فہرست مضامین
- انتخاب کلام غلام ہمدانی مصحفیؔ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- اس کے کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
- اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا
- آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
- اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا
- آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
- آہ ہم راز کون ہے اپنا
- اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا
- اے غم زدہ ضبط کر کے چلنا
- باغ تھا اس میں آشیاں بھی تھا
- بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
- بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
- پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
- پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
- پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
- تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
- تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
- تم بھی آؤ گے مرے گھر جو صنم کیا ہو گا
- ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا
- جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
- جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
- جب کہ بے پردہ تو ہوا ہو گا
- جو دم حقے کا دوں بولے کہ ”میں حقا نہیں پیتا”
- خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
- دل چرانا یہ کام ہے تیرا
- دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ
- رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
- رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
- رو کے ان آنکھوں نے دریا کر دیا
- شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
- عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
- غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا
- کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا
- کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
- کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
- کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
- کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
- گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
- مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
- نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا
- نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
- ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
- ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
- وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
- یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا
- اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
- دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
- لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب
- وہ چہچہے نہ وہ تری آہنگ عندلیب
- جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
- دریائے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
- رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
- کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ
- آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
- جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
- شعر دولت ہے کہاں کی دولت
- یا تھی ہوس وصال دن رات
- آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
- تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ
- رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
- بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
- سامنے آنکھوں کے ہر دم تری تمثال ہے آج
- لیے آدم نے اپنے بیٹے پانچ
- چشم نے کی گوہر افشانی صریح
- شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح
- کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
- اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
- بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر
- پڑھ نہ اے ہم نشیں وصال کا شعر
- پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر
- چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
- حال دل بے قرار ہے اور
- دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
- موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار
- وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
- مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس
- میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
- ہو چکا ناز منہ دکھائیے بس
- ہر چند کہ ہو مریض محتاط
- وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
- بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
- خاک سمجھے ہے وہ کسی کا عشق
- کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
- جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
- شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
- گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
- اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
- کہتی ہے نماز صبح کی بانگ
- آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
- او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
- ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
- فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
- مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
- اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
- ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
- جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
- سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
- سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم
- کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
- کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
- کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
- Related
انتخاب کلام غلام ہمدانی مصحفیؔ
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
اس کے کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
آہ سے کس کی پڑا تھا واں پتنگا آگ کا
جنگ ہے کس آتشیں خو سے جو رہتا ہے مدام
تیغ عریاں کی طرح ہر شعلہ ننگا آگ کا
توشے دانوں میں بھرے رہتے ہیں ان کے کارتوس
اس لیے خطرہ رکھے ہے ہر تلنگا آگ کا
تہہ سے اس کی سرخ ہو کر کب نہ نکلی موج برق
کب شفق نے خوں میں پیراہن نہ رنگا آگ کا
شمع کے شعلے پہ موقوف اس کا جل جانا نہیں
مصحفیؔ جس جا ہو عاشق ہے پتنگا آگ کا
٭٭٭
اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا
ہر دم دم واپسیں میں سمجھا
انداز ترا بس اب نہ کر شور
اے نالۂ آتشیں میں سمجھا
تب مجھ کو اجل ہوئی گوارا
جب زہر کو انگبیں میں سمجھا
اک خلق کی سر نوشت بانچی
اپنا نہ خط جبیں میں سمجھا
جوں شانہ کبھو تہہ پینچ تیرے
اے کاکل عنبریں میں سمجھا
کیا فائدہ آہ دم بہ دم سے
ہے درد دل حزیں میں سمجھا
پھر اس میں نہ شک نے راہ پائی
جس بات کو بالیقیں میں سمجھا
جب اٹھ گئی ضد تو ہر سخن میں
سمجھا تو کہیں کہیں میں سمجھا
موئے کمر اس کا کیا ہے اے عقل
سمجھا تو مجھے نہیں میں سمجھا
لکھی غزل اس میں مصحفیؔ جلد
جس کو کہ نئی زمیں میں سمجھا
٭٭٭
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
لازم ہے پاسباں سے اب ہم کو ساز کرنا
گر ہم مشیر ہوتے اللہ کے تو کہتے
یعنی وصال کی شب یا رب دراز کرنا
اس کا سلام مجھ سے اب کیا ہے گردش رو
طفلی میں میں سکھایا جس کو نماز کرنا
ازبسکہ خون دل کا کھاتا ہے جوش ہر دم
مشکل ہوا ہے ہم کو اخفائے راز کرنا
بایک نیاز اس سے کیونکر کوئی بر آوے
آتا ہو سو طرح سے جس کو کہ ناز کرنا
کرتے ہیں چوٹ آخر یہ آہوان بدمست
آنکھوں سے اس کی اے دل ٹک احتراز کرنا
اے آہ اس کے دل میں تاثیر ہو تو جانوں
ہے ورنہ کام کتنا پتھر گداز کرنا
ہووے گی صبح روشن اک دم میں وصل کی شب
بند قبا کو اپنے ظالم نہ باز کرنا
اے مصحفیؔ ہیں دو چیز اب یادگار دوراں
اس سے تو ناز کرنا مجھ سے نیاز کرنا
٭٭٭
اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا
سارے جہاں کا تجھ کو آرام جاں بنایا
بوئے محبت اپنی رکھی خدا نے اس میں
سینے میں آدمی کے دل عطر داں بنایا
اپنی تو اس چمن میں نت عمر یوں ہی گزری
یاں آشیاں بنایا واں آشیاں بنایا
محنت پہ ٹک نظر کر صورت گر ازل نے
چالیس دن میں تیرا میم دہاں بنایا
از بسکہ اس سفر میں منزل کو ہم نہ پہنچے
آوارگی نے ہم کو ریگ رواں بنایا
مغرور کیوں نہ ہووے صنعت پر اپنی صانع
کس واسطے جب اس نے یہ گلستاں بنایا
خون جگر سے میرے گل کی شبیہ کھینچی
نالے کو میرے لے کر سرو رواں بنایا
سو ٹکڑے ہے گریباں دامن لہو میں تر ہے
یہ رنگ تو نے ظالم اپنا کہاں بنایا
آتا ہے مصحفیؔ تو یہ کس کے زخم کھائے
تیر جفا کا کس نے تجھ کو نشاں بنایا
٭٭٭
آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
مجھ تک خدا کے واسطے ظالم شتاب آ
دیتا ہوں نامہ میں تجھے اس شرط پر ابھی
قاصد تو اس کے پاس سے لے کر جواب آ
ایسا ہی عزم ہے تجھے گر کوئے یار کا
چلتا ہوں میں بھی اے دل پر اضطراب آ
یہ خستہ چشم وا ہے ترے انتظار میں
اے صبح منہ دکھا کہیں اے آفتاب آ
تا یہ شب فراق کی دیجور دور ہو
اے رشک ماہ گھر میں مرے بے نقاب آ
آب رواں و سبزہ و روئے نگار ہے
ساقی شتاب ایسے میں لے کر شراب آ
روئیں گلے سے لگ کے بہم خوب کوئی دم
کیا دیکھتا ہے اے دل بے صبر و تاب آ
بحر جہاں میں دیر شد آمد روا نہیں
مانند قطرہ جا تو برنگ حباب آ
قربانی آج در پہ ترے کرنی ہے مجھے
لے کر کے تیغ تو بھی برائے ثواب آ
شاید وہ تجھ کو دیکھ کے غم کھائے مصحفیؔ
تو اس کے سامنے تو بہ چشم پر آب آ
٭٭٭
آہ ہم راز کون ہے اپنا
بخت ناساز کون ہے اپنا
کس کے کہلائیں ہم کہ تیرے سوا
بت طناز کون ہے اپنا
بات کہہ دے ہے وہ تہ دل کی
ایسا غماز کون ہے اپنا
لے اڑتے تو ہی گر نہ ہم کو تو پھر
شوق پرواز کون ہے اپنا
وصل ہوتا نہیں، نہیں معلوم
خلل انداز کون ہے اپنا
بولا دیکھ آئینہ وہ حیرت سے
چہرہ پرداز کون ہے اپنا
گو کہ آنکھیں لڑائیں ہم اس سے
یاں نظر باز کون ہے اپنا
شب فرقت میں جز دم قلیاں
یار دم ساز کون ہے اپنا
بے نیازی کرے جو تو ہی تو پھر
اے ہمہ ناز کون ہے اپنا
مصحفیؔ ہم ہیں اور تنہائی
سچ ہے انباز کون ہے اپنا
٭٭٭
اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا
آؤں تو کہیں تیرا ٹھکانا نہیں ملتا
ملنا جو مرا چھوڑ دیا تو نے تو مجھ سے
خاطر سے تری سارا زمانا نہیں ملتا
آوے تو بہانے سے چلا شب مرے گھر کو
ایسا کوئی کیا تجھ کو بہانا نہیں ملتا
کیا فائدہ گر حرص کرے زر کی تو ناداں
کچھ حرص سے قاروں کا خزانا نہیں ملتا
بھولے سے بھی اس نے نہ کہا یوں مرے حق میں
کیا ہو گیا جو اب وہ دوانا نہیں ملتا
پھر بیٹھنے کا مجھ کو مزہ ہی نہیں اٹھتا
جب تک کہ ترے شانے سے شانا نہیں ملتا
اے مصحفیؔ استاد فن ریختہ گوئی
تجھ سا کوئی عالم کو میں چھانا نہیں ملتا
٭٭٭
اے غم زدہ ضبط کر کے چلنا
ہر گام ٹھہر ٹھہر کے چلنا
انداز غضب ہے یہ بتوں کا
ہاتھوں کو کمر پہ دھر کے چلنا
جاتے ہوئے اس گلی سے ہم کو
ہر گام اک آہ بھر کے چلنا
اے کبک کہاں تو اور وہ رفتار
پاوے گا نہ ایسا مر کے چلنا
اے مصحفیؔ کیوں دبوں نہ اس سے
عاشق کا ہے شیوہ ڈر کے چلنا
٭٭٭
باغ تھا اس میں آشیاں بھی تھا
چند روز آب و دانہ یاں بھی تھا
صوت بلبل جگر میں سالتی تھی
خندۂ گل نمک فشاں بھی تھا
خوان قسمت کے حاشیے پہ جلیں
کبھی یہ مشت استخواں بھی تھا
مرغ بستاں کو سامنے میرے
مصحفیؔ زہرۂ فغاں بھی تھا؟
انجمن میں میاں بشارت کی
یعنی اک شخص شعر خواں بھی تھا
٭٭٭
بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا
کسی کو گرمیِ تقریر سے اپنی لگا رکھا
کسی کو منہ چھپا کر نرمیِ آواز سے مارا
ہمارا مرغ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے
گہے شاہین پھینکے اس پہ گاہے باز سے مارا
غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت
کہ اس نے ساز مارا سر سے اور سر ساز سے مارا
نکالی رسم تیغ و طشت دلی میں جزاک اللہ
کہ مارا تو ہمیں تو نے پر اک اعزاز سے مارا
نہ اڑتا مرغ دل تو چنگل شاہیں میں کیوں پھنستا
گیا یہ خستہ اپنی خوبیِ پرواز سے مارا
جہاں تک ساز داری ہے لکھی دشمن کے طالع میں
ہمیں بد نام کر کے طالع نا ساز سے مارا
ہزاروں رنگ اس کے خون نے یاروں کو دکھلائے
جب اس نے مصحفیؔ کو اپنی تیغ ناز سے مارا
٭٭٭
بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
تم نے ساز فغاں کو کیوں چھیڑا
مجھ کو اس ترک سے یہ شکوہ ہے
دل پہ رکھ کر سناں کو کیوں چھیڑا
نہ بلا لائے مجھ سا دیوانہ
سنگسار جہاں کو کیوں چھیڑا
اے ہما! اور کھانے تھے مردے
میرے ہی استخواں کو کیوں چھیڑا
بہلہ نادم ہو جی میں کہتا ہے
میں نے اس مومیاں کو کیوں چھیڑا
پھر گیا مجھ سے جو مزاج اس کا
گردش آسماں کو کیوں چھیڑا
دور سے اس نے میری صورت دیکھ
توسن خوش عناں کو کیوں چھیڑا
داستاں اپنی مجھ کو کہنی تھی
قصۂ این و آں کو کیوں چھیڑا
قصہ خواں اور لاکھ قصے تھے
تو نے ذکر بتاں کو کیوں چھیڑا
جس سے کل مجھ کو آ گئی تھی غشی
پھر اسی داستاں کو کیوں چھیڑا
مصحفیؔ گھر کے گھر جلا دے گا
ایسے آتش زباں کو کیوں چھیڑا
٭٭٭
پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
اس آرائش نے دل پر نقش مارا
یہ مشاطہ بلائے تازہ لائی
مجعد کر دیا سر اس کا سارا
ہزاروں چوٹیاں ننھی تھیں اور بال
نہ کیوں تخت اپنا لٹوا دے ہزارا
گداز آہن دلوں کو حسن جب دے
نہ ہووے آب کیوں کر سنگ خارا
کہیں دیکھا ہے اس ہیئت کا معشوق
نظر کیجو مسلماناں! خدا را
بلے اے مصحفیؔ دیگر چہ گویم
ادائے موئے مانی کشت مارا
٭٭٭
پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
ابھی گرد باد ہو اڑ گیا وہ عجب طرح کا غبار تھا
میں نگاہ پاک سے دیکھے تھا ترے حسن پاک کو اس پہ بھی
مرے جی میں خواہش وصل تھی مرے دل میں بوس و کنار تھا
دل خستہ پہلو میں رہ گیا مرے سرد ہو کے تو کیا عجب
کہ کسی کی صافیِ شست کا یہ خدنگ خوردہ شکار تھا
مری بے کسی پہ تری نظر نہ پڑی جب اے بت عشوہ گر
وہ جو تیرا عہد شباب تھا سو وہ عین جوش بہار تھا
میں مزار کو بھی مٹا دیا میں غبار کو بھی اڑا دیا
کہ تری صفائے مزاج پر مری خاک سے بھی غبار تھا
اس ادا سے تیر لگاوے تھا تو بہ روئے تودۂ مشت گل
کہ فلک بہ تیغ و کمان بھی ترا محو کند و کدار تھا
یہ جنوں کی عقدہ کشائیاں کوئی بھولتا ہوں میں مصحفیؔ
کہ بہ روئے ہر سر آبلہ وہی ناخن سر خار تھا
٭٭٭
پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
جان غم دیدہ کو جو گھن سا لگا
اس گلی میں جو میں اٹھا گاہے
پائے خوابیدہ مجھ کو سن سا لگا
اس نے جس وقت اور سر کھینچا
نخل قد اس کا سرو بن سا لگا
اس کے چھلے کے ہیں جو گل کھائے
داغ ہر اک بدن پہ ہن سا لگا
آخر عمر اپنی نظروں میں
جامۂ زندگی کہن سا لگا
کشتیِ چشم تر کھنچی ہے ادھر
ہے جدھر تار اشک گن سا لگا
یار دھرماتما کا پیار کے ساتھ
بوسہ دینا بھی مجھ کو پن سا لگا
جب دل سوختہ پہ زخمِ مژہ
نظر آیا وہ صاف پن سا لگا
میں سنا مصحفیؔ کو پیری میں
مجھ کو خیلے وہ خوش سخن سا لگا
٭٭٭
تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
زہر بھی تجھ کو کیا نہیں ملتا
جس کو وہ زلف مار ڈالے ہے
سر مو خوں بہا نہیں ملتا
اور سب کچھ ملے ہے دنیا میں
لیکن اک آشنا نہیں ملتا
دل دیوانہ رات سے گم ہے
کہیں اس کا پتا نہیں ملتا
شیخ کلبے سے اٹھ نکل باہر
گھر میں بیٹھے خدا نہیں ملتا
درد و غم کو بھی ہے نصیبہ شرط
یہ بھی قسمت سوا نہیں ملتا
اک نے پوچھا یہ مصحفیؔ سے بھلا
کیوں تو اے بے وفا نہیں ملتا
ہنس کے بولا کہ او میاں اس سے
کیا کروں دل مرا نہیں ملتا
٭٭٭
تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
قبضے پہ ہاتھ رکھ کے ڈراتے ہو ہم کو کیا
آنکھیں تمہاری جھپکیں ہیں ایدھر کو بیشتر
تم ان اشارتوں سے بلاتے ہو ہم کو کیا
آویں ہماری گور میں گر منکر و نکیر
اتنا کہیں: ابھی سے اٹھاتے ہو ہم کو کیا
لا کر کبھی دیا ہے کوئی پھول پھل ہمیں
تم سیر گلستاں کو جو جاتے ہو ہم کو کیا
کہتے ہو ایک آدھ کی ہے میرے ہاتھوں موت
ہم بھی سمجھتے ہیں یہ سناتے ہو ہم کو کیا
ہم سے تو اب تلک وہی شرم و حجاب ہے
گر ہر کسی کے سامنے آتے ہو ہم کو کیا
کہتے ہو روز ہم سے یہی کل کو آئیو
کیا خو نکالی ہے یہ ستاتے ہو ہم کو کیا
دینا ہے کوئی بوسہ تو دے ڈالیے میاں
کیوں پانو توڑتے ہو پھراتے ہو ہم کو کیا
لے لے کے نام اس کی جفاؤں کا مصحفیؔ
ہم آپ جل رہے ہیں جلاتے ہو ہم کو کیا
٭٭٭
تم بھی آؤ گے مرے گھر جو صنم کیا ہو گا
مجھ پر اک رات کرو گے جو کرم کیا ہو گا
ایک عالم نے کیا ہے سفر ملک عدم
ہم بھی جاویں گے اگر سوئے عدم کیا ہو گا
دم رخصت ہے مرا آج مری بالیں پر
تم اگر وقفہ کرو گے کوئی دم کیا ہو گا
دیکھ اس چاک گریباں کو تو یہ کہتی ہے صبح
جس کا سینہ ہے یہ کچھ اس کا شکم کیا ہو گا
چین ہو جائے گا دل کو مرے از راہ کرم
میری آنکھوں پہ رکھو گے جو قدم کیا ہو گا
صحبت غیر کا انکار تو کرتے ہو ولے
کھاؤ گے تم جو مرے سر کی قسم کیا ہو گا
شانہ اک عمر سے کرتا ہے دو وقتی خدمت
تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂ نم کیا ہو گا
مصحفیؔ وصل میں اس کے جو موا جاتا ہو
اس پہ ایام جدائی میں ستم کیا ہو گا
٭٭٭
ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا
یاقوت سا دمکنے لگا رنگ خاک کا
لے جاتے ہیں اٹھا کے ملک اس کی نعش کو
یہ مرتبہ ہے تیغ نگہ کے ہلاک کا
اے باغباں نہ مجھ سے ہو آزردہ میں چلا
اک دم خوش آ گیا تھا مجھے سایہ تاک کا
ملنے میں کتنے گرم ہیں یہ ہائے دیکھیو
کشتہ ہوں میں تو شعلہ رخوں کے تپاک کا
اے شعلہ اپنی گرم روی پر نہ بھولیو
عالم ہے اور آہ دل سوزناک کا
آتا ہے اپنے کشتے کی تربت پہ جب وہ شوخ
اک نعرہ واں سے نکلے ہے روحی فداک کا
شکر خدا کہ نام ہے عصمت کا مصحفیؔ
روز جزا گواہ مرے عشق پاک کا
٭٭٭
جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
راہ کے جانے والوں نے بھی منہ اس کا پھر پھر کے دیکھا
قیس ملے تو اس سے پوچھوں کیا ترے جی میں آئی دوانے
شہر کو تو نے کس لیے چھوڑا کیوں کے خوش آیا تجھ کو صحرا
صبح سے لے کر شام تلک یاں یہ وہ گلی ہے جس میں پھریں ہیں
چاک گریباں موئے پریشاں ہم سے ہزاروں عاشق رسوا
اس نے مزا کیا پایا ہو گا دو چلو مے پینے کا یاں
جس میکش کے ہاتھ نہ آیا غبغب ساغر ساعد مینا
سوختگی نے غم کی اثر جو دل میں کیا ہے ہونے لگا ہے
تھوڑا تھوڑا رنگ دھوئیں کے سبزہ ہماری خاک سے پیدا
اک ٹھوکر میں مردے ہزاروں اٹھ بیٹھیں ہیں گور سے ووہیں
لیتا ہے وہ وقت خرامش پانو سے اپنے کار مسیحا
جاتے ہیں نا کسی کے گھر ہم اور نہ کوئی کچھ دیتا ہے ہم کو
قطع کیے ہیں ہم نے دونوں پائے طلب اور دست تمنا
آنکھ لڑانا سامنے آنا منہ دکھلانا اور چھپ جانا
یہ بھی ادا ہے کوئی ظالم مان خدا کو مت دے ایذا
مصحفیؔ اس دلچسپ زمیں میں طبع کرے گر تیری رسائی
خامہ ترا کچھ کند نہیں ہے ایک غزل تو اور بھی لکھ جا
٭٭٭
جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا
عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے
یعنی ہیں جہاں ہم واں اسلام نہیں ہوتا
کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا
ملتا ہے کبھی بوسہ نے گالی ہی پاتے ہیں
مدت ہوئی کچھ ہم کو انعام نہیں ہوتا
ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا
کیوں تیرگیِ طالع کچھ تو بھی نہیں کرتی
یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا
پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
وہ آہوئے رم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا
نے عشق کے قابل ہیں نے زہد کے درخور ہیں
اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا
٭٭٭
جب کہ بے پردہ تو ہوا ہو گا
ماہ پردے سے تک رہا ہو گا
کچھ ہے سرخی سی آج پلکوں پر
قطرۂ خوں کوئی بہا ہو گا
میرے نامے سے خوں ٹپکتا تھا
دیکھ کر اس نے کیا کہا ہو گا
گھورتا ہے مجھے وہ دل کی مرے
میری نظروں سے پا گیا ہو گا
یہی رہتا ہے اب تو دھیان مجھے
واں سے قاصد مرا چلا ہو گا
جس گھڑی تجھ کو کنج خلوت میں
پا کے تنہا وہ آ گیا ہو گا
مصحفیؔ اس گھڑی میں حیراں ہوں
تجھ سے کیونکر رہا گیا ہو گا
٭٭٭
جو دم حقے کا دوں بولے کہ ”میں حقا نہیں پیتا”
بھروں جلدی سے گر سلفا، کہے ”سلفا نہیں پیتا”
خدا کے واسطے کر تو ہی ساقی اس کی دل داری
کہ میرے ہاتھ سے مے، یار بے پروا نہیں پیتا
اگرچہ مے کدہ معمور ہے لیکن ترا کیفی
برنگ گل بہ جز یک ساغر صہبا نہیں پیتا
میں عالی ہمتی کا اس کی بندہ ہوں کہ جو میکش
نہیں ملتی جو مے، تو بھنگ اور بوزا نہیں پیتا
وزیر الملک کا ازبسکہ مے نوشاں پہ قدغن ہے
بجائے مے، ہے وہ یاں کون جو کتھا نہیں پیتا
لب سوفار میں سرخی کہاں سے اس کے آئی ہے؟
جو تیرا تیر پیارے خون دل میرا نہیں پیتا
کسی نے یہ فسوں کچھ پڑھ کے اس کافر پہ مارا ہے
کہ ان روزوں وہ پانی بھی مرے گھر کا نہیں پیتا
پیے ہے اس طرح دیوانہ، مل مل تاک کے پتے
کہ تریاکی بھی یوں افیون کا گھولا نہیں پیتا
کہے ہے مجھ سے یوں ہمدم کہ رت لاہن کی آئی ہے
ولے کیا فائدہ تجھ کو، تو ڈر ٹھرا نہیں پیتا
چلے ہے روز غیروں کے گلے پر تیغ تیز اس کی
لہو کے گھونٹ کس دن عاشق شیدا نہیں پیتا
شراب دوستگانی کا قدح رکھ ہاتھ پر اپنے
کہا میں نے جو ”پی” اس کو، وہ یوں بولا ”نہیں پیتا”
نہیں ملتا وہ جو شیریں دہن اے مصحفیؔ تجھ کو
تو اس کے ہجر میں کیوں زہر کا پیالا نہیں پیتا
٭٭٭
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
میرے پہلو میں رات جا کر وہ
ماہ تھا یا ہلال تھا کیا تھا
چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم
حسن تھا یا جمال تھا کیا تھا
شب جو دل دو دو ہاتھ اچھلتا تھا
وجد تھا یا وہ حال تھا کیا تھا
جس کو ہم روز ہجر سمجھے تھے
ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا تھا
مصحفیؔ شب جو چپ تو بیٹھا تھا
کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا
٭٭٭
دل چرانا یہ کام ہے تیرا
لے گیا ہے تو نام ہے تیرا
ہے قیامت بپا کہ جلوے میں
قامت خوش خرام ہے تیرا
جس نے عالم کیا ہے زیر و زبر
یہ خط مشک فام ہے تیرا
دید کرنے کو چاہئیں آنکھیں
ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا
کس کا یہ خوں کیے تو آتا ہے
دامن افشاں تمام ہے تیرا
ہو نہ ہو تو ہماری مجلس میں
تذکرہ صبح و شام ہے تیرا
تیغ ابرو ہمیں بھی دے اک زخم
سر پہ عالم کے دام ہے تیرا
تو جو کہتا ہے مصحفیؔ ادھر آ
مصحفیؔ کیا غلام ہے تیرا
٭٭٭
دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ
ان آنکھوں کے صدقے جاؤں جو ہیں ہر دم محو تماشا
زہد و ورع پر بھول نہ زاہد حسن کا منکر ہو نہ دوانے
صنعاں سے کو لے گیا غافل ایک ادا میں عشوۂ ترسا
دیکھ تجلی حسن کی تیرے کوہ بہے جب ہو کر پانی
دیوانا سا بھاگا ووہیں چاک گریباں کر کے دریا
کیوں نہ گریباں پھاڑوں اپنا ہاتھ اور میرا اس کا دامن
طالع ہیں آ کر کے ہوا ہے دامن یوسف دست زلیخا
روز کے وعدے روز بہانے روز یہ کہنا آؤں گا کل
فائدہ کیا ان باتوں کا ہے ہم نے میاں بس تم کو دیکھا
زلف معنبر اس نے جو کھولی تو یوں محفل ساری مہکی
آوے چمن سے موسم گل میں باد صبا کا جیسے جھونکا
مدھ میں بھرا ہے جوبن کے وہ حسن سے اس کے ٹپکے ہے مستی
چاہ ذقن ہے جام بلوریں اور غبغب ہے شیشۂ صہبا
نیم نگہ پر دیتے ہیں دل کو جانو تو کچھ لے لو صاحب
پھر نہ ملے گا ورنہ تم کو ہرگز ایسا سستا سودا
کیوں نہ چھکے دل دیکھ کے اس کو جس ساقی کا ہووے یارو
دست نگاریں پنجۂ مرجاں ساعد سیمیں گردن مینا
مصحفیؔ کر کے چاک گریباں چل جنگل کو اے دیوانے
دیکھ تو کیا پھولا ہے لالہ سرخ ہے کیسا دامن صحرا
٭٭٭
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا
مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے
جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا
یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام
نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا
مر گئی سرو پہ جب ہو کے تصدق قمری
اس سے اس دم بھی نہ طوق اپنے گلو کا نکلا
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
٭٭٭
رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
میں تیرہ شب آفتاب دیکھا
محروم ہے نامہ دار دنیا
پانی سے تہی حباب دیکھا
سرخی سے ترے لبوں کی ہم نے
آتش کو میان آب دیکھا
قاصد کا سر آیا اس گلی سے
نامے کا مرے جواب دیکھا
جانا یہ ہم نے وفات کے بعد
دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا
آفت کا نشانہ ہو چکا تھا
میں دل کی طرف شتاب دیکھا
اک وضع نہیں مزاج معشوق
گہہ لطف و گہے عتاب دیکھا
آنکھوں سے بہاریں گزریں کیا کیا
کس کس کا نہ میں شباب دیکھا
کل مے کدے میں بغیر ساقی
اوندھا قدح شراب دیکھا
کیں اس نے جفائیں بے حسابی
اک دن نہ کبھو حساب دیکھا
سینے سے نکل پڑا نہ آخر
دل کا مرے اضطراب دیکھا
کیا ہو گی فلاح بعد مردن
جیتے تو سدا عذاب دیکھا
آبادی ہے اس کی مصحفیؔ کم
عالم کے تئیں خراب دیکھا
٭٭٭
رو کے ان آنکھوں نے دریا کر دیا
ابر کو پانی سے پتلا کر دیا
حسن ہے اک فتنہ گر اس نے وہیں
جس کو چاہا اس کو رسوا کر دیا
تم نے کچھ ساقی کی کل دیکھی ادا
مجھ کو ساغر مے کا چھلکا کر دیا
بیٹھے بیٹھے پھر گئیں آنکھیں مری
مجھ کو ان آنکھوں نے یہ کیا کر دیا
اس نے جب مجھ پر چلائی تیغ ہائے
کیوں میں اپنا ہاتھ اونچا کر دیا
مصحفیؔ کے دیکھ یوں چہرے کا رنگ
عشق نے کیا اس کا نقشا کر دیا
٭٭٭
شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
غرض اس شب عجب ہی بے سر و پائی کا عالم تھا
گریباں غنچۂ گل نے کیا گلشن میں سو ٹکڑے
کہ ہر فندق پر اس کے طرفہ رعنائی کا عالم تھا
نہال خشک ہوں میں اب تو یارو کیا ہوا یعنی
کبھی اس بید مجنوں پر بھی شیدائی کا عالم تھا
لکھے گر جا و بے جا شعر میں نے ڈر نہیں اس کا
کہ میں یاں تھا سفر میں مجھ پہ بے جائی کا عالم تھا
حنا بھی تو لگا دیکھی پہ وہ عالم کہاں ہے اب
ہمارے خوں سے جو ہاتھوں پہ زیبائی کا عالم تھا
چلا جب شہر سے مجنوں طرف صحرا کی یوں بولا
نصیب اپنے تو اس عالم میں رسوائی کا عالم تھا
یہ عالم ہم نے دیکھا مصحفیؔ ہاں اپنی آنکھوں سے
کہ بندہ جی سے اس معشوق ہرجائی کا عالم تھا
٭٭٭
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
مجھ سا تو کوئی بندۂ فرماں نہ ملے گا
ہوں منتظر لطف کھڑا کب سے ادھر دیکھ
کیا مجھ کو دل اے طرۂ جاناں نہ ملے گا
کہنے کو مسلماں ہیں سبھی کعبے میں لیکن
ڈھونڈو گے اگر ایک مسلماں نہ ملے گا
ناصح اسے سینا ہے تو اب سی لے وگرنہ
پھر فصل گل آئے یہ گریباں نہ ملے گا
رہنے کے لیے ہم سے گنہ گاروں کے یا رب
کیا شہر عدم میں کوئی زنداں نہ ملے گا
ہونے کی نہیں تیری خوشی سرو خراماں
تا خاک میں یہ بے سر و ساماں نہ ملے گا
دل اس سے تو مانگے ہے عبث مصحفیؔ ہر دم
کیا فائدہ اصرار کا ناداں نہ ملے گا
٭٭٭
غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا
پھر دھواں سا اس سے کچھ اٹھتا نظر آنے لگا
عشق کے صدمے اٹھائے تھے بہت پر کیا کریں
اب تو ان صدموں سے کچھ جی اپنا گھبرانے لگا
میں ہی کچھ بے صبر و طاقت عشق میں اس کے نہیں
دل بھی اب بے طاقتی سے کام فرمانے لگا
دیکھتے ہی اس کے کچھ اس کی یہ حالت ہو گئی
جو مجھے سمجھائے تھا میں اس کو سمجھانے لگا
رقص میں اس کے سنجاف سرخ کے عالم کو دیکھ
شعلۂ جوالہ دامن سے لپٹ جانے لگا
ہو چکی فصل گریباں چاکی اب دست جنوں
دھجیاں کر کے مجھے دامن کی دکھلانے لگا
منہ سے نکلا تھا مرے اتنا ہی کیا اچھی ہے زلف
سنتے ہی اس بات کے کچھ وہ تو بل کھانے لگا
کیوں نہ پھاڑوں میں گریباں میرے ہوتے بزم میں
غیر سے بند قبا وہ اپنے کھلوانے لگا
مصحفیؔ میں تو نہ لکھتا تھا ولے شوق فضول
اس زمیں میں پھر غزل اک مجھ سے لکھوانے لگا
٭٭٭
کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا
سادہ مانجھے کا اسے ماہ نے گولا بھیجا
نام کا اس کے جو میں کہہ کے معما بھیجا
یہ بھی حرکت ہے بری اس نے یہ فرما بھیجا
اس کی فرمائشیں کیا کیا نہ بجا لایا میں
کبھی پٹا کبھی لچکا کبھی گوٹا بھیجا
قیس و فرہاد کو جاگیر یہی عشق نے دی
ایک کو کوہ ملا ایک کو صحرا بھیجا
سوزن و شانہ و آئینہ خریدے ہم نے
کبھی بھیجا بھی تو اس گل کو یہ سودا بھیجا
پھر تہ خاک مرا داغ جگر تازہ ہوا
کس نے تربت پہ مری لالۂ حمرا بھیجا
عاشقوں میں اسے گنتے نہیں وارستہ مزاج
جس نے تا نوک قلم حرف تمنا بھیجا
داغ دل زخم جگر کلفت غم درد فراق
حضرت عشق نے کیا کیا نہیں تحفہ بھیجا
مصحفیؔ جا کے وہاں بھول گئے کیا ہم کو
کبھی یاران عدم نے جو نہ پرزہ بھیجا
٭٭٭
کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
ڈنڈ پیل آج ہو گیا سنڈا
لال کرتا ہے عشق عاشق کو
آگ میں جیسے سرخ ہو کنڈا
دل ہے یوں زخم دار ڈاس فلک
جیسے ہوتا ہے مچھلی کا کھنڈا
سب میں مشہور ہے شجاعت مرغ
باہ افزوں کرے نہ کیوں انڈا
قلعۂ چرخ پر شب ہجراں
جا کے گاڑھا ہے آہ نے جھنڈا
مصحفیؔ غم میں اس سہی قد کے
سوکھ کر ہو گیا ہے سرکنڈا
حکم ہے مفلسی کا مفلس کو
شام سے تو چراغ کر ٹھنڈا
٭٭٭
کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
ہم لوگ ہیں سودائی اوقات ہماری کیا
بجلی سے لپٹ کر ہم بھسمنت ہوئے آخر
اس کو ترے دامن کی سمجھے تھے کناری کیا
جوں شمع سر شب سے میں رونے کو بیٹھا ہوں
تا آخر شب دیکھوں دکھلائے یہ زاری کیا
گھبرائی جو پھرتی ہے اس طور صبا ہر سو
آتی ہے گلستاں کو اس گل کی سواری کیا
رونا مری آنکھوں سے جب تک کہ نہ سیکھے گا
جا بیٹھ تو رووے گا اے ابر بہاری کیا
سوتے سے تو اٹھنے دو ٹک اس کو سحر ہوتے
دیکھو گے کہ مچلے گی وہ چشم خماری کیا
نرگس کی خجل آنکھیں اتنی تو نہ تھیں گاہے
اس چشم مفتن سے بازی کوئی ہاری کیا
اوقات مجرد کی کس طرح بسر ہووے
جنگل ہے یہ بکتی ہے یاں نان نہاری کیا
اے مصحفیؔ میں اس کو جی جان سے گو چاہا
آخر کو ہوا حاصل جز ذلت و خواری کیا
٭٭٭
کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
میں رہروان عدم کو بہت پکار رہا
قفس سے چھوڑے ہے اب مجھ کو کیا تو اے صیاد
چمن کے بیچ کہاں موسم بہار رہا
پس از وفات بھی اپنی ہوئیں نہ آنکھیں بند
زبس کہ تیرے ہی آنے کا انتظار رہا
خدا کے واسطے اب اس سے ہاتھ اٹھا کہ مرے
جگر میں نم نہیں اے چشم اشکبار رہا
ہوا تو غیر سے جب ہمکنار میرے ساتھ
کہاں وہ وعدہ رہا اور کہاں قرار رہا
کروں جو چاک گریباں کو اپنے ہوں مجبور
کہ میرے ہاتھ میں میرا نہ اختیار رہا
نہ سیر لالہ و گل ہم کو کچھ نظر آئی
کہ نوک ہر مژہ پر یاں دل فگار رہا
گلی میں اس کی گئے اور وہاں سے پھر آئے
تمام عمر یہی اپنا کاروبار رہا
غزل اک اور بھی اے مصحفیؔ سنا دے تو
کوئی کہے نہ کہ بندہ امیدوار رہا
٭٭٭
کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
اس آہ میں تو ہم نے کچھ بھی اثر نہ دیکھا
کیا کیا بہاریں آئیں کیا کیا درخت پھولے
نخل دعا کو لیکن میں بارور نہ دیکھا
ہرگز ہوا نہ یارو وہ شوخ یار اپنا
زیں پیش ورنہ ہم نے کیا کیا کہ کر نہ دیکھا
رہتے ہیں کیا بھلا واں آفت زدے ہی سارے
اس کوچے میں کسی کا آباد گھر نہ دیکھا
پہنچا گلی تک اس کے آگے کھڑا رہا میں
آگے قدم کے رکھتے پھر نامہ بر نہ دیکھا
دو دو پہر تک اس کے آگے کھڑا رہا میں
پر اس نے ضد کے مارے بھر کر نظر نہ دیکھا
کیا فائدہ رکھے ہے بس اب زیادہ مت رو
رونا ترا کسی نے اے چشم تر نہ دیکھا
کل یار کی گلی میں ڈھونڈا جو مصحفیؔ کو
اک لاش تو پڑی تھی پر اس کا سر نہ دیکھا
٭٭٭
گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
تو زیر خاک نہ یہ بے قرار ٹھہرے گا
نہ بولو کوئی مرے جھگڑے میں سمجھ لوں گا
مرے اور اس کے جو دار و مدار ٹھہرے گا
اگر یہ ہے ترے دامن کی حشر و نشر میاں
زمیں پہ خاک ہمارا غبار ٹھہرے گا
چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلۂ نوبہار ٹھہرے گا
تمہارے ناوک مژگاں کے سامنے خوباں
کہاں تلک یہ دل داغ دار ٹھہرے گا
یہی ہے لوٹ تو شانے کے ہاتھ سے پیارے
نہ ایک بھی تری زلفوں کا تار ٹھہرے گا
تمہارے وعدوں پہ ہم کو تو اب نہیں ٹھہراؤ
مگر نیا کوئی امید وار ٹھہرے گا
جو سیر کرنی ہے کر لے کہ جب خزاں آئی
نہ گل رہے گا چمن میں نہ خار ٹھہرے گا
خدنگ خوردہ دل آگے سے اس کے جاتا ہے
خبر نہیں کہ کہاں یہ شکار ٹھہرے گا
شتاب آئیو ٹھہرا رکھیں گے ہم اس کو
جو جاں لبوں پہ شب انتظار ٹھہرے گا
اسے نہ دفن کرو سمجھو تو کوئی یارو
زمیں میں مصحفیِؔ بے قرار ٹھہرے گا
٭٭٭
مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
یارو مرے اور اس کے کب ربط سخن کا تھا
واں بالوں میں وہ مکھڑا جاتا تھا چھپا کم کم
یاں حشر مرے دل پر اک چاند گہن کا تھا
تھے خط شکستہ کی رخسار ترے تعلیم
از بس کہ ہجوم ان پر زلفوں کی شکن کا تھا
پروانے کی ہمت کے صدقے میں کہ دی شب وہ
اس بے پر و بالی پر قربان لگن کا تھا
آخر کو ہمیں ظالم پامال کیا تو نے
اندیشہ ہمیں دل میں تیرے ہی چلن کا تھا
میں اس قد و عارض کو کر یاد بہت رویا
مذکور گلستاں میں کچھ سرو و سمن کا تھا
جوں اشک سر مژگاں ہم پھر نہ نظر آئے
از بس کہ یہاں وقفہ اک چشم زدن کا تھا
دو پھول کوئی رکھ کر گزرا تھا جو کل یاں سے
تربت پہ مری بلوا مرغان چمن کا تھا
جس مرغ چمن کو میں دیکھا تو چمن میں بھی
حسرت کش نظارہ اس رشک چمن تھا
شب دیکھ مہ تاباں تھا مصحفیؔ تو حیراں
کیا اس میں بھی کچھ نقشہ اس سیم بدن کا تھا
٭٭٭
نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا
شعلہ اک دو وجب زمیں سے اٹھا
تو جو کل خاک کشتگاں سے گیا
شور اس دم عجب زمیں سے اٹھا
بیٹھے بیٹھے جو ہو گیا وہ کھڑا
اک ستارہ سا شب زمیں سے اٹھا
قد وہ بوٹا سا دیکھ کہتی ہے خلق
یہ تو پودا عجب زمیں سے اٹھا
تشنہ صہبائے وصل کا تیری
حشر کو خشک لب زمیں سے اٹھا
بیٹھ کر اٹھ گیا جہاں وہ شوخ
فتنہ واں جب نہ تب زمیں سے اٹھا
سوچتا کیا ہے دیکھ دیکھ اسے
بن اٹھائے وہ کب زمیں سے اٹھا
تھی قضا یوں ہی تیرے کشتے کی
لاش کو اس کی اب زمیں سے اٹھا
گل نہیں مصحفیؔ کا دل ہے یہ
اس کو اے بے ادب زمیں سے اٹھا
٭٭٭
نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
شب فراق میں ہم تلملائے ہیں کیا کیا
ذرا تو دیکھ تو صناع دست قدرت نے
طلسم خاک سے نقشے اٹھائے ہیں کیا کیا
میں اس کے حسن کے عالم کی کیا کروں تعریف
نہ پوچھ مجھ سے کہ عالم دکھائے ہیں کیا کیا
ذرا تو دیکھ تو گھر سے نکل کے اے بے مہر
کہ دیکھنے کو ترے لوگ آئے ہیں کیا کیا
کوئی پٹکتا ہے سر کوئی جان کھوتا ہے
ترے خرام نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
ذرا تو آن کے آب رواں کی سیر تو کر
ہماری چشم نے چشمے بہائے ہیں کیا کیا
نگاہ غور سے ٹک مصحفیؔ کی جانب دیکھ
جگر پہ اس نے ترے زخم کھائے ہیں کیا کیا
٭٭٭
ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
غیر از نسا ولے نہ ملا چاہ کا مزا
خطرے سے اس کے کر نہیں سکتا میں آہ بھی
لیتا ہوں جی ہی جی میں سدا آہ کا مزا
اپنی تو عمر روز سیہ میں گزر گئی
دیکھا کبھی نہ ہم نے شب ماہ کا مزا
باللہ کہہ کے اس نے قسم کھائی تھی کہیں
واللہ بھولتا نہیں باللہ کا مزا
بوسے کے جو سوال پہ اس نے کہا تھا واہ
اب تک پھرے ہے دل میں وہی واہ کا مزا
لذت کو اس کے سمجھیں ہیں کیا صاحب ورع
کوئی پوچھے اہل فسق سے تو باہ کا مزا
کیا وہ بھی دن تھے خوب کہ لوٹیں تھے مصحفیؔ
ہم بھی نظارۂ گہہ و بے گاہ کا مزا
٭٭٭
ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
کھیتوں کا مزہ لینا جنگل کو نکل جانا
جی کیوں نہ بھلا ان کی پھر بھوں پہ لگے اپنا
اک وسعت مشرب کے ہے ساتھ یہ ویرانا
سطح پہ زمیں کی ہے تاحد نظر سبزہ
کیا سیر کا عالم ہے اپنا ہے نہ بیگانا
ہم عشق حقیقی کے یہ رنگ سمجھتے ہیں
نے لیلیٰ نہ مجنوں ہے نے شمع نہ پروانہ
جس حسن کے جلوے ہیں عارف کی نگاہوں میں
وہ حسن بناوے ہے کعبے کو صنم خانا
دیوانۂ شہری تو دیوار کا سایہ لے
سائے میں مغیلاں کے بیٹھے گا یہ دیوانا
غربت کے بیاباں میں ہے مصحفیؔ آوارا
اے خضر خجستہ پے ٹک راہ تو بتلانا
٭٭٭
وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
ہمارے آپ کے ہرگز وہ ماجرا نہ رہا
سر نیاز رہا زیر پائے یاد مدام
حنا کی طرح میں قدموں سے کب لگا نہ رہا
دل آشنائی کو چاہے کسی کی خاک مرا
کہ آشنا جو ہوا تھا وہ آشنا نہ رہا
ہمیشہ جس سے پہنچتا رہے تھا دل کو الم
ہزار شکر کہ وہ درد بے دوا نہ رہا
جب آپ ہم نے بتاں ترک آشنائی کی
کسی بھی طرح کا تم سے ہمیں گلا نہ رہا
گلوں کے چہروں پہ زردی سی پھر رہی ہے تمام
گئی بہار وہ موسم کا ابتدا نہ رہا
صفائے سینہ سے پھسلا نہ کب دل عاشق
کہ چاہ ناف میں وہ خوں گرفتہ جا نہ رہا
ہزار حرف زباں سوز درمیاں آئے
ہے سچ تو یہ کہ محبت میں وہ مزا نہ رہا
چمن کو چھوڑ ہم ایسے چلے گئے سوئے دشت
کہ نام کو بھی پھر اندیشۂ صبا نہ رہا
یہ کس کے چاہ زنخداں کی فکر میں ڈوبا
تمام رات جو زانو سے سر جدا نہ رہا
عجب نہ جان گر آ جائے سلطنت کو زوال
کسی کے سر پہ سدا سایۂ ہما نہ رہا
نشان مصحفیِؔ خستہ پوچھتے کیا ہو
وہ خاک راہ تو اب مثل نقش پا نہ رہا
٭٭٭
یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا
کہ بہ سوئے دل مژہ سے وہیں خون ناب الٹا
سر لوح اس کی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی
اسے دیکھ کر نہ میں نے ورق کتاب الٹا
میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے اور وہی لے ثواب الٹا
یہ الٹ گئی ہے قسمت کہ جو دل کسی کو دوں میں
وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب الٹا
یہ نقاب پوش ظالم کوئی اور ہے کہ جس نے
کیے خون سیکڑوں اور نہ ذرا نقاب الٹا
جو بوقت غسل اپنا وہ پھرا لے موج سے منہ
تو پھراتے ہی منہ اس کے لگے بہنے آب الٹا
میں لکھا ہے خط تو قاصد پہ یہ ہو گا مجھ پہ احساں
انہیں پاؤں آئے گا تو جو لیے جواب الٹا
ترے آگے مہر تاباں ہے زمیں پہ سر بہ سجدہ
یہ ورق کا گنجفے کے نہیں آفتاب الٹا
نہیں جائے شکوہ اس سے ہمیں مصحفیؔ ہمیشہ
یہ زمانے کا رہا ہے یوں ہی انقلاب الٹا
٭٭٭
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب
روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو
آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب
بیٹھے رہو میرے سامنے تم
از بہر خدا نہ جاؤ صاحب
کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی
ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب
رکھتے نہیں پردہ غیر سے تم
جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ صاحب
در گزرے ہم ایسی زندگی سے
اتنا بھی نہ جی جلاؤ صاحب
یا غیر کی چاہ بھول جاؤ
یا دل سے ہمیں بھلاؤ صاحب
تم وقت کے اپنے ہو مسیحا
مردے کے تئیں جلاؤ صاحب
میاں مصحفیؔ یار آ ملے گا
اتنا بھی نہ تلملاؤ صاحب
٭٭٭
دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
دن عید کے تو خوب گھڑا جائے محتسب
اے چرخ فتنہ گر یہ روا ہے کہ ہر برس
صہبا کشوں پہ باج کی ٹھہرائے محتسب
مستوں نے سنگسار کیا اس کو بارہا
لیکن گیا نہ اس پہ بھی سودائے محتسب
ہاتھوں سے اس کے شیشۂ دل چور ہے مرا
یارب کیے کی اپنے سزا پائے محتسب
یہ کوئے مے فروش میں رولا ہوا کہ رات
دہشت سے واں ٹھہر نہ سکا پائے محتسب
مست شراب عشق کو بازار دہر میں
زنہار بیم شحنہ نہ پروائے محتسب
کچھ دے کے رشوت اس کو تو پی مصحفیؔ شراب
سب زر کے واسطے ہے یہ غوغائے محتسب
٭٭٭
لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب
ہے اپنے حق میں وا شد دل فال کی کتاب
بلبل کا زیر بال نہ بے جا سمجھ تو ہے
اس کے مطالعے میں پر و بال کی کتاب
مذکور زلف ہے مرے دیواں میں سر بسر
ہر صفحہ اس کا کیوں نہ بنے جال کی کتاب
فرصت ملی تو خامۂ بال تدرو سے
عاشق ترے لکھیں گے تری چال کی کتاب
جز یسفک الدما کی آیہ نہ وہ پڑھے
قرآں ہو گرچہ اس بت قتال کی کتاب
شکل عروس چھٹ نہ خوش آوے مجھے کبھی
رکھ دیں جو میرے سامنے اشکال کی کتاب
دیکھے جو غور سے کوئی دیواں مرے تو ہاں
ہر بیت ہے زمانے کے احوال کی کتاب
شرم گنہ سے آب ہوا گرچہ میں ولے
دھوئی گئی نہ نامۂ اعمال کی کتاب
پایا نہ سعد و نحس سے کوئی ورق تہی
تاروں کی میں نے خوب جو غربال کی کتاب
کس طرح روز حشر وہ ہوویں گے سرخ رو
دیکھا کیے ہیں یاں جو خط و خال کی کتاب
اس دہر میں بلندیِ اذہان کند سے
میں گرچہ جانتا تھا انہیں فال کی کتاب
ہر جلد مصحفیؔ ترے دیوان کی ولے
نقطوں سے شک کے بن گئی رمال کی کتاب
٭٭٭
وہ چہچہے نہ وہ تری آہنگ عندلیب
کس گل کی یاد میں ہے تو دل تنگ عندلیب
بیداد باغباں سے جو میں سیر باغ کی
لاکھوں دبی پڑی تھیں تہہ سنگ عندلیب
اب برگ گل بھی چھینے ہے دست نسیم سے
آگے تو اس قدر نہ تھی سرہنگ عندلیب
کیا ظلم ہے کہ تو ہے اسیر اور باغ میں
کلیاں نکالتی ہیں نئے رنگ عندلیب
تجھ کو اسیر گردش ایام نے کیا
چوب قفس سے کرتی ہے کیوں جنگ عندلیب
گر شاخ گل میں ہو کمر یار کی لچک
اس سے اڑے نہ کھاوے اگر سنگ عندلیب
جاتا ہوں گر چمن میں تو رکھ رکھ کے کان کو
نالے کا مجھ سے سیکھتی ہے ڈھنگ عندلیب
واللہ بھول جاوے تو سب اپنے چہچہے
گر باغ میں ہو وہ صنم شنگ عندلیب
آ کر چمن میں مصحفیؔ خستہ کیا کرے
اب سیر گل کو سمجھے ہے یہ ننگ عندلیب
٭٭٭
جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
اپنی نظروں میں ہے سب کون و مکاں کا بہروپ
میں گیا بھیس بدل کر تو لگا یوں کہنے
چل بے لایا ہے مرے آگے کہاں کا بہروپ
چاند تارے ہیں یہ کیسے یہ شب و روز ہے کیا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے یہاں کا بہروپ
چشم بینا ہوں تو داڑھی کی دو رنگی سمجھیں
ایک چہرے پہ ہے یہ پیر و جواں کا بہروپ
پہنے جاتے ہیں کئی رنگ کے کپڑے دن میں
کیا کہوں ہائے غضب ہے یہ بتاں کا بہروپ
باغ میں طرۂ سنبل کی پریشانی سے
صاف نکلا ترے شوریدہ سراں کا بہروپ
مصحفیؔ سانگ سے کیا اکھڑے ہے پشم اس کی بھلا
سو طرح سے ہو جسے یاد زباں کا بہروپ
٭٭٭
دریائے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
لے گئے سپیرے واں سے بہت بھر کے باٹ سانپ
ازبسکہ اس کے زہر پہ غالب ہے زہر عشق
مر جاوے ہے وہیں ترے عاشق کو کاٹ سانپ
دریا میں سر کے بال کوئی دھو گیا مگر
لہروں کے ہو رہے ہیں جو یوں بارہ باٹ سانپ
نامرد سے بھلا جٹئی خاک پھر ہوئی
سمجھا جب اپنی بھینس کی رسی کو جاٹ سانپ
تحریک زلف سے تری باد سموم نے
کہتے ہیں دشت و در میں دیے باٹ باٹ سانپ
تھے جس زمیں پہ صندل پا کے ترے نشاں
جیتے ہیں اب وہیں کی ذرا خاک چاٹ سانپ
ساحل پہ اس کی جعد مسلسل کے عکس سے
دریا میں دھوبیوں کو نظر آئے پاٹ سانپ
بنگلے میں جا کے خاک رہے کوئی مصحفیؔ
کر دیں ہیں آدمی کا یہاں جی اچاٹ سانپ
٭٭٭
رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
جو میرے ہاتھ سے پیتے نہیں ہیں پانی آپ
گھڑی گھڑی نہ کریں ہم پہ مہربانی آپ
کہ حسن رکھتے ہیں اور عالم جوانی آپ
میں بوسہ لے لے کے رخ کا اٹھا دیا پردہ
اسی غرور پہ کرتے تھے لن ترانی آپ
میں اپنا حال جو کہنے لگا تو یوں بولا
”سنے ہے کون؟ کہا کیجیے کہانی آپ”
میں بے گناہ سزا وار گالیوں کا نہیں
نہ میرے ساتھ کریں اتنی بد زبانی آپ
مصوروں نے قلم رکھ دیے ہیں ہاتھوں سے
بناویں آئنے میں اپنا نقش ثانی آپ
وفا کی اس سے طلب کر نہ ہرگز اے ناداں
کہ بے وفا ہے طلسم جہان فانی آپ
شراب وصل کا کس کی پیا ہے یہ ساغر
خمار شب سے جو رکھتے ہیں سرگرانی آپ
یہ بے وفا بھی میاں مصحفیؔ کسی کے ہوئے
بتوں پہ کرتے ہو کیوں اتنی جانفشانی آپ
٭٭٭
کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ
حضرت آدم کے تو ماں تھی نہ باپ
ان کو دے کچھ، مت ظرافت ان سے کر
لے نہ اے ناداں اتیتوں کے شراپ
ہم تہی دستی میں بھی کچھ کم نہیں
ہاتھ میں راجا کے ہو سونے کی چھاپ
آہ و نالے کا سمجھ ٹک زیر و بم
سخت مشکل ان سروں کی ہے الاپ
ہر کوئی چاہے گا اپنی مغفرت
حشر میں سب کو پڑے گی آپا دھاپ
مصحفیؔ مت اس کے کوچے سے نکل
جب تلک دم ہے زمیں تو واں کی ناپ
٭٭٭
آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
اب نظر آئے ہے واں نوحہ گری کی صورت
نہ وہ انداز نہ آواز نہ عشوہ نہ ادا
یک بہ یک مٹ گئی یوں جلوہ گری کی صورت
اب خیال اس کا وہاں آنکھوں میں پھرتا ہے مری
کوئی پھرتا تھا جہاں کبک دری کی صورت
اس کے جانے سے مرا دل ہے مرے سینے میں
دم کا مہمان چراغ سحری کی صورت
نے خبر اس کو مری پہنچے ہے نے اس کی مجھے
بندھ گئی ہے عجب اک بے خبری کی صورت
نام لوں کس کا کہ اک گل کے لیے جاتے ہیں
اشک آنکھوں سے عقیق جگری کی صورت
مصحفیؔ ہے یہی اب سوچ کہ دیکھیں تو فلک
پھر بھی دکھلائے گا یار سفری کی صورت
٭٭٭
جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
کر کے مجرا شاہ مرداں کی طرف دھائی بسنت
خواجہ قطب الدیں میں پھر گڑوا بنا کر لے گئی
یعنی ان کی نذر کو سو پھول گل لائی بسنت
واں سے پھر حضرت نظام الدیں کی خدمت میں چلی
تربت خسرو پہ پھر ہو کے کھڑے گائی بسنت
سوئے حضرت ترکماں آئی جو کر اس کا طواف
ہو گئی ووہیں بیابانی و صحرائی بست
ووہیں پھر دربار شاہ ہند میں رکھ کر قدم
ناچنے گانے لگی ہنس ہنس بہ زیبائی بسنت
پھر جناب آصف دوراں میں باصد عیش و ناز
ہو گئی آ کر کے مصروف جبیں سائی بسنت
مصحفیؔ اب اک غزل لکھ تو غزل کی طرح سے
تا کرے عالم کا تاراج شکیبائی بسنت
٭٭٭
شعر دولت ہے کہاں کی دولت
میں غنی ہوں تو زباں کی دولت
سیکڑوں ہو گئے صاحب دیواں
میری تقریری و بیاں کی دولت
سیر مہتاب کر آئے ہم بھی
بارے اس آب رواں کی دولت
زخم کیا کیا مرے تن پر آئے
تیری شمشیر و سناں کی دولت
ہوئی محبوس قفس بلبل نے
رنج دیکھا یہ خزاں کی دولت
کوئی نواب کے گھر کا ہے غلام
کوئی پلتائے ہے خاں کی دولت
مصحفیؔ پر ہے ترا کر و فر
صاحب عالمیاں کی دولت
٭٭٭
یا تھی ہوس وصال دن رات
یا رہنے لگا ملال دن رات
بے چین رکھے ہے میرے دل کو
کافر یہ ترا خیال دن رات
رہتا ہے مری زباں پہ تجھ بن
افسانۂ زلف و خال دن رات
دیکھوں ہوں بہ نقطۂ تصور
ملنے کی ترے ہی فال دن رات
آنکھوں میں پھرے ہے جوں مہ عید
ابرو کا ترے ہلال دن رات
وہ صید ہوں میں رہے ہے جس کے
اندیشے کا سر پہ جال دن رات
آنکھوں کے تلے مری پھرے ہے
اب تک وہی بول چال دن رات
جس سبزۂ مرغزار میں تھا
رقصندہ مرا غزال دن رات
جولانیِ درد و غم سے اب یاں
وہ سبزہ ہے پائمال دن رات
گر تو ہی نہیں تو کیوں جیوں میں
ہے زیست مجھے وبال دن رات
فرقت میں تری ہے مصحفیؔ کو
لکھنا یہی حسب حال دن رات
٭٭٭
آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
اشک پھرتے ہیں ان میں جیسے رہٹ
میں نہ سمجھا تھا خوب تیرے تئیں
ہے تو مطرب پسر بڑا نٹ کھٹ
پی گئے ہم صراحیِ مے کو
دست ساقی سے لیتے ہی غٹ غٹ
تیرا تیر نگہ ہے وہ کافر
منہ سے اک دم جدا تو کر گھونگٹ
سمجھے تھے مار آپ دیکھی تھی
آئینے میں کسی کی زلف کی لٹ
جس کو کہتے ہیں عرصۂ ہستی
توسن عمر کی ہے اک سرپٹ
مصحفیؔ اس کے رخ پہ خط آیا
گئے وے دن گئی وہ رت ہی پلٹ
جم کے بیٹھے نہ تھا جہاں کوئی
رات دن اب رہے ہے واں جمگھٹ
٭٭٭
تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ
یاد آوے مجھے جس دم وہ نگمود کا گھاٹ
زندگانی کا مزہ زیر فلک اب نہ رہا
یارب ایسا ہو کہ مل جائے کہیں پاٹ سے پاٹ
فن کشتی میں قیامت ہے وہ بت گاذر کا
دھوم دیتا ہے مچا آوے ہے جب دھوبی پاٹ
جاتے ہی وادئ وحشت میں قدم مارا میں
چمن دہر سے دل اپنا ہوا جب کہ اچاٹ
خاک دہلی میں کیا جب سے نصاریٰ نے عمل
شور گوجر ہی رہا اور نہ ہنگامۂ جاٹ
ترک غمزے کا مگر بر سر سفاکی ہے
اس کے کوچے سے چلی آتی ہے جب کھاٹ پہ کھاٹ
قتل عاشق کا جو ہوتا ہے ارادہ اس کو
پہلے دیکھے ہے خر و گاؤ پہ تلوار کا کاٹ
کوئی سیکھے بھی قناعت کو تو سگ سے سیکھے
پڑ رہے ہے وہ بہ یک گوشہ دیا رات کو چاٹ
روز ہنگامہ ہے اس گنبد نیلی کے تئیں
مصحفیؔ شک نہیں بگڑا ہے مگر نیل کا ماٹ
٭٭٭
رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
میں بھی تا صبح رکھی بلبل گل زار سے بحث
نو بہاراں میں وہ ہو جاوے ہے کیوں سرخ مگر
داغ دل کو ہے مرے لالۂ کہسار سے بحث
طالب علم محبت جو میں تھا طفلی میں
تھی نت آنکھوں کی مرے حسن رخ یار سے بحث
صلح کل میں مری گزرے ہے محبت کے بیچ
نہ تو تکرار ہے کافر سے نہ دیں دار سے بحث
سو زباں گو ہوئیں منہ میں ترے اے غنچۂ گل
تجھ کو لازم نہیں کرنا مری منقار سے بحث
شیوہ ہر چند کہ اپنا نہیں طالب علمی
تو بھی موجود ہیں ہم کرنے کو دو چار سے بحث
یوں ہوئی ہار گلے کا مرے وہ نرگس مست
جوں کرے راہ میں کوئی کسی ہشیار سے بحث
ہوں وہ دیوانہ کہ اک شب بھی جو میں گھر میں رہوں
رات کو صبح کروں کر در و دیوار سے بحث
عقل کل نے نہیں الزام دیا اس کو حسود
دور ہو، کر نہ عبث مصحفیؔ زار سے بحث
٭٭٭
بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
تو نہ ہوں سبز کبھی اپنی شکایات کے بیج
ہم نے اس مزرع ہستی میں کیے ہیں جو عمل
ایک دن کھینچیں گے سر ان کی مکافات کے بیج
آہ دہقان فلک کی کہوں کیا بد تخمی
خاک آدم میں یہ نت بووے ہے آفات کے بیج
باغباں جب تئیں ہاتھ آوے ترے بذر البنج
میری تربت پہ نہ بو اور نباتات کے بیج
ولد القحبہ سے پوچھو نہ، تری ذات ہے کیا
بیج میں اس کے ہیں مخلوط کئی ذات کے بیج
داغ سینے کے مرے طرفہ دکھاتے ہیں بہار
ہیں یہ بوئے ہوئے کس نخل طلسمات کے بیج
بستر شیخ پہ جو کونچ کی پھلیاں نکلیں
تھے چھپائے ہوئے شاید اسی بد ذات کے بیج
ان کو کیا ہووے ہے جز رزق پریشاں حاصل
جا بجا بوتے پھریں ہیں جو ملاقات کے بیج
مصحفیؔ اس سے بھی بہتر غزل اک اور سنا
وادیِ فکر میں بو کر تو خیالات کے بیج
٭٭٭
سامنے آنکھوں کے ہر دم تری تمثال ہے آج
دل بھرا آئے نہ کیونکر کہ برا حال ہے آج
زعفراں زار میں لالے کی بہار آ کر دیکھ
اشک خونیں سے رخ زرد مرا لال ہے آج
وقت ہے گر تو بہ تقریب عیادت آوے
کیونکہ بیمار کا تیرے بتر احوال ہے آج
طرفہ حالت ہے کہ اٹھ کر میں جہاں جاتا ہوں
تیرے دیدار کی خواہش مرے دنبال ہے آج
روز اس طول سے کا ہے کو کٹے تھا میرا
نہیں معلوم مجھے روز ہے یا سال ہے آج
دل چلا صبر چلا جی بھی چلا جاتا ہے
ٹک مدد کر تو کہ لشکر میں مرے چال ہے آج
تجھ کو چاہا تھا میں اس دن کے لیے کیا ظالم
تیری چاہت تو مری جان کا جنجال ہے آج
دن جدائی کا قیامت سے نہیں کم ہر چند
بیم پرسش نہ غم نامۂ اعمال ہے آج
مصحفیؔ کروٹیں بدلے ہے قلق میں تجھ بن
استخواں اس کا جو ہے قرعۂ رمال ہے آج
٭٭٭
لیے آدم نے اپنے بیٹے پانچ
جدی ہوتی ہے ہولے ہولے آنچ
قید مذہب سے مجھ کو کیا مطلب
میں نہیں جانتا ہوں تین اور پانچ
کس دہن نے یہ اس کو تنگ کیا
طفل غنچہ کی جو نکل گئی کانچ
آدمی ہے وہی جو دنیا میں
جھوٹ کو جھوٹ جانے سانچ کو سانچ
استخواں بندیِ تن مجنوں
اپنی نظروں میں ہے پتنگ کا ڈھانچ
رام مجنوں نہیں ہوئی لیلیٰ
مثل آہو برہ بھرے ہے کلانچ
گو پڑھیں تو نے سو کتاب تو کیا
مصحفیؔ اک خط جبیں کو تو بانچ
٭٭٭
چشم نے کی گوہر افشانی صریح
ہو گئی یہ ہم سے نادانی صریح
منہ چھپا قاتل کہ تیری ہی طرف
تک رہی ہے چشم قربانی صریح
کربلائے عشق میں عشاق کی
تیغ و خنجر پر ہے مہمانی صریح
آئینے میں بھی نہیں پڑتا ہے عکس
ہے تری تصویر لا ثانی صریح
ژالہ ساں کیوں کر گھلے جاویں نہ ہم
ہے جو آنسو میں پریشانی صریح
کیونکہ استقلال کا دم ماریں ہم
استخواں اپنے تو ہیں پانی صریح
مزرع دل کس طرح سرسبز ہو
برق یاں کرتی ہے جولانی صریح
ماہ نو ہے کس کے در کا سجدہ پاش
رک گئی ہے اس کی پیشانی صریح
مصحفیؔ دم توڑے ہے مرتا نہیں
کر رہا ہے یہ گراں جانی صریح
٭٭٭
شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح
بخت خفتہ کو جگاؤں کس طرح
قصہ خواں بیٹھے ہیں گھیرے اس کے تئیں
داستاں اپنی سناؤں کس طرح
گو میں عاشق ہوں پہ طاقت ہے مری
ہاتھ پانو کو لگاؤں کس طرح
رکھ دیا ہے سر پہ اک کوہ خیال
سر کو زانو سے اٹھاؤں کس طرح
نالہ گریہ کی مدد کرتا نہیں
اشک کے نالے بہاؤں کس طرح
چاہ وہ شے ہے کہ چھپتی ہی نہیں
اس کو یارب میں چھپاؤں کس طرح
آ بنی ہے مصحفیؔ کی جان پر
یارب اپنا جی بچاؤں کس طرح
٭٭٭
کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
تو بحث نہ مے خواروں سے چل دور ہو اے شیخ
مسجد میں ذرا وقت سحر دیکھ تو جا کر
شاید کوئی اس چشم کا مخمور ہو اے شیخ
صد دانۂ تسبیح رکھے ہاتھ میں اپنے
چونکے تو جو یک دانۂ انگور ہو اے شیخ
تو مجھ کو کہے ایک میں سو تجھ کو سناؤں
اے کاش کہ اتنا مجھے مقدور ہو اے شیخ
آیا ہے وہ بدمست لیے ہاتھ میں شمشیر
مجلس سے شتابی کہیں کافور ہو اے شیخ
کرتا ہے ہمیں منع تو پیمانہ کشی سے
پیمانہ تری عمر کا معمور ہو اے شیخ
البتہ کرے منع ہمیں عشق بتاں سے
تجھ سا جو کوئی عقل سے معذور ہو اے شیخ
پھر دم ہے وہ شملہ جو ہوا حد سے زیادہ
رکھ شملہ تو شملے کا جو دستور ہو اے شیخ
ہر حرف میں سختی ہے ترے سنگ جفا سے
ڈرتا ہوں نہ پھر شیشۂ دل چور ہو اے شیخ
کیا حور کی باتوں سے لبھاوے ہے تو مجھ کو
حاشا کہ مجھے آرزوئے حور ہو اے شیح
شیخی میں تو سنتا ہی نہیں بات کسی کی
اس داڑھی پر اتنا بھی نہ مغرور ہو اے شیخ
کیوں مصحفیؔ کو اتنی تو کرتا ہے نصیحت
سر چڑھ نہ بہت اس کے جو مجبور ہو اے شیخ
٭٭٭
اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
مل کے تنہا تو گلے سے کبھی لگ جایا کر
دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر
ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر
یہ بری خو ہے دلا تجھ میں خدا کی سوگند
دیکھ اس بت کو تو حیران نہ رہ جایا کر
ہاتھ میرا بھی جو پہنچا تو میں سمجھوں گا خوب
یہ انگوٹھا تو کسی اور کو دکھلایا کر
گر تو آتا نہیں ہے عالم بیداری میں
خواب میں تو کبھی اے راحت جاں آیا کر
اے صبا اوروں کی تربت پہ گل افشانی چند
جانب گور غریباں بھی کبھی آیا کر
ہم بھی اے جان من اتنے تو نہیں ناکارہ
کبھی کچھ کام تو ہم کو بھی تو فرمایا کر
تجھ کو کھا جائے گا اے مصحفیؔ یہ غم اک روز
دل کے جانے کا تو اتنا بھی نہ غم کھایا کر
٭٭٭
بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر
مرے منہ سے جو نکلا ناگہاں او کافر او کافر
مسلماں دیکھ کر اس بت کی صورت کو یہ کہتا ہے
مسلمانی کہاں کی؟ باندھ لے زنار، ہو کافر
تجھے پروا نہیں ہرگز کسی کی تو ہے بے پروا
ترے اس حسن کافر پر پری ہو جائے گو کافر
شب ہجراں میں جو دل دم بہ دم فریاد کرتا ہے
خفا ہو کر کہوں میں کوئی ساعت تو تو سو کافر
کہاں تک اے دل شوریدہ تو آنسو بہاوے گا
شب آئی صبح ہونے پر بس اتنا بھی نہ رو کافر
ہم اپنا دین و ایماں پہلے اس کو نذر کرتے ہیں
ہمارے سامنے اس شکل سے آتا ہے جو کافر
تری باتوں سے تو اے مصحفیؔ جی اپنا تنگ آیا
خدا کے واسطے چپ رہ نہ میری جان کھو کافر
٭٭٭
پڑھ نہ اے ہم نشیں وصال کا شعر
جس سے رنگیں ہو خط و خال کا شعر
یوں تلاشی جو چاہے لکھ جاوے
لیک مشکل ہے بول چال کا شعر
طول کھینچا بیان نک سک نے
میں لکھا اس کے بال بال کا شعر
اس کے عشق کمر میں اے یارو
ہم تو کہنے لگے خیال کا شعر
سو خیالی بھی ایسا جس کے حضور
گرد ہے میرزا جلالؔ کا شعر
مصحفیؔ تیرے شعر دل کش کو
اب تو لگتا نہیں کمال کا شعر
٭٭٭
پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر
رہ جائے جیسے کوئی بسمل تڑپ تڑپ کر
مجنون بے خرد نے دی جاں بہ نا امیدی
لیلیٰ کا دیکھتے ہی محمل تڑپ تڑپ کر
کہیو صبا جو جاوے مذبوح غم نے تیرے
آسان کی شب اپنی مشکل تڑپ تڑپ کر
اس پردگی نے اپنا آنچل نہیں دکھایا
مر مر گئے ہیں اس کے مائل تڑپ تڑپ کر
قاتل کا میرے کوچہ ہے خواب گاہ راحت
کیا کیا نہ سو رہے یاں گھائل تڑپ تڑپ کر
حال اس غریق کا ہے جائے ترحم اے دل
رہ جائے ہے جو زیر ساحل تڑپ تڑپ کر
قابو میں آئے پر میں چھوڑا نہ اس کو ہرگز
بل کھا کے گرچہ نکلا قاتل تڑپ تڑپ کر
تو نے تو آبرو ہی کھو دی ہماری اے دل
مقتل میں عاشقوں کے شامل تڑپ تڑپ کر
جھمکے دکھا کے اس کو تو نے جو منہ دکھایا
مر ہی گیا نہ تیرا سائل تڑپ تڑپ کر
گو مرغ نامہ بر کو بسمل کیا ہے اس نے
طے کر رہے گا آخر منزل تڑپ تڑپ کر
فرقت میں اس کی تو نے اے مصحفیؔ بتا تو
جز اشک خوں کیا کیا حاصل تڑپ تڑپ کر
مجھ کو یہ سوجھتا ہے ناحق تو جان دے گا
اک دن اسی طرح سے جاہل تڑپ تڑپ کر
٭٭٭
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
لعنت ہے اس آہ بے اثر پر
بالوں نے ترے بلا دکھا دی
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر
نامے کو مرے چھپا رکھے گا
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر
پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو میں امید یک نظر پر
کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب
زردی سی ہے کیوں رخ قمر پر
پھر غیرت عشق نے بٹھائے
درباں شدید اس کے در پر
رہتی ہیں بہ وقت گریہ اکثر
دو انگلیاں اپنی چشم تر پر
ہے عشق سخن کا مصحفیؔ کو
مائل نہیں اتنا سیم و زر پر
٭٭٭
حال دل بے قرار ہے اور
شاید کہ خیال یار ہے اور
اے دیدہ نہ رو کہ تجھ پر اک شب
رنج شب انتظار ہے اور
جاگا ہے کہیں مگر تو دیشب
آنکھوں میں تری خمار ہے اور
فرہاد نے دیکھتے ہی گلگوں
جانا تھا کہ یہ سوار ہے اور
کوچے میں ترے مری نگہ کا
ہر گوشہ امیدوار ہے اور
ہے آخر عمر اس چمن میں
دو چار ہی دن بہار ہے اور
ناوک کا ترے شکار گہ میں
ہر گوشے نیا شکار ہے اور
وہ ہم سے کرے ہے کل کا وعدہ
اوروں سے وہاں قرار ہے اور
کیا لالے سے نسبت اس کو سچ ہے
داغ دل داغ دار ہے اور
اوروں سا نہ جان مجھ کو پیارے
یہ عاشق جاں نثار ہے اور
اے مصحفیؔ اس میں چپ ہی رہ تو
سنتا ہے یہ روزگار ہے اور
٭٭٭
دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
پچھتائے ہم اس شام غریباں سے نکل کر
یہ اس سے زیاں کار تو وہ اس سے بد آئیں
جاؤں میں کہاں گبر و مسلماں سے نکل کر
استاد کوئی زور ملا قیس کو شاید
لی راہ جو جنگل کی دبستاں سے نکل کر
معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو
یوں سینہ ترا چاک گریباں سے نکل کر
گزرا رگ گردن سے کہ جوں شمع سر اپنا
تلوار ہی کھاتا ہے گریباں سے نکل کر
نا زوری میں آیا نہ کبھو تا سر مژگاں
یک قطرۂ خوں بھی بن مژگاں سے نکل کر
تیروں میں کماں دار مرا گھیر لے جس کو
وہ جانے نہ پاوے کبھی میداں سے نکل کر
ہم آپ فنا ہو گئے اے ہستئ موہوم
جوں موج تبسم لب جاناں سے نکل کر
صورت کے تری سامنے رہ جائے ہے کیسے
ہر بت کی نگہ دیدۂ حیراں سے نکل کر
اس دست حنائی میں رہا آئینہ اکثر
دریا نہ گیا پنجۂ مرجاں سے نکل کر
اب پڑھ وہ غزل مصحفیؔ تو شستہ و رفتہ
سننے جسے خلق آئے صفاہاں سے نکل کر
٭٭٭
موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار
خار سے کی ہے گل تر نے کٹاری تیار
کہہ دو مجنوں سے کرے اپنی سواری تیار
آج یاں ہوتی ہے لیلیٰ کی سواری تیار
ہاتھ دونوں کف افسوس کی صورت لکھے
کی جو نقاش نے تصویر ہماری تیار
تیغ کو سان پہ رکھا تھا تبھی قاتل نے
گردن اپنی نہ ہوئی تھی ابھی ساری تیار
لب جاں بخش کی تیرے جو صفا کو دیکھے
آب حیواں ہو پئے آئینہ داری تیار
کس مسی زیب کا گلشن سے سنا ہے جانا
برگ سوسن نے جو پھر کی ہے کٹاری تیار
ہم سبک روح اسیروں کے لیے لازم ہے
قفس گل کو کرے باد بہاری تیار
ہار کیوں اس کے گلے کا میں نہ ہوں زر گر نے
کی ہے زنجیر گلے کی ترے بھاری تیار
اے اجل زیست کا کیا ان سے تو مانگے ہے حساب
جو ہیں ہر دم پئے انفاس شماری تیار
سرخ نیفے سے پئے صید دل بو الہوساں
کمر اس کی ہوئی جوں یوز شکاری تیار
جوں جوں بڑھتے ہیں مرے دست جنوں کے ناخن
ووں ووں ہوتے ہیں پئے سینہ فگاری تیار
پتلیاں جائے ستاروں کی ٹکی ہیں اس میں
دیدہ ریزی سے ہوئی کفش تمہاری تیار
ہو خجل کیونکہ نہ نعماں کہ گلابی لالہ
مے سے کرتی ہے تری چشم خماری تیار
از برائے کمر نازک رشک رگ گل
باغباں کیجو تو پھولوں کی کٹاری تیار
لکھ بہ تبدیل قوافی غزل اک مصحفیؔ اور
نافۂ نقطہ سے کر مشک تتاری تیار
٭٭٭
وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
پانو میں اس غزال کے زنجیر وصل کر
زخمی شکار ہوں میں ترا مر ہی جاؤں گا
پہلو سے مت جدا تو مرے تیر وصل کر
اک لحظہ تیری باتوں سے آتا ہے دل کو چین
ہم دم خدا کے واسطے تقریر وصل کر
دست دراز اپنے کو طوق گلو مرا
تو ایک دم تو اے خم شمشیر وصل کر
اے مہ یہ تیری دور کشی کب تلک بھلا
اک شب تو تو ارادۂ شب گیر وصل کر
سینہ پہ سینہ خشت پہ گویا کہ خشت ہے
اب اے فلک نظارۂ تعمیر وصل کر
تہمت لگے گی پاس بٹھانے سے فائدہ
ناحق نہ مجھ کو مورد تقصیر وصل کر
مت چاندنی میں آ کہ زمانہ غیور ہے
اس کام کو سپرد شب قیر وصل کر
شاید کہ پڑھ کے نرم ہو دل اس کا مصحفیؔ
جا کر حوالے اس کے یہ تحریر وصل کر
٭٭٭
مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس
اس قدر مہر و وفا کیجئے بس
آفریں سامنے آنکھوں کے مری
یوں ہی تا دیر رہا کیجئے بس
دل بیمار ہوا اب چنگا
دوستو ترک دوا کیجئے بس
خون عاشق سے یہ پرہیز اسے
آشنائے کف پا کیجئے بس
شرم تا چند حیا بھی کب تک
منہ سے برقعے کو جدا کیجئے بس
گر زباں اپنی ہو گویا تو مدام
طالعوں کا ہی گلا کیجئے بس
تم میاں مصحفیؔ رخصت تو ہوئے
اب کھڑے کیوں ہو دعا کیجئے بس
٭٭٭
میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
ملو اب بے وفائی ہو چکی بس
بہار خود نمائی ہو چکی بس
جہاں چھوٹی ہوائی ہو چکی بس
یہی ہے اس کی گر بیگانہ وضعی
تو ہم سے آشنائی ہو چکی بس
بھروسا کیا ہمارا اشک کی بوند
جہاں مژگاں پر آئی ہو چکی بس
پھنسے صیاد کے پھندے میں بے طرح
ہماری اب رہائی ہو چکی بس
نہ مل حجام رخسار اس کے ہر دم
منڈایا خط صفائی ہو چکی بس
ادا میں واں ادا نکلیں ہیں لاکھوں
میں سمجھا بے ادائی ہو چکی بس
دلا مت دیدۂ خوں بار کو پونچھ
ہر اک انگلی حنائی ہو چکی بس
یہی درباں پہ ہے قدغن تو یارو
صبا کی واں رسائی ہو چکی بس
غزل اے مصحفیؔ یہ میرؔ کی ہے
تمہاری میرزائی ہو چکی بس
٭٭٭
ہو چکا ناز منہ دکھائیے بس
غصہ موقوف کیجے آئیے بس
فائدہ کیا ہے یوں کھنچے رہنا
میری طاقت نہ آزمائیے بس
”دوست ہوں میں ترا” نہ کہیے یہ حرف
مجھ سے جھوٹی قسم نہ کھائیے بس
آپ کو خوب میں نے دیکھ لیا
تم ہو مطلب کے اپنے جائیے بس
مصحفیؔ عشق کا مزہ پایا
دل کسی سے نہ اب لگائیے بس
٭٭٭
ہر چند کہ ہو مریض محتاط
کیا کر سکے با فساد اخلاط
ادریس کی سالہا رہی ہے
کوچے میں ترے دکان خیاط
رخ پر ترے دیکھ سبزۂ خط
حیران ہیں سب جہاں کے خطاط
جتنی مرے دل میں ہے تیری چاہ
کم ہو گی نہ اس سے نیم قیراط
خوں سے ترے بسملوں کے دیکھی
کوچے میں ترے بچھی سقرلاط
قد اس کا نہیں اگرچہ کوتہ
ہے جسم کی لاغری بہ افراط
اے یارو نہ مصحفیؔ کو کوئی
سمجھو نہ کم از رشید و طواط
٭٭٭
وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
کیے بلبل نے خار آشیاں جمع
لگا دیتا ہے ان کو چن کے آتش
ہما کر کے ہمارے استخواں جمع
چمن میں کس کے آنے کی خبر ہے
کرے ہے پھول چن چن باغباں جمع
ہے صحبت کا پریشانوں کے یہ رنگ
ہوا سے ہوویں جو برگ خزاں جمع
سفر کی مجھ سے کیا کہتے ہو جاؤ
کروں کیا گر ہوا ہے کارواں جمع
ابھی موئے پریشاں سے کسی کے
مری خاطر نہیں اے دوستاں جمع
فلک نے سنگ پھینکا تفرقے کا
ہوئے دو چار صاحب دل جہاں جمع
نہ خرچ مصحفیؔ کی پوچھو اس سے
توکل کا ہے مال بے کراں جمع
٭٭٭
بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
ہے باغباں کی گرمیِ بازار ہر طرف
کیا فصل گل پھر آئی جو کرتے ہیں زمزمہ
دام قفس میں مرغ گرفتار ہر طرف
کوٹھے پہ اس کے پھینکوں میں کس راہ سے کمند
کم بخت پاسباں تو ہیں بیدار ہر طرف
تودے جہاں تھے اس کے شہیدوں کی خاک کے
تیر اس نے مارے ناز سے دو چار ہر طرف
جب اس کی برق حسن سے پردہ ہوا ہے وا
ضائع ہوئے ہیں طالب دیدار ہر طرف
عاشق کو اس گلی سے نکالیں تھے جب بہ زور
پڑتی تھی چشم حسرت دیدار ہر طرف
دعوت ہے کس کی بزم فلک میں جو کب سے ہیں
آنکھیں لگائے رخنۂ دیوار ہر طرف
ثابت بچا نہ کافر و دیں دار تک کوئی
تیغ نگہ نے اس کی کیے وار ہر طرف
سودے میں جستجو کے تری اے متاع حسن
سر مارتے پھریں ہیں خریدار ہر طرف
پرواز کا جو شوق ہے بلبل کے مشت پر
کنج قفس میں اڑتے ہیں ناچار ہر طرف
حیراں ہوں میں کہ کس کا یہ کوچہ ہے جس کے بیچ
ٹکڑے ہوئے پڑے ہیں طرح دار ہر طرف
غوغا ہے شرق و غرب و جنوب و شمال میں
فتنے جگا گئی تری رفتار ہر طرف
گو میں ہوا مقیم تو کیا ڈر ہے مصحفیؔ
سیر و سفر میں ہیں مرے اشعار ہر طرف
٭٭٭
دل میں ہے اس کے مدعی کا عشق
خاک سمجھے ہے وہ کسی کا عشق
اچھی صورت کا ہوں میں دیوانہ
نے مجھے حور نے پری کا عشق
کیوں خفا ہم سے ہو کہ ہوتا ہے
آدمی کو ہی آدمی کا عشق
جان جاتی ہے ہر ادا پہ چلی
نہ سنا ایسی رفتگی کا عشق
خوب روز طلب ہیں اور ہمیں
خار رکھتا ہے مفلسی کا عشق
اپنے موسم میں کیسا ہوتا ہے
نونہالوں کو سرکشی کا عشق
مصحفیؔ اک غزل تو اور بھی لکھ
گر تجھے ہے رقم زنی کا عشق
٭٭٭
کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
جان دیتے ہیں آن پر عاشق
کوئی ان گالیوں سے ٹلتے ہیں
ہم ہیں تیری زبان پر عاشق
خواری ان عاشقوں کی وے جو ہوئے
تجھ سے ناقدردان پر عاشق
تازہ آفت تو ایک یہ ہے کہ ہم
ہوئے اس نوجوان پر عاشق
جان دینے کو سود جانتے ہیں
ہم ہیں اپنے زیان پر عاشق
اس قدر گرتی ہے کہے تو یہ برق
ہے مرے آشیان پر عاشق
مصحفیؔ گر تو مرد کامل ہے
دل نہ رکھ اس جہان پر عاشق
٭٭٭
جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
کیوں چھیڑتی ہے تو مجھے نا آشنا سرک
جیسے اندھیری رات میں بجلی چمک گئی
اس رخ سے شب گئی جو وہ زلف دوتا سرک
آثار مرگ مجھ میں ہویدا ہوئے مگر
جب پاس سے گئے مرے سب آشنا سرک
کہتا ہے وقت نزع مریض اس کا اس سے یوں
لگنے دے میری آنکھ تو اس دم ذرا سرک
میت سے میری گزرے ہے جس دم وہ بعد قتل
لاشہ کہے ہے خون سے دامن بچا سرک
پوروں پہ ڈورے باندھے ہیں اس پر شعور نے
تا اس کے فندقوں کی نہ جاوے حنا سرک
شب اختلاط سے وہ مرے کیا خفا ہوا
حد سے گئی زیادہ جو انگشت پا سرک
دھڑکے ہے بے طرح سے یہ پہلو میں رات دن
ڈرتا ہوں زخم دل کی نہ جاوے دوا سرک
کرنے دے میرے خون کو آرام خاک میں
اے شور حشر اس کو ابھی مت جگا سرک
یہ کیا غضب ہوا کہ نہ خنجر لگا نہ تیر
پہلو سے آپی آپ مرا دل گیا سرک
خواب عدم سے میں ابھی چونکا ہوں دور ہو
اے صبح غم نہ اپنا مجھے منہ دکھا سرک
پیچھے مرے پڑا ہے تو کیوں گھر کی راہ لے
رسوا کرے گا کیا مجھے بہر خدا سرک
کیا بے حیا ہے جو نہیں ٹلتا تو مصحفیؔ
سو بار میں نے تجھ کو دوانے کہا سرک
٭٭٭
شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
پر غش سا آ گیا ووہیں پہنچے جو در تلک
گر ہم کو لگ گئی ہیں کبھی ہچکیاں تو ہم
آٹھ آٹھ آنسو روئے ہیں دو دو پہر تلک
ڈرتا ہوں میں یہ گم نہ کرے آپ کو کہیں
پھر جعد کو ہوئی ہے رسائی کمر تلک
پروانہ کیا اڑے ہے چراغاں میں تو نہیں
پہنچا جو کوئی شعلہ ترے بال و پر تلک
صحرائے کشتگاں میں ترے کل گیا تھا میں
دیکھوں تو لالہ زار ہے حد نظر تلک
پھیلاؤ بحر اشک کا اپنے میں کیا کہوں
پہنچی ہے موج گر یہ مری بحر و بر تلک
وے دن کدھر گئے کہ میں لکھ لکھ کے خط شوق
جاتا تھا آپ گریہ کناں نامہ بر تلک
شب اس کی بزم میں جو گئے ہم تو مصحفیؔ
ایسے جمے کہ واں سے نہ اٹھے سحر تلک
٭٭٭
گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
کر دیجے زمیں و آسماں ایک
عاشق کا ترے ہمارے غم نے
چھوڑا نہ بدن میں استخواں ایک
ہم چھوٹ کے جب قفس سے آئے
دیکھا نہ چمن میں آشیاں ایک
کہتی تھی خلق رہ اے زلیخا
کنعاں سے چلا ہے کارواں ایک
یک رنگی کہیں ہیں کس کو، یعنی
دو شخص کا ہووے جسم و جاں ایک
سازش کسی ڈھب سے کر بھی لیجے
اس در پہ جو ہووے پاسباں ایک
ہے واں تو نیا رقیب ہر دم
ہونے پاتے ہیں ہم کہاں ایک
حسرت ہے کہ یوں لٹے چمن اور
گل ہم کو نہ دیوے باغباں ایک
آہستہ کہ قافلے کے پیچھے
آتا ہے غریب ناتواں ایک
ہم کرتے ہیں سو زباں سے باتیں
یوں کہنے کو منہ میں ہے زباں ایک
اس پر بھی اے مصحفیؔ ہمارا
قصہ ایک اور ہے داستاں ایک
٭٭٭
اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
وحشت یہی کہتی ہے کہ زنجیر تڑا بھاگ
گرتے تھے خریدار کب اس طرح سے اس پر
پاؤں سے ترے لگتے ہی مہندی کو لگا بھاگ
شوخی کہوں کیا تیرے تصور کی کہ ہے ہے
شب سامنے آ کر مرے آگے سے گیا بھاگ
جب کبک دری دیکھے ہے رفتار کو اس کی
کہتا ہے یہی جی میں ”یہ رفتار اڑا بھاگ”
زاہد جو ہوا کر کے وضو حوض پہ قائم
اک رند کو سوجھی کہ تو اب اس کو گرا بھاگ
ٹھہرا جو ذرا بحر محبت پہ میں جا کر
آئی لب ساحل سے یہی اس کے صدا بھاگ
اے مصحفیؔ ہے مار فلک رہزن مردم
تو بھاگ سکے اس سے تو از بہر خدا بھاگ
٭٭٭
کہتی ہے نماز صبح کی بانگ
اٹھ صبح ہوئی ہے کچھ دعا مانگ
دیکھا میں چہار دانگ عالم
پر ہاتھ لگا نہ کچھ بھی اک دانگ
سیمیں بدن اس کا چاندنی میں
ڈرتا ہوں پگھل نہ جاوے جوں رانگ
ٹوٹا جو ہمارا شیشۂ دل
پہنچے گی فلک تک اس کی گلبانگ
بہروپ ہے یہ جہاں کہ جس میں
ہر روز نیا بنے ہے اک سانگ
کرتا ہوں سوال جس کے در پر
آتی ہے یہی صدا کہ پھر مانگ
دلی میں پڑیں نہ کیوں کے ڈاکے
چوروں کی ہر ایک گھر میں ہے تھانگ
اے شوخ یہ خون مصحفیؔ ہے
چل بچ کے نہ آتے جاتے یوں لانگ
٭٭٭
آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
نوک نشتر ہو تو ہاں قابل تحریک ہے دل
اے فلک تجھ کو قسم ہے مری اس کو نہ بجھا
کہ غریبوں کو چراغ شب تاریک ہے دل
ورم داغ کئی سامنے رکھ کر اس کے
عشق بولا ”یہ اٹھا لے تری تملیک ہے دل”
مجھ کو حیرت ہے کہ کی عمر بسر اس نے کہاں
اس جہالت پہ تو نے ترک نہ تاجیک ہے دل
کمر یار کے مذکور کو جانے دے میاں
تو قدم اس میں نہ رکھ راہ یہ باریک ہے دل
جامۂ داغ کو ملبوس کر اپنا دن رات
کیونکہ یہ جامہ ترے قد پہ نپٹ ٹھیک ہے دل
مصحفیؔ اک تو میں ہوں دست خوش دیدۂ شوخ
تس پہ دن رات مرے در پئے تضحیک ہے دل
٭٭٭
او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
تم جو چلتے ہو نت یہ بانکی چال
ناز رفتار یہ نہیں دیکھا
ہم نے دیکھی ہے اک جہاں کی چال
لاکھوں پامال ناز ہیں ان کے
کون سمجھے ہے ان بتاں کی چال
کبک کو دیکھ کر یہ کہنے لگا
یہ چلے ہے ہمارے ہاں کی چال
رکھ کے شطرنج غائبانۂ عشق
تم چلے اک تو امتحاں کی چال
تس پہ دشمن ہمارے جی کی ہوئی
کجیِ پیل آسماں کی چال
مصحفیؔ بھر چلا وہ ریش و بروت
ہوئے جس پیر ناتواں کی چال
٭٭٭
ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
گر مار ڈالنا ہے تو یک بار مار ڈال
عاشق جو تیری زلف کا ہو اس کو تو صنم
لے جا کے تیرہ شب پس دیوار مار ڈال
کبک دری کے لاکھ قفس ہوں جہاں دھرے
دکھلا کے ان کو شوخی رفتار مار ڈال
کچھ ہم نے تیرے ہاتھ تو پکڑے نہیں میاں
گر جانتا ہے ہم کو گنہ گار مار ڈال
صیاد تجھ کو کس نے کہا تھا کہ فصل گل
مجھ کو قفس میں کر کے گرفتار مار ڈال
جو جاں بہ لب ہو حسرت دیدار میں تری
دکھلا کے اس کو جلوۂ رخسار مار ڈال
سودائیان عشق کا جھگڑا چکا کہیں
لے جا کے ان کو برسر بازار مار ڈال
تیغ و کمند مانگ کر ابرو و زلف سے
عاشق بہت ہوئے ہیں جفا کار مار ڈال
گر یہ بھی ہو سکے نہ تو کہتا ہے مصحفیؔ
دو چار کر لے قید میں دو چار مار ڈال
٭٭٭
فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
اور دید کا جو شوق ہے تو دید سے نکل
زنداں ہجر میں ہمیں سونپا تھا عشق نے
آئے ہیں ہم نصیبوں کی تائید سے نکل
قالب میں میرے یارو بھلا کیا سماوی دم
جب جان کو کہے کوئی تاکید سے نکل
تشبیب میں بھی لطف ہے اک اے قصیدہ گو
اتنا شتاب بھی تو نہ تمہید سے نکل
مصرع کو پہنچے مصرعۂ ثانی برا ہے کیا
کر لے نکاح عالم تجرید سے نکل
کر تو عیوب نظم سے پرہیز اے فلاں
شاعر ہے تو تنافر و تعقید سے نکل
ہیں یاد کب اے مری وحشت کے رنگ ڈھنگ
مجنوں گیا ہے دشت کو تقلید سے نکل
وہ مست میں نہیں ہوں کہ مستوں کی کھا کے دھول
جاؤں شراب خانۂ توحید سے نکل
ہو مصحفیؔ تو علم الٰہی کا آشنا
قید عناصر اور موالید سے نکل
٭٭٭
مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
بھیڑ بکری سے ہے کم قدر بد اعمال کی کھال
جس کی بوسے کے تصور سے چھلے گال کی کھال
تاب کیا لاوے عرق پونچھتے رو مال کی کھال
نقش اس کا بھی کیا دور فلک نے باطل
تھی جو کاوے کے علم سے بندھی اقبال کی کھال
نہیں قصاب اجل سے کوئی بے غم ہرگز
پوستیں چھینے یہ منعم کی تو کنگال کی کھال
تن دہی جب نہ کریں کام میں استاد کے یہ
قمچیوں سے نہ ادھیڑے وہ پھر اطفال کی کھال
بند رومی ہے سمور اس کے پہ کام آں روزوں
دیکھنے میں کبھی آئی نہ تھی اس جال کی کھال
بد گمانی نہ ہو کیوں تب کے گئے پر افزوں
دیکھ اکھڑے لب معشوق کے تبخال کی کھال
مالک الملک نصاریٰ ہوئے کلکتے کے
یہ تو نکلی عجب اک وضع کی جنجال کی کھال
جھریاں کیوں نہ پڑیں عمر فزوں میں منہ پر
تن پہ جب لائے شکن پیر کہن سال کی کھال
شمسؔ تبریز نے مردے کو کیا تھا زندہ
شرع نے کھینچی عبث ایسے خوش اعمال کی کھال
کام از بس کہ زمانے کا ہوا ہے برعکس
چور کھنچوائے ہے اس عہد میں کوتوال کی کھال
نفس گرم سے لیتا ہے وہ اکسیر بنا
دھونکنی دم کی ہے شاعر کے زر و مال کی کھال
اتنے بے کار نہیں جانور آبی بھی
داستانوں کے تو کام آتی ہے گھڑیال کی کھال
فکر میں موئے کمر کی ترے حیران رہے
وہی دقاق جو کھینچے ہے سدا بال کی کھال
اتنا مقدور مجھے دیجو تو اے مہدیِ دیں
مارے کوڑوں کے اڑا دوں خر دجال کی کھال
داغ دل چھن گیا یوں سوزن مژگاں سے تری
جس طرح ہووے مشبک کسی غربال کی کھال
نہیں بے وجہ گرفتاریِ درویش اس میں
آہو و شیر کی ہوتی ہے عجب حال کی کھال
جس کے ہر دانے سے اک قطرۂ خوں ٹپکے ہے
ہے منڈھی میان پہ قاتل کے عجب حال کی کھال
تن کو پیری میں ریاضت سے دباغی کر دوں
مصحفیؔ چرسے کا چرسا ہے یہ اور کھال کی کھال
٭٭٭
اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
پاؤں پڑتے ہی لڑکھڑائے قدم
وائے قسمت میں رہ گیا پیچھے
اور رفیقوں نے جلد اٹھائے قدم
ہر قدم پر ہے لاش کشتے کی
اب کہاں اس گلی میں جائے قدم
تیرے کوچے سے آئے جو ان کے
اپنی آنکھوں سے میں لگائے قدم
اشک خونی سے میرے اس کو میں
نخل مرجاں ہیں نقش ہائے قدم
کاروان عدم کدھر کو گیا
مطلق آتی نہیں صدائے قدم
پیشتر منزل فنا سے نہیں
وادی ما و من میں جائے قدم
مصحفیؔ سالکان عشق کا ہے
ایسی منزل پہ انتہائے قدم
٭٭٭
ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
بد خواب ہو گئے ہیں جو دو چار شب سے ہم
کب کامیاب بوسہ ہوئے اس کے لب سے ہم
شرمندہ ہی رہے دل مطلب مطلب سے ہم
بوسہ نہ لے سکے کف پا کا ادب سے ہم
کاٹیں ہیں اس لیے کف افسوس شب سے ہم
سوداگر صفائے دل بے غبار ہیں
اجناس شیشہ لائے ہیں شہر حلب سے ہم
یہ روز ڈھونڈھ لائے ہے اک خوبرو نیا
شاکی ہیں اپنے ہی دل آفت طلب سے ہم
کشتی ہماری بحر کی ہے منجدھار میں
نکلے ہیں کب کشاکش لطف و غضب سے ہم
طرز خرام ناز کی بے اعتدالیاں
دیکھیں ہیں اور کچھ نہیں کہتے ادب سے ہم
برقعے میں ہو کہ پردۂ چادر میں خوبرو
پہچانتے ہیں وضع سے شوخی سے چھب سے ہم
شغل شراب و شیشہ و ساقیِ نغمہ سنج
تائب ہوئے ہیں عالم پیری میں سب سے ہم
بے لطف زندگی کے ہیں دن آ بھی اے اجل
تیرے ہی انتظار میں بیٹھے ہیں کب سے ہم
فن اتنا کم کیا ہے کہ ان روزوں مصحفیؔ
دل میں اک انس رکھتے ہیں شعر عرب سے ہم
٭٭٭
جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
اٹھ کر ترے دروازے سے جانے کے نہیں ہم
جتنا کہ یہ دنیا میں ہمیں خوار رکھے ہے
اتنے تو گنہ گار زمانے کے نہیں ہم
ہو جاویں گے پامال گزر جاویں گے جی سے
پر سر ترے قدموں سے اٹھانے کے نہیں ہم
آنے دو اسے جس کے لیے چاک کیا ہے
ناصح سے گریباں کو سلانے کے نہیں ہم
جب تک کہ نہ چھڑکے گا گلاب آپ وہ آ کر
اس غش سے کبھی ہوش میں آنے کے نہیں ہم
جاویں گے صبا باغ میں گلگشت چمن کو
پر تیری طرح خاک اڑانے کے نہیں ہم
اے مصحفیؔ خوش ہونے کا نہیں ہم سے وہ جب تک
سر کاٹ کے نذر اس کو بھجانے کے نہیں ہم
٭٭٭
سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
حق آشنائی ادا کر چکے ہم
تو سمجھے نہ سمجھے ہمیں ساتھ تیرے
جو کرنی تھی اے بے وفا کر چکے ہم
خدا سے نہیں کام اب ہم کو یارو
کہ اک بت کو اپنا خدا کر چکے ہم
میں پوچھا مرا کام کس دن کرو گے
تو یوں منہ پھرا کر کہا کر چکے ہم
گھرس لے تو اب ان کو چیرے میں اپنے
تماشائے زلف دوتا کر چکے ہم
تو جاوے نہ جاوے جو کرنی تھی ہم کو
سماجت تری اے صبا کر چکے ہم
نہ بولیں گے پیارے تری ہی سنیں گے
تو دشنام دے اب دعا کر چکے ہم
کبھو کام اپنا کسی سے نہ نکلا
بہت خلق کی التجا کر چکے ہم
لڑی مصحفیؔ آنکھ جس سے کہ اپنی
پر آخر اسے آشنا کر چکے ہم
٭٭٭
سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم
سر خوش گلوں کی بو سے قدح اور قدح سے ہم
مکھڑے پہ ہے گلال جو اس مست ناز کے
رنگیں ہے عکس رو سے قدح اور قدح سے ہم
پیر مغاں کرم ہے جو سیراب ہو سکے
تیرے نم وضو سے قدح اور قدح سے ہم
بزم شراب رقص کی مجلس سے کم نہیں
ناچے ہے پرملو سے قدح اور قدح سے ہم
حلقے نہیں یہ زلف میں ساقی کی بلکہ ہے
وابستہ مو بہ مو سے قدح اور قدح سے ہم
حرمت لکھی شراب کی یاں تک کہ کھنچ رہا
زاہد کی گفتگو سے قدح اور قدح سے ہم
شیشہ جو پھوٹ جائے تو پھوٹے ولے نہ ہو
یارب جدا سبو سے قدح اور قدح سے ہم
وہ تفرقہ پڑا کہ بہت دور رہ گیا
دست پیالہ جو سے قدح اور قدح سے ہم
اے مصحفیؔ ہمیں تو گوارا نہیں یہ نیش
نوش اس کے لب سے چوسے قدح اور قدح سے ہم
٭٭٭
کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
کس وقت یہ دل ہو گیا بسمل نہیں معلوم
اس قافلے میں جاتے ہیں محمل تو ہزاروں
پر جس میں کہ لیلیٰ ہے وہ محمل نہیں معلوم
درپیش ہے جوں اشک سفر ہم کو تری کا
دن رات چلے جاتے ہیں منزل نہیں معلوم
حیران ہیں ہم اس کے معمائے دہن میں
کیوں کر کھلے یہ عقدۂ مشکل نہیں معلوم
اے مصحفیؔ جل بھن کے ہوا خاک میں سارا
دکھلاوے گی اب کیا تپش دل نہیں معلوم
٭٭٭
کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
ہے جس کا ہر کرشمہ صبر آزمائے عالم
محتاج پھر جہاں میں کوئی نظر نہ آتا
کرتا خدا جو مجھ کو حاجت روائے عالم
ہم کو تو کچھ نہ سوجھا آوے وہی دکھا دے
دیکھا ہو گر کسی نے کچھ یا ورائے عالم
عالم اگر ہے حادث تو مجھ کو تو بتا دے
کیوں اب تلک ہے وہ ہی نشو و نمائے عالم
کوئی کچھ ہی سمجھے اس کو پر اپنی آنکھ میں تو
ساتھ اس حدوث کے ہے ثابت بقائے عالم
وہ بھی نظر میں اپنی اس وقت جلوہ گر ہے
عالم جو کچھ کہ ہو گا بعد از فنائے عالم
آنکھیں تو تجھ کو دی ہیں ٹک دیکھ تو سہی تو
ہے راست کس کے قد پر چسپاں قبائے عالم
عالم میں اور ہم میں اک طرفہ رفتگی ہے
عالم فدا ہے ہم پر ہم ہیں فدائے عالم
ہم ابتدا کی پوچھیں پھر بیٹھ کر حقیقت
ہم کو کوئی بتا دے گر انتہائے عالم
کیا لطف عاشقی کا اب رہ گیا ہماری
یاں آخر جوانی واں ابتدائے عالم
کس غنچہ لب کی مجھ کو یاد آ گئی ہے اس دم
جو تنگ ہو گیا ہے مجھ پر فضائے عالم
ایسے سے داد خواہی محشر میں بھی ستم ہے
ہر ایک غمزہ جس کا ہو خوں بہائے عالم
کب داد کو کسی کی پہنچا وہ روے دل کش
ہم نے تو اس کو پایا حسرت فزائے عالم
جب عالم حیا سے بیگانہ وہ نگہ تھی
پاتے تھے تب بھی اس کو ہم آشنائے عالم
ہیں مصحفیؔ ہم اب تو مانند حادثے کے
دیکھیں ٹلے ہے کس دن سر سے بلائے عالم
٭٭٭
کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
ہے بادیہ ریگ اور ہمیں منزل نہیں معلوم
میں حشر کے دن دعویٰ خوں کس سے کروں گا
وہ کشتہ ہوں جس کشتہ کا قاتل نہیں معلوم
نکلیں ہیں مرے دل کے تڑپنے میں ادائیں
ہے کس کی نگاہوں کا یہ بسمل نہیں معلوم
تھا روئے دل خستہ تو شب میری طرف کو
کب ہو گیا مژگاں کے مقابل نہیں معلوم
وہ بحر ہے دریائے سرشک اپنا کہ جس کا
پہنا ہی نظر آوے ہے ساحل نہیں معلوم
مر جاؤں کہ جیتا رہوں میں ہجر میں تیرے
کس چیز کا خواہاں ہے مرا دل نہیں معلوم
آنکھوں سے گزارا ہے جو یوں لخت جگر کا
آتے ہیں چلے کس کے یہ گھائل نہیں معلوم
کیا جانیے کیا اس میں تری آنکھوں نے دیکھا
کیوں ہو گئیں آئینے کی مائل نہیں معلوم
اے مصحفیؔ افسوس کہ اس ہستی پہ ہم کو
تحصیل وفاداری کا حاصل نہیں معلوم
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں