فہرست مضامین
- انتخاب کلام بہزاد لکھنوی
- دل بہت ہے اُداس
- دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
- میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
- ہمیں کس طرح بھول جائے گی دنیا
- اب ہے خوشی، خوشی میں نہ غم ہے ملال میں!
- اُن کو بُت سمجھا تھا یا اُن کو خدا سمجھا تھا میں
- ترے عشق میں زندگانی لُٹا دی
- وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں
- اک حُسن کی خِلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
- مرے جہانِ محبت پہ چھائے جاتے ہیں
- یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہو جائے
- کیا بتاؤں کہ مُدعا کیا ہے
- یہ ہے اک نَو شباب کا عالم
- اُن کی نادانیاں نہیں جاتیں
- آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے
- تم کو بُلا تو لوں، مگر، آ بھی سکو گے تم
- سر ہے قدموں پہ بے خودی تو دیکھ
- بہت ہی حسیں ہے تمہارا تصوُّر
- کیا یہ بھی میں بتلا دوں ، تُو کون ہے ، میں کیا ہوں
- حُسن کی جنّتیں ارے توبہ
- میں ان کی نظروں میں سمایا ہوا ہوں
- عالمِ عشقِ حقیقی بھی جُدا ہوتا ہے
- دُنیا سے مجھے مطلب ؟اس کی نہیں پروا ہے
- اک بے وفا کو پیار کیا، ہائے کیا کیا
- تم کو بُلا تو لوں، مگر، آ بھی سکو گے تم
- تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں
- حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا
- لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں
- دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
- بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
- چاند سے دو دو باتیں
- وقفِ مجاز
- حُسنِ جلوہ
- محفلِ خیال
- تبسّم نو بہ نو
- میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں
- بے پردہ جو وہ روئے پُر نور نظر آیا
- کرم چاہتا ہوں، عطا چاہتا ہوں
- تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے
- خود سے خیال میں جو وہ جانِ خیال آ گیا
- آنکھوں میں اشکِ غم جو مرے پا رہے ہو تم
- آنکھ میں اشک ہیں ضرور اشک مگر بہائے کون
- ذرّوں کا پرستار ہوں ذروں پہ جبیں ہے
- ستمگر نے کیا خوب دادِ وفا دی
- اک بیوفا کو درد کا درماں بنا لیا
- دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
- سن اے بےخبر نوحہ خوانِ محبت
- ساقیا ہاں شراب رہنے دے
- نظر سے نظر کو ملانے چلا ہوں
- تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے
- دل کی حالت کہی نہیں جاتی
- تُو دیکھ رہا ہے مرے دل ، میری نظر کو
- ہاں اب تو کچھ نہیں ہے مرے اختیار میں
- خوشا بخت اے دل تجھے کچھ خبر ہے
- غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، جانِ بہار آ گیا
- خوشا بخت اے دل تجھے کچھ خبر ہے
- اب تو جہانِ عشق میں آنے لگے ہو تم
- وہ بیمارِ غم کی دوا کر رہے ہیں
- محبت میں سرمستیاں چاہتا ہوں
- پریشاں ہوں اور قلب گھبرا رہا ہے
- کرتا ہوں میں جہاں کے نظاروں سے گفتگو
- پاس اب غم کی کائنات نہیں
- گھِر گھِر آئے بادر کارے – برسے آکر اُن کے دُوارے
- انکشافِ حقیقت
- کیفیاتِ آرزو
- اِلتجائے شوق
- فریبِ نگاہ
- ضروریات
- غرورِ محبت
- تم یاد مجھے آ جاتے ہو
- میں یاد تمہیں کر لیتا ہوں
- تم سے شکایت کیا کروں؟
- آفتاب آیا
- جامِ رنگیں
- حالتِ اضطراب
- نظامِ زندگی
- اضطرابِ دل
- نگاہِ حُسن
- تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
- موہے پیت کی ریت بتا سجنی
- شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
- کائناتِ غم
- گفتگو
- احساسات
- کیفیاتِ حسیں
- بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
انتخاب کلام بہزاد لکھنوی
پیشکش: مبارز کاشفی
تیرا ہی ہر طرف یہ تماشا ہے اے کریم
جو بھی یہاں پہ ہے تیرا بندہ ہے اے کریم
تیرے ہی لطف سے ہے یہ راحت بھی عیش بھی
دُنیا ترے کرم ہی سے دُنیا ہے اے کریم
یہ مرگ، یہ حیات، یہ غم، یہ خوشی، یہ کیف
ادنیٰ سا سب یہ تیرا کرشمہ ہے اے کریم
عزّت بھی تیرے ہاتھ ہے، ذلّت بھی تیرے ہاتھ
جو چاہتا ہے جس کو تو دیتا ہے اے کریم
بہزاد پہ بھی اک نگہِ مہر ہو ذرا
بہزاد بھی تو اک ترا بندہ ہے اے کریم
٭٭٭
جو سر تاجِ زماں شاہِ شہیداں ہے سلام اُس پر
جو کُل اسلام کا مقصودِ ایماں ہے سلام اُس پر
جو محبوبِ الٰہی مصطفی کے دل کی دھڑکن ہے
جو روح پاک بازاں جانِ جاناں ہے سلام اُس پر
جو اہلِ کیف کی منزل ہے اہلِ ذوق کا مرکز
جو اہلِ عشق کا مقصود و ارماں ہے سلام اُس پر
حیاتِ نو ملی اسلام کو جس کے تصدّق میں
جہانِ راستی پر جس کا احساں ہے سلام اُس پر
فنا کا راز جس نے آشکارا کر دیا سب پر
بقاء جس کے جلو میں خود خراماں ہے سلام اُس پر
فدائی ہے اسی کے نام کا میرا دلِ مضطر
جو اے بہزاد میرا دین و ایماں ہے سلام اُس پر
٭٭٭
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے
اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تُو میری خاطر کرنا
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے
اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
٭٭٭
دل بہت ہے اُداس
چلو پریم نگر کو ہو آئیں
وہاں اپنا جیون کھو آئیں
وہاں رہتا ہے بہزاد حزیں
برباد وفا مخلص بے کیں
اس سے کچھ سن کر رو آئیں
چلو پریم نگر کو ہو آئیں
ایک ترا بہزاد ہے مضطر
دل میں ہے اس کے تیر ا نشتر
اور پھٹا ہے لباس سجنی
موہے پریت کی ریت بتا سجنی
میں رنگ محبت کیا جانوں
آغاز کو کیوں کر پہچانوں
اس گتھی کو سلجھا سجنی
موہے ۔۔۔
بہزاد حزیں افسردہ ہے
مغموم ہے اور پژمردہ ہے
بہزاد کو مست بنا سجنی
موہے پریت کی ریت بتا سجنی
٭٭٭
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشہ نہ بنا دے
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے
میں ڈھونڈ رہا ہوں میری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے
آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانۂ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے
بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدۂ مستی
ہر ذرے کو سنگِ درِ جاناناں بنا دے
٭٭٭
میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
آنکھ میں آنکھ ڈال کر بندہ بنا گیا کوئی
مرگ و حیات کے مزے آہ دکھا گیا کوئی
آ کے ہنسا گیا کوئی جا کے رلا گیا کوئی
سجدۂ عشق کے لئے پائے صنم ضرور ہے
میری جبینِ شوق کو راز بتا گیا کوئی
مرے تصورات کا سحر عجیب سحر ہے
دیکھ مرے دل حزیں دیکھ وہ آ گیا کوئی
سب کی طرف لطف بزم میں تھی رواں دواں
ایک نظر میں بے کہے سب کو مٹا گیا کوئی
فطرت عشق کے نثار اس کو مرا خیال تھا
صدقے غرورِ حسن کے مجھ سے چھپا گیا کوئی
٭٭٭
ہمیں کس طرح بھول جائے گی دنیا
کہ ڈھونڈھے سے ہمسا نہ پائے گی دنیا
مجھے کیا خبر تھی کہ نقشِ وفا کو
بگاڑیگی دنیا بنائے گی دنیا
محبت کی دنیا میں کھویا ہوا ہوں
محبت بھرا مجھکو پائے گی دنیا
ہمیں خوب دے فریب محبت
ہمارے نہ دھوکے میں آئے گی دنیا
قیامت کی دنیا میں ہے دلفریبی
قیامت میں بھی یاد آئے گی دنیا
رلا دوں میں بہزاد دنیا کو خود ہی
یہ مجھ کو بھلا کیا رلائے گی دنیا
٭٭٭
اب ہے خوشی، خوشی میں نہ غم ہے ملال میں!
دُنیا سے کھو گیا ہُوں تمہارے خیال میں
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں، ہوکے مست تمھارے خیال میں
تاروں سے پُوچھ لو مِری رُودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہُوں تمہارے خیال میں
دُنیا کو عِلم کیا ہے، زمانے کو کیا خبر!
دُنیا بھُلا چُکا ہُوں تُمھارے خیال میں
دُنیا کھڑی ہے مُنتظرِ نغمۂ الم
بہزاد چُپ کھڑا ہے کِسی کے خیال میں
٭٭٭
اُن کو بُت سمجھا تھا یا اُن کو خدا سمجھا تھا میں
ہاں بتا دے اے جبینِ شوق کیا سمجھا تھا میں
اللہ اللہ کیا عنایت کر گئی مضرابِ عشق
ورنہ سازِ زندگی کو بے صدا سمجھا تھا میں
ان سے شکوہ کیوں کروں، ان سے شکایت کیوں کروں
خود بڑی مشکل سے اپنا مدعا سمجھا تھا میں
میری حالت دیکھئے، میرا تڑپتا دیکھئے
آپ کو اس سے غرض کیا ہے کہ کیا سمجھا تھا میں
کھُل گیا یہ راز اُن آنکھوں کے اشکِ ناز سے
کیفیاتِ حُسن کو غم سے جُدا سمجھا تھا میں
اے جبینِ شوق ہاں تجھ کو بڑی زحمت ہوئی
آج ہر ذرّے کو اُن کا نقشِ پا سمجھا تھا میں
اک نظر پر منحصر تھی زیست کی کُل کائنات
ہر نظر کو جان جانِ مدعا سمجھا تھا میں
آ رہا ہے کیوں کسی کا نام ہونٹوں تک مری
اے دلِ مضطر تجھے صبر آزما سمجھا تھا میں
آپ تو ہر ہر قدم پر ہو رہے ہیں جلوہ گر
آپ کو حدِّ نظر سے ماورا سمجھا تھا میں
یہ فغاں، یہ شور، یہ نالے، یہ شیون تھے فضول
کیا بتاتی تھی محبت اور کیا سمجھا تھا میں
اُس نگاہِ ناز نے بہزاد مجھ کو کھو دیا
جس نگاہِ ناز کو اپنی دوا سمجھا تھا میں
٭٭٭
ترے عشق میں زندگانی لُٹا دی
عجب کھیل کھیلا، جوانی لُٹا دی
نہیں دل میں داغِ تمنّا بھی باقی
انہیں پر سے ان کی نشانی لُٹا دی
کچھ اس طرح ظالم نے دیکھا کہ ہم نے
نہ سوچا، نہ سمجھا، جوانی لُٹا دی
تمہارے ہی کارن، تمہاری بدولت
تمہاری قسم زندگانی لُٹا دی
اداؤں کو دیکھا، نگاہوں کو دیکھا
ہزاروں طرح سے جوانی لُٹا دی
غضب تو یہ ہے ہم نے محفل کی محفل
سُنا کر وفا کی کہانی لُٹا دی
جہاں کوئی دیکھا حسیں جلوہ آرا
وہیں ہم نے اپنی جوانی لُٹا دی
نگاہوں سے ساقی نے صہبائے اُلفت
ستم یہ ہے تا دَورِ ثانی لُٹا دی
جوانی کے جذبوں سے اللہ سمجھے
جوانی جو دیکھی، جوانی لُٹا دی
بُجھائی ہے پیاس آج دامن کی ہم نے
شرابِ نظر کر کے پانی لُٹا دی
نہ پوچھو نہ پوچھو تمہیں کیا بتاؤں
بڑی چوٹ کھائی، جوانی لُٹا دی
تمہیں پر سے بہزاد نے بیخودی میں
کیا دل تصدّق جوانی لُٹا دی
٭٭٭
وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں
میں کیا کر رہا ہوں، وہ کیا کر رہے ہیں
ستم ڈھائے جاؤ، سلامت رہو تم
دُعا کرنے والے دعا کر رہے ہیں
تری رحمتوں کا سہارا ہے ہم کو
ترے آسرے پر خطا کر رہے ہیں
ہیں دنیا میں جتنے بھی مجبورِ اُلفت
تمہیں سے تمہارا گلہ کر رہے ہیں
محبت خطا ہے، سمجھتے ہیں ہم بھی
خطا بخش دے ہم خطا کر رہے ہیں
ہمیں اپنے مٹنے کا کچھ غم نہیں ہے
تمہارے لئے ہم دعا کر رہے ہیں
ترے آستانے کے سجدے ہیں باقی
ابھی سجدۂ نقشِ پا کر رہے ہیں
وفادار ہم سے زمانے میں کم ہیں
وفا ہم نے کی ہے، وفا کر رہے ہیں
بتوں کے تصوّر میں محفل سجا کر
ہم اس طرح یادِ خُدا کر رہے ہیں
کبھی ہاتھ رکھتے ہیں سینہ پہ میرے
کبھی تیر دل سے جُدا کر رہے ہیں
نمازِ محبت کو بہزادِ مضطر
قضا کر چکے تھے، ادا کر رہے ہیں
٭٭٭
اک حُسن کی خِلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
محفل میں چراغ آیا، گرنے لگا پروانہ
اتنا مرا قصّہ ہے، اتنا مرا افسانہ
جب تم نہ ملے مجھ کو، میں ہو گیا دیوانہ
سمجھاؤ نہ سمجھے گا، بہلاؤ نہ بہلے گا
تڑپاؤ تو تڑپے گا، پہروں دل دیوانہ
زردی مرے چہرے کی، آنسو مری آنکھوں کے
سرکار یہ سب کچھ ہیں منجملۂ افسانہ
دُنیائے محبت میں مشہور ہیں دو چیزیں
بے رحم تری آنکھیں، میرا دل دیوانہ
ان نرگسی آنکھوں میں نیند آ ہی گئی آخر
تم سُن چکے افسانہ، میں کہہ چکا افسانہ
جب کالی گھٹائیں ہوں، خاموش فضائیں ہوں
اللہ کرے تم ہو اور یہ دلِ دیوانہ
کل آپ تھے اور میں تھا، عالم کی فضائیں تھیں
اب آج انہیں باتوں کا کہنا پڑا افسانہ
مُسلم کے لئے مسجد، ہندو کے لئے مندر
بہزاد کو کافی ہے سنگِ درِ جانانہ
٭٭٭
مرے جہانِ محبت پہ چھائے جاتے ہیں
بھُلا رہا ہوں مگر یاد آئے جاتے ہیں
وہی ہیں عشق کے مارے، وہی ہیں دل والے
جو تیرے واسطے آنسو بہائے جاتے ہیں
جہانِ عشق میں اے سیر دیکھنے والے
طرح طرح کے تماشے دکھائے جاتے ہیں
یہی مرے لئے اک روز خون روئیں گے
یہی یہی کہ جو مجھ کو مٹائے جاتے ہیں
ہر ایک سانس میں اب تو ہیں عشق کے نغمے
مٹا مٹا کے وہ ہم کو بنائے جاتے ہیں
یہ راہِ عشق کی دُشواریاں معاذ اللہ
وہ ہر قدم پہ ہمیں آزمائے جاتے ہیں
مرے جہان مین جُز رنج و غم نہیں کچھ بھی
وہ آج کیوں مری دنیا میں آئے جاتے ہیں
ہمیں بھی اپنے تڑپنے میں لطف آتا ہے
خدا کا شکر وہ ہم کو ستائے جاتے ہیں
وفا کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں ہم بہزاد
کہ دل تو روتا ہے ، ہم مُسکرائے جاتے ہیں
٭٭٭
یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہو جائے
بزم اُس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہو جائے
نا خُدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہو جائے
اس لئے چل کے ہر اک گام پہ رُک جاتا ہوں
تا نہ بےکیف غمِ دُوریء منزل ہو جائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن ہے کبھی تو مجھے حاصل ہو جائے
ہائے اس وقت دلِ زار کا عالم کیا ہو
گر محبت ہی محبت کے مقابل ہو جائے
پھیکا پھیکا ہے مری بزمِ محبت کا چراغ
تم جو آ جاؤ تو کچھ رونقِ محفل ہو جائے
تیری نظریں جو ذرا مجھ پہ کرم فرمائیں
تیری نظروں کی قسم پھر یہی دل دل ہو جائے
ہوش اس کے ہیں ،یہ جام اس کا ہے ، تو ہے اس کا
میکدے میں ترے جو شخص بھی غافل ہو جائے
فتنہ گر شوق سے بہزاد کو کر دے پامال
اس سے تسکینِ دلی گر تجھے حاصل ہو جائے
٭٭٭
کیا بتاؤں کہ مُدعا کیا ہے
خود سمجھ لو کہ ماجرا کیا ہے
آج کی رات کیوں نہیں کٹتی
اے دلِ درد آشنا کیا ہے
خیر میں تو ہوں ان کا دیوانہ
ساری دنیا کو یہ ہوا کیا ہے
تجھ سے ملنے کی ہیں تمنّائیں
اور مجبُور کی دُعا کیا ہے
ان نگاہوں کو پھیرنے والے
یہ بتا دے مری خطا کیا ہے
آج توبہ ہے کس لئے بےچین
آسماں پر یہ سُرمہ سا کیا ہے
گر نہیں کوئی شے بھی جذبِ وفا
پھر یہ مٹنے کا حوصلہ کیا ہے
ہم نے تو اس قدر ہی سمجھا ہے
دہر میں غم کے ماسوا کیا ہے
ایک بُت کی طلب ہے کیوں بہزاد
بول اے بندۂ خدا کیا ہے
٭٭٭
یہ ہے اک نَو شباب کا عالم
جیسے کھلتے گلاب کا عالم
حُسن زیرِ نقاب اُف توبہ
صبح دم آفتاب کا عالم
تم نے کی بھی نگاہِ لُطف تو کیا
کیا گیا اضطراب کا عالم
میرے دامانِ تر سے پوچھ نہ لو
میری چشمِ پُر آب کا عالم
سیلِ اُلفت میں ہے یہ حال مرا
جیسے بہتے حباب کا عالم
تم بھی دیکھو گے ایک دن آ کر
کسی خانہ خراب کا عالم
دیدۂ نیم باز ہے بالکل
نرگسِ نیم خواب کا عالم
اک گہر بار ابر ہے گویا
یہ ہے چشم پُر آب کا عالم
اُس نے الٹی نقاب رُخ جس دم
اک تھا شیخ و شباب کا عالم
اب کسی کو سنائیں کیا بہزاد
اپنے گزرے شباب کا عالم
٭٭٭
اُن کی نادانیاں نہیں جاتیں
میری قربانیاں نہیں جاتیں
میں تو ہنستا ہوں تھام کر دل کو
جب پریشانیاں نہیں جاتیں
جب سے دیکھا ہے آئینہ وش کو
دل کی حیرانیاں نہیں جاتیں
بزمِ جاناں میں تک رہا ہوں نظر
میری نادانیاں نہیں جاتیں
پا رہا ہوں ہر اک طرف اُن کو
ہائے حیرانیاں نہیں جاتیں
ہے معیّن ہر ایک چیز کا وقت
کیوں پریشانیاں نہیں جاتیں
با وفاؤں سے یہ جفا کیسی
میری نادانیاں نہیں جاتیں
ساری دنیا ہے آئینہ ساماں
پھر بھی حیرانیاں نہیں جاتیں
دل نے لاکھوں ستم سہے لیکن
عشق سامانیاں نہیں جاتیں
یوں تو ہرشے میں انقلاب آیا
بس پریشانیاں نہیں جاتیں
ان بُتوں کی جہان میں بہزاد
کفر سامانیاں نہیں جاتیں
٭٭٭
آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے
اُلفت کی اک شراب سی برسا کے چل دیئے
ان کے حجاب میں نہ کوئی بھی کمی ہوئی
میری نگاہِ شوق کو ترسا کے چل دیئے
تقدیر اس کو کہتے ہیں قسمت ہے اس کا نام
تسکین دینے آئے تھے، تڑپا کے چل دیئے
آئے تو تھے کہ درد مٹا دیں گے قلب کا
دیکھا جو حال غیر تو گھبرا کے چل دیئے
آنکھوں میں کچھ حسین سے آنسو بھرے ہوئے
چپکے سے آئے اور مجھے سمجھا کے چل دیئے
ان سے کسی اُمید کا رکھنا فضول ہے
میرے دلِ غریب کو ٹھکرا کے چل دیئے
اوروں کو بھر کے دے دیئے جامِ شرابِ ناب
اور مجھ کو رازِ میکدہ سمجھا کے چل دیئے
جب داستانِ عشق مری ختم ہو گئی
بل کھا کے چل دیئے، کبھی شرما کے چل دیئے
میں نے جو یہ کہا کہ اب آنا تو ہو چکا
بہزاد میرے سر کی قسم کھا کے چل دیئے
٭٭٭
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آ بھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی سکو گے تم
ذرّہ تو لاکھ مرتبہ تم پر کرے نگاہ
ذرّے کو آفتاب بنا بھی سکو گے تم
دنیائے دل حسین بنانے کے واسطے
میری فضائے شوق پہ چھا بھی سکو گے تم
بہزاد اک نگاہِ محبت فریب پر
کل دل کی کائنات لُٹا بھی سکو گے تم
٭٭٭
سر ہے قدموں پہ بے خودی تو دیکھ
اپنے بندے کی بندگی تو دیکھ
بے خبر خود سے، باخبر تجھ سے
بےخودی میں یہ آگہی تو دیکھ
جان دینے کو زندگی سمجھے
عشق والوں کی زندگی تو دیکھ
مد بھری مست انکھڑیوں والے
تیرے قرباں ادھر کبھی تو دیکھ
غم میں مسرور ہوں، الم میں خوش
کیا خوشی ہے مری خوشی تو دیکھ
حال آتا ہے ہر خلش پہ اُسے
دل کی یہ درد پروری تو دیکھ
تیرا بہزاد بھی ہے محوِ نیاز
ناز والے نیاز بھی تو دیکھ
٭٭٭
بہت ہی حسیں ہے تمہارا تصوُّر
نظر آفریں ہے تمہارا تصوُّر
مرے دل کی زینت نگاہوں کی زینت
بھلا کب نہیں ہے، تمہارا تصوُّر
نگاہیں تصوّر کی خیرہ نہ ہوں کیوں
بڑا مہ جبیں ہے تمہارا تصوُّر
مبارک ہو یہ ربط حسن و محبت
ہماری جبیں ہے تمہارا تصوُّر
تمہارا تخیّل ہے ایمان دل کا
نگاہوں کا دیں ہے تمہارا تصوُّر
نگاہوں کا مرکز اگر ہو تو تم ہو
نظر میں مکیں ہے تمہارا تصوُّر
ہے بہزاد کو محویت کس بلا کی
اُسے بالیقیں ہے تمہارا تصوُّر
٭٭٭
کیا یہ بھی میں بتلا دوں ، تُو کون ہے ، میں کیا ہوں
تو جانِ تماشا ہے، میں محوِ تماشا ہوں
تو باعثِ ہستی ہے، میں حاصلِ ہستی ہوں
تو خالقِ اُلفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
جب تک نہ ملا تھا تو اے فتنۂ دو عالم
جب درد سے غافل تھا، اب درد کی دُنیا ہوں
کچھ فرق نہیں تجھ میں اور مجھ میں کوئی لیکن
تو اور کسی کا ہے بیدرد میں تیرا ہوں
مدّت ہوئی کھو بیٹھا سرمایۂ تسکیں میں
اب تو تری فُرقت میں دن رات تڑپتا ہوں
ارمان نہیں کوئی گو دل میں مرے لیکن
اللہ ری مجبوری، مجبور تمنّا ہوں
بہزادِ حزیں مجھ پر اک کیف سا طاری ہے
اب یہ مرا عالم ہے ہنستا ہوں نہ روتا ہوں
٭٭٭
حُسن کی جنّتیں ارے توبہ
عشق کی حیرتیں ارے توبہ
ٹیس اٹھتی ہے مسکراتا ہوں
درد کی لذتیں ارے توبہ
ہائے اس زندگی میں اس دل پر
روز کی آفتیں ارے توبہ
دل پرسانِ حال کوئی نہیں
اس پہ یہ حسرتیں ارے توبہ
عشق کے ساتھ بندگی بھی کروں
اس قدر فرصتیں ارے توبہ
لُٹ رہی ہیں بصورت جلوہ
حسن کی دولتیں ارے توبہ
غم میں بہزاد آپ ہنستے ہیں
آپ کی ہمتیں ارے توبہ
٭٭٭
میں ان کی نظروں میں سمایا ہوا ہوں
فضائے محبت پہ چھایا ہوا ہوں
میں محفل میں اُن کی جو آیا ہوا ہوں
بلایا ہوا ہوں، بلایا ہوا ہوں
لبوں پہ مرے کیوں نہ ہو مسکراہٹ
نظر کا تری گدگدایا ہوا ہوں
میں روکے کسی کے بھلا رک سکوں گا
تصوّر کی رَو کا بہایا ہوا ہوں
قسم یاد کی اور قسم بھولنے کی
میں بھُلا نہیں ہوں بھلایا ہوا ہوں
بھَلا سوؤں گا کس طرح چاند تارو
کہ میں حسرتوں کا جگایا ہوا ہوں
کسی کے میں بہزاد جوروستم کا
بگاڑا ہوا ہوں، بنایا ہوا ہوں
٭٭٭
عالمِ عشقِ حقیقی بھی جُدا ہوتا ہے
جس کو اللہ بنا لو، وہ خُدا ہوتا ہے
ہاں ترے نام پہ میرا تو تڑپنا ہے درست
پر مرے ذکر پہ ظالم تجھے کیا ہوتا ہے
درد کو کیوں نہ کہوں باعثِ تسکیں ہے یہی
درد کو درد سمجھنے سے بھی کیا ہوتا ہے
یہ تصور کا کام ہے کہ عنایت تیری!
تو ہر اک گام پہ کیوں جلوہ نما ہوتا ہے
میں سمجھتا ہوں کہ دُنیا ہے مرے زیرِ نگیں
جب مرا سر ترے قدموں پہ جھکا ہوتا ہے
میں یہ کہتا ہوں کہ مرنے کی تمنّا نہ کروں
دل یہ کہتا ہے کہ مر جانے سے کیا ہوتا ہے
مجھ کو شکوہ نہیں کچھ کش مکشِ ہستی سے
کوئی ہو بات گلے کی تو گِلا ہوتا ہے
جن کی تقدیر ہے اچھی انہیں وہ ملتے ہیں
خوش نصیبوں ہی کا نالہ بھی رسا ہوتا ہے
جو ترے واسطے جیتے ہیں انہیں کا ہے نصیب
گو ترے واسطے مرنا بھی بھلا ہوتا ہے
دعوتِ جوروستم اس لئے دی ہے بہزاد
درد کو درد بتانے میں مزا ہوتا ہے
٭٭٭
دُنیا سے مجھے مطلب ؟اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مری تم ہو، تم سے مری دنیا ہے
بیکار ہے ہر حسرت ، بےسود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلا دوں، تو کون ہے، تو کیا ہے
ہاں دیں ہے تو ہی میرا ، تو ہی مری دنیا ہے
اللہ رے رعنائی اس جلوۂ کامل کی
دل محوِ تماشا تھا، دل محوِ تماشا ہے
دنیائے محبت سے میں کس لئے گھبراؤں
دنیائے محبت میں مرنا ہے نہ جینا ہے
کچھ رحم کرو اس پر، کچھ کھاؤ ترس اس پر
دل کو نہ مرے چھیڑو، دل عشق کا مارا ہے
آغاز بھی اچھا تھا، انجام بھی بہتر ہے
جب مجھ کو امیدیں تھیں اب دل کو سہارا ہے
چلتی ہے بہرصورت دریا میں مری کشتی
ہر موج ہے اک طوفاں، ہر موج کنارا ہے
کس واسطے شرمندہ ہوتے ہو بھلا آخر
بہزاد تو بیچارا تقدیر کا مارا ہے
٭٭٭
اک بے وفا کو پیار کیا، ہائے کیا کیا
خود دل کو بیقرار کیا، ہائے کیا کیا
معلوم تھا کہ عہدِ وفا ان کا جھوٹ ہے
اس پر بھی اعتبار کیا، ہائے کیا کیا
وہ دل کہ جس پہ قیمتِ کونین تھی نثار
نذرِ نگاہِ یار کیا، ہائے کیا کیا
خود ہم نے فاش فاش کیا رازِ عاشقی
دامن کو تار تار کیا، ہائے کیا کیا
آہیں بھی بار بار بھریں ان کے ہجر میں
نالہ بھی بار بار کیا، ہائے کیا کیا
مٹنے کا غم نہیں ہے بس اتنا ملال ہے
کیوں تیرا انتظار کیا ،ہائے کیا کیا
ہم نے تو غم کو سینے سے اپنے لگا لیا
غم نے ہمیں شکار کیا، ہائے کیا کیا
صیّاد کی رضا یہ ہم آنسو نہ پی سکے
عذرِ غمِ بہار کیا ، ہائے کیا کیا
قسمت نے آہ ہم کو یہ دن بھی دکھا دیئے
قسمت پہ اعتبار کیا، ہائے کیا کیا
رنگینیِ خیال سے کچھ بھی نہ بچ سکا
ہر شے کو پُر بہار کیا، ہائے کیا کیا
دل نے بھلا بھلا کے تری بیوفائیاں
پھر عہد استوار کیا، ہائے کیا کیا
ان کے ستم بھی سہہ کے نہ ان سے کیا گلہ
کیوں جبر اختیار کیا، ہائے کیا کیا
کافر کی چشمِ ناز پہ کیا دلِ جگر کا ذکر
ایمان تک نثار کیا، ہائے کیا کیا
کالی گھٹا کے اُٹھتے ہی توبہ نہ رہ سکی
توبہ پہ اعتبار کیا، ہائے کیا کیا
شامِ فراق قلب کے داغوں کو گِن لیا
تاروں کو بھی شمار کیا، ہائے کیا کیا
بہزاد کی نہ قدر کوئی تم کو ہو سکی
تم نے ذلیل و خوار کیا، ہائے کیا کیا
٭٭٭
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آ بھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی سکو گے تم
ذرّہ تو لاکھ مرتبہ تم پر کرے نگاہ
ذرّے کو آفتاب بنا بھی سکو گے تم
دنیائے دل حسین بنانے کے واسطے
میری فضائے شوق پہ چھا بھی سکو گے تم
بہزاد اک نگاہِ محبت فریب پر
کل دل کی کائنات لُٹا بھی سکو گے تم
٭٭٭
تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں
میں نے بھریں جو آہیں، چلنے لگیں ہوائیں
اُلفت کا جب مزا ہے، ملنے کی ہوں دعائیں
تم ہم کو یاد آؤ، ہم تم کو یاد آئیں
تم خوش ہو گر اسی میں ہم پر رہیں بلائیں
ہم بھی ہیں خوش اسی میں ہاں ہاں کرو جفائیں
جاؤ خدا نگہباں الٹی چلیں ہوائیں
تم ہم کو بھول جاؤ، ہم تم کو بھول جائیں
اک جُرم عاشقی پر اور اس قدر سزائیں
یہ کیا ستم ہے آخر اک جان سو بلائیں
پیشِ نگاہ تم ہو بجلی ہیں یا ادائیں
دل سے نکل رہی ہیں، بیساختہ دُعائیں
مجبوریِ محبت اللہ تجھ سے سمجھے
ان کے ستم بھی سہہ کر دینا پڑیں دعائیں
اک وار میں کئے ہیں قلب و جگر کے ٹکڑے
او مستِ حُسن آ جا لے لوں تری بلائیں
تم ہم کو بھول جاؤ، یہ حُسن کا ہے شیوہ
امکان میں نہیں ہے ہم تم کو بھول جائیں
آخر ستم یہ کیا ہے، انصاف کوئی شے ہے
ہم بےکسی سے روئیں، سرکار مسکرائیں
بہزاد مُبتلا تو چپ چاپ ہی کھڑا تھا
دُنیا سمجھ رہی تھی آنکھوں کی التجائیں
٭٭٭
حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا
تجھ کو خدا بنا دیا، بندہ مجھے بنا دیا
اب یہ کمالِ کفر ہو یا کہ کمالِ دین ہو
آپ کے پائے ناز پر میں نے تو سر جھکا دیا
دل کی خلش کو کیا کہوں، دل بھی عجیب چیز ہے
اس کو میں کر رہا ہوں یاد، جس نے مجھے بھُلا دیا
یہ مرا اضطرابِ عشق یعنی یہی شبابِ عشق
یہ تو دیا نصیب نے، تیری نظر نے کیا دیا
حُسنِ نظر نواز نے، حُسنِ کرشمہ ساز نے
پردہ کبھی اُٹھا دیا، پردہ کبھی گِرا دیا
میری تباہیوں میں ہے رازِ حیات دائمی
میری تباہیاں نہ دیکھ، تو نے پھر آسرا دیا
یاس میں زحمتیں سہی، یاس سے مطمئن تھا میں
دیکھ نگاہِ التفات تو نے پھر آسرا دیا
اصل میں دونوں ایک تھے پھر بھی مرے نصیب نے
دل بھی مجھے جدا دیا، غم بھی مجھے جدا دیا
ہم نے لٹا لٹا دیا اپنا متاعِ عاشقی
جب بھی نگاہِ حُسن نے عشق کا واسطہ دیا
٭٭٭
لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں
کر ڈالے زمانہ میں مسلمان ہزاروں
اس غم کا برا ہو کہ زمانے میں ابھی تک
پھرتے ہیں ترے غم کے پریشان ہزاروں
اے جانِ بہاراں تجھے معلوم نہیں ہے
تیرے لئے پُرزے ہیں گریبان ہزاروں
اعجازِ محبت تو کوئی دیکھ لے آ کر
ہیں میرے دلِ تنگ میں ارمان ہزاروں
کیا بات ہے اے چشمِ حسیں تیری جہاں میں
اک تیرِ نظر سے ہوئے بے جان ہزاروں
غنچے بھی ہیں اس دہر میں کانٹے بھی ہیں گل بھی
ہاں دل کے بہلنے کو ہیں سامان ہزاروں
اب تو کسی طوفاں کا مجھے خوف نہیں ہے
آئے ہیں مری زیست میں طوفان ہزاروں
پھر اس سے ہی کرتا ہوں میں پیمانِ محبت
جس نے کہ شکستہ کئے پیمان ہزاروں
اس کی نگہ ناز کا ادنیٰ سا کرم ہے
بہزاد مرے دل میں ہیں ارمان ہزاروں
٭٭٭
دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
اب تیرا کفر ہی مرا ایماں ہے کیا کروں
باہوش ہوں مگر مرا دامن ہے چاک چاک
عالم یہ دیکھ دیکھ کے حیراں ہے کیا کروں
ہر طرح کا سکون ہے ہر طرح کا ہے کیف
پھر بھی یہ میرا قلب پریشاں ہے کیا کروں
کہتا نہیں ہوں اور زمانہ ہے باخبر
چہرے سے دل کا حال نمایاں ہے کیا کروں
دامن کروں نہ چاک یہ ممکن تو ہے مگر
مضطر ہر ایک تارِ گریباں ہے کیا کروں
سادہ سا اک ورق ہوں کتابِ حیات کا
حسرت ہے اب نہ اب کوئی ارماں ہے کیا کروں
ہر سمت پا رہا ہوں وہی رنگِ دلفریب
ہاتھوں میں کفر کے مرا ایماں ہے کیا کروں
داغوں کا قلبِ زار کے ممکن تو ہے علاج
ان کے ہی دم سے دل میں چراغاں ہے کیا کروں
اک بے وفا کے واسطے سب کچھ لُٹا دیا
بہزاد اب نہ دیں ہے نہ ایماں ہے کیا کروں
٭٭٭
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
طبیعت کو افسردہ سا پا رہا ہوں
اِدھر جا رہا ہوں، اُدھر جا رہا ہوں
وہ باتیں نہیں ہیں، وہ ہنسنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
خدا جانے یہ مجھ کو کیا ہو گیا ہے
یہ محسوس کرتا ہوں کچھ کھو گیا ہے
مجھے ہوش تک ہائے اپنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
یہ آنکھوں میں کیوں اشک سے آرہے ہیں
لبِ پُر شکن کیوں یہ تھرّا رہے ہیں
ارے توبہ یہ میرا منشا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
جو ہونا تھی وہ ہو چکی میری خواری
اب آؤ نہ آؤ یہ مرضی تمہاری
مرا تم سے کوئی تقاضا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
کرے تم سے بہزاد کیا اب شکایت
بُرا ہے مقدر بُری ہے یہ قسمت
یہ کیا ہے جو قسمت کا لکھا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
٭٭٭
چاند سے دو دو باتیں
ارے اے چاند! اے چرخِ بریں کی زیب و زیبائی
بھلا یہ تو بتا پائی کہاں سے تو نے رعنائی
تری رعنائیاں ملتی ہیں روئے جاناں سے
نہ پوچھ اب کفر سامانی کی باتیں میرے ایماں سے
تری رفتار کچھ کچھ مل رہی ہے چال سے اُن کی
اسی سے سارے عالم پہ ہے گویا بیخودی چھائی
فلک کے چاند، میں نے بھی زمیں کا چاند دیکھا ہے
اور اس کے بعد سے سارے جہاں کو ماند دیکھا ہے
خدا شاہد ہے جس دن چودھویں کی رات ہوتی تھی
تو میری زندگانی میں نئی اک بات ہوتی تھی
کہ وہ مستِ شباب آتا تھا سرکائے نقاب اپنی
زمانہ بھر پہ پھیلاتا تھا تنویرِ شباب اپنی
میں اس کو دیکھ کر سارا زمانہ بھول جاتا تھا
زمانہ کیسا، خود اپنا فسانہ بھول جاتا تھا
نگاہیں جذب ہو جاتی تھیں میری روئے جاناں میں
میں اک بالیدگی محسوس کرتا تھا رگِ جاں میں
مرا دردیست اندر دل کہ گر گویم زباں سوزد
وگردم درکشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد
٭٭٭
محبت کی دنیا میں آؤ تو جانیں
ذرا دل کسی سے لگاؤ تو جانیں
محبت میں تم کو بھی ہنسنا مبارک
ذرا اب نہ آنسو بہاؤ تو جانیں
تمہاری نظر درد سے آشنا ہے
نظر سے نظر کو ملاؤ تو جانیں
یہ محشر ہے محشر، یہ دنیا نہیں ہے
یہاں بھی کوئی حشر اُٹھاؤ تو جانیں
تمہاری بھی آنکھوں میں آنسو بھرے ہیں
اس عالم میں بھی مسکراؤ تو جانیں
رسا ہو چکی ہے مری آہِ سوزاں
نہ آؤ، نہ آؤ، نہ آؤ تو جانیں
ادائے سجودِ محبت ہے مشکل
ہر اک گام پر سر جھکاؤ تو جانیں
یہ وہ پھول ہے جس پہ کانٹے بہت ہیں
زمانہ سے دامن بچاؤ تو جانیں
یہ مانا کہ بہزاد سے تم خفا ہو
نہ بہزاد کو یاد آؤ تو جانیں
٭٭٭
میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگِ محبت کوئی خاموش نہیں
میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں
تو نہیں ہے نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں
رہ گیا ہوں ترے جلوؤں میں جو میں گم ہو کر
ہائے دنیا یہ سمجھتی ہے مجھے ہوش نہیں
درِ جاناں پہ مجھے کرنے دے سجدے زاہد
ہاں مجھے ہوش نہیں، ہوش نہیں ، ہوش نہیں
آ گئے ہیں ترے جلوے جو مقابل میرے
میں تومیں ہوں، مری نظروں کو بھی کچھ ہوش نہیں
چاک دامن کو مرے دیکھ کے حیراں کیوں ہو
ہوش کی بات تو یہ ہے کہ مجھے ہوش نہیں
جانِ صد ہوش تھی شاید کہ مری بےہوشی
ہوش آیا ہے تو کہتا ہوں مجھے ہوش نہیں
ہائے بہزاد یہ عالم نہ سمجھ میں آیا
اب مجھے ہوش جو آیا تو انہیں ہوش نہیں
٭٭٭
تم کیفیت نہ ڈھونڈو میرے دل و جگر میں
نظروں سے پوچھ لو نا کیا ہے مری نظر میں
کیا ہیں نئی ادائیں اس چشمِ فتنہ گر میں
رعنائیاں ہیں لاکھوں خود عشق کی نظر میں
دو اشک میں گرا کر خاموش ہو گیا ہوں
افسانہ کہہ رہا ہوں الفاظِ مختصر میں
ان کا کرم تو دیکھو ان کی عطا تودیکھو
مجھ میں سما گئے ہیں آکر مری نظر میں
ہم نے سکون کھویا، ہم نے سکون پایا
سو انقلاب آئے اک جنبشِ نظر میں
اللہ میرے دل میں ہلچل سی مچ رہی ہے
یہ کیا لکھا ہوا ہے روئے پیامبر میں
میری ہی طرح اس کو مجبورِ قلت سمجھو
جو بھی کہ بیٹھ جائے گھبرا کے رہگذر میں
تاروں کو ہے شکایت، ہے ماہ کو بھی شکوہ
شب کا نہ ذکر آیا افسانہ سحر میں
تم خود مجھے بتا دو اب اس سے کیا میں پوچھوں
تم تو نہ جانے کیا ہو بہزاد کی نظر میں
٭٭٭
وقفِ مجاز
ناز والے یہ ناز رہنے دے
غم کی دنیا کو راز رہنے دے
مطربِ خوش گلو ترے صدقے
نغمۂ دل گداز رہنے دے
وہ اُٹھیں پھر گھٹائیں، اے ساقی
میکدہ آج باز رہنے دے
تو حقیقت تلاش کر زاہد
مجھ کو وقفِ مجاز رہنے دے
ناز کا لطف بخشنے والے
مجھ کو محوِ نیاز رہنے دے
مجھ کو سمجھا نہ واعظِ ناداں
یہ نشیب و فراز رہنے دے
محو آئینہ بن کے وہ بہزاد
ذکر آئینہ ساز رہنے دے
٭٭٭
حُسنِ جلوہ
وہ ہر جانب نظر فرما رہے ہیں
جو ملتا ہے اُسے تڑپا رہے ہیں
ہمیں پر ہے نوازش کی نظر بھی
ہمیں کو ٹھوکریں کھلوا رہے ہیں
تمہیں یہ مستقل پردہ نشینی
نگاہ شوق کو ترسا رہے ہیں
مری دنیا سے ان کو واسطہ کیا
مری دنیا پہ وہ کیوں چھا رہے ہیں
اب اس پر بھی یقیں مجھ کو نہ آئے
مرے سر کی قسم وہ کھا رہے ہیں
سمجھنا پڑ رہا ہے ہم کو سب کچھ
ہمیں بہزاد وہ سمجھا رہے ہیں
٭٭٭
آنکھ میں اشک ہیں ضرور اشک مگر بہائے کون
دل کی لگی ہی خوب ہے، دل کی لگی بجھائے کون
حیرتِ غم کا جوش ہے، میری زباں خموش ہے
میرا پتہ تو تو بتا، تیرا پتہ بتائے کون
کٹنے دو ایک رنگ میں میرا نیاز عاشقی
غم میں ہنسو تو بات ہے، عیش میں مسکرائے کون
کرنے بھی دو انہیں حجاب، گرنے بھی دو ذرا نقاب
یہ تو نظر کا کام ہے، رنگِ نظر چھپائے کون
چھائی سب پہ بےخودی، عام رنگِ بندگی
اپنے سرِ نیاز کو در سے ترے اُٹھائے کون
تیری ہی جب نظر نہیں، اپنی اسے خبر نہیں
تیرے خراب ہوش کو ہوش میں آج لائے کون
حسن کی تو یہاں وہاں لُٹ چکیں سب تجلیاں
اب تری جلوہ گاہ سے اپنی نظر اُٹھائے کون
٭٭٭
محفلِ خیال
حال یہ ہے عجیب حال میں ہوں
آج کل آپ کے خیال میں ہوں
کیا خبر مجھ کو کون حال میں ہوں
لوگ کہتے ہیں، وبال میں ہوں
اب ہے تنہائیوں میں یہ عالم
جیسے میں محفلِ خیال میں ہوں
اللہ اللہ ملال کی لذّت
یہ خوشی ہے کہ میں ملال میں ہوں
وحشتوں میں ہیں آج کون و مکاں
آج میں وقفِ عرض حال میں ہوں
مجھ کو اپنی خبر کہاں ساقی
مست رنگینیِ خیال میں ہوں
آج اُن کا خیال ہے بہزاد
آج میں مست ہر خیال میں ہوں
٭٭٭
تبسّم نو بہ نو
مری حسرتیں اب کہاں ہنس رہی ہیں
مرے غم کی خود داریاں ہنس رہی ہیں
ترے ہر کرم پر، ترے ہر ستم پر
جنوں کی وفا کاریاں ہنس رہی ہیں
تجھے دیکھ کر اب تمنّائیں میری
جہاں رو رہی تھیں، وہاں ہنس رہی ہیں
ترے آج اس زہد و تقوے پہ زاہد
مری یہ گنہ گاریاں ہنس رہی ہیں
ترے حسنِ فانی پہ محوِ جوانی؟
نگاہیں بھی بن کر جواں ہنس رہی ہیں
تری مسکراہٹ پہ جانِ تبسّم
مرے دل کی غم خواریاں ہنس رہی ہیں
جو غمگیں تمنّائیں بہزاد کی تھیں
تجھے دیکھ کر ناگہاں ہنس رہی ہیں
٭٭٭
میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگِ محبت کوئی خاموش نہیں
میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں
تو نہیں ہے نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں
رہ گیا ہوں ترے جلوؤں میں جو میں گم ہو کر
ہائے دنیا یہ سمجھتی ہے مجھے ہوش نہیں
درِ جاناں پہ مجھے کرنے دے سجدے زاہد
ہاں مجھے ہوش نہیں، ہوش نہیں ، ہوش نہیں
آ گئے ہیں ترے جلوے جو مقابل میرے
میں تومیں ہوں، مری نظروں کو بھی کچھ ہوش نہیں
چاک دامن کو مرے دیکھ کے حیراں کیوں ہو
ہوش کی بات تو یہ ہے کہ مجھے ہوش نہیں
جانِ صد ہوش تھی شاید کہ مری بےہوشی
ہوش آیا ہے تو کہتا ہوں مجھے ہوش نہیں
ہائے بہزاد یہ عالم نہ سمجھ میں آیا
اب مجھے ہوش جو آیا تو انہیں ہوش نہیں
٭٭٭
بے پردہ جو وہ روئے پُر نور نظر آیا
اللہ رے عکسِ رخِ دل، طور نظر آیا
جب بھی مرے ساقی نے لبریز کیا ساغر
میخانہ کا ہر ذرّہ مخمور نظر آیا
ہر گام پہ سجدہ کرتا نہ تو کیا کرتا
دل عشق کے ہاتھوں مجبور نظر آیا
ساقی کی نگاہوں میں مستی تھی قیامت کی
جو پی نہ سکا وہ بھی مخمور نظر آیا
کچھ دن ہی گذرنے پر اس حادثۂ غم کے
ہر زخم مرے دل کا ناسور نظر آیا
میں نے بھی گریباں کو رہنے نہ دیا سالم
جب یہ بھی زمانہ کا دستور نظر آیا
بیہوش نہ کیوں ہوتا ہر گام پہ میں چل کر
مجھ کو تو ہر اک ذرّہ اک طور نظر آیا
اللہ ری رنگینی اس جلوۂ کامل کی
ہر شے میں وہی جلوہ مستور نظر آیا
اس نے جو نقابِ رُخ الٹی سرِ بزم آ کر
بہزاد فضاؤں میں اک نور نظر آیا
٭٭٭
کرم چاہتا ہوں، عطا چاہتا ہوں
دلِ عشق کا مدعا چاہتا ہوں
ستم کرنے والے جفا کرنے والے
وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں
وہی درد تیرا جو ہے جانِ ہستی
اسی درد کی اب دوا چاہتا ہوں
محبت کی دُنیا کو سارے جہاں سے
الگ چاہتا ہوں، جدا چاہتا ہوں
تجھے جو بھی دینا ہو دے دے خدارا
مجھے کیا خبر ہے، میں کیا چاہتا ہوں
میں گھبرا چکا ہوں، ستم سہتے سہتے
نگاہِ کرم آشنا چاہتا ہوں
مسرت کے طالب اور ہوں گے
کہ میں تو غمِ لادوا چاہتا ہوں
جبینِ عقیدت ہے بیتاب میری
ہر اک گام پر نقشِ پا چاہتا ہوں
میں بہزاد ہوں بیخودِ دردِ ہستی
کوئی یہ بتا دے، میں کیا چاہتا ہوں
٭٭٭
تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے
یہ کفر بڑھتے بڑھتے ایمان ہو نہ جائے
اللہ ری بے نقابی اس جانِ مدّعا کی
میری نگاہِ حسرت حیران ہو نہ جائے
میری طرف نہ دیکھو، اپنی نظر کو روکو
دُنیائے عاشقی میں ہیجان ہو نہ جائے
پلکوں پہ رُک گیا ہے آ کر جو ایک آنسو
یہ قطرہ بڑھتے بڑھتے طوفان ہو نہ جائے
حدِّ ستم تو ہے بھی حدِّ وفا نہیں ہے
ظالم ترا ستم بھی احسان ہو نہ جائے
ہوتی نہیں ہے وقعت ہوتی نہیں ہے عزت
جب تک کہ کوئی انساں انسان ہو نہ جائے
اس وقت تک مکمل ہوتا نہیں ہے کوئی
جب تک کہ خود کو اپنی پہچان ہو نہ جائے
بہزاد اس لئے میں کہتا نہیں ہوں دل کی
ڈرتا ہوں سُن کے دُنیا حیران ہو نہ جائے
٭٭٭
خود سے خیال میں جو وہ جانِ خیال آ گیا
قلب کو وجد آ گیا، روح کو حال آ گیا
کچھ ملے یا نہ کچھ ملے، یہ تو نصیب کی ہے بات
دستِ گدا نواز تک دستِ سوال آ گیا
ہائے نہ مٹ سکیں کبھی قلب کی بیقراریاں
جب بھی کوئی نظر پڑا تیرا خیال آ گیا
تیرے کرم کی خیر ہو، تیری عطا کی خیر ہو
تجھ سے سوال جب کیا، لطفِ سوال آ گیا
مجھ سے نظر ملا کے آہ مجھ سے نظر پھرائی کیوں
دل میں یہ بات لگ گئی شیشہ میں بال آ گیا
عشق کی بارگاہ میں بے اَدَبی کلام کیا
میری نظر کے سامنے کس کا جمال آ گیا
اپنے خیال پر تو آہ اشک کبھی بہے نہیں
آج دلِ حزیں تجھے کس کا خیال آ گیا
نکلا ہے کوئی گھر سے آج لے کے متاعِ ناز و حُسن
دستِ طلب دراز ہو وقتِ سوال آ گیا
دل کا معاملہ کبھی دل سے نہ محو ہو سکا
میں نے بھری اک آہِ سرد، جب بھی خیال آ گیا
٭٭٭
آنکھوں میں اشکِ غم جو مرے پا رہے ہو تم
اللہ جانتا ہے کہ یاد آرہے ہو تم
کہنے بھی دو سکوں سے مجھے داستانِ غم
یہ کیا کہ بات بات پہ شرما رہے ہو تم
ہاں ہاں وفا کرو گے یہ مجھ کو یقین ہے
بےکار میرے سر کی قسم کھا رہے ہو تم
یا خود ہی بڑھ گئی ہے یہ تابانیِ جہاں
یا گوشۂ نقاب کو سرکا رہے ہو تم
اپنی جفا ہے یا کہ ہیں میری تباہیاں
کیا یاد آ گیا ہے جو گھبرا رہے ہو تم
کچھ سوچ، کچھ ملال ہے، کچھ غم ہے، کچھ الم
خاموش سرجھکائے ہوئے آرہے ہو تم
حیرت میں کیوں ہو تم مرے سجدوں کو دیکھ کر
مجھ کو تو ہاں کچھ اور نظر آرہے ہو تم
یہ دل وہ ہے کہ جس پہ تصدق ہے کائنات
اللہ ایسی چیز کو ٹھکرا رہے ہو تم
ڈوبی ہوئی نظر ہے جہانِ سرور میں
اللہ رے شباب کہ بل کھا رہے ہو تم
میری گذارشوں کا تمہیں کب یقین تھا
کس حال میں بتاؤ مجھے پا رہے ہو تم
سمجھوں نہ سمجھوں اس سے تو کوئی غرض نہیں
پر یہ سمجھ رہا ہوں کہ سمجھا رہے ہو تم
شانِ کرم پہ کیوں نہ تصدق ہوں بار بار
جس جا میں ہوں وہیں پہ نظر آرہے ہو تم
نظریں ملا رہے ہو زمانہ کے سامنے
کچھ تو کرو خیال غضب ڈھا رہے ہو تم
تم سے نہ نبھ سکے گا یہ پیمانِ عاشقی
پھر درمیاں میں بات وہی لا رہے ہو تم
دل سے لگا چکا ہوں تمہارے خیال کو
ہاں اب مری نظر سے گرے جا رہے ہو تم
میری طرف کو دیکھ کے ہنستے ہو کس لیئے
جو آگ بجھ چکی ہے وہ بھڑکا رہے ہو تم
لطف و کرم کے بعد یہ کیسا عتاب ہے
اپنی جگہ سے آپ ہٹے جا رہے ہو تم
دیر و حرم کی حد تو کبھی کی گذر چکی
بہزاد اب کدھر کو بہے جا رہے ہو تم
٭٭٭
آنکھ میں اشک ہیں ضرور اشک مگر بہائے کون
دل کی لگی ہی خوب ہے، دل کی لگی بجھائے کون
حیرتِ غم کا جوش ہے، میری زباں خموش ہے
میرا پتہ تو تو بتا، تیرا پتہ بتائے کون
کٹنے دو ایک رنگ میں میرا نیاز عاشقی
غم میں ہنسو تو بات ہے، عیش میں مسکرائے کون
کرنے بھی دو انہیں حجاب، گرنے بھی دو ذرا نقاب
یہ تو نظر کا کام ہے، رنگِ نظر چھپائے کون
چھائی سب پہ بےخودی، عام رنگِ بندگی
اپنے سرِ نیاز کو در سے ترے اُٹھائے کون
تیری ہی جب نظر نہیں، اپنی اسے خبر نہیں
تیرے خراب ہوش کو ہوش میں آج لائے کون
حسن کی تو یہاں وہاں لُٹ چکیں سب تجلیاں
اب تری جلوہ گاہ سے اپنی نظر اُٹھائے کون
٭٭٭
ذرّوں کا پرستار ہوں ذروں پہ جبیں ہے
میرے لئے کعبہ ترے کوچے کی زمیں ہے
اب دوسرے عالم میں مرا قلبِ حزیں ہے
میرے لئے دُنیا میں نہ دُنیا ہے نہ دیں ہے
جس جا کہ میں رہتا ہوں، وہاں کچھ بھی نہیں ہے
تم ہو نہ تو میں ہوں، نہ فلک ہے نہ زمیں ہے
آغازِ محبت تو بڑا قلبِ نشیں ہے
انجامِ محبت کی خبر مجھ کو نہیں ہے
یہ فیضِ محبت ہے، محبت کے تصدّق
میں اور کہیں ہوں، مرا دل اور کہیں ہے
دل کو نہ یقین آئے تو میں کیا کروں اس کو
مجھ کو تو ستمگر ترے وعدے کا یقیں ہے
یہ چاک گریباں ہے محبت میں ضروری
جس میں نہ ہو وحشت وہ محبت ہی نہیں ہے
میں مستِ تخیل ہوں، تخیل کا تصدّق
دُنیائے تخیل کا ہر اک ذرہ حسیں ہے
ہر چیز پہ پڑتی ہیں مری مست نگاہیں
ہر چیز زمانے کی محبت میں حسیں ہے
تو مرکز صد عیش ہے، میں مرکز صد محن
شاید مری دُنیا تری دُنیا سے حسیں ہے
بہزاد کا ایمان ہے، تو اور ترا جلوہ
یہ مست نگاہی تری بہزاد کا دیں ہے
٭٭٭
ستمگر نے کیا خوب دادِ وفا دی
تبسّم کیا اور بجلی گرا دی
کبھی آنکھ پھیری، کبھی دل کو توڑا
کبھی یہ سزا دی، کبھی وہ سزا دی
محبت بنی ہے جوابِ محبت
فلک رو دیا اور زمیں مُسکرا دی
ذرا یہ بتا دو کہ کیا چاہتے ہو
ہماری نظر سے نظر کیوں ملا دی
محبت کے مالک میں قربان تیرے
مری زندگانی مٹا کر بنا دی
وفا اس کو کہتے ہیں کیا دہر والے
کیا اس نے جب ظلم میں نے دعا دی
نگاہِ محبت کے قربان جاؤں
مجھے تو نئی ایک دنیا دکھا دی
نقاب ان کے رُخ سے جو محفل میں اُٹھی
مری ہر نظر نے کسی کو دعا دی
مجھے لے چلا جبکہ صیّاد میرا
نشیمن کے تنکوں نے مجھ کو صدا دی
محبت تو ہے مجھ کو ہر شے سے لیکن
تمہاری محبت نے دُنیا بھلا دی
محبت نے بہزاد جب مجھ کو تاکا
مری موت پر زندگی مُسکرا دی
٭٭٭
اک بیوفا کو درد کا درماں بنا لیا
ہم نے تو آہ کفر کو ایماں بنا لیا
دل کی خلش پسندیاں اللہ کی پناہ
تیرِ نظر کو جانِ رگِ جاں بنا لیا
مجھ کو خبر نہیں مرے دل کو خبر نہیں
کس کی نظر نے بندہ احساں بنا لیا
محسوس کرکے ہم نے محبت کا ہر الم
خوابِ سبک کو خوابِ پریشاں بنا لیا
دستِ جنوں کی عقدہ کشائی تو دیکھئے
دامن کو بےنیازِ گریباں بنا لیا
تسکینِ دل کی ہم نے بھی پرواہ چھوڑ دی
ہر موجِ غم کو حاصلِ طوفاں بنا لیا
جب ان کا نام آ گیا ہم مضطرب ہوئے
آہوں کو اپنی زیست کا عنواں بنا لیا
اللہ ری نماز کہ اپنے خیال میں
سجدے کو کعبۂ درِ جاناں بنا لیا
آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہ تھی کوئی
اپنے کو خود ہی آپ نے حیراں بنا لیا
اک بیوفا پہ کرکے تصدق دل و جگر
بہزاد ہم نے خود کو پریشاں بنا لیا
٭٭٭
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنادے
یہ ذوقِ وفا کا مجھے تیرا نہ بنادے
یہ ترا ستم ہی تجھے میرا نہ بنادے
اے دیکھنے والو! مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
آزاد طلب اک ذرا ہشیار ہی رہنا
مجبور کہیں عشق کی دنیا نہ بنادے
میرے لبِ خاموش کو ہے پاس وفا کا
چاہے تو ہر اک لفظ کو افسانہ بنادے
آغاز کی دنیا ہے نہ انجام کی دنیا
اے شمع حقیقی مجھے پروانہ بنادے
بیتابِ پرستش ہے جبیں پُرز عقیدت
سجدوں سے کہیں نقشِ کفِ پا نہ بنادے
میں دل سے پپیہے تیری آواز کے صدقے
دو لفظوں میں مرا بھی اک افسانہ بنادے
او کافرِ الفت یہ تری نیم نگاہی
دنیا کو تماشا ہی تماشا نہ بنادے
کچھ مجھ سے نہ پوچھو مرا عالم ہی جُدا ہے
وہ کیا کہے جس کو کوئی دیوانہ بنادے
وہ کفر مجھے دے ترے ایمان کے صدقے
جو کعبہ کو بھی حاصل بت خانہ بنادے
یہ اس کا کرم ہے کہ مرے ہوش ہیں باقی
وہ چاہے تو اک آن میں دیوانہ بنادے
اے جذبِ دلی اشکوں میں کیوں رنگ نہیں ہے
افسانہ کے لفظوں کو بھی افسانہ بنادے
ساقی نگہ مست سے سو داغ دیئے جا
اس قلب کو پیمانہ بہ پیمانہ بنادے
ان آنکھوں میں مستی بھی ہے، جادو بھی، ادا بھی
ان آنکھوں سے کل دہر کو دیوانہ بنادے
میں ڈھونڈ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنادے
بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدۂ مستی
ہر ذرّے کو سنگِ درِ جانانہ بنادے
٭٭٭
سن اے بےخبر نوحہ خوانِ محبت
محبت ہے خود امتحانِ محبت
مری بےزبانی، زبانِ محبت
مری بےشانی، نشانِ محبت
جو آنسو نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
بڑھی میری اشکوں سے شانِ محبت
محبت کی منزل تو دو ہی قدم ہے
چلا جا پسِ کاروانِ محبت
ستم سہتے سہتے اب اکتا چکا ہوں
کرم کیجئے، مہربانِ محبت
تمہارے لئے ہاں تمہاری بدولت
مٹا جا رہا ہے جہانِ محبت
گذر جائے گا یہ محبت کا طوفاں
نہ گھبرا ارے سرگرانِ محبت
متاعِ دو عالم کو آنکھوں میں لے کر
چلا ہوں پئے امتحانِ محبت
میں بہزاد کرتا ہوں سجدے اسی کو
سمجھتا ہوں جس کو بھی جانِ محبت
٭٭٭
ساقیا ہاں شراب رہنے دے
میری مٹی خراب رہنے دے
صاف ظالم جواب رہنے دے
مجھ پر اک کیفِ خواب رہنے دے
ساقیا جام پر دیئے جا جام
یہ حساب و کتاب رہنے دے
مجھ میں تجھ میں رہے تو کچھ تفریق
اپنے رُخ پر نقاب رہنے دے
میری ناکامیاں ہیں کیف سے پُر
مجھ کو ناکامیاب رہنے دے
دین و دنیا لٹا کے آیا ہوں
دین و دنیا خراب رہنے دے
اب تو قدموں پہ جھک گیا مرا سر
اب تو یہ پیچ و تاب رہنے دے
میرے دل کی بساط کچھ بھی نہیں
نگہ انتخاب رہنے دے
او بلا نوشِ میکدہ بہزاد
کوئی جامِ شراب رہنے دے
٭٭٭
نظر سے نظر کو ملانے چلا ہوں
محبت کی پھر چوٹ کھانے چلا ہوں
الم سے مرا قلب خوں ہوچکا ہے
اس عالم میں بھی مسکرانے چلا ہوں
نقوشِ کفِ پا کی اللہ ری عظمت
ہر اک گام پر سر جھکانے چلا ہوں
پریشان و مجبور و بیتاب و گریاں
محبت کا عالم دکھانے چلا ہوں
خدا جانے کیوں آج پھر اس طرف کو
نہ کھونے چلا ہوں نہ پانے چلا ہوں
چلا ہوں بتانے انہیں رازِ اُلفت
خلش اپنے دل کی مٹانے چلا ہوں
سلامت سلامت مرا جوشِ وحشت
گریباں کو دامن بتانے چلا ہوں
بھٹکتے بھٹکتے ملیں اور راہیں
میں رہبر کو بھی رہ دکھانے چلا ہوں
کچھ ان کے بھی دل میں ہے یا کچھ نہیں ہے
میں بہزاد یہ آزمانے چلا ہوں
٭٭٭
تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے
یہ کفر بڑھتے بڑھتے ایمان ہو نہ جائے
اللہ ری بےنقابی اس جانِ مدّعا کی
میری نگاہِ حسرت حیران ہو نہ جائے
میری طرف نہ دیکھو، اپنی نظر کو روکو
دُنیائے عاشقی میں ہیجان ہو نہ جائے
پلکوں پہ رُک گیا ہے آکر جو ایک آنسو
یہ قطرہ بڑھتے بڑھتے طوفان ہو نہ جائے
حدِّ ستم تو ہے بھی حدِّ وفا نہیں ہے
ظالم ترا ستم بھی احسان ہو نہ جائے
ہوتی نہیں ہے وقعت ہوتی نہیں ہے عزت
جب تک کہ کوئی انساں انسان ہو نہ جائے
اس وقت تک مکمل ہوتا نہیں ہے کوئی
جب تک کہ خود کو اپنی پہچان ہو نہ جائے
بہزاد اس لئے میں کہتا نہیں ہوں دل کی
ڈرتا ہوں سُن کے دُنیا حیران ہو نہ جائے
٭٭٭
دل کی حالت کہی نہیں جاتی
اور کہوں تو سُنی نہیں جاتی
او مرا قلب توڑنے والے
پھول کی تازگی نہیں جاتی
رات کی رات کٹ گئی توبہ
قلب کی بےکلی نہیں جاتی
دامنِ دوست نے کرم تو کیا
چشمِ تر کی نمی نہیں جاتی
اللہ اللہ کسی کا رعبِ جمال
ہم سے تو بات کی نہیں جاتی
ان پہ کیوں اعتبار کرتا ہوں
کیوں مری سادگی نہیں جاتی
مئے الفت پئے ہوئے مدّت
آج تک بےخودی نہیں جاتی
تم پریشاں ہو کس لئے بہزاد
تم سے تو بات کی نہیں جاتی
٭٭٭
تُو دیکھ رہا ہے مرے دل ، میری نظر کو
میں دیکھ رہا ہوں تری دزدیدہ نظر کو
صدقے لبِ خاموش سے کر آنے کا وعدہ
پلکوں سے میں جھاڑوں گا تری راہ گذر کو
حیرت ہی کی دنیا ہے، میں حیرت کے تصدّق
منزل نظر آتی ہے، میں جاتا ہوں جدھر کو
تجھ کو بھی قسم ہے مجھے پامال کئے جا
میں بھی نہ اُٹھاؤں گا ترے پاؤں سے سر کو
اب تک تو ہوں میں بے خودِ فریادِ محبت
جب ہوش میں آؤں گا تو ڈھونڈوں گا اثر کو
کیا کون و مکاں ہیں مری نظروں میں سمائے
یہ وسعتیں دیدیں مری دُنیائے نظر کو
ہر دم مجھے رونا ہے ہر اک لحظہ تڑپنا
تم خوب سمجھتے ہو مری شام و سحر کو
مضطر ہے مرا دل بھی، مری جان بھی، میں بھی
اب لاؤں کہاں سے تری دزدیدہ نظر کو
بہزاد ذرا قلب میں بھی آگ لگا لوں
جلوؤں میں تو الجھا ہی چکا تارِ نظر کو
٭٭٭
ہاں اب تو کچھ نہیں ہے مرے اختیار میں
دیکھو نا ہنس رہا ہوں غمِ انتظار میں
اللہ میرے خرمنِ ہستی کی خیر ہو
شعلے بھڑک رہے ہیں دلِ بیقرار میں
پھولوں کا رنگ اور ہے، گلشن کا رنگ اور
اور میں پڑا ہوا ہوں فریبِ بہار میں
آ میرے دل کے چین مری وجہِ زندگی
آ تجھ کو آج رکھ لوں دلِ بیقرار میں
اللہ میری زندگیء غم کی خیر ہو
بےچینیاں بھی اب تو نہیں اختیار میں
اوروں کے ہوش اُڑ گئے فصل بہار سے
مجھ کو تو ہوش آ گیا فصلِ بہار میں
رحم اے نگاہِ ناز مرے حالِ زار پر
میری تو زندگی ہے ترے اختیار میں
دستِ جنوں میں جیب و گریباں لئے ہوئے
بیٹھا ہوا ہوں کب سے اُمیدِ بہار میں
اب مجھ کو اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
بہزاد کھو گیا ہوں تمنّائے یار میں
٭٭٭
خوشا بخت اے دل تجھے کچھ خبر ہے
یہ شب کی لطافت نویدِ سحر ہے
تھا جیسا اسی طرح دردِ جگر ہے
ہماری سحر آہ کیسی سحر ہے
مٹایا ہے کس نے، بنایا ہے کس نے
ہمیں کب خبر تھی، ہمیں کب خبر ہے
ہر اک جا وہی ہے، وہی ماہِ پیکر
یہ کیفِ نظر یا فریبِ نظر ہے
اسی واسطے کر رہا ہوں میں سجدے
میں یہ جانتا ہوں وہ پیشِ نظر ہے
ہمارا افسانہ سنو سننے والو
مزے کی کہانی ہے اور مختصر ہے
نہیں چاہتے ہم کسی کا تڑپنا
وگرنہ ہماری فغاں میں اثر ہے
اسی سے ہماری نگاہیں ہیں حیراں
تماشا کسی کا بہ نوعِ دگر ہے
ہر اک سمت بہزاد دل ڈھونڈھتا ہوں
کوئی یہ بتا دے مرا دل کدھر ہے
٭٭٭
غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، جانِ بہار آ گیا
جو تھا چمن کا مدّعا، آخرِ کار آ گیا
بزمِ خیال میں جو وہ شعبدہ کار آ گیا
دل کو سکون مل گیا، مجھ کو قرار آ گیا
دستِ گدا نواز کا طرفہ کرم تو دیکھئے
دستِ گدا میں بے طلب دامنِ یار آ گیا
چشمِ کرم میں رنگ ہے آج تو کچھ عتاب کا
میری طرف سے آہ کیوں دل میں غبار آ گیا
کر لے یہاں پہ پے بہ پے خوب سجودِ عاشقی
اے دلِ مبتلا سنبھل کوچۂ یار آ گیا
میرے تو ایک لفظ سے ہل گئے دو جہاں کے دل
میرا کمال دیکھئے میں سرِ دار آ گیا
ہائے وہ خوش نصیب عشق جس کو سکوں نہیں ملا
ہائے وہ بدنصیب عشق جس کو قرار آ گیا
اپنے تصورات میں کھینچ لیا بہار کو
ہم کو تو اس خزاں میں بھی لطفِ بہار آ گیا
ساقیء بےخبر مجھے اس کی ذرا خبر نہیں
کس کو نہیں ہوا خمار، کس کو خمار آ گیا
٭٭٭
خوشا بخت اے دل تجھے کچھ خبر ہے
یہ شب کی لطافت نویدِ سحر ہے
تھا جیسا اسی طرح دردِ جگر ہے
ہماری سحر آہ کیسی سحر ہے
مٹایا ہے کس نے، بنایا ہے کس نے
ہمیں کب خبر تھی، ہمیں کب خبر ہے
ہر اک جا وہی ہے، وہی ماہِ پیکر
یہ کیفِ نظر یا فریبِ نظر ہے
اسی واسطے کر رہا ہوں میں سجدے
میں یہ جانتا ہوں وہ پیشِ نظر ہے
ہمارا افسانہ سنو سننے والو
مزے کی کہانی ہے اور مختصر ہے
نہیں چاہتے ہم کسی کا تڑپنا
وگرنہ ہماری فغاں میں اثر ہے
اسی سے ہماری نگاہیں ہیں حیراں
تماشا کسی کا بہ نوعِ دگر ہے
ہر اک سمت بہزاد دل ڈھونڈھتا ہوں
کوئی یہ بتا دے مرا دل کدھر ہے
٭٭٭
اب تو جہانِ عشق میں آنے لگے ہو تم
میری طرح سے اشک بہانے لگے ہو تم
اشکوں کو پونچھتے ہو بچا کر نگاہِ بزم
دنیا سے دل کا حال چھپانے لگے ہو تم
اعجازِ چشم ہے کہ تمہارا کمال ہے
اب تو ہر ایک جا نظر آنے لگے ہو تم
جلوے دکھا رہے ہو بہ نوعِ دگر ہمیں
اللہ جانتا ہے، ستانے لگے ہو تم
جس عہدِ عاشقی سے تھی مسرور دو جہاں
اس عہدِ عاشقی کو بھُلانے لگے ہو تم
راہِ طلب میں تم کو ہی پاتا ہوں ساتھ ساتھ
نیرنگ یہ عجیب دکھانے لگے ہو تم
مستی بھری ہوئی ہے تمہاری نگاہ میں
اب جانِ میکدہ نظر آنے لگے ہو تم
ہوتی ہیں اک اسی سے تو کم دل کی اُلجھنیں
رونے کو چاہتا ہوں، ہنسانے لگے ہو تم
یہ بھی ہے ایک رنگِ کرم، رنگِ التفات
بہزادِ مبتلا کو ستانے لگے ہو تم
٭٭٭
وہ بیمارِ غم کی دوا کر رہے ہیں
محبت کا حق یوں ادا کر رہے ہیں
ہیں محفل میں انکی جو ترچھی نگاہیں
جبھی تیر ان کے خطا کر رہے ہیں
وفا ہی کریں گے ہمیشہ ہم ان سے
وفا ہم نے کی تھی وفا کر رہے ہیں
محبت سے وہ بھاگتے ہیں تو آخر
محبت کی دنیا میں کیا کر رہے ہیں
یہ جتنے بھی ہیں دہر میں قلب والے
ترے حسن پر دل فدا کر رہے ہیں
یہ حور و ملائک، یہ طائر یہ انساں
ترا تذکرہ جا بجا کر رہے ہیں
ہمارے لئے یہ سنا ہے کہ وہ بھی
بلند آج دستِ دعا کر رہے ہیں
ترے پائے نازک پہ رکھ کر جبیں ہم
نمازِ محبت ادا کر رہے ہیں
شب و روز بہزاد آنسو بہا کر
کسی کے لیئے ہم دعا کر رہے ہیں
٭٭٭
محبت میں سرمستیاں چاہتا ہوں
بلندی نہیں پستیاں چاہتا ہوں
محبت نے کھویا ہے دونوں جہاں سے
جو تنہا ہوں وہ بستیاں چاہتا ہوں
محبت کی ہے آرزو ہر قدم پر
محبت بھری ہستیاں چاہتا ہوں
جگر مست، دل مست، میں مست، تم مست
غرض ہر طرف مستیاں چاہتا ہوں
زمانہ ہے بدمست بیہوش بےخود
خرد آشنا ہستیاں چاہتا ہوں
میں غم آشنا ہوں الم آشنا ہوں
تو پوچھو کہ کیوں مستیاں چاہتا ہوں
ابھرنا ہے پستی میں گر کر ہی ان سے
اسی واسطے پستیاں چاہتا ہوں
وفا نام کو بھی جہاں میں نہیں ہے
فدائے وفا ہستیاں چاہتا ہوں
میں بہزاد ہوں دو جہاں سے نرالا
بلندی میں بھی پستیاں چاہتا ہوں
٭٭٭
پریشاں ہوں اور قلب گھبرا رہا ہے
مجھے آج پھر کوئی یاد آ رہا ہے
دُہائی ہے حسنِ بتاں کی دُہائی
مرا قلبِ مضطر مٹا جا رہا ہے
مرے دستِ الفت میں ہے ان کا دامن
زمانے کا دامن چھُٹا جا رہا ہے
ارے ہوش رخصت ارے صبر رخصت
تصور میں کوئی چلا آ رہا ہے
وہی اشک ہے مایۂ زندگانی
جو آنکھوں سے آنسو گرا جا رہا ہے
تڑپ اے مرے قلبِ بیتاب و گریاں
میں شکوہ کروں کیوں وہ تڑپا رہا ہے
مرا قلبِ مضطر نہیں میرے بس میں
مجھے کیا خبر ہے کدھر جا رہا ہے
خبر لے خبر لے نگاہِ محبت
کوئی غم کے ہاتھوں مٹا جا رہا ہے
محبت کے بہزاد صدقے دل و جاں
محبت میں دل کو مزا آ رہا ہے
٭٭٭
کرتا ہوں میں جہاں کے نظاروں سے گفتگو
ذرّوں سے دن کو، رات کو تاروں سے گفتگو
کچھ آپ ہی بتائیں کہ آخر کرے گا کون
ان منزلِ اُمید کے ہاروں سے گفتگو
ان کی نظر بھی پھر گئی، سچ ہے جہان میں
کرتا ہے کون عشق کے ماروں سے گفتگو
میری نگاہِ حسن طلب کر رہی ہے آج
ہر گلشنِ حسین کی بہاروں سے گفتگو
ہاں یاد کیوں نہیں ہے، مجھے یاد ہے ضرور
نظروں سے گفتگو وہ اشاروں سے گفتگو
کیوں نیند کو بلاؤں کہ آہوں کے ساتھ ساتھ
کرنی ہے رات بھر مجھے تاروں سے گفتگو
کرتا ہے عشق مجھ کو بہزاد مبتلا
کر لوں بساطِ عشق کے ہاروں سے گفتگو
٭٭٭
پاس اب غم کی کائنات نہیں
زندگی ہے مگر وہ بات نہیں
زندگی ہے مگر حیات نہیں
اپنی قسمت میں ہی وہ رات نہیں
غم میں آنسو نہیں نکلتے ہیں
اب وہ دورِ تکلفات نہیں
اے دل مدعا طلب ہشیار
اب تو نفرت ہے، التفات نہیں
چھوڑ کر مضطرب مرے دل کو
آپ جاتے ہیں کوئی بات نہیں
اک نظر تھی جو لے اُڑی دل کو
ہر نظر دل کی کائنات نہیں
ان سے میں بات کیا کروں بہزاد
بات یہ ہے کہ کوئی بات نہیں
٭٭٭
گھِر گھِر آئے بادر کارے – برسے آکر اُن کے دُوارے
بارد نے آنسو برسائے
بھید محبت کے سمجھائے
ان سے کئے خاموش اشارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے
پانی کی ہر بوند اک دل تھی
ان کے جلوؤں کی محفل تھی
ان تک آئے اُن کے مارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے
بادل گرجا بجلی چمکی
بن گئی صورت اس جیون کی
جو جیتا ہے اُن کے سہارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے
آنکھوں میں بھی بادل آیا
ساتھ میں لاکھوں آنسو لایا
برسیں گے اب پریم کے دھارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے
ہم بھی اے بہزادِ مضطر
دیکھ کے روئے کارے بادر
عاجز ہیں ہم دل کے مارے
گھِر گھِر آئے بادر کارے
٭٭٭
انکشافِ حقیقت
ہر نظر میں حجاب ہے اُن کی
آنکھ جامِ شراب ہے اُن کی
ہر نظر کیوں نہ لے اُڑے دل کو
ہر نظر کامیاب ہے اُن کی
کل جو بیمار حُسن و اُلفت تھے
آج حالت خراب ہے اُن کی
جن کو کچھ بھی لگاؤ ہے تم سے
زندگی اک عذاب ہے اُن کی
ہے نظر ان کی جن غریبوں پر
دولتِ اضطراب ہے اُن کی
اپنے جلوؤں کی قدر ہے اُن کو
بات یہ لاجواب ہے اُن کی
اے گھٹا کل جو اہلِ توبہ تھے
آج نیت خراب ہے اُن کی
جن پہ اُن کا کرم ہے اے بہزاد
زندگی کامیاب ہے اُن کی
٭٭٭
کیفیاتِ آرزو
آپ کا جب مجھے خیال آیا
دل کی ہر آرزو کو حال آیا
کتنا نازک تھا دل کا آئینہ
ٹھیس لگتے ہی ہائے بال آیا
رُخ پہ کیوں کھیلنے لگی شوخی
دل میں کوئی حسین خیال آیا
اُٹھیں تعظیم کو مری نظریں
جب کوئی صاحبِ جمال آیا
ہر تمنّا ہے کچھ پریشان سی
آپ کو ظلم کا خیال آیا
جوش دستِ کرم بڑھا اُن کا
جب بھی لب پر کوئی سوال آیا
ہچکیاں آ رہی ہیں اے بہزاد
اُن کو شاید مرا خیال آیا
٭٭٭
اِلتجائے شوق
اے حُسنِ کُل نہ جلوۂ لیل و نہار بن
میرے جہانِ عشق کا پروردگار بن
مجھ کو تو تو نے بخش دیا لطفِ اضطراب
میری طرح سے تو بھی تو کچھ بیقرار بن
آتا ہے مجھ کو لطف بہت انتظار میں
تیرے نثار حاصلِ صد انتظار بن
مجھ کو عزیز ہیں یہ مری غم نصیبیاں
یہ کون کہہ رہا ہے کہ تو غم گسار بن
اے حُسنِ یار آ کے نگاہوں کے سامنے
میری نظر میں جلوۂ بے اختیار بن
رنگِ خزاں تو واقعی توہینِ حُسن ہے
بنّا اگر ہے تجھ کو تو رنگِ بہار بن
اے حُسنِ دل نشیں، تجھے بہزاد کی قسم
جس طرح ہو سکے تو محبت شعار بن
٭٭٭
فریبِ نگاہ
الزام میرے دل پہ ہے کیوں اشتباہ کا
سارا قصور ہے یہ فریبِ نگاہ کا
مجھ کو تلاش کرتے زمانہ گذر گیا
رہبر ملا نہ کوئی محبت کی راہ کا
میرے سرِ نیاز کو معراج مل گئی
ہے سنگِ در نصیب تری بارگاہ کا
میں خود تباہ ہونے لگا چل کے ساتھ ساتھ
مجھ کو صلا ملا ہے یہ تجھ سے نباہ کا
بیتاب یہ نظر بھی ہے مضطر جگر بھی ہے
مارا ہوا ہوں اِک نگہِ بے پناہ کا
ہر اک گناہ گار پر رحمت کی نظر ہے
کیوں کر نہ اعتراف کروں میں گناہ کا
بہزاد حُسن چیز ہے کیا، ہے جمال کیا؟
اک کھیل ہے فقط یہ ہماری نگاہ کا
٭٭٭
ضروریات
الگ سب سے اپنا جہاں چاہتا ہوں
محبت کے کون و مکاں چاہتا ہوں
مجھے چاہئے اک زمینِ محبت
محبت کا اک آسماں چاہتا ہوں
خدائے محبت، خدائے جوانی
محبت کا عالم جواں چاہتا ہوں
اٹھائے نہ اُٹھوں، جگائے نہ چونکوں
اب اک ایسا خوابِ گراں چاہتا ہوں
جہاں میں ملے ہیں ستم گر تو لاکھوں
جہاں میں اب اک مہرباں چاہتا ہوں
نشیمن پہ گر روز اے برق سوزاں
نیا روز اک آشیاں چاہتا ہوں
وہ بہزاد نالہ ہو یا کوئی نغمہ
ہر اک شے سے محبت نشاں چاہتا ہوں
٭٭٭
غرورِ محبت
محبت پر بہت مغرور ہوں میں
ابھی منزل سے کوسوں دور ہوں میں
حسیں جلوؤں کا مرکز بن گیا ہوں
ادھر دیکھو سراپا طور ہوں میں
جہانِ عاشقی میں ضبط کے ساتھ
فغاں کرنے پہ بھی مجبور ہوں میں
چڑھا دو مجھ کو تم دارِ نظر پر
محبت کی قسم منصور ہوں میں
جفاؤں سے نہ اپنی دست کش ہو
جفائے حُسن پر مسرور ہوں میں
قریں تر ہوں زمانے کی نظر سے
مگر اس کی نظر سے دور ہوں میں
مری ہستی کو اے بہزاد دیکھو
کہ خود ناظر ہوں، خود منظور ہوں میں
٭٭٭
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب صحنِ چمن میں کلیاں کھل کر پھول کی صورت ہوتی ہیں
اور اپنی مہک سے ہر دل میں ایک تخمِ لطافت بوتی ہیں
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب برکھا کی رُت آتی ہے، جب کالی گھٹائیں اُٹھتی ہیں
جس وقت کہ رندوں کے دل سے ہو حق کی صدائیں اُٹھتی ہیں
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب مینہ کی پھواریں پڑتی ہیں، جب ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں
جب صحنِ چمن سے گھبرا کر پی پی کی صدائیں آتی ہیں
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب چودھویں شب کا چاند نکل کر دہر منوّر کرتا ہے
جب کوئی محبت کا مارا کچھ ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب رات کی ظلمت گھٹتی ہے، جب صبح کا نور اُبھرتا ہے
جب کوئل کوکو کرتی ہے، جب پنچھی پی پی کرتا ہے
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب کوئی کسی کا ہاتھ پکڑ کر سیر کو باہر جاتا ہے
جب کوئی نگاہِ شوق کے آگے رہ رہ کر گھبراتا ہے
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب چار نگاہیں کر کے کوئی محوِ تبسّم ہوتا ہے
جب کوئی محبت کا مارا اس کیف میں پڑ کر کھوتا ہے
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
افلاک پہ جب یہ لاکھوں تارے جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں
جب تارے گن گن کر دل والے ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہیں
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب رات کا بڑھتا ہے سنّاٹا، چین سے دنیا سوتی ہے
تب آنکھ مری کھل جاتی ہے اور دل کی رگ رگ روتی ہے
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
جب روتا ہے بہزادِ حزیں وہ شاعر وہ دیوانہ سا
وہ دل والا وہ سودائی وہ دنیا سے بیگانہ سا
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
تم یاد مجھے آ جاتے ہو
٭٭٭
میں یاد تمہیں کر لیتا ہوں
جب مست بہاریں آتی ہیں
پھولوں کو گرما جاتی ہیں
میں یاد تمہیں کر لیتا ہوں
اور دل کو تسلّی دیتا ہوں
جب کوئی مغنی گاتا ہے
دنیا کو مست بناتا ہے
میں یاد تمہیں کر لیتا ہوں
اور دل کو تسلّی دیتا ہوں
جب صبح کا منظر ہوتا ہے
جب شاد گل تر ہوتا ہے
میں یاد تمہیں کر لیتا ہوں
اور دل کو تسلّی دیتا ہوں
جب روتا ہے بہزادِ حزیں
وہ دل والا شاعر غمگیں
میں یاد تمہیں کر لیتا ہوں
اور دل کو تسلّی دیتا ہوں
٭٭٭
تم سے شکایت کیا کروں؟
ہوتا جو کوئی دوسرا
کرتا گِلہ میں درد کا
تم تو ہو دل کا مدّعا
تم سے شکایت کیا کروں
دیکھو، ہے بلبل نالہ زن
کہتی ہے احوالِ چمن
میں چپ ہوں گو ہوں پُر محن
تم سے شکایت کیا کروں
مانا کہ میں بےہوش ہوں
پر ہوش ہے پُر جوش ہوں
یہ سوچ کر خاموش ہوں
تم سے شکایت کیا کروں
تم سے تو الفت ہے مجھے
تم سے تو راحت ہے مجھے
تم سے تو محبت ہے مجھے
تم سے شکایت کیا کروں
٭٭٭
آفتاب آیا
بزم میں ساغرِ شراب آیا
یعنی گردش میں آفتاب آیا
جب بھی آیا مجھے خیالِ سکوں
رقص میں دل کا اضطراب آیا
ان سے نظروں کے چار ہوتے ہی
زندگی میں اک انقلاب آیا
کچھ سمجھ میں نہ آ سکی یہ بات
مجھ سے کیوں آپ کو حجاب آیا
منظرِ عام پر وہ کیا آئے
کل زمانے پہ اک شباب آیا
چار جانب بکھر گئے جلوے
سامنے وہ جو بےنقاب آیا
آیا بہزاد بزم میں، کہ کوئی
حاملِ عالمِ خراب آیا
٭٭٭
جامِ رنگیں
آرہے ہو اور نظر ہے جام پر
مر مٹا میں لغزشِ ہر گام پر
بےسبب آنسو نہیں بہتے مرے
رو رہا ہوں میں دلِ ناکام پر
زاہدِ ناداں نے لا کر صدقے کئے
لاکھ تقوے، ایک رنگیں جام پر
ہو گیا میخانے میں کتنا ہجوم
ایک آوازِ صلائے عام پر
عشق کی آخر نظر پڑ ہی گئی
حُسن کے آغاز اور انجام پر
بےخودی مجھ کو سمجھنے دے ذرا
مست ہوتا ہوں میں کسی کے نام پر
خوش کہاں ہے، ہائے بہزادِ حزیں
ہنس رہا ہے آج صبح و شام پر
٭٭٭
حالتِ اضطراب
وہ مِرا پیچ و تاب دیکھیں گے
حالتِ اضطراب دیکھیں گے
ذرّے ذرّے کو تیرے صدقے میں
رشکِ صد آفتاب دیکھیں گے
تیری مست انکھڑیوں میں اے ساقی
لطف کیفِ شراب دیکھیں گے
اُن کو دیکھیں گے اپنے پہلو میں
جام میں آفتاب دیکھیں گے
رات تاریک ہے، چلے آؤ
جلوۂ ماہتاب دیکھیں گے
سہمی سہمی نظر کی قسم
ان کا حُسنِ حجاب دیکھیں گے
ہم تو سوتے ہیں اس لئے بہزاد
کوئی رنگیں خواب دیکھیں گے
٭٭٭
نظامِ زندگی
عشق کی اب وہ صبح و شام نہیں
زندگی کا کوئی نظام نہیں
کیا حکومت ہے آج توبہ کی؟
آج ساقی جو دورِ جام نہیں
آنکھ میں جو شراب ہے ساقی
اس کا پینا کبھی حرام نہیں
جھوٹ ہے آپ کا یہ عہد وفا
یہ تو میرا خیالِ خام نہیں
جتنا جلوؤں کا انتظار ہے عام
اُن کے جلوے تو اتنے عام نہیں
کیا یہ سچ ہے کہ لوگ کہتے ہیں
حسن کی زندگی دوام نہیں
آپ کی ہر غزل میں ہے اک درد
اس میں بہزاد کچھ کلام نہیں
٭٭٭
اضطرابِ دل
دیکھ سکنے کی ہم کو تاب نہیں
آپ کے حُسن کا جواب نہیں
دل کو میرے ہے اضطراب مگر
میری نظروں کو اضطراب نہیں
جس جگہ بھی ہیں آپ کے جلوے
کس کا عالم وہاں خراب نہیں
میری جانب تو یہ نہیں نظریں؟
میری جانب تو یہ خطاب نہیں
کیا نہیں مبتلائے اُلفت میں
کیا مری زندگی عذاب نہیں
کیسا تاریک ہے یہ دل کا جہاں
ان کے جلوے جو بےنقاب نہیں
سامنے اُن کے آج اے بہزاد
ہے، مگر اُتنا اضطراب نہیں
٭٭٭
نگاہِ حُسن
شبِ غم یہ کیوں مختصر ہو گئی
الہٰی ابھی سے سحر ہو گئی
کبھی آہ کی اور کبھی رو دیئے
اسی حال میں رات بھر ہو گئی
رہِ عشق میں صرف اتنا ہوا
جبیں واقفِ رہ گزر ہو گئی
مبارک، مرا دل تڑپنے لگا
نظر آپ کی کارگر ہو گئی
کبھی آہ ہم نے نہ کی درد میں
کبھی گر ہوئی آنکھ تر ہو گئی
نگاہِ محبت کی قسمت کُھلی
نظر چار بار دگر ہو گئی
مرے حال کی اُن کو بہزاد آہ
نہ جانے کہ کیوں کر خبر ہو گئی
٭٭٭
زبانِ عشق پر جب قصۂ خاموش ہوتا ہے
تو دُنیا کا ہر ایک ذرّہ سراپا گوش ہوتا ہے
میں جب رُوداد کہتا ہوں، وہ جب رُوداد سُنتے ہیں
نہ مجھ کو ہوش ہوتا ہے، نہ ان کو ہوش ہوتا ہے
ہماری سمت جب بھی وہ ادا سے مسکراتے ہیں
بپا دل میں ہمارے محشرِ خاموش ہوتا ہے
تری مستانہ نظروں میں عجب اعجاز ہے ساقی
نظر جس سے بھی لڑ جاتی ہے، وہ مدہوش ہوتا ہے
خُدا رکھے تمہیں، چھائے ہوئے ہو سب کی دُنیا پر
جسے تم ہوش دیتے ہو اُسی کو ہوش ہوتا ہے
ِ
قسم لبریز ساغر کی کہ بادل گھِر کے آتے ہیں
ہمیں جس دم خیالِ بادۂ سرجوش ہوتا ہے
سُناتا ہوں میں دل کی داستاں جب شب میں تاروں کو
وفورِ کیف میں سارا جہاں خاموش ہوتا ہے
نقابِ رُخ اُلٹ دیتے ہیں جب وہ آ کے محفل میں
خُدا شاہد ہے اس دَم دوجہاں بیہوش ہوتا ہے
یہ اکثر میں نے دیکھا ہے وہ چونک اُٹھے ہیں گھبرا کر
جونہی افسانہ کہتے کہتے دل خاموش ہوتا ہے
اسی مدہوش پر دونوں جہاں کی مستیاں صدقے
نگاہِ مست کے صدقے میں جو مدہوش ہوتا ہے
ہماری سمت وہ جب بھی ادا سے مسکراتے ہیں
بپا بہزاد دل میں محشرِ خاموش ہوتا ہے
٭٭٭
تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
ناؤ پڑی ہے میری بھنور میں
دنیا ہے تاریک نظر میں
سوجھت ناہیں موہے کنارا
تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
نالے کرنا آہیں بھرنا
جی جی کر اس پریم میں مرنا
پریت کی ریت نے موہے مارا
تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
تونے بھی تو آنکھ چُرائی
آنکھ چُرا کر سُدھ بسرائی
تجھ سے تھا بس دل کو سہارا
تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
آنکھ ترستی ہے سونے کو
دل کہتا ہے بس رونے کو
اور تجھ کو ہے یہ بھی گوارا
تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
کل ہم نے بہزاد کو دیکھا
دل تھامے روتا تھا اک جا
کہتا تھا وہ درد کا مارا
تجھ بن سجنی جگ اندھیارا
٭٭٭
موہے پیت کی ریت بتا سجنی
میں رنگِ محبت کیا جانوں
آغاز کو کیوں کر پہچانوں
اس گتھّی کو سلجھا سجنی
موہے پیت کی ریت بتا سجنی
کیا پریم میں رونا ہوتا ہے
کیا جیون کھونا ہوتا ہے
یہ بات مجھے سمجھا سجنی
موہے پیت کی ریت بتا سجنی
کیا پریم میں مستی ہوتی ہے
کھوئی ہر ہستی ہوتی ہے
یہ بھید بھی دے بتلا سجنی
موہے پیت کی ریت بتا سجنی
ساکن ہیں فضائیں دنیا کی
ہلکی ہیں ہوائیں دنیا کی
کوئی پریم کا گیت سنا سجنی
موہے پیت کی ریت بتا سجنی
بہزادِ حزیں افسردہ ہے
مغموم ہے اور پژمردہ ہے
بہزاد کو مست بنا سجنی
موہے پیت کی ریت بتا سجنی
٭٭٭
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
عجب ذاتِ اقدس تھی دُنیا میں اُن کی
نہیں جس کی تمثیل ممکن کہیں بھی
تھی مشہور محبُوب الہی پرستی
تھی محبُوبِ الہٰی سے ان کو محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
فقط ذاتِ مرشد سے تھا کام ان کو
تھا یکساں غرض ننگ اور نام ان کو
بلا پیر کے دن بھی تھا شام ان کو
غرض تھی محبت ہی ان کی حقیقت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
کیا جبکہ محبوب الہٰی نے پردہ
یہ مرشد کا عاشق بہت دور پر تھا
مگر سچ ہے دل کو تو تھا دل سے رستا
چلا سمت دہلی پہ شاہِ شریعت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
یہاں یہ وصیت تھی محبوبِ حق کی
کہ خسرو نہ آئے مری قبر پر بھی
محبت کی قوت نہ سمجھے گا کوئی
محبت سراپا ہے خسرو کی طینت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
غرض عشقِ مرشد سے سرشار خسرو
تپ عش مرشد کے بیمار خسرو
سلاسل میں غم کی گرفتار خسرو
در مرشدِ پاک پہنچے بہ عجلت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
کہا اُن سے لوگوں نے آگے نہ بڑھئے
ذرا حکم مرشد کا تو ہم سے سنئے
محبت کی موجوں میں زائد نہ بہئے
یہ سنتے ہی ٹھہرے وہ شاہِ شریعت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
ہوا ایک دریا سا آنکھوں سے جاری
گھٹا غم کی تھی ان پہ بے طرح طاری
طبیعت تھی بے پیر جینے سے عاری
جلائے تھا رگ رگ کو سوزِ محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
پڑھا ایک ہندی میں خسرو نے دوہا
کہ جس میں نہاں حال کل قلب کا تھا
محبت کا نغمہ تھا الفت کا قصّا
وہیں گر پڑا عاشقِ پر محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
جو لوگوں نے دیکھا تو خسرو کہاں تھے
جہاں پر تھے مرشد وہ پہنچے وہاں تھے
بظاہر نہاں تھے بہ باطن عیاں تھے
یہ تھا عشقِ مرشد یہی تھی محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
الہٰی دے دنیا کو ایسی محبت
بِلا پیر کے چین ہو اور نہ راحت
نہ حاصل خوشی ہو نہ حاصل مسرت
ہے بہزادِ مضطر یہی میری حسرت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
٭٭٭
اگر میں جبینِ محبت جھکا دوں
تو ہر گام پر ایک کعبہ بنا دوں
بتا اے محبت بھری چشمِ نازک
تماشا بنوں یا تماشہ بنادوں
اگر حکم دو تو بھروں آہ دل سے
اگر تم کہو تو تماشہ بنا دوں
مقدّر میں میرے یہ لکھا ہوا تھا
ترے واسطے اپنی ہستی مٹا دوں
تصوّر سے گر کام لوں میں ذرا بھی
تو تنہائیوں کو بھی محفل بنا دوں
اگر میں بیاں کر دوں تیرے کرشمے
زمانہ کو ہر گام سجدے کرا دوں
محبت میں دل آئینہ بن گیا ہے
اِدھر آ ذرا تجھ کو تجھ سے ملا دوں
کوئی رو رہا ہے کہیں غم کا مارا
نہ تم مُسکراؤ تو میں مُسکرادوں
میں کیفِ محبت میں کھویا ہوا ہوں
میں کیوں روؤں بہزاد کیوں مسکرادوں
٭٭٭
کائناتِ غم
پاس اب غم کی کائنات نہیں
زندگی ہے مگر وہ بات نہیں
زندگی ہے مگر حیات نہیں
اپنی قسمت میں ہی وہ رات نہیں
غم میں آنسو نہیں نکلتے ہیں
اب وہ دورِ تکلفات نہیں
اے دل مدعا طلب ہشیار
اب تو نفرت ہے، التفات نہیں
چھوڑ کر مضطرب مرے دل کو
آپ جاتے ہیں کوئی بات نہیں
اک نظر تھی جو لے اُڑی دل کو
ہر نظر دل کی کائنات نہیں
ان سے میں بات کیا کروں بہزاد
بات یہ ہے کہ کوئی بات نہیں
٭٭٭
گفتگو
کرتا ہوں میں جہاں کے نظاروں سے گفتگو
ذرّوں سے دن کو، رات کو تاروں سے گفتگو
کچھ آپ ہی بتائیں کہ آخر کرے گا کون
ان منزلِ اُمید کے ہاروں سے گفتگو
ان کی نظر بھی پھر گئی، سچ ہے جہان میں
کرتا ہے کون عشق کے ماروں سے گفتگو
میری نگاہِ حسن طلب کر رہی ہے آج
ہر گلشنِ حسین کی بہاروں سے گفتگو
ہاں یاد کیوں نہیں ہے، مجھے یاد ہے ضرور
نظروں سے گفتگو وہ اشاروں سے گفتگو
کیوں نیند کو بلاؤں کہ آہوں کے ساتھ ساتھ
کرنی ہے رات بھر مجھے تاروں سے گفتگو
کرتا ہے عشق مجھ کو بہزاد مبتلا
کر لوں بساطِ عشق کے ہاروں سے گفتگو
٭٭٭
بیہوش ہوں کہ ہوش میں اب آ رہا ہوں میں
ہر چیز میں جہاں کی، تمہیں پا رہا ہوں میں
پروردگار اب مری توبہ کی خیر ہو
کالی گھٹا کو دیکھ کے تھرّا رہا ہوں میں
رکھ کر کسی کے پائے حسیں پر جبینِ عجز
دل میں عبودیت کی تڑپ پا رہا ہوں میں
میری فضائے ہوش پہ چھا جا جمالِ دوست
اپنے کو آج ہوش میں کچھ پا رہا ہوں میں
اُن کی نظر کا آہ ابھی تک خیال ہے
اُن کی نظر کے واسطے گھبرا رہا ہوں میں
ہے کیفِ دردِ دوست فقط میرے واسطے
ہر چیز کو جہان کی ٹھکرا رہا ہوں میں
اس کی خبر نہیں ہے کہ منزل ہے کس طرف
احساس اس قدر ہے کہ ہاں جا رہا ہوں میں
میں نے تو ہائے مشقِ تصوّر بھی چھوڑ دی
اپنے سے کیوں قریب تجھے پا رہا ہوں میں
سمجھا رہا ہے کوئی یہ مجھ کو خبر نہیں
سمجھا رہے ہیں آپ کہ سمجھا رہا ہوں میں
ہمّت بڑھا ذرا مری اے ذوقِ جستجو
منزل سے بے نیاز چلا جا رہا ہوں میں
دامن کو کر رہا ہوں جو بہزاد چاک چاک
یوں گتھّیوں کو عشق کی سلجھا رہا ہوں میں
٭٭٭
دل ہے پریشاں، آنکھ ہے پُر نم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
دل کو بھی ہے غم، آنکھ کو بھی غم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
راز ہم اپنا کیسے چھپائیں، کس طرح سے منہ ان کو دکھائیں
اشک چلے ہی آتے ہیں پیہم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
آج تو وہ بھی بھرتے ہیں آہیں، ڈھونڈ رہے ہیں ضبط کی راہیں
بکھرے ہوئے ہیں گیسوئے پُر خم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
میرے لئے ہاں ہجر میں تیرے اشک ہیں یوں دامن پر میرے
جیسے کہ ہو پھولوں پر شبنم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
اگلا سا اب وہ جوش نہیں ہے، جوش نہیں ہے، ہوش نہیں ہے
درد ہے دل میں لیکن کم کم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
لطف افزا ہیں زخم کی ٹیسیں، کون اب برتے دہر کی ریتیں
کون لگائے زخم پہ مرہم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
یوں مرا دل سینے میں تپاں ہے، ان کیلئے ہر دم گریاں ہے
جیسے کوئی کرتا ہوں ماتم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
ہر زحمت میں راحت بھی ہے، ہر راحت میں زحمت بھی ہے
دل کو سکوں ملتا ہے پسِ غم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
مٹ جائیں بہزاد تو بہتر لطف افزا ہے عشق کا نشتر
ہے یہ تمنّا درد نہ ہو کم، ہائے محبت ہائے یہ عالم
٭٭٭
احساسات
آنکھ میں اشک ہیں ضرور اشک مگر بہائے کون
دل کی لگی ہی خوب ہے، دل کی لگی بجھائے کون
حیرتِ غم کا جوش ہے، میری زباں خموش ہے
میرا پتہ تو تو بتا، تیرا پتہ بتائے کون
کٹنے دو ایک رنگ میں میرا نیاز عاشقی
غم میں ہنسو تو بات ہے، عیش میں مسکرائے کون
کرنے بھی دو انہیں حجاب، گرنے بھی دو ذرا نقاب
یہ تو نظر کا کام ہے، رنگِ نظر چھپائے کون
چھائی سب پہ بےخودی، عام رنگِ بندگی
اپنے سرِ نیاز کو در سے ترے اُٹھائے کون
تیری ہی جب نظر نہیں، اپنی اسے خبر نہیں
تیرے خراب ہوش کو ہوش میں آج لائے کون
حسن کی تو یہاں وہاں لُٹ چکیں سب تجلیاں
اب تری جلوہ گاہ سے اپنی نظر اُٹھائے کون
٭٭٭
کیفیاتِ حسیں
ذرّے جو منور ہیں، روشن جو ستارے ہیں
میں تو یہ سمجھتا ہوں، سب رنگ تمہارے ہیں
کیوں دیکھ رہے ہو تم تاروں کی درخشانی
تارے تو انہیں سمجھو آہوں کے شرارے ہیں
دیوانہ سا آیا ہوں میں اُن کی جو محفل میں
کچھ ان کے اشارے ہیں، کچھ دل کے اشارے ہیں
تم ہم سے نظر پھیرو، ہم تم پہ نظر ڈالیں
تم اور کسی کے ہو اور ہم تو تمہارے ہیں
خود پر بھی تباہی ہے دل پر بھی تباہی ہے
تیری ابھی اُلفت میں کچھ دن ہی گذارے ہیں
وہ چٹکے ہوئے تارے، یہ نکھرے ہوئے ذرّے
وہ رات کے منظر ہیں، یہ دن کے نظارے ہیں
بہزادِ حزیں میں تو دیوانۂ الفت ہوں
آنکھوں میں مری پنہاں ساون کے نظارے ہیں
٭٭٭
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
طبیعت کو افسردہ سا پا رہا ہوں
اِدھر جا رہا ہوں، اُدھر جا رہا ہوں
وہ باتیں نہیں ہیں، وہ ہنسنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
خدا جانے یہ مجھ کو کیا ہو گیا ہے
یہ محسوس کرتا ہوں کچھ کھو گیا ہے
مجھے ہوش تک ہائے اپنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
یہ آنکھوں میں کیوں اشک سے آرہے ہیں
لبِ پُر شکن کیوں یہ تھرّا رہے ہیں
ارے توبہ یہ میرا منشا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
جو ہونا تھی وہ ہو چکی میری خواری
اب آؤ نہ آؤ یہ مرضی تمہاری
مرا تم سے کوئی تقاضا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
کرے تم سے بہزاد کیا اب شکایت
بُرا ہے مقدر بُری ہے یہ قسمت
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید_