فہرست مضامین
انتخاب انور مسعود
جمع و ترتیب: محمد شعیب خان، اعجاز عبید
ماخذ: کتاب ’انور مسعود‘ شخصیت اور شاعری ‘(محمد شعیب خان)
سنجیدہ
حمد
کون پانی کو اُڑاتا ہے ہوا کے دوش پر
کس نے بخشی پیڑ کو آتش پذیری سوچیے
کس کے لطفِ خاص سے نغمہ فشاں ہے سانس کی
دھیمی دھیمی، دھیری دھیری یہ نفیری سوچئے
کس کی شانِ کن فکاں سے پھوٹتا ہے خاک سے
یہ گیاہِ سبز کا فرشِ حریری سوچئے
کون دیتا ہے جوانی میں لہو کو حدتیں
کون کر دیتا ہے عاجز وقتِ پیری سوچئے
ہر دلِ بے مہر پر مُہریں لگا دیتا ہے کون
کون کرتا ہے عطا روشن ضمیری سوچئے
وادیِ بطحا میں اک اُمی پیمبرﷺ بھیج کر
کس نے کی انسانیت کی د ستگیری سوچئے
٭٭٭
غزل
اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا
جو گردِ متن بنا تھا وہ حاشیہ بھی گیا
وہ دلربا سے جو سپنے تھے لے اُڑیں نیندیں
دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا
ہمیں بھی بننے سنورنے کا دھیان رہتا تھا
وہ ایک شخص کہ تھا ایک آئینہ بھی، گیا
بڑا سکون ملا آج اس کے ملنے سے
چلو یہ دل سے توقع کا وسوسہ بھی گیا
بس ایک لحظے کے اندازِ ترش روئی سے
چڑھا ہوا تھا جو مدت سے وہ نشہ بھی گیا
عجب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا
گُلوں کو دیکھ کے اب راکھ یاد آتی ہے
خیال کا وہ سہانا تلازمہ بھی گیا
مسافرت پہ میں تیشے کے سنگ نکلا تھا
جدھر گیا ہوں مرے ساتھ راستہ بھی گیا
ہمیں تو ایک نظر نشر کر گئی انور
ہمارے ہاتھ سے دل کا مسودہ بھی گیا
٭٭٭
غزل
میں جرمِ خمو شی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دھائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمھیں اذنِ رہائی نہیں دیتا
چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیتا
آنکھیں بھی ہیں، رستا بھی، چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
اب اپنی زمیں چاند کے مانند ہے انور
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا
٭٭٭
والصبح اذاتنفس
خاکسترِ پروانہ سرِ بزم اُڑا کر
گزری ہے صبا شمع کے شعلے کو بجھا کر
معمور فضا ہو گئی آوازِ اذاں سے
پیمانہ سنبھالا نہ گیا پیرِ مُغاں سے
اِک چادرِ رنگیں سے شفق سایہ فگن ہے
یہ رات کی میت کے لیے سرخ کفن ہے
برخاست ستاروں کی ہوئی بزمِ شبینہ
اُبھرا ہے اُفق پار سے سورج کا سفینہ
پھوٹے ہیں عجب شان سے کرنوں کے فوارے
وہ دیکھئے روشن ہوئے مسجد کے منارے
ہر گوشۂ فطرت میں ہے تنویر ہی تنویر
ہر قطرۂ شبنم میں ہے خورشید کی تصویر
کیا حسن ہے دلکش رُخِ زیبائے سحر میں
نظارے سمٹ آئے ہیں آغوشِ نظر میں
دیوانے چلے شہر سے اور دشت کو نکلے
کچھ نسترن اندام بھی گُلگشت کو نکلے
انگڑائیاں لیتے ہوئے پہنچے ہیں چمن میں
جھرمٹ ہے نگاروں کا بہاروں کے وطن میں
پتوں سے ہوا گزری ہے کیا ساز بجا کے
جیسے کسی رقاصہ کی پائل کے چھناکے
پھولے ہوئے رُخسار ہیں ننھی سی کلی کے
نرگس کی حسیں آنکھ میں آنسو ہیں خوشی کے
ہر شاخ کی رنگین کلائی میں لچک ہے
پھولوں میں بھی پیراہنِ یوسف کی مہک ہے
اُڑتے ہیں قطاروں میں شکر بیز پرندے
خو ش رنگ ، سحر خیز، نوا ریز پرندے
غنچوں کی جبیں فرطِ مسرت سے کھلی ہے
بُلبل کو ترنم کی بڑی داد ملی ہے
اک طائر ناشاد تڑپتا ہے قفس میں
ہے سیر کا ہنگام رہائی نہیں بس میں
اِس قید سے یارانِ چمن چھوٹ گئے ہیں
اور کوششِ ناکام سے پر ٹوٹ گئے ہیں
اُمید کے دھوکے سے وہ مجبورِ فغاں ہے
صیاد کو فریاد کا احساس کہاں ہے
آتی ہیں نظر دور سے کھیتوں کی فضائیں
پُر کیف ہیں فطرت کی حسینہ کی ادائیں
سرسوں ہے کہ یا کھیت میں آ بیٹھی ہیں پریاں
لچکیلے بدن اور بسنتی ہے چُنریاں
کیا روپ ہے دیہات کے اک سادہ جواں پر
اور ’ہیر‘ کے کچھ بول ہیں بانکے کی زباں پر
روزی کے تفکر میں بہت دور چلا ہے
تیشے کو سنبھالے ہوئے مزدور چلا ہے
شاعر کے بھی اس وقت ہیں نکھرے ہوئے جذبات
خورشید کی مانند اُبھرتے ہیں خیالات
٭٭٭
ایک جدید ترین نظم
فرشتوں نے پرچھائیاں اوڑھ لی ہیں
درختوں کی شاخوں پہ ناخن اُگے ہیں
اس آوارہ خوشبو کو زنجیر کر لو
کہ سَم سَم کھلے
وہ برگد سے لٹکی ہوئی آنکھ دیکھو
ادھر بھی نظر ہو
کہ چائے کی پیالی میں سگرٹ کی دو چار لاشیں پڑی ہیں
ازل سے دما دم چلی آ رہی ہے
مرے پیچھے پیچھے
یہی کان سے سونگھنے کی تمنا
یہی آنکھ سے چکھنے چھونے کی خواہش
میں ہوں سر بزانو
سرِ خوانِ یغما
لبوں پر دعا ہے
کہ کوئی تو آئے
شرابوں کو پھر شکلِ انگور دیدے
کبابوں کو بچھڑے میں تبدیل کر دے
خدا جانے کب تک
یہ جسموں کے ہینگر
نئے سوٹ لٹکائے پھرتے رہیں گے
اُڑا ہے غبارہ
تو کیسا تحیر
یہ کیا معرکہ ہے جو سر ہو رہا ہے
خلا سے خلا تک
سفر ہو رہا ہے
٭٭٭
غزل
مری آبائی تلواروں کے دستے بیچ ڈالے ہیں
بہت مہنگے تھے یہ ہیرے جو سستے بیچ ڈالے ہیں
وہ جن پہ چل کے منزل پر پہنچنا تھا غریبوں کو
امیرِ شہر نے وہ سارے رستے بیچ ڈالے ہیں
مرے دریاؤں کا پانی اٹھا ڈالا ہے ٹھیکے پر
وہ بادل تھے جو کھیتوں پر برستے بیچ ڈالے ہیں
بھرے گھر کے لئے مشکل تھی فاقوں کی خریداری
بالآخر باپ نے بچوں کے بستے بیچ ڈالے ہیں
٭٭٭
طنزیہ و مزاحیہ
قطعات
ہے مدّت سے یہی اس کا رویہ
ہم اس کے اس رویے کے ہیں عادی
کبھی اس نے چھڑی ماری ہے ہم کو
کبھی اس نے ہمیں گاجر کھلا دی
اس کا اندازہ ذرا سا بھی نہیں سرکار کو
بوجھ لوگوں کی کمر پر کس قدر ڈالا گیا
پھر خبر آئی بلائے نا گہانی کی طرح
پھر اضافہ گیس کے نرخوں میں کر ڈالا گیا
برف کتنی جم گئی اس مسئلے کے اردگرد
دوستو اس برف کو اب تو پگھلنا چاہیے
سرد مہری ختم ہونی چاہیے اس ضمن میں
کوئی اس کا منصفانہ حل نکلنا چاہیے
دل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کل
یہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کو
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر
’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘
لطفِ نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے
یہ نہ ہو پاس تو پھر رونقِ دنیا کیا ہے
تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتیں
میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
آفت کو اور شر کو نہ رکھو جدا جدا
دیکھو انھیں ملا کے شرافت کہا کرو
ہر اک لچر سی چیز کو کلچر کا نام دو
عریاں کثافتوں کو ثقافت کہا کرو
تیور دکاندار کے شعلے سے کم نہ تھے
لہجے میں گونجتی تھی گرانی غرور کی
گاہک سے کہہ رہا تھا ذرا آئنہ تو دیکھ
کس منہ سے دال مانگ رہا ہے مسور کی
فارسی سے کس قدر رکھتی ہے گہرا رابطہ
تیل کی سیال نعمت اور اس کی سیل بھی
کشورِ ایران اپنا وہ برادر ملک ہے
بولتا ہے فارسی بھی، بیچتا ہے تیل بھی
جسے کہتے ہیں پنجابی میں وتّر
وہ اس مائع کو واٹر پڑھ رہا ہے
کوئی انگریز کو سمجھاؤ انور
کہ دُختر لکھ کر ڈاٹر پڑھ رہا ہے
کہا اُس نے اُردو مجھے آ گئی ہے
بہت ٹھیک جملے بنائے ہیں میں نے
مجھے ایک پانی کا لقمہ پِلا دو
پلاؤ کے دو گھونٹ کھائے ہیں میں نے
پیش ہوئے جب دونوں ملزم
یوسف رمزی، ایمل کانسی
جھٹ پٹ، جھٹ پٹ مُنصف بولا
یوسف قید اور ایمل پھانسی
راوی کا بیاں ہے کہ مرے سابقہ پُل پر
چیونٹی کوئی کہتی تھی کسی فیلِ رواں سے
بے طرح لرز جاتا ہے یہ لوہے کا پُل بھی
جس وقت بھی ہم مل کے گذرتے ہیں یہاں سے
وہ چکھ سکتی نہیں ہے ایک ماشہ بھی سموسے کا
میں کھا سکتا نہیں رتی برابر بھی شکر قندی
ترے آزاد بندوں میں مری زوجہ نہ میں مولا
نمک کی اُس کو پابندی مجھے میٹھے کی پابندی
آپ کی وِگ بھی یہاں رہ گئی بتیسی بھی
اپنا سامان کسی روز اُٹھا لے جاؤ
بزم میں بیٹھ کے مت دانت نکالو انور
یوں نہ ہو دانت کے مانند نکالے جاؤ
شین اور قاف کسی طور ہو بہتر میرا
کسی حیلے میرے لہجے کی درستی ہو جائے
کس قدر صحتِ لفظی کا ہے لپکا مجھ کو
پان کھاتا ہوں کہ اردو مری شُستی ہو جائے
روح پرور تھے دعاؤں کے مقدس زمزمے
ہر حسیں صورت جوابِ آفتاب و ماہ تھی
ایک رومانی اور اسلامی سا منظر تھا وہاں
دوستو اک فلم کی کل رسمِ بسم اللہ تھی
بہت نہیں ہے نئی طرزِ پیراہن سے گلہ
مجھے تو اس سے فقط ایک ہی شکایت ہے
بٹن وہاں ہے ضرورت نہیں بٹن کی جہاں
وہاں نہیں ہے جہاں پر بڑی ضرورت ہے
نکل آئی ہے اک ترکیب آخر
ذرا سا غور کرنے، سوچنے سے
کمر باریک ہو گی ڈائیٹنگ سے
اور ابرو موچنے سے نوچنے سے
ملتی نہیں نجات پھر اس سے تمام عمر
اچھی نہیں یہ چیز ذہن میں دھنسی ہوئی
انگلش کی چوسنی سے ضروری ہے اجتناب
’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘
کبھی پھر گفتگو ہو گی کہ یہ سوغاتِ افرنگی
عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے
ابھی اتنا کہے دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے
بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں سوتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اُردو وہ زباں ہے کہ جو نافذ نہیں ہوتی
’’میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے‘‘
مجھ سے وطن کی طرزِ بیاں چھین لی گئی
’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘
میں وہ ہوں جس سے اُس کی زباں چھین لی گئی
بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں
ہم نے سوکھے دودھ کا ڈبّا جو ہے رکھا ہوا
گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لیے
کام کرنے کے لیے اَبا جو ہے رکھا ہوا
ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بُو آنے لگی ہے
درپے تقریر ہے اک واعظِ گنبد گلو
لاؤڈ اسپیکر بھی اس کے سامنے موجود ہے
نیند کا طالب ہے اک بیمار بھی ہمسائے میں
’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی
ہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اُٹھا
پانی کا، سوئی گیس کا، بجلی کا، فون کا
بِل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اُٹھا
آؤ اس کے اصل گورے رنگ سے
اب تصوّر میں ملاقاتیں کریں
آؤ پھر ماضی کی یادیں چھیڑ دیں
آؤ خالص دودھ کی باتیں کریں
کام کرنا ہو تو پھر کیجے ذرا ترکیب سے
کچھ نہ کچھ ہر بات میں درکار ہے ذوقِ ہنر
صرف تھوڑا سا ملاوٹ کا قرینہ چاہیئے
چائے کی پتی سے کٹ سکتا ہے بندے کا جگر
یقیں کرو کہ یہ آٹا بہت ہی عمدہ ہے
سنو یہ تحفۂ نادر سنبھل کے لے جانا
اب اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا تسلی دوں
اگر مروڑ نہ اُٹھے بدل کے لے جانا
آپ بے جرم یقیناً ہیں مگر یہ فدوی
آج اس کام پہ مامور بھی ، مجبور بھی ہے
عید کا روز ہے کچھ آپ کو دینا ہو گا
’’رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘‘
راز داری سے یہ سب فضل و کرم ہوتا ہے
کیا عجب کل کو مرے پاس بھی کار آ جائے
اس طرح ہاتھ لگے میرے متاعِ رشوت
’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے‘‘
تحسین و آفرین کی بوندیں ٹپک پڑیں
گھر پر مبارکوں کی گھٹا آ کے چھا گئی
فرزندِ ارجمند کے نمبر ہیں دل پسند
والد کی دوڑ دھوپ بڑے کام آ گئی
یہی تو ہے بڑی خوبی ہماری
کہیں اس ملک میں رشوت نہیں ہے
اور اس سے بڑھ کے ہے اک اور خوبی
کسی کو جھوٹ کی عادت نہیں ہے
لازم ہے احترام بزرگوں کے حکم کا
دل سے خیالِ حکم عدولی نکال دے
انور نہ ڈال کل پہ کبھی کام آج کا
میرے عزیز تو اسے پرسوں پہ ڈال دے
کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو ہوا گم
کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے
افسوس کہ کچھ اس کے سوا ہم نہیں سمجھے
دیکھے ہیں علاقے کی سیاست کے جو تیور
’جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں ‘
والد کی جگہ لینے کو آ جاتی ہے دختر
شاعرانہ اور ظریفانہ ہو گر ذوقِ نظر
زندگی میں جا بجا دلچسپ تشبیہیں بھی ہیں
ریل گاڑی اور الیکشن میں ہے اک شے مشترک
لوگ بے ٹکٹے کئی اِس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں
غضب ہے آپ کا عملہ بڑی سُستی سے بھُگتاتا ہے لوگوں کو
حضور احساس ان کی کاہلی کا آپ نے ان کو دلانا ہے
گذارش ہے ہمارے ووٹ لے کر ہم کو فارغ کیجیے جلدی
ہمیں اس سلسلے میں دوسرے پولنگ سٹیشن پربھی جانا ہے
ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہے
یہ راز ہیں ایسے جنھیں کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے
یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا
مرے اندر کوئی پھوٹے کرن خود احتسابی کی
مری منصوبہ بندی میں چھُپی ہے قرض کی دیمک
’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘
ہم تو بھگت رہے ہیں اُنھی کا کیا دھرا
اس واقعے میں اُن کی سیاست کا دخل ہے
بچّے کے ہاتھ سے جو دہی گر پڑا ہے آج
اِس میں تمام پچھلی حکومت کا دخل ہے
اپنے لشکر لے کے اب تک وہ یہاں پہنچا نہیں
کچھ سبب ہو گا نا انکل سام کی تاخیر کا
انور اس وادی میں کوئی تیل کا چشمہ نہیں
اس لئے لٹکا ہوا ہے مسئلہ کشمیر کا
کس میں جرأت ہے کہ پوچھے ہم سے حملے کا جواز
بس مفاد اپنا ہمیں منظور ہے اس کھیل میں
کتنے پانی میں ہے کوئی یہ نہیں ہم دیکھتے
دیکھتے ہیں صرف یہ ہے کون کتنے تیل میں
تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمھارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
اُنہیں ضد ہے ، ہوا اسلامیوں کی
کسی گاڑی کے ٹائر میں نہ ہووے
انھیں جمہوریت اچھی لگے ہے
اگر یہ الجزائر میں نہ ہووے
پنکھے کی رکی نبض چلانے کے لئے آ
کمرے کا بجھا بلب جلانے کے لئے آ
تمہیدِ جدائی ہے اگرچہ ترا ملنا
’’آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ‘‘
کچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتنا
کتنا سہما ہوا سا رہتا ہے
دل پہ سایہ ہے لوڈشیڈنگ کا
’’شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے‘‘
چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہلِ ہمت
اُن کو یہ دھُن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیں
ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
ہم اسی سوچ میں ہیں عید پڑھیں یا نہ پڑھیں
نکلتا ہے کہ آدھی رات تک روپوش رہتا ہے
ہمیں معلوم ہو کیسے کہ اس کا مدعا کیا ہے
مناسب ہے یہی اب تو کہ ہر اک عید سے پہلے
کمیٹی چاند سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
وقفہ گذر گیا کہ قیامت گذر گئی
دس، بیس، تیس بار مجھے دیکھنے پڑے
ٹی۔ وی پہ رات خیر ڈرامہ جو تھا سو تھا
لیکن جو اشتہار مجھے دیکھنے پڑے!
ہیر نکلی جس گھڑی رانجھے کے سنگ
اُس کا ماما آن ٹپکا خواہ مخواہ
چل رہے تھے اشتہار اچھے بھلے
اک ڈرامہ آن ٹپکا خواہ مخواہ
میری آنکھوں کو یہ آشوب نہ دکھلا مولا
اتنی مضبوط نہیں تابِ تماشا میری
میرے ٹی وی پہ نظر آئے نہ ڈسکو یارب
’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘
لاگا چسکا موہے انگریجی کا
میں تو انگلس میں ہی لب کھولوں رے
لاگے لاج موہے اس بھاشا سے
تو سے اردو میں، میں نہیں بولوں رے
تیری خواہش ہے اے مرے دشمن
عین جنگل میں مجھ کو شام پڑے
لے مری بد دُعا بھی سنتا جا
جا تجھے سی۔ ڈی۔ اے سے کام پڑے
رہتی ہے اسی تاک میں اپنی یہ کمیٹی
سڑکوں کی کھدائی کا ملے کوئی بہانہ
شاید یہ کمیٹی کو خبر دی ہے کسی نے
ہے دفن اسی شہر میں قاروں کا خزانہ
مرے گھر کے سامنے ہے جو سڑک کہاں بنے گی
کوئی کب سیاہ مرہم سے بھرے گا اس کے گھاؤ
مرے دوستو یہ مصرع تمھیں لکھ رہا ہوں جل کر
’’انھیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ‘‘
آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اندیشوں کو
اِس خدمت میں سب سے بڑھ کر روشن نام ہمارا ہے
خاصی دولت مل جائے گی آپ کے بیوی بچوں کو
آپ تسلی سے مر جائیں باقی کام ہمارا ہے
ہر اک چیز فانی ہے مٹ جائے گی
ہے یارا کسے اس کی تردید کا
مگر پھر بھی باقی رہے گی جو شے
وہ ہے محکمہ ضبطِ تولید کا
شعبۂ ضبطِ ولادت کا یہ مقصد ہے فقط
دل گرفتہ، غمزدہ، آزردہ جاں کوئی نہ ہو
’’پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو‘‘
کل اِک بچوں کی مجلس میں کہا اِک شوخ بچے نے
ہماری تاک میں دشمن بڑے ہشیار بیٹھے ہیں
عزیزو، ساتھیو منصوبہ بندی کے زمانے میں
’’غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں ‘‘
ہے اب بچوں کی قلت پر پریشاں مغربی دنیا
وہاں بوڑھوں کی کثرت ہو گئی ہے پیر خانوں میں
عمل بہبودِ آبادی پہ کر کے دیکھ لو تم بھی
’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘
کلرکوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے
جو بے انتہا صاحبِ غور بھی ہیں
ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل
’’مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں ‘‘
اک اسم ہے کہ جس کا مسمٰی کہیں نہیں
ہر گوشہ ہم نے دیکھ لیا ہے ’’سپیس‘‘ کا
ڈھونڈا اسے بہت ہے پہ عنقا نہیں ملا
ڈیلنگ کلرک ہو گا پرندوں کے دیس کا
اُن سا کوئی مصروف زمانے میں نہ ہو گا
گھر پر کبھی ٹھہرے ہیں نہ دفتر میں رکے ہیں
دورے سے جو لوٹے ہیں تو میٹنگ میں ہیں صاحب
میٹنگ سے جو اُٹھے ہیں تو دورے پہ گئے ہیں
قبضہ دلا دیا مجھے میرے مکان کا
میرے جو تھے وکیل عدیم النظیر ہیں
فیس ان کی پوچھتے ہو تو اب اس مکان میں
خود حضرتِ وکیل رہائش پذیر ہیں
اُستاد نے شاگرد سے اک روز یہ پوچھا
ہے جمعہ مُبارک کی فضیلت کا تجھے علم
کہنے لگا شاگرد کہ معلوم ہے مجھ کو
ریلیز اسی روز تو ہوتی ہے نئی فلم
آئی ہے ایک بات بہت کھل کے سامنے
ہم نے مطالعہ جو کیا ہے سماج کا
اک مسئلہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک
ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا
اس طرح کر رہا ہے حقِ دوستی ادا
اُس کا خلوص ہے مجھے حیراں کئے ہوئے
مدّت سے ہے اناج کا دشمن بنا ہوا
’’مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے‘‘
عین راحت ہیں ہمیں سب اس کی خاطر داریاں
دال روٹی اس کے حصے کی جو ہے، کھاتا رہے
سانس کی مانند ہے انور ہمیں مہماں عزیز
عرض اتنی ہے کہ بس آتا رہے جاتا رہے
آپ نے صورتِ احوال اگر پوچھی ہے
ہم بڑی موج میں ہیں آپ کو بتلاتے ہیں
ایسی برکت ہے کبھی گھر نہیں رہتا خالی
کچھ نہ ہو گھر میں تو مہمان چلے آتے ہیں
ابھی ڈیپو سے آ جاتی ہے چینی
گوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہے
حضور اب چائے پی کر جائیے گا
ملازم لکڑیاں لینے گیا ہے
دونوں کے درمیان ہیں بے انت دوریاں
امکانِ اتصال کہاں خوب و زشت میں
واعظ کی توند دیکھ کے آتا ہے یہ خیال
دوزخ کو لے کے جائے گا کیسے بہشت میں
مشاہدے میں ہے جو کچھ کتاب میں وہ کہاں
نگاہ چاہیئے تفہیمِ این و آں کے لئے
جنابِ شیخ کی ڈاڑھی سے یہ ہوا معلوم
’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئے‘‘
مسلک ہے مرا سادگیِ شیوۂ اظہار
اندازِ بیاں میں نہیں رکھتا میں روا پیچ
کچھ عقل ہی واعظ کی نہیں موردِ تحسین
دستارِ فضیلت کے بھی ڈھیلے ہیں ذرا پیچ
بر سبیلِ تذکرہ اِک روز میڈم نے کہا
اپنے شوخ و شنگ اندازِ تکلم کے بغیر
میرا وعدہ ہے کہ گانا چھوڑ دوں گی میں اگر
مولوی تقریر فرمائے ترنم کے بغیر
جو ہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے
ایک ہو رائے سبھی کی، یہ کچھ آسان نہیں
لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ
ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں
اپنی زوجہ کے تعارف میں کہا اک شخص نے
دل سے ان کا معترف ہوں میں زبانی ہی نہیں
چائے بھی اچھی بناتی ہیں مری بیگم مگر
مُنہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں
شام تک شام ہی سی رہتی ہے
صبح آتی ہے پر نہیں آتی
بڑھ گیا شہر میں دھُواں اتنا
’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘
تبصرے ہوں گے مرے عہد پہ کیسے کیسے
ایک مخلوق تھی میراثِ رواں چھوڑ گئی
پھُونکتی رہتی تھی پیٹرول بھی تمباکو بھی
ہائے کیا نسل تھی دنیا میں دھُواں چھوڑ گئی
ہر چند ضروری ہے ذکر اُن کا کیا جائے
ہیں اپنے کریڈٹ پر کچھ معرکے ایسے بھی
بس ایک یہِ سگرٹ ہی ہم چھوڑ نہیں پائے
چھوڑے ہیں بہت ورنہ شوشے بھی پٹاخے بھی
یہی ہے مقصدِ تخلیقِ ٹائر
یہ گاڑی کو چلانے کے لیے ہے
مگر ہم تو یہی سمجھے ہوئے ہیں
کہ سڑکوں پر جلانے کے لیے ہے
اب اُس کے سراپے سے دھُواں لپٹا ہے، جس کی
تعمیر میں زیبائی تھی حافظ کی غزل کی
مر مر کی سِلوں کی وہ چمک مر گئی ساری
پہلی سی وہ رعنائی کہاں تاج محل کی
کیا دیکھنا ہے کچھ بھی دکھائی نہ دے اگر
کیا فائدہ کہ دید کا احساں اُٹھائیے
ملتا ہے اک غبار دھُوئیں میں مِلا ہوا
اک دھُند رُو برو ہے جو مِژگاں اُٹھائیے
اک غبارستان برپا کر گئی ہیں موٹریں
گرد کی موجیں اُٹھیں اور ایک طوفاں ہو گئیں
راہرو جتنے تھے سب آنکھوں سے اوجھل ہو گئے
’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ‘
پانیوں میں ہی اس زمانے میں
اک ذرا اتحاد رہتا ہے
آبِ شیریں رواں نہیں تنہا
گندا نالا بھی ساتھ بہتا ہے
ایک گریہ سنائی دیتا ہے
سارے دریاؤں کی روانی میں
آدمی نے وہ زہر گھولا ہے
مچھلیاں مر رہی ہیں پانی میں
اب تو مچھلی اُس کے پانی میں پنپتی ہی نہیں
اُس میں پیدا اب کہاں عکسِ رُخِ مہتاب ہے
اب کہاں شفّاف موجوں کے وہ دلکش لہریئے
اب تو راوی آبِ آلودہ کا اک تالاب ہے
حضرتِ انساں ہُوں میں اور ہوں بہت جدّت پسند
نو بہ نو تازہ بہ تازہ تجربے میرا ہدف
خشکیوں پر میں بہت پھیلا چکا آلودگی
اب مری ساری توجہ ہے سمندر کی طرف
اللہ اللہ سخاوتیں اُس کی
اور خزانے زر و جواہر کے
اُس سے حسنِ سلوک لازم ہے
ہم نمک خوار ہیں سمندر کے
یہ واعظ کا طرزِ بیاں اللہ اللہ
بلند اُس کا آہنگ ہوتا رہے گا
جو بولے گا یوں حقِ ہمسائیگی پر
’تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا‘
ہر بس ہے ایک حشر کا ساماں لیے ہوئے
بھونپو عجیب طرح کے ایجاد ہو گئے
سُن کر یہ شور صُورِ سرافیل نے کہا
’لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے‘
مخلصانہ مشورہ اک دے رہا ہوں آپ کو
ورنہ لوٹیں گے وہاں سے کان سہلاتے ہوئے
آڈیو کیسٹ کی رستے میں دکانیں ہیں بہت
ٹھونس لیجے کان میں روئی اُدھر جاتے ہوئے
گویّوں کے یہ دہشت ناک جتھّے
کہ چلّاتے ہیں گانے کے بجائے
دھماکے ہیں کہ موسیقی ہے یارو
ہمیں اس پاپ سے اللہ بچائے
اِک زخمی شدید دمِ مرگ کہہ گیا
وقت اس کے پاس گرچہ بہت ہی قلیل تھا
بس پر سوار ہو کے میں فارغ ہوا شتاب
’’ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا‘‘
اے راہرو گذرتی ہوئی ویگنوں میں دیکھ
انساں کی با وقاریاں، با اختیاریاں
کیا اِس میں جھوٹ ہے کہ اسی ایک روٹ پر
مرغا بنی ہوئی ہیں ہزاروں سواریاں
جنت سے نکالا ہمیں گندم کی طلب نے
گوندھی ہوئی گیہوں میں کہانی ہے ہماری
روٹی سے ہمیں رغبتِ دیرینہ ہے انور
یہ ’نان۔ کومٹ منٹ‘ پرانی ہے ہماری
بدلا ہے نہ بدلے گا یہ مزدور کا انداز
سو بار بدلنے کو بدل جائے زمانہ
ہو کام دہاڑی پہ تو سستی میں ہے بے مثل
ٹھیکے پہ ہو گر کام تو پھرتی میں یگانہ
چلی سمت غیب سے اک ہوا، نہ رہا وہ رنگ خلوص کا
کہ صحافتوں کی دکان پر کوئی جنس بھی نہ کھری رہی
کسی سطر میں نہ خبر ملی، فقط اشتہار پڑھا کئے
ہمیں روز نامے سے کیا ملا، جو رہی سو بے خبری رہی
ہمیں ایسے پڑھے لکھے ملازم کی ضرورت ہے
ورق گردانیِ پیہم سے جو ہر گز نہ تھکتا ہو
ہمیں درکار ہے اک مرد صاحبِ جستجو ایسا
جو اخباروں کی خبروں کے بقیے ڈھونڈ سکتا ہو
تلّون مزاجی ہے اپنا شعار
ہر اک شے ہمیں بور کر جائے گی
حکومت فرشتوں کی لے آیے
’’طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی‘‘
کل قصائی سے کہا اک مفلسِ بیمار نے
آدھ پاؤ گوشت دیجے مجھ کو یخنی کے لیے
گھور کر دیکھا اسے قصاب نے اس طرح
جیسے اس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی کے لیے
اپنے یہاں جو سب سے زیادہ جملہ بولا جاتا ہے
میں اس سوچ میں تھا وہ جملہ کون مجھے بتلائے گا
اتنے میں آواز کسی کی میرے کان سے ٹکرائی
دے جا سخیا راہِ خدا ترا اللہ ہی بوٹا لائے گا
ٹوٹتی، چیختی، چٹختی ہیں
ہڈیاں، پسلیاں بچاروں کی
روزہ خوروں سے عید ملتے ہیں
شامت آئی ہے روزہ داروں کی
کتاب سے ہے عزیزوں کا رابطہ قائم
وہ اس سے اب بھی فائدہ اٹھاتے ہیں
کبھی کلاس میں آتے تھے ساتھ لے کے اسے
اب امتحان کے کمرے میں لے کے جاتے ہیں
یہ حالت ہو گئی خلقِ خدا کی
کہ مہنگائی کے ہاتھوں مر رہی ہے
نرالی ہے معیشت بھی ہماری
کہ یہ پھر بھی ترقی کر رہی ہے
بر سبیلِ تذکرہ اِک روز میڈم نے کہا
اپنے شوخ و شنگ اندازِ تکلم کے بغیر
میرا وعدہ ہے کہ گانا چھوڑ دوں گی میں اگر
مولوی تقریر فرمائے ترنم کے بغیر
تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمھارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
شاعرانہ اور ظریفانہ ہو گر ذوقِ نظر
زندگی میں جا بجا دلچسپ تشبیہیں بھی ہیں
ریل گاڑی اور الیکشن میں ہے اک شے مشترک
لوگ بے ٹکٹے کئی اس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں
ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہیں
یہ راز ہیں ایسے جنھیں کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے
حمیت ہو چکی ہے دل سے رُخصت
حیا سے آنکھ خالی ہو گئی ہے
بھلی قدریں بھلا بیٹھے ہیں بھیا
ہمیں روشن خیالی ہو گئی ہے
کبھی پھر گفتگو ہو گی کہ یہ سوغاتِ افرنگی
عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے
ابھی اتنا کہے دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے
اپوا کی پُر خلوص مساعی کے باوجود
اب تک ہے اک رویۂ پسماندگی یہاں
انور مجھے تو فکر ثقافت نے آ لیا
باپردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
بہت نہیں ہے نئی طرزِ پیرہن سے گلہ
مجھے تو اس سے فقط ایک ہی شکایت ہے
بٹن وہاں ہے ضرورت نہیں بٹن کی جہاں
وہاں نہیں ہے جہاں پر بڑی ضرورت ہے
رُخِ زیبا پلستر در پلستر
عجب کوہان سا باندھا ہے سر سے
ٹھٹھک کر رہ گئی ہے والدہ بھی
دُلہن آئی ہے بیوٹی پارلر سے
ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے
٭٭٭
غزل
اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا
ناسازیِ مزاج کی کچھ ابتدا کے بعد
کرنے لگے وہ پھر مرا طبّی معائنہ
اک وقفۂ خموشیِ صبر آزما کے بعد
ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چکے شمار
بولے وہ اپنے پیڈ پہ کچھ لکھ لکھا کے بعد
ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں
سمجھا ہوں میں تفکرِ بے انتہا کے بعد
لکھا ہے ایک نسخہِ اکسیر و بے بدل
دربارِ ایزدی میں شفا کی دعا کے بعد
لیجے نمازِ فجر سے پہلے یہ کیپسول
کھائیں یہ گولیاں بھی نمازِ عشا کے بعد
سیرپ کی ایک ڈوز بھی لیجے نہار منہ
پھر ٹیبلٹ یہ کھایئے پہلی غذا کے بعد
ان سے خلل پذیر اگر ہو نظامِ ہضم
پھر مکسچر یہ پیجئے اس ابتلا کے بعد
لازم ہے پھر جناب یہ انجیکشنوں کا کورس
اُٹھیں نہ ہاتھ آپ کے گر اس دوا کے بعد
تجویز کر دیئے ہیں وٹامن بھی چند ایک
یہ بھی ضرور لیجئے ان ادویہ کے بعد
پھر چند روز کھائیں یہ ننھی سی ٹیبلٹ
کھجلی اٹھے بدن میں اگر اس دوا کے بعد
چھے ماہ تک دوائیں مسلسل یہ کھایئے
پھر یاد کیجیے گا حصولِ شفا کے بعد
اک وہم تھا کہ دل میں مرے رینگنے لگا
اُن کے بیانِ نسخہِ صحت فزا کے بعد
کیمسٹ کی دکان بنے گا شکم مرا
ترسیلِ ادویات کی اس انتہا کے بعد
میں نے کہا کہ آپ مجھے پھر ملیں گے کب
روزِ جزا سے قبل کہ روزِ جزا کے بعد
٭٭٭
غزل
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا
اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا
کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج
پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا
دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا
جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا
شوگر نہ ہو کسی بھی مسلماں کو اے خدا
مشکل سا اک سوال ہے یہ بھی حساب کا
انور مری نظر کو یہ کس کی نظر لگی
گوبھی کا پھول مجھ کو لگے ہے گلاب کا
٭٭٭
قیس بنی عامر اور لیلیٰ کی ماں
(پابند نظم)
میری لیلیٰ کو ورغلاتا ہے
تیرا مردہ خدا خراب کرے
سوکھ جائے تو بید کی مانند
کبھی تیرے نصیب ہوں نہ ہرے
تو گرفتار ہو شبے میں کہیں
کوئی تیرا نہ اعتبار کرے
تو ڈکیتی میں دھر لیا جائے
دوسروں کے کئے بھی تو ہی بھرے
کسی تھانے میں ہو تری چھترول
تجھ پہ جھپٹیں سپاہیوں کے پرے
چاہے بھرکس نکال دیں تیرا
کوئی فریاد پر نہ کان دھرے
تو کچہری میں پیشیاں بھگتے
کوئی منصف تجھے بری نہ کرے
نکلے گھر سے ترے کلاشنکوف
تو پولِس کے مقابلے میں مرے
٭٭٭
غزل
چلو گمان کی حد سے گذر کے دیکھتے ہیں
کنویں میں کیا ہے کنویں میں اتر کے دیکھتے ہیں
وہ کہہ رہے ہیں اچھوتا سا کام کر دیکھو
سو چھے کو پانچ سے تفریق کر کے دیکھتے ہیں
اب ایسی فلم بھی شاید ہی کوئی ہو کہ جسے
اکٹھے بیٹھ کے افراد گھر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے خال سے چلتے ہیں گیسوؤں کی طرف
سِمٹ کے دیکھ لیا ہے بکھر کے دیکھتے ہیں
فلک پر جتنے مَلک ہیں وہ اپنے چینل پر
شبانہ روز تماشے بشر کے دیکھتے ہیں
اب اور کیا سرِ بازار دیکھنا انور
کسی دُکان پہ چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید