فہرست مضامین
- انتظارِ نظر
- ساغر صدیقی
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- آ جا کہ انتظار ِ نظر ہیں کبھی سے ہم
- دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
- بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اڑتی دیکھی ہے
- میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
- لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
- ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
- ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
- چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
- تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
- راہزن آدمی راہنما آدمی
- کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
- مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
- یہ تجلیوں کی محفل ہے اسی کے زیرِ سایہ
- زخمِ دل پر بہار دیکھا ہے
- ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
- آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے
- چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
- بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
- اے تغیر زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے
- ترے خشک گیسوؤں میں مری آرزو ہے پنہاں
- ٍ وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
- کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
- وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
- تیری صورت جو اتفاق سے ہم
- یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
- جام ٹکراؤ! وقت نازک ہے
- تشنگی تشنگی ارے توبہ!
- محبت کے مزاروں تک چلیں گے
- حسین زلفوں کے پرچم کھول دیجیے
- کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
- رہزن عقل و ہوش دیوانہ
- ساغر صدیقی
- عورت
- فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
- صراحی جام سے ٹکرائیے ، برسات کے دن ہیں
- یہ موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے
- برگشتۂ یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
- زلفوں کی گھٹائیں پی جاؤ
- مخمور شرابوں کے بدلے
- میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
- کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
- نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس پر اسرار سا ہے
- چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جانچیں
- فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
- تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
- کب سماں تھا بہار سے پہلے
- چاندنی میںیہ آگ کا دریا
- محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
- جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
- پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
- اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر
- غرور مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے
- اے چمن والو! متاعِ رنگ و بُو جلنے لگی
- اِک ستارہ ٹوٹ کر معبودِ ظلمت بن گیا
- شام خزاں کی گم صم بولی
- پھول بھی ہے وہ کانٹا بھی ہے
- پتے بھی اشجار کے نغمے
- تن سلگتا ہے من سلگتا ہے
- چشم ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
- کہکشاں بام ثریا کے تلے سوئی ہے
- ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
- اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں
- رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
- کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
- بھُولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
- گُم صُم کھڑی ہیںدونوں جہاں کی حقیقتیں
- دُکھ درد کی سوغات ہے دُنیا تیری کیا ہے
- میرے چمن میں بہاروں کے پھُول مہکیں گے
- ہزاروں موجِ تمنّا صدف اُچھالے گی
- جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
- ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
- صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
- یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
- کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
- ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
- تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
- پاکستان کے سیاستدان
- چند اشعار
انتظارِ نظر
ساغر صدیقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
آ جا کہ انتظار ِ نظر ہیں کبھی سے ہم
مایوس ہو نہ جائیں کہیں زندگی سے ہم
اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تو پناہ دے
گھبرا کے آ گئے ہیں بڑی روشنی سے ہم
برسوں رہی ہے جن سے رہ و رسمِ دوستی
انکی نظر میں آج ہوئے اجنبی سے ہم
اس رونق ِ بہار کی محفل میں بیٹھ کر
کھاتے رہے فریب بڑی سادگی سے ہم
دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپتے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں
زر دار توقّع رکھتا ہے نادار کی گاڑھی محنت پہ
مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں
کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں
بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اڑتی دیکھی ہے
حیران ہیں دلوں کے آئینے نادان یہاں بھی اندھے ہیں
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ہے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں
میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست
مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست
دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دوچار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست
جس کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبرُو
اس موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
محبوب ہُوں شمار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ساغر بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
ساقی سے میں اُدھار کا قائل نہیں ہوں دوست
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا، عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا، "عید کا چاند”
دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند
لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خلد کی رنگین فضا، عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وسعت افلاک میں کھوئی ساغر
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند
راہزن آدمی راہنما آدمی
با رہا بن چکا ہے خدا آدمی
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
دو قدم جھوم کر جب چلا آدمی
زندگی خانقاہ شہود و بقا
اور لوح مزار فنا آدمی
صبح دم چاند کی رخصتی کا سماں
جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی
گونجتی ہی رہے گی فلک در فلک
ہے مشیت کی ایسی صدا آدمی
اس کی مورتیں پوجتے پوجتے
ایک تصویر سی بن گیا آدمی
مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
مجھے گردشِ فلک سے نہیں احتجاج کوئی
کہ متاعِ جان و دل ہے تری زلف کے حوالے
یہ سماں بھی ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں
گل و انگبیں کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے
ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل میں بس رہے ہیں تری یاد کے شوالے
مری آنکھ نے سنی ہے کئی زمزموں کی آہٹ
نہیںبربطوں سے کمتر مئے ناب کے پیالے
یہ تجلیوں کی محفل ہے اسی کے زیرِ سایہ
یہ جہانِ کیف اس کا جسےوہ نظر سنبھالے
یہ حیات کی کہانی ہے فنا کا ایک ساغر
تو لبوں سے مسکرا کر اسی جام کو لگا لے
زخمِ دل پر بہار دیکھا ہے
کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے
جن کے دامن میںکچھ نہیں ہوتا
ان کے سینوں میں پیار دیکھا ہے
خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا ہے
تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر
گل کا سینہ فگار دیکھا ہے
ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے
جذبہء غم کی خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نکھار دیکھا ہے
آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے
ظلمتوں میںکرن سوالی ہے
حادثے لوریوں کا حاصل ہیں
وقت کی آنکھ لگنے والی ہے
آئینے سے حضور ہی کی طرح
چشم کا واسطہ خیالی ہے
حسن پتھر کی ایک مورت ہے
عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے
موت اک انگبیں کا ساغر ہے
زندگی زہر کی پیالی ہے
چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
بنامِ زہرہ جبینانِ خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
اے تغیر زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے
یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا
ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے
یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے
میرے داغِ دل لیے ہیں تری بزم جب سجی ہے
غمِ زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت
ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے
ترے خشک گیسوؤں میں مری آرزو ہے پنہاں
ترے شوخ بازوؤں میں مری داستاں رچی ہے
جسے اپنا یار کہنا اسے چھوڑنا بھنور میں!
یہ حدیثِ دلبراں ہے یہ کمالِ دلبری ہے
وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے
ٍ وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی اک پنکھڑی ہو گی
زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی
کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی
التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا
یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار ہستی کی
نیا طریق قفس اور دام بدلے گا
نفس نفس میں شرارے سے کروٹیں لیں گے
دلوں میں جذبہء محشر خرام بدلے گا
مروتوں کے جنازے اٹھائے جائیں گے
سنا ہے ذوق سلام و پیام بدلے گا
دل و نظر کو عطا ہوں گی مستیاں ساغر
یہ بزم ساقی یہ بادہ یہ جام بدلے گا
جام ٹکراؤ! وقت نازک ہے
رنگ چھلکاؤ! وقت نازک ہے
حسرتوں کی حسین قبروں پر
پھول برساؤ! وقت نازک ہے
اک فریب اور زندگی کے لیئے
ہاتھ پھیلاؤ! وقت نازک ہے
رنگ اڑنے لگا ہے پھولوں کا
اب تو آ جاؤ! وقت نازک ہے
تشنگی تشنگی ارے توبہ!
زلف لہراؤ ! وقت نازک ہے
بزم ساغر ہے گوش بر آواز
کچھ تو فرماؤ! وقت نازک ہے
محبت کے مزاروں تک چلیں گے
ذرا پی لیں! ستاروں تک چلیں گے
سنا ہے یہ بھی رسم عاشقی ہے
ہم اپنے غمگساروں تک چلیں گے
چلو تم بھی! سفر اچھا رہے گا
ذرا اجڑے دیاروں تک چلیں گے
جنوں کی وادیوں سے پھول چن لو
وفا کی یادگاروں تک چلیں گے
حسین زلفوں کے پرچم کھول دیجیے
مہکتے لالہ زاروں تک چلیں گے
چلو ساغر کے نغمے ساتھ لے کر
چھلکتی جوئے باراں تک چلیں گے
کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا
تلخی درد ہی مقدر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہوا
ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہوا
آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا
وہ شہنشہ نہیں بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہوا
رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہوا
ڈوبنے کا خیال تھا ساغر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا
عورت
اگر بزم ِ انساں میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی
ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نور مسرت نہ ہوتی
نگاہوں میں شانِ مروت نہ ہوتی
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا ہوتا
نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی
صراحی جام سے ٹکرائیے ، برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دہرائیے، برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
کسی پُر نور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں سے مہ وشوں کو لائیے، برسات کے دن ہیں
طبیعت گردشِ دوراں کی گھبرائی ہوئی سی ہے
پریشاں زلف کو سلجھائیے، برسات کے دن ہیں
بہاریں ان دنوں دشتِ بیاباں میں آتی ہیں
فقیروں پر کرم فرمائیے، برسات کے دن ہیں
یہ موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے
دل ناداں کو بہلائیے، برسات کے دن ہیں
سہانے آنچلوں کے ساز پر اشعار ساغر کے
کسی بے چین دھن میں گائیے، برسات کے دن ہیں
برگشتۂ یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے
تا حّد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل ناداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد! ترے عرفاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
زلفوں کی گھٹائیں پی جاؤ
وہ جو بھی پلائیں پی جاؤ
اے تشنہ دہانِ جور خزاں
پھولوں کی ادائیں پی جاؤ
تاریکی دوراں کے مارو
صبحوں کی ضیائیں پی جاؤ
نغمات کا رس بھی نشہ ہے
بربط کی صدائیں پی جاؤ
مخمور شرابوں کے بدلے
رنگین خطائیں پی جاؤ
اشکوں کا مچلنا ٹھیک نہیں
بے چین دعائیں پی جاؤ
میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس پر اسرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے
وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگاہوں میں بار سا ہے
کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جانچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے
یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا
نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا
دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا
قفس میں یُوں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا
وہ آشنائے حقیقت نہیں تو کیا غم ہے
حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی ہے سب اچھا
تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا
حیات و موت کی تفریق کیا کریں ساغر
ہماری شانِ خود کہہ رہی ہے سب اچھا
کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے
ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضو فشاں تھا بہار سے پہلے
اب تماشا ہے چار تنکوںکا
آشیاں تھا بہار سے پہلے
اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے
پچھلی شب میں خزاں کا سناٹا
ہم زباںتھا بہار سے پہلے
چاندنی میںیہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے
بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے
لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواںتھا بہار سے پہلے
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑ دیا
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے
نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے
اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے
بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے
رنگِ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
ساغر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دیے
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دلفگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نوبہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر
جہاں والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا
جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر
بہار کی بدنصیب راتیں بلا رہی ہیں چلے بھی آؤ
کسی ستارے کا روپ لے کر کسی کے دل کا قرار بن کر
تلاش منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورت اعتبار بن کر
غرور مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے
کسی کی آنکھوں کا نور ہو کر کسی کے دل کا قرار بن کر
دیارِ پیر مغاں میں آ کر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر
خدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر
اے چمن والو! متاعِ رنگ و بُو جلنے لگی
ہر روش پر نکہتوں کی آبرو جلنے لگی
پھر لغاتِ زندگی کو دو کوئی حرفِ جُنوں
اے خرد مندو! ادائے گفتگو جلنے لگی
قصرِ آدابِ محبت میں چراغاں ہو گیا
ایک شمعِ نو ورائے ما و تو جلنے لگی
ہر طرف لُٹنے لگی ہیں جگمگاتی عصمتیں
عظمت انسانیت پھر چارسُو جلنے لگی
دے کوئی چھینٹا شراب ارغواں کا ساقیا
پھر گھٹا اُٹھی تمنّائے سبُو جلنے لگی
اِک ستارہ ٹوٹ کر معبودِ ظلمت بن گیا
اِک تجلّی آئینے کے رُو برُو جلنے لگی
دیکھنا ساغرخرامِ یار کی نیرنگیاں
آج پھُولوں میں بھی پروانوں کی خُو جلنے لگی
شام خزاں کی گم صم بولی
جیون لمحے زہر کی گولی
میرے آنسو اور ستارے
کھیل رہے ہیں آنکھ مچولی
دو پھولوں کی خاطر ترسیں
آج بہاروں کے ہمجولی
چاند کا سایہ چھت سے اترا
ہمسائے نے کھڑکی کھولی
توڑ دیا دم دیوانوں نے
عمر جنوں کی پوری ہو لی
پھول بھی ہے وہ کانٹا بھی ہے
من میلا ہے صورت بھولی
لمبی ہے تقدیر کی ڈوری
کس نے ناپی کس نے تولی
اپنی دنیا رین بسیرا
اپنی دولت خالی جھولی
جسم کا زنداں روزن روزن
جب بھی چاہا سوئی چبھو لی
میرے شعروں کا مجموعہ
مست خراموں کی اک ٹولی
خاکِ درِ میخانہ ہم نے
ساقی پیمانوں میں گھولی
پتے بھی اشجار کے نغمے
سائے ہیں دیوار کی بولی
چھینٹ غمِ عصیاں کی ساغر
ہم نے شرابِ ناب میں دھو لی
تن سلگتا ہے من سلگتا ہے
جب بہاروں میں من سلگتا ہے
نوجوانی عجیب نشہ ہے
چھاؤں میں بھی بدن سلگتا ہے
جب وہ محو خرام ہوتے ہیں
انگ سرو سمن سلگتا ہے
جانے کیوں چاندنی میں پچھلے رات
چپکے چپکے چمن سلگتا ہے
تیرے سوزِ سخن سے اے ساغر
زندگی کا چلن سلگتا ہے
چشم ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
ان دنوں وقت پہ، حالات پہ پابندی ہے
بکھری بکھری ہوئی زلفوں کے فسانے چھیڑو
مے کشو! عہد خرابات پہ پابندی ہے
دل شکن ہو کے چلے آئے تری محفل سے
تیری محفل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے
درد اُٹھا ہے لہو بن کے اچھلنے کے لیے
آج تک کہتے ہیں جذبات پہ پابندی ہے
ہر تمنا ہے کوئی ڈوبتا لمحہ جیسے
ساز مغموم ہیں نغمات پہ پابندی ہے
کہکشاں بام ثریا کے تلے سوئی ہے
چاند بے رنگ سا ہے رات پہ پابندی ہے
آگ سینوں میں لگی ہے، ساغر و مینا چھلکے
کوئی کہتا تھا کہ برسات پہ پابندی ہے
ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دھوپ ہے
چکرا کے گر نہ جاؤں میں اس تیز دھوپ میں
مجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشیں ہوں میں
جام و سبو اچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دھوپ ہے
اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گل گدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے
سمجھی ہے جسے سایہء امید عقل خام!
ساغر کا ہے خیال بڑی تیز دھوپ ہے
رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے
اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھُول گئے
احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پھُولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
بھُولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گُم صُم کھڑی ہیںدونوں جہاں کی حقیقتیں
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
دُکھ درد کی سوغات ہے دُنیا تیری کیا ہے
اشکوں بھری برسات ہے دُنیا تیری کیا ہے
کچھ لوگ یہاں نورِ سحر ڈھونڈ رہے ہیں!
تاریک سی اِک رات ہے دُنیا تیری کیا ہے
تقدیر کے چہرے کی شکن دیکھ رہا ہوں
آئینہ حالات ہے دُنیا تیری کیا ہے
پابندِ مشیت ہے تنفس بھی نظر بھی
اِک جذبۂ لمحات ہے دُنیا تیری کیا ہے
مجروح تقدس ہے تقدس کی حقیقت
رُودادِ خرابات ہے دُنیا تیری کیا ہے
ساغر میں چھلکتے ہیں سماوات کے اسرار
ساقی کی کرامات ہے دُنیا تیری کیا ہے
میرے چمن میں بہاروں کے پھُول مہکیں گے
مجھے یقیں ہے شراروں کے پھُول مہکیں گے
کبھی تو دیدۂ نرگس میں روشنی ہو گی
کبھی تو اُجڑے دیاروں کے پھُول مہکیں گے
تمہاری زلفِ پریشاں کی آبرو کے لیے
کئی ادا سے چناروں کے پھُول مہکیں گے
چمک ہی جائے گی شبنم لہُو کی بوندوں سے
روش روش پہ ستاروں کے پھُول مہکیں گے
ہزاروں موجِ تمنّا صدف اُچھالے گی
تلاطموں سے کناروں کے پھُول مہکیں گے
یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار کی ساغر
جِگر فروز اشاروں کے پھُول مہکیں گے
جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
مَوت سی آ گئی خیالوں کو
دیکھ تشنہ لبی کی بات نہ کر
آگ لگ جائے گی پیالوں کو
پھر اُفق سے کِسی نے دیکھا ہے
مُسکرا کر خراب حالوں کو
فیض پہنچا ہے بارہا ساقی
تیرے مستوں سے اِن شوالوں کو
دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو
اس اندھیروں کے عہد میں ساغر
کیا کرے گا کوئی اُجالوں کو
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی ستاروں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک نہ کوئی ستارہ ہے نہ جگنو
مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں
مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں
تری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنام ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں
سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں
تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں
کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں
یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں
پاکستان کے سیاستدان
گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے
وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے
اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری
سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں
یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں
یہ ہنس کر لہو قوم کا چوستے ہیں
خدا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں
یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں
یہ لہجہ میں سرائے کے بولتے ہیں
ہے غارت گری اہل ایماں کا شیوہ
بھلایا شیاطین نے قرآں کا شیوہ
اٹھو نوجوانو! وطن کو بچاؤ!
شراروں سے حد چمن کو بچاؤ
نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب دَردِ دل علاج و دوا سے سے گزر گیا
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقامِ صوت و صدا سے گزر گیا
اعجازِ بے خودی ہے کہ حُسنِ بندگی
اِک بُت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا
انصاف سیم و زر کی تجلّی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاجِ سزا سے گزر گیا
اُلجھی تھی عقل و ہوش میں ساغر رہ حیات
میں لے کے تیرا نام فنا سے گزر گیا
نظر نظر بے قرار سی ہے، نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
مرے عزیزو، مرے رفیقو، کوئی نئی داستان چھیڑو
غم ِ زمانہ کی بات چھوڑو، یہ غم تو اب سازگار سا ہے
کبھی تو آؤ، کبھی تو بیٹھو، کبھی تو دیکھو، کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
چلو کہ جشن ِ بہار دیکھیں، چلو کہ ظرف ِ بہار جانچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے، کلی کلی پر نکھار سا ہے
یہ زلف بر دوش کون آیا، یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی، تمام عالم بہار سا ہے
چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
فغاں ہے درد ہے سوز فراق و داغ الم
ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں
اب اور گردش تقدیر کیا ستائے گی
لٹا کے عشق میں نام و نشان بیٹھے ہیں
وہ ایک لفظ محبت ہی دل کا دشمن ہے
جسے شریعت احساس مان بیٹھے ہیں
ہے مہ کدوں کی بہاروں سے دوستی ساغر
ورائے حد یقین و گمان بیٹھے ہیں
رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں
ہر مسافر یہاں لٹیرا ہے
معبدوں کے چراغ گُل کر دو
قلب انسان میں اندھیرا ہے
جامِ عشرت کا ایک گھونٹ نہیں
تلخی آرزو کی مینا ہے
زندگی حادثوں کی دنیا میں
راہ بھولی ہوئی حسینہ ہے
نور و ظلمت کا احتساب نہ کر
وقت کا کارو بار سانجھا ہے
اس طلسمات کے جہاں میں حضور
کوئی کیدو ہے کوئی رانجھا ہے
چند اشعار
آؤ بادہ کشوں کی بستی سے
کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں
میں فسانے تلاش کرتا ہوں
آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں
٭٭
انقلابِ حیات کیا کہیے
آدمی ڈھل گئے مشینوں میں
میرے نغموں کا دل نہیں لگتا
ماہ پاروں میں، مہ جبینوں میں
جاؤ اہلِ خرد کی محفل میں
کیا کرو گے جنوں نشینوں میں
٭
وقت وارث کا صفحۂ قرطاس
ہیر دنیا کا اجنبی قصہ
جھنگ سہتی کے مکر کی نگری
اور کیدو خیال کا حصہ
٭
کوئی تازہ الم نہ دکھلائے
آنے والی خوشی سے ڈرتے ہیں
لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے
لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں
٭
چند غزلوں کے روپ میں ساغر
پیش ہے زندگی کا شیرازہ
٭
ساقیا تیرے بادہ خانے میں
نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں
٭
اس منزلِ حیات سے گزرے ہیں اس طرح
جیسے کوئی غبار کسی کارواں کے ساتھ
٭
انٹر نیٹ کے مختلف مآخذ سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید