فہرست مضامین
- ایک بھاشا…. جو مسترد کر دی گئی
- دیباچہ
- پہلا باب: ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ، دو ادب‘
- دوسراباب: فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی طرزِ فکر
- تیسرا باب : اُردو زبان، اُردو گو مسلمان اور اُردو ادب
- چوتھا با ب : کھڑی بولی ہندی
- پانچواں باب : اُردو کا ہندی پر تقدمِ زمانی
- چھٹا باب : ہندی امپیریلزم اور اُردو
- ساتواں باب : ’پریم ساگر‘ کی تخلیق کے دور رس نتائج
ایک بھاشا…. جو مسترد کر دی گئی
حصہ اول
مرزا خلیل احمد بیگ
انتساب
اُردو بولنے والوں
اور
اُردو سے محبت کرنے والوں
کے نام
دیباچہ
میرے بزرگ دوست اور کرم فرما پروفیسر گیان چند جین کی متنازع فیہ تصنیف ’ ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب ‘ (دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۵ء) پر گذشتہ سال نہایت شد و مد کے ساتھ بحث و تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔ اُردو کے بیشتر اخبارات و رسائل میں متذکرہ کتاب سے متعلق مضامین، تبصرے، اداریے اور خطوط شائع ہوئے جن میں اس کتاب کی کھل کر مذمت کی گئی۔ اُن دنوں مجھے ’اخبارِ اُردو‘ (اسلام آباد)، ’ اُردو ادب‘ (نئی دہلی)، ’ذہنِ جدید‘ (نئی دہلی)، ’سرسبز‘ (دھرم شالہ)، ’شاعر‘ (ممبئی)، ’صدائے اُردو‘ (بھوپال )، ’کتاب نما‘ (نئی دہلی)، ’نیا ورق ‘ (ممبئی ) اور ’ہماری زبان‘ (نئی دہلی) میں ایسی تحریریں دیکھنے کو ملیں جن میں اہلِ اُردو نے اس کتاب کی اشاعت پر انتہائی رنج و افسوس اور غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ ان کا یہ ردِّ عمل اور احتجاج بالکل فطری تھا۔ البتہ ’نیا ورق ‘ اور ’سرسبز‘ کے اداریوں کا انداز ذرا مختلف تھا۔
انھیں دنوں مَیں نے بھی اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کتاب واقعی قابلِ مذمت ہے۔ اس کتاب سے متعلق میرا مفصل مضمون معاصر ’قومی آواز‘ (نئی دہلی) میں بعنوان ’’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں۔ ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ پر ایک نظر” سلسلہ وار آٹھ قسطوں میں، ۲۶/ستمبر تا ۵/اکتوبر ۲۰۰۶ء، شائع ہوا۔ یہی مضمون ماہنامہ ’اخبارِ اُردو‘ (اسلام آباد) کے دسمبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں ’قومی آواز ‘ کے شکریے کے ساتھ نقل ہوا۔ یہ مضمون اُردو کے بعض دوسرے اخبارات و رسائل میں بھی نقل ہوا، مثلاً ’الانصار‘ (حیدر آباد)، ’پندار‘ (پٹنہ) وغیرہ۔ گیان چند جین کی اس کتاب پر اب تک شائع شدہ تمام مضامین میں یہ سب سے مفصل، مدلل اور جامع مضمون ہے جس کی اہلِ علم و نظر نے مجھے بھرپور داد دی ہے۔ میرے بعض احباب نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ اسے کتابی شکل میں بھی چھپوا دیا جائے۔ چنانچہ اس طویل مضمون کو نئے عنوانات کے ساتھ زیرِ نظر کتاب کے ابتدائی پانچ ابواب میں تبدیل کر کے اور اسی سلسلے کے چار دیگر مضامین یعنی، (۱) ’’ہندی امپیریلزم اور اُردو ‘‘، (۲) ’’ ’پریم ساگر‘ کی تخلیق کے دور رس نتائج ‘‘، (۳) ’’فورٹ ولیم کالج اور اُردو، ہندی، ہندوستانی ‘‘، اور (۴)’’اُردو مخالف رجحانات و تحریکات‘‘ کو بھی اسی کے ساتھ یکجا کر کے کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے اول الذکر دو مضامین علی الترتیب ’ہماری زبان‘ اور ’قومی آواز‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان مضامین سے متعلق میرے بعض دو ستوں، بزرگوں اور کرم فرماؤں نے مجھے خطوط لکھے جن میں اپنی گراں قدر آراء کا کھل کر اظہار کیا۔ ان خطوط کے بعض اقتباسات یہاں نقل کرنا بیجا نہ ہو گا:
گیان چند جین (پورٹر وِل، کیلی فورنیا، USA):
’’اُردو ہندی وغیرہ سب کو بھول گیا ہوں‘‘۔ (۳۱/جنوری ۲۰۰۷ء)
محمد حسن (دہلی):
’’آپ کے مضمون ’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں‘ کا عکس ملا۔ میں اس سے قبل اس مضمون کا بیشتر حصہ ’قومی آواز ‘، دہلی میں پڑھ چکا تھا اور آپ کی دقتِ نظر اور متحملانہ مزاج کا قائل ہو چکا تھا۔ اب اس مضمون کو شروع سے آخر تک پڑھا تو اس کی سنجیدہ تحریر کے استدلال سے اور زیادہ متاثر ہوا۔ ۔ ۔ آپ کا طرزِ استدلال اور متین لہجہ متاثر کر گیا گو میرا اب بھی یہ خیال ہے کہ جین صاحب کی غلط فہمیوں بلکہ غلطیوں کا ازالہ جدید دور میں جدید استدلال کا ہنوز منتظر ہے۔ آپ کو اس مضمون پر دلی مبارک باد۔ ”
’’مزید آنکہ جین صاحب کی نظر ایک مسلمان کی تصنیف ’پدماوتی‘ پر نہیں گئی جس میں ایک مسلمان بادشاہ کا رومان پدماوتی سے دکھایا گیا ہے اور مسلمان مصنف نے مسلمان بادشاہ ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ دوسرے میر تقی میرؔ کی کئی مثنویوں میں ہندو عاشق اور ہندو معشوقہ کا قصہ نظم ہوا ہے اور بڑے احتیاط سے کردار نگاری ہوئی ہے۔ یہی حال قائمؔ کا ہے۔ ‘‘ (۲/نومبر ۲۰۰۶ء)
شمس الرحمن فاروقی (الہٰ آباد) :
’’گیان چند کے بارے میں تمھارے مفصل مضمون کی نقل ملی۔ بہت خوشی ہوئی اور میں تمھارا شکر گذار ہوں کہ تم نے نہایت پر زور، متین اور مفصل مضمون لکھا۔ شاید تمھیں یاد ہو ایک بار میں نے تم سے کہا تھا کہ اُردو کے ماہرینِ لسانیات نے کبھی یہ بات کھل کر نہیں[کہی] کہ اُردو کو ہندی پر تقدمِ زمانی ہے اور ہندی کی ’’شیلی‘‘ اُردو نہیں بلکہ اُردو کی ’’شیلی‘‘ ہندی ہے اور کھڑی بولی اور اُردو ایک ہی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ تم وہ پہلے ماہر ہو جس نے یہ باتیں اُردو میں کہیں۔ (کہی تو میں نے بھی تھیں لیکن میں ماہرِ لسانیات نہیں اور میرا کوئی شاگرد نہیں جو میری باتوں کو دھیان سے سنے اور دور تک پھیلائے)۔ تمھیں چاہیے کہ اپنا مضمون کسی علمی جریدے میں بھی چھپواؤ تاکہ زیادہ سے زیادہ اہلِ علم اس سے استفادہ کر سکیں۔ ”
’’ایک آدھ باتیں تمھارے غور کرنے کے لیے لکھتا ہوں: …. تم نے لکھا ہے (اور یہی رائے عموماً مقبول بھی ہے، اگر چہ اُردو والے اسے ظاہر کرنے سے کتراتے رہے ہیں) کہ جدید ہندی کی باقاعدہ تاریخ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہوتی ہے۔ امرت رائے نے اور اب امرے بانگا نے کئی ایسی تحریروں کی نشان دہی کی ہے جو سولہویں سترہویں صدی کی ہیں اور جن کی زبان ان کے بقول کھڑی بولی ہے اور جن کا رسم الخط ناگری ہے۔ امرے بانگا نے تو انھیں ’’ناگری ریختہ‘‘ تحریروں کا نام دیا ہے۔ میں نے امرے بانگا کے اس خیال کی سخت مخالفت کی ہے لیکن کھڑی بولی / اودھی / برج وغیرہ کا تقابل میری استعداد سے باہر ہے۔ چونکہ تم نے اس معاملے کا ذکر اپنے مضمون میں کیا ہے لہٰذا امر ے بانگا اور امرت رائے کے ذکر کردہ مخطوطات پر بھی گفتگو کرنی تھی تاکہ تمھارا استدلال اور بھی پختہ ہو جاتا۔ ویسے، اس باب میں گیان چند کے تضادات کی تم نے اچھی خبر لی ہے۔ ‘‘ (۲۲/اکتوبر ۲۰۰۶ء)
مظہر امام (دہلی):
’’آپ نے واقعی ایک بڑے تحفے سے سرفراز کیا۔ آپ کا مضمون ’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں‘ میری نظر سے نہ گزرا تھا۔ میں اسے ایک ہی نشست میں پڑھ گیا۔ ڈاکٹر جین کی کتاب پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، لیکن شمس الرحمن فاروقی کے مضمون کے علاوہ اور کچھ قابلِ اعتنا نہیں۔ اب آپ کا مضمون آیا ہے تو یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ یہ سب سے dispassionate اور غیر جذباتی مطالعہ ہے …. واقعی یہ نہایت وقیع تحریر ہے۔ ”
’’آپ ہمارے دور کے ایک بے حد اہم اور معتبر ماہرِ لسانیات ہیں، بلکہ ایک دو ہی ایسے ہوں گے جنھیں آپ کا حریف کہا جا سکے، لیکن وہ اپنا کام پورا کر چکے۔ آپ ابھی اس میدان میں سرگرم ہیں اور آپ کے مطالعات کے نتائج برابر منظرِ عام پر آر ہے ہیں۔ ‘‘ (یکم نومبر ۲۰۰۶ء)
عبدالقوی دسنوی (بھوپال):
’’ڈاکٹر گیان چند کی تصنیف ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب ‘ سے متعلق آپ کی تحریر ’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں ‘ ….. پڑھنے کے بعد بے حد مسرت ہوئی کہ آپ نے تنگ نظری کا جواب نہایت سنجیدگی اور صبر و ضبط کے ساتھ دلائل کی روشنی میں دیا ہے۔ ہمیں ایسی تحریریں پڑھنے کے بعد جوش میں نہیں آنا چاہیے، ہوش میں ہی رہنا چاہیے۔ میں نے تو اس کتاب سے متعلق بعض تحریریں پڑھنے کے بعد یہی نتیجہ نکالا: فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست ‘‘۔ (۳۰/اکتوبر ۲۰۰۶ء)
حنیف نقوی (وارانسی ):
’’عزیزِ گرامی ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کے طفیل آپ کے دو مضامین سے استفادے کا موقع ملا۔ ایک وہ مضمون جو ’اُردو زبان کا [تاریخی] تناظر ‘ کے عنوان سے ’اطلاقی لسانیات ‘ کے تازہ شمارے میں شامل ہے، دوسرا وہ جو استادِ محترم پروفیسر گیان چند جین کی متنازعہ (فیہ؟) کتاب سے متعلق ہے اور ’قومی آواز ‘ میں بالاقساط شائع ہوا ہے ….”
’’دوسرے مضمون کی دوسری قسط میں آپ نے جین صاحب کی کتاب کے نام کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ اصولاً یہ بحث بالکل مناسب ہے۔ ضروری محسوس ہوا کہ اس سلسلے میں اپنی معلومات میں آپ کو بھی شریک کروں۔ استادِ محترم نے ۲۳/ستمبر ۲۰۰۴ء کو مجھے ایک خط تحریر فرمایا تھا جس میں یہ اطلاع دی تھی کہ میری کتاب ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب ‘ کی اشاعت اکتوبر تک ….. متوقع ہے۔ میں جین صاحب کے مزاج اور فکر سے بہ خوبی واقف ہوں، اس لیے میں نے ان کے اس خط کا جواب کافی تفصیل سے لکھا۔ اس جواب کی نوعیت کا اندازہ آپ اس ایک جملے سے لگا سکتے ہیں کہ ’’اُردو کے بارے میں آپ کا جو نقطۂ نظر اور اندازِ فکر ہے، اس سے ہر اُردو دوست کو عصبیت کی بو آتی ہے۔ ‘‘ کتاب کے ’’حرفِ اول‘‘ کے دوسرے پیراگراف میں استادِ محترم نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، وہ دراصل اسی پیشگی تبصرے کا ردِّ عمل ہیں۔ ”
’’میں نے اپنے اس خط میں کتاب کے نام کا مسئلہ بھی اٹھایا تھا۔ اس سلسلے میں عرض کیا گیا تھا کہ ’’آپ کی کتاب ’ ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کا نام اُردو کے مزاج سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ اس میں لفظ ’’ادب ‘‘ دخیل ہے، اس لیے ہندی سے کبھی اس کا تال میل نہیں بیٹھتا۔ علاوہ برایں’’ دو لکھاوٹ ‘‘ قواعد اور روز مرہ دونوں کے اعتبار سے نا موزوں ہے۔ کتاب اُردو میں ہے تو اس کا نام ’’ایک زبان، دو رسم الخط، دو ادب ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ہندی میں ہوتی تو ’’ایک بھاشا، دو لکھاوٹیں، دو ساہتیہ‘‘ زیادہ مناسب اور موزوں نام ہوتا۔ ‘‘
’’یہ خط ۱۰نومبر ۲۰۰۴ء کو لکھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں استادِ محترم نے ۲/جولائی ۲۰۰۵ء کے خط میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ دلچسپ بھی ہے اور عبرت خیز بھی۔ فرماتے ہیں : ’’میں نے …. موزوں مصرع بنانے کے لیے یہ نام رکھا۔ مجھے اس کی کمزوری کا احساس ہے۔ لکھاوٹ چوں کہ مونث ہے، اس لیے جمع کا صیغہ ’’ لکھاوٹیں‘‘ چاہیے۔ ادب کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ میں نے یہ کام ہندی پرستی کی وجہ سے نہیں کیا۔ ‘‘
"جس کتاب کے لیے نام کے انتخاب میں زبان اور قواعد کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کر کے شاعری سے کام لیا گیا ہو، اس کی علمی حیثیت معلوم۔ ‘‘ (۲۳/اکتوبر ۲۰۰۶ء)
عابد سہیل (لکھنؤ ):
’’میں نے اسی وقت ’قومی آواز ‘ والا مضمون اور وہ مضمون جو’ کتاب نما‘ میں شائع ہوا تھا، پڑھ ڈالے۔ یہ دونوں مضامین واضح اظہار کی بہت عمدہ مثالیں ہیں۔ ان میں نہ ایک لفظ بڑھایا جا سکتا ہے، نہ کم کیا جا سکتا ہے۔ معنی کو مجروح کیے بغیر خیالات میں قطعیت ہے اور شفاف نثر۔ ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ ایسے موضوع (بلکہ موضوعات) پر لکھتے ہوئے جس میں جذباتی ہو جانا تقریباً فطری تھا، آپ نے جذبات کو داخل نہیں ہونے دیا۔ ”
’’جین صاحب کا مَیں بیحد احترام کرتا تھا، اب بھی کرتا ہوں۔ خطوط کے ذریعے ان سے رابطہ ان دنوں قائم ہوا تھا جب ’کتاب ‘ کی اشاعت ہوتی تھی، لیکن ملاقات کی نوبت برسوں بعد غالباً ۱۹۷۹ء میں آئی ….. جب سے ان کی نئی کتاب کا چرچا شروع ہوا ہے، میرے دماغ کی وہ تصویر ٹوٹ گئی ہے جو میں نے جین صاحب کی بنا رکھی تھی….. اس سلسلے کا جو بھی مضمون پڑھتا ہوں، اُداس ہو جاتا ہوں۔ ‘‘ (۲۰/نومبر ۲۰۰۶ء)
عتیق اللہ (نئی دہلی ):
’’میں آپ کا تہِ دل سے ممنون ہوں کہ جوابِ آں غزل کے طور پر ’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں ‘ جیسا مقالہ مجھے بھیجنے کی زحمت کی۔ اس سے قبل فاروقی صاحب اور دیگر حضرات کے ردّہائے عمل تو نظر سے گزرے تھے، لیکن شومیِ قسمت کہ آپ کی تحریر سے محروم رہا تھا۔ ”
’’واقعہ یہ ہے کہ گیان چند جین نے جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ شاید گذشتہ پچاس ساٹھ برسوں سے وہ انھیں linesپر سوچتے رہے ہوں گے۔ ’ہندتوا ‘ کے عروج کے ساتھ ہی ان کی جرأتوں میں بھی تازہ دمی آ گئی اور ایک ساتھ جس قدر زہر اُگلا جا سکتا تھا، دیارِ غیر میں جا کر اُگل دیا۔ آپ نے بڑے صبر و ضبط کے ساتھ تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ ایک ماہرِ لسانیات ہی یہ حق بھی ادا کر سکتا تھا۔ میں نے بڑے غور اور توجہ سے ایک ہی نشست میں یہ تمام قسطیں پڑھ ڈالیں….. میں نہیں سمجھتا کہ اس مضمون کے بعد مزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ جین (صاحب) کو اسے پڑھ کر تھوڑی سی عقل آ جائے تو یہ بڑی قیمت ہو گی۔ ‘‘ (یکم نومبر ۲۰۰۶ء)
شفیع مشہدی (پٹنہ):
’’بیحد علمی انداز میں دلائل کے ساتھ آپ نے جواب دیا ہے۔ یہ کاوش قابلِ تحسین ہے اور محبانِ اُردو آپ کے شکر گزار ہیں۔ مگر ذہن کی آلودگی تب ہی دور ہو سکتی ہے جب گیان چند جین کھلے ذہن سے ان پر غور کریں….. آپ کے جوابات اور معروضی انداز کا تجزیہ بہت خوب ہے۔ مبارک باد ! ‘‘ (۲۰/جنوری ۲۰۰۷ء)
مناظر عاشق ہرگانوی (بھاگل پور):
’’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں ‘ کسی رسالے میں پڑھ چکا تھا۔ سبھی قسطیں اب احباب کو پڑھوا رہا ہوں۔ آپ کا تجزیہ اور آپ کی تنقید سب سے افضل ہے کیونکہ آپ نے تحقیق سے کام لیا ہے۔ ‘‘ (۲۱/فروری ۲۰۰۷ء)
سعید الظفر چغتائی (علی گڑھ ):
’’میں نے [مضمون کی] آٹھوں قسطیں پڑھ ڈالیں اور یہ تاثر لیا کہ …. آپ نے آخری قسطوں میں بہت ٹھوس حوالوں اور دلیلوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندی نثر ۱۸۰۰ ء کے بعد کی چیز ہے، جب کہ اُردو نثر کی کم از کم پندرہ کتابیں اس سے خاصا پہلے سامنے آ چکی تھیں۔ میرے نزدیک حاصلِ کلام یہی ہے۔ "(۹/نومبر ۲۰۰۶ء)
ساجد رشید (ممبئی ):
’’آپ کا مضمون میں نے پڑھا۔ مجھے بیحد خوشی ہے کہ آپ نے جین صاحب کی کتاب کو پڑھ کر لسانی نکات پر بحث کی ہے…..”
’’آپ کے مضمون کی تین قسطیں مسلمانوں اور فرقہ واریت سے متعلق بحث سے الجھ گئی ہیں جن پر خوب باتیں ہو سکتی ہیں، حق میں بھی اور خلاف بھی ! چوتھی قسط سے آپ نے جو لسانی بحث کی ہے وہ بہت فکر انگیز ہے۔ اس کے لیے میں آپ کو تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ‘‘ (۲۴/نومبر ۲۰۰۶ء)
’’جہاں تک میرے علم میں ہے آپ ہی کا مضمون گیان چند جین کی کتاب سے معروضی ڈھنگ سے بحث کرتا ہوا نظر آتا ہے، وگرنہ لوگ تو شمشیرِ اسلام لے کر نکل پڑے تھے۔ اس طرح یہ بحث (جو بیحد ضروری تھی) فرقہ وارانہ روپ لے چکی تھی ….. بلاشبہ آپ نے لسانی بحث کی ہے اور بے حد معروضیت کے ساتھ۔ ”
’’میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ جین صاحب کی اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان ثابت کرنے کی (ناکام) کوشش بالکل غلط ہے اور آپ نے اپنے مضمون کی ایک قسط میں اس سے بحث بھی کی ہے۔ آپ نے جس دقتِ نظر سے متذکرہ مضمون لکھا تھا اس کے لیے میں آپ کو تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ دراصل ایسے موضوعات پر لکھنے کے لیے آنکھوں کا تیل جلانا پڑتا ہے اور اب ہمارے احباب یہ مشقت کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ ‘‘ (۲۶/دسمبر ۲۰۰۶ء)
کرشن کمار طور ؔ (دھرم شالہ، ہماچل پردیش ):
’’آپ کا مضمون میں نے از حد دلچسپی سے پڑھا۔ نہایت معروضی انداز میں لکھا ہوا تھیسس ہے۔ کاش ڈاکٹر جین کی کتاب پر لٹھ لے کر دوڑنے والے چھٹ بھیّے اس قسم کی کوئی تحریر پیش کر سکتے۔ ‘‘ (یکم فروری ۲۰۰۷ء)
نعیم کوثر (بھوپال):
’’آپ کا پورا مضمون پڑھ لیا۔ بہت جامع اور مدلل ہے ….. نا چیز کی رائے میں، ’’مسلمان علیٰحدگی پسند ہیں اور محمود غزنوی کے مو یّد ہیں‘‘ [’ایک بھاشا‘…..، ص ۱۵۔ ۲۱۴]، آپ کے قلم کی زد سے بچ گئے۔ ‘‘ (۲۸/اکتوبر ۲۰۰۶ء)
مجاہد حسین حسینی (ممبئی ):
’’اِس مضمون [’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں ‘]کی ایک قابلِ ذکر صفت یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف آپ نے ڈاکٹر گیان چند جین کی متنازعہ کتاب ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب ‘ کی تہہ میں پوشیدہ لسانی تعصب کے زہر اور موصوف کی تنگ نظری کو بے نقاب کرتے ہوئے خالص علمی و منطقی بحث کی ہے، وہیں احترامِ قلم اور تہذیبِ گفتگو کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ‘‘ (۲۹/نومبر ۲۰۰۶ء)
خالد محمود (نئی دہلی ):
’’میں نے ’قومی آواز ‘ میں ’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں ‘ کی تین قسطیں نہ صرف خود پڑھی ہیں بلکہ دوسروں کو دکھانے کے لیے اپنے بیگ میں بھی رکھ لی ہیں ….. ’قومی آواز ‘ کے سہیل انجم صاحب سے درخواست کی تھی کہ اگر ممکن ہو تو وہ مجھے اس مقالے کی ایک مکمل کاپی عنایت فرما دیں….. کل شب پروفیسر صغریٰ مہدی صاحبہ سے گفتگو ہوئی تو ہم دونوں متفق تھے کہ ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ، دو ادب‘ پر اس سے زیادہ سنجیدہ، مدلل اور عالمانہ مضمون شاید ابھی تک نہیں لکھا گیا۔ فاروقی صاحب کا جواب یقیناً لا جواب بلکہ عوامی زبان میں ’منہ توڑ ‘ ہے مگر بعض تفصیلات اور توضیحات کی وجہ سے آپ کا یہ مضمون اس پر اضافہ ہے۔ ‘‘ (۲۷/اکتوبر ۲۰۰۶ء)
شہاب ظفر اعظمی (پٹنہ):
’’آپ نے بے حد تفصیل سے کتاب [’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘]کے تمام نقائص اور مصنف کی ….. ذہنیت کی گرفت کی ہے۔ ”
’’فاروقی صاحب کا تبصرہ بلاشبہ اہم ہے مگر آپ نے اس سے آگے کی منزل طے کی ہے۔ یعنی بعض ایسی جہتوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں جو شاید فاروقی صاحب کی طرف سے رہ گئے تھے…… میں آپ کو اس عمدہ تبصرے بلکہ مقالے کے لیے تہِ دل سے مبارک پیش کرتا ہوں۔ ایک عرض یہ ہے کہ، آپ کا تبصرہ قسطوں میں ’قومی آواز ‘ میں چھپ کر محدود رہ گیا ہے، اسے کسی قومی یا بین الاقوامی جریدے میں شائع کروائیں تاکہ اُردو کے تمام قارئین تک پہنچ جائے۔ ‘‘ (تاریخ ندارد)
ارشد کمال (نئی دہلی ):
’’مضمون [’اُردو زبان، فرقہ پرستی کے تناظر میں ‘]ہر لحاظ سے پسند آیا۔ آپ نے دو ٹوک انداز میں جین صاحب کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے۔ ‘‘ (۱۲/دسمبر ۲۰۰۶ء)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پروفیسر گیان چند جین کی کتاب ’ ایک بھاشا…..‘ اگر چہ ایک علمی موضوع کا احاطہ کرتی ہے لیکن اس میں اُردو اور اُردو گو مسلمانوں کے خلاف جو زہر افشانی کی گئی ہے وہ یقیناً قابلِ افسوس ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے مصنف کی فرقہ وارانہ ذہنیت، لسانی عصبیت اور منفی طرزِ فکر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب اُردو کے ’’شیدائی‘‘ (بزعم خود) گیان چند جین کی نہیں، بلکہ کسی تنگ نظر اور متعصب ذہن فرقہ پرست کی لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے جس کا انداز بھی نہایت جارحانہ اور غیر معروضی ہے۔
علاوہ ازیں جین صاحب کی اس کتاب میں اُردو ہندی کے لسانی مسائل و مباحث کو صحیح تاریخی و تہذیبی تناظر میں نہیں پیش کیا گیا ہے۔ ہندی کی بیجا پاسداری کی گئی ہے اور اُردو کے سلسلے میں تعصب برتا گیا ہے۔ جین صاحب کو اُردو کے ہندی پر تقدمِ زمانی سے انکار ہے۔ انھیں اس بات سے بھی انکار ہے کہ للو جی لال نے فورٹ ولیم کالج میں انگریزوں کی شِہ پر ایک نئی زبان گھڑی۔ وہ انیسویں صدی کی اُردو مخالف تحریکات اور ہندی کے جارحانہ ’پرچار‘ کو حق بجا نب قرار دیتے ہوئے اہلِ اُردو کو ہدفِ ملامت بناتے ہیں۔ وہ اُردو زبان کے ساتھ اُردو ادب سے بھی چِڑے ہوئے ہیں اور اس پر ’’جنسی جارحیت‘‘ کا الزام لگاتے ہیں اور اسے ’’مذہبی جارحیت‘‘ سے جوڑ دیتے ہیں۔
زیرِ نظر کتاب میں ان امور سے معروضی حقائق کی روشنی میں بحث کی گئی ہے اور رد پیش کیا گیا ہے، تاہم بہت سے لسانی و تحقیقی مسائل محتاجِ توجہ رہے، مثلاً : (۱) اُردو اور ہندی ایک زبانیں ہیں یا دو (جین صاحب کہتے ہیں کہ اُردو اور ہندی ایک زبانیں ہیں)، (۲) جین صاحب کے پیش کردہ کھڑی بولی ہندی کے قدیم نمونے کہاں تک مصدقہ ہیں (جین صاحب نے کھڑی بولی ہندی کے جو نمونے پیش کیے ہیں ان میں سے بیشتر غیر مصدقہ اور جعلی ہیں)، (۳) اُردو رسمِ خط پر جین صاحب نے جو الزامات عائد کیے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے، نیز (۴) جین صاحب نے متذکرہ کتاب میں جا بجا تضاد بیانی سے بھی کام لیا ہے۔ یہ اور اس قسم کی چند دیگر باتیں جو قدرے تفصیل کی متقاضی تھیں، اس کتاب میں محض سرسری طور پر ہی زیرِ بحث آ سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گیان چند جین صاحب اُردو زبان و ادب کی ایک لائقِ صد احترام، اعلیٰ مرتبت اور برگزیدہ شخصیت ہیں۔ یہ بات بھی بے خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے اُردو تاریخ و تحقیق کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں اور اُردو کے علمی سرمایے میں قابلِ قدر اضافے کیے ہیں۔ علاوہ ازیں اُردو کی سر بلندی و سرخروئی تمام عمر ان کا شیوہ رہا ہے۔ ان سب باتوں سے کسی اہلِ اُردو کو انکار نہ ہو گا۔ لیکن ان کی حالیہ تصنیف ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ، دو ادب ‘ جو مسترد کر دی گئی ہے، تصویر کا ایک دوسرا ہی رُخ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہرگز یہ یقین نہیں آتا کہ اس کے مصنف گیان چند جین ہیں جو اُردو زبان اور اس کے ادب کے دانا، جویا، عالم اور منتہی ہیں۔ بالآخر یہی کہا جا سکتا ہے کہ جین صاحب کو اُردو اور اہلِ اُردو سے ’کبھی ‘ جو پیار، محبت اور لگاؤ تھا، وہ اب ختم ہو چکا ہے، اگر چہ دعویٰ تو انھوں نے یہی کیا ہے کہ وہ اب بھی اُردو کے ویسے ہی’’ شیدائی ‘‘ ہیں جیسے کہ تھے :
محبت، وفا، مہر کرتے تھے باہم
اٹھا دیں ہیں وے تم نے اب ساری رسمیں
(میر تقی میرؔ)
پروفیسر گیان چند جین سے میرے دیرینہ مراسم رہے ہیں۔ میں ان سے بارہا ملا ہوں اور مختلف موضوعات پر ان سے بارہا تبادلۂ خیال کیا ہے۔ ان سے میری مراسلت کا سلسلہ جو تقریباً پچیس سال پہلے شروع ہوا تھا تا حال قائم ہے۔ ان سے میرا علمی اختلاف بھی کوئی نئی بات نہیں۔ چند سال قبل اسلوبیاتی تنقید پر ان سے میرا کافی اختلاف رہا تھا جس کے گواہ ’نیا دور‘ (لکھنؤ) کے صفحات ہیں۔ اس کے با وصف انھوں نے میری کتاب ’لسانی تناظر‘ (۱۹۹۷ء ) پر سیر حاصل ’’پیش لفظ‘‘ لکھا۔ علاوہ ازیں تین چار سال قبل جب ان کی چند کتابیں مشفق خواجہ (مرحوم) کے توسط سے پاکستان سے شائع ہوئیں تو ان میں سے ایک کتاب ’لسانی رشتے ‘ کا انتساب انھوں نے از راہِ کرم ان الفاظ کے ساتھ میرے نام کیا:
’’ماہرِ علمِ زبان، شیریں کلام، کرم فرما ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ کے نام ‘‘
زیرِ نظر کتاب بھی جین صاحب سے میرے علمی اختلافات کا نتیجہ ہے جس سے، مجھے امید ہے کہ ہمارے ذاتی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میری حالیہ تحریروں کو پڑھ کر انھوں نے مجھے پورٹروِل،کیلی فورنیا (امریکہ) سے بھیجے گئے اپنے خط مرقومہ ۳۱/جنوری ۲۰۰۷ء میں صرف اتنا لکھا کہ ’’اُردو ہندی وغیرہ سب کو بھول گیا ہوں‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اب اُردو ہندی کے قضیے میں مزید پڑنا نہیں چاہتے۔ انھوں نے جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ اب دوسرے ان کے بارے میں جو چاہیں لکھیں اور ان کی اس کتاب کا جس طرح چاہیں’ پوسٹ مارٹم‘ کریں، ان کا اب ان چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ البتہ انھیں اپنی صحت کی جانب سے ضرور مایوسی ہے۔ انھوں نے اپنے متذکرۂ بالا خط میں، جو خود انھیں کی ہینڈ رائٹنگ میں ہے (اور خوش خط ہے)، اپنی ہسپتال کی زندگی کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے:
’’میں اور میری بیوی شفا خانے کے ایک کمرے میں رہتے ہیں جس میں ایک بڑا کمرہ اور پشت میں ایک چھوٹا کمرہ ہے….. اب بقیہ زندگی اس اسپتال ہی میں گزارنی ہے۔ کہیں کا سفر بھی نہیں کر سکتا۔ بس یہ قصبہ [پورٹروِل جہاں ہسپتال واقع ہے] ہی میری دنیا ہے۔ ‘‘
ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ جین صاحب کو Dysgraphiaکے عارضے سے اب نجات مل گئی ہے، یعنی ایسی بیماری جس کا تعلق "writing disorder” سے ہے۔ جین صاحب کی تحریر اب بالکل درست ہو گئی ہے (جو پہلے نہایت بھدّی، بھونڈی، گنجلک، گڈمڈ اور ٹیڑھی میڑھی ہوا کرتی تھی)۔ اب انھیں لکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی تحریر چند سال پہلے کے مقابلے میں اب نہایت صاف ستھری، واضح اور روشن نظر آتی ہے۔ اب وہ لکھنے کا سارا کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ وہ خطوط خود نہیں لکھتے بلکہ ڈکٹیٹ کرتے ہیں اور کوئی دوسرا انھیں لکھتا ہے۔ لیکن اب انھوں نے خود ہی اپنی ہینڈ رائٹنگ پر اظہارِ اطمینان کیا ہے اور اپنے متذکرہ خط میں لکھا ہے کہ ’’اب میرا لکھا بآسانی پڑھا جاتا ہے۔ پہلے دو تین سال تک اس کا پڑھنا مشکل تھا۔ ‘‘
اس کتاب کی تسوید و ترتیب کے دوران میرے سامنے دو مشکلیں تھیں۔ اول یہ کہ گیان چند جین جیسے محتاط محقق کی کتاب پر کچھ لکھنا آسان کام نہ تھا۔ دوم، ان کی اس کتاب پر شمس الرحمن فاروقی سے لے کر کرشن کمار طور تک اتنا سب کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنا کارِ عبث تھا۔ لیکن میں نے جرأت سے کام لیا اور اپنی راہ الگ نکالی، ؏
کچھ کام نہیں بنتا بے جرأتِ رندانہ
(اقبالؔ)
مرزا خلیل احمد بیگ
علی گڑھ، پروفیسر و سابق صدرِ شعبۂ لسانیات
۳۱/مارچ ۲۰۰۷ء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
پہلا باب: ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ، دو ادب‘
پروفیسر گیان چند جین کی حالیہ تصنیف ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۰۵ء) ان دنوں علمی حلقوں میں شدید بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ جن لوگوں نے یہ کتاب پڑھی ہے انھیں انتہائی رنج و افسوس ہے۔ کچھ لوگوں کو بے حد غصہ بھی ہے۔ اس کے رد میں پچھلے دنوں بعض تحریریں بھی منظرِ عام پر آئی ہیں جن میں اس کتاب کی کھل کر مذمت کی گئی ہے۔ (۱) حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کو شائع کر کے جین صاحب نے بیٹھے بٹھائے اپنے لیے ایک رسوائی مول لے لی ہے جو تا دمِ آخر ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
گیان چند جین صاحب اُردو کے ایک ممتاز عالم، نامور محقق اور معروف ادیب و انشا پرداز ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک اُردو زبان و ادب کی درس و تدریس سے وابستہ رہے اور ملک کی بعض مایۂ ناز یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں کے منصبِ صدارت پر بھی فائز رہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اُردو کے تصنیفی و تالیفی کاموں میں صرف کر دی اور اب جب کہ وہ عمر کی آخری منزل میں ہیں اور پارکنسن جیسی انتہائی مہلک بیماری کا شکار ہیں، انھوں نے ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھ دی ہے جس نے پوری اُردو دنیا کو حیرت و استعجاب اور سکتے میں ڈال دیا ہے۔
جین صاحب نے ۲۷/ستمبر ۲۰۰۴ء کو امریکہ سے بھیجے گئے اپنے ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ ’’میری ایک لسانی کتاب ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ …. شائع کر رہی ہے۔ امید ہے اکتوبر میں آ جائے گی۔ ‘‘ …. اسی خط میں انھوں نے اپنی بیماری کے بارے میں بھی لکھا تھا کہ ’’ میں اس بیماری کا مریض ہوں جس کا نام ہے Multiple System Atrophy۔ اس بیماری کے بارے میں سائنس کچھ نہیں جانتی۔ اس کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘ حیرت ہے کہ اس مہلک اور جان لیوا بیماری سے نبرد آزما ہوتے ہوئے نیز امریکہ جیسے دو ر دراز ملک میں بیٹھ کر جہاں اُردو ہندی سے متعلق علمی وسائل کی حد درجہ کمی ہے، جین صاحب نے یہ کتاب کیسے لکھ لی۔ اس کتاب کے بارے میں میری یہ پختہ رائے ہے کہ یہ کتاب ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور اُردو زبان و ادب کے بارے میں ان کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے جس پر ردِّ عمل لازمی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ان کے متعصبانہ نظریات نیز لسانی تعصب کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جین صاحب نے یہ کتاب خالص یک رخے انداز اور ’’ہندی والوں‘‘، نیز ’’ہندوؤں‘‘ کے نقطۂ نظر سے لکھی ہے جس کا اعتراف انھوں نے اس کتاب کے ’’حرفِ اول‘‘ میں خود کیا ہے۔ چونکہ یہ کتاب ایک خاص زاویے سے لکھی گئی ہے اور ایک مخصوص مذہبی طبقے کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر خالص یک طرفہ انداز سے، نیز فرقہ پرستی کے تناظر میں تصنیف کی گئی ہے، اس لیے اس کے غیر جانب دارانہ اور معروضی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میرا یہ بھی خیال ہے کہ گیان چند جین نے اُردو ہندی کے مسئلے کو جو ایک خالص لسانی اور علمی مسئلہ ہے، نہایت جذباتی اور غیر معتدل انداز سے پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب غیر متعلق مباحث، غیر معقول دلائل اور غیر ضروری حوالوں سے اَٹی پڑی ہے۔ اس میں زیادہ تر انھیں ہندو مصنفین کے افکار و نظریات کا چربہ پیش کیا گیا ہے جو اُردو سے شدید منافرت کا جذبہ رکھتے ہیں اور لسانی تعصب و تنگ نظری کا بری طرح شکار ہیں۔ مسلمان مصنفین کے حوالے صرف وہاں دیے گئے ہیں جہاں جین صاحب کو اپنے مطلب اور مفاد کی کوئی بات نظر آئی ہے۔ انھوں نے اس پورے لسانی مسئلے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ’’ ہندی والوں‘‘ اور ’’ اُردو والوں‘‘ میں تقسیم کر رکھا ہے اور خود کو (چوں کہ وہ غیر مسلم ہیں) اُردو والوں سے الگ کر کے ہندی والوں کے زمرے میں شامل کر لیا ہے اور انھیں کے خیالات و نظریات کا ’پرچار‘ کرنے میں اپنا سارا زور صرف کیا ہے۔ یہ ہماری ہی خطا تھی کہ ہم آج تک انھیں ’اپنا‘ سمجھتے تھے:
تیرا قصور نہیں، میرا تھا
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
(ناصر کاظمی)
یہ وقت کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ جو شخص تمام عمر اُردو زبان و ادب کا درس دیتا رہا ہو، جس نے اُردو تحقیق و تاریخ کی زرّیں خدمات انجام دی ہوں اور جس کے اُردو سے والہانہ لگاؤ اور علم و فضل پر پوری اُردو دنیا ناز کرتی ہو وہ آخرِ عمر میں اُردو کے حلقے سے خود کو الگ کر کے مخالفینِ اُردو کا ہم نوا بن جائے اور اپنی ساری علمی صلاحیت اور عقل و ذہانت اُردو کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اس کے ادب کو رسوا کرنے میں صرف کر دے۔
گیان چند جین جی کی اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہمارا تعارف ایک ایسے گیان چند جین سے ہوتا ہے جو ہندی کی بیجا پاسداری کرتا ہے، جس کی نظروں میں اُردو ادب کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، جو اُردو کو ایک تنگ نظر اور علاحدگی پسند زبان قرار دیتا ہے اور جو اُردو رسمِ خط میں بھی کیڑے نکالتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جو ہندی (زمانۂ حال کی ہندی) کے مقابلے میں اُردو کو ایک کم تر و کہتر زبان تصور کرتا ہے اور جو اُردو پر ہندی کی زمانی فوقیت کو ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔ علاوہ ازیں جو اُردو بولنے والے مسلمانوں سے بھی بغض و عناد رکھتا ہے، جس کے ذہن میں فرقہ واریت کا زہر گھلا ہوا ہے اور جس کے نظریات ہندوستان کی کسی بھی فرقہ پرست جماعت کے اینٹی مسلم نظریات سے کم نہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ جس شخص نے تمام عمر اُردو کا رزق کھایا ہو اور جسے تمام تر عزت، شہرت، مرتبہ،اعزاز و اکرام اور نام و نمود محض اُردو کی وجہ سے حاصل ہوا ہو، اور جو اُردو کو اپنی زبان کہتا ہو اور مردم شماری کے وقت اپنی مادری زبان ’’اُردو‘‘ درج کرواتا ہو، (۲) وہ اُردو زبان و ادب کے بارے میں ایسی لغو، بے بنیاد اور گمراہ کن باتیں کیسے لکھ سکتا ہے اور اس زبان سے متعلق انتہائی مخالفانہ، معاندانہ اور غیر منصفانہ رویہ کیوں کر اختیار کر سکتا ہے!
دوسرے اہلِ اُردو کی طرح میں بھی جین صاحب کے علم و فضل اور دانش و بینش کا تہِ دل سے معترف رہا ہوں اور انھیں اُردو کی ایک لائقِ صد احترام شخصیت سمجھتا رہا ہوں اور ان کی علمی و تحقیقی فتوحات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہوں نیز اُردو کے لسانی مسائل اور پہلوؤں سے ان کی غیر معمولی دلچسپی کو سراہتا رہا ہوں(۳)۔ لیکن ان کی متذکرہ کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ اُردو سے انھیں جو والہانہ لگاؤ تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے اور انھوں نے اُردو اور اہلِ اردو سے نظریں پھیر لی ہیں۔ حالانکہ دعویٰ تو انھوں نے یہ کیا ہے کہ ’’ میں اب بھی اُردو کا ویسا ہی شیدائی ہوں جیسا کہ تھا‘‘ (متذکرہ کتاب، ص۱۱)۔ لیکن ان کی تصنیف کردہ اس زہر آلود کتاب کو پڑھنے کے بعد ان کی اس بات پر کسے یقین آئے گا اور ان کے اس قول پر کہ’’ مجھے ہندی سے اُردو زبان بہتر لگتی ہے‘‘ (ایضاً،ص۲۸۲)، بھلا کون اعتبار کرے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب نے ساری دنیا کے اُردو بولنے والوں اوراُردو سے محبت کرنے والوں کا دل دُکھایا ہے:
تم نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا
(آنند نرائن مُلّا)
دوسراباب: فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی طرزِ فکر
’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کے مواد و موضوع پر نظر ڈالنے سے قبل ذرا اس کے نام کو لیجئے۔ اس کے ابتدائی الفاظ ہیں ’’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘‘،لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کہ گیان چند جین کی یہ کتاب اُردو زبان (اور اُردو رسمِ خط) میں لکھی ہوئی ہے نہ کہ ہندی زبان میں۔ تو کیا اُردو زبان میں ’’بھاشا‘‘ کے لیے انھیں کوئی لفظ نہیں ملا؟ جین صاحب کی ہندی پرستی اور اُردو دشمنی کا آغاز گویا یہیں سے یعنی کتاب کے نام سے ہی ہوتا ہے کہ انھوں نے اُردو کے ایک نہایت مانوس، موزوں اور مروج لفظ ’زبان‘ کو چھوڑ کر ’’بھاشا‘‘ کا انتخاب کیا۔ مجھے اس لفظ کو کتاب کا عنوان بنانے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا، اگر جین صاحب نے یہ کتاب ہندی زبان میں لکھی ہوتی۔ لفظِ زبان کی جگہ ’’بھاشا‘‘ کے استعمال کا مقصد اُردو پر ہندی کی بالا دستی اور فوقیت قائم کرنے اور اُردو کو ایک کم تر و کم مایہ زبان ثابت کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے! اب ذرا اور آگے بڑھیے اور کتاب کے ذیلی عنوان ’’ دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ پر نظر ڈالیے۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ’’لکھاوٹ‘‘ کا لفظ کتنا غریب، غیر فصیح اور غیر موزوں ہے جب کہ اُردو میں اس کے لیے ’رسمِ خط‘ (یا ’رسم الخط‘) موجود ہے۔ جین صاحب جو اُردو کے ایک سرکردہ عالم ہیں اور اُردو زبان و ادب کے ایک مایۂ ناز استاد رہ چکے ہیں، آخر چلن میں آئے ہوئے اُردو کے ان الفاظ سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر زبان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اسی لسانی مزاج کے ما تحت وہ زبان اپنا ذخیرۂ الفاظ تشکیل دیتی ہے جو اس زبان کے فطری عمل (Natural Process)کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اُردو زبان کا لسانی مزاج یہ کہتا ہے کہ Languageکے لیے ’زبان‘ اور Scriptکے لیے ’رسمِ خط‘ (یا ’رسم الخط‘) کے الفاظ استعمال کیے جائیں، نہ کہ ’’بھاشا‘‘ اور ’’لکھاوٹ‘‘ جیسے نامناسب الفاظ۔
اس کتاب کا انتساب توصیفی کلمات کے ساتھ دو ممتاز عالموں کے نام ہے جن میں سے ایک ہندی کے عالم ہیں اور دوسرے اُردو کے۔ ہندی کے عالم آنجہانی امرت رائے کو ’’ دشمنانِ ہندی کے معتوبِ اول‘‘ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد بھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ جین صاحب نے کن کن لوگوں کو ’’دشمنانِ ہندی‘‘ کی فہرست میں شامل کیا ہے اور کیوں؟ (۱)
پوری کتاب ۱۴ ابواب پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں کتاب کے شروع میں ’’حرفِ اول‘‘ اور آخر میں’’ کلماتِ آخر‘‘، ’’ ختمِ کلام‘‘ اور ’’ضمیمہ‘‘ شامل ہے۔ کتاب کا ’’پیش لفظ‘‘ پروفیسر محمد حسن نے لکھا ہے جو نہایت مختصر ہے اور جس میں اُردو اور ہندی کے علاوہ ایک تیسری زبان ’ہندستانی‘ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ’’ مقدمہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کی تحریر بھی شاملِ کتاب ہے۔ کتاب کا نام اگر چہ کرسٹوفر آر۔ کنگ کی کتاب "One Language, Two Scripts” (ایک زبان، دو رسومِ خط) سے ماخوذ ہے، لیکن ان دونوں کتابوں کے مواد و موضوع اور اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کنگ کی کتاب میں نہ تو اُردو اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا ہے اور نہ ہی ہندی کی بیجا پاسداری کر کے جانب دارانہ رخ اختیار کیا گیا ہے۔
کتاب کا پہلا باب ’’ تمہید‘‘ خاصا طولانی (۱۳ تا ۴۳ صفحات پر مشتمل) ہے اور کافی حد تک اختلافی ہے۔ جین صاحب نے اگر چہ دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ وہ ’’سچ‘‘ پر ہیں اور ایک جگہ انھوں نے لکھا بھی ہے کہ ’’ اہلِ علم کی وفاداری صرف سچ سے ہوتی ہے‘‘ (ص ۱۳)، لیکن ’’ تمہید‘‘ کے مطالعے کے بعد صرف یہی سچ کھل کر سامنے آتا ہے کہ ان ۳۱ صفحات میں انھوں نے علمی باتیں کم کہی ہیں اور اپنے ’دل کا غبار‘ زیادہ نکالا ہے جو برسوں سے ان کے دل میں بھرا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ رنگ پکڑ رہا تھا۔
اس کتاب میں تاریخ کے بھی بخیے ادھیڑے گئے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اُردو، نیز اُردو بولنے اور پڑھنے والے مسلمانوں اور اُردو کے مسلمان ادیبوں، اُردو کے ادبی اداروں اور انجمنوں کو بھی جی بھر کر ہدفِ ملامت بنایا گیا ہے اور ان پر الزام تراشیاں کی گئی ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں مقیم اہلِ اُردو کو بھی نہیں بخشا گیا ہے اور ان پر بھی تہمتیں لگائی گئی ہیں اور انھیں بھی فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی سوچ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ زیرِ مطالعہ کتاب اُردو کے عالم و فاضل گیان چند جین کی نہیں بلکہ کسی تنگ نظر اور متعصب ذہن فرقہ پرست، جو ہندی پرست بھی ہے، کی لکھی ہوئی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب میں مندرج مصنف کی حسبِ ذیل باتیں اہلِ اُردو بالخصوص اُردو گو مسلمانوں کے لیے قابلِ غور ہیں:
(۱) سر سید احمد خاں کے بارے میں گیان چند جین نے لکھا ہے کہ ’’ ہندوؤں نے اُردو کے بجائے ہندی کو اختیار کرنا چاہا تو سید صاحب جامے سے باہر ہو گئے اور بقیہ عمر میں ہندوؤں کی بیخ کنی کو اپنی پالیسی بنا لیا‘‘۔ (ص ۱۸)
(۲) علامہ اقبال کو ’’ ہندو بیزار‘‘ اور’’ ہندو دشمن‘‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ’’ شاعری میں تو نہیں لیکن نثر میں اقبال نے ہندوؤں کے بارے میں جہاں بھی لکھا ہے وہ تحقیر و تذلیل کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ (ص ۲۱)
(۳) مولوی عبدالحق کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ ’’ اُردو تحریک‘‘ سے وابستہ تھے۔ اُردو تحریک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’ اُردو تحریک کا واحد مقصد ملک کی تقسیم اور پاکستان بنوانا تھا جسے مولوی عبدالحق نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا‘‘۔ (ص ۳۹)
(۴) مالک رام کو ’’ڈرپوک‘‘ کہا گیا ہے کیوں کہ ’’وہ دل سے احمدی مسلمان تھے لیکن اپنے اہلِ خانہ اور برادری کے خوف کی وجہ سے کبھی کھُل کر کوئی قدم نہیں اٹھایا‘‘۔ (ص ۲۷)
(۵) جگن ناتھ آزاد کی اقبالیات سے دلچسپی کو ’’ غلو‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے جین صاحب نے انھیں پاکستان کا ’’ نمائندہ‘‘ تک کہہ ڈالا کہ ’’تمام مستشرقین میں آزاد اقبالیات میں نوازے گئے ہیں۔ غلو کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آزاد کو پاکستان نے اپنا نمائندہ بنا کر ہندوستان بھیجا ہو‘‘۔ (ص ۲۸)
(۶) عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کو ’’ اُردو تحریک کی ایک شاندار پیداوار‘ بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’’ وہ یونیورسٹی ایک اسلامی اُردو یونیورسٹی تھی‘‘۔
(ص ۱۹ و ۲۰)
(۷) انجمن ترقیِ اُردو (ہند )کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’ روزِ اول سے انجمن ترقی اُردو (ہند) اور مسلم لیگ مل جل کر کام کر رہی تھیں‘‘۔ (ص ۳۹)
(۸) میر تقی میر، داغ دہلوی اور محمد حسین آزاد جیسے مستند ادیبوں کی اُردو دانی پر ’’تنقید‘‘ کی گئی ہے اور ان کے ہاں لسانی ’’ خام کاری‘‘ (گیان چند جین کی نظروں میں) کو طشت از بام کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مالک رام کے اُردو روز مرہ/ محاورہ اور تلفظ کے پنجابی پن کا بھی مذاق اڑایا گیا ہے اور اپنے بارے میں جین صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ مجھے اُردو نہیں آتی‘‘،؏
میں ایک بنیائے قصباتی مجھے اُردو نہیں آتی
(نوٹ: یہ مصرع ساقط الوزن ہے۔ یہاں ’’ ایک‘‘ کے بجائے ’اک‘ ہونا چاہیے تھا لیکن ’ایک بھاشا….‘ میں یہ اسی طرح درج ہے، دیکھیے ص ۳۲)۔
(۹) اُردو غزل کے ’’محبوب ‘‘کا ذکر کرتے ہوئے اُردو کے بعض شعراء کی کردار کشی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ’’ اُردو کے متعدد بڑے شعراء مثلاً مومن، داغ، جگر اور اصغر وغیرہ کی زندگیوں کے ساتھ طوائفوں کے معاملات لپٹے ہوئے ہیں‘‘۔ (ص ۳۸)
(۱۰) مسلمانوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ تاریخ میں مسلمانوں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جن علاقوں کو فتح کیا جائے وہاں کی زبان بالخصوص رسم الخط کو ختم کر کے اپنی زبان اور لپِی (رسم الخط) کو ان پر مسلط کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۵ و ۱۶)
(۱۱) ہندوستان کی مسلم اقلیت بالخصوص اُردو بونے والے مسلمانوں کو ’’ملک کی تقسیم‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ (ص ۲۵)
(۱۲) امریکہ میں پاکستان سے آئے ہوئے اُردو بولنے والوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ’’ان میں تقریباً تمام تر نے یا وہ جو اس کے اہل ہیں امریکہ کی شہریت لے لی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ خود کو پاکستان سے منسوب کرتے ہیں۔ جب اُردو کی کوئی تقریب ہوتی ہے تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تقریب اہلِ پاکستان نے برپا کی ہے۔ امریکہ اور کینڈا میں اُردو کے کئی ہفتے وار اور ماہانہ رسالے نکلتے ہیں۔ ان سے بھی زیادہ کامیاب پاکستانی انگریزی ہفتے وار ہیں۔ ان سب کی وفا داری پاکستان سے ہے۔ ان میں کھل کر ہندوستان اور ہندوؤں کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے اور پاکستان کی ستائش کی جاتی ہے‘‘۔ (ص ۲۳)
اس سے گیان چند جین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’ جب ہر ملک کے اہلِ اُردو اتنی شدت سے پاکستان نواز ہیں تو ممکن ہے ہندوستان کے مسلمان بھی ان کے ہم خیال ہوں، لیکن ہندوستان میں ہندو اکثریت کے خوف سے شاید مصلحت سے کام لیتے ہوں‘‘۔ (ص ۲۳ و ۲۴)
(۱۳) گیان چند جین نے پاکستان میں رہنے والے اہلِ اُردو پر بھی اپنا غصہ اتارا ہے اور پاکستان کے اسکولی نصاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ نصاب افغانستان کے طالبان نے تیار کیا ہے‘‘۔ (ص ۲۴)
(۱۴) ہندی پرستی کے نشے میں چور ہو کر گیان چند جین نے یہ تک لکھ دیا کہ ’’یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہم اُردو ادب کے خمیر سے بنائے گئے ہیں تو ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو قرار دیں۔ ‘‘ (ص ۱۴)
(۱۵) گیان چند جین اُردو کو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اشتراک اور میل جول کا نتیجہ قرار نہیں دیتے۔ وہ اس نظریے کے سخت مخالف ہیں (کہ) اُردو مسلمانوں اور ہندوؤں کے میل جول سے پیدا ہوئی۔ لیکن وہ اس کی لسانی نہیں، فرقہ وارانہ توجیہ پیش کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ’’فاتح اور مفتوح میں کہا ں کا میل۔ کیا ہندو سومناتھ کے مندر کو توڑنے والوں، جزیہ لگانے والوں، ہندو کلچر کو تباہ کرنے والوں پر ملتفت ہوتے‘‘ (ص ۱۴۷)۔ جین صاحب یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اُردو میل جو ل کی نشانی نہیں۔ وہ بلا جھجک یہ لکھتے ہیں کہ ’’اُردو میل جول کی نشانی ہے یا ہندوستان کی زبان سے الگاؤ برتنے کی علامت ‘‘۔ (ایضاً)
جین صاحب اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی سوچ کے شدید دباؤ کے نتیجے میں یہ بھول گئے کہ اُردو، عربی فارسی یا ترکی سے نہیں، بلکہ کھڑی بولی سے پیدا ہوئی ہے اور اس کی اصل و اساس اور بنیاد کھڑی بولی ہے (۲)۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اُردو میں تقریباً ۸۰ فی صد الفاظ سنسکرت اور پراکرت نژاد (= تتسم اور تدبھو) ہیں اور اس زبان میں ان کی حیثیت ناگزیر (Indispensable) ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اُردو میں ایسے بے شمار جملے ترتیب دیے جا سکتے ہیں اور ایسے لا تعداد اشعار موزوں کیے جا سکتے ہیں جن میں ایک بھی عربی فارسی لفظ استعمال نہ ہوا ہو، لیکن اُردو کا کوئی جملہ یا شعر ہند آریائی (ہندی الاصل) الفاظ و قواعد کے بغیر تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بھی وہ اُردو کو، جو ہندی ہی کی طرح ایک جدید ہند آریائی اور ہندوستانی زبان ہے، ’’ ہندوستان کی زبان سے الگاؤ برتنے کی علامت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اسے جین صاحب کی تنگ نظری، لسانی عصبیت اور ہند آریائی لسانیات سے عدم واقفیت پر ہی محمول کیا جانا چاہیے۔ اگر اُردو ’’الگاؤ برتنے کی علامت ‘‘ ہے تو ہندی کیوں نہیں؟ کیوں کہ دونوں ہی کھڑی بولی کی پیداوار ہیں۔ جین صاحب کس منطق کی رو سے اُردو کو ’’الگاؤ برتنے کی علامت ‘‘ کہتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُردو نے کھڑی بولی کو اپنے اندر اس طرح ضم اور مدغم (Assimilate) کر لیا ہے کہ کھڑی بولی ہی مجسم ’ اُردو ‘ بن گئی ہے۔ اس بات پر تمام ماہرینِ لسانیات کا اتفاق ہے کہ اُردو کوئی علیٰحدہ زبان نہیں بلکہ کھڑی بولی کا ہی ’نکھرا ہوا ‘ روپ ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کھڑی بولی ہی اُردو ہے۔ لیکن ہمارے جین صاحب اُردو کو ’’ہندوستان کی زبان سے الگاؤ برتنے کی علامت ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس !
غرض کہ اس قسم کے فرقہ وارانہ نظریات اور اُردو اور مسلم دشمنی پر مبنی متعصبانہ خیالات پوری کتاب میں نہایت جارحانہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ طنز کے نشتر بھی چلائے گئے ہیں اور سنجیدہ بات کو بھی تمسخرانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی صرف ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ ’’چتلی قبر‘‘ دہلی کی جامع مسجد کے پاس واقع ایک محلے کا نام ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس نام کے ساتھ گیان چند جین نے ’’ اُردو کی قبر‘‘ کی ترکیب استعمال کر کے اُردو کا کتنا زبردست مذاق اڑایا ہے اور طنز کا وار بھی کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اب دہلی میں ہر طرف پنجابی بھرا پڑا ہے۔ ۔ ۔ اب آپ اُردو کی قبر تلاش کرنے کے لیے چتلی قبر جائیں اور رکشا یا اسکوٹر والے کو خود کو پوتڑوں کا اُردو والا ثابت کرنے کے لیے قبر کو ’ب‘ ساکن سے بولیں تو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ یہ پردیسی مرغا ہے‘‘۔ (ص ۳۶)
اس کی آخری سطر کو دیکھیے، بھلا یہ کون سی علمی زبان ہے؟
جین صاحب کے غیر علمی، معیار سے گرے ہوئے اور سوقیانہ لہجے کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
’’جہاں فٹنیں چلتی تھیں وہاں اِکّے اور رکشائیں چل رہی ہیں اور وہ تمام اس قدر ذلیل ہیں کہ ان پر اگر سکندرِ اعظم تک کو بٹھا دیا جائے تو وہ بھی کسی دیہاتی رنڈی کا بھڑوا نظر آنے لگے‘‘۔ (ص ۳۶)
فیضیؔ سے اعتذار کے ساتھ:
زبانِ ’یار‘ جنبد بے محابا در سخن رانی
مطالب نا درست آید دلائل نا تمام افتد
…
تیسرا باب : اُردو زبان، اُردو گو مسلمان اور اُردو ادب
گیان چند جین نے ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ میں اصل نکتے کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان مسلمانوں کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے جو آج اُردو بولتے ہیں یا جنھوں نے ازمنۂ وسطیٰ میں اس ملک میں بقول ان کے ’’تقریباً ۶۰۰ سال حکومت کی‘‘ (ص ۱۴۰)۔ جین صاحب نے ان مسلمانوں کو ’’سومناتھ کے مندر کو توڑنے والوں، جزیہ لگانے والوں، ہندو کلچر کو تباہ کرنے والوں‘‘ کے خطابات سے نوازا ہے۔ (ص ۱۴۷)
گیان چند جین کو ۶/ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ہندو انتہا پسندوں کے ذریعے بابری مسجد کے شہید کیے جانے کا بالکل افسوس نہیں۔ لیکن اس کے ردِّ عمل میں جسے وہ ’’انتقام‘‘ کہتے ہیں پڑوسی ملکوں میں جو ’’مندر توڑے گئے‘‘ (؟ ) اس کا انھیں گہرا دکھ ہوا اور جب ہندوستان کے ایک انصاف پسند اور حساس ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد نے بابری مسجد کے انہدام پر اُردو میں نظم لکھ کر چھپوائی اور اس قبیح فعل کی سخت الفاظ میں مذمت کی تو جین صاحب چراغ پا ہو گئے (دیکھے متذکرہ کتاب، ص ۲۱۵)۔ اس کے علی الرغم جین صاحب کوپڑوسی ملک بنگلہ دیش کی مصنفہ تسلیمہ نسرین سے جو ملک بدر کر دی گئی تھی، محض اس لیے ہمدردی ہے کہ اس نے وہاں کے توڑے گئے مندروں کی ’’ ہمدردی‘‘ میں ناول ’لجّا‘ لکھا (ص ۲۱۵)۔ جین صاحب کی یہ کیسی منطق ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے ایک عظیم ہندو شاعر کو محض اس لیے در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے ملک (ہندوستان) کی ایک مسجد کی شہادت پر نظم لکھتا ہے(۱)۔ اس کے علی الرغم وہ غیر ملک کی ایک غیر معروف مسلمان ادیبہ کی محض اس لیے ستائش کرتے ہیں کہ وہ اس مسجد کی شہادت کے ردِ عمل میں غیر ملکی سر زمین (بنگلہ دیش) میں رونما ہونے والے واقعات پر ناول لکھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوسی ملکوں میں جو مندر ’’ٹوٹے‘‘ (؟)، اس کے اصل ذمے دار وہ انتہا پسند ہندو ہیں جنھوں نے بابری مسجد کو مسمار کیا یا کروایا۔ اس مسئلے پر گیان چند جین نے ہندوستان کی صفِ اول کی فرقہ پرست فسطائی سیاسی جماعت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے بابری مسجد کے بارے میں یہ تک کہہ دیا کہ وہ مسجد تھی ہی کہاں، ’’ وہ تو مندر میں تبدیل ہو چکی تھی؟‘‘ ملاحظہ ہو ان کا یہ بیان:
’’بابری مسجد -۱۹۸۵۔ ۸۶ء کے قریب کھول دی گئی، ہندوؤں کو وہاں مورتی پوجا کی اجازت دے دی گئی اور مسلمانوں کا اس میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا۔ اس طرح دسمبر ۱۹۹۲ء میں جو عمارت توڑی گئی وہ مسجد تھی یا وہ تو مندر میں تبدیل ہو چکی تھی؟‘‘(ص ۲۱۵)
لیکن گیان چند جین ایک لسانی اور علمی موضوع پر لکھی ہوئی اس کتاب میں ان باتوں کو کیوں دہرانا چاہتے ہیں؟
باز خوانم قصۂ پارینہ ات
تازہ سازم داغہاے سینہ ات
(مثنوی ’اسرارِ خودی‘)
جین صاحب نے اپنی فرقہ وارانہ سوچ میں ڈوب کر مسلمان اُردو بولنے والوں پر جس طرح کی تہمتیں لگائی ہیں اور جس انداز سے انھیں جی بھر کر ہدفِ ملامت بنایا ہے اس پر احتجاج لازمی ہے۔ ان الزام تراشیوں کے پیچھے کوئی سچائی نہیں ہے۔ یہ محض سوچ کا فرق ہے۔ جب کسی شخص کے ذہن و دماغ میں ’منفی سوچ‘ سما جاتی ہے تو معقولیت، اعتدال پسندی، اصابتِ رائے، معروضیت، غیر جانبداری، ان تمام چیزوں کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور وہ بے بس و مجبور ہو جاتا ہے اور جو جی میں آتا ہے بک دیتا ہے۔ جین صاحب کے ذہن و دماغ میں اُردو اور مسلمانوں کے خلاف جو زہر بھرا ہوا ہے وہ اسی منفی سوچ اور منفی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے۔ جین صاحب نے اپنی اس کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ جانبداری سے بھی زیادہ افسوسناک علمی معاملوں کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینا ہے‘‘ (ص ۱۴)، لیکن وہ خود علمی معاملوں کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں جس کی مثال ان کی یہ کتاب ہے۔ یہ واقعی نہایت افسوسناک بات ہے کہ ادب ہو کہ تاریخ، سیاست ہو کہ ثقافت، زبان ہو کہ رسمِ خط ہر چیز کو جین صاحب نے فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا ہے اور ان تمام مباحث میں ان کے متعصب ذہن کی ہی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں مسلمان اُردو والے اپنی کمر پر دو قومی نظریے کا بھاری گٹّھر اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں۔ ۔ ۔ ایک عام ہندو کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے برابر کیوں رکھا جائے‘‘۔ (ص ۳۳)
گیان چند جین کو شاید نہیں معلوم کہ وہ دن چلے گئے۔ آج کا کوئی ہندوستانی مسلمان خواہ وہ اُردو بولتا ہو یا کوئی اور زبان ’’ دو قومی نظریے‘‘ پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ محض جین صاحب کی بہتان تراشی اور ان کی فرقہ وارانہ سوچ ہے۔ جین صاحب کا یہ کہنا کہ ’’ مسلمانوں کو ہندوؤں کے برابر کیوں رکھا جائے‘‘ محض ان کا ذہنی دیوالیہ پن ہے۔ ہمارے ملک کے دستور نے ہر ہندوستانی کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ انھیں حقوق کے تحت ہندوستان پر جتنا حق ہندوؤں کا ہے اتنا ہی حق مسلمانوں یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہندوستانیوں کا ہے۔
ہندوستان کی مسلم اقلیت بالخصوص اُردو بولنے والے مسلمانوں کو جین صاحب نے پاکستان بنانے کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے بڑی تلخ باتیں کہی ہیں جن سے ان کی اسی فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی طرزِ فکر کی ترجمانی ہوتی ہے جس کے وہ شکار ہو گئے ہیں۔ جین صاحب نے اپنی ایک رشتہ دار خاتون کے حوالے سے جو ملک کی تقسیم کے بعد ’شرنارتھی‘ بن کر ہندوستان چلی آئی تھیں، یہ بات کہی ہے:
’’ انھوں نے دلّی اور یوپی میں رہنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو ملک کی تقسیم چاہتے تھے، پھر یہ یہاں کیوں ہیں‘‘۔ (ص ۲۵)
اسی صفحے پر اس سے ملتی جلتی بات انھوں نے پھر دہرائی ہے۔ ان کے خیال میں ہندوستان میں رہنے والے مسلمان اس لیے ’’ نفسیاتی حیثیت سے ڈھئے ہوئے اور کمزور ہیں‘‘ کہ وہ ملک کی تقسیم چاہتے تھے:
’’ ہندوستان میں رہنے والی مسلم اقلیت۔ ۔ ۔ وہ مالی اور منصبی حیثیت سے آسودہ حال ہوں یا نہ ہوں لیکن نفسیاتی حیثیت سے ڈھئے ہوئے اور کمزور ہیں۔ ان سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ : جانِ من خود کردۂ را چہ علاج‘‘۔ (ص ۲۵)
جین صاحب تھوڑی دیر کے لیے اپنی فرقہ وارانہ سوچ کو بالائے طاق رکھ کر اور مسلمانوں کے خلاف ان کے ذہن میں جو زہر بھرا ہوا ہے اسے تھوک کر ذرا ٹھنڈے دل سے یہ سوچیں کہ کیا ملک کی تقسیم کے ذمے دار صرف مسلمان ہیں؟ اور کیا وہ مسلمان اس کے ذمے دار ہیں جنھوں نے پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے وطنِ عزیز سے ہجرت نہ کی اور نئے ملک میں جا کر نہ بسے؟ اور کیا مسلمانوں کی وہ نسل اس کی ذمے دار ہے جو ملک کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں پیدا ہوئی؟
جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
(منیر نیازی)
جین صاحب کی اس کتاب کے متذکرہ بالا اقتباسات کو پڑھ کر کسے حیرت نہ ہو گی کہ ایک علمی موضوع پر لکھی ہوئی کتاب میں اس قسم کی فرقہ وارانہ اور متعصبانہ باتیں کہی گئی ہیں۔
گیان چند جین کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اُردو ادیبوں کو جو سیکولر اقدار کے پاسدار ہیں، مسلم اور ہندو ادیبوں میں تقسیم کر دیا ہے اور مسلم ادیبوں پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہندو ادیبوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’ بڑے سے بڑے ہندو ادیب کو خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اُردو دنیا میں جینا ہے تو مسلمانوں کی خوشنودی پر نظر رکھے‘‘۔ (ص ۲۶)
غالباً اس بات سے کسی کو انکار نہ ہو گا کہ جہاں تک کہ اُردو کا تعلق ہے ماضیِ قریب میں ہندوؤں میں فراق گورکھپوری سے بڑا شاعر، کرشن چندر سے بڑا فکشن نگار اور مالک رام سے بڑا محقق نہیں گزرا۔ کیا جین صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ ان ہندو ادیبوں کو اُردو دنیا میں جو شہرت، عزت، نام، مرتبہ اور اعزاز حاصل ہوا اس کے لیے انھوں نے کن مسلمانوں کی ’’ خوشنودی‘‘ پر نظر رکھی تھی یا آج کے ہندو ادیب اُردو دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لیے کن مسلمانوں کی خوشنودی میں لگے ہوئے ہیں یا خود ان کی (گیان چند جین کی) اُردو دنیا میں آج جو قدر و منزلت ہے وہ کن مسلمانوں کی خوشنودی یا خوشامد کا ثمرہ ہے؟
جیسا کہ پہلے باب میں کہا گیا ہے کہ گیان چند جین کی نظروں میں اُردو ادب کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے کیوں کہ اس میں بقول ان کے ’’ ہندوؤں کی تذلیل و اہانت‘‘ کی گئی ہے (ص ۲۰۰)۔ جین صاحب نے اُردو کے پرانے قصے کہانیوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی مثالیں پیش کی ہیں جہاں دیومالائی شخصیتوں کا ذکر بقول ان کے ’’ مناسب آداب کے ساتھ‘‘ نہیں کیا گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ ہندی ادب سے بھی ایسی مثالیں پیش کرتے جن میں مسلمانوں کی تذلیل و اہانت کی گئی ہے اور جہاں ان کے مذہبی جذبات اور ملّی و قار کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اُردو ادب میں ایسی بے شمار نظمیں اور اشعار موجود ہیں جن میں ہندوؤں کے مذہبی پیشواؤں کی ستائش کی گئی ہے اور ان کی عظمت کے گن گائے گئے ہیں۔ اگر صرف اقبال کی نظم ’’رام‘‘ کو ہی دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ اقبال کے دل میں رام چندر جی کی کتنی عزت و عظمت تھی کہ انھیں ’’ امامِ ہند‘‘ کے لقب سے یاد کیا:
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
(’بانگِ درا‘)
اسی طرح ایک مسلمان شاعر کو ’’ کالی کی جے‘‘ بولنے میں بھی کوئی قباحت نہیں:
سانولی دیکھ کے صورت کسی متوالی کی
ہوں مسلمان مگر بول اٹھوں جے کالی کی
(امیر مینائی)
گیان چند جین نے اُردو ادب پر ’’ جنسی جارحیت‘‘ کا بھی الزام لگایا ہے (دیکھیے متذکرہ کتاب، ص ۱۸۹)۔ انھوں نے اُردو کے بعض قدیم قصوں سے ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں عاشق مسلمان ہوتا ہے اور محبوبہ ہندو لیکن وہ اپنا مذہب چھوڑ کر ’’ مشرف بالاسلام‘‘ ہو جاتی ہے۔ انھوں نے بعض ایسی مثنویوں کی نشاندہی کی ہے ’’ جن میں محبوبائیں عاشق کے مذہبِ اسلام میں آ جاتی ہیں‘‘۔ جین صاحب کے خیال میں یہ جنسی جارحیت ہی نہیں ’’مذہبی جارحیت‘‘ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ارمنۂ وسطیٰ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین شادی بیاہ کی رسموں کا انجام پانا ایک عام سی بات تھی۔ اس میں کسی قسم کی زور زبردستی یا جبر و اکراہ کو کوئی دخل نہ تھا کیونکہ معاشرتی اور تہذیبی سطح پر یہ دور ہندو مسلم یگانگت اور فرقہ وارانہ اتحاد و اتفاق کا ایک زریں دور تھا۔ اسی لیے ان رسموں کو فرقہ وارانہ زاویے سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور کیا راجا اور کیا پرجا کوئی بھی اسے معیوب نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی اس سے مستثنیٰ تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ امیر خسرو ہندو ماں کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اکبرِ اعظم کی ملکہ جودھا بائی تھیں۔ جہانگیر اور دکن کے بعض فرماں رواؤں کی بیگمات بھی ہندو تھیں۔ (۲) آج کے دور میں بھی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں ہندو عورتوں نے مسلمان مردوں سے اور مسلمان عورتوں نے ہندو مردوں سے اپنی کامل مرضی اور باہمی رضامندی سے شادیاں کی ہیں جن میں نہ جنسی جارحیت کا کوئی شائبہ نظر آیا اور نہ مذہبی جارحیت کا۔ یہی سماجی حقیقت اور تہذیبی سچائی اگر فکشن، قصے کہانیوں اور شعر و ادب میں بیان کر دی گئی تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس قسم کی بین المذہبی شادیوں کو جو فریقین کی باہمی رضا مندی سے انجام پذیر ہوتی ہیں ’’جنسی جارحیت‘‘ قرار دینا اور انھیں فرقہ وارانہ رنگ دے کر ’’ مذہبی جارحیت‘‘ کہنا محض ذہنی فتور ہے۔
گیان چند جین کو ادب کی یہ باتیں بھی بری طرح کھٹکتی ہیں کہ:
’’ امیر خسرو نے اپنی فارسی رباعیوں میں ہندو صنم اور ہندو بچے پر ڈورے ڈالے ہیں۔ ملا شیری (؟) نے قشقہ جبیں محبوبہ سے زبان درازی کی۔ قزلباش خاں امید اور فائز نے بامن کی بیٹی اور کھترانی سے بالکل شہدوں کی طرح چھیڑ خانی کی۔ ۔ ۔ منیر شکوہ آبادی مثنوی ’معراج المضامین‘ جیسی مذہبی مثنوی میں بھی حسنِ رہگزر سے فیضیاب ہونے کے لیے ہندو عورتوں کو گھورنے میں نہیں شرماتے‘‘۔ (ص -۱۹۲۔ ۱۹۳)
ایسا لکھتے وقت جین صاحب غالباً یہ بھول گئے کہ یہ’ ادب‘ ہے، کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔ لیکن چوں کہ وہ ہر چیز کو فرقہ وارانہ عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں، لہٰذا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
’’مثنویوں اور داستانوں میں غیر مسلم حسیناؤں کا عشق اور تبدیلیِ مذہب، متفرق اشعار میں ہندو خواتین کو بے خوف چھیڑنا سب اس لیے جائز تھا کہ حکومت مسلم تھی‘‘۔ (ص ۱۹۳)
گیان چند جین نے ادبی قصے کہانیوں میں مسلمان مرد کے ہندو عورت کے ساتھ معاشقے اور اس عورت کے مشرف بہ اسلام ہو جانے پر خوب واویلا کیا ہے۔ لیکن اس حقیقت کا ذکر کہیں نہیں کیا کہ ادبی دنیا میں ایک ایسی شخصیت بھی گزری ہے جو کسی ہندو عورت کے عشق میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہندوؤں کے طور طریقے اختیار کر لیتی ہے۔ برہمنوں کا لباس اور زنّار’ دھارن‘ کر لیتی ہے اور اپنا نام تک بدل کر ہندوانا نام رکھ لیتی ہے اور اپنی محبوبہ کی تلاش میں متھرا کے مندروں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ عہدِ جہانگیری کی ایک مستند شعری تصنیف ’بکٹ کہانی‘ کا مصنف محمد افضل افضلؔ ( م ۱۶۲۵ء) ہے جس نے ہندو طرزِ زندگی اختیار کرنے کے بعد اپنا نام ’’ گوپال‘‘ رکھ لیا تھا۔ اس کا ہندو مسلک پر چلنا بعید از قیاس نہیں کیوں کہ اس نے ہندو علوم میں اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ آخر میں ایک مندر کا پجاری بنا دیا گیا تھا۔ ’بکٹ کہانی‘ کے آخری دو اشعار افضل کی اسی زندگی کی جانب سوانحی اشارے ہیں:
خموش افضل ازیں مشکل کہانی
کسو نے حدّ اس کی کچھ نہ جانی
بیادِ دلربا خوش حال می باش
گہے افضل گہے گو پال می باش
’گلستانِ سعدی‘ میں ایک جگہ منقول ہے کہ ’’چوں عاشقی و معشوقی درمیان آمد مالکی و مملوکی برخاست‘‘، یعنی معاملاتِ عشق میں آقا اور غلام کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اسی طرح عاشق و معشوق کے درمیان مذہب کا فرق بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ عاشق یا معشوق اِس مذہب کا ماننے والا ہو کہ اُس مذہب کا، ’ مذہبِ عشق‘ اختیار کرنے کے بعد دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر مسعود حسین خاں جنھوں نے ’بکٹ کہانی‘ کی تدوین کا کام انجام دیا ہے ’’گوپال‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’گوپال: افضل کا وہ نام ہے جو اس نے متھرا کے دورانِ قیام میں اختیار کیا تھا۔ حسن و عشق کے اس ناٹک میں افضل کا گوپال نام اختیار کرنا اس لحاظ سے بھی با معنی ہے کہ ’گوپال‘ کرشن کا ایک نام تھا‘‘۔ (’بکٹ کہانی‘، ص ۸۴ [حاشیہ])
مسعود صاحب نے نہایت تحقیق کے بعد افضل/ گوپال کے حالات یوں بیان کیے ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں:
’’ معلمی ان کا پیشہ تھا۔ ۔ ۔ چوں کہ ابتدا سے ’چاشنیِ عشق اور مشربِ فقر‘ سے آشنا تھے اس لیے بڑی عمر میں ’ناگاہ عشقِ ہندو زنے‘ میں مبتلا ہو گئے اور ’مجنوں صفت، متاعِ زہد و تقویٰ را‘ خیر باد کہا اور ’ مانندِ ابرِ بہار‘، طوفِ کوئے ملامت پر آمادہ ہو گئے۔ ۔ ۔ ’افتاں و خیزاں بہ دیارِ محبوب رسیدہ‘۔ ۔ ۔ ۔ اور اس ’وحشی غزال‘ کو رام کرنے کے لیے داڑھی مونڈھی، زنّار پہنا اور ’لباسِ برہمناں‘ اختیار کر کے ایک مندر کے پجاری کا چیلا بن بیٹھا اور ’تحصیلِ علومِ ہندوی نمودہ‘ کہ ’جمیع فنون و کمالِ آں مسلک آمد‘۔ اس سے خوش ہوکر گرو نے اسے اپنا ’نائب مناب‘ بنا دیا اور جب کچھ عرصے کے بعد وہ مرضِ موت میں گرفتار ہوا تو وصیت کی کہ میرے بعد افضل (گوپال) کو گرو تسلیم کیا جائے‘‘۔ (مقدمہ ’بکٹ کہانی‘ ص ۲۴ و ۲۵)
افضل/ گوپال کے ’’ عشقِ ہندو زنے‘‘ کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
اگر مجنوں و لیلےٰ زندہ گشتے
حدیثِ عشق ازیں دفتر نوشتے
(سعدیؔ)
کیا جین صاحب کو اب بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ معاملاتِ حسن و عشق میں صرف ہندو عورت ہی مشرف بہ اسلام ہوتی ہے اور مسلمان مرد اپنے مسلک پر بدستور قائم رہتا ہے؟ میرؔ صاحب کو ہی دیکھئے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ’’عشقِ ہندو زنے‘‘ میں مبتلا رہے ہوں(؟):
میرؔ کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
…
چوتھا با ب : کھڑی بولی ہندی
گیان چند جین نے اپنی متذکرہ کتاب میں اہلِ اُردو پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھیں (اہلِ اُردو کو) ہندی ادب کے ماضی پر ’’ اعتراض‘‘ ہے۔ جین صاحب کے مطابق وہ اعتراض یہ ہے:
’’کھڑی بولی ہندی ایک بالکل نئی زبان ہے جسے انگریزوں کے حکم پر فورٹ ولیم کالج میں تیار کیا گیا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کے لیے ایک مشترکہ زبان مہیا کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا‘‘۔ (ص ۱۱۸)
جین صاحب جسے ’’اعتراض‘‘ کہتے ہیں وہی تو اصل حقیقت ہے،(۱) لیکن اس اعتراض کو انھوں نے اہلِ اُردو کے سر کیوں منڈھ دیا ہے؟ اگر ہندی کے لسانیاتی ادب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے ہندی مصنفین نے ہی اس حقیقتِ حال کو بیان کیا، پھر اسی کو گریرسن اور دوسروں نے دہرایا۔
ایودھیا پرساد کھتری انیسویں صدی کے نصفِ دوم کے ایک ممتاز ہندی عالم اور دانشور تھے۔ وہ کھڑی بولی میں ہندی شاعری کے زبردست حمایتی تھے۔ انھوں نے ۱۸۸۷ء میں ’کھڑی بولی کا پدیہ‘ (کھڑی بولی کی شاعری) کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی جس میں کھڑی بولی،برج بھاشا اور ہندی اُردو کے رشتوں پر بڑی اہم باتیں کہی گئی تھیں۔ وہ برج بھاشا اور کھڑی بولی ہندی کو دو بالکل الگ الگ زبانیں مانتے تھے لیکن کھڑی بولی اور اُردو کو ایک زبان تصور کرتے تھے۔ وہ اُردو شاعری کو کھڑی بولی کی شاعری کہتے تھے۔ وہ ہندی اور اُردو میں اگر چہ صرف رسمِ خط کا فرق سمجھتے تھے لیکن اُردو کو ہندی کے مقابلے میں قدیم زبان قرار دیتے تھے اور اُردو سے ہی ہندی کا ارتقا بتاتے تھے۔ ایودھیا پرساد کھتری کے قول کے مطابق اُردو میں سے عربی فارسی الفاظ کو نکال کر ہی ’’ موجودہ مصنوعی ہندی‘‘ بنائی گئی :
’’اُردو میں سے عربی فارسی کو جان بوجھ کر چھانٹنے تتھا ان کے استھان پر سنسکرت کے کلشٹ شبد رکھنے سے ورتمان کرترم ہندی کا وکاس ہوا ہے‘‘۔ (بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘، ص ۱۶۷)
(’اُردو میں سے عربی فارسی کو جان بوجھ کر خارج کرنے اور ان کی جگہ پر سنسکرت کے ٹھیٹھ الفاظ رکھنے سے موجودہ مصنوعی ہندی کا ارتقا عمل میں آیا ہے۔ )”
گیان چند جین نے اپنی کتاب میں ایودھیا پرساد کھتری کا ذکر نہایت تفصیل سے کیا ہے اور ان کے بیان کردہ کھڑی بولی کے پانچوں اسالیب کا بھی ذکر کیا ہے لیکن کھتری کے اس لسانی تصور کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ یہ علمی دیانت داری کے منافی ہے۔ جین صاحب نے کھتری کے کھڑی بولی کے پانچ اسالیب کو ہندی کے پانچ اسالیب قرار دیے ہیں۔ یہ بھی علمی دیانت داری کے خلاف ہے۔ (دیکھیے’ ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘، ص ۱۸۱)۔
ایک اور ہندی مصنف چندر دھر شرما گلیری کا بھی ہندی کی پیدائش کے بارے میں کم و بیش وہی خیال ہے جو کھتری جی نے پیش کیا ہے۔ گلیری جی اپنی کتاب ’پرانی ہندی‘ میں لکھتے ہیں:
’’ ہندوؤں کی رچی ہوئی پرانی کوِتا جو ملتی ہے وہ برج بھاشا یا پوروی، ویس واڑی، اودھی، راجستھانی اور گجراتی آدی ہی میں ملتی ہے، ارتھا تو ’پڑی بولی‘ میں پائی جاتی ہے۔ ’کھڑی بولی‘ یا پکی بولی یا ریختہ یا ورتمان ہندی کے ورتمان گدیہ پدیہ کو دیکھ کر یہ جان پڑتا ہے کہ اُردو رچنا میں فارسی عربی یا تدبَھووں کو نکال کر سنسکرت یا ہندی تتسم اور تد بھو رکھنے سے ہندی بنالی گئی‘‘۔ (ص ۱۰۷)
("ہندوؤں کی تخلیق کردہ جو پرانی شاعری ملتی ہے وہ برج بھاشا یا پوربی، ویس واڑی، اودھی، راجستھانی اور گجراتی وغیرہ میں ہی ملتی ہے۔ یعنی ’پڑی بولی‘ میں پائی جاتی ہے۔ ’کھڑی بولی‘ یا پکّی بولی یا ریختہ یا موجودہ ہندی کی موجودہ نثر و نظم کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُردو میں مستعمل فارسی عربی کے خالص یا تحریف شدہ الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی کے تتسم اور تدبھو الفاظ رکھنے سے ہندی بنالی گئی۔ ‘)
ہِندی کے مشہور شاعر جگن ناتھ داس ’رتناکر‘بھی کھڑی بولی ہندی کو اُردو کا بدلا ہوا روپ مانتے ہیں جس میں پہلے ’’بھا کھا‘‘ کے لفظ داخل ہوئے پھر دھیرے دھیرے سنسکرت کے الفاظ شامل ہونے لگے۔ انھوں نے کہا:
’’ جو بھاشا آج کل کھڑی بولی کے نام سے کہی جاتی ہے وہ ہماری سمجھ میں اُردو کا ہی ایک روپانتر ہے۔ آرمبھ میں تو وہ اُردو بھاشا میں ’بھاکھا‘ کے پر چلت شبد رکھ کر بنائی گئی اور پھر شنے شنے اس میں سنسکرت کے شبد ملائے جانے لگے‘‘۔ (بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘، ص ۲۱)
(’جو زبان آج کل کھڑی بولی کے نام سے جانی جاتی ہے وہ ہماری سمجھ میں اُردو کا ہی ایک بدلا ہوا روپ ہے۔ شروع میں تو وہ اُردو زبان میں ’بھاکھا‘ کے مروج الفاظ کو داخل کر کے بنائی گئی اور پھر دھیرے دھیرے اس میں سنسکرت کے الفاظ شامل کیے جانے لگے۔ ) (۲)
’’کھڑی بولی ‘‘سے یہاں کھڑی بولی ہندی اور ’’بھاکھا‘‘ سے برج بھاشا مراد ہے۔ قدیم زمانے سے ہی ہندوؤں کو برج بھاشا سے ایک خاص مذہبی لگاؤ رہا ہے، کیونکہ یہ اس علاقے کی بولی ہے جہاں کرشن بھکتی پروان چڑھی۔ ادبی حیثیت سے بھی یہ ایک اہم ترین بولی رہی ہے۔ اور کسی زمانے میں شمالی ہندوستان میں مغرب تا مشرق اسی کا طوطی بولتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ہندو مصنفین برج بھاشا کو زمانۂ حال کی ہندی کی اصل سمجھتے تھے اور اسے برج بھاشا سے تشکیل پذیر مانتے تھے۔ یہ بات اگر چہ صحیح نہیں ہے، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انیسویں صدی میں جب کھڑی بولی ہندی کا آغاز ہوا تو اس کے ابتدائی ادبی نمونوں پر برج بھاشا کی گہری چھاپ پڑی۔ چنانچہ فورٹ ولیم کالج کے ’’بھاکھا منشی‘‘ للو جی لال کی’ پریم ساگر‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہندی کے کئی عالموں نے ’ پریم ساگر‘ پر برج بھاشا کے اثرات کی نشاندہی کی ہے۔ جگن ناتھ داس ’رتناکر‘ کے ذہن میں بھی یہ بات تھی۔ چنانچہ انھوں نے اسی خیال کے تحت نہایت سوچ سمجھ کر یہ بات کہی کہ اُردو جو کہ پہلے سے موجود تھی اسی میں برج بھاشا کے الفاظ اور بعد میں سنسکرت الفاظ کو داخل کر کے ہندی بنا لی گئی۔
گیان چند جین کی یہ عجیب و غریب منطق ہے کہ وہ اہلِ اُردو پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ (اہلِ اُردو) ہندی کے ماضی پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ’’ نئی کھڑی بولی ہندی ۱۸۰۰ ء میں فورٹ ولیم کالج میں ڈھالی گئی۔ اس سے پہلے ہندی تھی ہی نہیں۔ ۔ ۔ اس کی پہلی کتاب للو لال کی ’پریم ساگر‘ ہے جس میں اُردو نثر میں سے عربی فارسی الفاظ کو نکال کر سنسکرت الفاظ شامل کر دیے‘‘ (ص ۱۲۶)، لیکن اس قسم کا اعتراض کرنے والوں میں جین صاحب سب سے پہلا نام جارج اے۔ گریرسن کا پیش کرتے ہیں جس نے ۱۸۹۶ء میں جب للو جی لال کی نثری تصنیف ’لال چندرِکا‘ شائع ہوئی تو اس کے دیباچے میں یہ عبارت درج کی:
’’ اس طرح کی زبان کا اس سے پہلے بھارت میں کہیں پتا نہ تھا اس لیے للو لال نے پریم ساگر لکھا تب وہ بالکل نئی بھاشا گھڑ رہے تھے ‘‘۔ (بحوالہ گیان چند جین، ’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘، ص ۱۲۶)
اس کے بعد اعتراض کرنے والوں میں جین صاحب آر۔ ڈبلیو۔ فریزر کا نام پیش کرتے ہیں جس نے ’لٹریری ہسٹری آف انڈیا‘ (۱۹۱۵ء) میں کہا کہ:
’’ جدید ہندی بھاشا کو دو پنڈتوں للو لال اور سدل مشر کی اختراع سمجھنا چاہیے‘‘۔ (بحوالہ ایضاً)
گیان چند جین نے ہندی کے ماضی پر اس قسم کے’’ اعتراض‘‘ کو جب اہلِ اُردو سے منسوب کیا تھا تو انھیں مثالیں بھی اہلِ اُردو سے ہی دینا چاہیے تھیں، لیکن ایسی مثالیں انھیں اہلِ اُردو کے یہاں کہاں ملتیں؟ میرے علم و یقین کی حد تک کسی اہلِ اُردو نے انیسویں صدی میں ہندی کے ماضی پر اس قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ ایسے اعتراض کی سب سے پہلی مثال خود ہندی کے ہی عالم و دانشور ایودھیا پرساد کھتری کے یہاں ملتی ہے۔ اس کے نو سال بعد ۱۸۹۶ء میں گریرسن اس قسم کا اعتراض کرتے ہیں، پھر ۱۹۱۵ء میں فریزر بھی ایسا ہی اعتراض کرتے ہیں اور ۱۹۲۰ء میں فرینک ای۔ کی اپنی کتاب A History of Hindi Literature (ہندی ادب کی تاریخ) میں یہی بات اور زور دے کر کہتے ہیں۔ یہ در اصل ’’اعتراض‘‘ نہیں بلکہ حقیقت ہے جسے ایودھیا پرساد کھتری کے بعد کئی انگریز اور ہندو/ ہندی مصنفین نے بیان کیا ہے۔ اہلِ اُردو نے تو انھیں مصنفین کی کہی باتوں کو بعد میں محض دہرا دیا ہے لیکن ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ انھیں ہندی کے ماضی پر اعتراض ہے۔ اس ضمن میں جین صاحب نے جن اہلِ اُردو کے نام پیش کیے ہیں ان میں فرمان فتح پوری ہیں جن کی کتاب ’ہندی اُردو تنازعہ‘ ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی اور شمس الرحمن فاروقی ہیں جن کی کتاب ’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی۔ گویا سو سال پہلے کہی گئی ایک بات کو ( جسے پہلے ہندو/ ہندی اور انگریز مصنفین نے ہی کہا) اگر اہلِ اُردو نے محض دہرا دیا تو انھیں موردِ الزام قرار دیا گیا کہ وہ ہندی کے ماضی پر معترض ہیں۔ (دیکھیے ’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘، آٹھواں باب)۔
اب ذرا گریرسن کے پاس پھر واپس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پچیس تیس سال بعد ان کے اس نظریے میں کوئی تبدیلی رو نما ہوئی یا نہیں۔ نئی زبان ہندی کے تشکیل پذیر ہونے سے متعلق گریرسن نے اپنا پہلا بیان ۱۸۹۶ء میں دیا تھا جب للو جی لال کی کتاب ’لال چندرِکا‘ پر دیباچہ لکھا تھا۔ لیکن ۱۹۲۷ء میں جب انھوں نے Linguistic Survey of India(لسانی جائزۂ ہند)کی ترتیب کا کام انجام دیا تب بھی وہ اپنے اسی موقف پر قائم رہے بلکہ مزید یہ کہا کہ للو جی لال کی ہندی، اُردو کی بنیاد پر ڈھالی گئی ہے اور فارسی کے الفاظ کی جگہ ہند آریائی نژاد الفاظ رکھ دیے گئے ہیں۔ گریر سن کا یہ بیان جو’ لسانیاتی جائزۂ ہند‘ کی نویں جلد کے حصۂ اول میں شامل ہے ملاحظہ ہو:
"This Hindi, therefore, or, as it is sometimes called, ‘High Hindi’ is the prose literary language of those Hindus of Upper India who do not employ Urdu. It is of modern origin, having been introduced under English influence at the commencement of the last century. Up till then, when a Hindu wrote prose and did not use Urdu, he wrote in his own dialect, Awadhi, Bundeli, Braj Bhakha, or what not. Lallu Lal, under the inspiration of Dr. Gilchrist, changed all this by writing the well-known ‘Prem Sagar’, a work which was, so far as the prose portions went practically written in Urdu, with Indo-Aryan words substituted wherever a writer in that form of speech would use Persian ones.”(P.46).
(لہٰذا یہ ہندی، یا جسے کبھی کبھی ’اعلیٰ ہندی‘ بھی کہتے ہیں، بالائی ہندوستان کے ان ہندوؤں کی نثری ادبی زبان ہے جو اُردو کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ زمانۂ حال کی پیداوار ہے اور اس کا رواج گذشتہ صدی کے آغاز سے انگریزوں کے زیرِ اثر شروع ہوا۔ اس وقت تک جب بھی کوئی ہندو نثر لکھتا تھا اور وہ اُردو کا استعمال نہیں کرتا تھا، تو اپنی بولی، اودھی، بندیلی، برج بھاکھا وغیرہ میں لکھتا تھا۔ للو لال نے ڈاکٹر گلکرسٹ کے جوش دلانے پر معروف کتاب ’ پریم ساگر‘ لکھ کر سب کچھ بدل ڈالا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، کہ جہاں تک کہ نثری اجزاء کا تعلق ہے یہ عملاً اُردو میں لکھی گئی ہے اور اس زبان کے لیے مصنف جہاں فارسی الفاظ استعمال کرتا، وہاں اس نے ہند آریائی الفاظ رکھ دیے۔ )
ایک اور انگریز مصنف فرینک ای۔ کی نے بھی اپنی کتاب ’ہندی ادب کی تاریخ‘ میں اس حقیقتِ حال کو یوں بیان کیا ہے:
"Modern ‘High Hindi’ was developed from Urdu by the exclusion of Persian and Arabic words and the substitution of those of pure Indian origin, Sanskrit or Hindi”.(P.46(
(جدید ’اعلیٰ ہندی‘ اُردو میں سے فارسی اور عربی الفاظ کو خارج کر کے اور ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی کے خالص ہندوستانی نژاد الفاظ رکھ کر بنائی گئی۔ )
اسی کتاب میں وہ مزید لکھتا ہے:
"Lallu Ji Lal was a Brahman whose family had come originally form Gujrat, but had long been settled in North India. Under the direction of Dr. John Gilchrist he and Sadal Mishra were the creators of modern ‘High Hindi’. Many dialects of Hindi were, as we have seen, spoken in North India, but the vehicle of polite speech amongst those who did not know Persian was Urdu. Urdu, however, had a vocabulary borrowed largely from the Persian and Arabic languages, which were specially connected with Muhammadanism. A literary language for Hindi-speaking people which could commend itself more to Hindus was very desirable, and the result was produced by taking Urdu and expelling form it words of Persian or Arabic origin, and substituting for them words of Sanskrit or Hindi origin.”(P.83)
(للو جی لال ایک برہمن تھے جن کے خاندان کا تعلق اصلاً گجرات سے تھا، لیکن جو عرصۂ دراز سے شمالی ہندوستان میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی ہدایت پر انھوں نے سدل مشر کے ساتھ مل کر جدید ’اعلیٰ ہندی‘ کی تخلیق کی۔ شمالی ہندوستان میں، جیسا کہ ہم نے دیکھا، بہت سی بولیاں بولی جاتی تھیں لیکن جو لوگ فارسی نہیں جانتے تھے وہ شائستہ ذریعۂ اظہار کے طور پر اُردو کا استعمال کرتے تھے۔ اُردو کا ذخیرۂ الفاظ بڑی حد تک فارسی اور عربی زبانوں سے مستعار تھا جن کا خصوصی تعلق اسلام سے ہے۔ ہندی بولنے والوں کے لیے ایک ایسی زبان کی شدید ضرورت تھی جو ہندوؤں کی زیادہ مطلب برآری کر سکے۔ اس کا نتیجہ یوں سامنے آیا کہ اُردو کو لے کر اس میں سے فارسی یا عربی الاصل الفاظ نکال دیے گئے، اور ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی الاصل الفاظ رکھ دیے گئے۔ ) (۳)
ہندوؤں میں اس نئی زبان کے استعمال کے بارے میں کی لکھتا ہے:
"The Hindi of Lallu Ji Lal was really a new literary dialect. This ‘High Hindi’, or ‘Standard Hindi’ as it is also called, has had however a great success. It has been adopted as the literary speech of millions in North India. Poetical works still continue to be written in Braj Bhasha, or Awadhi, or other old dialcts, as High Hindi has not been much used for poetry. But whereas before this time prose works in Hindi were very rare, from now onwards an extensive prose literature began to be produced.” (Pp.83-84)
( للو جی لال کی ہندی در حقیقت ایک نئی ادبی زبان تھی۔ یہ ’اعلیٰ ہندی‘، یا جسے ’معیاری ہندی‘ بھی کہتے ہیں، کافی مقبول ہوئی۔ ادبی زبان کی حیثیت سے اسے شمالی ہندوستان کے لاکھوں لوگوں نے اپنایا۔ شعری تخلیقات اب بھی برج بھاشا، یا اودھی، یا دیگر قدیم بولیوں میں لکھی جاتی رہیں، کیوں کہ اعلیٰ ہندی کو شاعری کے لیے زیادہ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن چوں کہ اس سے پہلے ہندی میں نثری تصانیف کا بڑی حد تک فقدان تھا، اس لیے اس کے بعد سے نثری ادب کی وسیع پیمانے پر تخلیق عمل میں آئی۔ )
فورٹ ولیم کالج میں ایک نئی زبان ’ہندی‘ کے گھڑے جانے سے متعلق ایک اور ہندو مصنف اور مورخ ڈاکٹر تارا چند کا یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا جو انھوں نے فروری ۱۹۳۹ء میں ’’ ہندوستانی کیا ہے؟‘‘ کے زیرِ عنوان اپنی ریڈیو تقریر میں دیا تھا:
’’ ہندوؤں کے لیے للو لال جی، سدل مشر، بینی نرائن وغیرہ کو [اربابِ فورٹ ولیم کالج سے] حکم ملا کہ نثر (گدھ) کی کتابیں تیار کریں۔ انھیں اور بھی زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ادب یا ساہتیہ کی بھاشا تو برج تھی، لیکن اس میں گدھ یا نثر نام ہی کے لیے تھا۔ کیا کرتے، انھوں نے راستہ یہ نکالا کہ میر امّن، افسوس وغیرہ کی زبانوں کو اپنایا۔ پر اس میں سے فارسی، عربی کے الفاظ چھانٹ دیے اور سنسکرت اور ہندی[برج اور دیگر بولیوں] کے لفظ رکھ دیے۔ ۔ ۔ اس طرح دس برس سے بھی کم مدت میں دو نئی زبانیں اپنے اصلی گہوارے سے سیکڑوں کو س کی دوری پر ودیسیوں کے اشارے سے بن سنور، رنگ منچ پر آ کھڑی ہوئیں۔ دونوں کی صورت مورت ایک تھی، کیوں کہ دونوں ایک ہی ماں کی بیٹیاں تھیں۔ پھر دونوں کے سنگار، کپڑے اور زیور میں کچھ فرق نہ تھا۔ پر دونوں کے مکھڑے ایک دوسرے سے پھرے ہوئے تھے۔ اس ذرا سی بے رخی نے دیس کو دبدھا میں ڈال دیا۔ اور اس دن سے آج تک ہم الگ الگ دو راہوں پر بھٹک رہے ہیں‘‘۔ (بحوالہ شمس الرحمن فاروقی، ’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘، ص ۴۹ و ۵۰)
اس ضمن میں ہندی ادبیات کے جید عالم رام چندر شکل نے اپنی کتاب ’ہندی ساہتیہ کا اتہاس ‘ (ص ۳۶۵) میں جو بیان درج کیا ہے وہ بھی نہایت اہم ہے جس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ للو جی لال نے ’پریم ساگر‘ لکھتے وقت عربی فارسی الفاظ سے اجتناب برتا تھا:
’’اگر للو لال اُردو نہ جانتے ہوتے تو پریم ساگر سے عربی فارسی الفاظ دور رکھتے میں اتنے کامیاب نہ ہوتے جتنے ہوئے۔ بہت سے عربی فارسی الفاظ بول چال کی زبان میں اتنے گھل مل گئے تھے کہ انھیں صرف سنسکرت ہندی جاننے والے کے لیے پہچاننا بھی مشکل تھا۔ ‘‘ (بحوالہ گیا ن چند جین، ’لسانی مطالعے‘ [پہلا ایڈیشن]، ص ۱۸۵)
فورٹ ولیم کالج میں اُردو میں سے عربی فارسی کے الفاظ کو نکال کر ایک نئی زبان ’ہندی‘ یا ’کھڑی بولی ہندی‘ کے تشکیل پذیر ہونے سے متعلق یہ تمام بیانات ہندو/ ہندی اور انگریز مصنفین کے ہیں، لیکن جین صاحب اس کے لیے قصور وار ٹھہراتے ہیں اہلِ اُردو کو!
جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
(فیض احمد فیضؔ)
…
پانچواں باب : اُردو کا ہندی پر تقدمِ زمانی
گیان چند جین نے اپنی کتاب’ ایک بھاشا….‘ کی ’’ تمہید‘‘ میں ہی اُردو اور ہندی کے بارے میں اپنا موقف بیان کر دیا ہے اور صاف لفظوں میں ہندی کی طرف داری کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ’’ اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو‘‘ تسلیم نہیں کرتے:
’’ یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہم اُردو ادب کے خمیر سے بنائے گئے ہیں تو ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو قرار دیں‘‘۔ ( ص ۱۴)
جین صاحب اُردو کے عالم اور سکالر ہونے کے با وجود اور اُردو ادب کے ’’خمیر‘‘ سے بنے ہونے کے با وصف اگر اس بات کو نہیں مانتے تو نہ سہی لیکن جو عالم و دانشور ہندی کے خمیر سے بنائے گئے ہیں وہ اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ اُردو کو ہندی پر تقدمِ زمانی حاصل ہے۔ گیان چند جین نے جو ہندی کے بھی ’ گیانی‘ ہیں، ہندی ادبیات و لسانیات کے ممتاز عالم دھیریندر ورما کی کتاب ’ہندی بھاشا کا اتہاس‘ (ہندی زبان کی تاریخ) ضرور پڑھی ہو گی۔ اس کتاب کے صفحہ ۶۰ پر ذیل کی عبارت درج ہے:
’’ اَیتہاسِک دِر شٹی سے ساہتیک کھڑی بولی ہندی کی اپیکشا کھڑی بولی اُردو کا بیوہار پہلے ہونے لگا تھا‘‘۔
(تاریخی نقطۂ نظر سے ادبی کھڑی بولی ہندی کے مقابلے میں کھڑی بولی اُردو کا استعمال پہلے ہونے لگا تھا۔ )
کیا جین صاحب کو اُردو کو ہندی کا پیش رو تسلیم کرنے میں اب بھی کوئی تامل ہے؟ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دھیریندر ورما اُردو کو ہندی کی شیلی (اسلوب) یا ہندی کی تحتی زبان نہیں مانتے بلکہ وہ اُردو کے آزادانہ وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ کھڑی بولی سے زمانۂ حال کی ادبی ہندی اور اُردو کی پیدائش ہوئی ہے‘‘ (متذکرہ کتاب، ص ۵۶)۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’ قواعد کی شکلوں کے لحاظ سے ان دونوں ادبی زبانوں میں خاص فرق نہیں ہے، در حقیقت دونوں کی جڑ اور بنیاد ایک ہی ہے لیکن ادبی ماحول، ذخیرۂ الفاظ اور رسمِ خط میں دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے‘‘ (ایضاً، ص ۶۰)۔ دھیریندر ورما دہلی میں اُردو کا وجود اس وقت سے بتاتے ہیں جب مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا مستقر بنایا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بھارت ورش میں آنے پر بہت دنوں تک مسلمانوں کا کیندر دلّی رہا، اَتہہ فارسی، ترکی اور عربی بولنے والے مسلمانوں نے جنتا سے بات چیت اور بیوہار کرنے کے لیے دھیرے دھیرے دلّی کے اڑوس پڑوس کی بولی سیکھی۔ اس بولی میں اپنے وِدیشی شبد سموہ کو سوَتنتر تا پوروک ملا لینا ان کے لیے سوَ بھا وِک تھا۔ اِس پر کار کی بولی کا بیو ہار سب سے پرتھم۔ ۔ ۔ قلعے کے شاہی فوجی بازار میں ہوتا تھا۔ اَتہہ اسی سے، دلّی کے پڑوس کی بولی کے اس وِدیشی شبدوں سے مِشرت روپ کا نام ’اُردو‘ پڑا۔ ترکی بھاشا میں اُردو شبد کا ارتھ بازار ہے‘‘۔ ( ایضاً، ص ۶۰)
(ہندوستان میں داخل ہونے پر بہت دنوں تک مسلمانوں کا مرکز دہلی رہا، لہٰذا فارسی، ترکی اور عربی بولنے والے مسلمانوں نے عوام سے بات چیت اور رابطے کے لیے دھیرے دھیرے دہلی کے آس پاس کی بولی سیکھی۔ اس بولی میں اپنے بدیسی ذخیرۂ الفاظ کو آزادانہ طور پر شامل کر لینا ان کے لیے فطری تھا۔ اس طرح کی بولی کا استعمال سب سے پہلے۔ ۔ ۔ قلعے کے شاہی فوجی بازار میں ہوتا تھا۔ لہٰذا اسی [وجہ] سے، دہلی کے پڑوس کی بولی کے اس بدیسی الفاظ سے آمیختہ روپ کا نام ’اُردو‘ پڑا۔ ترکی زبان میں لفظِ اُردو کے معنی بازار ہے۔ )
دہلی میں مسلمان بارہویں صدی کے اواخر (۱۱۹۳ء) میں داخل ہوئے جہاں ان کا سابقہ نواحِ دہلی کی اس بولی سے پڑا جو ’کھڑی بولی‘ تھی(۱)۔ اسی کھڑی بولی میں جب عربی فارسی (اور ترکی )الفاظ کی آمیزش ہوئی تو اس کا نام ’اُردو‘ پڑا۔ دھیریندر ورما نے اُردو کی تشکیل کے ان مراحل میں ’کھڑی بولی ہندی‘ کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے داخلۂ دہلی کے وقت اور اس کے بہت دنوں بعد تک شمالی ہندوستان میں کھڑی بولی ہندی کا کہیں وجود نہ تھا۔ لیکن جین صاحب ہندی پر اُردو کے تقدمِ زمانی کو ختم کر نے کے لیے کھڑی بولی ہندی کا آغاز ۱۱۰۰سنہِ عیسوی سے بتاتے ہیں جو محض ایک’ مفروضہ‘ ہے۔
دھیریندر ورما کھڑی بولی کو اُردو کی بنیاد تسلیم کرتے ہیں اور کھڑی بولی اُردو کو کھڑی بولی ہندی سے قدیم تر مانتے ہیں۔ وہ پرانی کھڑی بولی کو ’’ ہندوی‘‘ (جو اُردو کا ایک قدیم نام ہے) کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور چودہویں صدی میں دکن میں فروغ پانے والی زبان کو بھی ’’ہندوی‘‘ کہتے ہیں۔ وہ ہندوی کو صاف لفظوں میں ’’ دکنی اُردو‘‘ کا مترادف تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
’’ دکشن بھارت میں وِکست ہندوی اتھوا دکنی اُردو ساہتیہ کا پرارمبھ ۱۳۲۶ء میں محمد تغلق کے دکشن آکر من کے بعد ہوا۔ ہندوی کے پرارمبھک کوِی مسلمان صوفی فقیر تھے، جنھوں نے اپنے دھارمک وچاروں کے پرچار کی درشٹی سے یے رچنائیں لکھی تھیں۔ یہ ساہتیہ ابھی دیو ناگری لپی میں پرکاشِت نہیں ہوا ہے یدیپی اس کی بھاشا پرانی کھڑی بولی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۸۰)
( جنوبی ہندوستان میں فروغ پانے والے ہندوی یا دکنی اُردو ادب کا آغاز ۱۳۲۶ء میں محمد تغلق کے جنوبی حملے کے بعد ہوا۔ ہندوی کے ابتدائی شاعر مسلمان صوفی فقیر تھے جنھوں نے اپنے مذہبی خیالات کی تبلیغ کے مقصد سے یہ کتابیں تصنیف کی تھیں۔ )
یہ بات نہایت قابلِ ذکر ہے کہ دھیریندر ورما جو ہندی کے ایک ممتاز عالم ہیں ’ دکنی اُردو‘ کو نہ تو’دکنی ہندی‘ ( یا ’دکھنی ہندی‘) کہتے ہیں اور نہ ہی اُردو کو ہندی کی ’شیلی‘ (اسلوب) قرار دیتے ہیں۔ وہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کو برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں ادبی کھڑی بولی کا دو زبانوں میں فروغ ہوا ہے، ادبی کھڑی بولی اُردو اور ادبی کھڑی بولی ہندی جن میں سے اول الذکر کو تقدمِ زمانی حاصل ہے اور آخر الذکر بعد کا ارتقا ہے۔ اصل حقیقت یہی ہے جو ہندی کے عالم و دانشور دھیریندر ورما نے بیان کی ہے لیکن اُردو سے وابستہ عالم گیان چند جین اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کیا بوالعجبی ہے!
دھیریندر ورما کے علاوہ ہندی کے دوسرے عالموں نے بھی ہندی پر اُردو کے زمانی تقدم کو تسلیم کیا ہے اور صاف لفظوں میں کہا ہے کہ انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی ہندی میں ادبی روایت کا فقدان تھا۔ شتی کنٹھ مشر جو بنارس ہندو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اپنی عالمانہ تصنیف ’ کھڑی بولی کا آندولن‘ (کھڑی بولی کی تحریک) میں لکھتے ہیں:
’’یہ سب ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتر بھارت میں ۱۹ ویں شتابدی کے پورو کھڑی بولی میں گدیہ ساہتیہ کی کوئی دھارا واہک پرمپرا تھی‘‘۔ (ص ۶۲)
(یہ سب ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی [ہندی] میں نثری ادب کی کوئی سلسلہ وار روایت موجود تھی۔ )
یہاں ’’کھڑی بولی‘‘ سے مراد کھڑی بولی ہندی ہے۔ جب کہ شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی اُردو میں کم از کم ۱۵ نثری کتابیں تصنیف/ترجمہ کی جا چکی تھیں جن کے نام یہ ہیں:
۱’۔ کربل کتھا‘(۳۳/۱۷۳۲ء) از فضلِ علی فضلی، مرتبہ مالک رام اور مختار الدین احمد۔
۲’۔ قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (۵۹۔ ۱۷۳۲ء) از عیسوی خاں بہادر، مرتبہ مسعود حسین خاں۔
۳۔ شرح’ رس چندرِکا‘ (۱۷۵۲ء) از عیسوی خاں بہادر۔
۴’۔ نو طرزِ مرصع‘ (۷۵۔ ۱۷۷۴ء) از میر محمد حسین عطا خاں تحسین، مرتبہ نور الحسن ہاشمی۔
۵’۔ تفسیرِ مرادیہ‘( ۷۲/۱۷۷۱ء) از شاہ مراد اللہ انصاری۔
۶’۔ قصہ احوالِ روہیلہ‘ (۸۱۔ ۱۷۷۴ء) از رستم علی بجنوری۔
۷’۔ ترجمۂ قرآن‘ (۸۸/۱۷۸۷ء) از شاہ رفیع الدین۔
۸’۔ ترجمۂ قرآن‘ (۹۱/۱۷۹۰ء) از شاہ عبدالقادر۔
۹’۔ تفسیرِ رفیعی‘ [تفسیر سورۂ بقر] (۹۱/۱۷۹۰ء) از شاہ رفیع الدین۔
۱۰’۔ تفسیر القرآن‘ (۹۲/۱۷۹۱ء) از شاہ حقانی۔
۱۱’۔ عجائب القصص‘ (۹۳/۱۷۹۲ء) از شاہ عالم ثانی، مرتبہ راحت افزا بخاری۔
۱۲’۔ قصۂ ملک محمد و گیتی افروز‘ (۹۴/۱۷۹۳ء) از مہر چند کھتری مہر۔
۱۳’۔ جذبِ عشق‘ (۹۸/۱۷۹۷ء) از شاہ حسین حقیقت۔
۱۴’۔ نو آئینِ ہندی‘( ۹۹ / ۱۷۹۸ء) از مہر چند کھتری مہر۔
۱۵’۔ سلکِ گہر‘ (۱۸۰۰/۱۷۹۹ء) از انشاء اللہ خاں انشا، مرتبہ امتیاز علی خاں عرشی۔
یہ سب شمالی ہندوستان میں دستیاب انیسویں صدی سے پہلے کی اُردو کی نثری کتابیں ہیں۔ ان کے معرضِ وجود میں آنے سے بہت پہلے اُردو میں شاعری کا سلسلہ امیر خسرو (۱۲۵۳ تا ۱۳۲۵ء) کے ہاتھوں شروع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد چودہویں صدی سے دکن میں اُردو کے سلسلہ وار شعری و نثری نمونے ملتے ہیں اور اٹھارہویں صدی کے اختتام تک شمال اور جنوب دونوں علاقوں میں اُردو ادب کا وقیع سرمایہ اکٹھا ہو جاتا ہے، جب کہ اس دور کے کھڑی بولی ہندی کے ادبی نمونے بالکل دستیاب نہیں اور اگر بعض نمونے ملتے بھی ہیں تو ان میں یا تو برج بھاشا کے نمونے شامل کر لیے جاتے ہیں یا وہ غیر مصدقہ ہوتے ہیں(۲)۔ حد تو یہ ہے کہ اُردو کے مصنفین کو بھی ہندی مصنفین کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ جین صاحب نے بڑی سادہ لوحی کے ساتھ شمالی ہند کی اُردو کی مشہور اور مقبول ترین نثری داستان ’ قصۂ مہر افروز و دلبر‘ کے مصنف عیسوی خاں بہادر کو ہندی کا مصنف قرار دیا ہے۔ جب ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ اُردو کی تصنیف ہے تو عیسوی خاں بہادر ’’ہندی کے مصنف‘‘ (’ایک بھاشا‘….، ص ۱۴۹) کیسے ہو سکتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جین صاحب نے اپنی کتاب کے ’’ ضمیمہ‘‘ (صفحہ ۳۰۲ تا ۳۰۴) میں ’’۱۸۰۰ء سے پہلے اُردو کی نثری کتابیں‘‘ کے تحت اُردو کتابوں کی جو فہرست دی ہے اس میں ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (عیسوی خاں بہادر) کو شامل نہیں کیا ہے۔ جین صاحب سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اُردو کی اتنی مشہور ادبی تصنیف کو جو شمالی ہند کی طبعزاد اُردو نثر کا بہترین نمونہ ہے اور جس کا سنۂ تصنیف ۱۷۳۲ء ہے، ۱۸۰۰ء سے قبل کی اُردو کی نثری کتابوں کی فہرست سے کیوں خارج کر دیا؟(۳)
جیسا کہ شتی کنٹھ مشر اور دوسرے ہندی عالموں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی ہندی میں ادبی روایت موجود نہیں تھی اور اس زبان میں نثر و نظم دونوں کا فقدان تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸۰۰ء سے قبل کھڑی بولی ہندی کا وجود ہی نہ تھا اور جب زبان ہی نہ ہو تو ادب کیسے معرضِ وجود میں آ سکتا ہے!
ہندی کے ایک ممتاز عالم چندر دھر شرما گلیری کھڑی بولی کا رشتہ پورے طور پر مسلمانوں سے جوڑتے ہیں اور کھڑی بولی کو اُردو مانتے ہیں اور اسی کھڑی بولی یعنی اُردو سے ہندی کا ارتقا بتاتے ہیں۔ اپنی کتاب ’پرانی ہندی‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’ ہندی گدیہ بھاشن للو لا ل کے سمے سے آرمبھ ہوتی ہے۔ ۔ ۔ پرانی ہندی گدیہ اور پدیہ کھڑے روپ میں مسلمانی ہے‘‘۔ (’پرانی ہندی‘، ص ۱۰۸۔ بحوالہ اومکار راہی، ’کھڑی بولی: سوَروپ اور ساہتیک پرمپرا‘، ص ۲۷)
(ہندی نثری زبان کا آغاز للو لال سے ہوتا ہے۔ ۔ ۔ پرانی ہندی نثر اور شاعری کھڑی بولی کی شکل میں مسلمانی ہے‘‘۔ )
ہندی کے ایک اور عالم وشو ناتھ پرساد مشر کو اُردو ہندی کے لسانی مسائل سے خاص دلچسپی رہی ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے ’ریختہ‘ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اس کے بغور مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ریختہ اور کھڑی بولی دونوں ایک ہیں، اور ان میں صرف نام کے فرق کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں ہے۔ پھر وہ یہ کہتے ہیں کہ ریختہ ایک ’’ اسلوبِ خاص‘‘ کا نام ہے۔ اس کا ارتقا کھڑی بولی میں عربی فارسی الفاظ کی آمیزش سے ہوا ہے۔ یہی ریختہ آگے چل کر ’اُردو‘ بن گئی اور اسی کی بنیاد پر ’ہندی‘ بنائی گئی۔ اومکار راہی کے بقول:
’’انھوں نے (وشو ناتھ پرساد مشر نے) اپنے کتھن میں سجیوتا لانے کے لیے اور بھی سشکت بھاشا میں کہا کہ اُردو سے بھید کرنے کے لیے دیشی بھاشا کا نام جس میں عربی فارسی کے شبدوں کا دھڑلّے کے ساتھ پریوگ نہیں ہوتا تھا، ہندی، بھاکھا یا کھڑی بولی [ہندی] پڑ گیا‘‘۔ (دیکھیے اومکار راہی، ’کھڑی بولی‘، ص ۲۴)
(انھوں نے (وشو ناتھ پرساد مشر نے) اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اور بھی پر زور الفاظ میں کہا کہ اُردو سے فرق پیدا کرنے کے لیے دیسی زبان کا نام جس میں عربی فارسی الفاظ کا آزادانہ استعمال نہیں ہوتا تھا، ہندی، بھاکھا یا کھڑی بولی [ہندی] پڑ گیا۔ )
انیسویں صدی کے نصفِ دوم کے ممتاز ہندی ادیب و عالم بھارتیندو ہریش چندر بھی کھڑی بولی سے اُردو ہی مراد لیتے تھے اگر چہ وہ کھڑی بولی کو اگر والوں کی بولی کہتے تھے۔ وہ اپنی کتاب ’اگر والوں کی اُتپتی‘(اگر والوں کی پیدائش) کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’اِن کا ( اگر والوں کا) مکھیہ دیش پشچموتر پرانت ہے اور ان کی بولی، استری اور پُرش سب کی کھڑی بولی ارتھات اُردو ہے‘‘۔ (بحوالہ اومکار راہی، متذکرہ کتاب، ص ۲۵)
(اِن کا ( اگر والوں کا) خاص وطن شمال مغربی علاقہ ہے اور اِن کی بولی، عورت اور مرد سب کی کھڑی بولی یعنی اُردو ہے۔)
بھارتیندو کے اس قول سے جین صاحب کی معلومات میں یقیناً اضافہ ہوا ہو گا جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُردو صرف ہندو مرد ہی بولتے ہیں اور ہندو عورتیں اس سے مبرا ہیں، نیز ’’اُردو زبان ہندو گھروں میں بیٹھک کے کمرے سے آگے نہیں بڑھی‘‘(’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘،ص ۲۸)۔ بھارتیندو ہریش چندر کھڑی بولی اور اُردو کو ایک زبان مانتے تھے۔ انیسویں صدی میں بھارتیندو کی طرح دوسرے ہندو بھی کھڑی بولی اور اُردو کو ایک ہی زبان تسلیم کرتے تھے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیندو اور اس دور کے دوسرے بہت سے ہندو عالم اور دانشور کھڑی بولی میں ہندی شاعری کے حق میں نہ تھے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کھڑی بولی میں ہندی شاعری کی گئی تو وہ اُردو ہی ہو جائے گی۔ بھارتیندو خود برج بھاشا میں ہندی شاعری کے زبردست حمایتی تھے۔
ہندی عالموں کے اقوال اور معروضی حقائق کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کھڑی بولی ہندی اس وقت وجود میں آئی جب انیسویں صدی کی آمد آمد تھی۔ ۱۸۰۰ء میں کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا اور اس کے ایک عہدے دار گلکرسٹ کی ہدایت پر وہاں کے ’’بھاکھا منشی‘‘ للوجی لال نے اُردو کو، جو پورے شمالی ہندوستان میں پہلے سے جاری و ساری تھی، بنیاد بنا کر اور اس میں سے عربی فارسی الفاظ کو نکال کر اور ان کی جگہ پر سنسکرت کے الفاظ رکھ کر دیو ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی ایک نئی زبان اختراع کی۔ یہی زبان ’کھڑی بولی ہندی‘ کہلائی۔ للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ ۱۸۰۳ء میں اسی نئی زبان میں لکھی۔ (۴) فورٹ ولیم کالج کے ایک دوسرے منشی سدل مشر نے بھی اسی سال اسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے چندراوتی کی کتھا ’ناسِکیتو پاکھیان‘ کے نام سے لکھی۔ یہ دونوں کتابیں سنسکرت سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ ان میں جو لسانی طریقۂ کار استعمال کیا گیا وہ ایک نئی زبان کی تعمیر کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتیندو ہریش چندر نے بھی اپنی کتاب ’ ہندی بھاشا‘ میں للو جی لال کی کھڑی بولی ہندی کو ’’ نئی بھاشا‘‘ (نئی زبان) کہا ہے جب کہ اُردو اس سے کئی صدیوں پرانی زبان ہے اور اس لحاظ سے اسے ہندی پر زمانی تقدم حاصل ہے۔
اس باب کی ابتدا میں جین صاحب کی کتاب ’ ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘ سے ایک اقتباس پیش کیا گیا تھا جس میں انھوں نے اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اُردو کا ہندی پر زمانی تقدم ثابت کرنے کے لیے میں نے یہاں ہندی ادیبوں اور دانشوروں کے چند اقوال پیش کیے ہیں جن سے یہ بات کھل کر سامنے آ تی ہے کہ اُردو زبان و ادب ہندی سے کہیں زیادہ قدیم ہے اور ہندی بہت بعد کی پیداوار ہے۔ اب جین صاحب کی اسی کتاب سے میں ایک دوسرا اقتباس نقل کرنے جا رہا ہوں جو ان کے فکری اور ذہنی تضاد کو پوری طرح اجاگر کر دے گا۔ جین صاحب اس جھوٹ کو کہ اُردو ادب ہندی کا پیش رو قرار نہیں دیا جا سکتا زیادہ دیر تک نہ چھپا سکے اور بالآخر انھوں نے اپنی متذکرہ کتاب میں اس حقیقت کا اعتراف کر ہی لیا کہ اُردو ادب نے ہندی کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بیرونی مسلمان اپنے ساتھ نہ اُردو لائے تھے نہ کھڑی بولی۔ ۔ ۔ ہندوؤں نے کھڑی بولی کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ مسلمانوں نے اسے پسند کر کے اس میں عربی فارسی الفاظ بڑھانے شروع کیے اور وہی کھڑی بولی کا اُردو ادب کہلایا جس نے ہندی روپ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا‘‘۔ (ص ۱۵۸)
کیا اس قول سے اُردو کا ہندی پر تقدمِ زمانی ثابت نہیں ہوتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اُردو کی ادبی روایات بہت پرانی ہیں اور اس اعتبار سے اُردو کو ہندی پر بلا شبہ فوقیت اور زمانی تقدم حاصل ہے۔
…
چھٹا باب : ہندی امپیریلزم اور اُردو
گیان چند جین نے ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ، دو ادب‘ میں ہندی کو اردو سے قدیم تر زبان ثابت کرنے کے لیے’’ کھڑی بولی ہندی‘‘ کی تاریخ کا آغاز ’’اندازاً ‘‘ ۱۱۰۰ء سے کیا ہے جو صریحاً غلط ہے۔ کھڑی بولی ہندی کی ابتدا جسے ’ناگری ہندی‘ بھی کہتے ہیں اور جو زمانۂ حال کی ’ہندی‘ ہے در حقیقت انیسویں صدی کے آغاز سے ہوتی ہے جب للوجی لال فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) میں بیٹھ کر ’پریم ساگر‘ لکھتے ہیں۔ جین صاحب نے اپنی متذکرہ کتاب میں اس لسانی اور تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کی پوری کوشش کی ہے۔
گیان چند جین کا یہ کہنا کہ ’’کھڑی بولی ہندی….. محض ایک واحد زبان نہیں بلکہ شمالی ہند کی مختلف زبانوں اور بولیوں کا ایک وفاق ہے‘‘ (’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘، ص ۱۵)، ان کی ہند آریائی لسانیات سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ وہ ۱۰۰۰سنۂ عیسوی کے بعد شمالی ہندوستان میں شور سینی اپ بھرنش، ماگدھی اور اردھ ماگدھی اپ بھرنش کے بطون سے پیدا ہونے والی بولیوں (Dialects)کے باریک اختلافات سے قطعی ناواقف ہیں۔ اسی لیے وہ ہریانوی، برج بھاشا، بندیلی، قنوجی، اودھی، میتھلی، بگھیلی، چھتیس گڑھی، بھوجپوری، راجستھانی، وغیرہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ یہ بولیاں کبھی ایک دوسرے سے مماثل نہیں رہیں ورنہ ان کے الگ الگ نام کیوں پڑتے اور یہ اپنی علاقائی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے کیوں پہچانی جاتیں۔ ان تمام بولیوں کو ایک لسانی وفاق میں شامل کرنا (اور وہ بھی کھڑی بولی کے تحت جو ایک نہایت کمزور اور پچھڑی ہوئی بولی تھی) محض لسانی جبر ہے اور ان بولیوں کی لسانی انفرادیت اور شناخت کو ختم کرنا ہے۔ جین صاحب نے یہ اس وجہ سے کیا ہے کہ ہندی کے لسانی دائرے کو علاقائی سطح پر وسیع سے وسیع تر کیا جا سکے اور ہندی کی ایک ’’وسیع برادری ‘‘ تشکیل دی جائے۔ وہ اپنی متذکرہ کتاب میں لکھتے ہیں :
’’ان زبانوں/ بولیوں کے بولنے والے اپنی خوشی اور رضا مندی سے …. خود کو ہندی کی وسیع برادری کا ایک فرد سمجھتے ہیں۔ پھر اردو والے ان کے موقف پر کیوں اعتراض کرتے ہیں‘‘۔ (ص۱۵)
بھلا اردو والے اس ’’موقف‘‘ پر کیوں اعتراض کرنے لگے۔ یہ تو خود ان بولیوں کے بولنے والے ہندی کی اس آمریت پر وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو جین صاحب حکومتِ ہند کے مقتدر ادارے سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز (میسور) سے شائع شدہ کتاب Language Movements in India ( ہندوستان کی لسانی تحریکیں) کو دیکھ لیں، ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ اس کتاب کے ایک مضمون نگار بال گووند مشر نے اپنے مضمون میں ہندی علاقوں میں سر اٹھانے والی لسانی تحریکوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو تمام تر ہندی کی بولیوں سے متعلق تحریکیں ہیں(۱)۔ ان تحریکوں کو چلانے والے اپنی اپنی بولیوں کا لسانی، ادبی اور ثقافتی تشخص چاہتے ہیں اور ان کے فروغ کے امکانات کے متلاشی ہیں۔ بعض بولیوں نے اپنے بہت سے مطالبات سرکاری سطح پر منوا بھی لیے ہیں۔
یہ ہندی امپیریلزم ہی تو ہے کہ شمالی ہندوستان (ہریانہ و راجستھان تا بہار و جھار کھنڈ نیز مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ) کی47 علاقائی بولیوں (Regional Dialects) کو ہندی نے اپنی ’قلم رو‘ میں شامل کر رکھا ہے جس سے ان بولیوں کی انفرادیت ختم ہو گئی ہے اور ہندی بولنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ (۲) Census of India جو حکومتِ ہند کی ایک مشینری ہے مردم شماری میں ان بولیوں کا اندراج ہندی زبان کے تحت کرتی ہے جب کہ ان میں سے متعدد بولیاں اپنی لسانی ساخت اور قواعد و تلفظ نیز ذخیرۂ الفاظ کے اعتبار سے ہندی سے حد درجہ مغائرت رکھتی ہیں۔ بعض بولیاں ادبی اعتبار سے بھی نہایت متمول اور ترقی یافتہ ہیں اور ان کا ادبی سرمایہ نہایت قدیم اور وقیع ہے۔ ان میں سے دو بولیوں میتھلی اور راجستھانی کو ساہتیہ اکادمی نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ میتھلی کو بہار کی بعض یونیورسٹیوں کے نصابِ تعلیم میں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ لیکن ہندی نے ان بولیوں کو اپنے شکنجے میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ یہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ بعض ہندوؤں نے ان میں سے کچھ بولیوں کو ہندی سے الگ کرنے کی مہم اور تحریک چلائی تھی، مثلاً جے کانت مسر اور سبھدرا جھا نے اپنی تحقیق کی رو سے میتھلی کو ہندی سے الگ زبان ’گھو شِت‘ کیا تھا۔ اسی طرح اُدے نارائن تواری نے کافی چھان بین کے بعد بھوجپوری کو ہندی سے الگ زبان قرار دیا تھا۔ راجستھان کے جَے نارائن ویاس نے راجستھانی کو ہندی سے الگ کرنے کی زبردست مہم چلائی تھی۔ جارج گریرسن جیسا زبان شناس اور ہند آریائی لسانیات کا ماہر بھی میتھلی، بھوجپوری اور راجستھانی کو ہندی سے الگ زبانیں تسلیم کرتا تھا۔ سنیتی کمار چٹر جی بھی میتھلی کو ایک باقاعدہ زبان مانتے تھے اور اسے ہندی کی بولی قرار دیے جانے کے سخت خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میتھلی کا اپنا ادب اور اپنی خصوصیات ہیں۔ اودے نارائن سنگھ نے بھی جو سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز (وزارتِ ترقیِ انسانی وسائل، حکومتِ ہند) کے موجودہ ڈائرکٹر ہیں اپنے ایک مضمون "The Maithili Language Movements” (مشمولہ Language Planning مرتبہ ای۔ انّا ملائی) میں میتھلی کی تاریخی و تہذیبی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس کی لسانی تحریکات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ لیکن ان عالموں اور دانشوروں کی تمام کوششیں رائگاں ثابت ہوئیں اور ہندی آمریت اپنی جگہ بدستور قائم رہی۔
اہلِ ہندی کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر ان بولیوں نے سر اٹھایا اور انھیں زبان کا درجہ مل گیا تو ہندی کا دائرۂ اثر و رسوخ سمٹ کر رہ جائے گا اور اس کے بولنے والوں کے اعداد و شمار بھی بڑی حدتک گھٹ کر رہ جائیں گے۔ اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ 1991ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں ہندی بولنے والوں کی کل تعداد 337,272,114 ( تینتیس کروڑ بہتّر لاکھ بہتّر ہزار ایک سو چودہ) تھی جو ہندوستان کی کل آبادی کا 39.85 فی صد ہے۔ اس میں ہندی کی 47 بولیوں اور ’’دیگر ‘‘ بولیوں کے بولنے والوں کے اعداد بھی شامل ہیں۔ اگر ان بولیوں کا اندراج ہندی کے تحت نہ کیا جاتا تو ہندی بولنے والوں کی تعداد گھٹ کر 233,432,285 (تیئیس کروڑ چونتیس لاکھ بتیس ہزار دوسو پچاسی) رہ جاتی، لیکن 103,839,829 (دس کروڑ اڑتیس لاکھ انتالیس ہزار آٹھ سو انتیس ) لوگوں کی لسانی انفرادیت برقرار رہتی جنھوں نے اپنی مادری زبان کی حیثیت سے اِس مردم شماری میں ان بولیوں کا اندراج کرایا تھا۔ یہ لسانی جبر ہی تو ہے کہ بعد میں ان بولیوں کو ہندی کی بولیوں میں شامل کر لیا گیا اور ان کے اعداد و شمار ہندی کے اعداد و شمار میں ضم کر دیے گئے۔ 1991ء کی مردم شماری کے مطابق ہندی بولنے والے ہندوستان کی کل آبادی کا 39.85 فی صد ہیں۔ اسی مردم شماری کی رو سے ہندی کے تحت شمار کی جانے والی 47 بولیوں اور ’’دیگر‘‘ بولیوں کے بولنے والے ہندوستان کی کل آبادی کا تقریباً 12.02فی صد ہیں۔ اگر ہندی کے فی صد میں سے ان بولیوں کے فی صد کو وضع کر لیا جائے تو ہندی بولنے والوں کا فی صد گھٹ کر 27.83 رہ جاتا ہے۔
اگر ہندی کے تحت شمار کی جانی والی بولیوں کو آزادانہ طور پر پھلنے پھولنے کے مواقع ملیں تو ان میں سے متعدد بولیاں، مثلاً اودھی، میتھلی، بھوجپوری، مگہی،برج بھاشا، راجستھانی، میواتی، بگھیلی، چھتیس گڑھی، ہریانوی، گڑھوالی، میواڑی وغیرہ جدید ہند آریائی زبانوں کی ہمسر بن سکتی ہیں جیسا کہ دہلی و نواحِ دہلی (شمال مشرقی دہلی اور مغربی یوپی)کی ایک بولی ’کھڑی بولی‘ کے ساتھ ہوا۔ کھڑی بولی جو ۱۰۰۰ سنۂ عیسوی کے بعد شور سینی اپ بھرنش کی کوکھ سے پیدا ہوئی تھی کافی کمزور اور پچھڑی ہوئی بولی تھی لیکن جیسے ہی نو وارد مسلمانوں نے اسے درخورِ اعتنا سمجھا یہ چمک اٹھی اور اس نے بہت جلد ایک خود مختار اور آزاد و مستقل زبان کا درجہ حاصل کر لیا۔ یہی زبان اپنے ادبی، معیاری اور ترقی یافتہ روپ میں آج ’اردو ‘ کہلاتی ہے۔ ہندی، ہندوی اور ریختہ اسی زبان کے قدیم نام ہیں۔ گیان چند جین کو بھی اس لسانی حقیقت کا اعتراف ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کھڑی بولی ہندی [’’کھڑی بولی ہندی‘‘ نہیں، بلکہ صرف کھڑی بولی]، نسبتاً ایک پچھڑی ہوئی جامد زبان [’’زبان‘‘ نہیں، بولی] تھی۔ بیرونی مسلمانوں کی سرپرستی اور نوک پلک سنوارنے کے بعد یہ اردو کے پیرہنِ دلکش کی شکل میں، ادبی محاورے میں چہچہاتی ہوئی ظاہر ہوئی‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۶)
(نوٹ : قوسین میں دیے ہوئے الفاظ راقم الحروف کے ہیں)۔
تاہم اردو کے بارے میں جین صاحب کی نیت صاف نہیں ہے۔ وہ اپنی کتاب ’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘ میں اردو کے تاریخی و لسانی پہلوؤں کو اہلِ ہندی بالخصوص امرت رائے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے (امرت رائے کو) جس نے بقول ان کے ’’بے خوفی سے اردو کے خلاف لکھا ہے ‘‘، وہ (گیان چند جین)’’صالح مصنف‘‘ کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ (ص۱۴)
اس میں کوئی شک نہیں کہ گیان چند جین نے اپنی اِس کتاب میں درحقیقت ہندی زبان کی تاریخ بیان کی ہے اور ساتھ میں اردو زبان و ادب اور مسلمانوں کو بھی اس میں گھسیٹ لیا ہے جیسے کہ سارا قصور انھیں کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندی علاقے کی بولیوں کی تمام تر لسانی تحریکیں غیر اردو والوں نے چلائیں (یا چلا رہے ہیں) کیوں کہ وہ ’’ہندی کی وسیع برادری‘‘ میں شامل ہونا نہیں چاہتے لیکن اس کا الزام جین صاحب ’’اردو والوں‘‘ کو دے رہے ہیں۔
اردو ہندی کے لسانی معاملات کو جین صاحب نے نہایت جانب داری کے ساتھ پیش کیا ہے اور ہر جگہ ان کا موقف ’’ہندی والوں‘‘ کا ہی رہا ہے۔ اہلِ اردو کے کسی بیان سے انھیں اتفاق نہیں جب کہ وہ خود اردو کے ایک نامور محقق اور ممتاز عالم ہیں اور لسانیات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور ان سے غلط مطلب اخذ کرتے ہیں تاکہ ہندی کو اردو پر فوقیتِ زمانی حاصل ہو جائے۔ جہاں تک کہ ہندی امپیریلزم کا تعلق ہے، جین صاحب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’ہندی والوں نے ہندی امپیریلزم کے بل پر متعدد دوسری زبانوں اور بولیوں کو اپنی قلم رو میں ملا لیا‘‘۔ (ص۴۳)
اُردو بھی جو ایک خود مختار، ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے ہندی امپیریلزم سے نہ بچ سکی۔ اہلِ ہندی نے اردو کی ادبی اور لسانی تاریخ سے مبینہ طور پر چشم پوشی کرتے ہوئے محض اپنی تنگ نظری اور لسانی تعصب کی بنا پر اور ہندی کی برادری کو وسیع تر کرنے کی غرض سے اس زبان کو ہندی کی ایک ’’شیلی‘‘ قرار دے دیا۔ شیلی کا مطلب ہوتا ہے کسی زبان کا محض ایک اسلوب یا اسٹائل۔ کسی آزاد و مستقل اور ترقی یافتہ زبان کو کسی دوسری زبان کی شیلی قرار دینا اس کے وجود کی نفی کرنا ہے، اس کی لسانی انفرادیت کو ختم کر دینا ہے اور اس کے تمام تر ادبی اور لسانی سرمایے پر شب خون مارنا ہے۔ اہلِ ہندی نے اردو کو ہندی کی شیلی قرار دے کر یہی سب کچھ کیا ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہی تو ہے کہ اردو جیسی آزاد، مستقل، معیاری اور ترقی یافتہ زبان کو جو تاریخی اعتبار سے ہندی (کھڑی بولی ہندی) سے کہیں زیادہ قدیم اور ادبی اعتبار سے اِس سے کہیں زیادہ متمول زبان ہے، محض ایک شیلی کہا جائے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُردو ہندی کی ہمسر ہے، اس کی شیلی نہیں۔ اور اگر اِن دونوں زبانوں میں سے کوئی ایک زبان دوسری زبان کی ’شیلی‘ ہو سکتی ہے تو وہ ہندی ہے جو بجا طور پر اُردو کی شیلی قرار دی جا سکتی ہے، کیوں کہ بہت پہلے کھڑی بولی سے اُردو ارتقا پذیر ہوئی پھر اسی کھڑی بولی کے تنے سے بعد میں ہندی معرضِ وجود میں آئی۔ (۳) اس اعتبار سے اُردو کی شیلی ہندی ہوئی، نہ کہ ہندی کی شیلی اُردو(جیسا کہ اہلِ ہندی کی غیر منطقی د لیل ہے)۔
اردو کو ہندی کی شیلی کہنے کی بدعت انیسویں صدی کے نصفِ دوم میں شروع ہوئی جب کھڑی بولی ہندی کے ایک حمایتی ایودھیا پرساد کھتری نے کھڑی بولی ہندی اور اردو میں کوئی فرق نہ مانتے ہوئے اردو کو ہندی کی’’ شیلی‘‘ قرار دے دیا۔ کھتری کہتے تھے کہ اردو اور ہندی میں فرق صرف ’’لِپی‘‘ (رسمِ خط) کا ہے۔ کھتری اہلِ اردو کو یہ مشورہ بھی دیتے تھے کہ وہ فارسی رسمِ خط کو چھوڑ کر دیوناگری رسمِ خط اختیار کر لیں۔ ایودھیا پرساد کھتری کے بعد بیشتر اہلِ ہندی نے اسی طرز پر سوچنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اردو کو ہندی کی شیلی کہنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہندی کے حلقے سے باہر سنیتی کمار چٹر جی جیسے عالم بھی اپنی تنگ نظری اور متعصبانہ ذہنیت کے باعث اردو کو ہندی کی شیلی کہنے میں نہیں جھجکتے۔ (۴)
آئینِ ہند کے آٹھویں شیڈول (Schedule VIII ) میں مندرج ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں کے ساتھ اردو کا بھی اندراج ملتا ہے۔ اس طرح ہندوستان کی دوسری شیڈول زبانوں کی طرح اردو بھی ایک آئینی زبان (Constitutional Language) قرار پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردم شماری کا عملہ اردو کی انفرادیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے اعداد و شمار کا اندراج دوسری شیڈول/ آئینی زبانوں کی طرح علیٰحدہ طور پر کرتا ہے۔ اگر اردو کو آئینی زبان کا درجہ حاصل نہ ہوا ہوتا تو آج مردم شماری کی رپورٹ میں اسے غالباً ’ہندی‘ کے تحت ہی درج کیا جاتا جیسا کہ1991ء کی مردم شماری میں شمالی ہندوستان میں بولی جانے والی47 بولیوں (جن کے بولنے والوں کی تعداد دس کروڑ سے بھی زیادہ ہے) کو درج کیا گیا ہے اور ان کے بولنے والوں کی تعداد کو ہندی بولنے والوں کی تعداد میں ضم کر دیا گیا ہے۔
گیان چند جین جو اردو اور ہندی کو دو مختلف زبانیں نہیں مانتے (پہلے مانتے تھے)(۵)، اس بات پر معترض ہیں کہ ہندوستان کے آئین میں اردو اور ہندی دونوں زبانوں کا اندراج کیوں کیا گیا؟ بقول ان کے یہ ’’سیاسی مصلحت‘‘ ہے۔ جین صاحب اپنے ایک لسانی مضمون ’’اردو، ہندی یا ہندوستانی‘‘ (مطبوعہ ’ہندستانی زبان‘ [بمبئی]، اکتوبر ۱۹۷۳ء) میں لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کے آئین میں اردو ہندی کو دو زبانوں کی حیثیت سے درج کرنا سیاسی مصلحت ہے، لسانی حقیقت نہیں۔ ‘‘
جین صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب ہندوستان کے آئین میں ہندی کا اندراج کر دیا گیا تھا تو پھر اس میں اردو کو درج کرنے کی ضرورت کیا تھی کیوں کہ اردو اور ہندی دونوں ایک ہی زبانیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بول چال کی سطح پر، جو زبان کی نچلی سطح (Grass-root level) ہے، اردو اور ہندی میں نمایاں فرق نہیں پایا جاتا اور یہ دونوں زبانیں اس سطح پر پہنچ کر تقریباً ایک ہو جاتی ہیں کیوں کہ ان دونوں زبانوں کا ارتقا ایک ہی ماخذ سے ہوا ہے، لیکن زبان کی نچلی یا بول چال کی سطح ہی سب کچھ نہیں۔ زبان اپنے اصلی جوہر اعلیٰ سطح پر ہی پہنچ کر دکھاتی ہے جو اس کی ادبی، علمی، تہذیبی اور فنکشنل (Functional) سطح ہے۔ یہ جوہر کسی زبان میں اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب وہ زبان اپنے ارتقا کے کئی مدارج و مراحل طے کرنے کے بعد ایک آزاد، مستقل، معیاری اور ترقی یافتہ زبان بن جاتی ہے۔ اردو ایک آزاد و مستقل زبان ہے۔ یہ ایک معیاری اور ترقی یافتہ زبان بھی ہے۔ اس میں یہ خوبی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے کہ یہ تمام عصری تقاضوں سے عہدہ برا ہو سکے۔ جین صاحب زبان کی اعلیٰ سطح سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اس کی نچلی سطح کو ہی دیکھتے ہیں اور بہ اصرار یہ بات کہتے ہیں کہ ’’اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں نہیں ہیں‘‘۔ (’ایک بھاشا ….‘، ص۱۲)
اردو اور ہندی نچلی سطح پر بلاشبہ ایک زبانیں ہیں۔ اس سے کسی ماہرِ لسانیات کو انکار نہ ہو گا، لیکن ادبی، علمی، تہذیبی اور فنکشنل سطحوں پر بلاشبہ یہ دو مختلف زبانیں ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نچلی سطح پر پہنچ کر یہ دونوں زبانیں باہم اتنی گھل مل جاتی ہیں کہ ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہی دونوں زبانیں اعلیٰ سطح پر حد درجہ مغائرت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اور ہندی کو ایک زبانیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جیسے جیسے یہ دونوں زبانیں اپنی اپنی اعلیٰ سطحات تک پہنچتی جاتی ہیں ان میں فصل بڑھتا جاتا ہے اور یہ دونوں آگے چل کر ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ بلکہ بیگانہ ہو جاتی ہیں۔ پھر انھیں ایک زبانیں قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ ہندوستانی آئین سازوں کے ذہن میں بھی یہی بات رہی ہو گی جس کی وجہ سے ہندی اور اُردو کو دو علیٰحدہ زبانوں کی حیثیت سے آئینِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں جگہ دی گئی۔ گیان چند جین اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہندوستان کے آئین میں اُردو اور ہندی کو دو علیٰحدہ زبانوں کی حیثیت سے درج کیے جانے کو ’’سیاسی مصلحت‘‘ قرار دیتے ہیں۔
اردو اور ہندی میں پائی جانے والی اَن گنت لسانی مماثلتوں کے با وصف ان دونوں زبانوں میں تلفظ، روز مرّه، محاورات و ضرب الامثال، ذخیرۂ الفاظ، مرکباتِ لفظی( بشمول اضافتِ زیر)،تعلیقیوں (سابقے و لاحقے)، قواعدی زمروں (تعداد و جنس)، حروف (Particles) اور بعض نحوی ساختوں کا نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں زبانیں اپنی ادبی روایات، تلمیحات و اشارات، اصنافِ شعر، اوزان و بحور، ادبی رویّوں اور تاریخی و تہذیبی حوالوں نیز لسانی مزاج (Idiosyncrasies) کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دونوں زبانیں اپنی علمی و ادبی اصطلاحات اور تہذیبی لفظیات بھی الگ الگ ماخذوں سے لیتی ہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ دونوں زبانوں کا رسمِ خط بھی جداگانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اور ہندی کے ادبی، تہذیبی و ثقافتی، نیز بعض لسانیاتی پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انھیں ایک زبانیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ لسانیات ( توضیحی لسانیات) کی رو سے یہ ایک زبانیں ہیں۔ عام مفہوم میں ہم ’لسانیات‘ سے توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics) ہی مراد لیتے ہیں جو صرف زبانوں کی ساخت اور ہیئت کے مطالعے اور تجزیے سے سروکار رکھتی ہے۔ زبانوں کے سماجی سیاق وسباق اور تہذیبی حوالوں سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ زبانوں کے مطالعے کا یہ انداز ’ عدم سماجی‘ (asocial) کہلاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت محتاجِ دلیل نہیں کہ ہر زبان سماج میں ہی پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہے اور تہذیب کا جزوِ لاینفک ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کو سماج یا تہذیب سے الگ کر کے یا اس کے بولنے والوں سے منقطع کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ چنانچہ زبانوں کا مطالعہ ان کی ہیئت و ساخت سے قطعِ نظر سماجی سیاق و سباق میں اور تہذیبی و ثقافتی حوالوں سے بھی کیا جاتا ہے جسے سماجی لسانیات (Sociolinguistics) کہتے ہیں۔ زبانوں کے اس نوع کے مطالعے کی بنیاد زبانوں کے سماج اور تہذیب کے ساتھ گہرے رشتوں پر استوار ہوتی ہے۔ اس مطالعے میں کسی لسانی طبقے (Speech Community)، نیز اس کے لسانی تشخص (Language Identity)، اور زبان کے سماجی وظائف (Social Functions) اور تہذیبی قدروں (Cultural Values) کو بہ طورِ خاص ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔
اردو اور ہندی کا آغاز اگرچہ ایک ہی ماخذ سے ہوا ہے اور بنیادی ساخت اور ہیئت کے اعتبار سے یہ دونوں مماثل (Identical) زبانیں ہیں لیکن اپنے ارتقا اور نشو و نما کے مرا حل میں بعض وجوہ سے یہ ایک دوسرے سے دور جا پڑی ہیں کہ ان کے سماجی سیاق و سباق، تاریخی و تہذیبی حوالوں اور قدروں، ثقافتی وظائف نیز مزاج میں قابلِ لحاظ فرق پیدا ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی لسانیات کی رو سے انھیں ایک زبانیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں ادبی روایتوں اور رویّوں، اصطلاحاتِ علمی نیز ذخیرۂ الفاظ اور رسمِ خط کے واضح فرق کی وجہ سے بھی یہ دونوں زبانیں ایک نہیں کہی جا سکتیں۔ اردو اور ہندی کے مشترک بنیادی قواعدی ڈھانچے اور کینڈے سے قطعِ نظر ان میں تلفظ، روز مرّہ، محاورات و ضرب الامثال، مرکبات، اضافتِ زیر/ ہمزہ، سابقوں اور لاحقوں، نیز جنس و تعداد کا فرق بھی نہایت واضح ہے۔ پھر ہم انھیں ایک زبانیں کیوں کہیں؟
آج سے نصف صدی قبل مشہور ترقی پسند ادیب و دانشور سجاد ظہیر نے اُردو اور ہندی کے درمیان ادبی اور تحریری شکلوں میں فرق کے علاوہ تہذیبی سطح پر پائے جانے والے فرق کی اہمیت کو اُجاگر کیا تھا اور تہذیبی بنیادوں پر اُردو اور ہندی کو دو زبانیں قرار دیا تھا۔ سجاد ظہیر اپنے ایک کتابچے ’اُردو، ہندی، ہندستانی‘ (بمبئی: کتب پبلشرز، ۱۹۴۷ء) میں لکھتے ہیں:
’’اُردو اور ہندی، اپنی موجودہ ادبی اور تحریری شکل میں الگ الگ ہیں، حالانکہ ان کی نحوی ساخت بنیادی طور سے ایک ہے۔ ۔ ۔ بہر حال ان کا فرق ظاہر ہے اور اس فرق کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ ہماری کلچر کے دو متوازی دھاروں کی آئینہ دار ہیں۔ ‘‘ (ص ۴۰)
وہ یہ بھی لکھتے ہیں :
’’ہندوستان کی تہذیب اس ملک کے مختلف حصوں میں مختلف شکلیں رکھتی ہے اور ان میں بے شمار باتیں مشترک ہیں۔ پھر بھی ان علاقوں میں جہاں اُردو یا ہندی عام طور سے بولی جاتی ہے، ہندو اور مسلم کلچر کا فرق ہمیں اُردو اور ہندی کی موجودہ ادبی شکلوں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً)
یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ اہلِ اُردو نے سجاد ظہیر کی اس بات پر کوئی توجہ نہ دی اور یہی کہتے رہے کہ اُردو اور ہندی ایک زبانیں ہیں، مثلاً ڈاکٹر کمال احمد صدیقی جین صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں:
’’جہاں تک گیان چند جین کے بنیادی نظریے کا سوال ہے کہ اُردو ہندی ایک زبان ہیں، مجھے اس سے اتفاق ہے ‘‘۔ (’’مقدمہ‘‘، ’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘، ص ۹)
گیان چند جین اگر چہ اُردو اور ہندی کو دو مختلف زبانیں تسلیم نہیں کرتے، تاہم وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ تہذیبی اعتبار سے اُردو، مسلمانوں کے تشخص (Muslim Identity) اور ہندی، ہندوؤں کے تشخص (Hindu Identity) کی علامت ہے۔ وہ صاف لفظوں لکھتے ہیں:
’’آپ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ تہذیبی اعتبار سے مسلمانوں کے تشخص کا جو اظہار اُردو زبان و ادب میں ہوتا ہے وہ ہندی میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہندوؤں کے تہذیبی تشخص کا اظہار جو ہندی زبان و ادب میں ہوتا ہے، اس قدر اُردو میں نہیں ہوتا۔ اُردو زبان و ادب کا لسانی و تہذیبی پس منظر عربی فارسی اور اسلام سے نزدیک ہے، ہندی زبان و ادب کا سنسکرت اور ہندو دھرم سے۔ ‘‘ (’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘، ص ۲۷۹)
گیان چند جین کی یہ بات نہایت معقول ہے اور اس سے سجاد ظہیر کے متذکرۂ بالا خیال کی تائید ہوتی ہے کہ ’’ہندو اور مسلم کلچر کا فرق ہمیں اُردو اور ہندی کی موجودہ ادبی شکلوں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘
گیان چند جین جب ادبی اور تہذیبی و ثقافتی حوالوں نیز مذہبی و تہذیبی تشخص کے اعتبار سے اُردو اور ہندی میں پائے جانے والے فرق کو برملا تسلیم کرتے ہیں تو انھیں اُردو اور ہندی کو دو مختلف زبانیں مان لینے میں کیوں تامل ہے؟ اس سے اُردو اور ہندی کی اس حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ یہ دونوں زبانیں پیدائشی اعتبار سے یا لسانیاتی نقطۂ نظر سے ایک ہیں یا نچلی سطح (Grass-root level) پر پہنچ کر یہ دونوں ایک ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ لاکھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اُردو اور ہندی ایک زبانیں ہیں لیکن صحیح، سچی اور کھری بات وہی ہے جو سجاد ظہیر ( اور گیان چند جین نے بھی کہی ہے) کہ ادب و تہذیب اور کلچر کی سطح پر نیز مذہبی و تہذیبی تشخص (Religious and Cultural Identity) کے اعتبار سے اُردو اور ہندی میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔
مَیں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مَیں یہ بھی مانتا ہوں کہ اُردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں اور نہ ہی ہندوستان کے سارے مسلمان اُردو بولتے ہیں، لیکن مَیں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ اُردو زبان کو بولنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ اسی لیے اس میں مسلم کلچر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ زیادہ ہے اور اسی لیے ہندوستان میں یہ مسلم تشخص کی علامت بن گئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہندی، ہندو تشخص کی علامت ہے، اور ہندوستان جیسے جمہوری اور سیکولر ملک میں اس بات کا اظہار یا اقرار کوئی بری بات نہیں ہے۔ اگر اُردو اور ہندی کے درمیان کلچر، تہذیب و ثقافت نیز مذہبی و تہذیبی تشخص کا واضح اور نمایاں فرق کسی کو دکھائی نہیں دیتا تو اس میں اِن دونوں زبانوں کا کوئی قصور نہیں۔ قصور ہے صرف نہ دیکھنے والی آنکھ کا:
گر نہ بیند بروز شپرّہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
(سعدیؔ)
(=اگر چمگادڑ کی آنکھ دن کو نہ دیکھے تو[اس میں] چشمۂ آفتاب کا کیا قصور!)
اردو جو کھڑی بولی کا نکھرا ہوا روپ ہے اور جس کا ارتقا بارہویں صدی میں دہلی ونواح دہلی میں ہو چکا تھا، اسی کی بنیاد پر انیسویں صدی کی ابتدا میں ’کھڑی بولی ہندی‘ (زمانۂ حال کی ہندی) کی تشکیل عمل میں آئی جسے اولاً نثری زبان کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے اسے شعری ذریعۂ اظہار کی حیثیت سے بھی اختیار کر لیا گیا۔ اس طرح کھڑی بولی ہندی(=جدید ہندی)، اردو کے بعد کا ارتقا ہے۔ اس لسانی حقیقت کو دھیریندر ورما (مصنف ’ہندی بھاشا کا اتہاس‘) اور بعض دوسرے ہندو اور عیسائی (بشمول کرسٹوفر آر. کنگ مصنف One Language, Two Scripts) عالموں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ انیسویں صدی سے ہی ان دونوں زبانوں میں نمایاں فرق پیدا ہونے لگا تھا۔ اردو تو اپنی اسی نہج پر قائم رہی لیکن کھڑی بولی ہندی الگ خطوط پر گامزن ہو گئی۔ اس نے دیوناگری (یا ناگری) رسمِ خط اختیار کر لیا اور ’ناگری ہندی‘ کہلائی۔ اسی کو ’ اعلیٰ ہندی‘ بھی کہا گیا۔ اس نے اپنے ذخیرۂ الفاظ اور اصطلاحاتِ علمی کے لیے سنسکرت کا سہارا لیا۔ ہندو دیومالائی عناصر و اساطیر سے بھی اس نے اپنا دامن مالا مال کیا۔ ادبی روایات، سماجی سیاق و سباق اور تاریخی و تہذیبی حوالوں نیز لسانی مزاج کے اعتبار سے بھی یہ اردو سے بالکل مختلف ہو گئی اور آج بھی مختلف ہے۔ لہٰذا اردو اور ہندی (جدید ہندی) کو ایک زبانیں کہنا ادبی و علمی نقطۂ نظر سے نیز سماجی و تہذیبی قدروں کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ان دونوں زبانوں کے سماجی لسانیاتی تناظرات ( (Sociolinguistic Perspectivesمیں یہ بات درست ہے۔ اردو اور ہندی کو اپنی الگ الگ راہیں متعین کیے ہوئے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ ہندوستان کے عصری لسانی تناظر میں ان دونوں کو ایک زبانیں کہنا حقیقت پسندانہ طرزِ فکر نہیں !
اہلِ اردو کو اس بات پر اصرار کرنا چاہیے کہ اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں ہیں نیز اردو، ہندی کی ’شیلی‘(اسلوب) نہیں، اس کی ہمسر ہے۔ ان دونوں زبانوں کی اپنی لسانی خصوصیات، ادبی روایات اور تہذیبی قدریں ہیں۔ دونوں اپنی جداگانہ پہچان رکھتی ہیں۔ دونوں زبانوں کے بولنے والے ہندوستان میں قابلِ لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ دونوں یہاں کی بڑی زبانیں ہیں۔ ان میں اعداد و شمار کے لحاظ سے ہندی اگر پہلے نمبر پر ہے تو اردو کا نمبر چھٹا ہے۔ 1991ء کی مردم شماری کے مطابق اُردو بولنے والے ہندوستان کی کل آبادی کا 5.13 فی صد ہیں اور ان کی مجموعی تعداد 43, 406, 932 (چار کروڑ چونتیس لاکھ چھ ہزار نو سو بتیس ) ہے۔ اس اعتبار سے یہ ہندوستان کی بعض دوسری بڑی زبانوں (جن کا ذکر ہندوستان کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں موجود ہے)، مثلاً گجراتی، کنڑ، ملیالم، اڑیا، پنجابی، کشمیری، سندھی وغیرہ سے اوپر ہے۔ اُردو اور ہندی کے بولنے والے اپنا لسانی تشخص (Language Identity) رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں دو لسانی طبقوں( Two Speech Communities) میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے آزاد، علیٰحدہ اور مستقل زبانوں کا درجہ دیتی ہیں۔
ساتواں باب : ’پریم ساگر‘ کی تخلیق کے دور رس نتائج
گیان چند جین نے ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ میں فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) کے ’’بھاکھا منشی‘‘ للوجی لال کی ’پریم ساگر‘ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ’پریم ساگر‘ کے دیباچے میں اِس کتاب سے متعلق یہ عبارت درج ہے :
’’شریمت بھاگوت کے دسم سکندھ کی کتھا کو چتر بھج مشر نے دوہے چوپائی میں برج بھاشا کیا۔ سو پاٹھ شالا کے لیے …. جان گلکرسٹ کی آگیا سے سموَت ۱۸۶۰ میں للوجی لال کوی براہمن گجراتی سہستر اودیچ آگرے والے نے جس کا سار لے یا مِنی بھاشا چھوڑ دلّی آگرے کی ’ کھڑی بولی‘ میں کہہ نام پریم ساگر دھرا‘‘۔ (بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘، ص۲)
اس اقتباس میں چھے باتیں قابلِ غور ہیں :
(۱) ’پریم ساگر‘ کھڑی بولی میں لکھی ہوئی للوجی لال کی طبعزاد تصنیف نہیں ہے۔
(۲) للوجی لال نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ’’یامنی بھاشا‘‘ کو ترک کر کے یہ ’’کتھا‘‘ (قصہ/ کہانی) لکھی ہے۔
(۳) للوجی لال نے قصّے کی زبان کو ’’دلّی آگرے کی کھڑی بولی‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اسے ’ہندی‘ یا ’کھڑی بولی ہندی‘ نہیں کہا کیوں کہ اس وقت تک اِس زبان کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا اور لفظِ ہندی ’اردو‘ کے لیے مستعمل تھا۔
(۴) ’ پریم ساگر‘ کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل شمالی ہندوستان کی ایک بولی برج بھاشا میں شعری روایت موجود تھی۔ اسی روایت کے تحت چتر بھج مشر نے شریمت بھاگوت کے دسویں کھنڈ کی کتھا کو برج کے دوہے چوپائی میں منتقل کیا تھا۔
(۵) ’ پریم ساگر‘ کے لکھے جانے سے قبل کھڑی بولی ہندی میں نثری اور شعری روایت کا فقدان تھا اور اِس زبان میں ایسی کوئی کتاب نہ تھی جو پاٹھ شالاؤں میں کام آ سکے۔ اسی لیے للوجی لال نے اس قصے کو ’’پاٹھ شالا کے لیے‘‘ کھڑی بولی نثر میں لکھا۔
(۶) للوجی لال نے فورٹ ولیم کالج کے ایک عہدے دار جان گلکرسٹ کی ’’آگیا‘‘ (=حکم/ ہدایت) پر یہ کتاب لکھی۔
للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ سے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ’’یامِنی بھاشا‘‘ کو ترک کر کے ’’دلّی آگرے کی کھڑی بولی‘‘ میں یہ کتاب لکھی ہے۔ یامنی بھاشا سے للوجی لال کی مراد ’مسلمانی بھاشا‘ یا ’مسلمانوں کی زبان‘ ہے جس میں ہند آریائی الفاظ کے ساتھ ساتھ عربی فارسی الفاظ بھی ملے ہوتے ہیں۔ یہ وہی زبان ہے جو دہلی اور نواحِ دہلی میں کھڑی بولی کی بنیاد پر بارہویں صدی میں تشکیل پذیر ہوئی اور جسے ابتدا میں ’’ہندی‘‘ ، ’’ہندوی‘‘ اور ’’ریختہ‘‘ کہا گیا اور بعد میں جس کا نام ’’اردو ‘‘ پڑا۔ اس طرح یامنی بھاشا اور للوجی لال کی ’’کھڑی بولی‘‘ اصلاً اور نسلاً ایک ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر میں عربی فارسی الفاظ کی شمولیت پائی جاتی ہے اور آخر الذکر میں سے عربی فارسی الفاظ کو خارج کر دیا گیا ہے ورنہ دونوں کی اصل و اساس اور مولد و منشا ایک ہے۔ درحقیقت ’’یامنی بھاشا‘‘ کوئی اور زبان نہیں بلکہ ’اردو‘ ہی ہے۔ اسی کو ’’چھوڑ‘‘ (کر) یعنی اس میں سے عربی فارسی عناصر کو خارج کر کے للوجی لال نے ایک ایسا اسلوب تیار کیا جسے انھوں نے ’’دلّی آگرے کی کھڑی بولی‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہندی کے نامور محقق شِتی کنٹھ مشر اس زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں :
’’ دلّی آگرے کی یہ’ کھڑی بولی‘ ہندستانی کی ایک وِشِشٹ نرمل شیلی تھی جس میں اردو کی اپیکشا عربی فارسی شبدوں کا مشرن بہت بچایا جاتا تھا اور جو شدّھ بھارتیہ شیلی تھی۔ ‘‘ (’کھڑی بولی کا آندولن‘ ،ص ۵)
( دہلی آگرے کی یہ ’کھڑی بولی‘ ہندستانی کا ایک مہذب شستہ اسلوب تھا جس میں اردو کے مقابلے میں عربی فارسی الفاظ کی آمیزش سے اجتناب کیا جاتا تھا اور جو خالص ہندوستانی اسلوب تھا۔ )
شِتی کنٹھ مشر کے مطابق للوجی لال کی کھڑی بولی جسے انھوں نے ’’دلّی آگرے کی کھڑی بولی‘‘ کہا ہے ہندستانی کی ایک شیلی تھی یعنی ایک ایسی زبان تھی جس میں ’’اردو‘‘ کے مقابلے میں عربی فارسی الفاظ سے بہت حد تک اجتناب کیا جاتا تھا اور جو خالص ہندوستانی شیلی تھی۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ للوجی لال جب ’پریم ساگر‘ لکھ رہے تھے تو اس وقت ایک ترقی یافتہ زبان ’’اردو‘‘ پہلے سے موجود تھی۔ ’’ہندستانی ‘‘ بھی کوئی اور زبان نہیں بلکہ اردو ہی تھی۔ اسی زبان کی طرز پر انھوں نے عربی فارسی الفاظ سے بچتے بچاتے اپنی ’’کھڑی بولی‘‘ کو ڈھالا۔ اسی اسلوب کو ششی کنٹھ مشر نے ’’شدّھ بھارتیہ شیلی‘‘ ( خالص ہندوستانی اسلوب) قرار دیا ہے۔ لیکن یہ خالص ہندوستانی اسلوب کیسے برآمد ہوا؟ ظاہر ہے کہ اردو میں سے عربی فارسی الفاظ کو خارج کر کے!
چنانچہ یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ ’پریم ساگر‘ کی تخلیق (سمبت ۱۸۶۰/سنہِ عیسوی ۱۸۰۳)(۱) کے وقت ’’یا منی بھاشا‘‘ (جس سے ہندو ’مسلمانی بھاشا‘ یا ’مسلمانوں کی زبان‘ مراد لیتے ہیں) یعنی ’اُردو‘ پہلے سے موجود تھی، ورنہ للوجی لال یہ کیوں کہتے کہ انھوں نے ’’ یامنی بھاشا چھوڑ دلّی آگرے کی کھڑی بولی میں ‘‘ پریم ساگر لکھی ہے۔ للوجی لال اُردو زبان سے بخوبی واقف تھے اور فورٹ ولیم کالج میں مرزا کاظم علی جوانؔ اور مظہر علی خاں ولاؔ کے ساتھ مل کر ’شکنتلا ناٹک‘ ، ’سنگھاسن بتیسی‘ اور ’بیتال پچیسی‘ جیسی کتابیں لکھ چکے تھے۔ (۲) اسی لیے ’پریم ساگر‘ میں کھڑی بولی کے استعمال کے وقت ان کے لیے عربی فارسی الفاظ سے اجتناب کرنا بے حد آسان تھا۔ (۳) للوجی لال نے کھڑی بولی میں عربی فارسی الفاظ کی شمولیت کی وجہ سے ہی اسے (کھڑی بولی کو)’’یامنی بھاشا‘‘ کہا تھا۔ کرسٹوفر آر۔ کنگ اپنی کتاب One Language, Two Scripts ] =ایک زبان ، دو رسومِ خط] میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ لکھتے وقت مسلمانوں سے نسبت رکھنے والی زبانوں [عربی، فارسی اور ترکی] کے الفاظ جان بوجھ کر نکال دیے تھے:
"Lallu Lal deliberately set out to exclude words from languages associated with Muslims”. (P. 27)
یہی بات جارج گریرسن اور بعض دوسرے عالموں نے بھی کہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی بنیادوں پر ہی ’پریم ساگر‘کی کھڑی بولی میں سے عربی فارسی الفاظ نکالے گئے۔ لیکن جین صاحب کو اس سے ’’بالکل اتفاق نہیں‘‘ (دیکھے ’ایک بھاشا….‘ ، ص ۱۶)۔ لیکن وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ للوجی لال ’’ہندو دھرم کی ایک کتاب تیار کر رہے تھے اس لیے عربی فارسی لفظیات اور اسلامی روز مرہ سے پرہیز کیا‘‘ (ایضاً ، ص ۱۲۷)۔ جین صاحب کے ان دونوں بیانات میں جو تضاد پایا جاتا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ (۴)
گیان چند جین اُردو کو نیچا دکھانے اور اُردو پر ہندی کے زمانی تقدم کو ثابت کرنے میں جنون کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ ’ایک بھاشا….‘ میں لکھتے ہیں:
’’کھڑی بولی ہندی میں نثر کے ایسے متفرق نمونے بہت پرانے دور سے ملتے ہیں‘‘۔ (ص ۳۰۰)
سب سے پرانے دور یعنی اکبر کے عہد (۱۵۵۶ تا ۱۶۰۵ء) کے ایک شخص گنگ کوی کے نثری رسالے ’چند چھند برنن کی مہما‘ کو وہ کھڑی بولی ہندی کے ’’مستند‘‘ نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اہلِ اُردو کو ہدفِ ملامت بناتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اُردو کے جو کم نگاہ معترض انیسویں صدی کی کتاب پریم ساگر کو ہندی نثر کی پہلی کتاب کہتے ہیں ان کی ناواقفیت پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ گنگ کوی کے اتنے مشہور رسالے سے بھی واقف نہیں۔ ‘‘ (ایضاً ، ص ۳۰۱)
گیان چند جین نے اہلِ اُردو کی گنگ کوی کے نثری رسالے سے ’’ناواقفیت‘‘ پر ’’حیرت‘‘ کا اظہار کیا ہے۔ لیکن خود ان کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ گنگ کوی کے جس نثری رسالے کو ہندی محققین آج سے پچاس سال قبل جعلی قرار دے چکے ہیں اسے جین صاحب آج بھی ’’مستند‘‘ کہتے ہیں۔ جین صاحب کی اس بے خبری، لاعلمی اور تحقیق کے میدان میں ہوئی پیش رفت سے عدم واقفیت کو کیا کہا جائے اور اسے کیا نام دیا جائے؟
ہندی کے نامور محقق ڈاکٹر شِتی کنٹھ مشر نے جو بنارس ہندو یونیورسٹی (کاشی ہندو وشو ودیالیہ) کے فارغ التحصیل ہیں اپنی عالمانہ تحقیقی تصنیف ’کھڑی بولی کا آندولن‘ (=کھڑی بولی کی تحریک) میں صاف طور پر یہ بات لکھی ہے کہ۔
’’گنگ اور جٹمل کی گدیہ رچنائیں جعلی سِدھ ہو چکی ہیں۔ ‘‘ (ص ۶۲)
(=گنگ اور جٹمل کی نثری تخلیقات جعلی ثابت ہو چکی ہیں۔ )
شِتی کنٹھ مشر کی متذکرہ کتاب ہندی کے مقتدر ادارے ناگری پر چارنی سبھا، کاشی (بنارس) سے سموَت ۲۰۱۳ (بمطابق ۱۹۵۶ء) میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر ہندی کے ممتاز ادیب و دانشور ہزاری پرساد دویدی نے ’’آشیرو چن‘‘ کے نام سے پیش لفظ لکھا۔ یہ کتاب شمالی ہندوستان میں کھڑی بولی ہندی کی تحریک پر ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کھڑی بولی ہندی کے عَلم بردار گیان چند جین کو اس کتاب کا علم نہ ہو سکا۔ جین صاحب نے ’ایک بھاشا….‘ لکھتے وقت ہندی کے تمام مواد کو ٹٹولا ہے۔ ہندی زبان و ادب کی موٹی موٹی کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے اور ہندی کے ماہرین و محققین (مثلاً امرت رائے، وغیرہ) سے تبادلۂ خیال بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود انھیں شِتی کنٹھ مشر کی اس کتاب کا پتانہ چل سکا اور یہ بات معلوم نہ ہو سکی کہ گنگ کوی کے متذکرہ نثری رسالے کو کسی اُردو والے نے نہیں، خود اہلِ ہندی نے جعلی قرار دے دیا ہے۔ لیکن ہمارے سادہ لوح محقق جین صاحب یہ کہتے ہیں کہ یہ تو کھڑی بولی ہندی کا ’’مستند‘‘ نمونہ ہے (’ایک بھاشا ….‘ ، ص ۳۰۰)، اور اسی کی بنیاد پر وہ اُردو پر ہندی کے زمانی تقدم کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ تحقیق کا یہ کون سا معیار ہے؟ جین صاحب کو ہی معلوم ہو گا! میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ کسی عمارت کی بنیاد کذب و ریاکاری اور فریب پر نہیں رکھی جا سکتی:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
(=جب معمار (بنیاد کی) پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو دیوار ستاروں (کی بلندیوں) تک ٹیڑھی ہی اٹھتی چلی جاتی ہے۔ )
گیان چند جین جیسا غیر محتاط محقق تو دنیا کی گئی گزری زبان میں بھی بمشکل ملے گا جو زیرِ تحقیق زبان کے نمونوں کے لیے یہ کہے کہ ان پر ’’ میں نے کوئی ذاتی تحقیق نہیں کی، میں یہاں محض ناقل ہوں۔ ‘‘ جین صاحب اپنی متذکرہ کتاب کے ’’ضمیمہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہاں وضاحت کے ساتھ اعتراف کر لوں کہ ضمیمے میں مندرجہ ذیل ہندی تخلیقات پر میں نے کوئی ذاتی تحقیق نہیں کی، میں یہاں محض ناقل ہوں۔ ‘‘ (ص ۳۰۱)
اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’نقل راچہ عقل ‘‘ یعنی نقل کرنے میں عقل کی کیا ضرورت! جین صاحب اگر عقل سے کام لیتے تو کھڑی بولی ہندی کے قدیم نمونوں میں جعلی کتابوں اور دوسری زبانوں اور بولیوں کے نمونوں کو شامل نہ کرتے۔ جب جین صاحب نے بنیادی مواد اور Sourcesپر کوئی ’’ذاتی تحقیق ‘‘ نہیں کی تو انھیں اتنی بھاری بھر کم کتاب لکھنے اور اتنے بلند بانگ دعوے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
گیان چند جین نے گنگ کوی کے نثری رسالے ’چند چھند برنن کی مہما‘ کا ’ایک بھاشا…. ‘ میں کئی جگہ ذکر کیا ہے۔ صفحہ ۱۲۹ پر انھوں نے اسے ’’ہندی کھڑی بولی نثر کی پہلی کتاب ‘‘ قرار دیا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ جین صاحب اس امر سے قطعی بے خبر رہے کہ پچاس سال قبل خود اہلِ ہندی اس کتاب کو جعلی ثابت کر چکے ہیں۔
للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ کی کھڑی بولی کو ’’دلّی آگرے کی کھڑی بولی‘‘ اس لیے کہا ہے کہ دلّی کے بعد آگرہ بہت دنوں تک ہندوستان کا دار الخلافہ رہا تھا (سکندر لودھی کے عہد سے لے کر شاہجہاں کے عہد۔ ۔ ۔ ۱۶۴۷ء تک)۔ اس دوران میں اردو بولنے والے (دوسرے لفظوں میں کھڑی بولی کے بولنے والے) کثیر تعداد میں دہلی سے ہجرت کر کے آگرہ منتقل ہو گئے تھے۔ ہر چند کہ آگرہ اور اس کے گرد و نواح کی مقامی بولی برج بھاشا تھی، آگرہ اردو کا اور اس رشتے سے کھڑی بولی کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا اور کھڑی بولی کو دہلی کے علاوہ آگرے کی بھی بولی سمجھا جانے لگا تھا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ گلکرسٹ نے للوجی لال کو ’پریم ساگر‘ لکھنے کی ہدایت اس لیے دی تھی کہ وہ ہندوؤں کے لیے ایک علیٰحدہ زبان کی تعمیر کے خواہاں تھے جو ان کے دینی مقاصد اور تعلیمی ضروریات کو پورا کر سکے۔ للوجی لال نے یہ کام بحسن وخوبی انجام دیا۔ انھوں نے ’شریمت بھاگوت‘ کے دسویں کھنڈ کی کتھا کو ’پریم ساگر‘ کے نام سے لکھ کر ایک مذہبی فریضہ بھی انجام دیا اور ہندوؤں کی تعلیمی ضروریات کو بھی پورا کیا کیوں کہ انھوں نے یہ کتاب بقولِ خود ’’پاٹھ شالا کے لیے‘‘ لکھی تھی۔ لیکن’’ یامنی بھاشا‘‘ کو ترک کر کے جو اسلوب انھوں نے اختیار کیا اس کے دور رس لسانی نتائج مُرتب ہوئے اور ایک نئی زبان کی تعمیر و تشکیل عمل میں آئی۔ حالیہ متنازعہ کتاب ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کے مصنف گیان چند جین کو یا اہلِ ہندی کو اس بات سے اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ لسانی افتراق (Language split) نیز ہندی اردو کشمکش اور تنازع کی ابتدا در حقیقت یہیں سے ہوتی ہے۔
گلکرسٹ جن کی عین منشا کے مطابق ’پریم ساگر‘ لکھی گئی تھی اپنی کتاب The Hindee Roman Orthoepical Ultimatum (۱۸۰۴ء) کے صفحہ ۱۹ پر ان تحسین آمیز خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور للوجی لال کے اسلوب کی داد بھی دیتے ہیں :
’’پریم ساگر ایک بہت ہی دلچسپ کتاب ہے جسے للوجی لال نے ہمارے طلبہ کو ہندستانی کی تعلیم دینے کی غرض سے برج بھاشا کی خوبصورتی اور صفائی کے ساتھ ،انگریزی ہندوستان کے ہندو عوام کے وسیع طبقے کے حقیقی مفاد کے پیشِ نظر کھڑی بولی میں لکھا ہے۔ ‘‘(بحوالہ شتی کنٹھ مشر’ کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۳)
گلکرسٹ کے اس بیان سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ہندوؤں کے ’’حقیقی مفاد‘‘ کو پیشِ نظر رکھ کر للوجی لال سے یہ کتاب لکھوائی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’پریم ساگر‘ کی تخلیق فورٹ ولیم کالج کی تعلیمی پالیسی سے انحراف کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔ کیوں کہ فورٹ ولیم کالج ہر گز اس لیے قائم نہیں کیا گیا تھا کہ یہاں ہندوؤں یا مسلمانوں کی مذہبی کتابیں تیار کروائی جائیں یا کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ’’حقیقی مفاد کے پیشِ نظر‘‘ تصنیف و تالیف کا کام کروایا جائے بلکہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کا بنیادی مقصد ہندوستان میں ’برطانوی مفاد‘ کو تقویت پہچانا تھا۔ اسی کے پیشِ نظر ایسٹ انڈیا کمپنی کے نو وارد انگریز سِول ملازمین کو یہاں فارسی کے ساتھ ساتھ جو سرکاری زبان تھی ’’ہندوستان کی مقبولِ عام زبان‘‘ اردو بھی سکھائی جاتی تھی جس کے لیے اردو میں کتابیں لکھوائی اور دوسری زبانوں سے ترجمہ کروائی جاتی تھیں۔ چوں کہ للوجی لال کے پیشِ نظر ہندوؤں کا حقیقی مفاد تھا اس لیے انھوں نے اس عہد کی مروج اور عام زبان اردو (جو کھڑی بولی کا نکھرا ہوا روپ ہے) میں سے عربی فارسی الفاظ کو خارج کر کے اسے ناگری رسمِ خط میں منتقل کر دیا اور ہندوؤں کے لیے ایک نئی زبان کا ڈھانچا تیار کر لیا۔ کیا یہ لسانی افتراق نہیں؟ اور کیا اس کے لیے للوجی لال ذمے دار نہیں جنھوں نے گلکرسٹ کے اشارے پر یہ کام انجام دیا؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’پریم ساگر‘ کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ’’یامنی بھاشا‘‘ کا کوئی تصور نہ تھا اور پورے شمالی ہندوستان میں بولیوں سے قطعِ نظر صرف ایک ہی زبان رائج تھی اور مذہبی نیز فرقہ وارانہ بنیادوں پر زبان میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا اور ہندو اور مسلمان سب ایک ہی زبان لکھتے، پڑھتے اور بولتے تھے اور وہ زبان ’اردو‘ تھی جسے انگریز ’’ہندستانی‘‘ (’’Hindoostanee‘‘) کہتے تھے۔ گلکرسٹ نے اسی زبان کو اپنی کتاب The Oriental Linguist) مشرقی زبان داں) میں "The popular language of Hindoostan” ) ہندوستان کی مقبولِ عام زبان ) کہا ہے۔ مقامی سطح پر بعض بولیاں (Dialects) ضرور رائج تھیں لیکن وہ چھوٹے چھوٹے علاقوں تک ہی محدود تھیں۔ رابطے کی زبان کے طور پر یا جسے ’لنگوافرینکا‘ کہہ سکتے ہیں، پورے شمالی ہندوستان میں پنجاب تا بہار اردو ہی رائج تھی۔ یہ نہ صرف خواندگی(Literacy) کی زبان تھی بلکہ ذریعۂ تعلیم و تدریس اور شستہ و شائستہ اظہار کے طور پر بھی یہی زبان مروج تھی اور یہ سلسلہ انیسویں صدی میں بھی جاری تھا۔ ہند آریائی لسانیات کے ماہر سنیتی کمار چٹرجی اپنی کتاب Indo- Aryan and Hindi ( ہند آریائی اور ہندی) میں اس لسانی صورتِ حال اور ہندوؤں میں اردو کی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"The Hindus continued to cultivate Braj-bhakha and Awadhi, when they wrote poetry. But from the 19th century, Urdu claimed their chief attention, as the language of the law courts, and as the medium of instruction in the schools leading to the professions of law, medicine, engineering, etc. What restricted education was available in North India before the Universities were established was through Urdu. The Hindus also accepted this Urdu tradition at school and college from Panjab to Bihar, when they needed a workable prose in Hindusthani.” (Pp. 213-14)
( ہندو شاعری کے ذریعے برج بھاشا اور اودھی کو برابر ترقی دیتے رہے۔ لیکن انیسویں صدی سے اردو ان کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی کہ یہ عدالتوں کی زبان تھی اور اسکولوں میں بھی یہی ذریعۂ تعلیم تھی جس سے قانون، طب، انجینیرنگ، وغیرہ پیشوں کی راہیں کھلتی تھیں۔ شمالی ہندوستان میں یونیورسٹیوں کے قائم ہونے سے پہلے جو کچھ بھی تعلیم دستیاب تھی وہ اردو کے ذریعے سے ہی ممکن تھی۔ ہندوؤں کو جب ہندوستانی نثر کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے پنجاب سے لے کر بہار تک اسکولوں اور کالجوں میں اسی اردو روایت کو اپنایا۔ )
چٹر جی اردو کی مقبولیت کے بارے میں مزید لکھتے ہیں :
"Enthusiasts for Nagari Hindi, i.e. Sanskritised Hindi written and printed in Nagari characters, ordinarily now have no idea about the origin and evolution of this kind of Hindi half a century ago. It was difficult to find a clerk in a law court in Panjab, U.P. and Bihar who could write a plaint or a deed in Nagari letters. Most educated Hindus read Urdu, although they were just taking a lukewarm interest in Nagari pracar or movement for the spread of Nagari Hindi in both the law courts and the schools.” (Ibid., p. 215)
( ناگری ہندی یعنی ناگری حروف میں لکھی اور چھاپی جانے والی سنسکرت آمیز ہندی کے پر جوش حامی عام طور پر آج یہ بات نہیں جانتے کہ پچاس سال پہلے اس قسم کی ہندی کا آغاز و ارتقا کیسے ہوا تھا۔ پنجاب، یو۔ پی. اور بہار کی عدالتوں میں ایسا کلرک مشکل سے ملتا تھا جو ناگری حروف میں عرضی دعویٰ یا کوئی دستاویز لکھ سکے۔ بیشتر تعلیم یافتہ ہندو اردو پڑھتے تھے اگرچہ وہ عدالتوں اور اسکولوں میں ’ناگری پرچار‘ یا ناگری ہندی کی اشاعت کی تحریک میں سرد مہری سے دلچسپی لیتے تھے۔ )
(نوٹ : چٹرجی نے یہ بات ۴۱۔ ۱۹۴۰ء کے دوران احمد آباد میں اپنے ایک لکچر میں کہی تھی۔ بعد میں یہ اور اس سلسلے کے دوسرے لکچرز گجرات ورناکلر سوسائٹی کی جانب سے جنوری ۱۹۴۲ء میں کتابی صورت میں Indo- Aryan and Hindi کے نام سے شائع ہوئے۔ )
للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ ہندوؤں کی مذہبی اور تعلیمی ضروریات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے لکھی تھی۔ ایسی صورت میں ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ عربی فارسی الفاظ سے اجتناب کرتے اور ان کی جگہ پر سنسکرت الفاظ کا استعمال کرتے جو ہندوؤں کی مذہبی زبان ہے۔ گیان چند جین کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ للوجی لال کی کتاب ’’ہندو دھرم‘‘ کی کتاب تھی اسی لیے انھوں نے عربی فارسی لفظیات سے ’’پرہیز‘‘ کیا۔ جین صاحب لکھتے ہیں :
’’ وہ [للوجی لال] ہندو دھرم کی ایک کتاب تیار کر رہے تھے اس لیے عربی فارسی لفظیات اور اسلامی روزمرّہ سے پرہیز کیا۔ ‘‘ (’ایک بھاشا ….‘، ص۱۲۷)
لیکن اس ’’پرہیز‘‘ کی وجہ سے ہی تو لسانی افتراق اور لسانی علاحدگی کی بنیاد پڑی اور اردو کے بنیادی دھارے سے الگ ہٹ کر ایک علیٰحدہ زبان کی تعمیر و تشکیل عمل میں آئی جس کے لیے دیوناگری رسمِ خط اختیار کیا گیا جو اس سے پہلے سنسکرت کے علاوہ محض گنی چنی بولیوں کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا۔
اس لسانی افتراق اور لسانی علاحدگی پسندی کو انیسویں صدی کی ہندو احیا پرست تنظیموں اور ناگری پرچارنی سبھا نے خوب ہوا دی۔ چنانچہ اس نے بہت جلد ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ ہندی تحریک کو جارحانہ انداز سے چلایا گیا اور اسے مذہب اور قومیت سے جوڑ دیا گیا، چنانچہ ۱۸۸۵ء کے آس پاس ہندی کے پُر جوش حامیوں کے ذریعے دیا گیا یہ نعرہ اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے:
جپَو نِرنتر ایک زبان
ہندی، ہندو، ہندستان
چٹرجی نے ان حقائق کا ایک مختصر سا جائزہ اپنی کتاب ’ہند آریائی اور ہندی‘ میں یوں پیش کیا ہے :
"Hindus with a nationalistic or patriotic temperament and love for Sanskrit, began to turn wistfully towards Sanskritic Hindi in Nagari characters. Support in this direction came from Bengal and Panjab (the Arya Samaj). Slowly Hindus came to feel that there must be a revival of the Nagari Alphabet. The Nagari Pracarini Sabha was started at Banaras in 1890; and a new era —– a veritable rebirth of Hindi — came into being.” (P. 214)
(قوم پرستانہ اور وطن پرستانہ مزاج رکھنے والے اور سنسکرت سے محبت کرنے والے ہندو سوچ سمجھ کر ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی سنسکرت آمیز ہندی کی جانب مائل ہونے لگے۔ اس سلسلے میں انھیں بنگال اور پنجاب (’آریہ سماج‘) سے بہت مدد ملی…. دھیرے دھیرے ہندو یہ محسوس کرنے لگے کہ ناگری رسمِ خط کا احیاء بہت ضروری ہے۔ بنارس میں ۱۸۹۰ء میں ’ناگری پرچارنی سبھا‘ کا قیام عمل میں آیا، اور ایک نئے عہد۔ ہندی کی حقیقی نشاۃِ ثانیہ۔ کا آغاز ہوا۔ )
انیسویں صدی کے دوران شمالی ہندوستان میں اردو زبان کس حد تک جاری و ساری تھی اس کا اندازہ گارساں دتاسی کے متعدد بیانات سے بھی ہوتا ہے۔ دتاسی نے ۱۸۷۰ء کے ہندوستانی زبان و ادب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اردو اور ہندی کے بعض اخبارات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ہندی کا ایک ہفتہ وار اخبار ’ جگ سماچار‘ ہے جو میرٹھ سے کچھ دنوں پہلے نکلنا شروع ہوا تھا۔ دتاسی اس کی زبان کے بارے میں ہمیں جو اطلاع دیتے ہیں اس سے یہ سمجھنا قطعی مشکل نہیں کہ اس عہد کی عام زبان اردو ہی تھی اور ہندی کے لیے بھی وہ کس حد تک ناگزیر تھی۔ دتاسی کے الفاظ یہ ہیں :
’’ چاہے کوئی کچھ کہے لیکن یہ مسلّم ہے کہ اردو زبان اور دوسری زبانوں کے مقابلے میں زیادہ مستعمل ہے۔ اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ اِس ہندی اخبار [’جگ سماچار‘] کا سب سے اہم اشتہار اردو میں فارسی رسمِ خط میں ہے۔ اس اخبار میں یہ بات بھی وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ اس کی زبان عام فہم ہے اگرچہ ناگری رسمِ خط میں ہے۔ چنانچہ زبان کے اعتبار سے یہ اخبار اردو کا ہے نہ کہ ہندی کا۔ ‘‘ (’ مقالاتِ گارساں دتاسی‘ ، ص۳۶)
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اِسی سر زمینِ ہند میں پیدا شدہ ایک عام فہم، فعال ترقی یافتہ اور صدیوں سے رائج زبان کے تناظر میں للوجی لال نے انیسویں صدی کے اوائل میں ’پریم ساگر‘ لکھ کر ایک ایسی زبان کی بِنا ڈالی جس کے باعث ایک زبان کے بولنے والے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، لسانی افتراق اور علاحدگی پسندی کی بنیاد پڑی، فرقہ وارانہ رجحانات کو تقویت پہنچی اور تا حال نہ ختم ہونے والی لسانی کشمکش اور ہندی اردو تنازع کا آغاز ہوا۔
….
٭٭٭
مصنف کی اجازت سے:
ان پیج سے تبدیلی اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
پروف ریڈنگ: اعجاز عبید، جویریہ مسعود