FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اقبال کا لفظیاتی نظام

 

 

 

               شمس الرحمن فاروقی

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

اقبال کے اُردو فارسی کلام میں اتنی طرح کے اور اتنی جگہ کے تصورات و نظریات ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ جلوہ افروز ہیں کہ ہر طرح کا قاری ان کے یہاں اپنے لیے قابلِ قبول مال ڈھونڈ نکالتا ہے۔ چنانچہ فاشزم کا نام لیوا ہو یا انسانی آزادی کا علم بردار، صوفی ہو یا انقلابی، مشرق کا پرستار ہو یا مغربی فکر کا دلدادہ، سیدھا سادا مسلمان ہویا اصل کا خاص سومناتی، قرآن و حدیث میں تفکر و تدبر کرنے والا ہو یا مارکس و لینن کا مرید، ہر شخص کی جھولی بھرنے کے لیے ان کے یہاں جواہر ریزے موجود ہیں۔ موضوع اور فکر کے اسی تنوع کے باعث یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے اپنے تعصبات کو ترک کر کے شاعر اقبال کے اسرار میں غوطہ زن ہوں اور جس چیز کو ہم ظاہر و باہر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی گہرائیوں میں اتریں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب اقبال کی شاعری اتنی آسانی سے خود کو منوا لیتی ہے تو پھر اس کی چھان بین اور تجزیے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے افکار ہی کے میدان میں گھوڑے کیوں نہ دوڑائے جائیں ، خاص کر جب کہ اس عمل میں فکری موشگافیوں کے امکان زیادہ ہیں۔ اس کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ اقبال کی اہمیت قائم ہی اسی وجہ سے ہوئی کہ وہ شاعر ہیں۔ لہٰذا ان کی شاعری کو ترک کر کے کسی بھی چیز کو اختیار کرنا، چاہے وہ جذباتی طور پر ہمارے لیے کتنی ہی خوشگوار کیوں نہ ہو، ادبی مطالعے کے ساتھ بے ادبی کے علاوہ خود اقبال کے ساتھ بے انصافی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے افکار جس شکل میں بھی ہمارے سامنے ہیں وہ اُن کی شاعری ہی کے مرہون منت ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ انھی افکار کو کسی اور پیرائے میں بیان کر دیا جائے اور پھر بھی وہ اقبال کے افکار و آثار رہ جائیں۔ وہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ ہو یا ’’طلوع اسلام‘‘ یا ’’ساقی نامہ‘‘ یا ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کسی بھی نظم میں کوئی ایسا خیال نہیں ہے جسے خالص اقبالؔ کی ملکیت کہا جا سکے یا جس کے بارے میں یہ دعویٰ ہو سکے کہ اگر یہ خیال اقبال اس نظم میں نہ رکھتے تو دنیا اس سے محروم رہ جاتی۔ ان خیالات میں جدت، لذت، حسن جو کچھ بھی ہے وہ محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اقبالؔ کی زبان میں بیان ہوتے ہیں ، ورنہ ان کا کوئی  Patent  اقبال کے پاس نہیں تھا۔ وہ ہم آپ ہوں یا اقبال کا بڑے سے بڑا شارح، ان خیالات کو نظم سے الگ بیان کیا جائے تو اقبالؔ کی نظم نہیں ، بلکہ ایک نسبتاً یا کلیتاً بے روح بیان وجود میں آئے گا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ’’جبرئیل و ابلیس‘‘ جیسی نسبتاً سادہ نظم کا بھی کوئی لفظی ترجمہ ایسا ممکن ہے کہ پوری نظم اس میں برقرار رہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ اقبال کی شاعری بہت جلد اپنی عظمت یا خوبی کو اپنے آپ منوا لیتی ہے لیکن تنقیدی طریقِ کار کا تقاضا یہ ہے کہ خود اس بات کی وجوہ تلاش کی جائیں کہ یہ شاعری اتنی تیزی سے متاثر کیوں کرتی ہے اور پھر یہ کہ اس کو دوسرے شعرا سے کس طرح ممتاز کیا جائے، یعنی وہ کیا اسلوبیاتی یا اظہاری خصوصیات ہیں جن کی بنا پر اقبال کی انفرادیت ثابت ہو سکتی ہے؟ آخری سوال اس لیے اہم ہے کہ اچھے اور بُرے شاعر کے درمیان حدّ فاصل اکثر یہی انفرادیت ہوتی ہے کیوں کہ شاعری کے مجرد خواص یعنی استعاراتی اور علامتی طرز اظہار، جدلیاتی الفاظ، ابہام وغیرہ تو ہر اچھے شاعر کے یہاں کم و بیش موجود ہی ہوتے ہیں۔

اگر اقبال کی فکری انفرادیت ان کی شاعرانہ انفرادیت کے تحت نہ رکھی جائے بلکہ اسے قائم بالذات مان لیا جائے تو پھر اقبال کے کلام کی مفصل شرح یا ان نظموں کی توضیح کافی ہے، اصل کلام کے مطالعے کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعری زبان کی وہ کیفیت ہے جس میں اُسے مخصوص شدت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ بقول جارج اسٹینر ممکن ہے ادب کے بغیر زبان قائم ہو سکے لیکن زبان کے بغیر ادب قائم نہیں ہو سکتا۔ زبان کی مخصوص شدت سے مراد یہ ہے کہ ادب میں استعمال ہونے والی زبان مکمل معنویت کی کوشش کرتی ہے۔ اس میں کوئی لفظ بلکہ کوئی حرف بے کار یا برائے بیت نہیں ہوتا اور یہ مکمل معنویت اس مخصوص فن پارے کی حد تک جس میں زبان برتی گئی ہے، فقیدالمثال اور یکتا ہوتی ہے۔ یعنی وہ معنویت پوری پوری کسی اور لسانی ترتیب، حتیّٰ کہ کسی اور فن پارے میں بھی نہیں سما سکتی۔ ہمارے متقدمین اس نکتے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اِسی وجہ سے انھوں نے شعر میں حشو اور تناسب اور لفظی و معنوی ہم آہنگی کی بحثیں اٹھائیں۔ افسوس کہ انھوں نے ان مسائل کو فکری اساس نہ عطا کی اور بعد میں آنے والے نقادوں نے اُن کی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے جو منطقی دلائل استعمال کیے وہ متقدمین کے یہاں فکری اساس کی کمی کے باعث بہت کار گر ثابت ہوئے۔ ابن خلدون سے لے کر نکات الشعرا میں میرؔ کے منتشر خیالات اس بات کی دلیل ہیں کہ زبان کو شعر بلکہ شاعری کا سرچشمہ اور بنیاد سمجھنا ہماری شعریات کا ایک حصّہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ زبان کے تفصیلی محاکمے پر قدرت ہونا استاد بننے کی پہلی شرط رہا ہے۔ آتش کا شاعری کو مرصع سازی کہنا زیادہ بنیادی حقیقت تھا اور اس حقیقت کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے جگرؔ کو ’’کاری گران شعر‘‘ پر طنز کرنے کا موقع ملا۔ جگر صاحب کو یہ خیال نہیں رہا تھا(یا ان کے زمانے میں لوگ اس بات کو بھول چکے تھے) کہ اگر شعر میں اثر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ شاعروں کی جگہ ’’کاری گرانِ شعر‘‘ نے لے لی ہے، بلکہ یہ ہے کہ کاری گری کا فن شاعروں نے بھلا دیا ہے۔ بقول جارج اسٹینر، ارسطو کا نظریہ اس افلاطونی حقیقت کو پس پشت ڈال دیتا ہے کہ زبان جب موسیقیاتی امکانات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو وہ ہم میں یہ صلاحیت پیدا کر دیتی ہے کہ ہم شاعرانہ صداقت اور تصدیق پذیر صداقت میں فرق کر سکیں۔ شعر میں اثر پیدا ہی اس کاری گری سے ہوتا ہے جو زبان اور موسیقی کے امتزاج کی سعی کرتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ان حقائق کی دوبارہ چھان بین ان نقادوں اور مفکروں کی مرہونِ منت ہے جنھوں نے شاعری کی زبان اور شاعرانہ زبان پر لسانیاتی طریقوں سے غور و خوض کیا ہے۔ ان میں ماسکو لسانیاتی مکتب (Moscow Linguistic Circle) کے اراکین، خاص کر رومان جیکبسن (Roman Jakobson) کا نام قابل ذکر ہے۔ جیکبسن کا کہنا ہے کہ وہ ماہر لسانیات جو زبان کے شاعرانہ تفاعل سے ناواقف ہے اتنا ہی مجہول الزمان ہے جتنا وہ نقاد جو لسانیاتی مسائل اور طریق کار سے بے خبر یا اُن سے لا پروا ہے۔ اسٹینر کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ اب ہم اس مفروضے کی روشنی میں عمل پیرا ہیں کہ استعاراتی زبان میں بہت سی ایسی تصدیقیں (Verification) اور بے جوڑ پن Inconsistencies) (ہوتے ہیں جو داخلی ہیں اور جن کی توجیہہ اپنی منطق، بلکہ علامتی منطق،آپ رکھتی ہے۔ آئی، اے رچرڈ نے معنی سے بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام تنقیدی مسائل کی شاہ کلید ان سوالوں میں ہے کہ معنی کیا ہے؟ جب ہم معنی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت کیا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ چیز ہے کیا، جس کو ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب میں اس نے چار طرح کے معنی کی نشان دہی کی تھی جنھیں اس نے مفہوم، محسوس، لہجہ اور ارادہ کا نام دیا تھا۔ ان کی تفصیل میں جائے بغیر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سوالوں کی اہمیت کے پیش نظر جواب، یعنی معنی کی چار اقسام اور یہ بیان کہ یہ سب یا ان میں سے بیش تر معنی شاعری میں بہ یک وقت موجود رہتے ہیں ، بہت دور رس نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہم اتنی بھی دور پہنچ جائیں تو بہت ہے۔ بیدلؔ کا یہ کہنا کہ پس ہر نقشے کہ می بینی حرفے ست کہ می شنوی، چاسر کے اس مصرعے کی یاد دلاتا ہے کہ ’’آواز کچھ نہیں ہے مگر ہوا ہے،شکستہ۔ ‘‘ان دونوں حقائق کے پیچھے شاعری کا وہی تصور کارفرما ہے کہ شاعری میں زبان اور موسیقی ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ، یعنی ایک عنصر دوسرے کا اظہار کرتا ہے۔ رچرڈز کی بیان کردہ معنی کی چار قسمیں بھی آہنگ کے ذریعہ ایک دوسری سے منسلک ہیں۔ والٹر آنگ (Walter Ong)اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آواز کیا ہے، اسے وجود میں لانا یعنی اسے سننا چاہیے۔

آہنگ یا موسیقی کا اس قدر اہمیت کے ساتھ ذکر میں اس لیے نہیں کر رہا ہوں کہ شاعری خاموش بیٹھ کر پڑھنے کی چیز نہیں ہے بلکہ علی الخصوص اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ شاعری کا آہنگ وہ آہنگ نہیں ہے جو ساز یا ترنم یا بہ قول سردار جعفری ’’لحنِ داؤدی ‘‘کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے۔ شاعری کا آہنگ دراصل وہ موسیقی ہے جو خاموش ہی پڑھنے میں نمایاں ہو جسے ساز یا ترنّم کی ضرورت نہ ہو بلکہ جسے آپ چپ چاپ پڑھیں تو الفاظ آپ کو از خود سنائی دیں۔ کبھی بلند، کبھی پست، کبھی تیز، کبھی مدھم، ان کی ہزار شکلیں آپ کے داخلی سامعے پر اثر انداز ہوں گی۔ یہ آہنگ معنی کا مرہون منّت یا  اُس کا تابع ہوتا ہے لیکن اس کے بغیر معنی کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ والٹر آنگ کے کہنے کا اصل مفہوم یہی ہے۔ شعر کی ان جہتوں کا مطالعہ ہی دراصل شعر فہمی کا صحیح راستہ ہے۔

اس مفروضے کو قائم کرنے کے بعد اقبال کا شاعرانہ حُسن اُن کے افکار پر مقدم ہے اور شاعرانہ حسن کا مطالعہ دراصل شاعرانہ زبان کا مطالعہ ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعرانہ زبان کے خواص کیا ہیں اور اُن کا لفظیاتی نظام کن عناصر سے مرکب ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے کچھ سوال اور قائم کرنا ہوں گے، اس لیے کہ ہر بڑا شاعر زبان کو اپنے طور پر برتتا ہے اور ایک شاعر کا طریق کار دوسرے کو سمجھنے کے لیے لازماً کار آمد نہیں ہو سکتا۔ عمومی مشابہتیں ضرور ہوتی ہیں لیکن بدلی ہوئی جزئیات اور تفصیلات کی بنا پر مشابہتیں مختلف بڑے شعرا کے یہاں متنوع صورت حال پیدا کرتی ہیں مثلاً اردو کے چار عظیم ترین شعرا میرؔ، غالبؔ، انیسؔ، اور اقبالؔ مناسبت لفظی کے ماہر ہیں۔ یعنی ان کے یہاں الفاظ گذشتہ سے پیوستہ آتے ہیں ، الفاظ موضوع کی مناسبت سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور موضوع کے لحاظ سے مناسب تلازموں کے حامل اور مختلف طرح کی رعایتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اقبال کے یہاں مناسبت الفاظ تسلسل کا کام کرتی ہے کیوں کہ ان کے بہت سے الفاظ اگلے بلکہ بہت بعد میں آنے والے الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اُن کی رعایتِ لفظی منتشر اور بہ ظاہر بے ربط اشعار یا بندوں کو مربوط کر دیتی ہے۔ میر انیس کے یہاں تسلسل واقعات سے قائم ہوتا ہے، غالب اور میرؔ کے یہاں تسلسل کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ میری مراد یہ ہے چاروں شاعر لفظی در و بست کے ماہر ہیں ، اس مہارت کا اظہار انھوں نے بعض مشترک اور بعض انفرادی طریقوں سے کیا ہے۔ اسی طرح ان چاروں کے یہاں بعض کلیدی الفاظ ہیں ، یہ ایک عمومی مشابہت ہے۔ لیکن جزئیات کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کلیدی الفاظ کا استعمال اقبال کے یہاں غالبؔ اور دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔ ان انفرادیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے میں دو سوال قائم کرتا ہوں اور دو مثالوں سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔

(۱) کیا اقبالؔ کے کلام میں موضوعاتی ارتقا کا کوئی رشتہ ان کے کلیدی الفاظ سے ہے؟

(۲) اقبالؔ کی طویل یا نسبتاً طویل نظموں میں موضوعاتی انتشار کے باوجود وحدت اور قوت کیونکر پیدا ہوئی ہے؟

پہلے سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلیدی الفاظ کو شاعر محض کسی تاثر یا خیال کو واضح کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، یا محض اس لیے کہ کسی مقررہ نظم یا شعر کے سیاق و سباق میں ان الفاظ کا استعمال فطری طور پر کیا جا سکتا ہے۔ یہ کلیدی لفظ کی کم ترین صورت ہوئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کلیدی لفظ کسی مخصوص تجربے یا ذہنی مشاہدے کے استعارے کے طور پر استعمال ہو اور آخری صورت یہ ہے کہ کلیدی لفظ علامتی پیرایہ اختیار کر لے۔ کلیدی لفظ کی پہچان یہ ہے کہ وہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ وہ جس قدر معنی خیز ہوتا جاتا ہے شاعرانہ اظہار کو اسی قدر قوت ملتی جاتی ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اقبال اپنے تمام موضوعات کو اشارتاً یا صراحتاً بانگ درا میں بیان کر چکے تھے۔ بال جبریل اگرچہ بانگِ درا سے بہت بہتر مجموعہ ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس میں انھوں نے کسی نئے موضوع یا خیال کو برتا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ بال جبریل کلیدی الفاظ سے پرُ ہے اور ان الفاظ میں علامتی یا استعاراتی رنگ آ گیا ہے یہ کلیدی الفاظ بیش تر وہی ہیں جو بانگ درا میں استعمال ہو چکے ہیں لیکن بانگ درا کی حد تک کلیدی الفاظ کے استعمال میں نہ تو تعدادی کثرت ہے اور نہ معنوی۔ شروع کی نظموں میں یہ الفاظ تقریباً رسمی استعمال کا حکم رکھتے ہیں اور صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شاعر کو ان الفاظ سے ایک شغف ہے۔ بالِ جبریل میں رسمی استعمال کم سے کم لیکن استعمال کا وقوع کثیر تر ہو جاتا ہے۔ ضرب کلیم میں یہی کلیدی الفاظ بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا شاعرانہ مزاج جو شروع سے استعاراتی اور علامتی اظہار پر مائل تھا، اپنے معنوی ارتقا کی منزلیں لفظی ارتقا کی شکل میں طے کرتا رہا۔ بال جبریل اس کا نقطۂ عروج ہے۔ ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز میں شاعری کم ہوتی جاتی ہے اور اسی اعتبار سے کلیدی الفاظ کا وقوع اور ان کی معنویت بھی گھٹتی جاتی ہے۔ اقبال کی بہترین شاعری یعنی بال جبریل اس تناظر میں نہ دیکھی جائے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کہ ضرب کلیم میں ظاہری پختگی اور قوتِ بیان کی شان و شوکت کے باوجود شاعرانہ اظہار کی جگہ بیانیہ، حکیمانہ، عارفانہ جو بھی کہیے لیکن بانگ درا اور بال جبریل سے مختلف اور کم کام یاب اظہار کی فراوانی کیوں ہے۔

اقبالؔ کے بعض کلیدی الفاظ حسب ذیل ہیں : گل، بو، شمع، خون، تجلّی، لالہ، شاہین، شعلہ، حسن، عشق، دل، عقل ، خورشید، فی الحال میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ لالہ (مرکب یا مفرد شکل میں ، یعنی محض لالہ یا لالہ و گل، لالۂ صحرا وغیرہ) کا وقوع اور معنویت اقبالؔ کے شاعرانہ ارتقا کے ساتھ کس طرح منسلک ہے۔

دوسرا سوال نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ اقبال ؔکے لفظی تناسبات، ان کے در و بست کا نظام، رعایتیں اور مناسبتیں اُن کی نظموں کو اردو کی اعلیٰ ترین شاعرانہ روایت (میرؔ، غالبؔ، انیسؔ) کا امین اور اس کو بلند تر منزلوں سے روشناس کرنے والا شاعر ٹھہراتی ہیں ، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ سوال اکثر اٹھا ہے کہ ان کی طویل اور نسبتاً طویل نظموں کو نظمیں کہا ہی کیوں جائے جب ان میں کسی طرح کا واقعاتی، بیانیہ، حتیّٰ کہ جذباتی تسلسل بھی نہیں ہے۔ ’’خضر راہ‘‘ اور ’’شمع و شاعر‘‘ کی مثال سامنے ہے۔ نقادوں نے جذباتی تسلسل کا اگر فقدان نہیں تو کمی یقیناً ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں بھی محسوس کی ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوال سنجیدگی سے اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کو نظمیں نہ کہہ کر محض پریشان خیالات یا بہت سے بہت اقوال زرّیں ٹائپ کی چیزوں کا مجموعہ کیوں نہ کہا جائے؟ اگر یہ صحیح ہے کہ انتشار کی کثرت کا الزام ان پر عائد ہوتا ہے تو اقبال بحیثیت نظم گو ناکام ٹھہرتے ہیں اور اُن کی شاعرانہ عظمت کا جو تاثر فوری طور پر قائم ہوا تھا، یا تو غلط ہے یا پھر ہمیں نظم کی تعریف دوبارہ متعین کرنا ہو گی۔

ظاہر ہے کہ نظم کی تعریف دوبارہ اس طرح متعین کرنا کہ اقبالؔ کی مبینہ غیر نظم نظمیں بھی اس تعریف کے تحت شامل ہو سکیں ایک مشکل کارروائی ہے۔ لیکن یہ غیر ضروری کارروائی بھی ہے کہ کیوں کہ اگر یہ ثابت ہو سکے کہ اقبال کی نظموں میں وحدت اور تسلسل موجود ہے تو نئی تعریف وضع کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اقبالؔ کی طویل اور نسبتاً طویل نظموں میں تسلسل اور وحدت کے ذریعہ قوت دراصل ان کے لفظی در و بست کی بنا پر وجود میں آئی ہے۔ اس کلیے کو ثابت کرنے کے لیے مَیں ’’ذوق و شوق‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اس نظم کی بڑائی اس کے موضوع میں نہیں دیکھتا، اس معنی میں کہ موضوع اگر مختصراً بیان کیا جائے تو وہ محض اتنا ہے کہ یہ نظم رسول مقبولؐ کی شان میں ہے جس میں عالم اسلام کا بھی کچھ ذکر آ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موضوع کو اقبالؔ کے علاوہ بھی بہت لوگوں نے برتا ہے۔ خوش عقیدگی کی بنا پر مجھے ہر نعتیہ نظم اچھی لگ سکتی ہے لیکن یہ اس کی خوبی کا تنقیدی جواز نہیں ہو سکتا۔ علاوہ بریں خود اقبالؔ نے بھی اس طرح کی درجنوں نظمیں کہی ہیں۔ پیام مشرق کا ایک پورا حصہ اسی موضوع کے لیے وقف ہے، پھر ’’ذوق و شوق‘‘ کی تخصیص کیا ہے؟ کلینتھ بروکس نے ورڈ زورتھ کے ایک مشہور سانیٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر اس موضوع کو مختصراً بیان کیا جائے تو اس میں کوئی ندرت نہیں ، لہٰذا نظم کی خوبی کے وجوہ کہیں اور تلاش کرنا ہوں گے۔ بالکل یہی حال ’’ذوق و شوق‘‘ کا ہے۔

لالہ کے بارے میں یوسف سلیم چشتی نے بعض پتے کی باتیں کہی ہیں۔ وہ اگرچہ اس لفظ کی کلیدی اہمیت اور معنوی ارتقا کو نہیں سمجھ پائے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی اہمیت کو محسوس کرنے میں اولیت انھیں کو حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں :

’’جس طرح پرندوں میں شاہین اقبال کا محبوب ہے اسی طرح پھولوں میں گل لالہ انھیں بہت مرغوب ہے۔ یوں تو ہر تصنیف میں اس کا تذکرہ آیا ہے لیکن پیام مشرق میں انھوں نے اسے طرح طرح سے سجایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گل لالہ سے اقبال کی دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ جس طرح انکو شاہین میں مردِ مومن کی صفات نظر آتی ہیں ، اسی طرح وہ اس پھول میں عاشق کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں ‘‘۔

یہ توجیہہ ہمیں بہت دور نہیں لے جاتی لیکن اس سے لالے کی معنویت کا ایک پہلو مختصراً ضرور روشن ہوتا ہے۔

جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں ، کلیدی لفظ کی قوت اس کی تکرار میں ہے بشرطیکہ تکرار میں معنویت بھی وسیع تر ہوتی جائے یا بدلتی جائے۔ مجرد تکرار بھی شاعر کی دل چسپی اور اس کے ذہن کی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یعنی یہ بات کہ کوئی کلیدی لفظ کتنی بار استعمال ہوا ہے، ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ شاعر کو اس لفظ کی معنویتوں سے کتنی دل چسپی ہے اور بالواسطہ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے علامتی یا استعاراتی اظہار میں شدّت اب کتنی ہے۔ چناں چہ پوری بانگ درا میں لفظ لالہ مرکب یا مفرد شکل میں بائیس بار استعمال ہوا ہے۔ بال جبریل جو بانگِ دراکی تقریباً ایک تہائی ہے، لیکن اس میں لالہ مرکب یا مفرد شکل میں اکیس بار اور ضرب کلیم میں (جو تقریباً بال جبریل کے ہی اتنی ہے) محض آٹھ بار استعمال ہوا ہے۔ ارمغان حجاز کے اردو حصّے میں اس کا وقوع صرف تین بار ہے۔

اگر زیادہ دور نہ جا کر صرف یوسف سلیم چشتی کی بات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ بانگ درا میں لالے کا ذکر کثرت سے ہے لیکن بال جبریل میں یہ کثرت اتنی زیادہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس مجموعے میں اقبال کا ذہن لالہ اور اس کی معنویتوں کی طرف زیادہ مائل تھا۔ ضرب کلیم اور ارمغان میں اس لفظ کی قلت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگرچہ اس کتاب میں اقبال اسلام اور اسلامیوں کے بارے میں باتیں اتنی ہی شدومد سے کر رہے ہیں جو بال جبریل میں تھی لیکن لالے کے ذکر کی قلت یقیناً کم سے کم اس معنویت کی قلت ہے جس کی طرف یوسف سلیم چشتی نے اشارہ کیا ہے اور اگر اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیے کہ بال جبریل میں لالے کا پھول صرف عاشق کی روایتی اور رسمی معنویت کا حامل نہیں ، بلکہ اس میں کئی پہلو اور بھی ہیں تو اس بات کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اقبالؔ کا شاعرانہ ارتقا بانگ درا سے بال جبریل تک رسمیاتی سے استعاراتی اور علامتی اظہار کی طرف ہے اور بال جبریل کے بعد سے بیانیہ، خطابیہ اور کم معنویت کے حامل اظہار کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

بانگ درا کے شروع میں گل لالہ کا وقوع اور اس کی معنویت دیکھنے کے لیے یہ مثالیں  ملاحظہ ہوں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیے کہ شروع کی تینتیس۳۳نظمیں لالے کے ذکر سے خالی ہیں اس کا اولین وقوع ’’تصویر درد‘‘ ہے اور یہاں رعایت لفظی کا کھیل نظر آتا ہے ؎

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے کچھ گل نے

چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

رعایت لفظی صرف لالہ اور نرگس اور گل کی نہیں ہے،لطیف تر رعایت لفظ ورق کی ہے جس کا مفہوم پھول کی پنکھڑی بھی ہے اور داستان کا صفحہ بھی۔ دوسری بار لالہ تقریباً اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس کی طرف یوسف سلیم چشتی نے اشارہ کیا ہے۔

اگر سیاہ دلم داغ لالہ زار تو ام

وگر کشادہ جبینم گل بہار تو ام

’’تصویر ِدرد ‘‘کے شعر میں بھی لالے کا پھول شاعر کی داستان کا ورق بن کر ایک طرح کے سوزِ دروں کا حامل نظر آتا ہے لیکن اس میں طنز کی بھی کیفیت ہے کہ لالہ اور گل اور نرگس شاعر کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ حضرت سلطان جی کے دربار میں دل کی سیاہی لالے کے داغ کا بدل ٹھہرتی ہے اور سوزِ عشق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نظم ’’محبت ‘‘کا آخری شعر بھی لالے کے داغ سے عشق کے داغ کا تلازمہ قائم کرتا ہے۔ حصہ سوم کی پہلی نظم ’’بلاد اسلامیہ‘‘ میں پہلی بار لالۂ صحرا کا ذکر اسلام اور اس کی تہذیب کے لیے بظاہر ایک سطحی اور کچھ نامناسب استعارے کے طور پر ملتا ہے

لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز

لیکن پورے تناظر میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو لالۂ صحرا کے استعارے کے ذریعہ ظاہر کرنا دراصل علامتی ہے۔ کیوں کہ لالے کا سوز دروں اور داغ عشق پہلے حوالوں سے قائم ہو چکے ہیں۔ اب اس کی سرخی اور گل گونی اس پر مستزاد ہے۔ سُرخ جو کام یابی، عزت داری، شاہی، جلال اور خون کا رنگ ہے، لفظ صحرا لالے کے پھول کی مضبوطی اور اس کی قوت نمو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کو بھی کہ یہ پھول اگرچہ نامساعد اور بیابانی ماحول میں اُگا لیکن اس کی فطرت جیسی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایسے ہی حالات میں کھلے۔ لالۂ صحرا کی تنہائی اس کی یکتائی اور ورڈزورتھ کے گل بنفشہ کی طرح اس کی ناقدری کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اس طرح لالۂ صحرا اسلام اور اُس کے بہترین پھول یعنی مرد مومن اور اس کی خاک پیدائش یعنی حجاز، ان سب تصورات کو محیط ہو جاتا ہے۔ ’’شمع اور شاعر‘‘ کے دوسرے شعر میں مرد مومن کی ناقدری اور تنہائی کا تصور لالۂ صحرا کو شاعر کا استعارہ بنا دیتا ہے  ؎

در جہاں مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ستم

نے نصیبِ محفلے نے قسمتِ کاشانۂ

چراغ کا لفظ ممکن ہے یہاں غالبؔ کے لا جواب مصرعے

نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا

نے اقبال کے ذہن میں ڈالا ہو۔ لیکن لالے کی سُرخی اور سوز اور شاعر کے کلام کی روشنی، بصیرت اور اس کے دل کے سوز کے اعتبار سے کس قدر مناسب ہے۔ اس شعر میں لالۂ صحرا =مرد مومن= شاعر کا تصوّر قائم ہوتا ہے اور نظم ’’مرد مسلمان‘‘ میں اس کی توثیق ہوتی ہے کہ اقبالؔ کا مرد مومن اور شاعر دونوں ایک ہیں۔ ایک طرف تو مرد مومن شبنم کی طرح جگر لالہ میں ٹھنڈک ڈالتا ہے اور دوسری طرف شاعر اپنے کلام کی شیرینی اور عارفانہ بصیرت کی وجہ سے اس کو سکون سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان میں جو صفات مومن کی ہیں وہی شاعر پر بھی منطبق ہو سکتی ہیں۔ شمع اور شاعر کے دوسرے بند میں یہی لالۂ صحرا یعنی شاعر پھر ظاہر ہوتا ہے لیکن شاعر محفل اور کاشانے کا نقیب نہ ہو کر سنسان صحرا میں تنہا کھڑا ہے تو وہ بھی اسی وجہ سے کہ وہ روایتی لالۂ صحرا بن کر رہ گیا ہے۔ اس میں عقل کی روشنی ہے لیکن عشق کا سوز نہیں   ؎

یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں

شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ترا

’’خضر راہ‘‘ میں لالے کا پھول جو ٹوپی کی شکل کا ہے، ترکی ٹوپی(جو اس زمانے میں اسلامی تہذیب کی علامت بن گئی تھی) سے ملحق ہو کر لالہ اور اسلام کے تلازمے کو مستحکم کرتا ہے   ؎

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ

’’طلوع اسلام‘‘ میں لالے کا ذکر تین بار آیا ہے اور تینوں بار اسلام اور اسلامیوں کی علامت کی شکل میں ہے   ؎

۱۔         ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے

۲۔        حِنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا

۳۔        سرِ خاکِ شہیدے برگ ہائے لالہ می پاشم

پہلے دونوں مصرعوں میں ’’شمع اور شاعر‘‘ کا چراغِ لالۂ صحرا جو بے سوز تھا پھر نمودار ہوتا ہے لیکن لالہ جو خود چراغ تھا اب اس میں چراغِ آرزو یعنی سوزِ دروں کی بات ہے اور وہ لالہ جو کبھی ذاتی لہو کے فروغ سے روشن تھا، اب قلب مسلم کے تازہ خون سے رنگین ہو گا۔ اس طرح لالہ اسلام کے ماضی، حال اور مستقبل اور مردِ مومن کی قوتِ تخلیقِ نو اور شاعر کی روشن ضمیری کو بیک وقت ظاہر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ شہیدوں کی خاک پر بھی شاعر یعنی مرد مومن کا جو لہو ٹپکا ہے جو برگِ لالہ کی شکل میں ٹپکا ہے۔

اب یہ بات ظاہر ہو چکی ہو گی کہ بانگِ درا کے آخر تک آتے آتے لالہ اور علی الخصوص لالۂ صحرا روایتی عشق و سوز یا کام یابی اور فتح مندی کے ساتھ(بلکہ اس سے بڑھ کر) ایک علامتی رنگ اختیار کر گئے ہیں۔ بال جبریل میں لالے کی پہلی نمود نظم یا غزل نمبر۹میں ہی ہوتی ہے جب کہ بانگِ درا کی تینتیس۳۳نظمیں اس کے ذکر سے عاری ہیں۔ یہاں گل و لالہ انسان کی علامت بننے لگتے ہیں اور خاص کر اس انسان کی جو حساس اور صاحبِ شعور ہے   ؎

نبیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے

نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو

یعنی شاعر اور مرد مومن اور حساس انسان تینوں لالے کے توسط سے قریب تر آ جاتے ہیں۔ نمبر۱۶میں بھی گل و لالہ حساس اور لطیف طبع انسان کا استعارہ ہے   ؎

تو برگِ گیاہے نہ دہی اہلِ خرد را

او کشتِ گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند

سنائی والی نظم کے بعد ساتویں غزل کا لا جواب مطلع دوبارہ شاعر اور چراغ لالہ کو متحد کرتا ہے   ؎

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن

یوسف سلیم چشتی کی بیان کردہ مناسبت کے علاوہ تنہائی پسندی اور تصنع سے گریز کے اعتبار سے لالہ اور شاہین میں ایک اور مرکزِ اتحاد اس سلسلے کی پچپن ویں غزل یا نظم میں نظر آتا ہے۔ اگر شاہین قصر سلطانی کے گنبد پر نشیمن نہیں بنا سکتا تو لالہ بھی خیاباں کی پُرتکلف فضا میں پھول پھل نہیں سکتا۔ اس طرح لالہ شاہین سے ہوتا ہوا پھر مرد مومن اور شاعر تک پہنچتا ہے   ؎

پنپ سکا نہ خیاباں میں لالۂ دل سوز

کہ سازگار نہیں یہ جہانِ گندم و جو

جس نظم میں یہ تمام علامتی جہتیں اور تاریخی شعور اور روایتی مفاہیم یک جا ہو گئے ہیں ، وہ بالِ جبریل کی شہرۂ آفاق نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ ہے۔ آٹھ شعروں کی یہ نظم ایک گہری جھیل کی طرح ہے جس میں تمام علامتوں اور استعاروں کے دریا ضم ہو جاتے ہیں۔ اس نظم کے اشعار میں بھی حسبِ معمول ظاہرہ ربط کی کمی ہے جس کی وجہ سے نظم سے زیادہ غزل کا تاثر فوری طور پر پیدا ہوتا ہے، لیکن لالۂ صحرا کو شاعر اور عالمِ اسلام، مرد مومن، اس کی قوتِ نمو، انسان اور اس کا جذبۂ عمل، ان سب کی علامتوں کے طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ الگ الگ اشعار میں الگ الگ علامتیں ہیں جن کا نقطۂ ارتکاز خود شاعر کی ذات ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل اس وقت ضروری نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ فلسفیانہ یا تبلیغی انداز میں اس نظم کی تشریح اس کا ربط زائل کر دیتی ہے۔

ضرب کلیم میں جو خال خال تذکرے گل لالہ کے ہیں وہ  بال جبریل کے مقابلے میں روایتی انداز کے ہیں۔ لیکن ’’مرد مسلمان‘‘ میں جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ، جگر لالہ کی ٹھنڈک کا ذکر علامتی رنگ رکھتا ہے۔ باقی نظموں میں جہاں کچھ استعاراتی لہجہ ہے بھی تو وہاں مفہوم سمٹا ہوا اور تکراری ہے مثلاً:

۱۔         مری نواسے گریبانِ لالہ چاک ہوا

۲۔        اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

لالۂ صحرا میں ربط کی ظاہری کمی کا ذکر مجھے ذوق و شوق تک لاتا ہے جس میں لفظی در و بست اور رعایتِ لفظی کے ذریعہ ربط دکھانا میرا مقصود ہے۔

اقبالؔ کا کلام رعایت لفظی سے تقریباً اتنا ہی مملو ہے جتنا غالب کا کلام ہے۔ لیکن بوجوہ نقادوں کی نگاہ اس نکتے پر نہیں پڑی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا کلام اپنی اِنفرادیت کے باوجود اجنبیت کا تاثّر اسی وجہ سے نہیں پیدا کرتا کہ وہ اُردو شاعری کی بہترین لفظیاتی روایت کا روشن نمونہ ہے۔ ذوق و شوق کی کامیابی کا راز رعایت اور مناسبت کا یہی التزام ہے جس پر مستزاد یہ کہ الفاظ بلکہ مصرعوں میں گذشتہ کی بازگشت یا آئندہ کی پیش آمد بہت ہے۔

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

مندرجہ ذیل رعایتوں پر غور کیجیے۔ نظر، چشمہ، ندیاں ، رواں ، دشت، ندیاں۔ چشمہ، صبح، نور، نظر۔ رواں (رواں بہ صنم رائے مہملہ بہ معنی جان)۔ نظر، آفتاب۔ الفاظ کے اُلٹ پھیر سے متعدد تراکیب بنتی ہیں جو مناسب اور بامعنی ہیں مثلاً: نور نظر، قلب دشت، چشمۂ زندگی، آفتاب صبح، نور صبح وغیرہ۔

حسنِ ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود

دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں

نکات و رعایات: حسن، نمود۔ پردہ، وجود، نمود۔ چاک، صبح۔ ازل، نور، نگاہ کا زیاں اور چشمۂ آفتاب(یعنی سورج کو دیکھ کر آنکھ خیرہ ہو جاتی ہے) پردۂ وجود کا چاک ہونا اور روشنی کا پردے سے نکلنا یعنی آفتاب کا افق پر ظاہر ہونا۔ ہزار، ایک۔ حُسنِ ازل اور نور کی ندیاں۔ ازل سے ذہن زال کی طرف منتقل ہوتا ہے، بمعنی پُرانا، سفید۔ زندگی، وجود۔ داخلی قافیہ۔

سُرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب

کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں

نکات و رعایات: ہزارسود، رنگ برنگ۔ نور کی ندیاں ، سُرخ و کبود۔ طیلساں بمعنی رنگین ریشمی نرم چادر اور بمعنی لسان، بولنے میں ماہر۔ سحاب بہ معنی بادل جو گرجتا ہے، اس کے اعتبار سے طیلساں بمعنی لسان کا اشارہ نامناسب نہیں۔ داخلی قافیہ ’چھوڑ گیا، دے گیا۔ سُرخ و کبود پچھلے شعر کے داخلی قافیوں سے ہم آہنگ ہے۔

گرد سے پاک ہے ہوا برگِ نخیل دھل گئے

ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پریناں

رعایات: طیلساں اور پرنیاں بمعنی سیاہ ریشمی کپڑا۔ فرانسیسی میں بالو اور ریشمی کپڑے دونوں کو Sable کہتے ہیں۔ بو دلیر نے کہیں اس لفظ کو دونوں معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔ ممکن ہے اقبالؔ کے ذہن میں فرانسیسی لفظ رہا ہو۔ دشت کے اعتبار سے ریگ اور ریگ کے اعتبار سے گرد۔ نرم، برگ۔ سحاب، پاک(یعنی بال سے پانی گرتا ہے جو ہر چیز کو پاک کرتا ہے) سحاب، دھل گئے۔ دھُل گئے، ندیاں ، چشمہ۔ کاظمہ مدینہ منورہ کا نام ہے لیکن اس کے لغوی معنی ہیں ضبط کرنے والی، یعنی نرم مزاج۔ لہٰذا کاظم کے اعتبار سے نرم۔ کاظمہ بمعنی مدینہ منورہ کے اعتبار سے پاک۔ اور مدینہ کو منورہ کہتے ہیں ، اس کے لحاظ سے چشمۂ آفتاب اور نور کی ندیاں۔ داخلی قافیہ(ہوا، کاظمہ)

آگ بجھی ہوئی اُدھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

نکات و رعایات: آگ کے اعتبار سے ٹوٹنا بمعنی ختم ہونا جو چاہ کنوں کی اصطلاح میں پانی رکنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مقام، گذرے۔ کارواں ، رواں۔ داخلی قافیہ(ادھر، ادھر)

آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی

اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی

نکات و رعایات: مقام، دوام (قائم و دائم) عیش بمعنی آرام اور عیش بمعنی رہنا، اس لحاظ سے عیش اور مقام میں بھی مناسبت ہے۔ اس کے اوپر والے شعر میں مقام گذرنے کی صفت ہے اور اس شعر میں ٹھہرنے کی۔ آئی اور مقام کا ربط ظاہر ہے۔ صدائے جبرئیل، حسن ازل کی نمود۔ فراق اور عیش میں صنعتِ تضاد ہے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس بند کا ہر مصرع ایک دوسرے سے پیوستہ ہے اور ایک شعر کے  الفاظ دوسرے بلکہ بہت بعد کے شعروں میں جھلک اٹھتے ہیں۔ الگ الگ  دیکھیے تو اشعار میں کوئی خاص ربط نہیں۔ عربی قصیدہ نگاروں کے انداز میں رسمی آغاز ہے جس میں شاعر اپنی معشوقہ کی قیام گاہ یا فرودگاہ پر جا کر اس کے حسن کو یاد کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مناظر فطرت کا بھی بیان کرتا ہے۔ قصیدہ نگار بیانیہ تسلسل کا خیال رکھتا ہے لیکن اقبال لفظی در و بست اور گذشتہ الفاظ کی بازگشت کا ہنر استعمال کرتے ہیں اور معنوی ربط ہلکا ہونے کے باوجود بند کے تمام اشعار کو رشتۂ سیمیں میں باندھ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری شعر جو بالکل غیر متعلق ہے، پورے منظر نامے پر Commentary معلوم ہونے لگتا ہے۔ جوش صاحب تو دو مصرعوں میں مناسب الفاظ نہیں لا سکتے اور یہاں پورے بند کے تمام مصرعے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ اسی طرح اس بند کے الفاظ اگلے بندوں میں بھی جھلکتے نظر آتے ہیں۔ یہ دوہرا در و بست ہے۔ ملاحظہ ہو:

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات

کہنہ ہے بزمِ کائنات تازہ ہیں میرے واردات

نکات و رعایات: زہر کی تلخی اور شراب کی رعایت سے زہر اور مے۔ حیات اور کائنات۔ بزم کے لیے کہنہ اور واردات کے لیے تازہ کس قدر مناسب ہے، علی الخصوص جب واردات کے دوسرے معنی یعنی ’’آنے والے ‘‘بھی ذہن میں رکھے جائیں۔ داخلی قافیہ۔ پچھلے شعر میں مقام ہے یہی کی مناسبت سے تازہ ہیں میرے واردات کتنا معنی خیز ہو گیا ہے۔

کیا نہیں اور غزنوی کار گہہِ حیات میں

بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات

نکات و رعایات:صرف و نحو کی وجہ سے اہل حرم کے سومنات ذومعنی ہے۔ ایک نثر یوں ہو گی:

سومنات کب سے اہل حرم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ دوسری نثر یوں ہو گی: اہل حرم کے بنائے ہوئے سومنات کب سے منتظر بیٹھے ہیں  (کہ وہ آ کر انھیں منہدم کر دیں ) پچھلے شعر میں کائنات کو بزم کہا تو اس کی رعایت سے حیات کو کار گہہ کہا۔ کارگاہ بھی ذومعنی ہے یعنی کارخانہ اور عمل کی جگہ۔ کارخانے کے معنی کی روشنی میں غزنوی کتنا مناسب ہو جاتا ہے کہ کارخانۂ حیات میں اصنام تعمیر ہو رہے ہیں اور غزنوی بت شکن تھا۔ داخلی قافیہ (حیات اور سو منات ) جو پچھلے شعر کے داخلی قوافی سے مربوط ہے۔

ذکرِ عرب کے سوز میں فکرِ عجم کے ساز میں

نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات،

نکات و رعایات: ذکر و فکر۔ مشاہدات و تخیلات۔ سوز و ساز۔ ذکر کے اعتبار سے مشاہدہ اور مشاہدے کے لحاظ سے سوز کتنا برمحل ہے۔ یعنی پہلے مشاہدہ کیا۔ پھر مشاہدہ کی ہوئی چیز کا ذکر کیا، اس سے سوز پیدا ہوا۔ فکر کے اعتبار سے تخیّلات بھی بہت برمحل ہے اور تخیلات کے اعتبار سے ساز کا حسن تو غیر معمولی ہے، کیوں کہ شاعری کا تعلق تخیل سے بھی ہے اور ساز سے بھی۔ ساز کے اعتبار سے نے بھی دیدنی ہے۔ داخلی قافیہ (مشاہدات) بھی گذشتہ اشعار کو پیوست کرتا ہے۔

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

نکات و رعایات: دجلہ اور فرات کی لہروں کو گیسو کہا۔ ان کی سیاہی شہادت اور ماتم حسین کی یاد دلاتی ہے لیکن ان کی چمک پانی کی فراخی پر دال ہے جو کسی پیاسے کی تلاش میں ہے۔ قافلہ کا لفظ گذرے ہیں کتنے کارواں سے اور حجاز و حسینؓ ذکر عرب کے سوز سے مربوط ہیں۔

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات

نکات و رعایات: شرع و دیں ، فقہی معنی کے علاوہ لغوی معنی (دونوں راستے کے معنی میں مستعمل ہیں ) میں بھی برمحل ہیں۔ لغوی معنی (راستہ) قافلۂ حجاز کے راستے کو اس شعر سے منسلک کرتے ہیں اور راستے کے دونوں طرف نصب بت (بت کدۂ تصورات) غزنوی اور سومنات کی یاد دلاتے ہیں۔ پہلا مصرع عشق پر ختم اور دوسرا عشق پر شروع ہوتا ہے (یہ ایک صفت بھی ہے) عشق کی تکرار اہل فراق اور بت کدۂ تصورات عجمی تخیلات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ داخلی قافیہ (اولیں ، شرع و دیں )

صدقِ خلیلؓ بھی ہے عشق صبر حسینؓ بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

نکات و رعایات: صدق خلیل اور صبر حسین دونوں قافلۂ حجاز کی یاد دلاتے ہیں۔ خلیل اللہ کا مختصر قافلہ جو ان کے اہل خانہ پر مشتمل تھا، حرم کی تعمیر کرتا ہے اور حسین کا قافلہ جو اُن کے اہل خانہ پر مشتمل تھا، حرم کا استحکام کرتا ہے۔ (نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسمٰعیل) پچھلے شعر میں دل اور نگاہ شروع میں مذکور دل کے سود اور نگاہ کے زیاں سے مربوط ہیں اور یہ تینوں (عقل و دل و نگاہ) صدق خلیل سے مربوط ہیں ، کیوں کہ خلیل اللہ نے عقل کے مشاہدے اور نگاہ کی بصارت کو دل کی گواہی سمجھا لیکن جب ان پر عشق آشکار ہوا تو انھیں معلوم ہوا کہ اصلیت تو کچھ اور ہے۔ جو کچھ اُن کی آنکھ دیکھتی گئی وہ جھوٹا ثابت ہو گیا، اس طرح نگاہ کا زیاں دل کا سود بنا۔ معرکۂ وجود کا تعلق صبر حسین سے بھی ہے کہ انھوں نے جان کھو کر زندہ وجود حاصل کیا ا ور حسنِ ازل کی نمود سے بھی، کہ جس کے ذریعہ پردۂ وجود چاک ہوتا ہے اور حقیقت نمودار ہوتی ہے۔ یعنی حسین نے پردۂ زندگی چاک کیا تو انھیں حسن ازل کی نمود کا دیدار ہوا

آیۂ کائنات کا معنی دیریاب تو،

نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو

نکات و رعایات: آیۂ کائنات کا دیریاب معنی (یعنی رسول مقبولؐ) اس معنی میں دیریاب ہے کہ بزمِ کائنات تو کہنہ تھی لیکن آپ کا ورود مسعود نسبتاً حال میں ہوا۔ اس طرح تازہ ہیں میرے واردات کا ایک مَفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ شاعر نے آیۂ کائنات کے معنی دیریاب کو اب جا کر حاصل کیا ہے۔ آیہ بمعنی نشانی بھی درست ہے اور بمعنی قرآن کی آیت بھی۔ کائنات کا لفظ پچھلے بند کے قافیے کی یاد دلاتا ہے۔ وہ قافلہ ہائے رنگ و بو جو معنیِ دیریاب کی تلاش میں نکلے ہیں قافلۂ حسین اور قافلۂ خلیل ہیں تو قافلۂ کلیم اللہ بھی ہیں جو خلیل اللہ کی طرح ملک مصر سے مملکت موعود کی تلاش میں نکلے تھے۔ دیریاب کی مناسبت سے قافلوں کا نکلنا کس قدر خوب ہے۔ کاش جوش و فراق کے صدہا صفحات میں ایک شعر بھی ایسی لفظی اور معنوی مناسبتوں کا حامل نکلتا۔

جلوتیانِ مدرسۂ کور نگاہ و مردہ ذوق

خلوتیانِ مے کدہ کم طلب و تہی کدو

نکات و رعایات: جلوتیان مدرسہ اور خلوتیان مے کدہ میں ترصیع ہے۔ مدرسہ کی رعایت سے جلوت اور مے کدہ کی رعایت سے خلوت، کیوں کہ مے خوار صرف اپنے ہی میں گم ہوتا ہے، اُسے دنیا و مافیا کی خبر نہیں ہوتی۔ جلوت اور خلوت۔ مدرسہ اور نگاہ (کیوں کہ مدرسے میں پڑھنے کا کام ہوتا ہے) مے کدہ اور طلب اور کدو۔ پچھلے شعر کا رنگ و بو اس شعر کے نگاہ اور طلب سے مربوط ہے کیوں کہ نگاہ کا تعلق رنگ (یعنی دیکھنے) اور بو کا تعلق طلب مے (یعنی بوئے مے کے ذریعے مے کی یاد آنے) سے ہے۔ کور نگاہ کا ربط کم طلب اور مردہ ذوق کا ربط تہی کدو سے ہے۔ کیونکہ جب آنکھ اندھی ہے تو وہ طلب کیا کرے گی اور کدو کو سکھا کر (یعنی اسے مار کر) اس میں شراب بھرتے ہیں۔ کدو نہ صرف یہ کہ مردہ ہے بلکہ مردہ ذوق بھی ہے کیونکہ اس پر شباب کا اثر نہیں ہوتا۔

میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سُراغ

میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

نکات و رعایات: یہ پورا شعر آگ بجھی ہوئی ادھر …. والے شعر کی یاد دلاتا ہے۔ آتش رفتہ آگ بجھی ہوئی ادھر سراغ، کیا خبر، گزرے ہیں کارواں ، کھوئے ہوؤں کی جستجو۔ اور دیکھیے: رفتہ اور سرگذشت (یعنی رفت و گذشت) رفتہ، کھوئے ہوئے۔ سراغ جستجو۔ میرے واردات کا ربط، آتش رفتہ اور کھوئے ہوؤں سے بھی ہے۔ کیوں کہ شاعر پر یہ اسرار اب واضح رہے ہیں یعنی یہ واردات اس پر اب نازل ہو رہے ہیں کہ میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو ہے اور اس طرح میری، غزل میں ہی آتش رفتہ کا سُراغ مل سکتا ہے۔

خونِ دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو

نکات و رعایات: موج، پانی، نشو و نما، پرورش۔ موج، خون، رگ، رواں ، لہو۔ پرورش، رواں ، لہو۔ نوا بہ معنی سامان اور ساز بہ معنی سامان کا بھی اشارہ موجود ہے۔ ساز، نور۔ ان الفاظ کا غزل اور سر گذشت سے رشتہ ظاہر ہے۔ نوا رگ ساز ہے اور دل و جگر ساز۔ اس کے علاوہ رگ ساز میں صاحب ساز کا لہو رواں ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کبھی کبھی مضراب کے بغیر ساز پر انگلیاں پھیرنے میں انگلیاں لہو لہان بھی ہو جاتی ہیں اور مجاز حقیقت بن جاتا ہے۔

فرصتِ کش مکش مدہ ایں دلِ بے قرار را

یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تاب دار را

نکات و رعایات: ردیف و قافیہ (بے قرار را، تاب دار را) میں ساز کے تاروں کی تھرتھراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔ خون دل و جگر کا رشتہ کش مکش سے ظاہر ہے۔ گیسوئے تاب دار کا فقرہ گیسوئے تاب دارِ دجلہ و فرات کی یاد دلاتا ہے جہاں حسینؓ پیاسے شہید ہوئے تھے۔ یہاں بھی گیسوئے تاب دار تسلیم جاں کا بہانا بن رہے ہیں اور شکن گیسو کی افزائش اس لیے ہے کہ دل و جگر جو کش مکش اظہار غم میں خون ہو رہے ہیں انھیں شکنوں میں گرفتار ہو کر ہمیشہ کے لیے قرار پا جائیں۔ اس طرح یہ اہل فراق کے لیے دوام ہے یہی سے جا ملتا ہے۔

لوح بھی تو، قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

نکات و رعایات: لوح اور قلم کی رعایت سے کتاب کہنا سامنے کی بات تھی لیکن الکتاب اور اس کے ساتھ وجود کا لفظ ہمیں پھر نظم کے آغاز کی طرف لے جاتا ہے جہاں حسنِ ازل کی نمود ہے اور معرکۂ وجود گرم ہے۔ آبگینہ کے ساتھ محیط اور حباب تو ٹھیک ہی ہے لیکن آسمان کو وسیع ظاہر نہ کر کے صرف آبگینۂ رنگ کہنا دو معنی رکھتا ہے۔ یعنی رنگ بمعنی رنگ بھی ہے اور بمعنی شکل بھی ہے۔ اس طرح آسمان کی شکل آبگینے جیسی اور اس کا رنگ آبگینے جیسا ہلکا ہو جاتا ہے۔ گنبد کے ساتھ آب کا لفظ از خود وسعت کا تاثر پیدا کرتا ہے لیکن ایک مفہوم اور بھی ہے۔ ایک نثر تو یہ ہو گی کہ گنبد آبگینہ رنگ (یعنی آسمان) تیرے محیط میں حباب کی طرح ہے۔ دوسری نثر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تیرے محیط میں جو حباب ہے وہ گنبد آبگینہ رنگ ہے۔ یعنی تیرے سمندر کا ہر بلبلہ آسمان کے برابر ہے۔ دوسرے مفہوم کی روشنی میں محیط اور آسمان دونوں کی وسعت خود بخود قائم ہو جاتی ہے۔ وسعت کا یہ تاثر اس وقت اور مستحکم ہوتا ہے جب یہ مصرع آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تو کی طرف راجع کیا جائے کہ خود کائنات محض ایک آیت یا نشانی ہے اور تو اس کا مخفی و دیر یاب معنی ہے، یعنی تو وہ چیز ہے جس کی محض ایک نشانی کائنات جیسی اتھاہ چیز ہے۔ ایسی صورت میں تیرے محیط میں تیرتے ہوئے حباب آسمان کے برابر ہیں تو حیرت کیا ہے۔

پانی اور نشو و نما کے جو استعارے اور پیکر پچھلے شعر میں قائم ہوئے تھے ان کی توسیع آبگینہ، محیط اور حباب سے ہوتی ہے۔ اگلے شعر میں پانی بمعنی زندگی اور نشو و نما کے ساتھ نور (یعنی چشمۂ نور جو پانی بھی ہے اور روشنی بھی ہے)، ہمیں پھر اول بند کی طرف لے جاتا ہے۔

عالمِ آب و خاک کو تیرے ظہور سے فروغ

ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

نکات و رعایات: عالم، آب، خاک، ذرہ، ریگ۔ ظہور، فروغ، طلوع ، آفتاب۔ فروغ بمعنی روشن ہونا، آب و خاک کا روشن ہونا براہ راست دشت میں صبح چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں سے مربوط ہے۔ وہ ذرۂ ریگ جو نرم مثل پرنیاں تھا اب پر تو آفتاب سے مستفید ہو کر خود آفتاب بن گیا ہے۔ لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں   ؎

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جنید و با یزید تیرا جمالِ بے نقاب

نکات و رعایات: جلال، جمال، ظہور،طلوع، نمود، فروغ، بے نقاب۔ عالم آب و خاک کے اعتبار سے شوکت سنجر و سلیم اور ذرۂ ریگ کے اعتبار سے فقر جنید و با یزید۔

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

نکات و رعایات: مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہونے کے علاوہ بے نقاب اور حجاب میں رعایت ہے۔ ایسی ہی رعایت شوق اور حجاب میں ہے۔ نماز، قیام، سجود میں رعایت بھی ہے اور تدریج بھی۔ اندرونی قافیہ (امام، قیام)

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب

نکات و رعایات: نگاہ کے اعتبار سے جستجو اور حضور، ناز کے اعتبار سے غیاب و اضطراب۔ یعنی نگاہ کا وصف جستجو اور پھر حضوری ہے جب کہ ناز غیاب (بمعنی پردہ) اور پردہ اضطراب پیدا کرتا ہے۔

تیرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے

طبعِ زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے

نکات و رعایات: تیرہ و تار، گردش۔ تازہ کے اعتبار سے جلوۂ بے حجاب۔ اس لیے کہ صبح کہ صفت تازگی ہے اور تیرگی کے بعد صبح ہوتی ہے۔ آفتاب گردش میں ہے یا دنیا کو گردش دے رہا ہے۔ جلوۂ بے حجاب پردۂ وجود کی چاکی سے مربوط ہے۔ آفتاب کی گردش میں گردش سیّارہ کی کیفیت ہے یعنی ایسا ستارہ جو روشن نہیں رہ گیا۔ یہ احساس ہمیں عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصورات کی یاد دلاتا ہے کیونکہ عالم کا اصول کارگر عشق ہی ہے۔ وہ نہیں تو آفتاب بھی روشنی گنوا دے گا۔

میری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب

مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم، نخیلِ بے رطب

نکات و رعایات: تمام گزشتہ روز و شب کا فقرہ تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو کی یاد دلاتا ہے۔ علم نخیل بے رطب اس نخیل سے مربوط ہے جس سے برگ بند اول میں دھل گئے تھے، کیوں کہ نواح کاظمہ میں برگ نخیل کے دھلنے (اب گرد یعنی Confusion سے پاک ہے ہوا کی معنویت اور بڑھ گئی) پر ہی یہ محسوس ہوا کہ میں جس درخت سے برگ دبار کا تمنائی تھا وہ تو بانجھ ہے۔

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا

عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب

نکات و رعایات: معرکۂ کہن جو ضمیر میں تازہ ہو رہا ہے زمیں کے دوبارہ زندہ ہونے کا مترادف ہے اور ساتھ ساتھ ان واردات کا بھی حوالہ ہے جن کی تازگی کا ذکر دوسرے بند میں ہوا۔ پچھلے بند میں بھی طبع زمانہ کے تازہ کرنے کی درخواست وجود محمدیؐ سے کی گئی ہے۔ ضمیر سے مراد Conscience کے علاوہ اندرونِ ذات بھی ہے (ضمیر بمعنی چھپنے والا، چھپا ہوا)، طبع زمانہ کی تازگی جو جلوۂ بے نقاب کے ذریعہ عمل میں آئے گی، دراصل اس معرکۂ کہن کا دوبارہ وجود میں آنا ہے جو حق اور باطل کے درمیان محض عجمی تخیلات میں نہیں بلکہ عربی مشاہدات میں کھیلا گیا تھا۔ ہوا جو گرد سے پاک ہے اور برگ نخیل جو دھلے ہوئے ہیں وہ بھی اسی نئی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بو لہب کا لغوی مفہوم صاحب شعلہ ہے۔ ابو لہب حسین ہوتے ہوئے بھی داخلی جمال کے مشاہدے سے محروم تھا۔ اسی طرح جس طرح گردش آفتاب بے روح کی بنا پر تیرہ و تار ہے۔ داخلی قافیہ (ہوا، مصطفیٰ)

گاہ بہ حیلہ می برد گاہ بزور می کشد

عشق کی ابتدا عجب عشق کی انتہا عجب

نکات و رعایات: ابتدا و حیلہ اور انتہا زور۔ عشق انسان کو مغلوب کر لیتا ہے اور اسے اہل فراق بنا دیتا ہے۔ نظم کا آخری شعر اس خیال سے مربوط ہے۔ پہلے مصرعے میں اندرونی قافیہ اور دوسرے میں ترصیع۔

عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق

وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب

نکات و رعایات: نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو اور وصل میں اس کی موت۔ اصل نفس کی موج وہی ہے جو وصل سے دور اور فراق سے نزدیک رکھے۔

عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا

گرچہ بہانہ جُو رہی میری نگاہِ بے ادب

نکات و رعایات: نگاہ بے ادب اپنا زیاں کرتی ہے لیکن دل کے لیے ہزار سود اسی میں ہے۔ عین، نظر، نگاہ۔

گرمیِ آرزو فراق شورشِ ہائے ہو فراق

موج کی جستجو فراق قطرے کی آبرو فراق

نکات و رعایات: گرمی، شورش، جستجو۔ موج، قطرہ، آبرو۔ موج سے آرزو کا نشو و نما اور آرزو فراق ہے اس لیے قطرے جو مل کر موج بناتے ہیں اُن کی آبرو (دونوں معنی میں ) فراق ہی سے ہے۔ موج کی شورش میں گرمی ہے۔ وہ دریا بھی ہے آتش بھی، جس طرح دشت میں صبح کا سماں۔

مندرجہ بالا تجزیے سے ظاہر ہو گیا کہ پوری نظم در و بست کا شاہ کار ہے۔ خیالات کا انتشار اس قدر ہے کہ ایک ہی بند میں خیال جگہ جگہ بدلتا ہے۔ اس ظاہری بے ربطی کو ہئیتی وحدت دینے کے لیے اقبال نے بند میں اشعار کی تعداد یکساں رکھی ہے اور پوری نظم ترکیب بند میں ہے۔ لیکن یہ کارگذاری بذات خود محض ایک مصنوعی وحدت پیدا کرتی ہے۔ انتشار کے باوجود نظم متحد اور مکمل اسی لیے بنی ہے کہ ہر مصرع ایک دوسرے سے لفظی اور اس طرح داخلی معنوی ربط رکھتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لفظی در و بست اور رعایات اس نظم میں اتنی ہی ہیں جتنی میں نے اوپر بیان کی ہیں ، یقین ہے کہ اور بھی ہوں گی لیکن ان کے مختصر بیان سے بھی میرے نظریے کی تصدیق ہوتی ہے کہ نظم اور خاص طویل یا نسبتاً طویل نظم میں اقبالؔ کی فن کاری ایک طرح کی یکتائی رکھتی ہے جس کا بدل ممکن نہیں۔ نظم کی قوت دراصل اسی یکتائی میں ہے۔ اس طرح اقبالؔ فلسفی یا مجذوب جو کچھ بھی ہیں اپنی صناعی اور مخصوص نظم سازی کے حوالے ہی سے اپنی شاعرانہ شخصیت کو قائم کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی شاعرانہ شخصیت ان کے مجذوب یا فلسفی ہونے سے قائم ہوتی ہے۔

 

اقبال کا فن،  مرتبہ: گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، ۱۹۸۳ء

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید