا۔ مہرون نے اس کے ہاتھ سے پانی پینے سے ان کار کر دیا۔ اس کی ضد تھی کہ جب تک وہ اس بات کی قسم نہ کھا لے کے وہ گلف جائے گا تب تک وہ ایک گھونٹ بھی ہونٹوں سے نہیں لگائے گی۔

بالآخر عبد العزیز نے اس کی بات مان لی۔ تب جا کر مہرون نے تھوڑا سا پانی حلق سے نیچے اتارا۔ عبد العزیز ماں کی زانوں پر گردن ڈالے لیٹ گیا۔ مہرون نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر یں۔ عبد العزیز سسکیوں کے ساتھ روتا رہا۔ مہرون تب یہ سمجھا ہو گا وہ احساس ندامت سے رو رہا ہے۔

اس کے گرم آنسو مہرون کے کلیجے کو چیرنے کے لئے کافی تھے۔ اتنے برسوں میں اس نے اپنے بیٹے کی کبھی ایسی سرزنش نہیں کی تھی۔ میٹرک پاس ہونے کے بعد چالس کلومیٹر دور چپلون کی کالج میں اس کا داخلہ کرانے، ہاسٹل کی فیس ادا کرنے اور دیگر اخراجات کے لئے اس نے اپنے کچھ زیورات اونے پونے دام میں فروخت کئے تھے۔ پھر گھر خرچ میں سے کٹ کٹا کر ہر بار جب وہ واپس آتا، چپکے سے اس کی جیب میں چند روپے ڈال دیتی۔ وقار حسین کو کسی بات کا علم ہونے نہیں دیتی۔ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ پھر جیب خرچ کے لئے جو رقم وہ عبد العزیز کو دیا کرتے تھے اس میں کٹوتی کر یں گے۔

عبد العزیز کے تعلیمی نتائج سے سب خوش تھے۔ رفتہ رفتہ الجبرا میں بھی اس کی دلچسپی بڑھ گئی۔ حتیٰ کہ میٹرک کے بعد الجبرا اور شماریات اس کے پسندیدہ مضامین بن گئے تھے۔ حساب سے اس کی دلچسپی کا سبب تو صحیح معنوں میں سکینہ تھی، جس نے ایک روز اسے ڈانٹ کر کہا تھا کہ اگر پندرہ دن میں بیس تک پہاڑے یاد نہیں کرو گے تو میں تم سے دو مہینے بات نہیں کروں گی۔ اور نہ ہی تجھے یوسف کے ساتھ کھیلنے دوں گی۔ ‘‘

٭

 

گریجویشن میں اس کی پوزیشن کالج میں دوسری اور ضلع میں ساتویں تھی۔ گانَو کا وہ کامرس میں پہلا گریجویٹ تھا۔

وقار حسین چاہتے تھے کہا ب وہ سر کاری بینک سے قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر ے۔ انہوں نے اکثر ریڈیو پر سنا تھا کہ سرکار دیہاتوں میں تعلیم یافتہ نو جوانوں کو بینک لون دیتی ہے۔ جب عبد العزیز سے انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا اس وقت ان کے ہاتھوں میں ریڈیو بھی تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر بینک والی بات پر کسی کو شبہہ ہوا تو وہ آکاش وانی لگا کر  ’’کسانوں کے لئے کام کے مواقع اور سرکاری مدد ‘‘پروگرام لگا دیں گے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے عین مغرب کے وقت یہ بات کہی تھی۔ انہیں معلوم تھا ہر جمعہ شب آٹھ بجے یہ پروگرام نشر ہوتا ہے۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔

مہینوں پہلے اپنی دکان میں بیٹھ کر روز مر رہ کی چیزیں فروخت کرتے ہوئے انہوں نے اس کی پلاننگ کی تھی۔

انھیں اس وقت بُرا لگا جب عبد العزیز نے ان کی بات سن کر کہا۔ ’’نہیں۔ ‘‘

تھوڑی دیر وہ چپ رہے۔ ریڈیو ایک کونے میں رکھا اور ایک میز پر بیٹھ گئے۔ مہرون، عبد العزیز سے قریب، دیوار سے پیٹھ لگا کر بیٹھی تھی۔ ان کے سر پر چالیس واٹ کا بلب روشن تھا۔ بلب کی روشنی میں چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے رقص کر رہے تھے۔ کویلوں کی پھٹوں سے دو بڑی بڑی چھپکلیاں انھیں حسرت ویاس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔

مہرون گردن جھکائے سپاری کتر رہی تھی۔

وقار حسین نے لنگی کو سمیٹتے ہوے کہا۔ ’’بیٹا۔ ۔ ۔ !میں اور تیرا چاچا محنت تو بہت کرتے ہیں مگر…‘‘

حمید حسین جو درمیانی کمرے میں بیٹھے شمیم سے بات کر رہے تھے وٹے دار کے دروازے پر آ کھڑے ہوئے۔ وقارحسین نے ان کی طرف نظر اٹھائی، پھر عبد العزیز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بچت وچت نہیں کر پا رہے ہیں۔ ‘‘

’’دکان میں سامان کم رہتا ہے اس لیے گر اک لوگ بھی اب زیادہ نہیں آتے۔ ‘‘حمید حسین نے وقارحسین کے جملے کے ختم ہوتے ہی کہا۔

مہرون نے پان منہ میں رکھا اور اونچی آواز میں کہا۔ ’’گو شمیم ذرا تھو کدانی دے گو۔ پڑت اسیل بگ۔ (شمیم ذرا تھوک دانی دینا۔ دیکھو پڑی میں ہو گی۔ )

’’مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔ ‘‘ عبد العزیز نے پیر پھیلاتے ہوئے کہا۔

’’اس لیے بیٹا میں چاہتا تھا تم کوئی کاروبار ایساکروجس سے جلدی سے ترقی ہو۔ ‘‘

’’تمہاری پڑھائی پرسب کو ناز ہے۔ سنڈی کیٹ بینک کے مینجر رمیش

پر مارنے کہا بھی تھا کہ کوئی بات ہو تومجھ سے ملنا۔ ‘‘حمید حسین نے چٹائی پر بیٹھے ہوئے کہا۔

’’کب کہا تھا؟‘‘

مہرون نے شمیم کے ہاتھ سے تھوک دانی لے کر اس میں تھوکتے ہوئے پوچھا۔

’’کوکن وکاس سمیتی کی طرف سے انعام بانٹتے ٹائم…حمید حسین نے جواب دیا۔

’’میرے سامنے کہا تھا مجھے یاد ہے۔ ‘‘ عبد العزیز نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’پھر بیٹاسوچتاکیا ہے …یہ تو اچھی بات ہے۔ ‘‘مہرون نے پان کو زبان سے ایک طرف سرکاتے ہوئے کہا۔

عبد العزیز نے گردن جھکائی اور کہا۔ ’’ مجھے اور دو سال پڑھائی کرنا ہے اور اس پر آپ کو خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ مجھے کا لج کی ٹرسٹ اسکا لرشپ دینے والی ہے۔ جس میں جیب خرچ کے لیے بیس روپے بھی ملیں گے۔ رہنا بھی فری ہو گا۔ ‘‘

’’بعد میں بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے۔ ‘‘حمید حسین نے کہا۔

’’نہیں …مجھے سرکاری نوکری مل سکتی ہے۔ میں بینک میں آفیسر بھی بن سکتا ہوں۔ عبد العزیز نے وقار حسین کی طرف دیکھ کر کہا۔

شمیم جو بہت دیر سے دروازے پر آ کھڑی تھی۔ وہ چٹائی پر بیٹھ گئی۔ ’’ماں …مجھے صرف تھوڑی سی مدد اور چاہیے پھر میں گھرکی ذمّے داری اپنے کندھوں پر لے لوں گا۔ ‘‘ عبد العزیز جانتا تھا اسے گرداب سے مہرون ہی نکال سکتی ہے۔

’’ضرور تم آفیسر بنو گے۔ اس سے گھر کا نام بھی کوکن میں روشن ہو گا۔ ‘‘شمیم نے کہا۔ اسے معلوم نہ تھا ضلعے، تعلقے اور خطّے میں کتنا فرق ہے۔ خطّے کی وسعت کا اندازہ لگانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ بمشکل اس نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کا گمان تھا جتنا رقبہ وہ دیکھ چکی ہے، کوکن اُتنا ہی ہے۔

’’خدا میرے بیٹے کو ترقی دے گا۔ ‘‘مہرون نے کہا۔ پھر وقارحسین سے مخاطب ہوئی۔ ‘‘کتنا ہونہار بیٹا ہے۔ تمہارا۔ ۔ ۔ فکر کیوں کرتے ہو۔ اتنے برس گزر گئے دوبرس بھی جھٹ سے گزر جائیں گے۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے پر…‘‘

’’اب پرور کیا۔ وہ کہہ رہا ہے نا…خرچ کی ذمّے داری کالج والے لے رہے ہیں۔ ‘‘مہرون نے جو اب دیا۔

بھائی آپ فکر مت کیجئے۔ ہم سب ہیں نا اس کے پیچھے۔ ‘‘شمیم نے کہا۔

اللہ نے چاہا تو اس میں ہماری کامیابی ہو گی۔ شمیم کی بات ختم ہوتے ہی حمید حسین نے کہا۔ وقارحسین نے کرسی پر سے اٹھتے ہوئے کہا:۔ ’’جیسی آپ سب کی مرضی۔ بیٹے دھیان لگا کر پڑھائی کرنا۔ ۔ سارے گھر کی ذمّے داری تمہیں اپنے کندھوں پر لینی ہے۔ ‘‘

٭

 

’’ارے ماں !‘‘

مہرون چارپائی کے کنارے کھڑی خیالات کے بھنور میں ڈوب گئی تھی۔ جب عبد العزیز نے اسے آواز دی وہ چونک گئی۔ جہاں کھڑی تھی وہاں اس کا دھیان نہ تھا۔

’’دیکھنے آئی تھی تیری آنکھ کھلی یا نہیں۔ ‘‘کسی طرح خود کو سمیٹے ہوئے اس نے کہا۔

عبد العزیز نے کروٹ بدلی اور دوبارہ گوجڑی اپنے پورے بدن پر پھیلا دی۔

’’چل جلدی سے اٹھ جا اب، ساڑھے نو بج رہے ہیں۔ ‘‘

اسے یاد آیا کہ چولھے پر شینگ کی ہانڈی ہے وہ فوراً مڑی اور پڑی میں اتری۔ شمیم اس وقت تک ہانڈی اتار چکی تھی۔

٭

مہرون چولہے کے پاس بیٹھ گئی۔ سلیمانی چائے ساسر میں انڈیل کر کپ ایک طرف رکھا۔ دونوں ہاتھوں سے ساسر اٹھائی اور پھونک پھونک کر پینے لگی۔ صبح سے یہ اس کی تیسری چائے تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ دوپہر کے کھانے میں کیا بنائے۔ یوں تو عبد العزیز کی آمد سے چند روز قبل ہی اس نے راشن بھر لیا تھا۔ اب وہ سوچ رہی تھی گوشت، مرغی یا مچھلیاں منگائے۔

چولہے سے لگ کر ایک کھڑکی تھی جو عام طور پر پرانے طرز کے مکانوں میں دھوئیں کی نکاسی کے لیے ہوا کرتی تھی۔ مہرون نے باہر دیکھا تو اس کی نظر گڑ گے پر دھوپ سینکتے مرغے پر پڑی۔

گانَو کے لوگ نہ صرف اس بات سے واقف تھے کہ فلاں گائے، بکری یا مرغا کس کا ہے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ کون سا کھیت، باغ اور پیڑکس کا ہے۔ مہرون نے شمیم کو اشارے سے بُلا یا اور اسے مرغا بتایا۔ شمیم نے دیکھتے ہی کہا۔ ’’اچھا ہے، کلو کے اوپر ہو گا۔ ‘‘جا۔ سلمان ملّا جی کو بول، عبد العزیز گھر پہنچ گیا اور پوچھنا مرغا بیچو گے کیا۔ ‘‘

شمیم پڑی سے منگیلدار کے آنگن میں چلی گئی۔ اب مہرون کی چنتا ختم ہو گئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر مرغے کو دیکھا جو اکتوبر کی دھوپ میں گڑ گے پر بیٹھ کر جا نے کیاسوچ رہا تھا۔ مہرون کی نظر یں کچھ دیر مرغے پر رہیں پھر ایک پل ایسا بھی آیا کہ مرغا اس کی آنکھ کے محور سے اوجھل ہو گیا اور وہ یادوں کے دائروں میں بہتی چلی گی۔

 

 

 

 

{۲}

 

سکینہ سے سرکاری اسپتال میں ملاقات کے بعد وہ گواگر ایس ٹی ڈیو پہنچے تھے، جہاں سے سورل کے لیے انھیں ایس ٹی پکڑنا تھی۔ دو تین گھنٹوں میں ایک ایس ٹی ہوا کرتی تھی، اس لیے عام طور پر لوگ پرائیوٹ ٹیمپو وغیرہ سے سفر کرنے کو تر جیح دیا کرتے تھے۔

ڈپو کے گیٹ کے پاس نیم کے پیڑ کے نیچے ایک ادی واسی مرغے فروخت کر رہا تھا۔ عبد العزیز مرغا خرید نے کی ضد کرنے لگا۔ مہرون نے اسے بہت سمجھایاپروہ نہیں مانا۔ تب مہرون نے اسے بتا یا کہ اس کے پاس صرف کرائے کے پیسے ہیں وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں خرید سکتی۔ ’’مرغے کی قیمت میں دوں گا۔ ‘‘ عبد العزیز نے کہا۔

مہرون کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے جاننا چاہا کہ اس کے پاس روپیے کہاں سے آئے

عبد العزیز نے بہت باتیں بنائی اور چاہا کہ راز کو راز ہی رکھّے۔ مہرون بہ ضد ہو گئی کہ جب تک روپیے کہاں سے آئے وہ نہیں بتائے گا وہ مرغا خریدنے کی اجازت نہیں دے گی۔ چار و ناچار اس نے بتایا۔ ‘‘سکینہ آپاند یلان‘‘(سکینہ آپا نے دیے ہیں۔ )

سکینہ کے ردّ عمل کو سننے سے پہلے ہی وہ دوڑ کر ادی باسی کے پاس گیا۔ اسے چمکے لیے بادامی رنگ کا مرغاپسند آیا جس کی کلغی سرخ اور دم کے پنکھ سیاہ تھے۔ ادی باسی کواس نے دس کا نوٹ دیا۔ مرغے کو بغل میں دبا کر وہ مہرون کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ادی باسی نے اسے آواز دی اور دو روپے لوٹائے۔ عبد العزیز کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔ ادی واسی نے سر کے بال کھجائے اور کہا۔ ’’چانگلا آہے ‘‘(اچھا ہے۔ )

بغل میں مرغا دبائے وہ مہرون کے قریب پہنچا۔ اس کے کھلے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مہرون کو بھی ہنسی آئی۔ جوں ہی اس کی ہنسی میں ممتا کا رنگ گھل گیا وہ پس منظر بھی بھول گئی۔ وہ ٹیمپو میں بیٹھے۔ کچھ دیر بعد ڈرائیور آیا۔ تب تک لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ پھر سب نے کرایا ادا کیا۔ عبد العزیز کا مرغا اس کی نظر کا تارا بنا ہوا تھا۔ دو دیہاتیوں نے مرغے کی تعریف میں لوک گیت کا ایک ٹکڑا گایا۔ مرغے کی بے وقت بانگ سے مسافر بھی لطف اندوز ہونے لگے۔ عبد العزیز کا سینہ پھول گیا تھا۔ راستے میں گانَو آتے گئے اور لوگ اترتے گئے۔ ٹیمپو میں تین چار لوگ رہ گئے تھے۔ جو ہونٹوں کے نیچے تمباکو دبائے بیٹھے تھے۔ عبد العزیز نے بڑی سنجیدگی سے اپنی ماں سے پوچھا۔ ’’تُجا سُنیلاس پُتوس جھیلواستوتے توُکائے کیلاں استاس‘‘( تری بہو کو بیٹا ہوا ہوتا تو کیا کرتی ؟)

مہرون کے لیے یہ سوال غیر متوقع تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عبد العزیز اس نوعیت کا سوال اس سے کر سکتا ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ لمحے بھر کے لیے اڑسا گیا تھا۔ پھر اس اڑے ہوئے رنگ پر کچھ دیر حیرانی چھائی رہی۔ حیرانی زیادہ دیر تک کبھی ساکت نہیں رہتی۔ شاید اس لئے مہرون کے دل میں حسین یادوں کا جو دفینہ تھا اس میں ہلچل ہوئی۔ پندرہ سال قبل وہ ماں بنی تھی اس موقع کا ایک رنگ تابندہ ہو کر اس کے چہرے پر لہرانے لگا۔ اپنی زچگی اسے یاد آئی۔ عبد العزیز کا پہلا دیدار اسے یاد آیا۔ اسے وہ آنسویاد آئے جو عبد العزیز کو دیکھتے ہی اس کا جگر چیر کر اس کی آنکھوں سے بہہ پڑے تھے۔

اس وقت اس کی ماں نے سات گوجڑ لے ، تین چار ٹوپراں، میتھی کے لڈو، ایک جھنجھنا اور کچھ دوسرے کھلونے اسے دیے تھے۔ اس کی ماں نے ہی ساس کا رول ادا کیا تھا۔ ساڑیوں کو پھاڑ کر اس کے لئے کپڑوں کے تختے تیار کئے تھے۔ اس کی چارپائی کے نیچے انگیٹھی کا انتظام کیا کرتی تھی۔ جس میں لوبان کے علاوہ سوکھائی ہوئی جڑی بوٹیاں ڈالی جاتی تھیں۔ جن سے نتھنوں میں ایک طرح کی تازگی محسوس ہوتی اور ہوا میں اڑنے والے کیڑے مکوڑے بھی بھاگ جاتے۔

یادوں کے اس درپن میں اس نے بہت سارے مناظر دیکھے۔ اس میں موجود عورت اور ماں میں دیر تک ایک کشمکش جاری رہی۔ وہ سوچتی رہی کیا کہے۔

عبد العزیز چپ چاپ بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے ایسالگا اس نے غلط سوال پوچھ کر ماں کو ناراض کر دیا ہے۔ سوال کی آنچ کو کم کرنے کے لیے وہ مرغے سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی کلغی سے کھیلنے لگا۔ اس کی دم کے پروں پر انگلیاں پھیر نے لگا۔

مہرون بھانپ گئی کہ عبد العزیز ڈر گیا ہے۔ اس کے پر چہرے مسکراہٹ پھیلی۔ مسکراہٹ کی ترنگ میں اس نے کہا… ’’عزیز‘‘

عبد العزیز نے گردن اُٹھائی مگر برائے راست ماں کی آنکھوں میں جھانکنے کی بجائے وہ اس کے کان کی موند یوں گو دیکھنے لگا۔

’’ترے بھیجے میں یہ سوال کیسے آیا؟‘‘ مہرون نے پوچھا۔

’’ایسے ہی آیا ماں۔ میں نے سوچا نہیں، خود سے آ گیا۔ ‘‘کان پر ہی اس کی نظر یں تھیں۔

’’کوئی بات نہیں بیٹا۔ تیری جب شادی ہو گی نا۔ ۔ ۔ تو میں تیری بیوی کو میتھی کے لڈو اور بہت سارے کھلونے دوں گی۔ ‘‘

عبد العزیز مسکرایا۔ اس مسکراہٹ میں شرماہٹ بھی تھی اور شرارت بھی۔ اس نے مہرون سے نظریں ملانے کی بجائے مرغے سے باتیں کرنا ہی مناسب سمجھا۔

٭٭٭

 

’’ماں !نہانے کا پانی گرم ہوا؟‘‘

عبد العزیز کی آواز پر وہ مڑی۔ وہ پڑی کے ہونبٹے پر کھڑا تھا۔ یادوں کے دائروں کا ہالہ بکھرا اور مہرون نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ مسکرائی۔ پھراس سے کہا۔ ’’آ بیٹا! پہلے میرے پاس بیٹھ۔ ‘‘

عبد العزیز نے ایک بسنا لیا اور اس پر بیٹھ گیا۔

’’شمیم کو بھیجا ہے مرغا لانے کے لیے۔ آج تیرے لیے مرغے کا سالن بناؤں گی۔ ‘‘

’’واہ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا زمانہ ہو گیا تیرے ہاتھ کا کھانا کھائے ہوئے۔ ‘‘

وہ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ مہرون نے اسے بتایا اسے وہ شام یاد آئی تھی جب اس نے گواگر سے مرغا خریدا تھا۔ اس پر انی یاد سے خود عبد العزیز دوبارہ شرماسا گیا۔ دونوں بہت دیر تک ہنستے رہے۔ ہنستے رہے اور دوسری حسین یادوں کو تازہ کرتے رہے۔

منگیلدار میں کھلے آسمان کے نیچے نہانے کا پرانا باتھ روم اب چیروں (سرخ مٹی کے قطعے جنھیں کوکن میں زمیں سے کاٹ کر نکالا جاتا ہے۔ کوکن میں اس کی کانیں ہوتی ہیں اور اب کوکن کے مکانات چیروں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ ) کے پکّے باتھ روم میں بدل گیا تھا۔ مہرون نے چولہے پر سے گرم پانی کا ٹوپ اتارا اور باتھ روم کی بکٹ میں انڈیل دیا۔ عبد العزیز نے کہا کہ آج تمباکو کی مسیری لگائے گا۔

مہرون نے پان کی تھیلی سے تھوڑا سا تمباکو نکالا اور مسیری کے پترے پر ڈال کر جلی ہوئی سرخ لکڑیوں پر رکھ دیا۔ پل بھر میں تمباکو کی مہک اس کے نتھنوں میں پھیل گئی۔ ساتھ ہی ساتھ اسے ٹھسکا لگا اور کھانسی آئی۔

’’عادت چلی گئی ہے نا!‘‘کھانسی پر قابو پاتے ہی اس نے کہا۔

’’زیادہ کچّا مت لگا۔ ۔ ۔ چکر آ جائے گا۔ ‘‘

ارے نہیں ماں۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں۔ ‘ُ‘

عبد العزیز نے چمٹے سے تمباکو کا پترا باہر نکالا۔ گرم گرم ادھ جلا تمباکو ہتھیلی پر لے کر مسلتا ہوا وہ پڑی سے آنگن میں گیا۔ کھلا آسمان اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا امرود کا پیڑ پہلے سے بہت گھنا ہو گیا ہے۔ ہاپوس آم کے پیڑ کی شاخیں پھیل گئیں ہیں۔ گڑ گے پر جنگلی گھاس اگ آئی تھی۔

اس نے گوبر سے لیپی ہوئی زمین پر قدم رکھے تو عجیب احساس اس کی رگوں میں اس نے محسوس کیا۔

تمباکو کی مہک بہت تیز تھی اس کے باوجود اس کے نتھنوں نے گوبر کی بو کو محسوس کیا۔ اس بو سے اہل کوکن کا صدیوں پرانا رشتہ تھا۔ اس سے انھیں حقارت نہ تھی۔ البتہ چند سال بعد یہ فرمان جاری ہوا کہ اس پر قدم رکھنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تب لوگوں کو ابکائی آنا شروع ہوئی رفتہ رفتہ گوبر سے آنگن لیپنے کا چلن کم ہونے لگا۔

تمباکو کی مسیری کا لطف لینے کے ساتھ ہی اسے ماں کی بات دوبارہ یاد آئی۔ اسے اپنا سوال پوچھنا اور پھر اس پر نادم ہونا بھی یاد آیا۔ اس واقعے کے تین روز بعد جب سکینہ گھر لوٹ آئی تھی …تب اس نے مہرون سے کہا تھا کہ۔ ’’ سکینہ کے لئے میتھی کے لڈو بنادو، اس کی ماں جو نہیں ہے اور اس کی ساس کی خصلت تو تمھیں معلوم ہے۔ ‘‘

مہرون کو عبد العزیز کی بات واجب سی لگی تھی۔ اس نے دوسرے دن میتھی کے لڈو بنا کر اسے دیئے اور شمیم کے لئے بنائے گئے گوجڑلے بھی دیئے۔ اس سے عبد العزیز کی خوشی دوبالا ہو گئی تھی۔ اس نے دل میں کہا تھا۔ ’’ماں !کاش تمھیں معلوم ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ تم دادی بن چکی ہو۔ ‘‘

یاد کے اس ٹکڑے کے ساتھ ہی وہ باتھ روم میں گھس گیا۔

شمیم پڑی میں داخل ہوئی۔ مہرون وہاں نہ تھی اور چولہے پر چائے کی واٹی چڑھائی جا چکی تھی۔ جس میں پانی ابل رہا تھا۔ شمیم نے واٹی کے نیچے سے جلتی ہوئی لکڑی پیچھے کھینچی اور درمیانی کمرے میں داخل ہوئی۔ عین اسی اس وقت مہرون مالے سے اتری۔

’’اٹھ گیا عزیز۔ ۔ ؟‘‘شمیم نے مہرون کو دیکھتے ہی اس سے پوچھا۔

’’ہاں۔ ۔ نہا رہا ہے۔ ۔ ‘‘میں تیرے شادی والے کپ نکالنے مالے پر گئی تھی۔

شمیم کو شادی میں دیگر برتنوں کے ساتھ چائے کا ایک چینی سیٹ بھی اس کے والدین نے دیا تھا جس پر سنہری پرتوں میں گل بوٹے نکالے ہوئے تھے۔ کیسری رنگ کے پھول اور جامنی پنکھڑیاں تھیں۔ ’’میں انہیں دھو کر لاتی ہوں آپ چائے دیکھئے۔ ‘‘شمیم نے مہرون کے ہاتھوں سے کپ لیتے ہوئے کہا۔

مہرون نے جب وتیلی میں جھانکا تو سارا پانی سوکھ چکا تھا۔ اس نے کلسی سے ایک گلاس پانی لیا اور واٹی میں ڈالا۔ دوسرے چولہے پر دودھ کی پتیلی رکھی۔ صبح ہی شمیم نے رمضان گھارے کے گھر سے گائے کا تازہ دودھ نکال کر لایا تھا۔ ڈر یہ تھا کہ کویت میں رہ کر عبد العزیز سلیمانی چائے پینا بھول نہ گیا ہو۔ کوکن میں یہ بات عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ جب بیٹا گھر کی ذمے داریوں کو اپنے کندھوں پر لے لیتا ہے تو ماں اس کی خاطر داری میں یوں لگ جاتی ہے گویا وہ شوہر کی خاطر داری کر رہی ہو۔ یہ محبت، عقیدت اور ایثار کا ملا جلا روپ ہوتا ہے۔

مہرون نے ابلتے پانی میں شکر اور چائے پتی ملائی۔ جوش آنے پر چائے نہ چھلکے اس لئے اس نے پکڑ سے وتیلی اوپر اٹھائی اور شعلے دار لکڑیوں کو باہر کھینچا۔ وتیلی دوبارہ کڑے پر رکھی۔ دیوار کی میخ پر لٹکے ہوئے پات کے گچھے پر اس کی نظر پڑی۔ فوراً اٹھی اور ایک پات کھینچ کر نکال لی۔ اس کے ٹکڑے کئے اور چائے کی وتیلی میں ڈالے۔ چائے نے جوش لیا اور مہک پڑی میں پھیل گئی۔

پڑی کے باہر برتن دھونے کے لئے ایک بڑاسا پتھر تھا جس سے لگ کر پانی بھرا ڈرم رکھا ہوا تھا…شمیم کپ دھو کر اٹھ ہی رہی تھی کہ باتھ روم سے عبد العزیز نکلا شمیم نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ ’’باوا…‘‘

’’بولا چاچی…کائے بو لتے تبیت پانی…‘‘سر کے بال پونچھتے ہوئے عبد العزیز نے کہا۔ ’’ایک دم فس کلاس…‘‘جواب کے ساتھ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔

عبد العزیز نے ٹاویل کندھے پر رکھا اور آگے بڑھ کر … ’’پہلے یہ بتاؤ سلیم اور عارفہ کدھر ہیں …؟‘‘

’’اسکول گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کیا ضرورت تھی آج چھٹی کر لیتے۔ ‘‘

’’ارے ان کے امتحان چل رہے ہیں۔ ‘‘

عبد العزیز نے کچھ نہیں کہا۔

’’مکتب سے آتے ہی تمہیں جگانے جا رہے تھے۔ میں نے منع کر دیا۔ ‘‘ پڑی کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے کہا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

{۳}

 

شمیم عمر میں وقار حسین سے بہت چھوٹی تھی۔ اور چھوٹی بہن کی طرح ہی مہرون کی باتوں پر عمل پیرا ہوتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھیں۔

حمید حسین اور وقار حسین سگے بھائی نہ تھے۔ وقار حسین جب دس سال کے تھے اس وقت ان کی والدہ صادقہ کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ اس وقت وہ کھیت میں کام کر رہی تھیں۔ سات گانو کے ویدوں کو بلایا گیا جو سانپ کے زہر کا اثر زائل کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ لیکن انھیں اس زہر کی نوعیت سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ سانپ کی شناخت ضروری تھی۔ گانو کے لوگوں نے کھیت کے آس پاس جہاں جہاں بل تھے وہاں کی زمین کھودی لیکن دھامن سانپوں کے ایک جوڑے اور پانی کے دو سانپوں کے علاوہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ البتہ گانو کے لوگ یہ دیکھ کر حیران تھے کے چوہوں کے بلوں سے اناج کے دانوں، کاغذ کے ٹکڑوں، بوسیدہ چتڑن اور چھوٹے بچوں کی چڈی کے علاوہ سبز کپڑے میں لپٹی ہوئی بہت سا ری تعویذیں برآمد ہوئیں۔ جلی ہوئی لکڑی پر سیندور سے بنائی ہوئی انسانی شکلیں، درجن بھر سوکھے ہوئے لیمودستیاب ہوئے۔ سب سے زیادہ حیران کرنے والی چیز ایک رو مال تھا۔ جس پر سرخ چمکدار دھاگے سے لکھا ہوا تھا۔

love” to my true ”

زہر کی تشخیص نہ ہونے کے سبب علاج میں گڑبڑ ہو گئی۔ وقار حسین کے والد شبیر حسین کو یوں لگا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ بچ جائے گی۔ لیکن یہ ان کی بھول تھی۔ ہفتے بھر میں صادقہ کی بینائی چلی گئی۔ پھر چند روز بعد اس کی سننے کی صلاحیت معدوم ہو گئی۔ دوبارہ ویدوں کو بلایا گیا۔ ایک ڈاکٹر کو بھی بلایا گیا جس کی ڈگری سے کوئی واقف نہ تھا۔ (چند سال بعد پتہ چلا وہ بمبئی سے فرار کمپاؤنڈر تھا۔ )ویدوں نے جواب دے دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی ڈاکٹر نے بمبئی لے جانے کا مشورہ دیا۔ مگر وسائل کی کمی اور غربت کے سبب یہ ممکن نہ تھا۔ دن جوں جوں گزرتے گئے صادقہ کی حالت بگڑتی گئی۔ مہینوں وہ چارپائی پر مردہ حالت میں سانسوں کا سلسلہ رہی۔ پورا جسم بے جان تھا صرف دل میں روح سکڑ کر، سہم کر بیٹھی ہوئی تھی۔ کفن دفن کا انتظام کر کے لوگ خداسے دعا گو تھے کہ اسے دنیا کے عذاب سے نجات ملے … ’’بھئی لیکن جب…خدا اپنی قہارانہ صفات کی نمائش کرنے پر اترتا ہے تو کسی کی دعا کام کر سکتی ہے۔ ؟‘‘ ایک بزرگ نے کہا تھا جن کا دل صادقہ کی حالت دیکھ کر تڑپ کر رہ گیا تھا۔

چاول کی کنی کی پیج، روے کی کانجی یا موسمبی کا جوس بہ مشکل اس کی حلق میں انڈیلا جاتا۔

صادقہ کی چھوٹی بہن اس کا گھاگرا چولی بدلتی اور غلاظت صاف کرتی۔ وقار حسین کو وہ دن اب بھی یاد ہیں بلکہ ماں کی تکلیف دہ موت انھیں برسوں تک اندر ہی اندر ایک ناگفتہ اذیت میں مبتلا کئے رہی۔ جسے بعد میں مہرون کی جوانی، لطیفوں اور شرارت نے کسی حد تک کم کیا۔

صادقہ کے انتقال کے چھ سال بعد رشتہ داروں کے اصرار پر انہوں نے زرینہ نامی لڑکی سے دوسری شادی کی۔ شادی کے دوسرے سال زرینہ نے حمید حسین کو جنم دیا۔ لیکن زچگی کے دوسرے ہی ہفتے اسے یرقان ہو گیا اور وہ زیادہ دنوں تک بیماری سے لڑ نہ پائی۔ اس کے انتقال کے بعد شبیر حسین نے اپنے دونوں بیٹوں کی پرورش کا ذمہ خود اٹھا لیا۔ وہ خود ان کی ماں بن گئے۔

سارا گانو وقار حسین اور حمید حسین کی آپسی محبت کی مثالیں اپنے بچوں کو یوں ہی نہیں دیتا ہے۔ شبیر حسین کے انتقال کے بعد وقار حسین نے نہ صرف حمید کو پالا پوسا بلکہ والد کی جائداد کے کاغذات پر بھی اس کایکساں حصہ درج کروایا۔ جب یہ بات حمید حسین کو معلوم ہوئی تو اسے بہت برا لگا۔ اسی دن انہوں نے وہ کاغذات گانو کی جماعت کے ممبران کو بلا کر ان کے سامنے پھاڑ دئے۔

وہ دن ہے اور آج کا دن دونوں سگے بھائیوں کی طرح گھل مل کر رہتے ہیں۔ دن جیسے بھی آتے ہیں مل کر ان کا سامنا کرتے ہیں۔

حمید حسین نے شادی کی رات ہی شمیم کو زندگی کی ساری کہانی سنادی تھی۔ اس رام کتھا کو سنتے ہی شمیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ اپناجسم حمید حسین کے حوالے کرنے سے پہلے وہ دل سے اس کی ہو گئی تھی۔

 

٭

سلیم اور عارفہ شمیم کے بچے تھے۔ جن سے عبد العزیز کو بے حد پیار تھا۔ وہ چپلون سے جب واپس آتا ان کے لئے بسکٹ، چاکلیٹ اور کھلونے لے آتا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر مٹی کے کھلونوں کا ایک کردار بن جاتا۔ سلیم جو تھوڑا بہت بولنے لگا تھا اسے پیڑوں، پھلوں، پھولوں اور رنگوں کے نام سیکھاتا۔ اس کے کپڑے بدل کر، اسے اپنے ساتھ ہفتہ واری بازار میں لے جاتا۔ اس کے لئے غبارے بناتا اور اسے کندھے پر بیٹھا کر گنپتی گنپتی کھیلتا۔ سلیم کے لئے عبد العزیز وہ سب کرتا جس کی تمناحمیدحسین کے دل میں بس انگڑائی لے کر رہ جاتی تھی۔ گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری اتنی بھاری تھی کہ فرصت کے لمحوں میں ان کے کندھے اپنے بچوں کو اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ شام گھر واپسی پر وہ کھانا کھا کر اپنے کمرے میں دن بھر کی تھکی کمر کو راحت پہچانے کے چلے جاتے۔ کئی دفعہ سلیم کے ساتھ کھیلتے ہوئے عبد العزیز کو ایسا لگتا وہ سکینہ کے بیٹے یوسف کو کھلا رہا ہے۔

مہرون نے ایک صاف ستھری پلیٹ میں شنگیں نکالیں۔ جن میں اس نے پچھلے موسم کے کاجو بھی ڈالے تھے۔

وہ ایک بسنے پر بیٹھ گیا۔ لنگی اور بنیان پر اسے دیکھ کر مہرون نے کہا۔ ’’پورا لا کوناچی چاک نایے لاگلی بس…‘‘(بچے کو کسی کی نظر نہ لگے بس)

’’روز سانچی نجو نچا پہلے چاک کاڑو لا ہاوے۔ ‘‘شمیم نے مہرون کی بات پر سنجیدہ لہجے میں کہا۔ (روزانہ سونے سے پہلے نظر اتار نا چاہیے )

’’ٹھیک ہے۔ صبح شام دونوں مل کر میری نظر اتارا کرنا۔ ‘‘عبد العزیز نے شینگ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’بھانا!اس نے کبھی ان باتوں پر یقین کیا جو اب کرے گا۔ ‘‘شمیم نے مہرون سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’یہی تو مسئلہ ہے۔ دو چار کلاس پڑھ کر بچے بڑوں کو ایڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’ماں !تیرے ہاتھ کی شیں گیں جادو ہیں …جادو…‘‘موضوع بدلنے کے لئے عبد العزیز نے کچھ زیادہ ہی تعریف کر دی۔ اس پر مہرون نے ہاتھ میں چمٹا اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’مجھے باتوں میں بہلا رہا ہے۔ چل پوری پلیٹ صاف کر ورنہ اس چمٹے سے زبان کھینچ کر نکال لوں گی۔ ۔ ۔ ‘‘شمیم بہت زور سے ہنسی۔

’’ارے نہیں ماں سچ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

’’سچ کے بچے مجھے سب معلوم ہے۔ تو میٹھی میٹھی باتیں کر کے دوسروں کو ایڑا بناتا ہے۔ ‘‘

’’ارے کس نے کہا تجھے …‘‘

’’کس نے۔ ۔ ۔ ’’

’’ہاں بتا۔ ۔ کس نے …؟‘‘

’’دیکھا شمیم میرے پیٹ کا گولا۔ ۔ ۔ مجھ سے پوچھ رہا ہے کس نے مجھے بتایا؟ارے میں تیری نس نس سے واقف ہوں۔ ‘‘اتنا کہہ کر مہرون نے کپ میں چائے ڈال کر عبد العزیز کی طرف بڑھائی۔

’’وہ!اتتو سا سلیم مجھے کہتا ہر…ماں تمھیں الطاف حسین حالی کون تھے معلوم ہے۔ اب بتاؤ میں کیا بتاؤں …‘‘شمیم نے کہا۔

’’مدرسہ پڑھانے کے لئے کوئی یوپی کے مولانا آئے ہیں نا؟ان کے منہ سے سنا ہو گا۔ کوئی بڑے مولانا ہی ہوں گے …اور کیا۔ ‘‘

مہرون نے جواب دیا۔

’’میں نے بھی یہی کہا۔ ۔ ہوں گے کوئی مولانا۔ ‘‘شمیم نے کہا اور مہرون کی طرف دیکھا پھر اپنی بات پوری کی۔

’’تو بولا۔ ۔ ماں تم جاہل ہو۔ ۔ آپ کو کچھ نہیں معلوم !۔ ‘‘

عبد العزیز نے چائے کا کپ آگے کھینچا اور ایک شینگ اٹھائی۔

’’سنو بھابھی !یہ مولانا لوگ ہیں نا سب الّم غلّم پڑھاتے رہتے ہیں۔ سلیم کی پڑھائی پر دھیان دینا۔ ‘‘

’’اردواسکول کھول دیا ہے۔ دروازے پر آتے ہیں اور کہتے ہیں مراٹھی اسکول میں بچوں کو بھیجو گے تو اردو اسکول کا کیا ہو گا۔ ‘‘

’’ترے ابّا بتا رہے تھے۔ اردو پڑھنا ہی اچھا ہے ‘‘مہرون نے کہا۔

’’سلیم نے ایک دن کہا مراٹھی ہندو لوگ پڑھتے ہیں۔ اردو ہی مسلمانوں کی زبان ہے۔ ‘‘شمیم نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا۔ یہ سن کر لمحے بھر کو عبد العزیز ٹھہر سا گیا۔ جانے کیا بات اس کی زبان پر آتے آتے رہ گئی۔ چائے کا کپ زمین پر رکھتے ہوئے اس نے شمیم سے کہا۔ ’’میرے آبا اور میں نے تو مراٹھی میں ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ تو کیا ہم ہندو تھے اور میرے بچپن میں تو اردو کا یہاں اسکول بھی نہ تھا۔ تب کیا ہم مسلمان نہیں تھے۔ ‘‘

مہرون نے شینگ کی پلیٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’چھوڑ بیٹا یہ سب۔ سب سے پہلے تو جا کر اڑوس پڑوس کے لوگوں کے گھر پر پیر لگا کر آ۔ قاضی صاحب، رحمت آپا، ممتاز کاروباری صبح ہی تجھے دیکھنے آئے تھے میں نے کہا تو سورہا ہے۔

’’جی ماں ! کہہ کر وہ اٹھا۔ لیکن جھٹ سے دوبارہ بیٹھ گیا۔ ‘‘

 

٭

شمیم اور مہرون نے فوراً نظر یں گھمائیں اور خوب قہقہہ لگا کر ہنستی رہیں۔ در حقیقت اس دوران اس کی لنگی کا پیچ کھل گیا تھا۔ اور جوں ہی اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی، لنگی نیچے سرک گئی تھی۔ عبد العزیز نے دوبارہ کس کر لنگی کمر پر باندھی اور پڑی سے نکلتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ہنسو اور ہنسو زور زور سے ہنسو…ہا ہا…ہا ہا…

وہ پڑی سے چلا گیا لیکن مہرون اور شمیم بہت دیر تک ہنستے رہے۔

٭٭

 

وہ درمیانی کمرے میں گیا۔ جہاں چار پائی کے نیچے اس کا بیگ رکھا ہوا تھا۔ بیگ سے اس نے ایک نیلے رنگ کی جینس پتلون اور سفید ٹی شرٹ جس پر عربی میں ’الحب تسلم‘ لکھا ہوا تھا، نکال کر پہن لی۔ اسے کمرے میں اندھیرا محسوس ہوا تو اس نے کھڑکی کھولی۔ مکان اور فصیل مکان کے درمیان کی جگہ پر ایک قطار میں گلاب کے چند پودے لگے ہوئے تھے۔ گلاب کی کئی ٹہنیوں پر چھوٹے چھوٹے گلابی رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ کھڑکی سے ہوا کے جھونکے کمرے میں داخل ہوئے تو اپنے ساتھ گلابوں کی مہک بھی لے آئے۔ گلابوں کی مہک اس کے نتھنوں کے مسامات سے اس کے بدن کی گہرائی تک اتر گئی۔ مگر خوشبو کی شناخت کرنے والے خلیوں میں جا کر گلاب کی مہک اپنی پہچان کے ساتھ ذہن میں بیدار نہ ہوئی بلکہ سکینہ کے لمس کا احساس بن گئی۔ وہ لکڑی کی سیڑھی کے پائیدان پر بیٹھ گیا۔ دس گیارہ سال پہلے کی وہ رات دوبارہ اس کے ذہن میں تازہ ہو گئی۔ اس رات سکینہ نے بھی گلاب کے پھولوں کا گچھا بنا کر، اپنے بالوں میں چھوٹی کالی پن سے اٹکائے رکھا تھا۔ پھولوں کی پنکھڑیاں صبح تکیے کے پاس بکھری ہوئی ملی تھیں۔ جنھیں اس نے اپنی ڈرائینگ کی کا پی میں سنبھال کر رکھا۔ پھر جب وہ اکیلا ہوتا یا سکینہ کی یاداسے ستاتی تو وہ اس بیاض کو کھول کر ان پنکھڑیوں کو دیکھتا۔ انھیں چھوتا۔ حصولِ تعلیم کے لیے جب وہ چپلون گیا اس بیاض کو اپنے ساتھ لے گیا۔ چند مہینوں بعد شریفہ پاؤ سکرنے اسے ایک کتاب تحفے میں دی، جس کا عنوان تھا ’’Wasteland and other poems ‘‘تب کہیں جا کر اس نے ڈارئینگ بک سے ان پنکھڑیوں کو ’ویسٹ لینڈ‘ میں منتقل کیا۔ وہ اس کتاب کو صرف ’ویسٹ لینڈ‘ کہا کرتا تھا، ۔ یہ کتاب اسے پسند تھی لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اسے یہ کتاب کیوں پسند ہے۔ شاید یہی وجہ ہو گی کویت کے سفر کے لیے جب وہ اپنا سامان اٹیچی میں رکھ رہا تھا یہ کتاب بھی اسے یاد رہی۔ اس کے والد نے کہا تھا کہ اب اس کی کیا ضرورت ہے۔ پڑھائی کرنے نہیں جا رہے ہو۔ اس نے انتہائی خشک لہجے میں جواب دیا تھا ’’یہ کتاب مجھے یاد دلاتی رہے گی۔ مجھے کیا نہیں بھولنا ہے۔ ‘‘ مہرون نے اس کے ہاتھ سے کتاب جھٹ سے لے کر اٹیچی میں اس کی قمیص کے ساتھ رکھ دی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی بات آگے بڑھے اور عبد العزیزغصّے میں جانے سے ہی ان کار کر دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۴}

 

شریفہ پاؤ سکرنے آرٹس میں داخلہ لیا تھا۔ ادب سے اسے بے حد لگاؤ تھا۔ شروع شروع میں مراٹھی میں نظمیں کہتی تھی۔ لیکن گریجویشن میں انگریزی ادب کا انتخاب کرنے کے بعد اس نے ساری توجہ انگریزی شاعری اور تنقید پر لگا دی۔ اسے عبد العزیز سے ایک طرح کی انسیت تھی جس کا سبب وہ یہ بتائی تھی کہ  ’’ میں عبد العزیز کو اپنے ہاتھوں کی مہندی اس وقت بتانا چاہتی تھی جب مجھے پتہ بھی نہ تھا کہ مہندی لگے ہاتھ کیا معنی رکھتے ہیں۔ ‘‘عبد العزیز شریفہ کی بہت قدر کرتا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ شریفہ کا ادبی ذوق تھا۔ وہ ایک آزاد خیال اور اظہار رائے کی مکمل آزادی کی تائید کرنے والی بہادر لڑکی کے طور پر کا لج میں مشہور ہو گئی تھی۔ ابتدا میں عبد العزیز کا ادب ودب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ موضوعات جن پر آگے چل کر اسے عبور حاصل ہوا شریفہ کی دوستی کا نتیجہ تھا۔ شریفہ تہذیبوں کے عروج و زوال۔ اقتدار کی سفاکی اور ادب۔ مذہبی سیاست اور ادیب کے فرائض ایسے موضوعات پر تقریری مقابلوں کا انعقاد کیا کرتی، جن میں وہ ہمیشہ شریک ہو تا۔ پھر شریفہ کے دوست بھی اس کے دوست بن گئے۔ تب اسے احساس ہوا کہ زندگی میں فنون لطیفہ کا مقام کیا ہے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان عام آدمی کی زندگی کس طرح اجیرن ہو جاتی ہے۔ کس طرح مذہب کو ڈھال بنا کر مفاد پرست لوگ اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔ لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ خون خرابا کرتے ہیں۔

٭٭

 

اس نے دوبارہ سوٹ کیس کھو لا اور اس میں سے وہ کتاب نکالی جس میں گلاب کی سوکھی ہوئی پنکھڑیاں آج بھی محفوظ تھیں۔ اس نے پنکھڑیوں کو اکٹھا کر کے اپنی ہتھیلی پر رکھا۔ پھر انھیں اپنے نتھنوں کے قریب لا کر مہک کو سونگھنے لگا۔ پنکھڑیوں میں اتنے برسوں تک مہک کا ہو نا عقل و عرفان سے پرے ہے۔ لیکن اس کے دل میں وہ مہک اب بھی تازہ تھی۔ شاید یہی سبب تھا۔ ۔ ۔ وہ جب بھی ان پنکھڑیوں کو سونگھتا۔ اسے وہی مہک نتھنوں میں سرایت کرتی ہوئی محسوس ہوتی۔ اس کا دماغ اس مہک سے اس قدر مانوس ہو گیا تھا کہ احساسِ خیال سے ہی خلیات بیدار ہو جاتے اور ماضی کی مہک وقت کی دیوار پھلانگ کر اس کے سامنے حاضر ہو جا تی۔ گو یا وہ خوشبو نہیں اس کی داسی ہو۔ اس نے پنکھڑیوں کو دوبارہ کتاب میں احتیاط سے رکھا۔ ایک لمبی سانس لی اور باہر نکل آیا۔

٭

 

وہ مکان سے باہر نکلا۔ چند قدموں کے فاصلے پر جا کر مڑا۔ آس پاس کے  مکانوں پر ایک اچٹتی سی نگاہ دوڑائی اور پھر اپنے گھر کو دیکھنے لگا۔ گزشتہ نصف صدی سے اس کے والد اس گھر میں مقیم تھے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ گھرکی ہئیت میں تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں۔ شبیّر حسین کے انتقال تک گھر کی چھت جنگلی گھاس کے تختوں سے بنی ہوئی تھی اور دیواریں مربع نما تودوں سے جنھیں گو بر اور سرخ مٹی سے لیپ لیا جاتا تھا۔ وقار حسین نے شادی کے وقت چھت تڑوا کر گول پیالی دار زمینی مٹی کے کھوپڑ چڑھا دئیے اور دیواروں میں تین کھڑکیاں لگائیں۔ آس پاس اضافی زمین بہت تھی جس میں کاجو کے دو، بٹکی آم کا ایک اور امرود کا ایک پیٹر تھا۔ برسات میں ان کے نیچے ککڑیاں، ٹماٹر، بیگن اور بھنڈی لگائی جا تی۔ پان کی ایک بیل آم کے تنے سے لپٹ کر بہت پھیل گئی تھی۔ جس کے سوکھنے کے بعد اس کا گھیرا آم کے پیڑسے کئی برسوں تک چمٹا رہا۔

چند برسوں بعد وقار حسین اور حمید حسین نے کچھ روپیہ بنایا تو انہوں نے سُرخ پتھروں سے گھر کی از سر نو تعمیر کی۔ مگر نقشہ وہی پرانی طرز کا رکھا۔ چھت پر وہی پرانے کھوپڑ لگائے۔ اب گھر کا احاطہ پہلے کی نسبت بڑا ہو گیا تھا جس کے سبب اطراف کی زمین کم ہو گئی تھی۔

اسے ایسا لگا اڑوس پڑوس کے سارے مکانات کے درمیان اس کا گھر ایک ملازم کی طرح سرنگوں ہے۔

٭

 

’’کس کے دیدار کے لیے آنکھ منتظر ہے اور کن سے ملنے جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’راستہ اور مسافر ایک دوسرے کی ضد میں صدیوں سے کیوں جیتے آئے ہیں۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

{۵}

 

عبد العزیز گلی سے نکل کر سرخ دھول سے اٹے راستے پر آیا جو گانَو کو دو حصّوں میں تقسیم کرتا تھا۔ خود کلامی کا بہت مختصر وقفہ تھاجس میں بڑے مبہم سے خیالات اس کے دل میں آ رہے تھے۔ کویت جانے سے قبل اس کے سوچنے کا انداز سادہ اور یک رخی تھا۔ کویت کے قیام میں ایک بڑی تبدیلی اس کے مزاج میں آئی، جس سے اسے جہاں فائدہ ہوا وہیں پر شدید نقصان سے بھی اس کا سا منا ہو نا تھا۔ بچپن میں اس نے اپنی ماں کی خالہ سے عربی کا قا عدہ پڑھا تھا جو گانَو کے بچوں کو قرآن سیکھا کر اپنا گزر بسر کرتی تھی۔ حالانکہ عبد العزیز کو عربی پڑھنے میں بہت دشواری ہوتی تھی۔ بہت ڈانٹ ڈپٹ کر عمر کے تیرھویں سال اس نے قرآن مکمل کیا، پھر اس کے بعد اس رسم الخط کو اس نے نہیں دیکھا تھا۔ کویت کی سر زمین پر اس کے اطراف عربی کے حروف تھے جو خاموشی سے اسے دیکھا کرتے تھے۔ پہلے پہل تو عبد العزیز نے ان سے نظر یں چرانے کی کوشش کی، پھر یہی الفاظ ہر لمحہ اس کے کانوں پر دستک دینے لگے۔ ان میں اسے ایک الاپ سا لگا جو اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ اس وقت اسے شریفہ پاؤ سکر کی ایک بات رہ رہ کر یاد آتی تھی کہ ’’ساری زبانیں بنیادی طور پر خوبصورت ہیں کیونکہ وہ انسانی ارتقاء کی امین ہیں۔ ‘‘وہ مسکراتا۔ ساتھ ہی اسے کالج کے استاد شندے کی بات رہ رہ کر یاد آتی۔ ’’زبان کوئی بُری نہیں ہوتی بُرے ہوتے ہیں چندمفسد نظریات۔ ۔ ۔ بُرے ہوتے ہیں لوگ جو انھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘

اب وہ پاؤ سکر اور شندے کی معیت سے محروم تھا۔ اس لیے اس نے ارادہ کیا کہ وہ جتنا عرصہ یہاں رہے گا اس دوران عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کرے گا۔ اور واپس لوٹ کر انھیں حیران کر دے گا۔ ان کے لئے مراٹھی میں عربی کے شاعروں کو ترجمہ کرے گا۔ اس خیال سے اس کے اندر ایک ترنگ سی جا گی۔ بینک سے اپنے کمرے پر واپس آنے کے بعد اس کے پاس بہت سارا وقت ہوتا۔ اس نے بازار سے عربی انگلش ٹیچر اور عربی انگلش ڈکشنری خرید لی۔ مہینے بھر میں اس نے ان کتابوں سے بہت سے الفاظ اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیے۔ پھر اس نے Arabic grammar نامی ایک مشہور عراقی پروفیسر کی کتاب پڑھی اور خوب مشق کی۔ وہ صبح جلدی اٹھتا، چائے پیتا اور مطالعے کے لیے بیٹھ جا تا۔ دفتر میں اپنے مصری اور لبنانی دوستوں سے ادائیگی کودرست کرتا۔ اس کے ذوق کو دیکھ کر اس کے لبنانی دوست ماہر عفافی نے اسے اپنے گھر سے عربی درس و تدریس میں استعمال ہونے والی کتابیں لا کر دیں۔ جمعہ کے روز وہ اس کے کمرے پر آ جاتا اور عربی میں گفتگو کرنے کی مشق کراتا۔ دونوں کو معاشیات کے ساتھ ساتھ انسانی علوم میں دلچسپی تھی۔

ماہر نے بعد میں بتا یا کہ وہ شاعر ہے اور عوامی زبان میں شاعری کرتا ہے۔ ماہر عفافی تجریدپسند اور مبہم شاعر تھا۔ عبد العزیز نے اسے وہ کتاب بتائی جو شریفہ پاؤ سکرنے اسے تحفے میں دی تھی تو ماہر عفافی اس کا منہ تکتا رہ گیا تھا۔

چھ سات مہینوں بعد ماہر عفافی نے عبد العزیز کو عربی شاعری کے مختصر انتخاب پڑھنے کے لیے دیے۔ یہ گویا ایک مشق تھی۔ جو الفاظ اس کے لئے مشکل ہوتے وہ اپنی مشقی بیاض میں انھیں درج کر لیتا۔ ملاقات پر ماہر اسے ان الفاظ کے معنی بتاتا۔ عربی اخبار تو وہ روزانہ اپنے دفتر میں ہی دیکھنے کا عادی ہو گیا تھا۔ ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد عبد العزیز عربی درست لہجے میں بولنے لگ گیا۔ جو اسے جانتے نہیں تھے وہ اسے لبنانی سمجھنے کی غلطی کرتے۔ پھر جب انھیں پتہ چلتا کہ وہ ہندی ہے تو دانتوں تلے انگلیاں دبا کر رہ جاتے۔

ماہر ہی کے توسط سے اس نے عربی زبان کے جدید شاعر جو چھٹی اور ساتویں دھائی میں سارے خطۂ عرب میں مشہور تھے ان کا کلام پڑھا۔ عبد العزیز کو عراقی شاعر بدر شاکرا لسّیاب نے بہت متاثر کیا۔ جسے بعد میں جدید شاعری کا بانی قرار دیا گیا۔ اس کی ایک نظم اس نے شریفہ پاؤسکر کے لیے مراٹھی میں تر جمعہ بھی کی۔ مگر اسے ارسال نہ کر سکا۔

ادوینس اس وقت تک کافی مشہور ہو گیا تھا۔ اور ساراخطۂ عرب اس کی ذہانت اور نظموں کو قبول کر چکا تھا۔ اس کے اعزاز میں بیروت میں ایک تقریب تھی جس میں ماہر عفافی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ماہر نے اس بات کا ذکر عبد العزیز سے کیا۔ عبد العزیز نے ادوینس کا صرف نام سنا تھا۔ اس لیے ماہر نے اسے ادوینس کے دو مجموعے  ’’قصائد اولیٰ‘‘ اور ’’اوراق فی الریع‘‘ پڑھنے کے لئے دیے۔ ادوینس کی نظموں نے عبد العزیز کا دل موہ لیا۔ اس کی ایک نظم جو قصائد اؤلی میں، ’’بین عینک وبینی‘‘ کے عنوان سے شامل ہے، اسے دوسری ہی قرأت میں یاد ہو گئی۔ جمعہ کے روز جب ماہر اس کے کمرے پر آیا تو دروازہ کھولتے ہی عبد العزیز نے اس کا استقبال کرتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔

(نظم کا آزاد ترجمہ :میں جب تیری آنکھوں میں کھوسا جاتا ہوں۔ ۔ ایک گہراسایہ اور عہد گزشتہ دکھائی پڑتا ہے۔ ۔ اور میں دیکھتا ہوں جو مجھے یاد نہیں رہتا۔ ۔ میں ساری کائنات کو گزرتے ہوئے محسوس کرتا ہوں۔ ۔ تیری اور میری آنکھوں کے درمیاں۔ )

ماہر نے عبد العزیز سے ہاتھ ملایا۔ وہ بے حد خوش تھا۔ ادوینس اس کے پسندیدہ شاعروں میں سے تھا اس نے لبنانی لہجے میں کہا۔ ’یہ نظم مجھے بھی بہت پسند ہے۔

٭

 

اتوار کی صبح وہ بیروت پہنچے۔ ماہر عفافی کا مکان ائیر پورٹ سے دو

قراُ دے۔ ماھرئے۔ اب گھر کا احا گھنٹوں کی مسافت پر ’’جبالتہ اصغر‘‘ نامی ایک بستی میں تھا۔ اس سفر میں پہلی بار ماہر نے اپنے دل میں محفوظ بہت ساری باتیں عبد العزیز سے کیں۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد ین فلسطینی مہاجر ہیں۔ اس کی عمر پانچ سال تھی جب وہ یروشلم سے ہجرت کر کے لبنان آئے تھے۔ اس کے والد یا سر عرفات کے ساتھیوں میں تھے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے چھ مہینے جیل بھی جا چکے ہیں۔ اس وقت عرب اور عیسائی ساتھ ساتھ اس جد و جہد کا حصّہ تھے۔ ان کی زبان تہذیب اور ثقافت۔ ۔ ۔ عقیدے کی علیحدگی کے باوجود ایک ہے۔ بعد میں آزادی کی تحریک نے مذہبی رنگ اختیار کرنا شروع کیا اورعیسائیوں کو اس سے علاحدہ کیا جانے لگا۔ فلسطین کی آزادی کو بہت بڑا دھکا اسلامی شدت پسندوں کی نعرے بازی سے ہوا جنھوں نے اپنے پیرو کار بڑھانے کے لئے تحریک آزادی کو مذہبی جنگ سے تعبیر کیا۔ اس کے باوجود عیسائی ادیب، شاعر اور صحافی اسرائیلی جارحیت کے خلاف پیش پیش رہے ہیں۔ شدت پسندوں کی وجہ حا لات مخدوش ہوئے۔ نتیجتاً لبنان خانہ جنگی کے دلدل میں کئی سال گرا رہا۔ عبد العزیز کے لئے بہت ساری باتیں انکشاف کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ ماہر عفافی کے من میں محفوظ ساری باتوں کو تفصیل سے سننا چاہتا تھا اس لئے اس کی لمبی لمبی گفتگو کے دوران وہ چُپ ہی رہتا۔ لیکن جب ماہر نے کہا:’عرب نسل پر ست ہیں اور دوسری تہذیبوں کا مذاق اڑاتے ہیں ‘۔ تب عبد العزیز نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بہتان ہوا؟‘‘ ماہر نے اس کی طرف دیکھا اور جواب میں کہا: ’’میرے دوست !تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ عرب جہاں جہاں گئے ہیں۔ انہوں نے مقامی ثقافت کو یا تو مٹا دیا یادوسرے درجے کی چیز بنا کر اس کا مذاق اڑایا ہے۔ عرب دوسرے افراد کی مذہبی تہذیب کے منکر ہیں۔ یہاں خود خطۂ عرب میں رنگا رنگ زبانیں اور ثقافتیں موجود تھیں، جنھیں عربی اقتدار نے ’’جاہلیت کی نشانیاں کہہ کر رّد کر دیا۔ ۔ ۔ اقتدار کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی زبان ہوتی ہے۔ ‘‘

’’زبان !وہ کیسے ؟‘‘

’’!اقتدار اپنی زبان کو دوسرں سے افضل، میٹھی اور اعلیٰ ثابت کرتا ہے اور زیر اقتدار زبانوں کو رفتہ رفتہ نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتا  ہے۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

ماہر نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’میرے دوست !زبان کی بر تری ثقافت کو برتری دیتی ہے، زبان کا احیاء مجموعی یادداشت کا احیاء مانا جاتا ہے۔ اسی لئے تو اسرائیل، عبرانی کو فروغ دے رہا ہے۔ مجھے خود یروشلم کی ایک بینک نے نوکری کا آفر دیا تھا۔ ‘‘

’’تو کیا ہوا اس کا۔ ‘‘

’’جب میں نے انٹرویو دیا تو انہوں نے کہا آگے چل کر عبرانی زبان بھی سیکھنی ہو گی۔ ‘‘

’’تو کیا برا تھا ؟‘‘

’’میرے لئے یہ غلامی کے مترادف ہوتا۔ پہلے انھوں نے ہماری زمین پر قبضہ کیا پھر ہمیں مجبور کریں کہ ہم ان کی زبان اختیار کریں۔ نا ممکن میرے یار۔ ۔ ۔ ‘‘

’’لیکن یوں بھی تم عربوں کے لئے کام کر رہے ہو۔ ‘‘

’’عربی میری مادری زبان ہے۔ ، عربوں کا اور میرا صرف عقیدہ الگ ہے۔ ہماری مجموعی زندگی پر اس کے اثرات نہیں پڑتے۔ بالخصوص لبنان، فلسطین اور جارڈن میں تو ایسالگتا ہی نہیں کہ عربوں اور عیسائیوں میں کوئی فرق ہے۔‘‘

’’لیکن ابھی تم نے ہی تو کہا تھا۔ ۔ ۔ زبان کے ذریعے وہ اپنی ثقافت کو فروغ دیتے ہیں۔ ‘‘

عبد العزیز کی دلیل اسے اچھی لگی۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’دیکھو۔ ۔ ۔ عربی زبان پر ہمارا بھی اختیار ہے، تعلیم میں ہم ان سے آگے ہیں، بڑے ادیب اور شاعر بھی عیسائی ملیں گے۔ دوسری بات، فنکار تو مزاج سے ہی آزادی پسند ہوتا ہے اور جس زبان پر حُرّیت پسندوں کا بول بالا ہوتا ہے وہاں شدت پسندوں کے لئے زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ عہدِ حاضر میں عربی زبان ایک آزاد زبان ہے۔ اس لئے بدرشاکرالسیاب، محمود درویش، احمد مطر نزارقبانی، یوسف ادر یس اور مصر کا وہ ناول نگار۔ ۔ ۔ ہاں نجیب محفوظ۔ یہ سارے لوگ اقتدار کی نظروں میں ریت کی طرح چبھتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن اقتدار انھیں دیوار سے بھی تو لگا سکتا ہے ؟‘‘

’’نہیں میرے دوست!یہی تو فرق ہے دنیا کے دوسرے ممالک اور عرب میں، تم یہ بات نہیں سمجھو گے۔ ‘‘

’’کیا بات ‘‘

’’دیکھو!ہمارے یہاں اقتدار جن کے ہاتھوں میں ہے وہ بنیاد پرست نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کی بیویاں اور خاد مائیں امریکی اور برٹش ہیں یہ لوگ آزاد خیال اور امن پسند لوگ ہیں۔ انھیں ڈر ان لوگوں سے ہوتا ہے جو عوامی مسائل اجاگر کرتے ہیں مثلاً احمد مطر اور نجیب محفوظ۔ ۔ ۔ اس کے باوجود درمیان کا راستہ تلاش کرتے ہیں اور ان سے انتقام نہیں لیتے۔ ۔ ۔ ہمارا اقتدار پسند طبقہ جانتا ہے کہ یہی لوگ بنیاد پرستوں سے لڑسکتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’پھر تم نے یہ کیوں کہا کہ عرب نسل پرست ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

عزیزو۔ ۔ ۔ عام طور پر لوگ مذہبی ہیں۔ مذہبی لوگ تو اچھے ہوتے ہیں، لیکن مذہب کے نام پر شدت پسند لوگ خطرہ ہوتے ہیں۔ افسوس ہے ان دونوں دوبارہ شدت پسند ہر طرف اپنے جھنڈے لیے چھانے لگے ہیں۔ ان کی تعلیمات اور تقریروں سے آدمی ان کے جال میں ہمیشہ پھنستا آیا ہے۔ اگر آدمی سخت گیر ہو جائے تو پھر دوسروں کو حقیر سمجھنے کی حماقت کرتا ہے۔ ۔ عربی مسلمان ساری دنیا کومسکین اور گمراہ سمجھتا ہے۔ تمہیں نہیں پتہ وہ ایرانیوں کو حقارت سے عجمی کہتے تھے۔ اب وہ ہندی لوگوں کو ’’ہونود‘‘ کہتے ہیں۔ اس وقت ان کا ایک مطلب ہوتا ہے ’’بت پرست‘‘

’’امریکیوں کو کیا کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔

’’انہیں وہ تعلیم یافتہ گمراہ قوم سمجھتے۔ اور کہتے ہیں۔ ’’کلا امریکیون شیاطین ‘‘۔ اس پر دونوں قہقہہ لگاکرہنستے رہے۔

’’ہندی لوگوں کے بارے میں ان کا کیا تاثّر ہے۔ ‘‘دوبارہ عبد العزیز نے پوچھا۔

’’سیدھی سی بات ہے عزیز۔ ۔ ۔ ہندی لوگوں کو وہ غریب، لا ا عتبار اور اسفل سمجھتے ہیں۔ تم تو اچھی پوسٹ پر ہو۔ ورنہ گھروں اور معمولی کام کاج کرنے والے لوگوں کے ساتھ یہ اپنے اونٹ سے بھی بُرا سلوک کرتے ہیں۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے یہ اونٹ کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کرتے ہوں گے۔ ‘‘عبد العزیز نے مسکراکر کہا۔

’’بالکل صحیح! اس کی جگہ انھیں انڈیا کے غلام جو دستیاب ہیں۔ برا مت ماننا مگر یہ لوگ ہندی لوگوں کو بندوا مزدور سمجھتے ہیں۔ ‘‘

عبد العزیز نے شیشے سے باہر جھانکا۔ ایک طرف چند مخدوش عمارتیں گردو غبار سے اٹی پڑی تھیں۔ اسے لگا یہاں نئی عمارتیں بننے والی ہوں گی۔ شاید اس لیے پرانی عمارتوں کو منہدم کیا گیا ہے۔ ماہر نے محسوس کیا کہ عبد العزیز ان مخدوش عمارتوں کو بہت دھیان سے دیکھ رہا ہے۔ عین اسی وقت اس نے کہا۔ ’’یہ بھی نسلی بر تری کے لئے کی گئی کشمکش کی گواہ ہیں۔ ‘‘

’’کیا۔ ۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے چونک کر پوچھا۔

ماہر چند لمحوں تک خاموش رہا۔ بہت ساری تلخ یادیں اس کے دماغ میں کروٹ لے رہی تھیں۔ آگ کے شعلے ہر سمت سے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گولہ باری سے اس کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے۔ شہر مذہبی سیاست اور بر تری کی آگ میں جل رہا تھا۔ بیروت، لنکا میں بدل گیا تھا۔ خانہ جنگی نے دونوں قوموں کو یکساں طاقت ور لشکر میں بدل دیا تھا۔ رام دونوں کی فوج میں نہ تھے۔ آنکھوں پر نفرت کی سیاہ پٹیاں باندھے لوگوں نے ایک دوسرے کے گھروں کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ امریکی اور یہودی عفریت نے آسمان کی بلندی سے اس آگ پر پیٹرول چھڑ کا۔ ہر لوگ دھوئیں کی لکیروں میں بدل کر ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔

ماہر نے دل ہی دل میں سوچاکہ اچھا ہوا شہر کا وہ حصّہ جو خانہ جنگی کی چپیٹ میں بری طرح سے جھلسا تھا عبد العزیز نے نہیں دیکھا ہے۔ ورنہ اسے افسوس ہوتا کہ وہ اسے کس آباد خرابے میں لے آیا۔ اس خیال سے اس کے چہرے پر تفکر کی ایک لکیر ابھر آئی۔ اس کا کھلا ہوا رنگ اڑنے ہی والا تھا کہ بس ڈرائیور نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ ۔ ۔ ’’ سعیدی چف ھا ھناک‘‘[جناب، آ گیا آپ کا اسٹاپ] ماہر نے چونک کر دیکھا یہ اس کا اسٹاپ تھا۔ وہ بس

سے اترے۔ اترتے ہی ماہر نے کہا۔ ’’تمہارے آخری سوال کا جواب پھر کبھی۔ ۔ ۔ اب گھر پاس ہی ہے۔ ماں منتظر ہوں گی۔ ‘‘

٭

 

ایک سفید و سرخ پتھروں سے بنے کلیسا کے پیچھے اس کا مکان تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوئے۔ ماہر کی والدہ نے اسے گالوں پر بوسا دیا پھر اس کی بیوی اسٹیلا آئی۔ اس نے بھی اسے گالوں پربوسا دیا۔ اس نے لائف کے بارے میں پوچھا۔ اسٹیلا نے بتا یا وہ سورہا ہے۔ لائف اس کا بیٹا تھا۔ جس کی عمر چار سال تھی۔

ماہر نے اپنی والدہ اور بیوی سے عبد العزیز کا تعارف کیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔ ماہر نے پہلے ہی فون پر آنے کی اطلاع دی تھی اس لئے کھانے کا اہتمام ہو چکا تھا۔ نہا نے کے فوراً بعد ایک بڑے سے ڈائینگ ٹیبل پر وہ لنچ کے لئے بیٹھ گئے۔

ماہر کی والدہ ایک اسکول میں عربی زبان کی استاد تھی۔ اس نے عبد العزیز سے ہندوستانی پکوان اور لوگوں کے بارے میں کئی سوالات کئے۔ جتنے جوابات وہ دے سکتا تھا اس نے دیے۔ ماہر نے اپنی ماں کو بتایا کہ ہندوستان کئی زبانوں کا ملک ہے۔ اور ہر زبان کا اپنا منفرد کلچر ہے۔ اس لئے سارے سوالات کے جواب دینا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہو گا۔ ’’مجھے تو ایسالگتا ہے ہر ہندوستانی ایک الگ زبان بولتا ہے اور اس کا مذہب دوسرے ہندوستانیوں سے الگ ہے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ اس پر وہ خوب ہنسے۔ ’’اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے گھروں کو بموں سے اڑاتے نہیں۔ بچوں پر گولیاں نہیں داغتے۔ ‘‘اسٹیلا نے کہا جس کا بڑا بھائی بہت ہی کچی عمر میں ۱۹۷۵ءکی خانہ جنگی میں ہلاک ہوا تھا۔ اس پر گولیاں اس وقت چلی تھیں جب وہ گھر سے دس قدم دوری پر اخبار لینے گیا تھا۔ اسٹیلا کی آنکھوں میں اس کے چہرے کے خطوط آج بھی تازہ ہیں۔ جو اس سے پوچھ رہا تھا گولیاں جس طرف سے آئی ہیں وہاں تو صرف ایک بڑی مسجد ہی ہے۔ کیا مسجد کا استعمال قتلِ عام کے لئے کیا جا سکتا ہے ؟

’’اسٹیلا ایسانہیں ہے۔ کیا تم نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘ماہر نے کہا۔

’’کیا ہے خاص۔ ۔ ۔ ‘‘ اس کی ماں نے تجسس سے پوچھا۔

’’ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل ہوا۔ چند ہفتے ہی ہوئے ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کانگریس پارٹی ورکروں نے ہزاروں سکھوں۔ ۔ ۔ جوسر پر پگڑی باندھتے ہیں۔ ان کا قتل عام کیا ہے۔ سڑکوں پر لوگوں کو زندہ جلا یا گیا ہے۔ ‘‘عبد العزیز نے ماہر کی والدہ کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے ہوئے کہا۔

’’مب زین[بری بات ہے۔ ]یعنی لوگ ہر جگہ درندگی پر اتر آتے ہیں۔ ‘‘ماہر کی ماں نے کہا۔

’’کیوں کہ لوگ سیاست دانوں کے ہاتھوں کا مہرہ بنتے ہیں۔ یہ سیاست ہے۔ جو لوگوں کو لڑواتی ہے۔ ‘‘ماہر نے قدرے جوش میں کہا۔

’’ہندوستان میں کئی زبانیں اور کلچر ہیں، مگر یہاں تو ہم ایک ہی زبان بولنے والے لڑتے رہے ہیں۔ ‘‘ماہر کی بیوی نے لبنانی روٹی کی تشتری اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’زبان کلچر اور مذہب۔ ۔ ۔ یہ سیاسی لوگوں کے ہتھیار ہیں۔ ساری دنیا ان کے نام پر خون خرابے سے گزری ہے۔ ہر بڑی زبان، بڑا کلچر، بڑا مذہب اپنی بالادستی کے لئے دنیا کو جہنم بنا دیتا ہے۔ ‘‘ماہر نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’تم لکھنے والے، عام لوگوں کو بیدار کیوں نہیں کرتے ؟‘‘اسٹیلا نے معصومیت کے ساتھ کہا۔ گویا اسے یوں لگتا ہے لکھنے والے دنیا کو بدل سکتے ہیں۔

’’جس دنیا کو محمدؐ اورعیسیؐ نہیں بدل سکے اسے لکھنے والے کیا بدلیں گے۔ ‘‘اس سے پہلے کے ماہر کچھ کہتا اس کی والدہ نے کہا۔ اور سلاد کی پلیٹ اٹھا کر عبد العزیز کی طرف بڑھائی۔ اس نے پلیٹ لیتے ہوئے کہا۔ ’’انٹی !میں شاعر نہیں ہوں۔ اس کا جواب تو ماہر بھائی دیں گے۔ ‘‘

’’شاعر کا کام دنیا کو بدلنا ہے بھی نہیں۔ ‘‘ماہر نے کہا۔

’’تو کیا ہے۔ ‘‘اسٹیلا نے فوراً سوال کیا۔

’’یہ دیکھنا کہ دنیا کے حا لات کا اثر انسانی نفس پر کس طرح پڑتا ہے۔ اس کی عکاسی کرنا۔ زیادہ زیادہ شاعر یہ کر سکتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ‘‘اس سے پہلے کہ ماہر جملہ مکمل کرتا اسٹیلا نے اس کی پلیٹ میں چکن کا ایک ٹکڑا ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اپنے گھر میں بیٹھ کر چکن کھاسکتا ہے۔ ‘‘

ماہر کو شاید یہ ناگوار گزرا۔ اس نے فوراً کہا۔ ’’اسٹیلاWe are not joking !‘‘

’’اچھا بیٹا تم کہو کیا کہہ رہے تھے۔ ‘‘ماں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ اسٹیلا نے نظر یں جھکا لیں۔

’’میں یہ کہہ رہا تھا، ۔ ۔ ۔ ایک بار ماہر نے اسٹیلا کی طرف دیکھا۔ پھر جملہ آگے بڑھایا۔ ۔ ۔ ‘‘کہ شاعر یا ادیب اپنے کلچر اور زبان پر ہونے والی یلغار کے خلاف اپنا احتجاج درج کر سکتا ہے۔ جیسا کہ محمود درویش، توفیق زیاد، سمیع القاسم، فد وی طو قان اور ہارون ہاشم رشید نے کیا ہے۔ ‘‘

اس کی والدہ نے ماہر کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس باروہ بے حد سنجیدہ لگ رہی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے خاموشی کا راج رہا۔ گزشتہ دنوں اس نے اسکول میں ’’عصافیرعلی اغصان القلب ‘‘میں سے بچّوں کو انہی شعراء کی نظمیں پڑ ھ کر سنائی تھیں۔ فلسطین کی جد و جہد آزادی کی تصویر پیش کرنے والا یہ انتخاب چند ماہ قبل شائع ہو کر خاص و عام میں بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس کے دل میں یروشلم کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس کا بچپن، اس کی نوجوانی، ماہر کے والد کے ساتھ اس کا عشق اور شادی!پھر وہ مصائب جو شوہر کی گرفتاری کے بعد اسے سہنے پڑے۔ کیوں کہ اس کے اپنے والدین پہلے ہی کینڈا ہجرت کر گئے تھے۔ ماہر اپنی والدہ کے دکھوں کو خوب جانتا تھا اس نے فوراً موضوع بدلنے کے لئے کہا۔ ’’والد صاحب ابھی تک آئے نہیں۔ کہاں ہیں وہ ؟‘‘

’’وہ مہاجروں کے کیمپ میں گئے ہیں۔ جہاں میڈیکل کیمپ چل رہا ہے۔ شاید ان کی واپسی کل ہو گی۔ ‘‘اسٹیلانے کہا۔

’’میں نے کتنی بار کہا۔ انھیں گھر میں آرام کرنا چاہیے۔ ‘‘ماہر نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’بیٹے۔ ۔ وہ فلسطین کی تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ قید نے انھیں پست نہیں کیا۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ‘‘اس نے انتہائی نرم لہجے میں کہا۔

’’مگر ماں کیا آپ نہیں جانتیں۔ حزب اللہ نے دبے لفظوں میں عیسائیوں کو تحریک سے دور رہنے کی وارننگ دی ہے۔ انھیں لگتا ہے عیسائی جاسوس ہیں۔ ‘‘

’’ہم نے بہت سمجھایا۔ ‘‘اسٹیلا نے کہا پھر عبد العزیز کی جانب دیکھا اور اپنا جملہ مکمل کیا۔ ’’وہ کہتے ہیں حزب اللہ کوفلسطین کی آزادی سے زیادہ ایران کے رسوخ کو بڑھا نے میں دلچسپی ہے۔ ان کے بہکاوے میں آئیں تو فلسطین کی تحریک کمزور ہو جائے گی۔ ‘‘

’’دیکھا!۔ ۔ ۔ یہ نہیں مانیں گے۔ مجھے ڈر ہے کسی دن یہ حزب اللہ کے لوگ انھیں مار نہ ڈالیں۔ ‘‘ماہر نے عبد العزیز سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’بیٹا یوں نہ کہو۔ سارے لوگ حزب اللہ والوں کی طرح نہیں ہیں۔ عرفات نے حزب اللہ پر ہمیشہ تنقید کی ہے۔ ‘‘

’’ماں، یہ لوگ مذہب کو درمیان میں لا کر۔ ۔ ۔ ‘‘ ماہر نے عبد العزیز کی طرف دیکھا جو آہستہ آہستہ مجبوس کھا رہا تھا۔ پھر کہا ’’خیر اب چھوڑو اس بحث کو۔ ہم لوگ قیلولہ کر کے نکل جائیں گے۔ شام بیروت میں پرو گرام ہے۔ وہیں سے لوٹ جائیں گے۔ ‘‘

’’ارے اتنی جلدی کیا ہے ٹھہرو گے نہیں دو ایک دن۔ انھیں کچھ سیر و تفریح نہیں کراؤ گے ؟‘‘

’’ کھنڈرات کے علاوہ کیا رہ گیا ہے یہاں ماں !‘‘

’’بہت کچھ ہے۔ ‘‘ اس کی نے ماں زور دے کر کہا۔

’’مجھے تو لگتا ہے چند برسوں میں یہ خطّہ منہدم عمارتوں کے میوزیم میں بدل جائے گا۔ میں تو چاہتا ہوں آپ بھی کینڈا چلی جائیں۔ ‘‘

’ہر گز نہیں۔ ۔ ۔ ’’نحن عصافیر علی اغصان القلب وقلوبنا ارض الفلسطین ‘‘ ( ہم دل کی شاخوں پر بیٹھے پرندے ہیں اور ہمارے دل ارض فلسطین ہے ) ماں نے دمدار آواز میں کہا۔ ماں کی بات سن کر ماہر نے تافیق زیاد کی ’’ھنا باقون‘‘ سے دو مصرعے پڑھے۔

وفی قلوبنا جہنم حمرا

اِذاعطشنا نعصرُ الصّحرا

(آزاد ترجمہ: ہمارے دلوں میں سرخ جہنم ہے۔ ۔ اگر ہمیں پیاس لگے تو ہم صحرا بھی پی لیتے ہیں۔ )ماں کی آنکھوں میں دوبارہ ایک جوش ایک ولولہ چھلک پڑا۔ اس نے نظم کے باقی مصرعے ادا کئے۔

وناکلُ التّراب اِن جعنا۔ ۔ ۔ وَ لا نر حلَ!!

وبالدّم الزکی لانبخلُ۔ ۔ ۔

لا نبخل۔ ۔ ۔ لانبخل۔ ۔ ۔ لانبخل

ھُنا۔ ۔ ۔ لَنا ماضٍ۔ ۔ ۔ وحاضر۔ ۔ ۔ ومستقبل

(آزاد ترجمہ: ہمیں بھوک لگنے پر ہم کیچڑ پر بھی گزارا کر لیتے ہیں مگر ہجرت نہیں کرتے۔ ۔ ہم اپنی ذات میں سخی ہیں۔ ۔ بخل نہیں کرتے۔ ۔ بخل نہیں کرتے۔ ۔ بخل نہیں کرتے۔ ۔ بخل نہیں کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ہم۔ ۔ ہم ماضی۔ ۔ اور حاضر اور مستقبل ہیں۔ ) اسٹیلا نے زور دار تالیاں بجائیں۔ ماہر نے بھی تالیاں بجائیں۔ ان کی دیکھا دیکھی عبد العزیز نے بھی تالیاں بجائیں اور ان کی آواز کے ساتھ آواز ملائی۔

ھنا۔ ۔ ۔ لنا ماضٍ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حاضر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ومستقبل

یہ نظم تحریک آزادی کے ترانے کے طور پر ہر فلسطینی کو یاد تھی۔ اس کے بول ان کی فلسطین سے محبت کے گواہ تھے۔ فلسطین ان کا ماضی، حال اور مستقبل تھا۔ وطن سے محبت کے لئے مذہب شرط نہ تھا، نہ وطن ایک مذہب کے ماننے والی کی جائداد تھی۔ آج عبد العزیز نے عیسائی عرب، فلسطین گھر کی جو دنیا دیکھی تھی اس کے اثرات اس پر ہونا فطری ہے۔ اپنی زبان، اپنے کلچر اور اپنے وطن کی مٹّی کی خوشبو سے ان لوگوں کے رشتے کی گہرائی نے اسے متاثر کیا تھا۔ یہ وہ دن تھا جس نے اس کے اندر سیاسی وسماجی بیداری کے لئے راہ ہموار کی۔ اسے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ فلسطین کی آزادی میں عیسائی بھی برابر کے شریک ہیں انہیں عربی زبان، ادب اور ثقافت پر ناز ہے۔ یہ وہ باتیں تھیں جنہیں چند برسوں بعد حزب اللہ اور حماس جھٹلانے والی تھیں۔

٭

 

کھانے کے بعد ماہر اپنے بیٹے کے ساتھ کھیلتا رہا۔ عبد العزیز ایک کمرے میں آنکھیں موندھے اوندھا پڑا رہا۔ اس کے ذہن میں ایک سوال بار بار ہچکولے لے رہا تھا ’’ میری مادری زبان کون سی ہے۔ ۔ ۔ میرا کلچر کیا ہے۔ ‘‘

٭

 

چار بجے وہ گھر سے نکلے اور قریب ساڑھے چھ بجے بیروت پہنچے۔ ہوٹل ’’سموات‘‘میں ادونیس کے اعزاز میں جلسہ ہونا تھا۔

جلسہ گاہ میں عبد العزیز پہلی قطار میں بیٹھ گیا۔ ماہر اپنے کچھ پرانے دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتا رہا۔ بالآخراسٹیج سے اعلان ہوا کہ اودینس تشریف لا چکے ہیں اور ان کے ساتھ۔ (سب کو یہ سن کر حیرانی اور بہت خوشی ہوئی )عربی دنیا کے سب سے اہم شاعر نزار قبانی بھی تشریف فرما ہیں۔

ایک طرح کی گہما گہمی ہر طرف نظر آئی۔ دو تین ٹی وی کیمرا والے فوراً حرکت میں آئے جو ایک طرف کچھ دیر سے کھڑے تھے۔ صحافیوں نے بھی اپنے کیمرے تیار کئے۔ جوں ہی اسٹیج کا پردہ اٹھا لوگوں نے زور دار تالیاں بجائیں۔ اسٹیج پر نزار قبانی اور ادونیس ایک ساتھ کھڑے تھے۔ ناظم تقریب نے مہمانوں سے کرسیوں پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ پھر مدعو شعراء کو پکارا گیا۔

صدارت نزار قبانی کی تھی۔ ابو حنا نے ایک چھوٹی سی تقریر ادونیس کی نظموں کے پس منظر میں کی۔ لوگوں نے اسے بہت پسند کیا۔ ادونیس کو نزار قبانی کے ہاتھوں ایک سفید پھولوں کا دستہ اور چاندی کا تمغہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ادونیس نے ’’شاعر اور ثقافت ‘‘کے موضوع پر بیس منٹ انتہائی نرم و شیریں لہجے میں تقریر کی۔ جس کے بعض نکات عبد العزیز اپنی بیاض میں لکھتا بھی رہا۔

تقریر کے بعد مدعو شعراء نے ایک ایک نظم سنائی۔ ان کے بعدادونیس نے اپنی نظم۔ قالت الارض[زمین کہتی ہے ]سنائی۔ لوگوں نے خوب داد دی۔ اپنی نظم کے اختتام پر ادونیس نے بڑے احترام سے نزار قبانی سے گذارش کی کے صدارتی خطبے سے قبل وہ چند نظمیں سنائیں۔ نزار قبانی نے شہرہ آفاق نظم ’’رسالۃتحت الماء‘‘ کا کچھ حصہ سنایا۔ پھر تازہ نظموں میں سے ’حبیبتی و المطر ‘ سنائی۔

نظم کو سن کر محفل پر ایک طرح کا سکوت طاری ہو گیا۔ سامعین نے دوبارہ نظم سنانے کی گذارش کی اور نزار قبانی نے محبت میں محو عاشق کی طرح یہ نظم سنائی۔ ایک (رقیق القلب) شاعر اسٹیج پر رو ہا نسا ہو گیا۔ ناظم محفل نے پانی کی بوتل اسے پیش کی۔ اس نے دو گھونٹ پانی پیا اور اسٹیج سے اتر گیا۔

اس نظم کو نو دس سال بعد عراق کے مشہور گلوکار، کاظم الساحر نے اپنے البم کے لئے گایا۔ البم کو اسی نظم سے منسوب کیا۔ یہ البم بعد میں عرب نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن کا اظہار بن گیا۔ جذبہ محبت کا اعلان بن گیا۔ اس البم کی ریلیز سے چند ماہ قبل ہی صدام حسین نے کاظم الساحر کو عراق سے نکل جانے کا اشارہ کر دیا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے کسی محفل میں انسانی حقوق سے محروم غریب عوام کی حمایت میں ایک گیت گایا تھا۔

تقریب کے اختتام پر عبد العزیز کا دل ادونیس سے ملاقات کے لئے بے تاب ہو گیا۔ وہ بیک اسٹیج پر گیا جہاں چائے کا دور چل رہا تھا۔ عبد العزیز نے بیگ سے ادونیس کا مجموعہ ’قصائد اوْلی‘ نکالا اور اس کے قریب پہنچ کر کھڑا ہو گیا۔ ماہر نے اسے دیکھ لیا۔ اس وقت وہ ایک مصر کے شاعر سے گفتگو کر رہا تھا۔ ماہر سمجھ گیا عبد العزیز کیا چاہتا تھا۔ اس نے اسے ادونیس سے ملایا۔ ادونیس کو یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ہندی ہے اور عربی شاعری سے دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے کتاب پردستخط کئے اور ساتھ ہی فرانس کا اپنا پتہ بھی لکھا۔ چند سوالات کے جواب مختصراً اور مدلل انداز میں دئے۔ پھر عبد العزیز سے کہا کہ خط و کتابت کیا کرے۔ اس پیشکش سے عبد العزیز کو بہت خوشی ہوئی۔

ادونیس اور نزار قبانی کو نوجوان شعراء اور ادباء گھیرے رہے۔ عبد العزیز نے نزار قبانی کو عقیدت اور محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور زیر لب اس کی نظم ’’رسالۃتحت الماء‘‘ کی چند سطریں گنگنائی۔ جنھیں مصر کے مشہور سنگر ’عبدالحلیم عبدالحافظ‘ نے گا کر لافانی کر دیا تھا۔

اگر تم قوی ہو

تو مجھے بچا لو اس سمندر سے

مجھے تیرنا نہیں آتا

مجھے کھینچتی ہیں …گہرے عمیق سمندر میں

نیلی… نیلی…

کچھ نہیں ہے سوائے نیلے رنگ کے

نہ مجھے محبت کا تجربہ ہے

نہ میرے پاس کوئی کشتی ہے …

دس پندرہ منٹ ماہر اپنے دوستوں سے بات چیت کرتا رہا۔ پھر عبد العزیز نے اسے اشارہ کر کے بتایا کہ فلائٹ کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

ہوٹل سے باہر آ کر انہوں نے ٹیکسی پکڑی اور ائیر پورٹ کا رخ کیا۔

٭

 

اس سفر نے اس کے اندر بہت ساری تبدیلیاں لائیں۔ اس کے سوچنے کے انداز کو نئی سمت عطا کی۔ اس نے شاعری کی طرف زیادہ سنجیدگی سے دیکھنا شروع کیا۔ جس نے خیالات کی ترسیل و تفہیم کو اس کے لئے آسان کر دیا۔ وہ ابہام اور کنائے سمجھنے لگا۔ ایک روز اس نے عربی کی مشقی بیاض پر لکھا؛ ’’یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کن باتوں کو ادا نہ کرنے کے لئے دوسری باتیں کرتا رہتا ہے۔ ‘‘

اس کی گفتگو میں رفتہ رفتہ اختصار آ گیا۔ اس کے خیالات میں ایک مثبت و منطقی استدلال …اب الفاظ کا غیر ضروری استعمال اسے کھلنے لگا۔ الفاظ کے بے معنی استعمال کرنے والوں کے جسم سے اسے عجیب سی بو محسوس ہوتی گویا بات کرنے والے کا باطن سڑ رہا ہو۔ اس نے ایسے لوگوں سے بات کرنا کم کر دیا جو لفظوں کے استعمال میں بے حس تھے۔

٭٭

 

گانو واپسی پر جب وہ گھر سے باہر نکالا تب ذہن میں یہ بات آئی کہ ’’راستے اور مسافر ایک دوسرے کی ضد میں صدیوں سے کیوں جیتے آئے ہیں۔ ‘‘ تو وہ جانتا تھا ہے کہ اس جملے سے اس کی مراد کیا نہیں ہے۔ ۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر وہ یہ جملہ کسی کو سنائے گا تو سننے والا کچھ بھی نہیں سمجھے گا۔ اس جملے میں معنی کی متعیّن تعبیر نہیں ہے اور تعبیر کی شرح کے مسئلے سے وہ واقف ہو چکا تھا۔

قیامِ کویت کی عبد العزیز کو سب سے بڑی دین ذہنی ساخت میں تبدیلی تھی جس کے سبب اس کے جملوں میں تخلیقی نثر کا لطف پیدا ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۶}

 

کچی سڑک پر سرخ مٹی چمک رہی تھی۔ سڑک کے دونوں کناروں پر جو پیڑ پودے لگے ہوئے تھے ان پر سرخ مٹّی کی تہہ ہمیشہ چڑھی ہوئی رہتی تھی صرف بارش کے چار مہینے یہ کپڑے بدل کر مسکرایا کرتے تھے۔

وہیں موڑ پر ایک بہت پرانا جامن کا پیڑ تھا، پیڑ کے پاس ایک بہت بڑا پتھر تھا۔ اس پتھر کے متعلق دو باتیں مشہور تھیں ۱)یہ ہزاروں سال سے موجود ہے۔ ۲) اور یہ آسمان سے بھیجا ہوا ہے۔

آدی واسیوی جب بھی گانو میں آتے تو اس پتھر کے پاس ٹھہر کر دعا کرتے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ مقدس پتھر ہے۔ اس میں آسمانی طاقت ہے۔ مسلمان بچے اس پر چڑھ کر کھیلا کرتے۔ عبد العزیز کی نظر اس پر پڑی تو اسے وہ دن یاد آ گئے جب وہ بھی اس پتھر پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کیا کرتا تھا۔ وہ پتھر کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے گردن اٹھائی اور جامن کی پھیلی ہوئی شاخوں کو دیکھا۔ جامن وہ کس اشتیاق سے کھایا کرتا تھا۔

لیکن جس بات نے اس پتھر کے پاس اس کے قدموں کو روکا وہ دوسری تھی۔ جس روز سکینہ کے ساتھ وہ ندی کنارے بارش اور محبت میں شرابور ہوا تھا اس شام وہ بہت دیر تک اس پتھر پر اکیلے بیٹھ کر برسات میں بھیگتا بھی رہا تھا۔ موٹی موٹی بوندیں اس کے سر پر برستی رہی تھیں۔

یخ بستہ ہواؤں نے جامن کی شاخوں کو سربھی سرشار کر دیا تھا۔ سرشاری سے وہ جھرجھری لیتیں تو پتوں پر جمع پانی کیف پرور موسیقی کے ساتھ گرتا۔ اس دن عبد العزیز نے نڈر ہو کر محبت کا لطف حاصل کیا تھا۔ مہینوں کی تڑپ اور الجھن اس لطف کی تمازت سے اس کے اندرسے بہہ کر نکل گئی تھی۔ وہ مسرور اور بے حد خوش تھا۔ اس کے دل کی پیاس سکینہ کی زمین کے لمس سے بجھ گئی تھی۔ لا اعتباری اور ڈر کی جو حالت اس پر گراں بار ہوئی تھی اسے سکینہ کی خوشبو نے مٹا دیا تھا۔ آج سکینہ نے اسے بانہوں میں بھر کر محبت کا اقرار کیا تھا۔

وہ سکینہ سے بد ظن تھا۔ جب اس نے کہا تھا ’’ کچھ نہیں ‘تو چلے جا۔ ۔ ۔ ‘‘تو اسے ایسا لگا تھا کہ یہ جملہ اس نے نا پسندیدگی کے ساتھ کہا ہے۔ اس غلط فہمی نے اس کو دوبارہ اس کے گھر جانے سے روک رکھّا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر وہ پھر اس کے دروازے پر گیا اور اس نے دوبارہ اسے لوٹا دیا تو اس کا دل بری طرح سے ٹوٹ جائے گا۔ اس کا دل وسوسوں سے بھر گیا تھا۔ جو سکینہ اور اس کے درمیان ہوا تھا وہ ناقابل فراموش اور یکساں طور پر ناقابل یقین تھا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، اس کی یادداشت نے اس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا شروع کیا۔ وہ آنکھیں بند کر کے تمام لمحوں کو جب دوبارہ ذہن میں اجاگر کرنا چاہتا تو مناظر اور احساسات آپس میں گڈمڈ ہو جاتے۔ دوسرے واقعات، دوسرے لوگ، دوسرے اتفاقات بھی ان لمحوں ذہن میں در آتے اور وہ سوچ کے مقصود دھارے سے بھٹک جاتا۔ اتصال کا جو نغمہ اس کی روح میں محفوظ تھا وہی فراموشی کے حزنیے میں بدل جاتا۔

٭

 

اس لئے جب سکینہ کے روبرو وہ بارش میں آم کے پیڑ کے نیچے کھڑا تھا اس وقت اس کے دل کا دماغ اور بدن سے رابطہ کمزور پڑ گیا تھا۔ اسے یقین نہیں تھا کہ سکینہ بھی اس سے محبت کرنے لگی ہے اور اس سے ملنے کے لئے اتنی ہی بے قرار تھی۔ اس لئے مبہوت ہو کر وہ سکینہ کو دیکھتا رہ گیا تھا۔

مگر جب وقت نے کروٹ لی اور وہ کہانی کے دوسرے پڑاؤ پر تھا جہاں ندی کے بہاؤ میں محبت کا عرق رواں اس نے بہتے ہوئے دیکھا تب اس کا یقین۔ ۔ ۔ ایمان میں بدل گیا۔

اس خوشی سے اس کے اندر ایک شعلہ سا بھڑک اٹھا تھا ورنہ اتنی دیر تک بارش میں بھیگنے پر وہ کانپنے لگ گیا ہوتا۔

شام کو پتھر پر بیٹھ کر وہ بہت دیر تک بھیگتا رہا۔ برسات کی بوند یں شور کے ساتھ گر رہی تھیں۔ اس شور میں اس کے لب سکینہ کا نام لیتے رہے۔ اس کے ہونٹوں سے سکینہ کے نام کے حروف ادا ہوتے تو ایک گرم سانس اس کی حلق سے نکل کر بارش کی لہروں میں تحلیل ہو جاتی۔ یکایک، اس کی نظر ایک تکونی پتھر پر پڑی۔ اس نے اسے اٹھا یا اور دوبارہ پتھر پر چڑھ گیا۔ ایک نظر اطراف میں دوڑائی۔ لوگ گھروں اوربستروں میں دبک گئے تھے۔ البتہ اس کی عمر کے لڑکے رہ رہ کر یہاں وہاں بھاگم بھاگ کرتے دکھائی دیتے۔

جب اسے اطمینان ہو گیا کہ جامن کے پیڑ کے علاوہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے تو اس نے تکونی پتھر سے جامن کے تنے پر مراٹھی میں سکینہ کے نام کے حروف بنائے۔ تنے کی خال بہت مضبوط تھی۔ اسے بڑی مشقت کرنا پڑی۔ اس کی ہتھیلی میں پتھر کی رگڑ سے جلن ہونے لگی۔ مگر اس نے بارش اور محبت کے نشے میں ڈوب کر کسی مدہوش شرابی کی مانند اپنا مشن جاری رکھا۔ اس نے نام کے حروف کاڑھے تھے نام نہیں لکھا تھا۔ ان کو ملا کر فوراً ’’سکینہ‘‘بنانا دوسروں کے لئے آسان نہ تھا۔ پھر اس نے حروف کے گرد دل بنایا اور دبی زبان میں کہا۔ ’’اس دل میں تو ہمیشہ رہے گی۔ ‘‘

٭

 

جوں ہی وہ جامن کے پیڑ کے نزدیک پہنچا اسے اپنا یہ جملہ یاد آیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک معصومانہ مسکراہٹ ابھری۔ اس مسکراہٹ میں پیڑ پر بنائے ہوئے نشان کو دیکھنے کا اشتیاق بھی شامل تھا۔ وہ بڑے پتھر پر چڑھ گیا۔ تنے کے اس حصے کو اس نے قریب سے دیکھا …اس کے دل میں وہی پرانی بارش کا کیف دوبارہ لوٹ آیا۔ جہاں وہ حروف کاڑھے گئے تھے وہاں کی خال کے اتنے حصے کے گرد اب باریک سیاہ ریشے پھیل گئے تھے۔ مگر آج بھی وہ ان حروف کو پڑھ سکتا تھا اس نے ہتھیلی پھیری، آنکھیں اس کی پل بھر کے لئے بند ہوئیں۔ ۔ ۔ اسے یوں لگا اس نے ابھی ابھی سکینہ کے لمس کو محسوس کیا ہے۔ تنے کی کھردری سطح اس کے لئے گداز جسم کی ملائمت میں کیسے بدل گئی۔ ۔ ؟؟؟؟

وہ اداس ہو گیا۔ یہ محبت کے سبب پیدا ہونے والی اداسی تھی جو تنہائی کی طرح زہریلی ہوتی ہے۔

وہ پتھر پر سے نیچے اتر گیا اور موڑ کاٹ کر آگے بڑھ گیا۔ اسے ڈر تھا کوئی اسے اتنے برسوں بعد اچانک اس حالت میں دیکھے گا تو جانے کیا سوچے گا۔ گانو میں ہر بات ایک کونے سے دوسرے کونے میں پل بھر میں پھیل جاتی ہے۔ وہ باتیں بھی جن کو دلوں میں محفوظ کرنے کی لوگ آپس میں قسمیں کھا لیتے ہیں۔ کوئی جادوئی طاقت تھی جو مجبور کر دیتی اور لوگ باتیں چھپانے میں ناکام ہو جاتے تھے۔

عبد العزیز کے گانو میں قدم رکھنے سے پہلے ہی پورے گانو کو اس کی واپسی کا علم ہو گیا تھا۔ وہ جوں ہی اپنے رشتے داروں کے گھر پہنچتا اس کے دہلیز پر قدم رکھتے ہی چائے، ساندنے، گلوکوز بسکٹ، کھارے بٹر، گھاٹئے، اور گھر کا بنایا ہوا پھوے کا چوڑا ایک ٹیبل پر سجا نظر آتا۔ خلیجی ممالک سے لوٹنے والے پر لازم تھا کہ پیش کی گئی چیزوں میں سے وہ تھوڑا بہت کھائے۔ ورنہ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک جملہ گانو بھر میں گشت کرنے لگ جائے گا۔

۱)دینار سے گرمی چڑھ گئی ہے۔

۲)ہم کیا چائے میں زہر ڈالنے والے تھے۔

۳)اسے لگتا ہے ہم تعویذ پلا دیں گے۔

۴)تھوڑا مغرور ہو گیا ہے۔

۵)اس میں پہلے جیسا اپنا پن نہیں رہا۔

۶)ارے کل ہمارا لڑکا بھی گلف جائے گا۔ آج ہی دنیا ختم نہیں ہوئی ہے۔

اس طرح کے لیبل سے بچنے کے لئے کوئی انکساری سے کام لے اور خوب گھل مل کر گفتگو کرے تو دوسری مصیبت۔ ایسے شخص کے بارے میں مندرجہ ذیل میں سے کوئی نہ کوئی بات پھیل جاتی۔

۱)اندر کی گانٹھ کا ہے۔ سب دکھاوا ہے۔

۲)ہاتھی کے کھانے کے دانت اور ہیں دکھانے کے اور۔

۳)اپنی ماں / باپ پر گیا ہے۔

۴)ہم کو ایڑاسمجھتا ہے۔

۵)بدھو کا بدھو رہا۔

۶)دولت سے عقل آتی ہے کیا؟

اہل کوکن نام رکھنے اور لیبل لگانے میں دوسری کسی قوم سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ دو ایک قدم، آگے ہی ہوں گے۔ چوں کہ اس عمل میں سب کا رول ہے اس لئے ان بنیادوں پر آپس میں اختلافات نہیں ہوتے۔ یہ کلچر کا حصہ ہے گویا۔ گانو میں سب کے ایک سے زائد نام ہوتی ہیں۔ ایک تو وہ نام جو والدین اور گھر والے رکھتے ہیں اور دوسرا یا دیگر نام جو گانو والے آپسی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابراہیم کو ابو یا ابا کہا جاتا ہے۔ یہ دوسرا نام اہل کوکن کے طنز و مزاح اور ظرافت کی دلیل ہے۔ بعض خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اتنے زیادہ نام ہوتے ہیں کہ لوگ اصل نام کی جگہ کبھی کبھار فرضی نام پکارنے کی گستاخی کر بیٹھتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

{۷}

 

ظہر کی اذان تک وہ گانو میں اپنے قریبی رشتے داروں اور دوستوں کے گھروں کو پیر لگا چکا تھا۔ ’’گھروں کو پیر لگانا ‘‘کو کنی محاورہ ہے۔ جب کوئی شخص گانو سے دور، روزگار کے لئے جا کر لوٹتا ہے، تب اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے گھر جا کر ان سے ملے۔ سورل میں اسے ’’گھرا لا پایے لان یے ‘‘کہتے ہیں۔ چوں کہ کوکنی باقاعدہ تحریری زبان نہیں ہے اس لئے کوکن کے ہر گانو کی لفظیات میں فرق ہے۔ ہر گانو کی بولی دوسرے گانو سے مختلف ہوتی ہے اس کے باوجود۔ ۔ کوکنی ایک بہت بڑی آبادی کے کلچر اور لاشعور کی آئینہ دار ہے۔ کوکنی، مراٹھی زبان کی ایک دھارا لگتی ہے جس میں عربی اور فارسی کے الفاظ مل گئے ہیں۔ جو کوکنی ہندو افراد بولتے ہیں اس میں مراٹھی زیادہ ہوتی ہے۔

زبانوں کے حقوق کی طرح بولیوں کے بھی حقوق ہیں۔ بولی کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ زبانوں کی موجودگی میں بھی اسے زندہ رہنے، ترقی کرنے اور اپنے کلچر کو فروغ دینے کا موقعہ ملے۔ وہ زبان جو بولیوں پر حملہ آور ہو اور اپنے دبدبے کو قائم کرنے کے لئے ان کا مذاق اڑائے وہ زبان شر پسندوں، نسل پرستوں اور انسانی حقوق کے قاتلوں کی زبان ہوتی ہے۔ وہ زبان جو اقتدار کی طرف سے جبراً نافذ کی جاتی ہے وہ زبان نہیں بلکہ لوگوں کے گلوں میں غلامی کا طوق ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ زبان جو مذہبی سیاست کے نام پر، یا مذہبی جذباتیت کے نام پر لوگوں کے حلق میں ٹھوسی جاتی ہے اسے ابلیس کی مقعد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ زبان جسے مذہب کی شرط قرار دیا جاتا ہے وہ زبان دوسرے انسانوں کی توہین ہے۔ اور وہ زبان جسے غیر زمینی یا آسمانی کہا جائے وہ زبان انسانی تباہی کا راگ /منتر ہوتی ہے۔ جسے جب بھی اقتدار حاصل ہو گا زمین پر خون خرابے کے بادل منڈلانے لگیں گے۔

٭ ٭٭

 

 

 

 

{۸}

 

عبد العزیز گھر میں داخل ہوا تو اسے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس کے بچپن کے دوست صابر، رفیق ونواور رشید وٹے دار میں ہی اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسکول کے دنوں میں یہ اس کے ہم جولی اور راز دار تھے۔ قریب آدھے گھنٹے سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی وہ کھڑے ہو گئے۔

انھیں دیکھتے ہی عبد العزیز کے ذہن میں اسکول کے دنوں کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ ان کے گلے ملا۔

چاروں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ پرانے دنوں کی باتیں۔ اسکول میں کی گئی شرارتوں کی باتیں۔ ان لڑکیوں کی باتیں جنھیں اسکول کی چھٹی کے بعد وہ ڈراموں کی ریہرسل کے لئے رکوا لیتے اور گپ شپ کیا کرتے۔ ان ٹیچروں کی باتیں جن سے نمبر بڑھوانے کے لئے وہ ان کی جھوٹی تعریف کیا کرتے۔

ان لوگوں کی باتیں جو اچانک اللہ میاں سے ملنے کے لئے دنیا کو خیرباد کہہ کر دوسری دنیا منتقل ہو گئے۔ گفتگو جاری تھی کہ یکایک رشید نے کہا۔ ’’خیر۔ ۔ نماز کا وکت ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے تو نکل…ورنہ تیرے ابّا…خالی پھوکٹ، ہم لوگوں کے گھر پہنچ جائیں گے۔ ‘‘صابر نے کہا۔

…رشید نے اٹھ کر عبد العزیزسے ہاتھ ملایا۔ اور باہر نکل گیا۔ ابھی وہ گلی کے موڑ پر پہنچا ہو گا کہ عبد العزیز نے صابر سے پوچھا۔ ’’اس کے والد تم لوگوں کے گھر کیوں پہنچ جائیں گے …‘‘

’’یار…اتنے برسوں بعد تو گانو آیا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘رفیق نے کہا۔

’’تو کیا ہوا۔ ہوں تو اسی گانو کا۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے رفیق سے براہ راست کہا۔

’’گانو…بہت بدل گیا ہے۔ ‘‘صابر نے قدرے تحمل سے کہا۔

’’کیا بدلا ہے یار…ہاں کچھ گھر بنگلوں میں بدل گئے ہیں۔ ۔ اور کیا؟‘‘عبد العزیز نے صابر کی بات پر اپنی رائے رکھی۔

’’ایسا نہیں ہے، ہم تجھے شام کو سمجھائیں گے۔ کھانا وانا کھا کر تو پہلے تھوڑا آرام کر لے۔ ہم واپس شام کو آئیں گے، تب تفصیل سے بات ہو گی۔ ‘‘رفیق ونو نے بھانپ لیا تھا کہ عبد العزیز بہت ساری تبدیلیوں کی سنگینیت سے ابھی واقف نہیں ہے۔

’’اور سن !باہر چلنے کا ہے گھومنے …زمانہ ہو گیا تیرے ساتھ بھٹکے ہوئے۔ ‘‘صابر نے اٹھتے ہوئے کہا۔

حامی بھرتے ہوئے عبد العزیز دروازے تک انھیں رخصت کرنے گیا۔ وہ پائے دان سے نیچے اترے۔ پھر مڑے، مسکرائے اور آگے بڑھ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

{۹}

 

عبد العزیز و ہیں دروازے پر کھڑا رہا۔ انھیں گلی میں ایک دوسرے کے کندھے پر باہیں ڈالے سڑک کی اور جاتے دیکھتا رہا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ شاید پاس کی سڑک پر آٹو رکشا گزرا تھا۔ ہلکے شور کے ساتھ سرخ غبار ایک لکیر کی طرح ہوا میں اوپر اٹھتا دکھائی دیا۔

بچپن میں روزانہ انہی دوستوں کے ساتھ وہ دیر شام تک کھیلتا رہتا تھا۔ یہاں تک کے سرخ مٹّی اس کے پیروں، ہاتھوں اور چہرے پر ایک پرت بنا لیتیں۔ گھر لوٹنے پر مہرون اسے خوب کوستی۔ بلّی کے دانت تھے۔ پھر نہلاتی۔ مہرون اسے آنگن یا منگیلدار میں آسمان کے نیچے صابن لگا کر ناریل  کے کاتھے سے خوب ملتی۔ سرخ مٹّی سرخ جھاگ میں بدل جاتی۔ مہرون دو تین ٹوپ پانی اس کے سر پر انڈیل دیتی۔ وہ چلاتا۔ کودتا۔ ہنستا۔ اور جب کبھی صابن آنکھوں میں چلا جاتا تو دھاڑیں مار مار کر روتا۔ مہرون مزید پانی انڈیلتی اور آس پاس کے لوگ اس منظر سے لطف اندوز ہوتے۔

سرخ جھاگ تھوڑی دیر تک زمین پر گاڑھی پرت کی صورت منجمد رہتا۔ پھر پیاسی دھرتی پانی کے قطروں کو چوسنے لگتی۔ رات آ جاتی۔ سرخ مٹّی وہیں رات بسر کرتی۔ دوسرے دن سورج مسکراتے ہوئے نیند سے بیدار ہوتا۔ زمین کی اوپری سطح پر جہاں کہیں نمی ہوتی اسے چائے سمجھ کر پی لیتا۔ نیند اس کی اڑ جاتی اور وہ نصف النہار کی طرف بڑھنے لگتا۔ سرخ مٹّی کی کایا کلپ ہو جاتی۔ ہوا کی بارات گنگناتے آتی اور مٹی تتلیوں میں بدل کر اڑ جاتی۔

یہ چکر صدیوں سے جاری ہے۔ کوکن کی سرخ مٹی دھوپ میں چمکتی رہتی ہے۔ اور بارش میں لہو بن کر بہتی ہے۔ اس کا کوکن کے لوگوں سے بہت گہرا رشتہ ہے۔

مٹی اور آدمی، موسم اور آدمی، اور رنگ اور آدمی ایک دوسرے کی پہچان ہوتے ہیں۔ کوکن کا آدمی یہاں کی مٹی، موسم اور رنگوں سے فطری مطابقت رکھتا ہے۔

٭

 

وقت دبے پاؤں گزرتا گیا اور ایک روز مہرون یہ سن کر بھونچکی رہ گئی۔

’’میں چڈی نہیں اتاروں گا۔ ‘‘

’’کیوں رے …بڑی حیرانی کے ساتھ مہرون کی زبان سے ادا ہوا۔

’’مجھے شرم آتی ہے۔ ‘‘

مہرون ہنس ہنس کر گویا پاگل ہو گئی تھی۔ عبد العزیز اپنا سا منہ بنا کر اسے دیکھتا رہا۔ مہرون نے جبراًسے پکڑ کر اس کی چڈی اتاری اور صابن لگا کر اس کے پورے بدن کو کاتھے سے گھسنے لگی۔ وہ احتجاج کرتا رہا اور مہرون کہتی رہی۔ ’’میرے سامنے کا کیڑا مجھے کہتا ہے۔ شرم آ رہی ہے۔ کوئی بتاؤ …ہے کوئی مجھے بتانے والا۔ ‘‘

چند روز گزر گئے۔ مہرون نے بھی اس کی چڈی اتار کر اسے نہلا نے کی ضد کرنا چھوڑ دیا۔ اب وہ خود بھی صابن ملنے لگ گیا تھا۔ مگر مہرون کو اس وقت تک تّسلی نہیں ہوتی جب تک وہ خود ناریل کے کاتے سے اس کے بدن کے ایک ایک پور کو صاف ستھرا نہ کرے۔ نہلا نے کے بعد وہ ٹاویل یا کسی کپڑے سے اسے پوچھتی۔ اس کے بالوں پر ناریل کا تیل لگاتی۔ کنگھی کرتی۔ کبھی کبھار اس کے بدن پر پاؤڈر بھی چھڑکتی۔ اس کی آنکھ اس وقت تک نہیں لگتی، جب تک اپنے بیٹے کو اپنے کلیجے کے آس پاس محسوس نہ کرتی۔ شاید اس لئے عبد العزیز کی پیدائش کے بعد وقارحسین کو ایسا بھی لگتا تھا کہ اب مہرون کا لگاؤ ان سے کچھ کم ہو گیا ہے۔

عورت بیٹے میں شوہر کا عکس کیوں ڈھونڈتی ہے۔

٭

 

چند مہینوں میں ہی وہ دن بھی آ گیا جب مہرون نے نیم گرم پانی بکٹ میں اتارا اور ناریل کا کاتا لے کر آنگن میں آئی تو عبد العزیز نے کہا میں خود ہی نہا لوں گا۔ مہرون وہیں کھڑے رہ کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ ضد پر اتر آیا اور منگیلدار کے گڑ گے کو پھلا نگ کر بھاک گیا۔ وہ اس کے پیچھے دوڑی۔ دونوں کے درمیان پتھروں کی یہ موٹی دیوار حائل رہی۔

بالآخر مہرون نے ہتھیار ڈال دیے۔

عورت اپنے بچوں سے ہار نے میں کبھی ہتک محسوس کیوں نہیں کر تی؟

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۰}

 

ہوا میں منتشر سرخ مٹی کے ذرات کو آگے بڑھ کر درختوں کی شاخوں اور پتوں نے آسمان کی طرف جانے سے روک لیا۔ رکشا کا شور ہوا کے دوش پر دور چلا گیا۔ عبد العزیز کے ساتھی گلی کا موڑ کاٹ کر سڑک پر پہنچ گئے۔

اس نے دروازے کے پٹ آگے کئے اور مڑ گیا۔

٭

 

مرغے کے مسالے دار سالن کو جوش آ رہا تھا۔ مہک پڑی سے نکل کر منچا انگنیدار اور پھر وٹے دار میں پہنچ گئی۔ شمیم منگیلدار میں شیشے کے برتن صاف کر رہی تھی جنھیں صرف مہمانوں کے آنے پر ہی استعمال کیا جاتا تھا۔

مہرون نے چولہے سے جلتی ہوئی لکڑیاں نکالیں۔ آگ بجھائی۔ سرخ انگاروں کو چولہے کے کنارے پھیلا یا۔ ان پر مرغے کے سالن کا ٹوپ اتار کر رکھ دیا۔ پھر ایک ڈبے سے گھر میں بنائے دس بارہ پا پڑ نکالے۔ چولہے کے پیچھے بر تنوں کی ٹوپلی میں سے پا پڑ اور بومبل تلنے کی پتیلی نکالی۔ اس میں مونگ پھلی کا تیل ڈال کر چولہے پر رکھا اور چمٹا ہاتھ میں لئے تیل کے گرم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔

اسی وقت عبد العزیز پڑی میں داخل ہوا۔ مہرون نے اسے دیکھتے ہی کہا ’’ہو گئی دوستوں سے ملاقات‘‘

’’ہو گئی۔ ۔ مگر ادھوری، ۔ ۔ شام کو ہم لوگ باہر گھومنے جانے والے ہیں۔ ‘‘

شمیم نے اس کی بات سنی۔ اس نے منگیلدار سے ہی اونچی آواز میں کہا۔

’’تین سال بعد آئے ہو، پہلے کچھ دن گھر میں گزارنا۔ ۔ ۔ پھر بھٹکنے جانا۔ ‘‘

’’ارے چاچی…بھٹکنے وٹکنے نہیں جا رہا ہوں بس گانَو کے آس پاس کسی کھیت میں بیٹھیں گے اور کیا!‘‘

’’کہیں بھی جانا مگر مغرب تک گھر آ جانا۔ آج تیرے ابّا اور چاچا عصر بعد ہی دکان بند کر کے آنے والے ہیں۔ پرسوں اگر عروس نہ ہوتا تو آج دُکان کھولتے بھی نہیں۔ ‘‘مہرون نے تیل میں پاپڑ ڈالتے ہوئے کہا۔

’’مغرب تک تو آ ہی جاؤں گا…‘‘عبد العزیز نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

شمیم پڑی میں داخل ہوئی۔ اس کی کمر پر دھوئے ہوئے برتنوں کی ٹوکری تھی۔

مہرون نے تلا ہوا پاپڑ نکال کر ایک ساسر میں رکھا۔ گھر میں بنائے ہوئے پاپڑوں کی مہک سے عبد العزیز کی بھوک جاگ گئی۔ وہ مہرون کے قریب بسنے پر بیٹھ گیا۔ مہرون نے کہا۔ ‘‘سوچتا کیا ہے ؟اٹھا لے۔ تیرے لئے ہی تو بنا رکھے ہیں۔ ‘‘

عبد العزیز نے پپڑ اٹھا یا۔ مہرون اسے ممتابھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ عبد العزیز نے اس کی گردن پر اپنی بانہیں ڈال دیں اور پیار سے اسے اپنی طرف کھنچا۔ اس کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ مہرون اپنے بیٹے کی ان شرارتوں کی عادی تھی۔ یہاں اسے یوں لگا تھا کہ اتنے برس باہر رہ کر آیا ہے، سب شرارتیں بھول گیا ہو گا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح گرم چمٹا اس کے پیروں کے قریب لا کر کہا۔ ’’چھوڑ شیطان ورنہ چٹکا دوں گی۔ ‘‘

’’دو…میں نہیں ڈرتا۔ ‘‘

مہرون نے چمٹا زمین پر رکھا اور پتیلی کے نیچے سے جلتی ہوئی لکڑی کو پیچھے کھینچا۔ پاس رکھے ہوئے گلاس میں انگلیاں ڈبائیں اور لکڑی پر پانی کے چھنٹے مارے۔ آگ بڑی حد تک بجھ گئی۔ پھر کہا۔ ’’اچھا بابا۔ تو جیتا میں ہاری۔ ‘‘

’’یہ ہوئی نہ کوئی بات ‘‘ یہ کہہ کر عبد العزیز نے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا اور ساسر میں سے دوسرا پپڑ اٹھا لیا۔

٭

 

باہر سے آنے والی آواز اس کے کانوں پر پڑی وہ چولہے کے پاس سے اٹھا اور پائٹن کی اور مڑا ہی تھا کہ سلیم نے اس پر چھلانگ لگا ئی۔ عبد العزیز نے اسے دونوں ہاتھوں میں کس کردبوچ لیا۔ بھر اسے گدگدی کرنے لگا۔ وہ قہقہے لگا تار ہا۔ بچاؤ بچاؤ۔ گد گدی ہوتے گدگد ہوتے، میلوں میلوں میلوں گو، بووا۔ مایو۔ میلوں گو۔

مہرون اور شمیم کی نظریں ملیں۔ وہ زیرِ لب مسکرائیں۔ عارفہ جو کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہی تھی اس نے کہا۔ ’’بھائی چھوڑ و مت، اس کو اور گدگدیاں کرو… بہت کرو بہت کرو۔ اس نے کل میرے کو بہت ستایا تھا۔ ‘‘

’’چپ یہ بھوتنی‘‘سلیم نے عبد العزیز کی گود سے ہی عارفہ کو ڈانٹا۔

’’دیکھو…یہ میرے کو بھوتنی بولتا ہے۔ اسکول میں بھی سب کے سامنے بولتا ہے۔ اس کو اب مت چھوڑو۔ ‘‘عبد العزیزسے مخاطب ہو کر عارفہ نے کہا اور سلیم کو منہ بنا کر چڑانے لگی۔

’’چپ بھوتنی نہیں تو بھائی کو بتا دوں گا۔ توبستر میں …‘‘اتنا کہہ کر سلیم زور زور سے ہنسنے لگا۔

’’ماں دیکھو…سلیم کو…‘‘عارفہ نے زمین پر پیر پٹک کر رونے کا ڈرامہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔

’’میں اسے گرم چمٹے کا چٹکا دوں گی اگر وہ بتائے گا۔ ’’عارفہ کو شمیم کے جملے سے تھوڑی تسکین ملی۔ اس نے مڑ کر دوبارہ سلیم سے نظر یں ملائیں۔ اور ہاتھ کے اشارے سے چمٹا بتایا۔

’’عزیز بھائی۔ میں ہے نہ آپ کو بعد میں اکیلے میں بتاؤں گا۔ ‘‘زمین پر پیر رکھتے ہوئے سلیم نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

’’ٹھیک ہے …‘‘اتنا کہہ کر وہ عارفہ کی طرف بڑھ گیا۔ عارفہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ عارفہ کی آنکھوں میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ مڑ مڑ کر سلیم کو بھی دیکھے جا رہی تھی۔ پھر اس نے عبد العزیز کے کان میں کہا۔ ’’اس کی باتوں کو سچ مت سمجھنا ہاں۔ ۔ ۔ وہ بہت جھوٹا ہے۔ ‘‘

’’ارے بالکل نہیں …‘‘اتنا کہہ کر عبد العزیز نے عارفہ کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر بیٹھا لیا۔ عارفہ نے اس کے کان زور سے پکڑے۔ وہ اسے گھمانے لگا۔ عارفہ نے شور مچانا شروع کیا۔ ان کے گرد سلیم بھی ناچنے لگا۔

مہرون اور شمیم اپنے کام بٹاتے ہوئے ان کی شرارتوں کو بھی دیکھے جا رہی تھیں۔ شمیم کا دل اس منظر کو دیکھ کر بھر سا گیا تھا۔ اگر وہ اسی طرح کچھ دیر اور قہقہے لگاتے رہتے تو شاید جذبات کی طغیانی اس کی پلکوں پر نمایاں ہو جاتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۱}

 

شمیم کھاتے پیتے گھر کی لڑکی تھی۔ اس کا بڑا بھائی چھ سات برس سے کویت میں ملازم تھا۔ چھوٹا بھائی بمبئی کے چند گجراتی تاجروں کو ہا پوس سپلائی کرتا  تھا۔ اس کے والد امتیاز پانڈے مہرون کے والد جعفر قاضی کے خاص دوست تھے۔ جعفر قاضی کسان تھے کھیتی باڑی کے علاوہ امتیاز پانڈے کے ساتھ شادیوں اور محفلوں میں تاشا بجایا کرتے تھے۔ شدت پسند مذہبی لہرسے پہلے اہل کو کن کی شادیوں میں کھالوباجا، شہنائی اور تاشے کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔ یہ موسیقی مقامی کلچر کا حّصہ تھی۔ اس کے بغیر شادیاں قبرستان کی خاموشی لگتی ہیں۔

ہر خاص و  عام اپنے آنگن میں تاشے اور کھالو کا پروگرام رکھتا۔ لوگوں کے کانوں میں ان آلات کی آوازوں کے شیرین ٹکڑے محفوظ تھے۔ ان کے ردھم کو وہ اپنے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ محسوس کرتے تھے۔

مقامی مو سیقی کی اس روایت سے یہاں کے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، پیڑ پودے خوب واقف تھے۔ سب جانتے تھے اس کا عام طور پر مطلب ہے۔ شادی، دو دلوں اور جسموں کا سنگم۔ اس موسیقی کی دھن سے یہاں کے موذی کیڑے بھی واقف تھے۔ شہنائی کی مٹھاس سے وہ مگدھ ہو جاتے اور اپنے بلوں سے باہر نہیں نکلتے۔ تاشے اور کھالو بجتے تو بچھو اور سانپ بھی اپنے کنبے کے ساتھ اپنے اپنے مسکن میں اپنے بچوں کوپیار کرتے رہتے۔

جگنوؤں کو اس ردھم سے بڑی محبت تھی۔ رات میں اور خاص کربرسات کی راتوں میں اگر تاشا بجتا تو جہاں تک ڈھول شہنائی، اور طبلے کی آواز جاتی وہاں سے یہ کھنچے چلے آتے اور جس گھر کے آنگن میں محفل سجی ہوتی۔ اس کے ارد گرد کے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر جگمگاتے رہتے۔ لطف اندوز ہوتے رہتے۔ گویاوہ موسیقی کے ساتھ نور کی لہروں کے سنگم کو سب پر ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

جنگل میں مور بے قرار ہو اٹھتے۔ ان کے پیر خود بہ خود تھرکنے اور پنکھ لہرانے لگتے۔ فطرت اور موسیقی کا رشتہ زمین پر انسان کی آمد سے پہلے سے ہے بلکہ فطرت کا ارتقاء موسیقی کا ایک اظہار ہے۔ فطرت کے مظاہر میں موسیقی پنہاں ہے۔ موسیقی میں ایکانت اور ایکاگرتا ہے۔ موسیقی کے بغیر فطرت بانجھ اور تہذیبیں کھردری نظر آئیں گی۔ جس کلچر میں موسیقی کے لئے جگہ نہ ہو وہ کلچر مرثیوں کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گا۔ حساس لوگوں کا اس سنگلاخ زمین میں دم گھٹ جائے گا۔

موسیقی دل کو نرم کرتی ہے۔ اور جذبات کو چہرہ عطا کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۲}

 

تاشے بجانا شمیم کے والد کا خاندانی پیشہ تھا۔ انھیں اس پر بہت فخر تھا۔ وہ روزانہ گھنٹوں ریاض کیا کرتے تھے۔ مہرون کے والد کے لئے یہ نہ صرف جزوقتی روزگار بلکہ ذوق کی تسکین کا سامان بھی تھا۔ ہر کلچر کے اپنے جداگانہ تخلیقی سرچشمے ہوتے ہیں۔ ہر کلچر اپنے لاشعور کے اظہار کے لئے علیحدہ نشانات رکھتا ہے۔ ہر کلچر کی اپنی مخفی علامات ہوتی ہیں۔ صحت مند لوگوں کا کام ان کا تحفظ کرنا ہے۔ استبدادی ثقافتوں کی یلغار سے انھیں بچانا ہے۔ چند سال بعد عبد العزیز نے اس موضوع پر ایک مفصل مضمون لکھا اور یہ بتانے کی کوشس کی …کہ جابر ثقافتیں علاقائی و مقامی کلچر کو مٹانے کے لئے مندرجہ ذیل جوازات یا حربے استعمال کرتی ہیں۔

(۱)مقامی کلچر کو جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

(۲)مقامی کلچر کو اپنے کلچر کے مقابلے ادنیٰ ثابت کر کے اس کا تمسخر اڑانا۔

(۳)جابر ثقافتیں افراد کو اپنا محکوم بنانے کے لئے مذہب کی بنیاد رکھتی ہیں ابتدائی معا شروں نے دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کے لئے مذاہب کو ایجاد کیا تھا اور اسے قبول عام بخشنے کے لئے ان کا رشتہ مافوق الفطرت مظاہر سے جوڑ دیا۔ جوانسان کے مجموعی لاشعور کا حّصہ تھا۔ تحت الشعور پر اس کا گہرا اثر ہوا۔ بعد میں ترقی کرنے والی جماعتوں نے اپنے عقائد و نظریات کے فروغ اور انسانوں کے دوسرے گروہوں کو اپنا مطیع بنانے کے لیے کلچر کو ایک نسخے کے طور پر استعمال کیا۔

(۴)مذہب کے نسخے کے سہارے نفع نقصان اور گناہ ثواب کے ترازو میں احساسات کا احتساب کرنے کی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ کلچر پر یلغار کا یہ بھی بہت آسان اور کارآمد ہتھیار ہے۔

(۵)بعض درمیانی عہد کی ثقافتوں نے اپنے کلچر کی بالا دستی کو بر قرار رکھنے کے لئے جہاں نئے مذاہب (زندگی گزارنے کا نظام )لوگوں کے لئے بنائے وہیں اپنے دستور میں بھی شامل کر دیا کہ مذہب اختیار کرنے والے افراد کو اپنا سابقہ کلچر ترک کرنا ہو گا۔ نہ صرف ترک کرنا ہو گا بلکہ اس کے اسفل اور مکروہ ہونے کا اعلان بھی کرنا ہو گا۔ ورنہ نئے مذہب میں ان کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

٭

 

بہت دن ہو گئے تھے شمیم نے والد کو  تاشا بجاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا مگر آج جب اس کے بچوں نے عبد العزیز کی بانہوں میں کہرام مچایا تو ماضی میں سُنی گئی موسیقی کے ٹکڑے اس کے کانوں میں جاگ گئے تھے۔ اسے وہ دن یاد آ رہے تھے جب اس کے والد اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے آنگن میں ریاض کرتے تھے۔ اور وہ بیٹھ کر دل کی گہرائی سے انھیں سناکرتی تھی۔ اس کے دل میں خیالات ابھرے ہی تھے کہ مہرون نے آواز دی … ’’شمیم چٹائی بچا…‘‘

پھر عبد العزیز کی طرف دیکھ کر اس سے کہا۔ ’’بیٹا ہاتھ دھو لو…کھانا لگ گیا ہے۔ ‘‘

٭

 

کھانا کھاتے وقت مہرون شمیم اور عبد العزیز نے بہت سارے گھریلو موضوعات پر گفتگو کی۔ عبد العزیز نے آج اپنے کوٹے سے کچھ زیادہ ہی کھانا کھا یا تھا۔ ہاتھ دھونے کے بعد اس نے ماں سے کہا کہ اب وہ تھوڑی دیر آرام کرے گا۔

سلیم چاہتا تھا وہ اس کے ساتھ کر کٹ کھیلے۔ عارفہ چاہتی تھی وہ اس کی گڑیا دیکھے اور اسے کہانی سنائے۔ عبد العزیز نے دونوں کو سمجھایا وہ بعد میں ان کے احکامات پر عمل کرے گا۔ اس دوران شمیم نے سلیم کی آنکھوں میں دیکھا جس کا مطلب تھا۔ ’’ضد کرو گے تو بہت پٹائی ہو گی۔ ‘‘ وہ ماں کے اشارے کو سمجھ گیا۔

عبد العزیز درمیانی کمرے میں گیا۔ باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند کر دی۔ ٹی شرٹ اتار کر کھونٹی سے لگا یا۔ چار پائی پر ایک نظر ڈالی اور دراز ہو گیا۔ اپنے دونوں ہا تھ سینے کے گرد لپیٹ لئے۔ آنکھیں موند لیں۔ اسے نیند سے زیادہ ایکانت کی ضرورت تھی۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کے لئے یکسوئی چاہتا تھا۔ صبح سے اسے وہ لمحے میسر نہ تھے جن میں اس کا دل سکینہ کی یادوں کو تازہ کر کے اس سے بات کرتا۔

اس نے آنکھیں بند کر کے یادداشت کی بھول بھلیوں میں جھانکنا شروع کیا۔ چہرے بلیک اینڈ وائٹ اور نگیٹیو فریموں میں اجاگر ہونے لگے۔ سکینہ کے چہرے کا کوئی حصّہ ابھرتا اور جھٹ سے کسی دوسرے رشتے دار، دوست یا شناسا چہرے کا کوئی حصّہ اس پر سایہ کر دیتا۔ اس نے کروٹ بد لی اور دیوار کی طرف کی منہ کیا۔ سکینہ کا چہرہ پل بھر کو مسکراتے ہوئے اسے دکھائی دیا۔ پھر اس نے دیکھا:سکینہ اسے گھرکی کھڑکی سے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ یہ منظر جھٹ سے اوجھل ہو گیا۔ پھر اس نے دیکھا:موسلا دھار برسات میں تکونی پتھر سے جامن کے تنے پر اس کے نام کے حروف لکھ رہا ہے۔ یاد کے اس ٹکڑے کے ساتھ ہی غیر شعوری طور پر اس کی پلکیں کھلیں۔ وہ اپنی ہتھیلی کو نیم اجالے میں دیکھنے لگا۔

جس روز اس نے تکونی پتھر سے جامن کے تنے پر سکینہ کے نام کے حروف بنائے تھے اس شام جب وہ نہانے بیٹھا اوراس نے صابن کی ٹکیہ اپنی ہتھیلی پر ملی تھی، جلن کا بہت شدید احساس ہوا تھا۔ اس نے فوراً ٹھنڈے پانی کی بکٹ میں ہاتھ ڈال دیے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ حیران تھا کہ انگلیوں کے نیچے اور انگوٹھے کے سرے پر پھوڑ آگے تھے۔ پھر جو دشا اس کی ہونی تھی ہوئی۔

بالآخر جب چھالے سوکھ گئے اور دوبارہ اس کی ہتھیلی پہلے جیسی ہو گئی تو اس نے ایک صبح جامن کے نیچے سے گزرتے ہوئے ٹھہر کر اس مقام کو دیکھا جہاں دل کا نشان بنا ہوا تھا اور اس میں سکینہ کے نام کے حروف لکھے گئے تھے۔ دو دن اچھی دھوپ نکلی تھی جس سے پیڑ کا تنا بھی سوکھ گیا تھا۔ اب حروف نمایاں نظر آ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر اسے مسرت ہوئی۔ مسرور ہو کر اس نے اپنی ہتھیلی کو چوما اور جامن کے پیڑ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’محبت میں درد توسہناہی پڑتا ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

{۱۳}

 

اس بار ہتھیلی دیکھنے پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بلکہ صرف آنکھوں میں ایک چمک پھیلی۔ وہ چمک جس میں محبت کے راز پنہاں ہوتے ہیں۔ وہ محبت جو کسی پر عیاں نہ ہو۔ جب دل محبت کی رنگارنگی سے یادستاں میں بدل جاتا ہے تو روح کی کرنوں میں اضافی تاب پیدا ہوتی ہے۔ جس سے آنکھوں میں یہ چمک در آتی ہے۔ جسے دن کی روشنی میں واضح طور پر دیکھایا محسوس نہیں کیا جا سکتا مگر تاریکی میں یہ چمک صاف نظر آتی ہے۔ اس چمک میں ایک ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جو محبت سے محروم رہتے ہیں ان کی آنکھوں میں یہ چمک پیدا نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے ان کی آنکھوں میں ایک طرح کی خشکی در آتی ہے۔ خشکی جس میں روح کے مرثیے مدفون ہوتے ہیں۔

سنگ دل، جابر اور انسانیت کے دشمن افراد کی آنکھیں اسی خشکی کے سبب قابل نفرت ہوتی ہیں۔ جو کلچر محبت کو مجموعی یادداشت میں کالعدم قرار دیتا ہے۔ وہ در اصل اپنی موت کا اعلان کرتا ہے۔ ’’جودستور محبت کوتسلیم نہیں کرتا وہ افراد کی ایسی جماعت کا بنایا ہوا ہوتا ہے جن کے دل شیطان کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انسان سے پہلے محبت کی صفت اسی میں تھی۔ لیکن اس کی نرگسیت نے اسے اس وصف سے محروم کر دیا۔ اس لئے شیطان نے محبت کے جذبے کو فنا کرنے کی قسم کھائی ہے۔ ‘‘جامن کے پیڑ پر بیٹھی شگفتہ کی روح نے گلہری کو بتایا۔

اس نے عبد العزیز کا جملہ … ’’محبت میں درد سہنا ہی ہی پڑتا ہے۔ ‘‘سننے کے بعد شگفتہ سے پوچھا تھا۔ ’’کیوں لوگ محبت کے دشمن ہوتے ہیں ؟‘‘

تب اسے اپنی محبت یاد آئی تھی جسے سماج کے دستور نے ماننے سے ان کار کر دیا تھا۔ اور اسی سبب وہ یہ سزا کاٹ رہی تھی۔ عبد العزیز کے جملے کاسیاق وسباق اسے معلوم نہ تھا۔ اس لئے جو تعبیر اس نے بیان کی وہ جداگانہ تھی۔ یہ باتیں اس نے اشعر ابن نجومی کی زبان سے سنی تھیں۔ یک رات ایک محروم عاشق نے اسے چالیس روپئے دئے تھے اور کہا تھا میری بے وفا محبوبہ پر کچھ ایسا سحر کرو کے وہ اولاد سے ہمیشہ محروم رہے، کام ہونے پر مزید چالیس روپئے دئے جائیں گے۔ شراب کے نشے میں عملیات کی کتاب کے اوراق پلٹتے ہوئے اس نے نوجوان کو وہ باتیں بتائی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۴}

 

اپنی ہتھیلی بغل میں دبا کر عبد العزیز دوبارہ نے آنکھیں بند کر لیں۔ یادستان کی تاریک جھیل سے یوسف کا چہرہ ابھر آیا۔ اسپتال سے جب سکینہ گھر آئی تھی تب وہ اس کے لئے گوجڑُلے اور میتھی کے لڈو لے گیا تھا۔ اس وقت پہلی بار اسے ایسا لگا تھا کہ اس بار وہ سکینہ سے ملنے نہیں بلکہ اس کے بطن سے جو نیا چاند طلوع ہوا ہے، اس کا دیدار کرنے جا رہا ہے۔ اس روزسکینہ کے گھر میں مجاور حسین کے علاوہ اڑوس پڑوس کی عورتیں، بوڑھے اور بچّے بھی تھے۔ سکینہ کی ساس بھی اسی کمرے میں موجود تھی۔

جوان لڑکیاں یوسف کو گود میں لیے اس سے باتیں کر رہی تھیں جسے وہ سن رہا تھا۔ اور شاید سمجھ بھی رہا تھا مگر ان باتوں کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں ناکامیاب تھا۔

عبد العزیز لکڑی کی ایک میز پر بیٹھ کر سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ سکینہ نے ایک بار اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ دونوں مسکرائے تھے۔ دونوں جانتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کی خوشی کا سبب ہیں ان کی محبت نے سارے ماحول کو شادماں بنا دیا تھا۔ اس کی ساس جو اس سے ہمیشہ شاکی رہا کرتی تھی آج وہ خادمہ کی طرح اس کی دیکھ ریکھ کر رہی تھی۔ پہلے وہ گھر پر شاذ ہی نظر آتی تھی پر یوسف کی ولادت نے اس کی سونی دنیا کو بھی ایک ساز دے دیا تھا۔ بعد میں اسی سبب عبد العزیز کا سکینہ سے ملنا دشوار ہونے والا تھا۔ آج انھیں اس بات کا احساس نہ تھا اور نہ فکر …آج وہ خوش تھے۔ یوسف ان کی ممنوع محبت کا ثمر تھا۔ محبت کا یہ رنگ دنیا اور اس کے اصولوں کی کتاب میں ہمیشہ سے ممنوع رہا ہے۔ مگر عبد العزیز اور سکینہ کو اس کتاب کے احکامات سے کوئی سروکارنہ تھا۔ وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ اس رشتے کے بغیر وہ خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ اس محبت سے پہلے وہ زندہ…مگر زندگی سے محروم تھے۔ ان کے دل تھے مگر لذّت عشق سے بے نور۔ آج ان کے دلوں کے اس نور نے پگھل کر یوسف کی صورت اختیار کی تھی۔ وہ بے حد خوش تھے۔

سکینہ چار پا ئی پر لیٹی تھی۔ چار پائی کے نیچے ایک سیگڑی میں گرم کوئلے تھے جس سے ہلکا ہلکا دھواں بھی نکل رہا تھا۔ سردیاں شروع ہو گی تھیں۔ مجاور حسین کا مفلر اس نے کانوں کے گرد لپیٹ لیا تھا۔ پاس ہی لکڑی کی ایک میز پر لو بان دان رکھا ہوا تھا۔ عبد العزیز نے میتھی کے لڈوؤں کا ڈبہ اور گوجڑ لے سکینہ کی طرف بڑھائے۔ سکینہ نے ساس کو آواز دی۔ وہ فوراً آئی اور اس نے عبد العزیز کے ہاتھوں سے وہ تحفے لے لئے۔

اس وقت عبد العزیز کو معلوم نہیں تھا کہ سکینہ اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ اٹھ کر بیٹھے اور اس کے تحفوں کو کھول کر دیکھے۔ جب وہ گھر سے نکلا تھا تب اس نے سوچا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے سکینہ کو دو تین لڈو کھلائے گا۔ پھر یوسف کو ماں کے بنائے ہوئے گو جڑ لے میں لپیٹ کر اسے اپنے کندھے پر لے کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جائے گا۔ اسے باہر کے درختوں کے نام بتائے گا۔

بعد میں جب بھی اس نے یہ بات یاد کی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔

سکینہ کی ساس سے اس نے کہا کہ سامان ماں نے بھیجا ہے۔ بوڑھی کا چہرہ کھل گیا۔ اس نے وہاں بیٹھی ہوئی عورتوں کو مخاطب کر کے مہرون کی تعریف کی، یہ بات ظاہر تھی کہ پڑوس کی تین عورتیں جو عجلت میں خالی ہاتھ آئی تھیں، ان کو شرمندہ کرنا مقصود تھا۔ انھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔

برسوں سے رواج تھا کے دیدار کے لئے آنے والے اپنے ساتھ گوجڑے، ٹوپلے، لڈو وغیرہ لاتے تھے۔ خالی ہاتھ آنے والے پر لازم تھا کہ وہ بچے کے سرہانے کچھ نقد ہی رکھ دے۔

تینوں عورتوں نے نکلنے سے پہلے اپنی پان کی تھیلی ڈھیلی کی۔ ایک نے دو روپئے دوسری نے پانچ اور تیسری(جسے اس صورت حال کے پیدا ہونے کاکسی طرح کوئی گمان نہ تھا۔ )نے بارہ آنے یوسف کی ہتھیلی پر رکھے۔

سکینہ کو خراب لگ رہا تھا اس نے کہا۔ ’’ارے کیا ضرورت ہے۔ آپ لوگوں کی دعا ہی بہت ہے۔ ‘‘

’’میں جلدی جلدی میں آ گئی تھی، میں نے ایک کلی والا ٹوپراں بنایا ہے۔ بہت اچھا لگے گا۔ کل آؤں گی۔ ‘‘جس عورت نے بارہ آنے یوسف کی مٹھی میں ٹھونسنے کی کوشش کی تھی اس نے یوسف کے گالوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔

سکینہ کی ساس نے اڑکیتے میں سپاری دباتے ہوئے کہا۔ ’’بدام کھایا کر، پھرسب برابر یاد رہے گا۔ ‘‘سب ہنس پڑے۔

’’اور تیرے آدمی کو بھی کھلا…‘‘سپاری کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے اس نے دوسرا جملہ ادا کیا۔ اس پرساری عورتیں ہنس پڑیں۔ وہ بھی جس پر یہ جملے داغے گئے تھے۔ باہر کے کمرے میں جہاں مرد بیٹھے تھے، وہاں یہ جملہ ایک بوڑھے کے کانوں پر پڑا۔ جس کا پورا دھیان عورتوں کی بات چیت پر لگا ہوا تھا۔ اسے زور سے ہنسی آئی اور ٹھسکا لگا۔ جس سے اس کے منہ میں پان کی جو پیک جمع تھی وہ اس کے کرتے پر گر گئی۔ پیک کا باقی حصّہ اس کی حلق میں اتر گیا جس کے سبب اس کی آنکھوں میں پانی بھر گیا۔

وٹے دار سے باہر جا کر اس نے پان تھوکا۔ کرتا جھٹکا۔ ایک لڑکے نے گھر میں سے ایک لوٹے میں پانی لایا۔ بوڑھے نے منہ دھویا، کلی کی، اور دوبارہ آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی ضعیف بینائی میں اس کی مرحوم بیوی کی تصویر ابھر آئی تھی جس نے شادی کی پہلی رات کو اسے دس بادام کھلائے تھے اور کہا تھا۔ ’’ہر دن میں آپ کو بادام کھلاؤں گی۔ ۔ ۔ تاکہ جو آج شروع ہو وہ ہمیشہ جاری رہے۔ ‘‘

در اصل اس کی بیوی کے والد کی گرم مسالوں کی دکان تھی اور وہ خود بچپن سے بادام کھانے کی شوقین تھی۔ اس کی والدہ نے اسے رازدارانہ انداز میں بتایا تھا کہ جو مرد بادام کھاتے ہیں ان کی بیویاں ہمیشہ خوش رہتی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘یہ جملہ ادا کرنے کے بعد ماں نے بیٹی کو کہنی ماری تھی۔ جس میں اس جملے میں نہ کہی گئی بات کا مفہوم بھی پوشیدہ تھا۔

٭

 

یوسف رونے لگا۔ کم عمر لڑکی کی گود سے ایک عورت نے اسے لیا۔ جھنجھنا بجا کر اس کو بہلانے کی کوشش کی۔ جھن جھنے کی آوازسن کر وہ اور بلک بلک کر رونے لگا۔ سکینہ کی ساس نے پان کی پیک تھو دان میں انڈیلی۔ نچلے ہونٹوں کی لالی کو ساڑی کے پلّو سے صاف کیا اور یوسف کو پڑوسن کے ہاتھوں سے لیا۔ یوسف کو دونوں ہاتھوں میں لے کر اس نے گایا۔

باوا اماژانھان

سونیچاں پان

مامولاسانگ

مالاجھنجھو نو ھان

جب وہ اس گیت کی آخری لائن پر پہنچی تو اس لڑکی نے دوبارہ جھنجھنا بجا یا۔ یوسف آنکھیں کھول کر گاناسن رہا تھا۔ اس کی نظریں دادی کے ہونٹوں کی حرکت پر تھی۔ جیسے ہی جھنجھنے کا شوراس کے کانوں پر پڑا۔ اس نے منہ بنایا اور کچلی مار کر رونے لگا۔ اس بار رونے کی آواز پہلے سے بلند تھی۔ سکینہ کی ساس نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے اسے بھوک لگی ہے۔ ‘‘

سکینہ کے سرہانے اس کی سہیلی رضیہ پٹیل بیٹھی تھی۔ اس نے سکینہ کی ساس کے ہاتھوں سے یوسف کولیا اور سکینہ کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔ ’’پہلے اسے دودھ پلا، کب سے بھوکا ہے۔ ‘‘

سکینہ نے اسے قریب لیا تو اس کی سسکیاں بند ہو گئیں۔ عبد العزیز اٹھ کر باہر جانے لگا۔ سکینہ نے اسے اٹھتے ہوئے دیکھا۔ ان کی نظریں ملیں۔

عبد العزیز نے یوسف کو سکینہ سے چمٹتے ہوئے دیکھا۔ سکینہ کے چہرے پر اس لمحے وہی روحانی مسرت تھی جو موسلادھار بارش میں ندی کنارے شرابور ہونے کے بعد تھی۔ اس روز خوشی کی ترنگ میں وہ زمین پر لیٹ گئی تھی۔ اسے یہ بات بھی یاد نہ رہی تھی کہ بھیگے سڑے گلے پتوں کے انبار کے نیچے کیچڑ ہے۔ اور اس طرح کے کیچڑ میں بچھو رہتے ہیں۔ عبد العزیز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھنچتے ہوئے کہا تھا۔ ’’پاگل بچھّو وچو کاٹ لے گا۔ ‘‘

’’تو کیا کسی بچّھو سے کم زہریلا ہے۔ ‘‘فوراًسکینہ نے کہا تھا۔

’’یہ مت بھولو پہلے تم نے مجھے کاٹا تھا۔ ‘‘ عبد العزیز نے اس کے بلاؤز پر لگی مٹی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ سکینہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت آمیز انداز میں دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو بس پتوں پر لیٹ گئی تھی۔ مجھے کیا پتہ وہاں بچھّو ہو گا۔ ‘‘

عبد العزیز اس کے اشارے کو سمجھ گیا تھا۔ اس رات کا خمار اس کے پورے بدن میں دوبارہ پھیل گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سکینہ نے اس گرم دھوئیں کو محسوس کیا۔ جو اس رات گرم مرطوب ہوا کے یکایک ٹھنڈ ہونے سے گانَو کے اوپر فضا میں محلول تھا۔

یوسف کے ہونٹ ممتا کی مٹھاس سے لگے۔ عبد العزیز آنگن میں آ کر رفیق ونو کے ساتھ بیٹھ گیا۔ رفیق اس کے ساتھ بہت ساری باتیں کرتا رہا مگر اس کے دل میں ندی کا پانی بہت تیزی سے رواں تھا۔ جس کے شور میں وہ کچھ اور سن نہیں پا رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

{۱۵}

 

یادستان کی تاریک جھیل سے یوسف کا دمکتا ہوا چہرہ اس کی بند آنکھوں میں سمایا۔ کچھ دیر مسکراتا لہرا تارہا۔ یہ کوئی طلسم نہ تھا۔ اس کے باوجود نیند کے بادل بنے اور اسے وادی خواب میں بہا لے گئے۔

٭

 

وہ ہر دوسرے تیسرے روز یوسف کو دیکھنے چلا جاتا۔ اس کے ساتھ مختلف آوازوں میں باتیں کرتا رہتا۔ جانوروں کی نقل کرتا۔ پیڑوں پر پرندے آ بیٹھتے تو کھڑکی سے اسے بتاتا۔ یوسف ہر چیز کو دیدے مرکوز کر کے دیکھنے کا عادی ساہو گیا تھا۔ جب وہ کوئی نئی آوازسنتا تھا اس کی پیشانی پر ایک شکن نظر آتی اور آنکھوں میں تجّسس۔ اب سکینہ چلنے پھرنے لگ گئی تھی۔ اس کی ساس اس پر مہربان ہو گئی تھی۔ سارے کام کاج خود کرتی اور اسے آرام کرنے کی ہدایت دیتی۔ یوسف کو نہلا کر اس کے پورے جسم پر پاؤڈر لگاتی۔ سر کی ٹالو پر ناریل کا تیل لگاتی۔ صاف ستھرے کپڑے پہناتی۔ پھر گود میں لیٹا کر پانی کے قطرے اس کے منہ میں ایک چھوٹے چمچے سے اتار تی۔ کبھی جو جی چاہتا کوئی گیت گنگناتی۔

اب یہ واضح ہو گیا تھا کہ اسے جھنجھنے کی آواز پسند نہیں ہے۔ اس لئے ایسے سارے کھلونے پہلے ہی سے ایک طرف کر دیئے گئے جو جھنجھنے کی طرح بجتے تھے۔

مجاور حسین یوسف کی ولادت کے بعد پہلے سے زیادہ خداپرست اور عبادت گزار ہو گئے تھے۔ جب بھی وہ گھر پر ہوتے یوسف کے ساتھ کھیلتے رہتے۔ سکینہ کے لیے انہوں نے کچھ زیورات بنوائے اور یوسف کے لیے چاندی کا کر گٹا بنایا۔ یوسف کو جب پہنایا گیا تو وہ بہت حیران ہوا۔ بار بار دیکھتا رہا کہ یہ کیا بلا ہے۔ اسے کر گٹا  مصیبت لگنے لگا۔ وہ اسے کھنچنے لگا۔ جب اس کی نازک انگلیوں سے نہیں نکلا تو اس نے اپنا ہتھیار استعمال کیا۔ وہ زار و قطار رونے لگا۔ اس کی دادی سمجھ گئی کہ نئی چیز سے اسے الجھن محسوس ہو رہی ہے۔ اس نے فوراً کر گٹے کو نکال دیا۔ وہ مسکرایا۔ پھر کلکاریاں مارنے لگا۔

سکینہ کی ساس زیادہ تر اس کے کمرے میں بیٹھی یوسف کے ساتھ کھیلتی رہتی۔ عبد العزیز چاہ کر بھی سکینہ سے اپنے دل کی کوئی بات نہ کر پاتا وہ جتنی دیر وہاں بیٹھا رہتا ادھر اُدھر کی باتیں کرنے پر مجبور رہتا۔ کبھی کبھار مہرون بھی آ جاتی۔ اور وہ سب مل کر گانَو کی زندگی یا عورتوں کے نجی مسائل پر باتیں کرتے رہتے۔ جن سے عبد العزیز اکتا جاتا۔

وہ وٹے دار میں چلا جاتا اور اکیلے بیٹھ کر ان دنوں کو یاد کرتا جب سکینہ کا قرب اسے حاصل تھا۔

رفتہ رفتہ تصور میں محو رہنے کی اسے عادت لگ گئی۔ ماضی کی یاد یں بامعنی اور لطف پرور بن گئیں۔ کبھی کبھار وہ ماضی کی ملاقاتوں اور محبت کے لمحوں کو اپنے تخیل سے مستقبل میں لے جاتا اور زیادہ خوب صورت بنانے کی کوشش کرتا۔ یہاں اسے آئینے کے سامنے کھڑے رہ کر اپنے چہرے کو متواتر دیکھتے رہنے کی بھی لت لگ گئی تھی، اپنے عکس سے وہ باتیں کیا کرتا۔ اس کے ہونٹوں پر مونچھوں کے نشان نظر آنے لگے تھے۔ وہ خود کو مونچھو میں کبھی داڑھی میں تصّور کرتا۔ کبھی وہ صرف اپنی کلیاں بڑھی ہوئی تصور کرتا۔ ہو بہو ویسی ہی، جیسی ایک انگریز سائنس داں کی اس نے طبیعات کی کتاب میں دیکھی تھیں۔ وہ خود کو مختلف زاویوں سے دیکھتا اور مسکراتا۔ خود اپنی تعریف کرتا۔ ایک بار اس نے اپنے گالوں پر تھوڑا سا پاؤڈر لگایا یہ دیکھنے کے لئے کہ اگر وہ گورا ہوتا تو کیسا لگتا…اسے بہت بھدا لگا۔ اسے پاؤڈر لگا اپنا چہرہ سرکس کے جوکر کی طرح نظر آیا۔ فوراً اس نے منہ دھویا۔ دوبارہ آئینے کے سامنے آیا۔ اپنے عکس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ۔ ۔ ’’زیادہ چکنا بننے کی کوشش مت کر، ورنہ لوگ بولیں گے دوسرامحبوب علی آ گیا۔ ‘‘

محبوب علی پڑوس کے گانَو کا ایک شخص تھاجس کے لب و لہجے اور چال ڈھال میں نسائیت نمایاں تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۶}

 

سکینہ اس بات کو محسوس کرنے لگی تھی کہ عبد العزیز کے دل میں ایک خلاء ساپیدا ہونے لگا ہے۔ اس کی آنکھوں میں انتظار، ہجر کا نوحہ تھا۔ یوسف سے دونوں کو یکساں محبت تھی اس کے باوجود ایک بار عبد العزیز نے اسے رقیبانہ نگاہ سے دیکھا تھا۔ لیکن فوراًاسے اپنی اس حرکت پر ندامت ہو ئی تھی۔

اس احساس کو زائل کرنے کے لئے اس نے یوسف کوا ٹھا یا۔ وٹے دار کے آنگن میں لے گیا۔ جہاں امرود کے پیڑ کی چھاؤں میں اس نے اسے ایک فلمی نغمہ سنایا جوان دنوں ریڈیو پر بار بار بجتا تھا۔

ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے

مگر جی نہیں سکتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ے۔

اس کی آواز تو یوں ہی سی تھی مگر جذبات کی شدت سے گداز اور درد انگیزی پیدا ہو گئی تھی۔ یوسف اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ عبد العزیز کو پتہ نہ تھا کہ دروازے کے اس طرف کھڑے ہو کر سکینہ بھی سن رہی تھی۔

اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ وہ جانتی تھی یہ نغمہ کسی طرح یوسف کے لیے گایا نہیں جا رہا ہے۔ اس کے جی میں آیا عبد العزیز کو اپنی بانہوں میں بھر ے، اسے پیار کرے، اس کے ہونٹوں، گالوں اور پیشانی پر اپنی محبت کی رال پھیلا دے۔ اس کے بدن اور روح کے ہیجان کو اپنی طغیانی میں ڈبو لے۔ اس کی نا آسودگی اور تنہائی کو اپنے قہقہوں سے گلزار بنا دے۔

ایسے قہقہے جن میں تصنع کو راہ نہ ہو بلکہ جسم اور دل کے ارتباط کا اظہار جن کا محرک ہو۔ ادھورے اور محبت سے محروم رشتوں میں یہ فطری سرشاری نہیں ہوتی۔ جہاں جسم اور دل مغروق نہ ہوں وہاں محبت نہیں ہوتی…چاہے وہ ازدواجی، غیر ازدواجی۔ ۔ فطری، غیر فطری رشتہ کیوں نہ ہو۔ محبت کے بغیر یہ سب تماشا اور شطرنج کا کھیل بن جاتا ہے۔ دھوکا کھانے اور دھوکے میں رہنے والے، دونوں کو احساس ہوتا ہے کہ اس رشتے میں کمی ہے۔ مگر اس کمی کا اظہار کرنے سے ان کی زبان کانپتی رہتی ہے۔ ڈر رہتا ہے کہ اس اظہار سے تعلق کی عمارت منہدم ہو جائے گی۔ لوگ:سماجی، معاشی اور مذہبی سلاخوں میں مقید رہتے ہیں اس لیے اس عمارت کے ملبے سے زندہ نکلنے کی جسارت نہیں کرتے۔ شاید اسی لئے تعلق کی عمارت کو، باہر سے رنگ و روغن لگا کر دیکھنے والوں کو مطمئن کیا جاتا ہے۔ اور اندر ہی اندر سرنگیں بنا کر دل کی نئی بستیاں تلاش کی جاتی ہیں۔ محبت کے بغیر ذات کی تکمیل ادھوری ہے۔ ہر انسان زندگی میں ایک نہ ایک بار اپنے سینے میں محبت کے لیے طغیانی محسوس کرتا ہے۔

سکینہ نے بھی ذات کی محرومی سے نجات کے لئے لمبی چھلانگ لگائی تھی۔ محبت حاصل کرنے کے لئے جسارت کا مظاہرہ کیا تھا۔ عبد العزیز نے اس کی محبت پر اندھی عقیدت سے لبیک کہا تھا۔ ایک بار یوسف کو دودھ پلاتے ہوئے اس کی زبان سے ادا ہوا تھا۔ ’’تو پیدا نہ ہوتا تب بھی میری محبت اس کے لیے پاگل رہتی۔ ‘‘

یوسف کے کانوں پر یہ جملہ پڑتے ہی اس نے گردن موڑ کر ماں کی نگاہوں میں جھانکا تھا۔ اس کا چہرہ زرد مائل لگ رہا تھا۔ سکینہ کو لگا اس کا پیٹ بھر گیا ہے۔ چند منٹوں بعد جب اس نے دوبارہ اسے پالنے میں جھانک کر دیکھا تو وہ آنکھیں وا کئے آسمان میں جانے کس چیز کو سنجیدگی سے دیکھے جا رہا تھا۔

٭٭٭

 

سکینہ چاہتی تھی عبد العزیز سے اکیلے میں ملاقات کرے اور اسے بتائے کہ وہ خود بھی کس طرح اس کے فراق میں ادھ مری ہو گئی ہے۔ مگر اسے موقع نہیں مل رہا تھا۔ اس کا یقین تھا کہ محبت کرنے والوں کو ملانے کے لیے فطرت اپنا رول ادا کرتی ہے۔ فطرت اس کے لیے صرف اور صرف محبت کاتسلسل تھی۔ اسے نظر آنے والی ہر شئے محبت میں غرق تھی۔ محبت کا یہ بھی تو کمال ہے کہ جو دل اس دولت سے معمور ہوتا ہے۔ اسے کائنات میں حسن اور فطرت کے ہر مظہر میں ارتباط نظر آتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں محبت معجزے نہیں کرتی… محبت خود معجزہ ہے۔ محبت منظر اور آنکھ کے درمیان کا فاصلہ مٹا دیتی ہے۔ اس نے دروازے کا پٹ کھولا، عبد العزیز نے اسے دیکھا۔ دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ ابھری، ایک چہرہ دھوپ میں دوسراوٹے دار کی چھاؤں میں تھا۔ مگر فراق سے دونوں پر ایک پژ مردگی سی تھی۔

عبد العزیز یوسف کو لئے اس کی طرف بڑھا۔ ساس پڑی میں کھانا بنا رہی تھی۔ سکینہ نے ایک بار مڑ کر پیچھے دیکھا اور کہا۔ ’’جمعہ کے دن میں میرے والد کے گھر جانے والی ہوں …آ  جانا…‘‘

٭٭٭

 

 

 

باب پنجم

 

 ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا

 

وادی خواب میں اس کی آنکھ ایک ایسے چمن میں کھلی جس میں چھوٹے بڑے پھولوں کا انبار تھا۔ پودوں کے پتے رنگ برنگی تھے۔ مگر ان پر صرف سفید رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ اسے حیرانی ہوئی۔ اس طرح کا باغ اس نے پہلے تصّور میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ پھولوں کے قریب گیا۔ جھک کر ان کی خوشبوسونگھنے لگا۔ ان پھولوں میں خوشبو نہ تھی۔ وہ مایوس ہو کر وہیں بیٹھ گیا۔ ایک پودے کی شاخ اس کے سر سے ٹکرائی۔ وہ مڑا۔ ایک بہت ہی لطیف مہک اس نے محسوس کی۔ اس نے شاخ سے ایک پتہ توڑا جو گہرے سمندری رنگ کا تھا۔ اس پتّے کو نتھنوں سے لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ مہک کی لہر اس کے نتھنوں سے گزر کر اس کے ذہن میں پھیل گئی۔ اس مہک میں ایک طرح کا نشہ تھا۔ چند منٹوں تک اس نے آنکھیں بند ہی رکھیں۔ وہ مہک اس کے سرائے بدن میں مسافر کی طرح بھٹکتی رہی۔ اس کی تھکان اتر گئی۔ مایوسی دور ہو گئی۔ ایک تازگی اس کے بدن میں بیدار ہوئی۔ اسے ایسا لگا وہ قوی ہیکل ہے۔ ، مافوق الفطرت طاقتوں کا مالک ہے۔ اس وقت وہ چمن میں بیٹھا تھا۔

مہک کا نشہ جب پوری طرح پھیل گیا تو از خود اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ چمن غائب تھا اور وہ گھنے جنگل میں کھڑا تھا۔ جہاں سفید پھولوں کے پودے تھے، وہاں اب لمبے لمبے رائیول آموں کے پیڑ تھے جن کے درمیان بیر، کاجو، پیپل، جامن، اور برگد کے پیڑ تھے۔ وہ پریشان ہو گیا۔ اس نے چاہا کہ وہ کسی طرح وہاں سے بھاگ جائے۔ اس مہیب سایہ دار درختوں کے نیچے اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ وہ جس سمت بھا گتا تھا اسے جنگل مزید گھنا لگتا۔ وہ تھک کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ پاس ہی ایک بل پر اس کی نظر پڑی۔ پھر دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے …حد ہو گئی۔ اس کے اطراف جہاں تک اس کی آنکھ دیکھ سکتی تھی، اسے بل ہی بل نظر آئے۔ ان بلوں کے اطراف کر یدی ہوئی سرخ مٹی تھی۔ گویا یہ بل ابھی ابھی بنائے ہوئے ہوں۔

اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو اس کے ذہن میں اسے پھر وہ چمن نظر آیا۔ جہاں سارے پھول سفید رنگ کے تھے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔ اسے پھولوں کو دیکھنا بچپن سے اچھا لگتا تھا۔ وہ سارے پھول جنت الفردوس کے پھولوں کی طرح مہک رہے تھے۔ وہ ہر پھول کو دوسرے پھول کی مہک سے الگ کر کے سونگھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بہت دیر تک وہ ان کی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

پھر موسلادھار بارش شروع ہوئی۔ بارش کی بوندیں رنگ برنگی تھیں۔ اسے ایسا لگا بارش کی ان بوندوں سے پھولوں پر بھانت بھانت کے رنگ چڑ جائیں گے۔ لیکن یہ اس کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ بارش کی بوندوں میں در اصل ایک عجیب سحر تھا۔ ان کے گرنے سے سارے پھول دیکھتے یہ دیکھتے تحلیل ہو گئے۔ باغ ویران ہو گیا۔

اس نے مایوس ہو کر آنکھیں کھولی۔ آنکھ کھلتے ہی اس نے دیکھا۔ اس نے جو دیکھا، اس سے اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، ڈرسے اس کے دل کی حرکت بیٹھ گئی۔ اس نے دیکھا چاروں طرف بلوں سے سانپ منہ باہر نکالے اپنی زبان باہر کر کے اسے دیکھ رہے ہیں۔ سانپوں کا رنگ سفید تھا۔ اس سے پہلے اس نے سفید رنگ کے سانپ نہیں دیکھے تھے۔ ان کی زبانیں ایک ساتھ باہر نکلتیں اور واپس چلی جاتیں۔ وہ اندھے سانپ نہیں تھے بلکہ ان کی بینائی عام سانپوں سے بھی تیز تھی وہ زبانیں سمت اور حرکت کا تعین کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے کمانڈر کے نعروں کا جواب دینے کے لیے نکال رہے تھے۔ ان کا زہر دنیا کا سب سے کاری زہر تھا۔ ان کی سانسوں سے درختوں کے پتے سوکھ کر گر نے لگے۔

وہ اس کی طرف بڑھنے لگے۔ اس کی آواز حلق ہی میں دب گئی تھی۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر آواز نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ اس کا بدن پسینہ پسینہ ہو گیا۔

٭

’’عبد العزیز۔ ۔ او رے وہ عبد العزیز…عبد العزیز تیرے دوست آئے ہیں۔ ‘‘

مہرون نے اس کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کا بدن پسینے میں بھیگا تھا۔ پیشانی پر پسینے کر قطرے تھے۔ مہرون نے جھک کر کھڑکی کھولی اور کہا:۔ ’’اتنی گرمی ہے کھڑکی کھلی رکھ کر سونا چاہیے۔ ‘‘کھڑکی کھلتے ہی کمرے میں دھوپ کے ساتھ ساتھ ہوا کے جھونکے بھی آئے۔ اس نے ماں سے پوچھا۔ ’’کون ہے ؟‘‘

’’وہی …وہی تینوں …‘‘مہرون نے ڈرامائی انداز میں منہ بنا کر کہا۔ عبد العزیز بھی مسکرایا وہ جانتا ہے اس کی ماں نے اس انداز میں کیوں کہا ہے۔ در حقیقت، اسکول کے دنوں میں وہ اکثر ان ہی کے ساتھ سیر سپاٹے کے لئے نکل جا یا کرتا  تھا۔ واپسی پر دیر ہو جاتی تب اسے خوب ڈانٹ پڑتی۔ غصّے میں مہرون ان تینوں دوستوں کے نام لے کر انھیں برا بھلا کہتی۔ یہ ماجرا صرف عبد العزیز کے گھر میں ہی نہیں ہوتا بلکہ ان تینوں کے گھروں پر بھی اس طرح کا کہرام مچا ہوتا۔ دوسرے روز یہ چاروں مزہ لے کر ایک دوسرے کو بتاتے کے ان کی والدہ نے غصے میں کیا کیا کہا۔ کن کن گالیوں سے نواز۔ اور خوب ہنستے رہتے۔ دوسری طرف ان چاروں کی مائیں جب کنویں پر ملتیں تو شیرو  شکر ہو جاتیں۔

عبد العزیز نے کھونٹی پر سے ٹی شرٹ نکال کر پہنا اور باہر نکلا۔ تینوں دوستوں کو دیکھ کر پل بھر کے لئے وہ سکتے میں پڑ گیا۔ تینوں نے سفیدکُرتا پائجامہ پہن رکھا تھا اور ان کے سر پر سفید جالی دار ٹوپیاں تھیں۔ اسے فوراً چند منٹوں قبل دیکھا ہوا خواب یاد آ گیا۔

اس نے اطراف نظر دوڑائی۔ نہیں۔ ۔ وہ جنگل میں نہیں تھا۔ وہ سچ مچ اس کے دوست تھے۔ اور وہ جاگ رہا تھا۔ مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ ہم نیند کی حالت میں نہیں ہیں اور جو کچھ ہوتا ہے ہمیں لگتا ہے وہ واقعی ہو رہا ہے۔

آج اس خواب کی اس کے پاس کوئی تعبیر نہ تھی اس نے اس خواب کو بھی محض مبہم شاعری پڑھنے کے سبب نظر آنے والے خوابوں کی طرح ایک خواب ہی سمجھا۔ لیکن دس برسوں بعد اس خواب کو یاد کر کے وہ خون کے آنسورونے والا تھا۔ سفید پھول جن میں مہک نہ تھی۔ ان کے سانپوں میں بدل جانے کا مفہوم جس روز اسے سمجھ میں آیا وہ دن اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔ وہ سب کس کمانڈر کے اشارے پر آگے بڑھیں گے اس راز کے کھلنے پر اسے سکینہ کا جملہ ’’محبت کی ہر نشانی خطرناک ہوتی ہے۔ ‘‘یاد آنے والا تھا۔

یہ آخری جملہ اس کی زبان سے ادا ہو گا۔ یہ بات لوح محفوظ پر پہلے سے تحریر تھی۔

شگفتہ نے اس راز کو سب پر عیاں اس لئے نہیں کیا کیونکہ اسے یہ بھی معلوم تھا بعض اوقات اس میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے۔

٭

 

چاروں نے پڑی میں بیٹھ کر سلیمانی چائے پی اور منگیلدار کی طرف سے باہر نکلے۔ ایک تنگ گلی سے گزر کر وہ گانَو کے کنویں تک پہنچے۔ کنویں کے اطراف کو کم کے لمبے لمبے پیڑ تھے۔ اس کے بعد ایک برساتی ندی راستے میں پڑتی تھی۔ جسے عبور کرنے کر کے وہ چاول کے کھیتوں کی طرف نکل پڑے۔ فصل کٹ گئی تھی چونڈے دکھائی دے رہے تھے۔ چند کھیتوں میں اب تک دھان کے پینڈوں کا انبار تھا۔

کاجو کے ایک پیڑ پر وہ چڑھ کر بیٹھ گئے۔ بچپن سے ان کی عادت تھی کہ وہ پیڑوں پر چڑھ کر شاخوں پر بیٹھ کر بات چیت کیا کرتے تھے۔ کچھ دیر یہاں وہاں کی باتیں کرتے رہے۔ پھر رشید نے پوچھا۔ ’’ارے، جب تو سو کر اٹھ کے آیا تھا، تبھی تو ہمیں حیرانی سے کیوں دیکھ رہا تھا؟‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں تھی۔ ‘‘عبد العزیز نے جواب دیا۔ ’’پر تو پریشان لگ رہا تھا۔ ‘‘پھر ر شید نے کہا۔

’’ہاں !تم لوگوں کو ایک جیسے کپڑوں میں دیکھ کر چونک گیا تھا۔ عبد العزیز نے کہا۔

’’تھوڑے دن جانے دے۔ تو بھی اس طرح کے کپڑے پہن لے گا۔ ‘‘رفیق و نو نے کہا۔

’’کیوں رے ؟‘‘عبد العزیز نے اس کی اور دیکھ کر کہا۔

’’سفید کپڑے پہنا سنتّ ہے۔ ‘‘رشید نے جواب دیا۔

گانَو کی حد سے باہر آنے کے بعد وہ اپنے سروں سے ٹوپیاں اتار کر جیب میں ٹھونس چکے تھے۔ ’’اور ٹوپی نہیں پہنو گے تو۔ ‘‘ صابر نے کہا۔ ’’تو کیا ہو گا؟‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں کوئی نہ کوئی پہنا دے گا۔ ‘‘رشید نے کہا۔

’’کیوں ؟‘‘

’’سنتّ ہے۔ ‘‘صابر نے کہا۔

’’اور داڑھی نہیں رکھو گے ؟‘‘

’’نہیں ‘‘قدرے غصّے میں عبد العزیز نے کہا۔

’’ مجبور ہو کر رکھ لے گا ‘‘۔ ۔ ۔ رشید نے صابر سے کہا۔

’’ہاں رکھنا تو پڑے گا۔ ‘‘صابر نے اس سے کہا۔

’’کیوں زبردستی ہے کیا؟‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔

’’نہیں …سنتّ ہے یار۔ ’’رشید نے کہا۔ جس کے چہرے پر ہلکی داڑھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ پھر اس نے کہا ’’اگر تو نہیں رکھے گا تو گانَو والے رکھوا لیں گے۔ ‘‘

گزشتہ چند برسوں میں جماعت کا کام تیز ہو گیا۔ سورل کی مسجد ’مرکز‘ میں بدل گئی تھی۔ مختلف ریاستوں اور شہروں سے جماعتیں یہاں آتیں اور پھر اطراف کے گانَوؤں میں دعوت کے کام کے لئے چلی جاتیں۔ ہر جمعہ کو عصر کی نماز کے بعد جماعت کے نمائندے گشت پر نکلتے۔ گھر گھر جا کر لوگوں سے ملتے، انھیں ان کی مذہبی ذمّے داریاں یاد دلا تے۔ انھیں جنّت میں لے جانے والے اعمال یاد دلاتے۔ اللہ کو ناراض کرنے والے کام کون کون سے ہیں بتا تے۔ پھر مغرب کی نماز بعد مسجد میں آ کر بیان، سننے کی دعوت دیتے۔

بیان بعض اوقات بہت جذباتی ہو جاتا جس میں مسلمانوں کی پسماندگی اور محرومیوں کو دین سے دوری کا نتیجہ بتا یا جا تا۔ کافروں اور یہودیوں کی سازشوں سے پردا اٹھا یا جاتا۔

جماعت لوگوں کو گناہوں سے بچنے، نیک اعمال کو اپنانے اور قرآن و حدیث کو اپنی زندگی میں برتنے کا درس دیتی ہے۔ ان ہی بھلی باتوں سے جماعت ہر خاص و عام میں مقبول ہوئی۔ کیونکہ ان خیالات میں ایسی کوئی بات بہ ظاہر نہ تھی جس کی کوئی مخالفت کرتا۔

رفتہ رفتہ تحریک بہت مضبوط ہو گئی۔ بوڑھوں، نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں نے جماعت میں جانا شروع کیا۔ چار مہینے، چالیس دن، دس دن اور تین دنوں کے لئے بڑی تعداد میں لوگ آنے جا نے لگے۔ ہر گھر میں جماعت کی نصابی کتاب کی قرأت ہونے لگی۔ مسجد میں روزانہ عشاء کی نماز کے بعد اسے پڑھا جانے لگا۔

لوگوں نے خود کو مومن کہنا شروع کیا۔ ایمان والا، غیر ایمان والا، بے دین، مشرک، کافر کا فرق انھیں سمجھ میں آنے لگا۔ اسلامی لباس، داڑھی، ٹوپی، برقعہ، تسبیح اور روزے کی اہمیت سے لوگ آگاہ ہوئے۔ بچوں کی مذہبی تعلیم و تربیت، لڑکیوں کے اخلاق و اطوار، نامحرم مردوں اور عورتوں کے درمیان درکار فاصلے کی طرف زیادہ زور دیا جانے لگا۔

عورتوں کو تمام نامحرم افراد سے بچنے بچانے کے لئے برقعے کو لازم قرار دیا گیا لیکن مردوں نے اس معاملے میں اپنے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا۔ نہ عمل کیا۔

وقت نے جماعت کو ان لوگوں پر بھی مسلط کر دیا جواس کی تعلیمات کو مانتے نہ تھے مگر سماج میں عزت سے رہنے اور لوگوں کے درمیان ’’اچھا ‘‘کہلانے کے لئے کرتا، پائجامہ، داڑھی، ٹوپی کو اختیار کر لیا۔

داڑھی منڈوانا کافروں، انگریزوں، یہودیوں اور شیاطین کا فعل کہلایا۔ اس لئے چار و ناچار داڑھی رکھنے میں ہی لوگوں نے عافیت سمجھی۔ ہوتا یہ تھا کہ داڑھی نہ رکھنے پر ہر ملنے والا نصیحت کرتا اور کہتا:سُنّت کا مذاق اڑا رہے ہو، قیامت کا ڈر دل میں ہے یا نہیں ؟‘‘

اسلامی کرن کی لہر جب تیز ہوئی تو اس کا ذہنوں پر اثر فطری تھا۔ دو باتیں بہت اہم ہوئیں (۱)دنیا کی چاہ اور ترقی ہیچ قرار دی گئی۔ (۲)اپنے عقیدے کے علاوہ، تمام عقائد مذاہب اور ثقافتی اظہار کو باطل قرار دے دیا گیا۔

پہلی بات نے مدارس کے قیام کو ہوا دی اور دوسری نے غیر مسلموں سے روابط کو کمزور کر دیا۔ جس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر تبدیلیاں شروع

ہوئیں۔ سب سے تکلیف دہ رجحان ذریعہ تعلیم اور مقامی ثقافت کے تحت تھا۔ مراٹھی کو ہندوؤں کی زبان کہہ کر مراٹھی اسکولوں میں مسلم بچوں کو [غیر تحریری سطح پر ] پڑھا نا عیب قرار دے دیا گیا۔ اردو کو مسلمان کی زبان کہا گیا۔ ۔ ہندوؤں کے تہواروں میں شرکت، شرک ہو گئی جس نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان [نظر نہ آنے والی ] خلیج پیدا کرنا شروع کر دیا۔

نتیجتاً چند برسوں میں اہل کوکن کا مشترکہ کلچر مجروح ہو کر عربوں اور شمالی ہند کی تباہ حال ریاستوں کا چربہ ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

{۲}

 

عبد العزیز نے رشید کی بات کو سنجیدگی سے سنا اور رفیق ونو کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’گانَو والے کیوں زبردستی کریں گے۔ ‘‘

صابر کو ہنسی آئی۔

’’ہنس کیوں رہا ہے۔ تو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔

’’تیری معصومیت پر ‘‘رفیق نے جواب دیا جب کہ سوال صابر سے کیا گیا تھا۔

’’تو کویت میں رہ کر آیا ہے۔ تجھے نہیں پتہ۔ ۔ ۔ اپنے دین میں داڑھی، ٹوپی اورسفید کپڑے پہننا فرض ہے۔ ‘‘رشید نے کہا۔

’’فرض !!!!‘‘حیرت سے عبد العزیز کی زبان سے ادا ہوا۔

’’ہاں۔ ۔ ۔ فرض۔ ۔ ۔ جوایسا نہ کرے وہ شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ اسلام سے بغاوت کرنے والا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘رشید نے کہا۔

رفیق ونو جو رشید کی باتوں کو دھیان سے سن رہا تھا۔ اس نے رشید سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’عصر کی اذان کا ٹائم ہو رہا ہے۔ تو نکل۔ ۔ ۔ آج گشت کی ذمہ داری تیرے اوپر ہے نا؟

رشید نے عبد العزیز کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’یار، میرے ابآ اب ہفتے واری گشت کے ذمے دار ہیں مجھے نکلنا ہو گا۔ ورنہ بگڑ جائیں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ تو نکل۔ ۔ ۔ اور کسی سے مت کہنا ہم لوگ کدھر ہیں۔ ‘‘صابر نے اس سے کہا۔

رشید نے شاخ سے چھلانگ لگائی۔ اللہ حافظ کہا اور گانَو کی طرف چل پڑا۔ تینوں اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر رفیق نے عبد العزیز کو وہ ساری کتھا سنائی جواس کی غیر موجودگی میں گانَو میں ہوئی تھی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ مسجد کی از سر نو تعمیر ہوئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک دینی مدرسہ ’’اقسام العلوم ‘‘کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ جس میں بچّوں کو قرآن حفظ کرایا جاتا ہے۔ اس مدرسے کے بانی سکینہ کے شوہر مجاورحسین ہیں۔

٭

 

مجاور حسین کا نام سنتے ہی عبد العزیز کا دھیان اس کی باتوں سے ہٹ گیا۔

رفیق جماعت کے فرمودات اور لوگوں کے روزمرہ کے معمولات میں در آنے والی غیر فطری تبدیلیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ رفیق نے اس کے ساتھ مراٹھی میڈیم میں تعلیم حاصل کی تھی۔ مراٹھی ڈراموں سے اسے بے حد لگاؤ تھا۔ ڈرامہ کمپیٹشن میں اس نے تعلقہ کی سطح پر اسکول کے لئے کئی انعامات حاصل کیے تھے۔ اچھا اداکار تھا اسی خوبی کے سبب میٹرک کے بعد بھی اسکول کے پر نسپل اسے ہدایتکاری کے لیے اسکول بلاتے تھے۔ نانا صاحب مر گوپی کر، سدھاکر، کر مر کر، پرانچے اور پو۔ لا۔ دیش پانڈے اس کے پسندیدہ ڈرامہ نگار تھے۔ عبد العزیز نے جب گریجویشن میں پوزیشن حاصل کی تھی تب رفیق نے اسے وجے تینڈلکر کا ڈرامہ ’’سکھارامبپا ئنڈر‘‘ تحفے میں دیا تھا۔

اپنے سماج میں جماعت کے اثر سے در آنے والی تبدیلیوں سے وہ بے حد پریشان تھا۔ اسے جب بہت گراں گزرتا تھا تو وہ صابر کے سامنے اپنا فرسٹیر شن نکالتا۔ صابر کو اس سے بے حد عقیدت تھی۔ وہ اس کی باتیں سن لیتا اور دل میں محفوظ رکھتا۔ آج عبد العزیز کے آنے کے بعد وہ اس موضوع پر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا۔ عبد العزیز دیکھ تو اس کی آنکھوں میں رہا تھا لیکن کسی دوسرے منظر میں ڈوبا ہوا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۳}

 

وہ منظر :

سکینہ نے کھڑکی کے پاس آہستہ سے اس سے کہا تھا کہ جمعہ کے روز اپنے والد سے ملنے جا نے والی ہے۔ اس لمحے اس کی آنکھوں میں خوشی چھلک گئی تھی۔ ایک مّدت سے وہ سکینہ سے ہم آغوش ہونے کے لئے بے قرار تھا۔ بڑی مشکل سے ایک ایک منٹ جوں توں اس نے کاٹا اور جمعہ کی نمازسے آدھا گھنٹہ قبل ہی وہ اس کے گھر پہنچ گیا۔ سکینہ کے والد نے فخرالدین کے لئے اپنے ہی احاطے میں ایک چھوٹا سا مکان بنوا دیا تھا۔ جہاں وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ جب وہ حویلی نما مکان میں داخل ہوا عین اس وقت سکینہ کے والد اور فخرالدین نماز جمعہ کے لئے باہر نکل رہے تھے۔ عبد العزیز نے دونوں کو سلام کیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ عبد العزیز نے بتایا کہ  ’’سکینہ آپا سے ملنا ہے، تھوڑا کام ہے۔ ‘‘فخرالدین نے جواب دیا کہ ’’وہ بچوں سے باتیں کر رہی ہے، سامنے چلے جاؤ…‘‘

عبد العزیز احاطے میں بنے سرخ پتھروں والے مکان کے دروازے پر پہنچا۔ اندر سکینہ ایک میز پر بیٹھی تھی یوسف فخرالدین کی بیوی کی گود میں سورہا تھا۔ فخرالدین کی دو لڑکیاں اب خاصی بڑی ہو گئی تھیں۔ سکینہ کے قریب کھڑے رہ کر وہ سکینہ کو پہاڑے سنارہی تھیں۔

عبد العزیز خاموش کھڑا رہا۔ سکینہ کو دیکھتے ہی گو یا اس کے قدم رک گئے تھے۔ اس کی سانس تھم سی گئی تھیں۔ سکینہ کے چہرے پر اس کی نظر یں مرکوز تھیں۔ اسے ایسا لگا وہ وہاں ہے نہیں کہ آگے بڑھے۔ فخرالدین کی بڑی بیٹی کی نظر اس پر پڑی تو اس نے مڑ کر اپنی ماں سے کہا۔ ’’ماں ماں دیکھو…ایک لڑکا…‘‘

اسے دیکھتے ہی سکینہ کھڑی ہو گئی۔ وہ چاہتی تھی دوڑ کر اس سے لپٹ جائے اور اس کے پورے بدن پر اپنے لبوں سے ایک عبارت لکھ دے۔ جس میں مہجور دنوں کے درد کا نوحہ محفوظ تھا۔ جس عبارت کو وہ روز اپنے سینے میں کروٹیں بدلتے ہوئے محسوس کرتی تھی۔ جس عبارت کو وہ اپنے بدن کی تبدیلیوں میں محسوس کرتی تھی۔ جب شوہر کے ساتھ ہم بستر ہوتی اس وقت بھی عبد العزیز کا چہرہ اس کے شوہر کے چہرے پر چھا جاتا۔ اس دھندلکے میں یہ عبارت اس کے دل سے نکل کر اس کے لبوں تک آ جاتی مگر جوں ہی مجاور حسین کا چہرہ اسے نظر آ جاتا ایک احساس محرومی کے ساتھ یہ عبارت نہاں خانۂ دل میں لوٹ جا تی۔

اس نے فخرالدین کی بیوی سے کہا۔ ’’یہ میرے سسرال سے آئے ہیں۔ تم منے کو چادر پر سلادو، میں ابھی آتی ہوں۔‘‘

٭

 

حویلی میں داخل ہوتے ہی بائیں ہا تھ پر ایک کمرہ تھا۔ وہ دونوں اندر گئے۔ کمرے میں چند بوریاں اور دو بڑی پیٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔ دیواروں کا رنگ اُڑ گیا تھا۔ بوریوں سے الگ کر ایک اور دروازہ تھا۔ سکینہ نے اسے ڈھکیلا اور آگے بڑھی۔ یہ نسبتاًچھوٹا کمرہ تھا۔ اس میں اناج کے ڈبے اور چاول کی گونیاں تھیں۔ اس نے مڑ کر عبد العزیز کو دیکھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔ چہرے پر ڈر کی ایک تہہ تھی۔ اسے لگا اس کمرے میں وہ بیٹھ کر باتیں کریں گے لیکن ایسانہ ہوا۔ سکینہ نے بلب جلایا تو عبد العزیز یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ دائیں ہاتھ پر ایک اور دروازہ ہے۔ سکینہ نے اس دروازے کو ہلکے سے ڈھکیلا۔ اب وہ کیچن میں تھے۔

’’سامنے کے دروازے سے بھی یہاں آ سکتے تھے۔ ‘‘سکینہ نے چولہے کے سامنے کی کھڑکی کو بند کرتے ہوئے کہا۔

’’تو پھر اتنے سارے کمروں سے گزر کر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’میں نے اس دروازے پر باہر سے ٹا لا لگا رکھا ہے۔ ‘‘

’’اور اگر تمھارے ابا آ گئے تو۔ ۔ ۔ ‘‘

’’تو کہہ دنیا میں تمھاری بیٹی سے عشق کرتا ہوں ‘‘۔ ۔ ۔ وہ ہنسی‘‘

’’وہ میرا کھون کر دیں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے تو میں کہہ دوں گی کہ…کہ میں اس سے عشق کرتی ہوں …‘‘وہ پھر ہنسی۔

’’اوہ شانی !تب بھی وہ میرا ہی کتل کر یں گے۔ ’’عبد العزیز نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ڈرتے ہو کیا؟‘‘

عبد العزیز سوچنے لگا کہ اس سوال کا کیا جواب دے۔ وہ چپ سادھے اسے دیکھتا رہا۔ یکا یک اس کے دل نے زبان کو حرکت دی، لفظوں کو روپ ملا۔ ’’جہاں ڈر نہیں ہوتا وہاں محبت نہیں ہوتی۔ ‘‘

اس جملے کو سن کر بہت ساری یادیں تازہ ہو گئیں۔ سکینہ نے اپنے پیروں میں ایک طرح کی کمزوری محسوس کی۔ اس کا دل عبد العزیز کے قرب سے چھوئی موئی کے پودے کی طرح (پنی ہی نسیجوں میں )سکڑنے لگا۔ اس کے گالوں کا رنگ بدلنے لگا۔ جو عبارت اس کے اندر آشفتہ تھی وہ پل بھر میں یکجا ہو کر اس کی آنکھوں میں آ ٹھہری۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’تم یہاں کوکم لینے آئے ہو…سمجھے !اگر کوئی آئے تو فوراً پچھلے کمرے میں چلے جا نا۔ ‘‘

عبد العزیز کی نظریں اس کی زبان پر تھیں جس کا رنگ پیڑ پر لٹکے پکے ہوئے کوکم کی طرح شرابی تھا۔ !!کتنے لمبے انتظار کے بعد آج وہ اس کے اتنے قریب کھڑا تھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا۔

’’میں سچ مچ کوکم ہی لینے آیا ہوں۔ ‘‘

کو کم کا نشہ اس کے منہ میں پھیل گیا۔ اور واقعی کچھ دیر پہلے سکینہ نے سوکھائے ہوئے کوکم کے کچھ ٹکڑے چوسے تھے۔ عبد العزیز دیوار سے الگ کر بیٹھ گیا۔ سکینہ نے اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ یوسف کی پیدائش کے بعد آج پہلی بار وہ یوں ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ بہت دیر تک وہ یوسف سے متعلق باتیں کرتے رہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۴}

 

اس ملاقات پر سکینہ نے عبد العزیز کو بتایا مجاور حسین نے ارادہ ظاہر کیا ہے پانچویں جماعت تک اسکول کی تعلیم دلانے کے بعد وہ یوسف کو ایک مدرسے میں حافظ بننے کے لئے بھیجیں گے۔ وہ یوسف کو ایک بہت بڑا عالم دین بنانا چاہتے ہیں۔ گھر میں بھی نماز کی پابندی کی بار بار ہدایت کرتے ہیں۔ انھیں خوش رکھنے کے لئے، نہ چاہتے ہوئے بھی دو چار رکعت پڑھ لیتی ہوں۔ یوسف کے قدموں سے گھر کا ماحول بدل گیا ہے۔ اس کی ساس اسے بیٹی کی طرح سنبھالنے لگی ہے اور مجاور حسین بھی اس کے لئے جی جان ایک کیے رہتے ہیں۔

عبد العزیز کے لئے یہ باتیں تکلیف دہ تھیں۔ مگر وہ سنتا رہا۔ اسے احساس تھا، یوسف پر اس کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی سکینہ کے گھریلو زندگی پر۔ ۔ ۔ جب سکینہ کہہ چکی تو تھوڑی دیر کے لئے دونوں چپ رہے۔ صرف دونوں کی آنکھیں باتیں کرتی رہیں۔ پھر دونوں برسوں سے بچھڑے جسم و جاں کی طرح لپٹ گئے۔ دونوں کی روحوں میں ایک رنگ تھا جو ایک دوسرے میں سرایت کے لئے بدن کے قفل کرید رہا تھا۔ دونوں کی آنکھوں کی سفیدی یکایک اس رنگ کے احساس سے سرخ ریشوں میں بدل گئی۔ دونوں کا وجود غائب تھا۔

٭

 

شام کو عبد العزیز جب نہانے بیٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صابن کا سفید جھاگ نیم شرابی رنگ میں بدل گیا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں جھاگ لے کر اپنی ناک کے قریب کیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ پھر سرشاری سے اس کی روح ندی کے بہاؤ کی طرح تازہ دم ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس جھاگ سے کوکم کی من موہک خوشبو آ رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک اس مہک کو سونگھتا رہا۔ ایک طرح کی مدہوشی اس پر طاری ہو گئی تھی۔ اگر مہرون نے آواز نہ لگائی ہوتی تو شاید اسے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۵}

 

رفیق نے جب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تیرا کیا خیال ہے، یہ لوگ ہماری زندگی کو اور کس حد تک بدلیں گے ؟ ‘‘

تو وہ ہڑبڑا گیا۔ ۔ اس کی زبان سے بس اتنا ادا ہوا۔ ’’آ۔ ۔ ۔ ۔ آہاں۔ ۔ ۔ ‘‘رفیق کو ایسا لگا عبد العزیز اس پوری کہانی سے دل برداشتہ ہے۔ اس لئے افسوس سے اس کی زبان سے یہ کلمہ ادا ہوا ہے۔

’’لیکن آج تم دونوں ان کی طرح کپڑے پہنے ہوئے کیوں ہو؟‘‘ تھوڑی دیر کی چپ کے بعد عبد العزیز نے پوچھا۔

’’یار میرے اور اس کے ابّا پچھلے مہینے ہی جماعت میں چالیس دن کے لئے جا کر آئے ہیں ؟‘‘صابر نے کہا۔

’’تو کیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’یار۔ ۔ ۔ ۔ پینٹ اور شرٹ پہننے کو وہ مذہب کے خلاف کہتے ہیں ؛اور  اجتے ما (اجتماع) کے دن کرتا پائجامہ پہننا ایکدم کمپّل سری ہو گیا ہے۔ ‘‘رفیق ونو نے اسے بتایا۔

’’یعنی آج اجتماع ہے ؟‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمعہ کا دن ہفتے واری !اجتے ما کا دن ہوتا ہے۔ ‘‘

’’پھر۔ ۔ ۔ ۔ جانا نہیں ہے کیا۔ ؟‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔

’’مگرب کے بعد بیان ہوتا ہے تب پہنچ جائیں گے۔ ۔ ‘‘رفیق نے بتایا۔

’’سالا میرا باپ بہت بگڑتا ہے، بیان کے ٹائم مسجد سے غیر حاضر پاتا ہے تو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘صابر نے کہا۔

’’بیان میں کیا ہوتا ہے ؟‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔

’’بیان میں ‘‘رفیق ٹھہر گیا …س کی نظریں صابر کے چہرے پر تھیں جو کچھ کہنے کے لئے ’’میں بولتا ہوں …بیان میں چھ باتوں پر زور دیا جاتا ہے ۔ ‘‘(اس نے چھ باتیں تفصیل سے سمجھائیں۔ )

’’یار، اس کے ساتھ اتنا کچھ ہوتا ہے ناکہ عقل کام نہیں کرتی۔ ۔ ہر چیز کو گناہ بتاتے ہیں۔ گانا سننا اور گانا گناہ۔ ۔ لڑکیوں کی طرف دیکھنا گناہ۔ داڑھی نہ رکھنا گناہ۔ ٹوپی نہ پہننا گناہ، تصویریں نکالنا گناہ۔ تاشے بجانا گناہ، شہنائی گناہ۔ ۔ ۔ ہولی گناہ، دیوالی گناہ، اتسو میں لیزم کھیلنا گناہ۔ ناچنا گناہ۔ سگی بہنوں کے علاوہ دوسری تمام لڑکیوں سے بات کرنا گناہ۔ ۔ ۔ بتاؤ۔ ۔ ۔ ۔ بتاؤ اب کوئی کیا کرے۔ ۔ ‘‘عبد العزیز کا چہرا سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی کہ خدا کا گھر کیوں کر اجتماعی کلچر کے خلاف اور افراد کے باہمی تعلقات کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ ۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جو لوگ برسوں سے ہندوؤں کے تہواروں کا حصہ بنے رہے ہیں، ان کی طرح زندگی گزارتے رہے ہیں، ان کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک ثقافت کا حصہ بنے رہے ہیں۔ یکایک ہر چیز کو گناہ کی نظرسے دیکھنے لگیں گے۔

اس کے لئے خدا کا تصور افراد کا نجی معاملہ تھا۔ اس کے لئے مسجد اور مندر عبادت کا مقام تھے۔ مذہبی سیاست کے لئے ان مقدس مقامات کا استعمال ہو گا اس بات کا اسے گمان نہ تھا۔ بلکہ اس سے پہلے مذہب…اس کا اپنا مذہب… اور غیر مسلم دوستوں کا مذہب اس کے لئے کبھی مسئلہ نہ تھا۔ اور نہ ہی مذہب کوئی دیوار تھی ان کے درمیان!!اس لئے عبادت گاہوں اور مذہبی سیاست کے درمیان کا رشتہ کس قدر گہرا ہو سکتا ہے، اس بات کا اسے اندازہ نہ تھا۔ وہ اس بات سے واقف نہ تھا کہ بعض مذاہب دوسرے مذاہب کے ارتقاء کے دشمن ہیں …جن کے نزدیک صرف ’ہم مذہب لوگ مساوی ہیں باقی سارے مشرک، بت پرست، اور جہنمی…، جن کی زندگی اسفل اور غیر مساوی ہے۔

’’جب تک میں نہیں سنوں گا یقین نہیں کروں گا۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

’’ٹھیک ہے تو چل ہمارے ساتھ۔ ‘‘صابر نے کہا گویا عبد العزیز کو اکسا رہا ہو۔

’’آج نہیں …آج، والد صاحب کے ساتھ بہت ساری باتیں کرنا ہے۔ کسی اور جمعہ کو۔ ۔ ‘‘

’’تجھے بہت افسوس ہو گا …میں تجھے جانتا ہوں۔ ‘‘رفیق ونو نے کہا۔

’’دیکھیں گے یار …آ خر ہے کیا یہ جماعت اور کہاں سے آئی ہے اور چاہتی کیا ہے۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

’’ٹھیک ہے بیٹے …چل اب نکلتے ہیں …سورج ڈوبنے والا ہے۔ ‘‘ صابر نے اتنا کہہ کر کاجو کی شاخ، جو اس کے وزن سے جھک گئی تھی اس پر سے چھلانگ لگائی۔

تینوں جس راستے سے آئے تھے، اس پر چل پڑے۔ جو باتیں ان کے ذہنوں میں آ رہی تھیں، کرتے رہے۔ سورج افق پر لیٹ گیا تھا شاید اس کی رگوں سے لہو کی پھوار لگی ہوئی تھی۔ جس کے سبب ارد گرد پھیلے بادلوں کے ٹکڑے خون کی رنگت اختیار کرنے لگے تھے۔ کاجو کے دور تک پھیلے پیڑوں کے سر۔ ۔ ۔ اس زرد اور سرخ لہو رنگ مدھم اجالے میں مغموم نظر آ رہے تھے۔

٭

 

وہ کنویں سے کچھ دوری پر تھے۔

گانو کی چند عورتیں کنویں کے اطراف کے پتھروں پر بیٹھ کر کپڑے دھو رہی تھیں۔ دو لڑکیاں سروں پر تانبے کے ہانڈے اور کمر پر کلسی لیے، کو کم کے پیڑوں کے کنج سے گانَو کی طرف لوٹ رہی تھیں۔

’’بیٹے یاد ہے۔ یہاں آ کر ہم لوگ پتھروں پر بیٹھا کرتے تھے ؟‘‘رفیق نے عبد العزیز سے کہا۔ عبد العزیز کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔ صابر اس مسکراہٹ میں پوشیدہ بات کو سمجھ گیا تھا۔ اس نے فوراً کہا۔ ’’پتلی پتلی کمر، کپڑوں کو دھوتے ہوئے ہلتی ہے تو دیکھنے میں کتنا مزہ آتا ہے نا؟‘‘

’’گندی بات گندی بات…‘ رفیق نے منہ پر کلمے کی انگلی رکھ کر کہا۔

’’اچھا گندی بات…توُ ہی مجھے اور عزیز کو یہاں لے آتا تھا۔ بھول گیا۔ ‘‘صابر نے رفیق ونو کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’تب ہم چھوٹے تھے۔ ‘‘جھٹ سے رفیق نے کہا۔ گویا کہنا چاہتا تھا کہ نوخیز جوانی کے کار ناموں کو برا نہیں کہا جا سکتا۔

’’تو اب تیرا جی نہیں کرتا۔ ‘‘صابر نے پوچھا۔

’’اب دیکھنا چھوڑ دو۔ ۔ ۔ کچھ کیا بھی کرو۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

’’صابر اور رفیق ونو نے رُک کر فوراً ایک ساتھ کہا۔ ’’یہ !تو نے کچھ کیا ہے کیا؟کویت میں چانس ملا کیا؟‘‘

عبد العزیز ان کے اشتیاق کو دیکھ کر مسکراتا رہا۔

’’یہ۔ ۔ بتانا۔ کیسا لگتا ہے، بولنا۔ بہت مزہ آتا ہے کیا؟‘‘صابر نے پوچھا۔

’’کبھی خواب میں نہیں کیا؟۔ ۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے پوچھا۔

’’خواب میں تو ہوتا ہے مگر سچی کا کیسا ہوتا ہے۔ ‘‘صابر نے کہا۔

’’وہ بھی خواب ہی ہوتا ہے۔ ‘‘عبد العزیز نے جو اب دیا۔

’’کیا مطلب ‘‘ رفیق ونو نے پوچھا۔

’’محبت میں جتنی بھی زندگی گزرتی ہے وہ ایک لمبی نیند ہے۔ اور اس میں پیار کے جو لمحے ہوتے ہیں وہ خوابوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

پھر اسے ایسا لگا کہ صابر اور رفیق کنفیوژ نہ ہوں۔ وہ اس بات کو آسانی سے سمجھانا چاہتا تھا مگر اس کا ذہن ناکام رہا۔ وہ لمحہ بھر کے لیے سوچتا رہا۔ کس طرح سے انھیں بتائے کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ صابر اور رفیق دونوں چپ تھے۔ انھیں ایسا لگا کہ عبد العزیز کی بات کو سمجھنے کے لیے شاید کچھ دیر چپ رہ کر اس پر غور کرنا بہتر ہے۔ وہ چند قدم آگے بڑھے۔ اس دوران عبد العزیز کو یقین ہو گیا کہ ان ہی برسوں میں اس میں جو تبدیلیاں ہوئیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باتوں کو وہ صرف ایک ہی طرح سے ادا کر سکتا ہے، چاہے تر سیل میں اسے نا کا می کا منہ ہی کیوں نہ دیکھنا پڑے۔ یہ احساس بڑا عجیب تھا۔ پل بھر میں وہ ساری چیزوں سے کٹ گیا۔ کنواں، پیڑ۔ کپڑے دھوتی ہوئی عورتیں۔ شام کی مدھم خاموشی میں پرندوں کے نغمے، ہوا کی موسیقی۔ سب سے کٹ کر وہ اپنے اندر غرق ہو گیا۔ وہ خود سمندر اور خود مغروق۔ ’’کیا اسے ہی تنہائی کہتے ہیں۔ ‘‘

کنویں کی دیوار پر وہ تینوں بیٹھ گئے۔ کوکم کے پیڑوں کے سائے ان پر لہرا رہے تھے۔ عورتوں نے عبد العزیز کو دیکھا تو فوراً کھڑی ہو گئیں۔ پاس آئیں۔ وہ بھی کھڑا ہو گیا۔ اس نے انھیں سلام کیا۔ بہت دیر تک وہ اس سے باتیں کرتی رہیں۔ جن کے رشتے دار خلیج میں تھے وہ ان ممالک کے بارے میں بھی سوالات پوچھتی رہیں۔

اس بات چیت سے عبد العزیز کے مزاج میں جو یک لخت بیگانگی در آئی تھی وہ کم ہو گئی۔ اس کا موڈ دوبارہ پہلے جیسا ہو گیا۔ رفیق ونو اور صابر بھی گفتگو میں شریک ہو گئے۔ دس پندرہ منٹ وہاں گزر ے۔ صابر نے کاڑ نا(ڈول) لیا اور کنویں سے پانی نکالا۔ عبد العزیز نے ہاتھ منہ دھویا۔ دو گھونٹ پانی پیا۔ کنویں کا پانی پی کر اس کا جی اور ہلکا ہو گیا۔ رفیق اور صابر نے بھی ہاتھ منہ دھویا اور پانی پیا۔ عورتیں دھوئے ہوئے کپڑے اپنی ٹوکریوں میں بھر رہی تھیں۔ اندھیرا گہرانے لگا تھا۔ تینوں دوست گانَو کی طرف بڑ ہے۔ عورتیں سر پر ٹوکریاں لیے ان کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ گانَو میں وہ داخل ہوئے ہی تھے کہ مغرب کی اذان کی آواز ان کے کانوں پر پڑی۔ رفیق ونو نے عبد العزیز سے کہا۔ ۔ ۔ ’’چل بیٹے !اب ہم لوگ جلدی جلدی مسجد کی طرف نکل رہے ہیں۔ ‘‘

’’کل ملیں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے تم لوگ نکلو۔ ۔ ۔ اور ہاں کل میں نہیں ہوں۔ چپلون جانے والا ہوں۔ پرسوں …ٹھیک ہے ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’اچھا چل۔ ۔ ‘‘

’’چلو ٹھیک ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

{۶}

 

عبد العزیز گھر میں پڑی کی طرف سے داخل ہوا۔ پڑی کے آنگن میں سلیم اور عارفہ پکڑا پکڑی کھیل رہے تھے۔

عارفہ نے عبد العزیز کو آنگن کا کواڑ ہٹاتے ہوئے دیکھا تو جھٹ سے دوڑ کر اس کی طرف گئی۔ عبد العزیز نے کواڑ بند کیا۔ عارفہ اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔ عبد العزیز نے اسے گود میں اٹھا لیا۔ سلیم وہیں کھڑا رہ گیا۔ اسے اس بات کا افسوس تھا کہ کاش وہ پہلے دوڑ کر جاتا اور عبد العزیز اسے اٹھا لیتا۔ عارفہ سے اسے حسد ہو رہی تھی۔ جو عبد العزیز کے کندھے پر بیٹھی اسے چڑا رہی تھی۔ ابھی سلیم اس کو چڑاتا کہ دروازے پر شمیم آئی۔ ’’ارے تم آ گئے …بھائی، کب سے تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘شمیم نے کہا۔

’’ابّا آ گئے ہیں ؟‘‘ عبد العزیز کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔

’’بہت دیر ہو گئی۔ باہر بیٹھے ہیں۔ ‘‘شمیم نے کہا۔

’’ عبد العزیز نے سلیم کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر عجیب الجھن نظر آ رہی تھی۔ شمیم نے عبد العزیز کے کندھے پر سے عارفہ کو لیا۔ عبد العزیز پڑی میں داخل ہوتے ہوئے رک گیا۔ اس نے مڑ کر سلیم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ناراض کیوں ہوا رے ؟تیرے سے چھوٹی ہے نا وہ …بعد میں تجھے بھی کندھے پر اٹھاؤں گا۔ ‘‘

سلیم خاموش کھڑا رہا۔ عبد العزیز کو اس کے روہنسی چہرے پر ترس آیا۔ وہ مڑا اور اس نے سلیم کے گال پر ایک بوسہ لیا اور کہا۔ ’’تھوڑی دیر بعد ! ساتھ میں کھیلیں گے۔ ٹھیک ہے !چل جلدی سے مسکر…‘‘

عارفہ جو شمیم کی گود میں تھی اس نے منہ بنا کر اسے چڑایا۔ سلیم کے چہرے پر آتی مسکراہٹ پھر رُک گئی۔

’’اوہو۔ ۔ ۔ تم دونوں اب لڑ نا چھوڑ و گے یا تم کو کھانا  کھلا کر سلادوں۔ ‘‘

’’نہیں نہیں نہیں ‘‘…دونوں کی زبان سے ساتھ میں ادا ہوا۔

عبد العزیز حیران کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ پھر شمیم نے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’سونے کے نام پر ان کا کلیجہ نکلتا ہے۔ اور تم آئے ہو تو اب جلدی سونے کاسوال نہیں اٹھتا۔ ‘‘

’’چاچی میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ سلیم ابھی روتڑا لگ رہا تھا اور اب دیکھوکیسا چہک رہا ہے۔ ‘‘ عبد العزیز نے سلیم کے ہنستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا۔

’’یہ ڈھونگی ہے ! ڈرامہ بہت کرتا ہے، اس سے ہوشیار رہنا۔ ‘‘

’’اچھا !‘‘ نوٹنکی، تجھے بعد میں ٹھیک کرتا  ہوں۔ ‘‘ عبد العزیز نے کہا۔ سلیم زور زورسے ہنسنے لگا۔ وہ سب پڑی میں داخل ہوئے۔

٭

 

چولہے کے پاس سے لکڑیوں کا دھواں اٹھ کر ساری پڑی میں پھیل رہا تھا۔ ہوا کا رُخ رہ رہ کر بدل رہا تھا۔ اس لیے مہرون نے چولہے کے پاس والی کھڑکی بند کر رکھی تھی۔ چاول کی روٹیاں بنانے کے لیے وہ آٹا گوندھ رہی تھی۔ چولہے پر توا گرم ہو رہا تھا۔ ایک طرف بڑے سے تھالے میں بانگڑا، مدیلی اور لیپ مچھلی کو نمک مصالحہ لگا کر رکھا گیا تھا۔ ماں کی طرف دیکھ کر عبد العزیز نے کہا۔ ’’ارے ماں اتنے دھوئیں میں کیوں بیٹھی ہو، کھڑ کی تو کھول دو…‘مہرون نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا… ’’ارے تو آ گیا، تیرے آبا تیرا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘میں تو کب سے آیا یہاں کھڑے رہ کر دیکھ رہا ہوں تمھارا دھیان تو صرف پٹ(اٹا) ملنے میں ہے۔ ’’ شانے مذاق مت کر۔ ۔ میرا دھیان سب جگہ رہتا ہے۔ ‘‘مہرون نے کہا۔ عبد العزیز اور شمیم ہنسنے لگے۔ شمیم کی طرف دیکھ کر مہرون نے پھر کہا۔ ’’دیکھو تو!میں کیا اتنی بوڑھی ہو گئی ہوں جتنی یہ سمجھتا ہے۔ ‘‘ ’’ارے بالکل نہیں بھابھی …آپ تو…آپ تو میرے سے بھی جوان ہو…‘‘ عبد العزیز نے قہقہہ لگایا اور شمیم کے کندھوں پر بانہیں ڈال کر ہنستا رہا۔

’’تو بھی اس شیطان کے ساتھ مل کر میرا مذاق اڑا رہی ہے۔ رک۔ ۔ ‘‘اتنا کہہ کر مہرون نے چولہے میں سے ایک جلتی ہوئی پتلی لکڑی نکالی اور کہا۔ ’’تم دونوں کے گال پر ایک چٹکا دیتی ہوں۔ ‘‘ارے نہیں نہیں غلطی ہو گئی…‘‘ عبد العزیز نے کہا … ’’آپ چاچی سے زیادہ نہیں، آنے والی بہو سے بھی زیادہ جوان ہو …‘‘ شمیم کو اس بار ہنسی آئی …لیکن مہرون کو عبد العزیز کے اس جملے سے ایسا لگا عبد العزیز نے زیادہ سنجیدہ بات مذاق میں کہہ دی ہو۔ اس کا چہرہ اترگیا۔ اس نے لکڑی کو دوبارہ چول میں ڈال دیا اور گردن نیچے کئے آٹا ملنے لگی۔ شمیم نے عبد العزیز کی طرف دیکھا …دونوں کے چہروں پر ایک طرح کی سرد لہر پھیل گئی …

’’ماں کچھ برا کہہ دیا …‘‘ عبد العزیز نے بسنے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔

’’ماں بول نا؟عبد العزیز نے پھر کہا۔

چاول کی روٹی کو ہاتھوں پر بناتے ہوئے مہرون نے کہا۔ ’’نہیں !پر اب سچ مچ اس گھر میں بہو کا ہونا ضروری ہے، مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ارے ماں میں مذاق کر رہا تھا۔ ‘‘

’’تیری عمر کے لڑکوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ ‘‘

’’سب کی نہیں …دیکھو میرے دوست رفیق اور صابر کو…ان کی کہاں ہوئی ہے ؟‘‘

’’گدھے !وہ کماتے دھماتے نہیں ہیں !اس لئے کوئی لڑکی نہیں دے رہا ہے لیکن رشید کی تو ہو گئی نا؟‘‘

’’رشید کی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کیوں تجھے نہیں بتایا اس نے۔ ‘‘

’’نہیں ماں۔ ۔ ۔ ۔ شاید یاد نہیں رہا۔ ۔ ‘‘

’’ سنگمیشور سے لایا ہے، جماعت میں اس کے باپ نے رشتہ کیا تھا۔ بولتا ہے مدرسے میں پڑھی ہوئی ہے۔ ‘‘

’’معلوم نہیں …‘‘

شمیم نے توے پر سے روٹی اتارتے ہوئے کہا۔ ’’بھابھی۔ ۔ ۔ فکر کیوں کرتی ہو۔ ۔ ۔ عبد العزیز کے لئے دیکھنا کل سے ہی رشتوں کی لائن لگے گی۔ ۔ ۔ ہمیں رشتہ بھیجنا بھی نہیں پڑے گا۔ ۔ ‘‘

عبد العزیز سمجھ گیا کہ ماں کی ناراضی کا سبب کوئی ایسا سنجیدہ نہیں ہے اس کی دلچسپی کم ہو گئی۔ وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ سلیم دوڑتا ہوا آیا اور پڑی کے دروازے پر سے اس نے کہا۔ ۔ ’’چاچا بلا رہے ہیں۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

{۷}

 

وٹے دار کے آنگن میں اس کے والد اور چچا کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے جا کر ان سے ہاتھ ملایا۔ پیچھے سے سلیم ایک پترے کی کرسی لے آیا۔ ۔ عبد العزیز اس پر بیٹھ گیا۔ بہت دیر تک وہ باتیں کرتے رہے۔ اپنے بیٹے سے وقار حسین برسوں بعد باتیں کر رہے تھے۔ آج عبد العزیز ایک با شعور آدمی کے طور پر ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کی آواز اور باتوں میں پختگی تھی لہجے میں پہلے سے زیادہ کشش تھی۔ وقارحسین کواس گفتگو میں ایک بات کی توقع تھی کہ بات چیت کے دوران اس کی زبان سے۔ ۔ ۔ ’معافی مشکل ‘۔ ۔ ۔ ۔ ’اللہ کریم ‘جیسے عربی الفاظ سنے ملیں گے۔ جب انھیں ایک گھنٹے تک ایساکوئی لفظ سننے نہ ملا۔ تو انھوں نے پوچھا۔ ’’بیٹے کیا وہاں انگلش لوگوں کے ساتھ تھے۔ عربی بالکل نہیں سیکھی۔ ‘‘

’’آپ کو ایسا کیوں لگا۔ ‘‘عبد العزیز نے اشتیاق سے پو چھا۔

’’ارے جتنے لڑکے آج کل فورن سے آتے ہیں ان کی زبان پر ہر وقت ’’ معافی مشکل اور اللہ کریم۔ ۔ رہتا ہے۔ ‘‘ وقارحسین نے سنجیدگی سے کہا۔

عبد العزیز کو ہنسی آ گئی وہ سوچنے لگا۔ اب کیا کہے۔ اپنے والد کی سادگی پر اسے حیرت نہ ہوئی۔ اس جنریشن کے لوگ how are you اورSorry کہنے والوں کے بارے میں کہتے تھے۔ کیا انگلش بولتا ہے ؟اہل کو کن میں لسانی احساس کمتری نہیں ہے بلکہ تعلیمی پسماندگی ہے۔ خلیج میں جھاڑو دینے والا آدمی بھی جب چھٹی پر وطن لوٹتا ہے تو وہ خود کو اہل سعود میں شمار کرتا  ہے۔ خود کو عرب تصور کرنے کی اِس وبا ء نے ان کی زبان پر عوامی عربی کے چند فقرے چڑھا دئے ہیں۔ ویسے بھی تین چار برسوں میں کوئی بھی شخص عوامی زبان کا کچھ حصہ سیکھ لیتا ہے۔ اس کا سبب ضرورت اور مجبوری ہوتی ہے۔ لیکن گانو میں دوسروں کو امپریس کرنے کے لئے یہ عربی الفاظ کیوں استعمال کرتے ہیں اس کا سبب یہ جانیں یا ان کا خدا جانے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم سنسکرت نہ جاننے والوں کے سا منے اس کے الفاظ یا تامل نہ جاننے والوں کے سامنے تامل بولنے کی حماقت کریں۔

’’وہ کیا ہے نا جو لوگ عربوں کے گھروں میں ڈرائیونگ یا صاف صفائی کرتے ہیں یا دکانوں میں نوکری کرتے ہیں وہ بہت جلدی عربی سیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘

عبد العزیز نے بہت سوچ کر جواب دیا۔

’’تم نے بالکل نہیں سیکھی۔ ۔ ‘‘حمید حسین نے پوچھا۔

’’نہیں تھوڑی بہت سیکھی ہے مگر میرے بینک میں زیادہ تر لوگ برٹش تھے اس لئے زیادہ موقع نہیں ملا۔ ‘‘

’’تو پھر تیری انگلش گوروں کے جیسی ہو گئی ہو گی۔ ۔ ‘‘وقار حسین نے فوراً کہا۔ عبد العزیز نے سوچا اب کیا کہے۔ وہ چپ رہا۔ پھر اس نے جواب دیا۔ ’’ہاں ابّا جان۔ ‘‘اب اسے ہندوستان میں کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ اس لئے میں یہاں اس انگلش کا استعمال نہیں کر پاؤں گا۔ ‘‘

وقار حسین اور حمید حسین نے ہونٹوں کو سکیڑ کر گردن ہلائی۔ جس میں حیرت کے علاوہ ایک مشکل کام کو انجام دینے پر خوشی اور تعجب کا ملا جلا اظہار مقصود تھا۔

عبد العزیز دل ہی دل ان کے بھولپن پر مسکراتارہا۔ عارفہ ایک کونے میں اپنے کھلونے بچھاکر کھانا بنا رہی تھی اور سلیم کرسی کے پاس کھڑا ہو کر بڑوں کی باتوں کو بہ غور سن رہا تھا۔

٭

 

’’کھانا لگا دیں۔ ۔ ۔ مہرون بھابھی پوچھ رہی ہیں۔ ‘‘شمیم نے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا۔

’’کیا وقت ہو رہا ہے ؟‘‘

’’پونے آٹھ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘شمیم نے کہا۔

’’بتاؤ !پتہ ہی نہیں چلا۔ کتنا وقت گزر گیا۔ ۔ ۔ وقار حسین نے شمیم کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ مسکرائی۔

’’اتنے دنوں بعد عزیز کے ساتھ جو بیٹھے ہیں۔ ‘‘مسکراتے ہوئے ہی شمیم نے کہا۔

’’ہاں بھئی ہاں۔ ٹھیک ہے۔ چلو کھانا وانا ہو جائے۔ ‘‘وقار حسین نے کہا اور وہ کرسی سے اٹھ گئے۔

شمیم واپس مڑ کر پڑی میں چلی گئی۔ سلیم نے کرسیاں اٹھا کر دروازے کے پیچھے رکھ دیں۔ عارفہ کی ضد تھی پہلے عبد العزیز اس کے بنائے ہوئے کھانوں میں سے کچھ کھائے ورنہ وہ گھر کے اندر نہیں آئے گی۔ عبد العزیز نے پلاسٹک کے برتنوں میں سے جھوٹ موٹ کا کھانا کھایا۔ عارفہ کو بہت اچھا لگا۔ اس نے پوچھا۔ ’’کھانا کیسا لگا۔ ‘‘

’’بہت اچھا بہت اچھا۔ ۔ ۔ نمک تھوڑا زیادہ تھا۔ ‘‘عبد العزیز نے اس کے کھانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔

’’نیا نمک ہے نا؟اس لئے حساب نہیں رہا۔ ‘‘عارفہ نے فوراً کہا۔ عبد العزیز اسے تکتا رہ گیا۔ بچے جو سنتے ہیں اس کا کتنا خوبصورت استعمال وہ کر سکتے ہیں اس کا بہترین نمونہ عارفہ کا یہ جواب تھا۔ اس نے عارفہ کو گود میں اٹھایا، اور پڑی میں چلا آیا۔ اس کے ہاتھ دھوئے اور کھانے کی چٹائی پر اسے اپنے ساتھ لیے بیٹھ گیا۔ دونوں نے ایک ہی پلیٹ میں کھانا شروع کیا۔

حمید حسین نے اس منظر کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں ماضی کے بہت سارے یاد گار موسم لوٹ آئے۔ انہوں نے محبت بھری نظروں سے وقار حسین کے چہرے کو دیکھا۔ جو نظریں جھکائے چاول کی روٹی کے ٹکڑے کر رہے تھے۔ شاید وقار حسین اس بات کو محسوس کر چکے تھے۔ اس لئے بہت دیر تک انہوں نے نظریں نہیں اٹھائیں۔ انھیں احساس تھا اگر حمید کی نظریں ان کی نظروں سے ملیں گی تو دیدوں کے اس پار ٹھہرے ہوئے آنسو چھلک پڑیں گے۔ جب حمید چھوٹا تھا تو اسی طرح ایک ہی پلیٹ میں وہ کھانا کھاتے تھے۔

وقار حسین آہستہ آہستہ کھایا کرتے تھے، تاکہ حمید کو کسی شئے کی کمی کا احساس نہ ہو۔

٭

 

تلی ہوئی لذیذ مچھلیاں، چٹنی، چاول کی روٹیاں، گھر کے پاپڑ، آم کا آچار اور پتلا سالن جس میں کوکم کی کھٹاس ہو تو کوئی کسی سے بات کرنے میں وقت کیوں ضائع کرے۔

سب کھانے میں مشغول ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۸}

 

کھانے کے بعد کچھ دیر عبد العزیز آنگن میں چالیس واٹ کے بلب کی روشنی میں عارفہ اور سلیم کے ساتھ اس کی پڑھا ئی کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔ دونوں گانَو کی پرائیوٹ پر ائمری اردو اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ عبد العزیز نے جب ان سے کہا کہ مجھے کویتائیں سناؤ۔ تو دونوں لمحے بھر کو چپ رہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ’’کویتا مطلب کیا؟مہرون اور شمیم بھی پاس ہی بیٹھے تھے۔ شمیم نے سلیم سے کہا۔ ’’چاچا کہہ رہے ہیں نظمیں سناؤ۔ ‘‘

’’ دھت تیری کی، تو پھر کویتائیں کیوں بولے ؟سلیم نے اپنی ذہانت کو چمکانے کے لئے ڈرامائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے آگے کہا۔ ’’نظمیں تو مجھے بہت یاد ہیں۔ ‘‘

عارفہ اسے رشک بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی جسے ’’لب پہ آتی ہے دُعا‘‘ اور سارے جہاں سے اچھا‘‘ کے صرف چند اشعار یاد تھے۔ عبد العزیز خاموش تھا۔ اسے گمان نہ تھا کہ لفظ ’’کویتا‘‘ اتنی جلد پرایا ہو جائے گا۔ سلیم دونوں ہاتھ سینے کے پاس باندھے گویا نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو اور ایک نظم شروع کی:

٭٭٭

 

 

 

 

{ ۹}     

 

نظم جتنی اسے اسکول میں رٹائی گئی تھی اس نے طوطے کی طرح پڑھی۔ یقیناً بعض الفاظ کا تلفّظ درست نہیں تھا۔ اہل کوکن کے لئے اردو تلفّظ اتنا ہی اجنبی ہے جتنا عربوں کے لئے ہندی۔ اس کا سبب جغرافیہ اور مقامی زبان کی تہذیب کے ساتھ فطری طور پر آواز کی پیٹی کی ہم آہنگی ہے … اہل کوکن مراٹھی آوازوں سے فطری طور پر قریب ہیں۔ اردو کے تلفّظ کا ان کی زبان کی ساخت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ جس طرح اردو علاقوں کے لوگ مراٹھی تلفّظ درست ادا نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح اہل کوکن اردو تلفّظ کے ساتھ اہل اردو کی طرح انصاف نہیں کر سکتے۔ بعد میں عبد العزیز جب سلیم کے اردو معلم سے ملنے گیا اور ان کے ساتھ زبان اور ثقافت کے موضوعات پر گفتگو ہوئی تب اسے پتہ چلا کہ اہل اردو زبان کے معاملے میں کس قدر جذباتی اور متعصب ہیں۔ ’’نفیس زبان کی تہذیب کا مطلب علوم لسانیات کا شعور رکھنا نہیں ہوتا۔ ‘‘ادونیس کا یہ جملہ اس وقت اسے بہت یاد آیا جب سلیم کے معلم نے کہا۔ ’’جو اردو تلفّظ صحیح ادا نہیں کرتے ان کا ہمارے یہاں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ‘‘یہ جملہ لسانی انتہا پسندی کی مثال تھا۔ عبد العزیز نے معلم کو سمجھانے کی کوشش کی تلفّظ کا رشتہ جغرافیائی اثرات اور مقامی زبان کی آوازوں پر مشتمل ہوتا ہے …اس لئے دنیا میں کوئی فرد دوسری زبان کو لکھ پڑھ تو آسانی سے سکتا ہے مگر اس کی تمام آوازوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر اس نے بتایا کہ ہندوستان کے لوگ ساری زندگی بھی مشق کریں تو عربوں کے حروف۔ ذ۔ ظ۔ض کے درمیان جو مہین فرق ہے اس کی ادائیگی میں مہارت حاصل نہیں کر سکتے۔ اردو معلم مالیگاوں کا رہنے والا تھا۔ جس کی تعلیم و تربیت اردو میں ہوئی تھی۔ اس کے تعلق سے یہ بات بھی مشہور تھی کہ وہ شاعر بھی ہے۔ جو بات بات میں لوگوں کو شعر سناتا ہے۔ اردو زبان کی تاریخ، اسالیب اور قواعد سے ناواقف گانو والوں کے نزدیک وہ اردو کا بہت بڑا پنڈت بن گیا تھا۔ یہ حال کوکن کے بیشتر گانوؤں میں باہر سے در آمد اردو معلموں کا تھا۔ جنھوں نے اپنی ملازمت کی خاطر اردو کو مسلمانوں سے جذباتی طور پر جوڑنے میں بہت منفی رول ادا کیا۔ انتہائی خراب درجے کا لسانی نمونہ، اردو کے نام پر عوام میں پیش کیا۔ لگ بھگ اسی ّ فیصد اردو معلمین ایسے تھے جو اہل زبان تھے ہی نہیں بلکہ مہاراشٹرا ہی کے چھوٹے چھوٹے غریب قصبوں سے آئے ہوئے محروم افراد تھے۔ جن کی اردو قواعداس حد تک خراب تھی کہ انھیں ’’ہے ‘‘اور ’’ہیں ‘‘کا شعور کبھی نہ ہو سکا۔ نہ تحریر میں نہ گفتگو میں۔ یہ کوڑا کرکٹ تھا جس سے اہل کوکن نے دنیا کی ایک خوبصورت زبان کو سیکھنے کی پہل کی مگر ثقافتی اور لسانی سطح پر ناکامیاب ہو گئے۔ کوکن میں ایسے بھی کئی گانو تھے جہاں اردو مدارس آزادی سے پہلے ہی کھل گئے تھے باوجود اس کے اردو تلفّظ ادائیگی اور زبان کو وہ راہ نہ مل سکی جس سے تخلیقی فکر کے اظہار کا وہ وسیلہ بن پاتی۔ وہ لوگ جو کوکن سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بمبئی میں قیام پذیر تھے یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد بمبئی جا کر برسوں مشق کرتے رہے ان کی مثال اس ضمن میں کمزور ہے۔ لیکن محض مکالمے کے لئے اگر اس بحث میں انھیں بھی شامل کر لیا جائے تب بھی یہ دیکھ کر افسوس ہی ہو گا کہ ستّر، اسّی برسوں کے ابتدائی عرصے میں کوکن سے ایک بھی سنجیدہ اور صف اول کا تخلیقی فنکار پیدا نہ ہو سکا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زبان صرف شاعر پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ زبان کی کامیابی کیا صرف اس بات میں ہے کہ کتنے لوگ اس میں ادب لکھتے ہیں ؟ قوموں کو ادب زوال سے بچاتی ہے یا معا شیات ؟عبد العزیز جب اس معلم سے مل کر لوٹ رہا تھا تب املی کے پیڑ کے نیچے سے گزرتے ہوئے یہ سوالات اس کے ذہن میں آئے۔

٭

 

شگفتہ چاہتی تھی کہ وہ ان سوالوں کا جواب دے کہ ’’زبان افراد کے خیالات کی ترسیل کے لئے ہے، سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہے، علوم انسانی کو آگے بڑھانے کے لئے ہے۔ معاشرت کے میدان میں ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے ہے۔ ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنا خود کشی ہے جو آپ کو روزگار عطا نہ کر سکے، آپ کی غربت میں اضافہ کرے اور جس زبان میں آپ خواب نہ دیکھتے ہوں۔ جس زبان میں گفتگو کرتے ہوئے آپ ہمیشہ احساس کمتری کا شکار ہوں۔ جو دوسروں کی زبان ہو اور اس میں لغزشوں پر آپ کا مذاق اڑایا جائے۔ ایسی زبان میں سوچنا بھی کفر انسانیت ہے جس کی رگوں میں مذہبی سیاست اور منافرت کا زہر پوری طرح سے بھر دیا گیا ہو، جہاں اظہار خیال کے دروازوں پر حلال اور حرام کی تلواریں بچھا دی گئی ہوں۔ ۔ ۔ جس کی کتابوں میں محبت کو ’’جرم‘‘ اور زندگی کو ’’قید‘‘ قرار دیا گیا ہو۔ جہاں اختلاف رائے کو ممنوع قرار دیا گیا ہو۔ ۔ ۔ ‘‘ لیکن انسانی روح کی آواز بدن والوں تک نہیں پہنچتی۔ یہ بات اسے معلوم تھی۔ اس لیے وہ خاموش رہی۔

٭

 

انسان کے علاوہ ہر مخلوق شگفتہ کی آواز کو سن سکتی ہے۔

زمین پر انسان نے الفاظ ایجاد کرنے کے بعد فطرت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا اس لئے فطرت کے دوسرے مظاہر سےرفتہ رفتہ وہ کٹ گیا۔ بعد میں خلیج بہت گہری ہو گئی۔ انسان قدیم سمعی توانائی سے محروم ہو گیا۔ اس لئے حشرات، جانور، درخت، ہوا، ندی، سمندر اور موسم بھی اس سے بیگانے ہو گئے۔ اب جب کبھی صدیوں میں ایک بار کسی انسان کی قدیم الفطرت یادداشت جاگتی ہے اور وہ ان اشارات فطرت کو سننے کی کوشش کرتا ہے تو افسردہ ہو جاتا ہے اور سب سے بڑا خسارہ آوازوں کی سیاست ہے جسے سہارا بنا کر انسانوں میں تفریق کی جاتی ہے۔ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

٭

 

شگفتہ نے یہ راز بھی عبد العزیز کو اس روز بتانا چاہا تھا۔ وہ جانتی تھی سلیم کے اردو معلم سے مل کر عبد العزیز بہت مایوس ہوا ہے۔ خاص کر جب معلم نے کہا۔ ’’اردو کے بغیر مسلمان ادھورا ہے …دین کی تعلیم آپ کیسے حاصل کریں گے ؟‘‘مایوسی کے ساتھ لوٹتے ہوئے عبد العزیز نے صرف اس سے یہ پوچھا تھا۔ ’’دین کی تعلیم رسول نے اردو میں دی تھی کیا؟‘‘

’’نہیں جی…کیسی بات کرتے ہو، رسول نے عربی زبان میں دی تھی نا!‘‘

’’اور یہ بتاؤ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے مسلمان ادھورے ہیں کیا؟‘‘ عبد العزیز کی مایوسی میں میں اضافہ ہو گیا تھا۔

’’نہیں جی…وہاں کا کچھ معلوم نہیں …‘معلم نے لجلجے لہجے میں جواب دیا تھا۔

’’اگر معلوم ہوتا تو یہ نہ کہتے کہ اردو کے بغیر مسلمان ادھورا ہے۔ ‘‘اتنا کہہ کروہ اسکول کے احاطے سے باہر نکل گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۰}

 

سلیم نے نظم ختم کی مہرون اور شمیم نے زوردار تالیاں بجائیں۔ سلیم کا سینہ پھول گیا۔ عارفہ نے سر کے بال کھجائے اور اس سے پہلے کہ عبد العزیز نظم پر اپنے تاثرات دیتا اس نے ہاتھ باندھے اور کہا۔ ’’میری نظم سنو مجھے یاد ہے۔ ‘‘پتلی آواز میں اس نے بلند خوانی شروع کی …

لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنّا میری

٭

 

عبد العزیز کو یہ نظم پسند آئی اس نے اسے گود میں اٹھا لیا۔ چند منٹوں میں عارفہ کی آنکھ لگ گئی۔ سلیم مہرون کے پیروں پر سر رکھے ان کی باتیں سنتا رہا۔ نیند اس کی پلکوں پر آ ٹھہری تھی مگر بہ جبر وہ سننے کی کوشش کرتا رہا۔ چند ہوا کے ٹھنڈے جھونکے آئے اس کی پلکوں کو بند کر گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۱}

 

عبد العزیز نے دونوں سوٹ کیس کی چابیاں حمید حسین اور شمیم کے ہاتھوں میں دے کر کہا۔ ’’سب آپ کے لئے ہے ؟‘‘مہرون کا چہرہ کھل گیا تھا۔ اس نے شمیم سے کہا۔ ’’تیرے ہی ہاتھوں سے کھول…دیکھیں کیا کیا لایا ہے ؟‘‘

شمیم، مہرون کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور فوراً چابیاں وقار حسین کی جانب بڑھا کر کہا۔

’’آپ‘‘

’’آپ‘‘

بالآخر وقار حسیں نے چابیاں اپنے ہاتھوں میں لیں۔

٭٭٭

 

 

 

 باب ششم

 

 سنا نہیں جو کسی نے ہوا کا نوحہ تھا

 

’’جو آدمی مرتد ہو جائے اس کا قتل واجب ہے۔ ‘‘یوسف نے عبد العزیز کے سینے سے خنجر نکالتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۲}

 

گانو کی پرائمری اسکول سے پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد مجاور حسین نے امام کے مشورے پر عمل کیا اور رائے گڑھ کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں حفظ کے لئے یوسف کو داخل کر دیا۔

٭

 

یوسف اپنے ساتھ ایک وصف لے کر پیدا ہوا تھا جو لاکھوں کروڑوں انسانوں میں ایک یا دو کو نصیب ہوتا ہے۔

اس کا حافظہ اس قدر طاقت ور تھا کہ وہ بس ایک بار جس تحریر کو دیکھتا وہ اس کے ذہن میں محفوظ ہو جاتی۔ وہ جس واقعے، منظر، چہرے اور نشان کو دیکھتا اس کی یادداشت میں ثبت ہو جاتا۔ یہی سبب تھا کہ ہر جماعت میں وہ اول نمبر سے کامیاب ہوتا گیا۔ اس کی طبیعت میں خاموشی تھی۔ زیادہ بات چیت کرنا اسے پسند نہ تھا۔ نہ وہ کلاس میں سوالات پوچھتا نہ جوابات دینے میں پہل کرتا۔ پہلے پہل تو کلاس میں اسے کند ذہن سمجھا گیا لیکن جب امتحانات تحریری صورت میں لئے جانے لگے تو اساتذہ پریشان ہو گئے۔ یہ ان کی سمجھ سے پرے تھا کہ پوری عبارت من و عن کوئی کس طرح اتارسکتا ہے۔ پرنسپل نے ایک روز مجاور حسین کو بلایا اور پو چھا : ’’آپ کا بیٹا کیا دن بھر گھر میں جوابات یاد کرتا رہتا ہے ؟‘‘

میرا دماغ اسی لئے خراب ہوتا ہے کہ یہ پڑھتا نہیں ہے دن بھر یہاں وہاں بھٹکتا رہتا ہے ‘‘مجاور حسین کو یہ لگا کہ اسے خراب نمبر ملے ہوں گے اس لئے یہ بات انھیں بلا کر پوچھی جا رہی ہے۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ یوسف زیادہ تر وقت جنگل کی سرحد کے آس پاس دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے جاتا ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کھیلنے کی بجائے بیٹھ کر کھیلنے والوں کو دیکھا کرتا ہے۔ اس کی طبیعت میں مشاہدہ کرنے کا رجحان زیادہ تھا۔ لیکن جب پرنسپل نے یہ راز کھولا کہ یوسف کے نمبر اسکول میں سب سے زیادہ ہیں۔ بعض پرچوں میں سو میں سے سو یا ننانوے۔ تو وہ حیران رہ گئے۔ انھوں نے پرنسپل سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’جناب آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی۔ وہ پرچے کسی اور کے ہوں گے۔ ایک بار واپس سے تپاس لو…‘‘

’’ہم نے دس بار پورے پرچے چیک کئے ہیں۔ اور سارے ٹیچروں کی میٹنگ بھی لی ہے، سب حیران ہیں کیوں کہ وہ کلاس میں کبھی سوالوں کے جواب نہیں دیتا تھا۔ ‘‘

’’کہیں اس نے نقل تو نہیں کی۔ …‘‘

’’اس طرح نقل کرنا ناممکن ہے، لیکن پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ اس کا ایک بار اور امتحان لے کر دیکھیں۔ ‘‘پرنسپل نے کہا۔

’’جیسی آپ کی مرضی جناب، کل اسے بھیجتا ہوں …‘

٭٭٭

 

 

 

{۳}

 

سارے پرچے اسی آرڈر میں دوبارہ لئے گئے۔ کلاس میں تین معلمین نگراں رکھے گئے۔ پرنسپل نے خود کئی بار اس کمرے کا چکر لگایا جہاں وہ پرچہ لکھ رہا تھا۔ سارے پرچے ختم ہوئے تو دوبارہ مجاور حسین کو اسکول میں بلایا گیا۔ اس بار پرنسپل کے کمرے میں اسکول کے تمام ٹیچرس کی موجودگی میں پرنسپل نے اس کے پرچے مجاور حسین کے سامنے رکھے اور کہا۔ ’’یہ اللہ کا کرشمہ ہے، ۔ ہم نے اپنی زندگی میں اتنا طاقتور حافظہ کسی کا نہیں دیکھا۔ ‘‘ایک جلگاؤں کے ٹیچر جو حساب پڑھاتے تھے، انھوں نے کہا۔ ’’آگے چل کر جب یہ بورڈ کا امتحان دیگا تو اسکول کا نام پوری ریاست میں روشن ہو گا۔ ‘‘

’’ہاؤ…‘ شولا پور کی ایک استانی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

مجاور حسین کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھل گیا۔ انھوں نے بہت دیر تک اساتذہ سے بات چیت کی۔ اس کے بعد وہ سیدھے مسجد گئے اور وہاں وضو کر کے انھوں نے شکرانہ کی دو رکعت نماز ادا کی۔ ان کا جی بھر آیا تھا۔ آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اللہ کے حضور میں انھوں نے دعا کی ؛۔ ’’اے میرے رب!تو نے مجھے اولاد سے نوازا، جب میں پوری طرح سے نا امید ہو گیا تھا۔ اور اب اسے جو یاد کرنے کی طاقت دی ہے وہ تیرا کمال ہے۔ اللہ مجھے اپنا و عدہ یاد ہے۔ اور میں اس پر انشاء اللہ ضرور عمل کروں گا۔ اے اللہ مجھ سے اگر کوئی خطا ہوئی تو مجھے معاف کر، تیرا گنہگار بندہ ہوں میرے رب مجھے ایمان پر قائم رکھ (آمین)‘‘

٭٭٭

 

 

 

 {۴}

 

سکینہ سے مجاور حسین کی شادی ان کے لئے کسی خواب کی تعبیر کی طرح تھی۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے دل کی باتیں سکینہ سے کہنے میں ایک طرح کا سکون محسوس کیا تھا۔ شادی کے بعد دو برسوں تک تو انھوں نے اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کہ آخر کیوں سکینہ کی گود اب تک بھری نہیں ہے۔ وہ ہر بات میں خدا کی مصلحت پر ایمان رکھتے تھے۔ پھر عموماً نماز کی ادائے گی کے بعد اولاد کے لئے دعا کرنے لگے۔

ایک روز انھوں نے اپنی دعا میں اللہسے وعدہ کیا تھا کہ اگر انھیں فرزند نصیب ہوا تو وہ اسے دین کی تعلیم اور ترویج کے لئے وقف کر دیں گے۔ سکینہ جب بھی ان سے اس معاملے میں گفتگو کرتی تو وہ اندر ہی اندر محرومی اور افسردگی محسوس کرتے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ ان کا یقین اللہ پر ہے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت جلد اللہ ان پر اپنی نعمت کے دروازے کھول دے گا۔ وہ سکینہ سے اس بات کو چھپانے کی کوشش کرتے کہ وہ خود بھی بہت دکھی ہیں۔ جماعت سے وابستگی کے باوجود انھوں نے سکینہ کے کہنے پر کئی بار پڑوس کے گانوؤں کی مزاروں پر جا کر دعا کی تھی۔ ایک بزرگ ہستی کے مزار پر انھوں نے منّت بھی مانگی تھی۔ اس راز کو انھوں نے سکینہ پر کبھی نہیں کھولا۔

ان کے ایک دوست نے انھیں گجانند نائی کی دواؤں کے فائدے بتائے۔ جسے خود تین برسوں تک اولاد نہیں ہوئی تھی۔ پھر گجانند کی دوا کھانے کے تین مہینے بعد ان کی اہلیہ کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ مجاور حسین کے لئے یہ دشوار تھا۔ انھوں نے امام صاحب کی دی ہوئی تعویذوں کو پانی میں ڈوبو کر پینے کو ترجیح دی۔ سال ڈیڑھ سال تک اس نسخے کو اپنائے رہے۔ بالآخر ایک روز ان کی صبر کا پل ٹوٹ گیا اور وہ گجانند نائی کی دکان پر پہنچ گئے۔ گجانند نے انھیں شام ڈھلے اپنے گانو سے باہر کے چورا ہے پر بلایا۔ وہاں انھوں نے اسے پوری تفصیل سنائی۔ گجانند نے کچھ سوالات پوچھے اور مسکرا کر کہا فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ آپ ایک ہفتے بعد ملئے۔

اسی ہفتے حمید حسین کی شادی تھی۔ اس رات انھیں گھر واپسی میں بہت دیر ہونے والی تھی اس لئے انھوں نے سکینہ سے کہا تھا کہ بہتر ہے وہ وقار حسین کے گھر ہی قیام کرے۔ چند روز قبل ہی ان کی والدہ سے سکینہ کی تو تو میں میں ہوئی تھی جس کے سبب دونوں کی بات چیت بند تھی۔ مجاور حسین نہیں چاہتے تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں پھر کوئی بات ایسی ہو کہ ان کی والدہ سکینہ کو برا بھلا سنانے لگے۔ مجاور حسین کی والدہ یوں بھی اب سکینہ کو چھوٹی موٹی باتوں میں بانجھ پن کا طعنہ دینے لگی تھی۔ جس سے گھر کا ماحول خراب ہو گیا تھا۔

گجانند سے انھوں نے اولاد کی محرومی کو دور کرنے کا علاج شروع کیا یہ بات انھوں نے سکینہ کو نہیں بتائی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۵}

 

سکینہ کے دل میں بھی عجیب سا ڈر تھا۔ اس نے بھی تیسرے مہینے میں قدم رکھنے تک یہ بات ان سے پوشیدہ رکھی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 {۶}

 

مجاور حسین سے جب سکینہ نے حمل ٹھہرنے کی بات کہی تھی اس وقت ان کی دونوں آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ انھوں نے اس کی پیشانی پر بوسہ لیا تھا اور فوراً شکرانہ کی نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے تھے۔ انھیں محو عبادت دیکھ کر سکینہ کے چہرے پر ایک مبہم مسکراہٹ پھیلی تھی۔ نماز بعد وہ دوبارہ اس کے ساتھ بیٹھ کر بہت ساری باتیں کرتے رہے جس میں اس کے لئے ہدایات بھی تھیں کہ اب وہ کس طرح چیزوں کو اٹھائے، کس طرح چلے، کس طرح کھانے پینے کا خیال رکھے وغیرہ وغیرہ۔ اس دوران سکینہ کے چہرے پر وہ مسکراہٹ اسی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ مجاور حسین نے اس مسکراہٹ کو اس کی ماں بننے کی خوشی سمجھا۔ پھر انھوں نے الماری سے دو سو روپئے نکالے اور گھر سے باہر چلے گئے۔

سیدھے گجانند نائی کی دکان پر پہنچے۔ اسے ایک طرف لے گئے اور اس کے ہاتھوں میں روپئے رکھے۔ یہ ایک بڑی رقم تھی ایک مشت اتنی بڑی رقم گجانند نائی کو کسی نے نہیں دی تھی۔ دونوں نے کچھ نہ کہا۔ دونوں کے چہرے پر خوشی تھی۔ ٹھیک ایک مہینے بعد گجانند نائی نے اپنا آبائی مکان کرائے پر ایک میمن تاجر کو دیا اور نو دو گیارہ ہو گیا۔ در اصل گجانند نائی کو اپنے نسخوں کی کامیابی پر یقین ہو گیا تھا۔ اس کا خیال تھا اس کاروبار میں اگر جلدی منافع حاصل کرنا ہے تو اسے کسی شہر کا رخ کرنا چاہیے۔ مجاور حسین کی دی گئی رقم کے ساتھ اس نے اپنی جمع کی ہوئی پونجی ملائی تو اسے لگا اب محبت بھرے دل کی شوخی آنکھوں سے اتر کر سکینہ کے پورے بدن میں پھیل گئی۔ الفاظ اس کے اندر چھوئی موئی کے پتوں کی طرح سمٹ گئے تھے۔ لب اس کے ساکت تھے اور دل میں ایک پر اسرار خواہش…وہ چپ رہی۔ اس کی چپ میں ہزار ارادے تھے۔ جنھیں عبد العزیز پڑھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ان کے درمیان کے سارے پل وہ عبور کر چکے تھے۔ حا لا نکہ اب انھیں ایک دوسرے کی قربت کم نصیب تھی۔ گا نو میں دو چار گدھ جیسی نظروں والے افراد بھی تھے جن کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ وہ باطن کے تہہ خانوں میں محفوظ عبارتوں کو پڑھنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔ ان سے بچنا بھی ضروری تھا۔ دوری جہنم تھی اور قرب جنّت… چنانچہ جب بھی وہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے تب جہنم سمٹ کر جنّت میں معدوم ہو جاتی۔ انھیں ایک دوسرے کو چھوئے بغیر ایسا لگنے لگتا کہ وہ لذت لمس سے سرشار ہیں۔ الفاظ کی ادائیگی کے بغیر انھیں لگتا شدت جذبات کا اظہار ہو چکا ہے۔ سکینہ کھڑکی کی طرف بڑھی۔ باہر موگرے کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ امرود کی شاخ پر ایک سفید کبوتر بیٹھا ہوا تھا۔ آم کے ایک چھوٹے سے پیڑ پر دو گلہریاں ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہی تھیں۔

کھڑکی کے پاس کھڑے رہ کر اس نے کبوتر کو دیکھا۔ کبوتر بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عبد العزیز نے پوچھا۔ ’’کبوتر خوبصورت ہے نا؟کس کا ہے ؟‘‘سکینہ نے آنکھیں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میرا…‘‘

’’ارے آپ نے کہاں سے لایا۔ ‘‘ عبد العزیز کو لگا واقعی اس نے کہیں سے خریدا ہے۔

’’یہ یہیں پر تھا …ایک دن بس میں نے پیار سے اس کے پروں کو چھوا …اور وہ میرا ہو گیا۔ ‘‘

’’پھر تم نے اسے باہر کیوں رکھا ہے۔ ؟‘‘ عبد العزیز اس کے اشارے کو سمجھ گیا تھا۔

’’میں نے اس سے پیار کیا ہے، اسے قید نہیں۔ ۔ ‘‘سکینہ نے جواب دیا اور پھر کبوتر کی طرف دیکھنے لگی جو گلہریوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ کر عجیب سی آواز نکال رہا تھا۔

’’کیوں ؟‘‘ عبد العزیز نے پوچھا۔

باہر دیکھتے ہوئے سکینہ نے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ کیونکہ قید میں محبت مر جاتی ہے۔ ‘‘

عبد العزیز کچھ کہنے کے لئے بڑھا ہی تھا کہ یوسف کی آواز آئی۔

’’ماں !۔ ۔ ۔ ۔ بسکٹ کا پڑا کدھر ہے ؟‘‘

سکینہ فوراًاس کی جانب بڑھی۔ عبد العزیز وہیں کھڑا رہا۔ یوسف نے عبد العزیز کو دیکھا۔ دیکھتے ہی اس نے نظر یں ماں کی طرف پھیر لیں۔ وہ دونوں پڑی کی طرف چلے گئے۔ جہاں بسکٹ کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 {۸}

 

کالج کی تعلیم کے لئے لا محالہ اسے گانو چھوڑ کر چپلون میں رہنا پڑا۔ اس وقت اسے یوسف کی یاد بھی اتنی ہی پریشان کیے رہتی تھی جتنی سکینہ کی۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے جب وہ چند روز کے لئے گانو آتا۔ یوسف کے لئے چاکلیٹ اور بسکٹ ضرور لے آتا۔

سکینہ نے ہی اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تعلیم کا سلسلہ ترک نہیں کرے گا۔ گانو سے باہر رہنے کا سیدھا مطلب تھا سکینہ سے دور، اور یہ بات گراں بار تھی۔ اس نے بہت باتیں بنائی تھیں مگر سکینہ نے اس کی ایک نہ سنی تھی۔ وہ چاہتی تھی عبد العزیز اعلی تعلیم حاصل کرے۔ ایک دوپہر جب وہ اس کے والد کے گھر ’کوکم‘ لینے کے لئے گئے تھے اس وقت تاریک کمرے میں جہاں الفاظ کان کی لو تک آ کر فضا میں ساکت ہو جاتے تھے۔ سکینہ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سے وعدہ تھا کہ ہر تکلیف کو سہہ کر وہ کالج کی تعلیم پوری کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۹}

 

وہ چپلون سے ہفتے بھر کی چھٹی پر اسی لئے آتا تھا کہ سکینہ اس دوران والد کے گھر جانے کا منصوبہ بناس کے۔ اگر وہ ہر مہینے کالج سے لوٹتا تو اتنے روز چھٹی نہیں کر پاتا۔ پھر سکینہ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا تھا کہ اس کے والد کی مصروفیت کب اور کتنی ہے۔ ان کا ملازم اور اس کی بیوی کس کام میں جٹے ہوئے ہیں۔ کئی دفعہ تو ایک روز پہلے جا کر اسے چھٹی دے دیتی۔ فخرالدین کو ایسا لگتا چوں کہ انھوں نے بچپن میں اس کی دیکھ بھال کی تھی اس لئے وہ اس قدر چھٹیاں دیتی ہے۔ سکینہ نے یہاں فخرالدین کی بیوی کو کچھ کپڑے اور روپئے بھی دیے تھے۔ اس کے بچوں کے لئے یوسف کو تحفے میں ملے ہوئے کھلونے بھی دیے تھے۔ دوسری ہی سالگرہ کے بعد یوسف کی دلچسپی کھلونوں میں پوری طرح ختم ہو گئی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 {۱۰}

 

تیسری جماعت میں قدم رکھنے تک یوسف نے مدرسے میں قرآن ختم کر لیا تھا۔ اس کی آواز میں بہت زیادہ مٹھاس تو نہیں تھی البتہ اعراب کے بغیر بھی درست پڑھنے کی اس کی خوبی نے امام صاحب کو مرعوب کیا تھا۔ کلمے اور دعائیں تو پہلے ہی یاد کر چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۱۱}

 

سکینہ ایک روز اس کے سامنے بلند آواز میں تلاوت کر رہی تھی۔ وہ ایک طرف بیٹھا سنتا رہا۔ جب سکینہ نے قرآن مجید کو چوم کر طاق پر دوبارہ رکھا تو اس نے سکینہ کو بتایا کہ اس کی قرأت میں اصلاح کی ضرورت ہے اور کئی الفاظ کا تلفّظ بھی بہت زیادہ خراب ہے۔ سکینہ کے لئے یہ باتیں بڑی حیرانی کا سبب تھیں۔ اس لئے نہیں کہ ان خامیوں کو اس کے سامنے رکھا جا رہا تھا بلکہ جس عمر میں یوسف تھا اس عمر کے بچوں کو اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے اس نے کبھی نہیں سنا تھا۔ اس عمر میں تلفظ اور اعراب کی غلطیوں کے بارے میں سوچنا اسے عجیب سا لگا۔ اس دن سکینہ نے بات ٹالنے کے لئے کہا؛ ’’جب تو تھوڑا اور بڑا ہو جائے گا تب مجھے پڑھنا سیکھانا۔ ‘‘

’’جو غلطیاں آپ کر رہی ہیں وہ بتانے کے لئے مجھے بڑا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

اب تک کی اپنی زندگی میں سکینہ کسی کی باتوں سے خائف نہیں ہو ئی تھی۔ باتوں کو پیچ دے کر سننے والے کو پریشانی میں ڈالنے کا ہنر اسے حاصل ہے۔ وہ ایسے جملے ادا کرنے میں مہارت رکھی تھی جو کثیر المعنی ہوا کرتے تھے۔ کنایوں سے بھرے ہوا کرتے تھے۔ لیکن یوسف کے اس جملے نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کے پہلے یوسف کے ساتھ اس کی باتیں عام موضوعات پر ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً کھانے، کپڑے، شرارتیں، دوست، حساب کتاب اور اسکول…آج وہ یوسف کے اندر کے آدمی کی آواز سن رہی تھی۔

یوسف تو اتنا کہہ کر باہر چلا گیا لیکن سکینہ وہیں ہزار سوالوں کے گرداب میں گھر گئی۔ ماضی، حال اور حال جاری اس کی آنکھوں کے سامنے آویزاں تھا۔ وہ لمحے جن میں اس نے سکون پا یا تھا۔ اسے بچھو بن کر ڈسنے لگے۔ وہ خود کو گنہگار سمجھنے لگی۔ اسے خود سے نفرت سی ہوئی۔ اسے اپنے جسم سے عجیب سی آوازیں نکلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ پہلے کبھی اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ جو کچھ عبد العزیز کے ساتھ وہ کر رہی ہے، وہ گناہ ہے۔ اس نے سوچا۔ ’’کیسی پٹی بندھی ہوئی تھی میری آنکھوں پر…میں اندھی ہو گئی تھی۔ میں ندی کے بہاؤ میں بہہ گئی تھی۔ بارش نے میرے تن من کو دھندلا دیا تھا۔ اب میں کیا کروں ؟‘‘

وہ سوچتی رہی۔ طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں پیدا ہوتے رہے۔ اس کا سر چکر انے لگا۔ یہاں تک کے بالآخر اس کی آنکھیں منجمد ہو گئیں۔

٭

 

آنکھیں یہاں بند ہوئیں اور وہاں ایک مہیب خواب میں کھلیں۔ ایک ٹیلے پر وہ برہنہ کھڑی تھی۔ حد نظر سبز، زرد، اور گہرے نیلے رنگ کے سانپ تھے جو اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ رفتہ رفتہ اس کے بدن میں عجیب تبدیلی ہوئی۔ اس نے دیکھا اس کا پیٹ ابھر آیا ہے۔ سانپ اس کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے۔ اس نے نظر یں اوپر کر کے آسمان کو دیکھا۔ سارا آسمان ہلکے نیلے رنگ کی چادر کے علاوہ اور کیا تھا۔ بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ سانپوں کے خوف نے اس کی آواز کو اس کے گلے میں ہی دبا دیا تھا۔ آنسو اس کی آنکھوں میں نہ تھے۔

مرنے کے لئے تیار ہو کراس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ چاہتی تھی جو ہونا ہے جلدی سے ہو جائے۔ تڑپ تڑپ کر مر نے کی بجائے وہ جھٹ سے موت کی وادی میں جا نا چاہتی تھی۔ اس نے دعا کی۔ ’’اسے کوئی بڑاسا سانپ نگل لے ‘‘

مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ انتظار کرتی رہی۔ جب انتظار کی طوالت نے بھی اسے مایوس کیا تو اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں۔ وہ حیران رہ گئی۔ اس نے پاگلوں کی طرح چیخنا شروع کیا۔ اس کی آنکھوں سے خوشی سے آنسو جا ری ہو گئے۔ اس کے سامنے عبد العزیز کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پھول تھا جو گل نرگس سا دکھائی دیتا تھا پر اس میں چمیلی سے مشابہ لطیف مہک تھی۔

٭

 

اس کی آنکھ خواب کے اس حصّے میں کھل گئی۔ حیرانی اب بھی اس کے چہرے پر لٹک رہی تھی۔ وہ کھڑ کی کے پاس گئی۔ باہر گلاب کی شاخ پر چند کلیاں تھیں۔ ایک طرف سدابہار کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ وہ پڑی کے باہر آئی اور پڑوسن کے بیٹے کو بلا یا۔ اس ایک روپیہ دیا اور اس سے کہا۔ ’’عبد العزیز کو اکیلے میں ایک طرف لے کر کہنا، میں نے فوراً بلا یا ہے۔ ارجنٹ ہے۔ ‘‘

٭

 

پھر وہ پڑی میں آئی۔ چولہے پر اس نے چائے کے لئے پانی رکھا۔ اس میں پات ڈالی۔ پانی نے جوش لیا تو چائے پتی ملا ئی۔ دو کپ نکالے۔ اتنے میں عبد العزیز بھی پہنچ گیا۔ مئی کا مہینہ تھا۔ سالا نہ امتحان ختم ہوئے چند ہفتے ہوئے تھے۔ عبد العزیز گرمی کی چھٹیاں گزارنے کے لئے گانَو آ چکا تھا۔

٭

 

پڑی میں کرسیوں پر وہ بیٹھ کر چائے پیتے رہے۔ اندر ایک کمرے میں اس کی ساس سورہی تھی۔ چائے پیتے ہوئے اس نے عبد العزیز کو پہلے اپنا خواب بتایا پھر یوسف کا وہ جملہ، جس نے اسے بُری طرح سے احساس گناہ میں مبتلا کر دیا تھا۔

عبد العزیز نے خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنی۔ جب وہ چپ ہو گئی تو اس نے کہا۔ ’’ہمارے ڈر ہمارے خواب بنتے ہیں۔ لیکن تمہارا خواب یہ بھی بتاتا ہے کہ میں ہمیشہ تمھارے لئے حاضر رہوں گا۔ لیکن کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے میری زند گی لمبی نہیں ہے۔ سکینہ نے مرجھائے ہوئے چہرے سے اسے دیکھا پھر اس نے پوچھا۔ ’’مجھے گناہ کا احساس کیوں ہوا؟‘‘

عبد العزیز کچھ دیر خاموش رہا۔ سکینہ کو ایسا لگا عبد العزیز کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ اس لیے اس نے کہا۔ ’’گناہ تو گناہ ہے۔ احساس تو ہو گا ہی۔ ‘‘عبد العزیز کو شریفہ پاؤ سکر اور اس کے استاد شندے کی یاد آ رہی تھی۔ جن کے ساتھ چند ہفتے قبل ہی ’’گناہ ‘‘ کے موضوع پر ایک طویل گفتگو میں اس نے حصّہ لیا تھا۔ وہ پروفیسر شندے کی دلیلوں سے متاثر تھا۔ جس نے انسانی ذہن کے ارتقاء اور اجتماعی لاشعور جیسے نفسیاتی نکات کے ذریعے ’’گناہ‘‘ کو ایک لاشعوری وسوسہ قرار دیا تھا۔ اس نے انتہائی آسان زبان میں ان نظریات کے مفہوم کو سکینہ کو سمجھایا۔ سکینہ کو اس کی باتیں پُر لطف لگیں۔ اسے احساس ہوا کہ واقعی کالج کی تعلیم نے عبد العزیز کی ذہانت میں اضافہ کیا ہے۔ علمی نوعیت کی باتیں سن کر اسے خوشی محسوس ہوئی۔ پھر وہ بہت دیر تک دوسرے موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ جب عبد العزیز لوٹنے لگا تو اس نے دوبارہ اس سے کہا۔ ’’اب مجھے یوسف کی نظروں سے ہربات کو پوشیدہ رکھنا ہے۔ تم بھی اس بات کا خیال رکھنا۔ ‘‘چند روز بعد انہوں نے یہ طے کیا کہ جب بھی یوسف گھر میں موجود گا عبد العزیز جلدی لوٹ جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۱۲}

 

جب مجاور حسین نے اپنے فیصلے سے یوسف کو آگاہ کیا وہ بے حد خوش ہوا۔ سکینہ کا چہرہ اتر اہوا تھا۔ وہ کسی طرح سے یوسف کو اپنے سے دور ہوتے ہوئے دیکھنے کے لئے تیار نہ تھی۔ مجاور حسین نے اسے بہت سمجھایا بالآخر وہ بھی راضی ہو گئی۔ اس کے باوجود اس کے چہرے پر ایک طرح کی اداسی کئی دنوں تک رہی۔ یوسف کے بعد گانَو میں گویا بچوں کو اسکول سے نکال کر مدرسوں میں حفظ قرآن کے لئے بھیجنا ایک طرح کا فیشن بن گیا۔ لوگوں نے اسے اپنے لئے آخرت میں جنّت میں جا نے کا ویزا قرار دیا۔ جو بچے تیار نہ ہوتے انھیں مار پیٹ کر، جلی کٹی باتیں سنا کر جبراً بھیجا جا تا۔ اس بات سے اسکول کے پر نسپل اور اساتذہ بہت پریشان تھے۔ انھیں یہ ڈر ستانے لگا کہ اگر اسی رفتار سے لوگوں نے اسکول کی تعلیم کو چھوڑ کر مدرسوں میں جانا شروع کیا تو وہ دن دور نہیں جب بچوں کی تعداد اتنی کم ہو جائے کہ اسکول بند کرنے کی نوبت آ جائے۔ یوں بھی اسکول کو صد فی صد گورنمنٹ کی گرانٹ بھی نہیں ملی تھی۔

٭

 

حفظ کرنا یوسف کا میدان تھا۔ اور پڑھنا وہ سیکھ چکا تھا۔ چنانچہ مدرسے والوں کے لئے اس پر محنت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے جوش و خروش کو دیکھ کر علماء حیران تھے۔ ایسے زیرک طالب علم سے ان کا سابقہ نہیں ہوا تھا۔ جسے محض چند گھنٹوں میں اتنا کچھ یاد ہو جاتا ہے جتنا یاد کرنے میں دوسروں کو مہینوں لگ جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۳}

 

بمبئی، لکھنّو اور دلّی کے علماء کا ایک وفد مدرسے میں بلا یا گیا۔ جنھوں نے یوسف کی اس کرشمائی صفت کا معائنہ کیا اور اس کے لئے علیحدہ نصاب مرّتب کیا۔ ایک سال کے مختصر عرصے میں اسے قرآن حفظ ہو گیا تھا۔ مگر اس کا امتحان نہیں لیا گیا۔ مدرسے نے سالانہ جلسے میں اس کے والد کو مدعو کیا اور بتایا کہ آئندہ سال یوسف کی تعلیم اور قیام کا خرچ دلّی کی ایک ٹرسٹ ادا کرنے والی ہے۔ مجاور حسین یہ بات سن کر زیادہ خوش نہیں ہوئے کیونکہ جو بچّے غریب ہوتے تھے ان سے یوں بھی مدرسہ فیس نہیں لیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فیس ادا کر سکتے ہیں۔ تب مہتمم مدرسہ نے بتایا کہ اس کی خوبیوں سے علماء کا ایک وفد بے حد خوش ہوا ہے۔ یہ ان کا فیصلہ ہے، نہ صرف اس سے کو ئی فیس لی جائے گی بلکہ اس کے اخراجات کے لئے اسے ہر مہینے پچس روپئے ملا کریں گے۔

یوسف کی عمر تیرہ سال تھی۔ اس کے باوجود اسے حفظ کرنے والے طلبہ کا معلم بنا دیا گیا۔

عصر بعد اسے ایک گھنٹہ عربی ’’صرف و نحو‘‘ کا درس دیا جا تا۔

ایک سال بعد ’’فارسی ‘‘زبان کی قواعد اسے پڑھائی گئی۔

اس طرح تین سال گزرے۔ اس دوران مدرسے کے کتب خانے میں موجود اردو، عربی اورفارسی کتابوں کا اس نے مطالعہ کیا۔ مدرسہ بھی اس کی ذہانت کو اپنے لیے استعمال کرنے لگا تھا۔

رمضان کی چھٹی کے بعد دوبارہ مدرسہ شروع ہونے پر مدرسہ کمیٹی نے اس کے والد کو بُلا یا اور انھیں بتایا کہ ’’اب آپ کے بیٹے کی ’’عالم ‘‘کی پڑھا ئی شروع ہو گی۔ مجاور حسین ہر بات پر اللہ کا شکر ادا کرنے لگے تھے۔

یوں بھی وہ بے حد خوش تھے کہ یوسف نے رمضان میں گانَو کی مسجد میں تراویح کی نماز پڑھائی ہے۔ پورا گانَو ان سے بے حد خوش تھا۔ یوسف ایک مثالی لڑکا بن گیا تھا۔ لوگ اسے اشتیاق اور رشک سے دیکھا کرنے لگے۔ دینی مسائل پر اس سے مشورہ لینے کے لیے لوگ دور دورسے آتے۔ یہ سب دیکھ کر سکینہ تو ڈر سی جاتی تھی۔ بلکہ اب وہ واقعی اپنے بیٹے سے ڈرنے لگی تھی۔ وہ اس کے سامنے بڑے احتیاط سے رہتی۔ وہ جتنے دن گھر میں رہتا سکینہ کی نیند اُڑی رہتی۔ وہ ہر پل اس کی خد مت میں حاضر رہنے میں اپنی خوشی محسوس کرتی۔

٭٭٭

 

’’کیا اس آدمی کے قتل سے دین کے دشمن خاموش ہو جائیں گے۔ ‘‘اس کے مدرسے کے ساتھی نے پوچھا۔

یوسف نے اسے صرف اتنا بتایا تھا کہ جس کا صفایا کرنا ہے۔ اس نے ہمارے مذہب، ہماری زبان، ہماری تعلیمات کا کھلے عام مذاق اڑایا ہے۔ اس کی شیطانی زبان پر روک لگانا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔ چونکہ یوسف کو عالم و مفتی کی سند مل چکی تھی۔ اس لئے اس کی رائے کو فتوے (اردو میں اب اس لفظ کے معنی ’لازمی کام‘ یا’ فرض دین‘ بھی لیا جانے لگا ہے۔ ) کا درجہ حاصل تھا بالخصوص ان نوجوان لڑکوں کے نزدیک جو اس کے طالب علم اور معتقد تھے۔

گھنے جنگل کے درمیانی حصے میں جھاڑیوں کو ہٹاتے ہوئے وہ راستے کی طرف بڑھنے لگے۔

راستہ بہت طویل تھا۔ خاموشی سے ان کے دل منجمد نہ ہوں اس لئے یوسف نے انھیں تفصیل سے بتانا شروع کیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۲}

 

اس کے والدین بہت شریف لوگ ہیں۔ بہت محنت سے انھوں نے اسے اعلی تعلیم دلوائی تھی۔ اس کے بعد کسی رشتے دار کے تعاون سے یہ کویت میں ملازمت کے لئے گیا تھا۔ اسے گانو کے لوگ پہلے بہت چاہتے تھے لیکن جب یہ کویت سے واپس آیا تواس آدمی کا دماغ خراب ہو گیا۔

میں جب بہت چھوٹا تھا تو یہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتا تھا۔ میری والدہ نے اس کے بچپن میں اس کی تعلیم میں مدد بھی کی تھی۔ وہ اکثر میری والدہ کے چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ میرے والد بھی اسے بہت پسند کرتے تھے۔

دونوں ساتھی اس نسبت کو سن کر حیران تھے۔

یوسف نے بتایا۔ ’’میری والدہ اس پر بہت اعتبار کرتی تھی۔ انھیں کیا پتہ تھا کہ دنیاوی تعلیم حاصل کر کے اس کا دماغ ابلیس کے اشاروں پر کام کرے گا۔ کہتے ہیں وہ تین برسوں تک کویت میں رہا ہے۔ چھٹی پر گانو آنے کے بعد مہینے بھر میں اپنے پرانے طرز کے گھر کو توڑ کر اسی جگہ ایک بنگلہ بنوایا۔ اس وقت وہ گانو کا خوبصورت بنگلہ تھا۔

ڈھلوان سے اترتے ہوئے یوسف کے دوست کا پیر پھسلا، وہ لڑکھڑایا۔ تینوں ہنسنے لگے۔ یوسف نے کہا۔ کچھ دیر بیٹھ جاتے ہیں۔ دونوں ایک سیاہ پتھر پر بیٹھ گئے۔ ایک نے پوچھا ’’پھر کیا ہوا ؟‘‘

پھر اچانک ایک دن لوگ یہ جان کر حیران ہو گئے کہ وہ واپس کویت ملازمت کے لئے نہیں جانے والا ہے۔ اس کی کوئی دوست چپلون میں تھی۔ مجھے اس کا نام تو یاد نہیں پر سنا ہے وہ سیاسی ذہنیت رکھتی تھی۔ مذہب بے زار تھی۔ مذہب کو فرسودہ نظام کہتی تھی۔ یہ اس کی باتوں میں بہک گیا۔ اور اس کی طرح معاشرے کو سدھارنے کے لئے ایک ہفتہ واری اخبار میں مضامین لکھنے لگا۔ اس کی سفارش پر ہی اسے بینک میں ملازمت ملی۔ اچھے عہدے پر فائز تھا۔

جو ساتھی پیر پھسلنے کی وجہ سے لڑکھڑایا تھا اس نے یوسف کو لمحے بھر کے لئے چپ دیکھا تو فوراً پوچھا : ’’پھر کیا کیا اس نے ؟‘‘

کیا نہیں کیا ؟اس نے ایک روز [دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا ]یہ واقعہ میرے گانو سے مدرسے لوٹنے کے تین مہینے بعد ہوا تھا جس کی رپورٹ مجھے بعد میں امام صاحب نے دی تھی۔ جماعت کا ایک ساتھی بیان کرنے کے بعد لوگوں کی چلّے کے لئے تشکیل کر رہا تھا۔ جب اس سے پو چھا گیا تو اس نے کھڑے ہو کر بہت ہنگامہ کیا۔ وہ ساتھی سہارنپور سے آئے تھے۔ بے چارے فوراً گھبرا کر بیٹھ گئے لیکن اس کمینے نے لوگوں کو ورغلانے کے لئے، فتنہ پیدا کرنے کے لئے جانے کتنی دیر تک بکواس کی۔ ‘‘

’’آخر کہنا کیا تھا سور کا ؟‘‘دوسرے ساتھی نے پوچھا۔

اس کا دماغ خراب تھا۔ اس نے لوگوں سے کہا یہ لوگ ہمیں فرقوں میں بانٹ دیں گے۔ ہمارا کلچر تباہ کر دیں گے۔ وہ کلچر لفظ کا بہت استعمال کرتا تھا۔ مجھے تو بعد میں کسی نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والی پارٹیوں سے جڑا ہوا تھا۔

اس کی حرکت سے ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو لوگ اندر ہی اندر جماعت کے خلاف تھے، لیکن منہ کھولنے کی ہمت نہیں کرتے تھے انھوں نے متحد ہو کر الگ مسجد بنا دی۔ جس نے آگے چل کر مدرسے کی صورت اختیار کر لی۔ اس میں بریلوی نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔

’’ایک مچھلی سے کبھی کبھی پورا تالاب گندہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔

اس آدمی کے سبب جماعت کی محنت رائے گاں گئی۔ ورنہ بہت پہلے درگاہ کو مسمار کر کے وہاں اسلامی لایئبریری تعمیر ہو گئی ہوتی۔ اس نے پمفلٹ تقسیم کر کے لوگوں کو گمراہ کیا۔ پولیس اور انتظامیہ کو خبر کی۔ بریلوی حضرات کو راستہ مل گیا اور وہ بھی درگاہ کے دفاع میں سامنے آ گئے۔ رفتہ رفتہ گیارھویں شریف، مولود وغیرہ جیسی برائیاں جو جماعت کی محنت سے مٹنے لگیں تھیں دوبارہ شروع ہو گئیں۔

’’تو کیا یہ شخص بریلوی تھا؟۔ ۔ ۔ ‘‘ ساتھی نے پوچھا۔

’’نہیں۔ ۔ ۔ بالکل نہیں۔ یہ مذہبی طور پر کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ ‘‘

؎ ’’پھر اس نے بریلوی نظریات کے لئے کام کیوں کیا ؟‘‘دوسرے ساتھی نے پوچھا۔

؎ ’’یہ اس کی منشا نہ تھی۔ مگر اس کے بعض کاموں سے انھیں فائدہ ضرور ہوا۔ بعد میں وہ بھی اس کے خلاف ہو گئے تھے۔ ‘‘

’’کیوں۔ ۔ ۔ ؟‘‘ساتھی نے پوچھا۔

گانو کی اردو اسکول کے چیرمین بریلوی ہیں۔ ابھی دو سال پہلے انھوں نے اردو میڈیم سے جونیر کالج شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آرٹس اور کامرس کے بچوں کے لئے اس سوّر نے اس کی بھی مذمت کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اردو کا رشتہ کوکن کی تہذیب سے نہیں ہے۔ اور اس سے مستقبل کی معاشیات کو خطرہ ہے۔

’’یعنی سالا…اردوکا دشمن تھا۔ ‘‘

’’بالکل درست …اسی لئے مجھے لگتا تھا کہ وہ دشمنان اسلام سے ملا ہوا ہے۔ ‘‘

’’لیکن اردو سے دشمنی کیوں ؟‘‘دوسرے ساتھی نے پوچھا۔

’’مجھے امام صاحب نے وہ مضمون پڑ ھ کر سنایا تھا جو ایک مراٹھی روزنامے میں شائع ہوا تھا۔ ‘‘

آدمی ذہین تھا۔ شیطان ذہین لوگوں کی صورت میں ہی تو سامنے آتا ہے۔ اس نے لکھا تھا۔ اردو نے شمالی ہند میں ترقی کی ہے اس کے باوجود اب وہاں اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے ختم ہو گئے ہیں۔ اس کا بہتان تھا کہ اردو میں مذہبی باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اردو اخباروں کے بھی سخت خلاف تھا۔ اس کا کہنا تھا اس زبان کی بالا دستی کو کنی لوگوں کو ان کی تہذیبی تاریخ سے کاٹ دے گی۔

’’میری سمجھ میں نہیں آیا…مطلب کیا کہنا چاہتا تھا۔ ‘‘دوسرے ساتھی نے پوچھا۔

’’اسے اسلامی تعلیمات کی بالا دستی کھٹکتی تھی۔ اسے اردو اخبار کھٹکتے تھے۔ کیونکہ یہ مسلمان بھائیوں کو مذہبی احکامات سے واقف کراتے رہتے ہیں۔ اردو میں اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے زور دیا جاتا ہے۔ پہلے بہت سے کافر اور بے دین لوگ اردو میں لکھتے پڑھتے تھے اور انھوں نے اردو کو کفر کے رنگ میں رنگا دیا تھا مگر یہاں پندرہ بیس برسوں سے وہ شیطانی عناصر ختم ہو رہے ہیں اور اردو خالص دینی و اسلامی زبان بن رہی۔ اس بات سے وہ نالاں تھا۔ ‘‘

’’تہذیبی تاریخ کا مطلب کیا ہے ؟‘‘ اس سا تھی نے پوچھا، جس کے دماغ کی سوئی شاید چند منٹوں سے وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ یوسف نے ایک اکھڑی ہوئی نگاہ اس پر ڈالی اور پھر کہا۔ ’’میں نے اسے مرتد یوں ہی نہیں قرار دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے ایسے ہی خیالات تھے۔ جب ہم نے باقاعدہ گانو کی مسجد سے لگ کر مدرسے کی بنیاد رکھی اور وقتاً فوقتاً لوگوں کے پوچھنے پر غیر شرعی حرکات کے خلاف فتوے دینے شروع کئے تو اس آدمی نے میرے خلاف مہم چھیڑ دی۔ ‘‘

’’اس کے اپنے بچے وچے نہیں ہیں کیا ؟‘‘ شاید یہ سوال بہت دیر سے پوچھنے والے کے دل میں تھا۔ اس لئے یکایک اس نے پوچھا۔

’’نہیں، اس نے شادی نہیں کی…‘‘

’’کون ایسے بے دین کو اپنی لڑکی دیتا…‘‘دوسرے ساتھی نے کہا۔

’’نہیں بات ایسی نہیں تھی، میری والدہ نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کسی سے محبت کرتا تھا۔ ‘‘

’’تو پھر کیا اس کی لیلی کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ ‘‘ساتھی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں ماں نے بتایا تھا کہ وہ عورت چپلون میں رہتی ہے اور وہ بھی اسے چاہتی ہے۔ ‘‘

’’مطلب شادی شدہ ؟‘‘

’’ہاں !‘‘یوسف نے کہا۔

’’پھر تو اچھا ہوا اس زانی کا قتل ہم نے کیا۔ ہمیں ثواب ملے گا۔ ‘‘ساتھی نے کہا۔ اس جملے میں کسی اہم مذہبی فریضے کی ادائیگی سے پیدا ہونے والی فطری خوشی کا احساس بھی جھلک رہا تھا۔

آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ اب یوسف اس کے دل کے ایک گوشے میں ڈر نے منہ کھولنا شروع کیا تھا۔ اسے رہ رہ کر یہ بات یاد آ رہی تھی کہ ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔

’’بے دین آد می کبھی وفادار ہو سکتا ہے ؟اس نے اس عورت کو بھی دھوکا دیا ہو گا۔ ؟‘‘دوسرے ساتھی نے کہا۔

’’ایسے کافر لوگ اپنے شیطانی عقائد کے ساتھ وفادار رہتے ہیں، ابو جہل کو بھول گئے ؟‘‘ساتھی مسکرایا۔

’’وفادار اپنے عقائد سے حضور کے چچا بھی رہے۔ ہے نا؟‘‘پھر اس نے کہا۔ ’’ہاں !رسول اقدسﷺنے بہت کوشش کی مگر وہ پرانے عقائد سے آخری دم تک جڑے رہے۔ ‘‘

’’یہ سوّر کن عقائد سے جڑا تھا۔ ‘‘ساتھی نے پوچھا۔

یوسف کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہاتھ پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا اور کہا ’’چلیے۔ ۔ ۔ گانو کی سرحد تک جاتے جاتے اندھیرا ہو جائے گا۔ باقی باتیں میں تمھیں چلتے ہوئے بتاتا ہوں۔ اب تم لوگ سیدھے ایس۔ ٹی اسٹینڈپر چلے جانا۔ میں تمھارا سامان اگلے ہفتے اپنے ایک ساتھی کے ذریعے پہنچا دوں گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب ہفتم

 

 وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

 

یوسف خوش نصیب تھا۔ اسے مدرسے سے نکلنے کے بعد اپنے مذہبی علم کو گلی کوچوں، مسجدوں اور خانقاہوں اور میں چند روپیوں کی خاطر بیچنا نہیں پڑا۔ اس کے والد نے مسجد سے لگی زمین پر دینی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ گانو کی مسجد کمیٹی نے خلیجی ممالک میں ملازمت کرنے والے افراد کواس بات کی اطلاع دی اور ان سے بھی مالی تعاون کی درخواست کی۔ چند مہینوں میں اتنا روپیہ جمع ہو گیا کہ دو منزلہ عمارت تعمیر ہو گئی۔ جس میں قیام اور کھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔

یوسف نے اپنے سابقہ مدرسے سے دو معلمین درس وتدریس کے لئے مقر ر کئے گئے۔ یوسف کے دو شاگرد، جو چالیس کلو میٹر دور ایک گانو کے رہنے والے تھے۔ انھیں انتظامی کاموں کے لئے مقر ر کیا گیا۔

اب گانو کے بیش تر گھر معاشی طور پر خوشحال ہو گئے تھے۔ ہر گھر سے ایک خاص رقم مدرسے کے لئے مقر ر کی گئی۔ بچوں کی فیس کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک سے عطیات آنے لگے مدرسہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گیا۔ دوسرے ہی سال طلبہ کی تعداد اتنی ہو گئی کہ مزید چار کمرے تعمیر کرنے پڑے۔ لوگوں کو اپنے بچوں کومدرسے میں داخل کرنے کے لئے کئی کئی روز مدرسے کے چکر لگانے پڑتے۔ مدرسے کی تاسیس کی تاریخ ایک سنگ مر مر پر چھ دسمبر ۱۹۹۳تحریر ہے۔

٭

 

یوسف کو قبل از وقت مفتی کی سند ملی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اتنے کم عرصے میں یہ مرتبہ پانے والا وہ پہلا شخص تھا۔ اس کی قدر و منزلت مدرسے کے طلبہ اور اساتذہ میں یکساں تھی۔ اس کے جاننے پہچاننے والے حضرات کی فہرست بہت طویل تھی۔ اس کی یادداشت سے اس کے معلّمین بھی ایک طرح کی احساس کمتری میں گرفتار ہو گئے تھے۔ نتیجتاًاس کی مدح سرائی بہت زیادہ ہونے لگی۔

جب تک وہ گانو میں تھا اس کے مزاج کی خاموشی اسے گھیرے ہوئے تھی۔ اسے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ یاد کرنے کی جو صفت اس کے اندر ہے وہ کوئی اہم چیز ہے۔ اسے تو بعض اوقات ایسا لگتا تھا کہ ہر اسکول میں ایک لڑکا اس کی طرح ہو گا۔ چنانچہ اس نے اس بات پر کبھی زیادہ دھیان نہیں دیا۔ لیکن جب اسے مدرسے میں حفظ قرآن کے لئے داخل کیا گیا اس وقت اسے پہلی بار اس بات کا احساس ہوا کہ جس طرح اور جس رفتار سے وہ پڑھی ہوئی عبارت کو دوبارہ بغیر دیکھے ذہن میں اجاگر کر سکتا ہے۔ دوسرا کوئی نہیں کر سکتا۔

اس کے ساتھ قریب ایک سو پچاس بچوں نے مدرسے میں داخلہ لیا تھا۔ مگر وہ سب گھنٹوں بیٹھ کر ہزاروں بار ایک ایک سطر کی بلند خوانی کیا کرتے تھے۔ قریباً چار سو طالب علم پہلے ہی مدرسے میں حفظ قرآن کے لئے داخل تھے۔ جن میں بعض کئی برسوں سے متواتر قرآن کی آیات کو یاد کرنے میں دن رات مشغول تھے۔ ان کے دماغ کی فائلوں میں قرآن پھر بھی محفوظ نہیں ہو پایا تھا۔

ان کی مشق کو دیکھنے کے بعد یوسف کو احساس ہوا کہ اس کی صلاحیت عام نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی ہی محبت میں گرفتار ہونے لگا۔ اب وہ یہ چاہتا تھا کہ سب اس کی برتری کا اقرار کریں اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ آگے چل کر ایسا ہی ہوا۔ اس کی یادداشت کا راز کھلتے ہی پورا مدرسہ اس کی اجارہ داری میں آ گیا۔ اس کے معلمّین نے اسے اللہ کی طرف سے تحفہ قرار دیا۔

یوسف کو ’’صرف و نحو‘‘ کی پوری کتاب چند ہفتوں میں یاد ہو گئی تھی۔ مگر قواعد کو یاد کرنے سے زبان میں مہارت حاصل نہیں ہوتی۔ یہاں اسے اس بات کا احساس ہوا کہ ’’یاد‘‘ ایک چیز ہے اور ’’ فہم‘‘دوسری۔ ۔ ۔ یاد اور فہم کے علاوہ ایک اور چیز ہے ’’ادراک‘‘جس کا اسے کبھی شعور نہ ہو سکا۔ اصولوں کے اطلاق میں مہارت حاصل کرنے میں اس نے خود کو پوری سنجیدگی سے جھونک دیا۔ اسے یہ ڈر ستانے لگا کہ اگر یہ بات کھل جائے کہ اسے یاد سب ہوتا ہے مگر وہ دوسری صورتوں میں اطلاق نہیں کر سکتا تو اس کی اہمیت کم ہو جائے گی۔

اس نے زبانوں کے اصولوں کو سمجھنے کے لئے کتابیں پڑھنا شروع کیا۔ اردو کی کتابیں لائبریری میں زیادہ تھیں اس نے ان میں سے چنندہ کتابیں پڑھیں، فارسی کتابوں کو بار بار پڑھتا رہا۔ ان میں جو نئے الفاظ آتے۔ انھیں ایک علیحدہ بیاض میں درج کرتا۔ ان کے معنی لغت میں سے لکھتا اور یاد کرتا۔ پھر مشکل عبارتوں کی تشریح کرتا۔ بعض شاعروں کے دیوان پڑھے۔ جہاں اسے ایسا لگتا کہ وہ شعر میں کی گئی بات کو سمجھ نہیں پا رہا ہے تو کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اپنے طور پر شعر کو عبارت میں تبدیل کرتا اور جو معنی اخذ ہوتے اس کو حتمی معنی سمجھتا۔ یہ اس کی بہت بڑی خامی تھی۔ اسی سبب معنی کی تعبیر کی خوبی اس میں پیدا نہ ہوئی نتیجتاً ’’ادراک اور شعور‘‘ کے لئے اس کا ذہن پختہ نہ ہوا۔

تین سال کے عرصے میں اس نے عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کر لی۔ اس کے معلمّین اب اس سے زبان کے معاملے میں پیچھے رہ گئے تھے۔ اسی لئے فقہ، مسلک، احادیث اور قرآن کے متن کی تفہیم کے مسائل سمجھاتے ہوئے وہ اس کے سامنے ہڑبڑا جاتے۔ اسے، احادیث کی ضخیم کتابوں سے …صفحے نمبر کے ساتھ حدیث کو بیان کرنے میں جو ملکہ تھا، وہ قابل رشک تھا۔

اس کی ستائش اس قدر ہوئی کہ اس کی خود سے محبت نرگسیت میں بدل گئی۔ اس اندھی محبت میں وہ دن رات جینے کا عادی ہو گیا۔ قسمت نے کروٹ لی اور وہ مدرسے کا منتظم اعلی بن گیا۔ لوگ اس سے شرعی، دینی، خانگی، سماجی، سیاسی مسائل پر اس کے خیالات جاننے کے لئے دور دراز سے آنے لگے۔ اس نے اپنے بعض احکامات کو فتوے قرار دینا شروع کیا۔ اس کے شاگردوں نے یہ بات بھی اڑا دی کہ جو ان احکامات کی خلاف ورزی کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہو گا۔

یوسف کی باتیں لوگ سر آنکھوں پر رکھنے لگے۔ جب اسے احساس ہوا کہ اس کے فرمودات کا اثر کتنا ہے تو اس میں خوشی کی ایک ترنگ جاگی اور اس کے نشے میں وہ چور چور ہو گیا۔ سارا گانو اس کا معتقد تھا۔ سوائے عبد العزیز اور اس کے دوست رفیق ونو کے۔ ۔ ۔ رفیق ونو کھل کر یوسف کے احکامات اور فتوؤں پر کچھ نہیں کہتا۔ عبد العزیز کے ساتھ رہتا اور اس کی باتوں کو دوسروں تک پہنچاتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یوسف کو عبد العزیز کھٹکنے لگا۔ اسے ایسا لگتا تھا یہ آدمی اس کے اقتدار، اس کے مرتبے، اس کی صفات، اس کی یادداشت، اس کی تعلیم اور اس کے وقار کو چیلنج کرتا ہے۔ اسے عبد العزیز سے نفرت ہو گئی۔

٭

 

یوسف نے مدرسے کی تاسیس کے بعد وقتاً فوقتاً کئی احکامات جاری کیے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :۔

۱)گانو کی تمام عورتیں اور بالغ لڑکیاں پردے کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

۲)فلمی گانے سننا اور گانا حرام ہے۔

۳)جن گھروں میں ٹیلی ویژن آ گیا ہے، وہ بے حیائی کو دعوت دے رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن کو فوراً پھینک دو۔

۴)ایسی اسکول میں لڑکیوں کو نہ بھیجا جائے جس میں لڑکے بھی پڑھتے ہوں۔

۵)غیر محرم سے بات چیت کرنا حرام ہے۔

۶)شراب حرام ہے۔

۷)مرد کرتے پائجامے پہنا کریں۔ یہ مسلمانوں کا لباس ہے۔

۸)داڑھی نہ رکھنے والوں پر سخت عذاب ہے۔

۹)ٹخنوں سے اوپر پائجامہ پہنا جائے۔

۱۰)بچوں کو بت پرستوں کے اثرات سے بچانے کے لئے انھیں اردو میں ہی تعلیم دلوائی جائے۔

۱۱)شادی میں گانا بجانا اور گیت گانا غیر اسلامی ہے۔

۱۲)عرس اور مزاروں کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے یہ شرک کے مترادف ہے۔

۱۳)ہندوؤں کے تہواروں میں شرکت، گناہ ہے۔

۱۴)ٹوپی پہننا لازم ہے۔

٭٭٭

 

کویت سے واپسی کے دوسرے روز عبد العزیز چپلون جانے کے لئے گھر سے نکلا۔ شریفہ سے ملنا اس کا مقصد تھا۔

املی کے پیڑ کے نیچے سے وہ گزرا۔ شگفتہ کی روح اس وقت پیڑ پر نہیں تھی۔ شاخوں نے اسے دیکھا اور آپس میں سرگوشی کی۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ ایک ڈھلوان پہاڑی سے اتر کر دس منٹ کی پیدل مسافت کے بعد بازار تھا۔ جہاں سے ایس ٹی یا پرائیوٹ بس پکڑنا تھا۔

سکینہ کا گھر سر راہ تھا۔

جب سکینہ کا مکان اسے دور سے دکھائی دیا۔ اس کے پورے بدن میں وہ لہر دوڑ گئی جسے گذشتہ چوبیس گھنٹوں سے اس نے مصروفیت کے بہانے دبائے رکھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر چند ساعتوں کے لئے بھی وہ تنہا ہو جائے گا تو سکینہ کی یادیں اور اس کی محبت کی تپش اس کو مات دے دے گی اور وہ اس کے دروازے پر پہنچ جائے گا۔

کویت جانے کے چند سال پہلے ہی اس نے سکینہ کے گھر جانا بند کر دیا تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ جب سکینہ اسے پیغام بھیجے گی ’’کوکم‘‘ لینے آنا تو وہ سیدھا اس کے والد کے گھر پہنچ جائے گا۔

یہی سبب تھا کہ وہ سکینہ کی یادوں سے فرار کی کوشش کر رہا تھا۔ جب اس کی نظر سکینہ کے گھر پر پڑی تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ’’جب تک میں اسے اپنی آمد کی اطلاع نہیں دوں گا وہ کس طرح ملاقات کے لئے ماحول بنائے گی۔ ‘‘اسے بہت افسوس تھا کیونکہ اس نے نیند سے اٹھتے ہی سکینہ کو اپنی واپسی کا پیغام نہیں پہنچایا تھا کفِ افسوس ملتا ہوا وہ آگے بڑھا۔

اس نے کھڑکی میں سکینہ کو دیکھا۔

وہ ٹھہر گیا۔ زمین اس کے پیروں کے نیچے آسمان بن گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح قدم آگے بڑھائے۔ سکینہ نے ہاتھوں کے اشارے سے اسے بلایا۔ لیکن اسے ایسا لگا یہ سراب ہے۔ اس کی آنکھوں کا فریب ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں وہ موجود نہ ہو۔

وہ ایک ایسے پرندے کی طرح تھا جو تصویر آسمان میں مقید تھا۔ اس کے کانوں میں سکینہ کی آواز پڑی۔ ’’ارے عزیز…می می سکینہ۔ ‘‘

آواز کے ارتعاش نے تصویر آسمان پر بنے پرندے میں روح پھونک دی۔ اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے۔ اس کا پورا بدن برسوں کے انجماد سے برف کی زنجیروں میں بدل گیا تھا۔ ایک آواز اس کے اندر کڑ کڑا ئی۔ اس کی حلق سے نکلا۔ ۔ ۔ ’’سکینہ !آپ‘‘ اتنا کہہ کر وہ ٹھہر گیا۔ اس نے ایک نظر ارد گرد دوڑائی اور کھڑ کی کی طرف بڑھ گیا۔ راستے اور کھڑ کی کے درمیان ایک سرُخ پتھروں کی دیوار تھی۔ دیوار کے اس پار کھڑے رہ کر اس نے بہت دیر تک سکینہ سے باتیں کیں۔

آگے بڑھتے وقت اس نے کہا کہ شام کو مہرون کچھ سامان پہنچا دے گی۔ سکینہ اسے دیکھے جا رہی تھی۔ وہ راستے پر دوبارہ پہنچا تو سکینہ کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔ دیدوں پر پھیلی پانی کی تہہ کے سبب اسے سارا منظر دھندلا دکھائی دینے لگا۔ اس نے آنسو نہیں پونچھے۔ وہ چاہتی تھی کہ اسے کو ئی شئے واضح اور صاف دکھائی نہ دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۲}

 

عبد العزیز راستے پر چلنے لگا تو اس کے دل و دماغ میں یاد یں روشن ہو گئیں۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ ڈھلوان پہاڑی راستہ اس نے کب عبور کیا اور کب وہ ایس۔ ٹی میں بیٹھا۔

٭٭٭

 

 

 

{۳}

 

چپلون مارکیٹ میں ہی شریفہ پاؤ سکر کا مکان تھا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ عبد العزیز نے کہا کہ وہ شریفہ سے ملنے سورل سے آیا ہے۔ خاتون نے وہیں سے شریفہ کو پکارا۔

٭

 

شریفہ دو روز قبل ہی بمبئی سے چپلون آئی تھی۔ ایم۔ اے انگریزی ادب سے پاس کرنے کے بعد وہ بمبئی چلی گئی تھی۔ اپنی خالہ کے گھر رہ کر اس نے صحافت کی ڈگری حاصل کی۔ پھر ٹائمز آف انڈیا میں بہ طور رپور ٹر ملازمت اختیار کر لی۔ گذشتہ دنوں اسے ٹئیفائیڈ ہوا تھا اور یہاں اس کے لیے دو تین رشتے بھی آئے ہوئے تھے۔ اس لیے اس کے والد نے اسے فون کر کے گانَو بلا لیا تھا۔

٭

 

شریفہ نے اسے دیکھا تو اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے سامنے عبد العزیز ہی کھڑا ہے۔ وہ لمحے بھر کو گنگ رہ گئی۔ پھر اس کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔ جس خاتون نے دروازہ کھولا تھا وہ کام والی تھی۔ اسے لگا شریفہ اس آدمی کو دیکھ کر پریشان ہے، مبہوت ہے۔ اس نے شریفہ کو کہنی مارتے ہوئے کہا۔ ’’دروازہ بند کر دوں کیا۔ لگتا ہے کسی دوسری شریفہ کو یہ ڈھونڈتے ہوں گے۔ ‘‘

’’ارے نہیں نہیں !‘‘

’’نہیں ! مطلب آپ ان کو پہچانتی ہو…!‘‘

’’ہاں ! توُ اندر جا …‘‘ اتنا کہہ کر شریفہ نے عبد العزیز سے ہاتھ ملایا۔

شریفہ کا مکان ایک پرانے طرز کا بنگلہ تھا جس کے اطراف مختلف پھولوں کے پو دے لگے ہوئے تھے۔ اس کے والد چپلون کے نامی گرامی لوگوں میں تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بڑاساڈرائینگ روم تھا۔ ایک دیوار پر شیشے کی فریم میں مکہ مدینہ کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اُس کے نیچے ساگوان کی لکڑی کی بنی میز تھی۔ عبد العزیزاس پر بیٹھ گیا۔ سامنے دیوان تھا۔ جس پر شریفہ بیٹھ گئی۔ دیوان سے لگ کر میٹل سے بنا ہوا ٹیبل تھاجس کی سطح پر شیشہ لگا ہوا تھا۔ اس ٹیبل پر کچھ فائلیں اور کتابیں تھیں۔ شریفہ کی والدہ نے ایک کمرے سے پوچھا۔

’’کون آیا ہے ؟‘‘

’’عبد العزیز، بھول گئیں یا یاد ہے ؟‘‘

’’ارے ! برسوں سے کہاں غائب تھا۔ ‘‘

’’آپ خود آ کر پوچھ لیجے۔ ‘‘

’’دو منٹ۔ ۔ ۔ آ رہی ہوں۔ ‘‘

شریفہ کی والدہ عبد العزیز کے چچا کی شادی میں اس کے گانَو گئی تھی۔ قادرحسین جب بھی اپنے کام کاج سے چپلون آتے ان کے یہاں بھی چکر لگا لیتے تھے۔

٭٭

 

شریفہ کی والدہ ساڑی کی مِری کھونستے ہوئے کمرے سے باہر نکلی۔ عبد العزیز نے اٹھ کر ان کو سلام کیا اور آ گے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا۔ وہ بھی دیوان پر شریفہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔

عبد العزیز نے انھیں کویت کی ملازمت، قیام اور واپسی کی ساری روداد مختصراً سنائی۔ تب شریفہ کی والدہ نے کہا۔ ’’ اب تم لوگ باتیں کرو میں چائے وائے کا انتظام کرتی ہوں۔ ‘‘ جب وہ اٹھ کر جا نے لگی تو عبد العزیز نے اپنے ہینڈ بیگ سے ایک پارسل نکال کر ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ آپ کے لئے ہے۔ ‘‘

’’ارے بیٹا تکلیف کیوں کی۔ ؟‘‘

’’ماں رہنے دو، عزیز ہم لوگوں کو بھی کا لج میں بہت تکلیف دیا کرتا  تھا۔ ‘‘ شریفہ نے جھٹ سے کہا۔ تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’میرے لئے کچھ نہیں لا یا۔ وہ پارسل تو تم نے ماں کو دیا ہے۔ ‘‘شریفہ نے اُس کی طرف مڑ کر کہا۔

’’یہ کتاب میں نے تمہارے لیے لائی ہے۔ ‘‘

شریفہ نے اس کے ہاتھوں سے کتاب لی۔ اس کی حیرت کا ٹھکانا نہ تھا، جب اس نے کتاب کا سرورق پڑھا۔ اس کتاب کی اسے مہینے بھر سے تلاش تھی۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا۔ ایسے اتفاقات زندگی میں تو ہوتے ہیں مگر جب کہانیوں میں بیان کیے جائیں تو غیر حقیقی لگتے ہیں۔ کہانیوں کی ایک خوبی یہ بھی توہے کہ اس میں غیر حقیقی باتیں حقیقی لگتی ہیں۔ اور زندگی کی حقیقتیں غیر حقیقی اور ڈرامائی۔ یہ فرائڈ کی مشہور کتاب The interpretation of dreams تھی۔ عبد العزیز نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ اس کی دی ہوئی کتاب کویت لے گیا تھا اور رہ رہ کر اس کو پڑھا کرتا تھا۔ شریفہ کو یہ بات سن کر سب سے زیادہ خوشی ہوئی۔ یہ خوشی اسے رو برو دیکھنے سے زیادہ طاقتور تھی۔ اسے اندازہ ہوا کہ واقعی عبد العزیزاس کی قدر کرتا ہے۔ پھر عبد العزیز نے ماہر عفافی کی دوستی کے بارے میں بتایا۔ اس نظم کے بارے میں بتایا جو اس نے صرف اور صرف شریفہ کے لئے عربی سے ترجمہ کی تھی۔ مگر پتہ بھول جانے کے سبب پوسٹ نہ کر سکا۔ شریفہ نے انتہائی مشتاق لہجے میں کہا کہ ’’کل ہی مجھے پوسٹ کر دینا۔ خدا جانے پھر تم چپلون کب آؤ …‘‘ عبد العزیز نے حامی بھری۔ شریفہ کی والدہ ایک ٹرے میں دو کپ چائے لے آئی۔ اس کے پیچھے پیچھے ملازمہ بسکٹ اور گھر میں بنا ہوا چوڑا لے آئی۔ عبد العزیز کو شریفہ نے بتایا کہ اس کی والدہ کو قریب سال بھر سے ذیابطیس نے پریشان کر رکھا تھا۔

شریفہ کی والدہ نے عبد العزیز کے گھر والوں کی خیر خیریت پوچھی اور دوبارہ کیچن میں چلی گئی۔ ان کے اندر جاتے ہی عبد العزیز نے پوچھا۔ ’’ڈگری لئے ہوئے تمھیں بھی تین چار سال تو ہو گئے ہوں گے۔ کیا کر رہی ہو…؟‘‘

اس نے ساری روداد سنائی …اسے یہ سن کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی کہ شریفہ کی انگریزی نظموں کا مجموعہ ’’ The Last Rituals‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ شریفہ اپنے بارے میں اسے اور بہت ساری باتیں بتاتی رہی۔ بمبئی کے دوستوں کے بارے میں، Leftist صحافیوں کے بارے میں، ہندوستانی صحافت کے بارے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر تھوڑی دیر کے لئے وہ جہاں تھا وہاں نہیں تھا۔

شریفہ ہمیشہ اسے خود سے ایک قدم آگے نظر آتی۔ اس کی آزادی پسند روح اور قسمت پر اسے رشک آتا۔ کئی بار وہ شریفہ کے چہرے پر سکینہ کے چہرے کی پرچھائیاں دیکھتا اور وقتی تنہائی کا شکار ہو جاتا۔ اسے اپنے اندر …اپنی محبت میں، جس میں اس نے اپنے آپ کو پوری ایمان داری سے جھونک دیا تھا ایک لمحاتی خلاء سا جان پڑتا۔ یہ ایک بجھے ہوئے، سردائے ہوئے، کشش سے محروم سیارے کے ایک ’’سیاہ نشان‘‘ میں بدلنے جیسا خالی پن تھا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہوا تھا۔ اس نے اس کیفیت پر خاصہ غور بھی کیا تھا۔

اب وہ اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ بھی ایک ’سراب ‘ہے۔ یہ واحد شئے ہے جو پائیدار سے پائیدار محبت کو کمزور کرتی ہے۔ دوسروں کی امتیازی صفات کا موازنہ اپنے دل میں بسنے والے انسان کی صفات سے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ محبت صفات کی خاطر نہیں ہوتی۔ محبت خود ایک صفت ہے۔ اس خیال نے اس کو سکینہ سے ہمیشہ ہمیش کے لئے باندھ دیا تھا۔

٭

 

جب عبد العزیز کو دوبارہ اس کے جملے پوری طرح سنائی دینے لگے تب اس نے اس سے پوچھا۔

’’اور بمبئی میں کوئی ملا تمھیں۔ ‘‘

شریفہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ چپ رہی۔ وہ بھی نظریں ملانے کی بجائے ٹیبل پر رکھی کتابوں کی طرف دیکھنے لگا۔

’’ہاں ‘‘…شریفہ نے آہستہ سے کہا۔

’’Great !مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے۔ ‘‘عبد العزیز نے ٹیبل پر سے ایک کتاب اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’جرنلسٹ ہے ؟‘‘

’’نہیں …ا

ردو شاعر ہے۔ ‘‘

’’اردو شاعر !‘‘عبد العزیز کو حیرت ہوئی۔

’’حیرت کی کیا بات ہے ؟‘‘

’’میرا مطلب ہے !‘‘عبد العزیز کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔ وہ پل بھر کے لئے ٹھہر گیا اس نے کہا۔ ۔ ۔ ’’Then, he may be a religious fanatic.

شریفہ نے دائیں گال کو سکیڑتے ہوئے کہا۔ ’’کس نے تمھیں یہ بتایا کہ اردو شاعر fanatic ہوتے ہیں ؟‘‘

’’میرے بھتیجے نے کسی، الطاف حالی کا نام لیا تھا، اس کی نظم اس نے یاد کی ہے، مجھے اس میں تاریخ پرستی نظر آئی۔ ‘‘

’’اور کتنے شاعروں کو تم نے پڑھا ہے۔ ‘‘

’’مجھے اردو نہیں آتی، تمھیں تو پتہ ہے، لیکن اب چوں کہ تھوڑی بہت عربی سیکھی ہے۔ شاید پڑھنے کی کوشش کروں تو…‘‘

’’ضرور پڑھو۔ تاکہ تمھاری غلط فہمی دور ہو۔ ‘‘

’’مطلب !…They are not rigid ‘‘

’’بالکل نہیں اردو شاعری دنیا کی سب سے لبرل شاعری ہے۔ ‘‘

عبد العزیز شریفہ کے جملے کو سن کر پریشان ہو گیا۔ اس کا تاثر یہ تھا کہ اردو مذہبی انتہا پسندی کی مبلّغ ہے۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا شریفہ کی ماں کیچن سے باہر آئی اور اس نے کہا۔ ’’بیٹے تمھیں کھانا کھا کر جانا ہو گا۔ ‘‘

’’ارے نہیں نہیں، کیوں تکلیف کر رہی ہیں۔ ‘‘

اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔ اتنے برسوں بعد آئے ہو۔ ۔ ۔ ‘‘

شریفہ نے ماں کی طرف مڑ کر کہا۔ ۔ ’’یہ کھانا کھا کر جائے گا۔ اچھی مچھلی منگوا لینا۔ ‘‘

عبد العزیزشریفہ کی ماں کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ وہ واپس کیچن میں چلی گئی۔ ’’لیکن اس زبان میں جو مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں وہ ہمارے کلچر کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ ‘‘ عبد العزیز نے بالآخر وہ بات کہی جو اس کے دل میں تھی۔

’’پہلی بات زبان اور ادب میں فرق ہے …زبان کی سیاست اور ادب کی جمالیات میں فرق ہے۔ ‘‘پھر شریفہ نے اس سے پوچھا؛، Aesthetics، کا مطلب سمجھے نا؟‘‘

’’Of course yaar ‘‘…لیکن تمھیں ایسا نہیں لگتا زبان کی سیاست، ادب کو متاثر کرتی ہے ؟‘‘

’’مانتی ہوں ![ لیکن اس سے خراب ادب پیدا ہوتا ہے۔ ]مجھے یہ بات منظور ہے کہ اردو زبان پچھلے چند برسوں سے مذہبی بنیاد پرستوں کا ہتھیار بنتی جا رہی ہے۔

عبد العزیز نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمھیں ایسا نہیں لگتا چند برسوں بعد یہ عناصر اور طاقتور ہو جائیں گے۔ ؟‘‘

’’مانتی ہوں !‘‘

’’اس سے ادب میں بھی ان عناصر کو فروغ ملے گا…‘‘

’’لگتا نہیں۔ کیونکہ اردو ادب میں ترقی پسندی کی روایت بہت مضبوط ہے، البتہ اگر یہ کمزور پڑ گئی تو…‘‘

’’مذہب پرستی حاوی ہو گی تو وہ الطاف حالی کی طرح کی نظمیں۔ ‘‘

’’اوہ ہو…ارے الطاف حسین حالی کہو، ۱۸۵۷ کی جنگ کے بعد جو مسلمانوں کی حالت تھی اس کے اثرات اس پر بہت تھے۔ یار …وہ شاعر ٹھیک ٹھاک تھا۔ ‘‘

’’my God !‘‘وہ انیسویں صدی کا شاعر تھا۔ ‘‘

’’اور کیا۔ اس لیے تو کہا ہے تم پہلے شاعری پڑھو۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے وہ تو میں پڑھ لوں گا۔ پر مجھے ڈر ہے اردو زبان composite کلچر کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ ‘‘

’’اویے بے وقوف !اردو composite کلچر ہے۔ ‘‘

’’رہی ہو گی ‘‘…عبد العزیز نے تیکھے انداز میں کہا۔ پھر شریفہ سے نظریں ملائیں اور کہا۔

’’لیکن زبان کی تعلیم میں مذہبی رنگ گھل رہا ہے، مذہبی پرستی کی تبلیغ ہو رہی ہے، وہ سب دیکھ کر لگتا ہے چند برسوں میں یہ صرف اور صرف ایک مخدوش کلچر کی علامت بن کر رہ جائے گی۔ ‘‘

شریفہ کو عبد العزیز کا یہ بہتان بہت گراں گزرا۔ اسے لگا یہ اس کی اردو کے تحت بے جا نفرت ہے۔ یہ اس کا ڈر ہے۔ ایک خوف ہے۔ جس کے سبب وہ دنیا کی سب سے میٹھی زبان کے بارے میں بکواس کر رہا ہے۔ لیکن اس وقت محض گفتگو کی لذّت کو بر قرار رکھنے کے لیے اس نے پوچھا:۔ اگر ’’اسلامی کلچر کی علامت بن بھی جائے تو پریشانی کی کیا بات ہے ؟‘‘

عبدالعزیز  نے تا ثر سے عاری نگاہوں سے اسے دیکھا۔

’’ارے اسلام تو امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ ‘‘شریفہ نے اس کے چہرے کے خالی پن کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’I Agree ‘‘عبد العز یز نے کہا۔

پھر کیا پرابلم ہے ؟

’’پروبلم مذہب نہیں …مذہبی سیاست ہے کلچر اور زبان کی بالادستی ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب ؟‘‘

’’سیدھی سی بات ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو خالص عربی کلچر کے رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ مقامی رسم و رواج، تہوار، تہذیب پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ ‘‘اسے ماہر عفافی کا ایک جملہ یاد آیا اس نے فوراً اپنے جملے کے ساتھ جوڑ کر کہا۔ ’’جو مذہب اقتدار کا نشہ چکھ لیتا ہے، وہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے دوسرے مذاہب کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں کامیابی کے لئے اپنے کلچر کو دوسرے تمام کلچرز سے بالاتر اور افضل قرار دیتا ہے (اپنی زبان کو میٹھی، پاک اور مکمل قرار دیتا ہے، زیر اقتدار زبانوں کو جاہلیت کی پروردہ اور اس کے ادب کو کم تر۔ ‘‘)

’’You speak like an expert ‘‘شریفہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’مذاق مت کرو۔ ۔ ‘‘

’’اب نہیں کروں گی…مگر گفتگو کی شروعات جس بات پر ہوئی تھی وہ میں نے مذاق میں کہی تھی۔

’’What??? ‘‘

’’کہ جس سے میرا چکر چل رہا ہے وہ ارد و شاعر ہے۔ ‘‘

’’Very bad ‘‘عبد ا لعز یز نے منہ بنا کر کہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 {۴}

 

شریفہ نے اسے بتایا کہ یہاں اس کے لئے تین رشتے آئے ہوئے ہیں۔ دو لڑکے چپلون کے ہیں۔ جن میں سے ایک دبئی میں ملازمت کرتا ہے دوسرا بینک میں آفیسر ہے۔ تیسرا رشتہ ایک مسجد کے امام کے بیٹے کا ہے۔ وہ شمالی ہند کے رہنے والے ہیں۔ ان کا لڑکا اسکول میں اردو پڑھاتا ہے اور شاعر ہے۔ پھر شریفہ نے اسے بتایا کہ ان برسوں اس نے انگریزی اور ہندی میں اردو شاعری خوب پڑھی ہے۔ اردو کی شعری روایت، آزاد خیالی، رواداری، مذہبی ہم آہنگی، تہذیبی اختلاط اور جمہوری ہے۔

عبد العزیز نے اس سے کہا کہ ایک دو سال میں وہ خود اردو سیکھ لے گا۔ اس موضوع پر تب بات کرے گا۔

پھر وہ دوسرے کئی موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ وہاں ظہر کی اذان ہوئی اور وہ کھانے کی میز پر بیٹھ گئے۔

٭

 

کھانا کھانے کے بعد عبد العزیز اس کی ماں سے کچھ دیر تک کویت کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔

عبد العزیز نکلنے لگا تو شریفہ نے کہا کہ وہ بس اسٹینڈ تک اسے رخصت کرنے آ رہی ہے۔ عبد العزیز نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ میں چلا جاؤں گا۔ ‘‘لیکن وہ نہیں مانی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب ہشتم

 

 وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

 

رات کے کھانے کے بعد وہ بہت دیر تک آنگن میں بیٹھ کر عارفہ اور سلیم کے ساتھ کھیلتا رہا۔ ایک طرف گھمیلے میں [مچھروں اور کیڑوں کو بھگانے کے لئے ]دھونی جل رہی تھی۔ جس کا دھواں اطراف کے اندھیرے کی طرف بڑھ کر غائب ہو جاتا تھا۔ آسمان کے تارے پلکوں کو جھپکا جھپکا کر انھیں دیکھ رہے تھے۔ کبھی کبھار کوئی الّو بولتا، کبھی کہیں سے کتّوں کے بھونکنے کی آواز آتی…دیواروں کے چھیدوں میں جاگتے حشرات کے نغموں کی تان بہت تیز ہو جاتی تو گانو کی تاریکی مزید مہیب جان پڑتی۔

٭

 

ایک ایک کر کے سب گھر میں جا کر لیٹ گئے تھے۔

عبد العزیز آنگن میں بیٹھے کہکشاں کے حسن کو دیکھتا رہا۔

سارا آکاش اسے دعوت نظّارہ دے رہا تھا۔ وہ جس قدر دھیان سے ایک ایک تارے کو دیکھتا گیا۔ آسمان کی وسعت بڑھتی گئی۔ اس کی نگاہوں میں آسمان کا نقشہ اتر گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ روشن تاروں کو ذہن کی چادر پر اجاگر کرنے لگا۔

چند لمحوں میں آسمان، اس کے اندر سما گیا۔ پھر یکایک سارے روشن تارے بجھ گئے۔ اندھیرا چھا گیا۔ تارے اس کی دھیان کی صلاحیت کے سامنے آنکھ مچولی کھیلنے لگے … چند لمحوں بعد دھیان کی چادر پر سکینہ کا مسکراتا ہوا چہرہ نمایاں ہو گیا۔ وہ چاہت سے اس چہرے کے نقوش دیکھتا رہا۔ ایک لطیف خوشی کے احساس سے اس کا چہرہ کھل گیا۔ امرود کے تنے کے پاس چھوئی موئی کا پودا رات کی خاموشی میں اپنے پتّے سکیڑ کر سورہا تھا۔ لیکن عبد العزیز کے چہرے پر بننے والی خو شی کی لہروں نے ان کے گالوں کو جا کر چھوا وہ حیرانی سے آنکھیں وا کئے اسے گھورتے رہے۔ ان کی اس نادانی اور محبت کی خوشی کی سرشاری کو دیکھ کر امرود کا پیڑ بہت دیر تک مسکراتا رہا۔

تخیّل کی چادر پر سکینہ تھی۔ گویا ندی کنارے مسلسل بارش میں بھیگنے کے بعد اس کے سامنے کھڑی ہو۔ محبت کی آگ میں خاک بسر ہوتے ہی فطرت نے ایک طلسمی کشش اس کے چہرے پر فطرت نے پھیلا دی تھی۔ جس کا نقش عبد العزیز کی روح پر گہرا ہے گویا سکینہ کا ہر لمس اس کے جسم پر داغ دیا گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۲}

 

سکینہ سے مہرون کی ملاقات بازار میں ہوئی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ ہفتے بعد عبد العزیز کو لانے بمبئی جانے والی ہے۔ اس دن سے سکینہ کو گویا فالج ہو گیا تھا۔ وہ گھنٹوں ایک ہی جگہ پڑی رہتی۔ عبد العزیز کے ساتھ اپنی زندگی کا پورا سفر یاد کرتی۔ جہاں اس کا ذہن بھٹک جاتا وہاں سے دوبارہ نئی ابتداء کرتی۔ اسی سبب اسے اندازہ نہیں ہو پاتا کہ آخر کتنا وقت وہ ایک مقام پر گزار چکی ہے۔ وقت اس کے لئے ایک ہالہ تھا۔ وہ تنہائی کا ذائقہ چکھنے لگی تھی۔ اس احساس تنہائی میں ایک لذّت تھی۔

چند مہینے قبل ہی یوسف تراویح کی نماز پڑھانے کے بعد ’عالم‘ کی تعلیم کے لئے دوبارہ مدرسے لوٹ گیا تھا۔ مجاور حسین چار مہینوں کے لئے جماعت میں گئے تھے۔ گھر میں اس کی ساس تھی۔ جو دن کا بیشتر وقت گانو میں رشتے داروں کے گھر گزارتی تھی۔ اکیلا پن اسے پہلے بھی محسوس ہوتا تھا لیکن پڑوس کے گھروں میں جا کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کاٹنے سے کم ہو جاتا تھا پر جب سے اسے معلوم ہوا کہ عبد العزیز لوٹ رہا ہے اس کادل ساری دنیا اور مافیہا سے کٹ کر صرف اپنی ذات پر مرکوز ہو گیا۔ اسے احساس ہونے لگا کہ عبد العزیز کی غیر موجودگی میں جو برس اس نے گزارے ہیں وہ کس قدر بے معنی گزرے ہیں۔ اس نے بارہا آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ اس کا عکس اسے حیران نگاہوں سے دیکھتا اور اس سے پوچھتا۔ ’’اتنے سال کہاں تھی تو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

وہ چاہتی تھی عبد العزیز گانو پہنچتے ہی اس سے ملاقات کرے۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ اسے وہ آخری ملاقات یاد تھی جب، عبد العزیز نے اسے بتایا تھا کہ پندرہ دن میں وہ کویت کے لئے نکل جائے گا۔ اس دن سکینہ نے اس سے کہا تھا۔ ’’تم واپسی پر فوراً مجھ سے ملنے مت آ جانا۔ اگر اس وقت گھر میں میرا شوہر یایوسف موجود ہو گا تو میں مجبور بنی رہوں گی اور وہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا

٭

 

عبد العزیز کو یہ بات اس طرح یاد تھی گویا روزانہ سکینہ کے لب اس کے کانوں کے قریب آ کر سر گوشی میں اسے یاد دلایا کرتے تھے۔ مگر وہ اس کی بات سے ناراض نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا اتنے طویل عرصے کے بعد سکینہ کے سامنے حاضر ہونے پر وہ خود بھی اپنے جذبات کو دبا نہیں پائے گا۔ سکینہ کو اپنے سینے سے لگانے کی خواہش اسے مجبور کر دے گی۔ اسی لئے گانو پہنچنے کے بعد وہ کسی طرح سے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کے ذریعے اسے پیغام بھیجے۔ پھر اس نے سوچا اگر پیغمبر نے مجاور حسین اور یوسف کے سامنے کہہ دیا تو جانے کیا تاثر بنے گا۔ اس لئے، اس نے جسارت نہیں کی۔ البتہ اس نے ارادہ کیا تھا کہ جو تحفے وہ اس کے اور یوسف کے لئے لایا ہے وہ مہرون کے ہاتھوں بھیجوا دے گا اور یہ ایک واضح اشارہ ہو گا اس کی واپسی کا۔ ۔ ۔ پھر ملاقات کا دن اور وقت طے کرنا سکینہ کی ذمہ داری ہو گی۔ اس میں اسے خاصہ تجربہ حاصل تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۳}

 

سکینہ صبح جلد اٹھ گئی تھی۔ اس کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ عبد العزیز بازار کی طرف نکلے گا۔ اس نے جلد اٹھ کر غسل کیا۔ چائے بنائی اور کھڑکی میں بیٹھ کر پیتی رہی۔ بہت دیر تک وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے سوچا :اب عبد العزیز کے خدوخال میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئی ہوں گی۔ مجھے دیکھ کر اس کا تاثر کیا ہو گا۔ وہ کس طرح مسکرائے گا۔ کس طرح اسے سلام کرے گا۔ کن لفظوں میں اس کی خیریت پوچھے گا۔ وہ اس سے کون کون سے سوالات کرے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر اسے جانے کیا خیال آیا اور اس نے دوبارہ اپنے بال سنوارے۔ الماری میں سے پاؤڈر کا ڈبہ نکالا اور گالوں پر تھوڑاسا پاؤڈر ملا۔ پھر آنکھوں میں کاجل لگایا۔ الماری کے شیشے میں خود کو دیکھا۔ اپنے لبوں کو دانتوں سے دبا کر سرخ کیا۔ بہت دیر تک خود کو آئینے میں دیکھتی رہی۔ اپنی آنکھوں، ہونٹوں اور پیشانی کو دیکھا کیا۔ یہاں تک کے اس کا عکس آئینے میں منجمد ہو گیا۔

جب وہ دوبارہ کھڑکی کی طرف مڑی تو آئینے سے اس کی آنکھوں نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور اس کے لبوں نے کہا۔ ’’ہمیں اس سراب میں کیوں چھوڑے جا رہی ہو۔ ‘‘یہ آواز بہت دبی ہوئی تھی اس کے باوجود سکینہ کے کانوں نے اسے پکڑ لیا۔ وہ مڑی۔ آئینے میں دیکھ کر مسکرائی۔ اس مسکراہٹ نے آئینے میں مقیّداس کے عکس کو آزاد کیا۔

٭

 

وہ کھڑکی سے لگ کر بیٹھی تھی کہ اس کی ساس کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے وہاں بیٹھے دیکھ کر اس نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا رے، طبیعت تو ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ہاں۔ یوسف کی یاد آ رہی ہے۔ ‘‘اس نے صاف جھوٹ بولا تھا۔

’’ارے علم حاصل کرنے گیا ہے۔ ۔ ۔ وہ بول نہیں رہا تھا اس علم کو پانے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جانا چاہیے۔ ‘‘اس کی ساس نے دلاسا دینے کی نیت سے کہا۔

’’ماں، بات برابر ہے، پر یاد تو یاد ہے نا؟‘‘

’’ماں کا دل کیا ہوتا ہے اب سمجھ رہی ہے نا؟‘‘ساس نے کہا۔ یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میرے رویے میں جو پہلے تلخی تھی اس کا سبب ماں کا دل تھا۔

’’حق بات کی آپ نے۔ ‘‘سکینہ نے رجھانے کے لئے کہا۔ ساس کو اچھا لگا۔ وہ مسکرائی۔ باہر جانے کے لئے آگے بڑھی، دروازے کے پاس پہنچی تو اس کے دل میں سکینہ کے لئے پیار امڈا۔ اس نے اونچی آواز میں کہا۔ ’’بیٹی چائے گرم ہے۔ پی لے تھوڑی سی، مجھے آنے میں دیر ہو گی۔ ‘‘

یہ سن کر سکینہ کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اس نے جواب دیا۔ ’’آپ بے فکر جایئے۔ میں پی لوں گی۔ ‘‘

٭

 

اب وہ مطمئن تھی۔ اس نے ایک کرسی کھینچ لی اور اس پر بیٹھ گئی۔ آج اس کا جی چاہتا تھا کہ کاش گجرے والی آ جاتی۔ اس کے بال اس سے تازہ موگرے کے گجرے کا تقاضا کر رہے تھے۔ لیکن کم بخت آج گجرے والی جانے کہاں مر گئی تھی۔

سکینہ کبھی سڑک کی طرف دیکھتی کبھی کھڑکی کے باہر لگائے ہوئے پودوں کو۔ ۔ ۔ گلاب کی کئی ٹہنیوں پر پھول کھلے ہوئے تھے۔ اس کا جی مچلا۔

پھر اس نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ گھر کا احاطہ کاٹ کر پھول توڑنے جائے اور اس دوران وہ وہاں سے گزر جائے۔ اس خیال سے اس نے بالوں میں پھولوں کو لگانے کا خیال ترک کر دیا۔ پھر اس کی نظر سدا بہار کے پھولوں پر گئی۔ ہوا کے جھونکوں میں وہ لہرا رہے تھے۔ اسے ایسا لگا شرابی رنگ پھول اس کے دل کی خوشی جانتے ہیں، اسی لئے جھوم رہے ہیں۔ وہ بار بار انھیں دیکھتی رہی۔

پچھلی بارش میں مجاور حسین نے امرود کے پیڑ کے سائے میں انناس کی چند کلیاں لگائی تھی، وہ پھلوں میں بدل گئی تھیں۔ اس نے ارادہ کیا کہ دو انناس وہ عبد العزیز کے لئے بھیجے گی۔ اپنے ہاتھوں کا بنا یا ہوا اچار…پاپڑ…گزشتہ موسم کے کاجو اُس کے لئے بھیجے گی۔ اس طرح چھو ٹی چھوٹی چیزیں اس کا دھیان اپنی جانب کھنچتی رہیں …وقت اس کے لئے ہمالیہ بن گیا تھا۔ دل کی دھڑ کن اس کے لئے باز گشت تھی۔ یادیں اس کے ذہن میں الجھا ہوا ریشمی دھاگوں کا گچھا تھا۔

٭

 

بالآخر جب اس کی نظر یں عبد العزیز پر پڑیں تو پہلے اس نے تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ وہی ہے۔ اسے لگاکوئی شہری ہو گا۔ پھر اس کے دیدے اس پر مرتکز ہوئے۔ اس کی زبان نے اسے پکارا… ’’عبد العزیز …‘‘

وہ مڑا تو اس کا چہرہ ان دیدوں میں سما گیا۔ ذہن نے تصدیق کر لی۔ ہوا یوں تھا کہ اس کی آواز نے زبان کو دماغ کی فریموں کے ایقان سے قبل متحرک کر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر مسرت سے ایک تازگی پھیلی۔ جس میں شدتِ انتظار کا اعلان بھی تھا۔

عبد العزیز نے مڑ نے کے بعد کوئی رد عمل نہیں کیا تھا۔ وہ چپ تھا۔ سکینہ کو یوں لگا اس کی آواز شاید اس کے کانوں تک نہیں پہنچی ہے۔ اس نے دوبارہ اسے آواز لگائی اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی جانب بلایا۔

عبد العزیز کی خوشی نے اس کے دوران خون کو بری طرح سے متاثر کر دیا تھا۔ وہ یہ طے نہیں کر سکا کے اسے کیا کرنا چاہے۔ اس کے پیر، زمین کی گہرائی میں گھٹنوں تک دھنس گئے تھے۔ گویا زمین دلدل تھی۔

سکینہ نے پھر اسے پکارا … ’’عبد العزیز …می…می …سکینہ۔ ‘‘ اس کے دل نے اسے لایقینی کی خلیج سے باہر نکالا۔ اس کے قدموں میں حرکت ہوئی اور لبوں پر مسکراہت پھیلی۔ اس کی آنکھوں میں آس پاس کے پیڑوں کے رنگ منعکس ہوئے۔ اس کے نتھنوں نے دیواروں پر اگے جنگلی پھولوں کی خوشبو کو محسوس کیا۔ اس کے بدن میں ایک ترنگ جاگی۔ دوران خون کی تیزی میں ٹھہراؤ پیدا ہوا ایک نغمہ اس کے دل میں جگنو بن کر اسے آگے بڑھانے لگا۔ دن اس کے لئے گویا شب تاریک میں بدل گیا تھا۔

’’میں صبح سے یہاں کھڑے رہ کر تمہارا رستہ دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔ ‘‘جب سکینہ کا یہ جملہ اس نے سنا تو وہ تاریک شب اس کے لئے باغِ بہشت میں بدل گئی۔ محبت کی شدت سے اس کے بدن کے تار تھر تھرانے لگے۔

 

سکینہ نے بتایایوسف مدرسے میں ہے۔ اور اس کا شوہر جماعت میں چار مہینوں کے لئے گئے ہوئے ہیں، تو اس نے چاہا درمیان کی دیوار کو پھلانگ کر وہ اس کے کمرے میں چلا جائے اور سکینہ کو اپنے تھر تھرائے ہوئے بدن کی خود کلامی سے آ گاہ کرے۔

گزشتہ برسوں میں سکینہ کے تعلق سے جو خود کلامی اس کے دل میں ہوئی تھی۔ اس کے سبب ایک بہت بڑا خلاء اس کی روح میں پیدا ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا سکینہ کے لبوں کے کو کم رس سے تنہائی اور خالی پن کا وہ رقبہ دوبارہ پُر ہو جائے۔

چند ایک جملے اس نے ادا کیے اور سکینہ کو بتایا کہ وہ گھر سے چپلون کے لئے نکلا ہوا ہے۔ اس نے سکینہ کو اس کی نصیحت یاد دلائی کہ واپسی پر جب تک وہ اسے خود ملنے کے لئے نہیں بلائے گی تب تک وہ اس کے گھر نہیں آئے گا۔

سکینہ کو آخری ملاقات یاد آئی۔ جب اس نے یہ وعدہ اس سے لیا تھا۔ اس ملاقات کی ہر بات یاد آئی۔

عبدا لعزیز نے کہا۔ ’’جو پیار میں وعدہ نبھائے اس کے لئے سارے وعدے توڑے جا سکتے ہیں۔ ‘‘

سکینہ مسکرائی پھراس نے کہا۔ ۔ ۔ ’’بڑے سمجھ دار ہو گئے ہو، جواب کویتا کے رنگ میں دینے لگ گئے ہو۔ ‘‘

’’میری کویتا۔ ۔ ۔ ۔ پہلے بتاؤ۔ ۔ کب ملوں۔ ۔ ۔ ؟‘‘عبد العزیز نے ذرا قریب ہو کر پوچھا۔

سکینہ نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ حیاء کی ایک فطری لہر اس کی آنکھوں کے ارد گرد ابھری اور فوراً ڈوب گئی۔ اس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دباتے ہوے اس کے سراپے پر ایک نظر دوڑائی، پھر کہا…’کل ‘‘

٭

 

در اصل سکینہ کہنا چاہتی تھی ’’ آج اور ابھی‘‘ لیکن اتنے برسوں کی جو پیاس اس کے اندر تھی وہ یکایک کم ہو گئی تھی۔ محبت کا یہ عجیب کمال ہے کہ جس کی غیر موجودگی بدن کو بے آب و گیاہ ریگستان بنا دیتی ہے، اس کا بس دیدار، خواہشوں کی تڑپ کو مٹا دیتا ہے۔ اِس کی موجودگی ساری ویرانی کو پل بھر میں سبزہ زار میں بدل دیتی ہے۔ ساری دنیا ایک خواب میں بدل جاتی ہے۔ ایک ایسا خواب جس میں حقیقتیں اپنی جگہ موجود ہو کر بھی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ وہ مڑ کر جانے لگا توسکینہ کی نظریں اس کے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگیں۔ محبت کا اب تک کا سفر اس کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چلنے لگا۔ اس فلم میں ایک کیف تھا۔ ایک میٹھی مدھم موسیقی تھی۔ ایک تاریک مہیب سایہ تھا…پُر کیف میٹھی مدھم موسیقی ایک تاریک مہیب سایہ میں جا ری تھی۔ سکینہ وہاں بہت دیر تک کھڑی رہی۔ وہ ماضی میں تیرتی رہی۔ ماضی ایک ندی تھی۔ ندی میں بہاؤ ہے۔ وہ آگے نکل گئی۔ اب وہ مستقبل میں تھی۔ عبد العزیز کی بانہوں میں تھی۔ اس سے محو گفتگو تھی۔ محفوظ باتوں کی گٹھری اس نے کھول دی۔ اپنے جذبات پر لگا ئی گئی مہر اس نے نکال دی۔ کوکم کی مہک سے بھرے کمرے میں اس کے خد و خال…آنکھوں کی اضافی چمک بن کر اپنے افسانے بیان کرنے لگے۔

گلاب کی ٹہنی پر کھلا ہوا پھول اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ سدابہار کے پھولوں کا رنگ پہلے سے زیادہ شرابی ہو گیا۔ امرود کے پیڑوں پر گلہریاں دوڑتے دوڑتے ایک جگہ ٹھہر گئیں۔ ہر چیز وہ نہ تھی جو پہلے تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۴}

 

عبد العزیز کی آنکھیں تاروں کے غبار میں بند ہوئیں تو ایک سرخ گنبد میں کھلیں۔ گنبد میں ایک کمرہ تھا۔ کمرے میں ایک پرانے طرز کا پلنگ تھا۔ جس پر ایک خوبصورت گوجڑی بچھی ہوئی تھی۔ دو تکیے تھے جن پر دھاگوں سے گل بوٹے کاڑھے ہوئے تھے۔ پلنگ پروہ لیٹے ہوئے تھا۔ اس کی نگاہوں کو کسی کا انتظار تھا۔ گنبد کی دیوار سے اسے عجیب سی آواز سنائی دی۔ اس نے کان دیوار سے لگائے۔ دھیان میں اس نے محسوس کیا کہ گنبد کے اطراف بے شمار چوہے ہیں جو دیوار کو کرید رہے ہیں۔ اب وہ دیوار کے باہر گنبد سے دور ایک پرانی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر بالکل حیرانی نہیں ہوئی کہ چوہوں کا رنگ گلابی ہے۔ کرسی ہوائی جہاز کی رفتار سے گنبد سے دور ہونے لگی۔ اس سے پہلے کہ گنبد نگاہوں سے اوجھل ہوتا اس نے محسوس کیا وہ کرسی پر نہیں ہے بلکہ گنبد کے اندر اسی پلنگ پر دراز ہے اور سکینہ اس کے پہلو میں بیٹھ کر ایک پرانا کوکنی گیت گنگنا رہی ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ گیت کے بول سن پاتا۔ مہرون کی آواز نے اسے جگا دیا۔ اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔ رات اس کے اطراف سر سرارہی تھی۔ وہ کرسی پر سے اٹھا۔ دروازے کی طرف بڑھا۔ جانے کیا خیال اس کے دل میں آیا۔ وہ مڑا۔ اس کی نظریں چوہے پر پڑیں۔ چوہے نے دو پیروں پر کھڑے ہو کہ اس کی طرف دیکھا۔ ایک لمحہ خاموشی کا تھا، پھر جھٹ سے چوہا اچھلا۔ اور دوڑ کر سرخ دیوار کے ایک بل میں گھس گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۵}

 

مہرون نے درمیانی کمرے میں اس کے لئے بستر لگا دیا تھا۔ وہ نیند سے بوجھل پلکوں کو لئے وہاں تک پہنچا اور بستر پر لیٹ گیا۔ رات کئی بار اس کی آنکھیں کھلیں۔ وہ سوچتا صبح ہو چکی ہو گی۔ ہربار اسے مایوسی ہوئی۔ رات طویل سرنگ میں بدل گئی تھی جس کے دوسرے سرے پر صبح کی کرنیں تھیں مگر سفر تھا کہ ختم نہ ہوتا تھا۔ نیند کا غلبہ برقرار تھا اور انتظار صبح بھی اسے بے قرار کئے ہوئے تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۶}

 

صبح عارفہ آ کر اس کے سینے پر بیٹھی اور اسے جگا نے لگی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نو بج چکے ہیں۔ اس نے عارفہ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنی بغل میں دبا لیا۔ عارفہ نے خوب شور مچایا۔ بچاؤ بچاؤ مر گئی مر گئی۔ اللہ، ماں، چاچی، …مر گئی مر گئی …وہ خوب ہنستا رہا۔ گھر کے سارے لوگ ہنسنے لگے۔ سلیم دوڑ کر پڑی سے اس کمرے میں آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں اسکول کا بستہ تھا۔ اس نے بستہ ایک طرف پھینکا اور خود بھی شرارت میں شامل ہو گیا۔ وہ عبد العزیز کی گردن پر چڑھ گیا اور اونچی آواز میں کہنے لگا، ’’بھائی مت چھوڑو…دبا دو

عبد العزیز نے مڑ کر اسے بھی ایک ہاتھ سے پکڑ کر بستر پر لیٹا دیا۔ اب سلیم نے الگ شور مچانا شروع کیا… ’’ارے میں تو آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے مت دباؤ مجھے مت دباؤ…ہا ہا ہی ہی ہا ہا ہی ہی …‘‘عارفہ پر عبد العزیز نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ اس نے فوراً خود کو آزاد کیا اور ایک طرف جا کر کھڑی ہو گئی۔ لمبی لمبی سانسیں بھر کر، منہ صاف کیا۔ اس کی ڈرامائی چیخ و پکار سے اس کے منہ سے بہت سارا جھاگ بہہ گیا تھا اور آنکھوں میں قہقہہ دار ہنسی سے آنسو آ گئے تھے۔ پھر اس نے تالیاں بجا کر کہا۔ ۔ ’’بھائی اس کو ہر گز مت چھوڑنا…دباؤ…دبا دو اس کی گردن…یہ بہت مستی کرتا ہے۔ ‘‘ ’’زکھین تولا می منگ بگھتاں ‘‘سلیم نے کسی طرح گردن اٹھا کر عارفہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ ۔ (چڑیل تجھے میں بعد میں دیکھتا ہوں )

عارفہ نے منہ بنا کر اسے چڑایا۔ اور انگوٹھا بتایا۔

’’بیٹا ان کا پرچہ چل رہا ہے بعد میں کھیلنا۔ ‘‘

عبد العزیز کھڑا ہو گیا۔ سلیم وہیں بستر پر لیٹا رہا۔ وہ چاہتا تھا مستی ہوتی رہے۔ عبد العزیز نے جھک کر اسے اٹھایا اور کہا۔ ۔ ’’چل بیٹا۔ ۔ ۔ اسکول جا کر آ، پھر کھیلیں گے۔ ‘‘

عارفہ پڑی سے اپنا بستہ لے آئی۔ سلیم نے کونے میں پڑے اپنے بستے کو اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ پر مڑ کر کہا… ’’بھائی شام کو کھیلیں گے ہاں …کہیں جانا مت۔ ‘‘

’’ہاں ہاں۔ تو پر چہ پورا لکھ کر آنا۔ ۔ سمجھا۔ ‘‘

ہی ہی کرتا ہوا وہ گھر سے باہر نکلا۔ اس کے پیچھے عارفہ اس کے قدموں پر قدم رکھتے، اسکول کے لئے چل پڑی۔

٭

 

عبد العزیز پڑی میں گیا۔ مہرون چولہے کے پاس گھاونے بنا رہی تھی۔ ایک چول پر پانی ابل رہا تھا۔ مہرون نے اس کے لئے بسنا آگے کیا۔ وہ بیٹھ گیا۔ مہرون نے اس سے چپلون کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی دوست شریفہ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ وہ بمبئی میں ایک اخبار میں کام کرتی ہے۔ اتفاق سے چھٹی پر آئی تھی اور واپس جانے سے پہلے گانو آنے والی ہے۔

’’کب آنے والی ہے ؟‘‘مہرون کے چہرے پر اس سوال کے ساتھ ایک مادرانہ محبت کی جھلک بھی عیاں تھی۔

’’شاید اتوار کو۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

’’اچھا ہے …تیرے ابّا اور چچا بھی اتوار کو گھر میں رہیں گے۔

’’کیوں ؟‘‘

’’ارے بے وقوف۔ ۔ ۔ آج رات، کل اور پرسوں عروس ہے معلوم نہیں۔ اس لئے اتوار کو چھٹی کریں گے۔ ‘‘

’’اوہ…اوہ …بھول گیا تھا۔ ‘‘

’’چپلون جا کر آیا ہے اس لئے بھول گیا کیا ؟‘‘مہرون نے تیکھا جملہ کہا۔ جس میں ایمائیت کا عنصر تھا۔ عبد العزیز سمجھ گیا۔

’’نہیں ماں …کویت جا کر آیا ہوں نا …اس لئے …‘‘

مہرون مسکرائی…پھر اس نے بتایا کہ سکینہ کے لئے جو پارسل چھوڑ گیا تھا وہ اس نے پہنچا دیا ہے۔ سکینہ نے شکریہ کہا۔ عبد العزیز کے چہرے پر خوشی تھی۔ مہرون نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’سکینہ تجھے پسند کرتی ہے، تیری تعریف کرتی رہتی ہے۔ جب تو یہاں نہیں تھا ہمیشہ تیری خیر خیریت پوچھا کرتی تھی۔ ہمیشہ اسے یاد رکھنا۔ ‘‘

عبد العزیز نے اپنے چہرے کے رنگ کو دبانے کی کوشش کی پھر کہا… ’’ہاں ماں …وہ بہت اچھی انسان ہے۔ میں جیتے جی اسے بھول نہیں سکتا۔ ‘‘

’’اس کے بیٹے نے اس سال گانو میں تراوی پڑھائی ہے۔ ‘‘

’’ارے واہ…‘عبد العزیز نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا۔

’’لوگ کہتے ہیں اسے ہر بات یاد رہتی ہے۔ ‘‘مہرون نے گھاونے کو توے پر پلٹتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟‘‘عبد العزیز نے اپنی الجھن کو چھپانے کی کوشش کی مگر ناکامیاب رہا۔

’’ارے لوگ کہتے ہیں …وہ جو بھی پڑھتا ہے نا…وہ اس کو یاد رہتا ہے وا پس پڑھنا نہیں پڑتا۔ ۔ ‘‘مہرون نے ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات کہی۔

’’اچھا…‘‘عبد العزیز نے سانس چھوڑتے ہوئے قدرے اطمینان سے ادا کہا۔

’’لیکن اب وہ جانے کب واپس آئے گا شاید تیری ملاقات نہ ہو پائے۔ ‘‘

’’مطلب وہ واپس مدرسے چلا گیا ہے ؟َعبد العزیز نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا۔

’’ہاں، اب مجاورحسین چاہتے ہیں وہ گانو کا پہلا عالم بنے اور…‘

’’اور کیا؟‘‘

’’اور گانو میں مدرسہ کھولے۔ ۔ ‘‘

’’مدرسہ تو ہے نا؟‘‘

وہ تو صرف بچوں کو عربی سیکھانے کے لئے ہے۔ ‘‘

’’دوسرا مدرسہ کس چیز کا؟‘‘

’’دوسرا نہیں …اسی کو حافظ بنانے والے بڑے مدرسے میں بدلیں گے۔ ‘‘

پڑی کے دروازے پر کھڑے وقار حسین نے کہا۔ جو غالباً اپنی چابیاں بھول گئے تھے اور لینے واپس آئے تھے۔ پر جب ماں بیٹے کو بات کرتے دیکھا تو کچھ دیر خاموش دروازے پر کھڑے رہ کر انھیں سنتے رہے۔

’’ارے ابّا آپ۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے مڑ کر دیکھا اور کہا۔

’’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ مہرون وہ میری چابیاں ذرا دیکھ کہاں ہیں۔ ‘‘

’’ذرا رکنا، یہ ایک گھاونا اتار لوں۔ ‘‘

وقار حسین آ کر چولہے کے پاس دوسرے بسنے پر بیٹھ گئے۔ عبد العزیز نے ان سے کچھ باتیں کیں۔ مہرون چابیاں لے کر آئی۔ وہ وہیں بیٹھے عبد العزیز سے باتیں کرتے رہے۔ مہرون نے فوراً ایک کپ سلیمانی چائے چولہے پر رکھ دی ور خود بھی ان کی باتیں سنتی رہی۔ اس گفتگو کو سن کر اس کا چہرہ کنول کی طرح کھل گیا۔ وہ عبد العزیز کو محبت بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ اسے اپنے بیٹے پر اس لمحے سے زیادہ ناز شاید پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں چھلک ہی جاتیں اگر وقار حسین اسے نہ بتاتے ’’چائے کو جوش آ گیا ہے۔ ‘‘

’’ارے میرے اللہ…‘اس کی زبان سے ادا ہوا۔ اس نے ساڑی کے پلّوسے پتیلی اتاری اس کی ایک انگلی میں ہلکا سا چٹکا بھی لگا مگر فرطِ جذبات میں اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا۔ وقارحسین نے چائے پینے کے بعد اٹھتے ہوئے عبد العزیز سے کہا۔ ’’رات میں تیرے چچا بھی ہوں گے، پھر تفصیل سے پلاننگ کریں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے …‘عبد العزیز نے کہا۔

وقارحسین نے نکلنے سے پہلے ایک بار مہرون سے نظریں ملائیں۔ عبد العزیز کی ولادت کے بعد جب وہ پہلی بار اس کے سامنے گئے تھے تب جو چمک اس کی آنکھوں میں انھیں نظر آئی تھی، آج اتنے برسوں بعد دوبارہ دیکھ کر ان کا جی خوش ہو گیا تھا۔ ۔ انھیں ایسا لگا عبد العزیز کے بعد جو دواسقاط حمل ہوئے تھے اس سے جو افسردگی مہرون کے وجود میں رہ رہ کر کروٹ لیتی تھی، آج وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی ہے۔ مہرون اور وقار حسین زندگی کے اس موڑ پر آ چکے تھے جہاں ازدواجی رشتہ اظہار کے سارے میڈیم سے بالا تر ہو جاتا ہے بس ایک نظر، ہزار باتوں کے اظہار کے لئے کافی ہوتی ہے۔ احساس طمانیت کے ساتھ وہ گھر سے باہر نکلے۔ گویا انھیں دکان کی نہیں کسی گم شدہ خزانے کی چابیاں مل گئی ہوں۔

٭

 

آنگن میں شمیم برتن دھو چکی تھی۔ وہ پڑی میں داخل ہوئی۔ عبد العزیز تمباکو کی مسیری لگا رہا تھا۔ مہرون نے شمیم سے کہا کہ عبد العزیز کے لئے باہر کی موری میں نہانے کا انتظام کرے۔ شمیم دوبارہ باہر گئی اور اس نے ایک بالٹی میں ڈرم سے پانی نکالا۔ پھر چولہے پر سے گرم پانی کا ٹوپ لے جا کر اس میں انڈیلا۔ اس سے پہلے کہ عبد العزیز موری میں غسل کے لئے جاتا شمیم نے ٹاول اور صابن بھی موری میں رکھ دیا۔

٭

 

عبد العزیز نے شڑمٹرت پانی سر پر انڈیلا۔ بدن پر صابن ملا پھر ہاتھوں کو کاتھے سے گھسنے لگا۔ [یہ اس کی عادت تھی۔ پہلے جب وہ کھیل کود کر سرُخ مٹی میں لت پت ہوا کرتا تھا تو بہت دیر تک ہاتھوں اور پیروں کو ناریل کے کاتھے سے گھس گھس کر سرخ مٹی کی پرت نکالتا تھا۔ ]اسے ایسا لگا اب اس کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سرخ مٹی میں کھیل کود کر تو آیا نہیں ہے۔ اس نے کا تھا جہاں سے لیا تھا وہاں رکھ دیا۔ (در اصل اب کا تھا سلیم اور عارفہ کو نہلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ) اور اپنے ہاتھوں سے سینے اور بغل پر جھاگ کو ملنے لگا۔ صابن کی مہک کے بجائے اس کے نتھنوں میں کوکم کی مہک محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دماغ پر زور دے کرتا زہ کوکم کی مہک کی یاد کو دوبارہ ذہن میں زندہ کیا۔ اس مہک میں ٹھنڈک تھی۔ اور اس ٹھنڈک میں سکینہ کی یادوں کا دھواں تھا۔ اس دھوئیں میں وہ بہت دیر تک آوارہ پرندے کی طرح غلطاں رہا۔

جب صابن کا جھاگ تحلیل ہو کر اس کا بدن سوکھنے لگا تو اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں۔ دوبارہ پانی سر پر انڈیلا۔ ایک ہلکی جھر جھری اس نے لی۔ در اصل شٹر مڑت پانی کی گرماہٹ ہوا میں اڑ گئی تھی۔ پانی بس کہنے کو گرم تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۷}

 

ناشتہ کرنے کے بعد وہ شمیم کے والد سے ملنے کے لئے نکلا۔

ان کے دروازے پر پہنچا اس وقت وہ مرغیوں کے ڈربے کو صاف کر رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہاتھ منہ دھویا۔ پھر اسے گلے لگا لیا۔

ان کی بہو رقیہ نا ریل کے پیڑوں کو پانی دے رہی تھی۔ اس سے کرسیاں لانے کے لئے کہا۔

عبد العزیز نے ان سے کہا کہ وہ اپنا کام ختم کر لیں پھر آرام سے بات کریں گے۔

’’ارے کام تو جندگی بھر چلتا رہے گا۔ ‘‘انھوں نے کہا اور کرسی رقیہ کے ہاتھ سے لی اور عبد العزیز کو بیٹھنے کے لئے کہا۔

’’آپ بیٹھیے …میں …وہ دوسری کرسی آ رہی ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اس نے رقیہ کے ہاتھ سے دوسری کرسی لے لی۔

٭

 

دونوں ہاپوس آم کے ایک پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔

ان کی بہو رقیّہ ایک ٹرے میں چائے اور گلوزکوز بسکٹ لے آئی۔

امتیاز کاسکرنے اس سے کہا۔ ’’کھجوراں بھی لے آؤ۔ ۔ ‘‘

’’چچا میں ناشتہ کر کے آیا ہوں آپ۔ ۔ ‘‘

’’ارے چپ رہو۔ …ذرا میری بہو کے ہاتھ کے کھجوراں کھا کے دیکھو۔ ‘‘

رقیّہ کو یہ تعریف کچھ زیادہ ہی پسند آئی۔ وہ فوراً گھر میں گئی اور ایک طشتری بھر کے کھجوراں لے آئی۔ پہلے رقیہ کو لگا تھا کہ وہ کھجوراں شاید پسند نہیں کرے گا اس لیے اس نے بسکٹ پیش کئے تھے۔ عبد العزیز نے چار پانچ کھجوراں کھا کر تعریف کی۔ امتیاز کاسکرنے عبد العزیز کا تعارف کرنا شروع کیا تو اس نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے، شمیم آپا نے بتا دیا تھا۔ لیکن چونکہ پہلے کبھی دیکھا نہ تھا اس لئے …‘‘

’’اچھا …اچھا…اور کیا بتایا ہے شمیم آپا نے …‘‘عبد العزیز نے شرارت اور تجسس آمیز لہجے میں پوچھا۔

رقیّہ نے اس کی طرف تحیّر آمیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا۔ ’’آپ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ ‘‘

پہلے اس دیہی معصومیت پر عبد العزیز کو بہت ہنسی آئی پھر پل بھر میں یہ ہنسی ایک سنجیدہ خیال میں بدل گئی۔ ’’اسی معصومیت کو بعض بیمار لوگ یرغمال کر کے ان لوگوں کو جذباتی مذہبی سیاست کا مہرہ بنا لیتے ہیں۔ ‘‘وہ جانتا تھا کہ مذہبی سیاست کم تعلیم یافتہ افراد اور ثقافتی تاریخی شعور سے محروم قوموں میں یرقان بن کر پھیل جاتی ہے۔ ابتداء کی چند دہائیوں میں بھولے بھالے لوگ اس یرقانی حالت کو تطہیر نفس سمجھنے کی بھول کر بیٹھتے ہیں۔ جب مرض لا علاج ہو جاتا ہے تب آنکھ کھلتی ہے مگر کھلتے ہی ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتی ہے۔ مذہبی، سیاسی لہریں ہمیشہ معاشی اور سماجی زوال کو ساتھ لے آتی ہیں۔ امتیاز اس کے چہرے پر پھیلنے والی بے رنگی کو دیکھ رہے تھے۔ ان سے رہا نہ گیا۔ وہ سمجھے شاید رقیہ کی بات اس پر گراں تو نہیں گزری۔ انہوں نے فوراً چائے کا کپ زمین پر رکھا اور پوچھا۔ ’’بیٹا رقیہ تو تمہاری تعریف کر رہی تھی۔ بُرا لگا۔ ‘‘

’’ارے بالکل نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘اس نے خیالات کے بھنور سے نکلتے ہوئے کہا۔ چائے کی ایک چسکی لی اور جملہ مکمل کیا۔ ۔ ۔ ’’میں تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔

’’کیا سوچ رہے تھے ؟‘‘

’’یہی کہ تعلیم کی ضرورت پورے کو کن کو کتنی ہے۔ ‘‘

’’اب ہو گئی تعلیم۔ ۔ ۔ ‘‘بڑی لا تعلقی سے امتیاز نے کہا۔ ‘‘

’’کیوں نا نا ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

امتیاز کاسکرنے نظر یں گھمائی۔ ایک کونے میں ان کے تاشے ڈھول اور شہنائی پڑے ہوئے تھے۔ گزشتہ ڈیڑ ھ سال سے ان کا استعمال نہیں ہوا تھا۔ لو گوں نے شادیوں میں تاشے اور شہنائی بجانے کو حرام قرار دیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ لوگ جو نمازوں کی پابندی کرنے لگے تھے اور جماعتی تقریریں سننے لگے تھے۔ ان کے رویوں میں بھی ایک طرح کی تبدیلی آنے لگی تھی۔ انھیں امتیاز کا ریاض کرنا بھی معیوب لگنے لگا تھا۔ چند ایک جو زیادہ مذہبی ہو گئے تھے انہوں نے اسے بتایا کہ ’’موسیقی کے آلات کو گھر میں رکھنے سے برکت نہیں آتی۔ اس کے بجانے والے ابلیس کے بھائی ہیں۔ ‘‘ امتیاز کا غصہ ان کی آنکھوں میں آ کر ٹھہر جاتا۔ جب کہنے والا آگے کہتا۔ ’’ایک مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آخرت کی بھلائی کے لئے حق بات کہہ دے۔ ‘‘

امتیاز جب بھی ان آلات کی جانب دیکھتا اس کا جی رونے لگتا۔ اسے ایسا لگتا یہ سارے آلات سوگوار ہیں۔ اسے یوں محسوس ہوتا وہ مردہ لاش ہے جس کے اطراف شہنائی، تاشے، بانسری اور چھوٹے طبلے سوگ منا رہے ہیں۔ جو لوگ پہلے اس کے یہاں مشق کرنے آتے تھے اب ان کے پائجامے بھی ٹخنوں سے اوپر چڑھ گئے ہیں۔ ان کے کرتے کی جیبوں میں مسواک کے لئے گنجائش نکل آئی ہے۔ جس میں پہلے تاشہ بجانے کے لئے استعمال ہونے والی بانس کی پتلی چھڑی ہوا کرتی تھی۔

امتیاز ان چند لوگوں میں تھے جن کا کسی نہ کسی طرح فنون لطیفہ سے ایک چھوٹا سا سہی رشتہ تو تھا۔ موسیقی کا علم تجربے اور مشق سے انھوں نے حاصل کیا تھا۔ سروں اور راگ کا بھی انھیں شعور تھا۔ حساس طبیعت اس آدمی کو سماجی تبدیلیوں کا احساس دوسروں سے پہلے ہو نا فطری بات ہے۔

حسرت بھری نظریں کونے میں پڑے آلات پر چند لمحوں کے لئے ٹھہریں اور پھر عبد العزیز کی طرف مڑی، عبد العزیز نے دوبارہ پوچھا ؛ ’’کیا بات ہے نا نا ؟‘‘

’’عزیز بھائی ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ‘‘ رقیہ نے کہا۔

امتیاز نے نظریں اٹھا کر رقیّہ کی جانب دیکھا۔ عبد العزیز فوراً ایک ان سوچی صورت حال میں خود کو پا کر حیران رہا۔ اس نے رقیّہ سے پوچھا۔ ’’کیوں !‘‘

’’لوگ انھیں تانے دیا کرتے ہیں۔ ‘‘اس نے کپ اٹھاتے ہوے کہا۔

’’طعنے۔ ۔ ۔ !۔ ۔ ۔ کیوں۔ ۔ ۔ کس بات پر طعنے۔ ‘‘

’’ارے نا لائق کہتے ہیں تاشے بجانے والا شیطان ہوتا ہے۔ ‘‘بڑی جھلاہٹ کے ساتھ امتیاز نے کہا۔

’’کون ‘‘۔ ۔ ۔ یوں تو پہلے ہی رفیق نے اسے ساری رام کہانی سنا رکھی تھی۔ پھر بھی اس نے جان بوجھ کر پوچھا۔ امتیاز کو ایسا لگا کوئی تو ہے جو اس کی بات کو سننا چاہتا ہے۔ جسے موسیقی سے بیر نہیں ہے۔ اس نے دل کے صفحات عبد العزیز کے سامنے پھیلا دئے۔ عبد العزیز خاموشی سے سنتا رہا۔ رقیّہ پڑی میں چلی گئی تھی۔ سورج چھت کے عین اوپر آ گیا تھا۔ آم کے پیڑ کے پتوں سے دھوپ چھن کر ان پر پڑ رہی تھی۔ اذان کی آواز بلند ہوئی۔ عبد العزیز نے گھڑی دیکھی، اسے وقت کے گزرنے کا احساس نہ تھا۔ گھڑی کو ان سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ وقت بہت آگے بہہ گیا تھا۔ عبد العزیز نے اٹھتے ہوئے کچھ خوشگوار باتیں کرنے کی کوشش کی تاکہ امتیاز کی باتوں سے جو تلخی ہر طرف پھیل گئی تھی وہ کم ہو جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۸}

 

سکینہ صبح ہی اپنے والد کے گھر کے لئے نکل گئی تھی۔ راستے میں اس نے ایک دکان سے بسکٹ، چائے پتی اور شکر بھی خرید لی۔ گھر پہنچ کر کھراٹے سے جھاڑو لگائی۔ دروازے اور کھڑکیاں کھول دیں تاکہ تازہ ہوا مکان میں داخل ہو۔ پندرہ بیس روز سے مکان مستقل بند پڑا ہوا تھا۔ آج وہ بہت بے فکر تھی کیونکہ مجاور حسیں کے ساتھ اس کے والد بھی جماعت میں گئے تھے۔

٭

 

فصل کٹ چکی تھی اور زیادہ کام بھی نہیں تھا اس لئے اس کے والد نے پہلے ہی فخر الدین کو دو مہینے کی تنخواہ پیشگی دے کر چھٹی دے رکھی تھی۔

سکینہ نے رسوئی گھر صاف کیا۔ باہر کے کنویں سے دو کلسی تازہ پانی لایا۔ ایک ٹوپ میں دو کپ دھوئے۔ جن پر ہلکی گرد جم گئی تھی۔ پھر درمیانی کمرے میں آئی اور جھولے پر لیٹ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۹}

 

امتیاز کاسکر سے ملاقات کرنے کے بعد عبد العزیز گھر واپس گیا۔ کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر لیٹا رہا۔ پھر کپڑے بدل کر وہ گھر سے نکلا۔ مہرون نے اسے یاد دلایا کہ شام میں عرس ہے جلد گھر لوٹنا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۱۰}

 

سکینہ کے والد کا مکان جوں جوں قریب آتا جا رہا تھا عبد العزیز کی رفتار کم ہوتی جا رہی ہے۔ سکینہ کو بانہوں میں دیکھنے کا تصور ہی اس کے لئے اس قدر نشہ آور تھا کہ وہ خیالات کی رنگارنگی میں دیر تک کھویا رہنا چاہتا تھا۔ آج اسے اس بات کا احساس شدید تھا کہ کس خوشی سے وہ سب سے زیادہ محروم رہا ہے۔ سکینہ کے بدن کا احساس، مٹھاس، تپش اور لمس اس کے وجدان میں موجزن طوفان بن گیا تھا۔ آج اسے احساس تھا کس طرح اس نے جان بوجھ کر اتنے برسوں تک اس ذائقے کی خواہش کو دل میں دبائےر کھا تھا۔ اس کے ذہن میں یاد کے وہ ٹکڑے بھی آج اس کے لبوں پر مسکراہٹ کا سبب تھے جب سکینہ کی محبت کی لہروں کو اپنے بدن کی قید سے آزاد کرنے کے لئے وہ اپنی ہتھیلی کی ریکھاؤں میں اس کا چہرہ تلاش کرتا تھا۔ ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر پلکوں کو بند کئے وہ جانے کتنی دیر تک اس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کو دماغ کی اسکرین پر مدھم روشنیوں میں اجاگر کرتا۔ یہاں تک کہ اس کی سانسیں تیز ہو جاتیں اور سکینہ اس کی ہتھیلی پر اوس کی بوندوں میں بھیگی، مسکراتی…جلوہ گر ہو جاتی۔

پھر ایک احساس اسے مضمحل کر دیتا کہ اب وہ دوبارہ کسی گھنے بن میں گم ہو جائے گی۔

عبد العزیز خود ایک جنگل میں بدل گیا تھا جس میں بہت ساری یادوں کے درمیان واقعات گم ہونے لگے تھے۔

اس کے قدم سکینہ کی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ اس نے بہت سے واقعات کو صفحۂ دل پر دوبارہ دیکھنا چاہا…اسے خبر تک نہ تھی کہ بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں، جو بے حد معنی خیز اور محبت سے معمور تھیں کئی مہینوں فراموشی کے صحرا میں دب گئی تھیں۔ آج اسے یاد آیا؛جب موسلادھار بارش میں سکینہ نے آم کے پیڑ کے نیچے اس سے کہا تھا۔ ’’میں تیرے بچے کی ماں بننے والی ہوں ‘‘تب اپنی حیرانی اور ناسمجھی میں اس نے کہا تھا۔ ۔ ’’آپ کو ایسا کہنا چاہیے، کہ آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔ ‘‘

اس طرح سابقہ گفتگو کو یاد کر کے اس کا دل سکینہ کے اتصال کے لئے بے قرار ہو گیا تھا۔ جب وہ اس کی حویلی کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوا تب سب سے پہلے اس کی نظر فخر الدین کے لئے بنائے گئے مکان کی اور گئی۔ اسے مقفّل دیکھ کر اسے قدرے اطمینان ہوا۔ پھر اس نے دیکھا کہ حویلی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اس نے گیٹ بند کیا اور حویلی کی طرف بڑھ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۱۱}

 

دروازے کی دہلیز پر وہ پہنچا تو سامنے ہی سکینہ جھولے پر لیٹی ہوئی نظر آئی۔

وہ آگے بڑھا۔ سکینہ کی آنکھ لگ گئی تھی۔ عبد العزیز بہت دیر تک وہیں کھڑے رہ کر اس کے چہرے کے خطوط دیکھتا رہا۔ اس کے تخیل میں جو نقش محفوظ تھا وہ اس موجودہ چہرے کو پرت در پرت اپنے عکس پرAdjust کر رہا تھا۔ اس کے باوجودProcess مکمل نہیں ہوا۔

اب اس کے خطوط پہلے سے زیادہ گہرے ہو گئے تھے۔ گردن کے گرد چربی کی ایک تہہ نے اپنے لئے جگہ بنا لی تھی۔ کان کے پاس چند بالوں کا رنگ اڑ گیا تھا۔ وقت کی دیمک سکینہ کو چاٹنے لگی تھی۔ عبد العزیز کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ اور ایک جملہ اس کی ذہن میں خلق ہوا۔ ’’بدن ایک عمارت ہے اور وقت کے ساتھ ہر عمارت کو منہدم ہونا ہے۔ ‘‘اس خیال کا کوئی منفی اثراس پر نہیں ہوا کیوں کہ اسے معلوم تھا اس کے خاکدان میں جو دل ہے وہ اس کے لئے ہمیشہ دھڑکتا رہا ہے۔

ابھی وہ خیالات میں ڈوب کر ابھرا ہی تھا کہ ایک بلّی آئی اور دم اوپر اٹھائے دروازے سے اپنی گردن رگڑنے لگی۔ عبد العزیز نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بھگا نا چاہا۔ اس نے اونچی آواز میں دو تین بار میاؤں میاؤں کیا۔ سکینہ کی آنکھ کھلی تو وہ چونک گئی۔ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ بہت گہری نیند سے اس کا ربط ٹوٹا تھا۔ سامنے عبد العزیز کو کھڑا دیکھ وہ سٹپٹاسی گئی۔ ۔ ۔ چند لمحوں تک اس کی سمجھ میں نہ آیا کیا کہے، کیا کرے۔

٭

سکینہ نے چائے بنانے کے لئے پانی رکھا۔ عبد العزیز نے کیچن کے پچھواڑے آموں کے باغ میں کھلنے والا دروازہ کھولا۔

ہاپوس، پایر ی، اور رائیول آم کے بہت سارے پیڑ ایک ہی باغ میں ایک دوسرے کی بانہوں میں باہیں ڈالے کھڑے تھے۔ ان کا ایک چکر کاٹ کر وہ دوبارہ اس کے پاس آیا۔ اس کے رو برو ایک بسنے پر بیٹھ گیا۔

سکینہ نے اس سے قیام کویت کے بارے میں پوچھا۔ اس نے مختصراً جوابات دئے۔ پانی ابلنے لگا تو سکینہ نے اس میں شکر ڈالتے ہوئے اس سے سنجیدگی کے ساتھ پوچھا۔ ’’میری یاد آتی تھی؟‘‘

عبد العزیز نے بائیں کان کے اوپر بالوں کو کھجاتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی نہیں ؟‘‘سکینہ کا چہرہ فوراً اتر گیا۔ اس کا دل مسوس کر رہ گیا۔ ایک زرد لہر اس کے لبوں کے کناروں پر بنی۔ ۔ ۔ عبد العزیز اسے بہ غور دیکھ رہا تھا۔ اسے بھی احساس تھا۔ وہ جان رہا تھا کہ وہ نظریں چرا رہی ہے۔ اس نے پانی میں چائے کی پتی ملائی۔ اور کپ کو نتھارنے لگی۔

’’اے برا لگا…؟‘‘عبد العزیز نے آہستہ سے پوچھا۔           ’’نہیں …برا کیوں لگے گا۔ ‘‘سکینہ نے جواب دیا اور چولہے کی آنچ کم کی۔

’’جھوٹ مت بولو۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے جھوٹ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

سکینہ نے مڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ جہاں شرارت آمیز مسکراہٹ صاف نظر آ رہی تھی۔

’’یہ گرم چائے دیکھ رہے ہو …یہ تمہارے چہرے پر اچھال دوں گی۔ مذاق اڑاتے ہو۔ ‘‘سکینہ نے کہا۔ اس کے لہجے میں خود اعتمادی تھی۔ عبد العزیز نے اس کے لہجے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت میں در آئی پختگی کو محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’جس دن چاہو، میں تمہارے سامنے بیٹھ جاؤں گا۔ ۔ ۔ گرم پانی اچھالنا مت۔ بلکہ سر پر انڈیل دینا تاکہ میرا جسم گل جائے۔ تب تمھیں اندازہ ہو گا۔ تم کو میرا دل کس قدر یاد کیا کرتا تھا۔ ‘‘

اس طرح آرزو سے پر جملہ اس نے عبد العزیز کی زبان سے پہلے نہیں سنا تھا۔ وہ چپ رہی۔ اسے پتہ تھا کہ اسے کیا نہیں کہنا چاہئے۔ وہ یوں چپ رہی گویا اس کی قوت گویائی یکایک ختم ہو گئی ہو۔

٭

 

جھولے پر بیٹھ کر انہوں نے چائے پی۔ عبد العزیز نے یوسف کے تعلق سے بہت ساری باتیں کیں۔ بہت سارے سوالات پوچھتا رہا۔ بہت ساری باتیں سن کر وہ خوش ہوا۔ اور بہت ساری باتیں ایسی تھیں جن کے تعلق سے وہ فکر مند تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ ایک نظر یوسف کو دیکھے۔ اس کے ناک نقشے کو دیکھے اس کی آواز سنے۔

اس تجسس کے باوجود تشکیک روح کا ایک رنگ ہے۔ جب یہ رنگ یقین اور اعتماد کے رنگوں پر غالب آ جاتا تو اسے لگتا کہیں سکینہ نے سچ مچ اس کو پوپٹ تو نہیں بنایا؟ کہیں یہ اس کی خام خیالی تو نہ تھی کہ وہ اسی کا بیٹا تھا؟کہیں یہ اس محبت کے اندھے پن کے سبب اسے نظر آنے والا سراب تو نہ تھا؟

پھر وہ اس نتیجے پر پہنچا …کہ اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کا سروکار صرف اور صرف سکینہ سے ہے۔

پہلے بھی ہزار بار یہ وسوسہ اس کے سینے میں کروٹیں لیتا رہا تھا اور ہر بار وہ خود سے کہتا۔ ’’میرے لئے تو سکینہ ہی سب کچھ ہے۔ ‘‘…باوجود اس کہ پھر یکایک وہ ایک باپ کی طرح یوسف کو یاد کرنے لگتا۔ یوسف کو دیکھنے، اس سے ملنے کی تڑپ اس کے دل میں پیدا ہوتی۔ اس سے باتیں کرنے کی تمنا بیدار ہوتی۔ وہ باتیں اس کے خاکدان میں ہمیشہ محفوظ رہیں۔

آگے بھی وہ کبھی ان جذبات کا اظہار نہ کر سکا۔ چند برسوں بعد۔ مدرسے کے قیام کے بعد جب یوسف نے شدت پسند مذہبی رہنما کے طور پر احکامات جاری کرنے شروع کئے اور عبد العزیز نے ان پر اپنا موقف کھلے عام لوگوں کے سامنے رکھا تب بھی اس کے دل میں یہ جذبات اندر ہی اندر ایک ہیجان، افسردگی اور حزنیے کو جنم دیتے رہے۔

عبد العزیز کی شخصیت میں ایک دراڑ پیدا ہو گئی تھی۔ ایک طرف اس کے اندر ایک جوشیلا آزادی پسند انسان تھا جو مذہبی جنونی شدت پسندی کے سماجی تہذیبی اور معاشی نقصانات سے لوگوں کو واقف کرانا چاہتا تھا۔ ۔ دوسری طرف محبت میں ڈوبا، عشق کی آنچ سے پگھلنے والا آدمی تھا۔ جسے یوسف کے چہرے پر سکینہ کی مسکراہٹ نظر آتی تھی۔ چند ایک بار تو یوسف کے کان دیکھنے پر لا محالہ اس کے ہاتھ اس کے اپنے کانوں کی پوروں تک از خود چلے گئے تھے۔ وہ جب بھی اس کے ہاتھوں کی انگلیاں دیکھتا، اس کی نظریں اس کے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر ٹھہر جاتیں۔

پر جب وہ اس کے خیالات سنتا تو اسے ان لفظوں جملوں اور حوالوں میں مجاور حسین کی بو…زیادہ مہلک طور پر محسوس ہوتی…

یوسف کے خیالات اس کے لئے شخصیت کا المیہ بن گئے تھے۔

٭

 

چائے پینے کے بعد وہ آم کے باغ میں ٹہلتے رہے۔ سکینہ نے اسے بتایا کہ قریب ڈیڑھ سال پہلے اس کی بچہ دانی میں ایک گانٹھ ہو گئی تھی۔ دواؤں سے وہ کسی طرح ٹھیک نہیں ہو ئی۔ چار و نا چار چپلون کے ایک پرائیوٹ نر سنگ ہوم میں آپریشن کیا گیا۔ بچہ دانی نکال دی گئی۔

عبد العزیز اس کی ان باتوں کو دھیان سے سنتا رہا۔ اسے افسوس تھا۔ لیکن اطمینان اس بات سے ہوا کہ عین وقت پر مرض کی تشخیص ہو گئی ورنہ جا نے وہ کیا صورت اختیار کر لیتا۔

پھر وہ دونوں بہت دیر تک باغ میں ٹہلتے رہے۔ گویا وہ باغ بہشت ہو اور یہ دونوں آدم و حوا…وہ باتیں کرتے رہے۔

ان باتوں میں زندگی سے متعلق ان کے احساسات اور دلوں میں موجود محبت کا اظہار تھا۔

٭

 

شام کے آخری پہر انہوں نے محبت کی۔ آخری بو سے پر عبد العزیز نے اس سے کہا۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ آج پہلی بار…‘

سکینہ نے جھپٹ کر کسی شیرنی کی سی پھرتی کے ساتھ اس کا کان کاٹ لیا۔ ’’آ آ آ…‘‘ عبد العزیز کی حلق سے نکلا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۱۲}

 

سورج افق پر پہنچ گیا تھا اور عبد العزیز دوبارہ گانَو میں۔ ۔ ۔ ہر طرف روشنی تھی۔ دور دراز سے لوگ عرس کے لیے آئے ہوئے تھے۔ چٹ پٹے مسالے دار کھانوں، کھلونوں اور کپڑوں کے دکانچے لگے ہوتے تھے۔ مسجد کے سامنے کے میدان پر عرس برسوں سے ہوتا آیا تھا۔ تین روز تک عقیدت مندوں کا تانتا لگا رہتا۔ ہر مذہب، فرقے اور طبقے کے لوگوں کو ایک ساتھ یہاں دیکھا جا سکتا تھا۔ درگاہ کے صحن میں عنبر، لوبان، عطر چھڑ کا اور جلایا جا تا۔ ایک طرف ایک گھمیلے میں جنگلی گھاس جلا کر دھواں کیا جا تا۔ جس سے دور تک مہک پھیل جاتی اور ماننا تھا کہ موذی کیڑے مکوڑے بھاگ جاتے ہیں۔

درگاہ کے صحن میں لوگ ایک دوسرے پر عطر اور گلاب پاشی کرتے جس سے مہک دوبالا ہو تی۔ گلاب، چمپا، چمیلی اور موگرہ کے پھولوں سے بنی چادریں چڑھائی جاتیں۔

یہ دن بچّوں کے لئے سوغات لے آتے۔ سر شام ہی وہ شور شرابے کا حصّہ بن جا تے۔ رنگ برنگی غبارے، پلاسٹک اور اسٹیل کی سیٹیاں، کاغذ کے جھنڈ ے، بھنو رے، نقلی تلواریں، پلاسٹک کے شیر بّبر، نقلی دوربین، کیمر ے، ریڈیو، اور چاکلیٹ ہاتھوں میں لئے اتراتے پھر تے۔ صاحب حیثیت لوگ نذرانے ادا کر تے، نا مراد دعاؤں میں مصروف و مغروق نظر آتے۔ شرابی کبابی شرافت کی مورت بن جاتے تو خداترس، صوفیوں کا لباس اوڑھ کر صندل وچادر کی تیا ری میں جٹتا تے۔ عاشق مزاج آنکھیں ٹھنڈی کرتے، دل پھینک لڑکیاں ناگن کا روپ دھار لیتیں، سلیقہ مند عورتیں گھر آنگن کی صاف صفائی کر کے میٹھے پکوان بناتیں اور مہمانوں کا انتظار کیا کرتیں۔

عبد العزیز ان خوب صورت مناظر کا امین تھا۔ یہی باتیں گانَو کے عرس کے تصّور کے ساتھ اس کے ذہین میں روشن ہوتیں تھیں۔

اس موقعے پر اس کے اسکول کے غیر مسلم ساتھی بھی اس کے گھر آیا کرتے تھے۔ جنھیں مہرون ساندھنے، میٹھا کھانا اور کھیر کھلا یا کرتی تھی۔ کھانے پینے کے بعد وہ دیر رات تک ان کے ساتھ مد ہوش ہو کر بھٹکتا رہتا۔

٭

 

ادھر مغرب کی اذان ہو ئی اور اُدھر وہ سلیم اور عارفہ کو عرس کے لئے لے کر گھر سے نکلا۔

وہ انھیں ہر دکان ہر دکا نچے پر لے گیا۔ جہاں انھیں جو چیز پسند آئی وہ خرید لی۔ ۔ سلیم اور عارفہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ وہیں اسے کچھ پرانے دوست ملے۔ وہ ان سے باتیں بھی کرتا  رہا۔

جب وہ درگاہ کے سامنے پہنچا تو اس کی نظر رفیق ونو پر پڑی۔ رفیق نے قریب آ کر ہاتھ ملا یا۔ وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ عبد العزیز نے سبب پو چھا تو اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔ بازار سے جلدی جلدی میں آیا ہوں۔ دیر ہو گئی تھی۔‘‘

’’ترے کو معلوم ہے عروس ہے، تو بازار میں رُکنے کی کیا ضرورت تھی۔ ۔ ۔ ‘‘عبد العزیز نے کہا۔

’’تو پہلے ان کو گھما پھیرا لے۔ پھر آرام سے میں تجھے رام کہانی سناؤں گا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ رفیق نے عارفہ کے بالوں میں انگلیاں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’مطلب کہیں جا رہا ہے تو ؟‘‘

’’گھر جا کر تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔ ۔ ‘‘

ٹھیک ہے۔ عشاء بعد ملتے ہیں۔

چل ٹھیک ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۳}

 

عبد العزیز نے عارفہ اور سلیم کو ان کی پسندیدہ چیزیں کھلائیں۔ کچھ دیر یہاں وہاں گھمایا۔ پھر گھر لوٹ آئے۔

گھر لوٹ کر اپنی ماں اور چچی کو اپنے اپنے کھلونے بتاتے رہے۔ مہرون نے کھانے کی تیاری کی۔ [وقارحسین اور حمید حسین صندل وغیرہ کی تیاری میں جٹے لوگوں کی مدد کے لئے پہلے ہی کھا نا کھا کر چلئے گئے تھے ]عبد العزیز نے بھوک نہ ہونے کے باوجود ماں کا دل رکھنے کے لئے تھوڑا سا کھا نا کھایا۔ اس پر مٹھے چاول کی ایک رکابی مہرون نے اس کے سامنے رکھ دی۔ بچپن میں وہ میٹھے کھا نے کی ضد کیا کرتا  تھا۔ شاید اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے مہرون نے آج بنایا تھا۔ اس نے رکابی صاف کرتے ہوئے تعریف کی۔ مہرون کو اچھا لگا۔

ایک ٹارچ ہا تھ میں لے کر وہ گھر سے نکل گیا۔ گلی سے نکل کر وہ سڑک پر آیا۔ لمپ پوسٹ کی زرد مٹیالی روشنی کا ہالہ بنا نے والے چھوٹے بلب برہنہ ٹنگے ہوئے تھے۔ جن کی روشنی میں سفر کرنا پہلے کی نسبت آسان ہو گیا تھا۔ مسجد کے احاطے تک پہنچنے میں اسے بہ مشکل دس منٹ لگے ہوں۔

اس دوران اطراف کے تیس پنتیس مکانوں پر اس نے ایک اُچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ وہ حیران تھا کہ ان میں سے بیشتر مکانوں میں روشنی گل تھی۔

پہلے عرس کے دنوں میں ہر گھر روشنیوں، دیوں اور شمعوں سے منور رہتا تھا۔ لوگ دروازے کھلے رکھتے تھے۔ آوازیں ہوا میں بہتی رہتی تھیں۔ جس سے اکیلے سفر کرنے والے کی ہمت بندھی رہتی تھی۔ تاریک اور بے نور راتیں بھی چہل پہل سے خوب صورت لگتی تھیں۔

حالانکہ اب تو بجلی بھی آ گئی تھی۔ عام دنوں میں دروازے کے باہر چالیس واٹ کا بلب سانس لیا کرتا  تھا۔ آج وہ بھی خاموش تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

{۱۴}

 

درگاہ کے پاس ہی اسے رفیق ونو مل گیا۔ دونوں گانَو کے قبرستان کی طرف نکل گئے۔ رفیق نے اسے میٹھا پان پیش کیا اور خود ایک سو بیس تمباکو والا پان کھایا۔ قبرستان کی دیوار کے پاس ٹیوب لائٹ کی مدھم روشنی میں بیٹھ کر وہ جانے پہچانے لو گوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ رفیق نے اپنے دو تین چھوٹے چھوٹے معاشقوں کے بارے میں اسے بتایا۔ مراٹھی میں ایک نظم سنائی جو اس کی ایک معشوقہ نے اسے خط میں لکھ بھیجی تھی۔

پھر عبد العزیز نے پو چھا۔ ’’تو کچھ بتا نے والا تھا؟‘‘

’’کیا بتاؤں یار…اپلیس ہونٹ انی اپلیس دانت ‘‘(اپنے ہی ہو نٹ اپنے ہی دانت )رفیق ونو نے افسوس کے ساتھ کہا۔

’’ایسی کیا بات ہے ؟‘‘

پان کی آخری پیک تھوکتے ہوئے رفیق ونو نے اسے بتایا کہ کچھ لوگ عرس کے سخت مخالف ہیں۔ ان میں سے بعض بازار میں عرس کو حرام بتا رہے تھے۔ وہیں ایسے افراد بھی آگے جو درگاہ اور بزرگوں کے سلسلے سے بے حد عقیدت رکھتے تھے۔ بحث ہوئی اور بات یہاں تک بڑی کے فریقین نے ایک دوسرے کا گریباں پکڑ لیا۔ ذاتیات پر اتر گئے۔ بیچ بچاؤ نہ ہوتا تو بُری نو بت آتی۔

یہ سن کر عبد العزیز بری طرح کنفیوژ تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ کس بناء پر برسوں سے جاری عرس کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نے انتہائی طفلانہ سوالات اس ضمن میں کئے۔ جن کے جوابات رفیق ونو نے اطمینان بخش اندازمیں دیے۔ اسے معلوم نہ تھا اس کا مذہب کس طرح فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور لوگ فرقے کی محبت میں ایک دوسرے کو قتل تک کر سکتے ہیں۔ اسے بہت رنج ہوا۔

رفیق ونو نے اس کا موڈ بدلنے کے لئے اس سے چپلون کے بارے میں پوچھا۔ پھر وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ عرس کے میلے میں دوبارہ آئے۔ وہاں گرم گرم رگڑا کھایا۔ اسی دوران رشید اور صابر بھی وہاں پہنچ گئے۔ تینوں دیر رات تک ایک طرف کھڑے رہ کر خوب باتیں کرتے رہے۔ آتے جاتے لوگوں سے ملتے رہے۔

اس رات کسی کو معلوم نہ تھا کہ اگلے عرس پر وہابی اور بریلوی حضرات میں شدید کشیدگی ہونے والی تھی اور ٹھیک چار سال بعد جماعتی افراد کے غلبے سے درگاہ کے اندر بنے مزار کو مسمار کیا جا نے والا تھا۔ جس کے خلاف عبد العزیز ایک تحریک چلا نے کے لئے مجبور ہونے والا تھا۔ پمفلٹ تقسیم کرنے والا تھا۔ پولس کو اس واقعے کی تحقیقات کے لئے ملوث کرنے والا تھا۔ اس پوری تحریک سے بس اتنا فائدہ ہوا کہ جن لو گوں نے مزار کو توڑا تھا۔ انہوں نے پوری درگاہ کو منہدم کرنے کی جسارت نہیں کی۔

عبد العزیز درگاہ کے انہدام کو روکنے میں کامیاب ضرور ہوا لیکن بڑے خسارے کو روک نہیں سکا۔ جماعت کے پرچار نے عرس کو غیر اسلامی فعل اور بدعت قرار دیا۔ نتیجتاً عرس کا میلہ بند ہو گیا۔ درگاہ ویران ہو گئی۔ چند برساتوں کے بعد اس کی چھت کا بڑا حصّہ ٹوٹ گیا۔ گانَو والوں سے تعلقات استوار رکھنے کے لئے کسی نے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔

نئی نسل کو یہ احساس کبھی نہ ہو سکے گا کہ عرس کے خاتمے کے ساتھ ساتھ تہذیبی ہم آہنگی کا کتنا بڑا اسٹیج جل کر خاک ہو گیا۔ عبد العزیز نے ’’ثقافت کی موت ‘‘کے عنوان سے مراٹھی روزنامے کے لئے ایک مضمون لکھا۔ جس میں اس نے درگاہ کی بد حالی اور عرس کے خاتمے سے پیدا ہونے والی صورت حال کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس مضمون کو وہابی افراد نے ایک سازش قرار دیا۔ ایک صاحب نے بعد میں اس کا تر جمہ اردو میں کر کے یو سف کو پیش کیا۔ جس نے درگاہوں کو بدعت کی ماں قرار دیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

باب نہم

 

کہیں کہیں پہ کو ئی روشنی کا دھبا تھا

 

 

شریفہ جب عبد العزیز کو رخصت کرنے ایس ٹی اسٹینڈ پر گئی تھی، تب اس نے کہا تھا کہ اتوار کی صبح وہ اس کے گانَو اس کے گھر والوں سے ملاقات کے لئے آئے گی۔

عبد العزیز نے بازار جا کر ایس۔ ٹی۔ ڈی بوتھ سے اسے فون لگا یا۔ شریفہ سے بات کرنے کے بعد اس نے ایک بیکری سے بسکٹ خریدے اور فوراً گھر لوٹ آیا۔

ماں کو اس نے بتایا کہ شریفہ دوپہر تک آنے والی ہے۔ مہرون نے اکثر اس کا ذکر سنا تھا مگر ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ شریفہ کو دیکھنے کا اسے اشتیاق تھا۔

عبد العزیز نے جب مہرون سے کہا کہ دوپہر کے کھانے کا خاص اہتمام کیا جائے تو اس نے بڑی متعجب نگاہوں سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔ عبد العزیز کو ماں کے بھول پن پر ہنسی آئی۔ اس کی ہنسی کو مہرون نے ایک مفہوم دیا۔ ایک ایسامفہوم جس کا خاکہ عبد العزیز کے ذہن میں کبھی تیار نہیں ہوا تھا۔ مہرون نے شمیم کو بازار بھیجا اور خود مسالحہ پیسنے بیٹھ گئی۔

اس دوران عبد العزیز نے سلیم کے بستے سے اس کی اردو کی درسی کتاب نکالی اور ایک کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے بہت سارے اوراق پلٹے۔ جوں جوں وہ صفحے اُلٹتا گیا۔ اسے ایسا لگنے لگا اس زبان کو پڑھنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جو مشق اسے عربی سیکھنے کے لئے کرنا پڑی تھی، اس کا دس فی صدی حصّہ بھی درکار نہ تھا۔ اس زبان کے الفاظ اس کے لئے غیر مانوس نہ تھے۔ آوازوں کی ساخت اس کے لئے دشوار نہ تھی۔ ایک طرح کی خوشی اس کے چہرے پر چھائی۔

اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ آج ہی بازار سے میٹرک تک کی تمام نصابی کتابیں خرید کر لائے گا اور مطالعہ کرے گا۔ جہاں دشواری پیش آئے گی وہاں اسکول کے کسی اردو معلم سے مدد لے گا۔

شریفہ سے بات چیت کے دوران اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ زبان، ادب اور زبان کے مذہبی اور سیاسی کرن کے موضوعات پر گفتگو کرنے کے لئے زبان کی تاریخ پر نظر بے حد ضروری ہے۔ اردو زبان کے بارے میں گذشتہ کئی برسوں سے اس کے دل میں ایک بات بیٹھ گئی تھی کہ اردو میں عام طور پر مذہبی امور پر ہی زور دیا جاتا ہے اور اس کی ساخت پر مذہب کا اثر زیادہ ہے۔ اسے لگتا تھا کہ اردو ایک استحصالی زبان ہے جو اپنے آپ کو مقامی دھاروں کے ساتھ ہم آہنگی نہیں کر سکتی۔ اس لئے مقامی کلچر کی اس میں کو ئی گنجا ئش نہیں رہتی ہے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اردو کی اصلیت کیا ہے۔ اور آج اس کی حالت کیا ہے۔ ان سب پر سیر حاصل معلومات کے لئے بہتر تھا کہ وہ خود اردو اخبارات اور کتابوں کو پڑھنے کی لیاقت حاصل کرے۔

عبد العزیز کی اس ذہنی حالت پر زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ وہ دن تھے جب اردو کے سماجی اور تعلیمی استعمال پر مذہبی سایہ پھیلنے لگا تھا۔ اردو کا کثیر المشربی، آزاد، جمہوری، غیر مذہبی، روادارانہ اور انسانی کردار مشتبہ ہونے لگا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۲}

 

ابھی وہ اس کتاب کے اوراق پلٹ ہی رہا تھا کہ امام صاحب نے دروازے پر دستک دی۔ اس نے ماں کو آواز دے کر بتا یا اور ان کے لئے ایک کرسی پیش کی۔ امام صاحب نے مصافحہ کیا اور اس کی خیریت دریافت کی۔ مہرون نے چائے بنا کر سلیم کے ہاتھوں بھجوائی۔ جو ابھی ابھی لمبی نیند سے بیدار ہوا تھا۔

چائے ٹیبل پر رکھ کر سلیم فوراً اندر بھاگ گیا۔

دوبارہ وہ واپس آیا اس کے سر پر گھیرے دار سیاہ رنگ ٹوپی تھی۔ اس نے دوبارہ ٹیبل پر سے کپ اٹھایا اور آگے بڑھ کر امام صاحب کے ہاتھوں میں دیا۔ امام صاحب نے مسکراتے ہوئے کپ اس کے ہاتھوں سے لیا اور کہا ’’نیند سے جاگتے ہی ٹوپی پہن لینا چاہے۔ ‘‘

’’جی جی امام صاحب۔ ۔ ۔ ‘‘اتنا کہہ کر وہ پڑی میں چلا گیا۔

عبد العزیز چپ چاپ بیٹھا رہا۔ امام نے اس کے زانوں پر درسی کتاب دیکھی تو سوال کیا ’’ تم اردو پڑ ھ لیتے ہو۔ ‘‘

’’نہیں !میری تعلیم مراٹھی میڈیم سے ہو ئی ہے۔ ‘‘

’’تو کیا تصویریں دیکھ رہے تھے۔ ‘‘امام صاحب نے مسکرا کر پو چھا۔

’’نہیں سوچ رہا ہوں اردو سیکھ لوں۔ ‘‘

’’بہت اچھی بات ہے بھئی !ہائے !اپنی زبان پھر اپنی زبان ہے۔ ‘‘

’’میری مادری زبان کو کنی ہے۔ ‘‘

’’بھئی کوکنی تو اب میں بھی بول لیتا ہوں پر مراٹھی تو خالص ہندوؤں کی بھاشا ہے نا‘‘

امام صاحب نے کہا جنھیں کوکن میں بسے ہوئے قریب پندرہ سال ہو گئے تھے۔

’’کوکنی اور مراٹھی بے حد قریب ہیں بلکہ مراٹھی سے ہی کوکنی کا وجود ہے۔ ‘‘عبد العزیز نے اپنا موقف پیش کیا

’’درست فرمایا بیٹا۔ ۔ ۔ پر کوکنی تو صرف بولی ہے نا ! اس کا کو ئی تحریری وجود تو نہیں۔ ‘‘امام صاحب نے کپ فرش پر رکھتے ہوے کہا۔ عبد العزیز کو لگا امام صاحب’ بولی‘ کہہ کر اس پر رعب جما نے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’’ساری زبانیں تحریری وجود سے پہلے بولی ہی ہوا کرتی ہیں۔ تحریر کے لئے کسی بھی رسم الخط کواختیار کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘اس بار اس کے لہجے میں تھوڑی تلخی تھی۔ امام صاحب کو احساس نہیں تھا کہ زبان کے مسئلے پر گفتگو سنجیدہ ہو جائے گی۔ انھوں نے موضوع بدلنے کے لئے کہا۔ ’’ارے بھئی چھوڑئے اس بحث کو، یوں بھی لا یعنی باتوں سے مومن کو پر ہیز کرنا چاہیے۔ ‘‘

عبد العزیز خاموش رہا۔

’’چار پانچ روز ہوے تم کو آ کر…تم مسجد میں نہیں آئے۔ اس لئے سوچا خیریت دریافت کر لوں۔ ‘‘

’’بہت بہت شکریہ امام صاحب !میں تو واقعی آپ سے ملنا بھول گیا…‘‘

’’ارے بھئی …مجھے بھول جاؤ پر اللہ کے گھر آنا مت بھولو۔ ‘‘

عبد العزیز خاموش رہا۔

’’وہاں کویت میں تو دین کے کام کو قریب سے دیکھا ہو گا …عمرہ کیا…؟‘‘

’’نہیں۔ ۔ ‘‘

’’ارے بھئی مقدس زمین کے اتنے قریب جا کر بھی …‘

’’کویت سے سعودی بہت دور ہے۔ ‘‘

’’اس قدر تو دور نہیں …‘‘

’’ہاں …وہ تو ہے۔ ‘‘

’’اب جاؤ گے تو سیدھے حج ہی کر لینا۔ ۔ ‘‘امام صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔

ان کے اٹھتے ہی عبد العزیز بھی کھڑا ہو گیا۔ وہ دروازے کی طرف بڑھے تو عبد العزیز انھیں رخصت کرنے دروازے تک گیا۔ چپّل پہننے کے بعد امام صاحب نے دوبارہ عبد العزیز سے مصافحہ کیا اور کہا۔ ’’بھئی دنیا کی زندگی کیا ہے۔ جتنا ہو سکے نماز کی پابندی کرو۔ ‘‘

عبد العزیز نے امام صاحب کی آنکھوں میں جھانکا۔ ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری۔ امام صاحب سڑک کی طرف بڑھنے لگے۔ اس کے گرد ہانکا لگنے کی یہ پہلی علامت تھی۔

 

٭

چند منٹوں تک کرسی پر بیٹھ کر وہ اسی بات پر غور کرتا رہا۔ مہرون نے پڑی سے آواز لگائی۔ ’’بیٹا۔ ۔ !مہمان، کو لانے بازار تک نہیں جائے گا۔ ‘‘ ’’ہاں ہاں …‘‘ خیالات کے بھنور سے خود کو باہر نکالتے ہوئے اس نے کہا۔ اسے ایسا لگا وہ بہت تھک گیا ہے۔ چند لمحوں کے لئے اس نے اپنی پلکیں بند کر لیں۔ پھر وہ اٹھ کر موری میں گیا۔ ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھویا۔ کپڑے بدلے اور بازار کی طرف نکل گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۳}

 

بازار میں وہ لب سڑک کھڑا رہا۔ دو تین پرائیوٹ گاڑیاں چپلون سے ہو کر آئیں مگر ان میں شریفہ نہیں تھی۔ سڑک کچی تھی اس لئے گاڑی کے آتے ہی سرخ مٹی کا بادل اٹھتا اور دیر تک فضا میں گلال بکھیر دیتا۔ عبد العزیز نے سوچا بہتر یہی ہے کہ دس پندرہ قدم پیچھے ہو کر برگد کے پیڑ کے سائے میں کھڑے ہو کر انتظار کرے۔

یہ پیڑ بہت پرانا تھا۔ اسکول کے دنوں میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کی چھاؤں میں بیٹھ کر شرارتوں کے منصوبے بنایا کرتا تھا۔ اسکول سے غیر حاضر رہنے کے بہانے بنایا کرتا تھا۔

اس نے دیکھا بازار میں چلتے پھرتے لوگوں کے ملبوسات، چہرے مہرے اور بول چال میں بڑی یکسانیت نظر آ رہی ہے۔ جس طرف وہ دیکھ رہا تھا۔ وہاں مسلمانوں کی دکانیں تھیں۔

آج برگد کے نیچے کھڑے رہ کر اس نے ماضی کے جھروکے سے اس کے بچپن کے دنوں کے بازار کو دیکھنا چاہا۔ لوگوں کی زندگی میں بے شمار رنگ تھے۔ سر پر گاندھی ٹوپیاں تھیں، گلابی پگڑیاں تھیں، داڑھیاں تھیں، بڑی مونچھیں تھیں، لمبے کرتے تھے، بنیان پہنے غریب لوگ تھے، دلت تھے، دھوتی پہنے کسان تھے، میلے گندے حمّال تھے، بھانت بھانت کے لوگ تھے، ہندو مسلمان عورتوں میں کوئی تخصیص نہ تھی۔ ساڑیاں، بلاؤز، چولیاں ہی عورتوں کا لباس تھا۔ مسلمان عورتیں منگل سوتر، پائل اور نتھ کا استعمال کیا کرتی تھیں۔ مسلمان اور ہندو مردوں کے لباس میں خاص فرق نہیں تھا۔ بول چال میں فرق نہیں تھا۔ گالیاں، لطیفے اور قصّے ایک جیسے تھے۔

لیکن آج اسے بڑی ندامت تھی۔ اب اس کے گانو اور آس پاس کے گانوں کا بڑا طبقہ سفید کرتا پائجامہ پہنے، ٹوپی اوڑھے، داڑھی میں نظر آ رہا تھا۔ مسلمان عورتیں کالے برقعوں میں چل پھر رہی تھیں۔ اب ہندو اور مسلمان لباس سے پہچانے جا سکتے تھے۔ پہلے ایسی تفریق کرنا محال تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ لوگ پہلے دین دار نہیں تھے۔ خدا کا ڈر اور ایمان پہلے بھی دلوں میں تھا۔

’’اس وقت ایمان نے اظہار کے غیر باطنی عناصر اختیار نہیں کئے تھے۔ ‘‘عبد العزیز کے دل میں یہ خیال آیا اوراسی کے ساتھ وہ سوچ کی موجِ رواں پر بہتا چلا گیا، گویا وہ انسان نہیں ایک تنکا ہو۔

وہ خود سے پوچھنے لگا اس کے غیر مسلم دوست ملیں گے تو کس قسم کے سوالات اس سے کریں گے۔ ان تبدیلیوں کے بارے میں وہ انھیں کیا جوابات دے گا۔ پھر اس نے سوچا اگر وہ خود برہمن یا دلت یا ادی واسی ہوتا تو اس طرح مقامی کلچر سے کٹ کر بالکل ہی غیر مانوس حلیے میں دوسروں کو دیکھتا تو ان کے بارے میں اس کا کیا تاثر ہوتا۔ اس کا ردّ عمل کیا ہوتا۔

بہت دیر تک وہ سوچتا رہا۔ اس کے پاس سوالات تھے۔ جن کے جوابوں سے وہ محروم تھا۔ آگے چل کر بہت ساری تبدیلیاں، بہت ساری تقریریں، بہت سارے فتوے اس کے سامنے آنے والے تھے۔ جو صرف اسے سوالات کے مزید ہولناک بھنور میں پھینکنے والے تھے۔ ان کے جوابات نہ اس کے پاس تھے نہ کسی اور کے پاس۔

ان تبدیلیوں کے بارے میں وہ جب بھی سوچتا وہ خود کو بہت اکیلا اور تنہا محسوس کرتا۔ رفیق ونو کے علاوہ اس کا کوئی ہم خیال نہ تھا۔ ان موضوعات پر وہ سکینہ سے تبادلۂ خیال نہیں کرتا تھا۔

ایک ایسا دن بھی آگے چل کر آیا جب اسے احساس ہوا کہ مسلمان تو وہ بھی ہے مگر اتنا زیادہ مسلمان نہیں کہ دوسرے اسے قبول کریں۔

’’کہاں کھوئے ہو عزیز۔ ۔ ۔ ‘‘چٹکی بجا کر شریفہ نے کہا۔ سوچ کی موجِ رواں سے وہ ابھرا۔ لیکن سطح آب پر وہ بہت بے وزن تھا۔

’’ارے …I was waiting …‘‘اس کی زبان سے ادا ہوا۔

’’وہ تو مجھے معلوم ہے، پر۔ ۔ ایس ٹی سے اتر کر راستہ پار کر کے میں یہاں تک آئی پر تمہارا دھیان…‘‘

’’بس یوں ہی۔ ۔ ۔ کم بخت کیا کیا خیالات آتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’تم بہت زیادہ سوچنے لگے ہو Thats very bad ‘‘

’’I cant help it out ‘‘

’’You should, dear ‘‘

وہ بازار سے نکل کر پہاڑی راستے سے گانو کی طرف جانے لگے۔ عبد العزیز نے تفصیل سے بتایا کہ وہ کن باتوں پر یکایک سوچنے لگ گیا تھا۔ شریفہ غور سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ جب وہ اپنی بات کہہ چکا تو شریفہ نے کہا ’’It is a social process اسے کوئی روک نہیں پائے گا۔ یہ Revival of relics ہے، جسے بنیاد پرست جڑوں کی طرف واپسی کہتے ہیں۔ یہ ایک phase ہے۔ اپنے ساتھ بہت ساری تباہی لا کر گزر جائے گا۔

We can not stop it.” ”

"Why can’t we?”

Because its a madness” ”

پھر دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔ گھنے پیڑوں کے درمیان سے وہ گزر رہے تھے۔ عبد العزیز کو ایسا لگا اس کے پیچھے پیچھے سارے درخت چلے آ رہے ہیں۔ سارے پیڑ اس سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹھہر گیا۔ اسے ایسا لگا سارا جنگل ٹھہر گیا ہے۔ وہ مڑا …اس نے ایک نظر درختوں کو دیکھا۔ ہر پیڑ اپنی جگہ کھڑا تھا۔ وہ پھر سے چلنے لگا …اسے ایسا لگا اس کے مڑتے ہی پیڑوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانا شروع کر دیا ہے۔

ایک روز یہی منظر اس نے اپنے خواب میں دیکھا۔ مگر اس خواب میں پیڑوں نے سفید کفن اوڑھ لیا تھا۔ ان کی شاخیں لمبے ہاتھوں میں بدل گئی تھیں۔ جن میں سعودی عرب کی سبز رنگ تسبیحیں تھیں۔ جو اندھیرے میں چمکتی ہیں۔ پھر یکایک وہ جیتے جاگتے انسانوں میں بدل گئے۔ ان آنکھوں میں زرد آگ کے شعلے تھے اور بعض کے ہاتھوں میں ’’الجہاد فی الاسلام و قصاصا لاخراء‘‘ نامی ایک کتاب تھی۔ سارے جنگل پر ان کا راج تھا۔ چھوٹے چھوٹے پیڑ پودے جو ان کے سائے میں تھے۔ وہ بے بس تھے۔ بعض ڈر سے بعض مجبوری سے، بعض احساس کمتری میں ان کی کامرانی کے لئے ترانے گا رہے تھے۔

یہ خواب ادھورا ہی رہا۔ اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ اسے بہت ملال ہوا کہ اس نے اس خواب کا انجام کیوں نہیں دیکھا۔ دوسری صبح وہ ڈاکٹر کے پاس اپنا بلڈ پریشر چیک کرانے گیا۔ ڈاکٹر نے یہاں وہاں کے سوالات کئے تو عبد العزیز نے اسے یہ خواب بتایا۔ ڈاکٹر نے ایک موٹی سی کتاب نکالی۔ اس میں دیر تک کچھ حصوں کو پڑھتا رہا۔ پھر کہا۔ ’’یہ خواب نہیں تمہارے دل کا ڈر ہے۔ ‘‘

’’ڈر خواب میں کیوں بدلتا ہے ؟‘‘اس نے ڈاکٹر سے پوچھا۔

’’Beca  پھر ام و قصاصا لاخرائuse we keep thinking about ‘‘ڈاکٹر نے کہا۔ اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھا اور پھر کہا ’’Please تم زیادہ مت سوچا کرو۔ ‘‘

’’I will try my best sir ‘‘اس نے ڈاکٹر سے کہہ تو دیا لیکن اس کے باوجود اس طرح کے خواب اسے اکثر و بیشتر پریشان کرتے رہے۔

٭

 

وہ گھر میں داخل ہوا۔ مہرون نے شریفہ سے ہاتھ ملایا۔ اسے سینے سے لگایا۔ پھر دونوں پڑی میں چلی گئیں۔ عبد العزیز وٹے دار کے آنگن میں سلیم کی سائیکل کی اتری ہوئی چین چڑھانے میں جٹ گیا۔

٭

 

کھانا کھانے کے بعد بہت دیر تک وہ بات چیت کرتے رہے۔ شریفہ کو یہ پڑی یاد تھی۔ اس نے شمیم کو بتایا کہ اس کی شادی کے وقت وہ یہاں آئی تھی۔ اس رات کی بہت ساری باتیں اسے یاد آئیں۔ خاص کر عبد العزیز کا اپنے ٹیچروں کا مذاق اڑانا۔ اسے عبد العزیز کا قہقہے لگا کر ہنسنا یاد آیا جسے پھر اس نے کالج کی ملاقاتوں میں کبھی نہیں دیکھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۴}

 

چار بجے شمیم نے چائے بنائی۔ تین پلیٹوں میں بسکٹ ایک میں میتھی کے لڈّو اور ایک میں حلوہ پیش کیا گیا۔ شریفہ نے بہ مشکل ایک لڈّو کھایا۔

چائے پینے کے بعد وہ گھر سے نکلے۔

عبد العزیز اسے سکینہ کے گھر لے گیا۔ اس نے پہلے ہی سکینہ کو بتا رکھا تھا کہ اتوار کی شام کو وہ شریفہ کو اس سے ملانے کے لئے لانے والا ہے۔ چوں کہ شریفہ کا ذکر وہ اکثر کیا کرتا تھا اس لئے سکینہ بھی چاہتی تھی کہ اس سے ملاقات کرے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۵}

 

سکینہ نے شریفہ کی بہت خاطر داری کی۔ دونوں میں کہیں کسی تلخی کا نام و نشان نہ تھا۔ سکینہ نے شریفہ سے کالج کے دنوں کے بارے میں بہت ساری باتیں پوچھیں۔ یقیناً ان میں سے بیشتر کا تعلق عبد العزیز سے تھا۔ چالیس منٹ کی اس بات چیت نے سکینہ کے دل میں شریفہ کے لئے ایک خاص مقام بنا دیا۔ شاید یہی سبب تھا کہ چند روز بعد اس نے عبد العزیز سے کہا۔ ’’شریفہ سے شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟‘‘

’’میں نے اسے بتا دیا ہے کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ ‘‘عبد العزیز نے دو ٹوک جواب دیا۔ جسے سن کر سکینہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی شروع ہو گئی تھی۔ اس شام وہ بہت دیر تک عبد العزیز کی بانہوں میں باہیں ڈالے روتی رہی۔ اور ایسا پہلی بار تھا کہ سکینہ کو رونے کا سبب بھی پتہ نہ تھا۔ عبد العزیز جانتا تھا ’’رونے سے نفس کی تطہیر ہوتی ہے۔ ‘‘اس لئے اس نے روکا بھی نہیں۔

اس شام کے بعد سکینہ نے اسے کبھی شادی کا مشورہ نہیں دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۶}

 

شریفہ کو رخصت کرنے کے لئے سکینہ بھی گانو کے آخری چھور تک آئی تھی۔ گلے مل کر آئندہ ملاقات کا وعدہ بھی کیا۔

سورج درختوں کی آڑ میں کھڑے ہو کر اپنی گلابی شعاعیں ان کے چہروں پر پھیلانے لگا۔ تب عبد العزیز نے کہا۔ ’’اب دیر نہیں کرنا چاہیے ورنہ پھر ایس ٹی وغیرہ پکڑنے میں دشواری ہو گی۔ ‘‘

سکینہ ان دونوں کو ڈھلوان سے نیچے درختوں کے درمیان گزرتے ہوئے دیکھتی رہی۔

وہ جوں ہی ایس ٹی اسٹینڈ پر پہنچے، بس چلنے ہی والی تھی۔ شریفہ فوراً سوار ہو گئی۔ بس آگے بڑھنے لگی تو پیچھے سرخ غبار پھیلا۔ شریفہ نے کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اسے بائے کہا۔ لال مٹی کے دھوئیں میں منظر دھندلا گیا۔

٭٭

 

اپنے ساتھیوں کو ایس ٹی میں بٹھا نے کے بعد یوسف سیدھے مدرسے گیا۔ ان کے سامان کو بیت الخلاء پر بنے چبو ترے پر ڈال کر اس پر ایک پرانی چادر ڈال دی۔ پھر کچھ دیر درس وتدریس کا معائنہ کرنے کے بعد وہ گھر کے لئے نکلا۔

اس کا گھر مدرسے سے پندرہ منٹ سے زیادہ دوری پر نہ تھا۔ لیکن اس شب اس کے قدم زمین پر اٹھنے کی بجائے رینگ رہے تھے۔ اس کی رفتار ہزاروں گناہ کم ہو گئی تھی۔ اس نے جیب سے رو مال نکالا۔ چہرے پر آیا پسینہ پونچھا۔ یہ پسینہ گرمی سے نہیں بلکہ اس کے خاکداں میں جاری زلزال کے سبب تھا۔

پچھلے ایک مہینے سے وہ غم گیں تھا۔ اداسی کی ایک موج اس کے سینے میں رہ رہ کر اپنا سر پٹک رہی تھی۔ اسے نرگسیت اور اقتدار کے حصول کے باوجود ساری دنیا بے معنی لگنے لگی تھی۔ اس کے دل میں بھنور سے بننے لگے تھے۔ جو دل کے دورے کا سبب بھی بن سکتے تھے۔ اس کے دماغ میں تشنج کے تاروں کا کرنٹ لگنے لگا تھا۔ جس کے سبب کئی بار اسے ایسا لگا۔ ۔ ۔ کہیں وہ نسیان کے مرض میں مبتلا تو نہیں ہو رہا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ جن باتوں کو وہ یاد کرنا چاہتا ان کی بجائے غیر ضروری باتیں اس کے دماغ میں ایک ساتھ اسکرین پر آ جاتیں اور وہ کنفیوژ ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ ہالے بن گئے تھے۔ شاید اس نے کوئی ایسا منظر دیکھا تھا جو اس کی روح پر بوجھ بن گیا اور بوجھ کے اس جھولے سے بوسیدہ برادہ اس کے بدن میں پھیل گیا تھا۔ اس برادے سے ہزاروں لاکھوں کیڑے مکوڑے نکلے اور اسے برادے میں بدلنے لگ گئے تھے۔

پہلے وہ بیگانگی کا شکار ہوا جس سے ایک خلش اس کے اندر پیدا ہوئی۔ یہ خلش بڑھتی گئی اور افسردگی تنہائی میں بدل گئی۔ کاش اس نے عبد العزیز کو سکینہ کے ساتھ اس کے نانا کی حویلی میں داخل ہوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔

٭٭٭

 

 

 

 {۲}

 

اس نے اندرونی کیفیت کو چہرے پر اجاگر ہونے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ خاص کر اپنے طلبہ کے درمیان…لیکن جوں ہی وہ ایکانت میں چلا جاتا اس کا بدن اسے کاٹنے لگتا۔ اسے ایسا لگتا فضا میں زہر گھل گیا ہے۔ اس کے ارد گرد بکھری کتابیں، الماریوں میں قید صحیفے اسے دیکھ کر اس کا تمسخر اڑاتے۔ اسے واقعی ان کے قہقہے سنائی دینے لگے تھے۔ اسے یوں لگتا ساری جلد بند کتابوں میں سے سیاہ رنگ الفاظ آزاد ہو کر اس کے اطراف رقص کر رہے ہیں۔ گویاکسی غیر مہذب قبیلے نے برسوں سے جاری جنگ جیت لی ہو۔ وہ خود کو مفتوح قبیلے کا مجروح ومقیدسپاہی سمجھنے لگا تھا۔ ہر شئے اس کی تحقیر میں اضافہ کئے دیتی تھی۔

’’انسان کے لئے سب سے اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب اسے یہ احساس ہو… جو وہ ہے …وہ…وہ نہیں ہے۔ ‘‘

یہ احساس آدمی کو اس کی ذات سے کاٹ دیتا ہے۔ یوسف بھی اس حالت میں مبتلا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 {۳}

 

وہ گھر کی طرف بڑھنے لگا تو عبد العزیز کا چہرہ اس کی آنکھوں میں دوبارہ لوٹ آیا۔

اس کے ساتھیوں نے اسے انرون آندولن کے ایک جلسے سے بے وقوف بنا کر پہلے سے طے شدہ مقام پر لایا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی تینوں نے اس کے منہ پر ایک چادر ڈال کر رسی سے اسے باندھ دیا تھا۔ پھر اُٹھا کر جنگل میں گھس گئے تھے۔

یوسف حیران تھا۔ عبد العزیز نے بالکل مزاحمت نہیں کی تھی۔ بلکہ یوسف کو دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 {۴}

گھنے جنگل میں پہنچنے کے بعد اسے زمین پر لٹایا گیا۔ چادر نکال کر صرف چہرے پر ایک چھوٹی سی گونی ڈال دی گئی۔ اس وقت بھی اس نے کوئی فریاد نہیں کی۔ چیخ و پکار نہیں کی …کسی طرح کا کو ئی احتجاج نہیں کیا۔ وہ خاموش رہا۔

جب یوسف کے اشارے پر اس پر پہلا وار کیا گیا البتہ اس وقت اس کی حلق سے ایک دل دوز چیخ نکلی …… ’’’اللہ‘‘‘‘

دونوں ساتھیوں نے ہڑ بڑا کر یوسف کی جانب دیکھا۔ یوسف نے خنجر اپنے ہاتھ میں لیا۔

درختوں نے کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔ پرندوں نے اپنے بچوں پر اپنے پر پھیلائے تاکہ وہ کسی بات کے گواہ نہ بنیں۔ دو ہرن جو کچھ دوری پر گھاس چر رہے تھے وہ ہوا کے دوش پر جنگل کے دوسرے سرے پر پہنچ گئے۔ نانیٹیو[سانپ کی ایک قسم ہے جو عام طور پر سات یا پانچ ایک ساتھ نکلتے ہیں ]وہیں قریب سے گزر رہے تھے۔ ڈر گئے۔ سراسیمگی میں جہاں جھاڑیاں نظر آئی۔ اس طرف لپکے۔ ان کا ایک ساتھی اس افراتفری میں کہیں چھوٹ گیا۔ جسے بعد میں انھوں نے بہت تلاش کیا پر وہ نہیں ملا۔

یوسف نے خنجر ہاتھ میں لیا۔ وہ انتظار کرتا  رہا کہ عبد العزیز معافی طلب کرے گا۔ اس حملے کا سبب پوچھے گا۔ قسمیں کھائے گا۔ اس کے ہاتھ پیر جوڑے گا۔ اس سے زندگی کی بھیک مانگے گا۔

پر ایسا نہ ہوا۔

عبد العزیز خاموش رہا۔ خون اس کے پیٹ سے بہہ رہا تھا۔ اس نے ایک بار اپنی گردن ہلائی۔ شاید سانس لینے میں اسے دشواری ہو رہی تھی۔ یوسف کو ایسا لگا اب وہ کچھ کہے گا۔

پر ایسا نہ ہوا۔

یوسف کی نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا مرنے والا احساس گناہ میں مبتلا ہو۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔ معافی مانگے۔ گڑ گڑائے روئے۔ چلائے۔

پر ایسا نہ ہوا۔

یوسف نے غصّے سے عبد العزیز کے سر پر لات ماری اور کہا۔ ’’کافروں کی وکالت کرتا  ہے …پردے کی مخالفت کرتا  ہے۔ ناچ گانے کو کلچر کہہ کر اس کی حمایت کرتا  ہے۔ دنیاوی تعلیم پر لوگوں کو اُکساتا ہے۔ ‘‘ اس کے جملوں اور منشا میں کوئی ربط نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا یہ جملے وہ اپنے ساتھیوں کو سنا نے کے لئے ادا کر رہا تھا۔ اس کے دل پر کسی زیادہ گہرے صدمے کا اثر تھا۔ جس کے وزن سے ان الفاظ کی تاثیر مفقود ہو گئی تھی۔ شاید اس کے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔ کوئی دوسرا منظر تھا۔ کوئی دوسری حکایت تھی۔

یو سف کے جوتے کی نوک عبد العزیز کی بائیں آنکھ پر لگی تھی۔ درد اس کے لئے نا قابل برداشت تھا۔ درد کی شدت کو کم کرنے کے لئے اس نے کروٹ لینے کی کوشش کی لیکن اس کے جسم نے اس کے فرمان کو قبول نہیں کیا۔ پیٹ سے خون بہہ کر سوکھے پتوں پر جم گیا تھا۔ کمر کی ہڈی پر اس نے مڑ نے کے لئے زور دیا تو خون دوبارہ تیزی سے بہنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سیاہ سمندر لہرانے لگا۔ چند لمحوں پہلے وہ سر کے گرد باندھی ہوئی گونی میں ہلکا اُجالا محسوس کر رہا تھا وہ بھی غائب ہو گیا۔ اُجالا شاید وہیں تھا۔ مگر اُجالے کو محسوس کرنے کی صلاحیت معدوم ہو گئی تھی۔

اس نے یوسف کے کسی جملے کو نہیں سنا۔

باہری دنیا اس کے لئے اندھیرے میں بدل گئی تھی اور ایک مختصر سے وقفے کے لئے اس کا دماغ روشن ہو گیا تھا۔ اس نے سکینہ کا چہرا دیکھا۔ موسلا دھار بارش میں متواتر بھیگا ہوا چہرا۔ ۔ ۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ پھر ہمیشہ ہمیش کے لئے غائب ہونے سے پہلے اس کے لبوں پر ایک الہامی مسکراہٹ ابھری۔ اس کے گلاب ہونٹ وا ہوئے۔ ’’میں ترے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ ‘‘

اتنا کہہ کر وہ چہرہ تاریکی کی جھیل میں ڈوب گیا۔ عبد العزیز کے چہرے پر آخری مسکراہٹ ابھری۔ اس کے ہونٹوں نے جنبش کی۔ ’’محبت کی ہر نشانی خطرناک ہوتی ہے۔ ‘‘یہ جملہ اس کے ذہن کی الماری سے نکل کر اس کی زبان کی نوک تک پہنچا، پر وہ اسے ادا نہ کر سکا۔

یوسف کو یوں لگا تھا اس کے جملے سن کر عبد العزیز جواب دے گا۔ اپنی غلطیوں کا اقرار کرے گا۔ آئندہ اس کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کرے گا۔ یوسف اس کے اقرار جرم کو سننے کے لئے بے قرار تھا تاکہ اس کے ساتھیوں کو یقین ہو جائے کہ یہ شخص واقعی ان سرگرمیوں کا محرک رہا ہے۔

پر ایسا نہ ہوا۔

ایسا کچھ نہیں ہوا جو یوسف کے ذہن میں تھا۔

عبد العزیز کی روح اس کے خاکداں سے پرواز کر چکی تھی۔

جھلاہٹ اور نفرت کی آگ میں یوسف کا سِر چکرا رہا تھا۔ اسے ماجرے کو طول دینے کی عادت نہ تھی۔ اس نے جھک کر عبد العزیز کی بائیں پسلی میں خنجر گھونپ دیا۔ ایک بار گھمایا اور نکالا۔ خنجر کے ساتھ ہی خون کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ خون کے اس فوارّے میں محبت کی کہانی محفوظ تھی۔ جسے ادھوری زندگی آج الوداع کہہ رہی تھی۔ اس کہانی کا سرورق اگر ہوتا تو شاید یہی ہوتا : ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی۔ ‘‘

سوکھے پتوں پر خون کے چھینٹے اڑے۔ وہاں جو بیلیں تھیں وہ گھبرا کر پیچھے ہو گئیں۔ چونٹیوں کا ایک قافلہ جو قریب سے گزر ر ہا تھا وہ تازہ خون کی مہک سے ساکت ہو گیا۔ دور تک ساکت بے حرکت چونٹیوں کی ایک قطار نظر آتی تھی۔ چند قدموں کی دوری پر ایک بڑے پتھر کے نیچے بچھّوؤں کا ایک لشکر تھا اس نے اپنے ڈنک کھڑے کیے۔

یوسف کے ایک ساتھی نے اپنے جھولے سے پانی کی بوتل نکالی۔ یوسف نے ہاتھ دھوئے۔ دوسرے ساتھی نے عبد العزیز کے ہاتھ کی نبض کو ٹٹولا۔ اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی۔ اس نے گردن اٹھا کر کہا ؛ ’’مرتد جہنم پہنچ گیا۔ ‘‘

تینوں کچھ دیر وہیں کھڑے رہے۔ جنگل پر ایک ابدی خاموشی طاری تھی۔

٭

 

یوسف گھر کی طرف بڑھنے لگا تو اسے یوں لگا وہی خاموشی جنگل سے نکل کر اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے۔

وہ گھر میں داخل ہوا۔ سکینہ وٹے دار میں ایک کرسی پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ مجاور حسین چند منٹ پہلے آ کر منگیلدار کی موری میں نہا رہے تھے۔

٭

 

اب وہ خاموشی یوسف کے چہرے پر چھا گئی تھی۔ اس نے بہت کوشش کی اس کے باوجود چہرے کے اُڑے ہوئے رنگ کو چھپا نہ سکا۔ بالآخر سکینہ نے اس سے پو چھا۔ ’’تو اتنا پریشان کیوں لگ رہا ہے ؟‘‘

’’تھک گیا ہوں …‘‘اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گیا۔

’’دماغ پر زیادہ زور مت دیا کر …‘‘سکینہ نے اس سے کہا۔

’’کبھی کبھی دل پر زور پڑنے سے بھی آدمی تھک جاتا ہے۔ ‘‘یوسف نے ماں کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

سکینہ نے مجاور حسین کی طرف دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ پھر خاموشی نے تینوں پر اپنے پر پھیلائے۔ چھت پر چاند نہیں تھا۔ باہر بہت اندھیرا تھا۔ آسمان کی بلندی پر سے دیکھیں تو یوں لگے گا، پورے گانَو کو ایک ابدی تاریکی نے لپیٹ لیا ہے۔ جو گانَو ہے، وہ۔ ۔ ۔ گانَو ہے ہی نہیں۔

دوسری طرف اس تاریکی میں املی کا پیڑ بہت خوش تھا کہ آج شگفتہ کی روح عذابِ زندگی سے آزاد ہو گئی تھی۔ وہ جگنو بن کر آسمانوں کی طرف اُڑ رہی تھی۔ املی کے پیڑ کو پتہ نہ تھا اب کس کی اداس روح اس کی شاخوں پر پناہ گزین ہونے والی ہے۔

٭٭٭

 

نوٹ:

۱) ناول کے تمام ابواب کے عنوان شکیب جلالی کی ایک غزل کے مصرعہ ثانی ہیں۔

۲) نیشنل ایوارڈ کی تفصیل : یکم اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز سنیچر،تا پڑیا ناٹیہ گرہ (اورنگ آباد ) میں یونیورسل سینٹر فور پیس اینڈ رسرچ کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اورنگ آباد کی میئر انیتا گھٹرے اور نقاد پروفیسر عتیق اللہ کے ہاتھوں رحمن عباس کو ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ پر ’نیشنل ایوارڈ برائے ادب‘ دیا گیا۔ اس تقریب میں اورنگ آباد کے پولس کمشنر سنجے کمار، مراٹھی اس کالرز سندیپ واسلیکر، وجئے دیوان اور ڈاکٹر شرد نکالے اسٹیج پر موجود تھے۔ اورنگ آباد کے اردو قلم کار نور الحسنین، عارف خورشید، اسلم مرزا، شاہ حسین نہری، ڈاکٹر سحر سعیدی، قاضی رئیس، عظیم راہی، اور محمد مقیم کے ساتھ ساتھ مراٹھوارہ یونی ورسٹی کے انگریزی ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر حمید نے تقریب کو رونق بخشی تھی۔ ( روزنامہ صحافت، روزنامہ ہندستان ممبئی اور ا یشیا ایکسپریس، اورنگ آباد)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید