فہرست مضامین
- اس کی گلی
- مناجات
- اس کی گلی۔۔۔ کے آس پاس کا منظر
- اس کی گلی۔۔۔کا شاعر
- نعت
- نعت
- نعت
- نعت
- نعت
- نعت
- نعت
- نظمیں
- اُس کی گلی
- مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
- انتظار
- ہائے تم کتنی خوبصورت ہو
- گھنگھرو
- گوری روٹھ گئی
- تجھ سے محبت نہ کروں
- آئینہ دیکھ لے
- جنازہ اُٹھائیے
- مکھڑا مستانہ
- بیت نہ جائے رُت یہ رنگیلی
- اتنا فسانہ اتنی کہانی
- کیا خبر تھی کبھی یہ زہر بھی کھانا ہو گا
- بچپن
- اجمیر
- اجنبی
- رات کا المیہ
- آئینہ
- وہ لڑکی
- آواز
- آر ٹ گیلری
- استقامت
- عبادت گاہ
- سوچ
- گیت
- رِیت پریت
- جب جب ساون آئے گا
- آپ لگے
- دل دیوانہ
- خط لکھنا
- پکار لو
- طلبگار چلے
- جواب کیا دیں گے
- میخانے میں
- اجازت لے کر
- وہ انکار کرتی ہے
- بہار کر لیں گے
- رات سے پہلے
- مہکا دینا
- جفا ہی کیا کرو
- تم سے پیارا
- نخرے کم کر دے
- فاصلے
- پیار کیا کریں
- دور نہ جاؤ
- اک ہاتھ میں خنجر ہے
- برسات
- جوانی
- پائل
اس کی گلی
نعت، نظمیں، گیت
شاہدؔ کبیر
مرتب : ثمیر کبیر
مناجات
اے خداوند!
قادرِ مطلق
کوئی حرف سخن
کوئی آواز
میرا مفہوم جو ادا کر دے
کاسۂ ذہن ہے تہی
تو ہی
چند لفظوں کی بھیک عطا کر دے
اس کی گلی۔۔۔ کے آس پاس کا منظر
مجھے وہ کھڑکی بہت پسند ہے کیونکہ یہاں روزانہ کے نت نئے تماشے میرے لئے تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کھڑکی کے باہر کچھ بھی ایسا نہیں جسے میں خوبصورت کہوں۔رنگ بدلتے چہرے وہیso called sophisticated لوگ نو آباد گندی سی بستی مٹیالی کیچڑ بھری سڑکیں کلبلاتے ہوئے لوگ جن کے منہ سے حرص و ہوس کی رال ٹپکتی ہے بظاہر بڑے خوش پوش مگر جن کی کینہ پروری ان کے چہرے سے عیاں ہے اور ان کے بھدے سے مذاق، چمنیوں سے اٹھتا ہوا کثیف دھواں۔۔۔ جو اس بستی کی فضاء کو اور بوجھل بنا رہا تھا۔۔۔میں جس کھڑکی سے اس سارے منظر کو دیکھا کرتا ہوں اس کے ٹھیک سامنے ایک چھوٹا سا چوراہا ہے جہاں آئے دن نئی نئی وارداتیں رو نما ہوتی رہتی ہے۔ جلسے جلوس مذہبی مناظرے، سیاسی اتھل پتھل اور ادبی چشمکیں۔۔۔ یہ کھڑکی نہیں ایک ایسا کنواں ہے جس کے رنگ روزانہ خود بہ خود بدلتے رہتے ہیں۔اک ایسا پیمانہ ہے جہاں سے مجھے ہر موسم کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک گھڑی بھی ہے جس سے میں وقت کی نبض پہچان لیتا ہوں۔۔ذرا دیکھو ادھر ا س طرف کچھ سفید پوش اور صاحبِ حیثیت لوگ مل کر ایک پستہ قد مجسمے کو ٹھیک چوراہے کے بیچو ں بیچ نصب کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب وہ پستہ قدمجسمہ نصب ہو چکا تو بعض لو گوں نے نعرہ لگانا شروع کر دیا پھر مجسمے پر پھولوں کی بارش ہونے لگی، دھیرے دھیرے بھیڑ بڑھتی گئی۔اور پھر اس بھدے پستہ قد مجسمے کی شان میں قصیدہ خوانی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس بے فیض مجسمے کی لوگ تعریف کے پل باندھنے لگے۔وہ جوش و خروش تھا جیسے لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ پھر میں نے دھیان دیا کہ جیسے جیسے وہ کینہ پرور لوگ اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا نے لگے۔اور وہ بھدا سا مجسمہ اپنے آپ ہی غبارے کی مانندر ے انو چکا تو بعض لو گوں نے نار پھولنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا قد آسمان سے باتیں کرنے لگا، پھر تو لوگ دیوانہ وار اس کی پرستش کرنے لگے۔ ایک ملا جلا سا شور سنائی دیا ’’ادب کی تاریخ ان کے بغیر ادھوری ہے ‘‘۔۔۔
’’ صاحب، انھوں نے زبان و ادب کی بڑی خدمت انجام دی ہے‘‘۔۔۔
’’بزرگ و محترم سنگِ میل کی حیثیت رکھتے تھے‘‘۔۔۔
’’ہمیشہ نو واردوں کی حوصلہ افزائی کی‘‘۔۔۔
’’محسنِ ملت تھے ان کی بڑی قربانیاں ہیں ‘‘۔۔۔
’’ادب کی سمت متعین کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے‘‘۔۔۔
حالانکہ یہ سب کہنے والے بذات خود بے ادب تھے اور ان کا ادب سے دور کا بھی واستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ موقع پرستی اس حلقے میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اور کچھ دے دلا کر ادب کی اور سرکاری کرسیوں پر قابض تھے۔
دوسری صبح حسبِ معمول جب میں کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ کچھ کم عقل راہ گیروں نے اسے اپنا معبود بنا لیا ہے اور اس سے اپنی منتیں ماننے میں لگے ہیں، مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ کیونکہ میں جانتا ہوں۔ وہ کوئی صوفی منش شاعر یا ادیب نہیں تھا (یہ ایک الگ موضوع ہے کہ وہ واقعی کوئی شاعر تھا بھی یا نہیں) اور نہ وہ کوئی خادمِ ادب تھا بلکہ وہ تو ایک بلیک مارکٹیہ، دلال تھا۔ وہ نہیں جو چکلہ خانوں اور شیئر بازار میں نظر آتے ہیں، بلکہ وہ جو صاحبِ حیثیت اور سیاسی لوگوں سے ادب کی دلالی کرتے ہیں اور چند سکوں کے عوض کسی بھی کم ظرف اور اونے پونے نیم پاگل لکھاریوں کو ادب کی سند عطاء کرتے ہیں( حالانکہ بذاتِ خود ان کی اپنی کوئی ادبی سند نہیں ہوتی) اور اپنے نا اہل و عزیز و اقارب کو اپنا ضمیر اور ایمان گروی رکھ کر اور خوشامد پسندی سے پروفیسر شب اور ڈاکٹریٹ کا Tag لگا دیتے ہیں، نیز ایسے لوگوں سے کتنا ہی ذلت آمیز سلوک کیا جائے وہ خندہ پیشانی سے قبول کر لیتے تھے۔ اور یہی ان کی کامیابی کی کنجی تھی۔شاید یہی وجہ تھی کہ جو اس کا مجسمہ اس چوراہے پر نصب کیا جا رہا تھا بہر ہال کوئی کتنی بھی کوشش کر لیں۔ لاکھ شاہراہیں کسی کے نام سے منسوب کر لی جائے بونے قد آور نہیں بن سکتے اور جو دراز قد ہوتے ہیں وہ دور سے’’پہچان‘‘لیئے جاتے ہیں کیونکہ فنکار کائنات گیر ہوتا ہے۔ جیسے Yanni کی موسیقی سر حدوں کو پھاند کر حساس دلوں سے اپنے تار ملا لیتی ہے۔ کہ تاج محل بھی اس کی انگلیوں کے ساتھ تھرکنے لگتا ہے۔ علاقہ اور محلے تو سگ گزیدہ لوگوں کے ہوتے ہیں۔ جو اپنے علاقوں میں دوسروں کی اجارہ داری قبول نہیں کرتے۔ اور آخر میں یہ کہ تخلیق اپنے راستے خود تلاش کر لیتی ہے۔ وہ، مٹی کا مکان، ہو کہ جس کے آگے کتنی ہی Concrete کی عمارتیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتی ہے۔ یا پھر وہ، اس کی گلی، کا طواف کرتے ہوئے ہلکے پھلکے گیت غزل اور نظمیں ہوں۔جو موسیقی سے آراستہ ہو کر سامعین کو مسحور کر دیتے ہیں۔
بابر شریف
اس کی گلی۔۔۔کا شاعر
اس کی گلی۔۔۔ شاہد کبیر کے ان کلاموں پر مشتمل مجموعہ ہے جو کہ زیادہ تر موسیقی کی دنیا (Music Industry) کو دھیان میں رکھ کر لکھا گیا ہے اس میں سے بہت سے کلام آپ لوگوں کے سامنے البم اور فلم کے ذریعے آ چکے ہیں اور کچھ مستقبل میں آنے والے ہیں۔ لہذا اس مجموعہ کا لہجہ ’مٹی کا مکان‘ (1979)اور ’پہچان‘ اردو (1999) اور ہندی (2003 )سے جدا ہے۔ یہ دو کتابیں شاہد کبیر کو جدید شعراء کی بھیڑ میں نمایاں مقام عطا کرتی ہے۔ شاہد کبیر کو ودربھ میں جدید اردو شاعری کے امام کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اور یہ امامت شاہد کبیر کے قبیلے کا ہی حصہ ہے نیز الیکٹرونک میڈیا سے لے کر عالمی سطح پر نکلنے والے اخبارات اور رسائل نے بھی شاہد کبیر کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اردو حلقہ موجود ہیں۔ وہاں تک شاہد کبیر کے نام کی رسائی ہے اور انہیں کسی تعارف نامے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ان کی غزلیں بورڈ اور یونی ورسٹی سطح پر نصاب کا حصہ بن چکی ہے۔
میرا خیال رہا ہے کہ کسی بھی شاعر کی پوری شاعری دنیا کے سامنے آنی چاہیے۔ جیسے گلزار صاحب کی ایک کتاب ’میرا کچھ سامان‘ ان کے فلمی نغموں پر ہی مشتمل ہے اور میں اپنے ادبی سفر میں گلزار، ندا، شاہد کبیر اور جاوید اختر سے کافی متاثر رہا ہوں۔ شاہد کبیر کے عزیز دوست اور مشہور قوال جناب اختر آزاد صاحب کے پاس بھی شاہد کبیر کے کچھ چنندہ کلام موجود تھے جو انہوں نے مجھے اس خط کے ساتھ پوسٹ کیا۔
عزیزم ثمیر میاں ! امید کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔
معذرت خواہ ہوں تمھارے والدِ محترم شاہد بھائی کے کلام بھجوانے میں تاخیر ہوئی ’مٹی کا مکان اور پہچان‘ کے علاوہ جتنے کلام میرے پاس محفوظ تھے تمہارے حوالے کر رہا ہوں اور ایک بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہا ہوں۔
1965سے آخر دم تک شاہد بھائی سے میری دوستی قائم رہی۔ اس عرصۂ دراز میں، میں نے ہر رنگ میں اور ہر مزاج میں ان کو دیکھا ہے۔ ایک عظیم شاعر کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان تھے، با ظرف اور خود دار تھے اور کتنی خوبیاں گناؤں سب ان کے ساتھ چلی گئیں۔ اس میں بہت سے کلام فنِ قوالی اور مقابلے ء قوالی کو دھیان میں رکھ کر لکھا گیا۔حالانکہ یہ ان کا رنگ نہیں تھا پھر بھی ان کلاموں میں کئی رنگ نظر آئیں گے جن سے شاید تم لوگ بھی واقف نہیں ہو اور یہی ایک بڑے شاعر کی پہچان ہے خدا انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔
آمین!
انہی کے ایک شعر سے اختتام کر رہا ہوں۔۔۔۔۔
وہ بچھڑ کے بھی سدا پاس رہا کرتا ہے
جس کو کھویا نہیں ہم نے اسے پائیں کیسے
تمہارا انکل اختر آزاد
ممبئی 19 مئی 2003
ساتھ ہی ساتھ میں ایک بات اور بتا تا چلوں کہ اس کتاب کو دیو ناگری میں بھی شائع کیا گیا ہے بقولِ گلزار ’’اگر اردو دو رسم الخط میں لکھی جائے تو کیا حرج ہے ؟ اور بھی تو زبانیں ہیں جو دو رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے۔ اور اب بھی لکھی جا رہی ہے جیسے پنجابی‘‘۔۔۔
شکریہ سب سے پہلے خدا کی ذات کا کہ اس نے مجھے عقلِ سلیم سے نوازا اور مجھے ایسے لوگوں سے ملایا جو خلاق ذہن،کھلے دماغ کے اور شریف النفس بھی ہیں۔ شکریہ اس ماں کا (اختر کبیر) حالانکہ ماں کی ممتا کو کسی بھی پیمانے میں ناپا نہیں جا سکتا، جس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی رونق نے مجھے ہمیشہ میرے مقصد میں کامیابی کی دعا دی۔نازیہ کبیر میری اہلیہ جس نے مجھے گھر کے ضروری کاموں سے دور رکھا کہ میں غیر ضروری کام کر سکوں۔میرے بھائیوں اور بہنوں کا جن کی حوصلہ افزا ئی میری کامیابی کی ضمانت بنتی ہے۔
شکریہ شری رتن ڈاگا کا (انڈسٹریلسٹ)، محمد غلام رسول اشرف (ریٹائرڈ پرنسپل)،بابر شریف (مصور اور فکشن نگار)، اقبال بشر صاحب (ایڈیٹر، اربابِ قلم دیواس)، آنند کوہلی (بزنس مین) اور روہت کمار میت (وائس پبلیکیشن، لکھنؤ )کا جنہوں نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔
حقیقتوں کا سبھی کو پتہ نہیں ہوتا
کوئی کسی سے بچھڑ کے جدا نہیں ہوتا
ثمیر کبیر
ناگپور 23 جنوری 2014
نعت
نبی کا مرتبہ اﷲ اکبر
حبیبِ کبریا اﷲ اکبر
غریبوں کی دعا اسم محمد
ضعیفوں کا عصا اﷲ اکبر
فضاؤں پر لکھا اِسم محمد
ہواؤں نے پڑھا اﷲ اکبر
وہ جس نے دشمنِ جاں کو دُعا دی
محمد! مرحبا! اﷲ اکبر
٭٭٭
نعت
ہے وجہِ نظم دو عالم تمام کہتے ہیں
وہ اک بشر جسے خیر الانام کہتے ہیں
پہنچ کے در پہ سلامی سلام کہتے ہیں
قفس نصیب صبا سے پیام کہتے ہیں
وہ شانِ خاک نشینی کہ شرمسارہے عرش
اسی لئے تجھے عالی مقام کہتے ہیں
ترے پیام عمل سے نظام عالم پر
کرم وہ ہے کہ جسے فیضِ عام کہتے ہیں
فقیر ہے اسی اک ربطِ خاص پر نازاں
امیر ہے جسے تیرا غلام کہتے ہیں
سلام عرض ہے اُس کے حضور میں شاہدؔ
فرشتے جس پہ درود و سلام کہتے ہیں
٭٭٭
نعت
اﷲ اﷲ ہر اک تیرگی میں چاند سورج ستارے نبی ہیں
آخرت میں بھی ہم بے کسوں کی مغفرت کے سہارے نبی ہیں
عیشِ دنیا سے ہے جن کو نسبت، ہو مبارک انھیں مال و دولت
ہم کو کافی ہے اُن کی محبت، ہم کو پیارے ہمارے نبی ہیں
ہم غریبوں کا جو ہے سہارا، جان و دل سے بھی ہم کو ہے پیارا
ہر مصیبت میں اپنا ہمارا، کون ہو گا ہمارے نبی ہیں
دید کا ہم کو بھی حوصلہ دو، فاصلے درمیاں سے مٹا دو
ہم کو بھی اپنا روضہ دکھا دو، ہم بھی فرقت کے مارے، نبی ہیں
بخشے جائیں گے جن کے سہارے وہ ہیں سرکار آقا ہمارے
جان و دل تو ہیں سب کو ہی پیارے،جان و دل سے بھی پیارے نبی ہیں
دونوں عالم کے سرور وہی ہیں، ہم تو شاہدؔ فقط امتی ہیں
سب کی آنکھوں کا مرکز نبی ہیں،سب کی آنکھوں کے تارے نبی ہیں
٭٭٭
نعت
انسان کی قسمت پر احسان ہمارا ہے
تہذیب زمانے کی قرآن ہمارا ہے
ہم اسلئے رکھتے ہیں ٹھوکر میں زمانے کو
ہر شئے سے بڑی دولت ایمان ہمارا ہے
یہ بات الگ ہے کہ وہ فرش پہ سوتا ہے
مختار دو عالم کا سلطان ہمارا ہے
جاں آپ کی خدمت مین چھوٹا سا ہے نذرانہ
دل آپ کی چوکھٹ پر قربان ہمارا ہے
سچا ہے وہی رستہ جو اُس نے بتایا ہے
دنیا کے لئے شاہدؔ اعلان ہمارا ہے
٭٭٭
نعت
پیامِ زندگی ہے دہر میں آنا محمدﷺ کا
حقیقت دونوں عالم کی ہے افسانہ محمدﷺ کا
ہر اک محفل میں جل جل کر چراغوں نے گواہی دی
احد کی شمع پہ جلتا ہے پروانہ محمدﷺ کا
جفاؤں سے وفا کی گالیاں سن کر دعائیں دیں
ہزاروں ظلم اور اک لطف فرمانا محمدﷺ کا
مری دیوانگی پر عقل والے رشک کرتے ہیں
میں دیوانہ ہوں، دیوانہ ہوں، دیوانہ محمدﷺ کا
٭٭٭
نعت
تھا آسماں پہ گذر شہسوار ایسے تھے
زمیں پہ سوتے تھے وہ خاکسار ایسے تھے
فلک کا چاند اشارے سے اُن کے ٹوٹ گیا
زمیں پہ رہ کے انھیں اختیار ایسے تھے
اندھیری راتوں میں اُٹھ اُٹھ کے مانگتے تھے دعا
ہمارے واسطے وہ بے قرار ایسے تھے
ملا ہے جن کے صحابہ کو مرتبہ شاہدؔ
وہ کون ہوں گے کہ جب اُن کے یار ایسے تھے
٭٭٭
نعت
میں ذکر نبی اے خدا کر رہا ہوں
شرف تو دے میں حوصلا کر رہا ہوں
ترا کام ہے مجھ کو توفیق دینا
مرا فرض جو ہے ادا کر رہا ہوں
ترا نام لینے کے قابل نہیں میں
مگر رات دن یہ خطا کر رہا ہوں
تھکے نہ زباں تعریف کرتے کرتے
جو ہے مدعا وہ دعا کر رہا ہوں
خدا میرا شاہدؔ ہے اے میرے آقا
کہ میں تذکرہ آپ کا کر رہا ہوں
٭٭٭
نظمیں
اُس کی گلی
کوئی لے جاتا ہے اُس تک نہ قضا آتی ہے
آپ ہو کر مجھے جانے میں حیا آتی ہے
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
مجبور کر کے مجھ کو مرے یار لے چلو
شاید یہ میرا وہم ہو میرا خیال ہو
ممکن ہے میرے بعد اُسے میرا ملال ہو
پچھتا رہا ہو اب مجھے دَر سے اُٹھا کے وہ
بیٹھا ہو میری راہ میں آنکھیں بچھا کے وہ
اُس نے بھی تو کیا تھا مجھے پیار لے چلو
اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
اب اس گلی میں کوئی نہ آئے گا میرے بعد
اس در پہ کون خون بہائے گا میرے بعد
میں نے توسنگ و خشت سے ٹکرا کے اپنا سر
گُلنار کر دئے تھے لہو سے وہ بام و در
پھر مُنتظر ہیں وہ درو دیوار لے چلو
اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
وہ جس نے میرے سینے کو زخموں سے بھر دیا
چھُڑوا کے اپنا دَر مجھے دَر دَر کا کر دیا
مانا کہ اس کے ظلم وستم سے ہوں نیم جاں
پھر بھی میں سخت جاں ہوں پہنچ جاؤں گا وہاں
سو بار جاؤں گا مجھے سوبار لے چلو
اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
دیوانہ کہہ کے لوگوں نے ہر بات ٹال دی
دنیا نے میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
چاہو جو تم تو میرا مقدر سنوار دو
یارو یہ میرے پاؤں کی بیڑی اُتار دو
یا کھینچتے ہوئے سر بازار لے چلو
اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
اُس کی گلی کو جانتا پہچانتا ہوں میں
وہ میری قتل گاہ ہے یہ مانتا ہوں میں
اُس کی گلی میں مَوت مقدر کی بات ہے
شاہدؔ یہ موت اہلِ وفا کی حیات ہے
میں خود بھی موت کا ہوں طلبگار لے چلو
اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
٭٭٭
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
تصور کا پردہ اٹھائے ہوئے
خیالوں کی محفل سجائے ہوئے
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
لڑکپن گیا تھا جہاں چھوڑ کر
جوانی کے اس اجنبی موڑ پر
تعجب سے ہر شئے کو تکتا ہوا
کھڑا تھا میں آنکھیں جھپکتا ہوا
نہ منزل نہ رستہ کوئی کیا کروں
کہاں جاؤں میں کس کو آواز دوں
چلوں تو میرے ساتھ آئے گا کون
اندھیرے میں رستہ بتائے گا کون
اسی سوچ میں زندگی تھی مگن
کہ راہوں میں ٹکرا گئی اِک کِرن
نگاہوں میں بجلی جو لہرا گئی
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
وہ کاندھے پہ سر کو جھکائے ہوئے
وہ شانوں پہ زلفیں بچھائے ہوئے
ہر اک سانس پر دل مچلتا ہوا
وہ سینے سے آنچل پھسلتا ہوا
دوپٹے کو منہ میں دبائے ہوئے
حیاسے بدن کو چرائے ہوئے
اداؤں سے جادو جگاتی ہوئی
اشاروں سے دل گدگداتی ہوئی
کلی کو صبا جو سناتی نہیں
نگاہوں سے وہ بات سمجھا گئی
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
ہر اک راہ پر وہ بہکتے قدم
کہاں سے کہاں آ گئے چل کے ہم
وہ سائے درختوں کے ڈھلتے ہوئے
وہ منظر چناروں کے جلتے ہوئے
ہوئی شام کب، سویرا ہوا
کہاں پنچھیوں کا بسیرا ہوا
نہ جاگے ہوئے تھے نہ سوئے تھے ہم
محبت کی وادی میں کھوئے تھے ہم
جوانی کی وہ نیند کاری سی تھی
دلوں پر عجب بے قراری سی تھی
تڑپ کر مجھے بھی جو تڑپا گئی
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
خبر کیا تھی کہ طوفاں آنے کو ہے
لڑی خواب کی ٹوٹ جانے کو ہے
کسے یہ پتہ تھا کسے تھی خبر
کہاں ختم ہو گا وفا کا سفر
ہر اک خواب دل کا بکھر جائے گا
محبت کا دریا اتر جائے گا
رلائیں گی دنیا کی مجبوریاں
نگاہوں میں رہ جائیں گی دوریاں
اسی زندگی کے کسی موڑ پر
گئی اس طرح وہ مجھے چھوڑ کر
کہ میری وفا اس سے شرما گئی
مجھے کل اچانک وہ یاد آ گئی
٭٭٭
انتظار
وہ نہیں آیاتواس کیلئے حیراں کیوں ہے
کوئی امید نہیں ہے تو پریشاں کیوں ہے
دل میں اب اس سے ملاقات کا ارماں کیوں ہے
وہ مسافر تھا مسافر کا بھروسہ کیا ہے
صرف دو چار ملاقاتوں سے ہوتا کیا ہے
دل کی دنیاسے جو اِک بار چلا جاتا ہے
جانے کس موڑ کس راہ میں کھو جاتا ہے
جس کی اُمید نہیں اے دلِ بیتاب کوئی
اپنی آنکھوں میں نہ رکھ اس کے لئے خواب کوئی
خواب پھر خواب ہے ٹوٹا تو بکھر جائے گا
اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کی حسیں دنیاسے
آج تک لوٹ کے آیا نہ کوئی آئے گا
آس بے آس ہوئی بند ہوئے درسارے
راہ تک تک کے بکھرنے لگے منظرسارے
ایک اِک کر کے سبھی سوگئے چاند اور تارے
دورِ مئے ختم ہوئے ٹوٹ گئے پیمانے
سوگئے نیند کی آغوش میں بادہ خانے
بجھ گئی شمعیں سبھی راکھ ہوئے پروانے
منتظر آنکھوں کو اب بند کریں سوجائیں
ہم بھی اے دلِ بیتاب چلیں سوجائیں
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
٭٭٭
ہائے تم کتنی خوبصورت ہو
اس حسیں جسم کو لفظوں میں اتاروں کیسے
کونسا نام دوں میں تم کو پکاروں کیسے
رنگ ہو، نور ہو کہ نکہت ہو
ہائے تم کتنی خوبصورت ہو
رو میں آئے بدن تو بان بنے
اور لہرائے تو کمان بنے
کس قیامت کی یہ جوانی ہے
شرم سے آئینہ بھی پانی ہے
جسم، عاشق کی التجا جیسے
حسن،فنکار کی دعا جیسے
روپ لفظوں میں جو سمانہ سکے
رنگ،تصویر میں جو آنہ سکے
عکس ہویا کوئی خیال ہو تم
ذہن شاعر میں اک سوال ہو تم
خواب ہو یا کوئی حقیقت ہو
ہائے تم کتنی خوب صورت ہو
رنگ جو بن کا یوں چھلکتا ہے
جیسے شعلہ کوئی لپکتا ہے
جسم چھو لو تو ایسے بل کھائے
جیسے پانی میں عکس لہرائے
چال میں اسطرح بدن ڈولے
مور چلتا ہو جیسے پر تولے
لب چھلکتا ہوا گلاس لگے
جتنی پی جاؤ اتنی پیاس لگے
وہ نشہ جو نہیں شرابوں میں
میں جسے ڈھونڈتا تھا خوابوں میں
تم وہی میرے دل کی حسرت ہو
ہائے تم کتنی خوب صورت ہو
رخ مہکتا ہوا گلاب لگے
چہرہ افسانوں کی کتاب لگے
آنکھ میں کیفیت وہ چھائی ہے
جیسے خیامؔ کی رباعی ہے
جسم کھلتا ہوا کنول جیسے
میرؔ کی بولتی غزل جیسے
اپسرا ہو کسی کہانی کی
یا ہو تصویر کوئی مانی کی
یا عبادت ہو کوئی زاہد کی
یاسراپا ہو نظم شاہدؔ کی
یا اجنتا کی کوئی مورت ہو
ہائے تم کتنی خوب صورت ہو
٭٭٭
گھنگھرو
میں لاج کی ماری رات
نہ بولی پی سے جیا کی بات
تو گھنگھرو بول اُٹھے
کچھ ایسا کیا پی نے جادو
تن بس میں نہ من پہ تھا قابو
میں لاج کے بندھن توڑ چلی
گھر آنگن سے منہ موڑ چلی
سویا ہوا سارا گاؤں
سمجھ کے گھر سے نکالے پاؤں
تو گھنگھرو بول اُٹھے
میں شرم و حیا کی ماری تھی
اور مجھ پہ جوانی بھاری تھی
دیکھا نہ پیا کی اُور مگر
مرے من میں چھُپا تھا چور مگر
جب بولی نہ پی کے ساتھ
دبا لی ہونٹوں میں جی کی بات
تو گھنگھرو بول اُٹھے
چُنری تھی مری ڈھلکی ڈھلکی
گاگر بھی تھی کچھ چھلکی چھلکی
پَگ پَگ میں سنبھل کے آپ چلی
پَیروں کی دبا کے چاپ چلی
میں نے لاکھ سنبھالے پاؤں
مگر جب آئی پیا کے گاؤں
تو گھنگھرو بول اُٹھے
کل رات گئے جب آئے پیا
کچھ ایسا مِرا گھبرایا جِیا
میں بن کے رہی سوئی ہوئی
سپنوں میں رہی کھوئی ہوئی
موہے سُونگھ گیا تھا سانپ
مگر جب پاؤں گئے مرے کانپ
تو گھنگھرو بول اُٹھے
آنکھوں میں نشے کی لالی تھی
اور چال بھی کچھ متوالی تھی
میں دیکھ کے ان کو کانپ گئی
پاپی کی نجریا بھانپ گئی
تھاپی کے جیا میں کھوٹ
میں ڈر کے چھُپ گئی پٹ کی اوٹ
تو گھنگھرو بول اُٹھے
جَل بھَرکے چلی جب پنگھٹ سے
مَن اُڑ گیا پی کی آہٹ سے
اُس اور کھڑے تھے سانوریا
اِس اور جو دھڑ کا مورا جیا
میں نے روک لی ڈر کے سانس
مگر مرے پاؤں میں چُبھ گئی پھانس
تو گھنگھرو بول اٹھے
لاج آئے بھلا ناچوں کیسے
سیَاں نے کہا گوری ایسے
پھر مجھ کو جکڑ کے بانہوں میں
اور باندھ کے گھنگھرو پاؤں میں
گَت چھیڑ نِرت کی آپ
لگائی طبلے پہ جب اک تھاپ
تو گھنگھرو بول اُٹھے
٭٭٭
گوری روٹھ گئی
سَیاں نے دَبا کے ہات
نہ جانے کون سی کہہ دی بات
کہ گوری روٹھ گئی
کچھ ایساملن کا جادو تھا
تن بس میں نہ من پہ قابو تھا
اَنجان نگرسنسان ڈگر
ملنے کی بھی دھُن دنیا کا بھی ڈر
ایسے میں اکیلی گھیر
پیا نے اتنی لگائی دی دیر
کہ گوری روٹھ گئی
پَل بھر کو وہ اک سَپنا سالگا
تھا غیر مگر اپنا سا لگا
باہوں کو گلے کا ہار کیا
سینے سے لگا کے پیار کیا
جب بھیگ کے مہکی رات
یہاں تک پھیل کے پہنچی بات
کہ گوری روٹھ گئی
تن اُجلا عُمریا بالی تھی
آنکھوں میں حیا کی لالی تھی
کوری تھی چُنریا بھولی کی
اور دھُوم مجی تھی ہولی کی
ہائے رنگ دیا سب انگ
پیا نے ڈالا کچھ ایسارنگ
کہ گوری روٹھ گئی
کچھ عمر بھی تھی نادانی کی
کچھ جان کے بھی من مانی کی
چُپکے سے پیا کے دیس گئی
جوگن کا بنا کر بھیس گئی
جب پریم کی بھڑکی آگ
تو دل سے دل کا ہوا یوں لاگ
کہ گوری روٹھ گئی
جو بن بھی تھا کچھ چھلکا چھلکا
آنچل بھی تھا کچھ ڈھلکا ڈھلکا
اور سر پہ گگریا بھاری تھی
کچھ کر نہ سکی لاچاری تھی !
جب پیا نے لیا مُنہ چُوم
توسارے گاؤں میں مچ گئی دھُوم
کہ گوری روٹھ گئی
٭٭٭
تجھ سے محبت نہ کروں
زندگی ہے تومری کیوں تِری حسرت نہ کروں
گھٹ کے مر جاؤں اگر تجھ سے محبت نہ کروں
رات دن تومری دنیا میں رہا کرتی ہے
دل میں دھڑکن کی طرح آنکھ میں آنسو کی طرح
تجھ کو خوابوں میں چھوا تھا کبھی اے جان حیا
بس گئی ہے مرے ہاتھوں میں تو خوشبو کی طرح
دور رہنے کی بھی اب تجھ سے شکایت نہ کروں
گھٹ کے مر جاؤں اگر تجھ سے محبت نہ کروں
روشنی، رنگ۔ صبا، چاند ستارے بن کر
زندگی تیرے سراپے میں اُتر آئی ہے
کوئی محبوب زمانے میں نہیں تیرے سوا
میری قسمت تجھے جنت سے چُرا لائی ہے
تیرے ہوتے ہوئے میں خواہش جنت نہ کروں
گھٹ کے مر جاؤں اگر تجھ سے محبت نہ کروں
جب سے دیکھا ہے تجھے اے مری تصویر حیا
تب سے جانا کہ وفا کیا ہے محبت کیا ہے
سچ تو یہ ہے ترے اک حرفِ وفا کے آگے
میری نظروں میں زمانے کی یہ دولت کیا ہے
توہے میری توکسی شَے کی بھی چاہت نہ کروں
گھٹ کے مر جاؤں اگر تجھ سے محبت نہ کروں
٭٭٭
آئینہ دیکھ لے
تو بھول بھی جائے تومیں کیسے بھلاؤں گا
جو خواب محبت کا ہم دونوں نے دیکھا ہے
دونوں کی محبت میں ہے فرق مگر اتنا
تو نے مجھے چاہا تھا میں نے تجھے پُوجا ہے
مجھ کو اٹھا کے بزم سے پچھتا رہی ہے تو
اب آپ اپنی بھول پہ شرما رہی ہے تو
آنکھ نم، زلف رُخ پر پریشان ہے
روٹھ کر مجھ سے تو بھی پشیمان ہے
آئینہ دیکھ لے، آئینہ دیکھ لے
چاند بن کر کبھی تو گگن میں رہے
پھول بن کر کبھی ہر چمن میں رہے
تیری خوشبو کا جھونکا پَوَن میں رہے
تو بچھڑ کے بھی ہر انجمن میں رہے
خود نمائی تِرے حُسن کی جان ہے
رُوٹھ کر مجھ سے تو بھی پشیمان ہے
آئینہ دیکھ لے، آئینہ دیکھ لے
سَو دفعہ اپنے مَن کو ٹٹولا بھی ہے
اپنے ہاتھوں میں آنچل کو تولا بھی ہے
اُنگلیوں پہ لپیٹا بھی کھولا بھی ہے
کچھ نہ کچھ تیری آنکھوں نے بولا بھی ہے
کیوں نہ بے چین ہو تو بھی انسان ہے
روٹھ کر مجھ سے تو بھی پشیمان ہے
آئینہ دیکھ لے، آئینہ دیکھ لے
دن بِتایا ہے کانٹوں پہ چلتے ہوئے
رات گذری ہے کروٹ بدلتے ہوئے
دور کی آہٹوں پہ سنبھلتے ہوئے
سوچتی کیا ہے آنکھوں کو ملتے ہوئے
دیکھ کر مجھ کوتو بھی تو حیران ہے
روٹھ کر مجھ سے تو بھی پشیمان ہے
آئینہ دیکھ لے، آئینہ دیکھ لے
آرزوئیں بدن میں دبائے ہوئے
پیار کی بات من میں دبائے ہوئے
دھڑکنیں پیرہن میں دبائے ہوئے
کیسے رکھے گی تن میں دبائے ہوئے
تیرے سینے میں چاہت کا طوفان ہے
روٹھ کر مجھ سے تو بھی پشیمان ہے
آئینہ دیکھ لے، آئینہ دیکھ لے
٭٭٭
جنازہ اُٹھائیے
سارے دکھوں سے چھُوٹ رہا ہوں
دل کی طرح میں ٹوٹ رہا ہوں
تم تو فقط مجھ سے رُوٹھے تھے
میں دنیاسے روٹھ رہا ہوں
کب تک یہ انتظار، جنازہ اٹھائیے
آئے گا اب نہ یار، جنازہ اٹھائیے
اب لَوٹ کر نہ آؤں گاہے آخری سفر
ایسے میں کون جاتا ہے اپنوں کو چھوڑ کر
جو چھوڑ کر گیا ہے اُسے بھول جائیے
آئے گا اب نہ یار، جنازہ اٹھائیے
اب میں خیال و خواب میں اڑتا غبار ہوں
میں مر چکا ہوں دوشِ عزیزاں پہ بار ہوں
مِٹی کو میری اب تو ٹھکانے لگائیے
آئے گا اب نہ یار، جنازہ اٹھائیے
اک بے وفا کے طرزِ تغافل کا کیا گلہ
میں جانتا ہوں غم ہے تمہیں میری موت کا
دو گام چل کے تم ہی مجھے چھوڑ آئیے
آئے گا اب نہ یار، جنازہ اٹھائیے
یہ آخری وصال ہے ہو گا مزار میں
مٹی تڑپ رہی ہے مرے انتظار میں
دُولھا بنا ہوں میں، مجھے کاندھا لگائیے
آئے گا اب نہ یار، جنازہ اٹھائیے
یہ وقت صبر کا ہے چلو فاتحہ پڑھو
مجھ کو اٹھا کے میری لحد کی طرف بڑھو
یہ آخری کہا تو مِرا مان جائیے
آئے گا اب نہ یار، جنازہ اٹھائیے
٭٭٭
مکھڑا مستانہ
مکھڑا مستانہ ترا، اس پہ شرمانا ترا
آ جا آ جا، میں ہوں دیوانہ ترا
چاند تارے ہوں تو کیا، رات ہر رات نہیں
حُسن والے ہیں بہت، سب میں یہ بات نہیں
تیر ہر ناز الگ، تیری ہر بات الگ
تیری انداز الگ، تیرے دن رات الگ
صبح تو بادِ صبا، کبھی سورج کی کِرَن
کبھی شبنم کی رِدا، کبھی پھولوں کا بدن
رات اک خواب ہے تو،نشۂ ناب ہے تو
ہر اندھیرے کے لئے،شمعِ مہتاب ہے تو
رنگِ دامن سے ترے، پھول گلنار بنے
تیری خوشبوئے بدن، گُل کی مہکار بنے
گل کھِلانے کی ادا، تیری گفتار میں ہے،
حشر اُٹھانے کی ادا، تیری رفتار میں ہے
جسم لہرانا ترا، اس پہ شرمانا ترا
آ جا آ جا، میں ہو ں دیوانہ ترا
یہ حسیں رات جواں،ہم سے اصرار کرے
میں تجھے پیار کروں، تو مجھے پیار کرے
چھیڑ نغموں کو ذرا،دل ملا ساز ملا
میری آواز میں آ،اپنی آواز ملا
ہاں ذرا جھوم کے گا،رقص کر مست بنا
اپنے نغموں سے ذرا،دل کو سر مست بنا
زُلف بکھرا کے ذرا،رات کو رات بنا
یا مجھے پیار نہ کر،یا مری بات بنا
میرے شانوں پہ رہیں،سائے بالوں کے ترے
میرے ہونٹوں پہ کھلیں،پھول گالوں کے ترے
تو مرے پاس ہے تو،سب ہے قابو میں مرے
ہاں اِسی طرح سدا، آ کے پہلو میں مرے
دل کو بہلانا ترا، اُس پہ شرمانا ترا
آ جا آ جا، میں ہوں دیوانہ ترا
روپ ہے تیرا سوناچاندی، روپ ہی تیرا مال
روپ کی دھُوپ ڈھلی تو گوری توہے پھر کنگال
وقت ظالم ہے بہت،دیکھ یہ دن نہ گنوا
اپنے ملنے کی گھڑی،میرے محسن نہ گنوا
کھول دے زلفِ دوتا،جس طرح کالی گھٹا
جھوم کر اُٹھ تو ذرا،جیسے متوالی گھٹا
میرے نزدیک پھر آ،چھائے قُربت کا نشہ
میری رگ رگ میں رہے،تیری چاہت کا نشہ
یہ شباب اور یہ دن،سب کو ملتے ہیں کہاں
ہر گلستاں میں سدا،پھول کھلتے ہیں کہاں
پیار کرنے کی اٹھا،کوئی تحریک ذرا
آ مرے پاس تو آ، اور نزدیک ذرا
تو قریب آ ہی گئی، جسم لہراتے ہوئے
اپنے آنچل کاسِرا،سر سے ڈھلکاتے ہوئے
پیار چھلکانا ترا، اس پہ شرمانا ترا
آ جا آ جا، میں ہوں دیوانہ ترا
٭٭٭
بیت نہ جائے رُت یہ رنگیلی
بیت نہ جائے رُت یہ رنگیلی، ساون روٹھ نہ جائے
میں بھی اکیلا تو بھی اکیلی، کیسے کوئی رہ پائے
او گوری آ جا رے
تیرے بن چین نہ آئے
آ تجھے پیار کا انداز سکھانا ہے مجھے
دل میں سوئے ہوئے نغموں کو جگانا ہے مجھے
تو جو آئے تو مرے دل کو قرار آ جائے
میرے اُجڑے ہوئے گلشن میں بہار آ جائے
ہم جو مل جائیں تو حالات بدل جائیں گے
آن کی آن میں دن رات بدل جائیں گے
ساتھ ہم ہوں گے تو قدموں میں زمانہ ہو گا
اپنی آنکھوں کا ہر اک خواب سہانا ہو گا
دن جوانی کے گئے بیت تو پچھتائے گی
جا کے اک بار یہ رُت پھر نہ کبھی آئے گی
دل میں بسا لے اپنا بنا لے
سازِ وفا پہ جھوم کے گا لے
پیار کیا تو پیار نبھا لے
انگ سے میرے انگ ملا لے
بیت نہ جائے رُت یہ گوری، رت نہ سہانی جائے
میں بھی اکیلا تو بھی اکیلی، کیسے کوئی رہ پائے
او گوری آ جا رے
تیرے بن چین نہ آئے
آ تجھے چاند کے سائے کے تلے پیار کروں
تو جو آئے تو مل مل کے گلے پیار کروں
یہ جوانی کا سماں پیار بنا کچھ بھی نہیں
حُسن یہ پیار کے اقرار بنا کچھ بھی نہیں
ساری دنیا پہ ترا حُسن کرے راج مگر
تو ہمیشہ ہے مرے پیار کی محتاج مگر
میرے سائے سے تو کترا کے نہیں جا سکتی
تو مرے پیار کو ٹھکرا کے نہیں جا سکتی
دل جواں ہے تو یہ اقرار بھی کرنا ہو گا
میری محبوب تجھے پیار بھی کرنا ہو گا
پیار محبت پیار جوانی
پیار حقیقت پیار کہانی
پیار نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے
پیار کی رُت ہے سب سے سہانی
جان لے گوری مان لے گوری رُوپ نہ یہ ڈھل جائے
او گوری آ جارے
تِرے بِن چین نہ آئے
پیار ہر رسم سے کترا کے چلا آتا ہے
تخت اور تاج کو ٹھکرا کے چلا آتا ہے
پیار زندہ ہو تو گھٹتا نہیں ارمان کبھی
کہیں روکے سے نہیں رُکتا یہ طوفان کبھی
اس کے آگے کوئی قسمت کوئی تقدیر نہیں
پیار کے سامنے زنجیر بھی زنجیر نہیں
٭٭٭
ہم جو مل جائیں تو تقدیر بدل جائے گی
اپنے حالات کی تصویر بدل جائے گی
پیار تو تیشۂ فرہاد ہوا کرتا ہے
پیار ہر رسم سے آزاد ہوا کرتا ہے
بات بنا دے پیار نِبھا دے
پیار ہے کیا دنیا کو دکھا دے
پیار سے یہ سنسار ہے سارا
سارے جہاں کو پیار سِکھادے
میری محبت تیری جوانی مل کے اَمر ہو جائے
میں بھی اکیلا تو بھی اکیلی کیسے کوئی رہ پائے
او گوری آ جارے
تیرے بِن چین نہ آئے
٭٭٭
اتنا فسانہ اتنی کہانی
اتنا فسانہ اتنی کہانی
اﷲ باقی من کلِ فانی
یہ دنیا ہے اک سرائے آج رہے جو کل وہ جائے
جیون کیا ہے ایک کلی ہے پل میں کھلے پل میں مرجھائے
موت نے کس کو چھوڑا ہے جو وہ تیرا پیچھا چھوڑے گی
یہ ظالم جب بھی آئے گی سانس کی ڈوری کو توڑے گی
کل جو تھا وہ آج نہیں ہے، آج جو ہے وہ کل جائے گا
موت ہے پگلے ایک حقیقت، وقت نہیں جو ٹل جائے گا
لاکھ بچائے گا تو خود کو، اک دن یہ تلوار گرے گی
تیرا بدن کیا ہے ماٹی ہے، ماٹی کی دیوار گرے گی
چھوٹا ہو یا کوئی بڑا ہو موت کسی کو کب بخشے گی
آج جو بچ جائے گا مورکھ کل اس کی گردن پکڑے گی
دارا ہو کوئی سکندر موت نے سب کے پنجے توڑے
مٹ گئے سب چنگیز و ہلاکو رستم و سُہراب نہ چھوڑے
جانتے ہے جو لوگ ہے گیانی
اﷲ باقی من کلِ فانی
دھن دولت پہ مرنے والے دھن دولت ہے آنی جانی
ایک تیری اوقات ہی کیا ہے یہ ساری دُنیا ہے فانی
آج ہے تیرے بس میں سب کچھ پھولوں کے باغات لگا لے
دولت ہے تو دولت سے توسونے کے محلات بنا لے
دولت سے سُکھ مل سکتے ہیں دُنیااس سے جھُک سکتی ہے
دولت سے دُکھ رُک سکتے ہیں موت مگر کب رُک سکتی ہے
دھن دولت سب چھوڑ کے ناداں قبر میں تو تنہا جائے گا
خالی ہاتھ تو آیا تھا اور خالی ہاتھ چلا جائے گا
سوچ لے پگلے راہ فن امیں دولت کس کے کام آئی ہے
شہزوروں کو، مغروروں کو چھوڑ گئی یہ ہرجائی ہے
مِٹ گئے تخت و تاج کے وارث چھُوٹ گئی قارون کی دولت
مارے گئے فرعون کے دعوے، خاک ہوئی نمرود کی جنت
ختم ہوئی ایک ایک نشانی
اللہ باقی من کل فانی
سُکھ کی نیند میں سونے والے سب کی موت خبر رکھتی ہے
موت بھُلا کرہنسنے والے موت ترے سرپرہنستی ہے
پیار کی خوشبو، حُسن کی رنگت، جسم کی چاندی، روپ کاسونا
ایک ہی بس انجام ہے سب کاسب کے لئے مٹی کا بچھونا
حُسن و نزاکت، ذوق ونفاست موت نے سب مٹی میں ملایا
پھول سے بھی نازک جو بدن تھے اُن کو بھی مٹی میں دبایا
رادھا ہو یا رُوپ متی ہو موت کوکب ہے نام سے مطلب
رنگ نہ دیکھے رُوپ نہ دیکھے موت کو ہے بس کام سے مطلب
جھُکتی تھی جس کے آگے شاہی کون ہے وہ ممتاز کہاں ہے
خاک میں مِل کے خاک ہوئے سب خاک کے نیچے نور جہاں ہے
خاک میں سب کو ملنا ہو گا، کُٹیا ہو یا راج محل ہو
شیشوں کے محلات ہوں شاہدؔ اَجنتا ہو یا تاج محل ہو
ہر شَے یہاں کی آنی جانی
اللہ باقی من کل فانی
پی لے
تجھ کو جینا ہے تو میخانے میں جی لے، پی لے
ساری دنیا کے ستم بھول کے پی لے، پی لے
رنگ بھرے جام کے لب چُوم کے پی لے
مست گھٹاؤں کی طرح جھوم کے پی لے
پی لے پی جھوم کے پی لے
جام کے لب کو چُوم کے پی لے
کون کہتا ہے کہ اس چیز میں کیا ہوتا ہے
اس کے ہر قطرہ میں طوفان چھپا ہوتا ہے
پینے والے ہی جیا کر تے ہیں جینے کی طرح
جھوم کر چلتے ہیں لہروں پہ سفینے کی طرح
اس کے پینے سے نظر میں وہ خمار آتا ہے
جس پہ مغرور حسینوں کو بھی پیار آتا ہے
رت جوانی کی گئی بیت تو پچھتائے گا
جا کے اک بار یہ موسم نہ کبھی آئے گا
دن نہ گذر جائیں ترے دھوم کے پی لے
مست گھٹاؤں کی طرح جھوم کے پی لے
تلخ ہوتی مگر بات ہے گہرائی کی
اس کی ہر بوند میں تاثیر ہے سچائی کی
جھوٹاانسان بھی فطرت کو بدل دیتا ہے
اس کے پی لیتے ہی سچ بات اُگل دیتا ہے
آدمی بھول کے ہر فکر و پریشانی کو
چُوم لیتا ہے جب انگور کی اس رانی کو
غم کے صحراؤں کو گلشن یہ بنا دیتی ہے
دھو کے ہر زخم کو کُندن یہ بنا دیتی ہے
بھول جا ہر غم دل محروم کے پی لے
مست گھٹاؤں کی طرح جھوم کے پی لے
میں نے یہ مانا کہ دُشوار ہے جینا تیرا
اَنگِنت زخموں سے بھرپور ہے سینہ تیرا
جان و دل بیچ کے زخموں کا خریدار ہے تو
بے وفاؤں سے محبت کا طلبگار ہے تو
بستیوں میں کہیں ملتا ہے نہ ویرانوں میں
غم کے ماروں کوسکوں ملتا ہے میخانوں میں
رُک، کہاں جاتا ہے ناداں دلِ ناکام لئے
دیکھ پیچھے ترے ساقی ہے کھڑا جام لئے
تو بھی ذرا ہاتھ بڑھا گھوم کے پی لے
مست گھٹاؤں کی طرح جھوم کے پی لے
٭٭٭
کیا خبر تھی کبھی یہ زہر بھی کھانا ہو گا
کیا خبر تھی کبھی یہ زہر بھی کھانا ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
تو کبھی میرا نگہبان ہوا کرتا تھا
میرے غم میں تو پریشان ہوا کرتا تھا
اب مرے واسطے مغموم بھی ہونا نہ کبھی
میرے محبوب مرے حال پہ رونا نہ کبھی
پیار ان باتوں سے رُسوائے زمانہ ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
تو جُدا ہے تو جدا مجھ سے ہے سایہ میرا
اب جہاں میں کوئی اپنا نہ پرایا میرا
پیار کا ہوتا ہے انجام یہ معلوم نہ تھا
مجھ کو میرے دلِ ناکام یہ معلوم نہ تھا
اپنے ہی خون میں اک روز نہانا ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
میں نے تیرے لئے راتوں کو دُعائیں مانگیں
اپنے دامن کیلئے تیری بلائیں مانگیں
پھر بھی جب تیری جفاؤں کا خیال آئے گا
اشک آنکھوں میں نہ چہرے پہ ملال آئے گا
دل میں طوفان اُٹھے گا تو دبانا ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
لب پہ شکوہ کبھی لایا ہے نہ فریاد کیا
لوگ کہتے ہیں کہ تو نے مجھے برباد کیا
میں مگر تجھ پہ یہ الزام نہ آنے دوں گا
جان دیدوں گا یہ تہمت نہ لگانے دوں گا
موت میری تیرے جینے کا بہانا ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
اب مجھے تیرے ستم جانِ ستم یاد نہیں
تیرے وعدے تیرے قول اورقسم یاد نہیں
اب میں اس شہر میں مہمان سابن جاؤں گا
دیکھ کر بھی تجھے انجان سابن جاؤں گا
یہ بھی اک فرضِ محبت ہے نبھانا ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
زندگی میں مِری اب اور تو کیا رکھا ہے
اِک تری یادکوسینے سے لگا رکھا ہے
اب تِری یاد کو میں دِل سے مٹاؤں کیسے
تجھ کو بھولا تھانہ بھولا ہوں بھلاؤں کیسے
زخم تڑپائے گا جتنا بھی پُرانا ہو گا
ہو کے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
تُو نے جب ہاتھوں کو مہندی سے سجایاہو گا
کیا مرا خونِ جگر یاد نہ آیا ہو گا
جب صدا کانوں میں شہنائی کی آئی ہو گی
کتنے راگوں نے مری یاد دلائی ہو گی
پیار کے درد کو تب تو نے بھی جانا ہو گا
ہوکے مجبور مجھے تجھ کو بھُلانا ہو گا
٭٭٭
بچپن
کھو چکا ہے مرا بیتا ہوا بچپن لیکن
دور سے پھر بھی یہ لگتا ہے صدا دیتا ہے
دھندلے ایسے ابھرتے ہیں گئے دن جیسے
کوئی بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
سر شام سے میرے بیتے ہوئے دن
کہانی سے آ کر سناتے ہیں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
وہ گلیاں وہ آنگن وہ پیڑوں کے سائے
وہ بچپن کے ساتھی وہ اپنے پرائے
میں جب بھی کبھی دیکھتا ہوں ہٹ کر
تو لگتا ہے جیسے بلاتے ہیں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
کبھی میں نہاتا تھا ندیوں کے تٹ پر
کبھی دھول اڑاتا تھا پگڈنڈیوں پر
وہ کتنے حسیں تھے لڑکپن کے منظر
جو خوابوں میں آ کر جگاتے ہیں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
کسی کو ہنسانا کسی کو رُلانا
عجیب کھیل تھا دوستوں کو ستانا
مگر زندگی کی کڑی دھوپ میں اب
خود اپنے ہی سائے ڈراتے ہیں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
وہ گھر سے نکلنے کا چھوٹا بہانا
وہ باغوں میں جا کر پھلوں کا چرانا
سناتا ہوں ہنس ہنس کے سب کو وہ قصے
جو تنہائیوں میں رُلانے میں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
وہ ساتھی جنہیں میں سمجھتا تھا بھولے
وہ ٹوٹے کھلونے وہ ساون کے جھولے
نگاہوں میں سب جھول جاتے ہیں میری
یہ جب نیند میں گدگداتے ہیں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
وہ دن سب دکھائی مجھے دے رہے ہیں
مجھے جیسے آواز سی دی رہے ہیں
کوئی کاش لوٹا دے بیتے ہوئے دن
وہ دن آج جیسے بلاتے ہیں مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو
بچپن کے دن یاد آتے ہیں مجھ کو
٭٭٭
اجمیر
دیواروں سے ٹکرائے نہ صحراؤں میں بھٹکے
اک راہ پہ ہم چل پڑے ہر راہ سے کٹ کے
دنیا نے صدائیں تو بہت دی تھی پلٹ کے
جینے کا مزہ خاک تھا اجمیر سے کٹ کے
گم ہو گئے ہم روضۂ خواجہ سے لپٹ کے
جو آنکھ صدا روضۂ انوار کو ترسے
ہو گی نہ کبھی بند کسی خوف سے ڈر سے
واپس نہیں آتا ہے کوئی موت کے ڈرسے
آواز تو دے کوئی مجھے آپ کے درسے
آ جاؤں گا میں موت کی وادی سے پلٹ کے
گلشن کے فضاؤں میں چہکتے ہوئے طائر
صحراؤں میں اڑتے ہوئے ذروں کے عناصر
سوچو تو یہاں تک ہے کہ جنت کے مناظر
دیکھو تو میرے خواجہ اجمیر کی خاطر
سب آ گئے اجمیر کی گلیوں میں سمٹ کے
دیوانہ تو ہوتی ہی ہیں دیوانوں کی قومیں
ہم جیسے مگر ہوتے ہیں دو اک ہی سو میں
بہتے نہیں ہم سب کی طرح ایک ہی رو میں
پروانے نہیں جو مرے شمع کی لو میں
جی جائیں گے ہم اجمیر کی خاک میں اٹ کے
٭٭٭
اجنبی
دُور افق پار دھندلکوں میں کہیں کھو گئی شام
ایک اک کر کے عیاں ہونے لگے رات کے داغ
مُسکرانے لگی تقدیر شبستانوں کی
کہیں فانوس جلے اور کہیں مٹی کے چراغ
شہر تاباں میں اُتارے ہوئے ظلمت کا لباس
رات یوں آئی بدن اپنا چُرائے جیسے
اپنے ہی حُسن کے احساس سے سمٹی سمٹی
چاندنی میں کوئی دوشیزہ نہائے جیسے
یہ حسیں شہر، یہ گُل رنگ نگاروں کا نگر
دل یہاں بھی نہ سکوں پائے تو پائے بھی کہاں
اس نگر میں کوئی مجبور اکیلا ہی سہی
ایسی جنت کو مگر چھوڑ کے جائے بھی کہاں
کس کو لے آئی ترے شہر میں اے ملکۂ شہر!
کسی گیسو کی تمنا کسی آنچل کی تلاش
یا غم زیست کی ماری ہوئی اس دُنیا میں
اپنی زنجیر میں اُلجھائے ہوئے فکر معاش
راہگیروں پہ نگاہیں کہ کہارے کوئی
ہر در و بام پہ نظریں کہ کوئی دے آواز
ہمنوا کوئی سسکتی ہوئی تنہائی کا
کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی افسوں، کوئی ساز
شاہراہوں پہ جوانی کے یہ بیکل رہ رُو
کس کو فرصت کہ کسی سمت نگاہیں ڈالے
قافلے حسن و محبت کے گزرتے ہی رہے
ہاتھ میں ہاتھ دئیے بانہوں میں بانہیں ڈالے
دُور اک بام کھُلا، دُور کوئی بند ہوا
کبھی روشن، کبھی تاریک ہوا زیست کا طاقِ
دُور اک شمع جلی، دُور کوئی شمع بجھی
دیر تک روشنی کرتی رہی ظلمت سے مذاق
تیرہ و تار خلاؤں کی سیہ چادر پر
بن کے مٹتی رہی ٹوٹے ہوئے تاروں کی لکیر
جھلملاتے رہے آنکھوں میں امیدوں کے چراغ
روشنی دل کے اندھیروں پہ چلاتی رہی تیر
دل میں بڑھتا رہا ہر آن اک انجان سا خوف
پاؤں اٹھتے رہے رم خوردہ غزالوں کی طرح
رات بھر تیرے حسیں کوچوں میں اے ملکہ شہر!
کوئی بھٹکا کیا مفلس کے خیالوں کی طرح
٭٭٭
رات کا المیہ
زندگی کی تگ و تاز
اور عمر بھر کے سفر کا صلہ
چار سو پھیلتی بیکراں سی اداسی میں ڈوبی ہوئی
تیرگی کا جگر چیرتی
چیخ
جس کی کوئی صدا بھی نہیں
اور پھر
خامشی!
خامشی!!
آسمان کی گذر گاہ پر
جا بجا
سوگ میں ڈوبے نقش قدم
چاندنی کے کفن میں لپٹا ہوا
دن کا لا شہ لئے
رات آہستہ آہستہ چلتی ہوئی
سوچتی جا رہی ہے
کہ اس لاش کو
کون سی قبر میں
کس خلا۔ کس اندھیرے سمندر کی پاتال میں
کس کے دل میں اتارے اُسے
٭٭٭
آئینہ
تو اک آئینہ ہے
وہ آئینہ جسے
مری زندگی کو نگاہوں کا مرکز بنایا
مری ہر ادا میرے ہر روپ سے اپنا پیکر سجایا
یہ پیکر
یہ مری مرادوں کی دنیا
کہ ہر عکس جس کا حسیں ہے
مگر عکس پھر عکس ہی ہے
حقیقت نہیں ہے
٭٭٭
وہ لڑکی
وہ لڑکی بڑی خوبصورت ہے
رنگوں کے جھرمٹ میں
آنچل اڑاتی
سر رہگذار
پھول شبنم، ستارے، شرر بانٹتی ہے
اُسے میں نے دیکھا ہے
ممکن ہے تم نے بھی دیکھا ہو اُس کو
وہ لڑکی مری کون ہے!
مری کوئی نہیں ہے!
٭٭٭
آواز
بہت دور سے
ایک آواز آتی ہے
اُٹھو! بلاتا ہے
جاتا ہوا وقت تمکو
چلو ساتھ اُس کے
بڑھو ساتھ اُس کے
میں چپ چاپ اُٹھتا ہوں
چپ چاپ چلتا ہوں
آواز آتی ہے۔ آواز۔ آواز
٭٭٭
آر ٹ گیلری
آرٹ گیلری کی دیواریں
طرح طرح کی تصویروں سے سجی ہوئی ہیں
سارے چہروں کی تصویریں
کوئی بھی تحریر نہیں ہے
آدھے چہروں کی تصویریں
ایک آنکھ سے بول رہی ہیں
منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے
میں حیرت سے دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
جانے کس دنیا کی یہ مخلوق ہے ساری
لیکن یہ کیا!
سب تصویریں
پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے کیوں گھور رہی ہیں
٭٭٭
استقامت
جانے کتنے رازوں کی
چابیوں کے گچھے کو
نت نئے ڈیزائن کی
ساڑیوں میں لٹکا کر
ہر قدم سنبھلتی ہے
ہر قدم پہ گرتی ہے
جانے کھوج میں کس کی
شہر میں وہ پھرتی ہے
٭٭٭
عبادت گاہ
یہ میرے سجدوں کی بدنام سر زمین کہ جہاں
کسی قدیم عمارت کا اک کھنڈر تھا کبھی
جدھر سے لوگ گذرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے
’’یہاں تو بھوت ہیں آسیب ہے‘‘ بتاتے تھے
اسی کھنڈر میں زمانے کی آنکھ سے چھپ کر
کسی کے آگے کبھی میں نے سر جھکایا تھا
مگر وہ قصر محبت مری وفا کا حرم
(وہ بھوت پریت کا مسکن وہ خوفناک کھنڈر)
کہاں ہے اب کہ یہاں ایک نئی عمارت ہے
کہ جس کے روزن و دیوار گنبد و محراب
ضیائے حسن تقدس سے جگمگاتے ہیں
غرور و فخر و رعونت سے سر اٹھائے ہوئے
منارے جس کے فلک سے نظر ملاتے ہیں
وہ میرے سجدوں کی بد نام سر زمیں پہ کہ آج
خلوص اور عقیدت سے سر جھکانے کو
دن اور رات عبادت گذار آتے ہیں
٭٭٭
سوچ
کھلی کھلی ہموار سی روشن راہگذر
خوف بھٹکنے کا نہ کوئی رہزن کا ڈر
منزل کے اندیشوں سے آزاد سفر
آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں لوگ مگر
ختم نہیں ہوتی یہ سڑک مڑ جاتی ہے
٭٭٭
گیت
رِیت پریت
جانے کیا ہے رِیت پریت کی میں کیا جانوں بَہنا
دل نے میرے جانا ہے دُکھ چُپکے چُپکے سَہنا
میں تو ہوں چُپ چاپ سکھی ری تو بھی چُپ چُپ رہنا
اُن سے کچھ مت کہنا
پھُول بچھائیں راہوں میں سب میں نے نَین بچھائے
دیپ کے بدلے دل کو جلایا پھر بھی وہ نہیں آئے
دھُول بنی مری مانگ کا سِندور کانٹے میرا گہنا
میں تو ہوں چپ چاپ سکھی ری تُو چُپ چپ رہنا
اُن سے کچھ مت کہنا
لوگ کہیں یہ روگ بُرا ہے دل نے ایک نہ مانی
میری خاموشی بھی بن گئی جگ میں ایک کہانی
بیگانے تو بیگانے ہیں دیں اپنے بھی اُلہنا
میں تو ہوں چُپ چاپ سکھی ری تو بھی چُپ چپ رہنا
اُن سے کچھ مت کہنا
میں دُکھیاری آس کی ماری، یُوں بھی جی لُوں گی
پریم کے اَمرت کی آشا میں آنسو پی لوں گی
پریت بڑھا کر بھُول گئے جو اُن سے اب کیا کہنا
میں تو ہوں چُپ چاپ سکھی ری تو بھی چُپ چُپ رہنا
اُن سے کچھ مت کہنا
٭٭٭
جب جب ساون آئے گا
بیتے دِنوں کی بھُولی بسری باتیں یاد دلائے گا
جب جب ساون آئے گا
آنگن آنگن پھول کھلیں گے رِم جھم برکھابرسے گی
سُونی سُونی سیج پہ گوری پی کے درس کوترسے گی
سانجھ سویرے دل دھڑکے گا، راتوں کو گھبرائے گا
جب جب ساون آئے گا
گھِر گھِر کر بادل آئیں گے پنچھی شور مچائیں گے
بُوند بُوند ساون پُوچھے گا ساجن کب گھر آئیں گے
ڈال ڈال کُوکے گی کوئل، بن میں پپیہا گائے گا
جب جب ساون آئے گا
پھول چُبھیں گے شُول کے جیسے جاگی جاگی آنکھوں میں
سائے سے بھی ڈر لاگے تنہائی کی راتوں میں
پُروائی کا شِیتل جھونکا دل میں آگ لگائے گا
جب جب ساون آئے گا
٭٭٭
آپ لگے
سب کے چہروں میں ہم کو آپ لگے
یہ جدائی ہمیں ملاپ لگے
زندگی کی تری بہار ہوں میں
صرف تِرا ہے جو وہ پیار ہوں میں
جھوٹ بولوں تو مجھ کو پاپ لگے
یہ جدائی ہمیں مِلاپ لگے
سوچتاہوں فقط تجھے دن رات
دل پہ لگتی ہے تِری یوں ہر بات
کورے کاغذ پہ جیسے چھاپ لگے
یہ جدائی ہمیں ملاپ لگے
جس نے دَر روشنی کا کھولا ہے
یہ بدن ہے کہ کوئی شعلہ ہے
دُور سے دیکھ لو تو تاپ لگے
یہ جدائی ہمیں ملاپ لگے
٭٭٭
دل دیوانہ
ہم دونوں کا دل دیوانہ لگتا ہے
نیا نیا بھی پیار پُرانا لگتا ہے
تیری خوشبو جب سے گھلی ہے سانسوںمیں
جب سے تیرا حسن بساہے آنکھوں
پت جھڑ کاموسم بھی سُہانا لگتا ہے
نیا نیا بھی پیار پُرانا لگتا ہے
میں تو وہی سنتا ہوں جو کہتا ہے تُو
چاہے کہیں ہو پاس مرے رہتا ہے تو
دل میں تیرا آنا جانا لگتا ہے
نیا نیا بھی پیار پرانا لگتا ہے
٭٭٭
خط لکھنا
]
نیند راتوں کونہ آئے تو مجھے خط لکھنا
جب مری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا
جگمگانے لگے بجلی سے اندھیرا آنگن
رات بھر چھت پہ برستا ہوا رِم جھِم ساون
آگ جب دل میں لگائے تو مجھے خط لکھنا
نیند راتوں میں نہ آئے تو مجھے خط لکھنا
یاد جب دل میں گئے دن کی مچائے ہلچل
آس میں پی کی کسی ڈال پہ بیٹھی کوئل
پیار کے گیت سنائے تو مجھے خط لکھنا
نیند راتوں میں نہ آئے تو مجھے خط لکھنا
٭٭٭
پکار لو
وقت کے غبار سے پکار لو
بامِ انتظار سے پکار لو
آج ہم کو پیار سے پکار لو
آپ ہم کو کتنا آزمائیں گے
مر کے بھی حضور لوٹ آئیں گے
اتنے اعتبار سے پکار لو
آج ہم کو پیار سے پکار لو
ہر ادا زبان بن کے پیار سے
کہہ رہی ہے آج کھُل کے یار سے
پورے اختیار سے پکار لو
آج ہم کو پیار سے پکار لو
٭٭٭
طلبگار چلے
دل کو تھامے ہوئے جلوؤں کے طلبگار چلے
باندھ کے سر پہ کفن عشق کے بیمار چلے
حسن والے سبھی چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
جاں ہتھیلی پہ لئے سارے خریدار چلے
جلوؤں کا ہے بازار حسینوں کی گلی ہے
بک جاؤ گے سرکار حسینوں کی گلی ہے
یہ سچ ہے حسینوں سے مروت نہیں ہو گی
ہم سے بھی تو، توہینِ محبت نہیں ہو گی
اُس کوچے میں جینے کی تمنا تو ہے لیکن
وہ قتل بھی کر دیں تو شکایت نہیں ہو گی
اس راہ میں دل چیز ہے کیا جان بھی جائے
جائیں گے مگر یار حسینوں کی گلی میں
٭٭٭
جواب کیا دیں گے
بڑا عجیب سا خط ہے جواب کیا دیں گے
ہر اک سوال غلط ہے جواب کیا دیں گے
تمہارے پیار میں جذبات کے سوا کیا ہے
تمھارا پیار تو الفاظ کا گھروندا ہے
نہ گھر ہے کوئی نہ چھت ہے جواب کیا دیں گے
بڑا عجیب سا خط ہے جواب کیا دیں گے
تم اس زمین پہ اک آسماں بناؤ گے
ہمارے واسطے تارے بھی توڑ لاؤ گے
یقیں، گمان صفت ہے جواب کیا دیں گے
بڑا عجیب سا خط ہے جواب کیا دیں گے
ہر اک شے پہ محبت کا کیف ہے طاری
سنوار دے گی محبت یہ زندگی ساری
یہ اک خیال فقط ہے جواب کیا دیں گے
بڑا عجیب سا خط ہے جواب کیا دیں گے
٭٭٭
میخانے میں
چھوڑ کر سارا زمانہ ترے میخانے میں
ہو کے بیزار چلے آئے ہیں ہم جینے سے
زندگی ہے نہ علاج غم دنیا ہے کہیں
چین آئے گا تو بس آئے گا اب پینے میں
دل کا آرام چلا، صبح اور شام چلا
ساقیا دیر نہ کر دور میں لا جام چلا
لا صراحی کو ادھر بھر دے مرا پیمانہ
تجھ سے کچھ اور جو چاہوں تو گنہگار ہوں میں
ساری دنیا مرے قدموں کے تلے ہے لیکن
ساری دنیا میں فقط تیرا طلبگار ہوں میں
کر نہ بد نام چلا ہے ترا کام چلا
ساقیا دیر نہ کر دور میں لا جام چلا
میکدہ ترا سلامت ہے تو ہم ہیں ورنہ
زندگی بھر کہیں جینے کا بہانہ نہ ملے
ساقیا تو جو بلائے نہیں میخانے میں
ساری دنیا میں کہیں ہم کو ٹھکانے نہ ملے
لے لے کچھ دام پلا، لا سر عام پلا
ساقیا دیر نہ کر دور میں لا جام پلا
دیکھ لے تو بھی نکل کر ذرا میخانے سے
زندگی کتنی ہے دشوار کہاں جائیں گے
اک ترے در پہ فقط دل کی دوا ملتی ہے
تو ہی بتلا ترے بیمار کہاں جائیں گے
جام پر جام پلا ہو ترا نام پلا
ساقیا دیر نہ کر دور میں لا جام پلا
٭٭٭
اجازت لے کر
دن نکلتا ہے تری شب سے اجازتِ لے کر
پھول کھلتے ہیں ترے لب سے اجازت لے کر
میرا دن، رات مری، شام مری، میری سحر
میرا دل، میرا جگر، جان مری، میری نظر
سب ہے پہلو میں ترے کب سے اجازت لے کر
دن نکلتا ہے تری شب سے اجازت لے کر
اب کسی دکھ کسی آرام سے کیا لینا ہے
جو بھی انجام ہو انجام سے کیا لینا ہے
ہم نے چاہا ہے تجھے سب سے اجازت لے کر
دن نکلتا ہے تری شب سے اجازت لے کر
پاؤں بہکے تو سہارے سے ترے کام لیا
ہو گئی بھول جو بانہوں کو تری تھام لیا
پاس آئیں گے ترے اب سے اجازت لے کر
دن نکلتا ہے تری شب سے اجازت لے کر
ہم نے مانا کہ یہ دشمن ہے پرانا اپنا
کیا بگاڑے گا مگر اب یہ زمانہ اپنا
اب تمہیں پوجیں گے ہم رب سے اجازت لے کر
دن نکلتا ہے تری شب سے اجازت لے کر
٭٭٭
وہ انکار کرتی ہے
نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے
انھیں باتوں سے لگتا ہے وہ مجھ سے پیار کرتا ہے
زبان سے بولتی ہے وہ نہ آنکھیں چار کرتی ہے
انھیں باتوں سے لگتا ہے وہ مجھ سے پیار کرتی ہے
خیالوں میں مجھے بانہوں میں اپنی گھیر لیتا ہے
مگر جب آنکھ ملتی ہے تو نظریں پھیر لیتا ہے
جھکی پلکوں کی چلمن سے مگر دیدار کرتا ہے
انھیں باتوں سے لگتا ہے وہ مجھ سے پیار کرتا ہے
دبا کر انگلیاں دانتوں میں جب وہ مسکراتی ہے
اشاروں ہی اشاروں میں کئی ارماں جگاتی ہے
کرو باتیں مگر جب پیار کی تکرار کرتی ہے
انھیں باتوں سے لگتا ہے وہ مجھ سے پیار کرتی ہے
یہ سب بیکار کی باتیں ہیں بس اتنی حقیقت ہے
مجھے اس سے محبت ہے اسے مجھ سے محبت ہے
نہ میں انکار کرتا ہوں نہ وہ اقرار کرتی ہے
انھیں باتوں سے لگتا ہے وہ مجھ سے پیار کرتی ہے
٭٭٭
بہار کر لیں گے
ہم اپنے غم کو سجا کر بہار کر لیں گے
بسا کے تم کو خیالوں میں پیار کر لیں گے
تمہاری یاد میں دل بے قرار کر لیں گے
بسا کے تم کو خیالوں میں پیار کر لیں گے
کبھی کیا تھا جو ہم نے وہ پیار آج بھی ہے
سنا ہے تم کو میرا انتظار آج بھی ہے
یہ سچ نہیں ہے مگر اعتبار کر لیں گے
بسا کے تم کو خیالوں میں پیار کر لیں گے
وہ دن بھی تھے کہ ضرورت نہ تھی زمانے کی
سنا ہے اب تمھیں فرصت نہیں ہے آنے کی
بُلا کے خوابوں میں باتیں ہزار کر لیں گے
بسا کے تم کو خیالوں میں پیار کر لیں گے
کبھی نہ آئی نہ آئے گی جان پتھر میں
تمام عمر تڑپنا ہے گر مقدر میں
تمام عمر یونہی انتظار کر لیں گے
بسا کے تم کو خیالوں میں پیار کر لیں گے
٭٭٭
رات سے پہلے
پھر ہم کو کوئی دیکھ لے اس بات سے پہلے
چل دور نکل جائیں کہیں رات سے پہلے
نظریں ہیں ستاروں پہ تو پھولوں پہ قدم ہے
سچ پوچھیئے تو سب تری چاہت کا کرم ہے
ہم کچھ بھی نہ تھے، تیری ملاقات سے پہلے
چل دور نکل جائیں کہیں رات سے پہلے
آنکھوںسے تری جھانک رہی میری جوانی
چہرے پہ ترے ہے مرے جیون کی کہانی
ملتا ہے جواب اب ہم کو سوالات سے پہلے
چل دور نکل جائیں کہیں رات سے پہلے
طوفان کی راہوں میں بنا لیں گے کنارے
راتوں کے اندھیروں میں پرو دیں گے ستارے
ہم خود ہی بدل جائیں گے حالات سے پہلے
چل دور نکل جائیں کہیں رات سے پہلے
٭٭٭
مہکا دینا
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
کھو نہ جاؤں میں کہیں بھیڑ میں رستا دینا
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
کبھی مل جائے کہیں کوئی تو تحفہ دینا
روز مل جاتا ہے جو شخص اسے کیا دینا
کھو نہ جاؤں میں کہیں بھیڑ میں رستا دینا
آج کی رات جلیں گے نہ ستاروں کے دیے
چاند نکلے گا پہن لیجئے اُجلے کپڑے
رنگ اس رات میں ہونٹوں پہ بھی ہلکا دینا
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
دور تک کوئی شناسا نظر آئے نہ کہیں
جس سے آگے ہمیں ملنے میں کوئی خوف نہیں
تم ذرا ہاتھ اُسی موڑ پر لہرا دینا
کھو نہ جاؤں میں کہیں بھیڑ میں رستا دینا
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
کھو نہ جاؤں میں کہیں بھیڑ میں رستا دینا
٭٭٭
جفا ہی کیا کرو
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
تم بھی تو کوئی رسم محبت ادا کرو
آنکھوں میں ہے سرور تو چہرے پہ نور ہے
ہم تم پہ مر مٹے تو یہ کس کا قصور ہے
آئینہ لے کے ہاتھ میں خود فیصلہ کرو
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
پھولوں سے نرم جسم ہے پتھر ہے دل مگر
اب اُس پہ کوئی بات کا ہوتا نہیں اثر
منت کرو، سوال کرو، التجا کرو
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
یہ زندگی تو راس بھی آئی نہیں مجھے
شرمندہ ہوں کہ موت بھی آئی نہیں مجھے
اب میرے حق میں اور کوئی بد دعا کرو
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
رسوا کہیں نہ کر دے یہ ظالم شباب ہے
بیٹھو نہ محفلوں میں زمانہ خراب ہے
دیکھو ہماری بات کبھی سن لیا کرو
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
کیا غم ہے چل دیے وہ اگر پھیر کے نظر
لیکن کبھی تو دیکھیں گے تم کو وہ جھانک کر
اُن کی گلی میں روز تماشہ کیا کرو
ہوئی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
٭٭٭
تم سے پیارا
نہیں کوئی جہاں میں تم سے پیارا
ترے صدقے سمرقند و بخارا
اندھیروں میں ہے تو تنہا ستارا
ترے صدقے سمرقند و بخارا
بلا سے ہے اگر دشمن خدائی
ستم غیروں کا اپنوں سے برائی
تری خاطر ہے ہم کو سب گوارا
ترے صدقے سمرقند و بخارا
ترے ہونے سے یہ دنیا حسیں ہے
اگر اک تو نہیں تو کچھ نہیں ہے
نہ ہم سے پھیرنا آنکھیں خدارا
ترے صدقے سمرقند و بخارا
یہی تو ہے ہمارے دل کی دولت
زمانے میں فقط تیری محبت
ہماری زندگی کا ہے سہارا
ترے صدقے سمرقند و بخارا
٭٭٭
نخرے کم کر دے
پیار سے یہ دامن بھر دے
گوری نخرے کم کر دے
ہونٹ شرابی بال گھٹا
میرے حوالے سندرتا
جسم کا یہ البم کر دے
گوری نخرے کم کر دے
پیار، وفا، آنچل کورا
سارا بدن گورا گورا
جو دینا ہے جم کر دے
گوری نخرے کم کر دے
تیری جوانی گیت ہے اک
پیار بھرا سنگیت ہے اک
چھیڑ اسے سرگم کر دے
گوری نخرے کم کر دے
پیار سے یہ دامن بھر دے
گوری نخرے کم کر دے
٭٭٭
فاصلے
پیار میں فاصلے نہیں ہوتے
فاصلے منزلوں میں ہوتے ہیں
آسمانوں پہ کہکشاں ہو گی
راستے تو دلوں میں ہوتے ہیں
نظروں سے کبھی دل میں سماؤں تو ملیں گے
ملنے کی کوئی راہ بناؤ تو ملیں گے
رابطے کب ہوئے ہیں خوشیوں میں
درد کے سلسلوں میں ہوتے ہیں
غیر ماریں گے کس تعلق سے
دوست ہی قاتلوں میں ہوتے ہیں
تصویر وفا بن کے دکھاؤ تو ملیں گے
سجدے مری راہوں میں بچھاؤ تو ملیں گے
پھول اپنی وفا کے مرے دامن پہ سجا دو
سانسوں کی مہک مری سانوں میں بسا دو
ارمانوں کی کلیوں کو کھلاؤ تو ملیں گے
یوں تاکتے رہنے سے کبھی گل نہ کھلیں گے
پھل پھول جوانی کے ہوا میں نہ ملیں گے
شاخوں کو قرینے سے جھکاؤ تو ملیں گے
پیروں میں ابھی لاج کی زنجیر پڑی ہے
پہرے کی طرح رات کڑی سر پہ کھڑی ہے
ان رسموں کے پردوں کو اٹھاؤ تو ملیں گے
سجدے مری راہوں میں بچھاؤ تو ملیں گے
ملنے کی کوئی راہ بناؤ تو ملیں گے
٭٭٭
پیار کیا کریں
اب بھی اگر جو ہم نہ کریں پیار کیا کریں
تم جیسا دلربا ہو تو انکار کیا کریں
رسموں کی ریت بات پر اپنی اڑی رہے
دیوار بن کے بیچ میں دنیا کھڑی رہے
ایسے میں کہیے پیار کے بیمار کیا کریں
اب بھی اگر جو ہم نہ کریں پیار کیا کریں
ہو اک طرف کھڑی ہوئی شیریں سی گلبدن
اور دوسری طرف ہو کھڑا کوئی کوہکن
دونوں کے بیچ پھر در و دیوار کیا کریں
اب بھی اگر جو ہم نہ کریں پیار کیا کریں
رسموں کا ہم کو ڈر ہے نہ دنیا سے واسطہ
سب سے الگ ہے صاف محبت کا راستہ
اب پیار نہ کریں تو کہو یار کیا کریں
اب بھی اگر جو ہم نہ کریں پیار کیا کریں
٭٭٭
دور نہ جاؤ
پاس آؤ مرے یار ابھی دور نہ جاؤ
پیاسا ہے مرا پیار ابھی دور نہ جاؤ
اسطرح اگر ملنے سے مجبور رہے ہم
سچ کہتے ہیں ہم تم سے اگر دور رہے ہم
مر جائیں گے سرکار ابھی دور نہ جاؤ
پیاسا ہے مرا پیار ابھی دور نہ جاؤ
جینا تو بڑی بات ہے اے جانِ تمنا
جب تم ہی نہیں ہو گے تو مرنا بھی مری جاں
ہو جائے گا دشوار ابھی دور نہ جاؤ
پیاسا ہے مرا پیار ابھی دور نہ جاؤ
٭٭٭
اک ہاتھ میں خنجر ہے
اک ہاتھ میں خنجر ہے اک ہاتھ میں مرہم ہے
اے جانِ تمنا تو شعلہ ہے کہ شبنم ہے
دل کہتا ہے جو سن لو، انکار نہیں کرتے
ناداں ہیں جوانی میں جو پیار نہیں کرتے
کیا اور بتانا ہے بس اتنا بتا دیں ہم
جا کر جو نہیں آتا وہ پیار کا موسم ہے
اے جانِ تمنا تو شعلہ ہے کہ شبنم ہے
یہ تیری حسیں صورت ایمان کی دشمن ہے
اک ایک ادا تیری اس جان کی دشمن ہے
آندھی بھی ہے طوفاں بھی، کشتی بھی کنارا بھی
تو ہی مرا قاتل ہے اور تو ہی سہارا بھی
رفتار میں بجلی، آواز میں سرگم ہے
اے جانِ تمنا تو شعلہ ہے کہ شبنم ہے
٭٭٭
برسات
مستی میں گنگناتی ہوئی رات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
ساون کی بوند بوند سے جلنے لگا بدن
آ کر سمیٹ لے مجھے بانہوں میں تو سجن
ہونٹوں پہ آج دل کی مرے بات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
ایسا نشہ بدن میں اُترنے لگا ہے آج
اپنا ہی روپ دیکھ کے آنے لگی ہے لاج
لگتا ہے مجھ میں کوئی نئی بات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
بندھن جہاں کے لاج کے پہروں کو توڑ کر
چولی کے ساتھ بھیگے بدن کو نچوڑ کر
ساون میں اُن سے کرنے ملاقات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
میں جس جگہ رکی ہوں وہیں رُک گیا جہاں
لگتا ہے جھک گیا مرے قدموں پہ آسماں
سارے جہاں کی ڈور مرے ہات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
اُن کے سوا کوئی نہیں آتا نظر مجھے
اپنا کوئی پتا ہے نہ دل کی خبر مجھے
اے بے خودی کہاں میں ترے سات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
کس کی نظر بدن کو مرے چوم کر گئی
بجلی سی میرے سارے بدن میں اُتر گئی
بے چینیوں سے کر کے ملاقات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
من ڈولنے لگا ہے بہکنے لگی ہوں میں
ہونٹوں سے مجھکو پی لے چھلکنے لگی ہوں میں
انگڑائیوں میں ڈھل کے مری رات آ گئی
چندا کے دف پہ گاتی برسات آ گئی
٭٭٭
جوانی
نظر تیرے در سے جہاں تک پڑے
یہاں سے وہاں تک ہے عاشق کھڑے
کوئی منچلا جب مچل جائے گا
جوانی کا سب رس نکل جائے گا
ہتھیلی نہ ایسے مسل کر چلو
جوانی کے دن ہے سنبھل کر چلو
یہ چڑھتی جوانی یہ اٹھتا شباب
یہ زلفوں کی لڑیاں لبوں کا گلاب
انہیں لوٹنے کے ہے ڈیرے بہت
ہر اک راہ میں ہے لٹیرے بہت
کوئی راستہ تم بدل کر چلو
جوانی کے دن ہے سنبھل کر چلو
٭٭٭
پائل
آج ہو یا کل بولے گی پائل
آج ہو یا کل بولے گی پائل، بھول کے سارے غم
ناچے جا چھم چھما چھم، ناچے جا چھم چھما چھم
جب جب تیری پائلیا نے چھیڑا ہے سنگیت
تب تب میرے دل میں جاگا ارمانوں کا گیت
پھر رت یہ ملن کی آئی
کلیوں نے لی انگڑائی
ہوائیں گاتی ہے سرگم
ناچے جا چھم چھما چھم، ناچے جا چھم چھما چھم
دھرتی جھومے امبر ناچے پربت گیت سنائیں
دور دور تک وادی میں سپنوں کے پھول کھلائیں
آ ہم بھی مل کر گائیں اک دوجے میں کھو جائیں
سروں کا جیسے ہو سنگم
ناچے جا چھم چھما چھم، ناچے جا چھم چھما چھم
٭٭٭
تشکر: مرتب جنہں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
sir shahid sarapa shair thy