فہرست مضامین
- قائم چاند پوری
- ترتیب و انتخاب: فرخ منظور
- گہہ ہوئی صبح گاہ شام ہوئی
- شب غم سے ترے جان ہی پر آن بنی تھی
- نیا ہر لحظہ ہر داغِ کہن ہے
- درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
- میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
- عہدے سے تیرے ہم کو بَر آیا نہ جائے گا
- پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
- بل پا کے اُس کی زلف میں آرام رہ گیا
- پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل
- شمع ساں جلنے کو صانع نے بنایا مجھ کو
- نے ہجر چاہتا ہوں نہ وصلِ حبیب کو
- تیری زباں سے خستہ کوئی، زار ہے کوئی
- Related
- ترتیب و انتخاب: فرخ منظور
انتخاب
قائم چاند پوری
ترتیب و انتخاب: فرخ منظور
گہہ ہوئی صبح گاہ شام ہوئی
عمر انہیں قصوں میں تمام ہوئی
رنجش آگے جو خاص تھی ہم سے
وائے طالع کہ وہ بھی عام ہوئی
کس گرفتار پر ہوا ہے یہ قہر
جو بلا مجھ پہ زیرِ دام ہوئی
وہی سمجھے ہے رمزِ حکمتِ عین
جس سے وہ چشم ہم کلام ہوئی
یہ بھی نالے کا طور ہے قائم
خواب اِک خلق پر حرام ہوئی
٭٭٭
شب غم سے ترے جان ہی پر آن بنی تھی
جو بال بدن پر ہے سو برچھی کی انی تھی
شب گریہ سے وابستہ مری دل شکنی تھی
جو بوند تھی آنسو کی سو ہیرے کی کنی تھی
بے دردی ہے فرہاد سے نسبت مجھے کرنا
آخر یہ جگر کاوی ہے وہ کوہ کنی تھی
میں کشتہ ہوں اسباب کا تیرے شہدا کا
گر چلتے میں کچھ ساتھ لیا بے کفنی تھی
یک عمر رکھی غرق بہ خوں چاکِ گریباں
ہم کو بھی کبھو خواہشِ گل پیرہنی تھی
اب گریہ تعجب ہے تجھے لختِ جگر کا
اِک وقت تو یاں کانِ عقیقِ یمنی تھی
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اِک بات لچر سی بہ زبانِ دکھنی تھی
٭٭٭
نیا ہر لحظہ ہر داغِ کہن ہے
بہارِ سینہ رشکِ صد چمن ہے
دہن تیرے کو پایا بات کہتے
ہماری جز رسی میں کیا سخن ہے
یہ صحرا ہے بھلا دیکھیں تو بارے
جنوں کیسا ترا دیوانہ پن ہے
نہ جمعِ رخت سے خوش ہو کہ اک روز
ترا منصب وہی دس گز کفن ہے
وہ گویا زخم ہے چہرے کے اوپر
جو بے لطفِ سخن کوئی دہن ہے
شہیدِ غمزۂ خوں ریز ہوں میں
مجھے کب حاجتِ تیغ و کفن ہے
دلا پوچھ ہم سے احوال غم آباد
کہ اپنا تو وہی بستی وطن ہے
فقط شاعر نہیں ہم بلکہ قائم
ہمارا ایک ادنیٰ یہ بھی فن ہے
٭٭٭
درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
کارگر کیا ہو وہ، پیکاں نہیں جس تیر کے بیچ
بند اسباب میں ہرگز نہ رہیں وارستہ
کب ٹھہرتی ہے صدا حلقۂ زنجیر کے بیچ
تشنہ لب مر گئے کتنے ہی ترے کوچے میں
ظاہرا آب نہ تھی تجھ دمِ شمشیر کے بیچ
ناصحا! پوچھ نہ احوالِ خموشی مجھ سے
ہے یہ وہ بات کہ آتی نہیں تقریر کے بیچ
دیر آنا بھی ہے اک لطف، نہ یاں تک ظالم
جی ہی جاتا رہے اک شخص کا تاخیر کے بیچ
بس کر گریۂ روزانہ تری بار ہے اب
کچھ ہوا آ کے اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
کر تردّد بھی توُ قائم جو ملے دولتِ فقر
جس کو تو ڈھونڈے ہے، کیا خاک ہے اکسیر کے بیچ
٭٭٭
میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا
ہم نشیں، کیجیو تقریب تو شب باشی کی
آج کر نشے کا حیلہ میں مچل جاؤں گا
دل مرے ضعف پہ کیا رحم تُو کھاتا ہے کہ میں
جان سے اب کے بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا
سیر اس کوچے کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں
جا کے بولا کہ بس اب آگے میں جل جاؤں گا
تنگ ہوں میں بھی اب اس جینے سے اے جی، نہ رُکا
جا نکل جا، جو تُو کہتا ہے "نکل جاؤں گا”
شورِ محشر سے ہے پروا مجھے کیا اے واعظ!
جب کہ ہمراہ لیے دل سے خلل جاؤں گا
شوخی سے پہنچے ہے جوں ہند میں طوطی، قائم
آگے سودا کے میں لے کر یہ غزل جاؤں گا
٭٭٭
عہدے سے تیرے ہم کو بَر آیا نہ جائے گا
یہ ناز ہے تو ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ؟
کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
آتش تو دی تھی خانۂ دل کے تئیں میں آپ
پر کیا خبر تھی یہ کہ بجھایا نہ جائے گا
ہوتے ترے محال ہے ہم درمیاں نہ ہوں
جب تک وجودِ شخص ہے سایا نہ جائے گا
مجرم ہوں وہ کہ ایک فقط روزِ باز پرس
نامہ مرے عمل کا دکھایا نہ جائے گا
ہے خواجہ آج نام کے پیچھے یہ سب خراب
غافل کہ کل نشان بھی پایا نہ جائے گا
قائم، خدا بھی ہونے کو جو جانتے ہیں ننگ
بندا تو اُن کے پاس کہایا نہ جائے گا
٭٭٭
پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا
خاک کا سا ڈھیر، سرِ رہ ہوں میں
قافلۂ عمر سفر کر گیا
خلد بریں اُس کی ہے واں بود و باش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا
چھپ کے ترے کوچے سے گزرا میں لیک
نالہ اِک عالم کو خبر کر گیا
جوں شرر کاغذِ آتش زدہ
شامِ غم اپنی میں سحر کر گیا
تا بہ فلک نالہ تو پہنچا تھا رات
میں ہی کچھ اللہ کا ڈر کر گیا
پوچھ نہ قائم کی کٹی کیوں کہ عمر
جوں ہوا، یک چند بسر کر گیا
٭٭٭
بل پا کے اُس کی زلف میں آرام رہ گیا
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا
جھگڑے میں ہم مبادی کے یاں تک پھنسے کہ آہ!
مقصود تھا جو اپنے تئیں کام رہ گیا
ناپختگی کا اپنی سبب اُس ثمر سے پوچھ
جلدی سے باغباں کی جو وہ خام رہ گیا
صیّاد تو تو جا ہے پر اُس کی بھی کچھ خبر
جو مرغِ ناتوں کہ تہِ دام رہ گیا
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
ماریں ہیں ہم نگینِ سلیماں کو پشتِ دست
جب مٹ گیا نشان تو گو نام رہ گیا
نے تجھ پہ وہ بہار رہی اور نہ یاں وہ دل
کہنے کو نیک و بد کے اِک الزام رہ گیا
موقوف کچھ کمال پہ یاں کامِ دل نہیں
مجھ کو ہی دیکھ لینا کہ ناکام رہ گیا
قائم گئے سب اُس کی زباں سے جو تھے رفیق
اِک بے حیا میں کھانے کو دشنام رہ گیا
٭٭٭
پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل
جھمکے ہے مثلِ شعلہ ہر اک سو چراغِ گُل
صرفے سے آہ و نالہ کر اے عندلیبِ زار
ڈرتا ہوں میں کہ ہو نہ پریشاں دماغِ گُل
دے کیوں نہ داغِ دل سے دمِ سرد اطلاع
ملتا ہے نت نسیمِ سحر سے سراغِ گُل
مت ڈھونڈ ہم گرفتہ دلوں سے کشادِ طبع
غنچے کو کیوں کہ ہووے میسّر فراغِ گُل
قائم یہ کس کی بو کی ہے دریوزہ گر کہ صبح
ہر شاخ گُل رکھے ہے جو کف پر ایاغِ گُل
٭٭٭
شمع ساں جلنے کو صانع نے بنایا مجھ کو
جس کے میں ہاتھ پڑا اُن نے جلایا مجھ کو
تھا بد و نیک جہاں سے میں عدم میں آزاد
آہ! کس خواب سے ہستی نے جگایا مجھ کو
دوت ڈالا تھا یہ کس دشمنِ جانی نے کہ رات
پائی شمشیر اگر تیں تو نہ پایا مجھ کو
تھا شبِ ہجر سے کیا سابقہ دل کو میرے
تم نے یہ روز بد اے چشم دکھایا مجھ کو
سَو بسے کچھ تو خلل تھا کہ شب اُن نے محرم
غیر کے آتے ہی مجلس سے اٹھایا مجھ کو
بھول کر بھی نہ گیا یاد سے اپنی تو وہ شوخ
جان کر یاد سے جن نے کہ بھلایا مجھ کو
میں تو اس بات پہ مرتا ہوں کہ اُن نے قائم
کس طرح پردے سے کل بول سنایا مجھ کو
٭٭٭
نے ہجر چاہتا ہوں نہ وصلِ حبیب کو
یا رب کہیں ہو صبر دلِ نا شکیب کو
وے بھی تو آدمی ہیں کہ جن سے تمہیں ہے ربط
کیا شکوہ تم سے، روئیے اپنے نصیب کو
اپنے لیے کہے ہے تمہیں کون، کچھ کرو
لیکن بہت برا ہے ستانا غریب کو
اصلاح کا جنوں کی مرے نت اسے ہے فکر
یہ کیا دِوان پن ہے الٰہی طبیب کو
بلبل نہ کر دراز زباں تو کہ گُل کے یاں
خاموشی پر قفا سے نکالیں ہیں جیب کو
آدابِ ناز جن نے سکھائے تمہیں ہیں شوخ
مقدور ہو تو دیجے ادب اس ادیب کو
قائم سخن سرا ہے وہ اس ڈھنگ سے بھلا
تیں بولتے سنا ہے بہت عندلیب کو
٭٭٭
تیری زباں سے خستہ کوئی، زار ہے کوئی
پیارے یہ نحو حرف و یہ گفتار ہے کوئی
ٹھوکر میں ہر قدم کی تڑپتے ہیں دل کئی
ظالم ادھر تو دیکھ، یہ رفتار ہے کوئی
تجھ سے لگیں تھیں آنکھیں پھنسا مفت میں یہ دل
تقصیر تھی کسی کی، گرفتار ہے کوئی
چارہ نہیں ہے جس کا کسی چارہ داں کے پاس
مجھ سا بھی اس جہان میں ناچار ہے کوئی
جوں شاخِ گل ہے فکر میں میری شکست کی
میرا گر اس چمن میں ہوادار ہے کوئی
ہر سُو لئے پھروں ہوں دلِ خستہ میں بتاں
اس جنس کا بھی تم میں خریدار ہے کوئی؟
ظالم خبر تو لے کہیں قائم ہی یہ نہ ہو
نالان و مضطرب پسِ دیوار ہے کوئی
٭٭٭
ٹائپنگ: فرخ منظور
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید