فہرست مضامین
ایک محبت سو افسانے۔۔تنقیدی جائزہ
تحقیقی مقالہ برائے ایم۔اے ادبیاتِ اردو
لالا رخ خان
سال 2004
باب اوّل: اشفاق احمد سوانح اور شخصیت
پیدائش :
معروف دانشور، ادیب، ڈرامہ نگار، تجزیہ نگار، سفر نامہ نگار اور براڈ کاسٹر جناب اشفاق احمد خان بھارت کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان (پٹھان گو) کے گھر 22 اگست 1925ء کو بروز پیر پیدا ہوئے۔
تعلیم :
اشفاق احمد کی پیدائش کے بعد اُن کے والد ڈاکٹر محمد خان کا تبادلہ خان پور سے فیروز پور ہو گیا۔ اشفاق احمد نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز اسی گاؤں فیروز پورسے کیا۔ اور فیروز پور کے ایک قصبہ مکستر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بقول اے حمید:
"اشفاق احمد کا حویلی نما آبائی مکان محلہ ہجراہ واری پتی میں واقع تھا۔ اس ایک منزلہ مکان کے سامنے ایک باڑہ تھا جس میں گھوڑے بھینس اور دوسرے جانور بندھے رہتے۔ اسی قصبے مکستر کے اسکول میں اشفاق احمد نے 1943ءمیں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
اشفاق احمد نے ایف۔ اے کا امتحان بھی اسی قصبہ فیروز پور کے ایک کالج "رام سکھ داس ” سے پاس کیا۔ اس کے علاوہ بی۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیروز پور کے "آر، ایس،ڈی "RSDکالج سے پاس کیا۔
قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد اپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور (بھارت) سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ پاکستان آنے کے بعد اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور کے "شعبہ ارد و ” میں داخلہ لیا۔ جہاں کل چھ طلباء و طالبات زیر تعلیم تھے۔ کالج میں انگریزی کے اساتذہ اردو پڑھایا کرتے تھے۔ کتابیں بھی انگریزی میں تھیں،جبکہ اپنے وقت کے معروف اساتذہ پروفیسر سراج الدین، خواجہ منظور حسین، آفتاب احمد اور فارسی کے استاد مقبول بیگ بدخشانی گورنمنٹ کالج سے وابستہ تھے۔اور یہ سب اشفاق احمد کے استاد رہے۔
اُس زمانے میں بانو قدسیہ (اہلیہ اشفاق احمد ) نے بھی ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا۔جب بانو نے پہلے سال پہلی پوزیشن حاصل کی تو اشفاق احمد کے لیے مقابلے کا ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا۔ انھوں نے بھی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ آخر میں اشفاق احمد اوّل نمبر پر رہے۔ جبکہ بانو قدسیہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی
” یہ وہ دور تھا جب اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں اردو کی کلاسیں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں۔”
شادی:
جن دنوں اشفاق احمد گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم۔ اے اردو کے طالب علم تھے۔ بانو قدسیہ ان کی ہم جماعت تھی۔ ذہنی ہم آہنگی دونوں کو اس قدر قریب لے آئی کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔
بانو قدسیہ فیروز پور مشرقی پنجاب ( بھارت ) میں 28نومبر 1928ءمیں پیدا ہوئی۔ بچپن اور لڑکپن وہیں گزارا۔ قیام پاکستان کے ہجرت کر کے لاہور میں آ کر قیام کیا۔
اشفاق احمد ایک کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد ایک قابل محنتی اور جابر پٹھان تھے۔ جس کی مرضی کے خلاف گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ گھر کا ماحول روایتی تھا۔ بندشیں ہی بندشیں تھیں۔ اُن کے والد ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے حق میں نہ تھے لیکن ان دونوں کی شادی کا مقصد صرف حصول محبت نہیں تھا۔ بلکہ قدرت کو علم کے متوالوں کو یکجا کرنا مقصود تھا۔ جو کہ وقت نے ثابت کر بھی کر دیا۔ بقول ممتاز مفتی:
"اس نے جوانی میں روایت توڑ محبت کی اسے اچھی طرح علم تھا کہ گھر والے کسی غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ گھر میں اپنی محبت کا اعلان کرنے کی اس میں کبھی جرات پیدا نہ ہو گی اس کے باوجود ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ محبت میں کامیاب ہو گیا۔ اگر چہ شادی کے بعد اُسے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔”
ملازمتیں :
اشفاق احمد نے ایم اردو میں داخلہ سے قبل ہی ریڈیو پاکستان میں "اناونسمنٹ ” شروع کر دی تھی۔ جہاں انھیں ۸۰روپے ملتے تھے۔ بقول اے حمید:
” قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد جب لاہور منتقل ہوئے تو مالی حالت دگرگوں تھی۔ لہٰذا میٹرک کی سند دکھا کر محکمہ ریلوے میں ملازمت حاصل کر لی جہاں صرف ایک دن گزار سکا۔ اس کے بعد مہاجرین کیمپ میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن سودی خانہ میں گزارا اور اگلے دن ایک اور شعبہ میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اس کی ڈیوٹی لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اناؤنسمنٹ پر لگا دی گئی۔”
اس کے بعد ایم۔ اے کے دوران ریڈیو آزاد کشمیر سے بھی وابستگی رہی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی انھوں نے ریڈیو میں ۳۰۰روپے ماہانہ پر کچی نوکری کر لی مگر گھر والوں کے دباؤ پر نوکری چھوڑ کر پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ اس کے بعد جب ایم۔ اے اردو کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کر لیا تو انہیں عابد علی عابد نے لیکچر ار بھرتی کروا دیا۔یوں وہ دو سال تک "دیال سنگھ کالج ” میں پڑھاتے رہے۔
"اسی دوران اٹلی میں اردو پڑھانے اور براڈ کاسٹر کی اسامی نکلی تو یہ دونوں صلاحیتیں اُن میں موجود تھیں۔ حصول سیٹ کی تحریک کا امتحان پاس کرنے پر وہ اٹلی چلے گئے۔”
اس طرح اشفاق احمد 1953ءمیں روم یونیورسٹی اٹلی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے اور سابقہ ریڈیو روم سے پروگرام بھی کرنے لگے اور یہاں رہ کر انہوں نے اٹلی کی زبان بھی سیکھ لی۔
پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ایک ادبی مجلہ”داستان گو” کے نام سے جاری کیا۔ جو اردو کے چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دو سال تک ہفت روزہ "لیل و نہار” کی ادارت بھی کی۔ 1972ءمیں مرکزی ارد و بورڈ کے ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے جو بعد ازاں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہو گیا وہ 1979ءتک اس ادارے سے وابستہ رہے۔
اس کے علاوہ صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی رہے۔
اشفاق احمد اور ریڈیو کی دنیا:
تاریخ کے اوراق دہرائے جائیں تو یقیناً ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اشفاق احمد کا نام الگ اہمیت کا حامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے اشفاق احمد کی خدمات بیش قیمت ہیں انہوں نے 1949ءکے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اور دیکھتے دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے "اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جس محنت، لگن اور محبت کے ساتھ اس نے افسانے لکھے اسی محنت اور لگن کے ساتھ ریڈیو کے لیے لکھا۔” (۱)
ریڈیو کی دنیا میں اشفاق احمد کا لازوال شاہکار "تلقین شاہ” ہے جو 30 برس بعد بھی اسی طرح مقبول خاص و عام رہا جس طرح پہلے تھا۔ "تلقین شاہ” ریڈیو پاکستان کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکتا رہا اور اشفاق احمد کے فن کو نکھار بخشتا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیچر کی کامیابی میں اشفاق احمد کی ادائیگی کا بہت عمل دخل ہے۔بقول ا ے حمید:
” جب تک تلقین شاہ کا فیچر ریڈیو پر نشر ہوتا رہتا لوگ ریڈیو سیٹ سے الگ نہیں ہوتے تھے۔ آج بھی جب ریڈیو پاکستان کے کسی سٹیشن سے یہ فیچر نشر ہوتا ہے تو اس کی تازگی اور شادابی روز اوّل کی طرح قائم و دائم رہتی ہے۔” (۲)
1956ءمیں اشفاق احمد نے باقاعدہ طور پر "تلقین شاہ” کا ہفتہ وار پروگرام شروع کیا۔یہ پروگرام دو کرداروں "تلقین شاہ” اور” ہدایت ” پر مشتمل تھا۔
"تلقین شاہ” کی کامیابی ایک اوریجنل ادیب اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کی کامیابی تھی۔ اس فیچر میں اشفاق احمد کی باریک بین نظر اپنے معاشرے کے کرداروں کے روزمرہ معمولات کا گہرا مشاہدہ اور اس کی ہمدردی بھر ا طنز عروج پر ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ میں جو کردار تخلیق کیے وہ ہمارے معاشرے کے سچے کردار ہیں۔ تلقین شاہ کا فیچر سنتے ہوئے اور اس کے کرداروں کو بولتے ہوئے سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مختلف کرداروں کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ اشفاق احمد کے قلم اور ایک بھر پور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کے فن کا کمال ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ محض ہنسی مذاق کے لیے نہیں لکھا بلکہ اس غرض سے لکھا کہ ہم اپنی خامیوں سے آگاہ ہوسکیں۔
اس طرح اپنے ریڈیائی فیچر "ٹاہلی دے تھلے ” میں اشفاق احمد نے پاکستان کے دیہاتی افراد کی خوشیوں اور ان کے مختلف مسائل کی بڑی جامع تصویر کشی کی "یہ پاکستانی معاشرے کی بڑی سچی تصویریں تھیں جو ریڈیو کے ذریعے ہمارے دل و دماغ میں نقش ہوتی چلی گئیں۔”(٣) اپنے افسانوں کی طرح اشفاق احمد نے اپنی ریڈیائی تخلیقات کے ذریعے بھی ہمیں ہماری خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ کیا۔
” یہ حقیقت ہے کہ اشفاق احمد نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کو اپنی اعلیٰ ترین ادبی تخلیقات دیں۔ "تلقین شاہ” "ٹاہلی دے تھلے ” "اچے برج لاہور دے ” اور دوسرے کئی ریڈیائی فیچر اور ڈرامے۔ اگر ریڈیو پاکستان لاہور کی ادبی وراثت کا کوئی تذکرہ لکھا گیا تو اشفاق احمد کی تخلیقات کا شمار ریڈیو کے ادب عالیہ میں ہو گا۔”(١)
اشفاق احمد نے ریڈیو کے لیے اصلاحی سکرپٹ بھی لکھے اور پروپیگنڈہ سکرپٹ بھی لکھے۔ لیکن کسی مقام پر بھی اُس نے ادب اور اسلوبِ تحریر سے انحراف نہیں کیا۔ ہر انسان خواہ بنیادی طور پر وہ ادیب ہو، تخلیق کار ہو تو اس کی کوئی بھی تحریر ادبی دائرے سے باہر نہیں رکھی جا سکتی۔ "اشفاق احمد ادب کے انشاپرداز اور تخلیق کار ہیں۔ وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر لکھنے سے پہلے اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے ادب میں نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے۔” (٢)
اشفاق احمد کی شخصیت میں ایک کشش اور جاذبیت ہے۔ اُس کا ہر ریڈیائی سکرپٹ ایک مکمل اور مضبوط ادبی سکرپٹ ہوتا تھا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے کئی دوسرے نامور ادیبوں نے بھی بہت کچھ لکھا مگر اشفاق احمد کے مقام تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ قدرت نے اشفاق احمد کو ادب تخلیق کرنے کے لیے بنایا تھا۔ اور جب کوئی صلاحیت اللہ کی طرف سے ملی ہو تو اس کا سرچشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا اور لکھنے والا بڑی بے ساختگی اور روانی سے لکھتا ہے۔
اشفاق احمد کا ریڈیو کا زمانہ ان کا اور ریڈیو دونوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اشفاق احمد زندگی کی تمام تر توانائیوں سے بھر پور ایک زندہ دل، خوبصورت اور صحت مندسوچ رکھنے والے ادیب تھے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا برصغیر میں ایک اہم مقام بن چکا ہے۔
” ریڈیو کے لیے وہ اسی یک سوئی اور لگن سے لکھتا جس طرح وہ نقوش یا ادب لطیف کے لیے کوئی افسانہ لکھتا تھا۔”(٣)
اشفاق احمد کے ریڈیو کے آرٹسٹوں کی ایک پوری ٹیم تھی جس کو انہوں نے پوری ٹریننگ دی ہوئی تھی۔ اس میں چند ایک تو اپنے زمانے کے مشہور ریڈیو آرٹسٹ تھے۔ مثال کے طور پر آفتاب احمد، مظہر حسینی، اور محمد حسین وغیرہ۔ لیکن جو نو آموز آرٹسٹ تھے وہ بھی اشفاق احمد کے زیر تربیت رہ کر بڑے مشاق آرٹسٹ ہو گئے تھے۔
اسی طرح اشفاق احمد کے پنجابی فیچر "اچے برج لاہور دے ” نے بھی ریڈیو پر کامیابی کا لوہا منوایا۔ یہ فیچر لاہور شہر اور اس کے آس پاس کے دیہات کی سوشل زندگی کے روزمرہ مسائل کے بارے میں تھا۔ اشفاق احمد کے بعد کے پنجابی ریڈیائی ڈراموں اور فیچروں میں مزاح کا رنگ جگت بازی کی حد تک پہنچ گیا۔ مگر اشفاق احمد کا ہر سکرپٹ اس قسم کے مزاح سے پاک ہوتا تھا۔ اس کے پاس مزاج کے برخلاف طنز کے نشتر تھے۔ اس کا طنز آدمی کے دل پر اثر کرتا تھا۔ ریڈیو کے اردو ڈراموں میں اشفاق احمد نے اپنے ادبی معیار کو برقرار کھا۔”اس کے ریڈیو ڈرامے فنی اور ادبی اعتبار سے مکمل اور پختہ ہوتے تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں اس کی عمر میں اتنی پختگی نہیں آئی تھی مگر یہ ان خداداد صلاحیتوں کا کمال تھا۔ اور خدا داد صلاحیتوں کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔” (١)
جب ریڈیو پاکستان پر پروگراموں کی ریکارڈنگ ہونے لگی تو اس کے کچھ عرصے بعد اشفاق احمد نے اپنی کوٹھی میں ہی ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنا لیا۔ یہ ان کا شوق تھا۔ وہ "تلقین شاہ” کی ریکارڈنگ اپنے گھر یلو سٹوڈیو میں ہی کرتے اور پروگرام کا پور ا پیکج بنا کر ریڈیو پاکستان لاہور کودے دیتے تھے۔ چونکہ اشفاق احمد ریکارڈنگ وغیرہ کے تمام تکنیکی شعبوں سے واقف تھے۔ اس لیے پروگرام کی ریکارڈنگ اور کوالٹی کبھی خراب نہیں ہوتی تھی۔ گھریلو سٹوڈیو میں وہ صرف اپنے فیچر ” تلقین شاہ” کی ریکارڈنگ ہی کرتے تھے۔ ان کے اردو اور پنجابی کے مکمل دورانئے کے ڈرامے لاہور ریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیو میں ریکارڈ کیے جاتے تھے۔
لاہور ٹیلی وژن اسٹیشن ٹائم ہونے سے پہلے ہی اشفاق احمد نے ریڈیو کے واسطے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور ان کے ریڈیائی فیچر اور ڈرامے سن کر ایسا لگتا تھا جیسے اس کے ریڈیائی سکرپٹس میں اس کے افسانوں کے کردار بو ل رہے ہوں۔ اور بقول اے حمید :
” افسانوں کا سچا اور طاقتور ماحول نظر آتا تھا۔ چارپائیاں مرمت کرنے والوں سے لے کر کوٹھیوں کے پچھلے برآمدوں میں بٹھائے ہوئے پرانی وضع کے بات بات پر تنقید کرنے والے بوڑھے ملتے تھے۔” (٢)
اشفاق احمد اور ٹیلی وژن:
جس وقت لاہور کے ٹیلی وژن نے کام کرنا شروع کیا تو 1964ءکے اواخر کا زمانہ تھا۔ ریڈیو لاہور اپنی نئی عمارت میں منتقل ہو چکا تھا۔ اور اشفاق احمد کا فیچر "تلقین شاہ” اپنے عروج پرتھا۔ 1965ءمیں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو اشفاق احمد کے ریڈیو فیچروں اور ڈراموں اور خاص طور پر "تلقین شاہ” میں قومی اور حب الوطنی کا جذبہ کھل کر سامنے آیا۔ تلقین شاہ فیچر کے ذریعے اشفاق احمد نے محاذ جنگ پر لڑتے اپنے بہادر جوانوں کے سینوں میں جذبہ ایمانی کا ایک نیا ولولہ پیدا کیا اور ا س محاذ پر بھی اُس نے اپنے قومی کردار کا پورا پور ا حق ادا کیا۔
1965ءکی جنگ کے بعد اشفاق احمد ریڈیو سے دور اور ٹیلی وژن کے زیادہ قریب تر ہو گئے۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب وہ پورے کے پورے ٹیلی وژن کے ہو کر رہ گئے۔ اور ریڈیو کے ساتھ ان کا رشتہ تلقین شاہ کی حد تک باقی رہ گیا۔ ٹیلی وژن کے لیے لکھتے ہوئے اشفاق احمد کو محسوس ہوا کہ ان کے بیان کے لیے جو وسعت درکار تھی وہ انہیں مل گئی۔ ریڈیو پر ان کی جن پوشیدہ صلاحیتوں کو آواز کی لہروں نے محدود کر رکھا تھا ٹیلی وژن نے انہیں ایک بحر بیکراں سے ہم کنار کر دیا۔
” جس جوش اور جذبے کے ساتھ اشفاق احمد نے قیام پاکستان کے فوراً بعد افسانے لکھنے شروع کیے تھے۔ اسی جذبے اور جوش کے ساتھ وہ ٹیلی وژن کے لیے لکھنے لگا۔” (١)
اشفاق احمد نے جب پاکستان ٹیلی وژن کے لیے لکھنا شروع کر دیا تو ان میں خداداد صلاحیتوں کی کمی نہیں تھی۔ ٹیلی وژن کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اشفاق احمد کے حقیقی جوہر ٹیلی وژن پر آ کر کھلے۔ ٹیلی وژن کے لیے انھوں نے جو فیچر اور ڈرامے لکھے ان کی تعداد پونے چار سو کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل سب سے زیادہ مشہور ہوئے۔
۱)توتا کہانی
۲)ایک محبت سو افسانے
۳)اور ڈرامے
۴)کاروان سرائے
۵)حیرت کدہ
۶)من چلے کا سودا
۷) بند گلی
۸) تلقین شاہ
۹) اچے برج لاہور دے
۱۰)ٹاہلی دے تھلے
اس کے علاوہ اشفاق احمد نے ٹیلی وژن کے لیے عام دورانیے اور طویل دورانیے کے ڈرامے بھی لکھے ہیں جو بہت پسند کیے گئے۔ اپنے آخری دور میں اشفاق احمد کے ڈراموں پر تصوف کے فلسفے کا رنگ بہت گہرا ہو گیا تھا۔ اور اس کے کردار طویل مکالمے بولنے لگتے تھے۔
"کسی نے اشفاق احمد پر اعتراض کیا کہ آپ کے ڈراموں کے کردار فلسفیانہ رنگ کے طویل مکالمے بولتے ہیں۔ اس پر اشفاق احمد نے جواب دیا۔ کہ کبھی آپ نے شکسپیئر کے ڈرامے پڑھے ہیں اگر اس کے ڈراموں کے کردار ایک ایک منٹ کے مکالمے بول سکتے ہیں تو میرے ڈراموں کے کردار بھی بول سکتے ہیں۔” (١)
یہ ایک حیرت انگیز بات تھی اور یہ خوشگوار حادثہ صرف اشفاق احمد کے ساتھ ہی ہوا جو کہ ایک چیلنج بھی تھا جسے اشفاق احمد نے قبول کیا۔ ریڈیو اور ٹی وی جیسا سب جانتے ہیں کہ سرکاری ادارے ہیں اور ان کی ایک خاص پالیسی ہوتی ہے اور ہر ادیب کو یہاں کچھ اصول و قواعد کے اندر رہ کر لکھنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں اشفاق احمد نے یہ کمال دکھایا کہ ایسے ایسے نادر اور یگانہ روز گار ڈرامے لکھے کہ یوں محسوس ہوتا تھا وہ ادبی رسالوں کے لیے افسانے اور ڈرامے لکھ رہے ہوں۔
” ٹیلی وژن کو اُس نے اپنے ڈراموں کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایسے ایسے کردار عطا کیے جنہوں نے لوگوں کو مسحور کر لیا۔ دیکھنے والوں کو شاید پہلی بار احساس ہوا کہ وہ ٹیلی وژن پر اپنے آپ کو چلتا پھرتا باتیں کرتا دیکھ رہے ہیں۔” (٢)
"ایک محبت سو افسانے ” اشفاق احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹی وی ڈراموں کی سیریز بھی انہوں نے اسی نام سے لکھی۔اور اس سیریز کے ڈراموں نے بڑی شہرت حاصل کی۔
"لوگ ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہونے سے پانچ دس منٹ قبل ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ جتنی دیر تک ڈرامہ نشر ہوتا کوئی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔” (٣)
بعد میں یہی ڈرامے نئے اداکاروں پر رنگین فلمبند کر کے ٹیلی وژن پر ایک دفعہ پھر پیش کیے گئے تو اس بار بھی یہ ڈراموں کا ایک مقبول ترین سلسلہ ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ ان کی سیریز "تو تا کہانی "،”حیرت کدہ” اور "کاروان سرائے ” کے ڈراموں میں بھی اشفاق احمد کا فن اور اس کی فنی اور تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کے ٹی وی ڈراموں میں فلسفیانہ خیالات اور تصوف کا اثر نمایاں ہوتا گیا۔ یہ ان کے طبعی رجحان کا تقاضا اور ان کے فن کے فطری عمل کا نتیجہ تھا۔ صوفیانہ اثرات شروع ہی سے ان پر غالب رہے۔ جیسے جیسے ان کی ادبی تخلیقات کی عمر بڑھتی گئی تصوف کا اثر گہرا ہوتا گیا۔یہاں تک کہ ٹیلی وژن کے ڈراموں میں ان کے بعض کردار جو فلسفیانہ موشگافیاں کرتے وہ عام بلکہ خاص آدمیوں کی سمجھ سے بھی باہر ہوتیں۔ لیکن اشفاق احمد اپنی روش پر قائم رہے۔ اپنے نظریات کے وفادار رہے۔ اور یہی ایک بڑے ادیب کی شا ن ہوتی ہے۔بقول اے حمید:
” ایک بار میں نے اس سے کہا تھا کہ تم اپنے ڈراموں میں تصوف کے جس فلسفے کا طویل طویل لیکچروں کے ذریعے اظہار کرتے ہو وہ میری سمجھ سے باہر ہوتا ہے مگر میں تمہیں اس کے اظہار سے کبھی نہیں روکوں گا۔”
اشفاق احمد نے ٹیلی وژن پر "تلقین شاہ ” کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا جس کی سب سے بڑی وجہ اشفاق احمد کی کیمرے کے سامنے جھجک تھی۔ ریڈیو میں بھی اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے ریکارڈنگ کے وقت کسی باہر کے آدمی کو سٹوڈیو میں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
اشفاق احمد کا ڈرامہ سیریل "من چلے کا سودا ” تصوف کے موضوع پر ایک انوکھی کاوش تھی۔ اس ڈرامے نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ فنی اعتبار سے اشفاق احمد کا یہ ڈرامہ انتہائی مکمل اور حد کمال تک پہنچا ہوا ہے۔ اشفاق احمد اگر اپنے ڈراموں کو کتابی شکل میں چھاپتے تو پڑھنے والے پر وہ اثر نہ ہوتا جو ڈرامے دیکھنے سے ہوتا ہے۔بقول اے حمید:
” میرے خیال میں اشفاق احمد نے اپنا آدھے سے زیادہ ادبی ٹیلنٹ ریڈیو ٹی وی کی نذر کر دیا ہے۔ ہماری ایک نسل اس کے ڈراموں کو ضرور یاد رکھے گی۔ اس کے بعد کی نسل اس سے محروم ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر اشفاق احمد "تلقین شاہ” کے کردار کو ایک ناول کی شکل میں بیان کرتا تو میری رائے میں اس کا درجہ جدید اردو ادب کے ناولوں میں فسانہ عجائب سے کسی طرح کم نہ ہوتا۔” (٢)
اشفاق احمد اور سفر نامہ نگاری:
افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے صنفِ سفر نامہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ وہ بڑے کامیاب سفر نامے لکھ سکتے تھے لیکن اُس نے اس صنف پر پوری توجہ نہیں دی۔ اشفاق احمد کا ایک بہترین سفر نامہ "سفردرسفر ” کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے اور کتابی شکل میں موجود ہے۔
"سفر درسفر ” اشفاق احمد کا پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں سیاحت کا سفر نامہ ہے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ کچھ ادیب اور شاعر دوست بھی ان کے ہمسفر تھے۔ جن میں مسعود قریشی اور ممتاز مفتی کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
” یہ سفر نامہ بھی ہے اور وطن پاک کے شمالی علاقہ جات کے حسین مناظر پر لکھا گیا رپورتاژ بھی ہے۔” (٣)
"سفر در سفر ” میں اشفاق احمد کی حسن ظرافت طنز کے کٹیلے نشتروں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ جب اس کی کسی بات پر پڑھنے والا قہقہہ لگاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہنس رہا ہے۔ اشفاق احمد کے سفر نامے "سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
” یہ دیکھ کر مجھے ندامت ہوئی کہ میں کھا رہا ہوں اور یہ بابا مکھیاں جل رہا ہے۔ میں نے کہا "باباجی آپ نماز پڑھیں ” بابا بولے "آپ کھاؤ ” میں نے کہا "مجھے شرمندگی ہو رہی ہے آپ جا کر نما ز پڑھیں "۔ وہ مسکرا کر بولے کوئی بات نہیں آپ کھانا کھاؤ ” میں نے کہا "قضا ہو جائے گی ” بابا ہنس کر بولے "نماز کی قضا ہے مگر بیٹا خدمت کی کوئی قضا نہیں، آپ آرام سے کھاؤ۔” (١)
اشفاق احمد نے ایک اور سفر نامہ اپنے اٹلی کے قیام پر لکھا ہے۔ جس کا عنوان "سوادرومتہ الکبریٰ” ہے۔ اس سفر نامے میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک تخلیق کار اور مکمل ادیب کے سفر نامے میں موجود ہوتی ہے۔
اشفاق احمد نے ایک سفر نامہ ایک مضمون کی شکل میں لکھا ہے اور اس میں اُن کے قیام نیویارک کے احوال درج ہیں۔ اس سفر نامے میں نیویارک کے شہر کی سچی اور حقیقی تصویریں دکھائی دیتی ہیں جو کہ اشفاق احمد کے فن کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
ایک مکمل ادیب جب سفر نامہ لکھتا ہے تو اس کا انداز کچھ اور ہوتا ہے وہ قاری کو اپنے آپ سے الگ نہیں ہوتے دیتا۔ وہ قاری کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔ اور جس زمین کی سیر کرتا ہے وہاں کے کچھ ایسے پوشیدہ مناظر دکھاتا ہے جو قاری کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اور جنہیں دیکھنے کے بعد قاری وہاں کے لوگوں کی سرشت ان کی ذہنیت اور ان کے باہمی تعلقات کی خامیوں اور خوبیوں سے اس طرح واقف ہو جاتا ہے کہ جیسے اُن لوگوں میں کئی برسوں سے وہ رہا ہو۔
اشفاق احمد کے سفر ناموں میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے سفر نامے میں اپنی ذات کو بھی شامل کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے کی ذات کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
"داستان گو ” کا زمانہ:
"داستان گو” وہ رسالہ تھا جسے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے مل کر نکالا۔ یہ ایک پاکٹ سائز رسالہ تھا۔ یعنی قمیص کی جیب میں آسانی سے آ جاتا تھا۔ اس رسالے پر اشفاق احمد کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس میں فیچر نما مضمون”حیرت کدہ” کے عنوان سے ہر ماہ چھپتا۔ یہ سچے آسیبی واقعات ہوتے تھے۔ جو کسی نہ کسی کے ساتھ گزرے ہوتے تھے بعد میں اشفاق احمد نے اسی عنوان سے ٹیلی وژن پر ڈراموں کی ایک سیریز بھی لکھی جو بہت پسند کی گئی۔
"اس رسالے میں ادب کے علاوہ سائنسی معلومات،شکاریات، آسیبیات، نفسیات، مزاحیات ہر قسم کا مواد چھپتا تھا۔ مگر کوئی بھی چیز غیر معیاری نہیں ہوتی تھی۔”(١)
اشفاق احمد نے "داستان گو ” کے معیار کو بہترسے بہتر اور منفرد سے منفرد بنانے کے لیے اتنی ہی محنت کی جتنی اس نے افسانے لکھنے کے لیے اور بعد میں ریڈیو ٹی وی ڈرامے لکھنے کے لیے کی تھی۔” میر شکاری” کے قلمی نام سے انہوں نے شکاریات کے جو قصے لکھے وہ ادب کا ایک حصہ بن گئے۔ مگر کتابی صورت میں شائع نہ ہو سکے۔ اس رسالے میں اشفاق احمد کے کچھ مزاحیہ مضامین بھی چھپے۔ جو خاص ان کے اپنے انداز میں لکھے گئے تھے۔
"داستان گو” کا ایک کارنامہ اس کا ناولٹ نمبر ہے۔ جس میں منٹو، شوکت تھانوی، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، اے حمید، اشفاق احمد قراة العین حیدر اور عزیز احمد کے ناولٹ شامل تھے۔ یہ ناولٹ نمبر واقعی ایک یادگار نمبر ہے۔ لیکن داستان گو زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔ اور آخر کار بند ہو گیا۔ اس رسالے میں شائع ہونے والی اشفاق احمد کی تخلیقات کو اگر کتابی صورت میں شائع کیا جاتا تو یہ مرقع بھی اشفاق احمد کے ادب عالیہ میں شمار کیا جاتا۔
بانو قدسیہ:
اشفاق احمد گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم۔اے اردو کے طالب علم کی حیثیت سے پڑھ رہے تھے کہ بانو قدسیہ نے بھی وہاں داخلہ لیا۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ کی ادبی ذوق سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بات شادی تک پہنچ گئی۔
اشفاق احمد نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف بانو قدسیہ سے شادی کی جس کی وجہ سے انھیں اپنے خاندان سے علیحدہ ہونا پڑا۔
بانو قدسیہ کو افسانہ نگاری کا شوق بچپن سے تھا مگر جو کچھ لکھا ضائع کر دیا تاہم شادی کے بعد اشفاق احمد جیسا ساتھی نصیب ہوا تو باقاعدہ چھپنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
” بانو کا پہلا افسانہ "درماندگی شوق” سن 1965ءمیں ادب لطیف لاہور میں شائع ہوا جبکہ اشفاق احمد کا پہلا افسانہ "توبہ ” 1964ءمیں "ادبی دنیا ” لاہور میں شائع ہوا تھا۔”(٢)
بانو قدسیہ نے افسانوں، ڈراموں اور ناول کی صورت میں ادبی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا۔ حکومت پاکستان نے 1983ءمیں بانو قدسیہ کی ادبی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز (برائے ادب ) دیا جو کہ حکومت پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے۔
بانو قدسیہ کے افسانوں کے معروف مجموعوں میں سے "بازگشت ” "امر بیل” "کچھ اور نہیں ” "دانت کا دستہ ” اور "ناقابلِ ذکر ” شامل ہیں۔ جنہیں 1985ءمیں "توجہ کی طالب ” کے نام سے کلیات کی صورت میں سنگ میل لاہور نے چھاپا۔
بانو قدسیہ نے ناولٹ اور ناول بھی لکھے ہیں۔ "ایک دن "”موم کی گلیاں ” وغیرہ ناولٹ ہیں جبکہ "شہر بے مثال "” راجہ گدھ”اور "حاصل گھاٹ” ان کے ناول ہیں۔ "راجہ گدھ ” ایک ایسا فکری ناول ہے جس نے بانو کے ادبی قد کاٹھ میں بہت اضافہ کیا۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ناول ایک منفرد اور اچھوتے اسلوب کا حامل ہے جس میں دوسرے ناولوں سے الگ تکنیک استعمال کی گئی ہے۔
بانو قدسیہ نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز اشفاق احمد کی رفاقت میں ہی شروع کیا اور اشفاق احمد کو اس کا کریڈیٹ یوں جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی ادیب بیوی کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس کی صلاحیتوں کو فطر ی طور پر آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے یہی وجہ ہے کہ آج بانو قدسیہ کا ادب میں ایک الگ مقام ہے۔
اشفاق احمد تصوف کی دنیا میں :
اشفاق احمد کی تحریروں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ کہ اُن کے ابتدائی دور کی تحریروں میں محبت کا رنگ غالب ہے۔ یعنی اُن کے افسانوی مجموعے "ایک محبت سو افسانے ” پر محبت کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ لیکن ان کے آخری دور کی تحریریں اور خصوصاً ڈراموں میں اُن کا رجحان تصوف کی طرف مائل نظر آتا ہے۔
جب تک قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی زندہ رہے اشفاق احمد کا تذکرہ اُن کے ساتھ آتا رہا۔ اور جوں ہی ان تینوں کا ذکر آتا تصوف کے حوالوں سے عجیب و غریب مباحث چھڑ جاتے۔ اشفاق احمد میں یہ خوبی تھی کہ وہ ایسا فقرہ بول دیتے کہ مقابل چونک پڑتا تھا۔
” ممتاز مفتی نے خود کئی مافوق الفطرت واقعات لکھ کر اپنے گرد ایک دھند کا دائرہ سا بنا لیا تھا۔ یہی حیلہ اشفاق احمد نے کیا۔” (١)
اشفاق احمد کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے اچانک ظاہر یا پھر غائب ہو جانے والے "بابے ” فکشن کی ضرورت کے تحت آتے ہیں۔ تاہم اشفاق احمد کا اصرار رہا کہ ان کا وجود ہے اور جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں حقیقی زندگی میں روحانی سطح پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اشفاق احمد نے اسی فکری مواد پر مشتمل کئی ڈرامے بھی لکھے جن کو ٹیلی وژن پر بڑی مہارت سے پیش کیا گیا۔ "من چلے کا سودا ” ایسے ہی ڈراموں میں سے ایک ہے۔ اچھوتے موضوع اور فکری مواد کی وجہ سے ڈراموں کا یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور اشفاق احمد لوگوں کو اپنی اس فکری جہت کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔بقول اے حمید:
” اخبارات اور رسائل کے لیے جب اشفاق احمد انٹرویو دیتے یا پھر تقاریب میں گفتگو کرتے تو اس میں حیرت کا عنصر ضرور شامل ہو جاتا۔ اشفاق کے حوالے سے عجیب و غریب واقعات اخبارات کی زینت بننے لگے۔اور یوں اس کی ذات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ تاہم یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ روحانیت اور تصوف سے متعلق لوگوں کی وہ ہمیشہ کھوج میں رہتا ہے۔” (١)
مصروفیات اور اعزازات :
اشفاق احمد نے اپنی زندگی میں ہر حوالے سے اپنے آپ کو مصروف رکھا اور مسلسل کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ افسانے لکھے اگرچہ کم لکھے لیکن خوب لکھے۔ ٹیلی وژن اور ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھے۔ اور کمال کے لکھے۔خود ریڈیو پر "تلقین شاہ ” کی حیثیت سے صدا کاری کی اور ایسی کی کہ ہر پروگرام نے مسلسل نشر ہونے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اخبارات میں انٹرویو دیئے اور نئے نئے سوالات اٹھائے۔ نہ صرف سنجیدہ ادب لکھا بلکہ طنز و مزاح میں بھی طبع آزمائی کی۔بقول اے حمید:
” ہیمنگوے کی ” A Farewell to Arms”کا انگریزی سے اشفاق احمد نے "وداع جنگ” کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جو دو جلدوں میں شائع ہوا۔ اسی طرح "ازرتاشی "کے ناول "The Golden Hawks”کا ترجمہ ©”چنگیز خان کے سنہرے شاہین” اور ہیلن شکیئر کی تراشی صفحات کی کتاب” Getting along with others”کا ترجمہ "دوسروں سے نباہ ” کے نام سے کیا۔ شاعری بھی کی "کھٹیا وٹیا "اس کی آزاد پنجابی نظموں کا مجموعہ ہے جسے سنگ میل لاہور نے 1988ءمیں پہلی مرتبہ شائع کیا۔” (٢)
اشفاق احمد کو اعزازات سے بھی خوب نوازا گیا حکومتی سطح پر اشفاق احمد کو ان کی بے مثل اور لازوال خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان نے ایک دفعہ "ستارہ حسن کارکردگی ” (پرائڈ آف پرفارمنس ) اور دوسری بار پاکستان کا سب سے بڑے سول اعزازسے نوازا جو حیثیت و اہمیت میں "نشان حیدر” کے مقابل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں اُن کے لیے سب سے بڑا اعزاز آج لاکھوں دعاؤں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔
علاوہ ازیں اشفاق احمد کئی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ممبر رہے جن میں سے چند ایک کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
۱) ممبر انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجیز، قائد :۔اعظم یونیورسٹی اسلام آباد۔
۲) ممبر پاکستان کورسسز کمیٹی بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور۔
۳) ممبر تعلیم بالغاں سوسائٹی گوجرانوالہ
۴) ممبر بورڈ آف سٹڈیز ( پنجابی)پنجاب یونیورسٹی لاہور۔
۵) ممبر ( مرکزی باڈی ) اکادمی ادبیات، پاکستان۔
۶) ممبر ہجرہ کمیٹی اسلام آباد، پاکستان۔
۷) ممبر ترقی اردو بورڈ کراچی۔
۸) ممبر ( مرکزی کمیٹی برائے پاکستان ) برکلے اردو پروگرام برکلے یونیورسٹی، امریکہ
۹) ممبر نیشنل کونسل آف دی آرٹس، اسلام آباد، پاکستان۔
۱۰) مدیر اعلیٰ ( اعزازی ) ماہنامہ "سکھی گھر ” لاہور۔
اشفاق احمد کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے طبقے کے اندر ایک دانشور کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اور ان کی بات کو دھیان سے سنا جاتا اور اہمیت دی جاتی ہے۔
شخصیت:
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ظاہر و باطن دونوں دنیاؤں کا مطالعہ کیا جائے۔ کیونکہ شخصیت کی تعمیر میں جہاں جبلی اور فطری عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔وہاں خاندانی خصائص اور اردگرد کے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے۔ شخصیت محض گوشت پوست کی چلتی پھرتی ہوئی مورتی کا نام نہیں بلکہ اس میں فرد کی شخصی کوائف اور باطنی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ دونوں کے امتزاج سے شخصیت کا وجود مکمل ہوتا ہے۔ اور اگر شخصیت ایسی ہو جس کا اظہار اس کے تخلیقی فن پاروں میں بھی ہو تو پھر ان فن پاروں کی صحیح تقسیم و تحسین کے لیے داخلی اور خارجی زاویوں سے شخصیت کا مطالعہ اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم اس ضرورت کے پیش نظر جامع طور پر اشفاق احمد کی شخصیت کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
اشفاق احمد ایک کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ بھائیوں میں ایک کے سوا سب سے چھوٹے تھے۔ باپ ایک محنتی،قابل اور سخت مزاج آدمی تھے۔ جن کی مرضی کے خلاف گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ اس کے باوجود اشفاق احمد کی شخصیت میں بنیادی طور پر پٹھانیت کا عنصر مفقود تھا۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ کہ اشفاق احمد کی شخصیت میں دکھ اور چپ کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔بقول ممتاز مفتی :
” گزشتہ دو ایک سال سے اشفاق احمد نے بڑی دھوم مچا رکھی ہے وہ جگہ جگہ مجمع لگائے کھڑا ہے۔ ریڈیو پر، ٹی وی پر محفلوں میں، سماجی گٹ ٹو گیدر میں عوام اس کے پروگرام کا انتظار کرتے ہیں۔ دانشور اس کے ڈراموں پر بحث کرتے ہیں۔بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ رنگین اور منفرد باتوں کے جال بن کر مجمع لگانے والا در حقیقت گونگا ہے۔ اس کی شخصیت دکھ اور چپ کے تانے بانے سے بنی ہے اس کی بزم آرائی اور زعفران زاری شخصیت کے ان بنیادی عناصر سے فرار کی سعی ہے۔”(١)
اشفاق احمد ایک ایسے انسان تھے کہ جب وہ اکیلے بیٹھے ہوتے تھے تو اس کے چہرے کے خطوط نیچے کی طرف ڈھلک جاتے تھے۔ پیشانی کی سلوٹیں رینگ رینگ کر باہر نکل آتی تھیں۔ آنکھیں اندر کی طرف ڈوب جاتی تھیں اور چہرے پر اکتاہٹ ڈھیر ہو جاتی تھی۔بقول ممتاز مفتی :
” اگر آپ اس کی شخصیت کے بنیادی عناصر سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو اسے اُس وقت دیکھیئے جب وہ اکیلے میں بیٹھا ہو۔ جب اسے یہ احساس نہ ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر اسے ذرا بھی شک پڑ گیا تو اس کے اندر کی بنی سجی طوائف خاتون ہوشیار ہو جائے گی۔” (٢)
چونکہ اشفاق احمد کی شادی والدین کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی اس لیے شادی کے بعد مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔ اس وقت انتہائی بے سہارا تھے اور بے وسیلہ گھر کا چولہا جلانے کے لیے انھیں سکرپٹ رائٹر بننا پڑا۔ اشفاق احمد کو اس کاروبار میں صرف کامیابی حاصل نہ ہوئی بلکہ شہرت بھی ملی۔
اشفاق احمد واقعی ایک ٹیلنٹیڈ فنکار تھے۔ان کی ٹیلنٹ کا مرکز آنکھ اور کان تھے۔ خصوصاً وہ زیادہ سننے والے اور دیکھنے والے تھے۔ان کا ذہن ہر تفصیل کو ریکارڈ کر لیتا اور ان کا نطق اسے من و عن ری پروڈیوس کر سکتا تھا۔
اشفاق احمد سارا سارا دن کتابوں کے انبار میں بیٹھے رہنے والے ادیب تھے۔ بے دکھ کے مارے ہوئے۔ بے وجہ چپ تلے دبے ہوئے۔ ایک وحشت بیدار ہوتی۔ لہک کر وہ سنہرے پھل بوٹوں والا چغہ پہن لیتے۔ چغہ پہنتے ہی چہرے کے زاویئے اوپر کو ابھر آتے۔ہونٹوں پر روغنی تبسم کھلنے لگتا اور چٹکیاں بجاتے ہوئے گھرسے نکل جاتے اور اوپن ائیر تھیٹر میں پہنچ جاتے۔ وہاں ڈگڈگی بجاتے۔ گھنگرو چھنکاتے۔ مجمع لگاتے۔ رنگین باتوں کے جال نکالتے۔ گنگناتے۔ گاتے ڈرامے کھیلتے۔ قہقہے لگاتے خود ناچتے دوسروں کو نچاتے لیکن یہ دور تھوڑی دیر کے لیے ہوتا۔ اس کے بعد وہی تنہائی۔ وہی دکھ وہی چپ۔ یہی اشفاق احمد کی زندگی تھی۔
اشفاق احمد کی شخصیت میں ہفت رنگی عناصر پیدا ہو چکے تھے۔ ایک بے نیاز صوفی بابا۔ رکھ رکھاؤ سے سرشار۔ ایک دنیا دار۔ خود نمائی سے بھرپور۔ پتھر کا بنا ہوا دیوتا۔ دوسروں کو نصیحتیں کرنے والا ایک "تلقین شاہ”۔ اپنے منوانے والا گھرکا مالک۔ اور سن کر جذب کرنے والے ایک عظیم کان تھے۔ بیگم اس سوچ میں کھوئی رہتی کہ عجز و ادب و احترام اور دنیا داری کا کونسا نیا مرکب ایجاد کیا جائے جس کی ذریعے ان کو ڈھب پر لایا جا سکے۔ ان کے دل میں انفرادیت کی ایک کلی کھلی ہوئی تھی وہ چاہتے تھے کہ کوئی انوکھی بات کرے۔ انوکھا کام کرے اور انوکھی خبر سنا کر دنیا کو حیران کر دے۔بقول ممتاز مفتی
"اشفاق احمد ایک پرفیکشنٹ ہے وہ جو کام کرتا ہے اس کے اندر دھنس جاتا ہے۔ اس قدر اندر دھنس جاتا ہے کہ لت پت ہوئے بغیر باہر نہیں نکلتا۔ مثلاً جب وہ ماڈل ٹاون میں مکان بنا رہا تھا تو کوئی ایک ماہ کے لیے معمار بن گیا چنائی اور پلستر کے کاموں کے اندر دھنس گیا۔ جب وہ مکان میں نلکے لگوا رہا تھا تو آٹھ روز برانڈ رتھ روڈ کے چکر لگا تا رہا۔ اس نے تمام ٹونٹیاں دیکھیں۔ کس کس کا منہ کھلا ہوا ہے کس کس کا منہ بند ہے۔ کس کا واشر مضبوط ہے آٹھ دن کی تحقیق کے بعد وہ ٹونٹیوں پر تفصیلی مقالہ لکھ سکتا تھا کہ پاکستانی کارخانوں کی بنی ہوئی ٹونٹیوں کے کیا کیا خواص ہیں۔ یہ تفصیلات اکٹھی کرنے کے بعد اُس نے مکان کے نلکوں کے لیے ٹونٹیاں خریدیں۔” (١)
اشفاق احمد کو کباب بنانے اور کھانے کا بہت شوق تھا۔ قیمہ کیسا ہونا چاہیئے، مصالحہ کیسا ہونا چاہیئے۔ آنچ کیسی ہو اور کتنی ہو۔ سب کے متعلق معلومات رکھتے تھے۔ میاں بیوی مل کر کباب سازی کی مشق کرتے تھے۔ وہ اکثر دوستوں کو مدعو کرتے تھے خود کباب بناتے اور دوست کھاتے جاتے تھے۔
اشفاق احمد کو شریفانہ قسم کا غصہ نہیں آتا تھا۔ غصہ تو آتا تھا لیکن غصے میں بھڑک کر جلنے کی عشرت سے محروم تھے۔ وہ چڑ چڑ کرتے تھے۔سلگتے اور بل کھاتے رہتے۔ اپنی تخلیق میں اشفاق احمد کسی دوسرے فرد کو کریڈیٹ میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ تمام تر کریڈیٹ لکھنے والے کا حق ہے۔ اگر کوئی اُسے کہتا کہ یار تیرے ٹی وی ڈرامے میں فلاں شخص نے اچھا رول کیا تو یہ بات اُسے ناگوار گزرتی تھی۔ فوراً جواب میں کہتے ہاں اُس نے خاصا کام کیا بڑی ڈھونڈ کے بعد یہ لڑکا تلاش کیا تھا۔ ریہرسل میں آیا تو بالکل کچا تھا بڑی محنت کرنی پڑی۔ خیر نبھا گیا۔ کریڈیٹ دینے میں اشفاق احمد کٹر بنیا تھے۔
اشفاق احمد ایک باغ و بہار انسان تھے۔ خوش گفتار دوست تھے۔ بظاہر نرم مگر اندر سے بڑے سخت گیر تھے۔ چڑ چڑ کرنے والے خاوند تھے۔ کام اپنی مرضی کے مطابق کرتے تھے۔ اور افسر کو یہ احساس دیتے تھے کہ اُن کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ پسینہ بہانے والے کامی تھے۔ منہ زبانی مرد تھے۔ ایک عظیم پراپگینڈسٹ تھے۔ اثر ڈالنے کے بادشاہ تھے۔ سلف سفیشنٹ تھے۔اشفاق احمد نے بانوقدسیہ کی تخلیقی قوتوں کو سچے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ ادبی میدان میں بانو کی حیثیت اشفاق احمد سے بلند تر ہے۔ اگر کوئی بانو کی تخلیق کاری کے بارے میں کہتا تو کہہ دیتے کہ اچھا لکھتی ہے۔ لیکن یار بڑی مغزماری کے بعد اسے یہاں لایا ہوں اب بھی میرے فقرے چراتی رہتی ہے۔بقول ممتاز مفتی :
"اشفاق احمد کو اپنے رنگ میں دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیے جب وہ کچھا بنیان پہنے درخت کی چھاؤں میں کھاٹ پر بیٹھا کچھ کھا پی رہا ہو۔ اشفاق کھانے کا رسیا ہے بشرطیکہ کھانا من بھاتا ہو وہ پسند کی چیز کھاتا ہے اور پھر بسیار خوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب وہ کھا رہا ہو تو اندر کی طرف طوائف بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ اس انہماک سے کھاتا ہے کہ گردو پیش معدوم ہو جاتے ہیں۔” (١)
اشفاق احمد ذات کے مستری تھے۔ انھیں مشینوں سے محبت تھی۔ ا ن کے گھر میں مشینوں اور اوزاروں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہوتی تھی۔ دکان میں نئے گیجٹ کو دیکھ کر بچے کی طرح مچل جاتے اسے غور سے دیکھتے اس کے ورکنگ کو سمجھنے کی کوشش کرتے اس سے کھیلتے رہتے اور پھر اس کو خریدنے کے لیے تڑپتے اور جب تک خرید نہ لیتے چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ اشفاق احمد نے اپنے گیراج میں ایک ورکشاپ بنا رکھی تھی۔ جو تمام اوزاروں اور سامان سے لیس ہوتی تھی۔ فارغ وقت میں اشفاق احمد اپنی مشینوں کو باہر نکالتے۔ پیار سے صاف کرتے تیل گریس لگاتے۔ کل پرزے چیک کر لیتے۔ کوئی خرابی ہوتی تو اُسے دور کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اُن سے گاڑی مانگتا تو کبھی نہ دیتے بلکہ خود کو ڈرائیور بنا کر پیش کر دیتے تھے۔
اشفاق احمد اینٹی سوشل نہیں صرف سوشل آدمی تھے۔ انہوں نے کئی بار شدت سے محسوس کیا کہ انہیں سوشل بننا چاہیئے اور بقول ممتاز مفتی :
"کئی بار میاں بیوی نے بیٹھ کر سوشل بننے کا پروگرام بنایا کہ شام کو سوشل وزٹ کیا کریں گے آج ان کے ہاں کل اُن کے ہاں۔ انھوں نے قابل وزٹ لوگوں کی ایک لسٹ بنائی۔ بازار سے ایک جامع کتاب خریدی جس میں سوشل گفتگو کی تفصیلات درج تھیں۔ سوشل آداب درج تھے۔ ایک مہینے کی تیاری کے بعد جب عمل کا موقع آیا تو ایک ہفتہ وزٹ کرتے رہے۔ آٹھویں دن دونوں بیٹھے آہیں بھر رہے تھے مشکل کام ہے۔ اشفاق نے کہا۔ بات نہیں بنی بانو نے جواب دیا۔ الٹا بگڑ رہی ہے۔ اشفاق احمد نے کہا اور سوشل پروگرام ختم ہو گیا۔”
الغرض اشفاق احمد ایک اچھے ادیب، وفادار دوست، پر خلوص مہمان نواز، خوش طبع، خوش گفتار، خوددار، ہمدرد، محبت کی خوشبوئیں بکھیرنے والے اور سارے عالم انسانیت اور تمام تر مخلوقات سے دلی محبت اور شفقت کرنے والے انسان تھے۔
وفات:
اشفاق احمد کچھ عرصے سے علیل تھے۔وہ پتے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ یہی مرض جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 79 برس کی عمر میں 8 ستمبر 2004ء کو دن 9 بجے بروز سوموار اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
داستان سرائے کا ایک دیا بجھ گیا۔ تلقین شاہ چلا گیا۔ ہدایت سو گیا اور ہمارا روحانی پیشوا دور اُس پار بہت دور ہم سب کو یتیم کر کے کہیں چھپ گیا۔
ع: "ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ”
تصانیف:
اشفاق احمد اردو ادب کی تاریخ میں ایک چمکتے ہوئے ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تصانیف کی بدولت اردو ادب کے دامن کو مالا مال کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق احمد کی تصانیف اردو ادب کے لیے بے مثال اور لازوال سرمایہ ہے ں۔ اردو ادب میں اپنے تصانیف کی بدولت اشفاق کا نام تا حیات زندہ و تابندہ رہے گا۔ اشفاق احمد کو اگر اردو ادب کا نادر سرمایہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اشفاق احمد کی تصانیف میں افسانے، ناول، ٹی وی ڈرامے، ریڈیائی ڈرامے، فیچر اور سفر نامے شامل ہیں۔ اشفاق احمد کے لازوال اور شاہکار تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔
اجلے پھول، ایک محبت سو افسانے، وداع جنگ، ایک ہی بولی، سفر مینا، صبحانے فسانے، ایک محبت سو ڈرامے، توتا کہانی، بند گلی، طلسم ہوش افزا،اور ڈرامے، ننگے پاؤں، مہانسرائے، حیرت کدہ، شالہ کوٹ، من چلے کا سودا، بابا صاحبا، سفر در سفر، اچے برج لاہور دے، ٹاہلی تھلے، کھیل تماشا، گلدان، حسرتِ تعمیر، جنگ بجنگ، کھیل کہانی، زاویہ، گرما گرم لطیفے وغیرہ۔
باب دوم: اردو افسانہ بیسویں صدی میں
پس منظر :
افسانہ کیا ہے۔ شاید آج تک کوئی بھی نقاد اور افسانہ نگار اس کی جامع تعریف نہ کر سکا۔ اگر چہ مختلف نقاد اور افسانہ نگار اپنے انداز میں برابر اس صنف کی تعریف کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں مغربی نقاد اور مصنفین بھی شامل ہیں اور مشرقی بھی۔ لیکن اس سے پہلے ہم افسانے کے پس منظر سے آگاہی حاصل کر لیں کہ وہ کونسے حالات تھے جس نے افسانے کو جنم دیا۔
"یورپ کی صنعتی ترقی نے انسان کی مصروفیت میں مسلسل اضافہ کیا۔ اس کا اثر جہاں زندگی کی دوسرے شعبوں میں پڑا، وہاں ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مصروفیت میں گھر ے ہوئے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی چیز پڑھے جو کہ نہایت مختصر وقت میں اس کے ذوق کی تسکین و تشفی اور جذباتی، نفسیاتی اور تفریحی تقاضوں کو پورا کر سکے۔ مختصر افسانہ اسی ضرورت کی پیداوار ہے۔” (١)
افسانہ کے لیے انگریزی میں (Short Story)اور (Fiction)کے الفاظ استعمال کیے جا تے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد مختصر وقت میں پڑھی جانے والی کہانی ہے۔ مختلف نقادوں اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر یہ اتنی جامع نہیں ہیں اس سلسلے میں مغربی ادیب ایڈ گر ایلن پو افسانے کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
” یہ ایک ایسی نثر ی داستان ہے جس کے پڑھنے میں ہمیں آدھے گھنٹے سے دو گھنٹے کا وقت لگے۔” (٢)
اسی طرح معروف مشرقی نقاد سید وقار عظیم مختصر افسانے کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ ان کی یہ تعریف مشرقی نقادوں میں اہمیت کی حامل ہے وہ کہتے ہیں۔
” مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر داستان کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص کردار، ایک خاص واقعہ، ایک تجربے یا تاثر کی وضاحت کی گئی ہو نیز اس کے پلاٹ کی تفصیل اس قدر منظم طریقے سے بیان کی گئی ہو کہ اس سے تاثر کی وحدت نمایاں ہو، افسانہ عصری قدروں کی ترجمانی کرتا ہو۔” (١)
ہماری خاص خاص اصناف نظم و نثر میں مختصر افسانے کی عمر سب سے چھوٹی ہے۔ یعنی اس کا پورا سرمایہ کم و بیش اسی (80) سال کی ادبی سرگرمی اور کاوش کی تخلیق ہے۔ مختصر افسانے نے ایک صنف ادب کی حیثیت بیسویں صدی کے بالکل شروع میں جنم لیا اور اس وقت سے لے کر اب تک اتنی شکلیں بدلیں کہ ادب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ صورت حد درجہ غیر معمولی اور حیرت انگیز بھی ہے لیکن پہلی نظر میں حیرت و استعجاب کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس وقت کم ہونے لگتی ہے جب مطالعہ کرنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ جس معاشرتی اور سیاسی فضا میں مختصر افسانے نے جنم لیا وہ بھی اس درجہ غیر معمولی تھا کہ اس کی آغوش میں جنم لینے اور پرورش پانے والی صنف ادب میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی تو حیرت انگیز ہوتی۔
"1857ءکے انقلاب سے جن دو سیاسی قوتوں، دو تہذیبوں اور معاشروں کے تصادم کا آغاز ہوا تھا اس نے بیسویں صدی کے شروع تک پہنچتے پہنچتے اجتماعی زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہر فرد حیران و سرگرداں حالات کی کشمکش میں گرفتار کٹھ پتلی کی طرح ادھر ادھر پھرتا تھا اور اُسے فرار کی کوئی راہ نظر نہ آتی تھی۔ حالات کی کشمکش اور بے یقینی نے سیاسی جماعتوں کو نئے نصب العین بنانے پر مجبور کر دیا۔” (٢)
10 مئی 1857ءکو میرٹھ میں مقیم فوج (BRD Cavalary)نے بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کا فوری سبب یہ تھا کہ 85 فوجیوں کو ایک عدالتی فیصلے کے مطابق دس سال کی قید با مشقت دی گئی تھی۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنی بندوقوں میں ایسے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن کے سروں پر گائے اور سور کی چربی شامل تھی۔ مسلمانوں کے نزدیک سور ایک نجس اور ناپاک جانور ہے جبکہ ہندو گائے کو ماتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کا یہ خیال تھا کہ اس چربی کے استعمال کا مقصد محض ان کے دین کو خراب کرنا ہے۔
اس کے بعد قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا اور انگریزوں کے خلاف باقاعدہ بغاوت کا آغاز ہوا۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس ملک میں انگریزوں کا اقبال بام عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی غروب ہو جائے گامگرافسو س کہ جنگ میں ہندوستانیوں کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو نظر بند کر کے جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اور یوں مسلمانوں کی ہندوستان پر حکومت تاریخ کا حصہ بن گئی۔
1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی صرف ایک سیاسی حادثہ نہ تھا جس کے اثرات انتظام حکومت تک محدود رہتے۔ جبکہ اس واقعے کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط پر مہر ثبت کر دی گئی۔
اور یوں معاشرتی،سیاسی، تعلیمی، تہذیبی،معاشی حوالے سے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے انھیں حریف کا درجہ دے دیا گیا۔ دوسری طرح انگریز کے ساتھ تعاون مسلمانوں کے خیال میں ایک گناہ کبیرہ تصور کیا جانے لگا اور یوں انگریز کا سارا عتاب مسلمانوں کے سروں پر نازل ہوا۔
ان حالات میں جب مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تعلیم اور تہذیب کی شدید مخالف کی جا رہی تھی۔سرسید ایک نئی آواز بن کر ابھرے ان کے خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیئے۔ جس مقصد کے لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس نے بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کی اور یہ تعلیمی تحریک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کا سبب بنی۔
مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی اور ادبی ترقی میں سب سے بڑا سبب علی گڑھ تحریک بنی۔ اس دور میں ان تحریکوں اور افکار نے ہندوستانیوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور آہستہ آہستہ ایسے ادارے اور جماعتیں وجود میں آئیں۔ جن کا نصب العین سیاسی جدوجہد کے ذریعے انگریز سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ ابتدائی دور میں ہندو اور مسلمان اکھٹے رہے لیکن کانگرس کے امتیازی سلوک کی بدولت مسلمانوں کو مجبوراً اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا۔ 1902ءمیں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر بہت بڑی سیاسی جماعت بن گئی اور آخر کار پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
انگریز خود تو پرامن طریقے سے یہاں سے رخصت ہوا لیکن آزادی کے نام پر جو خون ریزی ہوئی اور جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے انھوں نے دونوں مملکتوں ہندوستا ن اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوئے۔ دوسری طرح نوزائیدہ حکومتوں کے لیے مہاجرین کا سیلا ب جیسے مسائل بہت بڑے چیلنج کی صورت میں سامنے آئے۔اور پھر بعد میں بننے والے پاکستان معاشرے کے مسائل بے روز گاری، صنعتی ترقی، عورتوں کی تعلیم، زرعی نظام، کسانوں کی حالت ان سب کا ذکر ہمارے افسانہ نگاروں کے ہاں موجود ہے۔
مختصر یہ کہ افسانہ 1857ءسے 1947ءتک کے انتشار کے زمانے میں پیدا ہوا اور اس انتشار کی وجہ سے زندگی کا صحیح عکاس بن کر سامنے آیا۔ اس اجمال کی تفصیل بڑی واضح لیکن بڑی دلخراش ہے۔
افسانے کا ارتقاء:
بیسویں صدی کا سورج ابھرا تو جدید انسان نے اپنے سامنے امکانات کا ایک وسیع سمندر موجزن دیکھا دنیا نئی نئی کروٹیں لےر ہی تھی۔ سماجی اور معاشرتی ڈھانچے میں تغیرات اور عالمی سطح پر ہونے والے انقلابات انسانی فکر و نظر پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہے تھے۔ ادب جو انسانی زندگی اور کائنات کے ادراک کا حسیاتی ذریعہ ہے ایسی صورتحال میں نئے موضوعات، ہیئتوں اور اصناف کے رنگوں میں انسانی جذبات کے اظہار کے اسالیب اور ادراک کے قرینے مرتب کر کے زندگی میں حقائق کی تخلیق کر رہا تھا۔
اس ضمن میں مختلف اصنافِ ادب کی نسبت اردو افسانہ اس بنا پر زیادہ اہمیت کا حامل قرار پاتا ہے کہ یہ صنف اس پوری صدی پر محیط نظر آتی ہے۔ کہ پہلی مرتبہ ایک ایسی نثری صنف نے جنم لیا جس کی محفلیں مشاعروں کے ڈھب پر منائی گئیں اور "شامِ افسانہ” یا "محفل افسانہ” جیسی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
اردو زبان میں مختصر افسانہ مغربی ادب کے اثر سے آیا۔ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں مختصر افسانے سے پہلے ناول، تمثیلی قصے اور طویل افسانے لکھے گئے۔ اور جب وہاں زندگی کی کشمکش بڑھی۔ انسان کے لئے فرصت اور فراغت کم ہوئی تو مختصر افسانہ نگاری کا رواج ہوا۔ مختصرا فسانہ ایسی افسانوی صنفِ ادب ہے جو زندگی، کردار یا واقعہ کے کسی پہلو کو مکمل طور پر اس طرح پیش کرتی ہے کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ یعنی افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جو آدھ گھنٹے سے لے کر ایک یا دو گھنٹے کے اندر پڑھی جا سکے اور کسی شخصیت کی زندگی کے اہم اور دلچسپ واقعے کو فنی شکل میں پیش کرے۔ جس میں ابتداء ہو، درمیان ہو، عروج اور خاتمہ ہو اور قاری پر ایک تاثر پیدا کرے، افسانہ ایک حقیقت پسندانہ صنفِ ادب ہے۔ انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سماج اور فطرت کی طاقتوں سے انسان کی کشمکش اس کا موضوع ہے۔
اردو میں مغربی انداز کے حقیقت پسندانہ قصے تو انیسویں صدی ہی میں لکھے جانے لگے تھے اور مولانا محمد حسین آزاد نے "نیرنگ خیال‘ ‘ کی شکل میں تمثیلی رنگ کے قصے لکھے۔ لیکن جدید تحقیق کے مطابق علامہ راشدالخیری کے افسانے "نصیر اور خدیجہ” کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیا گیا ہے۔ (١)
اردو میں باقاعدہ افسانہ نگاری کی روایت میں بیسویں صدی کے رسالوں "مخزن” "زمانہ” اور "ادیب” کا بڑا ہاتھ رہا۔ منشی پریم چند، سلطان حیدر جوش اور سجاد حیدر یلدرم نے اردو میں افسانے کے بہترین نمونے پیش کئے۔
بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری بھی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے یہ سارے ادیب ترکی یا انگریزی افسانہ نگاری سے متاثر تھے ان کے افسانوں میں زبان و بیان کی طاقت اور نفسیاتی اور فلسفیانہ بصیرت خاص اہمیت رکھتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو میں روسی، فرانسیسی اور انگریزی کے معیاری افسانوں کے ترجمے کثرت سے شائع ہونے لگے اور ان کا اثر اردو افسانوں پر بھی پڑا۔
اردو ادب کے آسمان پر ابتداء ہی میں سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند کی شخصیتیں سامنے آئیں لیکن یہ صرف و محض دو شخصیتیں یا دو افراد نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں دو بڑی ادبی تحریکیں تھیں۔ پریم چند نے برصغیر میں افسانوی فضاء قائم کی اور فن میں کچھ ایسی روایات چھوڑیں جو آج تک جاری ہیں ان کا بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کہانی میں کہانی پن بھی قائم رکھا اور اسے خیالی داستانوں اور مافوق الفطرت عناصر سے نکال کر زندگی کے صحیح حقائق سے بھی روشناس کرایا۔ پریم چند کو اپنے مقلدین کی ایک پوری جماعت مل گئی جن میں علی عباس حسینی ، اعظم کرینوی اور سدرشن سرفہرست ہیں۔
پریم چند کے ہم عصر سجاد حیدر یلدرم ایک رومان پسند افسانہ نگار ثابت ہوئے ان کی رومان پسندی نے افسانہ کی دنیا میں انہیں ایک طرزِ خاص کا موجد بنا دیا جو بالآخر انہیں پر ختم ہو گئی۔
اس لحاظ سے اردو افسانہ نگاری کے پہلے دور میں پریم چند نے اصلاحی رجحان اختیار کیا اور رومانوی رجحان سجاد حیدر یلدرم کی پہچان بنا۔ ہیئت کے لحاظ سے اس دور میں زیادہ تر بیانیہ افسانے لکھے گئے۔
بیسویں صدی کا چوتھا عشرہ اقتصادی بدحالی، کسادبازاری اور بیکاری کا دور تھا۔ اس دور میں انگارے کی اشاعت نے اردو افسانے کو ایک نیا موڑ دیا۔
اردو ادب کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری کتاب ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے "انگارے ” کے مقابل رکھی جا سکے۔ کتاب شائع ہوتے ہی سارے ملک میں اس کے خلاف طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ تقریباً سارے رسائل و جرائد اور چھوٹے بڑے تمام روزناموں نے اس کی مذمت میں ادارئیے لکھے اور مضامین شائع کئے گئے۔
انگارے کی اشاعت دسمبر 1932ءمیں لکھنو میں ہوئی تھی۔(٢) اردو میں افسانہ نگاری کے رجحانات ڈاکٹر فردوس انور قاضی)
کتاب اور اس کے تخلیق کاروں کے خلاف منبروں کو پلیٹ فارم کی طرح استعمال کیا گیا۔ صوبہ جات متحدہ کی اسمبلی میں اس پر سوالات اُٹھائے گئے اور کتاب کی ضبطی کے مطالبے کئے گئے۔ کتابچے اور کھیل شائع کئے گئے جن میں مصنفین کو ہدفِ ملامت بنایا گیا۔ قانونی چارہ جوئی کر کے سزا دلانے کے سلسلے میں مقدموں کے لئے فنڈ جمع کئے گئے۔ مصنفین کو سنگسار کرنے اور پھانسی پر لٹکانے تک کی مانگ کی گئی۔
آخر کار حکومت صوبہ جات نے 15 مارچ 1933ءکو تعزیرات ہند کے تحت کتاب کی ضبطی کا حکم دی دیا۔ جس میں کہا گیا کہ اس کتاب کے ذریعے ایک طبقے کے مذہب اور مذہبی عقائد کی توہین کر کے مذہبی جذبات کو مشتعل اور برانگیختہ کیا گیا ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ1936ء میں قائم ہونے والی انجمنِ ترقی پسند مصنفین کی اصل بنیاد "انگارے ” کی اشاعت کے ساتھ 1932ءمیں رکھی گئی تھی۔
"انگارے ” میں کل دس کہانیاں ہیں سجاد ظہیر کی پانچ
( ۱)نیند آتی نہیں
(٢)پھر یہ ہنگامہ
(٣)گرمیوں کی رات
(٤)دلاری
(٥)جنت کی بشارت
احمد علی کی دو
(١)مہاوٹوں کی رات
(٢)بادل نہیں آتے
رشید جہاں کی دو
۱)دل کی سیر
۲)پردی کے پیچھے
محمود الظفر کی ایک
۱)جوانمردی
1936ءکی ترقی پسند تحریک نے افسانے کو تخیل اور تصور کی رنگین دنیا سے باہر نکالا اور اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں، معاشی تلخیوں اور سیاسی نوعیت کے مختلف پہلوؤں کی بے لاگ مصوری کے علاوہ اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کا ذکر آزادی اور بے باکی سے کیا۔غلامی، افلاس، جہالت، بھوک، بیماری، توہم پرستی، طبقاتی جنگ، متوسط طبقے کی کھوکھلی نمائش پسندی، کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ، جذباتی اور نفسیاتی الجھنیں،الغرض اس طرح کے بے شمار مسائل اردو افسانے کا موضوع بن گئے۔یہی وہ ادیب تھے جنہوں نے "کفن” کے خالق پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا۔
ان افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی، اختر حسین رائے پوری، اپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہیں۔
ان میں ہر ادیب کے افسانے پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہے۔ یہ ادیب آزادی کے بعد بھی لکھتے رہے اور نئے افسانہ نگار اس قافلے میں شامل ہوتے گئے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کو نئے مسائل کا سامنا ہوا۔ فسادات، ہجرت، مہاجرین اور ان کی آباد کاری اور دوسرے مسائل افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے۔ پورے برصغیر کے ساتھ مشرقی پنجاب میں ہر طرف قتل و غارت گری اور سفا کا نہ واقعات دیکھ کر ادیبوں کی روحیں چیخ اُٹھیں ان کے احساس کی شدت تلخی ان کے افسانوں میں بھی نمایاں ہوئی۔ منٹو، بیدی، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی نے فسادات پر مو ثر اور فنی اعتبار سے مکمل کہانیاں لکھیں۔ ان میں منٹو کی "موذیل” اور” ٹوبہ ٹیک سنگھ” اور بیدی کی "لاجونتی”خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے اثرات سے کر ّہ ارض پر جو بے چینی اور انتشار پیدا ہوا تھا وہ اب سامنے آ رہا تھا اور اس نے ادیبوں کو بھی متاثر کیا۔ یوں فرد کی نفسیات کی حوالے سے قلمکاروں نے عصری شعور کے ساتھ اپنی تخلیقات میں رنگ بھرا۔ دیکھا جائے تو "انگارے ” ہی نے اردو افسانے کو شعور کی رو یا آزاد تلازمے Stream of Conciousness سے روشناس کیا۔ دوسری عالمگیر جنگ نے افسانے میں بین الاقوامیت پیدا کی اور افسانے میں عالمی اثرات کی قبولیت سے وجودیت (EXISTENTIALISM)کی فکری تحریک بھی راہ پانے لگی۔
تقسیم ہند کے بعد اردو ادب کو بہت سے قد آور افسانہ نگار میسر آئے۔ جن میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، آغا بابر، مرزا ادیب، رام لعل، رحمان مذنب، شفیق الرحمن، الطاف فاطمہ، ممتاز شیریں، غلام عباس وغیرہ نے افسانے کی روایت کو آگے بڑھایا عصمت چغتائی کے بعد خواتین لکھنے والیوں میں ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ اور فہمیدہ رؤف قابل ذکر ہیں۔
اشفاق احمد تک آتے آتے افسانہ نظریاتی سرحدوں کو پار کر کے اپنی نئی منزلوں کی طرف روانہ ہوا۔ ممتاز مفتی کے ہاں اگر نفسیاتی حوالے ملتے ہیں تو غلام عباس ممتاز شیریں کے ہاں زندگی کے متنوع اور حقیقی موضوعات کی عکاسی ملتی ہے۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں اشفاق احمد ایسا نام ہے جس نے افسانے کا موضوع محبت اور اس کی کیفیات کو بنایا۔ اس کی محبت عام محبت نہیں بلکہ بڑی خاص گہری اور داخلی محبت ہے۔ جو مجاز سے سفر کرتے ہوئے حقیقت کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اشفاق احمد کی محبت کے لاتعداد روپ ہیں جو لڑکے اور لڑکی تک محدود نہیں بلکہ اپنا وجود پھیلائے ہوئے وسیع کائنات میں پھیل جاتے ہیں۔ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے محرومیوں اور المیے انتشار اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں۔ان کے افسانوں کا ماحول بہت ہی عجیب و غریب ہے اس کے کردار بھی محبت کرنے کے بعد جدا ہو جاتے ہیں۔ کسی نے لکھا ہے کہ اشفاق احمد کے کردار محبت تو کرتے ہیں لیکن جدائی ان کا مقدر ہے۔ محبت کے موضوع کے ساتھ ساتھ جدید معاشی مسائل اور نفسیاتی موضوعات بھی اشفاق احمد کے ہاں ہمیں نظر آتے ہیں۔اُن کے ہاں رومان اور حقیقت کا امتزاج نظر آتا ہے۔یعنی ان پر پریم چند اور یلدرم دونوں کے اثرات موجود ہیں۔
اسی دور میں افسانہ نگاروں کی ایک نسل سامنے آئی اور ان میں رام لعل، انتظار حسین، اے حمید، جیلانی بانو، واجد ہ تبسم، اقبال متین، آمنہ ابوالحسن، غلام الثقلین، جوگندر پال، مسعود مفتی، شوکت صدیقی، جمیلہ ہاشمی اور رضیہ فصیح کے نام شامل ہیں۔ نئی نسل کے افسانہ نگاروں نے فارمولا بازی سے انحراف کیا اور اپنے لئے نئی راہیں تلاش کیں۔اس کے بعد افسانے میں تبدیلی کی ایک اور لہر آئی اور خارجی احوال اور داخلی کیفیات کو علامتوں، استعاروں اور تمثیلی انداز میں پیش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔
چھٹی دہائی میں یہ رجحان علامتی اور تجریدی افسانہ کی شکل میں نمایاں ہوا۔ انور سجاد، خالدہ حسین،سریندر پرکاش، رشید امجد اور بلراج کومل نے تجرید اور علامت کے تجربے کئے۔ ۱۹۸۰ءسے موجود ہ دور کے عرصے تک افسانہ مزید دو طبقوں میں بٹ گیا اب افسانہ میں پلاٹ، کردار یا کہانی کے رنگ میں کوئی واقعہ پیش کرنے یا وحدت تاثر کا خیال رکھنے والے قدیم کے خانے میں ڈال دیے گئے اور جدید افسانہ تمام روایتی پابندیوں اور فنی و تکنیکی باریک بینوں سے آزاد ہو گیا۔
مغربی تحریکوں کے اثرات اپنی جگہ لیکن خود ایشیا اور بالخصوص برصغیر کے ماحول، سے اسی، معاشی اور نظریاتی گھٹن نے فرد پر جو اثرات مرتسم کئے اسی فکر نے ہی افسانے کے ڈھانچے میں تغیر و تبدل کا کام کیا۔
وجودیت، لایعنیت اور تجریدیت کی تحریکات اور رجحانات میں علامت نگاری موضوع اور ہیئت دونوں کا بدل بن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جدید ترین دور میں اردو افسانہ مروجہ خطوط اور اصولوں کو توڑ کر تجرباتی دور سے گزرنے لگا فکری لحاظ سے اس میں خوف، دہشت پسندی، اعصابی تشنج، مایوسی اور بے خوابی جگہ پانے لگی اور یوں افسانہ ایک نئے رخ سے آشنا ہوا۔
اس عدیم الفرصتی کے دور میں انسانی ذہن کی نفسیاتی کشمکش اور عصر حاضر کی زندگی کے تضادات اور ان کے عوامل و محرکات کو جامعیت اور فنی حسن سے پیش کرنا نئے افسانے کی ایک بڑی خوبی ہے اور انہی نئے تجربوں نے یکسانیت اور روایتی تقلید سے بھی اردو افسانے کو بچا لیا۔
افسانہ اور اس کا فن:
اردو ادب میں افسانے کا پس منظر اور اس کے ارتقاء پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد اگر ہم افسانے کے فن پر روشنی ڈالیں تو بے جا نہ ہو گا۔ چونکہ اردو میں افسانہ مغرب سے آیا لہٰذا اس افسانے کے فن پر بات کرتے ہوئے چند مغربی نقادین کی رائے اضافے کے متعلق ضرور جان لینی چاہیے۔ مثلاً "ایڈگر ایلیمن پو” کہتے ہیں :
” یہ ایک نثری داستان ہے جس کے پڑھنے میں ہمیں آدھے گھنٹے کا وقت لگے۔”
اسی طرح ایک اور مغربی نقاد اور مصنف "سنڈی اے موسلے ” نے افسانے کی تعریف اس طرح کی ہے۔
"افسانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پڑھنے میں پندرہ منٹ سے بیس منٹ تک کا وقت صرف ہو۔” (٢)
مذکورہ تعریفوں میں مصنفوں نے صرف افسانے کے ایک پہلو پر زیادہ توجہ دی ہے یعنی اختصار پر۔ اگرچہ اختصار افسانے کی ایک ممتاز اور اہم خصوصیت ہے لیکن جب تک افسانے کی دوسری خصوصیات کا ذکر نہ کیا جائے جو فن کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے تو افسانے کی جامع اور مکمل تعریف ممکن نہیں۔اس سلسلے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں :
” مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر فکری داستان ہے جس میں کسی ایک کردار، کسی ایک خاص واقعے پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ اس میں پلاٹ ہو اور اس پلاٹ کے واقعات کی تفصیلیں اس طرح گھٹی ہوئی اور اس کا بیان اس قدر منظم ہو کہ ایک وحدت پیدا ہو سکے۔”(٣)
یوں اختصار کے ساتھ ساتھ افسانے کی دوسری اہم خصوصیت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ "وحدت تاثر ” ہے۔ "وحدت تاثر ” ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے متعلق اکثر نقاد ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ تمام نقاد اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ افسانے میں کسی وحدت تاثر کا ہونا ضروری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قاری افسانے کو پڑھنے کے بعد کوئی ایک تاثر بھر پور انداز میں قبول کرے۔ اگر افسانے میں ایک سے زیادہ تاثرات پائے جائیں گے تو اس صورت میں وحدت کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ وحدتِ تاثر کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ افسانے میں موضوع کے حوالے سے وحدت ہو۔ اگر افسانے میں ایک سے زیادہ مقاصد کی طرف توجہ ہو جائے تو اس صورت میں بہت سی فنی خرابیاں پید ا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
وحدتِ تاثر کی اہمیت کے ساتھ ساتھ افسانے میں پلاٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پلاٹ کے سلسلے میں اکثر ناقدین کی آراءآپس میں ملتی جلتی ہیں یعنی یہ کہ پلاٹ کے واقعات میں ربط اور تسلسل ہونا چاہیئے۔ ان میں نظم و ضبط اور توازن کی کیفیت ہو اور وہ تیزی سے ارتقاء کے منازل طے کرتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچے۔ اور آخر میں ایک منطقی انجام پر ختم ہو جائیں۔ اس نظریئے میں کلاسیکی اثرات نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ارسطو کے المیہ کے پلاٹ کے بارے میں اس قسم کے نظریات تھے۔
"المیہ میں ابتداءوسط اور انتہاء ہونی چاہیے۔” (١)
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا پلاٹ کے بارے میں خیال ہے کہ :
” مختصر افسانوں میں کرداروں کے ارتقائی کیفیت کی تفصیل نہیں ہوتی اس لیے ظاہر ہے اس میں پلاٹ کسی نہ کسی صورت میں ہونا چاہیے۔” (٢)
اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ:
” لکھتے وقت ادیب بعض نفسی کیفیات سے گزرتا ہے۔ اگر پلاٹ درست ہو تو قاری بھی کسی نہ کسی حد تک ان نفسی کیفیات سے بہر ہ ور ہو سکتا ہے اور نفسی رابطہ جنم لیتا ہے۔ جسے ادیب اور قاری میں "مکالمہ ” سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔”
افسانے میں تمہید یا آغاز کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ چیز قاری کو پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر تمہید خوبصورت اور جاندار نہ ہو تو قاری افسانے میں دلچسپی ہی نہ لے گا۔ اس لیے افسانے کا آغاز ایسا دلچسپ اور جاندار ہونا چاہیئے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے اور افسانہ پڑھنے پر مجبور کر دے۔
پلاٹ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی موقع پر کشمکش ضرور دکھائی جائے۔ یہیں سے قاری کی دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے اور یہی افسانے کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ نقطہ عروج کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مصنوعی پن اور بناوٹ نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر متوقع بھی ہو۔ وقار عظیم لکھتے ہیں کہ:
"کامیاب منتہاء کی تعریف یہ ہے کہ اس پر پہنچ کر پڑھنے والا افسانے میں اس درجہ ڈوب جائے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے گرد و پیش کی دنیا کو فراموش کر دے۔”
نقطہ عروج قاری کو افسانے کے انجام کے لیے تیار کرتا ہے تاکہ پڑھنے والے کو افسانہ غیر فطری اور غیر منطقی نہ لگے۔
افسانے کے متعلق خیال یہ تھا کہ اس کا انجام قاری کو چونکا دے۔ اچانک کچھ اس قسم کی بات یا واقعہ ہو جو افسانے کا رخ یکسر موڑ دے قاری کو حیران کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ اردو میں اس حوالے سے "سعادت حسن منٹو” کا نام آتا ہے جن کے افسانے ایسے انجام کی مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے افسانوں کا انجام ابہام یا پیچیدگی یا اشاراتی کیفیتوں کا حامل نہیں ہوتا ہے۔
حیثیت کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اگر ہم افسانے کے مواد اور موضوع پر نظر ڈالیں تو ہمیں افسانے کے کلاسیکی نظریات کے بجائے یہاں رومانوی رجحانات کا اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ کلاسیکی ادب مثلاً داستانوں، مثنویوں اور قصائد وغیرہ میں آفاقی، عمومی اور مثالی صداقتوں پر زور دیا جاتا تھا لیکن ایک ہی قسم کے بادشاہ شہزادے، وزیر امیر زادے بزرگ دکھائی دیتے تھے اور ایک ہی قسم کے مسائل ہوتے تھے یعنی شہزادیوں وغیرہ کو حاصل کرنا اور جنوں دیوؤں وغیرہ کو شکست دینا، جنگل میں کسی بزرگ کا ملنا، غیب سے کسی مدد کا آنا وغیرہ، اس کے برعکس دونوں تصورات میں ہمیں انفرادی اور واقعاتی حقیقتوں کا وجود نظر آتا ہے۔اس لیے آج کے دور میں افسانے کے واسطے یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں کسی کردار، خاص لمحہ، احساس یا کیفیت کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ یعنی افسانے کی دنیا مثالی نہیں اس میں ہمارے معاشرے اور گردو پیش کی ساری دنیا کے حقیقی کردار اپنی انفرادیت رکھے ہوئے سامنے آتے ہیں۔
موضوعاتی طور پر یہ ہے کہ کسی خاص کردار کے ساتھ پیش آنے والا کوئی خاص واقعہ جو کردار کے اندر کوئی جذبہ اور احساس وغیرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔ اس طرح افسانے میں ایک لمحاتی سی کیفیت ہوتی ہے جس کا اختتام تکمیل کا احساس پیدا نہیں کرتا بلکہ قاری کے دل میں تشنگی اور شوق کو زیادہ کر دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو افسانہ انسانی زندگی ہی کی تعمیر و تشریح کرتا ہے اور زندگی ہی کی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم افسانے میں زندگی کے مسائل پربراہ راست بحث نہیں کی جاتی بلکہ کسی خاص واقعے یا کردار کے ذریعے مسائل کو قاری کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ افسانہ زندگی کے کسی ایک رخ کی جھلک دکھاتا ہے اگرچہ ہم اسے لازمی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اعلی افسانہ نگاروں کو یہ کمال حاصل ہوتا ہے کہ وہ پیچیدگیوں اور تنوع کو کسی ایک مختصر افسانے میں سمیٹ دیں۔
مندرجہ بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ افسانے میں پلاٹ، کردار،مکالمہ، فنی ترتیب، آغاز، انجام اور مناظر اور جذبہ و احساس ایسے عناصر ہیں کہ افسانے کو افسانہ بناتے ہیں۔
مندرجہ ذیل سیر حاصل بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ادب میں افسانہ کس طرح وجود میں آیا ؟ اس کا پس منظر اور اردو ادب میں ارتقاءکس طرح ہوا اور اس کے فنی لوازم کیا ہیں ؟
اب ہم اگلے باب میں اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کا فنی جائزہ لیں گے۔
باب سوم: "ایک محبت سو افسانے ” کا فنی جائزہ
کسی بھی افسانہ نگار کے فن پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس کے افسانوں کا فنی حوالوں سے خوب تجزیہ کیا جائے اور بخوبی اندازہ لگایا جائے کہ اُس کے افسانے فن افسانہ نگاری کے لوازمات پر کس حد تک پورے اترتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی حوالے سے درجہ کمال تک پہنچا ہوا افسانہ نگار وہی سمجھاجاتا ہے جس کے افسانے فنی لوازمات کو بہ طریق احسن پورے کرتے ہوں۔ بہ لحاظ فن کسی بھی افسانے میں کردار، پلاٹ، کہانی، منظر نگاری، مکالمہ نگاری،جزئیات نگاری اور تجسّس وغیرہ ضروری چیزیں ہیں۔ بہترین افسانہ نگار ان سارے لوازمات کو مد نظر رکھتے ہوئے افسانہ تشکیل دیتا ہے۔ اگر ان سارے لوازمات میں سے ایک بھی کسی افسانے میں اپنے موجودگی کا احساس نہ دلائے تو فنی اصولوں کے حوالے سے وہ افسانہ کمزور سمجھا جاتا ہے۔ الغرض ان سارے لوازمات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی افسانہ نگار اپنا مقام و مرتبہ متعین کرتا ہے۔
پریم چند کو اردو کے مختصر افسانے کی تاریخ میں اوّلین مقام حاصل ہے۔ پریم چند نے اردو افسانے میں عام شہری اور دیہاتی لوگوں کی زندگی کے نقشے کھینچے ہیں۔ وہ ہر چیز کو اس کی اصلی حالت اور کیفیت کے بیان کرنے میں حد کمال تک پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں انسانی دکھ کی روداد بھی ہے اور وہ اسے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ پریم چند کے افسانے نے حقیقت پسندی کو رجحان دیا۔دیہاتی زندگی کی سادہ دلی کی جس عکاسی کی بنیاد پریم چند نے رکھی تھی اس کا نقش ہمیں آگے چل کر علی عباس حسینی،راجندر سنگھ بیدی،اور اشفاق احمد کے شروع کے افسانوں میں زیادہ گہرا ہو کر ملتا ہے۔
اسی طرح یلدرم کی رومانیت کا رجحان بھی اردو ادب میں جار ی رہا۔اور اشفاق احمد کے ہاں محبت کا موضوع بھی اسی رجحان کا تسلسل نظر آتا ہے۔ یعنی اُن کے ہاں حقیقت پسندی کی ہلکی سی آنچ کے ساتھ رومانیت کی خوبصورت فضاء بھی ملتی ہے۔
ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اشفاق احمد کے افسانوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد کے افسانے اُن کے فن کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔اشفاق احمد نے اپنے پہلے ہی افسانے سے اردو ادب میں ایک اونچا اور اہم مقام حاصل کر لیا۔ اشفاق احمد اپنے نظریہ فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں :
” میں نے اپنے افسانوں میں پلاٹ پر کبھی زور نہیں دیا اور نہ مجھے یہ پسند ہے بلکہ میری تمام تر توجہ کردار پر ہوتی ہے جو معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں اور کردار ہی پلاٹ کو اور کہانی کو مرتب کرتے ہیں۔”
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق احمد کا شمار ارد و کے ذہین ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے وہ کہانیوں کی زبان میں سوچتے ہیں اور زندگی کو افسانے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اس صورت واقعہ کو مختلف کرداروں کے حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پوری زندگی ہمارے سامنے عریاں ہو جاتی ہے۔ وہ اردو ادب کے ایک بڑے افسانہ نگار اور اپنے عہد کے نمائندہ تخلیق کار ہیں۔اشفاق احمد کے فن کی جڑیں زمین میں اتری ہوئی ہیں وہ اپنے افسانے کے لیے حقیقی زندگی کو دیکھتے ہوئے واقعہ کو برتے ہوئے مشاہدے کو موضوع بناتے ہیں۔ اور زندگی کی ایک تاش کو اٹھا کر ہماری ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں محبت کا حسی تصور بے حد لطیف اور کثیر الاضلاع ہے۔ ان کے سارے افسانے بظاہر محبت کے مرکزی نقطے پر گردش کرتے ہیں تاہم اُن کے موضوعات متنوع ہیں اور وہ محبت کی قندیل سے زندگی کے بے شمار گوشوں کو منور کرتے چلے جاتے ہیں۔
اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کی یہ صورت ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں۔ لیکن اُن کی حقیقت نگاری کھری، بے ڈھنگی، اذیت ناک، فاحش اور انتہا پسند نہیں ہوتی۔وہ جس ماحول یا کردار سے متاثر ہو کر افسانہ لکھتے تھے۔ اُسے حد درجہ سبک، نرم، میٹھے،سادہ اور دھیمے لہجے میں قاری کے دل و دماغ میں اتار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری :
” وہ اپنے مقصد یا فلسفہ حیات کو افسانے کی سطح پر تیرانے کے بجائے اسے معنی کی گہری تہوں میں اتار کر کہانی سناتے ہیں۔ کہانی میں ان کی نظر ماحول سے زیادہ کردار پر ہوتی ہے لیکن کچھ ا س انداز خاص سے کہ افسانے کا ماحول خود بخود قاری پر روشن ہو جاتا ہے۔” (٢)
اشفاق احمد نے بطور افسانہ نگار اور خاص طور پر ایک حقیقت پسند افسانہ نگار کے زندگی کے اوریجنل ماحول اور زندگی کے سچے اور حقیقی کرداروں کو ہمیشہ قریب سے دیکھنے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کی اس کے کردار زندگی کے حقیقی ماحول سے لیے گئے کردار ہیں۔ ان کرداروں کی تعمیر میں جو خام مواداستعمال ہوا ہے وہ اس نے حقیقی زندگی ہی سے اخذ کیے ہیں۔ اشفاق احمد کے دو افسانوی مجموعوں کے افسانے اس کے فن کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ یعنی "اجلے پھول”اور "ایک محبت سوافسانے ” ان مجموعوں کے افسانوں میں وہ ہمیں اپنے فن کی انتہائی بلندیوں پر نظر آتا ہے۔آگے چل کر ’ایک محبت سوافسانے ” کی روشنی میں اشفاق احمد کے فن کا تجزیہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔
اشفاق احمد کا فن "ایک محبت سوافسانے ” کی روشنی میں :۔
اشفاق احمد کے فن کا تجزیہ "ایک محبت سو افسانے ” کی روشنی میں کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اپنے اس مجموعے میں اشفاق احمد نے فن کے حوالے سے ہمارے سامنے بہترین نمونے پیش کیے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل تمام افسانے فنی حوالوں سے مزین ہیں۔ اشفاق احمد نے تمام تر فنی تقاضوں کو عمدہ طریقے سے نبھانے کی کوشش کی ہے اور کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی افسانہ فنی حوالے سے کمزوری کا شکار ہے۔
"ایک محبت سو افسانے ” میں کل تیرہ (٣١ ) افسانے شامل ہیں۔اس طرح ان افسانوں کو مد نظر رکھ کر ان کی کردار نگاری، منظر نگاری، پلاٹ، مکالمہ اور تجسّس و جستجو جیسے ضروری عناصر پر باری باری بات کی جائے گی۔
کردار نگاری :
کردار نگاری افسانے کا ایک اہم جزو ہے۔اس کے اپنے کچھ اصول اور لوازمات ہیں یعنی کرداروں کو حقیقی انسانوں سے ملتا جلتا ہوا ہونا چاہیے۔ اگر کردار مصنوعی اور غیر فطری ہوں گے تو قاری ان میں دلچسپی نہیں لے گا۔ اس طرح افسانہ بے تاثیر ہو جائے گا۔ کرداروں کے افعال ان کے کرداروں میں تغیر کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ بات کرداروں کے نفسیاتی تجزیئے سے حاصل ہوتی ہے۔ افسانوی کرداروں میں یکسانیت نہیں ہونی چاہیے وہ محض اچھائی کا نمونہ ہوں نہ محض برائی کا مجسمہ، بلکہ ایک جیتے جاگتے انسان کی طرح ان میں نیکیاں بھی ہوں اور لغزشیں بھی۔ مرد اور خاتون کرداروں میں ان کی نوعی خوبیاں اور خامیاں موجود ہونی چاہئیں۔ کردار نگاری میں کامل الفن ہونے کے لیے افسانہ نگار کو انسانی نفسیات سے واقفیت ہونی چاہیے اور اس کا مشاہدہ ہمہ گیر اور گہر ا ہونا چاہیے۔
افسانہ میں سب سے اہم کردار ہیرو یا ہیروئن کا ہوتا ہے۔ ہیرو یا ہیروئن کی کامیاب کردار نگاری پر افسانہ کی بقاء کا دار و مدار ہوتا ہے۔ دراصل سارا افسانہ انہیں کے گرد گھومتا ہے۔ اس کو عین زندگی کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر کسی کردار کو مثالی کردار دکھانا ہے تو اس میں مافوق الفطرت خوبیاں پیدا نہ کی جائیں کیونکہ مثالی کردار بھی بہرحال انسان ہوتے ہیں۔ ضمنی کردار جو واقعات کی تکمیل میں مدد دیتے ہیں۔ ان کرداروں کو ہیرو ہیروئن کے تابع ہونا چاہیے۔ اگر انہیں کہانی میں زیادہ اہمیت دی گئی تو ہیرو اور ہیروئن کے کردار دب جائیں گے اور افسانہ کی دلچسپی میں فرق آئے گا۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اشفاق احمد نے اپنے افسانوی مجموعے "ایک محبت سو افسانے ” میں فنِ کردار نگاری کے سبھی اصولوں اور لوازمات کو خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ نبھاتے ہوئے کرداروں کی عادات اور خصائل کو انتہائی باریک بینی سے پیش کیا ہے اور ان کا بہترین نفسیاتی تجزیہ کر دکھایا ہے۔
مجموعے کا پہلا افسانہ "توبہ ” خوبصورت رومانی احساسات سے بھرپور افسانہ ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار "اعجاز” ایک لا ابالی اور عاشقانہ مزاج رکھنے والا نوجوان ہے۔ وہ زندگی کے میدان میں ایک اچھا جواری ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے سگریٹ کے معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ اس کے ماں باپ ہر قسم کی کوشش کے باوجود اس کے سامنے ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔ اور”حامد” اپنی ضد پر قائم رہتا ہے۔ لیکن یہ کامیاب جواری آخر کار محبت کے معاملے میں ہار جاتا ہے اور جب "لیکھا ” کوسگریٹ پیتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کا دل سگریٹ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اچاٹ ہو جاتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس کردار کی اپنی سماجی مجبوریاں بھی ہیں۔وہ ایک ہندو لڑکی سے محبت کرتا ہے اس کی کیفیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے درمیان مذہب کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔
افسانے کے دوسرے مرکزی کردار "لیکھا ” کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی بے نیازی پائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُسے اردگرد کی کوئی پروا نہیں حالانکہ اُسے اعجاز کی محبت کا احساس ہے لیکن پھر بھی وہ مکمل طور پر سامنے آنے سے قاصر رہتی ہے۔ اُس کا آخر میں سگریٹ پینا قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ اس کی بے نیازی کی کوئی ادا ہے یا یہ سب اُس کے اندر محبت کے حوالے سے ہونی والی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ان مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ افسانے میں اعجاز کی "ماں "، "والد” "انسپکٹر”،شادی میں کھیلنے والے بچے اور شریک مہمانوں جیسے ثانوی کرداروں بھی شامل ہیں۔
"ایک محبت سو افسانے ” میں شامل افسانے "فہیم ” کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد نے اس افسانے میں درمیانے درجے کے ایک چھوٹے سے گھر کی کہانی پیش کی ہے۔ کردار نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو اشفاق احمد نے اس افسانے میں کرداروں کا خوب نفسیاتی تجزیہ کر دکھایا ہے۔ اور فن کردار نگاری کے تمام اصولوں کو بڑی کامیابی سے برتا ہے۔ کرداروں کی حرکات اور مکالموں سے ان کی حیثیت اور طبقے کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ افسانے کے کردار وں میں "فہیم "، "نانا "، ” نانی "، "پروین "، ” نسرین”،”سلیم "،”نعیم ” جیسے کردار شامل ہیں اس کے علاوہ دوسرے ثانوی کردار بھی اس افسانے کو آگے بڑھانے میں معاون اور مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
"فہیم ” اس افسانے کا اہم اور مرکزی کردار ہے افسانے کا عنوان بھی "فہیم ” ہے اشفاق احمد نے کردار کی حرکات اور مکالموں کو اس طرح پیش کیا ہے جس سے اس کی کم عمر کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ چھوٹے بچے متجسس ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور اُن کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات اُٹھتے ہیں جن کو بڑے اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اس لیے جب "فہیم ” نانی اماں کی کہانی میں کوئی سوال اُٹھاتا ہے تو اسے بری طرح سے جھڑک دیا جاتا ہے۔مثلاً
"بابا تمہیں سمجھ تو ہے نہیں خواہ مخواہ باتیں سن رہے ہو۔” (١)
"سو جا بے تو ابھی تک سویا نہیں ” (٢)
اس کے علاوہ "فہیم ” ایک حساس بچہ ہے جو کہ نانی اماں کی کہانی کو غور سے سن رہا ہے۔ باقی تمام کردار نانی اماں کی کہانی کو محض ایک قصہ سمجھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن فہیم اس کہانی کو بڑے قریب سے سن رہا ہے اور محسوس کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُس نے کہانی کو اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔ اس لیے جب "نانا” کی موت واقع ہوتی ہے تو سب لوگ سو رہے ہوتے ہیں جبکہ "فہیم ” نہ صرف جاگ رہا ہوتا ہے بلکہ باقاعدہ ہچکیوں کی صورت میں رو رہا ہوتا ہے۔
اشفاق احمد نے اس افسانے میں "نانی ” کے کردار کے ساتھ بھی خوف انصاف کیا ہے اور اس کے تمام خدوخال خوبصورتی سے ابھارے ہیں۔ نانی ایک ایسی بزرگ خاتون ہے جو اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ گزار چکی ہے۔ لیکن عام طور پر جس طرح دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو ماضی کے گزرے ہوئے واقعات یاد کرنے میں بڑا لطف آتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی کے واقعات اپنے بچوں کو سناتی ہے۔ نانی کی اکثر یادیں تلخ اور ناخوشگوار ہیں لیکن ان کو بیان کرنے میں اسے اچھا محسوس ہوتا ہے۔
"نانا ” جیسے کردار اشفاق احمد کے افسانوں میں اکثر نظر آتے ہیں۔ یہ اُن کے ابتدائی دور کا افسانہ ہے لیکن آگے چل کر اشفاق احمد کے ہاں جو تصوفانہ اور داخلی سطح پر محبت کے جو رویے پروان چڑھے یہ کردار اس کی پہلی کڑی نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کو تمام کائنات سے محبت ہے اور وہ سب کو محبت کا درس دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس شخص کے تمام رویئے روحانی ہیں اس کے ہاں مادیت کا کوئی اثر نظر نہیں آتا وہ ذہنی سکون کے لیے سب کچھ چھوڑ کر پیرکی درگاہ پر جانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ غرور سے ہمیشہ دور بھاگتا ہے۔ بوٹ صرف اس وجہ سے نہیں پہنتا کہ اس سے غرور اور تکبر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے :
” بوٹ پہن کر آدمی مغرور ہو جاتا ہے اس کی اونچائی اور آواز انسان کے دل میں تکبر پیدا کر دیتی ہے میں اور سارے کام کرنے کو تیار ہوں لیکن بوٹ نہیں پہنوں گا۔” (٣)
جو کچھ بھی ہاتھ آتا ہے سخاوت سے خرچ کر دیتا ہے لیکن پھر بھی اس کے ہاں تنگی اور غربت نہیں آتی اس لیے کہ وہ دل کا امیر ہے مخلوق خدا سے اس کی محبت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ ایک کتے کی موت بھی برداشت نہیں کر پاتا اور ساری رات اس کے غم میں ٹہلنے کے بعد بیمار ہو کر اپنی جان دے دیتا ہے۔
اس کے علاوہ "پروین "، "سلیم "،”نعیم ” کی حرکتوں سے نہ صرف ان کی عمروں بلکہ گھریلو حالت کا بھی آسانی سے پتہ چلتا ہے۔ یہ سب بہن بھائی ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ دونوں بھائیوں کی کھینچا تانی اور مکالموں کو پڑھ کر قاری کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ سی کھل جاتی ہے۔ تینوں کرداروں کو اپنے بڑے ہونے کا احساس تفاخر بھی ہے اس لیے وہ اپنے چھوٹے بھائی "فہیم ” پردھونس جماتے رہتے ہیں۔
مجموعے میں شامل افسانہ "رات بیت رہی ہے ” خط کے انداز میں لکھا گیا ایک منفر د افسانہ ہے۔ جہاں تک کردار نگاری کا تعلق ہے تو مصنف نے بہترین اور خوبصورت کردار تراشنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ افسانے کے مرکزی کرداروں میں خط لکھنے والا ہوا باز جس نے اپنے لیے واحد متکلم "میں ” کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی محبوبہ "رینا” اس کا امریکی پائلٹ دوست "پیٹر ” اور پیٹر کی محبوبہ ” مارگریٹ ” ہوا باز کے طیارے کا نشانچی "مارلو” شامل ہیں۔اس کے علاوہ چند دیگر ضمنی کردار کہانی کو اختتام تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
افسانے کا ہیرو ایک ہندوستانی ہوا باز ہے۔ جسے کل اپنے ایک خطرناک مشن پر روانہ ہونا ہے۔ اس طرح افسانہ نگار نے اس کی مکمل ذہنی اور نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے۔ "پیٹر ” کی لاش کو دیکھ کر جیسے اُسے یقین ہو چلا ہے کہ وہ پھر کبھی جہاز کے عرشے پر واپس نہیں آسکے گا اور عموماً ایسی حالت میں دیکھا گیا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہستی ضرور یاد آتی ہے۔ اور یوں ایسی حالت میں اُس ہستی سے ملنے کی آرزو انسان کو بے چین کر دیتی ہے۔ اس طرح کہانی کا ہیرو ہوا باز اپنی جان سے پیاری محبوبہ ” رینا” کو خط لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے جذبات کا یادوں اور باتوں کے ذریعے تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔
کردار کے ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ جیسے اُسے اپنی محبوبہ "رینا” سے حقیقی روحانی محبت ہے۔ اسی لیے تو اُس نے اپنی خواہشات کی گھٹڑی اپنی محبوبہ کے قدموں میں لا کر رکھ دی ہے۔اور یوں اس کی رضا اور مرضی مکمل طور پر ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایف۔ اے میں داخلہ ہویا خدا کے وجود کا ماننا،صرف اور صرف "رینا” سے مشروط ہے۔” رینا” جو کچھ چاہتی ہے وہ ویسا ہی کرتا ہے۔ آخر میں چونکہ وہ اپنی زندگی اور موت کے متعلق غیر یقینی کی کیفیت سے گزر رہا ہے اس لیے اُس کی باتوں میں اُس کی ذہنی کشمکش کی کیفیت صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔
"پیٹر ” ایک امریکی ہوا باز ہے۔ مصنف نے اس کی اجتماعی قومی خصوصیت یعنی جذباتیت کا شروع ہی سے ذکر کیا ہے۔ اسی لیے وہ دوستی کرنے میں جلدی پہل کرتا ہے۔ "پیٹر ” چونکہ "مارگریٹ سے شدید محبت کرتا ہے اس لیے اس کے کہنے پر وہ فوج میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے۔ عام نوجوان عاشقوں کی طرح "پیٹر ” بھی اپنی محبوبہ کے متعلق باتیں کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اور "مارگریٹ ” کے ذکر سے اس کا جی نہیں بھرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہوا باز اور "پیٹر ” کی وجہ دوستی صرف اور صرف "مارگریٹ” ہے۔ "مارگیریٹ” سے اس کی شدید محبت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ موت سے پہلے اپنی آخری سانسوں میں وہ اُس کی تصویر دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس طرح "مارگریٹ” کی تصویر دیکھنے کے بعد اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔
افسانے کی ہیروئین "رینا ” ایک ایسی لڑکی ہے جسے اپنے حسن اور اہمیت کا احساس ہے۔ اسی لیے وہ ہیرو ہوا باز سے جو کچھ کہتی ہے وہ اُسے فوراً پورا کر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہوا باز صرف "رینا ” ہی کی بدولت زندگی گزار رہا ہے۔ "رینا "میں عورت کا وہی فطری جذبہ موجود ہے جس کی وجہ سے اُس کے اندر چاہے جانے کی خواہش ابھر تی ہے۔ اُس کے پاس اپنے محبوب کو لبھانے کی سب ادائیں موجود ہیں۔اس لیے کھائی کی تعمیر کے باوجود وہ اُسے اپنے مخصوص انداز میں پار کرتی ہے۔ کیونکہ اُسے پتہ ہے کہ اُس کا چاہنے والا اُسے دیکھ رہا ہے۔ اور جب ہیرو خدا کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ ایک خوبصورت انداز میں اس کو خدا کے وجود کا یقین دلا دیتی ہے :
” اچھا تو جا کر کھڑکی بند کر لو، سمجھ لو آ ج سے وہ کھائی پر ہو چکی ہے۔” (١)
"مارلو” ہیرو ہوا باز کے جہاز کا توپچی ہے۔ یہ ایک ایسا نشانہ باز ہے جس کا نشانہ کبھی نہیں چوکتا وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزار نے کا قائل ہے۔ اُسے اپنے خدا پر مکمل یقین ہے اس لیے مشن پر روانگی سے پہلے وہ بے فکر دکھائی دیتا ہے اور اپنی پرانی محبوباؤں کے متعلق سوچ سوچ کر خوش ہوتا ہے۔
افسانہ "تلاش ” بنیادی طور پر ایک جانور اور انسان کی محبت اور انسیت کی کہانی ہے۔ افسانے کے کرداروں میں مرکزی حیثیت ایک چھوٹے بچے کو حاصل ہے جس کا نام "احسان ” ہے جسے اپنے کتے سے بے حد پیار ہے اور یہ پیار جنون میں بدل گیا ہے۔ اس لیے وہ دوسروں کے بارے میں بھی "جیکی "کے حوالے سے سوچتا رہتا ہے۔ جس کسی کو "جیکی ” سے پیار ہوتا ہے وہ اُسے پسند کرتا ہے اور جو کوئی جیکی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا احسان بھی اس کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتا۔ ایک طرح سے "جیکی ” اس کی ساری کائنات ہے۔ اس لیے "احسان "اپنی ماں کی ہر قسم کی گالی گلوچ سہتا ہے لیکن پھر بھی وہ "جیکی ” کو اپنے سے دور نہیں ہونے دیتا۔
"امی باہر نکلیں تو گویا قیامت آ گئی۔۔۔۔
وہ منہ بھر کے گالیاں دیں کہ سب کے سب اپنی جگہ بت بن گئے "کہاں گیا احسان کا بچہ؟” انھوں نے کڑک کر پوچھا "منہ جھلس دوں تیرا، پاجی، بڑی سوغات اٹھا لایا تھا۔”(٢)
"جیکی "میں ہی” احسان” کی جان ہے اس لیے "جیکی” کے گم ہونے کے بعد "احسان” کو ایسا لگتا ہے جیسے اُس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔ شدید بے چینی اور دیوانگی کی حالت میں وہ اُسے تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکل جاتا ہے۔ وہ "جیکی "کے لیے وظیفہ کرتا ہے۔ پیسے چڑھاتا ہے لیکن "جیکی ” نہیں ملتا آخر کار ذہنی انتشار اور دیوانگی کی حالت میں "احسان ” بھی گھر سے بھاگ جاتا ہے۔ اس طرح” احسان” مخلوق خدا سے جنونی محبت کی بہترین مثال ہے۔ جسے اشفاق احمد نے ایسے سلیقے سے تراشا ہے کہ اپنی حرکتوں اور مکالموں سے اس کی عمر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
"جیکی ” کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ "جیکی ” ایک ایسا پلا ہے جسے "اماں ” گڈریوں کا کتا تصور کرتی ہے لیکن احسا ن اس کی خصوصیات بتاتے ہوئے اسے ایک اعلیٰ و ارفع نسل کا کتا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ احسان کے خیال میں اس کے پاؤں کے ۲۰ ناخن ہی کتے کی بہترین نسل ہونے کی دلیل ہیں۔”جیکی” کو بھی اپنے مالک سے بہت زیادہ محبت ہے لیکن اپنی فطرت کی وجہ سے اماں کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے اور آخر کار اپنی عادتوں کی وجہ سے گھر سے بھگا دیا جاتا ہے۔
افسانے کے کرداروں میں "اماں ” کے کردار کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ جو کہ ایک طرف تو نہایت ہی سخت مزاج رکھتی ہے لیکن دوسری طرف اس کے وجود میں ایک ماں کا نرم دل بھی دھڑکتا رہتا ہے۔ اس لیے جب "جیکی "لاپتہ ہو تا ہے تو وہ بھی بے حد پریشان ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایک ماں ہے اور اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر پاتی اور "احسان” کے لاپتہ ہونے کے بعد اس حالت بالکل ویسے ہو جاتی ہے جیسے ” جیکی” کے گم ہونے پر احسان کی ہوئی تھی۔
علاوہ ازیں اشفاق احمد نے "خان صاحب” کے کردار میں پٹھانوں کی خصوصیات اور عادات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس کردار میں بہادری اور روکھا پن صاف نظر آتا ہے ” جیکی”کو پاکستان لانے کے لیے وہ "کیپٹن ” کے سامنے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
” خان نے کیپٹن حق نواز سے ہاتھ باندھ کر کہا یہ اس چھوٹے سے پلے کے لیے جان دے دے گا مگر اسے اپنے ساتھ ضرور لے جائے گا۔” (١)
اور جذباتی اتنا ہے کہ "اماں ” جب "جیکی ” کی وجہ سے اُسے ڈانٹتی ہے تو وہ جیکی کو اٹھا کر ہوتی مارکیٹ میں پھینک آتا ہے۔
"توقیر بھائی "کا کردار ایک نرم دل انسان کا کردا رہے۔ جسے "جیکی” سے کوئی سروکار نہیں لیکن اُس سے ” احسان "کی بے چینی دیکھی نہیں جاتی اور وہ بھی "جیکی” کی تلاش میں مگن رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کیپٹن "حق نواز "، "آپا” جیسے کردار اس کہانی کا اہم جز ہیں جو کہ کہانی کو آگے بڑھانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
"ایک محبت سو افسانے ” میں موجود افسانہ "سنگ دل ” میں اشفاق احمد نے تمام کرداروں کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر کہانی کو تشکیل دیا ہے۔ اور تمام کرداروں کا خوبصورت نفسیاتی تجزیہ بھی کر دکھایا ہے۔ افسانے کا ہیرو” انسپکٹر ” جو کہ واحد متکلم "میں ” کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ ایک ایسا کردار ہے جو محبت کرتے ہوئے بھی اظہار نہیں کر پاتا۔ اُسے "پمی ” سے شدید محبت ہے۔ لیکن اُن دونوں کے درمیان مذہب کی بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ اس لیے وہ ذہنی طور پر شدید کشمکش کا شکار ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک اس نے صرف "پمی ” کو چاہا ہے اور جدا رہنے کے باوجود اُسے وہ بھول نہیں سکا۔ مگر مسلمان ہونے باوجود وہ ایک بے حس انسان بھی ہے اس لیے کہ "حسنا” کے باپ کے خط کے جواب میں وہ جس لاپرواہی کا مظاہر ہ کرتا ہے۔ وہ انسان کی بے حسی انتہا ہے۔ لیکن "پمی ” کو دیکھ کر اس کے اندر کا انسان جاگ اٹھتا ہے۔ اور وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے نہ صرف "پمی ” کے سامنے شرمندگی محسوس کرتا ہے بلکہ "پمی "سے معافی بھی مانگ لیتا ہے۔
افسانے کی ہیروئین "پمی ” کو اشفاق احمد نے بھرپور اور مکمل شکل میں پیش کیا ہے۔ اس کردار کے اندر محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ لیکن حالات نے اسے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ محبت سامنے ہونے کے باوجود اُسے حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی لیے وہ ذہنی کشمکش کا شکار ہے۔ اُس کے ہونٹوں پر کھلم کھلا اظہار تو نظر نہیں آتا لیکن اشعار کے ذریعے اُس کے ارادے اور محبت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ تشریح پوچھنے کے بہانے وہ اکثر اپنے محبوب سے محبت کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جس میں محبت کے حوالے سے اُس کی مجبوریوں کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
جو بات دل میں رہ گئی نشتر بنی حفیظ
جو لب پہ آ گئی رسن و دار ہو گئی
ساتھ ہی ساتھ یہ کردار ایک انسان دوست اور نرم دل کردار ہے اس لیے جب "انسپکٹر ” "حسنا "کے والد کے خط پر جھوٹی عبارت لکھتا ہے تو اُسے انتہائی دکھ ہوتا ہے اور وہ اپنے محبوب کو سنگدل کہہ کر چلی جاتی ہے۔ لیکن بعد میں وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر "حسنا” کو آزاد کراتی ہے۔ اور اُسے "انسپکٹر ” کے حوالے کر کے انسانیت کے لیے اپنی محبت کی قربانی پیش کرتی ہے۔
"امر ” "پمی ” کا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس کے مکالموں سے اس کی عمر کا بخوبی پتہ چلتا ہے پمی دیدی سے اُسے اس لیے نفرت ہے کہ وہ اس پر پڑھائی کے معاملے میں سختی سے پیش آتی ہے۔ بچے چونکہ اپنے اردگرد کا جلدی یا فوراً اثر لیتے ہیں اس لیے ماحول کی بدولت "امر ‘ ‘ بھی مسلمانوں سے سخت خوفزدہ ہے۔ اور اُن سے نفرت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ "خدا بخش”،”ابا جی "، "پتا جی ” اغوا شدہ لڑکیاں اور "حسنا” اس افسانے کے ثانوی کردار ہیں۔ اغوا شدہ لڑکیوں کے برتاؤ اور حرکات و سکنات سے اُن کی ذہنی حالت کا پتہ چلتا ہے۔ فسادات نے اُن کا سب کچھ چھین کر اُن کو اکیلا اور بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔
اشفاق احمد کا افسانہ "مسکن ” ایک مکمل بیانیہ افسانہ ہے۔ جس میں کہانی کا مرکزی کردار خود کلامی کے انداز میں کہانی کی ہیروئین سے مخاطب ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار جس کے لیے مصنف نے واحد متکلم "میں ” کا صیغہ استعمال کیا ہے، اپنی یادوں کااسیر ہے۔پوری کہانی کا پلاٹ اسی ہیرو کے ذہن کی سٹیج پر ترتیب پاتا ہے۔ زیر بحث افسانے میں مصنف دو کرداروں کے ہوتے ہوئے بھی ایک مکمل کہانی کی تصویر پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کہانی کا ہیرو ایک متوسط گھرانے کا نوجوان ہے۔ جو کہ ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا ہے۔ غم روزگار کی وجہ سے وہ اپنی محبوبہ کو تقریباً فراموش کر چکا تھا لیکن اس کی اچانک یاد نے اُسے بے چین کر دیا ہے۔ اس طرح اشفاق احمد کے دوسرے کرداروں کی طرح یہ کردار بھی جدائی کے المیے سے دوچار ہے۔ اچانک جب اسے اپنی محبوبہ کی خبر ملتی ہے تو اُس سے ملنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتا اس لیے کہ اس کی محبت کسی اور کی ہو چکی ہے۔ اس لیے اُس کی باتوں میں زیاں اور پچھتاوے کا احساس جا بجا موجود ہے۔ یوں وہ ذہنی کشمکش کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک طرف تو اسے اپنی محبوبہ سے اگر کچھ شکایتیں ہیں تو دوسری طرف اس نے حقیقت سے بھی سمجھوتہ کر لیا ہے اور اس لیے اُسے اپنی محبوبہ کی مجبوریوں کا بھی احساس ہے۔
افسانے کی ہیروئن ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہے جس کو اپنے محبوب سے شدید محبت ہے لیکن معاشرے کی پابندیوں اور مشرق کی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے وہ محبوب سے ملنے سے قاصر ہے۔ اسی لیے سالگرہ پر وہ چپکے سے ہیرو کے کالر پر پھول اور اپنے نام کا پہلا لفظ لکھ کر لوٹ آتی ہے۔ وہ بات تو نہیں کر پاتی لیکن سوتے میں ہیرو کی گردن پر خوب صورتی سے ہاتھ رکھ جاتی ہے۔ جس کا احساس ہیرو پہروں تک محسوس کرتا ہے۔ کہانی کے آخر میں ہیروئن طویل جدائی اور اپنے حالات سے مجبور ہو کر کسی اورسے شادی کر لیتی ہے۔ اور ہیرو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدائی کے المیے سے دوچار کر دیتی ہے۔
علاوہ ازیں افسانہ "شب خون ” کا کردار نگاری کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو یہ افسانہ "شقو "، "بیٹرس” دوسرے مریضوں "بھومکا”، "اصغر کامریڈ”، ” سپورن سنگھ”، "شقو کی ماں، بھائی اور بہن وغیرہ جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔
کہانی کے مرکزی کردار "شقو ” کو اشفاق احمد نے نہایت خوبصورتی اور مہارت سے تراشا ہے۔ اور اُس کا مکمل ذہنی اور نفسیاتی تجزیہ کر کے دکھایا ہے۔ ٹی بی کی وجہ سے "شقو” تقریباً موت کے دھانے پر کھڑا ہے۔ ایسی حالت میں ایک طرف تو وہ موت اور حالات سے سمجھوتہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن دوسری طرف صحتمند رہنے کی آرزو بھی اُسے شدید کشمکش سے دوچار کرتی ہے۔یوں وہ اپنی بیماری کا بدلہ دنیا سے لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ "بیٹرس” جس ایک طرف تو وہ محبت کرتا ہے لیکن اپنی جھنجھلاہٹ اور انتشار کی بدولت اس کا صحتمند جسم برداشت نہیں کر پاتا اور اسے ختم کرنے کی سوچتا ہے۔ اس کشمکش کو اُس کے مکالموں میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
"آخر بیٹرس کو کیا حق ہے کہ وہ سرخ و سپید چہرہ لیے ہمارے درمیان گھومتی پھرے۔ خدا نے کیوں اُسے صحتمند بنایا اور ہمیں بیمار۔ وہ اپنی جوانی، صحت اور تنومندی کی نمائش کر کے ہمارا مذاق اُڑاتی ہے۔”
ایک طرف تو بیماری نے ” شقو” کو حقیقت پسند بنا دیا اور خوشی سے موت کا انتظار کر رہا ہے،تو دوسری طرف موت اور مایوسی نے اُسے ایک خود غرض انسان بھی بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ خواہ کچھ بھی ہو زندگی کی امنگ کبھی ختم نہیں ہوتی یوں وہ صحت مند انسانوں سے اپنی بیماری کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔دوسری جانب اسے "بیٹرس” سے شدید محبت ہے لیکن اُس سے جدائی کا احساس اُس کو ذہنی طور پر کشمکش کا شکار کر دیتی ہے۔ لیکن اس کا آخری بوسہ شاید انسانیت سے بدلے کے بجائے ایک نامکمل اور لاحاصل محبت کی آخری نشانی بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔
"بیٹرس” ایک سراپا محبت کرنے والا فرشتہ صفت کردار ہے جو کہ اس کے پیشے کی مناسبت سے عین مطابق ہے۔اُسے اپنے تمام مریضوں سے محبت ہے۔ لیکن "شقو "پر اس کی زیادہ توجہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ "شقو” سے شدید محبت کرتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ "کیپٹن عباس ” کے بعد "شقو” ہی ایساشخص ہے جس سے اُس کوحد درجہ محبت ہے۔ اس لیے وہ چاہتی ہے کہ شقو صحت یا ب ہو جائے اور وہ اسے اپنے پاس ہی رکھے۔”شقو ” کے لیے وہ کئی دفعہ خون کا عطیہ دیتی ہے اور دوسری طرف اسے "شقو” کے حملے کا انتظار بھی ہے۔ اُس کے ہونٹوں پر "شقو” کے حملے کے بعد کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اشفاق احمد نے اس کردار میں ایک نرس کے ساتھ ساتھ ایک عورت کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو اپنے پیشے کے ساتھ تو مکمل طور پر نباہ کر رہی ہے لیکن اس کے اندر کی عورت کا دل بھی دھڑک رہا ہے جس میں چاہے جانے کی خواہش موجود ہے۔ خواہ اس کا چاہے جانے والا قریب المرگ "شقو” ہی کیوں نہ ہو۔
دوسرے مریضوں "بھومکا‘ ‘،”اصغر کامریڈ”، "سپورن سنگھ ” جیسے کرداروں کے ہاں بھی اس طویل اور جان لیوا مرض نے زندگی کے متعلق ایک حقیقت پسندانہ سوچ پیدا کر دی ہے۔اس لیے ان کو اپنے رشتہ داروں سے کوئی گلہ نہیں کہ کوئی انہیں مرنے کے بعد یاد کرے گا یا نہیں یا زندہ رہنے کے باوجود اُن کاکوئی پوچھنے والا کیوں نہیں لیکن ایک بات جو ان تمام کرداروں میں مشترک ہے وہ یہ کہ موت کی فضاءمیں ہر دم گھٹ گھٹ کر سانس لینے والے یہ کردار قنوطیت کا شکار نہیں۔ بیماری نے اُن کا سار ا خون نچوڑ لیا ہے لیکن اُن کے دل پھر بھی دھڑک رہے ہیں۔ جینے کی امید ان کے ہاں پھر بھی موجود ہے۔ اس لیے "بھومکا” کو امید ہے کہ آنے والی گرمیوں تک وہ ضرور زندہ رہے گا اور "سپورن سنگھ” بھی خوش ہے کہ اُسے زندہ رہنا ہے اور بیماری سے لڑنا ہے۔
اس کے علاوہ "شقو” کے رشتہ داروں میں اُس کی” ماں "،” بھائی”،” بہن "وغیرہ سب اُسے مردہ تصور کر چکے ہیں اور ایک خود غرضانہ سوچ رکھتے ہیں۔ اس کے بھتیجے "خالد” کو چونکہ” شقو "سے شدید محبت ہے اس لیے اُن کے مکالموں سے بھی اس محبت کا غیر محسوس انداز میں پتہ چلتا ہے۔ باقی رشتہ دار خواہ” ماموں ” ہوں یا” چچا” سب معاشرتی مجبوریوں کے تحت "شقو "سے ملنے پر مجبور ہیں۔اور اس کی دولت اور جائیداد کے جانے کا غم کرتے رہتے ہیں۔ بے شک اشفاق احمد نے اس افسانے میں معاشرتی حقائق کو خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے۔
اشفاق احمد کا افسانہ "توتا کہانی” ایک مکمل رومانوی افسانہ ہے جس میں مزاح کی ہلکی سی چاشنی بھی موجود ہے۔ کرداروں کے حوالے سے افسانہ "حامد”، "خجستہ "، ” حامد کا ساتھی” اس کا "باورچی ” "خجستہ کی ماں ” "پھوپھی” اور حامد کے ہاسٹل کے دوستوں جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔ لیکن” حامد” اور” خجستہ” اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔
"حامد”ایک چلبلا اور شوخ نوجوان جسے اپنے پڑوس کی لڑکی سے محبت ہے۔ اور اس کو یہ بھی احساس ہے کہ اس کی پڑوسن”خجستہ ” بھی اس سے محبت کرتی ہے۔ لیکن اپنے گرد بنے گئے خود ساختہ خول سے نکل کر اظہار نہیں کر سکتی۔”خجستہ ” جب بھی چھت پرچڑھتی ہے تو حامد کو متوجہ کرنے کے لیے اپنی ماں کو ضرور پکارتی ہے۔ اور "حامد” خود "شیلے ” کے شعروں سے چھت پر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے۔ آخر کار "حامد ” اس آنکھ مچولی سے تنگ آ کر "خجستہ ” سے ملنے کی ٹھان لیتا ہے۔ اور ملاقات کے بعد وہ "خجستہ ” کے دل سے اس طوطے کو نکال لیتا ہے جس کی کہانیوں کی وجہ سے وہ اپنے محبوب سے نہیں مل سکتی۔ اور آخر میں "حامد” محبت میں قربانی پیش کرتے ہوئے "خجستہ ” کی عزت کی خاطر مقبرے کے مینار سے کود پڑتا ہے۔ "حامد” کی باتیں اور اس کے مکالمے اس کی سوچ اور قابلیت کی بہترین دلیل ہے۔ وہ جس طریقے سے "خجستہ” کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر کے اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے۔قاری کو اس کی ذہانت اور محبت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
” میں نے کہا۔”تم اُسی سے منسوب ہو جس کا انتظار تم نے سائنس روم کی سیڑھیوں پر کیا۔ تم اسی سے بیاہی جاؤ گی جس کے لیے تم لنکا کی پہاڑیوں میں ماری ماری پھری ہو۔ تمہارے پھوپھی زاد بھائی کا وجود محض ایک حادثہ ہے۔ موٹر پہلے زمزمہ کے چبوترے سے ٹکراتی ہے حادثہ بعد میں اسے الٹا کر اس کے مڈ گارڈ اور بتیاں توڑ دیتا ہے۔ (١)
کہانی کے دوسرے مرکزی کردار "خجستہ ” کی ذہنی کیفیت بالکل اس شعر جیسی ہے
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے سے ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
عورت کے دل کے اندر مرد کے لیے ایک فطری محبت اور کشش موجود ہے۔ ہر لڑکی کے ذہن میں ایک سپنوں کا راج کمار ضرور ہوتا ہے لیکن مرد کے مقابلے میں عورت کے لیے اظہار کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اُس کے دل کے اندر کا طوطا اسے بغاوت کرنے سے روکتا ہے۔ اور وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے۔ معاشرتی پابندیاں خصوصی طور پر اس کے پاؤں میں زنجیر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے "خجستہ ” "حامد ” سے محبت کرنے کے باوجود ایک مجبور اور بے بس لڑکی نظر آتی ہے۔ وہ بہانے بہانے سے چھت پر جا کر کسی نہ کسی طریقے سے اپنی محبت "حامد ” پر ظاہر ضرور کرتی ہے لیکن کھل کر اظہار اس کے لیے ناممکن ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ ذہنی طور پر کشمکش کا شکار نظر آتی ہے۔ لیکن مقبرہ جہانگیر میں "حامد ” سے ملاقات کے بعد اُس کے اندر کا خوف اور ڈر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔ اور اُس کے بعد وہ محبت میں کسی بھی قسم کی قربانی سے نہیں چوکتی۔یوں افسانے کے آخر میں محبت کے لیے اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔
دوسرے ضمنی کرداروں میں "حامد ” کا ساتھی کہانی میں ایک مزاحیہ پہلو سامنے لاتا ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کو بھگانے کے چکر میں اُس کی مرغی چوری کر کے لے اڑتا ہے اور موج اڑاتا ہے۔ وہ آج کل کے عاشقوں کی ایک مکمل تصویر ہے جن کی نظر اپنی محبوبہ سے زیادہ اُس کی مرغی یعنی دولت پر ٹکی رہتی ہے۔
"خجستہ ” کی ماں ایک سخت گیر عورت ہے جو دل کی مریضہ ہے "خجستہ ” کے ڈر اور خوف اور کھل کر اظہار نہ کرنے کی وجہ صرف اور صرف اس کی ماں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ محبت میں آگے بڑھنے سے قاصر رہتی ہے۔
فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو افسانہ ” عجیب بادشاہ "” زمان” کی کہانی ہے اس میں مرکزی کردار” زمان”اور "راوی” کا ہے اور اس کے علاوہ "سیما”، ” سہیل ” اور”پروفیسر ” وغیر ہ بھی کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو کردار نگاری کے حوالے سے سبھی کردار اہم ہیں کیونکہ اگر ان میں سے ایک کو بھی نکال دیا جائے تو کہانی کا تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ گویا کہ ہر کردار کہانی کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔
جہاں تک "زمان ‘ ‘ کے کردار کا تعلق ہے۔ تو یہ کردار اشفاق احمد نے انتہائی باریک بینی،ذاتی مشاہدے اور نفسیاتی تجربے کے بل بوتے پر تشکیل دیا ہے۔ کہ اس میں خود داری کس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یعنی وہ بڑی سے بڑی بات کے لیے اپنی خود داری کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ جس میں اُس کی نسلی خصوصیت کا بڑا دخل ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکیے نے بے رنگ خط لا کر کہا:
” دو آنے دیجیے ”
اُس نے خط کھولے بغیر جواب دیا
"خط واپس کرو میں نہیں لیتا”
میں نے کہا
"یار مجھ سے لے لو پھر لوٹا دینا ” پوچھنے لگا "کیوں لوں ؟”
میں نے کہا، "اس لیے کہ خط لے سکو” بولا ” میں نہیں لیتا ” (١)
اس کے علاوہ دوسرا بڑا کردار "راوی کا بھی ہے۔ کہ وہ کس طرح پس پردہ رہ کر پیش منظر رہتا ہے۔اور قاری کو کہانی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔
ضمنی کرداروں میں "سیما” اور "سہیل” کے کردار بھی اہم ہیں۔ کیونکہ ان دو کرداروں کی وجہ سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ "سیما ” کی خاطر زمان کالج چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی "سیما” اس کی محبت میں اُس کے پیچھے جا کر اُس سے شادی کر لیتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی خاطر وہ شہر ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کردار کی وجہ سے اشفاق احمد ماں بیٹے کی محبت کا ذکر کرتا ہے کہ ایک ماں بچے کے لیے دودھ گرم کرتی ہوئی جان دیتی ہے۔
جہاں تک "سہیل "کے کردار کا تعلق ہے تو وہ ضمنی ہونے کے ساتھ ساتھ لازمی بھی ہے کیونکہ اس کردار کی وجہ سے ہی اشفاق احمد ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب بچے بیمار ہوتے ہیں تو ماں باپ کا کیا حال ہوتا ہے۔ اس طرح ہر کردار کی ظاہر ی اور باطنی کیفیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔” سہیل "کو اپنی ماں سے شدید محبت ہے اور اس جدائی کے کرب سے گزرتے ہوئے وہ اپنی جان دے دیتا ہے۔
"بندرا بن کی کنج گلی میں ” کا مرکزی کردار "نمدار ” ایک مشکل زندگی گزارتا ہے۔وہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ خصوصاً کالج میں اُسے ہر غریب آدمی کی طرح دوہرے انداز میں زندگی گزارنی پڑتی ہے اور اپنی غربت کو چھپانے کے لیے اور اپنے آپ کو امیروں کے درمیان ایڈجسٹ کرنے میں اُسے کتنے ہی جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ "کلثوم” کی محبت میں آگے بڑھنے سے ڈرتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اُس کی غربت کی وجہ سے شاید”کلثوم” اُس سے دور ہو جائے گی۔ اس کردار میں تمام تر قابلیت اور چالاکیوں کے باوجود اظہار کی طاقت نہیں اس لیے وہ صرف "کلثوم” کی بوسہ شدہ کتاب کی زیارت کر کے ہی سکون محسوس کرتا ہے۔ آخر میں جب تمام تر کوششوں کے باوجود اُس کو اپنی محنت کا پھل نہیں ملتا اور وہ سندھ جا کر معمولی نوکری کر لیتا ہے تو اس مقام پر اُس کے ہاں قنوطیت کی کیفیت نظر آتی ہے۔
اس کہانی کا سب سے اہم کردار "کلثوم ” کا ہے جو کہ جدید دور کے انسان کی مکمل تصویر ہے۔ اس امیر زادی کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ خوش نہیں کیونکہ وہ عام لوگوں میں رہنا پسند کرتی ہے عام لوگوں کی طرح بولنا چاہتی ہے۔ لیکن اعلیٰ سٹیٹس اور امیر گھرانے سے تعلق اُس کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ اپنے ذہنی انتشار کی بدولت مطالعے میں بھی وہ پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ایک جدید معاشرے کا فرد ہونے کی وجہ سے یہ کردار غیریقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔
” وہ ادب کی شاہراہ پر چلتے چلتے افادی الاقتصادی بن گئی اور شیکسپیئر، ہارڈی اور کیٹس کو ایک دم بھلا دیا۔ یونیورسٹی لائبریری میں انگریزی ادب کی الماریوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اُس نے ایک مرتبہ کہا۔” آپ کو پتہ ہے انفرادی جذبات کی ترجمانی کرنے والا سارا ادب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” (١)
اپنی مجبوریوں کی وجہ سے وہ”نمدار ” سے محبت کرنے کے باوجود اُسے حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ دراصل یہ کردار ایک ایسی بے چین روح ہے جسے مادی زندگی سے نفرت ہے۔ اُس کے گھر میں چونکہ دولت کی ریل پیل کی وجہ سے جذبے ختم ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ کردار روحانی اور جذباتی رشتوں کی تلاش میں ہے۔
"میرا کوئی ساتھی نہیں۔ ہمارے خاندان میں بہت سارے آدمی ہیں مگر سارے کے سارے تاجر۔ ان کے یہاں ہر قسم کا سودا ہے لیکن لطیف جذبات کی کمی ہے۔ کوئی ایسا ذہن نہیں جو میرا ساتھ دے سکے۔” (٢)
آخر میں کلثوم کی درد ناک موت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صرف موت ہی اس کو زندگی کے عذابوں سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب ہو تی ہے۔ ان مرکزی کرداروں کے علاوہ "نمدار ” کی ماں "چچا”، کالج کے لڑکے لڑکیاں، چوکیدار کی لڑکی، وغیرہ ایسے ضمنی کردار ہیں جو کہانی کو اختتام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اشفاق احمد کا افسانہ "بابا” ایک پر اثر طویل المیاتی افسانہ ہے جو کہ شروع سے لے کر آخر تک قاری کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے مختلف کیفیات سے دوچار کرتا ہے۔ جہاں تک فن کردار نگاری کا تعلق ہے توافسانے میں مصنف نے کردار نگاری کے تمام اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چند اعلیٰ خوبصورت اور بڑے کردار تخلیق کیے ہیں۔ افسانے کے مرکزی کرداروں میں "ایلن "،”وحید”،”بابا” اور”مسعود” شامل ہیں۔ جو کہ کہانی میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
کہانی کا عنوان چونکہ "بابا ” ہے اس لیے "بابا ” کے کردار پر اشفاق احمد نے اپنی تمام تر فنی توانائیاں صرف کی ہیں۔ "بابا” ایک مشرقی بزرگ کی مکمل تصویر ہے جسے اپنے بچوں سے اپنی جان سے زیادہ پیار ہے اور جس طرح عام طور پر دیکھا گیا ہے ہمارے بزرگ ایک غیر محسوس طریقے سے اپنے عقائد اور روایات کو اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ "بابا” بھی انہی بزرگوں میں سے ہیں۔یوں "بابا‘ ‘ "مسعود ” کو کلمہ سکھانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اور کبھی ناصحانہ انداز میں اپنی مشرقی روایات کو اُس کے ذہن میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ "بابا” چونکہ اپنے آپ کو خاندان کاسربراہ اور بڑا تصور کرتے ہیں۔ اس لیے اُسے "ایلن ” کی روک ٹوک بالکل پسند نہیں لیکن "ایلن ” کے لیے اس کا غصہ وقتی ہے جو کہ کچھ دیر رہتا ہے اور خود بخود تحلیل ہو جاتا ہے۔
"بابا” ایک ایسے بزرگ ہیں جن کا نصب العین صرف اپنے خاندان کی بقا ہے۔ اپنے بیٹے کے لیے وہ اپنی آبائی زمین اس لیے بیچ ڈالتے ہیں تاکہ وہ ڈاکٹر بن کر ایک اچھی زندگی گزار سکے۔ "مسعود” کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور مرتے دم تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ خود تو بلوائیوں کے نیزے کھاتے ہیں اور پوتے پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے۔ اسی طرح ایک سادہ لوح دیہاتی کی تمام خصوصیات بھی ان کے ہاں موجود ہیں۔ وہ توہم پرستی کی وجہ سے اپنے بیٹے کو ایک منحوس گھوڑا خریدنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ "بابا” ایک ایسے مشرقی بزرگ کی تصویر ہے جس کا نصب العین اپنی نسلوں کی بقا اور اچھی تربیت ہے۔
"بابا ” کا بیٹا "وحید ” اپنی مٹی اور فطرت سے حد درجہ محبت رکھتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر بننے کے بعد ولایت سے واپسی پر وہ فطرت اور اپنی زمین کی طرف واپس لوٹتا ہے۔ اُسے ڈاکٹر ی سے کوئی لگاؤ نہیں بلکہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اپنی زمین اور فطرت کے نزدیک رہ کر اس مادہ پرست دنیا سے دور اپنی "ایلن ” کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔ اُسے "ایلن” کے دکھ کا بھی احساس ہے۔ جس کا ازالہ کرنے کے لیے وہ واپس دنیا کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور”ایلن” کی خواہش کے آگے گھٹنے ٹیک کر فوج میں اپنی خدمات پیش کر دیتا ہے۔” ایلن” کی محبت ایک طرف تو اُسے جانے نہیں دیتی اور دوسری طرف اپنا مستقبل سنوارنے کی فکر نے اسے ایک ذہنی کشمکش کی کیفیت سے دو چار کر رکھا ہے۔ اس کی اس کیفیت کا اندازہ ریلوے سٹیشن سے روانگی کے وقت اس حالت زاد دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
"ایلن ” ایک محبت کرنے والی وفا شعار بیوی ہے وہ اپنی محبت کی خاطر اپنا خاندان اپنا گھر اپنا ملک چھوڑ کر” وحید” کے ساتھ اُس کے گاؤں میں زندگی گزارتی ہے۔ایک طرف اگر شوہر کی محبت ہے تو دوسری طرف اپنے گھر اور وطن کی یاد نے اُسے اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ جذبوں پر یقین رکھنے والا کردار ہے اس لیے اُسے اپنے شوہر، بیٹے اور بابا سے شدید محبت ہے لیکن دوسری جانب ایک عورت ہونے کے ناطے اُسے اپنے مستقبل کی بھی فکر لاحق ہے چونکہ "وحید” کی کھیتی باڑی سے اُن کا مستقبل محفوظ نہیں اس لیے وہ اُس سے دوبارہ ڈاکٹری جوائن کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ اور انگریز افسر کے کہنے پر جب "وحید ” اپنی خدمات پیش کرتا ہے تو اُس وقت "ایلن ” کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ "وحید ” کے بغیر وہ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی اس مقام پر وہ کشمکش کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور سوچتی رہتی ہے کہ کاش وہ” وحید "سے نہ ملی ہوتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔آخر کار اس کی زندگی میں پچھتاوا ہی پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہمدرد عورت بھی ہے۔ اشفاق احمد کے دوسرے افسانوں کے کرداروں کی طرح اُسے بھی صرف انسانوں سے نہیں بلکہ ساری دنیا کی مخلوق سے حد درجہ محبت ہے۔ اسی لیے "چتلی” کے بچھڑے کو بچانے کے لیے وہ اپنی جان کی بازی لگا دیتی ہے۔ اور پھر اُسی وجہ سے بیمار ہو کر اپنی جان دے دیتی ہے۔
اس کے علاوہ "مسعود ” بھی کہانی کا ایک اہم کردار ہے یہ کردار کہانی کے اختتام پر قاری کے ذہن پر ایک سوگوار اور غمگین کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ یہ کردار اپنی معصومانہ حرکات اور باتوں کے ذریعے کہانی میں اپنے رنگ بھرتا چلا جاتا ہے۔ اُس کے بے تکے لیکن ذہانت سے بھرپور سوالات ایک طرف تو اس کی معصومیت کی نشاندہی کرتے ہیں اور دوسری جانب اُس کو ایک ذہین بچہ بھی ثابت کرتے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ پوتے کو اپنے دادا سے شدید محبت اور انسیت ہوتی ہے اور یہی انسیت اور محبت اس کردار کے دل میں دادا کے لیے موجود ہے۔اس کردار کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اکثر اپنے دادا کو اپنے سوالات کے ذریعے لاجواب کر دیتا ہے :
"بابا تارے رات کو کیوں نکلتے ہیں وہ دن کو کیوں نہیں نکلتے ”
"دن کو نہیں نکلتے بیٹا ” بابا نے سمجھا کر کہا
"بابا ہماری بیر ی کے پتے ہرے کیوں ہیں۔”
"پتے ہرے ہی ہوتے ہیں بیٹا”
"بابا گھوڑے ہرے کیوں نہیں ہوتے۔”
کہانی میں جانوروں کو بھی مختلف نام دے کر کرداروں کے روپ میں ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر "چتلی”، اس کا بچھڑا اور گھوڑے وغیرہ جبکہ گاؤں کے دیہاتی لوگ اور "وحید ” کے گھر میں کام کرنے والے ملازم ضمنی کردار ہونے کے باوجود کہانی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
مجموعے کا افسانہ "پناہیں ” ایک نفسیاتی اور المیاتی افسانہ ہے۔ جس میں "آصف”،” آصف کا باپ "،” ڈاکٹر صاحب” اور” آصف "کی ماں مرکزی کرداروں کی صورت میں سامنے آتے ہیں جبکہ "مولا بخش”، "وحید”، "اسلم کی ماں ” اور کمپاونڈر ضمنی کرداروں میں شمار ہوتے ہیں۔
"آصف” کا کردار نفسیاتی طور پر ایک ارتقائی عمل سے گزرتا ہے۔ اپنے ماں باپ کے رویے کی وجہ سے اس کی ذہنی طور پر جو پرورش ہوئی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ یہ معصوم بچہ صرف اور صرف اپنے ماں باپ کے اختلافات کا شکار ہو کر مرجھائے ہوئے پھول کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ حالانکہ افسانے کی ابتداء میں وہ ایک ہنس مکھ بچہ ہے۔ جس میں عام بچوں کی طرح تمام شرارتیں اور معصومیت موجود ہے۔ اس لیے وہ کبھی اپنی ماں پاس جانے کی ضد کرتا ہے اور کبھی اپنے باپ کے پاس رہنا چاہتا ہے۔ اُس کے کھیل شرارتوں سے بھر پور ہیں۔ جو کہ اُس کی ذہانت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن اچانک اپنی انا کی تسکین کی خاطر جب اس کا باپ اُس پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اس کے بعد وہ معصوم "آصف "ایک سنجیدہ اور مکمل نوجوان دکھائی دینے لگتا ہے۔ اور یوں "آصف "کے گرد اپنے با پ کی ایک خوفناک شبیہ ابھرتی ہے جس کے خوف سے ساری زندگی وہ پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بہادری اور ہمدردی اس کردار کا نصب العین ہے۔ اس لیے جوان ہو جانیئے بعد وہ دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دیتا ہے۔
"آصف ” کا باپ یعنی "ڈاکٹر صاحب” اپنی انا کا غلام ہے اور اپنی اسی انا کی جنگ میں وہ اپنے بچوں کی قربانی دے دیتا ہے۔ اس کی اپنی بیوی سے کسی صورت میں نہیں بنتی۔ "آصف” سے اپنے دوسرے بچوں کی بہ نسبت صرف اس لیے زیادہ محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کے پاس نہیں رہنا چاہتا۔ لیکن جب "آصف”کی ماں ایک دن "ڈاکٹر صاحب ” کو سنانے کے لیے ” آصف” کو طعنے دیتی ہے تو ڈاکٹر صاحب غصے سے پاگل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ” آصف "کی ایسی پٹھائی کرتے ہیں کہ جس سے "آصف”کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ اُس کے اندر جھوٹی انا اور تفاخر کا احساس اس کی باتوں سے آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے :
” ایسی دوں فطرت عورت میرے منہ آئے ایک سید زادے کے منہ جس نے آج تک کسی سے تو نہیں کہلوایا، تو نہیں کہلوایا، حرام زادے تو نہیں کہلوایا۔” (١)
"ڈاکٹر صاحب” کو اپنی غلطی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ وہ سرتوڑ کوششوں کے باوجود” آصف” کی معصومیت اور بچپنا واپس لوٹانے میں ناکام رہتا ہے۔ آخر کار "آصف”کی جدائی کے بعد وہ اپنی یادوں کا اسیر ہو جاتا ہے اور کسی صورت میں اسے قرار نہیں آتا۔ اس لیے وہ اپنا تزکیہ کرنے کے لیے انجانی منزل کی طرف نکل جاتا ہے۔ اور آخر کار بچوں کے سکول میں پہنچ کر دم لیتا ہے۔
"آصف” کی ماں بھی اُس کے باپ کی طرح ایک سنگدل اور اپنی اناؤں کی اسیر عورت ہے۔ اُسے اپنے بچوں کی کوئی فکر نہیں وہ تو بس اپنے شوہر سے جیتنا چاہتی ہے۔ اور جیت کی یہی لگن اُس کے بچوں کو اپنے باپ سے متنفر کر دیتی ہے۔ اُس "آصف” سے اس لیے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ اپنے والد سے زیادہ لگاؤ رکھتا ہے۔ اس کی باتوں اور طعنوں سے اُس کے اندر کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا باآسانی پتہ چلتا ہے۔ اور قاری یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے انا کے خول میں بند ہو کر شوہر کو ہرانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی باتوں سے جھنجلاہٹ اور روکھا پن صاف محسوس کیا جا سکتا ہے :
” کس کی بکری، کون ڈالے گھاس؟ باپ کا دل اور ایسا کٹھور، پھر کوئی تجھ سے پوچھے جب وہ میر ی نہیں سنتا تو تیری کیسے مانے گا؟ ایک تو ے کی روٹی کیا جھوٹی کیا موٹی۔ اُسے اپنے کھل کھیلنے سے فرصت ہو تو تیری خبر گیری کرے۔ وہاں کی چپڑی سے یہاں کی روکھی اچھی۔” (٢)
ٍ "ایک محبت سو افسانے ” کے آخری افسانے "امی ” کا کردار نگاری کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو یہ افسانہ "مسعود "، اس کی "ماں ” اس کے سوتیلے پاپ”چچا”، "امی "، "دیدی”، "گلریز” جیسے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ افسانے میں "مسعود” کے ساتھ جوا کھیلنے والے دوست بھی افسانے کے ضمنی کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سبھی کرداروں میں "امی ” اور "مسعود ” کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ اشفاق احمد نے مذکورہ افسانے میں کردار نگاری کرتے ہوئے ایک طرف تو فن کردار نگاری کے تمام قواعد و ضوابط کا لحاظ رکھا ہے اور دوسری طرف ہر کردار کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے اس کی شخصیت کو اجاگر کر کے مکمل کامیابی کا ثبوت دیا ہے۔
"مسعود ” ایک ایسا نوجوان ہے جو کہ شدید قسم کی احساس کمتری کا شکار ہے۔ اور اپنی ماں کی دوسری شادی اور سوتیلے باپ کے رویے نے اس کو اتنا منتشر کر دیا ہے کہ وہ اپنی ماں کو دل ہی دل میں گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا :
” چچا جیسے بے ہودہ آدمی سے شادی کر کے اس کی ماں اس کی نگاہوں میں بالکل گر چکی تھی اور چچا کی طعن آمیز باتوں کا بدلہ وہ ہمیشہ اپنی ماں کو گالی دے کر چکایا کرتا۔” (١)
گھر کے ماحول کی وجہ سے اس کی جو ذہنی تربیت ہو تی ہے وہ آگے چل کر شدید قسم کی کشمکش اور انتشار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اور حالات اُسے ایک برا انسان بنانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
” چچا کی بخیل فطرت اور ماں کی لاپرواہی اس کی آزادانہ زندگی پر ایک عجیب طرح سے اثر انداز ہوئی وہ پہلے جس قدر گم سم رہتا تھا اب اسی قدر ہنسوڑ ہو گیا تھا اور اپنے بچپن کی غریبی کا مداوا کرنے کے لیے اُس نے جوا کھیلنا شروع کر دیا تھا۔” (٢)
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اُس کے اندر کا انسان مکمل طور پر مرا نہیں۔ اس لیے جب وہ "امی ” کے سامنے جھوٹ بولتا ہے تو اسے مکمل طور پر احساس ہے کہ وہ بر ا کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی اس کے حلق میں چائے کانٹے کی طرح چھب جاتی ہے اور کبھی وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ یوں آخر میں اس کے اندر کا انسان "امی ” کی پریشانی برداشت نہیں کرپاتا اور "امی ” کے لیے پیسوں کے بندوبست کی تگ و دو شروع کر دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ "امی” کی پریشانیوں کو کسی نہ کسی صورت میں ختم کر دے ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر ذہنی کشمکش اور کمزوریوں کے باوجود وہ ایک اچھا انسان ہے لیکن اُس کے حالات نے اسے برا بنا دیا ہے۔
جہاں تک "امی ” کے کردار کا تعلق ہے تو وہ بیٹے کی جدائی کے المیے میں گرفتار ہے۔ اور اُسے "مسعود ” میں بیٹے کی شبیہ نظرآتی ہے۔ "امی ” ایک سراپا محبت کرنے والا کردار ہے۔ اُسے نہ صرف اپنے بچوں سے محبت ہے بلکہ دوسروں سے بھی وہ اتنی ہی محبت سے پیش آتی ہے۔ وہ "مسعود” کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔ "مسعود ” کی ماں کی طرح اُس نے دوسری شادی نہیں کی لیکن پھر بھی اپنے بچوں کی تربیت میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتی” مسعود” کو وہ اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ” گلریز” کی طرف سے پیسوں کے تقاضے کا خط آتا ہے تو وہ "مسعود” کو نہیں دکھاتی کیونکہ وہ اسے غمزدہ اور پریشان نہیں دیکھ سکتی وہ اپنے مسائل اور غم اپنے آپ تک محدود رکھتی ہے۔ اور دوسروں کو آرام اور محبت دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔
"مسعود ” کی ماں ایک مجبور اور لاچار قسم کی مشرقی عورت ہے جس نے صرف اور صرف اپنے بیٹے کی صحیح پرورش کے لیے دوسری شادی کی۔ لیکن شادی کے بعد جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے اس کی توجہ اپنے بیٹے سے ہٹ جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے اپنے بیٹے سے محبت نہیں رہی بلکہ وہ مجبور ہے کیونکہ اسے (چچا) جیسے شخص کے ساتھ نباہ کر کے اپنے گھر کو بچانا ہے۔اس کردار کی اپنی معاشی اور گھریلو مجبوریاں ہیں جو کہ اس کو اپنے بیٹے سے دور کر دیتی ہے ں۔
اشفاق احمد نے "چچا‘ ‘ کے کردار کو بڑی خوبصورتی سے تراشا ہے جیسے کہ سوتیلے باپ ہوتے ہیں۔ اس کردار کے ذریعے اشفاق احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پرائی اولاد کبھی اپنی نہیں ہو سکتی۔ معاشی مسائل نے اس شخص کو چڑچڑاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ جس کا سارا زور وہ "مسعود ” پر نکالتا ہے۔ "مسعود ” کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں اس شخص کا بہت اہم کردار ہے چڑچڑاہٹ کی وجہ سے اس کردار کے مکالمے بھی طنز اور غصے سے بھر پور ہیں۔
” اس کے چچا نے غر ا کر کہا”تجھے دونی دوں ! تجھے ناداں دوں !میرے بورے جو ڈھوتا رہا ہے میرے ساتھ جو کھیلتا رہا ہے۔” (١)
"دیدی” ایک مغرور قسم کی لڑکی ہے جو کہ اپنی ماں (امی ) کی بالکل متضاد ہے۔ اسے اپنی تعلیم کا زعم ہے اور زیادہ مطالعے نے شاید اسے حقیقت پسند بنا دیا ہے۔ اس لیے وہ اپنی ماں کی طرح جذبوں پر یقین نہیں رکھتی جس کی وجہ سے "مسعود "کو وہ ہر وقت شک کی نظر سے دیکھتی رہتی ہے۔
مسعود کے جوا کھیلنے والے دوستوں کی حرکات و سکنات اور مکالموں سے اُن کی اخلاقی اور مالی حالت کا باآسانی پتہ چلتا ہے۔
"رکنے نے پوچھا
"پھر کچھ ہو جائے چھوٹی سی بازی؟”
"واہ چھوٹی کیوں لالا” کانے نے کہا "بازی ہو تو اگڑ بم ہو نہیں تو نہ سہی”
رکنا بولا”ہم تو اگڑ بم ہی کھیلتے ہیں لیکن بابو ذرا نرم ہے اس لیے لحاظ کرنا ہی پڑتا ہے۔”(١)
مکالمہ نگاری :
افسانوی ادب میں مکالمے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ مکالمہ دراصل دو افراد کے درمیان گفتگو کا نام ہے۔ اب بات رہی افسانوں، ناولوں، ڈرامہ اور داستانوں میں اس کے استعمال کی تو وہ اس ناول نگار یا افسانہ نگار پر منحصر ہے کہ وہ کردار کے شخصی تناسب سے اس کے لہجے کے لیے کون سے مکالمے اختیار کرتا ہے۔ لیکن اس کی مہارت اور خدا داد تجربے کی بناء پرہو گا کہ ایک پڑھے لکھے کردار کے مکالمے کس طرح ہونے چاہیے اور ایک ان پڑھ کردار کے مکالمے کس طرح ہونے چاہیے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں کرداروں کے مکالمے اور اُن کی گفتگو کرنے کے انداز کا بڑا خیال رکھا گیا ہے۔ اور ان کے افسانوں کے کرداروں نے اسی قسم کی گفتگو کی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ان کے مکالموں کالب و لہجہ فطری اور سادہ ہے۔ جس میں موقع اور محل کے مطابق کرداروں کے جذبات اور احساسات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اور کرداروں کی اندر کی دنیا کا عالم نمایاں کیا گیا ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کی بڑی اور بنیادی خصوصیت یہی مضبوط مکالمہ ہے۔۔ "ایک محبت سو افسانے ” میں شامل سارے افسانے فن مکالمہ نگاری کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔ افسانہ "سنگ دل” میں کامیاب مکالمہ نگاری سے کام لیا گیا ہے۔ افسانے میں "پمی ” کا کردار ایک مضبوط کردار ہے جس کے مکالموں میں ایک رومانوی احساس کے ساتھ ساتھ بے نیازی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے جیسے محبت کا جام بار بار چھلک رہا ہو:
” میں بوکھلا گیا”محبت لیکن یہ تمہیں کہاں سے یاد آ گیا ؟”
"ایسے ہی۔۔جب ہمارے سکول میں ڈرامہ ہوا تھا تو نجمہ اینٹنی بنی تھی بتاؤ نا تمہیں اس سے محبت تھی ؟”
میں نے جواب دیا "نہیں ”
"لیکن اسے تو تھی ”
"ہو گی۔۔۔ کون ہے دنیا میں جو یہ حماقت نہیں کرتا”
اس کا لہجہ ایک دم بدل گیا۔گھٹی ہوئی آواز میں اس نے میرے ہی الفاظ دہرائے "ہاں، کون ہے دنیا میں جو یہ حماقت نہیں کرتا۔” (١)
اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی نقطہ نظر سے کردار نگاری کے بعد مکالمہ نگاری بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ مکالموں کے ذریعے پڑھنے والے کرداروں کا ما فی الضمیر معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار کا فکری پیغام بھی پہنچتا ہے۔ مکالمہ نگاری کے ذریعے کہانی لکھنا قدرے مشکل کام ہے۔ جہاں تک "ایک محبت سو افسانے ” کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اشفاق احمد نے بعض افسانوں میں کہانی راوی کی زبانی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن جہاں کہیں انھوں نے مکالمہ استعمال کیا ہے وہ حسب حال اور موقع محل کے مطابق ہے۔ مثلاً افسانہ”امی ” کا مکالمہ نگاری کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کرداروں کے مکالموں سے ہی ان کی ذہنی حالت کا مکمل طور پر پتہ چلتا ہے۔اور کردار کی مکمل ذہنی اور جسمانی تصویر قاری کے سامنے آ جاتی ہے۔ "مسعود ” "چچا” کے سامنے ہمیشہ دبا دبا اور سہما ہوا رہتا ہے۔ اس کی یہ حالت چچا اور اس کے درمیان ہونے والے مکالمے سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے :
” کیوں ؟ کھڑا کیوں ہے ؟”
"کچھ نہیں جی ” مسعود کا گلا خشک ہو گیا
"کچھ تو ہے ”
"نہیں جی کچھ نہیں ” اس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا
"تو پھر فوجیں کیوں کھڑی ہیں ” (٢)
اشفاق احمد کے افسانوں کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ مکالمہ نگاری کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں مکالموں کے ذریعے حالات و واقعات کی ایسی پیش رفت دکھاتے ہیں کہ غیرمحسوس طریقے سے افسانہ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ اُن کی یہ خصوصیت تمام افسانوں میں غالب نظر آتی ہے۔ افسانہ "فہیم ” میں "سلیم ” اور "نعیم” کے مکالموں سے ان کی ذہنی سطح اور عمروں کا بخوبی پتہ چلتا ہے :
"ہٹاؤ یار اپنی ٹانگ” سلیم نے جھلا کر کہا "پھر میرے اوپر ڈال دی "!
"کہاں لے جاؤں اسے "نعیم نے تنگ آ کر پوچھا "جگہ بھی تو ہو”
"جگہ تو کافی ہے ادھر ” سلیم اٹھ کر بیٹھ گیا اور چارپائی کے اس طرف ہاتھ پھیرنے لگا۔” (٣)
اشفاق احمد کے ہاں عمدہ مکالمہ ہے جو آگے چل کر شہرہ آفاق ڈراموں کا سبب بنا۔ اور انھیں ڈرامہ نگاری میں اولیت حاصل ہو گئی۔ افسانہ "شب خون ” میں اشفاق احمد نے کرداروں کی حیثیت اور حالت کے مطابق مکالمے کہلوائے ہیں مثال کے طور پر”شقو” اور دوسرے مریضوں کے ہاں چونکہ موت ایک عام سا واقعہ ہے اس لیے موت کے بارے میں اُن کی گفتگو بھی بالکل معمول کے مطابق فطری ہے :
"یہ تو مرگیا
کون ؟شقو نے پوچھا
یہ ٹونٹی تھری
"ابھی نہیں ” ٹونٹی تھری نے آنکھیں کھول کر کہا” (١)
اسی افسانے کا ایک اور کردار "اصغر کامریڈ” ہے جس کے مکالموں میں خدا کے وجود کے متعلق طنزیہ لہجے کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ خدا کے وجود پر اس کا اعتبار اٹھ گیا ہے اس لیے وہ بلا طنز میں ڈوبے ہوئے جملوں میں کہتا ہے کہ:
” ٹی بی کا علاج تو خدا کے پاس بھی نہیں ”
اگر مکالموں کے ادا کرنے میں فطری رنگ ہو گا تو بڑا فائدہ کہانی کے فطرت کے قریب تر ہونے کا ہے۔ اس کے علاوہ کرداروں کے موقع اور حالات کے حوالے سے مکالموں میں افسانے پر بہت اثر پڑتا ہے۔ افسانہ "عجیب بادشاہ” ایک ایسا افسانہ ہے جس میں اشفاق احمد نے "زمان” کے منہ سے جو مکالمے کہلوائے ہیں اس سے اس کی عمر نفسیات اور ضدی انسان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
"میں نے کہا "الفنسٹن سٹریٹ میں بہت سی دکانیں کھلی ہوئی ہوں گی ابھی چل کر کیوں نہ لے لیں ”
زمان نے کہا”اب کل ہی لوں گا”
"کل کیوں ؟” میں نے پوچھا
"بس یار آج نہیں لوں گا”
"نہیں کیوں ؟”
"نہیں لوں گا یار کیوں کیا ؟”
میں نے کہا اچھا تمہاری مرضی یہ کوئی نئی بات تو نہیں تم ہمیشہ سے ایسے ہی ضدی اور اپنی ہٹ کے پکے رہے ہو۔” (٢)
اشفاق احمد کے افسانوں میں ایسے افسانے بھی شامل ہیں جس کا ماحول دیہاتی ہے۔ اور اُنہوں نے دیہاتی ماحول کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی ہے۔ دیہاتی ماحول میں زیادہ تر بلکہ اکثر لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی عکاسی اور اُن کی زبانی باتیں کہلوانا بہت مشکل کام ہے۔ اشفاق احمد نے دیہاتی ماحول کے مطابق سارے کرداروں سے فطری مکالمے کہلوائے ہیں۔ انھوں نے کرداروں کی ذہنی سطح اور سادہ لوحی کا خاص خیال رکھا ہے۔دیہاتی لوگوں کی گفتگو سے واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی گاؤں کے ان پڑھ اور سادہ لوح انسان باہمی سوال و جواب کر رہے ہوں۔ اور اُن کی گفتگو سے اُ ن کی معاشی حالت کی بھی عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے یہ اشفاق احمد کا کمالِ فن ہے۔مثال کے طور پر "بابا” میں دیہاتی ماحول سے تعلق رکھنے والے لوگ کچھ اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔
” چتلی ” کھپریل تلے اپنے نومولود بچے کو چاٹ رہی تھی کمالو نے دیوار سے با لٹی اُٹھا کر کہا
"چاچا جب تک تم یہاں ہو میں "چتلی ” دوہ لوں۔ ذرا دیر ہو گئی تو ڈکرانے لگے گی۔ پھر تم "وحید "بھائی کے غصے سے تو واقف ہو”
"دوہ لے "چاچا نے اطمینان سے کہا” (١)
اسی طرح ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
” کمالو بولا "چاچا بات تو شیخ نماری کی سولہ آنے کھری ہے۔ بڑے میاں جی بھی کہا کرتے تھے کہ بھونری والا گھوڑا ہرے کھیت سے گزر جائے تو کال پڑ جاتا ہے۔” (٢)
"بابا” کے مکالموں سے کرداروں کی عمر اور کیفیات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ مسعود کے مکالمے پڑھ کر اس کی معصومیت کے ساتھ ساتھ ا س کی ذہانت کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے :
” اچھا بتاؤ تم کو بابا اچھا لگتا ہے یا ممی؟”
"ممی”
"اور بابا”
"بابا بھی ”
اور "ڈاڈا”
"ڈاڈا بھی”
"ممی ڈاڈا کہاں گئے ؟” (١)
لیکن "بابا ” میں ایلن کے مکالموں کو پڑھ کر فطری پن کا احساس نہیں رہتا اور قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ ایک انگریز عورت ہونے کے باوجود "ایلن ” کیسے اتنی صاف اور شستہ زبان بول رہی ہے۔ اور یہی غیر فطری اثر اس افسانے کی ایک خامی دکھائی دیتا ہے۔
"بندرا بن کی کنج گلی میں ” میں "نمدار ” کے مکالمے اس کی قابلیت اور حاضر جوابی کو ظاہر کرتے ہیں :
"آپ اتنے سگریٹ کیوں پتے ہیں ؟”
"میں نے کہا "اس لیے کہ میرے پاس اتنے سگریٹ ہوتے ہیں اور اس لیے کہ فالتو سگریٹ بنک میں جمع نہیں کرائے جا سکتے۔”
وہ ذرا مسکرائی اور کہنے لگی۔” سگریٹ نوشی سے پھیپھڑے کالے ہو جاتے ہیں اور۔۔”
میں نے کہا "ہوتے ہیں تو ہونے دو۔انھیں کون دیکھنے جائے گا۔ شکر ہے کہ۔۔۔ (٢)
اشفاق احمد کے افسانے "توتا کہانی ” کا بنیادی موضوع محبت ہے اس لیے محبت کے حوالے سے کئی مقامات پر ہمیں "حامد ” اور "خجستہ ” کے خوبصورت مکالمے ملتے ہیں۔
"اس نے اپنا ماتھا چھاتی پر ہولے ہولے مارتے ہوئے کہا۔”آپ سے ملنے کی تمنا پہلے ایک چنگاری بن کر سلگتی رہی۔ اس کے بعد فوراً بھڑک اٹھی اور آگ کے نارنجی شعلوں نے مجھے دن رات جلانا شروع کر دیا۔۔۔ میں آپ کو اسی جہنم میں بھیجنا چاہتی ہوں۔
میں نے کہاں "تمہاری باتیں تو پہیلیاں ہیں اور میں صرف سیدھی سادھی باتیں سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ تمہارے اس معمہ کو کیونکر حل کرتا!” (٣)
اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد ان کے لیے مکالمے لکھے ہیں۔ اور انہوں نے سچائی اور کرداروں کے کھرے پن کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنے افسانوں کو کامیاب بنایا ہے۔ اور اُن میں قدرتی رنگ قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔الغرض اشفاق احمد نے "ایک محبت سو افسانے ” میں بہ لحاظ فن ایسی مکالمہ نگاری پیش کی ہے جو فن افسانہ نگاری میں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
منظر نگاری:
کسی بھی کہانی میں بہ لحاظ فن تصویر کشی یا منظر نگاری انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ قاری زندگی کے مسائل اور الجھنوں میں بعض اوقات اکتاہٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے افسانہ نگار تھوڑی دیر کے لیے قدرتی مناظر کی لفظی تصویر کشی کے ذریعے اپنے پڑھنے والے کو تر و تازہ اور پرسکون ماحول فراہم کر دیتا ہے۔ اور وہ دوبارہ افسانے کی دنیا میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا ہے۔
منظر نگاری کے حوالے سے "ایک محبت سو افسانے ” کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اشفاق احمد نے اپنے اس افسانوی مجموعے میں منظر نگاری کے جو کرشمے دکھائے ہیں وہ اُن کی فنی باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
” باہر بڑے زور کی بارش ہو رہی تھی۔ برساتی نالوں کا شور بڑھ گیا تھا۔ اور سیٹیاں بجاتی ہوئی ہوا چنگھاڑنے لگی تھی بادل شدت سے دھاڑا۔ بجلی کا ایک کوندا تیزی سے لپکا اور پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر چیل کے ایک جھنڈ سے ایسے پٹاخے چھوٹے گویا مشین گن چل گئی ہو۔” (١)
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اشفاق احمد کے اکثر افسانوں کی ابتداء ایک خوب صورت منظرسے ہوتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال "توتا کہانی ” کے ابتدائی پیراگراف ہے ں۔ اشفاق احمد کا کمال یہ ہے کہ وہ منظر کوکہانی کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اور اُسے سب کچھ ایک جیتی جاگتی تصویر کی مانند نظر آتا ہے :
ایک دن کاشی کی سمت سے آنے والے بادل نہ جانے ادھر کیسے چلے آئے کہ سارا شہر اندھیارے کی لپیٹ میں آ گیا اور موسلادھار بارش ہونے لگی ہم چاروں دوست ہاسٹل کے کمرے میں سٹو و لیمپ کے اردگرد اٹھتی ہوئی بھاپ میں اپنے سیگرٹوں کا دبیز دھواں ملا ملا کر نظارہ کر رہے تھے۔” (٢)
اسی طر ح افسانہ "مسکن ” کے ابتداء میں گاؤں کا ایک خوبصورت منظر یوں پیش کیا گیا ہے :
” میں اس چبوترے پر بیٹھا گاؤں کے تنوروں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے مرغولوں کو دیکھ رہا ہوں جن میں بہت سی جانی پہچانی صورتیں گھوم رہی ہیں۔ سامنے نیم کے کسیلے اور بکائین کے بکسیلے درختوں تلے وہ بوڑھا حقہ پی رہا ہے جس کی آنکھوں میں شاید پہلی سی چمک نہیں رہی اس کی جھونپڑی سے اب بھی وہی دھواں نکل رہا ہے جو حیات کا سہارا اور زندگی کا آسرا ہے۔” (٣)
اشفاق احمد کے افسانوں میں دو خاص طرح کے رنگ ملتے ہیں یعنی شہری اور دیہاتی رنگ، اشفاق احمد نے جو افسانے شہری معاشرت اور ان کے مسائل پر لکھے ہیں۔ ان میں بھی منظر کشی بڑی واضح ہے۔ لیکن جو ملکہ اشفاق احمد کو دیہی زندگی کی تصویر کشی کرنے میں حاصل ہے وہ شاید کسی اور کو حاصل نہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اکثر افسانوں میں دیہاتی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ ان افسانوں میں جہاں کہیں بھی اشفاق احمد کو تصویر کشی کا موقع ملا وہاں اُس نے ماہر مصور کی طرح دھنک کے رنگ بکھیرے ہیں :
” کھیتی پک کر تیار ہو گئی۔ فصل کاٹی گئی۔ کھلیان دور دور تک پھیل گئے۔تیتریوں نے ان میں جا کر انڈے بھی دے دیے اور مرغیاں موقع پا کر وہاں سے رسد حاصل کرنے لگیں۔ ریڈو روڈ کے بچے مرغیاں بن گئے۔ چتلی کا بچھڑا اب کسی سے باندھا نہ جاتا تھا اور کاٹھیاواڑی گھوڑی اور اس کا بچھیراسارا سارا دن ہری ہری دوب چرتے رہتے۔” (١)
ویسے بھی ناول یا افسانوی ادب کی کسی بھی صنف میں منظر کشی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس سے واقعات کو شوخ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اور قاری اس منظر کشی کے پس منظر میں واقعہ کو کافی عرصہ تک یاد بھی رکھتا ہے۔ ہمیں اشفاق احمد کے افسانوں میں یہی رنگ اور یہی آہنگ نظر آتا ہے۔ "انہوں نے ایک اپنے افسانوں میں ایسی منظر کشی کی ہے کہ ایک ماہر مصور کا کام معلوم ہوتا ہے۔ اور اُن کے لفظوں کے ذریعے منظر کشی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگتی ہے۔”(٢)افسانہ "توبہ ” میں شادی کی تقریب کو یوں واضح کیا ہے کہ اس کے پس منظر میں ہونے والا واقعہ قاری کے ذہن پر انمٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں :
” لڑکیوں کے بالوں میں ربن بندھے تھے اور آنکھوں میں سرمہ تھا۔ لڑکوں کی جیبوں میں کھانے کی چیزیں ٹھسی ہوئی تھیں اور ہاتھوں میں ننھی ننھی چھڑیاں تھیں وہ ” ہم ٹھنڈی موسم سے آئے ہیں ” کھیل رہے تھے۔ جب ان کا ہنگامہ بہت بڑھ گیا تو بیٹھک کے دروازے سے لیکھا نکلی، ننگے پاؤں، اور مجھے جعفری میں بیٹھا ہوا دیکھ کر کھسکتی کھسکتی جعفری سے آ لگی۔ ” (٣)
اسی طرح کسی بھی کہانی کو جزئیات کے ساتھ بیان کرنا اور اردگرد کے مناظر کی تصویر کشی ہی قاری کی توجہ بھٹکنے نہیں دیتی اور قاری اپنے آپ کوافسانے کا حصہ تصور کرنے لگتا ہے۔ افسانہ "پناہیں ” میں جزئیات نگاری کے ساتھ ساتھ خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے جو کہ اشفاق احمد کے افسانوں کا خاصہ رہا ہے۔ مثلاً گاؤں کے اسٹیشن کا یہ منظر :
” چھوٹے سے اسٹیشن پر چند مسافر اونگھ رہے تھے ایک چھابڑی والا پھل، سگریٹ، دال روٹی اور شربت بیچ رہا تھا۔ سارے مسافر خانے میں صرف ایک ہی پوسٹر تھا”قطار باندھ کر ٹکٹ خریدئیے ” باہر لکڑی کی ایک چھوٹی سی سبز رنگ کی جھونپڑی میں پینے کا پانی رکھا تھا۔ بینچوں پر روغن کے علاوہ میل کا ایک دبیز غلاف چڑھا ہوا تھا اور ہوا میں پھلوں، سگریٹوں، پان کی پیک، پتھریلے کوئلے کے دھوئیں اور زنگ آلود لوہے کی بو لہرا رہی تھی۔ جو ایک جگہ جمع ہو کر اسٹیشن کا نام پاتی ہے۔” (١)
منظر نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو”ایک محبت سو افسانے ” میں ایسے افسانے میں بھی شامل ہیں جن میں 47کے فسادات میں ہونے والے ہولناک واقعات کو خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
” خاک کے ذرات چنگاریوں کی طرح گرم اور نیزے کی انیوں کی طرح نوکیلے، پسینے سے تر جسموں میں نشتروں کی طرح اترتے چلے جا رہے تھے۔ اس پر رائفلوں کی سیٹیاں بجاتی گولیاں اور سٹین گنوں کی تڑ تڑ کرتی باڑھیں ! انسان تھے سانس رکھے سب برداشت کر تے گئے۔ بچے پیاس کی شدت سے چلا رہے تھے۔” (٢)
منظر کشی کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کرداروں کا سراپا بھی کچھ اس طرح سے کھینچے ہیں کہ ان کی مختلف کیفیات کی داخلی تصویر ہمارے سامنے مکمل طور پر نمایاں اور واضح ہو جاتی ہے۔ جیسے افسانہ "بابا” میں "ایلن ” اور "وحید” کی آخری ملاقات کے موقع پر ” ایلن "کی حالت کچھ یوں بیان کی ہے :
"گریبان کا اوپر کا بٹن کھلا تھا اور گلے کی نیلی نیلی رگیں مرمریں جلد میں چوڑیوں کے تاروں کی طرح خاموش پڑی تھی۔ کن پٹیوں سے اٹھے ہوئے سنہرے بالوں کے لچے آہستہ آہستہ سانس لے رہے تھے۔ اور پر سکون پتلیوں کے پیچھے جھلملاتے آنسو کہہ رہے تھے کہ ایسی شاموں کو ہم چراغاں کیا کرتے ہیں۔” (٣)
پلاٹ :
پلاٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی صنف نثر یا کہانی خواہ وہ داستان ہو، ناول ہو ڈرامہ ہو یا افسانہ ہو اس میں کہانی یا پلاٹ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کہانی کے مربوط ہونے اور تسلسل کی وجہ سے اس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ اور قاری اس کو شروع سے لے کر آ کر تک بڑی توجہ اور غور سے پڑھتا ہے۔
جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو ساخت کے اعتبار سے ہم افسانوں کو دو بڑی قسموں میں رکھ سکتے ہیں۔ ایک وہ افسانے جن میں نبیادی اہمیت پلاٹ اور کہانی کو حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک وہ جو مخصوص کرداروں پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں کرداری افسانے کہا جاتا ہے۔ اشفاق احمد کے ہاں دونوں قسم کے افسانے ملتے ہیں۔ جن افسانوں میں پلاٹ پر زور دیا گیا ہے ان میں پلاٹ کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ تمام واقعات مربوط ہیں اور ایک دوسرے کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی خلاءمحسوس نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں "بابا”، "پناہیں ” اور اسی طرح دوسرے افسانے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اشفاق احمد نے اپنے افسانوں کا آغاز دلچسپ رکھا ہے۔ اور کہانی منطقی طور پر ارتقاء کی منزلیں طے کرتی اپنے نقطہ عروج تک پہنچتی ہے۔ اور پھر واقعاتی ربط کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کا اختتام زیادہ تعجب خیز اور چونکا دینے والا نہیں ہوتا۔ شاید اس لیے کہ اُن کے مزاج کا توازن اور اعتدا ل انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔
عموماً و ہ سیدھے سادے انداز میں بات بیان کر دیتے ہیں۔ اس میں بھی خاص تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض افسانوں میں انھوں نے غائب کردار یا راوی کی حیثیت سے کہانی بیان کر دی ہے اور بعض افسانوں میں و ہ خود ایک کردار کے طور پر ابھر تے ہیں۔اور صیغہ واحد متکلم میں بیان کرتے ہیں۔ "توبہ "، "مسکن””سنگ دل” "عجیب بادشاہ” اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
کتاب میں شامل "رات بیت رہی ہے ” واحد ایک ایسا افسانہ ہے جس کا پلاٹ خط کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ خطوط سے افسانوں کے پلاٹ تشکیل دینے کی وراثت ہمیں "یلدرم ” اور "پریم چند” کے ہاں بھی مل جاتی ہے۔ جو کہ اردو کے بالکل ابتدائی افسانہ نگار ہیں۔
بعض افسانوں کے پلاٹ کہانی کے نقطہ آغا ز سے شروع ہوتے ہیں اور سیدھی سادی ترتیب سے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن کئی افسانوں میں اشفاق احمد نے فلیش بیک کا طریقہ اختیار کیا ہے جن میں "مسکن "،”طوطا کہانی "،”عجیب بادشاہ” اور "پناہیں ” جیسے افسانے شامل ہیں۔
بعض کہانیاں کسی درمیانی واقعے سے شروع کی گئی ہیں پھر اس سے مربوط ماضی کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ان افسانوں میں "توبہ "،”رات بیت رہی ہے ” جیسے افسانے شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ اشفاق احمد نے افسانوں کے پلاٹ میں تنوع اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
وحدت تاثر:
افسانے کا ایک اہم جز وحدت تاثر تصور کیا جاتا ہے یعنی افسانہ نگار نے اپنے پورے افسانے میں زندگی کی کونسی اکائی بیان کی ہے۔ محبت کے متنوع رنگ ہوں یا معاشرے کے اندر کسی ایک مسئلے کی نشاندہی اشفاق احمد نے اس حوالے سے اپنے افسانوں میں وحدت تاثر کا بھر پور خیال رکھا ہے۔ انھوں نے کہانی کے اختتام پر کچھ اس قسم کی فضا پیش کی ہے کہ قاری اُسے ختم کرنے کے بعد کسی نہ کسی خاص سمت میں ضرور سوچنے لگتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں وحدت کا تاثر نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں "فہیم "،”بابا”،”تلاش” میں محبت کے آفاقی اور متنوع اشکال سامنے لانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ "امی”، "پناہیں "اور "بندرا بن کی کنج گلی میں ” جیسے افسانوں میں انسانی جذبے، نفرت،جنس، حرص و لالچ اور ظلم وغیرہ کی وحدت کو اجاگر کیا ہے۔ ان وحدتوں کا ذکر کر کے اشفاق احمد نے اپنے افسانوں کو مضبوط اور آفاقی رنگ دے کر ان کے اثر اور افادیت کو بڑھا دیا ہے۔
تجسّس و جستجو:
فنی لحاظ سے کہانی میں دلچسپی اور دلکشی قائم رکھنے کے لیے تجسّس و جستجو کا اہتمام انتہائی لازمی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جستجو کی برقی رو کے بغیرافسانے میں دلچسپی کے عناصر قائم نہیں رہ سکتے۔ دوسری فنی خصوصیات کے علاوہ افسانے کی اَسّی فیصد دلچسپی کا دارومدار تجسّس وجستجو پر ہوتا ہے۔ اس لیے جب دھڑکتے دل کے ساتھ ذہن میں ہر لمحہ یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اب کیا ہو گا تو دلچسپی قائم نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فنی نقطہ نظر سے تجسّس و جستجو کی اس اشد ضرورت کو فنکار نے زیر بحث مجموعے "ایک محبت سو افسانے ” میں بطور خاص برتا ہے۔ مجموعے کا ہر افسانہ عنوان سے لے کر کہانی تک قاری پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دیتا۔ اور قاری اختتام تک افسانے کے ساتھ مکمل توجہ اور انہماک کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
تجسّس و جستجو کے حوالے سے دیکھا جائے تو مجموعے کا پہلا افسانہ "توبہ ” قاری کو اپنے عنوان سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے قاری کی توجہ اور دلچسپی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ خاص طور پر افسانے کا وہ حصہ جب "لیکھا” اور "اعجاز” کی خاموش محبت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں کردار کیا ایک دوسرے کو پا سکیں گے ؟ کہانی کا اختتام قاری کو ایک عجیب قسم کی تشنگی سے دوچار کرتا ہے اور کہانی کے ختم ہونے کے بعد قاری کے اندر تجسّس و جستجو کی کیفیت بدستور برقرار رہتی ہے۔
افسانہ "عجیب بادشاہ” اپنے پہلے چند سطور کی مدد سے قاری پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے۔ "زمان ” کی مصنف سے ملاقات قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر مصنف اور "زمان” کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اور زمان اتنے سالوں تک آخر کار مصنف سے دور کیوں رہا جس کا جواب آگے چل کر قاری کو ملتا ہے۔ "زمان ” کی گذشتہ زندگی کی کہانی بھی تجسّس و جستجو سے بھر پور ہے۔ لمحہ بہ لمحہ اور گاہے بہ گاہے جب یہ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ تو ہمیں اس بات کا ہمیشہ سے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ”سیما” اور "زمان” کی محبت کیا رنگ لائے گی۔ افسانے کے آخر میں "سہیل ” کی بیماری اور زندگی اور موت کے درمیان اس کی کشمکش بھی قاری کے لیے تجسّس و جستجو سے خالی نہیں۔
افسانہ "شب خون ” ابتداءسے لے کر انتہا تک قاری کو متجسس رکھتا ہے۔”شقو ” کی بیماری دیکھ کر ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ کیا "شقو” اس جان لیوا بیماری کا مقابلہ کر سکے گا؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ہنستی کھیلتی زندگی کی طرف واپس لوٹ سکے گا؟کیا”بیٹرس” کی دعائیں رنگ لائیں گی؟ آخر میں "شقو” کی ہارتے ہوئے جواری کی مانند المناک موت ان تمام سوالوں کے جوابات قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔
افسانہ "توتا کہانی” میں تجسّس و جستجو کی کیفیت اس وقت اپنی عروج پر ہوتی ہے جب "خجستہ ” کا کردار ہمارے سامنے آتا ہے۔ اور قاری اس کی حرکتوں کی وجہ سے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ مقبرہ جہانگیر میں قاری کا تجسّس اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اور قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا "خجستہ "،”حامد” کو پہچان پائے گی ؟ یا ا س سے پہلے ہی اُس کی "پھوپھی” اور "ماں ‘ ‘ اُن تک پہنچ جائیں گے۔ پھر کہانی کے آخر میں "حامد” اور "خجستہ ” کے درمیان ہونے والی کشمکش میں بھی قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر کہانی کا انجام کیا ہو گا ؟اور کون محبت کی خاطر اپنی قربانی پیش کرے گا؟
افسانہ "امی ” بھی تجسّس و جستجو کے فنی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے۔ "مسعود ” کی امی سے پہلی ملاقات ہی قاری کو متجسّس کر دیتا ہے۔ اور قاری امی کی شناخت اور اس کی شخصیت کے متعلق جاننے کا خواہشمند رہتا ہے۔ کہانی کے آخر میں ” مسعود” کی زخمی حالت میں "امی "تک پہنچنے کی خواہش بھی اپنے اندر ایک تجسّس و جستجو کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ قاری اس دوران یہ ضرور سوچتا ہے کہ کیا "مسعود” امی کے پاس پہنچ جائے گا؟ یا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے گا؟
"پناہیں ” میں ” آصف "کے باپ کی خود کلامی اور” آصف” کا ذکر قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر یہ "آصف "کون ہے ؟ اور اس کا اس بوڑھے شخص سے رشتہ کیا ہے ؟ اور ایسے کیا واقعات ہو چکے ہیں جس وجہ سے ” آصف” اور اس کے باپ کے درمیان جدائی کی ایک فصیل کھڑی ہو گئی ہے ؟ خصوصاً جب کہانی کے آخر میں "آصف ” کا بوڑھا باپ انجانی منزل کی جانب روانہ ہوتا ہے تو قاری اس موڑ پر یہ سوچتا ہے کہ آخر اس سفر کا انجام کیا ہو گا ؟ اور وہ کہاں پہنچ کر دم لے گا؟
افسانہ "بابا” میں ایک ایسی کیفیت موجود ہے جو قاری کو کسی صورت میں اپنی گرفت سے آزاد ہونے نہیں دیتی خاص طور پر جب "وحید ” انگریز افسر سے باہر جانے کی بات کرتا ہے تو قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ کیا "وحید” اپنی پیاری بیوی بچوں اور باپ کو چھوڑ کر فطرت سے دور چلا جائے گا؟”ایلن” کی زندگی اور موت کے درمیان جاری کشمکش بھی یہ سوال ہمارے سامنے لاتی ہے کہ کیا "ایلن ” کو "بابا” بچا پائے گا؟ یا "ایلن ” کربناک موت سے دوچار ہو گی؟ آخر میں مسعود کے اکیلا رہ جانے پر قاری اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ "بابا”کے بعد "مسعود” کا مستقبل کیا ہو گا؟ اور یہی تشنگی کی کیفیت قاری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تجسّس سے دوچار کر دیتی ہے۔
اس کے علاوہ "فہیم ” "تلاش ” "مسکن ” "بندرا بن کی کنج گلی ” ایسی کہانیاں ہیں جو فنی نقطہ نظر سے تجسّس و جستجو کے تمام اصولوں پر پورا اترتی ہیں اور قاری کی دلچسپی اور تجسّس کو بڑھا کر اُن پر اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہیں۔
اسلوبِ نگارش:
اگر ہم مجموعے کے افسانوں کے حوالے سے اشفاق احمد کے اسلوب نگارش کا تجزیہ کریں تو بنیادی طور پراشفاق احمد نے بیانیہ طرز تحریر اختیار کیا ہے۔ ویسے افسانہ نگاری بنیادی طور پر بیانیہ صنف نثر ہے لیکن آج کل کے افسانہ نگاروں نے اس طرز کو بد ل کر رکھ دیا ہے۔ اشفاق احمد چونکہ اپنے افسانوں میں کہانی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہانی کے اثاثی تقاضے کے پیش نظر انہوں نے بیانیہ طرز نگارش اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ بیانیہ طرز خشک اور سپاٹ قطعی طور پر نہیں بلکہ اس میں دلکشی اور دلچسپی بدرجہ اتم موجود ہے۔
اشفاق احمد کے افسانے قدرت اظہار کا مظہر ہیں انھوں نے سادہ بیانیہ انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ وسائل کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے افسانوں میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے افسانوں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
افسانہ "توتا کہانی ” میں کچھ خوبصورت تشبیہات اور استعارات نے عبارت کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں مثلاً:
” بارش کے دو موٹے قطروں ایسے بڑے آنسو اس کی پلکوں پر تھرکنے لگے۔” (١)
” اُس کے آنسو خشک ہو چکے تھے اور دھوئی دھائی آنکھوں کی سفیدی برفیلی ہو کر کافور کی ٹکیاں بن گئی تھیں اُس نے اپنے لب کھولے اور ہارمونیم کے پروں ایسے دانتوں میں اپنی سرخ سرخ زبان دبا لی۔” (٢)
اشفاق احمد نے افسانہ "بابا” میں مختلف مقامات پر تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہوئے عبارت میں دلکشی اور ندرت پیدا کی ہے۔
” اُسے معلوم تھا کہ ذرا سی ہمدردی بھی اس مون سون کے راستے میں اونچا پہاڑ بن جائے گی۔۔۔ اور شام تک اندر باہر ایسے ہی بارش ہو تی رہی۔” (٣)
"وحید نے سگریٹ پرے پھینک کر اُس کے چہرے سے سنہرے بالوں کو پیچھے ہٹا کر دیکھا۔ براق نگینے اُس کے گوشہ چشم سے پھسل کر ناک کی پھننگ پرذرا سی دیر کے لیے ٹھہرتے۔” (١)
"رات بیت رہی ہے ” ایک ایسا افسانہ ہے جو کہ خط کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ لیکن مصنف کے انداز تحریر کا کمال ہے کہ یہ افسانہ ایک خط کی بجائے ایک مکمل کہانی معلوم ہوتا ہے۔ اس افسانے میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات کا سہارا لے کر مصنف نے عبارت کو مزید خوبصورت بنایا ہے۔
” لیکن پھر تم نے بھر پور نگاہوں سے مجھے نہیں دیکھا ایسے ہی جگنو سے جھپکاتی رہی اور اُٹھ کر چلی گئی۔” (٢)
"مارگریٹ نے سرخ رنگ کی سکرٹ پہنی ہوئی تھی اور وہ لالے کا پھول دکھائی دیتی تھی جو آسمان سے شبنم کے ساتھ اتر ہوا ہو۔” (٣)
"اشفاق احمد نے افسانہ "سنگ دل ” میں مختلف اشعار کو بھی جگہ دی ہے یہ اشعار کہانی میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور برمحل اور با موقع ہونے کے سبب افسا نے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانے کے آخر میں یہ شعر ہیروئن کے جذبات کی مکمل عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
"اشفاق احمد کے افسانہ "بابا ” کا اسلوب ایک خاص قسم کی خوب صورتی کا حامل ہے کہانی میں ایسے بہت سے جملے ہیں جن پر شاعری کا گماں ہوتا ہے۔ اسی لیے "وحید” کے جملوں کے بارے میں انگریز افسربھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آپ لوگ کاشت کم کرتے ہیں اور شاعری زیادہ:
"صبح جب ایلن اصطبل کا دروازہ کھولتی ہے تو میں اپنے دریچے سے اُجالا اور پچی کو اترتے دیکھتا ہوں۔قدم تول تول کر رکھنے کی وجہ سے ان کی ایالیں ایسے ہلتی ہیں جیسے کوٹے پر کنگھی کرتی ہوئی کوئی لڑکی نیچے صحن میں کسی کی آواز سن کر ہچکچاتی ہوئی جلدی جلدی سیڑھیاں اُترے۔” (٤)
"بندرابن کی کنج گلی میں ” اپنی خوبصورت نثر کی بدولت ایک بے مثال افسانہ ہے۔ افسانے کے بہت سے ایسے حصے ہیں جن کو پڑھ کر شاعری کا گماں گزرتا ہے :
’ ’اس کی آنکھوں میں صبح بنارس کی سی نرمی تھی اور اس کے بال برسات کی اندھیری رات کی طرح سیاہ تھے۔ وہ دونوں ہاتھوں کو بے پروائی سے میز پر ڈالے پڑھ رہی تھی۔ انگلیاں بہت زیادہ لمبی نہ تھیں۔ جلد بہت زیادہ سفید نہ تھی۔ مگر میز پر رکھے ہوئے وہ ہاتھ حضرت مسیح کی عبا کی دو موٹی موٹی سلوٹیں معلوم ہوتے تھے۔ کلثوم اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ اچھی لگی تھی مگر اب کی بار وہ صرف اچھی ہی نہ لگی بلکہ اپنے سے برتر بھی۔ میرا جی چاہا کہ ابن مریم کے دامن کو ایک بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لوں مگر کلاس روم میں اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کی مجھے جرات نہ ہوئی۔”(١)
افسانہ "سنگ دل ” میں غالب کا اثر بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ غالب کے اشعار کے استعمال کے ساتھ ساتھ تشبیہات میں بھی غالب کے اشعار کا حوالہ اکثر ملتا ہے :
” وہ کیوں اس قدر حزیں تھی ؟ غالب کے شعروں کی طرح اداس اداس لیکن میٹھی میٹھی۔” (٢)
"اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا کتنی اداس چمک تھی بالکل غالب کے شعروں جیسی۔” (٣)
افسانہ "بابا” کے مکالمے اپنے اندر رمز اور کنایئے کی کیفیات بھی رکھتے ہیں جن کے اندر پوشیدہ معنی قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
"یہاں مول سے بیاج زیادہ پیار ا ہوتا ہے۔” (٤)
اس کے علاوہ "بابا” لپ سٹک کے بارے میں جب مسعود سے کہتا ہے کہ:
” اور یہ زہر صرف مردوں ہی پر اثر کرتا ہے۔” (٥)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اشفاق احمد کے افسانوں میں اسلوب کی تمام تر خوب صورتی اور چاشنی موجود ہے۔ جس کی بدولت اُن کے افسانے الفاظ کے حسین و جمیل مرقعے بن گئے ہیں۔
الغرض اشفاق احمد نے فن افسانے نگاری کے تمام اصولوں کو بہترین انداز میں نبھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کردار نگاری کے حوالے سے اردو ادب کو چند خوب صورت اور دلکش کرداروں سے نوازا ہے۔ ان کے مکالموں میں بے ساختگی اور فطری پن کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اور یہی مکالمہ آگے چل کر اُن کے شہرہ آفاق ڈراموں کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔
جزئیات کی خوب صورت تصویر کشی اور مناظر فطرت کی منظر کشی کر کے اشفاق احمد نے قاری کی دلچسپی اور توجہ افسانے کی طرف مائل رکھنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ افسانوں کا پلاٹ مربوط اور رواں ہونے کی وجہ سے کہانی میں کسی قسم کا جھول اور خلا محسوس نہیں ہوتا۔ یوں اُن کے افسانوں میں موجود تجسّس و جستجو کی کیفیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی مدد سے قاری پر ہر افسانے کی گرفت مضبوط رہتی ہے اور قاری مکمل انہماک اور دلچسپی سے آنے والے واقعات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔خوب صورت تشبیہات اور استعارات بھی اس مجموعے کا خاصہ ہے ں اُن کے اسلوب میں موجود خوبصورتی اور دلکشی بیان میں ندرت اور انفرادیت پیدا کرتی ہے۔
باب چہارم: "ایک محبت سو افسانے ” فکری جائزہ
اشفاق احمد قلم قبیلے کی اُس مسلک سے وابستہ ہیں جنہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھتے وقت کسی نظریاتی دبستان یا تحریک کو سیڑھی نہیں بنایا۔ان کے ہاں حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یعنی ایک طرف انھوں نے محبت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے تو دوسری طرف زندگی کی حقیقتوں اور معاشرتی مسائل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو محبت ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع دکھائی دیتا ہے۔ محبت کی متنوع اشکال اشفاق احمد کے ہاں ملتی ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں محبت ایک عظیم کائناتی سچائی کی صورت میں ابھر تی ہے اور مجاز سے حقیقت کی طرف سفر کرتی ہے۔ موضوع کے حوالے سے دیکھا جائے تو "توبہ ” "اعجاز ” اور "لیکھا ” کی محبت کی داستا ن ہے۔ "رات بیت رہی ہے ” پائلٹ اور اُس کی محبوبہ کی رومان کی یاد جبکہ”شب خون ” "شقو ” اور "بیٹرس” کی محبت کی کہانی ہے۔ اسی طرح "توتا کہانی” میں خوبصورت رومانوی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتے ہوئے "حامد ” اور "خجستہ ” کی محبت کو کہانی کا موضوع بنایا گیا ہے۔ جبکہ عجیب بادشاہ "زمان” اور اُس کے بیٹے اور بیوی کے درمیان ایک ان مٹ رشتے کی داستان ہے۔
افسانہ "رات بیت رہی ہے ” میں ہمیں روحانی محبت کی مکمل تعریف اور تصویر نظر آتی ہے۔ اپنی خواہشات اور مرضی کو اپنے محبوب کے سامنے تج دینا ہی اصل محبت ہے۔ اور اپنے اختیار کی ٹوکری اپنے محبوب کے قدموں میں رکھ دینا محبت کا عظیم منصب ہے۔ اس افسانے میں بھی ہیرو نے اپنی خواہشات اور مرضی کو اپنی محبوبہ کے سامنے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ وہ بی۔ اے میں داخلہ نہیں لینا چاہتا وہ خود پائلٹ نہیں بننا چاہتا لیکن اپنی محبوبہ کی مرضی سے غیر ارادی طور پر سب کچھ کر رہا ہے۔ حالانکہ جب اس کا اعتبار خدا کی ذات سے اُٹھ جاتا ے اور وہ خدا کی ذات سے منکر ہو جاتا ہے تو اپنی محبوبہ کی ایک دھمکی کے بعد اُسے ہر چیز میں خدا کا ظہور نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
تیری جنبشِ لب پر انحصار اپنا ہے
تو کہے تو جی لیں ہم تو کہے تو مر جائیں
اسی طرح افسانہ "بابا ” پڑھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ انسان کے لیے سانس کی طرح ضروری ہے۔ اسی لیے ” ایلن” اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر” وحید” کے ساتھ ایک گمنام گاؤں میں آباد ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اُسے ” وحید” سے گہری محبت ہے۔ اور وہ اُس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ جس کا بھر پور احساس اُسے "وحید ” کی جدائی کے بعد ہوتا ہے جب وہ اس پچھتاوے سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہتی ہے کہ اُس نے ” وحید” کو ڈاکٹری دوبارہ جائن کرنے کا مشورہ کیوں دیا۔ یوں "عجیب بادشاہ” میں بھی زمان کا بیٹا اپنی ماں سے شدید محبت کرتا ہے اور اُس کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں صرف انسانوں سے محبت کا حوالہ نہیں ملتا بلکہ اُن کے ہاں ہمیں مخلوق خدا سے محبت کرنے والے آئیڈیل کردار بھی نظر آتے ہیں۔ ان کرداروں کا نصب العین صرف انسانوں کی محبت نہیں بلکہ وہ جانوروں سے بھی اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اُن کی جدائی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پاگل ہو جاتے ہیں۔ افسانہ "فہیم ‘ ‘ میں اشفاق احمد نے "نانا ” کے کردار کے ذریعے یہ فکر ی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو صرف ایک شخص سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں اور مخلوقات سے محبت کرنی چاہیے۔ اور سب کو سکھ دینا چاہیے۔ اس طرح اشفاق احمد محبت کا ایک آفاقی تصور پیش کرتے ہیں۔ آج کے مادہ پرست اور سائنسی دور میں شائد سب سے زیادہ اسی محبت کی کمی ہے۔ جس کی بدولت دنیا میں ظلم و ستم خوف، گھٹن اور انفرادی سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے۔افسانہ "بابا ” کا کردار” ایلن "بھی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ تمام مخلوق خدا سے محبت میں ہی انسان کی عظمت ہے۔ اسی لیے "ایلن” گائے کے بچھڑے کو بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیتی ہے۔ اور آخر کار اسی وجہ سے شدید بیمار ہو کر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔یوں ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ اشفاق احمد کا پیغام صرف اور صرف محبت ہے خواہ وہ انسانوں کے ساتھ ہو یا مخلوقِ خدا کے ساتھ ہو۔
افسانہ "تلاش” میں بھی”احسان ” کے کردار کے ذریعے اشفاق احمد نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان محبت میں کبھی بھی جدائی کا تصور نہیں کر سکتا خواہ یہ محبت کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔” احسان” "جیکی "کے پیچھے دیوانگی کی حالت میں غائب ہو کر سب گھر والوں کو اشک بار چھوڑ جاتا ہے۔ اشفاق احمد کا معصوم "احسان "دراصل ایک علامت ہے جس کے ذریعے اشفاق احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کبھی بھی کسی اپنے کی جدائی کے کرب کو سہہ نہیں سکتا اور یہ جدائی کی کیفیت اُسے پاگل بنا دیتی ہے۔
افسانہ "فہیم” پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں وہ اللہ کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ ایک کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ان کا توکل صرف اور صرف اپنے اللہ پر ہوتا ہے۔” نانا” کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک بہت بڑی مثال ہے۔” نانا” ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں میں سکھ تقسیم کرتا ہے۔ اور کبھی بھی اپنے لیے کچھ نہیں رکھتا اور جو کچھ ملتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے۔اور اپنے اللہ پر یقین اور بھروسا رکھتا ہے۔ اگر آج کی دنیا میں ” نانا”جیسے لوگ پیدا ہو ں تو دنیا سے تمام دکھوں کا خاتمہ ہو جائے۔اور یہ دنیا جنت کی مثال بن جائے۔
اشفاق احمد کے بارے میں اکثر نقادوں کا کہنا ہے کہ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے جدائی کے المیے سے دوچار نظر آتے ہیں۔ اُ ن کے کرداروں کا مقدر صرف اور صرف جدائی ہے۔ اشفاق احمد کو اپنے انہی کرداروں سے محبت ہے جو کہ جدائی کے المیے کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر "شب خون” میں ” بیٹرس” جو "شقو "کو دل سے چاہتی ہے۔”شقو "کی موت کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس سے جدا ہو جاتی ہے اور” شقو "شکست خوردہ سپاہی کی طرح "بیٹرس” کے ہونٹوں پر اپنی جان دے کر اس دنیا سے کو چ کر جاتا ہے۔
توکسی حال میں، میں کسی حال میں
کیسے ہم کو یہاں ایک فردا ملے
"توبہ” کے کردار” اعجاز” اور” لیکھا” بھی ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ جبکہ افسانہ "رات بیت رہی ” کے تمام کردار کسی نہ کسی صورت میں محبت میں جدائی کے دکھ کا شکار ہیں۔”پیٹر "اپنی محبوبہ سے ملنے کی خواہش اپنے دل میں لیے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے اور افسانے کے ہیرو کی زندگی کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ جنگ اُسے اپنی محبوبہ سے ملنے کی اجازت دے گی یا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے ؟افسانہ "بابا‘ ‘ میں بھی کردار” بابا”، "ایلن "، "وحید”، "مسعود” سب کا المیہ ایک دوسرے سے جدائی ہے۔ اور کہانی کے آخر میں ان تمام کرداروں کی ایک دوسرے سے جدائی قاری کو ایک افسردہ اور غمگین کیفیت سے دوچار کرتی ہے۔جبکہ "سنگدل ” میں بھی جدائی کی یہی کیفیت موجود ہے۔افسانہ "بندرا بن کی کنجگلی میں ” بھی” کلثوم” کی موت” نمدار” اور اُس کے درمیان نہ ختم ہونے والی جدائی کی دیوار کھڑی کر کے اختتام پذیر ہوتا ہے۔جبکہ "پناہیں "، "تلاش”، "فہیم ” "امی ” میں تقریباً کسی نہ کسی حوالے سے ہر کردار کا المیہ اور دکھ جدائی ہے۔
اشفاق احمد کے ہاں فطرت سے محبت کا احساس ہمیں افسانہ "بابا ” میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے ’وحید "کی فطرت پسندی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان چاہے جتنی ترقی کر لے لیکن آخر کار اُسے فطرت کی طرف دوبارہ مراجعت کر کے فطرت کا حصہ بن کر ہی سکون ملتا ہے۔ کیونکہ زندگی کی اصل خوبصورتی کو روح سے محسوس کرنے اور خدا کے نزدیک ہونے کا ذریعہ صرف اور صرف فطرت ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کے مادی مسائل نہ ہونے کے برابر تھے اس لیے کہ وہ فطرت سے محبت کرتا تھا اور اس فطری زندگی میں ا یک اجتماعی زندگی بسر کر رہا تھا۔ او راُس کا اعتبار جسم سے زیادہ رو ح پر تھا۔”وحید” بھی جدید انسان کی ہو بہو تصویر ہے جو کہ مادی دور سے نکل کر فطرت کی طرف سفر کر کے اپنے کھوئے ہوئے آدرش کو پانا چاہتا ہے۔
محبت کے موضوع پر اشفاق احمد کا بھر پور اور خوبصورت افسانہ” تو تا کہا نی” ہے جو کہ رومانوی جذبات کی غمازی کر تا ہے۔ اس افسانے میں اشفاق احمد یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ کسی بھی صورت میں دبایا یا ترک نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرہ، وقت،انسان،ہر دور میں اس کے راستے میں حائل رہتے ہیں۔ اور انسان وقتی طور پر ان سے ڈرتا رہتا ہے۔ اور اپنے دل میں خوف کا ایک طوطا پال لیتا ہے۔ جو کہ اُس کے اندر حالات کا خوف پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ لیکن ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب انسان اپنے اس خود ساختہ پالے ہوئے طوطے کو قابو کر لیتا ہے اور اپنے گرد بنائی گئی خود ساختہ دیوار کو گرا کر محبت کی منزل کی طرف سفر کرتا ہے۔ اور اس سفر میں وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اور اسی طرح افسانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آخر میں "خجستہ”محبت کے معاملے میں اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
اس افسانے میں ہمیں یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ عورت اور مرد کی محبت ایک فطری عمل ہے۔ عورت کے دل میں مرد کے لیے ایک جذبہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ اور اُس کی ہمیشہ سے یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی اُسے چاہے اس سے محبت کرے۔ کہانی میں "حامد” "خجستہ” کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اُسے احساس دلاتا ہے کہ وہ شخص میں تھا جو کبھی دھیرے سے تمہیں خیالوں میں گدگدا دیتا تھا سکول کی سیڑھیوں پر تم میرا انتظار کیا کرتی تھی۔ دراصل یہاں اشفاق احمد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر عورت کے دل میں ایک سپنوں کا راج کمار ضرور ہوتا ہے۔ جو کہ وقت آنے پر اُس کے سپنوں سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آ جاتا ہے۔
اس افسانے میں حامد کی باتوں کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ محبت ایک سفر ہے ایک کہانی ہے جو کہ آگے کی سمت بڑھ رہی ہے صرف کردار بدل رہے ہیں۔ بقول حامد،
” تم اُسی سے بیاہی جاؤ گی جس کے لیے تم لنکا کی پہاڑیوں میں ماری ماری پھری ہو۔” (١)
یعنی کہانی وہی پرانی ہے سیتا اور رام کی لیکن کردار بدل گئے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
محبت کا کھیل کسی نفع اور نقصان کا محتاج نہیں اور نہ اس کی منزل حصول ہے،
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
لیکن مادہ پرست اور ہوس پرست ذہن اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ اُن کے ہاں جذبوں سے زیادہ چیزوں کی قدر ہوتی ہے۔ اور یوں جو دلوں کا بیوپار کرتے ہیں وہ کبھی محبت نہیں کر سکتے اس لیے تو” حامد”” خجستہ” کے پھوپی زاد کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہے۔
” وہ ایک تاجر ہے اور تاجر ایسی چیزیں نہیں پالا کرتے جن سے اچھا خاصہ منافع نہ ہو۔” (١)
جبکہ”توتا کہانی ” میں اشفاق احمد نے "حامد ” کے دوسرے ساتھی کے حوالے سے اُن دل پھینک اور جذباتی لوگوں کی بھی نشان دہی کر دی ہے جو کہ آخر کار اپنی محبوبہ کی بجائے اپنی محبوبہ کی مرغی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اور خوب موج اُڑاتے ہیں۔ آج کے نئے مجنوں کی اس سے بہتر تصویر اور کیا ہو سکتی ہے۔
محبت کے کوئی بول نہیں بلکہ یہ تو محسوس کرنے کی چیز ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پیار کوئی بول نہیں پیار آواز نہیں
یہ تو خاموشی ہے سنتی ہے کہا کرتی ہے
یہ نہ بجھتی ہے نہ رکتی ہے نہ ٹھہری ہے کہیں
نور کی بوند ہے صدیوں سے بہا کرتی ہے
یہ ایک احساس کا نام ہے اس لیے اظہار نہ بھی ہو انسان اس جذبے اور احساس کو دور سے محسوس کر لیتا ہے اس لیے تو "خجستہ” اور "حامد ” کے درمیان آواز کا رشتہ ہونے کے باوجود "حامد” اور”خجستہ” ایک دوسرے کی محبت اور جذبات سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں۔
افسانہ "مسکن ” ایک متوسط طبقے کے لوگوں کی ایک خوبصورت رومانوی کہانی ہے جس کو پڑھ کر حسرت کا یہ شعر بار بار ذہن میں گونجتا ہے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یادہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
یہ کہانی دو نو عمر محبت کرنے والوں کی داستا ن ہے جو کہ محبت کرنے کے باوجود معاشرے کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے کھل کر نہیں مل سکتے لیکن اس کے باوجود ان میں شدید قسم کے جذباتی لگاؤ کو بھی آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
"مسکن ” دراصل ہیرو کی رومانوی یادوں کا مجموعہ ہے اس کہانی کو پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کتنا بڑا عذاب ہے زندگی کی خوشگوار یادیں جب انسان کو یاد آتی ہیں تو ایک ایسا وقت آتا ہے کہ یہ ماضی انسان کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اور یوں ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن ا س کے بعد انسان کے پاس پچھتاوے کے احساس کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ہے اور جدائی کا المیہ اُس کے اندر کے گھاؤ کو وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی گہرا کر دیتا ہے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
افسانہ "شب خون ” میں موجود خون تھوکنے کی کیفیت میں جان دینا ایک روایتی رومانوی حوالہ ہے جسے اردو شاعری میں بھی جگہ ملی ہے۔ جیسے جون ایلیا کا یہ شعر
تھوکتا ہوں جو لہو، بوئے حنا آتی ہے
جس پہ مہندی تری پستی تھی وہی سل ہے مجھے
لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو افسانے کو پڑھ کر دنیا کی بے ثباتی اور وقتی ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ اور میر کا یہ شعر ذہن میں بار بار گردش کرتا ہے
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
افسانے میں موجود ٹی بی کی سینٹوریم میں ہمیں اپنی پوری دنیا نظر آتی ہے زندگی کتنی ناقابل اعتبار شے ہے جو آج ہے تو کل نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سینٹوریم کی طرح دنیا میں بھی ہر شخص کا اپنا ایک بیڈ ہے جو کہ اُسے ایک نہ ایک دن ضرور خالی کرنا پڑے گا۔ "بھومکا صاحب ” کی طرح دنیا کا ہر انسان زندہ رہنا چاہتا ہے۔ جینا چاہتا ہے لیکن جب اُس کی موت آتی ہے تو اُس کے سامنے سب کچھ بے کار ہو جاتا ہے اور اُسے اپنے حصے کا بیڈ خالی کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اسی افسانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ موت کی کیفیت غالب ہونے کے باوجود پورے افسانے میں ایک رجائی کیفیت بھی نظر آتی ہے۔ ہر مریض کو پتہ ہے کہ اُسے مرنا ہے زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی ہر مریض جینا چاہتا ہے۔ ایک دو دن کی زندگی بھی یہ مریض خوشی سے گزارنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں رونے والا کوئی نہیں۔لیکن پھر بھی ان کی باتوں میں مایوسی نہیں جھلکتی۔” شقو "کی مکالموں میں آخر میں طنز کی کیفیت صرف اُس کی مدافعت ختم ہونے کے بعد در آتی ہے جب اُس کی برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے۔
"رات بیت رہی ہے ” ایک ایسا افسانہ ہے جس میں بھی قاری کو زندگی کی بے ثباتی کا احساس ضرور ہوتا ہے خاص طور پر "پیٹر ” کی موت قاری کو ایک کرب ناک احساس سے دوچار کرتی ہے اور قاری کی نظر زندگی کی بے ثباتی پر آ کر رک جاتی ہے۔” پیٹر” جو کہ کل تک اپنی محبوبہ کی باتیں کرتے نہیں تکتا تھا اور ہمیشہ روشن مستقبل کے خواب دیکھتا تھا۔ آخر کار جب اپنے ہوائی جہاز میں آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی وقتی ہے اور ہر ایک انسان کو یہاں سے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہے۔ یعنی ایک دو سانسیں اور پھر ہمیشہ کی جدائی
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
ان تمام موضوعات کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے بچوں کی نفسیات کا تجزیہ بھی کیا ہے کہ کس طرح خار ج کا ماحول بچوں کے حساس ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس حوالے سے افسانہ "فہیم ” اپنی مثال آپ ہے۔جس کو پڑھ کر ہم محسوس کرتے ہیں کہ چھوٹے بچے بہت زیادہ حساس اور متجس ہوتے ہیں۔ اور اُن کا ذہن ہر معاملے میں سوالات اٹھاتا ہے۔ اور وہ ہر چیز کو تجسّس کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ہر واقعے کا بڑوں سے زیادہ اثر لیتے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر بچوں کو نظر انداز کیا جائے یا انہیں ٹوکا جائے تو اُن کے ذہن پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔”فہیم ” کو بھی اپنے نظر انداز ہونے کا مکمل طور پر احساس ہے جس کاوہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ اشفاق احمد کے خیال میں بچوں کی اسی حساسیت کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔
افسانہ "تلاش” میں مصنف نے بچوں کی نفسیات کو مد نظر رکھا ہے۔ معصوم محبت انسان کی سچی محبت ہوتی ہے خواہ وہ کسی سے بھی ہو کیونکہ اس عمر میں شعور پختہ نہیں ہوتا اورسود و زیاں کے پیمانے ذہن میں نہیں ہوتے۔ اس لیے بچے جس کسی کو بھی چاہتے ہیں تو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ خواہ وہ انسان ہو یا جانور اُن سے محبت اُن کے ذہن پر کافی حد تک اثرانداز ہوتی ہے۔ اور اس طرح بچہ جدائی کا کرب کسی صور ت میں برداشت نہیں کر پاتا۔
افسانہ” پناہیں ” بھی بچوں کی نفسیات کے حوالے سے ایک اہم افسا نہ ہے۔ جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچے نہایت ہی حساس ہوتے ہیں اور اپنے خارج کا اثر وہ بڑوں سے زیادہ لیتے ہیں۔ اور ایک معمولی سا واقعہ اُن کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ "آصف ” کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ معصوم بچہ اپنے والدین کے اختلافات کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی معصومیت کھو دیتا ہے۔ اور باپ کی مار اُس کے اندر اپنے باپ کا خوف پیدا کر دیتی ہے۔ جو کہ مرتے دم تک اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور” آصف "ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی معصومیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
یوں بچوں کو بے جا طور پر سزائیں دینا اُن کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے کافی حد تک نقصان دہ ہے۔ جس کا منفی اثر "آصف” کی زندگی پر آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اشفاق احمد ہمارے بزرگوں کو ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی بقا کا واحد سہارا سمجھتے ہیں۔ افسانہ "فہیم” میں "نانی ” کے کردار کے ذریعے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہماری مشرقی معاشرتی نظام میں ہمارے بزرگ ایک اہم پرزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان بزرگوں کا وجود ایک گھرانے میں کتنا اہم ہے۔ یہ بزرگ غیر محسوس طریقے سے اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مختلف کہانیوں کے ذریعے اچھی اچھی باتیں بچوں کے ذہنوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ جس سے بچوں کی مکمل ذہنی اور روحانی اور اخلاقی تربیت جاری رہتی ہے۔
یوں افسانہ "بابا ” کا کردار "بابا‘ ‘ بھی اس با ت کی غمازی کر تا ہے کہ ہمارے بزرگ جاہل ہونے کے باجود اپنی اچھی روایات اور عادات اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں اور اپنی نسل کی بقاء کے لیے اپنی جان تک لڑا دیتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی نظر میں اُ ن کی ساری زندگی کا سرمایہ ا ن کا خاندان ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
فسادات کا موضوع اردو افسانے کا اہم موضوع رہا ہے اور ۷٤کے دور کے اکثر افسانہ نگاروں کے ہاں ہمیں یہ موضوع نظر آتا ہے۔ جن میں سے بعض افسانہ نگار تو اُسی ہنگامی دور سے متاثر ہو کر لکھتے رہے اور اُن کے افسانے اُسی دور کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔ لیکن بعض لکھنے والوں نے فسادات کے حوالے سے لازوال افسانے تخلیق کیے۔اُن میں اشفاق احمد بھی سرفہرست ہیں اُن کے افسانوی مجموعے میں ہمیں تقریباً ہر افسانے میں فسادات کا حوالہ کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اُن کا افسانہ "سنگ دل ” ایک خوبصورت رومانوی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ فسادات کے حوالے سے ایک اہم افسانہ ہے جس کو پڑھ کر قاری کو احساس ہوتا ہے کہ فسادات نے انسانوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے۔ اُس دور میں کیا کچھ ہوا۔ کتنے بے گناہ لوگ مارے گئے، کتنے سہاگ اجڑے کتنے بیٹے مرے کتنی عصمتیں لٹیں۔ اس افسانے میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کو تقسیم کے بعد اغواء کر کے نجانے کن کن حالات سے دوچار کیا گیا۔اور اُنہیں کتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اُ ن کا جنسی استحصال ہوا۔ "حسنا” تو خوش قسمت تھی جو کہ کسی نہ کسی طرح اس عذاب سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی لیکن نجانے اُس جیسی کتنی لڑکیاں اس عذاب میں جل کر راکھ ہو گئیں۔
اسی افسانے میں اشفاق احمد نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ تقسیم، ہجرت اور فسادات کا اصل محرک مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ اس دور میں لوگوں کو جس طرح سے قتل کیا گیا جس طریقے سے اُن کو لوٹا گیا اس سے ایسا لگتا تھا کہ انسان انسانیت کے درجے سے اتر کر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس دور میں "پمی” جیسے کردار بھی پیدا ہوئے۔ "پمی ” ہندو مذہب سے تعلق کے باوجود مسلمان عورتوں کی عزت بچانے میں اپنی جان، اور محبت کی بازی لگا دیتی ہے۔اس لیے کہ اُسے انسانیت سے پیار ہے اُس کے اندر کا انسان ابھی زندہ ہے اور وہ صرف انسانیت کی عظمت کو ہی اپنا مذہب تصور کرتی ہے۔ جن لوگوں کو اپنے مسلمان بھائیوں نے فراموش کر دیا ہے۔ "پمی ” اُن کے لیے بہت کچھ کرتی ہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب سے جدا ہو کر اُن کے لیے قربانی پیش کر تی ہے۔ ان سب باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ فسادات کا محرک مذہب نہیں بلکہ اس کے محرکات کچھ اور تھے جن کو صرف تیز بین نظریں ہی جان سکتی ہیں۔
"سنگ دل ” میں "امر ” کے مکالموں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں حالات نے ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ورنہ جو لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹے رہے اور ہندوستان میں ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی۔ اُن میں سیاسی طور پر اتنا زہر اگلا گیا کہ ہندو اور مسلم کے درمیان ایک بڑ ی دیوار حائل ہو گئی اور اس زہر سے "امر” جیسے معصوم بچے بھی محفوظ نہ رہ سکے۔
اسی افسانے میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ظلم و جبر کے واقعات صرف مسلمانوں کے ساتھ پیش نہیں آئے بلکہ نجانے کتنی ہندو لڑکیاں پاکستان میں رہ گئیں اُن کے ساتھ بھی وہی ہوا جو مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان میں ہوا۔ اسی لیے "پمی ” جدا ہوتے وقت کیپٹن سے کہتی ہے کہ وہاں "حسنا” جیسے بہت سے پھول رہ گئے ہیں اُن کو یہاں لانے کی کوشش ضرور کرنا۔
افسانہ "بابا” کا اختتامی حصہ ہمارے سامنے فسادات کی ایک بھیانک تصویر پیش کرتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ اور کتنے ہی بچوں اور بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ ہندووں بلوایوں کے نعرے اور مسلمانوں کی بے بسی دیکھ کر قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ تقسیم کے اس عمل میں کتنے لوگوں کا خون بہایا گیا اور کتنی بے گناہ عورتیں آزادی کے لیے قربان ہو گئیں۔ یوں ان مناظر کو دیکھ کر اُس دور میں انسان کے اندر وحشی پن اور بربریت سے پردہ اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔
اشفاق احمد کے دوسرے افسانوں "تلاش "، ” پناہیں "، ” مسکن” اور "امی "، ایسی کہانیاں ہیں جن میں کسی نہ کسی حوالے سے فسادات کا ذکر موجود ہے۔ افسانہ "پناہیں ” میں ” آصف” اور اُس کے باپ کے درمیان فسادات کی وجہ سے جدائی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فسادات نے کتنے اپنوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے تباہ برباد کر کے رکھ دیا۔
جنگ عظیم کو بھی اردو افسانے میں بہت سے مصنفین نے جگہ دی ہے اور اپنے دور کا یہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔ افسانہ "رات بیت رہی ہے ” دوسری جنگ عظیم کی ایک مکمل تصویر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے اس افسانے کے ذریعے مصنف غیر محسوس طریقے سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی اور بربادی لاتی ہے۔ یہ جنگ ہی ہے جس نے کتنوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا جن کی” پیٹر” کی طرح قبر بھی موجود نہیں ہے۔ اگر دنیا میں یہ بھیانک جنگیں نہ ہوتیں تو نجانے کتنے پیٹر آ ج اپنی "مارگریٹ ” کے ساتھ ہوتے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
محبت اشفاق احمد کے افسانوں کا بنیادی موضوع ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے معاشرتی، سماجی موضوعات پر قلم نہیں اُٹھایا۔ اُ ن کے افسانوں میں معاشرے میں موجود منافقانہ رویے معاشرتی مسائل ان کی وجوہات بکثرت نظر آتے ہیں۔ اُن کا افسانہ "امی ” اس حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ افسانہ ہے۔ جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جن بچوں کے ماں باپ دوسری شادی کر لیتے ہیں اُن کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُن کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کتنی متاثر ہوتی ہے۔ اور یوں اس کے بعد "مسعود” جیسے کردار جنم لیتے ہیں۔ شاید مصنف اس حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے کہ پرائے بچے کبھی اپنے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جب چچا کا اپنا بیٹا” مسعود” کی ماں کے بطن سے پید ا ہوتا ہے تو اُسے باپ کی بھرپور توجہ اور محبت میسر ہوتی ہے جبکہ "مسعود ” کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
"امی ” کا کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دوسری شادی کے بغیر بھی عورت اپنے بچوں کی مکمل اور کامیاب پرورش کر سکتی ہے اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔اس کے علاوہ اس کردار کے ذریعے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کو اپنے ماں باپ کی مکمل توجہ اور محبت میسر رہتی ہے وہ ہمیشہ معاشرے کے کامیاب اور اچھے فرد ثابت ہوتے ہیں جب کہ گھر کی طرف سے ٹھکرائے جانے والے افراد معاشرے میں کسی صورت میں کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے کیونکہ نفسیاتی طور پر ایسے بچے بڑے ہو کر بھی احساسِ کمتری کا شکارہتے ہیں اور اس احساس کمتری کا ازالہ کرنے کے لیے وہ مختلف قسم کی برائیوں اور جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی کمزوریوں کا بدلہ معاشرے سے لینا چاہتے ہیں۔
"امی ” کے کردار میں اشفاق احمد نے عورت کے اندر پائے جانے والی ایک مکمل ماں کی تصویر دکھائی ہے جو کہ نہ صرف اپنے بچوں سے محبت رکھتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اس کے اندر ممتا اور محبت کا جذبہ موجود ہے۔ اس لیے وہ "مسعود” کو اپنے بچوں جیسا پیار کرتی ہے اور اُس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے۔
اسی طرح اس افسانے میں مصنف نے جوئے کی لعنت پر بھی بحث کی ہے کہ کس طرح جوا کھیلنے والا شخص آخر کار اتنا گر جاتا ہے کہ اس کی نظر میں جذبوں اور رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور پھر "مسعود” امی جیسی پیار کرنے والی عورت سے بھی چوری کرنے اور جھوٹ بولنے سے نہیں ہچکچاتا۔ اسی جوئے کی لعنت اور غلط سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھے کی وجہ سے آخر کار” مسعود” اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
افسانہ "امی ” کا سب سے بڑا فکری پیغام یہ ہے کہ انسانیت کبھی نہیں مرتی۔ معاشرہ خواہ انسان کے ساتھ کیسا ہی سلوک کرے خواہ وہ برا ہی کیوں نہ بن جائے لیکن اس کے اندر کا انسان یعنی اس کا ضمیر اُس کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں چھپا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ” مسعود” ایک چور ہے جوا کھیلتا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے امی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی جس کی وجہ سے وہ رقم کا بندوبست کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے۔ موت اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے اور و ہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن وہ” امی” تک رقم پہنچانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔یعنی "مسعود” خود برا نہیں بلکہ اُسے معاشرے اور حالات نے برا بنا دیا ہے۔
یوں اشفاق احمد نے افسانہ "فہیم ” کے ذریعے درمیانے طبقے میں رہنے والے بچوں کی زندگی اور حالت زار پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ درمیانے طبقے میں رہنے والے بچوں کے کیا مسائل ہیں اور کن مشکلات میں رہتے ہوئے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ رات کو ایک دوسرے کے ساتھ سوتے ہیں اور مناسب کمبل اور چارپائی نہ ہونے کے سبب سردی سے ٹھٹھرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی وہ اس سردی کو برداشت کرتے ہیں اور لڑ جھگڑ کر سو جاتے ہیں کیوں کہ ان کے گھر میں اضافی رضائی اور چارپائی لانے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔
افسانہ "پناہیں ” میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ صرف اپنی اناؤں کے غلام ہوتے ہیں وہ اپنے رویوں سے نہ صرف خود نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ دوسرے بھی ان سے حد درجہ متاثر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں میں برداشت کا مادہ موجود نہ ہو وہ لوگ کسی بھی خاندان کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہوتے ہیں کیوں ایسے لوگوں کو اپنے خاندان کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر میں ان کی جیت ہی سب سے اہم ہوتی ہے اور اسی لیے "آصف ” کے ماں باپ اپنی اناؤں کی خاطر اپنے بچوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
اشفاق احمد کے خیال میں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ان دونوں پہیوں کو ساتھ ساتھ چلانے کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے گھر کی فضاء مثالی بنتی ہے۔ اور وہ گھر جنت سے زیادہ پرسکون ہوتا ہے۔لیکن جن گھروں میں سمجھوتے کی کمی ہو اور میاں بیوی دونوں اپنی من مانی چاہتے ہیں اور ہر کوئی اپنی جیت کا دعویدار ہو تو ایسے گھرانوں کی فضاء دوزخ سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ اور ایسے لوگ کبھی کامیاب ماں باپ نہیں بن سکتے بلکہ اُن کی حالت” آصف” کے ماں باپ جیسی ہو جاتی ہے جو کہ صرف زبردستی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ باقی ان کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا جاتا۔ یہاں تک کہ اولاد بھی اُن کے درمیان کشیدہ فضا ء کو کم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
اس افسانے کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزر جائے تو اس کا پچھتاوا اس کو واپس لانے سے قاصر رہتا ہے۔ "آصف” کا باپ اگرچہ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہے اور فسادات میں "آصف” کی جدائی کے بعد ایک کشمکش کی کیفیت کا شکار نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ وقت کو پیچھے نہیں لے جا سکتا۔ کیونکہ وقت ایک بے رحم درندہ ہے جس کی زد میں ہم سب لوگ آئے ہوئے ہیں۔ وقت گزر جائے تو کبھی مڑ کر نہیں دیکھتا بس آگے ہی آگے اپنا سفر طے کرتا ہے اور ہم صرف اپنی غلطیوں پر ہاتھ ملتے ہوئے رہ جاتے ہیں
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
افسانہ "بابا ” میں مادہ پرست سوچ کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح مادہ پرستی انسان کو فطرت اور محبت سے دور کر دیتی ہے۔ "ایلن ” اپنی مادی سوچ کی بناء پر اپنے محبت سے بچھڑ جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اُس کا شوہر زیادہ سے زیادہ کمائے کیونکہ کھیتی باڑی میں اُس کا مستقبل محفوظ نہیں جس کی وجہ سے وہ "وحید ” کو باہر جانے کا مشورہ دیتی ہے اور یہی مادہ پرست سوچ اُس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب سے جدا کر کے آنسو بہانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اسی کہانی میں معاشرے کے بے رحم اور منافقانہ رویوں سے بھی پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ "بابا” اپنی بہو کے لیے سب لوگوں کے سامنے گڑگڑاتا ہے ہر قسم کی منتیں کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فیس کا لالچ دیتا ہے لیکن کوئی بھی ڈاکٹر یا نرس اُس کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتی۔ کیونکہ اُنھیں کسی دوسرے کی زندگی سے کیا غرض جب وہ خود آرام سے ہیں۔ اور نرس کا یہ جملہ تو پورے پیرا میڈیکل سٹاف کے منہ پر ایک طمانچہ محسوس ہوتا ہے جب وہ” بابا” سے کہتی ہے کہ اپنی بہو کو دم کر دو تو وہ ٹھیک ہو جائے گی یعنی جن کو فرشتہ یا مسیحا کہا جاتا ہے وہ قصائی بن جائیں تو ایسے معاشرے میں عام لوگوں کا کیا حال ہو گا۔
"بندرا بن کی کنج گلی میں ” میں "نمدار ” کا کردار بھی ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ چلنے کے لیے اپنے آپ کو بدل کر رکھ دیتے ہیں اور اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں۔ "نمدار” کو چونکہ کالج میں پڑھنا ہے اور اپنا سٹیٹس برقرار رکھنا ہے اس لیے وہ اپنی اصلیت دوسروں پر ظاہر کر کے اپنی سبکی نہیں کرانا چاہتا۔ یہ بھی ہمارے غریب اور درمیانے طبقے کی ستم ظریفی ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ مداری کی طرح اپنی اصلیت کو چھپا کر اُن کی صفوں میں شامل ہو سکیں۔
افسانہ "شب خون ” میں مصنف معاشرے کا اصل اور بھیانک چہرہ ہمارے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں جان ہے تو جہان ہے۔”شقو ” جیسا قابل، خوبصورت نوجوان جب بیمار ہوتا ہے تو اپنے بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور وہ "شقو” جو سب کو دل و جان سے عزیز ہوتا ہے بیماری کے بعد دنیا اور گھر والوں کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔ یعنی غیر صحت مند انسان سب کے لیے بوجھ ہے جس کو سب لوگ جلد از جلد اتار پھینکنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
اس افسا نے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر محبت کرنے والے خونی رشتے دار بھی انسان کا برا وقت آنے پر منہ پھیر لیتے ہیں۔ خواہ اپنے بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مادہ پرستی کے اس دور میں رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انسان جب سے مشین بنا ہے جذبات خود بخود ختم ہو رہے ہیں۔ اس لیے جب یہ مشین کسی کام کی نہیں رہتی تو اُسے ایک بے کار چیز سمجھ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر کوئی اس کی جائیداد پر ہاتھ صاف کرنے کی سوچتا ہے اور کوئی اُس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ افسانے میں "شقو ” کے رشتہ داروں کا رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مصیبت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
لیکن معاشرہ ابھی تک مکمل طور پر زوال پذیر نہیں ہوا اس میں "بیٹرس” جیسے کردار موجود ہیں۔ اس لیے غیر ہونے کے باوجود وہ "شقو” کو اپنوں سے زیادہ چاہتی ہے۔ اسی طرح معصوم "خالد” جس کا ذہن ابھی مکمل طورپر پروان نہیں چڑھا اور جس نے معاشرے کی خود غرض سوچ کو نہیں اپنایا "شقو” سے اُسی طرح محبت کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا اور اُس کی صحت کے لیے دعا گو ہے۔
باب پنجم: مجموعی جائزہ
اشفاق احمد ایک ادیب، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، تجزیہ نگار اور سفر نامہ نگار کی حیثیت سے ایک عظیم مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداءسے ہی شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور اُن کے اندر موجود داستان گو نے ایک خوبصورت کہانی نگار کا روپ دھار کر اردو ادب کے خزانے کو مالا مال کیا۔ اوریوں ایک افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار کے طور پر ادب میں اپنا لوہا منوایا۔
ڈرامہ نگاری کے حوالے سے انھوں نے "ایک محبت سو ڈرامے "،”پھول والوں کی سیر ‘ ‘ اور "من چلے کا سودا” جیسے ڈرامے تخلیق کیے اور یوں برصغیر میں پہلی مرتبہ آرٹ ڈراموں کی بنیاد رکھی۔ اور اپنے ڈراموں میں تصوف اور ما بعد الطبیعاتی موضوعات اور عناصر کو جگہ دی۔
فن افسانہ نگاری کے تمام اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فن اور موضوع کے امتزاج سے افسانے کی صنف میں ندرت اور خوبصورتی پیدا کی اور یوں ایک بہت بڑے افسانہ نگار کے روپ میں ابھرے۔ اُن کا پہلا مجموعہ "ایک محبت سو افسانے ” ابتدائی کاوش ہونے کے باوجود منفرد اور خوب صورت افسانوں کا دلکش مرقع ہے۔ جس میں موضوعات کا تنوع اور فن کی دلکشی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔
فنی حوالے سے دیکھا جائے تو زیر بحث مجموعہ اپنی مثال آپ ہے اشفاق احمد نے کردار نگاری کے حوالے سے تمام تر فنی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خوب صورت اور منفرد کردار تخلیق کیے ہیں۔ یہ کردار محبت کے حوالے سے خاص خاص المیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے تمام کرداروں کا ذہنی اور نفسیاتی تجزیہ بھی کر دکھایا ہے۔ انہوں نے "فہیم ” "بابا”” امی” "زمان” "شقو ” "حامد ” "لیکھا” "خجستہ ” "ایلن” "بیٹرس”وغیرہ جیسے کرداروں کے ذریعے اردو اد ب کو نوازا۔
اشفاق احمد کے زیادہ تر افسانے بیانیہ ہیں لیکن ان میں مکالمہ نگاری کے خوبصورت نمونے جا بجا نظر آتے ہیں اشفاق احمد کا مکالمہ اعلی اور مضبوط ہے اور یہی مکالمہ ان کے ہاں آگے چل کر شہر آفاق ڈراموں کی تخلیق کا سبب بنا۔ مجموعے کے افسانوں میں موجود مکالمے کرداروں کی ذہنی اور نفسیاتی اور جسمانی کیفیات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
منظر نگاری کے حوالے سے "ایک محبت سو افسانے ” کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ان افسانوں میں موجود منظر نگاری کے کرشمے ان کی فنی باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہے ں۔ ان کے زیادہ تر افسانوں کی ابتداء ایک خوبصورت منظر سے ہوتی ہے۔یوں قاری ابتداء ہی سے خود کو افسانے کا ایک حصہ تصور کرنے لگتا ہے اور افسانہ ایک جیتی جاگتی تصویر کی صورت میں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں فسادات اور دیہات کے مناظر کو خوبصورتی سے الفاظ کے پیرائے میں سمویا ہے۔ "فہیم "، "بابا”،” توتا کہانی” "مسکن ” وغیرہ منظر کشی کے حوالے سے بہترین افسانے ہیں۔
جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو اشفاق احمد نے پلاٹ کی بنیادی ضرورتوں کو مد نظر رکھا ہے۔ یوں افسانوں میں موجود تمام واقعات مربوط اور ایک دوسرے کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی خلاءمحسوس نہیں ہوتا۔ کہانی منطقی طور پر ارتقاء کی منزلیں طے کرتی اپنے نقطہ عروج تک پہنچتی ہے اور پھر واقعاتی ربط کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔
کہانی میں دلچسپی اور دلکشی قائم رکھنے کے لیے اشفاق احمد نے تجسّس و جستجو کا اہتمام بھی کیا ہے۔ مجموعے کا ہر افسانہ عنوان سے لے کر کہانی تک قاری پر اپنی گرفت ڈھیلی پڑنے نہیں دیتا۔ اور قاری اختتام تک افسانے کے ساتھ مکمل توجہ اور انہماک کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
محبت کے متنوع رنگ ہو ں یا معاشرے کے اندر کسی ایک مسئلے کی نشان دہی اشفاق احمد نے ہر حوالے سے اپنے افسانوں میں وحدت تاثر کا بھر پور خیال رکھا ہے۔ انہوں نے کہانی کے اختتام پر کچھ اس قسم کی فضاء پیش کی ہے کہ قاری اُسے ختم کرنے کے بعد کسی نہ کسی خاص سمت میں ضرور سوچتا ہے۔
اسلوب کے حوالے سے دیکھا جائے تو بنیادی طور پر اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں بیانیہ طرز تحریر اختیار کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں کہانی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن بیانیہ طرز خشک اور سپاٹ قطعی طور پر نہیں بلکہ اس میں دلکشی اور دلچسپی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اُن کے افسانے قدرت اظہار کا مظہر ہیں جس میں سادہ بیانیہ انداز کے ساتھ ساتھ شاعرانہ وسائل کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے۔اشفاق احمد کے افسانوں میں خوبصورت تشبیہات اور استعارات کی مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں۔ جبکہ ان کے افسانوں میں موجود مختلف مکالمے اور جملے اپنے اندر رمز و کنایے کی کیفیات بھی لیے ہوئے ہیں جو کہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بعض افسانوں میں خوب صورت اور برمحل اشعار کو بھی جگہ دی ہے۔ جبکہ ان کے بعض جملے پڑھ کر شاعری کا گماں گزرتا ہے۔ یوں مجموعی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ اشفاق احمد کے افسانوں میں اسلوب کی تمام تر خوبصورتی اور چاشنی موجود ہے۔
اشفاق احمد دراصل ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے ہاں حقیقت اور رومان کی آمیزش نظر آتی ہے۔ اگر فکری نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی کہانیوں کا بنیادی موضوع محبت ہے۔ محبت کے تمام رنگ اپنی خوب صورتیوں اور جولانیوں کے ساتھ ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں محبت ایک عظیم کائناتی سچائی کی صورت میں ابھر تی ہے۔ اور یہ محبت مجاز سے حقیقت کی طرف سفر کرتی ہے۔ تصوف جو آگے چل اشفاق احمد کے افسانوں اور ڈراموں کا بنیادی موضوع بنا اس پہلے مجموعے میں اُس کے بھی ابتدائی خدوخال نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ تمام مخلوق خدا سے محبت کرنے کا درس دیا ہے۔ ان کے تمام کردار محبت کے حوالے سے جدائی کے المیوں سے دوچار ہیں۔
اشفاق احمد نے محبت کے ساتھ ساتھ فسادات کو بھی اپنے افسانوں کوکا موضوع بنایا ہے اُن کے ہاں ہمیں فسادات کی تباہ کاریاں، ظلم و ستم اور قتل و غارت کے مناظر جا بجا نظر آتے ہیں۔ لیکن انھوں نے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح ہنگامی حالات سے متاثر ہو کر فسادات کے موضوع پر قلم نہیں اُٹھایا بلکہ انھوں نے فسادات اور اس سے ہونے والے نقصانات اور اس کی وجوہات پر اپنے نقطہ نظر سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ فسادات کی اصل وجہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھی۔
اشفاق احمد نے صرف محبت کو ہی اپنے افسانوں کا موضوع نہیں بنایا بلکہ اُن کے ہاں معاشرے میں موجود مختلف قسم کے مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کا ذکر بھی اکثر نظر آتا ہے جبکہ معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی منافقانہ سوچ اور انفرادی رویوں کے خلاف بھی اُنھوں نے اپنے افسانوں میں آواز اُٹھائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں معاشرتی مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ اُس کے حل کے لیے بھی تجاویز پیش کی ہیں۔
الغرض فنی اور فکر ی حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو اشفاق احمد کا افسانوی مجموعہ "ایک محبت سو افسانے ” ایک لازوال شاہکار ہے جو اشفاق احمد کے نام کو دنیائے ادب میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گا۔
٭٭٭
پیشکش: وہاب اعجاز خان
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید