فہرست مضامین
- امام حرم مکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ: تعارف و خدمات
- مقدمہ
- عرضِ مرتب
- فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ
- ولادت با سعادت
- نام ونسب اور کنیت:
- تعلیم وتربیت:
- علمی حلقوں میں شرکت اور اہم علماء سے استفادہ:
- آغازِ تدریس و خطابت:
- ڈاکٹریٹ کی تکمیل:
- مسجد حرام میں امامت و خطابت:
- مسجد حرام میں مجالس درس:
- صدارت امور مسجد حرام و مسجد نبوی:
- تصنیفی و تالیفی خدمات:
- اسفار:
- انعامات و اعزازات:
- شیخ سدیس اور امامت و خطابت:
- خطبۂ جمعہ کی اہمیت اور شیخ سدیس کی انفرادیت:
- خطبۂ جمعہ کی تیاری میں شیخ سدیس کا طریقۂ کار:
- مجموعۂ خطبات اور مختلف زبانوں میں اس کی اشاعت:
- شیخ سدیس کے ایک خطبہ کی ترجمانی:
امام حرم مکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ: تعارف و خدمات
(ولادت: ۱۳۸۲ھ ۱۹۶۲ء )
محمد حماد کریمی ندوی
مقدمہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للّٰہ الذی علّم بالقلم، علّم الإانسان مالم یعلم، والصلوۃ والسلام علی رسولہ الأکرم، و علی آلہ وصحبہ ومن تبعہ من الأمم، وبعد!
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: ’’وخلق الخلق، فاختار من الخلق بنی آدم، واختار من بنی آدم العرب، واختار من العرب مضر، واختار من مضر قریشاً، واختار من قریش بنی ھاشم، واختارنی من بنی ھاشم، فأنا خیار إلی خیار، فمن أحبّ العرب فبحبی أحبّھم، ومن أبغض العرب فببغضی أبغضھم۔ (رواہ حاکم فی مستدرکہ، والطبرانی فی المعجم الکبیر)
اس ناسوتی، فانی اور طلسماتی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہستیوں کو ان اصحاب با توفیق میں بنایا ہے، جن کے سوز و ساز اور ان کے فکر و افکار سے بعد کی نسلوں کو راہوں کے تعین اور ان کے خطوط پر مشایعت میں کوئی دقت و دشواری پیش نہیں آتی۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز السدیس کے نورِ نظر، لخت جگر اور عالم اسلام کے قلوب کی دھڑکن محترم شیخ عبد الرحمٰن السدیس کی ذاتِ گرامی بھی ایسی ہی سعادت مند ہستیوں میں سے ہے، ان کی قبولیت اور محبوبیت بلاشبہ عالم اسلام میں جس پایہ اور معیار کی ہے وہ قابل رشک اور فضل الٰہی ہے۔
آپ کے والد محترم شیخ عبد العزیز السدیسؒ بلند پایہ عالم تھے، عابد و زاہد، نمازوں کا خصوصی اہتمام، صف اول میں تکبیر اولیٰ کے پابند، غرباء و مساکین کے معاون اور تین دن میں قر آن کریم ختم کرنے کا معمول تھا۔
شیخ عبد الرحمٰن السدیس کی والدہ ماجدہ بھی خدا ترس، عابدہ و زاہدہ اور نیک صالحہ تھیں، بچپن میں شیخ عبدا لرحمن السدیس کو مٹی سے کھیلتے ہوئے پایا تو بر جستہ دعا نکلی کہ: ’’اللہ تمہیں حرمین شریفین کی امامت و خطابت عطا فرمائے ‘‘، یہ دعا حرف بہ حرف قبول ہوئی اور آپ حرم مکہ کی اما مت کے علاوہ حرمین شریفین کے امور عامہ کے صدر بن گئے۔
حرم مکی کی امامت و خطابت اور حرمین محترمین کی صدارت کے علاوہ آپ مختلف تعلیمی اداروں کے روح رواں، اہم تنظیموں کے ذمہ دار اور بہت سے سماجی و رفاہی اداروں کے سربراہ بھی ہیں، ان کی زندگی کا ایک ایک منٹ قیمتی ہے، وہ مصروف ترین شخصیت ہیں، چناچہ ام القریٰ یو نیور سٹی سے اصول فقہ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے علاوہ مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کر کے محض ۲۲؍سال کی عمر میں پہلی بار حرم مکی کی امامت و خطابت کی سعادت حاصل کرنے والے شاید پہلے امام و خطیب ہیں، جن کو اتنی کم عمری میں یہ سعادت حاصل ہو ئی۔
آپ کا وطن جزیرۃ العرب کا وہ علاقہ ہے جو ’’القصیم‘‘کے نام سے موسوم ہے، جہاں ہر سو ریگ و ریگستان، کوہ و کوہستان، نخل و نخلستان، صحرا و بیابان اور شتر و ساربان کے مناظر زمانۂ قدیم کی یاد دلاتے ہیں، وہاں کے پھل نہایت شیریں ہوتے ہیں، قصیم سے متصل ہی ’’دومۃ الجندل ‘‘ واقع ہے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رہزنوں، لٹیروں اور قزاقوں سے جہاد کے لئے ایک ہزار کا لشکر جرار لے کر تشریف لے گئے، مگر لٹیروں نے راہِ فرار اختیار کی تھی، اب یہ خطہ تعلیم و تعلم میں عرب کا تعلیم یافتہ علاقہ مانا جاتا ہے۔
شیخ موصوف حرمین شریفین کی مختلف ذمہ داریوں کے علاوہ مختلف ملکی، دعوتی، اصلاحی، سماجی اور سیاسی امور کی انجام دہی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں، اسی طرح حرم مکی و مدنی میں ہر اہم اجلاس اور پروگرم کے موقع پر شیخ موصوف کو ہی دعا کے لئے موقع ملتا ہے اور پوری دنیا کا مسلمان ان کی دعائیہ تقریب میں شرکت کو باعث سعادت وخوش بختی تصور کرتا ہے، آپ کی دعاؤں سے حرم مکی کی رونقیں گویا دوبالا ہو جاتی ہیں اور اگر کسی مصروفیت کے باعث شرکت نہ ہو سکے تو ان کی غیر موجودگی اہل ذوق کو نہایت گراں معلوم ہوتی ہے، آپ کی دعاؤں میں روانی، برجستگی، للہیت، ہچکیوں کے ساتھ گریہ و زاری اور آنسوؤں کے نذرانے، غرض ایک مقبول دعا کے لئے جن حالات اور کیفیات کی ضرورت ہوتی ہے آپ کی دعا اس کا بہترین نمونہ اور مظہر ہوتی ہے۔
حسن قرأت بھی آپ کا طغرائے امتیاز ہے، اس وقت پوری دنیا میں بلا مبالغہ سب سے زیادہ آپ کا لحن اور لہجہ مقبول ہے، اور بہت سے افراد نے تو آپ کی کیسٹوں سے ہی مشق کر کے قرأت میں کمال پا لیا ہے، چند سال قبل دبئی کے ایک عظیم الشان اجلاس میں شیخ موصوف کو ’’قرآن ایوارڈ‘‘دیا گیا تھا، جوعالم اسلام میں ’’نوبل پرائز ‘‘سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
آپ عاجزی و انکساری کا پیکر، خلوص وللہیت کے خوگر، جفا کش، مہمان نواز، علماء نواز، رقیق القلب، خاشع، قانع، ملت اسلامیہ کے لئے ہمہ وقت فکر مند، روح و روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز، فقہ و فتاویٰ اور دین کی جزئیات سے واقف، امت اسلامیہ کے بے مثال قائد اور راہبر ہیں، اکابر و اسلاف سے انہیں عقیدت و محبت ہے، خوف خدا سے ان کی آنکھیں نمناک، اور ان کا دل غمناک، ملت اسلامیہ کی زبوں حالی پر رونا اور گڑ گڑانا گویا ان کی طبیعت کا حصہ اور خاصہ بن چکا ہے، آپ امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اتحاد بین المسلمین ان کا مشن اور عظمت صحابہ ان کا موقف اور بین المسالک و الممالک نفرت کی ہواؤں کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنا ان کی فطرت اور سرشت بن چکا ہے۔
شیخ سدیس کا اندازِ بیان بھی ان کی دعاؤں کی طرح نہایت مؤ ثر، طرزِ خطاب دلنشیں اور دوران تقریر علمی تعبیرات لاجوب و بے مثال ہوتی ہیں، دوران تقاریر امت مسلمہ کے مسائل کی منظر کشی، ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے مجرب نسخے اور امت کو درپیش مسائل اور حالات سے خلاصی پانے کے طریقے کچھ اس انداز سے بیان ہوتے ہیں کہ حاضر ین و ناظرین اور سامعین سبھی پر محویت طاری ہو جاتی ہی۔
شیخ موصوف نے الحمد للہ اپنے قدوم میمنت لزوم سے ہندوستان کو دوبار نوازا ہے، اور یہاں تشریف آوری کے موقع پر ہندوستان کے لاکھوں فرزندانِ توحید کو آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی توفیق ملی ہے۔
آپ کے بے شمار مواعظ و خطبات اور تقاریر و بیانات کے علاوہ ایک درجن کے قریب مختلف موضوعات پر کتابیں شائع ہو کر عوام و خواص سے دادِ تحسین وصول کر چکی ہیں، اس کے علاوہ متعدد مضامین و مقالات، کلیدی خطابات اور تحریری بیانات بھی کتابوں اور کتابچوں کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔
مقام شکر ہے کہ عزیزی مولوی محمد حماد کریمی ندوی سلمہ شیخ محمد عبد الرحمن السدیس کی حیات مبا رکہ کوعربی و اردو میں کتابی شکل میں لانے کی سعی محمود و مسعود کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش و کاوش کو شرف قبول سے نوازے اور امت مسلمہ کو بقا و استحکام عطا فرمائے۔ آمین
العبد
محمد السعیدی
ناظم و متولی مدرسہ مظاہر العلوم (وقف) سہارنپور
۲۰؍رجب المرجب ۱۴۳۷ھ
عرضِ مرتب
بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلوۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، أما بعد !
ہر زمانہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کچھ ایسی شخصیات کو پیدا کرتا ہے، جواپنی خصوصیات و امتیازات اور اعلیٰ صفات کی بناء پر پوری دنیا میں مرجع خلائق کی حیثیت رکھتی ہیں، پوری دنیا ان کو احترام کی نظروں سے دیکھتی ہے، ان کو اپنا اسوہ و نمونہ مانتی ہے، وہ کہیں جائیں تو ان کے لئے پلکیں بچھائی جاتی ہیں۔
موجودہ زمانے میں ایسی ہی چنیدہ شخصیات میں سے ایک اہم نام امام حرم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ کا بھی ہے، جن سے عالم اسلام کا ہر ہر فرد بلکہ بچہ بچہ واقف ہی نہیں، بلکہ ان کا معتقد ہے۔
دنیا کے اور علاقوں کی بہ نسبت بر صغیر بالخصوص ہندستان کے باشندوں میں عقیدت کا وصف کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔
جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ایک ایک چیز کی نقل کی جاتی ہے، اور اس کی چیزوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہندستان بھر میں بالخصوص جنوبی ہند اور خاص کر بھٹکل واطراف میں کئی ایسے افراد بآسانی مل جائیں گے، جو فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ کی آواز میں قرآن کی تلاوت کی کوشش کرتے ہیں، اور کئی اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
جس کی بناء پر بچپن ہی سے یہ نام پردۂ سماعت سے سے ٹکراتا رہا، رفتہ رفتہ ان سے انس بڑھتا رہا، اور بارہا ان کی نقل میں قرآن سننے کا موقع ملا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ نے راقم کو حفظ قرآن کی تکمیل کی سعادت نصیب فرمائی، تو حسن صوت کے لئے بہت سے لوگوں نے خصوصاً مولانا عرفات صاحب منکوی (استاذ مدرسہ رحمانیہ منکی) نے مشورہ دیا کہ میں اہم قراء خصوصاً فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ وغیرہ کی قرأت سنوں، اور اسی انداز میں پڑھنے کی کوشش کروں۔
لہٰذا میں نے والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی سے درخواست کی، تو والد ماجد مکہ مکرمہ سے کیسٹ اور سی ڈیز کے کئی سیٹ لے کر آئے، جن کے ذریعہ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ کی آواز میں قرآن کریم سننے کی سعادت ملی۔
اس کے بعد سے یہ دلی تمنا اور آرزو رہتی تھی کہ جس طرح آج میں ان کی نقل، یا ان کی آواز بالواسطہ سن رہا ہوں، اللہ جلد از جلد وہ دن بھی دکھائے کہ بلاواسطہ ان کی آواز سننے کی سعادت نصیب ہو۔
اس دوران انفضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ کا ہندستان کا ایک سفر بھی ہوا، لیکن مجھے اس میں شرکت کا موقعہ نہ مل سکا، جس کا افسوس رہا۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے جلد ہی وہ دن بھی دکھائے جب راقم کو ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۰۱۱ء کو سفر حج کا موقع نصیب ہوا، تو کچھ نمازیں ان کی اقتداء میں پڑھے کا موقع ملا، لیکن تشنگی ابھی باقی تھی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے تین سال بعد ۱۴۳۵ھ مطابق ۲۰۱۴ء کو رمضان میں عمرہ کی سعادت عطا فرمائی، جس میں مکمل تراویح مع دعائے ختم قرآن فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ کے ساتھ پڑھنے کا موقع ملا، فللّٰہ الحمد والشکر علی ذلک۔
ادھر کچھ عرصہ قبل جب والد ماجد کے حکم پر راقم نے ’’روشن چراغ‘‘ کے نام سے عالم اسلام کی دس اہم زندہ شخصیات پر مشتمل کتاب مرتب کی، تو اس میں ایک نام فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس حفظہ اللہ کا بھی تھا۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کے حالات زندگی کو اضافہ کے ساتھ الگ سے مستقل رسالہ کی شکل میں کسی مؤقر شخصیت کے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا جائے۔
اس سلسلہ میں راقم نے اپنے محسن و کرم فرما جناب مولانا راشد صاحب ندوی استاذ مدرسہ مظاہر العلوم (وقف) سہارنپور کے ذریعہ وہاں کے ناظم و متولی حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب دامت برکاتہم سے درخواست کی، کہ وہ اس پر مقدمہ لکھ دیں، مولانا نے اس کو بخوشی قبول فرمایا، اور میں حیران رہ گیا جب مولانا نے چند گھنٹوں میں ایک وقیع و قیمتی مقدمہ تحریر فرما کر میرے سپرد کیا، جس پر میں مولانا کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں، اور دعا گو ہوں کہ اللہ مولانا کی عمر صحت و عافیت کے ساتھ دراز فرمائے، آمین
رسالہ کی تکمیل کے بعد اس کی طباعت و اشاعت کا مسئلہ تھا، اللہ جزائے خیر سے نوازے محترم جناب مطہر صاحب گوڑا مرڈیشوری (مقیم دبئی) کو کہ انہوں نے اپنی طرف سے اس کی پیشکش کی، اور اس کی مکمل طباعت کی ذمہ داری لی۔
اخیر میں پھر ایک بار میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا ہوں کہ محض اسی کی توفیق سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو قبول فرمائے، اور اخلاص کے ساتھ مزید عمل کی توقیق عطا فرمائے، آمین
محمد حماد کریمی ندوی
الاسلام اکیڈمی، مرڈیشور، بھٹکل
۲۰؍ ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۴؍ اگست ۲۰۱۶ء
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ
عصر حاضر میں ایسی شخصیات بہت کم ہوں گی، جنہیں عالم اسلام میں نہایت محبت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس انہی خوش قسمت اور نامور شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہیں عالم اسلام میں نہایت اعلیٰ اور ممتاز مقام حاصل ہے، بلا مبالغہ دنیا میں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی ہے، خطبات جمعہ میں حاضر ہوئے ہیں، اور ختم قرآن کے موقع پر شریک ہوئے ہیں۔
ولادت با سعادت
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس سعودی عرب میں صوبہ قصیم کے علاقہ بکیریہ میں ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۰؍ فروری۱۹۶۲ء کو پیدا ہوئے۔
نام ونسب اور کنیت:
آپ کا نام عبد الرحمن اور کنیت ابو عبد العزیز ہے، نسب نامہ یہ ہے:
عبد الرحمن بن عبد العزیز بن عبد اللہ السدیس۔
تعلیم وتربیت:
تعلیم کا آغاز ریاض کے ایک ادارہ جمعیۃ تحفیظ القرآن الکریم سے ہوا، اور بارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس بچپن ہی سے نہایت ذہین اور فطین تھے، حافظہ بلا کا تیز تھا، والدین نے بھی اپنے ہونہار بچے کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی، متعدد نامور علماء اور قراء نے ان پر خوب محنت کی، تکمیل حفظ کے بعد ابتدائی تعلیم ریاض کے ایک مدرسہ مثنی بن حارثہ میں حاصل کی۔
پھر آپ کا داخلہ ریاض کے المعہد العلمی میں ہو گیا، یہاں آپ نے اسلام کے بنیادی علوم حاصل کئے، اور ۱۹۷۹ء میں امتیازی نمبرات کے ساتھ یہاں سے فراغت حاصل کی۔
مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آپ نے کلیۃ الشریعہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے اس وقت کے اہم علماء سے خوب خوب استفادہ کیا، اور ۱۹۸۳ء میں یہاں سے تعلیم مکمل کی۔
علمی حلقوں میں شرکت اور اہم علماء سے استفادہ:
ریاض کی بڑی بڑی مساجد میں بہت سے علمی حلقے قائم ہیں، جس دور میں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس طالب علم تھے، شیخ علامہ عبد العزیز بن باز کا دیرہ کی مسجد میں علمی حلقہ معروف تھا، ریاض و اطراف سے طلباء آتے اور تفسیر، حدیث و فقہ کے علوم کو حاصل کر کے اپنے دلوں کو نور علم سے منور کرتے، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن السدیس نے ان علمی حلقوں سے خوب استفادہ کیا، جن دیگر اساتذہ سے انہوں نے فیض حاصل کیا، ان میں علامہ عبد الرزاق عفیفی، ڈاکٹر صالح الفوزان، شیخ عبد الرحمن البراک اور شیخ عبد العزیز الراجحی جیسی شخصیات شامل ہیں۔
آغازِ تدریس و خطابت:
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے علم میں بتدریج پختگی آتی چلی گئی، خطابت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، انہوں نے ریاض کی بڑی بڑی مساجد میں خطبہ جمعہ دینا شروع کیا، پھر وہ ریاض کی ایک بڑی مشہور و معروف مسجد، جو اُن کے استاد شیخ عبد الرزاق عفیفی کے نام سے موسوم تھی، بطور خطیب متعین کئے گئے، ساتھ ساتھ وہ کلیۃ الشریعہ، ریاض میں تدریس کے فرائض بھی انجام دینے لگے۔
ڈاکٹریٹ کی تکمیل:
امامت و خطابت کے ساتھ آپ نے تعلیم وتدریس کو بھی جاری رکھا، اور ریاض کی امام سعود یونیورسٹی سے ۱۴۰۸ھ میں فقہ اسلامی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
اس کے بعد انہوں نے جامعہ ام القریٰ کے قسم القضاء (لاء کالج) میں طلبہ کو پڑھانا شروع کیا، اس دوران پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھتے رہے، اور ۱۹۹۶ء میں امتیازی حیثیت سے فقہ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ ام القری مکہ مکرمہ سے حاصل کی۔
مسجد حرام میں امامت و خطابت:
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کو ۱۹۸۴ء میں مسجد حرام کا امام اور خطیب مقرر کیا گیا، اس وقت سے اب تک اس عہدۂ جلیلہ پر فائز ہیں، اس دوران ہر سال انھیں رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کا موقع ملتا ہے، دیگر ائمۂ حرمین اور بطور خاص فضیلۃ الشیخ سعود الشریم کے ساتھ نہ جانے کتنی بار قرآن مجید حرم شریف میں سنایا ہے، حرم مکی میں آپ کی امامت کا آغاز ۲۲؍ شعبان ۱۴۰۴ ہجری مطابق ۲۳؍ مئی ۱۹۸۴ء سے ہوا، جہاں آپ نے سب سے پہلے عصر کی نماز کی امامت کی، نیز اسی سال رمضان میں آپ نے حرم مکی میں پہلا جمعہ کا خطبہ بھی دیا۔
مسجد حرام میں مجالس درس:
اللہ کی طرف سے ان کو اور ایک اعزاز یہ بخشا گیا کہ ۱۴۱۶ھ میں بیت اللہ شریف کے صحن میں مغرب بعد درس و تدریس کے لئے انھیں بطور مدرس مقرر کیا گیا، جہاں پر وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کے سامنے عقیدہ، فقہ، تفسیر اور حدیث کے موضوعات پر درس دیتے ہیں، اور لوگوں کو ان کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیتے ہیں۔
صدارت امور مسجد حرام و مسجد نبوی:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے شیخ پر اور بہت سے انعامات کے ساتھ ایک بڑا انعام و اکرام کا معاملہ یہ بھی کیا کہ آپ کو امور حرم مکی و حرم مدنی کی صدارت کا منصب عطا کیا گیا، ۱۷؍ جمادی الثانی ۱۴۳۳ھ بروز منگل شاہی فرمان جاری ہوا، جس میں سابق صدر صالح بن عبد الرحمن الحصین کی صحت کی خرابی کے پیش نظر ان کا استعفا قبول کرتے ہوئے شیخ عبد الرحمن السدیس کو ان کی جگہ صدر مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔
تصنیفی و تالیفی خدمات:
امامت و خطابت اور درس وتدریس نیز اہم اسفار و دیگر مشغولیات کے ساتھ شیخ کا میدان قلم وقرطاس میں بھی اپنا ایک منفرد مقام اور یگانہ اسلوب ہے، اب تک آپ کے قلم گوہر بار سے کئی کتابیں اور رسالے سپرد قرطاس ہو کر قبول خاص وعام حاصل کر چکے ہیں، جن کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے، چند کتابوں کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:
(۱) تحزیب القرآن فی قیام رمضان
(۲) الرقیۃ الشرعیۃ: أحکام وآداب
(۳) المبھج فی الفتوی المفھوم و المنھج
(۴) طرف وملح وفوائد متنوعۃ
(۵) العلامۃ الشیخ عبد الرزاق العفیفی ومنھجہ الأصولی
(۶) السیاحۃ فی میزان الشریعۃ
(۷) تنبیھات ھامۃ بمناسبۃ عام ۲۰۰۰ م
(۸) کوکبۃ الخطب المنیفۃ من منبر الکعبۃ الشریفۃ
ان کتابوں کے علاوہ آپ کے خطبات کے مجموعے بھی مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں۔
اساتذہ:
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس نے اپنے وقت کے اہم اور جید علماء سے کسب فیض کیا، اور ان سے بھرپور استفادہ کیا، جن کی فہرست طویل ہے، ذیل میں چند اہم اساتذہ کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱) فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن آل فریان
(۲) شیخ قاری محمد عبد الماجد ذاکر
(۳) شیخ محمد علی حسان
(۴) شیخ عبد اللہ المنیف
(۵) شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن تویجری
(۶) شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ
(۷) شیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن جبرین
(۸) علامہ عبد العزیز بن باز
( ۹) علامہ عبد الرزاق عفیفی
(۱۰) ڈاکٹر صالح الفوزان
(۱۱) شیخ عبد الرحمن البراک
(۱۲) شیخ عبد العزیز الراجحی
کسی بھی معروف علمی شخصیت کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے، بر صغیر کے بیشتر قارئین کے لئے مندرجہ بالا اساتذہ یقیناً غیر معروف ہوں گے، مگر اہل علم حضرات کے لئے یہ شخصیات جانی پہچانی اور بڑے علمی مقام کی حامل ہیں، جس سے ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے علمی رسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اسفار:
مقامی مشغولیات کے ساتھ بطور امام حرم امت مسلمہ کے حالات سے واقفیت اور ان کی صحیح رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً دنیا کے مختلف علاقوں کے اسفار بھی ہوتے رہتے ہیں، ابھی چند سال قبل ۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۱ ء کو امام حرم کا ہندستان کا بھی سفر ہوا تھا، جس میں آپ ازہر ہند دار العلوم دیوبند بھی تشریف لائے تھے، اور پورے ہندستان میں ہر طرف اسی کا تذکرہ و چرچہ تھا، اس سے پہلے بھی ۱۹۸۴ء میں ہندستان کا سفر ہوا تھا، جس میں دار العلوم ندوۃ العلماء بھی حاضری ہوئی تھی۔
انعامات و اعزازات:
امام حرم کی ان قابل قدر خدمات کے اعتراف میں بہت سے جلسے ہوئے، اور انعامات واعزازات سے نوازا گیا، خاص طور پر ۲۰۰۵ء میں دبئی کی ایک تنظیم کی طرف سے انہیں اس سال کی اسلامی شخصیت کے انعام کے لئے منتخب کیا گیا، اور انہیں اسلام اور قرآن مجید کے تعلق سے نمایاں ترین شخصیت قرار دیا گیا۔
شیخ سدیس اور امامت و خطابت:
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس اپنی خوبصورت آواز، قرآن کریم کی بہترین اور پُر اثر تلاوت کے لئے مشہور ہیں، جب وہ اپنی دل کش آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو سننے والے جھوم اٹھتے ہیں، خود ان پر اور سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا ہے، وہ قرآن حکیم کی تلاوت کے دوران خود بھی روتے ہیں اور اپنے سامعین کو بھی رلاتے ہیں۔
تلاوت قرآن کریم کی تاثیر ہی نرالی ہے، جتنی بار پڑھ لیں یا سن لیں، ہر دفعہ ایک نئی لذت محسوس ہوتی ہے، شیخ عبد الرحمن السدیس کی آواز میں تلاوت قرآن کریم پوری دنیا میں مقبول خاص وعام ہے، ہر شہر اور ہر بستی میں ان کی آواز گونجتی ہے، حرم پاک جائیں تو آپ کی پر سوز آواز کو سن کر دل کو سکون ملتا ہے۔
آپ قرأت کی مشہور روایت حفص عن عاصم الکوفی کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، آپ کی تلاوت پر مشتمل پورا قرآن عموماً دستیاب ہے، قرأت کے ساتھ تلاوت کی ریکارڈنگ بھی کی گئی ہے۔
جہاں کئی افراد نے آپ کی تلاوت کو سن کر اپنا قرآن درست کیا ہے، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے صرف آپ کی تلاوت سن کر قرآن یاد کر لیا ہے۔
خود راقم کا تجربہ ہے، نیز والد ماجد اور دیگر کئی حضرات کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ حرم مکی میں امام حرم کی آمد کے ساتھ ہی ایک سماں بندھ جاتا ہے، ہر ایک آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کا متمنی ہوتا ہے، اور اس سعادت کے حاصل ہونے پر فخر کرتا ہے، اور اگر کچھ دنوں یا کسی سفر میں کسی کو یہ سعادت حاصل نہ ہو تو وہ افسوس کا اظہار کرتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کی دوسری وجہ شہرت وہ بلیغ و موثر خطبے ہیں، جو وہ مسجد حرام کے منبر سے دیتے ہیں، اسلام میں خطبۂ جمعہ کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت و فضیلت سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، گویا امت مسلمہ کو قدرتی طور پر ہفتہ میں ایک دن ان کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے نہایت زرّیں موقع دیا گیا ہے، جمعہ اور اس کے خطبہ کی اس اہمیت کے پیش نظر خطیب کی بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفت روزہ پروگرام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے، اور خطبات جمعہ تبرک یا وقت گزاری کے بجائے اصلاح اور دینی پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ بن سکیں، لیکن عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ خطبائے کرام کی اکثریت اس سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھا پاتی، خطیب کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ حالات حاضرہ کے مطابق خطبات مرتب کرے، جس کی وجہ سے یہ زریں موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
خطبۂ جمعہ کی اہمیت اور شیخ سدیس کی انفرادیت:
خطیب کو سنت کے مطابق حالات وضروریات کا ادراک اور لحاظ کرتے ہوئے موضوع اختیار کرنا چاہئے، موضوع کی مناسبت سے قرآنی آیات اور صحیح احادیث کا انتخاب کرنا چاہیے، مستند کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، پھر حالات سے اس کی مطابقت ضروری ہے تا کہ لوگوں کی بروقت رہنمائی ہو سکے۔
خطبات جمعہ چاہے کسی بھی مسجد میں دیئے جائیں ان کی اپنی مستقل اہمیت و افادیت ہے، لیکن اس بنیادی اہمیت و افادیت میں زمان و مکان اور خطیب کی شخصیت کے لحاظ سے اضافہ ہوتا رہتا ہے، محلے کی مسجد کے مقابلے میں شہر کی جامع مسجد میں دئیے جانے والے خطبہ کا دائرۂ افادیت زیادہ وسیع ہو گا، شہر سے آگے بڑھ کر ملک کی مرکزی مسجد ہو تو اس میں دئیے جانے والے خطبوں کی افادیت دو چند ہو گی، اسی طرح خطیب کی شخصیت کے اعتبار سے بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے، اور اگر یہ خطبہ دنیا کے مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ کی مرکزی مسجد، مسجد حرام میں دیا جائے تو اس کی اہمیت، جامعیت اور افادیت کے کیا کہنے، جہاں دنیا بھر کے حجاج، معتمرین اور زائرین کا ہر وقت جم غفیر رہتا ہے، خطیب جمعہ کی آواز دنیا کے کونہ کونہ تک پہنچتی ہے، یہ وہ بے مثل اعزاز و امتیاز ہے جو ائمہ حرمین کے علاوہ دنیا کے کسی اور امام یا خطیب کے حصہ میں نہیں آیا، ان میں بھی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کا مقام سب سے اعلیٰ ہے۔
آپ کے خطبات کی شان نرالی ہوتی ہے، عموماً حمد و ثنا ہی میں خطبہ کا موضوع سمیٹ دیتے ہیں، پھر حالات حاضرہ پر بقدر ضرورت تبصرہ اور عالم اسلام کے مرکزی منبر سے متعلقین، حکام، علمائ، مبلغین، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ان کی ذمہ داریوں کی حکیمانہ اسلوب میں یاد دہانی آپ کا خاص امتیاز ہے، موصوف کے دل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے جو تڑپ ہے، اس کا اندازہ ان خطبات پر نظر ڈالتے ہی ہو جاتا ہے، امت مسلمہ کے لئے شیخ محترم کی پرسوز دعاؤں کا تذکرہ تو زبان زد عام وخاص ہے، ولا أزکّی علی اللّٰہ أحداً۔
خطبۂ جمعہ کی تیاری میں شیخ سدیس کا طریقۂ کار:
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس خطبۂ جمعہ کی تیاری کے لئے کتنی محنت کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے:
کویت کے مشہور عالم دین ڈاکٹر محمد العوضی کہتے ہیں: ’’ایک دفعہ جب شیخ کویت کے دورے پر تھے، میری ان سے ملاقات ہوئی، میں نے ان کی شخصیت میں تواضع، حکمت و دانش اور علم وعمل کا ایک عمدہ نمونہ دیکھا، اسی دوران انہوں نے مجھے اپنی کتاب ’’کوکبۃ الکوکبۃ‘‘ کا ایک نسخہ ہدیہ کیا، اور طفرمایا: ’’جب میں حرم مکی کے لئے خطبہ تیار کرتا ہوں، تو ہر خطبہ کو ایک عظیم مشن سمجھ کر تیار کرتا ہوں، جمعہ سے ایک دو روز پہلے ہی میں لوگوں سے ملاقاتیں بند کر دیتا ہوں، تا کہ پوری توجہ اور انہماک سے اپنے موضوع کا حق ادا کر سکوں، اور اس کے لئے درست ترین معلومات جمع کر سکوں، اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ عظیم مقام ہے جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور مقام نہیں، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ کے رسولﷺ نے کھڑے ہو کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو خطاب فرمایا تھا‘‘۔ (خطبات حرم)
مجموعۂ خطبات اور مختلف زبانوں میں اس کی اشاعت:
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کے اہم خطبات کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے، جس کے متعلق خود فرماتے ہیں:
’’میرے لئے یہ باعث مسرت و سعادت ہے کہ کچھ عرصہ قبل میرے ان خطبات جمعہ کا پہلا مجموعہ جو مسجد حرام میں دیئے گئے خطبات پر مشتمل تھا ’’کوکبۃ الخطب المنیفۃ من منبر الکعبۃ الشریفۃ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا، اس مجموعہ میں ربع صدی کے خطبات کا خلاصہ ہے، پھر میرے لئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ قارئین کرام نے اس مجموعہ پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اس کاوش کو بہت سراہا، خصوصاً علمی حلقوں اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں کام کرنے والوں میں اس کتاب کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
قارئین اور مختلف کرم فرماؤں کی طرف سے جو مختلف تجاویز پیش کی گئیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس مجموعہ کو مختصر کر کے شائع کیا جائے، تاکہ مزید افادۂ عام کی گنجائش پیدا ہو سکے، چنانچہ یہ مجموعہ جو پچاس خطبات اور بارہ ابو اب پر مشتمل ہے، اس کے جواہر پاروں کو انیس خطبات کی شکل میں یکجا کیا گیا، اور ہر باب کے ایک یا دو خطبات کو اس میں شامل کیا گیا، جس سے کتاب کا مقصد بھی پورا ہو، اور تقسیم کرنے میں بھی سہولت ہو، اس مختصر مجموعہ کا نام ’’کوکبۃ الکوکبۃ‘‘ رکھا گیا، اسی مجموعہ کو دارالسلام نے ’’خطبات حرم‘‘ کے نام سے اردو میں شائع کیا ہے ‘‘۔
شیخ سدیس کے ایک خطبہ کی ترجمانی:
والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کریمی قاسمی مد ظلہ العالی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ادھر چند سالوں سے یہ موقع نصیب کیا ہے کہ ہر پندرہ دن میں ایک عمرہ کی سعادت حاصل ہوتی ہے، اور دیگر نمازوں کے ساتھ ایک جمعہ بھی مسجد حرام میں ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے، کچھ دنوں قبل ایک جمعہ شیخ سدیس حفظہ اللہ کی اقتدا میں پڑھنے کا موقع ملا، والد ماجد نے ’’کعبہ معزز اور حرم معظم کی پاکیزہ فضا اور عرفانی ہوا سے ‘‘ کے عنوان سے اس جمعہ کی حاضری کی دلچسپ تصویر کشی کرتے ہوئے امام حرم کا مختصر تعارف پیش کیا ہے، اور خطبہ کی جامع ترجمانی بھی کی ہے، ذیل میں یہ مضمون پیش کیا جاتا ہے:
’’ الحمد للہ ثم الحمد للہ ۲۰؍ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ مطابق یکم جون ۲۰۱۶ء کو راقم آثم (جس پر حق تعالیٰ بلند و بالا کا لطف و کرم ہے خاص، جس کی وجہ سے ہی وہ ہوتا رہتا ہے کعبۂ مشرفہ کی زیارت اور حج وعمرہ جیسی عبادت کے لئے پاس، جس سے شیطان رہتا ہے بے حد اداس، خدا کرے کہ اس کا ہو جائے ستیا ناس، اور مجھ جیسے کمزور و بے زور سے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائے وہ خناس، تا کہ اس ناکارہ کے دل مین پیدا ہو سوز اور روح میں احساس، اور پیغام محمدی واسوۂ نبوی کا ہمیشہ رہے پاس) پر اللہ رب العزت کا مزید ہوا کرم، ماشاء اللہ یہ ناچیز پھر حاضر ہوا حرم۔
آج جمعہ ہے، غسل وغیرہ سے فارغ ہوا جلدی، دس بجے حرم پاک میں حاضری کی الحمد للہ ہمیشہ رہی پابندی، آج پورا حرم کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، حرم کا ذرہ ذرہ، چپہ چپہ، کونا کونا، گوشہ گوشہ نمازیوں سے اٹا پٹا ہے، کہیں تل دھرنے کی نہیں جگہ ہے، زائرین کعبہ اور حاضرین حرم کی کثرت و زیادت ستائیس رمضان المبارک اور حج کے ایام کی یاد تازہ و بے اندازہ زیادہ کر رہی ہے۔
اللہ اللہ کر کے ایک چھوٹی سی جگہ ملی، جس میں سنت کی ادائیگی کی سعادت ملی، سنت سے فراغت ہوئی، کچھ دیر بعد حرم کی نورانی فضا و روحانی ہوا میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کی ایمان پرور، حیات آفریں اور یقین بخش آواز بلند ہوئی۔
اللہ اللہ، سبحان اللہ اور ماشاء اللہ! یہ آواز تو تمام دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، عالم اسلام کی متاع عزیز، ہر دلعزیز، جن کی تلاوت قرآن ذی شان تمام ائمہ حرمین محترمین میں سب سے زیادہ ہے عزیز و لذیذ، اور جو اپنے جمعہ کے خطبوں میں پیش فرماتے رہتے ہیں قیمتی سے قیمتی چیز، اور جن پر دل وجان سے فدا و شیدا ہے یہ ناچیز۔
اللہ تعالیٰ نے امام عالی مقام، باعث صد احترام، قابل اعزاز و اکرام کے والدین کریمین کو اس بات کی توفیق دی کہ وہ اپنے نورِ نظر، لخت جگر اور صاحب فکر و نظر کا ایسا اچھا رکھیں نام، جس پر اللہ کی بہت ہی زیادہ پسند کا ہے انعام، اور قادر مطلق و معبود برحق نے آپ کو ایسا عظیم الشان اور بلند پایہ عطا فرمایا مقام، اور آپ کے سپرد کیا ایسا لائق شرف و مجد کام، کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ فرشتوں جیسی نورانی مخلوق کو بھی یقیناً آپ پر رشک آتا ہو گا، اور خدا کی قسم شیطان مردود آپ کے اعلیٰ و بلند و بالا رتبہ و مرتبہ پر خون کے اشک برساتا ہو گا۔
بلا شبہ و بلا مبالغہ عالم اسلام کے چوٹی کے پاکیزہ و برگزیدہ، چیدہ و چنیدہ، سنجیدہ و جہاں دیدہ، اہل دل و خدا رسیدہ علماء کی کوئی فہرست بنائی جائے، تو اس میں ایک نام فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ کا ہو گا۔
آپ اپنے خاص امتیازات، گوناگوں کمالات، اور غیر معمولی اعلیٰ صفات وخصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر ان اشعار تقویٰ شعار کے مصداق ہیں:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان
قہاری وغفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر جمع ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اور:
زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کے رہو
زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کے رہو
اور:
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال وپر روح الامین پیدا
اور:
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
امام عالی مقام باعث صد اعزاز و اکرام نے آج جمعہ کے خطبہ میں نیکی و تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینے، فریق نہیں بلکہ رفیق بننے پر بہت ہی زیادہ زور دیا، اور اتقان و اتحاد کے ساتھ کام کرنے کی ناصحانہ و دردمندانہ گذارش کی، ہر حال میں حق و سچ کا ساتھ دینے اور باطل طاقت و شیطانی قوت کو بالکل ہی توڑ دینے کی عاجزانہ اپیل کی، یہودی لابی اور عیسائیوں کی عیارانہ، مکارانہ و شاطرانہ سازش اور ناپاک کوشش کو دنیا کے تمام مسلمان مل کر ناکام ونامراد بنانے کی وصیت کی، آپسی انتشار وخلفشار اور بگاڑ کو دور کرنے کے لئے کہا، فلسطین وشام، لیبیا وعراق، اور خصوصاً یمن کے حق پرست، خدا مست بھائیوں کی کامیابی کی دعا کی، اور مذکورہ ملکوں میں جاری خطرناک، کربناک اور افسوس ناک جنگ پر دکھ درد اور دلی افسوس کا اظہار کیا، اور ان ملکوں کے مظلوم مسلمانوں سے حد درجہ پیار کیا۔
اللہ ہی ان کے حالات کرے درست، اور جنگ کے زخمی چھلنی، لاچار و بیمار کو کر دے تندرست۔
آمین یا رب العالمین۔
اور ایک باعث شرف اعزاز
ذو الحجہ ۱۴۳۷ ھ مطابق ۲۰۱۶ء کو اللہ رب العزت نے شیخ سدیس کو مزید ایک قابل فخر اور باعث شرف اعزاز سے نوازا، یعنی مفتی برائے حکومت سعودیہ علامہ عبد العزیز آل شیخ کی جگہ ان کو عرفہ کے میدان میں پہلا خطبہ دینے کا موقعہ ملا۔
مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:
(۱) خطبات حرم۔ (۲)ویکیپیڈیا۔ (۳) مختلف ویب سائٹ۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدلله آپ کے مضمون سے خوب استفادہ ہوا
ایک سوال یہ پوچھنا تھا کہ مولانا منظور احمد مینگل (پاکستان) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ جو یوٹیوب پر بھی موجود ہے کہ شیخ سدیس کے اساتذہ میں پاکستان کے استاذ بھی شامل ہیں
اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟؟؟
جزاک اللہ