FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

اکبر حمیدی کی غزلیں

 

 

                اکبر حمیدی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

’جدید ادب‘ جرمنی اور ’عکاس انٹرنیشنل‘ اسلام آباد، مدیران :ارشد خالد اور حیدر قریشی (بالترتیب) سے ترتیب شدہ


 

 

 

 

کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا

اک ضروری کام تھا جو درمیاں میں رہ گیا

 

چاہتیں دونوں طرف تھیں پر نہ مل پائے کہیں

میں مکاں میں وہ غرورِ لا مکاں میں رہ گیا

 

دل میں کیا کچھ تھا مگر کچھ بھی نہ کہہ پائے انہیں

حرفِ مطلب جو بھی تھا حُسنِ بیاں میں رہ گیا

 

جو بھی سنتا اس کو خوش الحانیاں کہتا رہا

رنج صحرا کا صدائے سارباں میں رہ گیا

 

فردِ واحد تھا مگر وہ پوری دنیا تھا مری

ساتھ رکھنا چاہا مگر وہ گھرا ں میں رہ گیا

 

مجھ کو مل جاتا تو مہر و ماہ کر دیتا اسے

وہ ستارہ جو غبارِ کہکشاں میں رہ گیا

 

غور سے دیکھا تو اکبرؔ ہر کوئی جانا یہی

کوئی ناں کوئی خلا عمرِ رواں میں رہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گماں یک طرفہ ہے سفر ہے یک طرفہ

ہماری عمر میں سارا سفر ہے یک طرفہ

 

جو اس گلی میں گیا لوٹ کر نہیں آیا

کہ اس گلی کی ہر اک رہگذر ہے یک طرفہ

 

یہ زندگی ہے جو سمجھوتہ کر سکو اس سے

تمہارے حق میں ہے پھر بھی، اگر ہے یک طرفہ

 

ہمیں کو سارا سفر کرنا ہو گا جانبِ دوست

کہ دوستی کا تو سارا سفر ہے یک طرفہ

 

خوشی سے زندگی کرنا سبھی کو خوش رکھنا

بہت ہی اچھا سفر ہے مگر ہے یک طرفہ

 

میں کس کے ساتھ کروں عقل و ہوش کی باتیں

یہ عقل و ہوش کا دشمن نگر، ہے یک طرفہ

 

خدا کے لطف و کرم کا نہ کفر کر اکبرؔ

تمہارے دل میں جو بیٹھا ہے ڈر ہے یک طرفہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے

آدھا کام تو کر رکھا ہے

 

اس نے کہا تھا مت گھبرانا

ہر دیوار میں در رکھا ہے

 

کچھ تو اس کے معنی ہوں گے

ہر شانے پر سر رکھا ہے

 

سب جھلکے پر نظر نہ آئے

ایسا پردہ کر رکھا ہے

 

میری خاک کے اندر اکبرؔ

لطفِ خیر و شر رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سچ پہ اصرار بھی ضروری ہے

حسنِ اظہار بھی ضروری ہے

 

یونہی بدنامیاں نہیں ملتیں

اچھا کردار بھی ضروری ہے

 

وحشتیں ایسے ہی نہیں ہوتیں

رہ میں دیوار بھی ضروری ہے

 

سر اٹھانے کا لطف ہے لیکن

سر پہ تلوار بھی ضروری ہے

 

پیروی کب تلک کرو گے میاں

اپنا کردار بھی ضروری ہے

 

اتنا اقرار مار ڈالے گا

دیکھو انکار بھی ضروری ہے

 

ڈوب جانے میں لطف ہو گا مگر

کوئی اس پار بھی ضروری ہے

 

کون اس کو بتائے گا اکبرؔ

عشق میں پیار بھی ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے

آنسو نہ لکھ سکے تو ستارے لکھے گئے

 

اظہار کی مروتیں تھیں اور کچھ نہ تھا

طوفان کی بجائے کنارے لکھے گئے

 

وہ جو ہماری جان کے دشمن بنے رہے

ہم ان کو اپنی جان سے پیارے لکھے گئے

 

ایسی عبارتیں تھیں کہ پڑھنی محال تھیں

تحریر کی جگہ بھی اشارے لکھے گئے

 

وہ بھی تھے جن کو جھولیاں بھر کر دیئے گئے

قسمت میں اپنی صرف گزارے لکھے گئے

 

کس سے کہیں وہ خواہشیں جو حسرتیں بنیں

احسان پھر بھی نام ہمارے لکھے گئے

 

اک اک اچھے دن کا بھی دینا پڑا حساب

اکبرؔ وہ اچھے دن جو اُدھارے لکھے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غمِ زمانہ کریں ترک، خوش خیالی کریں

جہاں تلک ہو مزاجوں کو لا ابالی کریں

 

بہت سے اور عوامل بھی اس میں شامل ہیں

ہر ایک بات پہ کیوں اپنی گوشمالی کریں

 

اجاڑنی نہیں دل کی ہری بھری فصلیں

خود اپنے ہاتھوں سے مت اپنی پائمالی کریں

 

سبھی سے اپنے تعلق کو استوار رکھیں

بہار رت بنے دلہن، خزاں کو سالی کریں

 

کسی قطب کو تو سر پر سوار کرنا ہے

قطب جنوبی کریں یا قطب شمالی کریں

 

ملا ہے ظرف سبھی کو، اب اپنی ہمت ہے

اسے پیالہ بنائیں کہ اس کو پیالی کریں

 

یہ اپنے فکر و نظر کا ہے مسئلہ اکبرؔ

حیات چاندنی شب ہے نہ اس کو کالی کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

گھن گھور اندھیروں میں ستارا چمکے

جیسے طوفاں میں کنارا چمکے

 

وہی بحران ہے اب بھی لیکن

تیری آنکھوں میں اشارا چمکے

 

وقت بن جاتا ہے مرہم خود ہی

اشک مانندِ غبارا چمکے

 

ایک امید ہے زندہ اب بھی

راکھ میں جیسے شرارا چمکے

 

اُس کو دیکھوں تو میں سوچوں اکبرؔ

جس کی قسمت کا ستارا چمکے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ میں کس شہر کے نواح میں ہوں

روز و شب جیسے قتل گاہ میں ہوں

 

وقت نے جیسے نظریں پھیری ہیں

اور میں کوشش نباہ میں ہوں

 

راستے بند ہوتے جاتے ہیں

اور میں منزلوں کی چاہ میں ہوں

 

اتنے نادم ہیں دیکھتے بھی نہیں

یوں تو ہر شخص کی نگاہ میں ہوں

 

کچھ اندھیرے ہیں کچھ اُجالے ہیں

جیسے میں تیری خواب گاہ میں ہوں

 

بچ نکلتا ہوں ہر بلا سے اگر

اے خدا میں تری پناہ میں ہوں

 

کچھ عجیب حال ہے مرا اکبرؔ

جیسے میں غیر کی پناہ میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے

چاہتوں میں بھی جھوٹ بولتا ہے

 

سنگ ریزوں کو اپنے ہاتھوں سے

موتیوں کی طرح وہ رولتا ہے

 

جھوٹ ہی بولتا ہے وہ لیکن

لہجے میں اولیا کے بولتا ہے

 

کیسا میزان عدل ہے اس کا

پھول کانٹوں کے ساتھ تولتا ہے

 

ایسا وہ ڈپلومیٹ ہے اکبرؔ

زہر اَمرت کے ساتھ گھولتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کتنے برسوں سے مرے مہمان ہو

اے غمِ دنیا بس اب دفعان ہو

 

ختم ہو جائیں گی ساری دقتیں

عید آتی ہے اگر رمضان ہو

 

کِس طرح مایوس ہو کر لوٹ جاؤں

سامنے جو عالمِ امکان ہو

 

دیکھتا ہوں تم کو تو ایسا لگے

تازہ پھولوں سے بھرا گلدان ہو

 

تم سے ہیں اس آئینے کی رونقیں

تم ہی تو اس آئینے کی جان ہو

 

تنگ رستوں سے سڑاند آنے لگے

دوستو مت اس قدر گنجان ہو

 

کٹ تو جائے گا سفر اکبرؔ مگر

ہمسفر اچھا ہو تو آسان ہو

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی کیا جانے کیسا ناچتا ہے

کہ اب یہ مور تنہا ناچتا ہے

 

ادھر دیکھو تماشا ہے یہ کیسا

ہوا کے سنگ دریا ناچتا ہے

 

اک آتش زیر پا کی زندگی کیا

بیاباں میں بگولا ناچتا ہے

 

بدن میں آگ لگ جاتی ہے جیسے

لہو میں جب شرارہ ناچتا ہے

 

سب اس کے زاویوں کی ہے نمائش

وہ کافر اُلٹا سیدھا ناچتا ہے

 

بدن کا پھول کھلتا جا رہا ہے

کمر کے بل پہ لہنگا ناچتا ہے

 

فلک زادے بھی تجھ کو چاہتے ہیں

زمین کے رخ سِتارا ناچتا ہے

 

اگر مقبول ہونا چاہتے ہو

وہ ناچو جو زمانہ ناچتا ہے

 

یہ سب ہے زندگی کا کھیل اکبرؔ

ہوا کے ساتھ تنکا ناچتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نام لے لے کے رقیبوں کا سیاپا کرنا

اکبر اچھا نہیں ہر روز تماشا کرنا

 

جب یہ معلوم ہے ملنا نہیں اس کو منظور

کیا ضروری ہے پھر ایسوں کی تمنا کرنا

 

خواب کیوں دیکھتے جن کی کوئی تعبیر نہیں

جو نہ ہو پائے اسے کس لیے سوچا کرنا

 

وہ مراسم میں نہیں اس سے تو کس خواہش پر

اس گلی کے در و دیوار کو دیکھا کرنا

 

عشق ہے یا ہیں یہ آغاز جنوں کے آثار

سب کے منہ لگنا ہر اک بات پہ الجھا کرنا

 

تم نے مانی ہے کبھی بات کسی کی پہلے

اب کے بھی ٹھان کے بیٹھے ہو جو کرنا۔ کرنا

 

جیسے مقروض ہو سب عہد تمہارا اکبرؔ

یوں زمانے سے سر عام تقاضا کرنا

٭٭٭

 

 

 

ہم شہر میں یوں رہتے ہیں جیسے نہیں رہتے

جس طرح کسی جیل میں بچے نہیں رہتے؟

 

ظالم یہی قانون مکافات عمل ہے

ہم سے تو رہا کرتے ہیں تم سے نہیں رہتے

 

ہم روک نہیں سکتے مگر اتنا بتا دیں

بڑھ جائے جہاں ظلم وہ خطے نہیں رہتے

 

مغرور نہ ہو زور ستم پر کہ ہمیشہ

اک طرح کے حالات کسی کے نہیں رہتے

 

ہر روز نیا دن، نیا سورج، نئے منظر

ہم ایک ہی دریا میں اترتے نہیں رہتے

 

آ پھر انہیں بھولے ہوئے رستوں پہ قدم رکھ

اگ آئے اگر گھاس تو رستے نہیں رہتے

 

پاؤں میں سدا سائے تھرکتے نہیں اکبرؔ

ماتھے میں سدا چاند چمکتے نہیں رہتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کئی برسوں کی خشک سالی ہے

اب مری پیاس بے مثالی ہے

 

فصل گل سے ہوئی ہے شادی مری

رت خزاں کی شریر سالی ہے

 

دیکھتے دیکھتے قیامت کی

قامت اس شوخ نے نکالی ہے

 

پھول پتے بھی کانٹے بھی اس میں

وقت کے ہاتھ میں وہ ڈالی ہے

 

دیکھنا کیا کہ سب کے ہاتھوں میں

کوئی تصویر بے خیالی ہے

 

سوچتا ہوں یہ کس کے نام کروں

میرے ہونٹوں میں ایک گالی ہے

 

رات تو چودھویں کی ہے اکبرؔ

بادلوں کے سبب سے کالی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی کی اریڑ میں آئے

سانس کیسے تریڑ میں آئے

 

کیسے کیسے شجر تناور تھے

آندھیوں کی اکھیڑ میں آئے

 

دیدنی ہے وہ پہلا موسم گل

رنگ بھرنے جو پیڑ میں آئے

 

وہی تو وقت ہوتا ہے موزوں

جب حسیں کوئی چھیڑ میں آئے

 

سوچتا ہوں کہ وہ وچھیری بھی

ایک دن میری ایڑ میں آئے

 

جیسا اس کو کسی نے سوچا ہو

جو کسی کے گویڑ میں آئے

 

ہم ہیں موقع کے منتظر اکبرؔ

دیکھئے کب وہ گیڑ میں آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی کوئی حسب حال نہیں

ایسی اس دلربا کی چال نہیں

 

عشق وابستہ رہنے کا ہے نام

ٹوٹ جانا کوئی کمال نہیں

 

کتنا سنسان ہوتا جاتا ہے

راستہ ہے، ترا خیال نہیں

 

تو حقیقت ہے میں صداقت ہوں

کوئی دنیائے امتثال نہیں

 

خوشیاں ہر سطح پر میسر ہیں

کم نصیبی کا روگ پال نہیں

 

اک ترا حسن لازوال ہوا

ورنہ کس چیز کو زوال نہیں

 

وقت تبدیل ہوتا ہے اکبرؔ

اپنا بھی پہلے جیسا حال نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

غم سے اسی لیے تو رہائی نہ ہو سکی

دشمن تھا اس سے صلح صفائی نہ ہو سکی

 

ہر جانے والی چیز نشاں چھوڑ جاتی ہے

جو آ ملا پھر اس سے جدائی نہ ہو سکی

 

سب چہروں میں تھے کچھ نہ کچھ آثار دوستی

اغیار کی بھی ہم سے برائی نہ ہو سکی

 

اس کو نصیب دوستاں ہم کہہ کے چھوڑ آئے

جس شاخ گل تک اپنی رسائی نہ ہو سکی

 

کچھ رہنما عجیب تھے کچھ راہرو عجیب

دونوں سے راستوں کی بھلائی نہ ہو سکی

 

ان موسموں میں لکھتے رہے خط کسی کے نام

جن موسموں میں نغمہ سرائی نہ ہو سکی

 

اب کے برس بھی مندا رہا کاروبار شوق

اب کے برس بھی کوئی کمائی نہ ہوسکی

 

اکبرؔ اگرچہ بدلے نہ حالات دشت کے

ہم سے تو ترک آبلہ پائی نہ ہو سکی

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے بھائی

دشت بھی بے در و دیوار نہیں ہے بھائی

 

ایسا بھی صدق و صفا کا نہیں دعویٰ ہم کو

زندگی شیخ کی دستار نہیں ہے بھائی

 

پاکبازوں کی یہ بستی ہے فرشتوں کا نگر

کوئی اس شہر میں میخوار نہیں ہے بھائی

 

جان پیاری ہے تو بس چلتے چلے جاؤ میاں

کیوں کھڑے ہو یہ در یار نہیں ہے بھائی

 

جس قدر تھے وہ ہوئے اللہ کو پیارے کل شب

کوئی اب عشق کا بیمار نہیں ہے بھائی

 

عشق کرنا ہے تو چھٹی نہیں کرنی کوئی

عشق میں ایک بھی اتوار نہیں ہے بھائی

 

آپ نے بھی تو کیا ہو گا کچھ اکبرؔ ورنہ

ایسی اس شوخ کی گفتار نہیں ہے بھائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب تلک وقت ٹالنا ہو گا

راستہ تو نکالنا ہو گا

 

اگلی نسلوں کو کفر سازی کے

چکّروں سے نکالنا ہو گا

 

نئی دنیا کے جگمگانے کو

نیا سورج اچھالنا ہو گا

 

عقل بھی عشق کرنا جانتی ہے

خود کو بس اعتدالنا ہو گا

 

زندگی کی ہے ایک شرط یہی

اِک نہ اِک روگ پالنا ہو گا

 

جس طرح سے بھی ہو مگر اکبرؔ

بُرے وقتوں کو ٹالنا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

مولا پانی دے

برکھا پانی دے

 

سوکھے ہونٹوں کو

سونا پانی دے

 

سونی نہروں کو

دریا پانی دے

 

اجڑے کھیتوں کو

دانہ پانی دے

 

جلتے جسموں کو

ٹھنڈا پانی دے

 

اس کی قربت کا

میٹھا پانی دے

 

میں اور وہ نہلائیں

ایسا پانی دے

 

کالے پانی کو

کالا پانی دے

٭٭٭

 

 

 

 

دوستو اب نیا زمانہ ہے

آپ کا آئینہ پرانا ہے

 

آدمی سے جو آدمی تک ہو

ہم کو وہ راستہ بنانا ہے

 

کہکشائیں تو سج رہی ہیں بہت

اب تری مانگ کو سجانا ہے

 

دکھ کی راتیں اجالتا ہے جو

میرا دل وہ چراغ خانہ ہے

 

یونہی بہلا رہا ہوں دل ورنہ

کِسی کو آنا ہے کس کو جانا ہے

 

ایسا رشتہ ہے دنیا و دل میں

جسے تان ہے اور بانا ہے

 

جتنا ڈھونڈو گے اتنا پاؤ گے

میرے لفظوں میں وہ خزانہ ہے

 

میں نے پوچھا ’’ارادہ ہے کہ نہیں‘‘؟

مسکرا کر کہا ’’کہا نا ہے !!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

فضا میں اس کی خوشبو بھی ہے شامل

کہ جنگل میں وہ آہو بھی ہے شامل

 

جو شامیں سُرمئی ہونے لگی ہیں

تری آنکھوں کا جادو بھی ہے شامل

 

زمانہ اچھا لگتا ہے مجھ کو

زمانے میں کہیں تو بھی ہے شامل

 

سنورتے رہتے ہیں دنیا کے تیور

کہ دنیا میں وہ خوش خود بھی ہے شامل

 

میں خود کو جھانکتا ہوں خود میں، شاید

کہیں وہ آئینہ رُو بھی ہے شامل

 

روئیے بائیں بازو کے ہیں سارے

مگر کچھ دایاں بازو بھی ہے شامل

 

نظر آتا ہے دنیا دار اکبرؔ

پر اس میں ایک سادھو بھی ہے شامل

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرے نازوں پہ وار جاتے ہیں

زندگی تو گزار جاتے ہیں

 

ٹیڑھی چالوں سے کھیلنے والے

آخر کار ہار جاتے ہیں

 

اِس کنارے پہ رہتے ہیں لیکن

روز دریا کے پار جاتے ہیں

 

ہم تو وہ ہیں کہ راستوں میں ہی

اپنی عمریں گزار جاتے ہیں

 

ایسے دکھ جو کسی سے کہہ نہ سکیں

اندر اندر ہی مار جاتے ہیں

 

دوستی میں ذرا سی غفلت سے

برسوں کے اعتبار جاتے ہیں

 

عشق کے کاروبار میں اکبرؔ

سارے سودے ادھار جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ملنا نہیں رستہ بھی بدلنا ہوا مشکل

اس شہر میں اب گھر سے نکلنا ہوا مشکل

 

یوں تجھ سے جدا رہ کے بھی جینا نہیں آساں

ان حالوں ترے ساتھ بھی چلنا ہوا مشکل

 

کچھ روگ ہیں جو کھائے چلے جاتے ہیں اس کو

اس نخلِ ثمر دار کا پھلنا ہوا مشکل

 

جن وقتوں میں انجان تھا آساں تھا بہلنا

اب جان رہا ہوں تو بہلنا ہوا مشکل

 

جب عہد چڑھائی کا تھا چلنا رہا دو بھر

اترائی پہ آئے تو سنبھلنا ہوا مشکل

 

جل اٹھتے تھے ہم آتشیں نظروں سے بھی اکبر

اب آگ دکھاؤ بھی تو جلنا ہوا مشکل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کہیں اخبار کے اس پار ہو گا

کوئی دیوار کے اس پار ہو گا

 

جو کہنا چاہتا ہوں وہ سبھی کچھ

لبِ اظہار کے اس پار ہو گا

 

یہ سب اظہار ہے اس کے مرض کا

مرض بیمار کے اس پار ہو گا

 

بہت چالاک ہے قاتل ہمارا

لہو تلوار کے اس پار ہو گا

 

یہاں تک تو ٹہلتے آ گئے ہیں

سفر منجدھار کے اس پار ہو گا

 

علاقہ وصل کا یا اصل کا ہو

لب و رخسار کے اس پار ہو گا

 

سکوں کی جستجو میں جا رہے ہو

سکوں اس پار کے اس پار ہو گا

 

بظاہر تو یہی لگتا ہے اکبر

وہ اب انکار کے اس پار ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمام نیکیاں تیرے ہی نام ہو جائیں

پر احتیاط، نہ خوشیاں حرام ہو جائیں

 

خدا کا خوف کر ایسا نہ ظلم کر واعظ

کہ آبِ سادہ کے پیالے بھی جام ہو جائیں

 

سبھی نے چاہا یہی کچھ کہ ہم سے سادہ مزاج

کسی بھی نام پہ ان کے غلام ہو جائیں

 

اس انتظار میں ہیں زخم خوردہ شمشیریں

کہ وقت آئے تو ہم بے نیام ہو جائیں

 

جو اچھے انساں ہوں اکبرؔ تو کوئی فرق نہیں

وہ رحمت اللہ ہوں یا گنگا رام ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

توقعات زیادہ نہیں رکھا کرتے

دکھوں کے واسطے رستا نہیں رکھا کرتے

 

خود اپنے ذہن میں سب رونقیں لگا رکھیں

کہ اپنے آپ کو تنہا نہیں رکھا کرتے

 

سوائے اس کے کوئی دوسرا نہیں ہے یہاں

کبھی گماں بھی کسی کا نہیں رکھا کرتے

 

جو تم پہ بند ہوں دروازے بادہ خانے کے

خیالِ ساغر و مینا نہیں رکھا کرتے

 

پڑے جو رَن کسی بُزدل کو ساتھ مت لینا

کہ راہِ سیل میں تنکا نہیں رکھا کرتے

 

جو زندگی کا تقدس بحال رکھنا ہو

تو سب کے سامنے دکھڑا نہیں رکھا کرتے

 

چھپائے رکھا ہے اکبرؔ نے اس کے ہجر کا دکھ

کچھ اس طرح سے کہ گویا نہیں رکھا کرتے

٭٭٭

 

 

 

کسی وہم و گماں میں مت رہنا

بے مکاں کے مکاں میں مت رہنا

 

دیکھنا اوروں میں اتر کر بھی

اپنے ہی جسم و جاں میں مت رہنا

 

بھیڑ میں رہ کے کچلا جائے گا

دیکھ یوں درمیاں میں مت رہنا

 

وہی اچھے ہیں جو زمیں پر ہیں

تم کسی آسماں میں مت رہنا

 

اب یہ سکّہ نہیں ہے چلنے کا

نسبتِ این و آں میں مت رہنا

 

بات کر اس کے پیکر گُل کی

اپنے رنگ بیاں میں مت رہنا

 

نئی دنیا بلاتی ہے اکبرؔ

گئے گزرے جہاں میں مت رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

چاند تاروں بھری رات آتی ہے

کیسی سج دھج سے برات آتی ہے

 

کیا ضروری ہے کہ کہہ بھی ڈالیں

جی میں سو طرح کی بات آتی ہے

 

اُس کے قدموں سے جو آغاز کریں

تب کہیں زلف وہ ہاتھ آتی ہے

 

زندگی لڑکی ہے اک چنچل سی

اپنے حصے کا جو کات آ تی ہے

 

بچ بچا کر مَیں کہاں تک نکلوں

ہر طرف آپ کی ذات آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

دیارِ عشق میں جا کر بھی خالی ہاتھ آئے

یہ سوچتے ہی رہے کب وہ سالی رات آئے

 

مَیں کب سے بیٹھا ہوا ہوں اُسی کے کوچے میں

یہیں سے ڈولی اُٹھے اور یہیں برات آئے

 

بصد ادب میں سبھی سے گزر گیا آگے

اگرچہ راہ میں کتنے ہی سومنات آئے

 

اس انتظار میں عمریں گزار دیں ہم نے

زبان پر اس کی کبھی حرفِ التفات آئے

 

میں ایک ذّرہ ہوں لیکن اگر اجازت دوں

سلام کرنے مجھے ساری کائنات آئے

 

بہت سی باتیں ہیں کرنے کی نظمِ عالم پر

پہ جس طرف سے بھی گزروں تمہاری ذات آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھلی ہیں کلیاں نوید آمدِ بہار کی ہے

جدھر بھی دیکھیں فضا تیرے انتظار کی ہے

 

مجھے یقین ہے دنیا کا رُخ بدل دوں گا

یہ بات پوری طرح میرے اختیار کی ہے

 

یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں کون مرتا ہے

مگر کہانی بہت حُسن اعتبار کی ہے

 

اسی زمین سے مَیں نے جنم لیا لیکن

زمیں وہی ہے فضا اجنبی دیار کی ہے

 

نہ آج چاند ستاروں کا ذکر کر اکبرؔ

کہ آج رات فقط تیرے میرے پیار کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دکھ زمانے کو ٹالتے رہنا

وقت یونہی نکالتے رہنا

 

اس طرف سے جو اب آئے نہ آئے

تم سخن کو سوالتے رہنا

 

ان کو پلوانا سانس امرت رس

شوق جذبوں کا پالتے رہنا

 

جگمگا رکھنا سب منڈیروں کو

گھر کا آنگن اُجالتے رہنا

 

وقت ریلے سے دب نہیں جانا

خود کو خود میں اچھالتے رہنا

 

زندگی کے حسین چہرے کو

نئے رنگوں میں ڈھالتے رہنا

 

زیست کانٹوں کا رستہ ہے اکبرؔ

دل کا دامن سنبھالتے رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

اگر ہمت جواں رکھیں گذارا ہو بھی سکتا ہے

چمک ہو دل میں تو ذرہ ستارا ہو بھی سکتا ہے

 

جو طوفاں میں سہارا دے ہمالہ ہے وہ تنکا بھی

وہ تنکا ہی سہی لیکن سہارا ہو بھی سکتا ہے

 

بس اک میٹھی نظر درکار ہے اپنا بنانے میں

نہیں ہے جو ہمارا وہ ہمارا ہو بھی سکتا ہے

 

ہوس انگارہ ہے جو عمر بھر دل میں سلگتا ہے

ہوا دیں گے تو انگارا شرارا ہو بھی سکتا ہے

 

اگرچہ زہر سے ہر غم گوارا کرنا مشکل ہے

مگر کچھ صبر کر لیں تو گوارا ہو بھی سکتا ہے

 

بہت مشکل سہی حالات لیکن سر چھپانے کو

ارادہ ہو اگر، کچھ اینٹ گارا ہو بھی سکتا ہے

 

وہ خود ہی بکنے کو آیا ہے بازارِ محبت میں

اگر تم چاہو تو اکبرؔ تمہارا ہو بھی سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ملنے کو میں اس کے نئی تدبیر کروں گا

خط اور طرح کا اسے تحریر کروں گا

 

ہے شیخ کی دستارِ فضیلت مرا موضوع

میں شہر کے ہر چوک میں تقریر کروں گا

 

ہاتھوں میں مرے لوح و قلم آئیں گے جس روز

تقدیر کو تدبیر سے زنجیر کروں گا

 

آئیں گے اسے دیکھنے بلقیس و سلیماں

اک شہر نئی طرز کا تعمیر کروں گا

 

تاخیر بھی اندھیرے کی اک شکل نہیں کیا

اندھیر کروں گا نہ میں تاخیر کروں گا

 

میرے ہی قبیلے کے جوانان جری تھے

وہ میر ہوں غالب ہوں میں توقیر کروں گا

 

اک خواب جو آنکھوں میں لئے پھرتا ہوں اکبرؔ

اس خواب کی میں آپ ہی تعبیر کروں گا

٭٭٭

 

 

 

 

آپ کا حسن معجزائی ہے

ورنہ ہر چیز ارتقائی ہے

 

کیا حقیقت ہے دین و دنیا کی

سب ترے ہاتھ کی صفائی ہے

 

مجھ سے تو کچھ پڑھا نہیں جاتا

کیسی کج مج تری لکھائی ہے

 

میرا سرمایہ ہے غزل میری

عمر بھر کی یہی کمائی ہے

 

اک بڑا گھر ہے کائنات اکبرؔ

دنیا اس گھر کی انگنائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گھر اپنا افق پار کسی چاند نگر ہو

خوابوں کی زمیں ہو کہ خیالوں کا سفر ہو

 

شب ہو تو چمک اٹھیں تری مانگ کے تارے

دن ہو تو لبوں سے ترے آغازِ سحر ہو

 

رنگوں سے مہکتا رہے ملبوس کا ہر تار

خوشبو سے چمک اٹھے جدھر تیرا گذر ہو

 

انسانوں کی دنیا ہو سب انسان ہوں اس میں

لوگوں کی جہاں حرمتِ انساں پہ نظر ہو

 

قدموں میں بچھے ہوں جہاں پھولوں بھرے رستے

اور زندگی اکبرؔ جہاں خوشیوں میں بسر ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگرچہ گرم بازاری بہت ہے

محبت میں مگر خواری بہت ہے

 

دلوں کی پاسداری چاہتا ہوں

جہاں رسمِ دل آزاری بہت ہے

 

محبت بھی کسی کو ہو گی لیکن

محبت کی اداکاری بہت ہے

 

حسیں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں

کہ شورِ چار دیواری بہت ہے

 

کہاں سے نعرۂ مستانہ اٹھے

کہ لوگوں میں سمجھ داری بہت ہے

 

میں ریزہ ریزہ ہو کر کٹ رہا ہوں

وفا کی دھار تلواری بہت ہے

 

بڑے منصب پہ جانا چاہتا ہوں

پر اس کا راگ درباری بہت ہے

 

ابھی اکبرؔ بہت ہمت ہے مجھ میں

اگرچہ زخم بھی کاری بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زمین پاؤں میں ہے آسمان سر پر ہے

یقین دل میں ہے لیکن گمان سر پر ہے

 

اب ایک رات میں سارا نصاب دیکھوں گا

پڑھا بھی کچھ نہیں اور امتحان سر پر ہے

 

نہ کچھ اِدھر کا پتہ ہے نہ کچھ اُدھر کی خبر

جو پہلے بھی تھا وہی درمیان سر پر ہے

 

عجیب سلسلۂ روز و شب ملا ہم کو

کہ تیر سینے میں ہے اور کمان سر پر ہے

 

جو تو نہیں ہے تو گھر کر رہا ہے سائیں سائیں

کہ ایک فرد کیا پورا مکان سر پر ہے

 

زمینِ شوق میں بوئی ہے فصلِ گل اس نے

میں وہ زمین ہوں جس کا کسان سر پر ہے

 

میں کچھ بھی کر نہیں پایا ہوں ایسے میں اکبرؔ

کروں بھی کیا کہ مری بھاگوان سر پر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت کے زمانے آ گئے ہیں

عنایت کے زمانے آ گئے ہیں

 

چلو اب جیت جانے دیں اسی کو

شرافت کے زمانے آ گئے ہیں

 

گھنے جنگل تھے طاقت کے زمانے

سیاست کے زمانے آ گئے ہیں

 

بہر سُو چہچہے ہیں گل رُخوں کے

قیامت کے زمانے آ گئے ہیں

 

ہوئے تہہ دار نظروں کے اشارے

علامت کے زمانے آ گئے ہیں

 

رقابت کے زمانے ہو چکے سب

رفاقت کے زمانے آ گئے ہیں

 

بہت ہے جنبشِ ابرو بھی ہم کو

بلاغت کے زمانے آ گئے ہیں

 

وہ زلفیں کھول کر آئے ہیں اکبرؔ

کہ راحت کے زمانے آ گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

خواب اب چبھنے لگے آنکھوں میں

وہ بھی دن تھے کہ سجے آنکھوں میں

 

میں نے دیکھا اُسے سب زاویوں سے

اُس کے سب رنگ پڑے آنکھوں میں

 

تن بدن اُس کے بھی کلیاں چٹکیں

میرے بھی پھول کھلے آنکھوں میں

 

وہ مناظر تھے حواس اُڑنے لگے

پھر مرے بارہ بجے آنکھوں میں

 

دل کے آنگن میں نہ کھل پائے تھے جو

سب کے سب کھلنے لگے آنکھوں میں

 

وہ الاؤ جو کبھی ذہن میں تھے

اُس کو دیکھا تو جلے آنکھوں میں

 

جو نہ اکبرؔ کبھی لکھ پایا اُسے

سب خطوط ایسے لکھے آنکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

گئی گذری کہانی لگ رہی ہے

مجھے ہر شے پُرانی لگ رہی ہے

 

وہ کہتا ہے کہ فانی ہے یہ دنیا

مجھے تو جاودانی لگ رہی ہے

 

یہ ذکرِآسماں کیسا کہ مجھ کو

زمیں بھی آسمانی لگ رہی ہے

 

ہر اک نوخیز کی مغروریوں میں

تری کافر جوانی لگ رہی ہے

 

بہت خوش معنی سی تحریر ہے وہ

کسی کی خوش بیانی لگ رہی ہے

 

وہ اِس حُسنِ توجہ سے ملے ہیں

یہ دنیا پُر معانی لگ رہی ہے

 

غزل دنیا میں رہتا ہوں میں اکبرؔ

یہ میری راجدھانی لگ رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے

آدھا کام تو کر رکھا ہے

اس نے کہا تھا مت گھبرانا

ہر دیوار میں در رکھا ہے

کچھ تو اس کے معنی ہوں گے

ہر شانے پر سر رکھا ہے

سب جھلکے پر نظر نہ آئے

ایسا پردہ کر رکھا ہے

میری خاک کے اندر اکبرؔ

لطفِ خیر شر رکھا ہے

٭٭

 

 

 

 

 

وہ گیت ہوں کہ جو گایا گیا ہوں ایسا ہی

میں کیا کروں کہ بنایا گیا ہوں ایسا ہی

 

خبر نہیں ہے برستا ہوں یا میں کھلتا ہوں

وہ ابر ہوں جو گھٹایا گیا ہوں ایسا ہی

 

مرے وجود پہ اغیار معترض کیوں ہوں

میں جس طرح کا تھا لایا گیا ہوں ایسا ہی

 

یہاں تو کوئی قدم بھی نہیں مرے بس میں

تری طرف بھی بڑھایا گیا ہوں ایسا ہی

 

جو ہو رہا ہے زمیں پر ترا نہیں لگتا

خطا معاف دکھایا گیا ہوں ایسا ہی

 

یہ حرف تلخ ہے لیکن یقین کر پیارے

نہیں وہ، تجھ کو دکھایا گیا ہوں ایسا ہی

 

جہانِ شوق میں لایا گیا ہوں ایسا ہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی یوں نہیں گزارو مجھے

اپنا صدقہ نہیں اتارو مجھے

 

کہتا ہے زندگی کا ہر مہرہ

اتنی آسانی سے نہ ہارو مجھے

 

ہر قدم دی صدا تمہیں میں نے

تم کہاں ہو کبھی پکارو مجھے

 

کیسی چادر ہو پھٹ بھی سکتی ہے

لمبے پاؤں نہیں پسارو مجھے

 

جو بھی آتا ہے منہ میں کہہ ڈالو

یوں نہ خاموشیوں سے مارو مجھے

 

پیار کی خوشبوؤں کا جھونکا ہوں

وقت کی طرح کیوں گزارو مجھے

 

سوچتا رہتا ہوں تمہیں اکبرؔ

پر کبھی تم بھی استخارو مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو بھی ہوا ہے وہ ہوا اٹھ کر نہیں جانا مجھے

آپ کے پہلو سے پہلو کو ہے گرمانا مجھے

 

دیکھئے کیا اس میں تصویریں سجی ہیں ہر طرف

یہ جہاں لگتا ہے کوئی آئینہ خانہ مجھے

 

اس حسیں ماحول میں اب تیرے آ جانے کے بعد

اپنا سا لگنے لگا ہے سارا مئے خانہ مجھے

 

اپنے اپنے رنگ میں اور اپنے اپنے ڈھنگ میں

ہر کوئی تیرا نظر آتا ہے دیوانہ مجھے

 

وہ کسی کو دوسرے سے ملتے میرا دیکھنا

اور ترا ملنا بچھڑنا یاد آ جانا مجھے

 

گھوم جانا ہے نظر میں عالمِ وارفتگی

یاد آ جاتا ہے دیواروں سے ٹکرانا مجھے

 

ان کی ہر اک بات پر اکبرؔ وہ چڑ جانا مرا

اور بڑے اخلاص سے یاروں کا سمجھانا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ملنے کو میں اس کے نئی تدبیر کروں گا

خط اور طرح کا اسے تحریر کروں گا

 

ہے شیخ کی دستارِ فضیلت مرا موضوع

میں شہر کے ہر چوک میں تقریر کروں گا

 

ہاتھوں میں مرے لوح و قلم آئیں گے جس روز

تقدیر کو تدبیر سے زنجیر کروں گا

 

آئیں گے اسے دیکھنے بلقیس و سلیماں

اک شہر نئی طرز کا تعمیر کروں گا

 

تاخیر بھی اندھیرے کی اک شکل نہیں کیا

اندھیر کروں گا نہ میں تاخیر کروں گا

 

میرے ہی قبیلے کے جوانان جری تھے

وہ میر ہوں غالب ہوں میں توقیر کروں گا

 

اک خواب جو آنکھوں میں لئے پھرتا ہوں اکبرؔ

اس خواب کی میں آپ ہی تعبیر کروں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اور کچھ چاند رات آگے بڑھے

جو دلوں میں ہے بات آگے بڑھے

 

سب ہے انسان کی پیش قدمی پر

یہ بڑھے کائنات آگے بڑھے

 

میں ہی رہتا ہوں اپنی ذات میں بھی

میں بڑھوں میری ذات آگے بڑھے

 

تین سے سات پر تو پہنچا ہوں

تب مزا ہے جو سات آگے بڑھے

 

آخری بات پر رکی ہے بات

اب وہ چاہیں تو بات آگے بڑھے

 

ہوئی تیغ و سناں کی پسپائی

تب قلم اور دوات آگے بڑھے

 

ناچیں اودھم برات کے لونڈے

یہ ہٹیں تو برات آگے بڑھے

 

کچھ ادھر کا اشارہ ہو اکبرؔ

تو ہمارا بھی ہاتھ آگے بڑھے

٭٭٭

 

 

 

اک ترا حسن ہے جو ذاتی ہے

باقی ہر شے مواصلاتی ہے

 

کہیں دولہا نظر نہیں آتا

اور جسے دیکھو وہ براتی ہے

 

ہم عذابِ الہی کہتے ہیں

کاروائی جو انضباتی ہے

 

آپ کو دیکھا تو ہوا معلوم

زندگی کیسے مسکراتی ہے

 

پھولوں میں آنے والی ہر سرخی

تیرے ہونٹوں کو چھو کے آتی ہے

 

روٹھ کر جانے والو رک جاؤ

زندگی آپ کو بلاتی ہے

 

ہجر ہو یا وصال ہو اکبرؔ

ندی دریا کے گیت گاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ اس طرح سے مشقت ہے میرے جینے میں

کوئی نہ فرق رہا خون اور پسینے میں

 

کچھ اس قرینے سے خود کو سنوارتے ہیں وہ

نظر نہ آئے قرینہ کبھی قرینے میں

 

شبِ وصال کے منظر نظر میں بھر آئے

چمک دمک نظر آتی ہے جب نگینے میں

 

کبھی کبھی کی ملا قات یونہی ہوتی ہیں

نہ امتیاز رہا سال اور مہینے میں

 

کچھ ایسا عدم تحفظ کا خوف ہے اکبرؔ

تمام دریا سمٹ آیا ہے سفینے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

برس مجھ پر ایسا شرابور کر دے

بھگو اتنا مجھ کو جو بے طور کر دے

 

نظر ڈال ایسی جو سب کی نظر میں

بہت مجھ کو بھی قابلِ غور کر دے

 

ملاقات کر مجھ سے جلوت میں ایسی

جو مجھ اور کو اور ہی اور کر دے

 

تپا میرا تن اپنے تن کی تپش سے

عنایات کا دوسرا دور کر دے

 

نہیں ہے اب اس عمر میں صبر اتنا

عطا جو بھی کرنا ہے فی الفور کر دے

 

اگر گوجرانوالا تھوڑا سا ڈالیں

تو لاہور کو پورا لاہور کر دے

 

وہ دیکھے گا پلکیں اٹھا کر جو اکبرؔ

تو ساون رُتیں اور گھنگھور کر دے

٭٭٭

تشکر: پنجند لائبریری کے وقاص جن کی کچھ فائلوں سے بھی استفادہ کیا گیا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید