FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

انکشافات کی بھول بھلیاں

 

 

 

                   اقبال خورشید

(ادب سلسلہ شمارہ ایک سے مواد حاصل ہوا)

 

 

 

 

 

اپنے افسانوں کے عشق میں مبتلا ہونے کے نو ماہ بعد اُس پر ایک انکشاف ہوا، جس نے اس کی زندگی بدل دی۔

نو ماہ قبل، جب وہ اِس انکشاف کے روبرو ہوا تھا کہ وہ اپنے لکھے افسانوں کے سحر میں مبتلا ہو چکا ہے، تب اُس نے سوچا تھا کہ اس کی زندگی بدل گئی ہے، مگر بعد کے انکشاف نے گزشتہ انکشاف کو بے وقعت کر دیا۔

اس کہانی کا آغاز اُس کی تحریر کردہ اُس کہانی سے ہوا، جس نے پہلی بار عرفان شیخ ولد کامران شیخ، مذہب؛ اسلام، قومیت؛ پاکستانی، مسکن؛ ناظم آباد نمبر دو، شناختی نشانی؛ ماتھے پر چوٹ کا نشان، کو یہ احساس دلایا کہ وہ کوشش کے باوجود اُس کہانی کے کردار، پلاٹ اور واقعات کے ماخذ تک نہیں پہنچ پا رہا۔

وہ ان دھاگوں سے لاعلم تھا، جن سے وہ افسانہ بُنا گیا۔

عنوان تھا: ’’ایک غافل کہانی‘‘، یہ ایک پاگل کی بپتا تھی، جو ’’رقاص کی آتما ‘‘ سے کچھ عرصے قبل لکھی گئی۔ اور ’’رقاص کی آتما ‘‘ وہ کہانی تھی، جس نے بعد میں ’’آصف دادا کی کھیر ‘‘ کو جنم دیا۔

تو واقعہ یوں ہے کہ ایک گرم صبح، قبض اور اپنی بیوی کی بدزبانی سے پریشان عرفان شیخ جب پسینے میں شرابور دفتر پہنچا، اور اِس خوش خبری سے حاملہ ہوا کہ آج باس کی عدم موجودگی کے طفیل اسے کسی بد تہذیب شخص کو فون کر کے قائل کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی ماں، بیوی یا داشتہ کا بیمہ کروا لے، تو اس نے اپنے بکھرے افسانوں کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا کہ کبھی نہ کبھی تو انھیں کتابی شکل دینی تھی، یا پھر گمنام فکشن نگاروں کی مانند قبر میں ساتھ لے جانا تھا۔ اور دونوں ہی صورتوں میں لازم تھا کہ انھیں یکجا کیا جائے۔

پہلے نظر ’’ایک اسٹیٹ ایجنٹ کی مٹرگشت‘‘ پر پڑی۔ پھر ’’جمعدار کی بیٹی‘‘، پھر ’’روتے کتے کا بدن‘‘ اور پھر ’’ایک غافل کہانی‘‘۔

اس نے ’’ایک غافل کہانی‘‘ کو پڑھنے کا فیصلہ کیا کہ ایک عرصے سے اُ سے نہیں پڑھا تھا۔ یہ ایک ایسے کردار سے متعلق تھی، جو برسوں پہلے تحریر کردہ اپنی ایک کہانی دوبارہ تحریر کرتا ہے، تاکہ اسے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔

اس نے قلم ہاتھ میں رکھا کہ حسب ضرورت تبدیلیاں کر سکے کہ وہ آخری وقت تک کہانی کو جوتوں کی طرح چمکانے کا قائل تھا۔ مگر اس روز ضرورت پیش نہیں آئی۔ وہ ایک ہی ہلے میں پوری کہانی پڑھ گیا۔ اور اختتامی منظر میں وہی تجسس محسوس کیا، جو اس وقت کیا تھا، جب اس نے یہ منظر لکھا تھا۔

اختتامی منظر میں ایک شخص اپنے باس کی گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے اس سڑک سے گزرتا ہے، جس سے وہ روز ہی گزرتا ہے۔ ۔ ۔ اس گلی میں داخل ہوتا ہے، جس میں وہ روز ہی داخل ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اس گھر کی دہلیز عبور کرتا ہے، جسے وہ روز ہی عبور کرتا ہے۔ ۔ ۔ اور پھر اس بیڈروم تک پہنچتا ہے، جس تک وہ روز ہی پہنچتا ہے۔ اور پھر۔ ۔ ۔

سسپنس اور تھرلر سے بھرپور اس کہانی کو پڑھ کر اس نے وہ خوشی محسوس کی، جو اسے فقط اس کے پسندیدہ ادیب عطا کیا کرتے تھے۔ تو اس نے اپنا کاندھا تھپکا۔ اس لہر کو پسند کیا، جو کہیں نیچے سے اٹھتی تھی۔ اور پھر اچانک۔ ۔ ۔ بالکل اچانک احساس ہوا کہ وہ اس کہانی کے کسی کردار، کسی واقعے، کسی منظر کے ماخذ کا علم نہیں رکھتا۔

وہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں، کیسے، کب، کہاں اس کے تخیل میں داخل ہوئے۔ نہیں جانتا کہ مرکزی کردار کی تشکیل کے سمے اس کے ذہن میں کون سا رشتے دار تھا۔ واقعات کس فلم، ڈرامے یا خبر سے اُچکے۔ اسلوب کس کا پکڑا تھا۔

وہ اپنی دیگر کہانیوں کے ماخذات کا علم رکھتا تھا۔ ’’رقاص کی آتما‘‘ عماد آتنک وادی کی کہانی، جس سے اسکول کے زمانے میں مڈبھیڑ ہوئی۔ بدمعاشوں کا بادشاہ، آصف دادا بھی ان ہی زمانوں میں، اپنی گلی میں جھاڑو دیتا تھا۔ ’’روتے کتے کا بدن‘‘ لسانی فسادات کی دین۔ ’’تو ہی تو‘‘ کے پیچھے شہرت کی للک میں ہانپتے ایک شاعر کی موت کا المیہ۔ مگر ’’ ایک غافل کہانی ‘‘کے پیچھے کیا تھا؟

پیچھے کیا تھا۔ ۔ ۔ یہ وہ سوال تھا، جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔

اس لاعلمی نے، اور لاعلمی نعمت ہے، انشورنس پالیسیاں بیچ کر پیٹ پالنے والے اس شخص کو اپنی کہانیوں سے عشق پر اُکسایا۔

اس نے سگریٹ سلگائی۔ کہانی دوبارہ پڑھی۔ دوبارہ کاندھا تھپکا۔ وہ واقعی اس کی جڑوں کی گہرائی سے لاعلم تھا۔ اور یہ بَڑھیا تھا۔

اس نے دیگر افسانے بھی نکالے۔ ایک ایک کر کے پڑھنے لگا۔ اسے مزہ آ رہا تھا۔

موبائل اسکرین پر بیوی کا نمبر جھلملایا، مگر اس نے فون ریسیو نہیں کیا۔ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ سے کوئی اپنے بیٹے کے ختنہ کی خوش خبری لے کر آیا۔ چائے والے نے اطلاع دی کہ پے رول ہیڈ اپنے ابا سے محروم ہو گئے ہیں۔ ایڈمن آفیسرکارڈ لہراتا آیا کہ وہ اپنے بھائی کی بیوہ سے بیاہ رچا رہا ہے۔ ریسیپشنسٹ نے گریہ کیا کہ وہ بانجھ ہے۔ اس کے ساتھی نے ہم جنس پرست ہونے کا اعتراف کیا۔ خاکروب نے ان آوازوں کا چرچا کیا، جو بیت الخلا میں سنائی دیتی ہیں، مگر اس نے۔ ۔ ۔ عرفان شیخ نے قطعی توجہ نہیں دی۔

وہ اپنی تحریروں کے عشق میں مبتلا ہو چکا تھا۔ اور شادی کے بارہ برس بعد پہلی بار وہ تسکین محسوس کر رہا تھا، جو شادی سے پہلے کیا کرتا تھا۔

اور چاہتا تھا کہ اس اس کینڈل کو خوب اچھالا جائے۔

٭٭

 

 

 

 

’’تم افسانہ نگار لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہو، تم کمینوں کو جیل ہو جانی چاہیے۔ ‘‘

یہ الفاظ زاہد کمپیوٹر والے کے تھے۔ ہاتھ میں وسکی کا گلاس تھا۔ وہ بوتل اپنی کھٹارا گاڑی کی ڈِکی میں چھپا کر لایا تھا کہ جگہ جگہ ناکے لگے تھے۔ پر اب سیر ہو کر پی رہا تھا کہ اُسے یقین تھا کہ یہ کچی نہیں۔ اور پھر آج رات وہ گھر نہیں لوٹنے والا۔ اس کی حاملہ بیوی اپنی ماں کے ہاں گئی تھی۔

’’اور جیل میں تم کو کتوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ ‘‘ کمپیوٹر والے نے ایک فحش اشارہ کیا۔

عرفان شیخ شراب کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ زاہد کو وہ اپنے افسانوں ’’رقاص کی آتما‘‘ اور ’’آصف دادا کی کھیر‘‘ میں بطور کردار برت چکا تھا، بلکہ Black comedy اور Wit کے چکر میں اچھی خاصی درگت بنا چکا تھا۔ زاہد نے کبھی برا نہیں مانا۔ بلکہ یوں ظاہر کیا، جیسے وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے، تاہم آج، جب وہ نشے میں تھا، خود کو کھو کر بدھ بن گیا تھا، اس نے سچ اگل دیا۔

’’تم سالے شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے ہو۔ ‘‘

عرفان شیخ نے کہنا چاہا کہ جن جرائد میں اس کے افسانے شائع ہوتے ہیں، ان کی سرکولیشن محدود ہے۔ اور پھر جن چھوٹے بڑے ادیبوں تک پہنچتے ہیں، ان کی اکثریت صرف اپنی تخلیقات پڑھنے میں دل چسپی رکھتی ہے۔ اور پھر زاہد ایسا شریف بھی نہیں، تو پگڑیاں اچھالنے والا الزام بکواس۔ ۔ ۔

’’تم نے میرے متعلق صرف بکواس لکھی۔ ‘‘ کمپیوٹر والے نے کہا۔ ’’کبھی اُس زاہد کو پیش نہیں کیا، جو حساس انسان ہے۔ ‘‘

اس نے گلاس خالی کیا، اور سگریٹ سلگا لی۔ باہر رات تھی۔

 

زاہد کو بھول کر عرفان بیتے چند ماہ کے بارے میں سوچنے لگا، جو سرمستی کے ماہ تھے کہ وہ روز بروز اپنے لکھے ہوئے کے عشق میں دھنستا جا رہا تھا۔ اپنی تحریریں اس کا سانس بن گئیں۔ اور اس نے اورحان اور مارکیز کو پڑھنا چھوڑ دیا۔

ایک دبی نشست میں اس نے اپنے اس انوکھے تجربہ کی جانب، جسے وہ الہامی کہنا چاہتا تھا، مگر اجتناب برتا، اشارہ کیا۔ مگر جیسے ہی چائے کا اشارہ ہوا، سامعین کی توجہ بھٹک گئی۔

کچھ معاصر ادیبوں سے بھی بات کی، مگر انھوں نے یہ کہہ کر مایوس کیا کہ ایسا تو ہر تخلیق کار کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے تجریدی انداز میں اس کا اظہار فیس بک پر کیا، تو ایک صاحب نے اس اسٹیٹس پر یوں تبصرہ کیا: ’’وزیر اعظم پر خوب طنز کر رہے ہو میاں، کیا کپتان کی پارٹی میں چلے گئے ؟‘‘

دوسرے نے کہا: ’’اپوزیشن لیڈر کی ٹانگ کھینچنا بند کرو۔ تم تو شریفوں کے چمچے بن گئے ہو۔ ‘‘

ایک کہنے لگا؛ جب سے سو الفاظ کی کہانیاں مقبول ہوئی ہیں، ہر کوئی جگت بازی میں لگ گیا ہے۔

یہ اُس کا دوست بھیم تھا، جو اس کے ناول ’’ویگن میں جتا گھوڑا‘‘ کا مرکزی کردار بھی تھا، جس نے اس کی بات کو چاہے سمجھا نہ ہو، مگر توجہ سے سنا ضرور۔ اور ظاہر کیا کہ وہ سمجھ گیا ہے۔

تو چند ماہ سے عرفان شیخ کا اپنی تحریروں سے جاری معاشقہ جاری تھا، پرکسی نے اِسے اہم نہیں گردانا۔ لوگوں کو تو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ پچھلی بار کی طرح کہیں اس بار بھی مارشل لا رات ڈھلے نہ اتر آئے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بار مرد مومن دن میں نازل ہو، تاکہ حلوائی کی دکان کھلی ہو، تاکہ وہ مٹھائی بانٹ سکیں۔

’’مٹھائی ہے کیا؟‘‘ زاہد نے پوچھا۔ ’’نشے میں میٹھا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

اس نے وہ ڈبا آگے بڑھا دیا، جو آج صبح ریسپشنسٹ نے دیا تھا کہ اس میں کچھ ٹھہر گیا تھا۔

کمپیوٹر والے نے مٹھائی منہ میں ڈالی۔ نیم وا آنکھوں سے آسمان کی سمت دیکھا۔ پھر فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’تم سالے خدا بننا چاہتے ہو۔ کردار کو مخلوق بنا لیتے ہو۔ اس کا ریپ کرتے ہو۔ یو باسٹرڈز۔ ‘‘

عرفان شیخ چونکا۔ اس نے اس سے ملتی جلتی بات کبھی نہ کبھی سوچی تو تھی، مگر کسی کے منہ سے سنی نہیں تھی۔ اور اس سمے ایک ایسا شخص، جو نشے میں دھت تھا، عظیم بدھ کے مانند خود کو مٹا چکا تھا، آکاش سے کلام کر رہا تھا۔

’’تم کتے کے بچے جبر و قدر کے فلسفے سے کھیلتے ہو، ہیں ناں ؟ کردار کی تقدیر تمھارے ہاتھ۔ ہر فیصلہ تمھارا۔ اور الزام کردار پر۔ لوگ کہتے ہیں، بیدی کا فلاں کردار اچھا تھا، منٹو کا فلاں کردار شاطر اور عصمت کا فلاں کردار رذیل ؛ بل شٹ۔ یہ سب تو تم لوگوں کی حرام پائی ہے۔ اور مٹھائی ہے کیا؟‘‘

عرفان نے وہ ڈبا آگے کر دیا، جو اُس دفتری ساتھی نے دیا تھا، جو ہم جنس پرست تھا، مگر گھر والوں کے اصرار پر اپنی ایک کزن سے شادی کرنے جا رہا تھا۔

کمپیوٹر والے نے برفی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔ بازو کی مچھلیاں پھلائیں۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اسے پھندا لگا۔ کھانستے کھانستے وہ ہنسنے لگا۔

’’ویسے یار، اگر تمھارے کرداروں کو اس کمینے پن کا پتہ ہوتا، تو تم سے پین چھین کر خود اپنی کہانی لکھتے۔ اپنی مرضی کی کہانی۔ جیسی زندگی چاہتے، ویسی جیتے۔ یہ کردار بھی ہماری طرح ہی ہیں۔ سالے ہم بھی تقدیر کے قیدی ہیں۔ اگر میں۔ ۔ ۔ ‘‘

اور شراب اپنا اثر کھونے لگی۔

’’اگر میں خود اپنی کہانی لکھتا۔ ۔ ۔ تو کبھی اپنی بیوی کو حاملہ نہ ہونے دیتا۔ ۔ ۔ سالا تیسرا بچہ۔ ۔ ۔ تیسرا۔ ۔ ۔ اتنی مہنگائی۔ ۔ ۔ بجلی اور گیس کے بل۔ ۔ ۔ اسے منع بھی کیا تھا، مگر اس کتیا کو تو بچہ چاہیے۔ ۔ ۔ اور میری ساس۔ سالے اتنے دھماکے ہوتے ہیں، وہ اڑ کیوں نہیں جاتی۔ ۔ ۔ میں نے تو منع کیا تھا۔ اگر میں نے اپنی تقدیر لکھی ہوتی، تو میں کبھی۔ ۔ ۔ ‘‘

کمپیوٹر والے کا نشہ تیزی سے اتر رہا تھا۔ اب وہ مزید بدھ نہیں رہا تھا۔ ایک نیچ انسان کا روپ دھار چکا تھا۔ اور اس نیچ انسان نے اپنی کہانیوں کے عشق میں مبتلا کہانی کار کو ایک انکشاف کے روبرو لا کھڑا کیا۔

انکشاف کہ اگر کردار خود اپنی کہانی لکھے، تو وہ غم کی دھول سے پاک ہو گی،

اس میں کرب کا کُب نہیں ہو گا،

اور اس میں ناکامی کی بنجر زمین نہیں ہو گی۔

ہو گی تو اس کی مرضی کی تقدیر، جو ہر رات جوڑے میں خوشیاں جنے گی۔

اور پھر خوشیوں کا وہ جوڑا آپس میں اختلاط کرے گا،

اور پھر اس سے مزید جوڑے پیدا ہوں گے۔

اور پھر وہ اختلاط کریں گے۔ اور پھر مزید جوڑے۔ اور پھر مزید اختلاط۔ اور مزید جوڑے۔ اور مزید خوشیاں۔

وہ فرط جذبات سے کھڑا ہو گیا، اور گلاس زمین پر دے مارا۔

’’میں اپنی کہانی خود لکھوں گا۔ ‘‘

زاہد کمپیوٹر والے نے الٹی کر دی۔ اور زمین پر گر کر خراٹے لینے لگا۔

٭٭

 

 

 

 

اس انکشاف کے بعد کہ وہ اپنی جیون کہانی خود لکھ سکتا ہے، اس نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔

زاہد کے خراٹوں کے درمیان، اور قے کی کھٹی بو کے بیچ اُسی حبس زدہ رات کا آغاز کر دیا۔

تو اُس نے اگلے روز کی کتھا لکھی۔ اور قبض، اور بیوی کی بدزبانی، اور ٹریفک جام سے پاک ایک روشن صبح قلم بند کی۔

اگلے روز کی کہانی، جس میں انشورنس پالیسی خریدنے والے میز کے سامنے قطار لگائے کھڑے ہیں۔ اور اُس نے اپنے باس کو منظر کیا، جو اس کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔ ۔ ۔ اور مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی کَسی ہوئی لڑکی اُسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ ۔ ۔ اور سیکڑوں قارئین اس کے افسانوں کے سحر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اور اس کا باس اُس کی پیٹھ۔ ۔ ۔

اس نے سب کچھ منظر کیا۔ ایک زرد ڈائری میں، جو اس رجسٹر جیسی نہیں تھی، جو کبیر مہدی کا تھا۔

جب وہ سویا، تو قبض تھا، اور بیوی کا منہ ٹیڑھا تھا، اور بچے نے بستر گیلا کر دیا تھا، مگر جب وہ بیدار ہوا۔ ۔ ۔ معجزہ ہو چکا تھا۔

کمرے میں ایک لطیف مہک کا بسیرا تھا۔ بچہ اسکول یونیفارم میں کسی فرشتے کی مانند تھا۔ اور بیوی گلابی گاؤن میں بھلی لگتی تھی۔ اور چائے خوش ذائقہ اور ٹوسٹ کرارے تھے۔ اور موسم میں نئے پن کی چٹخ تھی۔ اور سڑکوں پر مویشیوں کا گوبر نہیں تھا۔ تمام سگنلز سبز تھے۔ دفتر کا اے سی کام کر رہا تھا۔ باس کھلکھلا رہا تھا۔ انشورنس پالیسیاں دھڑا دھڑا بک رہی تھیں۔ کَسی ہوئی لڑکی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ قارئین کے سائبیریا اور لیبیاسے خطوط آ رہے تھے۔ ۔ ۔

اس کے ہاتھ جادوئی نسخہ لگ گیا۔ اور یہ سب اس انکشاف کے باعث ہوا، جو کمپیوٹر والے کے وسیلے سے اس تک آیا۔ جو کل رات خود کو بھلا بیٹھا تھا۔ اور بدھ بن گیا تھا۔

کَسی ہوئی لڑکی کے ساتھ شام کی چائے پینے کے بعد وہ گھر لوٹا، جس کی سجاوٹ میں تازگی تھی، اور بیوی کی لپ اسٹک میں اسٹرابری کی خوشبو تھی۔ اور چکن کڑاہی میں کوئلے کی مہک تھی۔ اور۔ ۔ ۔

اور پھر وہ زرد ڈائری لے کر بیٹھ گیا کہ اس کے ہاتھ طلسماتی نسخہ لگ گیا تھا۔ آج کی پڑیا کام کر گئی۔ اور اسے کل کی پڑیا تیار کرنی تھی۔

تو اس نے ایک اور خوش گوار صبح قلم بند کی۔ اور اِس بار بوندا باندی کا اضافہ کر دیا۔ اور دفتر میں ایک اور شاندار دن منظر کیا، جس میں بونس کی خوش بو تھی۔ اور کَسی ہوئی دوشیزہ تھی۔ اور پاک بھارت میچ تھا۔ اور۔ ۔ ایک رشتے دار، جو مرتے سمے اپنی جائداد اس کے نام چھوڑ گیا۔

تو جب وہ سویا، تو سب اچھا تھا۔ مگر جب وہ جاگا۔ ۔ ۔ تو سب، بہت سے کچھ زیادہ اچھا تھا کہ بوندا باندی ہو رہی تھی کہ دفتر میں ہر کوئی اسے ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ باس نے بونس کا وعدہ کر لیا تھا کہ لڑکی نے اظہار محبت کر دیا تھا کہ۔ ۔ ۔ اسے ایک فون کال موصول ہوئی۔ ۔ ۔ ہاں، ایک دور پرے کا رشتہ دار مر گیا۔ اپنا مکان اس کے نام کر گیا۔

تو یوں عرفان شیخ، ولد کامران شیخ تقدیر کے جبر سے آزاد ہو گیا۔

اب وہ اپنی تقدیر، اپنی کہانی خود لکھ رہا تھا۔

ایک ناول، جس کا مرکزی کردار وہ خود تھا۔

ناول، جو غم کی دھول سے پاک تھا۔ جس میں کرب کا کُب نہیں تھا۔ جس میں خوشیاں جنی جا رہی تھیں۔ مسلسل۔ کیونکہ وہ مسلسل لکھ رہا تھا۔ ہر رات۔

بطور مصنف اسے ادراک تھا کہ عام قارئین کے لیے یہ بیکار کہانی ہے کہ اِس میں کوئی موڑ نہیں، کوئی لوچ نہیں، نیا پن نہیں، دوئی نہیں۔ تضادات نہیں۔ بس خوشی ہی خوشی ہے۔ کامرانی ہی کامرانی۔ شادمانی ہی شادمانی۔

تو قارئین کے لیے یہ دو کوڑی کی کہانی تھی، مگر اس کے لیے تو یہ ’’وار اینڈ پیس‘‘ سے بھی بڑا ناول تھا۔ ’’تنہائی کے سو سال ‘‘سے زیادہ شاندار۔ ’’اور ڈان بہتا رہا ‘‘ کا بہاؤ اس کے آگے کیا بیچتا تھا۔

وہ مسلسل لکھ رہا تھا۔ ہر رات۔

ایک شریف مرد کی طرح اُس نے اپنی جنسی تسکین کا سامان کیا۔ وہ کَسی ہوئی لڑکی کو بستر تک لے گیا۔ اور پھر دفتر کی اس لڑکی کے ساتھ بھی ہم بستری کی، جو کَسی ہوئی تو نہ تھی، پر اچھی تھی۔ اور اس لڑکی سے صحبت کی، جو در حقیقت ایک عورت تھی۔

ان ہم بستریوں میں محبت کا فقدان تھا۔ تو اس نے اپنی بیوی کی سمت توجہ مرکوز کی۔ اور اپنی زرد ڈائری میں روز بروز درج ہونے والی کہانی میں، مرکزی کردار کی بیوی کے جسمانی خد و خال میں، صرف بہتری کی نیت سے کچھ تبدیلیاں کیں۔ تو عورت کی رنگت کچھ نکھر گئی۔ اور بال کچھ چمکنے لگے۔ اور پھٹی ایڑیوں کا تدارک ہوا۔ اور سینہ کچھ بڑھا دیا۔ اور پیٹ کچھ کم کیا۔ اور۔ ۔ ۔

اور اگلی صبح، عرفان شیخ کے ناول کے کردار عرفان شیخ کی بیوی گزشتہ رات کے مقابلے میں زیادہ چٹخارے دار دکھائی دیتی تھی۔ اور پھر اس کی اپنے شوہر کو انگیخت کرنے کی صلاحیت، جو اس میں بہ درجہ اتم نہیں تھی، بلکہ ناول نگار کی دین تھی، بڑھتی گئی۔

اور اب اس نے توجہ معاشی استحکام پر مرکوز کی۔ تو عرفان شیخ نے اپنے کردار عرفان شیخ کو دفتر میں ترقی پا کر اپنے باس کی کرسی سنبھالتے دیکھا، اور اُسے لکھا۔ اور پھر اسے جیا۔

اور اس نے خود کو نئی گاڑی میں گھومتے دیکھا۔ اور اسے لکھا۔ اور پھر اُسے جیا۔

تو اس کے پرائز بانڈز نکلے۔ لاٹریاں جیتیں۔ سٹے اور جوئے سے دولت کمائی۔ مگر جلد وہ تھک گیا کہ اس کے عضو میں ایک شریف النفس اسکول ٹیچر کا خون تھا۔ اور یہ دولت نہیں تھی، جس کی وہ کم عمری میں، جب اُس سے بد فعلی کی گئی، سپنے دیکھا کرتا تھا، بلکہ یہ شہرت تھی، جس کا وہ خواہش مند تھا۔

تو اس بار، جب اس نے اپنے کردار عرفان شیخ کی کہانی لکھی، جسے اب وہ تقدیر لکھنے کا عمل کہنے لگا تھا، اور ایسا کہتے ہوئے کچھ تکبر محسوس کرتا تھا۔ ۔ ۔ تو اب جو اس نے اگلے روز کی کہانی لکھی، تو اپنے کردار کو ایسی فون کال موصول کرتے منظر کیا، جس کی دوسری طرف ایک ڈراما پروڈیوسر تھا، جو اُس کے افسانے ’’ایک اسٹیٹ ایجنٹ کی مٹرگشت‘‘ پر ڈراما بنانا چاہتا تھا۔

اور اگلے روز ایسا ہی ہوا۔

اور پھر اس نے منظر کیا؛ اُس کا افسانہ ’’روتے کتے کا بدن‘‘ نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے۔

اور اگلے روز ایسا ہی ہوا۔

اس کے افسانے اسٹیج پر پیش کیے جانے لگے۔ اور وہ ریڈیو سے نشر ہوئے۔ اور کئی جرائد نے اس کے گوشے شائع کیے۔

لاہور کے ایک بڑے پبلشر نے فون کیا، جو اُس کا مجموعہ شائع کرنا چاہتا تھا۔ اور پھر ایک پاکستانی فلم ساز نے ’’ایک غافل کہانی‘‘ کو فلمانے کا فیصلہ کیا۔ انڈیا میں بیٹھے وشال بھاردواج کو ’’آصف دادا کی کھیر‘‘ بھا گئی۔ کرسٹوفر نولن نے ’’ تو ہی تو‘‘ کے حقوق مانگ لیے۔

تو وہ روز اپنی تقدیر لکھتا، اور روز اسے جیتا۔ تو اس نے خود کو ادبی ایوارڈز وصول کرتے منظر کیا۔ اور پھر ایوارڈ وصول کیے۔

اور خود کو تمغۂ امتیاز پاتے دیکھا، اور پھر وہ اعزاز پایا۔

اور اس کی کتابوں کے انگریزی تراجم ہوئے۔ اور اس کا یادگاری ٹکٹ جاری ہوا۔

تو سب مست تھا۔ وہ فلم اسٹارز، بیوروکریٹس، سیاست دانوں، اسمگلروں، دہشت گردوں، خود کش بمباروں کے ساتھ لنچ کر رہا تھا۔ ثانیہ مرزا کے ساتھ ٹینس کھیل رہا تھا۔ اور مودی جی کے ساتھ جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور حامد کرزئی کو چٹکلے سنا رہا تھا کہ زاہد کمپیوٹر والا اس کی زندگی میں داخل ہوا۔ ۔ ۔

٭٭

 

 

 

 

’’بھائی، تیری تو نکل پڑی۔ ‘‘

اس نے وسکی کی بوتل لہرائی۔ اور گلے لگ کر عربوں کی طرح اس کے گالوں پر بوسے دیے۔ اور اناڑی پن میں گال گیلے کر دیے۔

انھوں نے کئی پیگ چڑھائے۔ بہت سی مٹھائی کھائی۔ قہقہے لگائے۔ اور خود کو بدھ سمجھنے لگے۔

وہ زاہد سے مل کر خوش تھا۔ اُسی کے انکشاف نے تو اس کی زندگی بدلی تھی۔ اُسے اپنی تقدیر لکھنا سکھایا تھا۔

تو وہ خوش تھا۔ اور جام پر جام پی رہا تھا۔

اور جب بوتل خالی ہو گئی، اور وہ بہت تھک گئے، اور رات بہت ہو گئی، تب ادھر ادھر کی بک بک میں زاہد نے اپنے پیارے دوست سے شکوہ کیا کہ اس نے بہت دنوں سے کوئی کہانی نہیں لکھی۔

جب اس نے مسکراتے ہوئے اپنے افسانوں پر بننے والے ڈراموں کا تذکرہ کیا، ان فلموں کا بتایا، جو فلور پر جانے والی ہیں، تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

’’شیدے، وہ تو سب پرانے افسانے ہیں۔ وہی، جس میں مَیں اور تو ہیں۔ وہ سارے تیرا بھائی پڑھ چکا۔ جانییی ی، نئی کہانی کدھر ہےے ےے ہہ ہ۔ ‘‘

’’ابھی لکھ لیں گے۔ ‘‘ وہ مسکرایا کہ وہ پُر اعتماد تھا کہ جب وہ تقدیر لکھ سکتا تھا، تو کہانی کا کیا ہے۔

’’نہیں جانی، اب تو پہلے والا عرفان نہیں رہا۔ ‘‘ زاہد، جو بدھ تھا، سب جانتا تھا۔

اسے تھوڑا ناگوار گزرا۔ ’’آج یہیں رُک۔ صبح ایک شاہکار تیرے سامنے ہو گا۔ ‘‘

’’کار۔ ۔ کار۔ ۔ ۔ ۔ اوہ یاد آیا۔ یار وہ سی این جی ڈلوانی تھی۔ گھر جانا تھا ناں۔ وہ۔ ۔ ۔ ‘‘

زاہد نے الٹی کی، اور وہیں سو گیا۔

عرفان نے نشے کو الوداع کہا۔ لکھنے کی میز تک گیا، جہاں وہ روز اپنی تقدیر لکھا کرتا تھا۔ مگر آج اس نے زرد ڈائری کو ہاتھ نہیں لگایا کہ آج اُسے تقدیر نہیں، ایک کہانی لکھنی تھی۔ اس نے قلم تھاما، سفید ورق سامنے رکھا، جھکا، اور سفید ہو گیا۔ ۔ ۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا لکھے۔

اُس نے سگریٹ سلگائی۔ بجھائی۔ چائے بنائی۔ پی۔ مگر موضوع ہاتھ نہیں آیا کہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے وہ کسی ایسے واقعے، تجربے سے گزرا ہی نہیں تھا، جو کہانی کا موضوع بن سکتا۔

کوئی معاشی مسئلہ نہیں۔ بے قیمتی کا المیہ نہیں۔ جنسی نا آسودگی نہیں۔ ناکامی نہیں۔ غم نہیں، کرب نہیں، اندیشہ نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں، جس کی مدد سے وہ اپنے افسانے ’’ایک علیل دن کی قلیل روداد‘‘ جیسی زوردار کہانی لکھ سکتا۔ اس کے پاس تو فقط خوشی تھی۔ اور خوشی سے کوئی کہانی نہیں بُنی جا سکتی تھی۔ مسرت کہانیاں نہیں جنتی۔

تو کوئی موضوع نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں تھا۔

وہ تھک گیا۔ اوربستر پر چلا گیا۔ خود کو کوسا کہ اگر وہ گزشتہ رات، آج کی تقدیر لکھتے ہوئے، خود کو ایک کہانی لکھتے ہوئے بھی تصویر کر لیتا، تو یہ نوبت نہ آتی۔ اور عہد کیا کہ اگلے روز وہ ایسا ضرور کرے گا۔ اور سو گیا۔

اور یوں ان ڈیڑھ برس میں پہلی بار وہ اگلے روز کی کہانی لکھنا، جسے وہ تقدیر لکھنا کہا کرتا، بھول گیا۔

اور یوں ڈیڑھ برس بعد اس مصنف کے ہاتھ، جو سب کی تقدیر لکھا کرتا تھا، ایک موقع آ گیا۔ ۔

اگلی صبح، ایک پریشان کن صبح تھی۔ موسم گرم۔ دیواروں کے رنگ پھیکے۔ بیوی کا منہ ٹیڑھا۔ ٹنکی میں پانی نہیں۔ اور قبض۔

دفتر جاتے ہوئے راستے میں ٹائر پنکچر ہوا۔ چوکیدار نے سلام نہیں کیا۔ کمرے کا اے سی خراب۔ مالکان نے ڈاؤن سائزنگ کا عندیہ دے دیا۔ کَسی ہوئی لڑکی نے توجہ نہیں دی۔

وہ آج کی تقدیر لکھنا بھول گیا تھا، اور سب کی تقدیریں لکھنے والے کے ہاتھ ایک موقع آ گیا۔

وشال بھاردواج کی ای میل آئی۔ اُس نے فلم بنانے کا منصوبہ ملتوی کر دیا تھا۔ کرسٹوفر نولن کسی اور پراجیکٹ میں جٹ گیا۔ اس کے ناولٹ کا مترجم بیمار پڑ گیا۔ جس وزیر کے ساتھ آج ڈنر تھا، وہ دھرنے پر بیٹھ گیا۔ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔

حقیقی مصنف کے ہاتھ ایک موقع آ گیا تھا۔

واپسی میں وہ ٹریفک جام میں پھنسا۔ پولیس والے نے چالان کیا۔ گاڑی کھمبے سے ٹکرا گئی۔ ڈکیت نے موبائل چھین لیا۔ وہ منہ لٹکائے گھر پہنچا، تو پتہ چلا کہ کئی گھنٹوں سے لائٹ نہیں۔ جنریٹر چلنے سے انکاری۔ گیس کا پریشر کم۔ بیوی نے سسر ال جانے کے معاملے پر خوب جھگڑا کیا۔ بچے نے اُسے وہ گالی دی، جو اُس نے تازہ تازہ اسکول میں سیکھی تھی۔

اصل مصنف اس کا جیون رتھ سنبھالے ہوئے تھا۔

عرفان شیخ ولد کامران شیخ جب منحوسیت سے نڈھال سوفے پر ڈھیر ہوا، تو دو خیالات ایک ساتھ نازل ہوئے۔

پہلا خیال؛ اب اس کے پاس وہ سارا مواد ہے، جس کی مدد سے وہ ایک چست کہانی لکھ سکتا ہے۔

اور دوسرا کہ اسے فوراً زرد ڈائری تک پہنچنا چاہیے، تاکہ اپنے کل کی کہانی لکھ سکے کہ اسی کوتاہی کے باعث یہ سارے عذاب نازل ہوئے تھے۔

تو وہ اسٹڈی کی سمت دوڑا۔ وہاں بھی بدقسمتی منتظر۔ بیوی نے صفائی کروائی، تو کتابوں کی ترتیب بدل دی۔

وہ سفید ورق، جس پر اس نے کل ایک کہانی لکھنے کی سعی کی تھی، سامنے دھرا تھا، اور کہہ رہا تھا کہ وہ کچھ لکھے۔ مگر اُسے سفید نہیں، زرد رنگ کی تلاش تھی، جو گم ہو گیا تھا۔

اس نے کتنے ہی شیلف کھنگالے۔ کتنی ہی کتابیں زمین پر گرائیں۔ کتنے ہی قلم توڑے۔ کتنے ہی ورق پھاڑے، تب کہیں جا کر وہ زرد ڈائری ایش ٹرے کے نیچے بچھے اخبار کے نیچے نظر آئی۔

وہ خوشی سے کھل اٹھا۔ جھک کر ڈائری اٹھائی۔ جھکتے ہوئے کمر میں جھٹکا آیا۔ درد سہتے ہوئے ڈائری کھولی۔ قلم کی تلاش میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ وہاں فقط ٹوٹے ہوئے قلم تھے، جو اس نے خود توڑے تھے۔

تقدیر لکھنے والے مصنف کے حملے گھاتک تھے۔

عرفان شیخ کے سینے میں درد اٹھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ بدقسمتی پھنکارنے لگی۔

اچانک لفافے چاک کرنے والی چھری نظر آئی۔ اس نے کند چھری پوری قوت سے انگلی پر پھیری۔ خون کی باریک سی لکیر۔ اس نے انگلی ڈائری کے ورق پر رکھ دی، اور مرتے ہوئے فاتح کی مانند مسکرایا۔

اب وہ اپنی تقدیر لکھ سکتا تھا۔

اس سے قبل کہ وہ کچھ لکھتا، زمین لرزنے لگی۔ ۔ ۔ چھت گر گئی۔ ۔ ۔ دیواریں ڈھے گئیں۔ ۔ ۔ اور اپنے وقت کا عظیم ترین افسانہ نگار۲ئ۷ شدت کے زلزلے کی لپیٹ میں آ گیا۔

وہ اپنی تقدیر نہیں لکھ سکا۔ ۔ ۔ تقدیر لکھنے والا مصنف جیت گیا۔

٭٭

 

 

 

 

مصنف نے، اُس مصنف نے، جس نے افسانہ نگار، عرفان شیخ کا کردار تشکیل دیا، اور اُسے خود کو ایک کردار کی شکل دے کر زرد ڈائری میں ایک کہانی لکھنے پر مائل کیا، اور پھر ایک لرزش کروائی، اور پھر قدرت کے ہاتھوں نیست و نابود کروا دیا۔ ۔ ۔ گہرا سانس لیا۔

مصنف نے۔ ۔ ۔ اصل مصنف نے۔ ۔ ۔ قلم رکھ کر انگڑائی لی۔ وہ خوش تھا کہ کہانی مکمل ہوئی۔ وہ چہل قدمی کے لیے نکل گیا۔ لوٹنے کے بعد چائے بنائی۔ کچھ دیر ٹی وی دیکھا۔ چند گھنٹوں بعد اپنی لکھی کہانی پڑھنی شروع کی، اس ارادے سے کہ ضروری رد و بدل کر سکے کہ وہ بھی اپنے کردار عرفان شیخ کی مانند کہانی کو آخری وقت تک مانجھنے پر یقین رکھتا تھا۔

کہانی پڑھتے ہوئے کچھ حصوں کو اس نے قلم زد کیا۔ کچھ تبدیلیاں کیں۔

دو ہفتے بعد اس نے یہ کہانی پھر پڑھی۔ اور تب۔ ۔ ۔ وہ اس سے لطف اندوز ہوا، ٹھیک ویسے، جیسے وہ اپنے من پسند ادیبوں کی کہانیوں سے ہوا کرتا تھا۔

ایک ماہ بعد فیصلہ کیا کہ کہانی کسی جریدے کو بھیج دی جائے۔ اس نے کہانی پڑھی۔ اور تب، یک دم احساس ہوا کہ وہ اس کے کردار اور واقعات کے ماخذ سے لاعلم ہے۔ نہیں جانتا کہ یہ اس کے تخیل میں کب، کہاں، کیسے اور کیوں کر داخل ہوئے۔

وہ اس کی جڑوں سے لاعلم تھا۔ اور یہ بَڑھیا تھا۔

اس نے پہلی بار اپنی تحریر کردہ کہانیوں کے لیے ایک خاص قسم کی کشش محسوس کی۔ کشش، جو اپنی تحریر کردہ چند اور کہانیاں پڑھنے کے بعد شدت اختیار کرنے لگی۔

اور تب اس پر انکشاف ہوا کہ وہ اپنی کہانیوں کے عشق میں مبتلا ہو چکا ہے۔

اور تب ایک اور انکشاف ہوا کہ وہ اپنی کہانی خود لکھ سکتا ہے۔ ۔ ۔

اور تب۔ ۔ ۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ،  شمارہ ایک ۔ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی جس سے اس برقی کتاب کا متن حاصل ہوا۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید