فہرست مضامین
- المصحف الشریف ایک تاریخی جائزہ
- محمد اسلم صدیق
- ترجمہ: محمد ابراہیم میر محمدی
- ظہورِ اسلام کے وقت اور اس کے بعد فن تحریر
- رسول اللہﷺ کے دور میں کتابت قرآن اور اسے لکھنے والے مشہور صحابہؓ
- حضرت ابو بکرؓ کے دور میں جمع قرآن اور اس کے اسباب
- حضرت عثمانؓ کے عہد میں جمع قرآن اور اس کے اسباب
- کتابت مصحف کے سلسلہ میں حضرت عثمانؓ کا دستور
- جمع و تدوینِ قرآن کے اَدوار
- مصاحف کی تعداد
- مصاحف عثمانیہ کی حالت
- مصاحف عثمانیہ مختلف علاقوں میں کیسے بھیجے گئے ؟
- ان مصاحف کے متعلق مسلمانوں کا موقف
- دور صحابہؓ کے مشہور مصاحف
- خلفائے راشدین کے عہد کے بعد مصاحف کی تدوین
- عباسی دورِ حکومت
- مصحف کی اَجزا ( پاروں ) میں تقسیم
- مصحف کے کاتب اور ناشر کے لئے شرائط
- ائمہ دین اور کبار علمائے اسلام کی آرا
- سورتوں کے نام لکھنے کا جواز
- قرآنِ کریم کو سونے، چاندی سے لکھنے کا جواز
- مصاحف کا دور طباعت
- قرآنِ عظیم کا تواتر
المصحف الشریف ایک تاریخی جائزہ
محمد اسلم صدیق
ترجمہ: محمد ابراہیم میر محمدی
ڈاؤن لوڈ کریں
زیر نظر مضمون کے مرتب علومِ قرآن کے حوالے سے عالم عرب کی ایک معتبر شخصیت ہیں جن کی اس موضوع پر متعدد کتب و مقالات کے علاوہ، شاگردوں کی بڑی تعداد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ سعودی حکومت کے کنگ فہد قرآن کمپلیکس میں قرآنِ کریم کی عالمی پیمانے پر نشر و اشاعت اور اصلاح کے لئے قائم کردہ کمیٹی نے ان کی کتب سے بھرپور استفادہ کیا ہے جو آپ علمیت کا مدینہ نبویہ میں حکومتی سطح پر ایک اعتراف ہے۔ فن قرأت کی مشہور کتاب الشاطبیة کی ‘الوافی’ کے نام سے اور الدُرَّة کی شرح ‘ایضاح’ کے نام سے آپ نے تفصیلی شروح تحریر فرمائی ہیں۔ زیر نظر مضمون کو اُردو میں ترجمہ کرنے کی نشاندہی پاکستان میں فن تجوید و قرأت کی نامور شخصیت قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ نے ادارۂ محدث کو فرمائی جس کا باعث اس مضمون میں موجود ایسی معلومات ہیں، جو اس سے قبل اُردو زبان میں موجود نہیں ہیں۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء
ح م
ظہورِ اسلام کے وقت اور اس کے بعد فن تحریر
نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک ناخواندہ اور اَن پڑھ قوم میں مبعوث ہوئے جو من حیث القوم حساب و کتاب کی صلاحیت سے بے بہرہ اور رسم الخط و فن تحریر سے نا آشنا تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے کچھ عرصہ پہلے پورے جزیرۂ عرب میں تھوڑی سی تعداد؛ قبیلہ قریش کے دس بارہ افراد اور اہل مدینہ کے آس پاس بسنے والے یہودیوں کی ایک محدود تعداد خط و کتابت سے واقف تھی۔ ان میں سے حضرت ابو بکرؓ، عمرؓ بن خطاب، علیؓ بن ابی طالب، عثمانؓ بن عفان، طلحہؓ بن عبید اللہ، ابو سفیانؓ بن حرب، معاویہؓ بن ابو سفیانؓ، اُباب بن سعیدؓ اور علا بن یزید حضرمی مکہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ مدینہ منورہ میں عمرو بن سعیدؓ، اُبی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ، منذر بن عمروؓ اور ایک یہودی تھا جو بچوں کو فن تحریر سکھایا کرتے تھے۔
جزیرۂ عرب کے کونہ کونہ میں کتابت کا انحصار اِن چند گنے چنے افراد پر تھا۔ پوری قوم عرب میں تعلیم کو اس قدر کمیابی کی بنیاد پر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس لحاظ سے ایک اَن پڑھ قوم تھی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ چنانچہ اسلام نے اپنے آغاز میں ہی ان پر اُمیت کی مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّیِّنَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ ءَایَٰتِہِۦ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ ٱلْکِتَٰبَ وَٱلْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَٰلٍ مُّبِینٍ ﴿۲﴾…سورة الجمعہ
”وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ ”
مؤرخین کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ کتابت اور رسم الخط میں قریشیوں کا اُستاد حرب بن اُمیہ بن عبد شمس ہے جو صحابیِ رسول ابو سفیانؓ کا والد تھا۔ وہ تجارت کی غرض سے اکثر مختلف علاقوں کا سفر کرتا رہتا تھا۔ وہاں سے اس نے کتابت اور رسم الخط کا یہ فن سیکھا اور پھر قریشیوں کو سکھایا تو سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے مکہ میں رسم الخط کا آغاز ہوا۔ البتہ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حرب بن اُمیہ نے یہ فن کس سے سیکھا تھا؟ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے عبداللہ بن جدعان سے سیکھا تھا اور ایک روایت یہ ہے کہ بشر بن عبد الملک سے یہ فن حاصل کیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام دانی اپنی سند کے ساتھ زیاد بن اَنعم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا:
اے گرویانِ قریش! کیا آپ دورِ جاہلیت میں بھی یہ عربی رسم الخط لکھا کرتے تھے ؟
اُنہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے پوچھا: تمہیں یہ کتابت کس نے سکھائی تھی؟ فرمایا: حرب بن اُمیہ نے۔ میں نے کہا: حرب بن اُمیہ نے کس سے سیکھی؟ فرمایا: عبداللہ بن جدعان سے۔ میں نے کہا: عبداللہ بن جدعان کو یہ فن کس نے سکھایا؟ فرمایا: اہل اَنبار نے۔ میں نے کہا: اہل اَنبار کو کس نے سکھایا تھا؟ فرمایا: یمن کے خاندان کِندة کا ایک شخص ان کے پاس اچانک آیا تھا۔ میں نے کہا: اس آنے والے کو کس نے سکھایا تھا۔ فرمایا: خلجان بن موہم نے جو اللہ کے نبی حضرت ہود علیہ السلام پر اللہ عز و جل کی طرف سے نازل ہونے والی وحی لکھا کرتا تھا۔
کلبی نے عوانہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ مرامر بن مرہّ، اسلم بن سدرہ اور عامر بن جدرہ نے سب سے پہلے ہمارے اس رسم الخط میں تحریر کا آغاز کیا تھا، اور یہ سب لوگ عرب کے قبیلہ طَے سے تعلق رکھتے تھے اور اُنہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کے کاتب وحی سے یہ فن سیکھا تھا۔ پھر اُنہوں نے اہل انبار کو یہ فن سکھایا اور ان کے توسط سے کتابت کا یہ فن عراق، حیرہ وغیرہ کے علاقوں میں پھیل گیا۔ وہاں صاحب دومة الجندل اُکیدر بن عبد الملک کے بھائی بشر بن عبد الملک نے کتابت سیکھی اور چونکہ حرب بن اُمیہ کا بلادِ عراق میں بغرضِ تجارت ان کے پاس آنا جانا تھا، لہٰذا حرب نے اُن سے کتابت کا فن سیکھا اور پھر قریشیوں کو اس کی تعلیم دی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ بشر نے حرب کے ساتھ مکہ کا سفر کیا اور وہیں مکہ میں ہی ابو سفیان کی بہن صہبا بنت حرب سے شادی کر لی۔ وہاں اہل مکہ کی ایک جماعت نے ان سے کتابت کا یہ فن سیکھا۔ پھر ظہورِ اسلام سے قبل تک قبیلۂ قریش میں اس فن کے جاننے والوں میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ پہلی روایت کی رو سے عبداللہ بن جدعان حرب بن اُمیہ کے استاد قرار پاتے ہیں جبکہ دوسری روایت بشر بن عبد الملک کو حرب کا اُستاد بتاتی ہے۔
قطع نظر اس سے کہ اس سلسلہ میں حرب بن اُمیہ کا استاد کون تھا، لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ جزیرۂ عرب میں ہجرتِ نبویؐ تک کتابت کے فن سے بہت تھوڑے افراد آشنا تھے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپؐ نے فن کتابت کی طرف بطورِ خاص توجہ دی، اسے سیکھنے کی ترغیب دلائی اور اس کی تعلیم کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں قریش کو شکست فاش ہوئی اور ان کے 70 سردار قیدی بنا لئے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قید سے رہائی کے لئے مالی فدیہ عائد کر دیا اور جو لوگ یہ فدیہ اَدا نہیں کر سکتے تھے، ان میں سے کتابت کا فن جاننے والوں پر یہ شرط عائد کی گئی کہ اُنہیں اس وقت تک آزاد نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ہر شخص مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا نہیں سکھا دیتا۔ اور اس کے ساتھ ہی مدینہ منورہ میں کتابت اور تعلیم و تعلّم کے میدان سج گئے پھر جوں جوں فتوحات کا سلسلہ بڑھا اور اسلام کا دائرہ وسیع ہوا، اسی طرح کتابت اور تعلیم و تعلّم کا یہ سلسلہ بھی وسعت پذیر ہوتا رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ دورِ رسالتؐ میں ہی وحی لکھنے پر مقرر صحابہ کرامؓ کی تعداد چالیس ہو چکی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مسلم حکمرانوں نے تمام بلادِ اسلامیہ میں کتابت اور تعلیم کی اشاعت میں کا رہائے نمایاں انجام دیئے تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام اور ذرائع و وسائل علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اُنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسانیت کو ترقی کے اَوجِ کمال پر فائز کرنے کے لئے تمام علمی اور عملی کاوشیں بروئے کار لاتا ہے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ حرب بن اُمیہ نے جو رسم الخط سیکھا اور قریشیوں کو سکھایا تھا، وہ انباری حیری رسم الخط تھا جو حجاز میں منتقل ہونے کے بعد حجازی رسم الخط کے نام سے موسوم ہوا اور اس وقت کاتبینِ عرب کے ہاں یہی رسم الخط متداول اور رائج تھا۔ اسی رسم الخط میں وہ اپنے خطوط اور اشعار وغیرہ لکھا کرتے تھے۔ جب اسلام دنیا کے نقشہ پر ظاہر ہوا تو اس نے کتابت وحی کے لئے اسی رسم الخط کو اختیار کیا۔ حضرت ابو بکرؓ کے صحیفے اور اس کے بعد مصاحف عثمانیہ اسی رسم الخط میں تحریر کئے گئے تھے۔ اور یہی رسم الخط ایک عرصہ لوگوں کے درمیان مسلسل متداول رہا جس میں وہ مصاحف اور احادیث کی کتابت کیا کرتے تھے۔
پھر جب فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا، بہت سے نئے شہر آباد ہو گئے تو اسی دوران کوفہ سے فن خطاطی کے ماہرین کی ایک جماعت مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہوئی جہاں اُنہیں عربی رسم الخط کو خوبصورت اور عمدہ بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ اس کے بعد ایک وقت آیا کہ اہل کوفہ کا یہ خط اپنی طرز و صورت میں خط حجازی سے بازی لے گیا۔ اسی وقت سے اس خط حجازی کو خط کوفی سے موسوم کر دیا گیا۔ اس کے بعد مصاحف اور احادیث اسی خط میں لکھے جانے لگے۔
مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ خط ماہرین فن کے ہاتھوں ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ حتی کہ قطبہ محرر، ضحاک بن عجلان اور اسحق بن حماد جیسے فن خطاطی کے ماہرین نے اس خط کے حسن کو کمال تک پہنچا دیا۔ قطبہ نے خط کوفی اور حجازی کو ملا کر ایک نیا خط تخلیق کیا۔ اس وقت جو خط رائج ہے، اس کی اساس یہی خط ہے۔
پھر عباسی دورِ حکومت میں دیگر فنی علوم کے ساتھ ساتھ عربی خط میں بھی ارتقا ہوا۔ عباسیوں کے سنہری دورِ حکومت کے ایک نامور وزیر ابو علی محمد بن مقلہ نے اپنی بے پناہ ذہانت اور کمالِ مہارت سے قطبہ کے کام کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ عربی کتابت کو خط کوفی سے موجودہ شکل میں لا نے کے لئے اس نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو صرف کیا۔ اس نے عربی کتابت کی بے شمار شکلیں اور ایک ایک شکل کی کئی کئی صورتیں اور فروعات ایجاد کیں۔
اس کے بعد جوابن بواب علی بن ہلال بغدادی نے ابن مقلہ کے منہج پر اس کام کو آگے بڑھایا۔ ابن مقلہ کے طریقۂ خطاطی کو اختیار کرتے ہوئے اس میں تہذیب و تنقیح کی، اس کے قواعد کو مکمل کیا۔ اس میں مزید نکھار اور حسن پیدا کیا اور اسے انتہائی کمال تک پہنچا دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقہ میں علما اور خطاطوں نے خطاطی اور اِملا کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، اس میں حسن اور تنوع پیدا کرنے کے لئے تکالیف اُٹھائیں، اسے پروان چڑھانے اور خوبصورت بنانے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی کی یہاں تک کہ یہ فن یکسانیت اور خوبصورتی اور صفائی میں اپنی انتہا تک پہنچ گیا۔
رسول اللہﷺ کے دور میں کتابت قرآن اور اسے لکھنے والے مشہور صحابہؓ
یہ حکمت الٰہی کا تقاضا تھا کہ اس نے دیگر آسمانی کتب کی طرح قرآنِ کریم کو ایک ہی دفعہ نازل نہیں کیا بلکہ حالات کے مطابق اسے تھوڑا تھوڑا نازل کیا جاتا رہا، کیونکہ اسی میں عظیم حکمتیں اور بے شمار مصلحتیں کارفرما تھیں۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
ان میں سے ایک حکمت یہ تھی کہ قرآنِ کریم ان حالات کے مطابق نازل ہو رہا تھا جو عہد نبوت میں پیش آتے رہے، جو بھی معاملہ پیش آتا اس کے متعلق آیاتِ قرآنی کا نزول ہوتا اور اس کے متعلق اللہ کا حکم واضح کر دیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی طرف سے جو سوالات کئے جاتے، ان کے مطابق جواب کے طور پر آیاتِ قرآنی نازل کر دی جاتی تھیں۔ اسلام دشمن عناصر کے دلوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے، ان کے جواب کے لئے قطعی دلائل پر مبنی آیاتِ قرآنیہ نازل ہوتیں اور مسلمانوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے عقائد، شرائع و احکام اور فضائل کے متعلق آیاتِ قرآنی کا نزول ہوتا تھا۔
اس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ قرآنِ مجیدکا چیلنج اور اعجاز زیادہ بلیغ اور نمایاں انداز میں دنیا کے سامنے آ جائے۔
اُمت کی دینی اور اخلاقی تربیت ایک ترتیب اور تدریج کے ساتھ اس طرح کی جائے کہ وہ اللہ کی زمین پر خلافت کا منصب سنبھالنے کے لئے تیار ہو سکے۔
قرآنِ کریم کو حفظ کرنے، اسے سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے میں آسانی رہے۔
اور ایک اہم حکمت یہ تھی کہ نزاعات اور کفار کی طرف سے زبردست مخالفت کے موقعوں پر قرآنِ مجید کا نزول آپ کے لئے تسلی اور سہارے کا باعث بن جائے اور رنج و اَلم کی وہ کیفیت رفع ہو جائے جو قوم کے راہِ راست سے دوری کے سبب آپؐ کو لاحق ہوتی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پوری قوت اور اطمینانِ قلب کے ساتھ اپنے آپ کو دعوت دین کے لئے تیار کر لیں۔ یہ وہ مصلحتیں تھیں جن کی وجہ سے قرآنِ کریم کو 23 سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا۔
قرآنِ کریم نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتا، آپؐ خود بھی اسے حفظ کرتے اور لوگوں تک اسے پہنچاتے اور کاتبینِ وحی کو اسے تحریر میں لانے کا حکم دیتے اور ساتھ یہ رہنمائی کرتے کہ اس سورہ کو پہلے سے تحریر شدہ حصہ کی فلاں سورة کے ساتھ رکھ دو اور اس آیت کو فلاں سورہ میں رکھ دو۔ صحابہ کرامؓ کا حال یہ تھا کہ بعض تو قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے سن کر حفظ کر لیتے اور بعض حفظ کے ساتھ ساتھ اسے لکھ بھی لیتے۔ چنانچہ کسی کے پاس ایک سورہ، کسی کے پاس پانچ دس سورتیں، کسی کے پاس زیادہ اور کسی کے پاس تھوڑا اور بعض نے مکمل قرآن کریم لکھ کر یا حفظ کر کے اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔
کاغذ کی کم یابی کی وجہ سے صحابہ کرامؓ قرآنِ کریم کو کھجور کے چوڑے پتوں، باریک پتھروں، کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں، حیوانات کے شانے کی چوڑی ہڈیوں اور پسلی کی ہڈیوں پر لکھتے تھے۔ وہ صحابہ کرام جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے قرآنِ کریم کے سامنے بیٹھ کر قرآن کریم کو لکھا، ان میں حضرت ابو بکرؓ صدیق، عمرؓ بن خطاب، عثمانؓ بن عفان، علیؓ بن ابی طالب، معاویہؓ بن ابن سفیانؓ، ابانؓ بن سعید، خالدؓ بن ولید، اُبیؓ بن کعب، زیدؓ بن ثابت، ثابتؓ بن قیس اور دیگر متعدد جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین شامل ہیں۔
اور دورِ نبوت ابھی اختتام پذیر نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ کریم مکمل طور پر لکھا ہوا موجود تھا، البتہ سورتوں کی موجودہ ترتیب کے ساتھ ایک جگہ پر باقاعدہ مصحف کی شکل میں لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُنہیں قرآنِ کریم باقاعدہ مصحف کی شکل میں لکھنے کا حکم بھی نہیں دیا تھا، کیونکہ صحابہ کرامؓ قرآنِ کریم کو حفظ کرنے پر اپنی توجہ صرف کر رہے تھے۔ نیزدورِ نبوت میں قرآنِ کریم کے بعض مقامات پر اضافہ اور بعض آیات کے منسوخ ہونے کا امکان بھی اس امر سے مانع تھا کہ اسے باقاعدہ مصحف میں مرتب انداز سے مدوّن کر دیا جاتا۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سانحۂ ارتحال کے بعد جب نزولِ قرآن کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اس میں حذف و اضافہ کا امکان بھی باقی نہ رہا تو اللہ نے خلفائے راشدین کے دل میں قرآنِ کریم کو ایک مقام پر مصحف کی شکل میں جمع کرنے کی بات ڈال دی تاکہ اس اُمت سے قرآن کی حفاظت کا کیا ہوا سچا وعدہ پورا ہو سکے۔ چنانچہ اس مبارک کام کا آغاز حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ کی باہم مشاورت سے حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھوں ہوا جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں پیش کی جا رہی ہے۔
دورِ رسالتؐ میں قرآن مجید کی حفاظت کے لئے کتابت اور حفظ کے ساتھ ساتھ مزید اہتمام یہ بھی تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہر سال ماہِ رمضان میں جبریلِ امین کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور کرتے یعنی اُن سے سنتے اور اُنہیں سناتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر آخرت اختیار کیا، اس سال دو دفعہ قرآن کریم کا دور کیا۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ میں حضرت فاطمہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے کان میں یہ بات کہی کہ جبریل امین میرے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور کرتے تھے، لیکن اس سال مجھ سے دو دفعہ دور کیا ہے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ 1
الغرض قرآنِ کریم دورِ نبویؐ میں مکمل طور پر لکھا ہوا موجود تھا، لیکن وہ سورتوں کی ترتیب کے ساتھ باقاعدہ مصحف کی شکل میں نہیں بلکہ کھجور کی چھال اور ہڈیوں وغیرہ پر بکھرا ہوا تھا اور اس کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے سینوں میں بھی محفوظ تھا۔ بعض صحابہؓ وہ تھے جنہیں ہمہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ میسر ہونے کی وجہ سے مکمل قرآن مجید یاد تھا مثلاً خلفائے اربعہ اور دیگر متعدد صحابہ کرام جبکہ بعض وہ تھے جنہیں قرآنِ مجید کا اکثر حصہ یاد تھا اور بعض کو قرآن کا کچھ حصہ یاد تھا۔
حضرت ابو بکرؓ کے دور میں جمع قرآن اور اس کے اسباب
عربی زبان میں ‘جمع القرآن’ کا لفظ دو معانی میں استعمال ہوتا ہے:
زبانی حفظ کے معنی میں
کتابت اور تدوین کے معنی میں
اور حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت قرآن کا انتظام ہوا۔ جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآنِ کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور قرآنِ کریم آپؐ کے صفحاتِ قلب پر نقش تھا۔ نیز آپ کے دور میں متعدد صحابہؓ قرآنِ کریم کے حافظ تھے۔ مہاجرین صحابہ کرام میں خلفائے اربعہ، طلحہ، سعد، حذیفہ بن یمان، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ابو ہریرہ، ابن عمر، ابن عباس، عمرو بن العاص، ان کے بیٹے عبداللہ، معاویہ، ابن زبیر، عبداللہ بن سائب، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو مکمل قرآنِ کریم حفظ تھا۔ اور انصاری صحابہؓ میں اُبی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، ابو دردائ، مجمع ابن حارثہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور دیگر متعدد صحابہ کرامؓ حافظ قرآن تھے۔
جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت قرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دورِ نبویؐ میں بخوبی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نگرانی میں اور آپؐ کے سامنے مکمل قرآنِ کریم لکھا گیا، اگرچہ پتھروں، کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر ہی سہی، لیکن یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ کریم اکثر صحابہ کے سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیا پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا۔
جب حضرت ابو بکرؓنے __جو سب سے بڑھ کر منصب خلافت کے مستحق تھے __ تمام صحابہؓ کی بیعت کے ساتھ مسند خلافت پر قدم رکھا تو ایک بہت بڑے واقعہ نے اُنہیں قرآنِ کریم کو مصحف کی شکل میں جمع کرنے پر آمادہ کیا کیونکہ اس واقعہ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآنِ کریم کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ واقعہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتدینِ اسلام سے مسلمانوں کی جنگ چھڑ چکی تھی اور یہ ایک بہت بڑی جنگ تھی۔ ایک طرف مرتدین تھے اور ان کے مقابلے میں تمام اُمت مسلمہ بر سر پیکار تھی۔ تاریخ میں اس لڑائی کو ‘جنگ یمامہ’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو حضرت عمرؓ بن خطاب سخت غمناکی کے عالم میں حضرت ابو بکرؓ کے پاس تشریف لائے اور اُنہیں معاملہ کی سنگینی سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اگر قراء صحابہ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو خطرہ ہے کہ قرآنِ کریم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ لہٰذا اُنہوں نے قرآنِ کریم کو مدوّن کرنے کی تجویز پیش کی۔
حضرت ابو بکرؓ صدیق کو پہلے تو اس کام میں تردّد ہوا کہ یہ ایک نیا کام تھا جو دور نبوت میں نہیں ہوا تھا اور حضرت ابو بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کے شدید حریص ہونے کے ناطے آپؐ کی سنت میں سر مو اِنحراف نہیں کر سکتے تھے، لیکن حضرت عمرؓ سے طویل مذاکرات کے بعد، وہ ان کی رائے کے قائل ہو گئے۔ جمع قرآن کی مصلحت ان کے سامنے واضح ہو گئی اور وہ جان گئے کہ حفاظت قرآن کے لئے قرآنِ کریم کو جمع کرنے کا یہ اقدام انتہائی ضروری ہے، لہٰذا اُنہوں نے حضرت عمرؓ کی رائے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا اور دیگر اہم معاملات کی طرح اس عظیم معاملہ سے بھی وہ نہایت کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوئے۔
چنانچہ اس کام کے لئے صحابہ کی باہم مشاورت سے حضرت زید بن ثابتؓ کا انتخاب ہوا۔ بڑی عمر کے قدیم الاسلام اور جلیل القدر صحابہ کی موجودگی کے باوجود حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت زید بن ثابت کو اس لئے ترجیح دی کہ وہ ان مشہور صحابہ میں سے تھے جو قرآنِ کریم کے پختہ حافظ، ماہر قاری، اس کے حروف کے شناور اور اعراب القرآن و لغات القرآن کے جید عالم تھے اور وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وحی لکھنے پر مامور رہے۔ نیز وہ جبریل ؑ امین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری دور قرآنی میں بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ وہ نہایت عقل مند اور ذہین، زہد و ورع کے پیکر، مجسمۂ دین و عدالت، قرآن کے امین اور اپنے دین و اخلاق کے حوالے سے بے عیب تھے۔ اس طرح ان میں بیک وقت ایسی خوبیاں اور خصوصیات جمع ہو گئیں تھیں جو بعض کبار صحابہ میں بھی یکجا نہیں تھیں۔ یہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس عظیم کام کے لئے ان کا انتخاب کیا۔
جب وہ حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُنہوں نے جمع قرآن کا یہ منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ میں نے اس عظیم کام کی انجام دہی کے لئے آپ کا نام تجویز کیا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کو اس میں تردّد ہوا لیکن بالآخر وہ حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کے ساتھ بحث و تمحیص کے بعد دونوں بزرگوں کی رائے اور اس کی اہمیت کے قائل ہو گئے اور پھر اُنہوں نے اس مقدس کام کا آغاز کر دیا۔
اُنہوں نے جس جس صحابی کے پاس قرآن کریم کا کوئی مجموعہ موجود تھا، اسے حاصل کیا۔ کھجور کی چھال، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو مدوّن کرنا شروع کیا اور صرف اُنہی مجموعوں کو پیش نظر رکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھے گئے تھے۔ وہ خود بھی حافظ قرآن تھے لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے کتابت قرآن کو اس لئے پیش نظر رکھا تاکہ ضبط اور حفاظت قرآن میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے اور اس طرح اُنہوں نے قرآنِ مجید کو صحیفوں میں مدوّن کر دیا۔
اس دور کی پوری تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے اور حضرت زید بن ثابتؓ ہی اس حدیث کے راوی ہیں کہ جنگ یمامہ میں متعدد صحابہؓ کی شہادت کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مجھے بلایا۔ حضرت عمر فاروقؓ بھی ان کے پاس تشریف فرما تھے۔ ابو بکرؓ نے بات شروع کی کہ عمرؓ میرے پاس آئے ہیں اور کہا ہے کہ جنگ یمامہ میں بے شمار قرا صحابہ کرام شہید کر دیے گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر مختلف علاقوں میں قراء صحابہ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآنِ کریم کا اکثر حصہ ضائع ہو جائے گا، لہٰذا آپ قرآنِ کریم کو جمع کرنے کا حکم صادر کریں۔ میں نے عمرؓ سے کہا: ہم وہ کام کیسے کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انجام نہیں دیا۔ عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ کام انتہائی بہتر ہے۔ وہ مسلسل مجھ سے تبادلۂ خیال کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کام کے لئے کھول دیا ہے۔ اب اس سلسلہ میں میری بھی وہی رائے ہے جو عمرؓ کی ہے۔ پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا:
”تم ایک ذہین نوجوان ہو، تم میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو نیز تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وحی لکھتے رہے ہو، لہٰذا قرآن کریم کو جمع کرو اور اسے مدوّن کر دو۔ ”
اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے کہتے کہ اس پہاڑ کو اُٹھا کر وہاں منتقل کر دو تو یہ میرے لئے اتنا گراں بار نہیں تھا جتنا قرآنِ کریم کو مدوّن کرنا۔ چنانچہ میں نے کہا: آپؓ وہ کام کیسے کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں کیا۔ اُنہوں نے کہا: اللہ کی قسم !اسی کام میں بہتری اور مصلحت ہے۔ حضرت ابو بکرؓ مسلسل مجھ سے تبادلۂ خیال کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کی طرح میرا سینہ بھی کھول دیا، لہٰذا میں نے قرآنِ کریم کو تلاش کیا اور اسے کھجور کی چھال، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کر دیا۔
سورۂ توبہ کی آخری دو آیات {لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِٱلْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ ﴿۱۲۸﴾ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِىَ ٱللَّہُ لَآ إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ ۖ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ ۖ وَہُوَ رَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِیمِ ﴿۱۲۹﴾…سورة التوبہ} (بطورِ شہادت مجھے کسی کے پاس لکھی ہوئی مل نہیں رہی تھیں جو ) بالآخر حضرت ابو خزیمہ انصاریؓ کے پاس مل گئیں (اور اس طرح یہ مصحف مکمل ہو گیا) جو حضرت ابو بکرؓ کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ پھر حضرت عمرؓ کے پاس اور پھر حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہا۔ 2
صحیح بخاری کی یہ حدیث اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ مصحف کی شکل میں قرآنِ کریم پہلی دفعہ حضرت ابو بکرؓ کے دور میں جمع ہوا جو اس سے پہلے کھجور کی چھال اور پتھروں اور کتابت کے لئے رائج دیگر چیزوں پرلکھا ہوا موجود تھا اور اس کے ساتھ صحابہ کرام کے سینوں میں بھی محفوظ تھا اور اس کام کے لئے حضرت ابو بکرؓ صدیق نے زیدؓ بن ثابت کو اس لئے متعین کیا کہ وہ اپنی جامع صفات کی وجہ سے اس کے لئے دیگر صحابہؓ کی نسبت زیادہ موزوں تھے۔
حضرت زید بن ثابت نے جمع قرآن کے سلسلہ میں دو مصادر پر اعتماد کیا:
جو قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا اور
جو حفاظ کرام کے سینوں میں محفوظ تھا
حضرت زیدؓ بن ثابت کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لکھی ہوئی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کرتے تھے جب تک کہ حتمی توثیق نہ کر لیتے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھی گئی تھی اور عرضۂ اَخیرہ کے وقت اسے ثابت رکھا گیا تھا اور اس کی تلاوت منسوخ نہیں کی گئی۔ نیز اس وقت تک کوئی چیز قبول نہ کرتے جب تک دو صحابی گواہی نہ دے دیتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھی گئی تھی۔
اس کی دلیل وہ روایت ہے جو امام ابن ابی داؤد نے یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب کے حوالہ سے بیان کی ہے کہ حضرت عمرؓ تشریف لائے اور فرمایا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآنِ کریم کا کوئی حصہ حاصل کیا ہے، وہ اسے لے آئے۔ اور صحابہ کرامؓ نے مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے اپنے اپنے صحیفے تیار کر رکھے تھے اور وہ اُنہیں اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ دو شخص ان کے بارے میں گواہی نہ دے دیتے۔ 3
امام سخاوی فرماتے ہیں: مراد یہ ہے کہ یہ گواہی بھی لی جاتی تھی کہ لکھی ہوئی یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھی گئی تھی۔ نیز حضرت زیدؓ نے تنہا حفظ پر ہی اعتماد نہیں کیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۂ براء ة کی آخری آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علاوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں، لیکن اس وقت اُنہیں درج نہیں کیا جب تک کہ حضرت خزیمہؓ کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی اور حفظ کے ساتھ کتابت کو ملحوظ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ زیادہ توثیق اور احتیاط کا اہتمام ہو سکے۔
کتابت قرآن کے سلسلہ میں حضرت زیدؓ نے یہ اہتمام بھی کیا کہ اس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔ عرضۂ اخیرہ کے وقت اسے باقی رکھا گیا ہو اور اس کی تلاوت منسوخ نہ ہوئی ہو۔ وہ اخبار آحاد سے ثابت نہ ہو اور نہ ہی وہ قرآنِ کریم کی کوئی شرح اور تاویل ہو اور اس کی سورتیں اور آیات دونوں مرتب ہوں۔ اور اسے آیات اور سورتوں دونوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا جائے۔ چنانچہ اس لائحہ عمل کے مطابق حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی زیر نگرانی حفاظ کے سینوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھے گئے صحائف سے قرآنِ کریم کی جمع و تدوین پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ دورِ صدیق میں قرآنِ کریم کی یہ جمع و تدوین حضرت ابو بکر صدیقؓ کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے قرآنِ کریم کو بکھرنے اور ضائع ہونے سے بچانے کا سامان کیا گیا۔ ان کے اس کارنامے کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے فرمایا تھا:
أعظم الناس فی المصاحف أجرا أبوبکر۔ رحمة اللہ علی أبی بکر ہو أول من جمع کتاب اللہ تعالیٰ4
”مصاحف کے ضمن میں سب سے بڑھ کر اَجرو ثواب کے مستحق حضرت ابو بکرؓ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ابو بکر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ اُنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کرنے کا اہتمام کیا۔ ”
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس کام کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا یہ کام بدعت یا خلافِ اسلام ہرگز نہیں تھا، بلکہ شریعت مطہرہ کے ان اُصولوں کے مطابق تھا جو کتابت قرآن کے سلسلہ میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضع فرما دیئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وحی کو لکھنے کے لئے کاتبین کی ایک جماعت کو مقرر کرنا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ ابو بکرؓ کا کام عین سنت کے مطابق تھا۔ چنانچہ ابو عبداللہ المحاسبی فرماتے ہیں:
کتابة القرآن لیست محدثة5
”قرآنِ کریم کی کتابت قطعاً بدعت نہیں ہے۔ ”
بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآنِ کریم کو لکھنے کا حکم دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں مکمل قرآن مجید لکھا ہوا موجود تھا، لیکن چونکہ وہ مختلف چیزوں پر بکھرا ہوا تھا لہٰذا ابو بکر صدیقؓ نے اس بکھرے ہوئے مواد کو اسی ترتیب سے ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا۔
قرآنِ مجید کے یہ صحیفے خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ان کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے پاس منتقل کر دیے گئے اور پھر ان کے دورِ خلافت میں اُنہیں کے پاس رہے۔ والد کی وفات کے بعد حضرت حفصہؓ کے پاس رہے۔ جب مروان مدینہ منورہ کا گورنر مقرر ہوا تو اُنہوں نے یہ صحیفے حضرت حفصہ سے طلب کئے لیکن اُنہوں نے دینے سے انکار کر دیا۔ جب حضرت حفصہؓ کی وفات ہو گئی تو مروان ان کے جنازہ میں شریک ہوئے اور ان کے بھائی عبداللہ سے وہ صحیفے منگوائے اور اُنہیں نذرِ آتش کروا دیا اور کہا:
إنما فعلت ھذا لأن … فخشیت أن طال بالناس زمان أن یرتاب فی شأن ھذہ الصحف مرتاب6
”میں نے یہ کام اس خدشہ کے پیش نظر انجام دیا کہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد کہیں کوئی شخص ان صحیفوں کے متعلق شک و شبہ کا شکار نہ ہو۔ ”
یاد رہے کہ مروان بن حکم نے یہ کام اس وقت انجام دیا تھا جب حضرت عثمانؓ کے حکم سے مصاحف عثمانیہ مدون ہو کر مختلف علاقوں کو روانہ کر دیئے گئے تھے اور حضرتؓ عثمان نے مصاحف کے علاوہ دیگر تمام صحیفوں اور مصاحف کو نذرِ آتش کروا دیا تھا جس کی تفصیل آئندہ سطور میں آ رہی ہے۔
حضرت عثمانؓ کے عہد میں جمع قرآن اور اس کے اسباب
وہ صحیفے جو حضرت زید بن ثابتؓ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے حکم سے مدوّن کئے تھے، حضرت عثمانؓ کی خلافت کے آغاز سے ہی حضرت حفصہؓ کے پاس تھے۔ پھر جب حضرت عثمانؓ کے دور میں فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا اور مسلمان عرب سے نکل کر دور دراز علاقوں میں پھیل گئے تو مملکت اسلامیہ میں شامل ہر علاقہ کے لوگوں نے اپنے علاقہ کے مشہور قاری سے اس کی قرأت کے مطابق قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ چنانچہ اہل شام اُبی بن کعب کی قرأت پڑھتے تھے۔ اہل کوفہ عبداللہ بن مسعود کی قرأت پڑھتے تھے اور دیگر لوگ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی قرأت کے مطابق پڑھتے تھے اور وجوہِ قرأت میں ان کے درمیان اختلاف تھا۔ وجوہِ قرأت میں اس اختلاف کی بنیاد یقیناً یہی تھی کہ قرآنِ کریم کو اللہ کی طرف سے سات حروف پر نازل کیا گیا تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ 7
چنانچہ جب مختلف علاقوں کے لوگ کسی مجلس یا دشمنوں کے خلاف جہاد کے موقع پر جمع ہوتے اور قرأت کا یہ اختلاف سنتے تو اُنہیں سخت تعجب ہوتا۔ حتیٰ کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں قرأت قرآنیہ کے متعلق باہم اختلاف اور جھگڑے شروع ہو گئے۔ ہر فریق اپنی قرأت کو برحق اور دوسرے کی قرأت کو غلط قرار دینے لگا۔ بعض فخریہ انداز میں اپنی قرأت کو دوسرے کی قرأت سے بہتر قرار دیتے۔ پھر مقابلہ میں وہ بھی یہی رویہ اختیار کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اختلاف اس حد تک بڑھ گیا کہ اُنہوں نے ایک دوسرے کو گنہگار کہنا شروع کر دیا۔
اس اختلاف کی شدت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے جو حضرت عثمانؓ کے عہد کے دوسرے یا تیسرے سال 25ہجری کو پیش آیا تھا۔ اور یہی واقعہ مصاحف کی تدوین کا باعث ہوا۔ واقعہ یہ ہوا کہ اہل عراق اور اہل شام آرمینیا اور آذربائیجان کے محاذ پر جہاد کے لئے جمع ہوئے۔ اہل علاقہ کے لشکر میں حضرت حذیفہؓ بن یمان بھی اس محاذ پر شریک جہاد تھے۔ وہاں اُنہوں نے دیکھا کہ مسلمان قراء توں کے بارے میں سخت اختلاف کر رہے ہیں اور یہ بھی سنا کہ ہر فریق دوسرے کو ان وجوہِ قرأت میں اختلاف کی وجہ سے گناہگار قرار دیتا اور اسے تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
حضرت حذیفہؓ نے اس معاملہ کو انتہائی سنگین سمجھا اور بھاگم بھاگ حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور اُنہیں اس صورتِ حال سے آگاہ کیا اور عرض کی: (أدرک الناس قبل أن یختلفوا فی کتابھم کما اختلف الیھود والنصاریٰ) ”امیرالمومنین! پہلے اس سے کہ یہ اُمت یہود و نصاری کی طرح اختلاف کا شکار ہو، اس کا علاج کر لیجئے۔ ”
حضرت عثمانؓ نے اپنی دور اندیشی اور بے پناہ ذہانت سے یہ بھانپ لیا کہ یہ اختلاف ایک بہت بڑے شر کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اور اگر حکمت اور دانش مندی سے اس کا علاج نہ کیا گیا تو اس کے نہایت خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے اس سنگین صورت حال سے اُمت کو بچانے کے لئے جلیل القدر صحابہ کرام کو جمع کیا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ان سے مشورہ طلب کیا۔
کافی غور و خوض کے بعد تمام صحابہ کرامؓ اس بات پر متفق ہو گئے کہ سبعة أحرف کی رعایت کرتے ہوئے کچھ مصاحف تیار کئے جائیں اور ہر علاقہ کی طرف ایک مصحف کا نسخہ روانہ کر دیا جائے تاکہ وہ اختلاف اور جھگڑے کے وقت اس کی طرف رجوع کر سکیں اور ان مصاحف کے علاوہ باقی تمام صحیفے جلا دیئے جائیں۔ یہی وہ قابل اعتماد صورت تھی جس سے مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور اختلاف کو جڑ سے اکھیڑا جا سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے صحابہ کرامؓ کے اس متفقہ فیصلہ کے نفاذ پر کام شروع کر دیا۔ اس اہم مہم کو انجام دینے کے لئے درج ذیل جلیل القدر حفاظ صحابہ کرامؓ کا انتخاب عمل میں آیا
زید بن ثابتؓ: ان کو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جمع قرآن کے لئے منتخب کیا تھا، کیونکہ وہ مذکورہ بالا صفات کی بنا پر اس کام کے لئے انتہائی موزوں شخصیت تھے۔
عبداللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ اور عبد الرحمن بن الحارث بن ہشامؓ یہ تینوں صحابہ قریشی تھے۔
حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کے پاس جو صحیفے ہیں وہ ہمیں بھیج دیں۔ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے جمع قرآن کے لئے نامزد کمیٹی کے پاس بھیج دیئے۔ کمیٹی نے ان صحیفوں کو مد نظر رکھ کر مصاحف تیار کئے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مصاحف کی تیاری پر ۱۲ صحابہ کو مامور کیا گیا تھا جن میں اُبی بن کعب بھی شامل تھے۔
کتابت مصحف کے سلسلہ میں حضرت عثمانؓ کا دستور
واضح رہے کہ مصاحف کو نقل کرنے کا یہ سارا کام خود امیر المؤمنین حضرت عثمانؓ اور مہاجرین و اَنصار کبار صحابہ کرامؓ کی سرپرستی اور نگرانی میں ہو رہا تھا اور شدتِ اہتمام کا یہ عالم تھا کہ قرآنِ کریم کا ایک حرف بھی اس وقت تک لکھا نہیں کیا جاتا تھا جب تک اسے تمام صحابہ کرام پر پیش کر کے تصدیق نہیں کروا لی جاتی تھی کہ یہ واقعی قرآن ہے، اس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی اور اسے عرضۂ اَخیرہ میں برقرار رکھا گیا ہے۔
چنانچہ ایسی کوئی چیز رقم نہیں کی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہو اور عرضۂ اَخیرہ کے وقت اسے باقی نہ رکھا گیا ہو اور نہ ہی کسی ایسی چیز کو قرآنِ کریم میں جگہ دی گئی جو خبر واحد سے ثابت ہو یعنی اس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت نہ ہو سکا ہو۔ مثال کے طور پر وہ توضیحی اَقوال جو بعض صحابہ کرامؓ نے اپنے ذاتی مصاحف میں کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح یا ناسخ و منسوخ کی وضاحت کے سلسلہ میں درج کر لئے تھے اُنہیں قرآن سے خارج رکھا گیا۔
حضرت عثمانؓ نے متعدد مصاحف رقم کروائے تھے، جن کی تفصیل ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ تمام بلادِ اسلامیہ میں تمام صحابہ کرام کا مجمع و متفق علیہ مصحف روانہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ ان مصاحف کے رسم میں حذف و اثبات، اور حک و اضافہ کے اعتبار سے کسی قدر فرق بھی تھا۔ بعض میں ایک حرف یا لفظ زائد تو بعض میں کم تھا۔ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ ان سا توں حروف کا احاطہ ہو سکے جن پر قرآنِ کریم نازل ہوا تھا اور اسی غرض کے لئے ان مصاحف کو اِعراب اور نقطوں سے خالی رکھا گیا تھا۔ وہ کلمات جو ایک سے زائد قرائات پر مشتمل تھے اور اُنہیں نقطوں اور اعراب سے خالی رکھنے سے ان میں تمام قرائات سما سکتی تھیں، ایسے کلمات کو تمام مصاحف میں ایک ہی رسم پر لکھا گیا۔
مثال کے طور پر {فَتَبَیَّنُوْا} اور {نُنْشِزھَُا} اور {ھَیْتَ لَکَ} اور {أفٍّ} وغیرہ۔ باقی رہے وہ کلمات جو ایک سے زائد قرأت پر مشتمل تھے، لیکن اُنہیں نقطوں اور اعراب سے خالی رکھنے کے باوجود بھی ان کا رسم زیادہ قرأتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا تو ایسے کلمات کو ایک رسم پر لکھنے کی بجائے بعض مصاحف میں ایک رسم سے اور بعض مصاحف میں دوسری قرأت کے مطابق الگ رسم کے ساتھ لکھ دیا گیا۔
مثلاً سورۂ بقرہ کی آیت {وَوَصَّىٰ بِہَآ إِبْرَٰہِمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَٰبَنِىَّ إِنَّ ٱللَّہَ ٱصْطَفَىٰ لَکُمُ ٱلدِّینَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿۱۳۲﴾…سورة البقرة} کو بعض مصاحف میں ص سے پہلے دو واؤں کے ساتھ اور بعض میں ایک واؤ کے ساتھ لکھا گیا ہے اور دو واؤں کے درمیان الف موجود نہیں ہے جبکہ بعض مصاحف میں دو واؤ کے درمیان الف موجود ہے یعنی وَ اَوْصیٰ
اسی طرح سورۂ آلِ عمران میں {وَسَارِعُوٓا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ ﴿۱۳۳﴾…سورة آل عمران} بعض مصاحف میں سین سے پہلے واؤ موجود اور بعض میں محذوف ہے۔
اور {تَجْرِى مِن تَحْتِہَا ٱلْأَنْہَٰرُ…﴿۷۲﴾…سورة التوبہ} میں مکی مصحف میں تحتھا سے پہلے مِنْ کا اضافہ ہے اور باقی مصاحف میں مِنْ حذف ہے۔
واضح ہوا کہ جمع قرآن پر مامور کمیٹی نے اس نوع کے کلمات کو ایک ہی مصحف میں اکٹھا دو رسموں کے ساتھ نہیں لکھا کیونکہ اس میں یہ خدشہ پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ لفظ ایک ہی قرأت میں دو دفعہ نازل ہوا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی لفظ کی دو قرأتیں ہیں۔ یہ لفظ بغیر تکرار کے دو وجوہ میں نازل ہوا ہے۔ اور نہ ہی اُنہوں نے ایسے کلمات کو اس طرح دو رسموں کے ساتھ لکھا کہ ایک کو اصل متن میں رکھتے اور دوسرے کو حاشیہ میں رکھتے۔ کیونکہ اس سے یہ وہم پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید حاشیہ میں اصل متن کی تصحیح کی گئی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے کتابت مصاحف میں یہ طرزِ عمل کیوں اختیار کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے قرآنِ کریم ان تمام وجوہِ قرأت اور حروف کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کیا جن پر وہ نازل ہوا تھا چنانچہ قرآنِ کریم کی ان تمام وجوہ کا احاطہ کرنے کے لئے یہی منہج اور طریقہ سب سے زیادہ موزوں تھا۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُنہوں نے بعض قرائات کو حذف کر دیا تھا کیونکہ تمام قرأت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قراء کے جس اختلاف نے حضرت حذیفہؓ اور عثمانؓ کو پریشان کیا اور جو بالآخر کتابت قرآن کا باعث ہوا، وہ اختلاف سبعہ اَحرف اور قرأت کے سلسلہ میں ہی تھا جو صحابہ کرام نے عرضۂ اَخیرہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کی تھیں پھر بعض وجوہِ قرأت عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ ہو گئیں لیکن عرضۂ اخیرہ کے وقت حاضر نہ ہونے کی وجہ سے بعض قراء کو اس نسخ کا پتہ نہ چل سکا جس کی وجہ سے نزاع پیدا ہوا۔ اگر حضرت عثمانؓ کا تمام لوگوں کو ایک حرف پر جمع کرنا اور باقی حروفِ قرآنیہ کو ختم کرنا مقصود ہوتا تو مصاحف میں حذف و اثبات کا فرق کبھی واقع نہ ہوتا۔ الغرض اس طریقہ پر مصاحف کی کتابت اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمانؓ لوگوں کو منسوخ اور شاذ قرأت چھوڑ کر متواتر قرأت پر جمع کرنا چاہتے تھے۔
ï مزید برآں حضرت عثمانؓ نے کتابت مصاحف کے سلسلہ میں یہ طریقۂ کار بھی اختیار کیا کہ اُنہوں نے اس کام پر مامور تین قریشی صحابہ کو یہ تاکید کی کہ اگر کسی لفظ کی کتابت میں تمہارا زیدؓ بن ثابت سے اختلاف ہو جائے تو اس لفظ کو لغت قریش کے مطابق لکھنا، کیونکہ یہ انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ لہٰذا ایسے ہی ہوا اور یہ بات ثابت ہے کہ لفظ تابوت کے متعلق ان کا اختلاف ہوا۔ حضرت زید کا خیال تھا کہ اسے ہاء کے ساتھ التابوہ لکھا جائے اور قریشی صحابہ کا خیال تھا کہ اسے تائے مفتوحہ کے ساتھ لکھا جائے۔ اُنہوں نے یہ معاملہ حضرت عثمانؓ کے ہاں پیش کیا تو اُنہوں نے حکم دیا کہ اسے تائے مفتوحہ کے ساتھ لکھا جائے کیونکہ لغت قریش میں یہ اسی طرح ہے۔
ان صدیقی صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ نے یہ صحیفے حضرت حفصہؓ کو واپس لوٹا دیے اور جو مصاحف اُنہوں نے تیار کئے تھے، ان میں سے ایک ایک مصحف مملکت اسلامیہ کے ہر علاقہ میں روانہ کر دیا اور شر انگیزی اور فتنہ کے دروازہ کو بند کرنے، نزاع کے استیصال اور تمام اُمت مسلمہ کے لئے ان مصاحف کو مرجع اساسی بنانے کے لئے ان کے علاوہ تمام صحیفوں یا مصاحف کو نذرِ آتش کروا دیا۔
صحیح بخاری میں اس کی تفصیل ان الفاظ میں مروی ہے کہ حضرت حذیفہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور اس وقت وہ آرمینیا اور آذربائیجان کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھے۔ وہ قرأت کے متعلق لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ اُنہوں نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمانؓ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! اس اُمت کو بچائیے پہلے اس سے کہ یہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ کے متعلق اختلاف کا شکار ہو جائے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت حذیفہؓ کو پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ صحیفے بھیج دو۔ ہم اُنہیں نقل کرنے کے بعد آپ کو واپس لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کے پاس بھیج دیئے۔ آپؓ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو ان صحیفوں کو کئی مصاحف میں نقل کرنے پر مامور کیا اور حضرت عثمانؓ نے کمیٹی کے قریشی صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
”اگر قرآنِ کریم کے کسی حصہ میں تمہارا اور حضرت زید کا اختلاف ہو جائے (کہ کون سا لفظ کس طرح لکھا جائے ؟) تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن کریم اُنہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ”
ان صحیفوں سے مصاحف نقل کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ نے وہ صحیفے حضرت حفصہؓ کو واپس لوٹا دیئے اور نقل کردہ مصاحف میں سے ہر علاقہ میں ایک مصحف روانہ کر دیا اور ان کے علاوہ باقی تمام صحیفوں اور مصاحف کو نذرِ آتش کروا دیا۔ ”
ابو قلابہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے تمام اہل علاقہ کو یہ لکھ بھیجا کہ تمہارے پاس جو کچھ تمہارے مصحف کے خلاف ہے، اس کو تلف کر دو لیکن اکثر روایات میں یہ ذکرہے کہ آپؓ نے اُنہیں جلانے کا حکم دیا تھا۔
بعض فاضل محققین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے دیگر صحیفوں کے ساتھ حضرت حفصہؓ کے صحیفوں کو جلانے کا حکم نہیں دیا تھا، اس لئے کہ یہ صحیفے ہی در حقیقت اصل بنیاد اور مصدر تھے جن کو مد نظر رکھ کر مصاحف نقل کئے گئے تھے اور ان صحیفوں پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔ اور ان صحیفوں اور عثمانی مصحف میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جہاں تک دیگر صحیفوں کا معاملہ تھا تو وہ چونکہ عثمانی مصاحف سے قدرے مختلف تھے جس کی وجہ سے اختلاف کا خدشہ تھا لہٰذا ان کو تلف کروانا عین حکمت و مصلحت کا تقاضا تھا۔
حوالہ جات
- رقم: 1621
- رقم: 4679، 4986
- المصاحف: 1؍37
- فتح الباری: 1/20
- البرہان: 1؍238
- المصاحف لابن ابی داود: 1/48
- صحیح بخاری: 2419، دیکھئے ‘محدث’ میں شائع شدہ مضمون ج 23؍عدد 4
جمع و تدوینِ قرآن کے اَدوار
گذشتہ تصریحات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ قرآنِ کریم کو تین مرتبہ جمع کیا گیا:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں
حضرت عثمان بن عفانؓ کے دور میں
لیکن ان تینوں اَدوار میں جمع قرآن کی نوعیت میں واضح فرق ہے۔ ذیل میں ہم فرق کی اس نوعیت کو واضح کریں گے:
عہد نبویؐ میں تدوین قرآن
عہد نبویؐ میں کتابت قرآن کی صورت یہ تھی کہ جب قرآنِ کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کاتب وحی کو یہ ہدایت فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیت کے بعد لکھا جائے، لیکن قرآنِ کریم کی یہ کتابت پتھر کی سلوں اور جانوروں کی ہڈیوں وغیرہ پر متفرق پارچوں کی شکل میں تھی، جیسا کہ اس کی وضاحت گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اگرچہ دورِ نبویؐ میں قرآنِ کریم کی حفاظت کا دارومدار حفظ پر تھا، لیکن اس کے باوجود اسے تحریر میں لانا اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے۔ نیز قرآنِ کریم صحابہ کرامؓ کے لئے ایک مقدس متاع کی حیثیت رکھتا تھا، لہٰذا اُنہوں نے انفرادی حیثیت سے بھی بطور یادگار اسے ضبط تحریر میں لانے کا اہتمام کیا، جیسا کہ عموماً نادر اور نایاب اشیا کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
حضرت ابو بکرؓ کے دور میں تدوین قرآن
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دورِ حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف پارچوں سے نقل کر کے ایک جگہ (کاغذ) پر یکجا کیا گیا۔ یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا (سورتیں مرتب نہیں تھیں )۔ اور ہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔ اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا۔ (اور وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔ )
دورِ صدیقی میں قرآنِ کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا، کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہؓ کی وفات سے قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ (نیز قرآنِ مجید کا ایک ایسا نسخہ تیار ہو جائے جس پر تمام اُمت کا اتفاق ہو۔ )
حضرت عثمانؓ کے دور میں تدوین قرآن
دورِ عثمانیؓ میں تدوینِ قرآن کی صورت یہ تھی کہ حضرت ابو بکرؓ کے تیار کردہ صحیفوں سے نقل کر کے (تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں لکھا گیا اور پھر اس نئے مرتب مصحف سے مزید) مصاحف تیار کئے گئے اور اُنہیں مختلف بلا دِ اسلامیہ میں بھیج دیا گیا۔
ان مصاحف کی تدوین کا مقصد اُمت مسلمہ میں وحدت و یگانگت پیدا کرنا اور اس فتنہ کی سرکوبی تھا جو مسلمانوں کی صفوں میں قرأت کے اختلاف کی وجہ سے سر اُٹھا رہا تھا تاکہ مسلمانوں کو ان ثابت اور متواتر قرأت پر جمع کیا جا سکے تھا جن پر یہ مصاحف عثمانیہ مشتمل تھے، البتہ ان میں وہ وجوہِ قرأت شامل نہیں تھیں جو آغازِ اسلام میں آسانی کی خاطر نازل ہوئی تھیں پھر عرضۂ اخیرہ میں انہیں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ قاضی ابو بکر باقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”لم یقصد عثمان قصد أبی بکر فی نفس جمع القرآن بین لوحین، وإنما قصد جمْعَہم علی القرأت الثابتة المعروفة عن النبی ! وإلغاء ما لیس کذلک، وأخذھم بمصحف لا تقدیم فیہ ولاتأخیر، ولا تأویل أثبت مع تنزیل ولا منسوخ تلاوتہ کتب مع مثبت رسمہ ومفروض قراء تہ، وحفظہ خشیة دخول الفساد والشبہأة علی من یأتی بعد ہ۔ ”
”حضرت عثمانؓ کا مقصد حضرت ابو بکرؓ کی طرح صرف قرآن کریم کو دو گتوں کے درمیان جمع کرنا نہیں تھا، بلکہ مسلمانوں کو ان تمام قرأت پر جمع کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت اور معروف تھیں۔ اور مقصد ایسی تمام قرأت کو خارج کرنا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت اور معروف نہیں تھیں۔ ایک ایسا مصحف اُمت کے لئے پیش کرنا تھا جس میں کوئی کمی بیشی، نہ تقدیم و تاخیر اور نہ کوئی ایسی قرأت یا آیت شامل ہونے پائے جس کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔ اور اس انداز سے لکھا جائے کہ اس کے رسم الخط میں تمام قرأت محفوظ ہو جائیں۔ تاکہ بعد میں کسی خرابی یا شبہات کے راہ پانے کا امکان ختم ہو جائے۔ 1
مصاحف کی تعداد
حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف تیار کروا کر مختلف علاقوں میں بھیجے تھے، اُن کی تعداد کے متعلق علما کے متعدد اقوال ہیں۔ جن میں صحیح ترین اور قرین قیاس قول یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چھ مصاحف تیار کروائے تھے: بصری مصحف، کوفی مصحف، شامی مصحف، مکی مصحف، ایک مدنی مصحف جو عام اہل مدینہ کے لئے تھا اور دوسرا مدنی مصحف جو حضرت عثمانؓ نے اپنے پاس رکھا تھا جو ‘مصحف امام ‘کے نام سے موسوم ہے۔
اس نام کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے سب سے پہلے یہی مصحف تیار کروایا تھا اور پھر اسی کو سامنے رکھ کر مصاحف کی مزید نقلیں تیار کی گئیں۔ اس اعتبار سے مصاحف عثمانیہ میں سے ہر مصحف کو بھی ‘مصحف امام’ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں وہ مصحف بھیجا گیا، وہاں کے لوگوں نے اس کی اقتدا کی تھی۔
مصاحف عثمانیہ کی حالت
گذشتہ صفحات میں ان خصوصیات اور امتیازات کا تذکرہ کیا گیا تھا، جن پر یہ مصاحف عثمانیہ مشتمل تھے۔ اب زیر نظر سطور میں یہ بتایا جائے گا کہ مصاحف عثمانیہ کس حالت میں تھے ؟کیا ان میں سا توں حروف جمع تھے جن پر قرآن کریم نازل ہوا تھا یا ان کی تدوین صرف ایک حرف پر ہوئی تھی اور باقی کو حذف کر دیا گیا تھا؟
یہ وہ سوال ہے جس کے متعلق علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
پہلا موقف: مصاحف عثمانیہؓ میں سات حروف میں سے صرف قبیلہ قریش کا ایک حرف باقی رکھا گیا اور باقی چھ حروف ختم کر دیئے گئے تھے۔ یہ لوگ اپنے موقف کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ (اصل میں قرآنِ کریم حرف قریش پر نازل کیا گیا تھا اور باقی) چھ حرف ابتداے اسلام میں اُمت کی آسانی اور ان سے مشقت دور کرنے کے لئے نازل کئے گئے تھے، کیونکہ آغازِ اسلام میں ہی تمام عرب قبائل (جن کے لہجات باہم مختلف تھے ) کو ایک ایسی لغت کا پابند کر دینا جس کی ان کی زبانیں عادی نہیں تھیں، ان کے لئے کافی دقت اور مشقت کا باعث بن سکتا تھا۔ بعد میں (جب تمام قبائلِ عرب، لغت قریش سے مانوس ہو گئے تو ) ان لغات اور حروف کی ضرورت باقی نہ رہی۔ چنانچہ جب حضرت عثمانؓ نے دیکھا کہ سات حروف اُمت مسلمہ کے درمیان افتراق و انتشار کا باعث بن رہے ہیں تو اُنہوں نے مصاحف میں کتابت شدہ ان حروف اور لغات میں سے صرف ایک لغت پر اکتفا کرنے کا حکم دیا کیونکہ قرآنِ کریم اصل میں اسی لغت پر نازل ہوا تھا۔ اور باقی حروف ابتداے اسلام میں آسانی کے پیش نظر نازل ہوئے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے جمع قرآن پر مامور کمیٹی کو یہ ہدایت کر دی:
إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شیء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نَزَل بلسانھم2
”جب قرآن کے کسی حصے میں تمہارا زید بن ثابت سے اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ یہ ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ”
دوسرا موقف: جمہور علمائے سلف و خلف کا ہے جو کہتے ہیں کہ مصاحف عثمانیہ سات حروف کی ان تمام جزئیات پر مشتمل تھے جن کا رسم عثمانی متحمل ہو سکتا تھا اور ان میں وہ تمام قرأت موجود تھیں جو عرضۂ اخیرہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جبرائیل ؑ کے ساتھ آخری دَورِ قرآن) میں باقی رکھی گئی تھیں۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ مصاحف عثمانیہ کا رسم نقطوں اور اِعراب سے خالی تھا تاکہ ان میں سا توں حروف سما سکیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ہر مصحف میں سا توں حروف کی تمام تر جزئیات جمع تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مصحف حروف سبعہ کی ان تمام جزئیات پر مشتمل تھا جو اس کے رسم میں سما سکتی تھیں۔ باقی رہیں حروف سبعہ کی وہ جزئیات جو ایک رسم کے تحت نہ آ سکیں، اُنہیں ان چھ مصاحف میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مثلاً {وَوَصّیٰ} کی قرأت مدنی اور شامی مصحف میں موجود نہیں ہے، لیکن باقی چاروں مصاحف میں موجود ہے۔ اسی طرح سورۂ توبہ کے آخر میں {تَجْرِی مِنْ تَحْتھِا} صرف مکی مصحف میں موجود ہے، باقی میں {تَجْرِیْ تَحْتھَا}ہے۔ اسی طرح کچھ اور قرأت بھی ہیں جو ایک رسم میں سما نہ سکنے کی وجہ سے بعض مصاحف عثمانی میں موجود ہیں، بعض میں نہیں ہیں۔ جبکہ{فَتَبَیَّنُوْا} {ھَیْتَ لَکَ} اور{اُفٍّ} جیسے الفاظ کا رسم چونکہ تمام قرأت متواترہ کا متحمل ہے، لہٰذا اُنہیں لفظوں اور اعراب سے خالی رکھ کر تمام مصاحف میں جگہ دی گئی۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ مجموعی طور پر تمام مصاحف عثمانیہ کو پیش نظر رکھیں تو آپ اُنہیں سبعہ احرف پر مشتمل پائیں گے اور یہی وہ صحیح مذہب ہے جس پر دل مطمئن ہوتا اور نظر ٹھہرتی ہے اور جس کی پشت پر قوی دلائل موجود ہیں۔
ذیل میں ہم ان دلائل کا تذکرہ کریں گے:
مصاحف عثمانیہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے صحیفوں کو سامنے رکھ کر تیار کئے گئے تھے اور علما کا اس بات پر اِجماع ہے کہ صدیقی صحیفوں میں سبعہ اَحرف کی وہ تمام جزئیات موجود تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر کے ساتھ ثابت تھیں اور ان میں صرف وہی قرأت اور آیات درج تھیں جو عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی اور یہی صدیقی صحیفے ہی در حقیقت مصاحف عثمانیہ کی بنیاد اور مصدر تھے جن کو سامنے رکھ کر مصحف عثمانیہ کو مدوّن کیا گیا تھا۔
اس کے برعکس کسی ایک صحیح یا ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کاتبینِ قرآن کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ صرف ایک حرف پر اکتفا کریں اور باقی چھ حروف کو ترک کر دیں۔
کوئی بھی مسلمان جو صحابہ کرامؓ کے دین میں رسوخ اور کتاب اللہ کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قرآنِ کریم کو دنیوی و اُخروی سعادتوں کا محور سمجھنے کے عقیدہ سے واقف ہے، کبھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اس وقت موجود ۱۲ ہزار سے زائد صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمانؓ کی اِن ‘حروف’ کے ختم کرنے پر تائید کی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔ دورِ عثمانؓ میں جمع قرآن کے محرکات جو کچھ بھی تھے، لیکن اُمت مسلمہ کو متحد کرنے اور اُنہیں اختلاف سے بچانے کے لئے حضرت عثمان قرآنِ کریم میں سے کوئی چیز حذف نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی اُنہوں نے کی۔ بلکہ اس صورتِ حال میں اُنہیں یہی کرنا چاہئے تھا کہ حروفِ سبعہ میں سے جو کچھ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تواتر سے ثابت ہے، اس کے لحاظ سے قرآنِ کریم کو لکھنے کا حکم دیتے۔ اور اُمت کو اس تواتر پر قائم رکھتے اور اُ نہیں بتاتے کہ ان کے علاوہ دیگر قرأت شاذ ہیں جو شروع میں آسانی کی خاطر نازل ہوئی تھیں اور عرضۂ اخیرہ کے وقت اُنہیں منسوخ کر دیا گیا تھا، لہٰذا اب نہ اُن کی قرأت جائز ہے اور نہ ہی اُنہیں قرآن سمجھنا درست ہے۔ یہی وہ صحیح طریقہ تھا فتنہ کی بیخ کنی، اُمت مسلمہ کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور نزاع کو ختم کرنے کا اور اسی طریقہ کو ہی حضرت عثمانؓ نے اختیار کیا تھا اور اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہؓ نے ان کی موافقت اور تائید کی تھی۔
اوّل الذکر رائے کے حاملین کا یہ دعویٰ کہ حضرت عثمانؓ نے کاتبینِ قرآن کو صرف لغت قریش باقی رکھنے اور دیگر لغات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا، اگر صحیح ہوتا تو اس کا لازمی تقاضا تھا کہ قرآنِ کریم قریش کے سوا دیگر لغات سے خالی ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں لغت قریش کے سوا دیگر لغات کے بھی بے شمار کلمات موجود ہیں۔ قرآنِ کریم میں ان کلمات کا وجود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں صرف لغت قریش پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ حروفِ سبعہ کی وہ تمام جزئیات اُن میں موجود ہیں جو تواتر سے ثابت اور عرضۂ اخیرہ کے وقت برقرار رکھی گئی تھیں۔
ذیل میں دیگر قبائل عرب کی لغات کے بعض کلمات کا بطورِ مثال تذکرہ کیا جاتا ہے:
ابو عبید سے روایت ہے کہ حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے ہم سے کہا کہ ہمیں {اَلْاَرَائکِ} کا معنی معلوم نہیں تھا، یہاں تک کہ یمن کے ایک آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی، اُس نے ہمیں بتایا کہ ہمارے ہاں الأریکة کا لفظ مسہری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
فرمانِ الٰہی{کَلَّا لَا وَزَرَ ﴿۱۱﴾…سورة القیامہ} کے بارے میں امام ضحاک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”اس سے مراد یہ ہے کہ پناہ کے لئے اس دن کوئی پہاڑ نہیں ہو گا۔ اور یہ یمن کے قبیلہ ‘حمیر’ کی لغت میں ہے۔ ”
اور ابو بکر انباری رحمة اللہ علیہ نے {أَفَلَمْ یَائسِ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوٓا} کے متعلق عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”اس سے مراد اَفَلَمْ یَعْلَمُوْا ہے اور یہ قبیلہ ہوازن کی زبان کا لفظ ہے۔ ”
اسی طرح {لَا یَلِتْکُم مِّنْ أَعْمَٰلِکُمْ شَیا ۚ} کا معنی لایَنقُصُکم بیان ہوا ہے اور یہ قبیلہ عَبَس کی زبان کا لفظ ہے۔
نیز واضح دلائل سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مصاحف عثمانیہ کا باہم متعدد مقامات میں اختلاف تھا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان: وَوَصَّىٰ بِہَآ إِبْرَٰہِمُ…﴿۱۳۲﴾…سورة البقرة
بعض مصاحف میں تو {وَوَصّیٰ}واوین کے ساتھ ہے اور بعض مصاحف میں پہلی اور دوسری واؤ کے درمیان الف کے اضافہ سے { وَاَوْصیٰ }ہے۔
اسی طرح وَسَارِعُوٓاإِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّکُمْ…﴿۱۳۳﴾…سورة آل عمران
بعض مصاحف میں سین سے پہلے واؤ کے بغیر {سَارِعُوْا} ہے اور بعض میں واؤ کے حرف کے ساتھ {وَسَارِعُوْا}ہے۔
اسی طرح فرمانِ الٰہی وَتَوَکَّلْ عَلَى ٱلْعَزِیزِ ٱلرَّحِیمِ ﴿۲۱۷﴾…سورة الشعراء
بعض مصاحف میں واؤ کے ساتھ {وَتَوَکَّلْ} ہے اور بعض مصاحف میں ‘ف’ کے ساتھ {فَتَوَکَّلْ}ہے۔
اسی طرح اللہ کا فرمان وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ ٱلْأَنفُسُ…﴿۷۱﴾…سورة الزخرف
بعض مصاحف میں ہاء کے ساتھ {تَشْتھَیْہِ} سے اور بعض مصاحف میں بغیر ہاء کے {تَشْتھَیْ}ہے۔
اور فرمانِ الٰہی وَمَن یَتَوَلَّ فَإِنَّ ٱللَّہَ ہُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِیدُ ﴿۲۴﴾…سورة الحدید
بعض مصاحف میں ھُوَ کے ساتھ {ھُوَ الْغَنِیُّ}ہے اور بعض میں ھُوَ کے حذف کے ساتھ ہے، اسی طرح کی اور کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ اگر مصاحف عثمانیہ ایک ہی لغت یعنی لغت قریش میں لکھے گئے ہوتے تو پھر اس اختلاف کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کسی حرف کو ختم نہیں کیا تھا۔
اعتراض: یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے مصحف کو مرتب کرنے والی جماعت کے تینوں قریشی اَراکین سے یہ فرمایا تھا:
”إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شیء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم” 3
”جب تمہارا زید بن ثابتؓ سے قرآنِ کریم کے کسی لفظ کے متعلق اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ قرآن اُن کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ”
اور اس فرمان پر عمل بھی ہوا۔ اگر حضرت عثمانؓ نے سا توں حروف باقی رکھے تھے تو ان کے اس فرمان کا کیا مطلب سمجھا جائے ؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے اس فرمان کا یہ مطلب سمجھنا کہ اُنہوں نے چھ حروف کو ختم کر کے صرف حرف قریش کو باقی رکھا تھا، سرا سر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ارشاد سے ان کا مطلب یہ تھا کہ قرآنِ کریم کی کتابت کے دوران اگر کہیں رسم الخط کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو جائے تو قریش کے رسم الخط کو اختیار کیا جائے۔ تمام روایات کے مجموعی تناظر میں دیکھتے ہوئے یہی بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے اور اس سے تمام دلائل کے درمیان جمع و تطبیق کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ کتابت قرآن کے دوران صحابہ کرامؓ کی جماعت کے درمیان صرف ایک اختلاف پیش آیا۔ اور وہ اختلاف یہ تھا کہ قرآن کی آیت{أَن یَأْتِیَکُمُ ٱلتَّابُوتُ…﴿۲۴۸﴾…سورة البقرة} میں لفظ التابوت کو کس انداز سے لکھا جائے، آیا لمبی تا کے ساتھ التابوت لکھا جائے یا گول تا کے ساتھ التابوة لکھا جائے۔ یہ معاملہ جب حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش ہوا تو اُنہوں نے فرمایا: ”اسے التابوت لکھو، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ”
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جس اختلاف کا ذکر فرمایا تھا، اس سے مراد محض رسم الخط کا اختلاف تھا کہ جملہ قرأت کے سلسلے میں قریشی رسم الخط کو ترجیح حاصل ہے۔
مصاحف عثمانیہ مختلف علاقوں میں کیسے بھیجے گئے ؟
قرآنِ کریم کو نقل کرنے کا زیادہ تر انحصار ہمیشہ تلقی اور سماع پر رہا ہے کہ خلف نے سلف سے، ثقہ نے ثقہ سے اور امام نے امام سے سن کر آگے بیان کر دیا یہاں تک کہ یہ سلسلہ دورِ رسالتؓ تک جا پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے مصاحف کی اشاعت اور اُنہیں مختلف علاقوں میں بھیجنے کا پروگرام بنایا تو اُنہوں نے صرف مصاحف بھیجنے پر اکتفا نہیں کیا کہ صرف وہی تنہا مرجع بن کر رہ جائیں بلکہ ہر مصحف کے ساتھ اسے پڑھانے کے لئے حفظ و عدالت میں ثقہ و ماہر فن قاری بھی بھیجا جس کی قرأت غالب طور پر اُس مصحف کے مطابق تھی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے زید بن ثابتؓ کو مدنی مصحف پڑھانے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن سائب کو مکی مصحف کے ساتھ بھیجا۔ مغیرہ بن شہابؓ کو شامی مصحف کے ساتھ بھیجا، ابو عبدالرحمن سلمی کو کوفی مصحف کے ساتھ بھیجا اور عامر بن عبدالقیسؓ کو بصری مصحف کے ساتھ روانہ کیا۔
اس کے بعد تابعین رحمة اللہ علیہ نے صحابہ کرامؓ سے سن کر قرآنِ کریم کو اگلی نسل تک منتقل کیا۔ ہر علاقے کے تابعین نے اپنے مصحف کے مطابق قرأت کی، جیسا کہ اُنہوں نے صحابہ کرامؓ سے سنی تھی۔ ایسے ہی صحابہ کرامؓ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے سن کر قرآنِ کریم کو حاصل کیا تھا۔ صحابہؓ و تابعین رحمة اللہ علیہ کے بعد ایک جماعت نے اپنے آپ کو قرآنِ کریم کی تعلیم کے لئے وقف کر لیا یہاں تک کہ وہ فن قرأت کے امام بن گئے اور اس فن میں ان کی اقتدا اور ان سے اخذ علم کیا جانے لگا۔ اور ہر امام کے اہل علاقہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ صرف اِنہی ائمہ سے قرأت لی جائے گی اور ان کی روایت پر اعتماد کیا جائے گا۔ اور یہیں سے قرأت کا یہ علم ہمیشہ کے لئے ان ائمہ فن کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ اور تمام اُمت اس بات پر متفق ہو گئی کہ جو کچھ ان مصاحف میں ہے، وہ قرآن ہے اور ان کے علاوہ کسی بھی طرح کی کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اس کا قرآن ہونا اُمت کے نزدیک تواتر سے ثابت نہیں ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ پوری اُمت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی!
ان مصاحف کے متعلق مسلمانوں کا موقف
حضرت عثمانؓ نے جب عرضۂ اخیرہ کے مطابق قرآنِ کریم کے مصاحف تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو تمام صحابہ کرامؓ نے ان کے موقف کی حمایت کی اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے انفرادی صحیفے اور مصاحف نذرِ آتش کر دیئے اور مصاحف عثمانیہ پر متفق ہو گئے۔ شروع میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ اعتراض تھا کہ جمع قرآن کے سلسلہ میں زید بن ثابتؓ کو مجھ پر ترجیح کیوں دی گئی ہے ؟لیکن بعد میں جب ان پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ زید بن ثابتؓ ہی اپنی بعض ممتاز خصوصیات کی وجہ سے اس کام کے لئے زیادہ موزوں تھے، تو اُنہوں نے اپنے موقف سے رجوع اور حضرت عثمانؓ کے اس کارنامے کا اعتراف کر لیا۔ اور بالآخر صحابہ کرامؓ کا اس معاملہ پر اجماع ہو گیا۔ چنانچہ ابن ابی داؤد نے حضرت علیؓ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا:
لاتقولوا فی عثمان إلا خیرا، فواللہ ما فعل الذی فعل فی المصاحف إلا عن ملأ منا، قال: ما تقولون فی ہذہ القراء ة ؟ فقد بلغنی أن بعضہم یقول: إن قراء تی خیر من قراء تک، وہذا یکاد یکون کفرًا، قلنا: فما تریٰ؟ قال: أریٰ أن نجمع الناس علی مصحف واحد فلا تکون فرقة ولا اختلاف، قلنا: فنعم ما رأیت4
”حضرت عثمانؓ کے متعلق سوائے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو۔ اللہ کی قسم !اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا۔ اُنہوں نے ہم سے پوچھا تھا: ان قرأت کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ یہ بات کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے ؟ فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ پھر کوئی افتراق اور اختلاف نہ ہو۔ ہم نے کہا: آپکی رائے بہت شاندار ہے۔ ”
نیز حضرت علیؓ نے فرمایا تھا:
لو کنت الوالی وقت عثمان لفعلتُ فی المصاحف مثل الذی فعل عثمان5
”اگر حضرت عثمانؓ کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو حضرت عثمانؓ نے کیا ہے۔”
اور جن علاقوں میں یہ مصاحف بھیجے گئے تھے، وہاں کے باشندوں نے ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان مصاحف کو ان کے ہاں اعلیٰ مقام اور مقدس حیثیت حاصل ہو گئی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فردِ واحد کی کار روائی نہیں ہے، بلکہ ان کی پشت پر تمام اصحابِ رسولؐ کا اِجماع موجود ہے، جنہیں دربارِ رسالتؐ سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس کے وہ واقعی مستحق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی شان میں فرمایا تھا:
علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین تمسَّکوا بہا وعضوا علیھا بالنواجذ6
”میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو تھام کر رکھنا، اور داڑھوں کی پوری قوت سے اس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا۔ ”
اور فرمایا:
أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتھم اھتدیتم
”میرے صحابہؓ آسمان کے درخشندہ ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے، راہ یاب ہو جاؤ گے۔ ”7
اور فرمایا:
اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر وعمر
”میرے بعد ابو بکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کی اقتدا کرنا۔ ” 8
چنانچہ اُمت نے اس شاندار موقف کو حرزِ جان بنایا، اسے دل و جان سے قبول کر لیا اور یہی ان کا تنہا ماخذ و مصدر تھا، جہاں سے وہ اپنے فیصلے کرواتے تھے۔
دور صحابہؓ کے مشہور مصاحف
صحابہ کرامؓ کے دور میں مصاحف عثمانیہ کے علاوہ کئی اور مصاحف بھی مشہور ہوئے، لیکن اُنہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جو مصاحف عثمانیہ کو حاصل ہوا، کیونکہ مصاحف عثمانیہ کیسب مشمولات اور قرأت کے پیچھے تمام صحابہؓ کا اجماع اور اتفاقِ رائے موجود تھا۔ لہٰذا تمام بلادِ اسلامیہ میں صرف مصاحف عثمانیہ کو ہی قبول عام حاصل ہو سکا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دیگر تمام مصاحف انفرادی نوعیت کے تھے جنہیں بعض صحابہ کرامؓ نے اپنے طور پر تحریر کیا تھا۔ ان میں عرضۂ اَخیرہ کے ساتھ مطابقت کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ان میں شاذ قراء ات، منسوخ آیات اور قرآنی الفاظ کے ساتھ صحابہؓ کے تفسیری اَقوال بھی شامل تھے جس کی وجہ سے لازماً یہ مصاحف، مصاحف عثمانیہ سے مختلف تھے۔ بعض میں اضافہ جات تھے تو بعض میں کمی اور ان کی ترتیب بھی مصاحف عثمانیہ سے مختلف تھی۔ ان وجوہات کی بنا پر خود صحابہ کرامؓ نے ہی اپنے اجماع سے مصاحف عثمانیہ کے سوا دیگر تمام مصاحف کی قرآنی حیثیت کو کالعدم قرار دے دیا۔
بطورِ نمونہ ان مصاحف میں سے بعض مثالوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے
مصحف عمر بن خطابؓ
اس میں سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر۷یوں تحریر تھی:
سراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم وغیر الضالین
سورة آلِ عمران کی پہلی آیت اس طرح لکھی ہوئی تھی:
آلم اللہ لا إلہ إلا ہو الحی القیام
اور سورۂ مدثر کی آیات 40، 41 اور 42اس طرح تحریر تھیں:
فی جنات یتساء لون ٭ یا فلان ٭ ما سلک فی سقر
مصحف علی بن ابی طالبؓ
اس میں سورة البقرہ کی آیت نمبر 285 کا ابتدائی حصہ اس طرح تھا:
آمن الرسول بما أنزل إلیہ من ربہ وآمن المؤمنون
مصحف عائشہ اُمّ المؤمنینؓ
اس میں سورة البقرة کی آیت238 یوں تھی:
حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی وصلاة العصر
اور ایک روایت میں واؤ کے بغیر صرف صلاة العصر ہے۔
اور سورة احزاب کی آیت 56 کا ابتدائی حصہ اس طرح تھا:
إن اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی ٭ والذین یصلون فی الصفوف الأولیٰ
مصحف حضرت حفصہ اُمّ المؤمنینؓ
اس میں بھی سورة البقرة کی آیت238 وصلاة العصر کے اضافہ کے ساتھ یوں تھی:
حافظ علی الصلوات والصلاة الوسطی وصلاة العصر
مصحف حضرت اُمّ سلمہ اُمّ المؤمنینؓ
ان کا مصحف بھی حضرت حفصہؓ کے مصحف کے مطابق تھا۔
مصحف عبداللہ بن زبیرؓ
اس میں سورة البقرة کی آیت 198 کا ابتدائی حصہ اس طرح تھا:
لیس علیکم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم فی مواسم الحج
اور سورة المائدة کی آیت 52 کا آخری حصہ یوں تھا:
فیصبح الفساق علی ما أسروا فی أنفسہم نٰدمین
اور سورة آلِ عمران کی آیت 104یوں تھی:
ولتکن منکم أمة یدعون إلی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر ویستعینون باللہ علی ما أصابھم
مصحف اُبی بن کعبؓ
اس میں سورة البقرة کی آیت {فَلَا جُنَاحَ عَلَیہِ أنْ یَطَوَّفَ بِہِمَا} یوں تحریر تھی: فلا جناح علیہ ألا یطوف بھما
نیز اس میں {لِلَّذِینَ یُؤلُوْنَ مِنْ نِّسَائِہِمْ} کی بجائے للذین یقسمون من نساء ہم تھا۔
اس میں سورة النساء کی آیت 24 {فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ} کے بعد إلی أجل مسمی کا اضافہ بھی تھا۔
اور سورة المائدة کی آیت 89 میں {فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ أیَامٍ} کے بعد متتابعات کے الفاظ بھی موجود تھے۔
مصحف عبداللہ بن عباسؓ
اس میں بھی سورة البقرة کی آیت158{فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا ۚ} یوں تحریر تھی: فلا جناح علیہ اَلا یطوف بھما
اور سورة البقرة کی آیت198{لَیسَ عَلَیکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ} کے بعد فی مواسم الحج کے الفاظ بھی موجود تھے۔
اور سورة آل عمران کی آیت 175{إِنَّمَا ذَلِکُمُ الشَّیطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَاء ہُ}کی بجائے إنما ذلکم الشیطان یخو فکم أولیاءہ لکھا ہوا تھا۔
اور سورة البقرة کی آیت 196 {وَ اَتِمُّوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ ہِ}کی بجائے یوں تھا: وأقیموا الحج والعمرة للبیت
اور سورہ آلِ عمران کی آیت 159 میں { وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ}کی بجائے وشاورہم فی بعض الأمر لکھا ہوا تھا۔
اور سورة البقرة کی آیت 227میں {وَإِنْ عَزَمُوْا الطَّلَاقَ} کی بجائے وإن عزموا السراح لکھا ہوا تھا۔
اور اس میں سورة الحج کی آیت 52میں {وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلاَنَبِی} کے بعد ولا محدث کے الفاظ بھی رقم تھے۔
سورة الاعراف کی آیت 187 {کَاَنَّکَ حَفِی عَنْہَا}یوں لکھی ہوئی تھی: کانک حفی بھا
اورسورة آلِ عمران کی آیت 7 {وَمَا یَعْلَمُ تَأوِیلَہ إلَّا اللہ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ آمَنَّا بِہ}یوں لکھی ہوئی تھی: وما یعلم تأویلہ إلا اللہ ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ
اور سورة البقرة کی آیت 137یوں لکھی ہوئی تھی: فإن آمنوا بما آمنتم بہ فقد اھتدوا
اور سورة البقرة کی آیت238 وصلاة العصر کے اضافہ کے ساتھ یوں تھی:
حافظ علی الصلوات والصلاة الوسطی وصلاة العصر
اور سورة النساء کی آیت 24 {فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ}کے بعد إلی أجل مسمی کا اضافہ بھی تھا۔
سورة النساء کی آیت 160{فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِینَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیہِمْ طَیبَاتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ}میں {اُحِلَّتْ لھَمْ } کی بجائے کانت لہم کے الفاظ تھے۔
اور سورة النصر کی پہلی آیت یوں لکھی ہوئی تھی: إذا جاء فتح اللہ والنصر
مصحف عبداللہ بن مسعودؓ
اس میں سورة البقرہ کی آیت {اِہبِطُوْا مِصْرًا}کو اہبطوا مصربغیر ألف لکھا ہوا تھا۔
اور{وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَإِسْمَاعِیلُ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا} میں {یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا}کی بجائے یقولان ربنا لکھا ہوا تھا۔
اور سورة آلِ عمران میں {اَلْحَی الْقَیُوْمُ}کی جگہ الحی القیام اور{وَمَا یَعْلَمُ تَأوِیلَہ إِلَّا اللہ}کی جگہ إن حقیقة تأویلہ إلا عند اللہ اور{نَادَتْہ الْمَلَائِکَةُ} (آلِ عمران 39 )کی جگہ ناداہ الملائکة یا زکریا إن اللہ
اور {یَا مَرْیَمُ اقْنُتِی لِرَبِّکِ وَاسْجُدِی وَارْکَعِی مَعَ الرَّاکِعِینَ } کی بجائے یا مریم اقنتی لربک وارکعی واسجدی مع الساجدین اور {وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَةُ یَا مَرْیَمُ إنَّ اللہ یُبَشِّرُکِ}کی بجائے إذ قالت الملائکة إن اللہ لیبشرک لکھا ہوا تھا۔
سورة النساء میں {إِنَّ اللہَ لَایَظْلِمُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ } کی جگہ مثقال نملة کے الفاظ تھے۔
اور سورة المائدة میں {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ} کی جگہ إن تعذبہم فعبادک کے الفاظ تھے۔
اور سورة الانعام میں {کَالَّذِی اسْتَہوَتْہ الشَّیطَانُ}کی بجائے کالذی استہواہ الشیطان کے الفاظ تھے۔ اور{لَقَدْ تَقَطَّعَ بَیْنَکُمْ} کے بجائے لقد تقطع ما بینکم کے الفاظ تھے۔
اور سورة الاعراف میں {قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا} کی جگہ قالوا ربنا اَلا تغفرلنا و ترحمنا کے الفاظ تھے۔
اور سورة الانفال میں ولا یحسب الذین کفروا سبقوا
اور سورة التوبہ میں قل أذن خیر ورحمة لکم
اور سورة یونس میں حتی إذا کنتم فی الفلک وجرین بکم
اور سورة ہود میں وأتانی رحمة من عندہ وعمیت علیکم اور فأسر بأہلک بقطع من اللیل إلا امرأتک کے الفاظ تھے۔
اور سورة الرعد میں وسیعلم الکفرون لمن عقبی الدار کے الفاظ تھے۔
اور سورة النحل میں الذین توفہم الملائکة کے الفاظ تھے۔
اور سورة الاسراء میں سبحت لہ الأرض وسبحت لہ السموات کے الفاظ تھے۔
اور سورة الکہف میں لکن ہو اللہ ربی کے الفاظ تھے۔
اور سورة مریم میں ذلک عیسی بن مریم قال الحق الذی فیہ یمترون اور وتکاد السموات لتتصدع منہ کے الفاظ تھے۔
اور سورة طہ میں قد نجیتکم کے الفاظ تھے۔
اور سورة الحج میں أذن للذین قاتلوا بأنہم ظلموا کے الفاظ تھے۔
اور سورة النور میں انزلنٰہا وفرضنٰہا لکم کے الفاظ تھے۔
اور سورة الفرقان میں ہوالذی أرسل الریاح مبشرات کے الفاظ تھے۔
اور سورة الشعراء میں واتبعوہم مسرقین کے الفاظ تھے۔
اور سورة النمل میں فیمکث غیر بعید کے الفاظ تھے۔
اور سورة القصص میں وعمیت علیہم الأنباء کے الفاظ تھے۔
اور سورة السجدة میں فلا تعلم نفس ما یخفی لہم کے الفاظ تھے۔
اور سورة سبا میں یقذف بالحق وہوعلام الغیوب کے الفاظ تھے۔
اور سورة یس میں فی شغل فکہین اور علی الأرائک متکئین اور وسلاما قولا من رب الرحیم کے الفاظ تھے۔
اور سورة الزخرف میں ما شہد خلقہم اور وإنہ علیم للساعة کے الفاظ تھے۔
اور سورة الحجرات میں لتعارفوا وخیارکم عند اللہ أتقاکم کے الفاظ تھے۔
اور سورة القمر میں خاشعة أبصارہم کے الفاظ تھے۔
اور سورة نوح میں ولایغوثا ویعوقا دونوں الفاظ تنوین کے ساتھ تھے۔
حوالہ جات
- الإتقان فی علوم القرآن: 1؍69
- صحیح بخاری: 3506
- صحیح بخاری: 3504
- فتح الباری: 9؍18
- تفسیر قرطبی: 1؍54
- سنن ابو داؤد: 4607
- تلخیص الحبیر: 2594 ضعیف
- سنن ترمذی: 3662 صحیح
خلفائے راشدین کے عہد کے بعد مصاحف کی تدوین
گذشتہ صفحات میں ہم تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ دور عثمانی میں مصاحف کی جو نقلیں تیار کر کے مختلف بلادِ اسلامیہ کو بھیجی گئیں تھیں، وہ ایسے رسم الخط پر مشتمل تھیں جو سا توں حروف کا متحمل سکے۔ اسی مقصد کے پیش نظر ان مصاحف کو نقطوں اور حرکات سے خالی رکھا گیا تاکہ ان حروف کی تمام متواتر قرأت __ جو عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی __ ان میں سما جائیں۔ (i) اور جب یہ مصاحف مملکت اسلامیہ کے اطراف میں پہنچے تو مسلمانوں نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور پوری اُمت مسلمہ نے اُن کو اپنا لیا۔ پھر اُنہوں نے ان مصاحف کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی طرز پر مزید کافی مصاحف تیار کئے۔ ان کو بھی وہی تقدس اور احترام حاصل تھا جو مصاحف عثمانیہ کو حاصل تھا اور یہ بھی مصاحف عثمانیہ کی طرح نقطوں اور حرکات سے خالی تھے۔
یہ مصاحف ایک زمانہ تک بلادِ اسلامیہ میں رائج رہے، لیکن جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہو گیا، بے شمار عجمی ممالک اسلام کے زیر سایہ آ گئے اور عربی اور عجمی زبانوں کا باہم اختلاط بڑھا تو عربی زبان میں لحن عام ہو گیا۔ اور یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں فصیح عربی زبان عجمی اثرات سے ناپید نہ ہو جائے۔ مزید یہ کہ عجمی لوگوں کے لئے قرآنِ کریم کو بغیر نقطوں اور حرکات کے پڑھنا کافی دشوار تھا۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے سامنے یہ خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ صورت حال کتاب اللہ میں لحن اور لفظی تحریف پر منتج نہ ہو۔ لہٰذا اُنہوں نے اس صورت حال کے ممکنہ نتائج و اثرات سے نمٹنے کے لئے ایسے وسائل فراہم کئے جو کتاب اللہ کو تصحیف و تحریف اور لحن سے محفوظ رکھنے میں کارآمد ثابت ہو سکیں۔ نیز عجمی مسلمانوں کے لئے قرآن کی تلاوت میں بھی آسانی پیدا ہو جائے۔ ذیل میں ہم ان وسائل کی تفصیل بیان کریں گے:
نقطے
اس کے دو مفہوم ہیں:
اس سے مراد وہ علامات ہیں جو کسی حرف پر حرکت و سکون اور شدومد وغیرہ کی شکل میں لگائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقط الإعراب کا نام دیا ہے۔
اس سے مراد وہ نشانات ہیں جو ایک جیسے رسم والے حروف، مثلاً ب، ت، ث وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں، تاکہ معجم اور مہمل حروف کے درمیان امتیاز ہو سکے۔ چنانچہ ب کے ایک نقطے نے اسے اس کے ہم رسم حروف ت اور ث سے ممیز کر دیا ہے اور ج کے نقطے نے اسے اس سے ہم رسم حروف ح اور خ سے ممیز کر دیا ہے۔ اسی طرح د اور ذ اور ر، ز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقاط الأعجام کا نام دیا ہے۔
شکل (حرکات)
اس سے مراد وہ علامات ہیں جو حرکت، سکون اور شدومد وغیرہ کی صورت میں حروف پر لگائی جاتی ہیں۔ لفظ ضبط بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے نقطوں کا پہلا مفہوم ‘شکل ‘ (حرکات ) اور ‘ضبط ‘کے ہم معنی ہے۔
علما کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ نقطوں اور حرکات کا یہ نظام کس نے ایجاد کیا تھا؟ کیا نقطوں اور حرکات کا موجد ایک ہی تھا یادو الگ الگ اَفراد نے اُنہیں ایجاد کیا تھا۔ اور ان میں سے پہلے نقطے ایجاد ہوئے تھے یا حرکات؟
اس سلسلے میں محققین علما کا رجحان اس طرف ہے کہ نقط الإعراب یعنی حرکات کا موجد ابو اسود دؤلی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ امیرالمومنین معاویہ بن ابو سفیانؓ نے زیاد بن ابیہ جو معاویہؓ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا، کو خط لکھا کہ اپنے بیٹے عبید اللہ کو میرے پاس بھیج دو۔ جب عبید اللہ وہاں پہنچا اورگفتگو ہوئی تو حضرت معاویہؓ نے دیکھا کہ وہ غلط عربی بول رہا ہے۔ حضرت معاویہؓ نے زیاد کو خط لکھا، جس میں اسے اس کے بیٹے کے غلط عربی بولنے پر ملامت کی گئی تھی۔ زیاد نے ابو اسود دؤلی کو بلایا اور کہا: یہ عجمی لوگ عربی زبان کو بگاڑ رہے ہیں۔ کاش آپ کوئی ایسا نظام وضع کر دیں کہ یہ لوگ اپنی زبان کی اصلاح کر لیں اور کتاب اللہ کو صحیح عربی لہجہ میں پڑھ سکیں۔ لیکن ابو اَسود نے کسی مجبوری کی وجہ سے اس سے معذرت کر لی۔
اب زیاد نے یہ ترکیب اختیار کی کہ ایک آدمی کو ابو اَسود کے راستے میں بٹھا دیا اور اسے یہ ہدایت کی کہ جب ابو اَسود وہاں سے گزرے تو تم جان بوجھ کر قرآن مجید کو لحن کے ساتھ غلط پڑھنا۔ جب ابو اَسود وہاں سے گزرا تو اس شخص نے فرمان الٰہی: {أَنَّ ٱللَّہَ بَرِىٓءٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِکِینَ ۙ وَرَسُولُہُۥ ۚ…﴿۳﴾…سورۃ التوبہ} میں لفظ ‘رسول ‘ کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا۔ یہ سن کر ابو اسود کو معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا اور اُس نے کہا: عَزَّ وجَل اللہ أن یتبرأ من رسولہ
”اللہ تعالیٰ کی شان اس سے سر بلند ہے کہ وہ اپنے رسول سے الگ ہو جائے۔ ”
ابو اسود دؤلی وہاں سے واپس زیاد کے پاس آئے اور اس سے کہا:
”میں اس کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، جس کا آپ نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا اور میرا خیال ہے کہ میں اعراب القرآن سے اس کام کا آغاز کروں۔ ”
اس کے بعد اُنہوں نے قبیلہ عبد القیس کے ایک شخص کا انتخاب کیا اور اسے کہا کہ مصحف پکڑو اور کوئی ایسی روشنائی لو جو مصحف کی روشنائی کے بر عکس ہو اور اسے سمجھایا کہ حرفوں کی آواز کو اس طرح نقطوں میں ظاہر کرو کہ جس حرف پر دونوں ہونٹ کھلیں، وہاں اس حرف کے اوپر ایک نقطہ اور جس حرف پر ہونٹ بند ہوں وہاں اس حرف کے سامنے ایک نقطہ۔۔ ۔ اور جس حرف پر ہونٹ ٹوٹیں وہاں حرف کے نیچے ایک نقطہ۔۔ ۔۔ ڈال دو۔ اور جس حرف پر ان حرکات میں سے دو جمع ہو جائیں (تنوین) وہاں دو نقطے ڈال دو۔ وہ خود ساتھ ساتھ اس کام پر نظر ثانی کرتے رہے، یہاں تک کہ قرآن کریم پر نقطوں کی شکل میں حرکات کا یہ کام مکمل ہو گیا۔ 1
اس سے واضح ہوتا ہے کہ نقطوں کی صورت میں حرکات اور ضبط کا موجد اوّل ابو اسود دؤلیؒ ہے۔ اُنہیں سے علما نے یہ فن حاصل کیا اور اس میں مزید نقش وں گاری اور تبدیلی کرتے ہوئے اسے کمال تک پہنچا دیا۔
اور جہاں تک نقط الأعجام کا تعلق ہے تو اس کے موجد کے بارے میں علما کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے راجح یہ ہے کہ نقط الأعجام کے بانی نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر ہیں۔
اس کا باعث یہ ہوا کہ جب عجمیوں کی ایک کثیر تعداد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئی تو اس کی وجہ سے عربی زبان کے تکلم میں غلطیوں کا رجحان کافی بڑھ گیا، جس سے یہ خطرہ پیدا ہوا کہ قرآنِ کریم بھی اس رجحان کی زد سے محفوظ نہیں رہے گا۔ چنانچہ عبد الملک بن مروان نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ قرآن کے دامن میں گھسنے والے تحریف کے ان ممکنہ اسباب کو ختم کرنے کے لئے کچھ کرو۔ حجاج بن یوسف نے نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر جن کا شمار عربی زبان کے اَسرار و رموز، فنِ قرأت اور توجیہاتِ قرأت کے معروف علما میں ہوتا تھا، کو یہ ذمہ داری سونپی۔ یہ اُمت کی مصلحت اور کتاب اللہ کی حفاظت کا معاملہ تھا، لہٰذا ان کے لئے اس ذمہ داری کو قبول کئے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ اُنہوں نقطے (نقط الأعجام) ایجاد کئے تاکہ رسم میں باہم مشابہ حروف کے درمیان امتیازکیا جا سکے اور لحن و تصحیف سے قرآنِ کریم کی حفاظت کا سامان ہو سکے۔ اور یہ نقطے (نقط الأعجام) اسی روشنائی سے لگائے گئے تھے جس سے مصحف کا اصل متن لکھا گیا تھا تاکہ ابو اسود کی حرکات نقط الأعراب سے امتیاز ہو سکے۔
اس واقعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نقط الأعجام سے پہلے بھی ایسے اقدامات کیے گئے تھے، کیونکہ زیاد کا دور حجاج بن یوسف کے دور سے پہلے ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حرکات اور نقطوں کا موجد ایک شخص نہیں بلکہ دو الگ الگ شخص تھے۔ پہلے کا موجد ابو اسود اور دوسرے کا موجد نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر تھے۔
عباسی دورِ حکومت
اس دور میں علم نحو کے عظیم ماہر خلیل بن احمد فراہیدی نے ابو اسودؒ کے نقط الشکل کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی علامات ضبط ایجاد کیں اور یہی وہ علاماتِ ضبط ہیں جو آج تک رائج چلی آ رہی ہیں۔ اس نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا، یعنی اس نے ضمہ (پیش) کے لئے حرف کے اوپر چھوٹی سی واؤ، فتحہ (زبر) کے لئے حرف کے اوپر ترچھی لکیر اور کسرہ (زیر)کے لئے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر اور شد(ii) یا تشدید کے لئے حرف کے اوپر س کا سرا اور جزم کے لئے ج کا سرا اور مد ّ کے لئے حرف کے اوپر آ کی علامت کو اختیار کیا۔ اسی طرح اس نے اصطلاحاتِ وقف ‘رَوم’ و ‘اشمام’ کی دیگر علامات وضع کیں۔ پھر خوبصورتی اور اختصار کی خاطر ان علامات میں مزید اصلاحات و ترمیمات کی گئیں۔ اور ارتقا کے ان مختلف مراحل کے بعد علاماتِ ضبط کا یہ طریقہ رائج ہوا جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔
پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مصحف پر نقط الإعراب (نقطوں کی شکل میں حرکات) لگانے کا موجد اوّل ابو اسود دؤلی ہے۔ ان کے بعد نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے نقط الأعجام یعنی نقطے ایجاد کئے۔ اس کے بعد حرکات وجود میں آئیں جنہیں خلیل بن احمد فراہیدی نے وضع کیا۔
لیکن ایک دوسری روایت اس کے برعکس ہے جسے امام دانیؒ نے یحییٰ بن کثیر کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ قرآنی مصاحف نقطوں اور اِعراب سے خالی تھے پھر سب سے پہلے علما نے حروف تہجی: ب، ت اور ث کے لئے نقطے ایجاد کئے اور کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نقطے ان حروف کے لئے نور ہیں جن کی روشنی میں قرآن کریم میں لحن سے بچا جا سکتا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نقط الإعراب سے پہلے نقط الاعجام وجود پذیر ہو چکے تھے۔ (iii)
اب نقطے اور حرکات لگانے کا حکم کیا ہے ؟اس پر ہم آئندہ صفحات میں ‘ مصحف کی کتابت کرنے والے اور ناشر کے لئے شرائط’ کے زیر عنوان بحث کریں گے۔
مصحف کی اَجزا ( پاروں ) میں تقسیم
مصاحف عثمانیہ جس طرح نقطوں اور اِعراب سے خالی تھے، اسی طرح ان میں اَجزا اور پاروں کی تقسیم بھی نہیں تھی۔ پھر بعض لوگوں نے آسانی کے خیال سے مصحف عثمانیہ کو ۳۰ حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر حصے کو جز (پارے ) کا نام دیا۔ پھر جز کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ان کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصہ کو رُبع کا نام دیا گیا۔ قرآنِ کریم کی یہی تقسیم شروع سے مشہور چلی آ رہی ہے۔
آیات: دور اوّل کے بعض کاتبینِ مصاحف آیات کے مابین فاصلوں میں سے ہر فاصلہ کے بعد تین نقطے ڈالتے تھے تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہاں یہ آیت ختم ہو چکی ہے۔ نیز وہ سورہ کی ہر پانچ آیات کے اختتام پر (حاشیہ میں ) لفظ خمس اور ہر دس آیات کے اختتام پر (حاشیہ میں ) لفظ عشر لکھتے تھے۔ چنانچہ قتادہؒ فرماتے ہیں:
بدأوا فنقطوا ثم خمسوا ثم عشروا
”پہلے پہل اُنہوں نے نقطے لگائے۔ پھر خمس کا نشان اور پھر عشر کا نشان لگایا۔ ”
اسی طرح بعض کاتبین خمس کی بجائے خ اور عشر کی بجائ ےع کا سرا استعمال کرتے تھے۔ اور ان میں سے بعض سورت کا نام بھی لکھتے تھے اور ساتھ یہ بھی لکھتے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی۔ نیز سورہ کے آخر میں آیات کی تعداد بھی تحریر کرتے تھے۔ بعد میں تلاوت اور تجوید کی آسانی کے لئے کچھ مزید رموزو اوقاف بھی وضع کئے گئے جن کی تفصیل مطبوعہ قرآنی نسخوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ان تمام اُمور کے متعلق علما کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے کراہت کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے، لیکن دیگر کے نزدیک اس میں کراہت کا کوئی پہلو نہیں ہے اور یہی موقف زیادہ راجح ہے، کیونکہ اس طرح کے رموزو اوقاف قارئ قرآن کے لئے سہولت اور قرأت میں مزید اشتیاق کا باعث بنتے ہیں۔ واللہ اعلم
حوالہ جات
- تاریخ القرآن الکریم از محمد طاہر الکر دی: 1/180
- ویسے بھی عربوں کے ہاں حروف پر نقطے اور حرکات لگانے کا رواج بھی نہیں تھا۔ عربی ان کی مادری زبان تھی اور وہ اسے بغیر نقطوں اور حرکات کے پڑھنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی دقت محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ نقطے اور حرکات ڈالنے کو معیوب خیال کرتے تھے۔ (مترجم)
- ایک قول یہ بھی ہے کہ شد اور اس کے بعد کی علامات اگرچہ عباسی دور حکومت میں ہی وضع ہوئیں، لیکن اُنہیں خلیل بن احمد فراہیدی کے بعد کسی اور نے وضع کیا تھا۔
iii. البتہ امام جعبر نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ نقط بالعراب اور نقط بالأعجام دونوں کو ابو اسود دؤلی نے ایجاد کیا تھا۔ اُنہوں نے پہلے نقط العراب ایجاد کئے اور اس کے بعد نقط الأعجام کی طرح ڈالی پھر دیگر علما نے ان سے یہ علم حاصل کیا۔ لہٰذا اس فن میں برتری اور اوّلیت ابو اسود کو ہی حاصل ہے۔ ہماری رائے میں امام جعبر کے اس بیان سے وہ ابہام کسی حد تک رفع ہو جاتا ہے جو امام دانی کی روایت سے پیدا ہوا تھا۔ ان روایات کے تناظر میں دیکھتے ہوئے بات یہ سامنے آتی ہے کہ ابو اسود دؤلی نے نقط العراب کے ساتھ نقط الأعجام کی طرح تو ڈال دی تھی، لیکن اسے باقاعدہ متعارف بعد میں نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے کروایا۔ (مترجم)
مصحف کے کاتب اور ناشر کے لئے شرائط
کیا مصحف شریف میں رسم عثمانی کی پابندی ضروری ہے یا مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق بھی تحریر کیا جا سکتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں علما کے تین موقف ہیں:
پہلا موقف اور اس کے دلائل
رسمِ عثمانی کا التزام ضروری نہیں ہے بلکہ اِملا کے عام قواعد کے مطابق بھی مصحف کو لکھا جا سکتا ہے۔ یہ موقف امام ابن خلدون رحمة اللہ علیہ اور امام ابو بکر باقلانی رحمة اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے اور اس کی تائید میں حسب ذیل دلائل پیش کئے ہیں:
یہ رسم الخط محض علامات اور نشان ہیں۔ چنانچہ ہر وہ رسم جو ایک کلمہ اور اس کی قرأت کی واضح تصویر پیش کر دے، وہ رسم بالکل درست ہے اور اس کے کاتب کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رسم عثمانی کے مطابق مصحف کی کتابت لوگوں کے لئے مشقت اور التباس کا باعث بنتی ہے چنانچہ ان کے لئے غلطیوں سے مبرا بالکل صحیح تلاوت کرنا ممکن نہیں رہتا، لہٰذا وہ تلاوتِ قرآن کے اس اجر و ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے۔ نیز صحیح قرأت نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں واقع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا لوگوں کی آسانی، اُنہیں مشقت و التباس سے بچانے اور صحیح قرأت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق تحریر کرنا جائز ہے۔
نیز کتاب اللہ، سنت مطہرہ، اجماعِ اُمت اور قیاسِ شرعی کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مصحف کو کسی معین رسم اور مخصوص طریقہ پر لکھنا ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی حدیث میں یہ بیان نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کاتبینِ وحی میں سے کسی کو کتابت وحی کے وقت کسی مخصوص رسم الخط کے مطابق لکھنے کا حکم دیا ہو یا کسی مخصوص شکل میں کتابت وحی سے منع کیا ہو۔
دوسرا موقف اور اس کے دلائل
عوام الناس کے لئے مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق تحریر کرنا ہی ضروری ہے، ان کے لئے رسم عثمانی کے مطابق کتابت جائز نہیں ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ رسمِ عثمانی کے مطابق مصحف کی کتابت عوام الناس کے لئے مشقت اور التباس کا باعث ہے اور یہ چیز کسی لفظ کی کمی بیشی کی وجہ سے کتاب اللہ میں تحریف کا سبب بھی بن سکتی ہے، لہٰذا عوام الناس کے لئے مصحف کی کتابت رسم عثمانی کے مطابق نہیں ہونی چاہئے۔ البتہ سلف صالحین کی یادگار ہونے کے ناطے رسم عثمانی کی حفاظت بہرحال ضروری ہے۔ جاہلوں کی جہالت کی خاطر ہم اس سے ہرگز چشم پوشی نہیں کر سکتے اور ہر دور میں علمائے فن رسم عثمانی کی حفاظت کرتے آ رہے ہیں۔ چنانچہ التِّبیَان کے مصنف لکھتے ہیں:
”جہاں تک جدید عربی اِملا میں مصحف کو لکھنے کا تعلق ہے تو چونکہ اس میں التباس کا خدشہ نہیں ہے، لہٰذا اہل مشرق (ایشیائی ممالک) میں رسم عثمانی سے عملاً خلاف ورزی کارواج ہو گیا ہے۔ اور اہل مغرب میں رسم عثمانی کا التزام اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں امام مالک رحمة اللہ علیہ کا یہ واضح قول ثابت ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا: لوگوں نے جو نیا طریقۂ اِملا ایجاد کیا ہے، کیا اس کے مطابق مصحف کو لکھا جا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: نہیں، پہلے رسم کے مطابق لکھنا ہی ضروری ہے۔ ”
البُرہان کے مصنف امام زرکشی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”قرنِ اوّل میں علم تر و تازہ اور زندہ تھا، لیکن اب التباس کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے، لہٰذا شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے فرمایا ہے کہ ائمہ کی اصطلاح میں رسم اوّل کے مطابق مصحف کو لکھنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اَن پڑھ لوگوں کی طرف سے قرآن مجید میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو جائے۔ ”
__ مزید لکھتے ہیں:
” رسم اوّل کے مطابق مصحف کی کتابت کو مطلقاً ناجائز قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے سابقہ علمی میراث کہیں مٹ نہ جائے اور جاہلوں کی جہالت کی خاطر متقدمین کی محکم علمی روایت کہیں متروک نہ ہو جائے۔ اور زمین اللہ کے لئے حجت قائم کرنے والے سے خالی نہیں ہو سکتی۔ ”
تیسرا موقف اور اس کے دلائل
کتابت مصحف میں رسم عثمانی کا التزام بہر حال ضروری ہے۔ سلف اور خلف میں سے جمہور علما نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کتاب تھی جس میں آپؐ وحی لکھتے تھے اور اس میں قرآنِ مجید کو اسی خاص رسم کے مطابق لکھا گیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رفیقِ اعلیٰ کے پاس چلے گئے تو اس وقت قرآنِ کریم اسی رسم کے مطابق لکھا ہوا تھا اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ مسند خلافت پر فائز ہوئے تو اُنہوں نے بھی پورے قرآنِ مجید کو اسی خاص رسم کے مطابق لکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ کا دور آیا تو بھی تمام نئے مصاحف ابو بکرؓ کے صحیفوں کو سامنے رکھ کر نقل کئے گئے اور اُنہوں نے تمام مصاحف اس رسم کے مطابق تحریر کئے۔ پھر اُنہوں نے ان مصاحف کو تمام بلادِ اسلامیہ میں پھیلا دیا تاکہ وہ اُمت مسلمہ کے لئے امام اور مرجع کی حیثیت اختیار کر سکیں۔ اور پھر کسی صحابی نے حضرت ابو بکرؓ و عثمانؓ پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ تمام صحابہ کرامؓ نے ان کے اس کارنامہ کی تائید کی۔
اس کے بعد تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا دور آتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی ثابت نہیں ہے کہ اس کے دل میں رسم مصحف کو بدلنے اور اسے کسی دوسرے رسم پر لکھنے کا خیال بھی پیدا ہوا ہو، جو اس دور کے جدید رسم کے ساتھ ہم آہنگ ہو، بلکہ مختلف ادوار میں اسی رسم عثمانی کو ہی سب کے ہاں مقدس اور برتر حیثیت حاصل رہی۔ ان مختلف اَدوار میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود رہے جو قرآنِ کریم پڑھتے تھے، لیکن اسے حفظ نہیں کرتے تھے۔ ان لوگوں کا وجود بھی ائمہ کرام کو قواعد کے تقاضوں کے مطابق رسم عثمانی کو بدلنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ جب اس رسم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے شرفِ باریابی حاصل ہو چکا، صحابہ کرامؓ کا اس پر اجماع ہو چکا، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اس پر متفق ہیں تو ایسی صورتِ حال میں اس سے انحراف اختیار کرنا قطعاً جائز نہیں ہے اور پھر اسے یہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ یہ رسم ان بنیادی ارکان میں سے ہے جن پر قرأت سبعہ کی صحت کا دارومدار ہے۔
ائمہ دین اور کبار علمائے اسلام کی آرا
امام سخاوی رحمة اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ امامِ دارِ ہجرت مالک بن انس سے کسی نے یہ سوال کیا:
”أرأیت من استکتب مصحفًا، أتریٰ أن یکتب علی ما استحدثہ الناس من الھجاء الیوم؟ فقال: لا أریٰ ذلک ولکن یکتب علی الکتبة الأولیٰ”
”اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو مصحف کی کتابت کرتا ہے اور اسے آج کے جدید رسم الخط کے مطابق کتابت کرتا ہے ؟تو اُنہوں نے فرمایا: میں اسے درست نہیں سمجھتا، اسے پہلے رسم کے مطابق ہی مصحف کی کتابت کرنا چاہئے۔ ”
امام سخاوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”اس سلسلہ میں امام مالک رحمة اللہ علیہ کا مذہب برحق ہے، کیونکہ وہ پہلی حالت پر برقرار ہے جس کو ایک کے بعد دوسرے طبقہ نے سیکھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی موقف زیادہ قرین قیاس ہے۔ ”
ابوعمرو دانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”علمائے اُمت میں سے اس سلسلہ میں کوئی بھی امام مالک کا مخالف نہیں ہے۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ سے کسی نے قرآنی حروف: واؤ، یاء اور الف کے متعلق سوال کیا کہ کیا مصحف کے اندر اِن حروف میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے ؟ آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: نہیں۔ ”
آگے فرماتے ہیں:
”اس سے امام مالک کی مراد وہ واؤ، یاء اور الف ہے جو رسم میں لکھے جاتے ہیں، لیکن تلفظ میں نہیں آتے جیسے {لَا اَذْبَحَنَّہ} اور {بِاَیْیدٍ} اور {اُولُو} وغیرہ۔ ”
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”واؤ، الف، یا اور دیگر الفاظ میں مصحف عثمانی کے رسم الخط کی مخالفت حرام ہے۔ ”
امام نیسابوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ائمہ کرام کے نزدیک قرا، علما اور خطاطوں پر واجب ہے کہ وہ مصحف کو لکھتے ہوئے رسم عثمانی کی اتباع کریں۔ یہ زید بن ثابتؓ کا رسم ہے جو بلا شبہ رسول اللہﷺ کے امین اور آپؐ کے کاتب وحی تھے۔ ”
امام بیہقی رحمة اللہ علیہ شعب الایمان میں لکھتے ہیں:
”جو شخص بھی مصحف لکھے، اسے چاہئے کہ اس رسم الخط کا التزام کرے جس کے مطابق صحابہؓ نے یہ مصاحف (عثمانی) لکھے تھے اور اس بارے میں ان کی مخالفت نہ کرے۔ اور جو کچھ اُنہوں نے لکھا ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے، کیونکہ وہ لوگ ہمارے سے علم میں برتر، زبان کے سچے، دل کے نہایت کھرے اور امانت و دیانت میں اتنے عظیم تھے کہ ہم اپنے تئیں ان پر رشک کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ”
امام جعبری رحمة اللہ علیہ اور دیگر علما نے اس بات پر ائمہ اربعہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ رسم مصحف کی اتباع واجب ہے۔
دلائل کی روشنی میں جس موقف پر دل سب سے زیادہ مطمئن ہوتا ہے، وہ یہی تیسرا قول ہے اور اس کی ترجیح کی متعدد وجوہات ہیں:
اس قول کے حاملین نے اپنے موقف کی تائید میں جو دلائل پیش کئے ہیں، وہ مصاحف کی کتابت میں رسم عثمانی کے التزام کی فرضیت پر صریح اور واضح ہیں۔
جدید قواعد املا ہر دور اور ہر قوم میں تنقیح اور تغیر و تبدل سے دوچار رہے ہیں۔ قرآنِ مجید کا تقدس اور اس کی حفاظت کی ہماری ذمہ داری ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس کے رسم اور کتابت کو اس قسم کی تبدیلیوں کی آزمائش سے دوچار نہ کریں۔
رسم عثمانی میں تبدیلی، قرآنِ کریم کے اصل الفاظ و کلمات میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے، جو انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ نیز سد ذریعہ شریعت اسلامیہ کا ایک اُصول اور ماخذ ہے جسے استنباط احکام میں پیش نظر رکھا جاتا ہے اور رسم عثمانی کے بارے میں ائمہ کرام کا یہ موقف اس عظیم اُصول سے ہم آہنگ بھی ہے اور اس میں قرآنِ کریم کی حد درجہ حفاظت اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کا بے پناہ سامان بھی موجود ہے۔
اس رسم کی بے شمار خصوصیات اور امتیازات ہیں جنہیں علما نے نہایت وضاحت اور تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ اُن کی طرف رجوع مفید ہو گا۔
جہاں تک اوّل الذکر دونوں موقفوں کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ مصاحف کی رسم عثمانی کے مطابق کتابت شکوک و شبہات کا باعث بنے گی، وغیرہ تو یہ دلیل اس لئے ناقابل اعتبار ہے کہ اس دور میں جو مصاحف خصوصاً ً ایسے مصاحف جو حکومتی سرپرستی میں تیار ہوتے ہیں، وہ مکمل اعراب سے مزین ہوتے ہیں اور لوگوں نے اسے ایسے انداز پر شائع کیا ہے کہ اس کی قرأت میں ادنیٰ سی مشقت بھی اُٹھانا نہیں پڑتی۔
ان تمام دلائل کی بنیاد پر قرآنِ کریم کے کاتب اور ناشر کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کی کتابت میں رسم عثمانی کے قواعد کی پابندی اور جستجو کرے۔ اور قرآن کی حفاظت اور اسے بازیچۂ اطفال بننے سے بچانے کے لئے اس کے رسم میں سے کسی قسم کی کمی بیشی یا حذف و اضافہ نہ کیا جائے۔ اسی میں ہی صحابہ کرامؓ، تابعین عظام رحمة اللہ علیہ، ائمہ اور کبار علما کی اتباع اور اقتدا ہے۔ اور یہ پابندی مکمل مصاحف اور مصحف کے الگ الگ اجزا جو چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے تیار کئے جاتے ہیں، دونوں میں ضروری ہے۔
معلّمینِ قرآن کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بچپن ہی میں پوری کوشش سے ان قواعد کی تعلیم دیں اور اس سلسلہ میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں، حتیٰ کہ جب وہ جوان ہوں تو ان قواعد سے مکمل طور پر آگاہ ہو چکے ہوں۔ قرآنِ کریم کی قرأت ان کے لئے انتہائی آسان اور ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہو۔
مصحف لکھنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کلمات قرآن کو اسی رسم پر لکھے جو اس روایت (قرأت )کے مطابق ہو جس پر مصحف لکھا گیا تھا، خواہ یہ موافقت احتمالاً ہی کیوں نہ ہو، مثلاً روایت حفص کے مطابق مصحف کو لکھتے وقت {وَسَارِعُوا} یعنی واؤ کے ساتھ لکھا جائے گا۔ اسی طرح روایت حفص کے مطابق {مَٰلِکِ یَوْمِ ٱلدِّینِ} یعنی مٰلِکِ کو بغیر الف کے لکھا جائے گا۔ یہاں اس رسم کی موافقت روایت حفص کے ساتھ حقیقی تو نہیں البتہ احتمالاً موجود ہے۔ لیکن کلماتِ قرآن کے لئے ایسا رسم اختیار کرنا ممنوع ہے جس میں کسی روایت کے ساتھ نہ حقیقی موافقت موجود ہو اور نہ ہی احتمالی موافقت۔
نیز مصحف کے کاتب اور ناشر کو چاہئے کہ وہ اس کی کتابت اور اس کے حروف کی بناوٹ کو خوبصورت بنائے، صاف صاف اور واضح لکھنے کی بھرپور کوشش کرے اور قرآنِ کریم کے احترام اور تعظیم کے پیش نظر اسے بڑے سائز میں لکھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کے پاس ایک مصحف دیکھا جو باریک خط میں لکھا ہوا تھا، حضرت عمرؓ نے اسے ناپسند کیا اور اس آدمی کو سزا دی اور فرمایا:
عَظِّمُوْا کتاب اللہ ”کتاب اللہ کی تعظیم کرو۔ ”
مصحف پر نقطوں اورحرکات کا جواز
سلف صالحین کی ایک جماعت نے اسے ناپسند کیا ہے جب کہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے چھوٹے اور وہ بڑے مصاحف جو چھوٹوں کے حکم میں آتے ہیں، ان پر نقطوں اور حرکات کو جائز قرار دیا ہے۔ لیکن اُمہات اور مکمل مصاحف پر نقطے اور حرکات لگانے کو ناپسند کیا ہے۔ امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور ابن سیرین رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مصحف پر نقطے اور حرکات لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ربیعہ بن عبدالرحمن رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مصحف پر نقطے اور اعراب لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نامور شافعی فقیہ اور عالم امام نووی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے:
”مصحف پر نقطے اور اعراب لگانا مستحب ہے، کیونکہ یہ قرآن میں لحن اور تحریف سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ ”
امام دانی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب النقط میں فرماتے ہیں:
”تابعین کرام رحمة اللہ علیہ سے لے کر آج تک تمام بلادِ اسلامیہ کے لوگ اُمہات مصاحف اور دیگر مصاحف پر حرکات اور نقطے لگانے کی اجازت کے قائل رہے ہیں۔ وہ کسی سورت کے آغاز کی علامت، آیات کی تعداد، پانچ آیات کے بعد ‘خمس’ اور دس آیات کے بعد ‘عشر ‘کی علامت لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ اور ان تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان علامات کے سلسلہ میں اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا اِزالہ ضروری ہے۔ ”
میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ اس دور میں قرآنِ کریم پر نقطے اور حرکات لگانا واجب ہے تاکہ تمام لوگوں کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت آسان ہو سکے۔ نیز اس کے ذریعہ قرآن کریم لحن اور تحریف سے بھی محفوظ ہو جائے گا۔
سورتوں کے نام لکھنے کا جواز
ہر سورت کے شروع میں سورت کا نام، اس کی آیات کی تعداد اور اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے کی وضاحت کرنا جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ مستثنیات کا تذکرہ بھی کیا جائے گا، کیونکہ اس سلسلہ میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
اسی طرح مصحف پر جز، حزب، ربع، سجدہ اور وقف کی علامات، آیات کی نمبرنگ، سورت کے آغاز و اختتام کی علامات لگانا جائز ہے، لیکن سلف کی ایک جماعت نے ان تمام علامات کو ناپسند کیا ہے۔ ان کی دلیل عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول ہے:
جرِّدوا القرآن ولا تلحقوا بہ ما لیس منہ 1
”قرآن کو ہر چیز سے خالی کر دو اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہ کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔ ”
میری رائے یہ ہے کہ اس قسم کی تمام علامات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جمہور متقدمین و متاخرینِ اسلاف کا رجحان بھی اسی موقف کی طرف ہے، جیسا کہ امام دانی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔
قرآنِ کریم کو سونے، چاندی سے لکھنے کا جواز
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے سونے کے ساتھ قرآنِ کریم کی کتابت کو مستحسن قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ، ابو ذرؓ اور ابو درداءؓ کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے:
إن أحسن ما زُیِّن بہ المصحف، تلاوتہ بالحق 2
”سب سے بہترین چیز جس سے مصحف کو مزین اور خوبصورت بنایا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی تلاوت کا حق ادا کیا جائے۔ ”
البتہ قرآن کریم کو عزت و احترام کے پیش نظر چاندی سے آراستہ کرنا جائز ہے۔ امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے ولید بن مسلم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے امام مالک رحمة اللہ علیہ سے مصاحف کو چاندی سے مزین کرنے کے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے ایک مصحف نکال کر مجھے دکھایا اور فرمایا: مجھے میرے باپ نے میرے دادا کے حوالہ سے بتایا کہ اُنہوں نے حضرت عثمانؓ کے دور میں قرآنِ کریم جمع کیا تھا اور مصاحف کو اس طرح چاندی سے آراستہ کیا تھا۔
جہاں تک سونے سے قرآنِ کریم کو آراستہ کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ عورت کیلئے تو یہ جائز ہے، لیکن مرد کے لئے جائز نہیں ہے اور بعض نے یہ رائے پیش کی ہے کہ مصحف کو تو سونے سے مزین کیا جا سکتا ہے البتہ اس کے غلاف کو سونے سے مزین کرنا جائز نہیں ہے، لیکن بظاہر ان دونوں میں فرق کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ 3
مصاحف کا دور طباعت
پریس کی ایجاد سے قبل قرآنِ کریم کے تمام نسخے قلم سے لکھے جاتے تھے۔ جب مصر اور دیگر مشرقی ممالک میں چھاپہ خانوں کا آغاز ہوا تو اُنہوں نے قرآنِ کریم کی طباعت کا خاص اہتمام کیا۔ اس سلسلہ میں باہم مقابلہ کا رجحان پیدا ہوا اور ہر ایک قرآنِ کریم کی طباعت کو ہر لحاظ سے خوبصورت اور بہتر سے بہتر بنانے کے لئے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ قرآنِ کریم کے یہ نسخے مختلف شکلوں، مختلف رنگوں اور مختلف سائز میں ہوتے تھے۔
اس سب کچھ کے باوجود یہ چھاپہ خانے قرآنِ کریم کی طباعت میں اس رسم الخط کا التزام نہیں کیا کرتے تھے جس پر حضرت عثمانؓ، صحابہؓ، تابعین رحمة اللہ علیہ اور ائمہ مجتہدین رحمة اللہ علیہ کے دور میں قرآنِ کریم لکھا جاتا رہا تھا اور ان چھاپہ خانوں میں رسم کے ان قواعد و ضوابط کا لحاظ بھی نہیں کیا جاتا تھا جو سلف سے خلف تک قابلِ لحاظ سمجھے جاتے رہے تھے۔ سلف صالحین رحمة اللہ علیہ تو اس رسم کی نمایاں خصوصیات اور حکمتوں سے آگاہ تھے، لیکن بعد میں مصری مطبع خانوں نے مصحف کی طباعت میں رسم عثمانی کا التزام ترک کر دیا اور جدید قواعد املا کا سہارا لیا، البتہ کلمات کی صرف ایک تھوڑی سی تعداد رسمِ عثمانی کے مطابق لکھی جاتی رہی۔
ایک لمبا عرصہ مصاحف اسی طرح طبع ہوتے رہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے ایک بہت بڑے عالم الاستاذ علامہ محقق شیخ رضوان بن محمد عرف المخللاتی کو یہ توفیق دی کہ اُنہوں نے دوبارہ قرآنِ کریم کی رسم عثمانی کے قواعد کے مطابق طباعت کا اہتمام کروایا۔ موصوف نے کئی نہایت مفید کتب بھی تالیف کیں۔ اُنہوں نے ایک نہایت عظیم الشان مصحف شائع کرایا جس میں قرآنی کلمات کو رسم عثمانی کے قواعد کے مطابق لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نیز اُنہوں نے اس میں مشہور علمائے ریاضیات کی آرا کے مطابق ہر سورت کے شروع میں اس کی آیات کی تعداد ذکر کی۔ پھر وقف کے مقامات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وقف کو درج ذیل چھ اقسام میں تقسیم کیا: کافی، حسن، جائز، صالح، مفہوم، تام۔ اور پھر کافی کے لئے ک، حسن کے لئے ح، جائز کے لئے ج، صالح کے لئے ص، مفہوم کے لئے ماور تامّ کے لئے تکے رُموز استعمال کئے۔ یہ مصحف ایک اہم علمی مقدمہ کے ساتھ شائع ہوا جس میں مصنف نے یہ وضاحت کی کہ اس مصحف کے رسم کے لئے امام دانی کی کتاب المقنع اور امام ابو داؤد کی کتاب التنزیل کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ نیز اُنہوں نے اپنے اس مقدمہ میں عہد نبویؐ، عہد ابوبکرؓ اور عہد عثمانؓ میں جمع قرآن کی پوری تاریخ کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے رسم اور ضبط کی مباحث کو بھی مختصر اور جامع انداز سے پیش کر دیا۔ اور پھر آیات کی تعداد وغیرہ کی تعداد کے سلسلہ میں مشہور علمائے ریاضیات کی توضیحات ذکر کیں، اس کے بعد سورت اور آیت کا مفہوم واضح کیا۔ یہ ساری باتیں نہایت آسان اور شاندار اُسلوب میں پیش کی گئیں۔
یہ مصحف 1308ھ بمطابق 1890ء میں شیخ محمد ابو زید کے اہتمام سے المطبعة البھیة سے شائع ہوا۔ اپنی مذکورہ بالا علمی خصوصیات کی بدولت یہ مصحف علمائے عظام اور قراے کرام کے ہاں بہت متداول اور دیگر مصاحف کی نسبت زیادہ قابل اعتماد اور برتر حیثیت کا حامل رہا۔ البتہ مصحف کا ظاہری گیٹ اَپ اتنا خوبصورت اور جاذبِ نظر نہیں تھا جس کی ایک وجہ تواس کا ردّی کاغذ تھا اور اس کے علاوہ طباعت بھی زیادہ اچھی نہیں تھی۔
اس کے بعد ملک فواد الاوّل… اللہ تعالیٰ اُنہیں جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی حسنات میں اضافہ اور ان کے درجات بلند فرمائے … جنہوں نے خاص اپنے اِخراجات سے مصحف کو نہایت شان سے شائع کروانے کا اہتمام کیا۔ اُنہوں نے اس عظیم اور مشقت طلب کام کو انجام دینے کے لئے علامہ شیخ محمد علی خلف حسینی الحداد اور مصری قرا کے شیخ کی سربراہی میں کبار علما اور اُدبا کی ایک کمیٹی تشکیل دی، جنہوں نے نہایت خوش اُسلوبی اور کامیابی سے اس مہم کو انجام دیا۔ اُنہوں نے پورے قرآنِ کریم کو رسم عثمانی کے قواعد و ضوابط کے مطابق تحریر کیا اور ایسے نظامِ ضبط کے مطابق اس پر حرکات اور نقطے لگائے جو محقق علما کے نزدیک ہر لحاظ سے مکمل تھا۔
اُنہوں نے ہر سورت کے شروع میں اس کی آیات کی تعداد ذکر کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ سورة مکی ہے یا مدنی اور یہ کس سورت کے بعد نازل ہوئی تھی؟ اُنہوں نے ہر آیت کو ایک نمبر لگایا۔ نیز وقف، اِجرا، احزاب، ربع اور سجدوں کی علامات وضع کیں، پھر وقف کو درج ذیل پانچ اقسام میں تقسیم کیا:
‘وقف لازم ‘یعنی جہاں ٹھہرنا ضروری اور ما بعد کے ساتھ ملا کر پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس کے لئے انہوں نے ‘م’ کی علامت وضع کی۔
‘وقف اَولیٰ ‘جہاں ٹھہرنا اور ملا کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، لیکن آگے ملا کر پڑھنے کی بجائے ٹھہرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کے لئے انہوں نے ‘قلی’ کی علامت وضع کی جو ‘ وقف اولیٰ’ کا مخفف ہے۔
‘وصل اولیٰ’ جہاں ٹھہرنا اور ملاکر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے۔ لیکن مابعد کے ساتھ ملا کر پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کیلئے اُنہوں نے ‘صلی’ کی علامت وضع کی جو کہ ‘وصل اولیٰ ‘کا مخفف ہے۔
‘وقف جائز ‘ یعنی یہاں ٹھہرنا اور نہ ٹھہرنا بلا ترجیح برابر ہے۔ اس کے لئے اُنہوں نے ‘ج’ کی علامت وضع کی۔
‘وقف ممنوع’یعنی یہاں ٹھہرنا بالکل جائز نہیں ہے، لیکن اگر سانس ٹوٹ جائے یا تھک جانے کی بنا پر ٹھہر جائے تو دوبارہ پیچھے سے ملا کر پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے اُنہوں نے ‘لا’ کی علامت وضع کی۔
اس مصحف کو پہلی نظر دیکھنے والا ہی وقف کی ان پانچوں اقسام کا بآسانی مشاہدہ کر سکتا ہے۔ ہم اس کمیٹی کے اراکین اور اس کے اس عظیم کام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اس مصحف کی اشاعت اور اسے اس قدر خوبصورت انداز پر شائع کرنے میں اپنی بے پناہ مساعی صرف کیں اور بلا شبہ ان کا یہ کارنامہ انتہائی قابل قدر ہے، لیکن اس مصحف میں بھی کچھ اُمور قابل ملاحظہ رہ گئے۔
بعض کلمات کا رسم اہل عراق کے مصاحف جو روایت حفص پر مشتمل ہیں، کے خلاف ہے۔ مثال کے طور پر سورة الاعراف کی آیت نمبر137{وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ ٱلْحُسْنَىٰ} میں کلمة کی تاء کو اس مصحف میں تاے مربوطہ کے ساتھ لکھا گیا ہے، حالانکہ اسے تاے مفتوحہ کے ساتھ کلمت لکھا جاناچاہئے تھا، کیونکہ عراقی مصاحف میں اسی طرح ہے۔
اسی طرح سورةص کی آیت نمبر۵۵ {وَإِنَّ لِلطَّٰغِینَ لَشَرَّ مََٔابٍ ﴿۵۵﴾} اور سورة النبا: ۲۲ میں {لِّلطَّٰغِینَ مََٔابًا ﴿۲۲﴾} دونوں جگہوں پر للطاغین الف کے ساتھ لکھا گیا ہے، حالانکہ صحیح الف کے حذف کے ساتھ لِلطَّٰغِینَ ہے، کیونکہ علمائے رسم کے نزدیک اسی پر عمل رہا ہے، جیسا کہ سورة الصافات کی آیت{بَلْ کُنتُمْ قَوْمًا طَٰغِینَ ﴿۳۰﴾} اور سورةا لقلم کی آیت{إِنَّا کُنَّا طَٰغِینَ ﴿۳۱﴾} میں الف کے حذف کے ساتھ لکھا گیا ہے۔
اسی طرح آیت قرآنی {أَفَمَنْ ہُوَ قَآئِمٌ عَلَىٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ…﴿۳۳﴾…سورة الرعد} میں لفظ قائم کو یاء کے اوپر ہمزہ کے ساتھ لکھا گیا ہے، حالانکہ علمائے رسم کے اُصول کی رو سے اسے نیچے ہونا چاہئے تھا، جیسا کہ سورة آل عمران میں {وَہُوَ قَآئِمٌ یُصَلِّى فِى ٱلْمِحْرَابِ} میں یاء کے نیچے ہمزہ ڈالا گیا ہے۔
اسی طرح سورة یونس کی آیت: {إِنَّ ٱلَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ ﴿۹۶﴾} میں لفظ کلمة کو اس مصحف میں تاے مفتوحہ کے ساتھ کلمت لکھا گیا ہے، حالانکہ صحیح تاے مربوطہ کے ساتھ ہے، کیونکہ اہل عراق کے مصاحف میں یہ اسی طرح ہے۔ اور امام دانی رحمة اللہ علیہ نے المقنع اور امام شاطبی رحمة اللہ علیہ نے العقیلة میں اسی کی تصریح کی ہے۔
اس مصحف میں دوسری فروگذاشت یہ ہوئی ہے کہ 33 سے زائد کلمات کی حرکات روایت حفص کے خلاف ہیں، یہ فروگزاشتیں زیادہ تر سورتوں کے آخر میں ہیں۔ مثال کے طور پر
سورة المائدة کی آخری آیت: {وَہُوَ عَلَىٰ کُلِّ شَىْءٍ قَدِیرٌ ﴿۱۲۰﴾} میں قدیر کی راء پر دو ضمے لگے ہوئے ہیں۔ پھر اس سورہ کا آخر اگلی سورت کے ساتھ متصل ہے اور درمیان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فاصلہ موجود نہیں ہے۔ حالانکہ روایت حفص کے تمام طرق میں دونوں سورتوں کے درمیان بسملہ کا فاصلہ موجود ہے۔
لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یہاں راء کے اوپر ایک ضمہ ڈالا جائے اور بسملہ کی رعایت کرتے ہوئے اسے میم کے ساتھ اِدغام کر کے پڑھا جائے، کیونکہ تنوین جب باء کے ساتھ ملے تو میم سے بدل جاتی ہے، جیسا کہ یہ علم تجوید اور علم ضبط کا مسلمہ اُصول ہے۔
ایسے ہی سورة الفیل کی آخری آیت {فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّأْکُولٍ﴿۵﴾} میں ماکول کی لام کے نیچے دو زیر ڈالی گئی ہیں۔ اسی طرح سورة قریش کی پہلی آیت: {لِإِیلَٰفِ قُرَیْشٍ ﴿۱﴾} میں لام کے اوپر شد ہے۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ سورة الفیل کے آخر کو اگلی سورہ کے ساتھ بسملہ سے قطع نظر کرتے ہوئے ملایا گیا ہے، حالانکہ یہاں بھی بسملہ کا لحاظ ضروری ہے جیسا کہ پہلے یہ اُصول گزر چکا ہے لہٰذا یہاں لام کے نیچے دو زیریں اور لایلف میں لام پر شد نہیں ہونی چاہئے۔
وقف کی بعض علامات کو غیر مناسب مقامات پر لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر
سورة البقرة کی آیت نمبر 129 {وَیُزَکِّیہِمْ} پر ‘قلی’ کی علامت موجود ہے، حالانکہ یہاں ‘صلی’ کی علامت ہونی چاہئے تھی، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فرمان {إِنَّکَ أَنتَ ٱلْعَزِیزُ ٱلْحَکِیمُ ﴿۱۲۹﴾} ابراہیم و اسمٰعیل کی دعا کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اسے پہلے حصہ سے الگ نہیں ہونا چاہئے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سورة البقرة کی آیت {وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ ٱلْمَالِ} کے بعد ‘قلی’ کی علامت موجود ہے حالانکہ یہاں ‘ج’ کی علامت موزوں تھی، جہاں ٹھہرنا اور نہ ٹھہرنا برابر ہوتا ہے کیونکہ ‘قلی’ کی علامت وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں کلام مکمل ہو جائے اور مابعد کلام سے اس کا لفظی اور معنوی تعلق ختم ہو جائے۔
اسی آیت میں {مَن یَشَآءُ} کے بعد ‘قلی’ کی علامت موجود ہے حالانکہ یہاں ‘صلی’کی علامت ہونا چاہئے تھے، کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: {وَٱللَّہُ وَٰسِعٌ عَلِیمٌ ﴿۲۴۷﴾} اس کے نبی کے قول کا باقی ماندہ حصہ ہے۔
اسی طرح آیت {تَحْمِلُہُ ٱلْمَلَٰٓئِکَةُ} کے بعد بھی ‘قلی’ کی علامت موجود ہے، حالانکہ یہاں ‘صلی’ کی علامت ہونی چاہئے، وجہ وہی ہے جو سابقہ آیت میں ہے۔
پھر بعض ایک جیسے مقامات پر یہ فرق کیا گیا ہے کہ ایک جگہ تو علامت وقف موجود ہے لیکن اس جیسے دوسرے مقام پر وہ علامت موجود نہیں ہے، حالانکہ دونوں مقام پر ایک ہی اُصول پیش نظر رہنا چاہئے:
مثال کے طور پرسورة الاعراف کی آیت نمبر73{ہَٰذِہِۦ نَاقَةُ ٱللَّہِ لَکُمْ ءَایَةً} میں لفظ آیة پر تو’صلی’کی علامت موجود ہے، لیکن سورة ہود کی آیت نمبر64{ہَٰذِہِۦ نَاقَةُ ٱللَّہِ لَکُمْ ءَایَةً…﴿۶۴﴾…سورة ھود} پر یہ علامت موجود نہیں، حالانکہ یہ آیت بھی اپنے سے پہلی آیت کے ساتھ متصل ہے، لہٰذا دونوں آیات میں اس علامت کاہوناچاہیے تھا۔
اسی طرح سورة النحل کی آیت نمبر55 {لِیَکْفُرُوا بِمَآ ءَاتَیْنَٰہُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا}میں آتیناھم پر ‘ج’ کی علامت اور فتمتعوا پر ‘صلی’ کی علامت موجود ہے۔ لیکن سورة الروم کی آیت {لِیَکْفُرُوابِمَآ ءَاتَیْنَٰہُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا} پر یہ دونوں علامتیں موجوود نہیں ہیں، حالانکہ ان دونوں آیات میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کچھ اور ملاحظات بھی ہیں، لیکن اختصار کے پیش نظر صرف انہیں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
قرآنِ عظیم کا تواتر
صحابہ کرامؓ نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کیا اور حضرت ابو بکرؓ نے لوگوں کے حافظہ اور ان صحیفوں کو سامنے رکھ کر قرآنِ کریم کو مرتب کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لکھے گئے تھے۔ اور جمع قرآن کا یہ کام کبار اور جلیل القدر صحابہ کی زیر نگرانی تکمیل پایا۔ حضرت ابو بکرؓ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔
پھر حضرت عثمانؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے اِنہی صحائف سے مہاجرین و انصار میں سے حفاظ اور ثقہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے بالمشافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآنِ کریم کو حاصل کیا تھا اور وہ عہد ابو بکرؓ میں جمع قرآن کی کمیٹی میں شامل تھے، کی زیر سرپرستی حضرت ابو بکرؓ کے اِنہی صحیفوں سے قرآنِ کریم کے مصاحف نقل کروائے۔
چنانچہ قرآنِ کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ہے۔ پھر لاکھوں لوگوں نے بغیر کسی ادنیٰ کمی و بیشی اور تغیر و تبدل کے اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یہ روزِ قیامت تک بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
ان دلائل کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت روئے زمین پر قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آسمان سے اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک کے لئے تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا۔ چنانچہ حفاظت قرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کر دی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُۥ لَحَٰفِظُونَ ﴿۹﴾…سور رة الحجر
”بلاشبہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ ”
میں اللہ کی ذاتِ کریم و غفور سے خواستگار ہوں کہ اس کتابچہ کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور ہر علاقے اور ہر زمانہ میں علومِ قرآن سے متعلقہ حضرات کو اس سے نفع عطا فرمائے اور میرے لئے اسے توشۂ آخرت اور قیامت کی ہولناکیوں سے نجات کا سبب بنا دے۔ وہی مجھے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ ہر قسم کی قوت اور طاقت اللہ کی بلند و برتر ذات کے لئے ہے۔
وصلَّی اللہ و سلم وبارک علی سیدنا ومولانا محمّدﷺ وعلی آلہ وصحبہ أجمعین والحمد للہ رب العالمین
حوالہ جات
- البرہان فی علوم القرآن: 1؍479
- الاتقان فی علوم القرآن 1؍432
- الاتقان از سیوطی: 1؍434
٭٭٭
ماخذ:
http: //magazine.mohaddis.com/shumara/51-apr2008/1179-al-mushaf-al-hareef-aek-tareeki-jaeza
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید