ایک ادھوری کہانی
اسلم جمشید پوری
’’ پھر یوں ہو کہ اچانک شہزادہ غائب ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
شادمانی بیگم سانس لینے کو رکیں تو بچوں کے سوالوں کی بوچھار ہو نے لگی۔
’’ نانی آپا ! ایسا کیسے ہو گیا۔ ۔ ؟ ‘‘ ریحان کا تجسس اس کی زبان پر آ گیا۔
’’ دادی آپا ! شہزادہ کہاں چلا گیا؟ کیا پری اسے لے گئی؟ ‘‘ سمیہ کی حیرانی بڑھ گئی تھی۔
’’کیا وہ اب کبھی نہیں آئے گا ‘‘حمیرا نے بھی اپنا سوال چھوڑا۔ وہ آنکھیں پھاڑے بیگم شادمانی کو دیکھ رہی تھی۔ سبحان اور حیا بھی گم صم سے بیٹھے تھے۔
بیگم شادمانی اپنے پو تے۔ پوتیوں،نواسے۔ نواسیوں کے درمیان گھری بیٹھی تھیں۔ بچے ان سے ضد کر کے کہانی سن رہے تھے۔ بیگم شادمانی کہانی سنانے میں ماہر تھیں۔ بچے ان سے بہت مانوس تھے۔ وہ جب بھی رات کو نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر اپنے بستر میں جاتیں،بچے ایک ایک کر کے ان کے بستر میں آ دھمکتے۔ بیگم شادمانی بچوں کو راجا۔ رانی،دیو۔ جن،پری،شہزادہ۔ شہزادی کی دلچسپ کہانیاں سناتیں اور بچے بڑے انہماک سے سنتے۔ بعض بچے تو سنتے سنتے نیند کی وادی میں چلے جاتے۔ بعض کو نیند کے جھونکے آتے رہتے،مگر وہاں سے جانے کو راضی نہ ہوتے۔ دیر رات ان کی مائیں اپنے بچوں کو اپنے کمروں اور بستروں میں لے جاتیں۔ اکثر بیگم شادمانی سے کہانی سننے کے بعد ہی بچوں کو نیند آتی۔ انہیں زیادہ تر لوگ شادمانی آپا کہتے۔ ’آپا،ان کے نام کے ساتھ ایسا جڑا گویا ان کی کنیت ہو۔ کیا بچے،کیا بڑے،سبھی انہیں آ پا کہتے۔ حد تو یہ ہو گئی کہ کوئی انہیں شادمانی آپا کہتا،تو کوئی انہیں پھوپھی آپا، پو تے۔ پوتیاں،نواسے۔ نواسیاں تو انہیں نانی آپا اور دادی آپا کہتے۔ ابھی کل ہی تو وہ ایک دلچسپ کہانی سنا رہی تھیں کہ ان کی لاڈلی پو تی سمیہ،جو چھ سال کی تھی ضد کرنے لگی۔
’’ دادی آپا،دادی آپا،ہمیں اپنی کہانی سناؤ نا! ہمیں آپ کی کہانی سننی ہے۔ ‘‘
پوتی کے منہ سے یہ سن کر شادمانی بیگم لمحہ بھر کو چونک گئی تھیں۔ وہ ماضی جو وہ بھول گئی تھیں اور جسے یاد کرنے کی نہ ہمت تھی نہ ضرورت۔ بچی کی فرمائش پر پہلے تو انہوں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔
’’ بیٹا میری کوئی کہانی نہیں،میں تمہیں ’سمارا، پری کی کہانی سناتی ہوں ‘‘
’’ نہیں دادی آپا!ہم نہیں سنتے۔ ‘‘سمیہ نے اس طرح منہ بنایا اور دوسری طرف گھوم گئی،گویا ناراض ہو گئی ہو۔ کتنی پٹاخہ تھی،شیطان کی نانی کہیں کی۔
’’ نانی آپا ! ہم تو آپ کی کہانی سنیں گے بس‘‘ ریحان نے معاملے کو اور الجھا دیا۔
’’ اچھا میں کل سناؤں گی…… ‘‘بیگم شادمانی نے پھر ٹالنے کی کوشش کی۔
’’او کے نانی آپا……‘‘ ریحان بولا۔
’’ میری پیاری نانی آپا….. ‘‘حمیرہ نے بھی ساتھ دیا۔ حنا تو لپک کر ان کی گود میں بیٹھ گئی۔
اس دن تو بات ٹل گئی تھی۔ لیکن بچے کہاں ماننے والے تھے۔ انہوں نے بیگم شادمانی کو اگلے دن وقت مقررہ پر پکڑ ہی لیا۔ بیگم شادمانی بمشکل تمام اس سخت مرحلے کے لئے تیار ہوئیں۔
’’اچھا تو لو سنو۔ ۔ میں تمھیں ایک شہزادے کی،سچ مچ کے شہزادے کی کہانی سناتی ہوں۔ ۔ ۔ ایک نا شہزادہ تھا،واقعی شہزادہ تھا وہ،وہ رنگ میں تو سانولا تھا مگر ذہن اور عقل و فہم میں،اخلاق و کردار میں،خدا ترسی میں،غریب پروری میں اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے پردادا انگریزوں کے زمانے میں ایس پی تھے۔ ان کی انگریزوں سے خوب چھنتی تھی۔ ‘‘
’’دادی، یہ چھنتی،کیا ہو تا ہے ؟‘‘
سمیہ نے بیچ میں ٹوک دیا۔ معصوم سے سوال پر بیگم شادمانی کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور سمیہ کا گال تھپتھپا تے ہوئے بولیں۔
’’چھنتی کا مطلب ……. ہو تا ہے۔ دوستی ہونا،سمجھیں ؟‘‘
’’انگریز تو انگریزی بولتے ہوں گے پھر وہ کیسے سمجھتے ہوں گے ؟‘‘سبحان بھی بول پڑا ’’ارے بھیا،ان کے پردادا بھی انگریزی جانتے تھے اور انگریز ی میں باتیں کرتے تھے۔ ‘‘
’’اچھا سنو ! وہ شہزادہ ریاست دولت پور کا رہنے والا تھا۔ دولت پور بہت بڑا قصبہ تھا۔ اور سیدوں کا قصبہ کہلاتا تھا۔ وہاں زیادہ تر سید آباد تھے۔ اور سب کے سب رئیس تھے۔ دولت پور باغات کے لئے مشہور تھا۔ آم کے باغات میں دسہری،لنگڑا،گلاب جامن، چوسا اور رٹول کی فصل ہوتی۔ آم کے علاوہ لیچی اور امرود کے باغات بھی تھے۔ دولت پور کے نچلے طبقے کے لوگ اور غریب مزدور باغات میں محنت مزدوری کرتے۔ باغات کے علاوہ کھیتی باڑی بھی ہوتی۔ سال میں دو بار فصلیں اگاتے۔ گیہوں، چاول اور مکا کے علاوہ یہ علاقہ گنے کے لئے بھی مشہور تھا چھوٹے بڑے ہر طرح کے کسان تھے۔ کچھ تو خود اپنی کھیتی کرتے۔ زیادہ تر نچلے طبقے کے لوگ امیروں اور رئیسوں کے باغات اور کھیتوں میں کام کرتے۔ باغات کی فصل کا جب موسم آتا تو علاقے کی رونق دیکھنے لائق ہوتی۔ ہر طرف آم ہی آم۔ باغ کے ٹھیکے دو سال کے لئے چھوڑ جاتے۔ ٹھیکے میں سو پچاس پیٹی آم مالک کو الگ سے ملتے۔ جن کا استعمال اکثر لوگ سرکاری افسروں اور دوست احباب کے یہاں تحفے بھیجنے میں کرتے ہیں۔ اس طرح جاڑوں کے موسم میں جب گنے کا موسم ہوتا تو پورے علاقے کی رونق دو بالا ہو جاتی۔ زیادہ تر کسان اپنا گنا،چینی ملوں میں لے جاتے وہاں سے پرچی ملتی،پرچی سے بعد میں بینکوں سے پیسے مل جاتے۔ بہت سے کسانوں نے کو لہو بھی لگا رکھے تھے۔ کو لہوؤں پر گنے سے گڑ تیار کیا جاتا۔ جب گڑ کڑھاؤ میں کھولتا تو اس کی میٹھی میٹھی خوشبو سے پورا علاقہ معطر ہو جاتا۔
میں جس شہزادے کی کہانی تمہیں سُنارہی ہوں۔ اس کا گھر اور اس کا خاندان دولت پور کے پڑھے لکھے لوگوں اور سرکاری عہدوں کی وجہ سے بڑے بڑے دولت مندوں سے زیادہ مشہور تھا۔
’’بچو پتہ ہے اس شہزادے کا نام کیا تھا۔ ؟‘‘
’’نہیں نہیں۔ آپ بتاؤ نا!‘‘ ایک ساتھ سبھی بول پڑے
’’اس کا نام سید قمر الدین تھا۔ قمر یعنی چاند،واقعی وہ شہزادہ پورے علاقے میں چاند جیسا ہی تھا۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ اس کے پردادا سید عبد الحئی انگریزوں کے دوست تھے۔ اور ضلع کی ایس پی تھے۔ اکثر انگریز ان کے گھر مہمان ہوتے۔ جب بھی انگریز آتے۔ عبدالحئی کے گھر دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی۔ سفید چٹے اور سرخ سفید رنگت والے انگریزوں کو لوگ یوں دیکھتے گویا نئی مخلوق ایلنز دنیا میں آ گئی ہو۔ انگریز دن میں وسیع و عریض دالانوں میں آرام فرماتے۔ ان کے آرام کے لئے نوکر چاکروں کی پوری ٹیم لگی ہوئی تھی۔ مشروب آرہے ہیں۔ کھانے کی انواع و اقسام حاضر ہیں۔ انگریز ویسے تو سگار کے شوقین تھے لیکن دولت پور آ کر انہیں حقہ اتنا پسند آیا کہ انہیں اس کی لت لگ گئی تھی۔ ہر دم حقہ تازہ کیا جاتا۔ چلم بھری جاتی رہتی اور انگریز خوبصورت چادر بچھی چارپائیوں اور نواڑ کے پلنگوں پر لیٹے اور بیٹھے حقے کی لمبی سی نے،منہ میں دبائے حقہ گڑ گڑا تے رہتے۔ انہیں حقے کا گڑ گڑانا بہت اچھا لگتا تھا۔ انگریز جب ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی بولتے تو گاؤں اور قصبے کے لوگ ہنسا کرتے۔
’’ اومین! ٹم کیا کرٹا۔ ۔ ‘‘
’’ٹم وہائی،ہنسٹا۔ ۔ ‘‘
اور لوگوں کے پیٹوں میں ہنستے ہنستے بل پڑ جاتے۔ رات کو عبد الحئی انگریزوں کو شکار پر لے جاتے۔ گھنے جنگلوں میں بارہ سنگھا،ہرن،نیلا،سانبھر،پہاڑا اور کبھی کبھی تیندوے کا بھی شکار ہو جاتا۔ انگریزوں کی بندوقیں بہت اچھی تھیں۔ ایک بھی فائر نشانے پر لگتا تو جانور ڈھیر ہو جاتا تھا۔ جانور کے گرتے ہی ملازمین جا کر اسے ذبح کرتے اور گوشت بنا تے۔ انگریزوں کو گوشت کا بڑا شوق تھا۔ وہ بھنا ہوا گوشت اور کباب بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ شکار کے جانوروں کی کھال سکھا ئی جاتی،پھر اس میں دوائیاں اور مسالے لگائے جاتے،بعد میں ان میں بھس اور دوسری ہلکی چیزیں بھر کر ایسا بنا دیا جاتا گویا دوبارہ زندہ ہو اٹھے ہوں۔ پورا جانور،جانوروں کے سر، اور ان کی کھالوں کو مہمان خانے کے بیچ میں،دیواروں پر اور کونوں میں سجایا جاتا۔ مہمان خانے میں داخل ہوتے ہی بعض لوگ تو ڈر ہی جاتے۔ ان سے کیا رعب قائم ہو تا تھا،کیا شان ٹپکتی تھی۔ شکار،دولت پور کے زیادہ تر سیدوں کا شوق بھی تھا اور کمزوری بھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
شہزادہ قمرالدین کے دادا سید نجم الدین اپنے وقت کے بہت بڑے ڈاکٹر تھے۔ دولت پور اور آس پاس کے لوگوں کا علاج کرتے۔ پھر جب جنگِ آزادی کی لڑائی میں گاندھی جی نے ’عدم تعاون ، تحریک چلائی تو سید نجم الدین بھی اس تحریک میں شریک ہو گئے۔
’’دادی،دادی،یہ عدم تعاون تحریک کیا ہے ؟’’حمیرا نے اپنا تجسس ظاہر کیا
بیگم شادمانی مسکرائیں۔ اور بولیں۔
’’بچو تمہیں یہ تو پتہ ہے کہ ہمارے ملک پر انگریزوں کا قبضہ تھا؟‘‘
’’جی ! دادی‘‘
’’انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے لیڈروں نے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں۔ انہیں میں سے ایک تحریک جو گاندھی جی نے چلائی تھی،اس کا نام عدم تعاون تحریک ہے۔ عدم تعاون یعنی ہم ہر کام میں اب آپ کی مدد نہیں کریں گے۔ جب گاندھی جی نے یہ نعرہ دیا تو لوگوں نے سرکاری عہدے چھوڑ دئیے۔ وکیلوں نے وکالت چھوڈدی۔ سرکارکی مدد کرنے اور اس کی مدد لینا،دونوں کام چھوڑ کر لوگ میدان میں آ گئے۔ بچو،اس سے آزادی کی لڑائی کو بہت طاقت ملی۔ ۔ ۔ اونہ۔ ۔ انکھو ۔ ۔ اکھ۔ ۔ کھا ‘‘ اور بیگم شادمانی کو کھانسی آ گئی،کھانسی پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے دوبارہ کہانی شروع کی۔
’’شہزادہ کے والد بہت بڑے تاجر یعنی بزنس مین تھے۔ ‘‘
’’دادی،جلدی سے شہزادے کے بارے میں بتائے نا !’’بچوں نے یک زبان کہا۔
’’بتاتی ہوں !شہزادہ اپنے گھر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے تین بہنیں تھیں۔ بچپن ہی سے شہزادہ بہت ذہین،تیز طرار اور شرارتی تھا۔ شہزادے کی دادی بھی بڑی نیک اور گھریلو خاتون تھیں شہزادے کی ماں معمولی پڑھی لکھی تھیں۔ مگر انہیں پڑھنے کا خوب شوق تھا۔ افسانے اور ناول پڑھنا ان کا جنون تھا۔ وہ خود بھی کہانیاں لکھا کرتی تھیں۔ بہت سمجھ دار خاتون تھیں۔ عورتوں کی تعلیم کی حامی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بچپن ہی سے شہزادے اور اس کی بہنوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔ شہزادے کو دہلی کی جامعہ میں اور اس کی بہنوں کو علی گڑھ تعلیم کے لئے بھیجا۔ شہزادے نے جامعہ میں خوب نام کمایا۔ ہر طرح کے مقابلوں میں ہمیشہ اول آتا۔ بیت بازی کا ماہر تھا اور خود بھی شعر کہنے لگا تھا۔ اس کی نظمیں تو بڑی پر اثر ہوتی تھیں۔ پھر شعر پڑھنے کا اس کا الگ انداز۔ جامعہ سے پڑھنے کے دوران ہی شہزادے کے والد کا انتقال ہو گیا۔ شہزادہ مشکل سے پندرہ سال کا ہو گا۔ اچانک سر سے سایہ اُٹھ جانے سے شہزادے کو بہت رنج و ملال ہوا۔ مگر مرضی ِالٰہی کے آگے سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ شہزادے پر اب گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آ گیا تھا تین تین بہنیں اور ماں،اب سب کچھ اسے ہی دیکھنا تھا۔ اسی لئے اس نے دہلی سے پڑھائی ختم کر کے دولت پور میں ہی پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔
کہانی سناتے سناتے بیگم شادمانی نے دیکھا سمیہ سو گئی ہے۔ حیا اور سبحان بھی اونگھ رہے ہیں۔ باقی بچے بھی کچھ جاگے کچھ سوئے لگ رہے تھے۔
’’ بچو چلو اب اپنے اپنے بستروں میں جاؤ۔ اب کہانی کل ہو گی‘‘
بیگم شادمانی کے کہانی بیچ میں روکنے کے فیصلے سے ناراض ریحان،آنکھوں میں نیند لئے وہاں سے جانے تو لگا مگر جاتے جاتے بولا۔
’’ نانی آپا ! میں نا کل ضرور شہزادے کی آگے کی کہانی سنوں گا‘‘
’’ تھیک ہے۔ خدا حافظ، شب بخیر۔ ۔ ۔ سب کہئے۔ ۔ شب بخیر۔ ۔ ‘‘
’’شب بخیر۔ ۔ ‘‘
سارے بچے ایک ساتھ بول پڑے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بچے جا چکے تھے۔ بیگم شادمانی اپنے بستر پر تنہا رہ گئی تھیں۔ انہیں یاد آیا آج تو انہوں نے عشاء کی نماز بھی نہیں پڑھی۔ گھڑی دیکھی رات کے بارہ بجنے والے تھے۔ انہوں نے وضو کیا اور نماز کی چوکی سنبھال لی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے لگیں۔
’’اے اللہ تو اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرنا۔ اللہ ہم سب کو بخش دینا،میرے بچوں کو نیک راہ پر چلانا۔ ‘‘
بیگم شادمانی کے ایک بیٹا سید ضیاء الدین اور ایک بیٹی سید صبا قمر تھی۔ بیٹی ایک پرائیویٹ کمپنی میں بڑے عہدے پر تھی۔ اس کے شوہر سید غفران ایک بڑی کمپنی میں جی ایم تھے۔ ان کے دو بچے،سبحان اور حیا تھے۔ بیٹا ضیاء میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا۔ اس کی دو بیٹیاں سمیہ اور حمیرا اور ایک بیٹا ریحان تھا۔ سارے بچے چھوٹے تھے۔ چار سال سے دس سال تک کے بچے،جب کبھی گرمی کی چھٹیاں ہوتیں،صبا بھی آ جاتی اور سارے بچے مل کے گھر سر پر اُٹھا لیتے،ساتھ میں دادی اور نانی یعنی بیگم شادمانی کو بھی ساتھ لئے پھرتے۔ بیگم شادمانی پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو تی رہتیں۔ کہانی سنانا ان کا بچپن کا شوق تھا۔ جب وہ چھوٹی تھیں تو اپنی دادی اور نانی سے خوب کہانیاں سنتی تھیں۔ اور اب جب بزرگی نے اپنا لیا تو کہانیاں سنانا،ان کا محبوب مشغلہ بن گیا تھا۔ وہ اپنی دادی۔ نانی کی ادھوری کہانیوں کو پورا کرتیں اور دلچسپ انداز میں کہانیاں سنایا کرتیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ابھی پانچ چھ سال قبل ہی ہوا تھا۔ بھر ا پرا گھر، آندھی میں تنکوں کی طرح بکھر کے رہ گیا تھا۔ بیٹا جاب کے سلسلے میں باہر تھا۔ بیٹی کی شادی ہو چکی تھی،وہ بھی دوسرے شہر میں تھی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اب ان کا کوئی نہیں تھا۔ یوں تو ان کا میکہ بھی دولت پور میں ہی تھا۔ بھائی،بھابھیاں،والدین،سب تھے مگر ان کی ذاتی تنہائی دور کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس بار علاقے کے حالات خراب تھے۔ مظفر نگر فسادات نے گاؤں دیہات اور قصبات میں بھی نفرت کے بیج بو دیے تھے۔ فرقہ پرستی ہر طرف اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہی تھی۔ شہزادے نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی تھی۔ وہ تو انسان دوست تھا۔ غیر مسلموں کے ساتھ اس کی بڑی دوستی تھی۔ پھر وہ سب کی مدد کر نے کے بھی عادی تھے۔ غیر مسلم طلبہ و طالبات کی بھی مدد کرتے۔ انہوں نے آئی اے ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔ لیکن گھریلو مجبوریوں اور ذمہ داریوں نے قدموں میں زنجیر ڈال رکھی تھی۔ باغات کی رکھوالی،بہنوں کی شادی،ضعیف ماں کی امیدیں، جائداد کی دیکھ ریکھ، اور والد کے چھوڑے کاروبار کی نگرانی،اوپر سے ٹرانسفر کے جھمیلے۔ بالآخر انہوں نے نوکری جوائن نہیں کی۔ ویسے بھی شہزادے کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ آگے پیچھے نوکر چاکر،باغات کی لاکھوں روپے کی آمدنی، کھیتی کی زمینوں کی آمد الگ،پھر والد کے چھوڑے کاروبارسے بھی معقول آمدنی کاسلسلہ تھا۔ گھر پر گائے،بھینسیں،گھوڑے،رتھ،بگھیاں اور موٹر تک موجود تھی۔
شہزادے کا ذہن بہت وسیع تھا۔ وہ دل کے بھی بڑے تھے۔ غریبوں، محتاجوں، بیماروں،کی ہر ممکن مدد کرنا ان کا شوق تھا۔
’’ہر ہر مہا دیو۔ ۔ ۔ بول بم۔ ۔ ۔ بول بم۔ ۔ ۔ ‘‘
باہر سے آتی نعروں کی آواز پر بیگم شادمانی یادوں کے کارواں کو چھوڑ کر حال میں واپس آئیں۔ دراصل باہر کا یہ شور کانوڑ یاترا کا شور تھا۔ کیا شہر،کیا قصبہ،کیا دیہات۔ ۔ ،ہر جگہ زعفرانی رنگ اور کان پھوڑتی آوازیں۔
’’بول بم۔ ۔ ۔ بول بم۔ ۔ ۔ ‘‘
اتفاق سے اس بار کانوڑ یاترا اور رمضان ایک ہی وقت آ گئے تھے۔ مسلمان روزے رکھتے،نمازیں پڑھتے، اور ہندو کانوڑ کے لئے ہری دوار جاتے اور بڑی عقیدت کے ساتھ وہاں سے گنگا کا پانی لا کر شو لنگ پر چڑھاتے۔ ویسے تو سب ٹھیک تھا مگر پولس انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے،کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہو جائے۔
شادمانی بیگم،اپنے بچوں کی طرف سے بڑی فکر مند تھیں۔ اب تو یہ بچے ہی ان کی کائنات تھے۔ وہ ان سب کے لئے اور ملک کے لئے ہمیشہ دعا کرتیں۔
’’اے پروردگار! میرے بچوں کی حفاظت فرما،تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ ہمارے ملک میں امن و امان قائم فرما یا خدا! تجھے تیرے نبی کا واسطہ۔ ۔ ۔ ‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلے دن شام ہوتے ہی ریحان ان کے آس پاس منڈلانے لگا تھا۔
’’ بیٹا ابھی جاؤ،کچھ پڑھائی کر لو۔ ‘‘
سمیہ پڑھائی کی شوقین تھی۔ حنا کو بھی پڑھنا اچھا لگتا تھا،وہ دونوں خود کتابیں لے کر بیٹھ جاتیں۔ تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ اچانک شور ہوا اور ضیا اور صبا، ان کے بچے وغیرہ سبھی آ دھمکے۔ بچوں نے اپنے والدین کو بتا دیا تھا کہ دادی آپا،شہزادے کی سچی کہانی سنارہی ہیں۔ تو بچے اپنے والدین کو بھی گھسیٹ لائے۔
’’ امی! ہم بھی سنیں گے کہانی۔ ۔ ۔ ‘‘ ضیا نے جب کہا تو بیگم شادمانی جذباتی ہو گئیں،انہیں اپنے شوہر کی یاد آ گئی۔ وہ اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے بولیں۔
’’کیوں نہیں بیٹا! آؤ، تم بھی بیٹھ جاؤ۔ ۔ ‘‘
’’ ارے حنا، ذرا امی کے لئے ایک کپ چائے لیتی آنا۔ ‘‘
ضیا ء نے اپنی بیوی کو پکارا۔ حنا چائے لے کر آئی تو خود بھی مجلس میں بیٹھ گئی۔ صبا بھی کاموں سے فارغ ہو کر شامل ہو چکی تھی۔
’’ لو سنو! تو بچو ہوا یہ کہ و الد کے انتقال کے بعد شہزادے نے سب کچھ سنبھال لیا۔ پڑھائی بھی کرنی اور کاروبار بھی دیکھنا۔ ۔ کھیتی باڑی،باغات،نوکر چاکر۔ ۔ سب پر انہوں نے اپنا کنٹرول کر لیا تھا۔ شہزادے کو شکار کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے بچپن ہی میں بندوق چلانے اور نشانہ بازی سیکھ لی تھی۔ دراصل دولت پور کے سیدوں میں شکار کے ساتھ ساتھ نشانہ بازی کا بھی شوق تھا۔ کئی بچے تو نشانہ بازی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر نام کما چکے تھے۔
اکژ شہزادہ رات کو شکار پر نکل جاتا۔ صبح تک شکار کھیلتے اور کئی جانور شکار کر لاتے۔ ذبح کر کے گوشت پورے محلے میں تقسیم کر دیا جاتا۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جاتا۔ ایک بار کی بات ہے۔ ۔ ۔ شہزادہ رات میں شکار کھیل رہا تھا۔ ساتھ میں ان کے دوست جو نیپال سے آئے ہوئے تھے، اور ملازمین بھی تھے۔ ایک بارہ سنگھا کے پیچھے جیپ دوڑ رہی تھی۔ اچانک گاڑی کی ہیڈ لائٹس کے سامنے تیندوا آ گیا۔ ڈرائیور مہندر نے زور سے بریک لگائے۔ سارے لوگ آگے کی طرف جھک سے گئے تھے۔ تیندوے کو دیکھ کر سبھی خوفزدہ سے تھے۔ شہزادے نے بندوق سنبھالی، نشانہ لگایا اور فائر کر دیا۔ جنگل کی خاموشی اور تیندوا،دونوں نے دم توڑ دیا۔ شہزادہ جیپ سے کود کر تیندوے کی طرف دوڑ پڑا۔ اچانک مردہ تیندوے میں جان پڑ گئی،وہ زخمی حا لت میں ہی شہزادے پر جھپٹ پڑا۔ ملازمین اور شہزادے کے نیپالی دوست ہکا بکا سے جیپ میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ شہزادے کی مدد کرتا۔ شہزادہ تیندوے سے متصادم تھا۔ تیندوے کی دہاڑ پورے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علاقے کو دہلا رہی تھی۔ ‘‘
بیگم شادمانی تھوڑی دیر کے لئے چائے لینے کو رک گئیں۔ تو ایک ساتھ سوالوں کی بو چھا رہونے لگی۔
’’آگے کیا ہوا دادی…..‘‘
’’کیا شہزادہ مر گیا ……‘‘
’’کیا شہزادے کو تیندوے نے کاٹ لیا۔ ‘‘
’’بس کرو۔ میں بتاتی ہوں۔ شہزادے کے ہاتھ میں بندوق ضرور تھی لیکن اس کے کارتوس ختم ہو چکے تھے۔ شہزادہ بہت ہمت والا تھا۔ اس نے بندوق کو لاٹھی کی طرح استعمال کر لیا۔ دو تین وار زخمی تیندوے پر کئی وار خاصے سخت تھے۔ تیندوا خطر ناک دہاڑوں کے ساتھ زمین بوس ہو گیا۔ پیچھے سے ملازمین دوڑے اور زخمی شہزادے کو جیپ میں ڈال کر فوراً استپال لے آئے۔
’’پھر کیا ہوا…… ‘‘سوال نے پھر ہمت کی۔
’’کیا شہزادہ بچ گیا ……. ‘‘دوسراسوال بھی قطار میں لگ گیا تھا۔
’’کئی ہفتے کے علاج کے بعد شہزادے کے زخم بھر گئے تھے۔ اب وہ پہلے کی طرح صحت مند ہو گیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ شہزادے کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اب تو شہزادہ راتوں رات ا سٹار بن گیا تھا بس … کہانی ختم … ‘‘
’’نہیں۔ نہیں کہانی اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئی۔ ‘‘حمیرا نے احتجاج درج کیا
’’دادی یہ تو چیٹنگ ہے …. ’’سمیہ بھی بول پڑی۔ ’’ہم تو پوری کہانی سنیں گے۔ ‘‘
’’شہزادے کی شادی ہوئی یا نہیں دادی…….‘‘ بچوں نے اور ساتھ ہی بچوں کے والدین نے بھی شور مچانا شروع کر دیا۔
’’ اچھا،چلو تم کہتے ہو تو اس کی شادی بھی کردا دیتے ہیں۔ ‘‘
بیگم شادمانی یہ کہتے ہوئے ایک عجیب سے جذبے سے معمور ہو گئی تھیں۔ ان کی آواز رندھنے لگی تھی۔
’’بچو !شہزادے کی شادی کی کہانی سنو گے ؟‘‘
’’ ہاں۔ سنیں گے …. ‘‘ سب یک زبان تھے۔
’’تو سنو،اس سے قبل کہ شہزادے کی شادی ہو میں تمہیں شہزادے کی ہونے والی بیوی،یعنی شہزادی کی کہانی سناتی ہوں …. …. ‘‘
’’ واہ ! ۔ اب آئے گا مزہ ……… ‘‘ریحان خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا۔ وہ اپنی امی کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس دولت آباد کا میں ذکر کر رہی تھی۔ اسی میں سیدوں کا ایک اور باوقار گھر انہ تھا،سید سلیم الدین کا پورے علاقے میں چرچا تھا۔ ان کا بڑا رعب داب تھا۔ ان کے والد سید اللہ راضی بہت بڑے زمین دار تھے۔ ان کے گھر پر ہی عدالت لگا کرتی تھی۔ اس خاندان میں پیسہ بھی تھا اور سیاسی قوت بھی۔ آس پاس کے علاقے میں شہرت تھی، جب دولت پور میں پنچایتی انتخاب شروع ہوئے تو اسی گھرانے کے لوگ چیرمین چنے گئے۔ نصف صدی سے بھی زائد سے اس گھرانے کے لوگ چیرمین بنتے آئے ہیں۔ سیدنسیم الدین کے دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ سید نسیم الدین بہت ملنسار،خوش اخلاق،ماہر سیاست داں اور بڑے زمین دار تھے۔ وہ عبادت و ریاضت میں کافی آگے نکل چکے تھے۔ ان کی بزرگی کے بھی بہت چرچے تھے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی شادیہ بے حد خوبصورت تھی۔ بارہ۔ تیرہ سال کی ہی تھی کہ اس کی خوبصورتی اس قدر نکھری کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔ گول مٹول سا چہرہ،پتلے پتلے ہونٹ،موتی جیسے چمکتے دانت،آنکھیں گویا پیالوں میں سمندر،بوٹا سا قد،بالکل گوری چٹی،ٹھوڑی پر کا لا مسہ گویا قدرت نے نظر بد سے بچا نے کو ہمیشہ کے لئے لگا دیا ہو۔ کالے سیاہ لہراتے بال جیسے برسات کے موسم میں آسمان پر لہراتا بادل کا ٹکڑا۔ چال میں پھرتی،ہرن بھی شرما جائے۔ کام میں چستی،وقت خود پر لجائے۔ آواز میں مٹھاس اور سریلاپن ایسا جو سنے،سنتا ہی رہ جائے۔ وہ واقعی شہزادی تھی۔ نہیں دولت پور کی سرزمین پر اُتر آئی ایک پری تھی۔ وہ ننھال کی طرف سے بھی بڑے زمین دار سید غلام مصطفٰی کے خاندان اور ددھیال کی طرف سے بھی نامور خاندان سے تھی۔ دونوں خاندانوں میں بلکہ پورے دولت پور میں کوئی لڑکی اس کے ہمسر نہیں تھی۔ گاؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی کو علی گڑھ بھیچ دیا گیا۔ وہاں بھی شہزادی نے سب کا دل موہ لیا۔ استانیاں اس کے حسن پر فدا تھیں۔ سہیلیاں اسے دیکھ کے عش عش کرتیں۔
’’دادی ……. ذرا رکو،نا…….. یہ بتاؤ کیا وہ آپ سے بھی خوب صورت تھی؟‘‘سمیہ نے معصومیت سے ایسا سوال کیا کہ بیگم شادمانی،ایک لمحے تو چکر اکے رہ گئیں۔ پھر سنبھل کر بولیں۔
’’سمیہ بیٹا،میں کوئی خوبصورت ہوں۔ میری عمر دیکھو پھر اس کی عمر ……. کتنا فرق ہے ؟‘‘
سمیہ نے غلط نہیں کہا تھا۔ بیگم شادمانی ساٹھ کی ہونے کے بعد بھی بہت خوبصورت اور چاق چوبند تھیں۔ ان کے چہرے سے نور ٹپکتا تھا۔ ان کی آنکھیں بہت پر کشش تھیں۔
’’اچھا بچو! چلو بس۔ ۔ اب کہانی یہیں ختم۔ ۔ پھر کل ملیں گے۔ ‘‘
’’دادی، دادی۔ ۔ ‘‘ سمیہ برا سا منہ بنا کر بولی۔
’’نانی۔ ۔ ۔ اور کہو نا۔ ۔ ۔ شہزادی کے بارے میں اور بتاؤ نا۔ ۔ ۔ ‘‘ حنا نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں اب کل۔ ۔ ۔ چلو۔ ۔ سب اپنے بستروں میں،کل اسکول بھی جانا ہے۔ ‘‘
اور سب ایک ایک کر کے یوں چلے گئے،جیسے میلے کی دوکانیں اُٹھ گئی ہوں۔ بیگم شادمانی نے نماز چوکی سنبھال لی۔ دیر رات تک عبادت میں مشغول رہیں اور پھر نیند نے انہیں اپنی نرم گرم بانہوں میں چھپا لیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انہوں نے دیکھا وہ ایک دکان کے اندر کھڑی ہے۔
’’ ذرا وہ سوٹ دکھا دیں۔ ہاں وہی ہرے رنگ کا۔ ‘‘
’’ یہ کس ریٹ کا ہے ؟ ‘‘
’’بہن جی ! یہی ہزار روپے کی رینج کا ہے۔ آپ کو جو کچھ بھی چاہئے لے لیجئے،مناسب پیسے لگ جائیں گے۔ ‘‘
’’اچھا تو وہ سفید،سیلف والا، اور وہ،ہلکا نیلا بھی نکال دیں۔ ان سب کے پیسے بتا دیں ‘‘
’’ بہن جی چار ہزار دو سو ہوتے ہیں،آپ چار ہزار دے دیں۔ ‘‘
وہ ابھی پیسے گن ہی رہی تھی کہ ایک آواز نے اسے حیران کر دیا۔
’’ میرے لئے بھی ایک شرٹ لے لو۔ ۔ ‘‘
یہ آواز تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔ ابھی ایک حیرت سے پردہ اُٹھا بھی نہیں تھا کہ انہوں نے دیکھا،ضیا ء کے ابو دوکان میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ بہت کمزور لگ رہے تھے۔ وہ مبہوت سی انہیں دیکھے جا رہی تھی کہ اچانک وہ باہر کی طرف چلے گئے۔ دوکان دار کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔
’’ بہن جی! یہ بل ہے آپ کا‘‘
دوکاندار نے بل اور لفافے تھما دئے تھے،وہ جلدی سے دوکان کی سیڑھیاں اترتی ہوئی باہر آئی، اور ایک طرف کو چل دی،ادھر ادھر دیکھتے ہوئے وہ ان کو تلاش کرتی رہی۔ مگر ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ یا خدا یہ کیا تھا؟ بہت زور کے بریک لگنے اور ہورن کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ ایک کار سے ٹکراتے ٹکراتے بچی، اور اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔
اگلے دن اس نے غریبوں میں کپڑے صدقے کر دئے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک صبح جب وہ فجر کی اذان پر سو کر اُٹھیں تو انہیں ہلکا ہلکا بخار تھا۔ نماز پڑھ کروہ پھر بستر میں بیٹھ گئیں اور تسبیح پڑھنے لگیں۔ اتنے میں ضیاء ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’ السلامُ علیکم امی جان۔ ‘‘
شادمانی بیگم نے سلام کا جواب دیا۔ بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا،ہاتھ ذرا چہرے سے چھوا تو ضیاء اچانک اچھل گئے۔
’’ارے امی! آپ کو تو بخار ہے۔ آپ لیٹ جائیں۔ چائے وغیرہ پی کر دوا لے لیں۔ میں ابھی حنا کو بھیجتا ہوں ‘‘
اور تھوڑی دیر میں حنا ٹکوزی میں چائے،دودھ،چینی اور بسکٹ لئے حاضر ہو گئی۔
’’امی لیجئے ! چائے لیجئے۔ ‘‘ حنا نے چائے بنا کر شادمانی بیگم کو دی اور خود بھی چائے لے کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
’’امی اب آپ آرام کیا کریں۔ آپ کی عمر ایسی نہیں ہے۔ ‘‘
’’ میں کیا کرتی ہوں بیٹا،بس تھوڑا ٹہل لیتی ہوں،دو ایک گھنٹے تلاوت،نمازیں اور بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتی ہوں،بس۔ ۔ یہ بھی کوئی کام ہیں۔ ‘‘
’’امی اب آپ کو زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ ان چھوٹے موٹے کاموں سے بھی تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ بستر پر ہی نماز ادا کر لیا کریں۔ اور یہ کہانی وہانی سنانا آج سے بند۔ دو تین گھنٹے آپ بے آرام رہتی ہیں۔ ‘‘حنا کو اپنی خوش دامن جو اس کی پھوپھی بھی تھیں،کا بہت خیال تھا۔
’’نہیں بیٹا! اس طرح تو میں اکیلی ہو جاؤں گی اور زیادہ بیمار پڑ جاؤں گی،پھر مجھے تنہائی اور اکیلا پن کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ ‘‘
’’اچھا اب آپ آرام کریں۔ اور یہ دوا لے لیں ‘‘
حنا نے شادمانی بیگم کو تازہ پانی سے دوا کھلائی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ شادمانی بیگم نے بہو کو دعائیں دیں۔ اور بستر پر دراز ہو گئیں۔ انہیں اپنی بہو،حنا پر بڑا ناز تھا۔ خود مانگ کر لائی تھیں بھائی سے۔ حنا نے واقعی گھر سنبھال لیا تھا۔ حنا کی شادی سے، ان کے میکے سے رشتہ داری ایک بار پھر نئی ہو گئی تھی۔ شروع شروع تو حنا انہیں پھوپھی آپا ہی کہتی تھی۔ لیکن شادمانی بیگم نے امی کہلوانا شروع کیا تو پھر حنا امی کہنے لگی تھی۔ شادمانی بیگم کو لگتا ان کے ایک نہیں دو بیٹیاں ہیں۔ وہ دونوں میں کوئی فرق نہیں پاتیں،بلکہ حنا خدمت کے معاملے میں صبا سے بہت آگے تھی۔ روزانہ ان کے پاؤں دبانا،کھانے پینے کا خیال رکھنا،کپڑے دھلوا کر،پریس کروانا، اور ہمیشہ طبیعت کے بارے میں پوچھتے رہنا،حنا کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکول سے آنے اور کھانے سے فارغ ہو نے کے بعد سمیہ دادی کے پاس آ گئی اور بولی۔
’’ دادی آپا ! اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ ؟‘‘ پھر وہ اپنے ہاتھ جوڑ کر خدا سے دعا مانگنے لگی۔
’’ اے اللہ میاں،ہماری دادی کو ٹھیک کر دے،ورنہ ہماری کہانی،بیچ میں رہ جائے گی۔ ‘‘
شادمانی بیگم کو سمیہ پر بہت پیار آیا۔ انہو نے سمیہ کو سینے سے بھینچ لیا، اور خوب پیار کیا۔ اللہ نے سمیہ کی دعا سن لی تھی۔ اور اس رات ایک بار محفل پھر سجی۔ بچے بڑے سبھوں نے شادمانی بیگم کو گھیر لیا تھا۔ اور حنا کے منع کرنے کے باوجود شادمانی بیگم،بچوں کی فرمائش اور اپنی کہانی سنانے کی خواہش کو دبا نہیں پائیں۔ ایک ادھوری کہانی پھر شروع ہو گئی۔
’’ ہاں تو بچو! میں کہہ رہی تھی کہ شہزادی ابھی پڑھ ہی رہی تھی کہ اس کے رشتے آنے لگے۔ پر شہزادی کے والدین ابھی تیار نہیں تھے۔ مگر جب شہزادہ کا رشتہ آ یا تو سب نہ صرف تیار ہو گئے بلکہ بے انتہا خوش بھی۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرنے لگیں۔ رشتہ منظور کر لیا گیا۔ شہزادی چودہ سال کی ہی تھیں کہ ان کی منگنی کی رسم ادا کر دی گئی۔
کیا شاندار پروگرام منعقد ہوا۔ شہزادے کی بہنیں آئیں۔ حویلی کو خوب سجایا گیا۔ دولت پور میں شہرت ہو گئی۔ شہزادی نے گہرے نیلے رنگ پر سنہرے رنگ کے کام والا بے حد دیدہ زیب لباس پہنا تھا۔ طلائی زیور خود پر رشک کر رہے تھے۔ ان کا حسن آنکھوں میں اترا جا رہا تھا۔ مانو دولت پور کے اندھیری زمین پر،آسمان سے چاند اتر آیا ہو۔ جو بھی دیکھتا،دیکھتا ہی رہ جاتا۔ شہزادے کی بہنیں تو ان پر واری واری جا رہی تھیں۔ دولت پور کی میراثنیں،ڈھولک پر تال لینے لگیں۔ باہر بینڈ باجے کا شور،ادھر شہزادے کی کو ٹھی میں رونق اور شادابی نے ہر طرف شامیانے لگا رکھے تھے۔ بجلی کے قمقمے،رنگ برنگی روشنیاں، آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ شاندار دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہزاروں مہمان مدعو تھے۔ دولت پور کے ہر خاص و عام کی موجودگی۔ ایسا لگ رہا تھا گویا لنگرِ عام ہو،جوق در جوق لوگ آ اور جا رہے تھے۔ شہزادے نے زر دوزی والی سفیدشیروانی پہنی تھی،جس میں ان کے مردانہ وقار میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پورے دولت پور میں شہزادے اور شہزادی کی منگنی کی دھوم تھی۔
شہزادی اتنی خوبصورت لگ رہی تھی گویا ابھی ابھی پرستان سے اتر ی ہو۔ گھر کی بزرگ عورتوں نے انگلیاں چٹخا کر بلائیں لیں۔
’’ خد آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھے۔ ‘‘
ہم عمر سہیلیاں اسے چھیڑ رہی تھیں۔ کوئی کچھ کہتی تو کوئی کچھ۔ ۔
’’ او،شہزادے کی شہزادی۔ ۔ ۔ چاند کی چاندنی۔ ۔ ۔ ‘‘
شہزادی، جب شہزادے کے بارے میں سوچتی تو اس کی آنکھیں جھک جاتیں۔ چہرے پر حیا کے رنگ محوِ سفر ہو جاتے۔ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شہزادہ اس کی قسمت میں ہو گا۔ ہاں تصور میں ضرور شہزادے کو بسا رکھا تھا۔ شہزادے کی شرافت،وضع داری اور اخلاق و اطوار کے قصے اس نے بہت سنے تھے۔ منگنی کے کچھ دن بعد،شاید عید کا موقع تھا۔ شہزادہ قمرالدین،شہزادی کے محلے میں آئے تھے۔ ان کے گھر بھی آ گئے۔ وہ زنان خانے سے اپنی ہی دھن میں نکل رہی تھی کہ اچانک شہزادے سے سامنا ہو گیا۔
’’ ارے آپ !ہماری تو عید ہو گئی۔ ۔ ۔ ‘‘
شہزادی نے سر نیچے جھکا لیا تھا۔ اس نے آج پہلی با ر شہزادے کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ اسے تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا۔ وہ تو شہزادے کے شرارت بھرے جملے پر چونکی۔
’’حضور آپ تو واقعی عید کا چاند لگ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
شہزادے کی حاضر جوابی کے بھی چرچے اس نے سنے تھے۔ وہ بھی کوئی کم نہیں تھی۔ اس نے سوچا جب قمر مخاطب ہے تو چاندنی کو بھی ساتھ دینا چاہیے۔
’’ جی! ویسے چاند تو آپ کے نام کا حصہ ہے ‘‘
شہزادہ کہاں ہار ماننے والا تھا۔ اس نے نہلے پر دہلہ مارتے ہوئے جواب دیا۔
’’ جی،ہاں اب وہ میری زندگی کا بھی حصہ بننے والا ہے۔ ‘‘
اور شہزادی،شرم کے مارے سرخ ہو گئی تھی۔ کوئی جواب نہیں بن پڑا تو کمان سے نکلے تیر کی مانند واپس زنان خانے میں سما گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منگنی کے بعد شہزادی کے دل میں،شہزادے کی محبت روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر وقت شہزادے کا خیال،مستقبل کے منصوبے بنانے لگتی کہ شہزادے کے ساتھ پہاڑوں پر گھومنے جائے گی۔ باہر ملکوں میں گھومے گی۔
پھر وہ دن بھی آ گیا جب دونوں گھرانوں میں شادی کے شادیانے بجنے لگے۔ شادی کے وقت شہزادی عمر اٹھارہ سال کی ہی تھی جبکہ شہزادے خاصی پختہ عمر میں داخل ہو چکے تھے۔ ان کی عمر ستائس اٹھائس رہی ہو گی۔ سہیلیوں کے شہزادے کی عمر پر تبصرہ کرنے پر وہ کہتی۔
’’عمر سے کچھ نہیں ہوتا،مردوں کی عمر تو ان کی پختگی اور ذمہ دار ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ ‘‘
’’بھئی کوئی ایک گلاس پانی پلا دو۔ ۔ ‘‘شادمانی بیگم کا گلا سوکھ رہا تھا۔ پانی پینے کے بعد انہوں نے کہانی پھر شروع کر دی۔
’’ شادی کا کیا بیان کروں۔ ۔ ؟ پورا دولت پور شادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔ کئی کئی دن قبل سے دونوں طرف رسومات کا سلسلہ جاری تھا۔ عورتیں رات رات بھر شادی کے گیت گاتیں۔
’’ بنو تیرا جھومر لاکھ کا ری۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بنو تیرا ٹیکہ ہے ہزاری۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ کونے میں کیوں بیٹھی لاڈو،آنگن میں پکار ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کار ہے دروازے کھڑی دولہا بھی تیار ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
کبھی ہلدی کی رسم ہو رہی ہے،تو کبھی مہندی لگائی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گانے بھی بدل رہے ہیں۔ فلمی گانوں پر جھوم جھوم کر ملا زمائیں اور ان کی لڑکیاں،رقص کر رہی ہیں۔ عورتوں کا ہجوم ہے۔ زنان خانے میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے کاموں کے علاوہ ہنسی مذاق،چھیڑ چھاڑ اور عشق و معاشقے میں بھی کونے کھدروں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ آخر بارات کا دن آ گیا۔ سید نسیم الدین کی حویلی اور آس پاس کی عمارتوں کو سجا یا گیا تھا۔ ہر طرف روشنی کی چادر پھیلی ہوئی تھی،دن کا سا سماں تھا۔ بارات اور مہمانوں کے استقبال کا شاندار اہتمام کیا گیا تھا۔ مرکزی وزراء،ایم پی، ریاستی وزیر،ایم ایل اے،میئر،کمشنر،کے علاوہ پولس انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ انواع و اقسام کے کھانوں کے اسٹال لگے تھے۔ ویج اور نان ویج کے علاقے الگ الگ۔ پھر خواتین کا انتظام بالکل الگ۔ کبابوں کے الگ اسٹال،آیس کریم الگ، میٹھے کئی اقسام کے۔ چائے کافی،چاٹ پکوڑی،بچوں کے کھانے اور کھیلنے کے سامان الگ،مشروبات کی تو بات ہی کیا؟پنواڑی،خوشبو دار پان کھلا رہے ہیں۔ شہنائی بجانے والے،اپنی دھنوں پر لوگوں کو مست کر رہے ہیں۔ اُدھر شہزادے کے گھر بارات کا اہتمام جاری ہے۔ ہاتھی،گھوڑے،بگھی،رتھ،موٹر کار،سج دھج کے تیار ہیں۔ گولن دار،بارات کے آگے آگے گولے داغتے جاتے ہیں۔ بارات ایک طویل قافلے کی شکل میں جب سید نسیم الدین کی حویلی پہنچی تو اس کا شانداراستقبال کیا گیا۔
دو،رویہ قطاروں میں ایک ہی رنگ کے کپڑے پہنے لڑکوں نے بارات کا سلامی کرتے ہوئے استقبال کیا۔ ہر باراتی کو گلاب کا ایک پھول پیش کیا جاتا اور فضا میں خوشبو کے فوارے چھوڑے جاتے۔ وسیع و عریض احاطے،میں جس کے تین ا طراف دالان تھے۔ درمیان میں شامیانے لگے تھے۔ بیچوں بیچ ایک اسٹیج بنایا گیا تھا۔ باراتیوں کے بیٹھنے کے لئے صوفے اور کرسیاں موجود تھیں۔ بارات کے نشست اختیار کر نے کے بعد مشروبات کا دور شروع ہوا۔ جو کافی دیر تک چلتا رہا۔ نکاح کا وقت آیا تو بڑی سادگی سے سارے مراحل پورے ہوئے۔ دونوں طرف کے لوگوں نے اپنی اپنی بندوقوں کا مظاہرہ کیا۔ فضا گولیوں کے دھماکوں سے گونج اُٹھی۔ کھانے سے فارغ ہو کر رخصتی کی تیاری ہوئی۔ رخصتی سے قبل دولہے میاں کو اندر زنان خانے میں سلامی کے لئے لے جا یا گیا۔ عورتوں کے ہجوم میں شہزادے کو دیکھنے کی اور تحفے دینے کی ہوڑ سی لگی تھی۔ چلنے کو ہوئے تو پتہ چلا کہ جوتے چوری ہو گئے ہیں۔ شہزادی کی سالیاں آ گئیں۔
’’ ہم تو بہت سارے پیسے لیں گے،تب جوتے دیں گے۔ ‘‘
شہزادے کی حسِ مزاح بھڑک اُٹھی۔
’’ ٹھیک ہے آپ جوتے رکھ لیں،ہم دوسرا جوڑا بھی لائے ہیں۔ ‘‘
اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے ساتھ آئے ملازمین سے دوسرا جوڑا لانے کو کہا۔
’’ چل ہٹ! یہ نہیں چلے گا۔ ۔ ‘‘ شہزادی کی پھوپھی زاد نے نوکر کو ڈانٹا۔
’’ پیسے نکالو۔ ۔ ۔ پورے دس ہزار لوں گی۔ ۔ ۔ ‘‘ پھر وہ شہزادے سے مطالبہ کرنے لگیں۔
’’ ذرا سا ریٹ کم ہو سکتا ہے۔ ۔ ؟‘‘
’’ بالکل نہیں ! ہم اتنی پیاری شہزادی جو دے رہے ہیں۔ ‘‘
’’ چیک چلے گا۔ ۔ ‘‘ شہزادہ شرارت کا کوئی موقع گنواتا نہیں تھا۔
’’ شہزادی بھی ادھار رہی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اچھا بابا۔ ۔ ‘‘
اور شہزادے نے روپے نکال کر دئے اور پھر جوتے ان کے قدموں میں آ گئے۔
شہزادی کے لئے ایک بہت خوبصورت ڈولی کا انتظام کیا گیا تھا۔ کہاروں نے ڈولی اُٹھائی۔ شہزادی کی بہنیں آئیں اور شہزادی کو آخری بار ڈولی میں پانی پلا کر رخصت کیا۔ بارات دھوم دھام سے شہزادے کے محلے میں آئی تو یہاں شہزادی کے استقبال میں زمین و آسمان ایک کر دئے گئے۔ آتش بازی اور بندوقوں کے فائر ہوتے رہے اور شہزادی کو عورتوں کا ایک گروہ کوٹھی کے اندر لے کر چلا۔ شہزادہ بھی ساتھ ساتھ تھا۔ اچانک شہزادے کی بہنوں نے راستہ روک لیا اور بولیں۔
’’بھیا،پہلے ہمارا نیگ دو،نہیں تو ہم اندر جانے نہیں جانے دیں گے۔ راستہ بند….. ‘‘
شہزادے نے اپنے گلے سے سونے کی چین اتاری اور نوٹوں کی ایک گڈی بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’لیجئے اب تو راستہ مل جائے گا۔ ‘‘
اور اس طرح شہزادی کو ان کے کمرے تک پہنچا دیا گیا۔ کمرہ اس طرح سجایا گیا تھا کہ ہر طرف سے خوشبو کے جھونکے آرہے تھے۔ موتیا اور موگرا کے پھولوں کی لڑیاں الگ سماں پیش کر ر ہی تھیں۔ گلاب کے پھولوں کا رنگ اور خوشبو فرحت بخش رہی تھی۔ محلے کی عورتوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ہر عورت شہزادی کو دیکھ کر کہتی
’’چاند کا ٹکڑا ہے۔ اللہ دونوں کو خوش رکھے۔ ‘‘
منھ دکھائی میں زیورات اور پیسوں کی بو چھار ہو رہی تھی۔
’’ارے،ذرا پانی لاؤ،میرا تو حلق خشک ہو گیا۔ ‘‘اچانک شہزادی بیگم رک گئی تھیں۔
کہانی نے سب کو مٹی کی مورتیوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ سب اتنے محو تھے کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ رات کے بارہ بج چکے ہیں۔
حنا نے پانی لا کر دیا۔ اور کہا
’’امّی اب بس کیجئے۔ پھر کل سن لیں گے۔ ‘‘
’’ نہیں۔ نہیں۔ ہم تو آج ہی سنیں گے۔ ‘‘ بچے مچل گئے۔
’’نہیں چلو۔ صبح اسکول بھی جانا ہے۔ دیر سے سوؤ گے تو آنکھ نہیں کھلے گی ‘‘ اور بحالتِ مجبوری، مجلس برخواست ہو گئی۔ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے۔ شادمانی بیگم نے بھی اللہ سے لو لگا لی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ہاں تو یہ ہوا کہ ….. ‘‘
اگلے دن شادمانی بیگم نے کہانی کو یوں شروع کیا۔
حجلۂ عروسی میں شہزادے اور شہزادی کا ملن ہوا۔ ایک طرف ٹیپ رکاڈر سے گانے بج رہے تھے۔ محمد رفیع کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی۔
’’دو ستاروں کا زمین پر ہے ملن آج کی رات ……. ‘‘
واقعی آج دو ستاروں کا ملن تھا۔ دو بڑے گھرانوں کا ملن تھا۔ دولت پور کے لئے تاریخی دن تھا۔ پورے علاقے میں اس شادی کولے کر خوب چرچے تھے۔ کوئی دعوت کا ذکر کرتا،تو کوئی بارات کی رونق کی بات کرتا۔ کسی کی زبان پر شہزادی اور شہزادے کی جوڈی کی تعریف …….. ہر طرف خوشیوں کا رقص،جذبات اور امنگوں کے میلے،بہنوں اور ماں کے ارمانوں کی تعبیریں تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وقت کا پرندہ،پرواز کرتا رہا،دولت پور دن بہ دن ترقی کرتا گیا،شہزادہ اور شہزادی میں اتنی محبت تھی کہ دوسروں کے لئے مثال تھی۔ شہزادہ ہر وقت شہزادی کا خیال رکھتا۔ جہاں شہزادی قدم رکھتی،شہزادہ اپنی پلکیں بچھا دیتا۔ شہزادی نے بھی اپنے حسن اور اخلاق و کردار سے شہزادے کی والدہ اور ان کی بہنوں اور دیگر افراد کا دل جیت لیا تھا۔ دونوں نے مل کر شہزادے کی سبھی بہنوں کی شادی کے فرایض بھی ادا کئے۔ شہزادی اور شہزادے کو خوشی سجدے کرتی رہی۔ ان کے دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ بچے بہت خوبصورت تھے۔ شہزادے کے گھر رونق میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ ان سبھی خوشیوں کے لئے شہزادی کا احسان مند ہوتا کہ جب سے شہزادی نے اس گھر میں قدم رنجہ فرمائے ہیں گھر خوشیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔
دولت پور کے پاس کوئی ۲۰ کلو میٹر پر جہانگیر آباد تھا۔ شہزادے نے بچوں کی تعلیم کے سبب اپنی ایک رہائش شہر بنا لی تھی۔ اب زمانہ بدل چکا تھا۔ پُرانے اسکول کا لج،واقعی پرانے ہو گئے تھے۔ اب انگریزی کا زمانہ تھا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کا بول بالا تھا۔ شہزادے نے دونوں کا داخلہ کانوینٹ اسکول میں کرا دیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’پھر ایک دن وہ سیاہ رات آئی۔ جس کی سیاہی بہت خطر ناک تھی۔ وہ رات،وہ رات۔ ۔ ۔ ‘‘
کہتے کہتے بیگم شادمانی کی آواز بند ہو گئی۔
’’نانی۔ ۔ ۔ نانی…… کیا ہوا۔ ‘‘
ریحان نے آگے بڑھ کر نانی کی پیٹھ سہلائی۔ اور حنا جلدی سے ایک گلاس پانی لے آئی۔ پانی پی کر شادمانی بیگم تازہ دم ہوئیں۔ جذبات پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے کہانی کو جاری رکھا ……
’’وہ رات بہت خطر ناک تھی۔ شہزادہ کھانا کھا کر چہل قدمی کر رہا تھا۔ کہ اچانک انہیں دل کا شدید دورہ پڑا۔ کسی طرح سنبھل کر وہ وہیں بیٹھ گئے۔ انہیں گھر لایا گیا۔ ان کی حالت خراب ہو رہی تھی انھیں پسینہ آ رہا تھا۔ ڈاکٹر ز کو بلا یا گیا۔ اسپتال کے ہارٹ سیکشن میں انہیں مصنوعی سانس پہچانے کی کوشش کی گئی۔ بجلی کے شاک سے بھی کام لیا گیا۔ مگر سب بے سود ثابت ہوا۔ شہزادے کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ اسپتال سے جب جسدِ خاکی لایا گیا۔ تو حویلی میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔ ہر کوئی شہزادے کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ شہزادی کا تو بہت ہی برا حال تھا۔ وہ اس اچانک افتاد سے ایسی ہو گئی گو یا سانپ نے ڈس لیا ہو۔ آواز بند،چہرے کا رنگ زرد،آنکھوں میں ویرانی ہی ویرانی۔ انہیں کچھ بھی احساس نہیں تھا کہ کیا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے شہزادے کا جامد وساکت جسم دیکھا،تو اچانک جیسے ندی پر لگا باندھ ٹوٹ گیا ہو،شہزادی نے دہاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا تھا۔ لوگ انہیں سنبھال رہے تھے مگر لوگوں کو کیا پتہ شہزادی کا کیا کھو گیا تھا۔ وہ تو تہی دامن ہو گئی تھی۔ بھیڑ میں تنہا کی مثال شہزادی پر فٹ ہو رہی تھی۔
اگلے دن جنازے میں ہزاروں کی بھیڑ۔ ۔ ۔ دولت پور میں ایسا جنازہ کبھی نہیں ہوا۔ جنازہ جب قصبے سے باہر نکلا تو دکاندار،ٹھیلے والے،کاریگر،مزدور، جوق در جوق جنازے میں شریک ہوتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا دولت پور کی سب سے قیمتی دولت ہمیشہ کے لئے رخصت ہو کر جا رہی ہے۔ ۔ دولت پور کے محلے ویران تھے۔ ہر طرف شہزادے کا ذکر،اس کے اخلاق و کردار کے تذکرے،مزدوروں،کام والوں،کی زبانوں پر ان کے احسانات کا بیان۔ ہر زبان پر یہی تھا۔
’’بھیا ایسے تھے،بھیا ویسے تھے،بھیا نے ہمیں زندگی دی۔ ‘‘
تین بہنوں کا بھائی،ماں کی آنکھوں کا اکیلا ٹمٹماتا چراغ …..اندھیرے سے لڑتے لڑتے،روشنی پھیلاتے پھیلاتے اچانک غائب ہو گیا تھا۔ ایک سورج کو گھنے سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شادمانی بیگم کی آواز رندھ گئی تھی۔ بچے بھی رونے لگے تھے۔ صبا،ضیا، اور حنا کی بھی ہچکی بندھ گئی تھی۔
اچانک شادمانی بیگم نے زور کی ہچکی لی۔ اور وہ ایک طرف کو لڑھک گئیں۔
’’امّی!!! ‘‘ ضیا،حنا اور صبا ان کے بستر کی طرف لپکے۔
’’دادی۔ ۔ دادی۔ ۔ نانی۔ ۔ نانی‘‘ بچے بلک پڑے
فوراً ڈاکٹر کو بلا یا گیا۔ ڈاکٹروں نے گردنیں جھکا لیں تھیں۔
گھر میں کہرام مچ گیا۔ قصّہ گو خاموش ہو گیا تھا۔ کیسی کہانی ؟کہاں کے قصے سنانے والے ؟کیسے سامع ؟سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ بچوں کی چیخیں،عورتوں کی آہیں،کوٹھی انسانوں کے سمندر کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وقت دبے قدموں گذرتا رہا۔ دن،مہینے، اور مہینے سال تبدیل ہو تے رہے۔
سمیہ پہلے بیگم سمیہ اور پھر سمیہ دادی بن گئی تھی۔ اور اسے بچوں نے گھیر رکھا۔ اس نے کہانی شروع کی
’’ایک تھی شہزادی ……. ‘‘
’’ہاں ایک تھی شہزادی،اس کا نام تھا شادمانی ……. ‘‘
’’سچی کہانی ہے یہ بچو !شادمانی بیگم کو ہم نے دیکھا تھا۔ ہم نے ان کے منہ سے کہانیاں سنی تھیں۔ لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہماری دادی شادمانی بیگم ہی دراصل شہزادی تھیں۔ وہ اپنی اصل کہانی سنا رہی تھیں اور ہم شہزادے،شہزادی کی کہانی میں گم تھے۔ ‘‘
سمیہ تھوڑی دیر کو رکی تو اس کے نواسے،نواسیاں،پوتے،پوتیاں ایک ساتھ بول پڑے۔
’’پھر کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ شہزادے کے انتقال کا واقعہ سناتے سناتے شہزادی بھی اپنے شہزادے کے پاس چلی گئی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بچو چلو۔ سو جاؤ۔ آج کہانی یہیں ختم،باقی کہانی کل پوری کروں گی۔ ۔ ۔ ‘‘
٭٭٭
٭٭٭
ماخذ:
کتاب ’اسلم جمشید پوری کے دیہی افسانے‘ مرتبہ فرقان سنبھلی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
Kch khas to nahe tha