FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

انور مسعود (شخصیت اور شاعری)

حصہ دوم

               محمد شعیب خان

  حصہ اول یہاں ملاحظہ کریں  

انورمسعود اور اکبر الٰہ آبادی (طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا تقابلی مطالعہ)

               ۱۔       اکبر الٰہ آبادی اور انور مسعود کے عہد کا سیاسی تقابل

            اکبر نے ۱۶نومبر۱۸۴۶ء میں آنکھ کھولی، تو ہندوستان پر انگریزوں کے اقتدار کا سورج اپنے عروج کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعدمسلمانوں کی سیاسی قوت چھن چکی تھی اور وہ اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کی قوم کے طور پر زندگی کے دن بسر کرنے پر مجبور تھے۔ اس زمانے میں انگریزوں اور ہندوؤں کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں پر زندگی کے تمام شعبوں کے دروازے بند کر کے ان میں مایوسی کو فروغ دیا۔ اکبر کی جوانی تک حالات مزید بدل گئے اور عوام نے انگریزوں کے اقتدار کو آہستہ آہستہ قبول کرنا شروع کر دیا۔ مسلمان مصلحین نے جدید تعلیم اور روزگار کے لیے مسلمانوں کو انگریزوں سے مصالحت کا راستہ دکھانا شروع کر دیا۔ سرسید اور ان کے رفقا اس کام میں پیش پیش تھے۔ انھوں نے انگریزوں کو مستقل حاکم تصور کر کے مسلم عوام کو ان کا وفادار بنانے کی انتھک کوششیں کیں :

 ’’۔ ۔ ۔ مصلحین یہ خیال کرنے پر مجبور ہو گئے کہ انگریزوں کا تسلط اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اُن کو نکالنے کا خیال دل میں لانا نادانی ہے۔ چونکہ انگریز ہمیشہ ہندوستان کے حکمران رہیں گے اس لیے ان سے بگاڑ پیدا کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اب قوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسے انگریزوں کی انتہائی وفادار رعایا بنا دیا جائے۔ انگریزوں سے حق نہ مانگا جائے، درخواست کی جائے۔ سرسید کی اصلاحی تحریک کا محرک یہی ہے کہ انگریز ہمیشہ یہاں رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۳]

            سرسید اور ان کے رفقا مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کواپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایسے وقت میں بھی لوگوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا اور مسلمان کئی مقامات پر انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ شاہ ولی اللہ کی تحریک نے احیائے اسلام کے باب میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ سیّد احمد بریلوی شہید اور شاہ اسمعیل شہید نے عملی جہاد کو اپناتے ہوئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ ان دونوں بزرگوں نے مسلمانوں میں رواج پانے والے غیر اسلامی عقائد کو مسلم معاشرے سے ختم کرنے کے لیے اپنی کتابوں ’’صراطِ مستقیم ‘‘ (سیّد احمد بریلوی شہید) اور ’’تقویت الایمان‘‘ (شاہ اسمعیل شہید)میں بہترین مشورے دیے جن کا تذکرہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اپنے مقالے میں کیا ہے:

 ’’۱۔ ہندی ایرانی اور رومن عناصر کا اخراج جو مسلمانوں کے عقائد میں غلط فہمی کی بنا پر داخل ہو گئے ہیں۔

۲۔ اُن صوفیوں کی مخالفت جو شریعت کے قوانین کی پروا نہیں کرتے۔

۳۔ خدا اور رسول کے متعلق بے ادبی کی باتوں کی مخالفت۔

۴۔ اپنے مرشد سے بت پرستی کے انداز میں لگاؤ اور مزاروں کو سجدے کرنے کی ممانعت۔

۵۔ محرم کو ایک عوامی میلے کی طرح منانے کی مخالفت۔

۶۔ ہندو تہواروں میں شرکت، رشیوں کی خدمت اور ان کے مقدس مقامات کی زیارت کی مکمل ممانعت۔ ‘‘ [۲۴]

            اکبر الہٰ آبادی کے عہد میں جمال الدین افغانیؒ نے دنیائے اسلام کو سامراجی قوتوں کے پنجے سے نکالنے کے لیے جو اقدامات کیے ان سے اکبر بھی متاثر تھے۔ اکبر کا تعلق اُس طبقے سے تھا جو سرسید کے ہم خیالوں کے مخالف اور انگریزوں کی اندھا دھند تقلید کے برعکس اسلامی خیالات و نظریات کے حامی تھے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت تمام عالم اسلام کو ایک ہی رشتہ اخوت میں پرونے کی متمنی تھی اس لیے مشاہیرِ اسلام ان سب کے ہیرو تھے اور اکبر کا تعلق اسی اکثریتی طبقے سے تھا۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت ٹوٹتی تو ان سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ اکبر کی زندگی میں ہی مسلمانوں نے اپنی سیاسی قوت کے اظہار اور نمائندگی کے لیے آل انڈیامسلم لیگ(۳۰ دسمبر ۱۹۰۶ء)کی بنیاد رکھی۔ کانگرس کو مسلم لیگ کا قیام ایک آنکھ نہ بھایا اور انھوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے سے روکنے کے لیے کئی معتبر مسلم رہنماؤں کو اپنا آلہ کار بنا لیا۔ مسلمانوں کی الگ سیاسی حیثیت کا تعین ہوتے ہی ان کے شعور و ادراک میں اضافہ ہونے لگا اور وہ سیاسی معاملات میں حصہ لینے لگے۔ اکبر کی وفات تک مسلم لیگ نے مسلمانوں کی نمائندگی کا سہرا کافی حد تک اپنے سر پر سجا لیا تھا۔

             اکبر الٰہ آبادی کی وفات کے ۱۴ برس بعد انور مسعود نے جنم لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی اقوام بالعموم اور مسلمان بالخصوص انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لیے سرگرداں تھے۔ دیگر اقوام صرف ایک قوم، انگریزوں سے آزادی کی خواہاں تھیں جب کہ مسلمان فرنگی استعمار کے ساتھ ساتھ ہندؤں سے بھی چھٹکارہ چاہتے تھے۔ اکبر  کے انتقال(۹ستمبر ۱۹۲۱ء) کے وقت ہندوستان کی سیاسی صورتحال گھمبیر تھی اور آزادی کے آثار ابھی واضح نہیں ہوئے تھے۔ اس کے برعکس انور مسعود کے ہوش سنبھالنے تک پُلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چُکا تھا۔ انھوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا اور کئی خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیے تھے۔ امید کی شمعیں ہر جانب روشن و تاباں ہونے لگ گئی تھیں۔ اکبر نے جن مخرب رجحانات پر طنز کے تیر چلائے تھے، انور مسعود ان رجحانات کا خاتمہ بالکل قریب دیکھ رہے تھے لیکن ان کی یہ امیدیں اور تمنائیں اس وقت دم توڑ گئیں جب قائد اعظمؒ کی وفات کے فوراً بعد پاکستان کی خالق جماعت میں حصولِ اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ ذاتی مفادات پر قومی و ملی مفادات بے دریغ قربان ہونے لگے۔ اقربا پروری کے مظاہرے عام ہو گئے۔ جن سے آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون کے دریا بہا دیے، ان کے ساتھ ملکی معاملات پر مشورے ہونے لگے۔ الغرض قیامِ پاکستان کے بعد، جلد ہی مقاصد کا حصول پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ اسلامی اقدار سے ہٹ کر انگریزی اذہان کی جانب جھکاؤ رکھنے والے مملکتِ خدا داد کے آقا بن بیٹھے اور منزل دور ہونے لگ گئی۔ ایسے وقت میں انور مسعود نے وہی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا جو ان کے پیش رو اکبر الٰہ آبادی کی راہ تھی۔ انھوں نے اپنے سنجیدہ کلام کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا لیکن اکبر کی طرح پذیرائی صرف ان کے طنزیہ و مزاحیہ کلام کو ملی۔

               ۲۔      اکبر اور انور کے شعری موضوعات کا تقابل

            اکبر الٰہ آبادی اور انور مسعود کے موضوعات میں حیران کُن حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ اِن کے ہاں موضوعات کی یکسانیت کی بڑی وجہ دونوں کے ادوار میں مسلمانوں کا تنزل کی جانب سفرہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اکبر کا عہد دوسری اقوام کے تسلط میں بسر ہوا اور انور کے عہد میں مسلمان اپنوں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اُس وقت جو خاندان انگریزوں کے لیے کام کرتے تھے، اب اُن کی اولادوں نے حکومتوں کی باگ ڈور سنبھال کر اُسی قانون قاعدے کو زندہ کر رکھا ہے۔ اکبر دوسروں کی غلامی پر نوحہ کناں تھے تو انور اُس سوچ اور فکر پر خون کے آنسو روتے ہیں جو یزیدی دور میں پیدا ہو چکی تھی اور اب ہم پر راج کر رہی ہے۔ اُس وقت ایک یزید تھا اور اب خاندانوں کے خاندان اُس کے پیرو کار ہیں۔ اس لحاظ سے رسمِ شبیری ادا کرنے کا فریضہ انور مسعود نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔ اکبر و انور کے موضوعات میں مشابہت و تقابل درج ذیل ہے:

i۔      شیخ و مولانا کی مخالفت

        

            اکبر اور انور دونوں اسلام کو مسلمانوں کی زندگی پر حاوی دیکھنا چاہتے ہیں۔ نماز روزہ اور دیگر فرائض کی پابندی میں دونوں شعرا برابر ہیں اور اسلام ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا ملتا ہے۔ تہذیب کے بدل جانے کو دونوں نے دل سے قبول نہیں کیا اور مسلمانوں کا ایک ’’مقدس ‘‘ نشان جو مولانا، شیخ، زاہد اور واعظ وغیرہ کے ناموں سے جانا جاتا ہے جب اپنا رُخ نئی تہذیب کی جانب بدلتا ہے تو دونوں اس صورتِ حال پر اُسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اکبر کے دور میں واعظ نے نئی تہذیب کا چولا ابھی پوری طرح نہیں بدلا تھا، وہ دھیرے دھیرے مغربی رنگ اپنا رہا تھا۔ اس کے برعکس انور مسعود کے عہد تک آتے آتے اُس نے وہ تمام روشیں اپنا لی تھیں جن پر پہلے فتوے صادر کرتا تھا۔ ہوائی جہاز جس میں بیٹھنا حرام قرار دیا گیا تھا کہ یہ مساجد کے اُوپر سے گزرتا ہے، اب اسی پر بیٹھ کر حج کیا جاتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر جو انگریزوں کی ایجاد سمجھ کر استعمال میں ہچکچاہٹ برتی جاتی تھی اب ہمسائیوں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے ڈنکے کی چوٹ پر مستعمل ہے۔ ٹی وی کی ایجاد کے بعد عرصے دراز تک گھروں میں اس سے لطف اندوزی پر فتوے لگائے جاتے رہے اور آج وہی مولوی اپنے اپنے ٹی وی چینل کھولے عبرت کا نشان ہیں۔ ان دوغلی پالیسیوں پر اکبر و انور نے طنز کے جو نشتر برسائے، اُن کی مثالیں ملاحظہ ہوں :

اکبر الٰہ آبادی:

واعظ تو بتاتے ہیں مسلمان کو کافر

افسوس یہ کافر کو مسلماں نہ کریں گے

مسلمانوں کو لطف و عیش سے جینے نہیں دیتے

خدا دیتا ہے کھانا شیخ جی پینے نہیں دیتے

تہذیبِ مغرب کی بھی ہے وارنش غضب

ہم کیا جنابِ شیخ بھی چکنے گھڑے ہوئے

محلے میں نہ کی جب شیخ کی وقعت عزیزوں نے

تو بیچارہ کمیٹی ہی میں جا کر اچھل کود آیا

انور مسعود:

کوئی ہو جائے مسلمان تو ڈر لگتا ہے

مولوی پھر نہ بنا دے اُسے کافر بابا

بر سبیلِ تذکرہ اِک روز میڈم نے کہا

اپنے شوخ و شنگ اندازِ تکلم کے بغیر

میرا وعدہ ہے کہ گانا چھوڑ دوں گی میں اگر

مولوی تقریر فرمائے ترنم کے بغیر

جو ہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے

ایک ہو رائے سبھی کی، یہ کچھ آسان نہیں

لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ

ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں

ii۔     سیاسی نظام پر طنز

            اکبر الٰہ آبادی نے اپنے زمانے میں انگریزوں کی جانب سے ملنے والے نظام پر دل کھول کر تنقید کی۔ وہ جبر اور غلامی کی موجودگی میں ملنے والی ممبری اور اختیار کو درخت کی جگہ پتوں کا ڈھیر کہتے تھے۔ اس نظام میں طاقتور کو اختیارات حاصل تھے جس کی مثال اکبر نے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے محاورے میں پیش کی ہے:

اُس کا گھوڑا جس کی کاٹھی

بھینس اُس کی جس کی لاٹھی

اک دل لگی ہے وقت گذرنے کے واسطے

دیکھو تو ممبروں کے ذرا ہیر پھیر کو

ایسی کمیٹیوں سے ہے پھل کا امیدوار

اکبر درخت سمجھا ہے پتوں کے ڈھیر کو

            انور مسعود کے عہد میں بھی انگریزوں کا دیا ہوا وہی نظامِ سیاست قائم رہا جو انگریزوں کی دین تھا۔ علامہ اقبال کے بقول اس میں بندوں کو تولنے کی بجائے سروں کو گنا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک شریف شخص دو مجرموں کے مقابلے میں شکست خوردہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی غنڈا گردی اور کافرانہ نظام کے تحت ہونے والے انتخابات اور ممبران کا کچا چٹھا کھولتے ہوئے انور مسعود اس طرح چیختے ہیں :

اپنی جمہوری ترقی کا قصیدہ پڑھ ضرور

لیکن اس کے بعد باقی عمر استغفار پڑھ

تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے

اب اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے

مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے

تمھارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے

شاعرانہ اور ظریفانہ ہو گر ذوقِ نظر

زندگی میں جا بجا دلچسپ تشبیہیں بھی ہیں

ریل گاڑی اور الیکشن میں ہے اک شے مشترک

لوگ بے ٹکٹے کئی اس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں

ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہیں

یہ راز ہیں ایسے جنھیں کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے

iii۔    اسلام سے دوری

            مسلمانوں کی بربادی اور محکومی کی سب سے بڑی وجہ اسلامی احکامات اور حقوق و فرائض سے غفلت ہے۔ جو خوبیاں اِن کو اقتدار، علم اور اخلاق کے عروج پر لے گئی تھیں اُن کو حریف قوموں نے اپنا کر مسلمانوں کو اپنا دستِ نگر بنا لیا۔ اللہ اور رسولﷺ سے رشتہ توڑ کر گمراہی کی گہرائیوں کے دہانے تک پہنچ کر ہی مسلمان در بدر ہوئے۔ انگریزوں کی حاکمیت کا قائم ہونا مسلمان بادشاہوں کے شاہانہ و عیاشانہ طرزِ عمل کی وجہ سے ممکن ہوا اور ایک صدی سے زائد عرصے بعد ہمیں انگریزوں سے نجات ملی۔ اکبر نے اپنے دور میں مسلمانوں کو ہوش دلانے اور اسلام سے رشتہ جوڑنے کے لیے اپنی شاعری کو وقف کر دیا۔ ایسے سینکڑوں اشعار کلیاتِ اکبر  کا حصہ ہیں جو مسلمانوں کا ناتا اللہ اور اُس کے دین سے قائم کرنے پر زور دیتے ہیں :

تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اُڑو چرخ پہ جھولو

بس ایک  سخن  بندۂ  عاجز کا رہے  یاد

اللہ کو  اور  اپنی  حقیقت  کو  نہ  بھولو

مسجد میں اگرچہ امن تھا اے اکبر

لیکن اک عالمِ خموشی پایا

            انور مسعود نے اکبر کا تتبع کرتے ہوئے مسلمانوں کو مذہب سے رشتہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ اسلام کو مرکزِ حیات بنا کر حصول پاکستان کے مقاصد تک رسائی ان کا مطمحِ نظر رہا:

ہیں جس کے من میں لندن و پیرس بسے ہوئے

مکے سے اُس کے دل کی فضا کو قریب کر

یورپ کی یونین سے ہیں جس کو عقیدتیں

اسلام سے بھی اُس کو محبت نصیب کر

iv۔     مسلمانوں کی ذہنی غلامی پر طنز

            مسلمانوں کو ذہنی غلامی کا شکار بنانے کے لیے انگریزوں نے کئی چالیں چلیں۔ سب سے پہلے بڑے بڑے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا جو رائے عامہ کو ہموار کرتے تھے۔ اس کے بعد تعلیم میں وہ تبدیلیاں کیں جو ان کے جانے کے بعد کالے انگریزوں اور کلرکوں کی ایک بڑی فصل پیدا کرنے کا سبب بنی۔ اسی تعلیم نے لوگوں کے ذہنوں سے رُوحِ مسلمانی نکال کر انھیں مغرب کا مستقل غلام بنا دیا۔ اکبر ہمیشہ اسی ذہنی غلامی کا مرثیہ پڑھتے رہے اور اُن کے بعد انور مسعود نے بہ حسن و خوبی یہ فریضہ انجام دیا:

اکبر الٰہ آبادی:

یہ سڑک کس سمت میں آخر نکالی جائے گی

آنے والی نسل کس سانچے میں ڈھالی جائے گی

نقل مغرب میں جو چھوڑی ایشیاء نے اپنی اصل

گھٹ گئی شانِ عرب حسن عجم جاتا رہا

میں کیا کہوں احباب کیا کار نمایاں کر گئے

بی۔ اے کیا نوکر ہوئے پینشن ملی اور مر گئے

انور مسعود:

حمیت ہو چکی ہے دل سے رُخصت

حیا سے آنکھ خالی ہو گئی ہے

بھلی قدریں بھلا بیٹھے ہیں بھیا

ہمیں روشن خیالی ہو گئی ہے

v۔      تعلیمی نظام پر طنز

            اکبر ترقی کے مخالف ہرگز نہیں تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ مفید علم ضرور حاصل کیا جائے لیکن اپنی روایات اور دین و مذہب کے ساتھ علم کا سودا نہ کیا جائے بلکہ اللہ کے ساتھ تعلق استوار رکھتے ہوئے اپنی حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ عہدِ اکبر میں مسلمانوں نے سرسید اور ان کے ساتھیوں کی راہ پر چلتے ہوئے انگریزی زبان کو سیکھنے کی سعی شروع کر دی۔ انگریزی اداروں نے ان کو انگریزی زبان سکھانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کو جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ ذہنی غلامی کے بدترین شکنجوں میں کسنا شروع کر دیا۔ تعلیم، معاشرت، معیشت، مذہب و اقدار وغیرہ سب کچھ بدیسی رنگ میں رنگی جانے لگیں۔

            اکبر اس حق میں تھے کہ اپنی قومی تہذیب کی جڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ تعلق قائم رکھ کر ہی ناساز گار حالات کو سازگار بنایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اس وقت کے جدید انگریزی رجحانات کی پُر زور مخالفت کی اور ان کی یہ مخالفت مٹتی ہوئی اقدار کو سنبھالا دینے کی کوشش تھی۔ سیاسی منظر کی تبدیلی کے ساتھ اپنے آپ کو بدل لینا قومی وحدت اور غیرت و حمیت پر کاری ضرب لگانے کے مترادف تھا۔ اکبر بھی سیاسی موسم کی تبدیلی پر بدل جانے کو بُرا خیال کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں :

اِک برگِ مضمحل نے یہ ’’اسپیچ‘‘ میں کہا

موسم کی کچھ خبر نہیں اے ڈالیو تمھیں ؟

اچھا جواب خشک یہ اک شاخ نے دیا

موسم سے با خبر ہوں تو کیا جڑ کو چھوڑ دیں ؟

جس بات میں تم شکست ملت سمجھو

اس میں شرکت کو اپنی ذلت سمجھو

جو بندۂ نفس ہو مخالف اس کا

قومی غیرت کی اس میں قلت سمجھو

پڑھ کے انگریزی میں دانا ہو گیا

کم کا مطلب ہی کمانا ہو گیا

            انور مسعود جدید تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ اس بات کے حامی ہیں کہ تعلیم کی ترویج قومی زبان میں ہونی چاہیے۔ انگریزی زبان کی مخالفت اور اردو زبان کی مدافعت میں ان کے کئی اشعار زبانِ زدِ عام ہیں۔ اکبر نے کہا تھا کہ میں طلبا سے اس لیے کچھ نہیں کہوں گا کہ پہلے ہی ان کا نصاب بہت زیادہ ہے۔ ان دونوں بزرگ شعرا کا کلام نصاب کا حصہ بن چکا ہے اور انور مسعود کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُن کی زندگی ہی میں اُن کا کلام کئی جماعتوں کے نصاب میں شامل ہے۔ انور مسعود نے بچوں کے نصاب میں شامل انگریزی کے مضمون کی مخالفت کی ہے:

دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے

فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے

کبھی پھر گفتگو ہو گی کہ یہ سوغاتِ افرنگی

عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے

ابھی اتنا کہے دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں

کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے

vi۔     خواتین کی بے پردگی پر طنز

            مغربی تہذیب و تمدن کا سب سے بڑا تحفہ بے حیائی و فحاشی ہے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستانی معاشرے میں خواتین کو بے لگام کرنے کا آغاز کیا گیا۔ اکبر کے عہد سے انور مسعود تک آتے آتے فحاشی وعریانی کا یہ سیلاب تمام تر بند توڑ کر ہر قریہ میں داخل ہو گیا۔ حکمرانوں نے اس جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا اور ان کی بہو بیٹیاں جو پہلے ہی یورپی رنگ میں رنگی ہوتی ہیں، کی دیکھا دیکھی عام خواتین نے بھی وہی روش اختیار کی۔ اکبر خوش قسمت تھے کہ انھوں نے صرف بے پردہ خواتین کو منڈلاتے دیکھا، انور مسعود کے عہد میں تو یہ بے پردگی کئی شکلیں بدلنے کے بعد اب عریانی و بے حیائی کی منزلیں بھی طے کر چکی ہے:

اکبر الٰہ آبادی:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

حسرت بہت ترقیِ دختر کی تھی انھیں

پردہ جو اُٹھ گیا تو وہ آخر نکل گئی

خدا کے فضل سے بی بی میاں دونوں مہذب ہیں

حجاب اُن کو نہیں آتا، انھیں غصہ نہیں آتا

انور مسعود:

اپوا کی پُر خلوص مساعی کے باوجود

اب تک ہے اک رویۂ پسماندگی یہاں

انور مجھے تو فکر ثقافت نے آ لیا

باپردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

بہت نہیں ہے نئی طرزِ پیرہن سے گلہ

مجھے تو اس سے فقط ایک ہی شکایت ہے

بٹن وہاں ہے ضرورت نہیں بٹن کی جہاں

وہاں نہیں ہے جہاں پر بڑی ضرورت ہے

رُخِ زیبا پلستر در پلستر

عجب کوہان سا باندھا ہے سر سے

ٹھٹھک کر رہ گئی ہے والدہ بھی

دُلہن آئی ہے بیوٹی پارلر سے

vii۔     جدیدیت کا مذاق اُڑانا

             اکبر نے انگریزوں کی ملازمت میں ہونے کے باوجود ان پر طنز کے نشتر چلائے۔ اکبر نے وطن کی غلامی سے زیادہ مسلمانوں کی اُس ذہنی غلامی کا ماتم کیا جس نے اپنی تہذیب و تمدن کو پسِ پشت ڈال کر مغربی تہذیب کا رنگ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ اکبر دیکھ رہے تھے کہ عنقریب رائج الوقت قوانین و طریقے راہیِ ملکِ عدم ہو جائیں گے اور نئی روشنی فرنگی لبادے میں قومیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے گی۔ اس حوالے سے چند اشعار درج ذیل ہیں :

یہ موجودہ طریقے راہیِ ملکِ عدم ہوں گے

نئی  تہذیب  ہو  گی  اور  نئے  ساماں  بہم  ہوں   گے

کر لی ہے خوب میں نے نئی روشنی کی جانچ

مجھ سے بہت نہ کیجیے اب آپ تین پانچ

ترقی کی نئی راہیں جو زیرِ آسماں نکلیں

میاں مسجد سے نکلے اور حرم سے بیبیاں نکلیں

مصیبت میں بھی اب یادِ خدا آتی نہیں اُن کو

دعا منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں

جو میری ہستی تھی مٹ چکی تھی، نہ عقل میری نہ جان میری

ارادہ ان کا دماغ میرا، خیال ان کا زبان میری

مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو تو اپنا کام کرتے ہیں

مجھے حیرت تو ان پر ہے جو اس مٹنے پہ مرتے ہیں

            انور مسعود نے جدید تہذیب کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اس کے عاملین کی وہ خبر لی ہے کہ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری اپنے معاصرین میں نمایاں ہو کر اُبھری۔ والدین، جن کو اسلامی طرزِ معاشرت میں بنیادی حیثیت حاصل ہے مغربی معاشرہ انھیں عضوِ معطل سمجھ کر اولڈ ہاؤسزمیں چھوڑ آتا ہے۔ مغرب پسندوں کودیسی گھی سے بُو آنے لگتی ہے۔ مردوں نے عورتوں کی مشابہت اختیار کر لی ہے اور عورتیں بال کٹوا کر بغیر دوپٹے کے مرد بنی نظر آتی ہیں، اُوپر سے منہ کو موچنے سے نوچ کر عجیب صورتیں سامنے آ کر مشرقی تمدن کا مذاق اُڑاتی ہیں :

ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور

طبیعت سخت متلانے لگی ہے

مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں

کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے

مرد ہونی چاہیے، خاتون ہونا چاہیے

اب گریمر کا یہی قانون ہونا چاہیے

            اس مختصر جائزے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اکبر الٰہ آبادی اور انور مسعود کی ذہنی کیفیات، سوچ کے انداز، مشاہدات، اُسلوب اور افکار میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ عہدِ حاضر کے پیشتر شعرا نے انور مسعود کی اس خصوصیت کو محسوس کرتے ہوئے انھیں اکبر ثانی کا خطاب دیا ہے۔ اکبر اور انور کے موضوعات میں اشتراک کے باوجود ان کے ہاں چند موضوعات میں تفاوت بھی ہے۔ انور مسعود نے معاشرتی بُرائیوں کو خاص ہدفِ طنز بنایا ہے جو اکبر کے ہاں موجود نہیں۔ چور بازاری، رشوت، سفارش، ملاوٹ، اقربا پروری، ماحولیات وغیرہ ایسے ہی موضوعات ہیں۔ اکبر کی شاعری میں خواتین کو بہت سے حوالوں سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس طرح کا مواد کثیر تعداد میں کلیاتِ اکبر کا حصہ ہے۔ اسلامی تناظر میں کی گئی اکبر کی شاعری کی بہتات انور مسعودکے ہاں موجود نہیں ہے۔ افکار کی مکمل مماثلت انور مسعود کو اکبر ثانی کا لقب عطا کرنے میں پیش پیش ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انور مسعود اپنی فکر کے لحاظ سے عہدِ حاضر کا اکبر الٰہ آبادی ہے۔

٭٭٭

 

انور مسعود کی پنجابی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا مختصر جائزہ

            قیام پاکستان کے بعد دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب میں اردو اور انگریزی زبانوں نے ہر میدان میں اپنے قدم مضبوطی سے جمائے۔ پنجابی زبان کو ابتدائی نصابِ تعلیم کا حصّہ بنانے سے دانستہ گریز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجابی ادب سے پنجاب کے عوام اب تک شناسائی پیدا نہیں کر سکے۔ عوامی سطح پر صرف مشاہیر کے چند شاہ کار مثلاً ہیر وارث شاہ، سیف الملوک وغیرہ ہی کو پنجابی ادب سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا کلی اختیار کالے انگریزوں کے ہاتھوں میں رہا جن کی نسلیں انگریزی اداروں سے فارغ التحصیل ہوئیں اور اس نا اہل حکمران طبقے کی تقلید میں عوام نے بھی دیسی انگریزی مدارس کا رُخ کیا جہاں سے نکلنے والی طلبہ کی کھیپ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مانند ہے۔ ایسے وقت میں جس شاعر کی پنجابی شاعری کو سارے پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص توجہ سے سنا اور سمجھا گیا وہ انور مسعود ہے۔ ان کی نظمیں اور اشعار زبانِ زد خاص و عام ہیں۔

            انور مسعود کا پہلا پنجابی شعری مجموعہ ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ ۱۹۷۴ء میں منظرِ عام پر آیا۔ اس مجموعے میں پنجاب کی ثقافت کا رنگ گہرا ہے۔ ’’  ہُن کِیہ کریے؟‘‘ کے عنوان سے انور مسعود کا دوسرا پنجابی شعری مجموعہ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا۔ اس کی ضخامت پہلے شعری مجموعے سے نسبتاً زیادہ ہے۔ لیکن رنگ ڈھنگ وہی ہے۔ ان کی مشہور و معروف نظم ’’بنین‘‘ اسی مجموعے میں شامل ہے۔ ’’میلی میلی دھوپ‘‘ جو ماحولیات پر مبنی شعری مجموعہ ہے، اس میں بھی تین پنجابی نظمیں اور ایک قطعہ شامل ہے۔ انور مسعود کی پنجابی شاعری کا مطالعہ اُن کی ’’نظم‘‘ اور ’’غزل‘‘ کے حوالے سے درج ذیل ہے۔

               i۔ انور مسعود کی پنجابی نظم

            انور مسعود کی پنجابی نظموں میں مکالماتی انداز چھایا ہوا ہے۔ ان کی مقبولِ عام نظمیں اسی انداز کی حامل ہیں۔ امبڑی، اَج کیہ پکائیے، لسّی تے چاء، انار کلی دیاں شاناں، جہلم دے پُل تے، تندور، حال اوئے پاہریا، پِٹ سیاپا، اَوازار، رکشے والا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ ان سب نظموں میں دیہی زندگی اپنی تمام رنگینیوں اور صعوبتوں کے ساتھ سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی مخصوص زبان بھی ہے۔ ان کے مکالموں میں برتی جانے والی زبان وہی ہے جو عام آدمی بولتا ہے۔ ان کی پنجابی شاعری میں مشرقی روایات و اقدار ہر طرف اپنے حسن کا جادو جگاتی پھرتی ہیں۔ انور مسعود ان روایات کو دیہی پسِ منظر میں پیش کر کے ان کے حسن و جمال کو مزید تر و تازگی عطا کرتے ہیں۔ پنجابی زبان میں کی جانے والی شاعری ہی ان کی اصل پہچان بن چکی ہے۔ ڈاکٹر افضل اعزاز درست کہتے ہیں کہ:

 ’’مشرقی اقدار کا پرچار اور ایک اخلاقی رویہ انور کے سارے کلام میں جاری وساری ہے۔ لسی تے چاء، وگوچہ، انار کل دی مجھ، پٹ سیاپا، اور امبڑی انھی قدروں کی آئینہ دار ہیں۔ لسی، ساگ، مکئی اور مکھن اس کی مرغوب غذائیں ہیں۔ جو لطف اُسے اردو، فارسی اور پنجابی بول کر آتا ہے انگریزی میں نہیں آتا۔ اپنی قدروں کی ترجمانی اس نے جس اچھوتے اسلوب میں کی ہے۔ وہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے۔ وہ اپنی زندگی میں پنجابی کاLegendبن چکا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۵]

            پنجابی زبان میں پائی جانے والی موسیقیت کی لَے اس زبان کے مخصوص آہنگ سے جنم لیتی ہے اور پہلے سے موجود موسیقیت کو شاعری کی زبان میں ڈھال کر ڈرامائی طرز میں بیان کرنا انور مسعود کی عوامی مقبولیت کی خاص وجہ ہے۔ اپنی شاعری سناتے وقت انور مسعود اس بازی گر کی صورت اختیار کر جاتے ہیں جو اپنے جادوئی تھیلے میں ہاتھ ڈال کر لوگوں کو تجسس اور حیرت میں ڈالے رکھتے ہیں کہ نجانے اب تھیلے سے کیا برآمد ہو، پھر ہر بار جب ان کا ہاتھ باہر آتا ہے تو اپنے ساتھ دلچسپی کا ایک نیا اور انوکھا روپ دکھاتا ہے۔ انور مسعود کے اس طرزِ بیان سے قہقہے اور آنسوایک ساتھ جنم لیتے ہیں اور سننے والے اسی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں کہ کیا معلوم یہ شخص ہنسا دے یا رُلا دے:

 ’’اس کی پنجابی کی چند نظمیں تو ایسی ہیں جو اکثر لوگوں کو پوری کی پوری یاد ہیں مگر اس کے باوجود انور مسعود کے مخصوص انداز میں اور اس کی زبان سے انھیں سننے کا لطف ایسا ہے کہ بار بار سُن کر بھی جی نہیں بھرتا، اس کے قطعات ہوں یا مزاحیہ غزلیں، وہ اردگرد پھیلی ہوئی حقیقتوں اور ان کی جزئیات کو کچھ ایسی ہنر مندی، تازہ کاری اور قہقہوں میں لپٹی دلسوزی کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ بعض اوقات قاری اور سامع کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے اس موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۶]

            انور مسعود کی پنجابی شاعری کو چار بڑے موضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں تہذیب و ثقافت، سیاسیات، افرادِ معاشرہ اور گھریلو اُلجھنیں وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے مشاہدے کی وسعت ان کی تمام شاعری کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ موضوعات کی فراوانی ان کی عوامی زندگی کا پتہ دیتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل وہی شخص اس خوبی سے کاغذ پر اُتار سکتا ہے جس نے خود اس کی صعوبتیں برداشت کی ہوں۔ انور مسعود کی نظم ’’ جہلم دے پُل تے‘‘ میں کئی حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں۔ مثلاً: غربت بسوں اور لاریوں میں آوازیں لگانے پر مجبور کرتی ہے اور مسافر بھی اُسی طبقے سے ہونے کی وجہ سے ان لوگوں سے سستی اور مضر صحت اشیا خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ نظم بتاتی ہے کہ عام سی شے کو بڑھا چڑھا کر کیسے پیش کیا جاتا ہے؟ مسافر کس طرح انتظار کی کوفت برداشت کرتے ہیں ؟ اس نظم میں تین ہاکر اپنی اپنی اشیا کا تعارف کروا کر ان کی فروخت کا اہتمام کرتے ہیں۔ سب سے پہلے سرمے موالا آتا ہے، انور مسعود کا مشاہدہ سارے منظر کی تصویر کشی یوں کرتا ہے:

میرے وَلّوں سارے بھین بھائیاں نوں سلام ہووے

جاتکاں، بزرگاں تے مائیاں نوں سلام ہووے

لاری والا اجے کُجھ دیر کھلووے گا

سپّاں والا باوا تُساں سُنیاں تے ہووے گا

بچہ بچّہ اَج ایس باوے نوں سیہاندائے

سُرمہ میں ویچناں ہاں جگ سارا جاندائے

کدھرے نہ اَج ایس سُرمے دا جوڑ  اے

ست وِیہیاں بوٹیاں دا عرق تے نچوڑ  اے

دھُند ہووے، جالا ہووے، بھانویں ہون کُکرے

اکھّاں وچّوں پانی وگّے نالے اَکھّ رَڑکے

پیڑ مُک جاندی اے تے سوج  لَیہہ جاندی اے

اِکّو ای سلائی نال ٹھنڈ پے جاندی اے

ایویں میں قران دیاں قسماں نئیں چکدا

دِلوں جے مکائیے نہ تے وہم نئیں جے مکدا

ہور کیہ اے چُپ تہاڈی بھُل نئیں جے سجنو

چار آنے شیشی دا وی مُل نئیں جے سجنو

            آخر میں سُرمے والا ایسا حربہ استعمال کرتا ہے جس کو بسوں میں اشیا فروخت کرنے والے تقریباً سب ہاکر استعمال کرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی مسافردامِ صیاد میں گرفتار ہو جاتا ہے:

ڈیرے توں منگاؤ گے تے نرخ مال وکھرا

ڈاک دا کرایہ تے محصول نال وکھرا

کیہڑی سیٹ والیاں بزرگاں نے بُلایا جے

ہتھ وِچ پیسے رکھو آیا جے میں آیا جے

            اسی طرح یکے بعد دیگرے دانتوں کی دوا اور جنتری بیچنے والے ہاکرمسافروں کو اپنی اشیا کی قدروقیمت بتاتے ہیں۔ اس نظم میں انور مسعود کے اس مشاہدے کی داد دینا پڑتی ہے جس کی بدولت انھوں نے ایک مخصوص عوامی کلچر کو آبِ حیات پلا کر امر کر دیا۔

             ’’اَج کیہ پکائیے‘‘ کا انداز بھی مکالماتی ہے۔ اس میں دیہی علاقوں میں قائم قدیم پنچائتی سسٹم کو سامنے لایا گیا ہے جس میں مغلوب طبقہ غالب کی ہر بات کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ جب چودھری کسی سبزی کا نام لیتا ہے تو اس کا ملازم رحماں اس سبزی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی چودھری اسی سبزی میں کوئی نقص ظاہر کرتا ہے تو رحماں اس کی کئی بُرائیاں سامنے لاتا ہے۔ اس میں خوشامد کو نوکری کا جزوِ خاص بتایا گیا ہے کہ مالک کی ہاں میں ہاں ملانا ہی اصل نوکری ہے۔ اس کے باوجود مالک اپنے ملازم کو جھڑک دیتا ہے۔ انور مسعود نے اس نظم میں اسی ایک چھوٹی سی بات کو واقعہ نگاری کے رنگ میں ڈھال کر پنجابی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ نظم کا ایک بند درج ذیل ہے جس میں چودھری کریلے پکانے کی بات کرتا ہے تو رحماں کریلے کی تعریفیں شروع کر دیتا ہے:

            چودھری:          فیر کیہ خیال اے  تیرا  جھڑی  نہ  منا  لئیّے

                        جے  توں آکھیں  رحمیاں کریلے  نہ  پکا  لئیّے

            رحماں : رِیس اے کوئی چودھری جی آپ دے خیال دی

                        جمّی اے کوئی سبزی کریلیاں دے نال دی

                        ڈھڈ  وچ  اِنج  جویں  لو  لگ  پئی  اے

                        تُساں گل کیتی اے تے رال وگ پئی اے

                        سچ  پچھو  چودھری  جی  ایہو  میری راء اے

                        مینوں  وی  چروکنا کریلیاں دا چاء اے

                        چوہدری  جی  ہووے جے کریلا  چنگا  پلیا

                        وچ ہووے قیمہ اُتّے دھاگا ہووے ولیا

                        گنڈھیاں ٹماٹراں دے نال ہووے تُنیاں

                        فیر ہووے  گھر  دے  گھیو  وچ بھُنیاں

                        فیر کوئی چودھری  جی  اوس  دا  سواد  اے

                        پَر وی پکایا سی تُساں نوں وی تے  یاد  اے

            جب چودھری نے سبزی کے متعلق ملازم کی تعریفیں سنیں تو اس نے سبزی کے بارے میں یہ رائے دی کہ باقی سب باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن ان میں ذرا کڑواہٹ بھی تو ہوتی ہے۔ بس اتنا سننا تھا کہ رحماں نے ایک دم کریلوں کی خامیاں بیان کرنی شروع کر دیں جن کو انور مسعود نے انوکھے روپ میں پیش کیا ہے۔ چودھری اور رحماں کے درمیان مکالمے کی صورت میں دوسرا بند ملاحظہ ہو:

چودھری:          ہور بیبا ایہدی مینوں ہر گل بھاؤندی اے

                        رحمیاں کریلے وچ کَوڑ ذرا ہوندی اے

رحماں : دفع کرو زہر تے چریتا مینوں لگدائے

                        نِم تے دھریک دا بھرا مینوں لگدائے

                        پلے پلے دنداں تھلے جِیبھ پئی سُکدی

                        کھا مر لئیّے تے تریہہ نئیں مُک دی

                        تُمّے دیاں گولیاں کریلیاں توں پھکیاں

                        ایہناں نالوں چاہڑ لو کونین دیاں ٹکیاں

            یہاں صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ چودھری بالادست طبقے کی علامت ہے جبکہ رحماں اس بے رحم طبقے کے ہاتھوں کھلونا بننے والے مظلوم، لاچار اور نسل در نسل غلامی کی زندگی بسر کرنے والے کرداروں کا ایک روپ ہے۔ بالا دست عناصر، غربت اور مفلسی کے ہاتھوں ستائے ہوئے اس طبقے کو زندگی کی دلچسپیوں میں حصہ لینا تو دور کی بات، ایسی سوچ سوچنے کا متحمل بھی نہیں سمجھتے۔ خدائی صفات کو اپنی ذات میں مجتمع کرنے کے خواہش مند فرعونوں میں ہمارے ملک کے سیاستدان، جاگیر دار، سرمایہ دار اور ایسے تمام طبقات چودھری کے بھیس میں عامۃ الناس کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

            یہی چودھری پہلے بینگن کا نام لیتا ہے تو رحماں حسب عادت اس سبزی کی تعریفیں کرنے لگتا ہے لیکن چودھری تمام تعریفوں کو رد کرتے ہوئے بینگن کے گرم ہونے کا کہہ کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ رحماں بھی چودھری کا ساتھ دیتے ہوئے بینگن کے سالن کی کئی برائیاں بیان کر ڈالتا ہے اور خاص طور پر جب وہ ان کے کالا ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہماری تو امریکہ سے دوستی ہے اس لیے ہم کالوں کے ساتھ نہیں چل سکتے تو چودھری اس بات پر اسے بے ساختہ جھڑک دیتا ہے۔ چودھری کی اس جھڑک کے پیچھے وہ تمام تر عیاری و مکاری موجود ہے جو محکوم کی سوچ تک کو قید رکھ کر اسے ہمیشہ کے لیے ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ نظم کے آخری بند میں ’’چودھری‘‘ کے کہے ہوئے پہلے چار مصرعے توجہ طلب ہیں :

            وَدّھ وَدّھ بولنا ایں ایویں بڑبولیا

            سبزیاں تو جا تُوں سیاستاں نوں پھولیا

            دوجے دی وی سُن کُجھ دوجے نوں وی کہن دے

            حکومتاں دی گل تُوں حکومتاں تے رہن دے

            انور مسعود کی نظم ’’لَسّی تے چاء‘‘ میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کا تقابل کیا گیا ہے۔ لَسّی مشرقی تہذیب کی علامت ہے اورچائے مغربی تہذیب کی نمائندہ ہے۔ نظم میں دونوں علامات کو آپس میں دست و گریبان دکھایا گیا ہے۔ مشرقی علامت اپنی خوبیوں پر نازاں ہے اور مغربی علامت اپنے آپ کو بڑھ کر ثابت کرنے میں کوشاں ہے۔ لَسّی کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ وہ مقامی ہے۔ اس کا رنگ رُوپ سُچاہے اور اسے اپنے ماں باپ کی وجہ سے اصل پہچان حاصل ہے۔ یہاں مغرب کی اُس ماد ر پدر آزادی پر طنز کی گئی ہے جس میں بچوں کو اپنے ماں باپ تک کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں۔ لسّی اور چائے کی بحث وتکرار کے بعد نظم کے آخری بند میں ’’چائے‘‘ کے مغرب کی نشانی ہونے کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ لسّی اُس سے کہتی ہے:

سانبھی رَہو نی چینک بیگم ٹھپی رکھ وڈیائیاں

میں کیہہ دسّاں گھر گھر جیہڑیاں تُد چواتیاں لائیاں

گلاں کر دی تھکدی نئیں توں جیبھ نوں لا نی تالا

کھنڈ وی کوڑی کیتی آ تے دُدّھ وی کیتوئی کالا

بُہتی بُڑ بُڑ نہ کر بی بی نہ کر ایڈا دَھکا

تیرے جیہی کوچجی کوہجی میرے نال مُتکّا

میری چودھر چار چوفیرے تیری منتا تھوڑی

میں دیساں دی صوبے رانی توں پردیسن چھوری

دیس پرائے رانی خاں دی توں سالی بن بیٹھی

منگن آئی اَگّ تے آپوں گھر والی بن بیٹھی

رب کرے نی اِکو واری گھُٹ بھرے کوئی تیرا

تیرا وی انگریزاں وانگوں پٹیا جائے ڈیرا

            انور مسعود کی نظم’ امبڑی ‘ماں کی اُس بے لوث محبت کو آشکارا کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف ماں کو ودیعت کر کے اولاد پر احسانِ عظیم فرمایا ہے۔ ہر ظلم وستم سہ کر اپنے بچوں کو پروان چڑھانے کا جذبہ، اُن کی حفاظت اور نگہداشت ماں کے خمیر میں شامل ہے۔ یہ جذبہ انسانوں، جانوروں اور چرند پرند سب میں مشترک ہے۔ ننھی سی چڑیا کے بچے گھونسلے سے گر جائیں تو اُس کی پریشانی اور بے چینی ماں کے روپ میں اُمڈ کر سامنے آ جاتی ہے۔ انور مسعود نے ’امبڑی‘ میں ایک چھوٹے سے واقعہ کو بنیاد بنا کر لفظوں سے آنسوؤں کے دریا بہا دیے ہیں۔ واقعے کے مطابق مدرس طالبِ علم کے دیر سے آنے پر اُس کو سرزنش کرتا ہے:

ماسٹر:                اَج   بڑی   دیر  نال   آیا   ایں   بشیریا!

                        ایہہ تیرا پنڈ اے تے نال ای سکول اے

                        جائیں گا توں میرے کولوں ہڈیاں بھنا کے

                        آیا ایں توں اَج دونویں ٹلّیاں گھسا کے

             ’’بشیرا‘‘ نام کاطالبِ علم اپنے دیر سے آنے کی یہ وجہ بتا تا ہے کہ اُس کے پڑوسی طالبِ علم’اکرمے‘ کی ماں اُن کے گھر آ گئی تھی جس کو اکرمے نے بڑی بے دردی کے ساتھ مار مار کر اُس کے منہ پر زخموں کے نیل ڈال دیے تھے اور اُس کا ہاتھ بھی سُوجا ہوا تھا۔ مار دھاڑ کے شور سے جب محلے والے اکٹھے ہوئے تواکرما اپنی جان بچا کر گھر سے کھانا کھائے بغیرسکول کی جانب بھاگ آیا۔ اکرمے کی ماں کو احساس تھا کہ اُس کا نافرمان بیٹا گھر سے کھانا کھائے بغیر سکول گیا ہے لہٰذا وہ اس کے لیے کھانا لے کر آ گئی اور یہی باعثِ تاخیر تھا۔ انور مسعود کا رنگِ بیان دیکھیے:

بشیرا:                منشی جی میری اِک گل پہلاں سُن لو

                        اکرمے نے نھیر جیہا نھیر اَج پایا جے

                        مائی نوں ایہہ ماردائے تے بڑا ڈاہڈا ماردائے

                        اَج ایس بھیڑکے نے حد پئی مکائی اے

                        اوہنوں مار مار کے مدھانی بَھن سَٹّی سُو

                        بندے کٹھے ہوئے نیں تے اوتھوں بھج وگیائے

                        چُک کے کتاباں تے سکول ول نسّیائے

                        مائی ایہدی منشی جی گھر ساڈے آئی سی

                        مُونہہ اُتے نیل سن سُجا ہویا ہتھ سی

                        اَکھاں وچ اَتھرو تے بُلّاں وِچ رَت سی

                        کہن لگی سوہنیا، وے پُتر بشیریا

                        میرا اک کم وی توں کریں اَج ہیریا

                        روٹی میرے اکرمے دی لئی جا مَدرسے

                        اَج فیر ٹُر گیا اِی میرے نال رُس کے

                        گھیو وچ گُنھ کے پراؤنٹھے اوس پکے نیں

                        ریجھ نال رِنھیاں سُو آنڈیاں دا حلوہ

                        پونے وچ بنھ کے تے میرے ہتھ دِتی سُو

                        ایہو گل آکھدی سی مُڑ مُڑ منشی جی

                        چھیتی نال جائیں بیبیا، دیریاں نہ لائیں بیبیا

                        اوہدیاں تے لُوسدیاں ہون گِیاں آندراں

                        بھکھا بھانا اَج اوہ سکولے ٹُر گیا اے

                        روٹی اوہنے دتی اے میں بھجا لگا آیا جے

                        اکرمے نے نھیر جیہا نھیر اَج پایا جے

            نظم ’’اِک خواب‘‘ اپنے اندراُس عام پاکستانی کے ساتھ بیتنے والی وارداتوں کا تمام احوال سمیٹے ہوئے ہے جو پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں امیدوار اور سیاسی پارٹیاں اُن کے ساتھ کرتی ہیں۔ مملکتِ پاکستان میں ہر جگہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے خوشامد، چاپلوسی اور جی حضوری کا رواج پڑ چکا ہے۔ غریب ومفلس آدمی کے ذہن میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹیاں ہی بسی رہتی ہیں اورسیاسی مداری ان کی اس کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انھیں اچھا کھانا کھلا کر آسانی سے اپنا مطلب حاصل کر لیتے ہیں۔ غریب آدمی کی بھوک اُس کو جائز ناجائز کی بحث سے آزاد کر دیتی ہے اور صیاد کے دام میں پھنس جانے کے بعد وہ اُس کے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ عام آدمی کے پیٹ کی بھوک ختم ہونے کے باوجوداُس کی آنکھوں کی بھوک نہیں مٹتی اور اُس کا دل چاہتا ہے کہ سامنے موجود سب کچھ ہڑپ کر لیا جائے۔ شادی بیاہوں اور اس نوعیت کی اکثر تقریبات میں ایسے مناظر دکھائی دے جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں غریبوں کے خلاف بھوک کا یہی ہتھیار استعمال کر کے اُنھی پر حکمرانی کا حق باآسانی حاصل کر لیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں مثنوی کی ہیئت میں کہی گئی اس نظم ’’اک خواب‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

            ڈٹھی میں اک حُور مرے وَل پَیلاں پاندی آوے

            اِک نظر مستانی جس دی لکھ بھلیکھے پاوے

            حُسن، جمال تے رُوپ اوہدے دا کوئی نہ حد بنّاں

            اُس دیاں نازک ہتھاں دے وچ سونے دا اِک چھنّاں

            اوہ چھنّاں اُس آن کے میرے ہوٹھاں نال لگایا

            ہابڑ ہابڑ پین لگا میں ورہیاں دا ترہایا

            ٹھنڈا ٹھار پھلُودا سنگھوں لنگھدا جائے اَگّے

            دُدھ وراچھاں میریاں وچوں سجے کھبے وگّے

            اوہناں نے کجھ ہور سوغاتاں میرے لئی منگوائیاں

            قسماں قسم مربے، میوے، حلوے تے مٹھیائیاں

            مُڑ میں ایناں وگ تگ کھادا کُڑتا ڈھڈ نہ کجّے

            پاٹن ہاکا پیٹ، ندیدی اَکھ مری نہ رجّے

            میری ایہو نیت سی پئی کدی نہ ایتھوں ہلیے

            حُوراں آکھن آؤ جی ہُن سیر کرن نوں چلیے

            اِک تھاں مینوں شہد دی اوہناں وگدی نہر وکھائی

            جیویں جیویں ویکھاں ودھدی جائے اکھیاں دی رُشنائی

            کاراں اَ تے جہازاں والے بھُل گئے سب جھوٹے

            قوس قزح وچ بہا کے مینوں حوراں دتّے ہُوٹے

            ہر کوئی مینوں جی جی بولے آکھے راج دُلارا

            میرے نال پروہنیاں ورگا اوہناں دا وَرتارا

            سرہیوں جیھیاں سوہنیاں ناراں دِسن ہر ہر پاسے

            پتلے لک، بسنتی چُنیاں ہوٹھاں اُپر ہاسے

            میں پُچھیا نی حورو اَڑیو کاہنوں کھڑ کھڑ ہَسّو

            میری ایڈی خدمت خاطر، وچلی گل تے دَسّو

            آکھن لگیاں بیبا ایڈا پردہ کاہنوں پاناں

            جنت وچ الیکشن ہونائے ووٹ اسانوں پاناں

             ’’انار کلی دیاں شاناں ‘‘ میں ہمہ وقت لطیف طنز کی ایک ہلکی سی لہرسارے منظر پر حاوی رہتی ہے۔ اس میں نئی تہذیب اور دم توڑتی مشرقی روایات کو موضوعِ سخن بنا کر فکر کو فن پر مقدم کرنے کی سعیِ مسلسل ملتی ہے۔ منظر نگاری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک بازار(انار کلی) میں بھینس کے گھُس آنے پر اُس کو مخاطب کرتے ہوئے بازاروں کی ساری چکا چوند کو اِس نظم میں سمیٹ لیا ہے۔ انور مسعودانار کلی کو سامنے رکھ کر تمام بازاروں میں لوگوں کے ہجوم میں شریک خواتین و حضرات کے شرم و حیا سے عاری ہونے پر طنز کے تیروں کی برسات کر دیتے ہیں :

            اَلھڑ شِینہہ مٹیاراں والی چڑھتل کیہڑا جھلّے

            مونڈے نال پیا مونڈھا کھیہندائے وجّن پئے دَھر گھلّے

            اکھیّاں وچ نئیں شرم دا کَجلا مُونہواں تے نئیں پَلّے

            اُچّا اُچّا سارے ویکھن کوئی نہ ویکھے تھلّے

            نیویں نظر کوِیں کوئی رَکھے اُچیاں ہین دُکاناں

            توں کیہہ جانے بھولیئے مجھے نار کلی دیاں شاناں

             عریانی کی حدوں تک پہنچا ہوا بے حیائی سے بھرپور فیشن تہذیبِ جدید کی سب سے بڑی لعنت ہے جس پر بڑے فخر سے چل کر اسے بڑائی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ نظم کے ایک بند میں ان نام نہاد ’’مہذب‘‘ لوگوں کو ’’نویں بہار دے کیڑے ‘‘ کہہ کر اِن کا مضحکہ خیز حلیہ یوں بیان کرتے ہیں :

            چار چوفیرے ٹیڈی پھردے نویں بہار دے کیڑے

            چاہڑے ہوئے اُچھاڑاں وانگوں پاٹن ہاکے لیڑے

            وَکھیاں اُتوں کھُل کھُل جاون ٹِچ ٹِچ کر دے بِیڑے

            جیہڑا ویکھے جیبھ اپنی نوں دنداں ہیٹھ دبیڑے

            ڈاہڈیاں تنگ پوشاکاں دے وِچ پھاہتھیاں ہوئیاں جاناں

            توں کیہہ جانے بھولیئے مجھے نار کلی دیاں شاناں

            نظم کے آخری بند میں آج کی سب سے بڑی حقیقت مال و دولت کو قرار دیا گیا ہے، پُرانی قدریں ختم ہو چکی ہیں اور عزت و احترام کے لیے انسانی اوصاف کی جگہ روپے پیسے نے لے کر معاشرے کو مادیت پسند بنا کر اس کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں :

            آ وڑیاں ایں ڈنگر مالا توں اَج کیہڑے پاسے

            پیسے دے نی پُتر سارے ایس گلی دے واسے

            مہاتڑ ایتھے خالی آؤندے خالی کھڑدے کاسے

            پلّے جیکر پیسے ہوون ڈُلھ ڈُلھ پیندے ہاسے

            بہتیاں مینوں آؤندیاں کوئی نئیں اِکو گل مُکاناں

            توں کیہہ جانے بھولیئے مجھے نار کلی دیاں شاناں

            تندور دیہی خواتین کا چوپال ہوتا ہے، جہاں محلے کی عورتوں کو مل بیٹھنے اور دکھ سکھ کہنے سننے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں خواتین ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتی ہیں اور اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی ہے۔ نظم ’’تندور‘‘ میں دیہی زندگی کی چھوٹی چھوٹی تلخیوں کا تذکرہ ہے۔ اس نظم میں کردار نگاری کے اعلیٰ نمونے بکھرے پڑے ہیں۔ گاؤں کی عورتوں کے رُوپ میں شریفاں، شاداں، جیواں، خیراں، کریماں اوربی بی اپنا اپنا کرادر بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیتی ہیں۔ تندور میں روٹیاں لگانے والی خاتون غریب ہوتی ہے اورماسی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر جن خواتین سے کوئی رشتہ داری نہ ہو اُن کو خالہ یعنی ماسی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ شہروں میں یہ روایت دم توڑ چکی ہے اور گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو ماسی کہا جا رہا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر نظم ’’تندور‘‘ کی ماسی جیواں سب عورتوں کے طعنے اور گلے شکوے سُن کر کہتی ہے:

            حال دھُائی پا دیندی اے جیہڑی آن کھلوندی اے

            کَلّی کِسراں پُوری آواں ہر کوئی کاہلی آؤندی اے

            نِکیاں نِکیاں کڑیاں مینوں کھوہ کھوہ کھاون لگیاں نیں

            کل دیاں جمیاں میرے اُتے رعب جماون لگیاں نیں

            میرا دھّن کلیجہ اے اڑیو ہوندی نال جو میرے نی

            اَگے میرے اگّ دے لنبُو رولا چار چوفیرے نی

             عورتوں کی مردوں سے سنی جانے والی نامکمل معلومات سچے جھوٹے افسانوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کی داستان کے بعد تندور پر ’’خیراں ‘‘ اپنی معلومات پُراسرار لہجے میں دوسری عورتوں تک پہنچاتی ہے اور ساتھ انھیں نصیحت کرتی ہے کہ یہ سرکاری راز فاش نہ ہونے پائے۔ زبان و بیان کی خوبیوں سے معمور اس نظم کا آخری مکالمہ مغرب میں انسان سے زیادہ جانوروں کی قدر و قیمت پر طنز کرتا ہے:

            چھڈو نی گل مُنڈیاں والی مُنڈیاں لڑدیاں رہناں اے

            تُسی نہ ایتھے کرو لڑائی دونہہ گھڑیاں دا بہناں اے

            میں سنیائے نی چن دے اُتّے روس دے راکٹ جانا اے

            بندے نالوں پہلاں اوتھے کُتا اوس پُچانا اے

            اِنجے لگدائے دنیا دے دن ہو گئے نیں ہُن پُورے نی

            بندے رہن زمیں دے اُتّے چن تے جان کتورے نی

            گل نہ کریو کدھرے اڑیو گل وی ایہہ سرکاری اے

            لے  نی  ماسی  جیواں  پیڑا  ہُن  تے  میری  واری  اے

             حال، مصائب کی تپتی دوپہر بن جائے تو ماضی سکون و اطمینان کی ٹھنڈی چھاؤں بن کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ عہدِ حاضر کو سائنسی ترقی کے عروج کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ انور مسعود اس دور کے مسائل کا موازنہ ماضی کے مصائب سے کرتے ہوئے دونوں کا تقابل کرتے ہیں۔ اُن کو ماضی میں جو مسائل نظر آتے تھے اب یہ مصائب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’وَرہیاں دے پینڈے ‘‘ میں  گزرے وقتوں میں دورانِ سفر پیش آنے والی مشکلات دیکھیے:

            سوچناں واں پشلے زمانے دیاں گلاں نوں

            گھروں پیر کڈھناں کوئی سوکھی جیہی گل سی؟

            راہواں وی گھنیریاں ہنیریاں تے سُنجیاں

            شیر خورے کنیاں دا ڈھڈ پاڑ جاندے سن

            سپ خورے کِنیاں نوں ڈنگ مار جاندے سن

            تھائیں تھائیں ٹھگ سن، تھائیں تھائیں چور سن

            ٹھنڈ وچ لاہ لئے ڈاکوواں نے کپڑے

            خورے کنّے ٹرے سن خورے کِنّے اَپڑے

            قدیم دور کے اسفار میں حائل مشکلات کے بعد ترقی کے اس دور میں جہاں انسان نے چاند تک کا سفر ممکن بنا لیا ہے، اب کئی سہولتوں کے باوجود مسائل نے نئی شکل وصورت اختیار کر لی ہے۔ کبھی ڈاکو بسیں لوٹ لیتے ہیں۔ گاڑیاں آپس میں ٹکرا کر مسافروں کو ڈس لیتی ہیں۔ آئے روزسینکڑوں جوانیاں سڑکوں کے بیچ خون میں لت پت پڑی ہوتی ہیں اور دم توڑتے بے قصور بچوں کی کھلی آنکھیں اپنی موت پر حیران ہوتی ہیں :

اَج وی مسافراں دی اوہو ای برات اے

ڈاکوواں نوں کالی رات چودھویں دی رات اے

روز پئے سننے آں ایہو جیہیاں خبراں

فیر کوئی بس کسے بس نال بھڑ پئی

فیر کوئی گڈی کسے کار نال کھیہہ پئی

فیر کوئی لاری کسے کھڈ وچ ڈھے پئی

            نظم ’’دِینا‘‘ میں انسانوں کی مشکل وقت میں ایک دوسرے سے نظریں پھیرنے کی خصلت کا ذکر ملتا ہے۔ مشکلات میں پھنسے بیمار، لاچار اور غریب سے دور رہنے والوں کو اس بات کا ذرا احساس نہیں ہوتا کہ ایک دن اُن پر یہی مصیبتیں نازل ہوسکتی ہیں۔ ’’دِینا‘‘ نظم کا واحد کردار ہے۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے ہر وقت کھانستا رہتا ہے۔ دِینے کا پیشہ دکانداری ہے لیکن اُس کی بیماری کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص اُس سے کچھ خریدنا پسند نہیں کرتا۔ لوگوں کے ذہنوں میں وہم داخل ہو گیا ہے کہ ہم نے اس سے کوئی شے خریدی تو یہ بیماری ہمیں لاحق ہو جائے گی۔ درد مند دل رکھنے والا حساس شاعراُس کی کیفیت دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔ دِینے کی دکانداری بالکل ٹھنڈی ہے اور شاعر کو اُس کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے نظر آتے ہیں۔ محاورات کے زیور سے آراستہ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

ایہو کہن محلّے والے کدوں ایہہ مَغروں لہندائے

ایہہ سُوکھے دا ماریا ہویا کھونہہ کھونہہ کردا رہندائے

ایہہ اک تھکا ٹُٹا راہی ایہدی راہ وچ کنڈے

کیہڑا ایہدے بھار ونڈاوے کون ایہدے دکھ ونڈے

اوکھے ویلے نکھڑ جاندے سجّن یار نگینے

ایہہ اِک ایسی دنیا جِتھے گلی گلی وچ دینے

             ’’پِٹ سیاپا‘‘ ساس اور بہو کے روایتی لڑائی جھگڑوں کی داستان ہے۔ ساس کے مالک  و مختار ہونے کی خواہش بہو کے حکم چلانے میں رکاوٹ بنتی ہے اور یہاں سے اِن دونوں کرداروں کے مابین طویل سرد جنگ کا آغاز ہو تا ہے۔ یہ جنگ ساس کی موت یا بہو کی طلاق تک جاری رہ کر گھروں کی بربادی اور گھر والوں کی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ ساس کو بہو کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی خامی نظر آتی ہے اور بہو کو ساس کی کوئی بات گوارہ نہیں ہوتی۔ ادب و احترام اور شفقت و محبت کے جذبات اِن رشتوں کے درمیان کم کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ دیہاتوں میں اس طریق کا چلن عام ہے اور معمولی سے جھگڑے پر بہو اپنے میکے جا بیٹھتی ہے۔ یہ جھگڑے خاندانی دشمنی کی شکل اختیار کرتے دیر نہیں کرتے اور مستقل رقابت کئی فسادات کو اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ اِن جھگڑوں سے متاثر ہونے والی ذات اُس شخص کی ہوتی ہے جس کو ماں کا احترام لازم ہوتا ہے اور وہ بیوی سے روٹھنا بھی درست نہیں سمجھتا۔ سارے دن کی تھکن لیے جب مرد گھر میں قدم رکھتا ہے تو ماں اور بیوی کی آئے روز کی آہ و بکا اُسے ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔ انور مسعود نے یہاں بھی کردار نگاری کا کمال دکھاتے ہوئے چار کرداروں ساس، سسر، بہو اور بابو سے ساری نظم میں جان ڈال دی ہے۔ نظم کے آخری بند کی جھلک دیکھیے جو بہو کے رُوٹھ کر میکے جانے پر منتج ہوتا ہے:

میں ایس کُپتی سسو دے جھگڑے توں ڈاہڈی اکّی آں

نئیں مُڑدی گل ودھانے توں میں ترلے لَے لَے تھکی آں

کوئی چوبھاں کد تک جردا اے کوئی سُوہاں کد تک سہندا اے

مرا ایتھے ہون گزارا نئیں ایہہ ویہڑا وڈھن پیندا اے

ساہ سُکھ دا ایتھے آؤندا اے کسے وڈے نوں نہ نِکے نوں

میں ایہہ پئی پیکے جانی آں سانبھ اپنے سُرجن ٹِکے نوں

            نظم ’’ڈمّی‘‘ میں عام آدمی کے اُن جذبات اور خیالات کو سمویا گیا ہے جو بڑی بڑی دکانوں کے شوکیسوں میں نئے نئے کپڑوں، زیورات اور دیگر سامانِ آرایش سے لدی بے جان مورتیوں کو دیکھ کر اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اس کو دیکھنے والا غریب آدمی اپنے ساتھ اِس ’’ڈمّی‘‘ کا موازنہ کرتا ہے تو اُسے اپنے سے زیادہ ڈمی کی قدر و منزلت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ سوچتا ہے کہ:

                        کدی تے ڈولے چڑھدی میری کوئی ریجھ نمانی

                        تیرے وانگوں شوکیساں دا

                        میں وی واسی ہوندا

                        تیرے ورگی، کرماں والی

                        میں اِک ڈمّی ہوندا

            انور مسعود نے اپنی پنجابی نظموں میں ملکی سرحدوں کو عبور کر کے عالمی سامرج کے رویوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ نظم ’’وارداتریا‘‘ میں اُن طاقتوں پر قہر برسایا گیا ہے جو بغل میں چھری، منہ میں رام رام کا نعرہ لیے دوسروں کے امن وسکون کو برباد کر رہی ہیں۔ اس نظم کے چار بند ہیں۔ ایک بند بطور مثال پیش ہے:

            توڑ دا قانون نوں جھکدا نئیں، تھکدا نئیں

            اُس جیہا بے درد ہمسایہ وی ہو سکدا نئیں

            اپنے ہمسائے نوں جو کُٹی تے ٹُکی جا رہیائے

            داتری دے نال اِک تھہوڑا وی چُکی جا رہیائے

             ’’جمعہ بازار‘‘ جمعہ کے دن لگنے والے سستے بازاروں میں سب سے زیادہ مقبول تھا۔ اس روز عام تعطیل ہوا کرتی تھی اور ملک میں امن و امان تھا۔ لوگ خصوصی طور پر تیار ہو کر اشیا کی خریداری کے لیے جاتے تھے۔ یہ ایک میلے کا سماں پیش کرتا تھا۔ اس نظم میں خریداروں کی نفسیات، بازاروں میں فروخت ہونے والی لاتعداد اشیا اور بیچنے والوں کے حربوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ نظم کے سات بند ہیں اور جزئیات کے ساتھ جمعہ بازار کے ہر پہلو پر نظر ڈالی گئی ہے۔ نظم کے پانچویں بند میں تاجروں کا اندازِ دیانت دیکھیے:

            نویں نرالی جاپی جس نے جو آواز لگائی

            کہے ملوکاں والا بھائی کشمش وِکنے آئی

            مونگ پھلی نوں آکھے کوئی پستے دی بھرجائی

            گنے ویچن والا کُوکے لُٹی گئی مٹھیائی

            برفی دی آواز سُنی تے شکر پارے ویکھے

            کیسے کیسے عجب نظارے جمعہ بزارے ویکھے

            ہر شاعر اپنے کلام میں اپنی دھرتی سے محبت پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ انور مسعود نے اردو کی طرح پنجابی میں پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ یہ اظہار نظم اور غزل دونوں میں موجود ہے۔ نظموں میں ’’یومِ آزادی، نئیں ریساں پاکستان دیاں ‘‘ اور ’’۱۴ اگست‘‘ شامل ہیں۔ ’’یومِ آزادی‘‘ اور ’’۱۴ اگست‘‘ خاص مواقع کے لیے لکھی گئیں۔ ’’نئیں ریساں پاکستان دیاں ‘‘ انعام یافتہ نظم ہے اور اس کا ہر ہر لفظ شاعر کی اپنی مٹی سے محبت کا گواہ ہے۔

             ’’بدّل، ہالیا، اخبار، رِیجھاں، حال اوئے پاہریا، وگوچہ، رکشے والا، اَوَازار، گل وچوں گل نکلی، سُک شُک جانائیں، زرعی بجھارتاں، ایتھے خورے کیہ ہونائے، پپو یار تنگ نہ کر جیسی نظمیں انور مسعود کی اُس حکمت کی عکاس ہیں جس میں وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص ہی نہیں کرتے بلکہ علاج بھی تجویز کر دیتے ہیں۔ یہ نظمیں وقت کے سمندر میں بہہ جانے والے دورِ جدید کے سستے جذبات سے کوسوں دور ہونے کی بدولت ہر عہد میں زندہ رہنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔

               ii۔ انور مسعود کی پنجابی غزل

            انور مسعود کی پنجابی غزل میں کلاسیکی روایت کے حسن و عشق کی چاشنی، تصوف کی سرمستی، جدید دور کے معاشرتی حقائق کی گہما گہمی اور عالمی مسائل کے عفریت کے ساتھ وہ سب کچھ موجود ہے جس کا تقاضا آج کیا جا رہا ہے۔ تیسری دنیا کے عوام کو درپیش بھوک، ننگ، بے انصافی اور ناقدری پر بے باک لہجہ میں بیان انور مسعود کی وہ خصوصیت ہے جس نے انھیں اہم شعرا میں نمایاں مقام عطا کیا ہے۔ فنی لحاظ سے انھوں نے غزل کو اس کا قدیم اور نرم و نازک لہجہ واپس کیا ہے اور اتنی مانوس زبان استعمال کی ہے کہ کہیں بھی تصنع اور گرانی کا احساس تک نہیں ہوتا۔

            انور مسعود کے پہلے پنجابی شعری مجموعے ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ میں غزل کے صرف چار اشعار ہیں۔ اِن چاروں اشعار میں الگ الگ مفہوم پنہاں ہے۔ ’’جپنی، اپنی، تھپنی، سپنی، ٹپنی‘‘ ان اشعار کے قافیے ہیں اور انتہائی مختصر ردیف ’’اے‘‘ (ہے)استعمال کی گئی ہے۔ پہلے شعر میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر شخص کو اپنے دکھ درد خود سہنے پڑتے ہیں۔ بے شک پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہوں لیکن مصائب کا سامنا انسان کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے شعر میں بندوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی جانب اشارہ ہے۔ جس طرح ماں کو اپنے سب بچے عزیز ہوتے ہیں اور وہ کسی کو اُٹھا کر پیار سے چومتی ہے تو کسی کو اُس کی بھلائی کے لیے تھپڑ رسید کر دیتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کی وجہ سے کسی کو دنیا میں سب کچھ عنایت کر دیتا ہے تو کسی کو دکھ درد دے کر اُس کے صبر اور ہمت کا امتحان لیتا ہے۔ تیسرا شعر وقت کی طرف سے ملنے والے اُس خوف کو سامنے لاتا ہے جو گھر گھر پایا جاتا ہے۔ چوتھے شعر میں بچپن کی اُس بے پرواہی وبے فکری کویاد کیا گیا ہے جس میں انسان تمام غموں سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ نادان لڑکیاں اور لڑکے بالے اپنے کھیل کے لیے بڑے نقصان کو کچھ نہیں سمجھتے۔ انھوں نے چارپائی کی ادوائن نکال کر رسیّ ضرور پھلانگنی ہوتی ہے، بے شک چارپائی بیٹھنے کے قابل نہ رہے۔ پہلا اور چوتھا شعر ملاحظہ کریں :

سب نے اپنی ہنجو مالا کلم کلیاں جپنی اے

کندھاں بھانویں سانجھیاں ہوون پیڑ تے آپواپنی اے

بچپن مُڑ مُڑ چیتے آوندا اے دَور کوَلیاں اَڑیاں دا

منجی پئی پے دونی ہووے بالاں رسّی ٹپنی اے

             ’’ہُن کیہ کریے؟‘‘ غزل کے اعتبار سے ثروت مند شعری مجموعہ ہے۔ اس میں پیش کی گئی پہلی نعت میں غزل کی ہیئت اپنائی گئی ہے اور دیگر غزلیات کی تعداد پندرہ ہے۔ جن چار اشعار کا تذکرہ ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ کے حوالے سے کیا گیا ہے اُن کے ساتھ مزید تین اشعار کا اضافہ کر کے مکمل غزل ’’ہُن کیہ کریے؟‘‘ میں شامل ہے۔ اِ ن تین اضافی اشعار میں ’’چَپنی، ٹھپنی، تپنی‘‘ کے الفاظ بطور قافیہ برتے گئے ہیں۔ ایک شعر میں افرادِ خانہ کے رکھ رکھاؤ کا اندازہ لگانے کے لیے کہتے ہیں کہ بیٹھک کے قیمتی پردوں کو دیکھنے کے بجائے باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیا سے لوگوں کی سلیقہ مندی کو جانچنا چاہیے۔ اسی مضمون پر احمد ندیم قاسمی نے ’’گھر سے گھر تک‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ تخلیق کیا تھا اور انور مسعود نے پورے افسانے کو دو مصرعوں میں قید کر کے ایجاز و اختصار کا اعجاز دکھایا ہے:

بیٹھک دے نہ پردے ویکھیں، ویکھ بورچی خانے نوں

کیہڑی ہانڈی اُتّے چھونائے کیہڑے گھڑے تے چپنی اے

            انور مسعود کی پنجابی غزل کا مختصر جائزہ درج ذیل عنوانات کے تحت پیش کیا جاتا ہے:

۱۔      اخلاقیات و تصوّف

            پنجابی شاعری میں تصوف کا رجحان کافی پُرانا اور پُختہ ہے۔ بڑے بڑے پنجابی شعرا اپنے وقت کے درویشوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انور مسعود نے تصوف کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس موضوع کو اپنی غزل میں نمایاں مقام دیا ہے۔ کسی ذی رُوح نے دنیا میں مستقل قیام نہیں کرنا، جو یہاں آیا اُس نے ایک دِن جانا ہے۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ کو درج ذیل شعر میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے:

پکیاں پا کے بہہ نئیں رہنا اِس باگے وچ لوکاں نے

جس نے آن وچھائی ایتھے اوڑک چادر ٹھپنی اے

            ایک ولّی کی طرح اپنے آپ سے خطاب کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ قیامت کے دن کو بھولنا مت، جب زمین گرمی سے تانبے کی طرح سُرخ ہو جائے گی۔ اُس دن وہی شخص اس گرمی کو برداشت کرے گا جس نے دنیا میں نیک اعمال کی ٹھنڈک حاصل کی ہو گی۔ مقطعے کے پہلے مصرع میں ’’ٹھنڈ‘‘ اوردوسرے میں ’’تپنی‘‘ نے صنعتِ تضاد کو جنم دیا ہے اور ’’اِک دن دھرتی تانبے وانگوں تپنی اے‘‘ اُس واقعے کو سامنے لے آتی ہے جو قیامت کے دن ظہور پذیر ہو گا۔ غزل کا مقطع دیکھیے:

انور پلّے پائیں اپنے ٹھنڈ سیانیاں عملاں دی

بھل نہ جائیں اک دن دھرتی تانبے وانگوں تپنی اے

            انسان کی پیدائش سے موت تک کا سفرہزاروں خواہشوں، مجبوریوں، محرومیوں، ظلم وستم، بے انصافی، حق تلفی، قتل و غارت، دوستی و دشمنی، مال و دولت کی ہوس وغیرہ پر محیط ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ قناعت اور صبر کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ صوفیا اور درویشوں میں دنیا کے حصول کی خواہش نہیں ہوتی۔ انور مسعود انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ وہ جب پیدا ہوتا ہے تو لباس سے بے نیاز ہوتا ہے۔ جب اُس کی موت آتی ہے اور اُسے دفنایا جاتا ہے تو اس کے تن پر صرف ایک کفن ہوتا ہے۔ یعنی انسان سالوں تک دنیا کمانے کے باوجود ایک کفن ہی حاصل کر پاتا ہے۔ اُس کی تمام مشقتیں رائیگاں جاتی ہیں اور اعمال کی گٹھڑی کے علاوہ اس کا سرمایہ کچھ نہیں ہوتا۔ انور مسعود کی یہ سوچ اُن کی صوفیانہ فکر کی عکاس ہے:

 ملکِ عدم توں ننگے پنڈے آؤندائے ایس جہانے

 بندہ اِک کفن دی خاطر کنا پینڈا کردائے

            درج ذیل شعر میں تصوف کا ایک اور نظریہ بیان کرتے ہیں جس کے مطابق انسان اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ جو کچھ کرتا ہے، اُس کے نصیبوں میں پہلے سے لکھا جا چکا ہے:

بخت مرے دی تختی اُتّے لکھو تُسی جو چاہو

میں کیہڑا میں کون کسے وی حرف تے انگلی رکھاں

            بیر کا درخت پھلدار ہوتا ہے اور اس کو زیادہ تر علامت کے طور پر برتا جاتا ہے۔ دنیا میں نیک کام کرنے والوں پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا ایک روایت ہے۔ انور مسعود نے یہاں یہ بیان کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اُن کا حشر اُس پھلدار بیری کے درخت سا ہوتا ہے جس کو پتھر مار مار کر اُس کے پھل اور پتے دونوں سے اُسے محروم کر دیا جاتا ہے:

بیری اُتے بیر نہ پتر بیری ہیٹھاں وٹّے

نیکی دا پھل پاون والے ویکھے ایسے حالے

            گھروں محلوں میں پڑوسی ایک دوسرے کوسالن وغیرہ بھجواتے تھے تو دوسرا پڑوسی برتن کو خالی نہیں لوٹاتا تھا بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ ڈال کر واپس کرتا تھا۔ اگرچہ یہ روایت قصۂ پارینہ بن چکی ہے لیکن انور مسعود اس مثال کو تصوف کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسم و جان عطا کی ہے۔ انسان اس عطا سے لاکھوں فوائد پاتا ہے۔ انور مسعود کے بقول اس نعمت کی واپسی کے وقت اعمال کے بغیر اس کو لوٹانا اچھی بات نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں حشر کے دن اگر اور کچھ نہیں تو میں جسم کے اس برتن کو آنسوؤں سے بھر کر پیش کر دوں گا:

حشر دیہاڑے اکھیاں وچ میں بھر کے لے گیا ہنجو

کوہجی گل سی خالم خالی بھانڈے دا پرتاؤنا

۲۔     درد و غم کی لہریں

            انور مسعود کی غزل میں درد کی لَے بڑی روانی سے چلتی ہے۔ یہ درد انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ تشبیہات اور علامات کی کثرت، درد کی مختلف صورتوں میں ڈھل کر اشعار کی تاثیر کو بڑھانے میں معاونت کرتی ہیں۔ مثلاً:

            اُکا ساڈا حال نہ جانن گلیوں لنگھن والے

            چھتاں وچ جے ہون تریڑاں وگدے نئیں پرنالے

            آوے کوئی اوس حویلی چونا گاچی پھیرے

            جس دیاں کندھاں دے نال لمکن گز گز لمے جالے

            انور ایویں چھوہیائے اپنا قصہ درداں والا

            نیندر سب نوں مٹھی لگدی کون ہنگارا بھردائے

            زمانہ انور مسعود کو مزاحیہ شاعر کے طور پر جانتا ہے۔ ان کی طرزِ ادا سے لوگ انھیں خوش وخرم اور ہمیشہ ہنستا مسکراتا شخص سمجھتے ہیں۔ انور مسعود اپنے دل کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے یہ روپ دھارے ہوئے ہیں۔ انھیں ہر اُس درد کا بھرپور احساس ہے جو اُن کے ہم وطنوں کو بے اماں کیے ہوئے ہے۔ وہ کاسۂ گدائی ہاتھ میں لے کر دستِ سوال دراز کرنے والے بھکاری کی مجبوریوں سے بھی آگاہ ہیں جس کے کشکول  میں ہزاروں محرومیاں چھپی ہیں اور اُن منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندیوں کا اعجاز بھی ملاحظہ کرتے ہیں جو روٹی کے لیے ترسنے والوں کو کیک کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ عوام کے ساتھ مقتدر حلقوں کو نوشتۂ دیوار پڑھاتے ہوئے اُن کی ناسمجھی پر کُڑھتے بھی ہیں :

میں رہیا انور سدا زخماں تے پردے تاندا

لوک بھلیں پے گئے بُلھاں تے ہاسا ویکھ کے

اکلاپے دی بھٹھی سڑنا بخت نصیبہ ساڈا

ایتھے سارے رونق میلے ہین شریکاں جوگے

رونق پچھوں ہونی اے کُجھ گوہڑی ہور اداسی

میلے نے کُجھ ہور وی کلیاں لوکاں نُوں کر جانائیں

۳۔    جبرواستحصال

            پاکستان میں بالادست طبقے نے اپنے جبرواستحصال سے غریبوں کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔ سیاسی و معاشی نظام پر جاگیرداروسرمایہ دار قابض ہیں اور عام آدمی کے لیے جینا ایک ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ وہ بہت مشکل سے گزربسر کر رہا ہے اور اس کا معیارِ زندگی پست سے پست ترین سطح تک آ چکا ہے۔ ان کا جائز کام رشوت وسفارش کی نظر ہو جاتا ہے اور وہ فریاد کے لیے منصف تک کے پاس جانے سے عاجز ہے۔ پیسوں کے عوض ملنے والا انصاف ان لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ غریبوں اور مظلوموں کے یہی درد سناتے ہوئے انور مسعود کے الفاظ دکھ اور کرب میں ڈوب جاتے ہیں :

انور میری عرضی اُتّے کسے نہ گھگھی پائی

اپنے اپنے کم کڈھا گئے لمیاں بانہواں والے

ایسے ڈر توں گنگیاں ہوئیاں خورے کنیاں چیکاں

کون کچہری پھیرے پائے بھگتے کون تریکاں

جھلیا نریاں چیکاں لے کے ضلع کچہری چلیائیں

پیسے وی کُجھ تیرے پلے ہین وکیلاں جوگے

ساری بدرنگی مری تے رنگ سارا اوس دا

ایسی اٹکل نال ظالم تاش ورتاندا رہیا

            مظلوم اور پسے ہوئے لوگ ہوں یا ملک، انور مسعود کے ہاں دونوں کے مسائل یکجا ہو جاتے ہیں۔ غریب لوگوں پر امیر ہمسایے جبکہ مفلس ممالک پر طاقتور ملک حاوی ہو جاتے ہیں :

سچی گل اے اوہو تگڑا ہتھ جدھے وچ ڈانگ

گھر والے سب کلم کلے چور تے لاٹھی دو

ملک ہوون یا محلے ماڑیاں کیہ جیونا

شیر ہو جاندے نیں ہمسائے وی لِسا ویکھ کے

جِند ترہائی مر جانی اے اِنج لگدا اے مینوں

ایتھے سارے شربت حاضر جِسماں جُثیاں جوگے

۴۔     عشق و محبت

            انور مسعود کی پنجابی شاعری میں روایت کے مطابق عشق و محبت کی جھلکیاں موجود ہیں۔ انھوں نے محبت کے مختلف پہلوؤں کو کلاسیکی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ دل، غزالی آنکھیں، ناگن زلفیں، چاند سامکھڑا، سروقد، ہرنی جیسی چال، تما م لوازماتِ عشق ہیں۔ انور مسعود نے ان لوازمات عشق کو اپنے تخئیل سے مجسم صورت عطا کی ہے لیکن یہ سب محبوب کے نقش و نگار کی محض سرسری جھلک ہے :

کہن دے زُلفاں دا قصہ کہن دے

بہن دے کُجھ دیر چھانویں بہن دے

دل نے ہتھوں جاونا سی ٹُر گیائے

رہن دے انور دلیلاں رہن دے

سوہنی صورت والا کوئی گیا اے کول کھلو

سڑک دی اے نی رتیے بتیے کدی نہ ساوی ہو

ہووے پئی تقصیر کسے دی، دُکھ پیا کوئی جردائے

بھل چک ہوندی اکھیاں کولوں، دل جرمانے بھردائے

۵۔     مایوسی اور رجائیت

            امید اور نا امیدی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انسان کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آتے ہیں جب وہ اپنی لامحدود خواہشات کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔ یہ لمحات اُسے مایوسی کی تاریکیوں میں لے جاتے ہیں اور ناکامی کا احساس حاوی ہو کر اُس کو زندگی کی دلچسپیوں سے دور کر دیتا ہے۔

پہلی دے چن وانگوں ساڈا سکھنا ہے کشکول

بول مراداں والیا تاریا کتھے تیری لو

            رجائیت انسان میں حوصلہ اور قوت پیدا کر کے اُسے معاملاتِ زیست میں روشنی کی شمعیں دکھاتی ہے۔ ایک پُر عزم انسان رجائیت کے بل بوتے پر کئی ناممکنات کو ممکن بنا دیتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں میں امید کی کرنوں سے جگمگاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ زندگی سے رجائیت کا خاتمہ ہو جائے تو اس کی ساری رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ ہمارے گرد و پیش ہونے والی حرکات، تیزیاں، فتح کا احساس، سہولیات میں آئے روز اضافے اور ایک دوسرے سے نمایاں ہونے کی کوششیں وغیرہ رجائیت کی چند مثالیں ہیں۔ انورمسعود جہدِ مسلسل پر یقین رکھنے والا شاعر ہے۔ انھوں نے خود زندگی میں جو بلند مرتبہ حاصل کیا اُس کے پیچھے اُن کی انتھک محنت اور کبھی مایوس نہ ہونے کا جذبہ کارفرما ہے۔ وہ دوسروں کو میدانِ عمل میں اُترنے کی تلقین کرتے ہیں :

کنڈھیاں تے کیوں ڈر ڈر مریئے، رہیے ڈانواں ڈول

بیڑی وچ سمندر سٹّی جو ہوندائے سو ہو

رنگلے رنگلے ریجھ پٹولے آپوں دل وچ جوڑاں

بالک نوں پیا جھڑکاں دیواں ہتھوں چھڈ کھڈاؤنا

۶۔     معاشرتی خود غرضی پر طنز

            اہلِ مغرب کے رہنے سہنے کے بیسیوں رواج ہمارے سوشل تصورات کے یکسر خلاف ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کی ہر بات بُری ہے بلکہ بہت سی باتیں اپنائے جانے کے قابل ہیں جن کو ہم نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی مخالفت کا سب سے بڑا سبب اُس کا انسان پر زیادہ اعتقاد نہ ہونا ہے۔ اُن کی دولت، صنعت اور ایجادات وغیرہ تو ترقی کر رہی ہیں لیکن اس ساری ترقی کے ساتھ اُن کے معاشرے کا انسان سکون و اطمینان جیسی گراں مایہ نعمت سے محروم ہو رہا ہے۔

            انور مسعود مغربی تہذیب کے دھارے میں بہنے والوں کی خود غرضی کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں جس میں پڑوسی کو اپنے ہمسایے تک کی خبر نہیں ہوتی۔ لوگوں کے سمندر میں ہر شخص اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اور مادیت پرستی کے زور پکڑتے رجحان نے لوگوں سے انسانیت تک چھین لی ہے:

خبر کوئی اخباراں وچ نئیں اُس دے بارے ویکھی

نئیں معلوم گوانڈھی میرا جیوندائے یا مردائے

صرف اکلاپا نظر آیا اے شیشہ ویکھ کے

میں وی چنگا پرتیاں ڈیرے تے میلہ ویکھ کے

اُچیاں کندھاں سُنن نہ دیون اِک دوجے دے ہاڑے

محل اُسارے تے کیہ کھٹیا شہر دیاں وسنیکاں

ایس زمانے ورگا کوئی کال سماں نئیں سُنیا

ٹاویں ٹاویں وی نئیں لبھدے لوک مثالاں جوگے

            انور مسعود کی پنجابی شاعری کے انتہائی مختصر جائزے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے صاف گوئی، خوش بیانی اور فنی مہارت سے عوامی جذبوں کو زبان دے کر پنجابی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔

٭٭٭

               حوالہ جات

۱۔          فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، ، اردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ، ، لاہور، الوقار  پبلی کیشنز، ۳۳۵۔ کے ٹو،

            واپڈا ٹاؤن، ۲۰۰۷ء، ص۲۸۱,۲۸۲

۲۔        ایضاً، ص۲۸۱

۳۔        طیب منیر، انور مسعود کی قطعہ کلامی، دبئی، مجلہ مشاعرہ زندہ دلاں با اعزاز انور مسعود، منتظم: ڈاکٹر اظہر زیدی،   ۱۹۹۴ء، ص۷۴

۴۔         فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ، ، ص۲۸۰

۵۔        خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر، اکبر الٰہ آبادی:تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، چوک اردو بازار،     ۱۹۸۶ء، ص۲۵۳، ۲۵۴

۶۔        ایضاً۔ ص۲۵۲

۷۔        ایضاً۔ ص۲۵۷

۸۔        مسعودمفتی، مجلہ مشاعرہ زندہ دلاں با اعزاز انور مسعود، ص۴۴

۹۔         طاہرہ نیر، ڈاکٹر، اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار، ص۳۷۹

۱۰۔       ایضاً۔ ص۱۶

۱۱۔        اداریہ، روزنامہ ایکسپریس، اسلام آباد، ۲۷ فروری ۲۰۰۹ء

۱۲۔       عبدالمومن الفاروقی، مقدمہ ’’کلیاتِ نظیر‘‘ نظیر اکبر آبادی، لاہور نمبر ۲۵، مکتبہ شعرو ادب، سمن آباد،   بارھواں ایڈیشن، ۱۹۸۶ء، ص۳

۱۳۔       ایضاً، ص۷۰، ۷۱

۱۴۔       ایضاً، ص۴۵

۱۵۔       ایضاً، ص۴۰

۱۶۔       ایضاً، ص۸۰

۱۷۔      جمیل جالبی، ڈاکٹر، تاریخِ ادب اردو، جلد سوم، لاہور، مجلس ترقیِ ادب، طبع اول جون ۲۰۰۶ء، ص ۱۰۰۷

۱۸۔       عبدالمومن الفاروقی، مقدمہ ’’کلیاتِ نظیر‘‘ نظیر اکبر آبادی، ص۵۰

۱۹۔       ایضاً، ص۷۴

۲۰۔      ایضاً، ص۹۵

۲۳۔      خط انور مسعود بنام راقم، بتاریخ ۲۹ اپریل ۲۰۰۸ء

۲۴۔      خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر، اکبر الہٰ آبادی:تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، ص۷۴، ۷۵

۲۵۔      ایضاً، ص۱۱۸۔ ۱۱۹

۲۶۔      مائی ٹیلنٹڈ کزن، افضل اعزاز، ڈاکٹر، مشاعرہ زندہ دلاں با اعزاز انورمسعود، ص۶۵

۲۷۔     امجد اسلام امجد، مشاعرہ زندہ دلاں با اعزاز انورمسعود، ص۴۹

٭٭٭

 

انورمسعود (شخصیت و شاعری )

               محمد شعیب خان

               حصہ دوم

 باب سوم: انور مسعود کی سنجیدہ شاعری

انور مسعود کی سنجیدہ شاعری

            انور مسعود کے شعری سفر کا  آغاز ان کی سنجیدہ شاعری سے ہوا۔ بدقسمتی سے سنجیدہ شاعری کے میدان میں اُن کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا، جو انھیں مزاحیہ شاعری نے بخشا۔ جب ان کی سنجیدہ شاعری کا آغاز ہوا تو اس جہانِ سخن میں فیض و فراز اور ناصر و منیر کے فن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ندیم، حفیظ، احسان دانش، مجید امجدجیسے شعرا اپنی اپنی طرز میں سحر پھونک رہے تھے۔ ان شعرا کی موجودگی میں سنجیدہ شاعری میں نام پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ انور مسعود کی دانائی اور عقلمندی کا اعتراف ان کے بہت سے معاصرین اور دوست احباب کرتے ہیں۔ اسی دانائی نے ان کو ابتدا ہی میں یہ باور کرا دیا تھا کہ سنجیدہ شاعری میں نام پیدا کرنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے علاوہ ان کا مزاج عام سنجیدگی سے ہٹ کر گہری سنجیدگی کی جانب مائل تھا اور یہ گہری سنجیدگی صرف طنزو مزاح کے پردے میں پیش کی جا سکتی ہے۔ عام سنجیدہ شاعری کے حوالے سے اگر انور مسعود کی شاعری پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کے دو تین اشعار کے علاوہ کوئی ایسا شعر دکھائی نہیں دیتا جس نے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہو۔ یہاں یہ کہنا ہر گز مقصود نہیں کہ ان کی سنجیدہ شاعری شہرت کے قابل نہیں ہے بلکہ طنزو مزاح نے ان کی سنجیدہ شاعری کو سامنے آنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اگر ان کی سنجیدہ غزلیں و نظمیں عوام تک پہنچ پائیں تو یقیناً ان کو پذیرائی مل سکتی ہے۔

               انور مسعود کی سنجیدہ غزل

اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف غزل ہے۔ اردو کا زیادہ شعری سرمایہ اسی صنفِ سخن میں اپنی بہاریں دکھا رہا ہے اور مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد دورِ حاضر تک آتے آتے اس کے کئی نئے اُفق فنی نکھار اور معنوی وسعتوں کے ساتھ دنیائے شاعری میں جلوہ گر ہو چکے ہیں۔ غزل نے زمانوں کے سرد وگرم میں بھی اپنی تغیر پذیری اور لچک کی بدولت اپنے وجود کو مختلف اداؤں سے قائم رکھا ہے۔ مختلف تحریکوں اور شعرا کے مزاج، زبان اور خارجی و داخلی اختلافات نے غزل کو اپنے اپنے قالب میں ڈھالنے کی سعی کر کے اس کو ہر طرح کے مصائب سے نبرد آزمائی کے قابل بنا دیا ہے۔

              انور مسعودکا سنجیدہ شاعری میں دیگر اصناف کی نسبتغزل کی جانب زیادہ جھکاؤ ہے۔ ان کی نصف سے زیادہ سنجیدہ شاعری اسی صنف میں پروان چڑھی ہے۔ ان کی سنجیدہ شاعری کی جانب اب تک کسی نقاد نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ بہر حال جب ہم انور مسعود کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں کلاسیکیت، رومانیت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ اس میں روایت کی چاشنی، جدیدیت کی فکر، موضوعات کا تنوع، قافیہ و ردیف کی جدّت اور صنائع کی فنکارانہ آرایش کے ساتھ فنّی جمال کی جھلک ملتی ہے۔ انور مسعود نے غزل کی زبان کو عوام کی زبان سے قریب تر رکھنے کی شعوری کوشش تو کی ہے لیکن اسے بے مزہ اور غیر شاعرانہ نہیں ہونے دیا کہ اس سے لذتِ سخن چھن جائے۔ انور مسعود کا اپنا کہنا ہے کہ:

 ’’میرا مسلک یہ ہے کی حرفِ سادہ کو گرہ دار بنانے سے حتی الامکان گریز کیا جائے لیکن اس طرح نہیں کہ شاعر آرائشِ عروسِ سخن سے بے گانہ ہو جائے۔ فنی پیش کش میں جمال آفرینی تو پہلی شرط ہے۔ ‘‘ [۱]

            پاکستانی عہد کے شعرا کی غزل میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اردو شاعری کی روایت کا حصہ ہیں۔ لیکن ہر عہد کا تخلیق کار اپنے عہد سے توانائی ضرور حاصل کرتا ہے اور اس کی تخلیقات میں اس کے گرد و پیش کی اجتماعی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ انور مسعود کی شاعری بالخصوص غزل اپنے عہد کے اہم رجحانات اور تحریکات کی آئینہ دار ہے۔ ان کا تخلیقی کرب انسان کی اس بے توقیری اور محرومیوں سے جنم لیتا ہے جو تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے لوگوں کا مقدر ہیں۔ انسانی قدروں کی پامالی، درماندہ اور شکستہ دل انسانوں کا دکھ، وطن کو درپیش آمریت کا جبرو استبدادوغیرہ مل کر ان کے لہجے میں ایک منفرد جلال اور طنطنہ پیدا کر دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب عشق و محبت کی دلگداز راہیں اور خوابناک تجربات رومانوی چلن کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔  انور مسعود کی غزل کے بارے میں سیّد ضمیر جعفری کہتے ہیں :

 ’’انور مسعود نے اپنے سفرِ سخن کا آغاز غزل سے کیا تھا اور آج کے عصری ادب میں اُس کی غزل اپنے مخصوص لہجے اور معنوی فضا کے لحاظ سے الگ پہچانی جاتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی غزل کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر غزل کی زمین پر اُس کے قدم مضبوطی سے نہ جمے ہوتے تو مزاح کی زمین اس کے قدموں تلے آنے ہی نہ پاتی۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲]

            اسی حوالے سے انور مسعود کی غزل کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں جن میں اِس عہد کے کئی نامور شعرا سے زیادہ نہیں تو کم از کم ان کے اشعار کے برابر شہرت حاصل کرنے کی قوت موجود ہے:

زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو

زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں

یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر

برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا

دل کو کھینچے ہے یہ دو رنگ رویہّ اس کا

سامنے آنکھ چرائے، مجھے چھپ کر دیکھے

کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا

کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا

اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے انور

پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے

سازشی ہے یہ زمانہ کتنا

پاؤں پڑتا ہے تو سر مانگتا ہے

حسنِ نیت  نہ میسّر ہو تو انور صاحب

ہے خطر ناک بہت ذہنِ رسا کا  ہونا

            ایسے ہی کئی اشعار انور مسعود کی سنجیدہ شاعری میں صداقتوں کا علم بلند کیے تشریح و توجہ کے طالب ہیں۔

               انور مسعود کی سنجیدہ نظم

            عہدِ حاضر کی نظمِ جدید کو عام طور پرچار اقسام میں برتا جا رہا ہے جن میں پابند نظم، آزاد نظم، سانیٹ اور نظمِ معریٰ شامل ہیں۔ پابند نظم میں قافیہ و ردیف اور بحر کے ساتھ وزن کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ اس میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی اور کسی خاص ہیئت کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ پابند نظم کسی بھی ہئیت میں کہی جا سکتی ہے۔ اس میں عام طور پر کسی ایک ہی موضوع کو سمیٹا جاتا ہے۔ عام طور پر نظموں کا مخصوص عنوان لکھ دیا جاتا ہے جس سے ان کے موضوع کے متعلق معلوم ہو جاتا ہے۔

            اردو میں آزاد نظم کے بانیوں میں ن۔ م راشد اور تصدق حسین خالد کا نام آتا ہے۔ آزاد نظم ایک ہی بحر میں کہی جاتی ہے لیکن اس میں ارکان کی تقسیم کا مکمل اختیار شاعر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اسی تقسیم کی آزادی کی وجہ سے آزاد نظم کے مصرعوں میں سے کوئی چھوٹا اور کوئی مصرع بڑا ہوتا ہے۔ اس وقت اردو ادب میں آزاد نظم کے شعرا کا ایک جمِ غفیر نظر آتا ہے جو غزل کو معتوب سمجھتا ہے لیکن ایسے شعرا کی کمی  نہیں ہے جو غزل میں شہرت رکھنے کے ساتھ آزاد نظم میں بھی کمال رکھتے ہیں۔

            دورِ جدید کی ایک اور شعری جہت سانیٹ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ یہ انگریزی شاعر ی کی ایک قسم ہے۔ اردو شاعری میں اس کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو نظم کی دوسری اقسام کو ملی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فنی لحاظ سے یہ ایک مشکل صنف ہے۔ سانیٹ کے بارے میں رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں :

 ’’سانیٹ ایک طرح کی مقفیٰ نظم ہے جس میں کل چودہ مصرعے ہوتے ہیں۔ اس میں قافیے ایک مقررہ ترتیب سے لائے جاتے ہیں۔ سانیٹ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلا حصہ آٹھ مصرعوں پر اور دوسرا چھ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سانیٹ میں کسی خیال یا جذبے کو پیش کیا جاتا ہے۔ سانیٹ کسی بھی بحر اور وزن میں لکھی جا سکتی ہے۔ ‘‘ [۳]

            نظم کی ایک اور قسم نظمِ معریٰ کے نام سے شاعری میں مروج ہے۔ اس میں وزن اور بحر کی پابندی توکی جاتی ہے لیکن قافیے کے التزام کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ بلا قافیہ نظموں کا یہ طریقہ انگریزی شاعری کی دیکھا دیکھی اردو ادب میں اپنی جڑیں گہری کرتا گیا اور تخئیل کو آزادی سے بیان کرنے کے رجحان نے شعرا میں نظم معریٰ کو مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عبدالحلیم شرر نے نظمِ معریٰ میں ابتدائی تجربے کیے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور اب کئی شعرا اس راہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔

            انورمسعود کی نظمیں سنجیدہ اردو شاعری کا ایک خوبصورت باب ہیں۔ ان کی اہم نظموں میں بوسنیا، کشمیر، رہرو رہنما، طالب علموں کا گیت، چندا اور دھرتی، میری پہلی نظم، گھر، دادوستد، اُولٰئک ھم الغافلون، یہ سوادِ گریۂ جاں مرا، بچھڑتے وقت کا موسم، وہی رودادِ دورِ ہم نشینی اور کوئی کیا جانے؟وغیرہ شامل ہیں جو ان کے سنجیدہ شعری مجموعے ’’اِک دریچہ، اِک چراغ‘‘ کا حصہ ہیں۔ ان نظموں میں انور مسعود نے اپنے تجربات، محسوسات اور دورِ جدید کے مسائل کو کئی علامات کے ساتھ عام الفاظ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ عام قاری بھی باآسانی مفہوم کی تہ تک پہنچ جاتا ہے۔

            ذیل میں ان کی سنجیدہ اردو شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ دو بڑے عنوانات کے تحت کیا جا رہا ہے۔ پہلے حصہ میں ان کی شاعری کی فنّی خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصہ میں شاعری کے اہم موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

۱۔      شاعری کی فنی خصوصیات

            آتش نے شاعری کو مرصع سازکے کام سے تشبیہ دی تھی اور بلا شبہ یہ کام کسی طرح بھی مرصع سازی سے کم نہیں ہے۔ اس میں بحر کا انتخاب، قافیہ بندی، ردیف کے چناؤ، روزمرہ محاورہ کا استعمال اور پھر صنائع بدائع کے ساتھ ساتھ علم بیان سے مکمل واقفیت کے بغیر ایک شعر تو دور کی بات، ایک مصرع کہنا بھی ممکن نہیں۔ انور مسعود خود فنِ شاعری کے استاد ہیں اور ان کی شاعری کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ہر شعر انتخاب ہے۔ بھرتی کا ایک لفط ڈھونڈے سے نہیں ملتا اور کوئی ایک لفظ بدلنے سے مطلب مفقود ہو جاتا ہے۔ یہی فنِ شاعری کی  ضرورت ہے کہ اس میں بلند تخئیل اور وسیع تجربات و مشاہدات کے باوجود اس وقت تک بات نہیں بنتی جب تک آدابِ فن سے مکمل آشنائی نہ ہو۔ اشعار میں معنویت خونِ جگر جلائے بغیر نہیں آتی۔ الفاظ و تراکیب کے مناسب انتخاب اور تشبیہ واستعارہ کے بغیر دلکشی اور ندرت لاحاصل ہے۔ ایجاز و اختصار زبان دانی کا تقاضا کرتا ہے تو اوزان کی پابندی کے بغیر شعر، شعر نہیں رہتا بلکہ نثر کا تاثر دیتا ہے۔ انور مسعود نے اپنی شاعری میں ایسا سقم نہیں چھوڑا جس پر گرفت کی جا سکے۔ ان کی شاعری کی قابلِ ذکر فنی خصوصیات درج ذیل ہیں :

i۔      منظر نگاری

            انور مسعودکی شاعری میں منظر نگاری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظمیں شاہ کار کہی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں فطرت کے خوبصورت، دلکش، سہانے اور حسین و رنگین مناظر کی تصاویر کھینچ کر رکھ دی ہیں۔ اس منظر کشی میں تخئیل کی بلندی اور دلکش تشبیہات واستعارات سے ان کی قادرالکلامی کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں والصبح اذاتنفس، بچھڑتے وقت کا موسم اور سیلاب۱۹۷۳ء وغیرہ منظر نگاری کے بہترین نمونے ہیں۔ نظم ’والصبح اذاتنفس‘جو ۲۳اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں رات کے بیت جانے اور صبح کی آمد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں کہی گئی یہ نظم ملاحظہ کیجیے :

خاکسترِ پروانہ  سرِ  بزم  اُڑا  کر

گزری ہے صبا شمع کے شعلے کو بجھا کر

معمور فضا  ہو گئی آوازِ  اذاں  سے

پیمانہ سنبھالا  نہ گیا  پیرِ مُغاں  سے

اِک چادرِ رنگیں سے شفق  سایہ فگن  ہے

یہ رات کی میت کے لیے سرخ کفن ہے

برخاست ستاروں کی ہوئی بزمِ شبینہ

اُبھرا ہے اُفق پار سے سورج کا سفینہ

پھوٹے ہیں عجب شان سے کرنوں کے فوارے

وہ دیکھئے روشن  ہوئے مسجد کے منارے

ہر گوشۂ فطرت  میں ہے تنویر  ہی  تنویر

ہر قطرۂ شبنم میں ہے خورشید  کی  تصویر

کیا حسن ہے دلکش رُخِ زیبائے سحر میں

نظارے سمٹ آئے ہیں آغوشِ نظر میں

دیوانے چلے شہر سے اور دشت کو نکلے

کچھ نسترن اندام بھی گُلگشت کو نکلے

انگڑائیاں لیتے ہوئے پہنچے ہیں چمن میں

جھرمٹ ہے نگاروں کا  بہاروں کے وطن میں

پتوں سے  ہوا گزری ہے کیا ساز  بجا  کے

جیسے کسی  رقاصہ  کی  پائل  کے  چھناکے

پھولے ہوئے  رُخسار  ہیں ننھی سی کلی  کے

نرگس کی حسیں آنکھ میں آنسو ہیں خوشی  کے

ہر شاخ  کی  رنگین  کلائی میں  لچک  ہے

پھولوں میں بھی پیراہنِ یوسف کی مہک ہے

اُڑتے ہیں  قطاروں میں شکر بیز  پرندے

خو ش  رنگ ، سحر  خیز،  نوا  ریز  پرندے

غنچوں کی جبیں فرطِ مسرت  سے کھلی  ہے

بُلبل  کو  ترنم  کی  بڑی  داد  ملی  ہے

اک طائر ناشاد تڑپتا ہے قفس میں

ہے سیر کا ہنگام رہائی نہیں بس میں

اِس قید سے یارانِ چمن چھوٹ گئے ہیں

اور کوششِ ناکام سے پر ٹوٹ گئے ہیں

اُمید کے دھوکے سے وہ مجبورِ فغاں ہے

صیاد کو فریاد کا احساس کہاں ہے

آتی ہیں نظر دور سے کھیتوں کی فضائیں

پُر کیف  ہیں فطرت کی حسینہ کی  ادائیں

سرسوں ہے کہ یا کھیت میں آ بیٹھی ہیں پریاں

لچکیلے  بدن  اور  بسنتی  ہے   چُنریاں

کیا روپ ہے دیہات کے اک سادہ جواں پر

اور ’ہیر‘ کے کچھ بول ہیں  بانکے کی  زباں  پر

روزی  کے  تفکر  میں  بہت  دور   چلا  ہے

تیشے  کو  سنبھالے   ہوئے  مزدور  چلا  ہے

شاعر کے بھی اس وقت ہیں نکھرے ہوئے جذبات

خورشید  کی  مانند  اُبھرتے   ہیں  خیالات

            نظم ’’بچھڑتے وقت کا موسم‘‘ بھی اپنے اشعار میں قدرت کے حسین مناظر کی تجلیاں لیے ہوئے ہے۔ اس نظم کے مناظر تو وہی ہیں جن کا تذکرہ درج بالا نظم میں کیا گیا ہے لیکن وہاں خوشی وسرمستی تھی یہاں اداسی اور غم ہے۔ وہاں کی فضا لطف وسرور سے بھرپور تھی اور تازگی کا احساس نمایاں تھا جبکہ یہاں افسردگی تمام فضا پر حاوی ہے۔ اُس نظم میں جب ہوا چلتی تھی تو شاعر کو پودوں اور درختوں کی جھکتی ہوئی شاخیں پریوں اور حسیناؤں کے لچکیلے جسم کی مانند معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں وہی ہوا تیز تر ہو گئی ہے اور درختوں کی ڈالیوں سے ٹکراتے وقت شاعر کو اپنا سر پٹکتی معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی جذبات کے بدل جانے سے موسموں کے مناظر کا بیان بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ اداسی کا تاثر لیے اس نظم کے چند اشعار درج ذیل ہیں :

وہ ڈال ڈال درختوں سے سر پٹکتی ہوئی

کہیں کہیں کوئی بدلی، وہ تیز تیز ہوا

دیارِ دل میں اُداسی مگر سُریلی سی

کہ جیسے شام کو صحرا میں بانسری کی صدا

نظر سے محو ہوا آسمانِ مینا رنگ

اور ایک پیراہنِ نیل فام یاد رہا

گزر گیا ہے وہ لمحہ پہ رُت نہیں بدلی

بچھڑتے وقت کا موسم تو جیسے ٹھیر گیا

            ان کے علاوہ انور مسعود کی دیگر کئی نظموں اور غزلوں میں منظر نگاری کے حسین نمونے ملتے ہیں جن میں قدرت کے حسین مناظر کے تمام رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بجا ہے کہ انور مسعود فطرت کے مناظر کا شاعر ہے۔ ان کا رجحان دیہی زندگی کی جانب ہے اور ان کی شاعری میں بھی منظر نگاری کے دیہی رنگ کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔

ii۔     استفہامیہ انداز

            استفہام یا استفسار اظہار کا ایک اہم قرینہ ہے۔ سوال اٹھانا اردو شاعری میں قدما کا طریقہ رہا ہے اور اس سے شاعری میں دلکشی کے ساتھ معنویت پیدا ہوتی ہے۔ استفہامیہ اشعار میں شاعر کبھی براہِ راست اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتا ہے اور کہیں اس کا رخ اپنے محبوب کی جانب ہو جاتا ہے۔ کہیں وقت کے حاکم اس کے سوالوں کے نشتر سے چھلنی نظر آتے ہیں تو کہیں دامنِ واعظ تار تار دکھائی دیتا ہے۔ شاعر کا اندازِ خود کلامی بھی اکثر سوالیہ انداز لیے ہوتا ہے اور وہ الجھے ہوئے سوال کر کے خود ہی ان کے جواب تلاش کرنے کی سعی میں مگن ہو جاتا ہے۔ شاعری میں یہ سب خوبصورتیاں استفہامیہ لہجے کی بدولت ممکن ہیں۔

            اردو شاعری میں استفہامیہ لہجے کا چلن قیامِ پاکستان کے بعد بہت پختہ ہوا ہے۔ یہ صرف الفاظ کا کھیل نہیں ہے بلکہ تجربات اور مشاہدات کی وسعت کی بدولت ہی اس فن میں ملکہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس حربے کی وجہ سے معاشرے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی عادت کو پروان چڑھانے کے ساتھ لطفِ کلام کا مقصد حاصل کیا جاتا ہے۔

            استفہام کے دو طریقے مروج ہیں۔ پہلے طریقے میں ان الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جو سوال کے لیے عام ہیں۔ مثلاً:کیا، کب، کہاں، کیوں، کیسے، کس، کون وغیرہ۔ دوسرے طریقے میں استفہامیہ علامات کا استعمال کیا جاتا ہے جن میں دو علامات ’’؟اور!‘‘ عام ہیں۔ انورمسعود قیامِ پاکستان کے وقتوں کے شاعر ہیں اور یہ ان تمام سردوگرم حالات و واقعات کے چشم دید گواہ ہیں جو پاکستان اور اہلِ پاکستان پرابتداسے اب تک  بیت رہے ہیں۔ انھوں نے استفہام کے حربے کے لیے درج بالا دونوں طریقوں کو کثرت سے برتا ہے۔ ان کے ہاں ’’کون‘‘ کے لفظ سے پیدا ہونے والے استفہامیہ انداز کے حامل درج ذیل اشعار کا انتخاب دیکھیے جن میں ’’کون‘‘ کے لفظ سے کلام میں شدت کا عنصر غالب ہوتا دکھائی دیتا ہے:

سارے اخباروں میں دیکھوں حال اپنے برج کا

اب ملاقات اس سے ہو گی کون سے ہفتے کے بیچ

وقت کی اوٹ میں ہے کون سا منظر جانے

آگ لگتی ہے کہ پیڑوں کو ثمر لگتا ہے

کون دیتا ہے جوانی میں لہو کو حدتیں

کون کر دیتا ہے عاجز وقتِ پیری سوچئے

ہر دلِ بے مہر پر مہریں لگا دیتا ہے کون

کون کرتا ہے عطا روشن ضمیری سوچئے

بجلیوں کو کون سی سرکار سے صادر ہوا

ابر کے زنداں کا فرمانِ اسیری سوچئے

میں بھلا کون کسی حرف پہ انگلی رکھوں

تو مرا کاتبِ مختار ہے جو تو لکھے

             ’’کب‘‘ کے لفظ میں استفہام کے ساتھ انتظار، حسرت اور یاس کی کیفیت بھی پوشیدہ ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے شاعر نے کئی مفاہیم حاصل کیے ہیں۔ صرف دو اشعار ملاحظہ ہوں :

کب سے ترے ہونٹوں کی طرف دیکھ رہا ہوں

کشکولِ سماعت میں کوئی پھول گرا دے

کب تلک روح کے پرندے کا

ایک مٹی کے جال میں رہنا

            لفظ ’’کس‘‘ میں استفہام کی شدت کا اندازہ شعرا کے ہاں اس لفظ کے استعمال سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ انور مسعود نے انداز بدل کر اس لفظ کے معنی کو بھی کئی رنگ دیے ہیں۔ شعر کے پہلے مصرعے میں سوال پوچھ کر دوسرے مصرعے میں اس کا جواب دے کر شعر کے ابلاغ میں آسانی پیدا کرنے کے انداز دیکھیے:

دھرتی سے لوگ بھاگ کے جائیں تو کس طرف

ہر سمت آسماں ہے زمیں سے ملا ہوا

درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا

کس کو منظور یہ زہرِ غمِ دنیا ہوتا

پھل پھول لگاتا ہے کہ اب آگ لگا دے

کس پیڑ کو معلوم ہیں موسم کے ارادے

            ایک اور اہم استفہامیہ لفظ ’’کیا ‘‘ ہے۔ ’’کیا‘‘ کا استعمال روزمرہ بول چال میں سوال کرنے کے لیے عام ہے اور شاعری میں بھی اس کو بہت زیادہ برتا جاتا ہے۔ دیگر استفہامیہ الفاظ کی نسبت اس لفظ کو محبوب سے استفسار کے لیے خصوصی طور پر اشعار کی زینت بنایا جاتا ہے۔ انور مسعود کے ہاں استفہامیہ لفظ ’’کیا‘‘ کے استعمال کے طریقے کچھ اس طرح ہیں :

دل سلگتا ہے ترے سرد روّیے سے مرا

دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انور

نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے

جانے کیا رنگ دکھائے گا یہ وحشی موسم

اس قدر شور دریچوں میں ہو اکا ہوا

انور کی سرِ بزمِ سخن آئی ہے باری

کیا جانئے یہ شخص ہنسا دے کہ رلا دے

            انور مسعود کی شاعری میں ایسے بھی کئی اشعار موجود ہیں جن میں بیک وقت ایک سے زیادہ استفہامیہ الفاظ علامتِ استفہام ’’؟‘‘ کے ساتھ برتے گئے ہیں۔ کب، کیا، کون، کس، کیسا، کیسی، کہاں وغیرہ کا استعمال استفہامیہ علامت ’’؟‘‘ کے ساتھ درج ذیل اشعار میں موجود ہے:

کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہو گا؟

کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اُجالا ہو گا؟

دھوپ سے کیوں ہو مجھے کوئی شکایت انور

میرے دیوار و در و  بام کی کیا لگتی ہے؟

مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو

عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہو گا؟

ii۔     تکرارِ لفظی کا فنکارانہ استعمال

            غیر ضروری تکرارِ لفظی حسنِ کلام کو متاثر کرتی ہے اور الفاظ کا بے جا استعمال ایجاز و اختصار کے خاتمے کا باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں مفہوم کو اشعار میں مقید کرنا شاعری کی خوبی گردانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کئی مقامات پر الفاظ کی تکرار شعر کی غنائی کیفیت کو دو چند کر دیتی ہے۔ انور مسعود کی سنجیدہ شاعری میں تکرارِ لفظی کی کئی صورتیں موجود ہیں اور اس سے مختلف مقاصد کا حصول ممکن بنایا گیا ہے۔ کئی اشعار میں کسی خاص مسئلہ، واقعہ یا اہم حقیقت کے لیے تکرار ملتی ہے جبکہ کئی جگہوں پر اس کا متواتر استعمال ان کی فنی مہارت کا اظہار اور تغزل کو قائم رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ انور مسعود کی شاعری میں تکرارِ لفظی کی مختلف صورتوں کا احوال درج ذیل ہے:

۱۔         ایک لفظ کے فاصلے پر تکرارِ لفظی کی مثالیں

            ایسے اشعار جن میں ایک لفظ کے فاصلے پر تکرارِ لفظی کی مثالیں موجود ہیں، ان میں دو الفاظ کے درمیان ’’در، میں، ہی، سے‘ ‘ وغیرہ کو استعمال کیا گیا ہے جن کی وجہ سے مفہوم میں ایک تسلسل، روانی اور ناتمام کیفیات کی عکاسی ملتی ہے۔ درج ذیل اشعار میں ’’وہم در وہم، قفس میں قفس، روشنی ہی روشنی، ہاتھ سے ہاتھ‘‘ کا استعمال ایک لفظ کے فاصلے پر تکرار کی چند مثالیں ہیں :

کھلا اک اور قفس میں قفس کا دروازہ

اک اور قید کی تمہید تھی رہائی بھی

اس فراوانی سے توبہ، الاماں اس قحط سے

روشنی ہی روشنی ہے اور بینائی نہیں

راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے ابھی سے سن لو

ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا

۲۔        شعر کے دونوں مصرعوں کی ابتدا میں تکرارِ لفظی

            شعرا کے ہاں ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے دونوں مصرعوں کی ابتدا میں تکرارِ لفظی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح کی تکرار سے دو مقاصد کا حصول ممکن نظر آتا ہے۔ ایک تو اس کی وجہ سے شعر میں صوتی آہنگ، موزونیت اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے دوسرا اس سے شعر میں کیفیات کی شدت کا تاثر بڑھ جاتا ہے۔ انور مسعود کے ہاں شعر کے دونوں مصرعوں کے ابتدا میں تکرارِ لفظی کی کچھ مثالیں دیکھیں :

اب تو بارود کا اک ڈھیر بنی ہے دنیا

اب تو باقی ہے فقط ایک دھماکا ہونا

کہیں جہان میں سکھ بھی نہیں ہے گھر جیسا

کہیں جہان میں دکھ بھی نہیں ہیں گھر جیسے

کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا

کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا

۳۔        مختلف فاصلوں پر دہرائے جانے والے الفاظ

            انور مسعود کی شاعری میں کئی ایسے اشعار موجود ہیں جن میں مختلف فاصلوں پر تکرارِ لفظی کی مثالیں ملتی ہیں۔ ان میں تکرار کا انداز مختلف تجربات کا غماز ہے۔ مثال کے طور پر ’’ہنر‘‘ کے ساتھ ’’کم ہنر‘‘ کی تکرار، ’’درد کا احساس، درد سے پہلے‘‘ ، ’’غمِ دنیا‘‘ کے ساتھ ’’غمِ جاناں ‘‘ وغیرہ متضاد کیفیات کا تاثر اجاگر کرتے ہیں۔

تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا

ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے

درد کا احساس مجھ کو درد سے پہلے بھی ہے

چوٹ وہ سہلا رہا ہوں جو ابھی کھائی نہیں

آئینے ایسے بجھے ہیں سب کے چہرے چھن گئے

اب کسی سے بھی کسی کی کچھ شناسائی نہیں

۴۔        جوڑے دار الفاظ کی صورت میں تکرارِ لفظی

            جوڑے دار الفاظ شعر کی شعریت کو بڑھاتے ہیں۔ ان کے استعمال سے شعر کا مضمون نمایاں ہو کراور نکھر کر قاری کے سامنے آتا ہے۔ زور بیاں کے لیے بھی جوڑے دار الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سے تقاضائے کلام، مفہوم اور زبان تینوں کو تقویت ملتی ہے اور شاعر کے آدابِ فن سے آگاہی کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ لیکن جوڑے دار الفاظ کی کثرت بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے اشعار میں زبان و بیان کے مختلف عیب پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

            انور مسعود نے جوڑے دار الفاظ کا استعمال ضرور کیا ہے لیکن انھوں نے صحت لفظ کو صوتی کیفیت پر قربان نہیں ہونے دیا۔ ان کے ہاں کئی اشعار ایسے بھی ہیں جن کے ایک ہی مصرعے میں جوڑے دار الفاظ کو دو دو مرتبہ استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے موضوع پر توجہ مزید بڑھتی ہے۔ انور مسعود کی شاعری میں جوڑے دار الفاظ کے استعمال کے چند نمونے درج ذیل ہیں :

وہ جھیل جھیل میں جھرمٹ نہ تھے ستاروں کے

چراغ تھے کہ جو چاندی کی تھالیوں میں جلے

رہ رہ کے یاد آتی رہی جامنوں کی رت

اب کے دیارِ غیر میں برکھا گذر گئی

انور اس نے نہ میں نے چھوڑا ہے

اپنے اپنے خیال میں رہنا

کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ

کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ

دامنِ خوشبو پہ کیا کیا داغِ رسوائی نہیں

اب تو کوئی شاخ  پھولوں کی تمنائی نہیں

iii۔    تراکیب کے استعمال کا قرینہ

            تراکیب کے مناسب استعمال سے شعر میں موسیقیت اور صوتی اثرات میں چاشنی پیدا ہوتی ہے۔ تراکیب کا استعمال شعر کو قبولِ عام بخشتا ہے اور ان کی بدولت زبان نئے نئے الفاظ سے آشنا ہوتی ہے۔ دو یا اس سے زائد الفاظ کو حرفِ اضافت زیر( ِ )، واؤ(و)، حمزہ(ء)، حمزہ یے (ئے)کے ذریعے ملا دینے سے تراکیب جنم لیتی ہیں۔ تراکیب کو عام طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں دو اعضائی تراکیب، سہ اعضائی تراکیب اور چہار اعضائی تراکیب شامل ہیں۔

            انور مسعود کی سنجیدہ شاعری میں پہلی دو قسموں کا زیادہ استعمال ملتا ہے۔ دو اعضائی تراکیب ان کے کلام میں بکھری پڑی ہیں لیکن ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جن میں قدرے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے ’’کشکولِ سماعت، چہرۂ زیبا، دستِ تصرف، قریۂ رنجش، گردِ متن، اندازِ ترش روئی، جنسِ گفتار، دستِ مفلس، صدائے گریہ، کابینۂ جاں، تادیبِ تمنا، بنامِ انصاف، گوشۂ فطرت، آغوشِ نظر، طائرِ ناشاد، دشتِ درد، مزاجِ انگبینی ‘‘ وغیرہ۔ درج ذیل اشعار میں مختلف تراکیب کا فنکارانہ انداز اپنا آپ منوا کر رہتا ہے:

میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا

ظالم اسے کہیے جو دھائی نہیں دیتا

آنکھ پگلی ہے یہ چاہے وہ نظر بھی آئے

دستِ نادیدہ جو گلبرگ پہ خوشبو لکھے

گوہرِ اشک سے خالی نہیں آنکھیں انور

یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے

بیٹھئے، پیڑوں کی اُترن کا الاؤ تاپئے

برگِ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں

آخر کار گرے قلزمِ خاموشی میں

اپنی آواز کا مینار بنانے والے

میں تو اس دورِ مہذب کا ہوں جوگی انور

یہ زمیں چھوڑ کے اب چاند پہ جانا چاہوں

دستِ مفلس سے تہی تر ہے سفینہ انور

اس پہنچنے سے تو ساحل پہ نہ پہنچا ہوتا

برس رہی تھی گھٹا بھی، کھلی تھی کھڑکی بھی

صدائے گریہ ہماری کہاں ابھرنی تھی

            کئی ایسے اشعار بھی انورمسعودکے حسنِ کلام کو نکھار عطا کرتے ہیں، جن کے دونوں مصرعوں میں تراکیب موجود ہیں۔

مل جائے نہ یہ تاج و قبا اور کسی کو

وہ سونپ نہ دے بارِ وفا اور کسی کو

سر سبز ہوئے ایک ہمیں اشک و فغاں سے

راس آئی نہ یہ آب و ہوا اور کسی کو

چرکے بھی لگ جاتے ہیں دیوارِ بدن پر

اور دستِ ستم گر بھی دکھائی نہیں دیتا

درد کو پیکرِ اظہار میں لانا چاہوں

زخم کو شیوۂ گفتار سکھانا چاہوں

شاخِ مژگاں کا ثمر مانگتا ہے

عشق بھی لعل و گہر مانگتا ہے

سہ اعضائی تراکیب

            ایسی تراکیب جن کو تین الفاظ مختلف یا ایک جیسی اضافتوں کے ساتھ مل کر تخلیق کریں سہ اعضائی تراکیب کہلاتی ہیں۔ سہ اعضائی تراکیب کا زیادہ استعمال شعر کے حسن پر اثر انداز ہوتا ہے اور چار الفاظ پر مشتمل تراکیب کے استعمال کے بارے میں تو اساتذۂ فن نے ممانعت کی ہے۔ انور مسعود نے جن  اشعار میں سہ اعضائی تراکیب کا استعمال کیا ہے ان میں معنویت کے نئے در وا ہونے کے ساتھ ساتھ روانی اور موزونیت قائم ہے۔ اضافتوں کے ساتھ استعمال کی گئی سہ اعضائی تراکیب کی چند مثالیں دیکھیے:

انور متاعِ دیدۂ بینا کی خیر ہو

سطروں کے درمیاں ہے بہت کچھ لکھا ہوا

کوئی دیکھے مری آنکھوں میں سراپا اس کا

جھیل میں عکسِ د لآویزِ صنوبر دیکھے

اسے تو پاسِ خلوصِ وفا  ذرا بھی نہیں

مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں

شکوۂ گردشِ حالات لیے پھرتا ہے

جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے

چہار اعضائی تراکیب

            جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، چہار اعضائی تراکیب کا استعمال شعر کو روانی اور ترنم سے محروم کر دیتا ہے لہٰذا ایسی تراکیب کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے۔ انور مسعود کے ہاں گنتی کے ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں تراکیب کی یہ کیفیت موجود ہے۔ لیکن معنویت متاثر ہونے کے بجائے مزید ابھر کر سامنے آتی ہے۔ مثلاً:

تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ

اک لذتِ پابندیِ اظہار و بیاں ہے

تلخیِ زہرِ غمِ زیست گوارا ہو جائے

نہیں دنیا میں محبت سا کرشمہ کوئی

iv۔    صنائع بدائع میں مہارت

            اشعار کی آرایش، حسنِ بیان، لطافتِ ادا اور سہلِ ممتنع کی خوبیاں پیدا کرنے کے ساتھ فنی پختگی کا اظہار صنائع بدائع کے استعمال سے ہوتا ہے۔ فنِ شعر گوئی میں مہارت کے لیے صنائع بدائع سے اعلیٰ درجے کی واقفیت ضروری ہے۔ انور مسعود نے صنائع بدائع کے استعمال سے اپنی شاعر ی کو جمال اور جدت بخشی ہے۔ اس حوالے سے صنعتِ تلمیح، صنعتِ حسنِ تعلیل، مراعاۃ النظیر اور صنعتِ تضاد وغیرہ کی تفصیل درج ذیل ہے:

ا۔          صنعتِ تلمیح

            کسی شاعر کا اپنی تخلیق میں کسی معروف واقعے، روایت یا حدیث وغیرہ کی جانب اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔ شعر میں شاعر صرف چند الفاظ میں کسی واقعے کو بیان کرتا ہے اور شعر پڑھنے یاسننے والا اس پورے واقعے سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اس سے کلام میں ایجاز  واختصار کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔

            انور مسعود کی شاعری میں تلمیحات کا منفرد استعمال شعر کے ابلاغ میں بھر پور معاونت کرتا ہے۔ ان کی غزلیات اور نظموں میں تلمیحات کا تسلسل کئی واقعات لیے قارئین کی سوچوں کے دریچے وا کرتا ہے۔ ’’اُن سا پیارا اور نہ کوئی‘‘ میں نعت ؐ کہتے ہوئے جن تلمیحات کو استعمال کیا ہے ان میں ’’بادل سر پر سایا کرتے، اصحاب ستاروں جیسے، اُن سے بچھڑ کر لکڑی روئی، علم اس شہر کا رہنے والا، وہ مہمانِ عرشِ معلّے‘‘ وغیرہ شامل ہیں جن سے ان کے تبحرِ علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ نعتؐ کے کچھ اشعار جن میں درج بالا تلمیحات استعمال ہوئی ہیں، ملاحظہ ہوں :

جب وہ سفر پر جایا کرتے

بادل سر پر سایا کرتے

اُن کے بول بہاروں جیسے

اور اصحاب ستاروں جیسے

اُن سا پیارا اور نہ کوئی

اُن سے بچھڑ کر لکڑی روئی

اُن کی ذات اک شہر نرالا

علم اس شہر کا رہنے والا

صادق اور امین وہی ہیں

طٰہٰ اور یٰسین وہی ہیں

وہ مہمانِ عرشِ معلیٰ

شانِ محمدﷺ اللہ اللہ

            اسی طرح ان کی سنجیدہ شاعری میں کچھ اور اشعار بھی تلمیحات کے حامل ہیں لیکن ان کی تعداد محدود ہے۔ مثلاً:

آستینوں کی چمک  نے ہمیں مارا ا نور

ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہو گا

جہاں اک بانسری بجتی رہی ہے

وہاں اک شہر بھی جلتا رہا ہے

ہر کوئی ظلم کا بڑھتا ہوا لشکر دیکھے

کون منقارِ ابابیل میں کنکر دیکھے

ب۔      صنعتِ حسنِ تعلیل

            ادبی اصطلاح میں حسنِ تعلیل سے مراد کسی بات کی ایسی وجہ بیان کرنا ہے جو دراصل اس کی اصل وجہ نہ ہو اور یہ وجہ اس طریقے سے بیان کی جائے کہ اس سے شاعرانہ خوبی پیدا ہو جائے۔ انور مسعود کے ہاں ایسے کئی اشعار ہیں جن میں حسنِ تعلیل کی صنعت موجود ہے۔ مثلاً:

پرتوِ مہر سے ہے چاند کی جھلمل انور

اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے

            درج بالا شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چاند کی جھلمل کرتی روشنی جس کی مثالیں دی جاتی ہیں اور محبوب کے چہرے کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے، یہ روشنی سورج کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے اور سورج کی روشنی کے بغیر چاند کی جھلملاہٹ ممکن نہیں۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے کہا ہے کہ چاند تو مفلس ہے اور وہ سورج سے روشنی کی بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ اس شعر میں چاند کی روشنی کو سورج سے بھیک مانگنے کے مترادف قرار دینا شعر کی خوبی میں اضافہ کرتا ہے۔ انور مسعود کے ہاں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں :

چلا ہے اس کی گلی کو اُسی طرح انور

سحر کو لوگ روانہ ہوں کام پر جیسے

مری صدا سے بھی رفتار تیز تھی اس کی

مجھے گلہ بھی نہیں ہے جو وہ رکا بھی نہیں

رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا

کس سے پوچھیں خواب میں کیسا  ہے دریا دیکھنا

کھل کے رو لینے کی فرصت پھر نہ اس کو مل سکی

آج پھر انور ہنسے گا بے تحاشا دیکھنا

ج۔       صنعتِ مراعاۃ النظیر

            وہ صنعت ہے جس میں ایک چیز کے بیان کے ساتھ اس کے دوسرے اجزا کا ذکر بھی آ جائے لیکن ان میں تضاد و تقابل موجود نہ ہو۔ جیسے قید کا ذکر ہو تو اس کے ساتھ زنداں، جبر، مشقت وغیرہ کو بھی بیان کر دیا جائے۔ انور مسعود نے پھول، خوشبو اور ہوا، آندھی، بگولوں، دریا، گرداب، پتواروں وغیرہ کے تذکرے سے اس صنعت کو قوت عطا کی ہے۔ ان کے ایسے کئی اشعار میں سے منتخب مثالیں ملاحظہ ہوں :

دامنِ خوشبو پہ کیا کیا داغِ رسوائی نہیں

اب تو کوئی شاخ پھولوں کی تمنائی نہیں

            درج بالا شعر کے پہلے مصرعے میں خوشبو اور دوسرے مصرعے میں اس کے اجزا یعنی شاخ اور پھولوں کا ذکر صنعتِ مراعاۃ النظیر کی مثال ہیں۔

کان بیتاب کہ رنگوں کی صدا بھی سن لیں

آٓنکھ بے چین کہ خوشبو کا بھی پیکر دیکھے

            اس شعر میں رنگ اور خوشبو کا استعمال صنعتِ مراعاۃ النظیر کی مثال ہے۔ اسی طرح درج ذیل اشعار میں رفتارِ ہوا کا تعلق جھونکے اور بگولے سے، دریا کا تعلق گرداب اور پتواروں سے، بارشوں کا تعلق آندھیوں اور بگولوں سے جبکہ پھول کا تعلق باغیچہ سے صنعتِ مراعاۃ النظیرکو ظاہر کرتے ہیں :

کل جانئے کیا شکل ہو رفتارِ ہوا کی

جھونکے کو برا  وقت بگولا نہ بنا دے

جو بارشوں میں جلے، تند آندھیوں میں جلے

چراغ وہ جو بگولوں کی چمنیوں میں جلے

اکٹھے ہو گئے تھے پھول کتنے

وہ چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا

د۔         صنعتِ تضاد

 تضاد کے معنی باہم ضد کے ہیں۔ یعنی کسی ایک چیز کے اُلٹ یا مخالف چیز کو تضاد کہتے ہیں۔ شعری اصطلاح میں جب شاعر اپنے اشعار میں دو ایسے الفاظ استعمال کرے جو ایک دوسرے کی ضد ہوں تو اس صورت کو صنعتِ تضاد کہا جاتا ہے۔ انور مسعود نے صنعت تضاد کا استعمال بڑی مہارت سے کیا ہے اور غیر مانوس الفاظ کے بجائے متوازن الفاظ کا رچاؤ دلکشی پیدا کرتا ہے۔ اور بے ساختگی اس پر مستزاد ہے۔

امتیازِ حق و  باطل مجھے اَرزانی کر

صبح تابان و شبِ  تار بنانے والے

            اس شعر میں حق کے مقابل باطل، صبح تاباں کے ساتھ شبِ تار کے الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں اوراس سے شعر میں صنعتِ تضاد کی صفت پیدا ہوئی ہے۔ درج ذیل اشعار میں ’’آسان، دشوار، دھوپ، چھاؤں، دل، ذہن، سمندر ساحل، یقیں، گماں، سکھ، دکھ، ابتدا، انتہا، ہنسا، رلا، پانی، آگ، پاؤں، سر، قید، رہائی، شکاری، آہو، شر، خیر، آسماں، زمیں ‘‘ وغیرہ صنعتِ تضاد کی مثالیں ہیں :

کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا

کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا

کہیں جہان میں سکھ بھی نہیں ہے گھر جیسا

کہیں جہان میں دکھ بھی نہیں ہیں گھر جیسے

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے

وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے

جو مری پیاس کو بھڑکائے نہ لب تک پہنچے

ایسے پانی کو تو میں آگ لگانا چاہوں

میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انور

کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں

دھرتی سے لوگ بھاگ کے جائیں تو کس طرف

ہر سمت آسماں ہے زمیں سے ملا ہوا

vi۔    علامات واستعارات

            قیامِ پاکستان کے بعد اردو شاعری میں علامات کا استعمال بڑھا ہے اور نئی نئی علامات نئے نئے مفاہیم کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہیں۔ سیاسی و آئینی تلاطم خیزیوں، مذہبی بے اعتدالیوں، عدل و انصاف کی عدم فراہمی، اقربا پروری، لسانی و علاقائی تعصبات اور تہذیبی و سماجی اضطراب نے شعرا کو علامات کے استعمال کی جانب تحریک دی۔ پابندیِ اظہارو بیاں کی وجہ سے بھی اہلِ قلم نے علامات کے ذریعے عوام کی رہنمائی کی اور جبر کے ایوانوں کو لرزا کر رکھ دیا۔

            انور مسعود نے پرانی علامتوں اور استعاروں کو عصری مسائل جن میں قومی و بین الاقوامی سیاست، معاشرت وسماج اور مذہب میں فرقہ پرستی کے لیے استعمال کر کے انھیں نئی معنویت بخشی۔ سیاسی اشارات کے حامل استعارات اور علامتوں میں جرمِ خموشی، ظالم، دستِ ستم گر، دیوارِ بدن، تلوار، درد، زخم، گلستاں، درد کی آندھی، خموشی کی برف، سیاہ رات، زہر، تیشۂ صدا، شعلے، آشوبِ دگر، پت جھڑ، قفس، قید، شکاری، آہو، وحشی موسم، بدمست، شرابی، دیوتا، قاتل، پہرا، برف، پتھر، پیڑ، خامشی، آئینہ، آئینہ خانہ، جنسِ گفتار، چاند، پیڑ، گھٹا، شیشے کے گھر، دھوپ، شاخ، خوشبو وغیرہ اہم ہیں۔ ان علامات واستعارات کا استعمال تسلسل کے ساتھ ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے افکار و نظریات کو علامات کی صورت میں نئی ابلاغی بصیرت سے ہم کنار کر کے عوام تک پہنچایا۔ انھیں علامات واستعارات سے لبریز کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں :

لہراتے ہوئے آئے تھے وہ امن کا پرچم

پرچم کو اٹھائے ہوئے نیزے کی انی تھی

گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب  سے

کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں

آئینے ایسے بجھے ہیں سب کے چہرے چھن  گئے

اب کسی سے بھی کسی کی کچھ شناسائی نہیں

کتنا پُر ہول ہے شیشے کے گھروں کا منظر

وہی پتھر کے زمانے کی فضا لگتی  ہے

جانے کیا رنگ دکھائے گا یہ وحشی موسم

اس قدر شور دریچوں میں ہوا کا ہونا

۲۔     شاعری کے اہم موضوعات

            شاعری کسی بھی معاشرے کے تمام پہلوؤں کی سب سے بڑی ترجمان ہوتی ہے۔ مؤرخ کسی عہد کی تاریخ مرتب کرتے وقت دیگر ذرائع کے ساتھ اس عہد کی شعری تخلیقات سے بھی استفادہ کرتے ہیں تاکہ درست واقعات و حالات سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جس کی شاعری اس کے ارد گرد کے حالات، کیفیات، تحریکات، معاشیات، سیاسیات اور سماجیات وغیرہ سے جنم لیتی ہے۔ جب داخلی کیفیات، خارجی حالات سے متاثر ہو کر شعروسخن کی صورت اختیار کریں تو دیرپا شاعری پروان چڑھتی ہے۔ انور مسعود کی سنجیدہ شاعری میں مقصدیت کے ساتھ جذبات واحساسات کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ ان کی شاعری کلاسیکیت، رومانویت اور جدیدیت کا حسین امتزاج اور ان کے زاویۂ نگاہ کی وسعت کی ترجمان ہے۔ بنیادی طور پر انور مسعودمشاہدات و جذبات کی گہرائیوں اور گم گشتہ روایات و محسوسات کے شاعر ہیں۔ انسانی عظمت پر پڑنے والے تاریک سائے ان کو کسی صورت نہیں بھاتے اور آدمیت کی تلاش میں مسلسل سرگرداں رہنے کا عمل ان کی شاعری میں ہر جگہ برقرار نظر آتا ہے۔ اسی سرگردانی نے ان کی شاعری کو انسانی مسرتوں، محبتوں، میل جول، سائنسی ترقی کے ساتھ ان کی وحشتوں، درندگی، محرومیوں اور غم ناکیوں سے آشنا کیا ہے۔ ان کی شاعری کے بڑے موضوعات درج ذیل ہیں :

i۔      دین و مذہب

            دین و مذہب انور مسعود کی شاعری کا ایک بڑا موضوع ہے۔ یوں تو ۴۷ء کے بعد اردو شاعری میں کئی نئے موضوعات داخل ہوئے لیکن مذہبی مواد و عنوانات کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔ اس کا اہم سبب پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا محرک اسلام کا ہونا تھا اور دینِ اسلام کی کامیابی پاکستان کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ دوسرا بڑا سبب پاکستان اور اس کے عوام کا اسلام سے گہرا تعلق تھا اور مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں دین رہنمائی کا وسیلہ رہا۔ معاشرے میں چاروں جانب کسی نہ کسی صورت میں اسلام کا نفاذ دکھائی دے جاتا تھا۔ معاشرے کی تہذیبی اقدار اسلام میں پیوست تھیں اور ان قدروں کو پاکستان کی شکل میں مزید تقویت ملنے کا سامان پیدا ہو گیا تھا۔ انھیں ابتدائی ایّام میں اسلامی ادب کی تحریک نے اردو شعر و ادب میں مذہبی رجحان کو پروان چڑھانے کے لیے منظم جدوجہد کی جس کی وجہ سے دینی ذہن رکھنے والا طبقہ اس جانب سنجیدگی سے متوجہ ہوا۔ بقول ڈاکٹر انورسدید:

  ’’تحریکِ ادب اسلامی ایک مقصدی تحریک تھی اور اس نے اسلامی افکار و نظریات کی روشنی میں اخلاقیات کے بگڑے ہوئے نظام کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ یہ تحریک ایک صالح معاشرے کے قیام کی متمنی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۴]

            اردو شاعری کی ابتدا مذہبی شاعری سے ہوئی تھی اور اس کو دینی تبلیغ کا حصہ بنایا جاتا تھا۔ مذہبی قصوں اور واقعات کو شاعری کی زبان میں بیان کرنے کا رواج آہستہ آہستہ عام ہوتا گیا اور شاعری کی زبان سے حمد، نعتؐ اور واقعاتِ کربلا کا اظہار رواج پکڑتے پکڑتے اس کاسب سے اہم موضوع ثابت ہوا۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہ روایتی سلسلہ جاری رہا اور شعرا نے اپنے شعری مجموعوں کی ابتدا میں مذہبی شاعری(حمد، نعتؐ، منقبت، سلام وغیرہ) کا خصوصی التزام برقرار رکھا۔

            انور مسعود کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری میں بھی دین کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ ان کے تمام شعری مجموعے اسی دینی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ مذہبی شاعری میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ملتی ہے۔ توحید صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے گرد گھومنے کا نام ہے اورمسلم شعرا نے بھی اپنی شاعری میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کو مرکز بناتے ہوئے حمد کا خاص اہتمام کیا۔ انور مسعودکے ہاں حمد کا جداگانہ انداز ملتا ہے۔ ان کے حمدیہ اشعار سوچنے اور فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل حمد کے اشعار دیکھیے:۔

کون پانی کو اُڑاتا ہے ہوا کے دوش  پر

کس نے بخشی پیڑ کو آتش پذیری سوچیے

کس کے لطفِ خاص سے نغمہ فشاں ہے سانس کی

دھیمی دھیمی، دھیری دھیری یہ نفیری سوچئے

کس کی شانِ کن فکاں سے پھوٹتا ہے خاک  سے

یہ گیاہِ سبز کا فرشِ حریری سوچئے

کون دیتا ہے جوانی میں لہو کو حدتیں

کون کر دیتا ہے عاجز وقتِ پیری سوچئے

ہر دلِ بے  مہر پر مُہریں لگا دیتا ہے کون

کون کرتا ہے عطا روشن ضمیری سوچئے

وادیِ بطحا میں اک اُمی پیمبرﷺ بھیج کر

کس نے کی انسانیت کی د ستگیری سوچئے

            انور مسعود کے ہاں غزلیات کے درمیان مطلع یا مقطع میں اکثر حمدیہ اشعار مل جاتے ہیں جن سے غزل میں وہی لطف اور چاشنی پیدا ہو جاتی ہے جو کسی شعری مجموعے کے آغاز میں حمد پڑھتے ہوئے نصیب ہوتی ہے۔ ان کی کئی غزلیات بھی حمد، نعتؐ اور شہیدِ کربلا ؑ کے تذکرہ سے مملو ہوتی ہیں۔ مثال کے لیے مطلع اور مقطع کا ایک ایک اندازدیکھیے:

شدتِ درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا

 ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا

کیے ہیں جس نے دل تخلیق انور

دلوں کا حال سارا جانتا ہے

            اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تخاطب نے انور مسعود کی شاعری میں خوبصورتی پیدا کی ہے۔ چونکہ غزل مختلف موضوعات کا مجموعہ ہو تی ہے اس لیے ملتجیانہ اندازِ شاعری متصوفانہ رنگ اختیار کرتی ہوئی انور مسعود کے ہاں کچھ ایسا رُخ اختیار کرتی ہے:

آتے نہیں انداز مجھے حسنِ طلب کے

اے رحمتِ یزداں یہ مرا دستِ دعا ہے

میں بھلا کون کسی حرف پہ اُنگلی رکھوں

تو مرا کاتبِ مختار ہے جو تُو لکھے

            اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے ساتھ جب تک اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی تعریف بیان نہ کی جائے اس وقت تک حق ادا نہیں ہوتا۔ پاکستانی ادب میں نعتؐ ایک مقبول صنف کے طور پر سامنے آئی ہے۔ نعتؐ نے ۴۷ء کے بعد سے عہدِ موجود تک خوب عروج پایا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی تہذیبی اساس حضوراکرمﷺ کی محبت اور عشق پر قائم ہے۔ نعتؐ بذاتِ خود اپنے اندر کئی موضوعات سمیٹے ہوئے ہے۔ حضورِ پُرنورﷺ کی حیاتِ مقدسہ کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جو نعت نگاری کا موضوع بننے سے رہ گیا ہو۔ نعتؐ کہنے کے لیے صرف فنی مہارت ہی کافی نہیں بلکہ جب تک شاعر حضورﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کے ساتھ درج ذیل شرائط پر پورا نہ اُترے، نعتؐ  نہیں کہہ سکتا:

 ’’جب تک لفظ احرام باندھ کر نہ نکلیں، خیال باوضو نہ ہو، ذہن نعتؐ کا مضمون سوچ ہی نہیں سکتا۔ سانسوں میں عقیدت کے آبگینے پھوٹیں، دل کی ہر دھڑکن حرفِ سپاس بن جائے۔ لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آ جائے، چشمِ تر گنبدِ خضرا کا طواف کر رہی ہو، حضورِ اکرمؐ کے نقشِ پا کے تصوّر سے حریمِ دل کی گلیاں آباد ہوں، پلکیں بھیگی ہوئی ہوں اور سوزِ دل رگِ جاں بن جائے تو نعتؐ نوکِ قلم پر آتی ہے۔ ‘‘ [۵]

            انور مسعودنے حمد کی طرح نعتؐ میں بھی جداگانہ اسلوب برقرار رکھا ہے۔ اِن کا نعتیہ مجموعہ ’’باریاب‘‘ کے نام سے شایع ہو چکا ہے۔ نعتؐ کے باب میں شاعر تخئیل کی شان و شوکت کے باوجود آخر تھک ہار کر جس ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ کسی بشرسے حضورﷺ کی تعریف کا حق ادا نہیں ہو سکتاکیوں کہ خالقِ کائنات خود ثنا خوانِ مصطفٰے ؐ ہے۔ ذیل کے دو اشعار اسی ناکامی کا اعتراف ہیں :

فقط حصولِ سعادت کا اک بہانہ ہوا

کسی سے نعتِ پیمبرؐ کا حق ادا نہ ہوا

کوئی بھی اس کی تجلی سے آشنا نہ ہوا

نظر کو تنگیِ داماں سے کب گلہ نہ ہوا

            نعتؐ ہر ہیئت میں لکھی گئی۔ غزل، نظم، قطعہ، مخمس، مسدس الغرض ہر پیمانہ نعتیہ رنگ لیے اردو شاعری کے پیراہن کو اُجلاہٹ عطا کرتا نظر آتا ہے۔ انور مسعود نے بھی نعتؐ کے لیے مختلف پیمانوں کو برتا ہے۔ مسدس کی ہیئت میں کہی گئی نعت ؐ کے دو بند ملاحظہ ہوں جن میں حضورﷺ کی ذات اقدس سے دنیا کو پہنچنے والے چند عام فیوض و برکات کا تذکرہ ہے:

یہ مدعائے مشیت تھا اس کی بعثت سے

کہ آدمی کا تعارف ہوا اپنی عظمت سے

کتابِ زیست معطر ہے اس کی سیرت سے

سبق ملا یہ زمانے کو اس کی ہجرت سے

عزیز تر ہے وطن سے بھی گوہرِ مقصود

 ’’بہ روحِ  اعظم و پاکش دُرودِ نامحدود‘‘

وہ چاہتا تھا رہ و رسمِ زندگی بدلے

بگڑ گیا تھا جو اندازِ بندگی بدلے

بھٹک رہا تھا جو اسلوبِ آگہی بدلے

اسے یہ دھن تھی کہ اندر سے آدمی بدلے

وہ دورِ حضرتِ گردوں رکاب کیا کہنے

وہ انقلابِ سعادت مآب کیا کہنے

            انور مسعود کے نعتیہ اشعار اس لحاظ سے اہم اور معتبر ہیں کہ انھوں نے مبالغہ آرائی سے حتی الامکان دامن بچایا ہے اور صرف ان واقعات و معجزات کو نعتؐ کا موضوع بنایا ہے جن کے حوالے سیرت کی کتابوں میں دستیاب ہیں۔ البتہ اضافتوں کے ساتھ تراکیب کا زیادہ استعمال چند اشعار کو ثقیل بنائے ہوئے ہے۔ مثلاً:

ہے اسمِ سیّد و سالار و سرورِ عالم

دلوں میں ، ذہنوں میں جانوں میں گونجنے والا

بہ شکلِ مدحت و نعت و قصیدہ و توصیف

وہ نام ساری زبانوں میں گونجنے والا

وہ دخترانِ سرِ بام و دف بکف انور

وہ نام ان کے ترانوں میں گونجنے والا

            انور مسعود کی ایک نعتؐ اس انداز کی حامل ہے جیسے یہ خاص طور پر بچوں کے لیے کہی گئی ہو۔ زبان کی سادگی، عام بول چال کا انداز اور مثنوی کی ہیئت میں منفرد نعتؐحیاتِ طیبہ کی کئی جھلکیاں نمایاں کرتی ہے۔ پندرہ اشعار کی اس نعتؐ میں حضورﷺ کے سفر، ان کی یاد، صحابہ کرام کا ذکر، مکے کے لوگوں کا احوال، ہجرت، القابِ رسولؐ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضورﷺ کے حق میں گواہی وغیرہ کو سمویا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’اُن سا پیارا اور نہ کوئی‘‘ ۔ سادہ اسلوب کی حامل مذکورہ نعتؐ میں خیال اور جذبے کا حسین امتزاج ا آہنگ و موسیقیت کے ساتھ موجود ہے۔ احساسات اور شعریت سے بھرپور نعتؐ کے چند اشعار میں صداقتوں کی ناتمام داستان انفرادیتِ نعت کا نمونہ ہے:

جب وہ سفر پر جایا کرتے

بادل سر پر سایا کرتے

اُن کا نام لبوں پر آئے

میٹھا میٹھا منہ ہو جائے

اُن کی یاد کے صدقے، ہردم

آنکھ میں جھڑیوں والا موسم

اُن کے بول بہاروں جیسے

اور اصحاب ستاروں جیسے

اُن سا پیارا اور نہ کوئی

اُن سے بچھڑ کر لکڑی روئی

            داستانِ کربلا اردو ادب کا انتہائی اہم باب ہے۔ شہدائے کربلاؑ کے درد و غم نے شعرا کو ہمیشہ مغموم رکھا اور ان کے قلم سے ایسے ایسے گوہر پارے سامنے آئے جن سے غم حسینؑ کی نئی تعبیریں لوگوں تک پہنچیں اور کئی شعرا کی شناخت بھی ذاتِ حسینؑ ٹھہری۔ میر انیس اور دبیر کا نام سنتے ہی امام حسینؑ پر بیتنے والے مظالم اور نواسۂ رسولؐ کی بہادری و جانثاری بے اختیار یاد آ جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں شعرا حضرت امام حسینؑ کی ذات سے وابستہ رہے۔ جو امام سے جڑا، وہ امر ہو گیا اور اس کا کلام بھی۔ انور مسعود نے داستانِ کربلا بیان کرنے کے بجائے اوصافِ شہیدِ کربلاؑ بیان کرتے ہوئے اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ شعر میں واقعات کربلا بیان کرنا ناممکن ہے اور لاکھ مضمون باندھ لینے سے بھی تشنگی رہ جاتی ہے:

شعر میں کیسے بیاں ہو داستانِ کربلا

لاکھ مضموں باندھ لیجے تشنگی رہ جائے

            حضرت امام حسینؑ کی بے مثل قربانی سے اسلام کو دوبارہ زندگی ملی اور یزیدیت ہمیشہ کے لیے ظلم اور جبر کے استعارے کی صورت اختیار کر گئی۔ امام حسینؑ نے حق اور باطل میں تمیز کا معیار قائم کر دیا اور جابر قوتوں کے سامنے ببانگِ دہل کلمۂ حق کہہ کر تمام مسلمانوں کو حریت کا درس دیا۔ اردو شاعری میں لفظ حسینؑ جذبہ، عشق اور حریت کی علامتوں کے طور پر مستعمل ہے۔ انور مسعود نے شہیدِ کربلاؑ کو مختلف القاب سے یاد کیا ہے۔ ان کے ہاں جو القاب برتے گئے ان میں ’’شاہِ شہیدِ شہیر، روشن ضمیر، جاں نثار وغیرہ درج ذیل بند میں موجود ہیں :

مثیلِ شاہِ شہیدِ شہیر ناممکن

کوئی غریب ہو ایسا امیر ناممکن

حسینؓ سا کوئی روشن ضمیر ناممکن

جہانِ عشق میں اس کی نظیر ناممکن

 وہ جاں نثار عجب اک مثال چھوڑ گیا

کہ اس کا صبر ستم کا غرور توڑ گیا

  کہ ایک جرم ہے ظالم کے ساتھ جینا بھی

ii۔     عشق و محبت

             شاعری کا سب سے بڑا موضوع عشق و محبت رہا ہے۔ بابِ عشق کے بغیر شاعری کا دامن پھیکا اور روکھا ہے۔ تمام زبانوں کی شاعری عشق و محبت کے گرد گھومتی ہے اور اس لحاظ سے ہم عشقیہ شاعری کو آفاقی شاعری بھی کہہ سکتے ہیں۔ عشقیہ جذبات ومحسوسات پر محیط شاعری ’ذات‘ کے اولین تجربات کے ساتھ ذات سے باہر کے تجربات کی وسعت و ہمہ گیریت کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ عشق و محبت کے حوالے سے انسانی جذبات کے تمام رنگ اس موضوع میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ عشق، حُسن سے جنم لیتا ہے اور ہر نگاہ میں حُسن کا اپنا معیار ہے۔ لہٰذا جہاں حُسن ہو گا وہاں عشق ضرور موجود ہو گا:

 ’’عشق انسانی جذبات کا جوہر ہے۔ جہاں انسان ہے وہاں عشق ہے۔ انسانوں ہی پر کیا منحصر چاند اور چکور، شمع اور پروانہ، گل اور بلبل کا عشق، ضرب المثل ہے۔ دراصل عشق، حسن کی ستائش کا نام ہے۔ کائنات میں ہر طرف حسن اپنی رونمائی میں مصروف ہے اور دیدۂ بینا، نقاب کُشائی کی جرأت لے کر عشق کی لطیف اور زود اشتعال حرارت سے گزرنے کا نام۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۶]

            اردو شاعری کا خمیر عشق و محبت اور حسن کی ستائش سے اٹھا ہے۔ اس میں عشق حقیق و مجازی دونوں موجود ہیں اور عشقِ حقیقی کے لیے عشقِ مجازی کو ضروری قرار دیا جاتا رہا ہے۔ عشق کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ درد، غالب اور اقبال عشق کی مختلف صورتوں کے خالق ہیں۔ درد عشقِ خالقِ کائنات میں محو ہیں جبکہ غالب اپنے دنیاوی محبوب کا عاشق ہے۔ اقبال نے مقصد سے لگن اور اس کی خاطر جان تک قربان کر دینے کو عشق کہا ہے۔

            عام طور پر عشق و محبت، عاشق و معشوق کے درمیان تعلق کے معنوں میں استعمال ہو اہے۔ چونکہ اس راہِ پُر خار سے تقریباً ہر کسی کو گزرنا پڑتا ہے اور عمر کے لحاظ سے اس کی کیفیت بھی مختلف ہو سکتی ہے۔ بقول صدیق کلیم:

 ’’۔ ۔ ۔ محبت اور رومان زندگی کا حصہ ہیں اور ہر طبقے کے لوگوں میں محبت اور رومان ایک کڑی حقیقت بن کر پیش آتے ہیں۔ عنفوانِ شباب کی کیف آور تلخی اور شباب کی جلا دینے والی گرمی ان کی سماجی حیثیت اور مخصوص طرزِ زندگی کے باوجود بھٹیارے کے بچے اور زمیندار کے لڑکے کو ایک ہی شدت سے تنگ کرتی ہے۔ دونوں کے ذہنی انداز مختلف ہیں، تجربات مختلف ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘ [۷]

             انور مسعود کو عمر کے اس حصے میں مذکورہ تجربات سے گزرنے کا اتفاق ہوا جب وہ ایم۔ اے فارسی کے طالبِ علم تھے۔ ان کا عشق مجازی کامیابی کی منازل سے ہم کنار ہوا اور جلد ہی ان کی منگنی وہیں ہو گئی جہاں انور مسعود خواہشمند تھے۔ منگنی کے ایام میں ان کی خط و کتابت بھی ہوتی رہی اور پھر یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔ ان کی شاعری اپنے اندر تجرباتِ عشق و محبت کی مکمل داستان سمیٹے ہوئے ہے۔ عشق میں گرفتار ہونے کی خواہش، پھر اس کی ابتدا اور اسی طرح کیفیاتِ عشق کے تمام مراحل ان کے ہاں ایک مربوط صورت میں ملتے ہیں لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ عشق کی یہ کیفیات شاعری کی حد تک ناکامی کے عنصر کو عیاں کرتی ہیں۔ ذیل میں ان تمام مراحل کا تجزیہ پیش ہے۔

            ابتدائے عشق کی کیفیت، جب شاعر کے اندر اس راہ پر چلنے کی تمنا جنم لیتی ہے تو وہ شوقِ ملاقات لیے پھرتا ہے لیکن ابھی اس کے محبوب نے پیکر کی صورت اختیار نہیں کی بلکہ شاعر کا دل اپنے محبوب کا سراپا ذہن میں بسائے ہوئے ہے۔ اس وقت اس کے اندر عشق حقیقی و مجازی دونوں کی کیفیت موجود ہے:

اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے

اور مجھے شوقِ ملاقات لیے پھرتا ہے

بس یونہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں

آئینے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں

اس حسیں کے خیال میں رہنا

عالمِ بے مثال میں رہنا

            اس کے بعد عشق کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ شاعر کو جس محبوب کی تلاش تھی وہ اس کو مل گیا ہے۔ محبوب ابھی کھل کر سامنے آنے سے کترا رہا ہے۔ حجاب کے انداز قائم ہیں لیکن شاعر کی تمنائے محبت کو اک راہ مل چکی ہے۔ اب وہ محبوب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ وعدے و پیمان کی جانب مائل ہوتا ہے اور محبوب کے لیے شعر کہتا ہے لیکن محبوب کے حسن، اس کی اداؤں اور اس کے ساتھ تعلقات کے بیان میں شائستگی اورسلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ محبوب کے سراپا کے حوالے سے شاعر کا پاکیزہ اور سلجھا ہو اظہارِ محبت خاصا تکلف لیے ہوئے ہے:

دل کو کھینچے ہے یہ دو رنگ رویہ اس کا

سامنے آنکھ چرائے، مجھے چھپ کر دیکھے

کہی نہ جائے اسے بات لب پہ آئی بھی

بڑا حجاب ہے یہ رسمِ آشنائی بھی

آئینہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں

تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے

تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے

            اب عشق و محبت کا تیسرا عہد آتا ہے۔ اس سے پہلے شاعر کو محبت کے لطیف لمحات میسر آئے۔ اس نے محبوب کے حسن و ادا کو جان و دل میں بسایا اور اس کے خیال سے دل کی دنیا کو آباد کیا۔ اب تیسرے مرحلے میں گلوں شکوو ں کا آغاز ہوتا ہے۔ شاعر جو پہلے یہ سمجھتا تھا کہ اس کا محبوب بھی اس کی طرح ہمہ تن اسی کی یاد میں مصروف رہتا ہو گا، اس کی بے پرواہی شاعر کو اداس کر دیتی ہے۔ اب شاعر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے محبوب کے دل میں اس کے لیے پہلی سی محبت نہیں رہی۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر بدک جاتا ہے لیکن اس کے باوجود محبت کا شعلہ سرد ہونے کے بجائے مزید بھڑک اٹھتا ہے۔ قصۂ محبت کا ایک اور عہد درج ذیل اشعار میں دکھائی دیتا ہے:

چین کا دشمن ہوا اک مسئلہ، میری طرف

اُس نے کل دیکھا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں

پھر اس نے اور کوئی بات چھیڑ دی انور

مجھے تو اس سے کوئی اور بات کرنی تھی

اپنے سوا بتاؤ کبھی کچھ ملا بھی ہے

سو بار تم نے لیں مرے دل کی تلاشیاں

ہمیں قرینہ رنجش کہاں میّسر ہے

ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلہ کرتے

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے

وہ  ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے

مل جائے نہ یہ تاج و قبا اور کسی کو

وہ سونپ نہ دے بارِ وفا اور کسی کو

            پھر واقعتاً محبوب بے اعتنائی برتنے لگتا ہے اور شاعر محبوب کے سرد رویے کی شکایتیں کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اسے یہ امید بھی ہے کہ کبھی نہ کبھی محبوب دوبارہ اس کی جانب ملتفت ہو گا لیکن اس کی یہ امید بر نہیں آتی۔ شاعر محبوب سے شکوہ کرتا ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی آنکھیں اور خواہشیں رکھتا ہے اور مجھے کیا معلوم کہ محبوب کی آنکھوں میں اب کیا جچتا ہے اور کیا نہیں جچتا۔ محبوب کی جدائی شاعر کی زندگی کا لطف برباد کر گئی ہے اور وہ ہر وقت یادِ محبوب میں تڑپتا ہے۔ گزرے واقعات یاد کر کے وہ آنسو بہاتا ہے۔ اب اس کی غزلوں کے مطلعے اور مقطعوں میں آنسو بہانے، رونے اور رُلانے کے الفاظ عام استعمال ہونے لگ گئے ہیں۔ داستانِ عشق و محبت کا ایک اور باب درج ذیل اشعار میں ملاحظہ کیجیے:

دل سلگتا ہے ترے سرد روّیے سے مرا

دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں

مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں

کھل کر رو لینے کی فرصت پھر نہ اُس کو مل سکی

آج پھر انور ہنسے گا بے تحاشا دیکھنا

اے دلِ ناداں کسی کا روٹھنا مت  یاد کر

آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ

ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں

کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا

کیا کروں اس کی طرح میں نہیں بد خو ورنہ

سو بہانے  ہیں اگر بات بڑھانا چاہوں

            درج بالا اشعار کے علاوہ کئی دیگر اشعار شرحِ عشق و محبت لیے انور مسعود کے کلام میں موجود ہیں۔ اب واقعاتِ محبت کا آخری مرحلہ آتا ہے جب شاعر بیتے وقتوں کو یاد کرتا ہے۔ محبوب سے جدائی پختہ ہو چکی ہے۔ اب شاعر اکیلے میں محبوب کے اشاروں کنائیوں کو یاد کرتا ہے جن کا مفہوم اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ وہ سہانے سپنے اور بننے سنورنے کا خیال شاعر کو مضطرب رکھتا ہے جو عہدِ محبت کی یادگار ہیں۔ ’’اِک دریچہ، اِک چراغ‘‘ میں ایسی ہی ایک مکمل غزل ملتی ہے جس میں ماضی بعید کے واقعاتِ  محبت کا تمام افسانہ مقید ہے اور ہر شخص اس سے لطف لے سکتا ہے:

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا

جو گردِ متن بنا تھا وہ حاشیہ بھی گیا

وہ دلربا سے جو سپنے تھے لے اُڑیں نیندیں

دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا

ہمیں بھی بننے سنورنے کا  دھیان رہتا تھا

وہ ایک شخص کہ تھا ایک آئینہ بھی، گیا

بڑا سکون ملا آج اس کے ملنے سے

چلو یہ دل سے توقع کا وسوسہ بھی گیا

بس ایک لحظے کے اندازِ ترش روئی سے

چڑھا ہوا تھا جو مدت سے وہ نشہ بھی گیا

عجب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں

سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا

گُلوں کو دیکھ کے اب راکھ یاد آتی ہے

خیال کا وہ سہانا تلازمہ بھی گیا

مسافرت پہ میں تیشے کے سنگ نکلا تھا

جدھر گیا ہوں مرے ساتھ راستہ بھی گیا

ہمیں تو ایک نظر نشر کر گئی انور

ہمارے ہاتھ سے دل کا مسودہ بھی گیا

            انور مسعود نے عشق و محبت کا موضوع بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں الفاظ کے عمدہ برتاؤ کے ساتھ تجربے کا احساس نمایاں ہے اور عشق کی آگ میں جلنے کے تمام مراحل تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں جن کا تجزیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ شاعر کو خود مراحلِ عشق سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے اور تجربے کے بغیر ایسے اشعار کی آمد ہر گز ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب دوسری جانب ان کی سوانح کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہمیں کسی ایسی داستان کا سراغ نہیں ملتا جس میں اشارتوں کی درج بالا شرحیں موجود ہوں۔ لہٰذا یہاں یہ کہنا درست ہو گا کہ ان کے ہاں عشق و محبت کا یہ باب اردو شاعری کی روایت کو مدّ نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے جس میں خیالی محبوب شاعر کے ساتھ ہمیشہ بے اعتنائی برتتا ہے۔

iii۔    سیاسی وسماجی اضطراب

            قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ملک میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔ ایک ایسی مملکت جس کا متفقہ آئین تک موجود نہیں تھا، سیاستدانوں کی کھینچا تانی اور بیوروکریسی کی سازشوں میں مقید ہو کر رہ گئی۔ پہلا وزیرِ اعظم شہید کر دیا گیا۔ عوام کے مسائل اور ان کی ضروریات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا اور ذاتی مفاد کا حصول پہلی ترجیح بن کر رہ گیا۔ اس دوران فوجی جرنیلوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ضروری سمجھے اور حکومت پر قبضہ کر کے ملک کو عالمی دنیا میں بدنام کرنے کا آغاز کیا۔ جن کی انتھک قربانیوں سے ملک حاصل ہوا تھا، انھیں بالکل نظر انداز کر کے انگریزوں کے وظیفہ خوار اقدار پر براجمان ہوتے چلے گئے۔ اقتدار کے حصول کی گھناؤنی کشمکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے جلد ہی پاکستان کا ایک بازو علیٰحدہ کر دیاجس سے عوام کی آرزوئیں اور تمنائیں دم توڑ گئیں۔ ملک سیاسی افراتفری، اخلاقی اقدار کی پامالی، معاشی بدحالی اور سماجی و معاشرتی زبوں حالی کا شکار ہونے لگا۔ ہر شعبۂ زندگی میں سفارش، رشوت، لوٹ مار، بددیانتی، اقربا پروری اور نا اہلیت کا دور دورہ دکھائی دینے لگا اور امید کی کوئی کرن روشن نہ رہی۔

            ایسے میں شعرا اور ادیبوں نے عوام اور معاشرے کی بھرپور ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے کا بیڑا اُٹھاتے ہوئے معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی بوالہوسی و کوتاہ اندیشی پر حکمرانوں اور معاشرے میں پھیلے ناسوروں کو آئینہ دکھایا۔ کوئی بھی صاحبِ فن اپنے گردو پیش سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس کے فن میں اپنے عہد کی ترجمانی کا اظہار ہمیشہ موجود رہا ہے۔

            انور مسعود نے بھی ظلم اور جبر کے حالات و واقعات میں اپنے آپ کو قید پایا۔ عوامی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے ان کو حالات کا گہرا ادراک تھا اور عوام پر بیتنے والے مظالم سے ان کو بھرپور آشنائی تھی۔ ملک میں طالع آزماؤں کے قبضہ سے لے کر عام افراد کے ساتھ ہونے والے توہین آمیز رویے تک ان کی سنجیدہ شاعری کا حصہ ہیں۔ انورمسعود نے وطن کو درپیش مسائل و مصائب کے محرکات و عوامل کو غزل کی روایتی دردمندی کے ساتھ ساتھ نئے پیرایہ اظہارسے ہم کنار کیا ہے۔ سیاسی خلفشار اور عدم استحکام کا شاعرانہ تجزیہ ان کی سنجیدہ شاعری میں کئی روپ لیے ہوئے ہے۔ تنقید و تنقیص کا ایک روپ دیکھیے:

میں جرمِ خمو شی کی صفائی نہیں دیتا

ظالم اسے کہیے جو دھائی نہیں دیتا

کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ

میں ورنہ تمھیں اذنِ رہائی نہیں دیتا

چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر

اور دستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں، رستا بھی، چراغوں کی ضیا بھی

سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کے مانند ہے انور

بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا

            پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعدسیاسی طور پر امریکہ کے زیرِ اثر آ گیا اور یہاں کا معاشی نظام بھی امریکیوں کا دستِ نگر بن کر رہ گیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے ان ازلی دشمنوں نے پاکستان میں کبھی بھی کسی قسم کا سیاسی، معاشی، مذہبی اور معاشرتی استحکام نہیں آنے دیا۔ پاکستانی معیشت آہستہ آہستہ ان کی چالوں میں پھنستے ہوئے آخر کار امریکیوں کی دستِ نگر بن گئی۔ ہر حکمران ان کی معاشی پالیسیوں پر دانستہ ونادانستہ عمل کرتا رہا جس کے نتیجے میں غربت، بے روزگاری، بدامنی اور افراطِ زر عوام کا مقدر بن چکی ہے۔ پاکستان کے عوام ہر نئے حکمران کو امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ شاید اب وطن کی قسمت میں مثبت تبدیلی آئے لیکن یہ تمام تمنائیں اس وقت دم توڑ جاتی ہیں جب مسائل پہلے سے کہیں بڑھ کر عفریت کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اسی معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے شعرا نے ان حالات پر شدید ردّ عمل ظاہر کیا ہے۔ انور مسعود نے امید اور یاس کی ان کیفیات کو بھرپور طریقے سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے:

پھل پھول لگاتا ہے کہ اب آگ لگا دے

کس پیڑ کو معلوم ہیں موسم کے ارادے

دامنِ خوشبو پہ کیا کیا داغِ رسوائی نہیں

اب تو کوئی شاخ پھولوں کی تمنائی نہیں

کیسی کیسی پُرسشیں انور رُلاتی ہیں مجھے

کھیتوں سے کیا کہوں میں اَبر کیوں برسا نہیں

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی

اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

تیرہ بختی کا ہماری کوئی دارو لکھے

کون اس لوحِ سیہ رنگ پہ جگنو لکھے

اتنے پُر ہول بھلا خواب کہاں ہوتے ہیں

جاگتی آنکھوں نے کیا کیا نہیں منظر دیکھے

جہاں اک بانسر ی بجتی رہی ہے

وہاں اک شہر بھی جلتا رہا ہے

             انور مسعود کی شاعری احتجاج اور قلمی جہاد کا ایک کامیاب فنی اظہار ہے۔ ان کی شاعری میں منفی رجحانات رکھنے والے سیاستدانوں، صداقت ومساوات کی اقدار مجروح کرنے والے آمروں اور زندگی کا حسن مٹانے والے نام نہاد رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ ان کی نظم ’’رہرو و رہنما‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس نظم میں رہرو کا سوال اپنے اندر کتنی حقیقتیں سمیٹے ہوئے ہے، اس کا اندازہ انور مسعود کی زبانِ طرح دار سے سنئے :

رہرو:    ترے حضور میں آیا ہوں اک خلش لے کر

            بہت دنوں سے سوال ایک پوچھنا چاہوں

            میں  تابکے سرِ قرطاس کرچیاں دیکھوں

            ہر اک زباں پہ دلِ لخت لخت کا مضموں

            برس  رہے ہیں سماعت پہ آتشیں کنکر

            جہاں کہیں سے بھی کچھ گفتگو ذرا سنئے

            شکستہ خستہ صداؤں کا سلسلہ سنئے

            چٹخنے، گرنے، بکھرنے کا ماجرا سنئے

            مجھے کچھ اس کی حقیقت بتا مرے رہبر

مرے وطن میں یہ طرزِ ہنروراں کیوں ہے؟

کہ تار تار نوائے مغنیاں کیوں ہے؟

تنِ بریدہ متاعِ مصوراں کیوں ہے؟

            آمریت زدہ معاشروں میں مثبت اقدار دم توڑنے لگتی ہیں۔ بے حسی عام ہو جاتی ہے اورہر شخص دوسرے سے لا تعلق ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے حبس زدہ معاشرے میں جبریت اور ظلم قوت پکڑ جاتے ہیں اور ان کو لگام دینے والا کوئی نہیں رہتا بلکہ ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو صرف اپنی ذات سے دلچسپی ہوتی ہے اور دوسروں کی تکالیف کو نظر انداز کرنے کا چلن عام ہو کر معاشروں کو تباہی کی عمیق و تاریک گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ کئی عشروں سے پاکستانی معاشرہ خصوصاً شہری لوگوں کا طرزِ عمل بڑی تیزی کے ساتھ درج بالا اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی دلدل میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے ہی معاشرے کے متعلق انور مسعود یوں نوحہ کناں ہیں :

دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے

ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے

ہر کوئی ظلم کا بڑھتا ہوا لشکر دیکھے

کون منقارِ ابابیل میں کنکر دیکھے

گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے

کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں

سمٹ رہے ہیں ستاروں کے فاصلے انور

پڑوسیوں کو مگر کوئی جانتا بھی نہیں

جھانکا ہے دلوں میں تو یہ محسوس ہوا ہے

یہ دور تو پتھر کے زمانے پہ گیا ہے

کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے

کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں

            عالمی استعمار نے کبھی بھی پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہیں کیا اوراسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ان طاقتوں کو وطنِ عزیز سے کئی میر جعفر اور میر صادق ہمیشہ نئے نئے روپ میں ملتے رہے جنھوں نے پہلے پاکستان کو دولخت کیا اور پھر باقی ماندہ ملک کے درپے ہو گئے۔ انور مسعود نے ان غداروں اور عالمی طاقتوں کو للکارا ہے اور عوام میں امید اور رجا کو زندہ رکھا ہے۔ غاصبوں کا انجام ہمیشہ ان کے پیشِ نظر رہا۔ عالمی استعمار کی سازشوں اور ان کے ظلم وستم کے بارے میں انور مسعود نے تاریخی واقعات کو اپنے اشعار کا حصہ بنایا ہے۔

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غمخواروں میں

کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں

زہر ایجاد کرو او ر یہ پیہم سوچو

زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں

اب تو بارود کا اک ڈھیر بنی ہے دنیا

اب تو باقی ہے فقط ایک دھماکا ہونا

iv۔    متفرق موضوعات

            انور مسعود کے ہاں موضوعات کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ درج بالا بڑے بڑے موضوعات کے ساتھ کئی چھوٹے لیکن اہم موضوعات ان کے ہاں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ درج ذیل ہے:

            موت کا تذکرہ ان کی کئی نظموں اور غزلوں میں تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔ کہیں موت کو اشارے کنائیوں میں یاد کیا گیا ہے اور کہیں واضح طور پر اس کا اظہار کیا گیا ہے۔ نظم ’’چندا اور دھرتی‘‘ کی ابتدا میں ایک ننھا بچہ اپنے باپ سے جگنو پکڑ کر دینے کی خواہش کرتا ہے تو اس کا باپ کہتا ہے کہ تُو جگنو کا کیا کرے گا؟ اس کے جواب میں بچہ کہتا ہے ’’میں رکھ دوں گا جگنو کو پانی کے اک بلبلے میں ‘‘ اور دوبارہ جگنو پکڑ کر دینے کے لیے اصرار کرتا ہے تو اس کا باپ جس انداز میں جواب دیتا ہے اس سے زندگی کے فنا ہونے اور موت کی حقیقت کا اشارہ ملتا ہے۔ باپ کا جواب ملاحظہ ہو:

                        مرے پیارے بیٹے!

                        مجھے تیری معصوم خواہش ہے پیاری

                        مگر خوف یہ ہے

                        میں جگنو تو لاؤں گرفتار کر کے

                        اور اتنے میں یہ بلبلا ٹوٹ جائے!

            یہاں زندگی کو پانی کا بلبلا بتایا گیا ہے، جس کو گھڑی دو گھڑی سے زیادہ زندگی نصیب نہیں ہوتی۔ جگنوانسانی خواہشات کی علامت ہے، جو کبھی پوری نہیں ہوتیں اور آخر کار زندگی کا ’’بلبلا‘‘ ٹوٹ جاتا ہے۔

            ان کی ایک اور نظم ’’اُولٰئک ھُمُالغافِلُون‘‘ میں موت کے تصور کو بغیر کسی استعارے و کنائے کے ہر خاص و عام کو یاد کرایا گیا ہے۔ انسان زندگی کے کھیل تماشوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اس کو اپنے فانی ہونے کا احساس تک نہیں رہتا۔ ہر روز کئی جنازے اٹھتے ہوئے ہر کوئی دیکھتا ہے اور ان کو کندھا بھی دیتا ہے۔ لیکن جب اس کو دفنا کر واپس لوٹتے ہیں تو ان کی کیفیت وہی پرانی ہو جاتی ہے اور لوگ اپنی موت کو دوبارہ بھول جاتے ہیں۔ یہ مختصر نظم اپنے اندروسیع مضمون کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ایجاز و اختصار کے ساتھ تخئیل و مشاہدے کی ایک صورت اس نظم میں دیکھیے:

                                    روز و شب کے میلے میں

                                    غفلتوں کے مارے ہم

                                    بس  یہی  سمجھتے  ہیں

                                    ہم نے  جس کو  دفنایا

                                    بس  اسی کو  مرنا  تھا

             ’’موت‘‘ کے تصور کی یاد لیے انور مسعود کی غزلیات کے چند مزید اشعار درج ذیل ہیں :

سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے

اپنے سائے کو بھی جو ساتھ لیے پھرتا ہے

کب تلک روح کے پرندے کا

ایک مٹی کے جال میں رہنا

اُس گھڑی کا خوف لازم ہے کہ انور جس گھڑی

دھر لیے جائیں گے سب اور سب دھرا رہ جائے گا

اُف چٹخنے کی صدا سے کس قدر ڈرتا ہوں میں

کتنی باتیں ہیں کہ دانستہ جنھیں سوچا نہیں

            نظم ’’گھر‘‘ میں مشاہداتی اور تجزیاتی وسعت کے حامل تجربات کا عکس واضح ہے۔ اس نظم میں اس فلسفے کو سمویا گیا ہے کہ کوئی گھرانہ چاہے امیر ہو یا غریب، کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کا رہن سہن کچھ بھی ہو اور وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو، ان تمام لوگوں کے گھروں کے اندرونی مناظر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ انسانوں کی صرف دکھائی دینے والی صورتیں ہی مختلف ہوتی ہیں جبکہ ان کے تمام دکھ اور مصائب و آلام تقریباً ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں :

                        چھپے ہیں اشک دروازوں  کے  پیچھے

                        چھتوں نے سسکیاں ڈھانپی ہوئی ہیں

                        دُکھوں  کے گرد  دیواریں  چُنی  ہیں

                        بظاہر  مختلف  شکلیں  ہیں  سب کی

                        مگر اندر  کے منظر  ایک  سے  ہیں

                        بنی آدم کے سب گھر ایک  سے  ہیں

            عالمی تناظر میں انور مسعود نے مسلم ممالک کے لوگوں پر عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے ظلم وستم کو طشت از بام کیا ہے۔ کشمیر، فلسطین اور بوسنیا کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مصائب ہمیشہ سے ان کے پیشِ نظر رہے ہیں۔ قائد اعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور مسلمانوں کی اکثریت کے اس خطے کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے جب وہاں کے مقامی باشندوں نے حریت کی راہ اپنائی تو بھارتی درندوں نے اس جنت نظیر علاقے میں اپنے خونخوار لشکروں سے تباہی برپا کر دی۔ انورمسعود نے اس تباہی و بربادی کا نقشہ کھینچتے ہوئے جہاں آزادی کی امیدوں کو روشن کیا ہے وہاں عالمی ضمیر کو بھی گریبان سے پکڑا ہے:

اب دل متحمل نہیں اس بارِ الم کا

ہر منظرِ زیبا پہ جو سایہ ہے ستم کا

اب  جنتِ کشمیر میں بارود کی بُو ہے

شبنم کی جگہ پھول کے مکھڑے پہ لہو ہے

زخموں کی طرح دکھتے ہیں غنچوں کے دہن بھی

خنجر میں پرو دیتے ہیں کلیوں کے بدن بھی

دنیا کو سکھاتے ہیں جو آدابِ عدالت

دنیا کے جو بن بیٹھے ہیں اربابِ عدالت

سہما ہوا پھرتا ہے عدو برقِ تپاں سے

اب لرزہ بر اندام ہے آوازِ اذاں سے

چھٹ جائے گی یہ ظلمتِ شب قوتِ حق سے

پھوٹے گی سحر خونِ شہیداں کی شفق  سے

            انورمسعودنے اسی طرح بوسنیا کے مظلوم عوام پر عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور ظلم وستم کے خونی مناظر کو آئینہ دکھایا ہے۔ نظم ’’بوسنیا‘‘ میں عالمی طاقتوں پر لعن طعن کرتے ہوئے ان کی طاقت کے غلط استعمال کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ ایک جانب امن کا درس دینا اور کتوں کا منہ چومنا جبکہ دوسری جانب بے قصور انسانوں کا بلا جواز قتل، ہنستے بستے قریوں کی تباہی اور شہروں کو قبرستانوں میں بدل ڈالنے جیسے جرائم ان قوتوں کے چہرے پر بدنما دھبہ ہیں جن کی خبر انور مسعود نے کچھ یوں لی ہے:

آج تمھاری خونخواری پر حیرت ہے حیوانوں کو

تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو

کتنے ہی معصوم سروں سے تم نے چھاؤں چھینی ہے

کتنا دکھ پہنچایا تم نے ننھی ننھی جانوں کو !

اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے

کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو

            زندگی کے انمول بیتے لمحوں کی یادیں بھی انور مسعود کی شاعری کا ایک خاص موضوع ہیں۔ ان یادوں میں بچپن، جوانی اور اس کے بعد کی زندگی شامل ہے۔ اپنی حیات کے ابتدائی لمحات اور بچپن کا بھولپن یاد کر کے ذہن و دل کو تازگی دیتے ہوئے کہتے ہیں :

            وہ کتنے حسین بسیرے تھے

            جب دور غموں سے ڈیرے تھے

            جو کھیل میں حائل ہوتا  تھا

            نفرین  کے  قابل  ہوتا   تھا

            ہر اک  سے اُلجھ کر رہ  جانا

            رُک  رُک کے بہت کچھ کہ جانا

            ہنس دینا  باتوں باتوں پر

            برسات  کی کالی  راتوں   پر

            معصوم فضا میں رہتے تھے

            ہم  تو  یہ سمجھ  ہی  بیٹھے  تھے

            خوشیوں کا  اَلم انجام نہیں

            دنیا  میں  خزاں  کا  نام نہیں

            بچپن اور لڑکپن کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے جب انسان کئی حقیقتوں سے آشنا ہو کر دنیا کے کام دھندوں میں کھو جاتا ہے اور اس کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا خیال تک نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ساتھ غمِ روزگار کے پھندے میں پھنس کر کئی مصائب انسان کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مصائب مہیب صورتوں میں انسان کو ہر سمت سے گرفتار کر کے بڑھاپے کی منزل تک لے آتے ہیں اور پھر ہر لمحہ موت کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے :

                        وہ   دور  مقدس   بیت گیا                   یہ وقت  ہی  بازی  جیت گیا

                        جینے کا  سفر  اب دوبھر ہے               ہر گام پہ  سو  سو  ٹھوکر  ہے

                        وہ دل  جو رُوحِ قرینہ  تھا                  آشاؤں  کا  ایک خزینہ  تھا

                        اُس دل میں نہاں اب نالے ہیں                   تاروں سے زیادہ چھالے ہیں

                        غم تیز  قدم  پھر بھرتا ہے               خوشیوں کا  تعاقب کرتا  ہے

                        میں سوچتا رہتا ہوں یونہی               آخر یہ  تفاوت  کیا   معنی

                        یہ سوچ  عجب  تڑپاتی ہے                  آنکھوں میں نمی بھر جاتی  ہے

                        پھر مجھ سے دل یہ کہتا ہے               ماضی  کو  تو  روتا رہتا  ہے

                        یہ حال بھی ماضی ہونا ہے               اس پر بھی  تجھے کچھ رونا  ہے

            ایسے ہی کئی موضوعات کا مختصر لیکن پُر معنی احوال انور مسعود کی سنجیدہ شاعری کا حصہ ہے۔ موضوعات کی وسعت نے ان کی شاعری کو معاشرے کے تمام طبقات کے لیے قابلِ قبول بنا دیا ہے اور ہر خاص و عام کو انورمسعود کے ہاں اپنے مزاج اور پسند کے مطابق شاعری کا انتخاب باآسانی مل سکتا ہے۔ ہر موقع محل کے مطابق ان کے اشعار قابلِ استعمال ہیں اور ان کو تقاریر و تحاریر کے سرنامے کے طور پر بھی برتا جا سکتا ہے۔ انھیں خصوصیات کی بنا پر یہ کہا جا سکتاہے کہ انور مسعودطنزیہ و مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی سنجیدہ شاعری کے حوالے سے بھی اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

۳۔    تراجم

            انور مسعود کے سنجیدہ شعری مجموعے ’’اک دریچہ، اک چراغ‘‘ میں ’’اردو کے پیراہن میں ‘‘ کے عنوان سے مختلف زبانوں کے نامور شعرا کی شعری تخلیقات کو تراجم کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ ان میں فروغ فرخ زاد، شیکسپیئر، نزار قبانی، ایدریان مچل، پروین اعتصامی، اقبال، حافظ، غالب اورراہی معیری شامل ہیں۔ کسی بھی زبان کے تراجم کے لیے اُس زبان میں مہارت از حد ضروری ہوتی ہے اور منظوم ترجمہ تو خونِ جگر کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ انور مسعود نے ساری عمر فارسی زبان و ادب پڑھانے اور اس میں کمال حاصل کرنے میں صرف کر دی۔ حافظ شیرازی، غالب دہلوی اور علامہ محمد اقبال کی تخلیقات کا اردو کے پیراہن میں منظوم ترجمہ دیکھیے جس سے انور مسعود کی ایک اور فنی جہت کھل کر سامنے آ جاتی ہے:

واعظِ شہر کہ مردم ملکش میخوانند

قولِ مانیز ہمین است کہ او آدم نیست

                                                                        حافظ شیرازی

لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ

ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں

                                                                        انور مسعود

گفتگو آئینِ درویشی نبود

ورنہ باتو ماجرا ہا داشتیم

                                                                        حافظ شیرازی

گفتگو آئینِ درویشی نہیں

ورنہ تجھ سے کیا نہیں کہنا مجھے

                                                                        انور مسعود

مضمونِ شعر نوٹ بُود فی زمانِ ما

یعنی بدست ھر کہ فتاد است آن اوست

                                                                        غالب دہلوی

مضمونِ شعر نوٹ کی صورت ہے ان دنوں

یہ چیز جس کے ہاتھ لگی اُس کی ہو گئی

                                                                        انور مسعود

دلِ مُلاّ گرفتارِ غمے نیست

نگاہے ہست در چشمش نمے نیست

ازاں بگریختم از مکتب او

کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست

                                                                        علامہ اقبال

دلِ واعظ میں کوئی غم نہیں ہے

نظر رکھتا ہے، چشمِ نم نہیں ہے

میں اس کی گفتگو سے بھاگتا ہوں

کہ اس کی ریت میں زمزم نہیں ہے

                                                                        انورمسعود

            انور مسعود نے اپنی ہی پنجابی شاعری میں سے کچھ تخلیقات کو اردو کا پیراہن پہنایا ہے۔ وہ مضامین جو پنجابی شاعری میں بیان ہوئے، اردو میں الفاظ کے بدلنے پر بھی وہی مفہوم رکھتے ہے۔ ان کی اپنی پنجابی شاعری سے اردو زبان میں ترجمہ کی دو مثالیں دیکھیے:

                        پنجابی اشعار                                اردو میں ترجمہ

            گیند مٹی دا تریڑاں دے حوالے ہو گیائے                 رفتہ  رفتہ  رخنہ  رخنہ  ہو گئی  مٹی کی گیند

            سوچناں اخبار تے دنیا دا نقشہ  ویکھ  کے                       اب خلیجوں کے سواکیا  رہ گیا  نقشے کے بیچ

            بخت مرے دی تختی اُتے لکھو تُسی جو چاہو                 میں بھلا کون کسی  حرف  پہ  انگلی  رکھوں

            میں کیہڑا میں کون کسے وی حرف تے انگلی رکھاں         تو  مرا  کاتبِ  مختار  ہے  جو  تو لکھے

            منظوم ترجمے سے ہٹ کر رواں ترجمے کی مثال ان کو حکومتِ پنجاب کے انفارمیشن، کلچر اینڈ ییوتھ افیئرز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ملنے والا وہ کام ہے، جس میں انور مسعود نے میاں محمد بخش کی شاہ کار شعری تخلیق ’’ سیف الملوک ‘‘ کا ترجمہ کر کے کلامِ میاں محمد بخش کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ انورمسعود نے اا جون۲۰۰۹ء کو ایک ملاقات میں راقم کو بتایا کہ ترجمے کا یہ کام بہت محنت طلب اور مشکل ترین تھا۔ اس کام کے دوران اُن کی ٹانگیں جواب دے گئیں اور کئی چیزوں کے ناموں کی تشریح کے لیے انھیں عرصے تک جستجواورتحقیق سے کام لینا پڑا۔ اسی ترجمے کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں :

 ’’سیف الملوک کا شعر بہ شعر اردو نثر میں ترجمہ کرتے ہوئے مجھے تمدنی اور زمانی بُعد سے پیدا ہونے والی کئی ایک پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لباس، خوراک، آلاتِ موسیقی، آلاتِ جنگ اور اس قسم کی کئی ایک چیزوں کے نام اب بالکل سمجھ میں نہیں آتے۔ یہی معاملہ کئی اور اصطلاحات اور تلمیحات کا ہے۔ اس سلسلے میں لغات بھی چپ سادھ لیتی ہیں اور پھر قیاسی معنی اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۸]

٭٭٭

                حوالہ جات

۱۔         انور مسعود، اک دریچہ، اِک چراغ، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸ اے، خیابانِ سہر وردی، پوسٹ بکس نمبر ۲۸۵۸، ۲۰۰۸ء، ص ۱۰

۲۔        سیّد ضمیر جعفری، تائیدِ ضمیرمشمولہ قطعہ کلامی،  انور مسعود، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸ اے، خیابانِ سہر وردی، پوسٹ بکس نمبر ۲۸۵۸، ، ۱۹۹۹ء، ص ۱۲

۳۔        رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء، ص۱۰۴

۴۔         انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقیِ اردو پاکستان، ڈی ۱۵۹، بلاک۷، ، گلشنِ اقبال، اشاعت چہارم، ۱۹۹۹ء، ص۲۰۸

۵۔        غفور شاہ قاسم، پاکستانی ادب:شناخت کی نصف صدی ، راولپنڈی، ریز پبلی کیشنز، اے ۱۴، سیکنڈ فلور، تاج محل پلازہ، سکستھ روڈ        چوک، مری روڈ، اگست۲۰۰۰ء، ص۱۶۹

۶۔         ساجد امجد، ڈاکٹر، پروفیسر، اردو شاعری پر برصغیر کے تہذیبی اثرات، لاہور،  الوقار پبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر ۷۱۰۴، اشاعت ۲۰۰۳ء، ص ۱۵۰

۷۔         صدیق کلیم، فکرِ سخن، لاہور، مجلس ترقیِ ادب، ۲ کلب روڈ، اشاعت اوّل، جنوری ۲۰۰۸ء، ص ۱۴۱

۸۔        انورمسعود، سیف الملوک(اردو نثری ترجمہ)، ابتدائیہ، غیر مطبوعہ، ص۶

٭٭٭

 

باب چہارم:  محاکمہ

 

طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے حوالے سے انور مسعود کے مرتبے کا تعین

            طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری کے پاکستانی عہد میں کئی نامور مزاح گو شعرا اُفقِ شاعری پر نمودار ہوئے اور اس وقت ان کی روشنی سے طنزو مزاح کا آسمان پوری طرح منور ہے۔ ۴۷ء سے پہلے لے دے کر نظیر اور اکبر کے نام ذہنوں میں نمایاں تھے۔ ان میں بھی نظیر کی شاعری فحاشی اور ابتذال کے زمرے میں شمار کی جاتی رہی۔ ’’اودھ پنچ‘‘ مزاحیہ شاعری کی ترویج میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے طنزو مزاح کے بہتر نمونے سامنے آئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزاحیہ شعرا کو معاشرے میں اہمیت دی جانے لگی۔ سنجیدہ مشاعروں کی حد سے بڑھی ہوئی سنجیدگی کو دور کرنے کے لیے درمیان میں مزاحیہ شاعروں کو دعوتِ سخن دی جانے لگی تو عوام نے اس کی پذیرائی کی۔

            قیامِ پاکستان کے بعد مزاحیہ شاعری نے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا اور ۸۰ء کے عشرے میں الیکٹرانک میڈیا کی توجہ سے یہ پاکستان کی حدود کو پھلانگتی ہوئی ہر اُس خطے تک جا پہنچی جہاں اردو سمجھنے والے موجود تھے۔ بڑے بڑے شعرا نے گلستانِ طنزو مزاح کا رُخ کرنا شروع کر دیا اور مزاحیہ مشاعروں کی روایت پختہ ہونے لگی۔ قومی و مذہبی تہواروں پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن مزاحیہ مشاعروں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور لوگ ان مشاعروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے رات گئے تک ان کا انتظار کرتے ہیں۔ سنجیدہ مشاعروں کی طرح مزاحیہ مشاعروں میں بھی سب سے مقبول اور سینئر شاعر کو سب سے آخر میں اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ سیّد ضمیر جعفری کی وفات کے بعد سب سے آخر میں اپنا کلام پیش کرنے کی یہ سعادت اب انور مسعود کو حاصل ہے۔

            اس وقت مزاحیہ شاعری میں جس شخص کے فن کا سکہ چلتا ہے، وہ انور مسعود ہے۔ ان کی شاعری کے متنوع موضوعات، گہرے مشاہدے، وسیع کینوس اور فکری پس منظر نے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک پہنچا دیا ہے۔ یہ وہ عہد ہے جس میں تہذیب و ثقافت کے نام پر کھلی بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مشاعروں میں ذومعنی الفاظ کے استعمال سے دوسرے درجے کے مزاح کو لوگوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ انور مسعود کی یہ خوبی ہے کہ ان کے ہاں دور دور تک ایسی زبان کا استعمال نہیں ملتا جسے شائستگی کے دائرے سے باہر سمجھا جائے۔ ان کی مزاحیہ شاعری کو گھر کے تمام افراد اکٹھے بیٹھ کر سُن اور پڑھ سکتے ہیں اوراسی لیے ڈاکٹر اسلم انصاری نے انھیں ’’مزاحیہ شاعری کا فیملی چینل ‘‘ کہا ہے۔

            جدید دور میں مزاحیہ شاعری صرف ہنسنے ہنسانے تک محدود نہیں رہی۔ اس کا دائرہ بہت پھیل چکا ہے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کسی اکسیرسے کم نہیں ہے۔ انور مسعود معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں اور بیماریوں کی تشخیص کر کے اُن کے سدّباب کی تدبیر بھی کرتے ہیں۔ مثلاً علوم و فنون کی ترقی کا حل قومی زبان اردو کے نفاذ میں بتاتے ہیں۔ معیشت کے استحکام کو خود انحصاری پر محمول کرتے ہیں اور انسانیت کی معراج اخلاق کی درستگی کے ساتھ ملاوٹ، رشوت، سفارش، ذخیرہ اندوزی اور کام چوری جیسی لعنتوں سے نجات میں بتاتے ہیں۔

            مشرقیت اور اسلام انور مسعود کی رگ رگ میں خون کی مانند رواں دواں ہیں۔ ان کی فکر کے تمام زاویے انھیں دو سمتوں میں دور تک چلے جاتے ہیں۔ ہر وہ سازش جس کے پیچھے اسلام دشمن عناصر کارفرما ہوں، انور مسعود کے طنز کا نشانہ ضرور بنتی ہے۔ بہبودِ آبادی، بسنت، پاکستان میں انگریزی زبان کا نفاذ، بے پردگی، احساسِ زیاں کا مر جانا وغیرہ انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بغیر سوچے سمجھے اندھوں کی طرح مغربی تہذیب و تمدن کی رو میں بہہ جانے کو انور مسعود کسی طور قبول نہیں کرتے۔ ان کی پاکستانیت اُس جذبے پر استوار ہے جو ۱۹۴۷ء میں ہر مسلمان کے ذہن و دل پر چھایا ہوا تھا۔ مشرقی اقدار کی پامالی پر خون کے آنسو رونا اور رُلانا انور مسعود ہی کا خاصہ ہے۔ ان کے قہقہوں کے پیچھے دکھ درد کے آنسوؤں کا ایک سیلاب ہے جو بند توڑ کر باہر نہیں آتا بلکہ اندر ہی اندر اتھل پتھل پیدا کرتا رہتا ہے:

بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے

کوئی دیوارِ گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے

            انور مسعود کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی اداکاری اور زبان و بیان میں مہارت کی وجہ سے مشاعرے لوٹ لیتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں صرف زبان و بیان اور اداکاری سے حاضرین و ناظرین پر چھا جانا ممکن نہیں رہا۔ جس شاعر کی شاعری میں دم خم نہ ہو، لوگ اُس کو سننے پر آمادہ نہیں ہوتے اور ایک آدھ غزل یا نظم کے بعد وہ اسٹیج پر نہیں ٹھہر سکتا۔ انور مسعود توا یسا شاعر ہے جو ایک مرتبہ اسٹیج پر آ جائے تو لوگ اُس کو نیچے نہیں اُترنے دیتے۔ کاغذ کے پُرزوں پر لکھی فرمائشوں کے بے شمار مطالبے میزبان کو چین سے بیٹھنے تک نہیں دیتے اور جو لوگ لکھ کر اپنی فرمایش نہیں پہنچا سکتے وہ کھڑے ہو کر با آوازِ بلند تکرارِ فرمایش کرتے ہیں۔

            انور مسعود کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کی شاعری لوگوں کے حافظے کا حصہ بن چکی ہے۔ ’’انار کلی دیاں شاناں، جہلم دے پُل تے، لسی تے چاء‘‘ سے کون واقف نہیں۔ ’’بنین، امبڑی، اج کیہ پکایے‘‘ وغیرہ بیرون ممالک کے لوگوں تک مشہور ہیں اور مشاعرہ پڑھتے وقت ان کی فرمایش ایک رسم بن چکی ہے۔ کسی بھی مشاعرے میں انور مسعود کی شرکت اُس کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے اور ان کے فن کے کرشمے دیکھنے کے لیے بلا تفریق عمر وجنس لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ بندھ جاتے ہیں۔ زیادہ تر مزاحیہ شعرا کے ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین شعری مجموعے چھپنے کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی لیکن انور مسعود کے مزاحیہ کلام پر مشتمل شعری مجموعوں کے سولہ سولہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جن سے طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ان کے بلند مقام کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔

               سنجیدہ شاعری کے تناظر میں انور مسعود کے مرتبے کا تعین

            ولی دکنی سے بھی پہلے اردو کی سنجیدہ شاعری کی ابتدا ہوتی ہے اور یہ سلسلہ انشا، میر، سودا، درد، مصحفی، آتش، ناسخ، مومن، غالب، ذوق، ظفر، حالی اور داغ وغیرہ سے ہوتا ہوا اقبال، حسرت، حفیظ، ناصر، فیض، ندیم، منیر اور فراز وغیرہ کے بعد سحرانصاری، شہزاد احمد، صابر ظفر، افتخار عارف وغیرہ جیسے سیکڑوں شعرا تک پھیلا ہوا ہے۔ ان تمام شعرا کا اپنا مخصوص انداز، لہجہ اور فکر و فن انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ شعرا کے اس سمندر میں ہر قطرے کا ذائقہ، حجم اور بناوٹ منفرد ہے۔

            انور مسعود کی سنجیدہ شاعری وطن کی محبت، اسلام کی عقیدت، اخلاقیات کی خوشبو، محبت کے لمس اور زندگی کے شعور سے اُٹھان حاصل کرتی ہے۔ وہ انسانیت کی فلاح، امن و امان کی ترویج، رشتوں کی مہک اور عالمی مساوات کے علمبردار ہیں۔ وہ اردو غزل کی روایات کا پاس کرتے ہوئے حقیقت نگاری کو ہرگز نہیں بھولتے اور کلاسیکیت و جدیدیت کے امتزاج سے ایک نئے لہجے کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں خواص کے ساتھ عوام کو بھی شانہ بشانہ لے کر چلتے ہیں اور میر کی طرح عوام سے گفتگو کر لینے کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جسے عوام اور وقت زندگی بخشتے ہیں۔ تذکروں میں ایسے سیکڑوں شعرا ملتے ہیں جن کو بادشاہوں کے درباروں میں بلند مقام حاصل رہا لیکن وقت کی دھول نے ان کے چہروں پر خاک ڈال دی اور میر و نظیر جیسے شعرا گلیوں گلیوں اپنی عسرت کا بوریا اُٹھائے پھرنے کے باوجود اردو ادب میں امر ہو گئے۔ انور مسعود میر اور نظیر کے طبقے کا شاعر ہے۔ جوڑ توڑ اور ادبی منافقت سے کوسوں دور رہ کر بھی اس نے اپنے نام اور بلند مرتبے کا لوہا منوایا ہے۔ انور مسعود کی سنجیدہ شاعری کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے کئی شعر خود بولتے ہیں۔ مثلاً یہ ایک شعر دیکھیے جو ضرب المثل بن چکا ہے:

یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر

برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا

                مشاہیر کی آرا کے تناظر میں انور مسعود کے مقام و مرتبے کا تعین

            کسی بھی شخص کے فن اور شخصیت کے بارے میں حکم لگاتے وقت اُس کے معاصرین کی آرا کو ضرور پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ انورمسعود کے مقام و مرتبے کے تعین کے لیے ان کے معاصر شعرا، نثار اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مشاہیر کے خیالات درج ذیل ہیں :

            سیّد ضمیر جعفری کہتے ہیں :

 ’’پروفیسر انور مسعود اردو اور پنجابی کے ممتاز اور مشہور شاعر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ آج ہمارے ملک میں شاید چند ہی ایسے شعراء موجود ہوں جو فارسی، اردو اور پنجابی تین زبانوں میں ان کی سی قدرت و منزلت رکھتے ہوں۔ وہ ایک ممتاز و مشہور شاعر ہی نہیں بے حد محبوب و مقبول شاعر بھی ہیں۔ ملک کا کوئی قابلِ ذکر ادبی میلہ ان کی شرکت کے بغیر اربابِ ذوق کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اتنا مشہور و مقبول شاعر قابلِ تشریح تو ہو سکتا ہے محتاجِ تعارف ہرگز نہیں ہوتا۔ اب وہ شہرت و مقبولیت کے اس مقام پر ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے تذکرے سے اپنے تعارف کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔ ‘‘ [۱]

            حکیم محمد سعید کے محسوسات ملاحظہ ہوں :

 ’’ جناب محمد انور مسعود پاکستان کے معروف شاعر اور ادیب ہیں۔ قدرت نے انھیں اردو، فارسی اور پنجابی میں شعر گوئی کی قابلِ قدر صلاحیت بخشی ہے۔ بحیثیت شاعر ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب ان کی اعلا درجے کی مزاحیہ و طنزیہ شاعری ہے اور اس ضمن میں انھیں پاکستان ہی نہیں برصغیر کے صفِ اوّل کے چند شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان کی نظمیں اور اشعار زبانِ زد خاص   وعام ہیں وہ جس مشاعرے میں جاتے ہیں اپنے اسلوب کی انفرادیت اور لہجے کی گھلاوٹ کی بدولت سامعین کے دل و دماغ کو مسحور کر لیتے ہیں۔ ان کا مزاحیہ کلام پنجابی میں ہو یا اردو میں، اپنے اندر کئی جہتیں رکھتا ہے۔ وہ قارئین کو ہنساتے بھی ہیں اور انھیں سوچنے پر بھی آمادہ کرتے ہیں اور اس طرح شاعری سے تنقیدِ حیات کا مؤثر کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ ‘‘ [۲]

            افتخار عارف رقمطراز ہیں کہ:

 ’’پنجابی شاعری میں تو خیر فی زمانہ کم کم ہی آدمی اس قد و قامت کا نظر آتا ہے۔ اپنی مٹی سے جڑے ہوئے اور اپنے لوگوں سے بندھے ہوئے لوگوں کو اللہ کا یہ بڑا انعام ہے کہ ان کے لفظ کو اثر کی دولت سے سرفراز رکھا جاتا ہے اور خلق خدا کے دل ان کی طرف موڑ دیے جاتے ہیں۔ سو یہ نعمت انورمسعود پر بھی ارزانی ہوئی۔ پھر ’’پڑھت‘‘ ایسی کہ بڑے بڑے تیس مار خان مشاعروں میں ان کے بعد پڑھتے ہیں تو گھگھی بندھ جاتی ہے اور سانس پھول پھول جاتا ہے اور بار بار اسٹیج سے روپوش ہوتے نظر آتے ہیں کہ کہیں نام پکار لیا گیا تو مٹی خراب ہو گی۔ بعض مشاعروں کے میزبان تو جس سے نمٹنا چاہیں اور جس کی ’’سرخروئی‘‘ منظور ہوتی ہے اس کو بلواتے ہی انورمسعود کے بعد ہیں کہ دشمن پنپ نہ سکے۔ اور شخصیت ایسی پاکیزہ کہ دو گھڑی ساتھ بیٹھ لیں تو آدمی کا بیت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ دلدہی، دلنوازی، دلداری کے سارے ادب آداب اللہ نے یکجا کر دیے ہیں۔ لہجے میں مٹھاس ہی مٹھاس، برتاؤ میں گھلاوٹ اور نرمی، کردار کی اور خوبیاں اس پر مستزاد۔ ‘‘ [۳]

            مشتاق احمد یوسفی اپنی رائے اس طرح دیتے ہیں :

 ’’مزاحیہ شاعری کا سب سے کٹھن اور فیصلہ کن ٹیسٹ مشاعرہ سمجھا جاتا ہے۔ جن آنکھوں نے انور مسعود کو اندرون و بیرونِ ملک مشاعرے لوٹتے اور تقریباً سارا کلام سنانے کے بعد بھی مزید قطعات کی فرمائشوں کے جواب میں اپنے دلآویز انداز میں مسکراتے اور آداب کرتے دیکھا ہے، انھیں ان کے مزاح کی کاٹ، سادگی اور قبولِ عام کا کوئی اور ثبوت درکار نہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ تحریف، تضمین اور پیروڈی ایسی فن کارانہ مہارت سے کرتے ہیں کہ اصل کو بھی اپنا ہی کرشمۂ کلام بنا کر دکھا دیتے ہیں۔ ‘‘ [۴]

            پروفیسر احسان اکبر، انور مسعود کی شخصیت اور فن پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ انور مسعود وہ معشوق ہزار شیوہ ہے جس کی شخصیت کے دلآویز رویے ہر ہر سطح اور ہر ہر مزاج انسانی کو عزیز اور محبوب ہیں۔ محفل میں ایک انور کا وجود محفل آباد کرنے کو کافی ہوتا ہے۔ کرشمہ کی سنئے کہ انور ان لوگوں میں سے نہیں جو سب کو خوش کرنے کے لیے سب کے نقطہ نظر کی ہمنوائی کرنے لگیں۔ بلکہ وہ ان گنے چنے اہلِ نظر سے ہیں جن کو اصحاب الرائے کہا جائے، سو جہات، جہان اور انسان کے حوالے سے اس کے اپنے نظریات اور معتقدات ہیں جن کو اس نے چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ کمال یہ ہے کہ اس کے مخالفانہ نظریات بھی حریف کو بے مزہ نہیں ہونے دیتے۔ اس کی شاعری کے جادو کی بات کیجیے گا۔ یہ شخص لفظوں کی کلید سے دلوں کے دروازے کھولتا اور حسبِ منشا بند کرتا ہے۔ جب چاہتا ہے ہنساتا ہے جب چاہے بساط الٹ کر منظر بدل دیتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ دونوں متضاد تصویریں ایک سے الفاظ سے پھوٹتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۵]

            انور مسعود کی شخصیت اور فن کے متعلق درج بالا معروف شخصیات کے خیالات سے جو تصویر بنتی ہے اس کے مطابق خلق، تواضح، محبت اور ہمدردی انور مسعود کے خمیر میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ انھیں اپنی خودداری کا خیال بھی دامن گیر رہتا ہے۔ مذہبی حوالے سے وہ حضورِ اکرمﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا سعادت سمجھتے ہیں اور دینی فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ لفظوں کے برتاؤ میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں اور زبان و بیان میں ان کے کرشمات سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ مزاحیہ وسنجیدہ شاعری میں ان کا اسلوب معاصرین سے مختلف ہے۔ عوام و خواص کو ہنساناہو یا رُلانا، دونوں کاموں میں مہارت اور یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ انھیں خصوصیات کی وجہ سے انور مسعود ایک مستند طنزیہ و مزاحیہ شاعر، انشا پرداز، کامل استاداورایک کامیاب انسان ٹھہرتے ہیں اور زمانہ بھی ان کی تمام خوبیوں کا معترف ہے۔

               مزید تحقیق کے راستے

ا۔       انور مسعود بہ طور محقق و نقاد

            انور مسعود کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے تین وقیع مجموعے ’’فارسی ادب کے چند گوشے، تقریب اور شاخِ تبسم‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ یہ تینوں کتابیں اپنے موضوعات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ فارسی زبان و ادب کے شعرا پر لکھے گئے جامع مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں شامل سات مقالات کے نام یہ ہیں :

            ۱۔         فروغ فرخ زاد۔ پہلوی دور کی ایک سرکش و بے باک شاعرہ

            ۲۔        میرزا علی اکبر دہخدا۔ علمی خدمات اور شاعری

            ۳۔        عشقی۔ ایران کا شاعرِ شوریدہ سر

            ۴۔        غنیمت کنجاہی۔ غزل کے چند پہلو

            ۵۔        خیام۔ ایک مطالعہ

            ۶۔        ناقدینِ سبکِ ہندی۔ ایک جائزہ

            ۷۔        اقبال۔ جدید فارسی شاعری اور ایرانی معاشرے پر اثرات

             ’’تقریب‘‘ میں مختلف کتب پر ماہرانہ تبصرے ملتے ہیں۔ یہ تبصرے ادبی تقریبات میں پڑھے جانے کی وجہ سے ’’تقریب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے اور ان میں سے کچھ کتابوں کے دیباچے ہیں۔ اس مجموعے میں شائع کیے گئے مقالات کے عنوانات ہی انور مسعود کی فکری سمت اور تحقیقی و تنقیدی جہت کا پتہ دے دیتے ہیں :

            ۱۔         فلکِ عطارد (جاوید نامہ کا ایک باب)

            ۲۔        اکبر الٰہ آبادی  (از خواجہ محمد زکریا)

            ۳۔        کاروانِ حرم (ع س مسلم کا ایک امتیازی کارنامہ)

            ۴۔        دو آتشہ (اسیر عابد کا دیوانِ غالب)

            ۵۔        شریف کنجاہی۔ چند تاثرات

            ۶۔        امجد اسلام امجد

            ۷۔        خاقان خاور اور اس کی غزلیں

            ۸۔        جموں و کشمیر ہمارا (ہمارا  اکیسویں صدی میں داخلہ)

            ۹۔         جلیل عالی کا خواب دریچہ

            ۱۰۔       بشیر سیفی کی خاکہ نگاری پر ایک نظر

            ۱۱۔        پھلواری

            ۱۲۔       اسلم کمال اوسلو میں

            ۱۳۔       بشیر منذر کی یاد میں

            ۱۴۔       جمشید مسرور(سمندر پار ایک پاکستانی کی آواز)

            ۱۵۔       گفتنی نا گفتنی

            ۱۶۔       عذرا وقار کا تجزیۂ وارث

            ۱۷۔      قومی ترانہ ایک بصری جہت

             ’’شاخِ تبسم‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد کے معروف طنزیہ و مزاحیہ شعرا کے فن پر مبنی مقالات پر مشتمل ہے۔ تحقیق و تنقید کے دوران انھوں نے جدید تحقیقی و تنقیدی طریقوں کو آزمایا ہے جس کی وجہ سے ان مقالات کی وقعت  و اہمیت مسلمہ ہے۔ مضامین و مقالات کے اس مجموعے میں گیارہ طنزیہ و مزاحیہ اردو شعرا کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سید محمد جعفری، نذیر احمد شیخ، ضمیر جعفری، دلاور فگار، سرفراز شاہد، نیاز سواتی، اسد جعفری، چونچال، انعام الحق جاوید اور ڈاکٹر صابر آفاقی شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں انور مسعود کا انٹرویو ہے۔ یہ صرف ایک تذکرہ ہی نہیں بلکہ جدید طنزیہ و مزاحیہ شاعری کی مبسوط تاریخ بھی ہے۔

            اس وقت تک انور مسعود کی تحقیقی و تنقیدی مہارت پر کوئی مقالہ منظرِ عام پر نہیں آیا۔ اگر کوئی طالبِ علم ایم۔ اے سطح کا مقالہ لکھنا چاہے تو اُس کے لیے ’’انور مسعود بطور محقق و نقاد‘‘ ایک بہترین اور جامع موضوع ثابت ہو سکتا ہے۔

ب۔   انور مسعود بطور نثر نگار اور مترجم

            انور مسعود کے تخلیقی مضامین کا مجموعہ ’’بات سے بات‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ اس کا مختصر تعارف باب اوّل میں ’’ادبی خدمات‘‘ کے تحت آ چکا ہے۔ اس مجموعے کے ۳۲ ہلکے پھلکے مضامین اتنی سلیس او رواں زبان میں عام فہم موضوعات کا بڑے دلنشیں اور طنزیہ و مزاحیہ پیرائے میں احاطہ کرتے ہیں کہ اردو ادب میں اس کی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ یہ مضامین قاری کو اُس وقت تک اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتے جب تک وہ کتاب کا مکمل مطالعہ نہیں کر لیتا۔ یہ مضامین بجا طور پر انور  مسعود کو ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی اور شفیق الرحمان کے قبیلے کے ایک فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔

            انور مسعود نے معروف پنجابی شاعر میاں محمد بخش کے کلام ’’سیف الملوک‘‘ کا اردو ترجمہ بڑی جانفشانی، عرق ریزی اور تحقیق وجستجو کے ساتھ کیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے دور دراز سفر بھی کیے اور قدیم پنجابی الفاظ کے معانی کے لیے اہلِ فن کو ڈھونڈ کران کی خدمات سے بہرہ مند ہوئے۔ علامہ اقبال، غالب، سعدی وغیرہ کے شعری تراجم بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں جو انور مسعود کے فنِ ترجمہ پر مہر ثبت کرتے ہیں۔

            انور مسعود کی نثر نگاری اور تراجم کے حوالے سے تحقیقی کام کیا جا سکتا ہے جو ایک عظیم مزاح گو شاعر کی شخصیت اور فن کے ایک منفرد گوشے سے پردہ اٹھانے کا موجب ہو گا۔ یونیورسٹیوں کے اربابِ اختیار اور اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس موضوع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ج۔    انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ پنجابی شاعری

            طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری کی طرح انور مسعودکی طنزیہ و مزاحیہ پنجابی شاعری بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس پر کم از کم ایم۔ فل کی سطح کا مقالہ تحریر کیا جائے۔ ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ اور ’’ہُن کیہ کریے‘‘ اپنی اہمیت کے اعتبار سے ان کی تمام شاعری پر حاوی ہیں۔ جہلم دے پُل تے، اَج کیہ پکائیے، لسی تے چاء، پٹ سیاپا، انار کلی دیاں شاناں، بنین وغیرہ جیسی شہرت یافتہ نظمیں ان دو مجموعوں کا حصہ ہیں۔ ان کی پنجابی شاعری پر ایم۔ اے سطح کا ایک مقالہ تحریر کیا جا چکا ہے لیکن اس کا معیار کسی لحاظ سے بھی قابلِ تعریف نہیں بلکہ صرف سندی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چند پنجابی نظموں کی تشریح تک محدود ہے۔

٭٭٭

               حوالہ جات

۱۔         سیّدضمیرجعفری، ، تائید ضمیر، ماہنامہ ’’بیاض‘‘ لاہور، جلد۸، شمارہ۵، ۱۹۔ اے، ایبٹ روڈ، مئی ۲۰۰۰ء، ص۶۵

۲۔        حکیم محمد سعید، محمد انور مسعود کی شاعری، ماہنامہ ’’بیاض‘‘ شمارہ ۵، ص۷۳

۳۔        افتخار عارف، انور مسعود!زندہ باد، ماہنامہ ’’بیاض‘‘ شمارہ ۵، ص۷۸، ۷۹

۴۔        مشتاق احمد یوسفی، مجلہ مشاعرہ زندہ دلاں با اعزاز انور مسعود، دبئی، منتظم اعلیٰ :ڈاکٹر اظہر زیدی، ۱۹۹۶ء، ص۴۱

۵۔        احسان اکبر، پروفیسر، مجلہ مشاعرہ زندہ دلاں با اعزاز انور مسعود، ص۴۹

٭٭٭

 

 کتابیات

۱۔         امیرالاسلام ہاشمی، ضربِ ظرافت، کراچی، فضلی سنز، ٹمپل روڈ، اردو بازار، ۲۰۰۰ء

۲۔        انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی۷۵۳۰۰، انجمن ترقی اردوپاکستان، ڈی ۱۵۹، بلاک ۷،            گلشن اقبال، اشاعت چہارم، ۱۹۹۹ء

۳۔        انعام الحق جاوید، ڈاکٹر، گلہائے تبسم، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اے ۸، خیابانِ سہروردی، پوسٹ

            بکس نمبر۲۹۵۸، اشاعت اوّل، ۲۰۰۵ء

۴۔        انعام الحق جاوید، ڈاکٹر، سو بٹا سو، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اے ۸، خیابانِ سہروردی، پوسٹ بکس

            نمبر ۲۹۵۸، ۲۰۰۳ء

۵۔        انورمسعود، اک دریچہ: اک چراغ، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء

۶۔        انورمسعود، بات سے بات، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اشاعت اوّل، ۲۰۰۷ء

۷۔        انورمسعود، تقریب، لاہور، گورا پبلشرز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، اشاعت اوّل، ۱۹۹۷ء

۸۔        انورمسعود، درپیش، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اشاعت اوّل، ۲۰۰۵ء

۹۔         انور مسعود، روزبروز، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اشاعت اوّل ۲۰۱۰ء

۱۰۔       انورمسعود، شاخِ تبسم، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اشاعت اوّل، ۲۰۰۰ء

۱۱۔        انور مسعود، غنچہ پھر لگا کھلنے، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ایڈیشن سوم، ۱۹۹۹ء

۱۲۔       انور مسعود، فارسی ادب کے چند گوشے، لاہور، گورا پبلشرز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، ۲۵۔ لوئر مال، ایڈیشن دوم، ۱۹۹۷ء

۱۳۔       انورمسعود، قطعہ کلامی، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۱۹۹۹ء

۱۴۔       انورمسعود، میلہ اکھیاں دا، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء

۱۵۔       انورمسعود، میلی میلی دھوپ، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۶ء

۱۶۔       انور مسعود، ہن کیہ کریے؟، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، اشاعت دوم، ۱۹۹۸ء

۱۷۔      آزرعسکری، کشت زعفران، مظفر آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۷۶ء

۱۸۔       بشیر احمد چونچال، منقار، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء

۱۹۔       جمیل جالبی، ڈاکٹر، تاریخِ ادب اردو، لاہور، مجلس ترقیِ ادب، کلب روڈ، جلد دوم، طبع چہارم، جنوری ۲۰۰۵ء

۲۰۔      جمیل جالبی، ڈاکٹر، تاریخِ ادب اردو، لاہور، مجلس ترقیِ ادب، کلب روڈ، جلد سوم، اشاعت اوّل، جون ۲۰۰۶ء

۲۱۔       حسین رضوی، انتخابِ ظریف لکھنوی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، اشاعت اوّل، ۱۹۷۷ء

۲۲۔      خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر، اکبر الہٰ آبادی:تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، چوک اردو بازار، ۱۹۸۶ء

۲۳۔      رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء

۲۴۔      ساجد امجد، ڈاکٹر، پروفیسر، اردو شاعری پر برصغیر کے تہذیبی اثرات، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، پوسٹ

بکس نمبر ۷۱۰۴، ۲۰۰۳ء

۲۵۔      سرفراز شاہد، ڈش انٹینا، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء

۲۶۔      سلیم حسین سیّد، یادوں کے چراغ، گجرات، المیر ٹرسٹ لائبریری و مرکز تحقیق و تالیف، ۲۰۰۶ء

۲۷۔     سیّد ضمیر جعفری، نشاطِ تماشا، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، چوک اردو بازار، ۱۹۹۳ء

۲۸۔      سیّد محمد جعفری، شوخیِ تحریر، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۳ء

۲۹۔      صابر آفاقی، ڈاکٹر، خندہ ہائے بیجا، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، رانا چیمبرز، لیک روڈ، ۱۹۹۴ء

۳۰۔      صدیق کلیم، فکرِ سخن، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ، اشاعت اوّل، جنوری ۲۰۰۸ء

۳۱۔       طاہرہ نیر، ڈاکٹر، اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار، کراچی، انجمن ترقیِ اردو، ڈی۔ ۱۵۹، بلاک ۷،

گلشنِ اقبال، ۱۹۹۹ء

۳۲۔      ظفر عالم ظفری، ڈاکٹر، اردو صحافت میں طنزو مزاح، لاہور، فیروز سنز، پرائیویٹ لمیٹڈ، اشاعت اوّل، ۱۹۹۶ء

۳۳۔     عبیر ابو ری، پانی وچ مدھانی، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، رانا چیمبرز، چوک پرانی انار کلی، لیک روڈ، اشاعت دوم، ۱۹۹۸ء

۳۴۔     عطش درانی، اردو اصناف کی مختصر تاریخ، لاہور ۲، مکتبہ میری لائبریری، اشاعت دوم، ۱۹۸۶ء

۳۵۔     غفور شاہ قاسم، پاکستانی ادب: شناخت کی نصف صدی، راولپنڈی، ریز پبلی کیشنز، تاج محل پلازہ، سکستھ

روڈ چوک، مری روڈ، اگست ۲۰۰۰ء

۳۶۔      غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر، اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، لاہور، مطبع جامعہ پنجاب، ۱۹۶۶ء

۳۷۔     فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۳۳۵۔ کے ٹو، واپڈا ٹاؤن۲۰۰۷ء

۳۸۔     مجید لاہوری، نمکدان، لاہور، جنگ پبلشرز، ۱۳، سرآغا خان روڈ، ۱۹۹۰ء

۳۹۔      محمد اقبال، علامہ، کلیاتِ اقبال(اردو)، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، ادبی مارکیٹ، چوک انار کلی،

اشاعت چہارم، اگست ۱۹۹۹ء

۴۰۔      ممتاز حسین، لیفٹیننٹ کرنل، ماحولیاتی آلودگی، لاہور، فیروز سنز(پرائیویٹ لمیٹڈ)، ۱۹۹۵ء

۴۱۔       نثار احمد قریشی، ڈاکٹر، دنیا جن سے روشن ہے، اٹک کینٹ، پنجابی ادبی سنگت، مارچ ۲۰۰۳ء

۴۲۔      نذیر احمد شیخ، واہ رے شیخ نذیر، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۱ء

۴۳۔     نظیر اکبر آبادی، کلیاتِ نظیر، لاہور نمبر ۲۵، مکتبۂ شعر و ادب، سمن آباد، بارھواں ایڈیشن، ۱۹۸۶ء

۴۴۔     وزیر آغا، ڈاکٹر، اردو ادب میں طنزو مزاح، لاہور، مکتبہ عالیہ، اردو بازار، اشاعت نہم، ۱۹۹۹ء

               اخبارات ورسائل

۱۔         ایکسپریس(روزنامہ)، اسلام آباد، ۲۷ فروری ۲۰۰۹ء

۲۔        بیاض(ماہنامہ)، مدیر:خالد احمد، لاہور، مئی ۲۰۰۰ء

۳۔        پیغام آشنا (سہ ماہی)، مدیر اعلیٰ :ڈاکٹر نعمت اللہ ایران زادہ، اسلام آباد، ثقافتی قونصلیٹ اسلامی جمہوریہ

             ایران، جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء

۴۔        جنگ(روزنامہ)، مدیر اعلیٰ: میر خلیل الرحمن، لندن، ۱۷ جولائی ۱۹۹۶ء

۵۔        چہار سُو(ماہنامہ)، مدیر اعلیٰ: سیّد ضمیر جعفری، راول پنڈی، مارچ اپریل ۱۹۸۷ء

۶۔        دنیائے ادب(ماہنامہ)، مدیر:اوج کمال، کراچی، اگست ۲۰۰۶ء

۷۔        فنون(سہ ماہی)، مدیر اعلیٰ:احمد ندیم قاسمی، لاہور، جنوری تا اپریل ۲۰۰۳ء

۸۔        مشاعرہ زندہ دلاں (مجلہ خصوصی)، منتظم:ڈاکٹر اظہر زیدی، دبئی، ۱۹۹۴ء

۹۔         گندھارا(کالج میگزین)، مدیر:نوید انجم، ایف جی ڈگری کالج برائے طلباء، واہ کینٹ، ۲۰۰۰۱ء

 مکالمات

۱۔         مکالمہ راقم از انور مسعود، اسلام آباد، بمقام آئی نائن ون، ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء

۲۔        مکالمہ راقم از جواد اظفر، اسلام آباد، بمقام آئی نائن ون، ۱۹ مارچ ۲۰۰۹ء

غیر مطبوعہ مقالات

۱۔         انور مسعود، سیف الملوک و بدیع الجمال(اردو نثری ترجمہ)

۲۔        خالد نذیر بھٹی، انور مسعود کی اردو شاعری، مقالہ برائے ایم۔ اے اردو(غیر مطبوعہ)، بہاول پور، اسلامیہ یونیورسٹی، ۲۰۰۲ء

۳۔        نیلم قمر دین، انور مسعود دی پنجابی شاعری، مقالہ برائے ایم۔ اے(پنجابی)، لاہور، گورنمنٹ اورینٹل کالج،  پنجاب یونیورسٹی، ۲۰۰۴ء

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 حصہ اول یہاں ملاحظہ کریں