فہرست مضامین
انتخابِ ماہر القادری
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
نعت
کہاں میں، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی، نہ رومی، نہ قدسی نہ جامی
پسینے پسینے ہُوا جا رہا ہوں
کہاں یہ زباں اور کہاں نامِ نامی
سلام اس شہنشاہِ ہر دو سرا پر
درود اس امامِ صفِ انبیاء پر
پیامی تو بے شک سبھی محترم ہیں
مگر اﷲ اﷲ خصوصی پیامی
فلک سے زمیں تک ہے جشنِ چراغاں
کہ تشریف لاتے ہیں شاہ رسولاں
خوشا جلوہ ماہتابِ مجسم
زہے آمد آفتاب تمامی
کوئی ایسا ہادی دکھا دے تو جانیں
کوئی ایسا محسن بتا دے تو جانیں
کبھی دوستوں پر نظر احتسابی
کبھی دشمنوں سے بھی شیریں کلامی
اطاعت کے اقرار بھی ہر قدم پر
شفاعت کا اقرار بھی ہر نظر میں
اصولاً خطاؤں پہ تنبیہ لیکن
مزاجاً خطا کار بندوں کے حامی
یہ آنسو جو آنکھوں سے میری رواں ہیں
عطائے شہنشاہِ کون و مکاں ہیں
مجھے مل گیا جامِ صہبائے کوثر
میرے کام آئی میری تشنہ کامی
فقیروں کو کیا کام طبل و عَلم سے
گداؤں کو کیا فکر جاہ و حشم کی
عباؤں قباؤں کا میں کیا کروں گا
عطا ہو گیا مجھ کو تاجِ غلامی
انہیں صدقِ دل سے بلا کے تو دیکھو
ندامت کے آنسو بہا کے تو دیکھو
لیے جاؤ عقبیٰ میں نامِ محمد ﷺ
شفاعت کا ضامن ہے اسمِ گرامی
٭٭٭
سلام
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں
سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اس پر، جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر، جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھر دیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی
سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہ دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی
سلام اس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا
سلام اس پر کہ جس کا نام لیکر اس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تخت قیصریت، اوج دارائی
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا، سرفروشی کے فسانے میں
سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے
درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے
٭٭٭
عمر فاروق رضی اللہ عنہ
تیرے در پر جبّہ سا روم و مداین کا شکوہ
تیری ٹھوکر پر نچھاور ، قیصر و کسریٰ کے تاج
اللہ ! اللہ ! تو نے ٹوٹے بوریے پر بیٹھ کر
سرکشوں سے نذر لی اور بادشاہوں سے خراج
کفر و بدعت کی تیرے آتے ہی نبضیں چھٹ گئیں
تیری دانائی نے پہچانا زمانہ کا مزاج
تیری سطوت کا یہ عالم ہے کہ تیرے نام سے
کفر کے دل میں ہوا کرتا ہے اب بھی اختلاج
اُٹھ کہ پھر انصاف کی گردن تہہِ شمشیر ہے
آ کہ پھر سارے زمانہ کو ہے تیری احتیاج
٭٭٭
کربلا
بندگی کا جہاں حق ادا ہو گیا
نام اس دشت کا کربلا ہو گیا
حق سے غافل تھا، حق آشنا ہو گیا
حر ذرا دیر میں کیا سے کیا ہو گیا
دی اذاں آج اکبر نے اس شان سے
دشت میں شورِ صّلِ علٰی ہو گیا
کوفہ والو وہ قول و قسم کیا ہوئی
شہر کا شہر ہی بے وفا ہو گیا
مرحبا صبرِ ابن علی مرحبا
غم کے ماروں کو اک آسرا ہو گیا
کربلا آزمائش کا معیار ہے
حشر تک کے لیئے فیصلہ ہو گیا
٭٭٭
نذر حسینؓ
اجل کو دیکھ کے جب مسکرا دیا تو نے
حنین و بدر کا منظر دکھا دیا تو نے
ہے زیبِ صفحۂ تاریخ تیری قربانی
خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا تو نے
فرات دے نہ سکی گر چہ دردِ تشنہ لبی
مگر خلوص کا دریا بہا دیا تو نے
ترے نثار کہ شہ رگ کا خون ٹپکا کر
خدا کے دیں کا چمن لہلہا دیا تو نے
جناب حر کے مقدر کا اوج کیا کہنا
حقیر ذرے کو سورج بنا دیا تو نے
وہ بھید جس کو نہ سمجھی کبھی نگاہ خرد
شہید ہو کے جہاں کو دکھا دیا تو نے
مری نگاہ میں جچتی نہیں شہنشاہی
نہ جانے کون سا عالم دکھا دیا تو نے
٭٭٭
قرآن کی فریاد
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں،آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جز دان حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ۔ اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کیلئے تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں، سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں، کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
٭٭٭
اہل حرم کے سومنات
ہر طرف خیمے لگے ہیں دور تک بازار ہے
یہ نمائش ہے کوئی میلہ ہے یا تہوار ہے
کوئی بارات اس جگہ اتری ہے با صد کر و فر
میں یہ سمجھا شامیانوں کی قطاریں دیکھ کر
یہ نفیری کی صدائیں یا کٹوروں کی کھنک
یہ دھوئیں کے پیچ یہ پھولوں کے گجروں کی مہک
نیم وا برقعے نگاہوں پر فسوں کرتے ہوئے
شوق نظارا کو ہر لحظہ فزوں کرتے ہوئے
ہے یہ تقریب عقیدت عرس ہے اک پیر کا
کام کرتی ہے یہاں کی خاک بھی اکسیر کا
اک طوائف گا رہی ہے سامنے درگاہ کے
کیا مزے ہیں خوب حضرت سہاگن شاہ کے
ساز پر کچھ چھوکرے قوالیاں گاتے ہوئے
گٹکری لیتے ہوئے ہاتھوں کو پچکاتے ہوئے
رقص فرمانے لگے کچھ صاحبان وجد و حال
یہ کرامت شیخ کی ہے یا ہے نغمے کا کمال
عورتوں کی بھیڑ میں نظارہ ٹھوکر کھائے ہے
اس ہجوم رنگ و بو میں کب خدا یاد آئے ہے
مقبرے کی جالیوں میں عرضیاں لٹکی ہوئیں
یہ وہ منزل ہے جہاں ہیں نیکیاں بھٹکی ہوئیں
ان میں لکھا ہے ہماری جھولیاں بھر دیجئے
درد دل سن لیجیے مشکل کشائی کیجیے
پھول بٹتے ہیں کہیں اور دیگ لٹتی ہے کہیں
دل مچلتا ہے کہیں اور سانس گھٹتی ہے کہیں
یہ چراغوں کی قطاریں جگمگاتے بام و در
جس طرف بھی دیکھنے سامان تفریح نظر
چادریں چڑھتی ہوئیں ڈھولک بھی ہے بجتی ہوئی
یہ مجاور ہیں جو پوجا کر رہے ہیں قبر کی
کوئی سجدے میں جھکا ہے کوئی مصروف طواف
تھام رکھا ہے کسی نے دونوں ہاتھوں سے غلاف
رو رہا ہے کوئی چوکھٹ ہی پہ سر رکھے ہوئے
ہیں کسی کے ہاتھ بہر التجا اٹھتے ہوئے
دیکھتا ہی رہ تماشائی زباں سے کچھ نہ بول
چادروں کی دھجیاں بکتی ہیں یاں سونے کے مول
ہن برستا ہے یہاں چاندی اگلتی ہے زمیں
آخرت کی یاد اس جا پاؤں رکھ سکتی نہیں
زائروں کے خود مجاور ہی جھکا دیتے ہیں سر
مو رکے پنکھوں کے سائے میں کلاوے باندھ کر
ہے یہی تعلیم تعلیم نبیؐ فرمان قرآن کی
ہر ایک بدعت ضلالت شرک ہے ظلم عظیم
مدعی توحید کے اور شرک سے یہ ساز باز
ایک طرف قبروں پہ سجدے دوسری جانب نماز
تابکے یہ کھیل دنیا کو دکھایا جائے گا
مضحکہ توحید کا کب تک اڑایا جائے گا
٭٭٭
غزلیں
دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے
آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے
سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا انداز کہاں ہے
دل خوابیدہ، روح فسردہ
وہ جوشِ آغاز کہاں ہے
پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے
بت خانے کا عزم ہے ماہر
کعبے کا در باز کہاں ہے
٭٭٭
ہم تو ڈبو کر کشتی کو، خود ہی پار لگائیں گے
طوفاں سے گر بچ نکلی، ساحل سے ٹکرائیں گے
کہہ تو دیا، اُلفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟
یہ تو سب سچ ہے مجھ پر آپ کرم فرمائیں گے
لیکن اتنا دھیان رہے، لوگ بہت بہکائیں گے
عشق کی نظروں سے چھُپنا ، کھیل نہیں، آسان نہیں
مجھ کو جِلو میں پائیں گے، آپ جہاں بھی جائیں گے
چھوڑئیے اُس کی حالت پر دل کو، دل دیوانہ ہے
آپ کہاں تک ایسے کی غمخواری فرمائیں گے؟
ناکامی بیکار نہیں، رُسوائی کام آئے گی
ان ہی چند لکیروں سے افسانے بن جائیں گے
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
تیرے میخانے کی قسم، بے مانگے مل جاتا ہے
تیرے ہوتے اے ساقی! ہاتھ کہاں پھیلائیںگے؟
اب میں اُس منزل میں ہوں، جس میں دعا کرنا ہے گناہ
کچھ نہ زباں سے نکلے گا، ہاتھ اگر اُٹھ جائیں گے
تُو برباد، جہاں ناخوش، وہ بھی کچھ بیزار سے ہیں
ہم جو اے دل! کہتے تھے، نالے راس نہ آئیں گے!
اُس نے آنے والوں کا بڑھ کر استقبال کیا
شمع کو یہ معلوم نہ تھا، پروانے جل جائیں گے
میرے سیہ خانے میں کوئی، دلچسپی کی چیز نہیں
آپ کو فرصت ہی کب ہے، آپ یہاں کیوں آئیں گے!
اک دن میری آنکھوں میں ماہر آنسو بھر آئے
غربت گھبرا کر بولی، آپ وطن کب جائیں گے؟
٭٭٭
وہ اگر بے نقاب ہو جائے
ہر نظر آفتاب ہو جائے
دیکھ اس طرح مست آنکھوں سے
پھول جامِ شراب ہو جائے
اک نگاہِ کرم مِری جانب
ذرہ پھر آفتاب ہو جائے
تم اگر وقتِ نزع آ جاؤ
زندگی کامیاب ہو جائے
کم سے کم اتنی میکشی تو ہو!
روح غرقِ شراب ہو جائے
منتشر کر نظام دُنیا کا
ہر سکوں اضطراب ہو جائے
ہے بڑا خوش نصیب جو ماہر
بندۂ بوتراب ہو جائے
٭٭٭
ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر ہے کامیاب
ذرّے بھی بے مثال، ستارے بھی لاجواب
اس طرح اُٹھ رہا ہے تِرا گوشۂ نقاب
جلوے بھی کامیاب نگاہیں بھی کامیاب
ماتھا، نشاطِ حُسن سے کھلتا ہوا کنول
عارض فروغِ مے سے مہکتے ہوئے گلاب
میں نے پڑھا جو شعر تو وہ مسکرادیئے
اتنی ذرا سی بات میں جاتا رہا عتاب
قصداً تجلیوں کو دیا حُسن نے فروغ
دانستہ، چشمِ شوق پہ ڈالے گئے حجاب
یہ بے تکلفی، یہ نوازش، یہ ربط ضبط
گستاخ کر نہ دیں، یہ کرم ہائے بے حساب
ذوقِ نمود ہی سے عبارت ہے زندگی
موجوں پہ تیرتے ہیں اُبھرتے ہوئے حباب
میری نگاہِ شوق کی سر مستیاں نہ پوچھ!
ان کو بھی آج خوب پلا دی گئی شراب
اب زندگی کا لطف بہ عنوان درد ہے
ماہر بھی ہے حریمِ محبت میں بار یاب
٭٭٭
تیغ پھر بے نیام ہو جائے
ہاں ذرا قتلِ عام ہو جائے
دل کو کوہِ الم سے ٹکرا دوں
آج قِصّہ تمام ہو جائے
تجھ پہ زاہد، خدا کرے کہ شراب
خُلد میں بھی حرام ہو جائے
تم کسی دن جھلک دکھا جاؤ
دُور ہی سے سلام ہو جائے
ٹوٹ جائے حدِ خصوصیت
کاش دیدار، عام ہو جائے
مجھ پر اس طرح میکشی ہو فرض
یعنی توبہ حرام ہو جائے
بعد مدت کے آج تو ماہر
شغلِ شراب مدام ہو جائے
٭٭٭
مآلِ گل کی خبر کوششِ صبا معلوم
کلی کلی کو ہے گلشن کی انتہا معلوم
ہر اک قدم رہِ الفت میں ڈگمگاتا ہے
یہ ابتدا ہے تو پھر اس کی انتہا معلوم!
تجلیات کی اک رو میں بہ چلا ہے دل
نہ آرزو کی خبر ہے نہ مدعا معلوم
چلے ہیں اُس کے طلبگار سوئے دیر و حرم
جو کوششیں ہیں یہی ہو چکا پتا معلوم
ہر ایک پھول میں دوڑی ہے انبساط کی روح
چمن میں آ کے وہ کیا کہہ گئے خدا معلوم
مری حیات بھی فطرت کا اک معمّا ہے
مرے وجود کو میرا نہیں پتا معلوم
نگاہ ملتے ہی ماہر میں ہو گیا غافل
پھر اس کے بعد کو کیا کچھ ہوا، خدا معلوم
٭٭٭
مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں
وہ ہیں کہ سارے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں
عجیب شان سے جلوے دکھائے جاتے ہیں
مجھ ہی سے چھپ کے، مجھ ہی میں سمائے جاتے ہیں
مشاہدات کی دُنیا بسائے جاتے ہیں
تحیّرات کے سکّے بٹھائے جاتے ہیں
تجلیوں کے فسانے سنائے جاتے ہیں
خموش ہیں وہ، مگر مُسکرائے جاتے ہیں
وہ دُور رہ کے مرے پاس آئے جاتے ہیں
نہ جانے کون سا عالم دکھائے جاتے ہیں
طرح طرح سے مجھے آزمائے جاتے ہیں
وہ روز ایک نیا گل کھلائے جاتے ہیں
نہیں ہیں دامنِ گل پر یہ اوس کے قطرے
سحر کا وقت ہے موتی لٹائے جاتے ہیں
رکھا گیا ہے انہی کا لقب مہ و خورشید
تری نگاہ کے کچھ نقش پائے جاتے ہیں
خدا کرے کہ نہ کم ہو بہارِ میخانہ
یہ بزم وہ ہے جہاں بِن بلائے جاتے ہیں
فسانہ اُن کی نگاہوں کا کیا کہوں ماہر
ابھی وہ تیر کلیجے میں پائے جاتے ہیں
٭٭٭
اُن کی خوشی یہی ہے تو، اچھا یہی سہی
الفت کا نام آج سے دیوانگی سہی
ہر چند نامراد ہوں، پھر بھی ہوں کامیاب
کوشش تو کی ہے، کوششِ برباد ہی سہی
غنچوں کے دل سے پوچھئے لطفِ شگفتگی
بادِ صبا پہ تہمتِ آوارگی سہی
جب چھڑ گئی ہے کاکُلِ شب رنگ کی غزل
ایسے میں اک قصیدۂ رخسار بھی سہی
ماہر سے اجتناب نہ فرمائیں اہلِ دل
اچھوں کے ساتھ ایک گناہ گار بھی سہی
٭٭٭
کچھ اس ادا سے خون تمنّا کیا گیا
جیسے میری طرف سے تقاضا کیا گیا
سچ تو یہ ہے کے غم ہی محبّت کی جان ہے
تیرے لیے خوشی کو گوارا کیا گیا
وہ ہنس دئے کہ عرض تمنّا فضول ہے
میں اس خیال میں کہ اشارا کیا گیا
وہ خود بھی آپ اپنے ہی جلووں میں محو تھے
انکی نظر سے ان کا نظارہ کیا گیا
٭٭٭
زمانے میں آرام و راحت کہاں ہے
یہاں آسماں ہے وہاں آسماں ہے
میں قائل ہوں دیرو حرم کا بھی لیکن
ترا آستاں پھر ترا آستاں ہے
محبت کے رہرو کو تنہا نہ سمجھو
طلب راہبر ہے ، جُنوں پاسباں ہے
زمانے کی سب راحتیں ہیں مُسلّم
غموں سے مگر مجھ کو فرصت کہاں ہے
قفس سے ہی اب ہم نشیں دل لگا لے
یہی گلستاں ہے، یہی آشیاں ہے
گناہوں سے مجھ کو ڈراتا ہے زاہد
ابھی تو مری ہر تمنّا جواں ہے
میں اُس طبعِ نازک پہ شیدا ہوں ماہر
کہ حرفِ تمنّا بھی جس پر گراں ہے
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید