فہرست مضامین
اسپینی بچوں کی کہانیاں
مشہود عالم رازؔ
دو بہادر بھائی
ایک دفعہ کا ذکر ہے اسپین کے کسی شہر میں ایک غریب آدمی رہتا تھا جو جوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ وہ بس اتنا کما لیتا تھا کہ مشکل سے اُس کا اور اُس کے بیوی بچوں کا پیٹ بھرتا تھا۔ اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ایک جال خرید لیا جائے اور مچھلی پکڑنے کا کام کیا جائے۔ مگر بدقسمتی دیکھئے کہ روزانہ اس کے جال میں صرف کیکڑے او ر پُرانے جوتے ہی پھنسا کرتے تھے۔ وہ خود ہی موچی تھا پھر بھلا پرانے جوتے اس کے کس کام کے تھے !
آخر تنگ آ کر اس نے خود سے کہا ’’ کل صبح میں آخری بار جال ڈالوں گا۔ اگر پھر بھی کوئی مچھلی ہاتھ نہ آئی تو میں ہمیشہ کے لئے اِس کام کو چھوڑ دوں گا۔‘‘ دوسرے دن صبح جب اُس نے آخری بار جال پانی میں ڈالا تو اس میں ایک خوبصورت سنہری مچھلی پھنسی ہوئی نکلی۔ وہ ابھی اُس مچھلی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ مچھلی نے اُس سے کہا:
’’مجھے اپنے گھر لے چلو اور میرے آٹھ ٹکڑے کرو۔ پھر ان ٹکڑوں کو نمک، مرچ ،دال چینی اور دوسرے مسالوں کے ساتھ پکاؤ۔ دو ٹکڑے اپنی بیوی کو، دو اپنی گھوڑی کو اور دو اپنی کُتیا کو کھلاؤ۔ باقی بچے دو ٹکڑوں کو اپنی ترکاری کی کیاری میں دَبا دو۔‘‘
اُس شخص نے ایسا ہی کیا۔ ٹھیک سال بھر کے بعد اس کی بیوی کے ایک ہی شکل کے جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ اُس کی گھوڑی نے دو بچے دئے اور کُتیا کے یہاں بھی دو ننھے ننھے پلّوں نے جنم لیا۔ آنگن میں دبے ہوئے دو ٹکڑوں سے پودوں کی جگہ دو مضبوط نیزے نکل آئے۔ اِن نیزوں کے سرپر پھولوں کے بجائے آسمانی رنگ کی دو ڈھالیں لگی تھیں جن پر سنہری مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔
اُسی دن سے اُس آدمی کی حالت بہتر ہوتی گئی۔ تیزی سے دن گزرتے گئے اور دیکھتے دیکھتے اس کے دونوں بیٹے جوان ہو گئے۔ ایک دن دونوں بھائیوں نے سوچا کہ اب اُن کو اپنی روزی خود کمانا چاہئے۔ ماں باپ سے اجازت کے کر دونوں نے خوبصورت گھوڑوں پر زین کسی ،اپنے وفادار کتّوں کو ساتھ لیا او ر مضبوط ڈھالوں اور نیزوں سے لیس ہو کر ماں باپ کی دعاؤں کے سائے میں چل پڑے۔ چونکہ ان کی شکل ایک سی تھی اور ہر شخص ان کو الگ الگ پہچاننے میں غلطی کرتا تھا اس لئے انہوں نے طے کیا کہ دونوں کو الگ الگ قسمت آزمانی چاہئے۔ چنانچہ ایک دوراہے پر پہنچ کر وہ گلے مل کر ایک دوسرے سے رخصت ہوئے۔ ایک نے مشرق کی را ہ لی اور دوسرے نے مغرب کی۔
ایک بھائی دن رات سفر کرتا ہو ا میڈرڈMadrid جا پہنچا۔ وہاں اُس نے ہر شخص کو روتا ہوا پایا۔ اُس کی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر شہر بھر کی اُداسی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک خوفناک اژدہا ہر سال شہر کی ایک خوبصورت لڑکی کو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ شہر کی ساری لڑکیاں قرعہ اندازی سے یہ طے کرتی ہیں کہ کس لڑکی کی باری کب آئے گی۔ اس سال شہزادی اِنفانتا Infantaکی باری ہے جو سنہری صبح کی طرح حسین اور خوبصورت ہے اور عادت کی بھی ایسی ہی میٹھی۔ آج اژدہا آئے گا اوراُسے اُٹھا کر لے جائے گا۔ ا سی وجہ سے سب لوگ اُداس ہیں اورآنسو بہا رہے ہیں۔
اُس بہادر لڑکے نے پوچھا کہ وہ اژدہا کس جگہ سے شہزادی کو اٹھا کر لے جائے گا۔ لوگوں نے بتایا کہ شہر کے باہر ایک پرانے درخت کے نیچے لڑکیوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں سے اژدہا ان کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ شہزادی کو بھی اس درخت کے نیچے پہنچا دیا گیا ہے اور وہ خوف سے ہانپتی کانپتی اژدہے کا انتظار کر رہی ہے جو ٹھیک بارہ بجے اسے اٹھا کر لے جائے گا۔ یہ سن کر اُس لڑکے نے اپنا گھوڑاسرپٹ دوڑایا اور شہزادی کے پاس جا پہنچا۔ شہزادی ڈر کے مارے کانپ رہی تھی اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
شہزادی نے اُس لڑکے کو دیکھتے ہی آواز لگائی ’’بھاگو ، بھاگو ، یہاں سے بھاگ جاؤ! اژدہا آنے ہی والا ہے۔ اگر اُس نے تمہیں دیکھ لیا تو وہ تمہیں مار ڈالے گا۔‘‘
اُس بہادر لڑکے نے جواب دیا ’’میں تمہیں بچانے کے لئے آیا ہوں۔ بھاگ جانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔‘‘
شہزادی نے حیرت سے پوچھا ’’مجھے بچانے کے لئے آئے ہو؟ کیا تمہیں اپنی جان پیاری نہیں ہے ؟‘‘
لڑکے نے کہا ’’ کم سے کم میں اپنی سی کوشش تو کر سکتا ہوں۔ تم یہ بتاؤ کہ یہاں قریب کوئی فرنیچر کی دوکان بھی ہے ؟‘‘
شہزادی کو بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ وہ حیرت سے بولی ’’فرنیچر کی دوکان؟ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟کچھ دماغ تو خراب نہیں ہو گیا تمہارا؟ویسے اِس سڑک کے آخری سرے پر کچھ دوکانیں ہیں جہاں فرنیچر بھی ملتا ہے۔‘‘
لڑکا گھوڑا دوڑاتا ہوا گیا اور جلد ہی ایک بہت بڑا آئینہ لے کر واپس آ گیا۔ اُس آئینے کو اُس نے درخت کے تنے سے لگا کر کھڑا کر دیا اور شہزادی سے اُس کی شال مانگ کر آئینہ پر ڈال دی۔ پھر وہ شہزادی سے بولا ’’تم آئینہ کے پاس کھڑی ہو جاؤ۔ جیسے ہی اژدہا قریب آئے تم آئینہ پر سے شال کو کھینچ لینا اور جھپٹ کر خود آئینہ کے پیچھے چھپ جانا۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکا ایک بڑے پتھر کی آڑ میں چھُپ کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں اژدہا اپنی کھردری دُم زمین پر گھسیٹتا اور اپنی خوفناک آنکھوں سے آگ برساتا آ پہنچا۔ شہزادی بہت ڈری ہوئی تھی لیکن ہمت کر کے وہ آئینے کے پاس کھڑی رہی۔ اژدہا جیسے ہی قریب آیا شہزادی نے ایک جھٹکے سے آئینہ پر سے شال کھینچ لی اور لپک کر خود آئینہ کے پیچھے جا چھپی۔ اژدہے نے جب یہ دیکھا کہ جہاں چند لمحے پہلے ایک خوبصورت لڑکی کھڑی تھی وہاں اب ایک خونخوار اژدہا کھڑا ہے تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اژدہا دہاڑا تو آئینہ والے اژدہے نے بھی جوابی دہاڑ لگائی۔ اس کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو گئیں تو آئینہ کے اژدہے کی آنکھیں بھی سرخ ہو گئیں۔ اژدہے نے اُدھر اپنا خوفناک منھ پھاڑا تو آئینے کے اژدہے نے بھی اِدھر اپنا بھیانک منھ کھول دیا۔
اب تو اژدہے کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ اُس نے اپنے عکس پر حملہ کر دیا اور آئینے پر ایسی زوردار ٹکر ماری کہ وہ چکنا چور ہو گیا۔ جب اژدہے نے خود کو آئینے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں میں دیکھا تو سمجھا کہ وہ خود ہزاروں ٹکڑوں میں ٹوٹ گیا ہے۔ لڑکے نے اِس موقع کو غنیمت جانا اور پتھر کی آڑ سے نکل کر اپنے کتّے کا ساتھ اژدہے پر حملہ کر دیا اور تاک کر ایسا نیزہ مارا کہ اژدہا وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
میڈرڈ کا ہر شخص خوشی سے جھوم اُٹھا اور کہتا تھا کہ ایسی بہادری کا انعام شہزادی انفانتاسے شادی ہی ہو سکتا ہے۔ گلی گلی آتش بازی چھوڑی گئی، خوشی کے شادیانے بجائے گئے ، لوگ سڑکوں اور گلیوں میں ناچتے گاتے پھرے ، جشن منائے گئے اور بادشاہ نے شہزادی کی شادی اُس لڑکے کے ساتھ دھوم دھام سے کر دی۔
وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ایک دن اُس لڑکے نے شہزادی سے کہا کہ وہ بادشاہ کا پورا محل دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نے اب تک اس عالی شان محل کے صرف چند کمرے ہی دیکھے تھے۔ محل بہت بڑا تھا۔ اس لئے دونوں تین دن تک محل کے کمرے کھول کھول کر دیکھتے رہے۔ چوتھے دن وہ محل کی چھت پر جا پہنچے۔ وہاں ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کھلی رہ گئیں۔ دُور دُور کے خوبصورت مناظر ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پورا اسپین ان کے سامنے رکھا ہوا ہو۔ ان کو دُور ایک قلعہ نظر آیا۔
بہادر لڑکے نے پوچھا ’’شہزادی ! وہ دُور کیا نظر آ رہا ہے ؟ یہ قلعہ آخر کس کا ہے ؟‘‘
انفانتا نے جواب دیا ’’یہ ایک طلسماتی قلعہ ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ وہاں جا چکے ہیں مگر جو بھی اُس طرف گیا پھر لوٹ کر نہیں آیا۔‘‘
اُس بہادر لڑکے کو برائی اور ظلم سے سخت نفرت تھی اور ان کے خلاف جنگ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔ شہزادی کی بات سن کر وہ دل ہی دل میں کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا۔ دوسری صبح جب سب لوگ سو رہے تھے وہ اپنی ڈھال او ر نیزہ لے کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اس قلعہ کی طرف چل پڑا اور سارا دن جنگلوں اور بیابانوں میں گھوڑا دوڑاتا ہو ا قلعہ کے پاس شام ڈھلے جا پہنچا۔ قلعہ کی دیواریں کسی مقبرہ کی طرح خاموش اور طوفانی رات کی طرح سیاہ تھیں لیکن وہ لڑکا کسی چیزسے ڈرنے والا نہیں تھا۔ اس کی تیز تلوار اُس وقت تک نیام میں واپس نہیں جاتی تھی جب تک وہ دشمنوں کو شکست نہیں دے لیتی تھی۔
قلعہ کے دروازے پر پہنچ کر اس نے قرنا پھونکا۔ اُس کی آواز سے آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیاں گونج اٹھیں اور قلعہ کی دیواریں دیر تک تھر تھراتی رہیں مگر قلعہ کے اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اُس نے زور سے آواز لگائی ’’ارے کیا قلعہ کے اندر کوئی نہیں ہے جو ایک تھکے ہارے مسافر کو پناہ دے ؟ کیا یہاں کوئی قلعہ دار نہیں رہتا؟ کیا کوئی بوڑھا یا جوان ملازم بھی نہیں ہے جو چراغ لا کر راستہ دکھائے ؟‘‘
قلعہ کے اندر سے ایک گونجتی ہوئی آواز نے جواب دیا ’’بھاگ جاؤ، بھاگ جاؤ، یہاں سے دور بھاگ جاؤ ۔‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’ بھاگ جاؤں ؟ ابھی تو میں قلعہ میں داخل بھی نہیں ہوا۔ میں تو ہر گز نہیں جاؤں گا۔‘‘
اور اُن گونجتی ہوئی آوازوں نے پھر کراہ کر کہا’’ بھاگ جاؤ، یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘
جب قلعہ کا دروازہ نہیں کھلا تو اس لڑکے نے قلعہ کے مہیب دروازے پر اپنے نیزے سے ایک زبردست ضرب لگائی۔ دروازہ ذرا ساکھلا اور اَدھ کھلے دروازے میں سے لمبی ناک، دھنسی ہوئی آنکھوں اور پوپلے منھ والی ایک بدصورت بڑھیا نے جھانک کر کرخت آواز میں پوچھا ’’بیوقوف لڑکے ، آخر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’میں اندر آنا چاہتا ہوں۔ کیا مجھے رات گزارنے کے لئے جگہ مل سکتی ہے ؟‘‘
بڑھیا نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا ’’بالکل نہیں ! بھاگ جاؤ یہاں سے۔ یہاں تمھارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
لیکن جب بڑھیا نے دیکھا کہ وہ لڑکا بہت بانکا اور خو ش شکل ہے تو بولی ’’اچھا ! اے خوبصورت شہزادے تم اندر آ جاؤ۔ میں تمھاری خاطر تواضع اچھی طرح سے کروں گی۔‘‘ اوہ لڑکا قلعہ میں یہ کہتا ہوا داخل ہوا ’’میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں ، اور کسی سے بھی نہیں ! سُنا بوڑھی اماں ؟‘‘
بڑھیا نے کھسیا کر جواب دیا ’’میرا نام ڈَونا بَر بَریسکا Donna Berberiscaہے ، بوڑھی اماں نہیں ! تم چاہو تو میں تم سے شادی کر سکتی ہوں۔ پھر میں تم کو یہاں بادشاہ بنا کر رکھوں گی۔‘‘
بہادر لڑکے کو بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ اس کی ہنسی قلعہ میں گونج کر بڑھیا کا منھ چڑھاتی رہی۔ وہ بولا ’’شادی اور وہ بھی تم سے ؟ تم کم سے کم ایک سو سال کی تو ضرور ہی ہو گی۔ کیا تمھارا دماغ چل گیا ہے ؟ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ قلعہ کو اندر سے دیکھ بھال کر واپس چلا جاؤں۔‘‘
ڈَونا بر بر یسکا کا دل اس لڑکے کی باتوں سے ٹوٹ گیا۔ اس نے کچھ کہے بغیر لڑکے کی طرف گھور کر دیکھا اوراُسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اس نے بہادر لڑکے کو قلعہ دکھانا شروع کیا۔ جب وہ ایک اندھیری راہداری سے گزر رہے تھے تو لڑکے کا پیر بڑھیا کے لگائے ہوئے ایک خفیہ فرشی دروازے پر پڑا اور وہ دھم سے ایک تہ خانہ میں جا گرا۔
کچھ دنوں بعد اُس لڑکے کا بھائی گھومتا پھرتا ،دُنیا کی سیرکرتا میڈرڈ آ پہنچا۔ چونکہ دونوں بھائی ایک ہی سی شکل کے تھے اس لئے شہر والوں نے اُسے اپنا شہزادہ سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ شادیانے بجاتے ، ناچتے گاتے ، سپاہی جلوس کی شکل میں اسے بادشاہ کے محل کی طرف لے چلے۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ شہزادی انفانتا نے اُس کی یاد میں رو رو کر برا حال کر لیا ہے اور کہتی ہے کہ اُس کا شوہر اُس طلسماتی قلعہ سے کبھی واپس نہیں آئے گا۔
وہ لڑکاسمجھ گیا کہ شہر والے اُسے اُس کا بھائی سمجھ بیٹھے ہیں۔ اُس نے عقل مندی اسی میں جانی کی خاموش رہے اوراس راز ک تہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ جب وہ محل پہنچا تو بادشاہ اور شہزادی اُسے دیکھ کر پھولے نہیں سمائے۔
شہزادی نے پوچھا ’’کیا تم واقعی اُس طلسماتی قلعہ سے آ رہے ہو؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’ ہاں ہاں ، میں وہیں سے آ رہا ہوں۔‘‘
لوگوں نے حیرت سے سوال کیا ’’تم نے وہاں کیا کیا دیکھا؟‘‘
لڑکے نے کچھ سوچ کر جواب دیا ’’ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اس قلعہ میں ایک مرتبہ اور نہیں جاؤں گا کسی کواُس کا راز نہیں بتاؤں گا۔‘‘
شہزادی نے فکر و پریشانی سے پوچھا ’’تو واقعی تم وہاں دوبارہ جاؤ گے ؟ یاد رکھو تم پہلے شخص ہو جو وہاں جا کر صحیح سلامت واپس آ یا ہے۔‘‘
لڑکے نے سنجیدگی سے کہا ’’ہاں مجھے معلوم ہے۔ مگر میں وہاں دوبارہ جانا چاہتا ہوں۔‘‘
جب رات ہوئی تو لڑکے نے پلنگ پر لیٹنے کے بجائے اس پر اپنی تلوار لٹا دی۔ شہزادی نے حیرت سے پوچھا ’’ارے یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک میں اُس طلسماتی قلعہ میں جا کر دوبارہ واپس نہیں آ جاؤں گا پلنگ پر نہیں سوؤں گا۔‘‘
دوسرے دن سورج نکلنے سے پہلے وہ اٹھا اور اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر تیزی سے اُس طلسماتی قلعہ کی طرف روانہ ہوا۔ اُسے ڈر تھا کہ اس کے بھائی پر ضرور کوئی مصیبت آئی ہے اور اس کو وہاں جلد سے جلد پہنچ جانا چاہئے۔ اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرتا ہو ا سورج ڈوبنے سے پہلے قلعہ کے دروازے پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنا قرنا پھونکا۔ جب اُسے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے اپنا نیزہ دروازے پر زور سے مارا۔ دروازہ ذرا سا کھلا اور اُسی بوڑھی عورت نے باہر جھانک کر دیکھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ وہی شخص جسے وہ تہ خانے میں گرا کر ہلاک کر چکی تھی زندہ ہو کر آگیا ہے تو ڈر سے اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا اور وہ گھبرا کر شیطان کو اپنی مدد کے لئے پکارنے لگی۔
نوجوان نے بوڑھی عورت سے پوچھا ’’کیوں ،کیا کچھ دن پہلے میری شکل کا ایک بہادر لڑکا یہاں آیا تھا؟‘‘
بوڑھی عورت نے گھگھیا کر جواب دیا ’’ہاں آیا تو تھا۔‘‘
لڑکے نے پھر سوال کیا ’’تو پھر تم نے اُس بہادر لڑکے کے ساتھ کیا سلوک کیا؟‘‘
بڑھیا نے مری سی آوا ز میں جواب دیا ’’میں نے اُسے مار ڈالا ہے۔‘‘
یہ سن کر اُس بہادر لڑکے کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی۔ یکایک وہ بڑھیا پلٹی اور قلعہ کے اندر بھاگ پڑی۔ وہ اس کے پیچھے لپکا اور تان کر نیزہ سے اُس پروار کیا۔ نیزہ بڑھیا کے جسم میں ترازو ہو گیا۔ وہ اس قدر دبلی پتلی اور ہلکی پھلکی تھی کہ نیزہ کی نوک پر لٹکی ہوئی وہ ہوا کے زور سے پھرکی کی طرح گھوم رہی تھی۔
لڑکے نے کڑک کر پوچھا ’’شیطان کی خالہ!بتا میرا بھائی کہاں ہے ؟‘‘
بڑھیا نے جواب دیا ’’اچھا ،اچھا ! بتائے دیتی ہوں۔ لیکن میں بری طرح زخمی ہو گئی ہوں اور ہَوا سے پھِرکی کی طرح گھومنے سے مجھے چکر بھی آ رہا ہے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے۔ تمہیں مجھ کو دوبارہ زندہ کرنا پڑے گا۔‘‘
لڑکے نے کہا ’’چڑیل کہیں کی! بھلا میں یہ کیسے کر سکتا ہوں ؟‘‘
بوڑھی عورت بولی ’’تم جنگل میں جا کر اُلّو کی دُم، لومڑی کے کان، گیندے کے پھول اور اژدہے کا خون جمع کر کے لاؤ۔ پھر ان سب چیزوں کو ایک بڑی دیگ میں ڈال کر پانی میں اُبالو۔ جب پانی ٹھنڈا ہو جائے تو میر ے مردہ جسم کو اس میں ڈال دینا۔‘‘ یہ کہہ کر بڑھیا نے دم توڑ دیا۔
اُس لڑکے نے ایسا ہی کیا اور بڑھیا کے جسم کو دیگ کے طلسماتی شوربے میں ڈال دیا۔ وہ دوبارہ زندہ ہو گئ لیکن اب وہ پہلے سے بھی زیادہ بدصورت نظر آ رہی تھی۔ پھر اُس نے اپنے وعدے کے مطابق اُس بہادر لڑکے کو اس کے بھائی کا پتا بتا دیا۔ وہ لڑکا ایک رسّی کی مدد سے لٹک کر تہ خانے میں اُترا۔ وہاں اُسے اپنے بھائی کی لاش کے ساتھ ساتھ بہت سے ان لوگوں کے مردہ جسم بھی ملے جو اُس سے پہلے طلسماتی قلعہ کا راز معلوم کرنے آئے تھے اور اُس بوڑھی چڑیل کے چکر میں آ کر مار ے گئے تھے۔
اس نے ایک ایک کر کے سارے مردہ جسم اُسی دیگ میں ڈالے اور وہ سب کھٹاکھٹ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور جب وہ زندہ ہو گئے تو انہیں وہ کھوئی ہوئی آوازیں بھی مل گئیں جو گونج بن کر تہ خانے میں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ سب آوازوں نے مل کر یہ بد دعا کی کہ ’’ظالم بربر یسکا ! جو کچھ تو نے ہمارے ساتھ کیا ہے ، خدا اُسے کبھی نہ معاف کرے۔‘‘
قلعہ کے دوسرے تہ خانے میں دونوں بھائیوں کو ان سب خوبصورت لڑکیوں کے مردہ جسم بھی مل گئے جن کو سالہا سال سے وہ بھیانک اژدہا اُٹھا اُٹھا کر یہاں لاتا رہا تھا۔ در اصل وہ اژدہا جس کو پہلے بھائی نے مار ڈالا تھا اُس بوڑھی چڑیل کا بیٹا تھا۔ دونوں بہادر بھائیوں نے باری باری سب لڑکیوں کو بھی اُسی طلسماتی دیگ میں ڈال کر زندہ کیا اور پھر ان کی شادیاں اُن بہادر نوجوانوں سے کر دیں جن کو انہوں نے اُس بوڑھی چڑیل کی جادو ئی موت سے چھٹکار ا دلوایا تھا۔
اب اُس بڑھیا کا حال سُنئے۔ جب اُس نے یہ سارا تماشا دیکھا تو وہ جلن اور غصے کے مارے گر کر ایسی مری کہ پھر کبھی نہ اُٹھی!
٭٭٭
ظالم کارلینکو
کسی زمانے کی بات ہے کہ ایک پیاری سی بکری اپنی تین ننھی ننھی بیٹیوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی کٹیا میں ہنسی خوشی رہتی تھی۔ ایک دن پہاڑ ی پر چرتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ نالے میں ایک بھِڑ گر گئی ہے اور ڈوبنے ہی والی ہے۔ بکری نے قریب پڑی ہوئی لکڑی کا ایک ٹکڑا اُس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ بھڑ اُس لکڑی کے سہارے پانی سے باہر آ گئی اور بکری سے بولی:
’’بی بکری! اللہ تمھیں اس نیک کام کا انعام دے۔ تمھیں کبھی مدد کی ضرورت پڑے تواُس دیوار کے پاس آ جانا۔ اُس ٹوٹی پھوٹی دیوار میں میرا چھتّہ ہے۔ یوں تو اس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے کمرے ہیں لیکن غریبی کی وجہ سے ان کی دیواروں پرسفیدی نہیں کروا پائی ہوں۔ یوں تو میں ایک ننھی سی جان ہوں لیکن وقت پڑے تو یاد کر لینا۔ شاید میں تمھارے کسی کام آ سکوں۔‘‘ یہ کہہ کر بھڑ بھنبھناتی ہوئی اور دعائیں دیتی ہوئی اُڑ گئی۔
ایک صبح اُس بکری نے اپنی بیٹیوں سے کہا ’’دیکھو بچیو! میں پہاڑی پر لکڑیاں چننے جا رہی ہوں۔ گھر کا دروازہ اچھی طرح بند کر لو۔ احتیاطاً تالہ بھی ڈال لینا اور میری واپسی تک کسی اور کے لئے دروازہ مت کھولنا۔ وہ ظالم اور بھیانک دیو کارلینکو آس پاس ہی پھرتا رہتا ہے۔ تم دروازہ کسی صورت بھی نہ کھولنا۔ جب میں آواز دوں :
ماں آ گئی تمھاری ، دروازہ کھولو بچیو
اے میری پیاری پیاری ، دروازہ کھولو بچیو
تو دروازہ کھول دینا ورنہ نہیں !‘‘
تینوں بیٹیاں بڑ ی اچھی تھیں۔ اُن کی ماں نے ان کی تربیت بہت اچھی طرح کی تھی اور وہ اپنی ماں کا کہنا مانتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے ماں کے کہنے کے مطابق دروازہ بند کر کے اُس میں تالا ڈال دیا۔ ماں کے جاتے ہی دروازہ پر زور سے دستک ہوئی اور انہیں ایک خوفناک آواز سنائی دی جیسے کوئی سانڈ ڈکار رَہا ہو:
کواڑ کھولو کہ وہ کارلینکو آیا ہے
جو ایک دم میں پہاڑوں کو چیر دیتا ہے
تینوں بچیوں نے دروازہ مضبوطی سے بند ہی رکھا۔ انہوں نے جواب دیا ’’ہم تو دروازہ نہیں کھولیں گے۔ تم کھول سکو تو خود ہی کھول لو۔‘‘
کارلینکو کو غصہ آ گیا۔ اُس نے دروازے کو ایک زور دار لات ماری اور بہت چیخا چلایا مگر وہ دروازہ کھولنے میں ناکام رہا۔ آخر کار وہ بچیوں کو دھمکاتا اور پیر پٹکتا ہوا چلا گیا۔
دوسرے دن کارلینکو صبح سویرے آ کر بکری کی کٹیا کے قریب چھپ کر بیٹھ گیا تاکہ ماں بیٹیوں کی باتیں آسانی سے سن سکے۔ اُس روز بھی بکری کو لکڑیاں چننے کے لئے باہر جانا تھا۔ وہ جاتے وقت اپنی بچیوں کو دروازہ مضبوطی سے بند کرنے کی تاکید کرتی گئی اور یہ بھی بتا گئی کہ واپسی پر وہ دروازہ کھلوانے کے لئے کیا کہے گی۔
اُس شام کارلینکو دَبے پاؤں کٹیا کے دروازے پر آیا اور بکری کی آواز بنا کر بولا:
ماں آ گئی تمہاری ، دروازہ کھولو بچیو
اے میری پیاری پیاری،دروازہ کھولو بچیو
بکری کی بچیاں سمجھیں کہ ان کی ماں آ گئی ہے۔ انہوں نے بھاگ کر جھٹ سے کٹیا کا دروازہ کھول دیا۔ دیکھا تو باہر ظالم کارلینکو کھڑا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ڈر کے مارے بچیاں گھر کے اندر بھاگیں اور ایک سیڑھی کی مدد سے گھر کی دو چھتّی پر چڑھ کا بیٹھ گئیں۔ انہوں نے سیڑھی کھینچ کر اوپر اپنے قریب کر لی تاکہ کارلینکو اُن تک نہ پہنچ سکے۔ کارلینکو اپنی ناکامی پر جھلّا ہی تو گیا۔ اس نے گھر کا دروازہ کھٹاک سے اندر سے بند کر دیا اور غصہ میں اِدھر سے اُدھر چکر مارنا شروع کر دیا۔ بار بار وہ غصہ سے دیواروں پرگھونسے برساتا او ر زور زور سے دہاڑتا یہاں تک کہ کٹیا کی دیواریں لرزنے لگیں اور خوف سے بیچاری بچیوں کا خون خشک ہو گیا۔
تھوڑی دیر میں بکری لکڑیوں کا بوجھ اٹھائے واپس آئی اور اُس نے دروازہ پر پہنچ کر آواز دی:
ماں آ گئی تمہاری، دروازہ کھولو بچیو
اے میری پیاری پیاری ، دروازہ کھولو بچیو
اپنی ماں کی آواز سن کر بچیوں نے چیخنا شروع کر دیا کہ ظالم کارلینکو کٹیا میں گھس آیا ہے اور وہ تینوں دو چھتّی پر چڑھ گئی ہیں جہاں سے اُتر کر دروازہ کھولنا ممکن نہیں ہے۔ چیخ پکار کی آوازیں سن کر بکری بڑی پریشان ہوئی اور سوچنے لگی کی کس طرح گھر میں جا کر اپنی بچیوں کی مدد کرے۔ یکایک اُسے بھڑکا خیال آیا جس نے مصیبت کے وقت اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا اور جس نے جاتے جاتے اپنا نام بی ملکہ بتایا تھا۔ وہ بھاگی بھاگی اُس ٹوٹی دیوار کے پاس پہنچی جس میں بھڑوں کا چھتّہ تھا۔ دروازے پر دستک دی تو اندر سے چھتے کی چوکیدار ایک بھڑنے سر نکال کر پوچھا ’’کون ہے بھئی ؟ کیا چاہئے تم کو؟‘‘
بکری نے کہا ’’بہن جی ! میں ایک بکری ہوں۔‘‘
چوکیدار نے حیرت سے کہا ’’ارے ! ایک بکری کا بھلا بھڑوں سے کیا کام؟ اللہ تمھارا بھلا کرے۔ جاؤ اپنے کام سے کام رکھو۔‘‘
بکری کا فکر کے مارے برا حال تھا۔ گھبرا کر بولی ’’بہن ، خدا کے لئے ذرا بی ملکہ کو بلا دو ورنہ میں بھڑوں کو چٹ کر جانے والی چڑیا کو تمہارا پتا بتا دوں گی جو ابھی ابھی مجھے راستہ میں ملی تھی۔‘‘
چوکیدار بھڑ سہم گئی او ر اس نے جلدی سے جا کر بی ملکہ کو بکری کے آنے کی خبر دی۔ جیسے ہی بی ملکہ کو معلوم ہوا کہ اس کی دوست بکری آئی ہے ،وہ بھاگی بھاگی باہر آئی اور بکری سے آنے کی وجہ پوچھی۔ بکری نے رو رو کر سارا ماجرا کہہ سنایا۔
بی ملکہ نے بکری کو تسلی دیتے ہوئے کہا ’’میری دوست ننھی بکری! گھبراؤ مت۔ میں تمھاری مدد ضرور کروں گی۔ بس تم مجھے اپنی کٹیا دکھا دو۔‘‘
بکری نے اُلٹے قدم اپنی کٹیا کی طرف دَوڑ لگائی اور بی ملکہ اُڑتی ہوئی اُس کے ساتھ ساتھ ہو لیں۔ کٹیا پر پہنچ کر بی ملکہ دروازے میں بنے چابی کے سوراخ سے اندر داخل ہو گئی اوراس نے ظالم کارلینکو پر اچانک حملہ کر دیا۔ اُس نے دیو کے ماتھے پر ایسا زبردست ڈَنک مارا کہ وہ بلبلا اُٹھا اور درد سے چیختا چلاتا گھر کا دروازہ کھول کر ایسا سر پر پیر رکھ کر بھاگا کہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آیا!
٭٭٭
ننھی چیونٹی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ننھی چیونٹی تھی جو بہت صبح منھ اندھیرے اٹھ بیٹھتی تھی۔ وہ بہت محنتی اور صفائی پسند تھی۔ ایک دن جب وہ گھر کے سامنے جھاڑو دے رہی تھی تو اسے ایک پیسہ زمین پر پڑا ہوا ملا۔ اس چیونٹی نے خود سے سوال کیا:
’’اب بھلا میں اِس پیسے کا کیا کروں ؟ کیا میں اِس کی مونگ پھلیاں خریدوں ؟ نہیں نہیں ان کو تو میں چھیل بھی نہیں سکتی۔ تو پھر مٹھائی خرید لوں ؟ ارے نہیں ، یہ تو میرے لئے عیاشی ہو جائے گی!‘‘
وہ کافی دیر سوچ میں پڑی رہی۔ آخر کار وہ ایک دوکان پر گئی اور اُس پیسے سے لپ اسٹک اور پاؤڈر خریدا۔ پھر اُس نے اپنا منھ دھویا ، بالوں میں کنگھی کی اور لپ اسٹک اور پاؤڈر سے بن سنور کر اپنے گھر کی کھڑکی میں جا بیٹھی۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ جو بھی کھڑکی کے پاس سے گزرتا اُس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا۔
سب سے پہلے ایک موٹا تازہ بیل کھڑکی کے قریب سے گزرا اور چیونٹی کو دیکھ کر بولا ’’بی چیونٹی، تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘
چیونٹی نے پوچھا ’’لیکن تم مجھ سے بات چیت کس طرح کرو گے ؟‘‘
بیل نے زور سے ڈکرا کر جواب دیا ’’اِس طرح ،اور کیسے !‘‘
چیونٹی نے جواب دیا ’’جاؤ یہاں سے ، دفعان ہو جاؤ! تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔‘‘
پھر تو جو بھی اُدھر سے گزرا اُس کے ساتھ یہی ہوا۔ پہلے ایک کتّا آیا جو بھونک بھانک کر چلا گیا ۔ پھر ایک بلی نے میاؤں میاؤں بگھاری اور بھاگ گئی۔ ایک سُور گھوں گھوں کرتا ہوا چلا گیا۔ آخر میں ایک مرغ نے ککڑوں کوں کی تان لگائی اور اپنا سا منھ لے کر چل دیا۔ اس ننھی چیونٹی کو کوئی بھی پسند نہ آیا اور اُس نے سب کو ٹکا سا جواب دے کر ٹرخا دیا۔ اتنے میں ایک سلیٹی رنگ کا کیڑا رینگتا ہوا آیا اوراُسے نے اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے چیونٹی کا دل موہ لیا۔ وہ اُس سے مل کر بے حد خوش ہوئی اور اس نے اپنا ننھا سا کالا ہاتھ بھورے میاں کے ہاتھ میں دے دیا۔
وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ شادی کر کے دونوں ایسے خوش تھے جیسے جنت ہاتھ آ گئی ہو۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن چیونٹی گرجا گھر عبادت کرنے گئی۔ جاتے جاتے اُس نے شوربے کی ہنڈیا چولہے پر چڑھا دی اور بھورے میاں سے بولی ’’دیکھو! سالن کو چھوٹے چمچے سے مت چَلانا، بڑے چمچے سے چلانا۔‘‘ مگر جب چمچہ چلانے کا وقت آیا تو میاں بھورے اپنی بیوی کی بات بھول گئے اور چھوٹا چمچہ سالن میں چلانے لگے۔ اور پھر وہی ہو ا جس کو چیونٹی کو ڈر تھا۔ چھوٹا چمچہ چلاتے چلاتے وہ جھونک میں آ کر غڑاپ سے ہنڈیا میں گر کر ڈوب گئے۔
جب چیونٹی گرجا گھر سے واپس آئی تو اس نے دروازے پر دستک دی مگر نہ تو کسی نے دروازہ کھولا اور نہ ہی کسی کی آواز اندر سے آئی۔ وہ پڑوسی کے گھر گئی اور اس سے مکان کی چھت پر چڑھنے کی اجازت مانگی تاکہ وہ اپنے آنگن میں اُترسکے مگر پڑوسی نے اجازت نہ دی۔ ہار کر وہ تالا بنانے والے کو بلا کر لائی اور اُس سے گھر کا تالا کھلوایا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ باورچی خانے کی طرف لپکی اور وہاں پہنچ کر اُس نے ہانڈی میں جھانکا تو دیکھا کہ اس کا شوہر شوربہ میں تیر رہا تھا اور شوربہ اُبال پر آنے ہی والا تھا۔ چیونٹی اُسے اِس حال میں دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اتنے میں ایک ننھی چڑیا آئی اور اُس نے پوچھا ’’بی چیونٹی! تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ چیونٹی نے آنسو پوچھتے ہوئے جواب دیا ’’میرا شوہر شوربہ میں گر گیا ہے۔‘‘
چڑیا بولی ’’ہائے افسوس! میں تو ایک کمزور سی چڑیا ہوں۔ بھلا میں کیا کر سکتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے خود ہی اپنی چونچ کاٹ ڈالی۔
اُسی وقت ایک پیلی فاختہ آئی اور پوچھا ’’اچھی چڑیا !تم نے اپنی چونچ کیوں کاٹ لی؟‘‘
چڑیا نے جواب دیا ’’ننھی چیونٹی کا شوہر شوربہ میں گر گیا ہے اور وہ غم کے مارے رو رہی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اس لئے تمھاری اچھی چڑیا نے اپنی چونچ کاٹ ڈالی ہے۔‘‘
پیلی فاختہ نے کہا ’’ہائے افسوس! میں بھی تو کچھ نہیں کر سکتی۔ میں بھی اپنی دُم کاٹے لیتی ہوں۔‘‘
اِتنے میں ایک کبوتر وہاں آ نکلا اور بولا ’’بی پیلی فاختہ !تم نے اپنی دُم کیوں کاٹ ڈالی؟‘‘
پیلی فاختہ نے جواب دیا ’’ننھی چیونٹی کا شوہر شوربہ میں گر گیا ہے اور وہ غم سے رو رہی ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے تو اچھی چڑیا نے اپنی چونچ اور پیلی فاختہ نے اپنی دُم کاٹ ڈالی ہے۔‘‘
کبوتر نے افسوس سے کہا ’’میں بھی تو کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘یہ کہہ کر وہ دھم سے زمین پر گر گیا۔
اب قریب ہی چلتے ہوئے شفّاف پانی کے فوّارے نے حیرانی سے پوچھا ’’میاں کبوتر! تم اس طرح کیوں پڑے ہوئے ہو؟‘‘
کبوتر بولا ’’ننھی چیونٹی کا شوہر شوربہ میں گر گیا ہے اور غم سے رو رہی ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے ، اس لئے اچھی چڑیا نے اپنی چونچ اور پیلی فاختہ نے اپنی دُم کاٹ لی ہے اور کبوتر دھم سے گر پڑا ہے۔‘‘
فوّارے نے کہا ’’کر تومیں بھی کچھ نہیں سکتا ، اس لئے شفاف پانی کے آنسو روتا رہوں گا۔‘‘اور وہ یہ کہہ کر دھاروں دھار رونے لگا۔
اتنے میں شہزادی انفانتا گھڑا لے کر فوارے سے پانی بھرنے آ گئی۔ اس نے فوارے سے پوچھا:ارے شفاف پانی والے فوّارے ! تم اس طرح دھاروں دھار کیوں رو رَہے ہو؟‘‘
فوّارے نے جواب دیا ’’ننھی چیونٹی کا شوہر شوربے میں گر گیا ہے اور وہ غم سے رو رہی ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔ اس لئے ننھی چڑیا نے اپنی چونچ اور پیلی فاختہ نے اپنی دُم کاٹ لی ہے اور کبوتر دھم سے زمین پر گر پڑا ہے اور اِسی لئے شفاف پانی والا فوارہ دھاروں دھار آنسوؤں سے رو رَہا ہے۔‘‘
انفانتا نے یہ سنا تو کہا ’’تو پھر شہزادی انفانتا بھی اپنا گھڑا پھوڑے دیتی ہے۔ وہ بھی تو اب کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘
اور مَیں اس کہانی کو سناتے سناتے رو رَہا ہوں کیونکہ ننھی چیونٹی کا شوہر شوربے میں گر گیا ہے اور وہ غم سے رو رَہی ہے اور اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے !
٭٭٭
چاندی کا فرشتہ
یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک خیال ہے کہ حضرت یونس کو جب ایک وہیل مچھلی نے نگلا تھا تو وہ اسپین کے سفر پر تھے۔ سیویل (Seville)شہر کے آس پاس جو کھدانیں ہیں وہ اس قدر پرانی ہیں کہ ان میں کام کرنے والوں کو اکثر اُن میں تانبے اور لکڑی کی بنی ہوئی عجیب و غریب چیزیں آج تک ملتی ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی وہ کھدانوں کے اندر عجیب عجیب اجنبی سی آوازیں بھی سنتے ہیں بعض اوقات ایسے نشانات بھی نظر آ جاتے ہیں جیسے وہاں کسی نے کچھ تلاش کرنے کے لئے زمین کھودی ہے۔
مدت ہوئی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio)تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مالدار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لئے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔ انتونیو بہت ایماندار اور ہوشیار آدمی تھا ،اس لئے اُس کا مالک اُس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا۔ لیکن اُس کے محنتی اور ایماندار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔ انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita)سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا(Malaga)کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوبصورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اُس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔
انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی۔ مگرا ب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اُسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لئے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برفباری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔
ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوشنما منظر تھا۔ ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اُس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے۔ پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ ان دونوں کے لئے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھامل جائے گا اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔
انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھماجھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے ، چاندی کا نیزہ لئے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لئے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لئے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایماندار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘
صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی۔ لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔
راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت!یہ ساری چاندی تمہارے ہی لئے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے ؟‘‘
انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹّانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔ راستہ میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لئے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعاسلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔ لوگوں نے اُسے اُن بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اُسے جا بجا خوبصورت لڑکیاں اُون اور اَنڈے لئے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوبصورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔
بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لئے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رُک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتشبازی دیکھے۔ لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔
انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاند ی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لئے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔
اُس درویش نے انتونیو کے پاس آ کر کہا ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘
انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیونکہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘
درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘
انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دُور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اُس نے یہ دیکھا کہ جو پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کراس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔ جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُس پر سے اُتر کر بولا ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیونکہ اُس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔
بہر حال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اُس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔
جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہاس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔ پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگاجیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ :
’’اِسے مت بھولنا ! یہ ساری چاند ی تمہارے لئے ہی ہے ، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘
انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔
جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔ منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لئے اُس نے گھر آ کر انتونیوسے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایماندار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔
منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا ، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔
منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپئے دئے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔
انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچوں ، پوتے پوتیوں اور نواسے ،نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے !
٭٭٭
سیراگوسا چلو یا واپس تالاب
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گیلیسیاکا ایک دیہاتی سیراگوسا نامی شہر میں کام تلاش کرنے کے لئے اپنے گھر سے نکل پڑا۔ جب وہ سیراگوساکے قریب پہنچا تو اُسے شہر کی طر ف سے آتا ہوا ایک بوڑھا آدمی ملا۔ اُس بوڑھے نے پوچھا:
’’میرے دوست! تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
وہ شخص بولا ’’سیرا گوساجا رہا ہوں۔‘‘
بوڑھے نے سنجیدگی سے کہا ’’اگر اللہ کی ایسی ہی مرضی ہے تو جاؤ۔‘‘
اُس شخص کو اب سیرا گوسا شہر کے مکانوں کی چھتیں اور مینار دُور سے صاف نظر آرہے تھے۔ وہ بوڑھے پر جھنجھلا کر بولا ’’اللہ چاہے یا نہ چاہے میری بلا سے ! میں تو سیرا گوساجا رہا ہوں۔‘‘
وہ بوڑھا شخص ایک وَلی تھا۔ اِس بے ادبی کی سزا اُس دیہاتی کو یہ ملی کہ وہ اُسی وقت مینڈک کی شکل کاہو گیا اور پھدک پھدک کر سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے تالاب میں چلا گیا۔ وہاں اُسے رہتے رہتے پورا ایک سال ہو گیا۔ شریر بچوں ،بگلوں اور سارسوں سے وہ ہر وقت خوف زَدہ رہا کرتا تھا۔
سال بھر کے بعد وہ وَلی اسی تالاب کے کنارے پر آیا اور اُس نے مینڈک کو آواز دی۔ مینڈک پھدک کر تالاب کے کنارے آ بیٹھا۔ اس وَلی نے مینڈک سے بڑی گمبھیر آواز میں پوچھا:
’’میاں ! اب کہو تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
وہ مینڈک آخر کو تھا تو گیلیسیاکا دیہاتی ہی اور وہاں کے رہنے والے بہت ہی ہٹ دھرم اور ضدی ہوتے ہیں۔ اُس نے ٹرّا کر جواب دیا ’’سیرا گوساجا رہا ہوں اور کہاں ؟‘‘
وَلی نے حکم دیا ’’تو چلو پھر تالاب میں واپس جاؤ۔‘‘ او ر مینڈک پھر غڑپ سے تالاب میں واپس چلا گیا۔
ایک سال اور گزر گیا۔ وہی ولی پھر تالاب کے کنارے آیا اور مینڈک کو آواز دی ’’کیوں میاں ، تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ اُسے پھر وہی ٹکا سا ٹر ٹرایا ہوا جواب ملا ’’سیرا گوسا جا رہا ہوں اور کہاں ؟‘‘
اُس وَلی نے غصہ میں پھر حکم دیا ’’تو چلو پھر تالاب میں واپس جاؤ۔‘‘
وہ مینڈک آج تک اُسی تالاب میں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسپین کے لوگ کسی کام کرنے کا پکا اِرادہ کر لیتے ہیں اور چاہے کچھ بھی ہو جائے اُسے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کہاوت کا استعمال کرتے ہیں :
’’سیرا گوساچلو یا واپس تالاب۔‘‘
٭٭٭
بیوقوف بھیڑیا اور چالاک لومڑی
کسی زمانے کی بات ہے کہ ایک لومڑی اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک جھرنے کے کنارے جھونپڑی میں رہا کرتی تھی۔ وہیں قریب اُس کا دوست بھیڑیا بھی رہتا تھا۔ ایک دن اُس لومڑی کا گزر بھیڑئیے کے گھر کی طرف ہوا تو دیکھا کہ راج مزدور اَور بڑھئی کام پر لگے ہوئے ہیں اور بھیڑیئے کا گھر خوبصورت ہو گیا ہے۔ لومڑی گھر کے سامنے رُک کر اُس کی تعریف کرنے لگی۔ بھیڑیئے نے لومڑی کو اندر بلا لیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ اُس گھر میں ایک ڈرائنگ روم، ایک بیڈ روم اور ایک کچن تھا۔ کچن میں اچھے اچھے کھانوں اور پھلوں سے بھرا ہوا ایک نعمت خانہ بھی تھا۔
لومڑی نے بھیڑیئے سے کہا ’’سنو میرے دوست!تمہارے نعمت خانے میں یوں تو اللہ کے فضل و کرم سے سب کچھ موجود ہے لیکن شہد سے بھرے مرتبان کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘
گرمیوں کا موسم تھا اور شہد بیچنے والے سڑکوں اور گلیوں میں آواز لگاتے پھر رہے تھے :
چکھ کر دیکھو ،کہتی مگس ہے
میٹھا شہد ہے ، پھول کا رَس ہے
بھیڑیے نے اسی وقت شہد خرید کر ایک مرتبان میں بھر لیا۔ پھر اُس نے لومڑی سے وعدہ کیا کہ جب مکان میں کام پورا ہو جائے گا تو وہ اُس کی دعوت کرے گا اور وہ دونوں مل کر شہد کھائیں گے۔ اُدھر کا م تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ لومڑی کے منھ میں شہد کا خیال آتے ہی پانی آ جاتا تھا او ر اپنے پنجے چُسر چُسر چوسنے لگتی تھی۔ وہ دن رات ترکیبیں سوچتی کہ کس طرح شہد پر ہاتھ صاف کیا جائے۔
ایک دن لومڑی نے بھیڑیے سے کہا ’’بھائی بھیڑیے ، مجھے اپنے ایک دوست کے بچے کے مونڈن کی تقریب میں شرکت کے لئے جانا ہے۔ میں اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ، کیا تم چند گھنٹوں کے لئے میرے گھر آ کر اُن کے ساتھ رہ سکتے ہو؟‘‘
بھیڑیا راضی ہو گیا اور بتائے ہوئے وقت پر لومڑی کے گھر پہنچ گیا۔ لومڑی نے گھر سے نکل کر سیدھے بھیڑیے کے گھر کی راہ لی اور نعمت خانے سے مرتبان نکال کر بہت سا شہد چٹ کر گئی۔ پھر اُس نے نعمت خانہ سے سیب، بادام،انجیر وغیرہ اچھی اچھی چیزیں نکالیں اور باہر میدان میں ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ کر سب ہڑپ کر گئی۔
جب شام کو لومڑی گھر پہنچی تو بھیڑیے نے پوچھا ’’بی لومڑی ، بھلا بتاؤ تو مونڈن کی تقریب کیسی رہی؟‘
لومڑی بولی ’’واہ صاحب واہ ! مزہ ہی تو آ گیا۔‘‘
بھیڑیے نے پھر سوال کیا ’’اور بچے کا کیا نام رکھا گیا؟‘‘
لومڑی بولی ’’پہلوی۔‘‘ بھیڑیے نے نام سن کر حیرت سے کہا ’’پہلوی؟ یہ کیسا عجیب سا نام ہے ؟‘‘
لومڑی نے بات بناتے ہوئے کہا ’’جنتری میں تو یہ نام نہیں ملا مگر یہ ایک وَلی کا نام ہے جس کے ماننے والے ذرا کم ہی ہیں۔‘‘
بھیڑیے نے پھر پوچھا ’’اور یہ تو بتاؤ کہ وہاں مٹھائیوں میں کیا کیا تھا؟‘‘
لومڑی بولی ’’مٹھائی نام کی تو وہاں کوئی چیز بھی نہیں تھی۔‘‘
بھیڑیا چڑ گیا ’’واہ صاحب واہ! یہ کیا تقریب ہوئی جہاں مٹھائی ہی نہیں تھی۔ ایسا تومیں نے پہلی مرتبہ ہی سنا ہے۔ میں تو دن بھر کرایہ کی نرس کی طرح تمہارے بچوں کو صرف اس لالچ میں جھیلتا رہا کہ تم کچھ مٹھائی لے کر آؤ گی۔ مگر تم تو بالکل خالی ہاتھ آئیں۔ واہ بھائی واہ۔‘‘ اور وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔
مرتبان ابھی پوری طرح خالی نہیں ہوا تھا اور لومڑی کی رال بچے ہوئے شہد پر ٹپکے جا رہی تھی۔ اس نے پھر ایک تقریب کا بہانا بنایا اور بھیڑیے کو مٹھائی کا لالچ دے کر اپنے بچوں کے پاس چھوڑ دیا۔ شام کو جب لومڑی شہد چاٹ کرگھرواپسآئی تو بھیڑیے نے پھر وہی سوال کیا کہ ’’بچہ کا نام کیا ہے ؟‘‘
لومڑی بولی ’’وسطی۔‘‘ بھیڑیے نے تعجب سے کہا ’’ارے ! ایسا نام تو میں نے آج تک نہیں سنا۔‘‘
لومڑی نے جواب دیا ’’یہ عربوں کے ایک بزرگ کا نام ہے۔ اُدھر ایسے ہی نام ہوتے ہیں۔‘‘
بھیڑیا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اُس نے پھر مٹھائی کا سوال کیا۔
لومڑی نے کہا ’’بھئی ! وہاں طرح طرح کی مٹھائیاں تھیں۔ میں تمہارے لئے ڈھیر ساری مٹھائی لائی تھی۔ راستے میں ذراسی دیر کے لئے زیتون کے ایک درخت کے سایہ میں کمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ گئی تھی۔ میری آنکھ لگ گئی او ر کم بخت چڑیوں نے ساری مٹھائی کھا لی۔‘‘
بھیڑیا اُس شام بھی پیر پٹختا اور چڑیوں کوکوستا ہو اپنے گھر چلا گیا۔
کچھ دنوں کے بعد لومڑی پھر بھیڑیے کے پا س پہنچی او روہی پرانا بہانہ بنا کر بھیڑیے کو بچوں کے پاس رکنے کو کہا۔
بھیڑیے نے جھنجھلا کر کہا ’’ نہیں صاحب! میں ہرگز نہیں آؤں گا۔ جب تب میں نانی ماں کی طرح بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں ، یوں بھی اب میری عمر ایسی نہیں ہے کہ بچوں سے اُلجھوں۔ اور تم کون سی ٹوکری بھر بھر کر مٹھائیاں لے کر آتی ہو جو میں اس مصیبت میں پڑوں ؟‘‘
لومڑی نے بڑی خوشامد کی اور اس مرتبہ مٹھائی لانے کا پکّا وعدہ کیا۔ اس نے کسی طرح بھیڑیے کو راضی کر ہی لیا۔ وہ ایک مرتبہ پھر لومڑی کے گھر گیا تاکہ اُس کی غیر حاضری میں اُس کے بچوں کے ساتھ رہے۔
جب مرتبان کا سارا شہد چٹ کر کے شام کو لومڑی گھر واپسآئی تو بھیڑیے نے بچے کا نام پوچھا۔
لومڑی نے بتایا کہ بچہ کا نام خاتمی رکھا گیا ہے۔ بھیڑیا بولا ’’واہ بھائی واہ! کیا عجیب نام ہے۔ میں نے تو ایسانام کبھی نہیں سنا۔‘‘
لومڑی بولی ’’اجی جس وَلی کے نام پر بچے کا نام رکھا گیا ہے اُسے خو د بھی اپنا نام پسندنہیں تھا۔‘‘
’’اور میرے حصے کی مٹھائی کہاں ہے ؟‘‘بھیڑیے نے لومڑی سے پوچھا۔
لومڑی نے سرہلا کر جواب دیا ’’کیا بتاؤں دوست، اِس بار جانے کیسے حلوائی کی انگیٹھی اُلٹ گئی اورساری کی ساری مٹھائی جل گئی۔‘‘
بھیڑیا غصہ سے جھلّا کر بولا ’’خدا کرے کہ مونڈن والے تینوں بچے جب جب مٹھائی کھائیں ،وہ مٹھائی اُن کے حلق میں پھنس جائے۔‘‘ او ر وہ بڑبڑاتا ہو ا اپنے گھر چلا گیا۔
لومڑی نے کچھ دن صبر سے کام لیا۔ پھر ایک روز بھیڑیے سے بولی ’’بھائی! تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے ؟تمہارا گھر تو اب پورا ہو گیا ہے۔ اپنا وعدہ پورا کرو اور میری دعوت کر ڈالو۔‘‘
بھیڑیا اب تک غصہ میں بھرا بیٹھا تھا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ دعوت بڑی پر تکلف تھی۔ آخر میں جب منھ میٹھا کرنے کا وقت آیا تو بھیڑیا نعمت خانے سے شہد کا مرتبان نکال لایا۔ مرتبان کو ہاتھ میں لے کر وہ بولا ’’ارے یہ مرتبان تو بہت ہلکا ہے۔‘‘
پھراُس نے مرتبان کا ڈھکنا کھول کر اُس میں جھانکا تو اسے خالی پایا۔ وہ حیرت سے کہنے لگا:
’’یہ شہد آخر گیا کہاں ؟‘‘
لومڑی جھٹ سے بول پڑی ’’جاتا کہاں ! ارے تم خود سارا شہد چٹ کر گئے اور اب پوچھتے ہو کہ کہاں گیا؟ تم تو چاہتے ہی نہیں تھے کہ مجھے شہد کھانے کو ملے۔‘‘
بھیڑیے نے جواب دیا ’’لیکن میں نے تو نام کو بھی شہد نہیں چکھا۔‘‘
لومڑی نے سر ہلا کر کہا ’’دوست! تمھاری یادداشت اچھی نہیں معلوم ہوتی۔ تم شہد کھا کر بھول گئے ہو۔‘‘
بھیڑیااُس کی طرف غور سے دیکھ کر بولا ’’اچھا! تو میری سمجھ میں اب آیا۔ تم نے مجھے دھوکا دے کر چوری کی ہے۔ وہ تینوں بچے پہلوی، وسطیاورخاتمی در اصل میرے شہد کی ابتدا،درمیان اور خاتمہ تھے۔‘‘
لومڑی نے بڑی بے شرمی سے کہا ’’دیکھو دوست! ایک تو تم نے خود ہی تمام شہد کھا لیا تاکہ مجھ کونہ مل سکے اور پھر میرے اوپر جھوٹا الزام لگا رہے ہو۔ لالچی کہیں کے ! کیا تم کو اپنی اس حرکت پر شرم نہیں آتی؟‘‘
بھیڑیے نے غصے سے جواب دیا ’’میں نے ہرگز شہد نہیں کھایا۔ جھوٹے الزام لگانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ چور تم خود ہو۔ میں ابھی جا کر ببر شیر خاں صاحب سے تمہاری شکایت کرتا ہوں۔‘‘
لومڑی نے بات بگڑتی دیکھی تو چالاکی سے بولی ’’ایک منٹ صبر کرو بھائی! اتنی جلدی مت کرو۔ شاید تم نے نہیں سنا کہ عدالت میں جانا تو بہت آسان ہے لیکن اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ میرے خیال میں تم کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ کہ اگر کوئی شہد کھا کر دھوپ میں لیٹ کرسو جائے تو اس کو شہد کا ہی پسینہآتا ہے۔‘‘
بیوقوف بھیڑیا اچنبھے سے بولا ’’نہیں یہ تو مجھ کو واقعی نہیں معلوم تھا۔‘‘
لومڑی نے کہا ’’تعجب ہے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں۔ چلو ہم دونوں یہیں دھوپ میں سوئے جاتے ہیں۔ جاگنے پر جس کا پیٹ شہد سے لُتھڑا ہوا ہو گا سمجھ لو کہ اُسی نے شہد کھایا ہے۔‘‘
بھیڑیا اس بات پر راضی ہو گیا اور دونوں سونے کے لئے دھوپ میں لیٹ گئے ، لیکن لومڑی جاگتی رہی۔ جب اُس نے دیکھا کہ بھیڑیے کی نیند پکی ہو گئی ہے اور اُس کے خراٹے گونجنے لگے ہیں تو وہ چپکے سے اٹھی ، مرتبان کے تلے سے پنجہ ڈال کر بچا کھچا شہد نکالا اور سوئے ہوئے بھیڑیے کے پیٹ پر مل دیا۔ پھر وہ اپنا پنجہ چاٹ کر وہیں پڑ کر سو گئی۔
جب بھیڑیے کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ اس کا پیٹ چپک رہا ہے۔ وہ اُچھل پڑا اور حیرت سے بولا ’’ارے باپ رے باپ! مجھے تو شہد کا پسینہ آ رہا ہے۔ ہو نہ ہو میں نے ہی شہد کا مرتبان خالی کیا ہو گا۔ لیکن بھئی ، میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ مجھے معاف کر دو بی بی! آؤ ہم دونوں پچھلی باتوں کو بھول جائیں اور پھر سے اچھے دوست بن جائیں !
٭٭٭
گانے والا تھیلا
کسی زمانے کی بات ہے کہ ایک عورت تھی جس کی صرف ایک بیٹی تھی۔ وہ بچی بہت پیاری تھی اور اُس کی ماں اُس سے بہت محبت کرتی تھی۔ اُس بچی کو اُس کی ماں نے مونگے کا ایک خوبصورت ہار دیا تھا۔ ایک دن اُس کی ماں نے اُسے ایک گھڑا دے کر گاؤں کے کنویں سے پانی بھر کر لانے کے لئے بھیجا۔ بچی گھڑا لے کر کنویں پر پہنچی اور اُس نے ہار اپنے گلے سے اُتار کر کنویں کی جگت پر اس ڈر سے رکھ دیا کہ پانی نکالتے وقت وہ کہیں کنویں میں گر نہ جائے۔ قریب ہی ایک گندا سا بوڑھا بھکاری ایک پتھر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے کندھے پر ایک بڑا سا تھیلا پڑا ہوا تھا اور وہ ا س بچی کو بری طرح گھورے جا رہا تھا۔ بچی اُس فقیر کو دیکھ کر ایسی خوف زدہ ہوئی کہ گھڑے کے بھرتے ہی وہ گھرکی طرف لمبے لمبے قد م بڑھاتی چل دی اور اپنا ہار کنویں کی جگت سے اُٹھانا بھول گئی۔
گھر پہنچ کر جب اس نے گھڑا سر پر سے اُتارا تو اُسے اپنا ہار یاد آیا۔ وہ اُلٹے پاؤں کنویں کی طرف بھاگی تاکہ ہار اُٹھا لائے۔ وہ فقیر وہاں موجود تھا۔ اُس نے بچی کو پکڑ کر زبردستی اپنے تھیلے میں ڈال لیا اور تھیلے کا منھ رسّی کے ایک ٹکڑے سے مضبوطی سے باندھ دیا اور تھیلے کو کندھے پر ڈال کر بھیک مانگنے نکل کھڑا ہو ا۔ وہ گھر گھر جا کر کہتا کہ اس کا جادوئی تھیلا گانا گا سکتا ہے۔ لوگ اُس کے اِرد گرد جمع ہو گئے اور تھیلے کا گانا سننے کی فرمائش کرنے لگے۔ اُس فقیر نے تھیلے کو زور زور سے ہلایا اور بھیانک آواز بنا کر بولا:
گاؤ تھیلے گاؤ! اپنی جان کی خاطر گاؤ گے
گاؤ گے نہیں تو چاقو سے تم خوب ہی گودے جاؤ گے
وہ بچی تھیلے میں بند ڈر کے مارے اَدھ مری ہو رہی تھی لیکن اپنی جان بچانے کی خاطر اسے گانا پڑا۔ اُس نے در د بھری آواز میں گانا شروع کیا:
پانی لینے گئی کنویں پر کھیتوں کے اُس پار
بھول گئی میں پاس ہی رکھ کر مونگے کا وہ ہار
اب میں امّاں سے ڈرتی ہوں کہیں پڑے نہ مار
واپس بھاگی گئی کنویں پر شاید وہ مل جائے
قسمت ایسی پھوٹی میری ، لاکھوں کرے اُپائے
لیکن میرا ہار جو کھویا ، ہاتھ بھلا کب آئے
ہار تو پہلے ہی کھویا تھا ، میں بھی ہو گئی بند
امّاں ! اب میں ایسا نہیں کروں گی، کھاؤں میں سوگند
مجھے پتا ہے میری باتیں تم کو نہیں پسند!
وہ بچی اتنا اچھا گاتی تھی کہ لوگ اس کا گانا سن کر خوشی سے جھوم اٹھتے تھے اور اُس فقیر کو خوب پیسے دیتے تھے۔ وہ فقیر گھر گھر پھرتا ہوا اُس بچی کے گھر بھی پہنچا۔ بچی کی ماں نے اپنی بیٹی کی آواز پہچان لی اور فقیر سے بولی:
’’چچا جان! موسم بہت خراب ہو رہا ہے اور دریا میں پانی بھی بہت چڑھ آیا ہے۔ آج کی رات یہاں ہی ٹھہر جائیے۔ میں آپ کو کھانا کھلاؤں گی اور آرا م سے بستر پر سلاؤں گی۔ صبح چلے جائیے گا۔‘‘
بوڑھا فقیر یہ باتیں سن کر خوش ہو گیا۔ باہر واقعی موسم بہت خراب تھا۔ زور دار ہَوا چل رہی تھی اور موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ اس کو جب خوب پیٹ بھرکر کھانا ملا اور سونے کے لئے نرم اور گرم بستر ملا تو وہ لیٹتے ہی گہری نیند میں ڈوب گیا۔ فقیر کے سوتے ہی اس بچی کی ماں نے تھیلے کا منھ کھول کر اپنی بیٹی کو اس میں سے نکال لیا۔ ٹھنڈ کے مارے اس بچی کا برا حال تھا اور وہ ڈر کے مارے ادھ مری ہو کر رہ گئی تھی۔ اُس کی ماں نے اُسے سینے سے چمٹا کر خوب پیار کیا ، گرما گرم کھانا کھلایا اور خوب نرم بستر پر اُسے لٹا دیا۔ آرام او ر پیار ملتے ہی وہ بچی بالکل اچھی ہو گئی۔ پھر اس کی ماں نے فقیر کے تھیلے میں ایک کتّا اور ایک بلّی ڈال کر اس کا منھ پہلے کی طرح باندھ دیا۔
دوسرے دن وہ فقیر اٹھا او ر لڑکی کی ماں کا شکریہ ادا کرتا ہوا اپنا تھیلا کندھے پر ڈال کر چلا گیا۔ ایک گھر کے سامنے جا کر اس نے تھیلے سے کہنا شروع کیا:
گاؤ تھیلے گاؤ، اپنی جان کی خاطر گاؤ گے
گاؤ گے نہیں تو چاقو سے تم خوب ہی گودے جاؤ گے
لیکن تھیلے کے اندر سے گانے کے بجائے عجیب و غریب آوازیں آنی شروع ہو گئیں :
کتّا بولا : ظالم فقیر! بھوں ، بھوں ، بھوں !
اور بلّی نے کہا : بے رحم فقیر! میاؤں ، میاؤں ، میاؤں !
اُس فقیر کو اک دم غصہ آ گیا۔ وہ سمجھا کہ وہ لڑکی اُسے ستانے کے لئے اناپ شناپ بک رہی ہے۔ اس نے تھیلے کا منھ کھولا تاکہ بچی کوسزا دے۔ تھیلے کا منھ کھلتے ہی اُس میں سے لڑکی کے بجائے ایک کتّا اور ایک بلی لپک کر باہر نکل آئے اور دونوں نے مل کر فقیر پر حملہ کر دیا۔ بلی نے جھپٹ کر اپنے نوکیلے ناخونوں سے اس کا منھ نوچ لیا اوراس کی آنکھوں میں اپنے پنجے گڑو دئے اور کتّے نے اُچک کراس کی ناک کاٹ لی۔ فقیر کی جیب سے مونگے کا ہار نکل کر زمین پر گر پڑا اور بچی کی ماں نے اسے اٹھا لیا۔
٭٭٭
بد صورت شہزادی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ تھاجس کی صر ف ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ اس قدر بدصورت تھی کہ کوّے تک اُس کو دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔ جب وہ سڑک پر سے گزرتی تھی تو بچے اُسے ڈائن یا جادوگرنی سمجھ کر ڈر کے مارے اِدھر اُدھر چھپ جاتے تھے۔ لیکن بادشاہ اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتا تھا اور اس کی نظروں میں شہزادی بہت ہی خوبصورت تھی۔ آخر وہ اس کی بیٹی ہی تو تھی اور وہ بھی اکلوتی!
شہزادی کی سترہویں سالگرہ پر بڑے جشن منائے گئے۔ سڑکوں اور گلیوں کو خوب سجایا گیا۔ گھروں پر چراغاں ہوا ،آتش بازیاں چھوڑی گئیں اور لوگ سڑکوں پر ناچتے گاتے پھرے۔ بادشاہ کے محل میں بھی ناچ گانے کی محفل سجی۔ شہزادی سونے کے تاروں کی پوشاک اور قیمتی زیورات پہن کر اس جشن میں شریک ہوئی۔ سنہرے کپڑوں اور زیورات میں بھی وہ بدصورت نظر آ رہی تھی مگر لوگ جھوٹ موٹ اُس کی خوبصورتی کی تعریف کر رہے تھے۔ درباری شاعر نے شہزادی کی شا ن میں قصیدہ کہا، درباریوں نے اس کی خوبصورتی کی تعریفوں کے پل باندھ دئے اور موسیقاروں نے موسیقی کی دھنوں سے محفل میں جان ڈال دی۔ جب آتشبازی سے سارا آسمان جگمگا اُٹھا تو لوگوں نے نعرے لگائے ’’شہزادی انفانتا زندہ باد!
آدھی رات کی نوبت بجی تو جشن ختم ہوا اور بادشاہ نے اعلان کیا کہ خدا کے فضل سے شہزادی اب سترہ سال کی ہو گئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُس کی شادی کر دی جائے۔ آخر شہزادی اُس کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے تاج و تخت کی وارث بھی تو ہے۔ چنانچہ اُس نے شہزادی کی شادی پڑوس کے ملک کے ایک خوبصورت اور بہادر شہزادے سے طے کر دی ہے۔ وہ شہزادہ ایک ماہ کے بعد یہاں آئے گا اور شہزادی کو بیاہ کر لے جائے گا۔ پھر بادشاہ کے انتقال کے بعد اُس کی بیٹی اور داماد مل کر سلطنت کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔
بادشاہ کے اعلان کے ختم ہوتے ہی سارا محل تالیوں سے گونج اُٹھا۔ درباریوں نے باری باری شہزادی کو مبارکباد پیش کی اور اُس کے ہاتھوں کوبوسے دِئے۔ جب یہ خبر محل سے باہر جشن مناتے ہوئے لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے خوشی سے زور دار تالیاں بجائیں اور اپنی ٹوپیاں ہَوا میں اُچھالیں۔
ٹھیک ایک ماہ کے بعد پڑوسی ملک کے قاصد شہر کے دروازے پر پہنچے اور انہوں نے شہزادے کے آنے کی خبر دی۔ یہ خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے باشندے اچھے اچھے کپڑے پہن کر شہزادے کے استقبال کے لئے نکل آئے۔ باجے گاجے بجنے لگے اور بہت سے سپاہی ہتھیاروں سے لیس ہو کر ،خوبصورت وردیاں پہنے ،شاندار عربی گھوڑوں پرسوار ہو کر شہر سے باہر نکل آئے تاکہ شہزادے کا استقبال کر کے شہر کے چوک میں لے آئیں جہاں بادشاہ اور شہزادی درباریوں کے درمیان سونے کے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور چاروں طرف سپاہی اور چوبدار ارغوانی اور سنہری وردیاں پہنے پہرا دے رہے تھے۔
شہزادہ بہت خوبصورت تھا۔ جب وہ شہر میں داخل ہوا تو لوگوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر اُس کو خوش آمدید کہا۔ شہزادہ چوک میں پہنچ کر اپنے گھوڑے سے اُترا او ر شاہی تخت کی طرف بڑھا۔ اس نے بادشاہ کو سلام کرنے کے بعد شہزادی کی طرف رُخ کیا۔ شہزادی کی صورت دیکھتے ہی اس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ ا س نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی بدصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی وہ ایسی بدصورتی کا تصور کر سکتا تھا۔ اس نے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالامگر لاکھ کوشش کے باوجود وہ شہزادی کے ہاتھ کا بوسہ نہ لے سکا اور نہ ہی سنہرے تخت پر اُس کے قریب بیٹھ سکا۔ وہ شہزادی کے قریب کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس بات کا خیال ہی اُسے اَدھ مرا کئے دے رہا تھا کہ ایسی بدصورت شہزادی سے اُس کی شادی ہونے والی ہے۔ شہزادہ نے بہانہ بنایا اور بادشاہ سے یوں مخاطب ہوا:
’’بادشاہ سلامت! شہزادی صاحبہ اتنی خوبصورت ہیں کہ میں ان کے قریب بیٹھنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا ہوں۔ وہ سورج کی طرح روشن ہیں اور جو شخص بھی نظر بھر کر اُن کو دیکھے گا اپنی نظریں گنوا بیٹھے گا۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اُن سے ذرا فاصلے پر بیٹھ جاؤں۔‘‘
بادشاہ اور شہزادی یہ خوشامد سن کر خوش ہو گئے لیکن جب بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شہزادی کے پاس جانے سے کترا رہا ہے تو ذرا جھلّا کر بولا:
’’میاں شہزادے !میں تمہارے خیالات سن کر خوش ہوا مگر تم یہاں شہزادی سے شادی کرنے کے لئے ہی تو آئے ہو۔ میں تم دونوں کو گرجا گھر لے جانے کے لئے تیار بیٹھا ہوں جہاں پادری صاحب ہمارا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ تمہارا اور شہزادی کا نکاح پڑھا سکیں۔ میں نے یہ طے کیا ہے کہ میر ے مرنے کے بعد تم او ر شہزادی مل کر میرے اس عظیم الشان ملک پر حکومت کرو گے۔ میری رعایا نے تمھارا استقبال کیا ہے۔ اب صرف شادی کی کسر رہ گئی ہے۔ اس کے بعد دعوتیں ہوں گی ،کھیل تماشے ہوں گے اور ناچ گانے کی محفلیں سجیں گی۔‘‘
شہزادے نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا ’’بادشاہ سلامت! میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے۔ مجھے تو کسی ایسی لڑکی سے شادی کرنی چاہئے جو شہزادی سے کم خوبصورت ہو۔‘‘ پھر وہ شہزادی سے بولا ’’شہزادی صاحبہ! مجھے معاف کیجئے گا۔ میں آپ جیسی خوبصورت شہزادی سے شادی نہیں کرسکتا۔ یہ میری برداشت سے بالکل ہی باہر ہے۔‘‘
بادشاہ کا غصہ یہ سن کر بڑھ گیا۔ شہزادی نے اُس کی بے رُخی دیکھ کر شہزادے کو چڑھانے کے لئے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ اگر شہزادے صاحب اس وجہ سے مجھ سے شادی سے انکار کرتے ہیں کہ میں بہت خوبصورت ہوں تو پھر میں اُس شخص سے شادی کروں گا جس پر میری نظر سب سے پہلے پڑے گی۔ وہ رہا درباری حجّام! وہی جو میرے والد صاحب کے تخت کے پیچھے کھڑا ہے۔‘‘
درباری حجّام خوف سے کانپنے لگا اور بولا ’’نہیں حضور نہیں ! میں ایسی گستاخی نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی میں تو شادی شدہ آدمی ہوں۔‘‘
اِس پر بھیڑ میں کھڑا ایک موچی جس کی اس حجام سے بنتی نہیں تھی آگے بڑھ کر بولا ’’غریب پرور! یہ شخص جھوٹا ہے۔ اس کی بیوی تومر چکی ہے۔‘‘
بادشاہ نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ حجام کا سر اُسی وقت تن سے جُدا کر دیں۔ سپاہی غریب حجام کو کھینچتے ہوئے باہر لے گئے جہاں جلّاد تلوار لئے کھڑا تھا۔ شہزادے کو احساس ہوا کہ یہ سب اُسی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس نے بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے مشورہ دیا کہ ایک مقابلہ کیا جائے جس میں ملک کے ایک سو بہادر کنوارے نو جوانوں کو دعوت دی جائے کہ وہ سب شمشیر زنی کے ایک مقابلے میں حصہ لیں اور جو نوجوان مقابلہ جیت جائے اُس سے شہزادی کی شادی کر دی جائے۔ اس نے خود بھی اِس مقابلے میں حصہ لینے کا وعدہ کیا۔
بادشاہ کو یہ مشورہ پسند آیا اوراُس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس نے ملک کے ننانوے کنوارے بہادر نوجوانوں کو دعوت نامے بھیجے اور اعلان کیا کہ شمشیر زنی کے مقابلے میں جیتنے والے کو وہ اپنی سب سے زیادہ عزیز چیز انعام میں دے گا۔ مقابلے کے دن بادشاہ اور شہزادی اپنے درباریوں کے ساتھ مقابلہ کے میدان میں پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچاس بہادر جوان سروں پر فولادی کنٹوپ لگائے ، زِرہ بکتر پہنے ،نیزے ہاتھوں میں لئے ، جنگی گھوڑوں پر سوار ہو کر میدا ن میں اُتر آئے۔ دوسری طرف سے شہزادہ اپنے اننچاس دوسرے نوجوانوں کے ساتھ ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدا ن میں آ گیا۔ بِگُل بجا اور دونوں طرف سے پچاس پچا س سَوار اپنے نیزے سیدھے کئے ،گھوڑے سرپٹ دوڑاتے ایک دوسرے پر جھپٹے۔ جب میدان کا گرد و غبار صاف ہوا تو لوگ یہ دیکھ کر بھونچکے رہ گئے کہ نہ تو کسی سوار کو چوٹ آئی اور نہ ہی کوئی گھوڑے سے گرا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سب ایک دوسرے پر وار کرنے کے بجائے صرف اپنے گھوڑے دَوڑا رہے تھے اور مقابلہ میں ہار جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
جوانوں نے اپنے گھوڑوں کو موڑا اور بگل بجتے ہی پھر ایک بار گھوڑے دوڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ اس مرتبہ بھی نہ تو کوئی زخمی ہوا اور نہ ہی کوئی گھوڑے سے گرا۔ بادشاہ نے جھلّا کر اعلان کیا کہ اب اس مقابلہ کی شرط یہ ہو گی کہ جو جوان سب سے پہلے زخمی ہو گا اُس کی شادی شہزادی سے کر دی جائے گی۔
تیسری بار جب گل بجا تو وہ سب نوجوان اس بری طرح گھوڑے دوڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے کہ کوئی بھی گھوڑے پر بیٹھا نہ رہ سکااور سب کے سب زخمی ہو کر زمین پر آ رہے۔ سارا میدان زخمیوں سے اَٹ گیا ور بلا کی چیخ پکار مچ گئی۔ ہر نوجوان دوسرے پر سب سے پہلے زخمی ہونے کا الزام لگا رہا تھا۔ کسی طرح یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ سب سے پہلے کون زخمی ہوا تھا۔
آخر کار تھک ہار کر بادشاہ کو مقابلہ روک دینے کا اعلان کرنا پڑا۔ پھر اُس نے اعلان کیا کہ شہزادی اب کسی انسان سے شادی نہیں کرے گی بلکہ اس کی شادی اب گرجا گھر سے کر دی جائے گی اور وہ راہبہ بن کر کانونٹ میں داخل ہو جائے گی جہاں اس کی بے پناہ خوبصورتی پر ہر شخص کی نظر نہیں پڑے گی۔ لیکن شہزادی نے راہبہ بننے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ بدصورت ضرور تھی لیکن بے وقوف نہیں تھی۔ اس کو بخوبی احساس ہو گیا تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔
شہزادی نے بادشاہ سے اُداس ہو کر کہا’’ ا بّا حضور!اگر سارے اسپین میں صرف اس وجہ سے کوئی مجھ سے شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ میں بے حد خوبصورت ہوں تو میں اسپین چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے کہیں چلی جاؤں گی۔ میں نے سنا ہے کہ یہاں سے شمال میں ایک ایسا ملک ہے جہاں سورج کبھی نہیں نکلتا۔ وہاں ہر وقت اندھیرا رہتا ہے اور صبح کبھی نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ اس اندھیرے ملک میں مجھے کوئی ایساآدمی مل جائے جو مجھ سے شادی پر راضی ہو جائے۔‘‘
شہزادی سب سے اجازت لے کر محل کے اندر کمرے میں اُس اندھیرے ملک کے سفر کی تیاری کر ہی رہی تھی کہ ایک دراز قد خوبصورت آدمی ایک لڑکے کا کندھا پکڑے اس طرف آتا نظر آیا۔ وہ قریب آیا تو سب نے اُسے پہچان لیا۔ وہ ایک اندھا سارنگی نواز تھا جو گانے بجانے کی محفلوں میں سارنگی بجایا کرتا تھا۔ اُس نے بادشاہ اور شہزادی کو جھک کر سلام کیا اور کہا:
’’شہزادی صاحبہ!آپ نے یہ طے کیا ہے کہ آپ اُس اندھیرے ملک میں جابسیں گی جہاں کبھی صبح نہیں ہوتی ہے تاکہ اپنا شوہر تلاش کر سکیں۔ لیکن کیا یہ اچھا ہو گا کہ آپ اپنا وطن، اپنے ماں باپ اور دوستوں کو چھوڑ کر ایک دور دَراز اجنبی ملک میں جا بسیں ؟ آپ کے سامنے ایک ایسا انسان کھڑا ہوا ہے جس کی دنیا میں بھی کبھی سورج طلوع نہیں ہوتا۔ میرے لئے دن اور رات، خوبصورتی اور بد صورتی ، سیاہ اور سفید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان سب بہادر جوانوں کو آپ سے شادی کرنے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ وہ آ پ کے قریب آتے ہی آپ کے حسن کی تاب نہ لا کر اندھے ہو جائیں گے۔ اس لئے میں خود کو پیش کرتا ہوں۔ میں آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں آپ کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤں گا پھر بھی میرے نزدیک آپ ہمیشہ خوبصورت اور جوان رہیں گی اور آپ کی وہ خوبصورتی جو میں کبھی نہیں دیکھ سکوں گا ہمیشہ میرے دل میں بسی رہے گی۔‘‘
شہزادی اُس کی باتیں سن کر اوراس کی خوبصورتی دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ بادشاہ بھی خوش ہو گیا کہ اس کی اکلوتی بیٹی سے کوئی تو شادی کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ اس سارنگی نواز کی صاف گوئی اور مردانہ رکھ رکھاؤ سے بھی بہت خوش ہوا۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ اس اندھے سارنگی نواز کو :نواب بہادر: کا خطاب عطا کیا جاتا ہے اور اسی وقت شہزادی کی شادی اُس کے ساتھ کی جاتی ہے۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دونوں کی شادی اُسی روز بڑے دھوم دھام سے کر دی گئی۔ شہر میں جا بجا دعوتیں رچائی گئیں ،کھیل تماشے ہوئے ، سانڈوں کی لڑائی کا انتظام کیا گیا،آتش بازی چھوڑی گئی ، محل میں ناچ گانے کی شاندار محفل سجی اور شہزادی اور اُس کا اندھا سارنگی نواز شوہر ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭٭٭
آدھا چوزہ
بہت دنوں کی بات ہے کہ اسپین کے ایک کسان کے باڑے میں ایک خوبصورت سیاہ مرغی رہا کرتی تھی۔ بہا ر کا موسم تھا اور وہ بہت سے انڈوں کے ڈھیر پر بیٹھی اُن کو سِے رہی تھی۔ جب ایک ایک کر کے ننھے ننھے چوزے انڈوں سے نکلنے لگے تو وہ خوشی اور غرور سے پھولی نہ سمائی۔ سب ہی چوزے خوبصورت،موٹے تازے اور نرم روئی کے گالوں کی طرح تھے ، مگر جب آخری چوزہ انڈے سے باہر نکلا تو مرغی سہم کر رہ گئی کیونکہ وہ چوزہ آدھا تھا! ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اُسے چاقو سے بیچوں بیچ سے آدھا کاٹ دیا گیا ہے یا جیسے اُس چوزہ کو کسی بچے نے دفتی کے ٹکڑے سے کاٹ کر بنایا ہو۔ اُس کے صرف ایک آنکھ تھی ، آدھا سر اور آدھی چونچ تھی اور وہ ایک ٹانگ پر پھدک پھدک کر چلتا تھا۔
اُس چوزہ کی ماں نے ڈرتے ڈرتے اُسے دیکھا اورافسوس سے ہاتھ ملنے لگی کہ اس کے سارے بچے تندرست ہیں اور بڑے ہو کر خوبصورت مرغے اور مرغیاں بنیں گے لیکن اس بیچارے آدھے چوزے کا کیا ہو گا؟ چلو خیر جو ہوا سو ہوا۔ میں کسی طرح اس کی دیکھ بھال کر لوں گی اور اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گی۔
وہ آدھا چوزہ دیکھنے میں تو عجیب سا لگتا تھا مگر تیزی اور طراری میں دو چوزوں کے برابر تھا۔ اس کے سب بھائی بہن اپنی ماں کا کہنا مانتے تھے اور اس کی ایک آواز پر بھاگے آتے تھے لیکن آدھا چوزہ بہت شریر تھا۔ وہ بھاگ کر باڑے سے باہر مکّا کے کھیت میں چھپ جاتا تھا اور اس کے بھائی بہن اپنی ماں کے ساتھ اس کی تلاش میں سارا کھیت چھانتے پھرتے تھے۔ وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا اس کی شرارتوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بلا وجہ لڑتا تھا اور اپنی ماں سے بھی بدتمیزی سے پیش آتا تھا۔
ایک صبح آدھا چوزہ کھیتوں کی سیر سے اپنی اکلوتی ٹانگ پر پھدکتا ہوا باڑے میں آیا اور آنکھ مٹکا کر اپنی ماں سے بولا ’’اماں !اب میں اِس پرانے اور بھدّے باڑے میں نہیں رہوں گا یہاں دیکھنے کے لئے رکھا ہی کیا ہے ، بس لے دے کر ایک مکا کا کھیت! میں میڈرڈ Madridجانا چاہتا ہوں۔ وہاں جا کر میں اسپین کے بادشاہ سے ملاقات کروں گا۔‘‘
اُس کی ماں نے جواب دیا ’’بیٹا!بیوقوفوں کی سی باتیں نہیں کرتے۔ بڑا مرغ ہی مشکل سے میڈرڈ پہنچ پائے گا پھر تم تو ابھی چھوٹے ہو اور لے دے کر تمھارے پاس صرف ایک ٹانگ ہے۔ میرے ساتھ ہی رہو۔ جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو میں تم کو گاؤں لے چلوں گی۔ وہاں تم میلے کی سیر کر لینا۔‘‘
لیکن آدھے چوزہ نے اپنی ماں اور بھائی بہنوں کی ایک نہ مانی اور ڈھٹائی سے بولا ’’اب میں ایک پل بھی اس پرانے اور بھدّے باڑے میں نہیں ٹھہر سکتا۔ میں قسمت آزمانے کے لئے بادشاہ کے دربار جا رہا ہوں۔ بادشاہ جب میرے لئے ایک بسترا مرغی خانے میں بنوا دے گا تو میں تم سب کو اپنے پاس بلوا لوں گا۔‘‘
جب آدھا چوزہ سب کو خدا حافظ کہہ کر رخصت ہونے لگا تو اس کی ماں نے کہا ’’بیٹا!میری چند باتیں یاد رکھنا۔ پہلی یہ کہ راستے میں جو بھی ملے اُس سے نرمی اور محبت سے پیش آنا اور دوسری یہ کہ جو تم سے مدد مانگے اس کی مدد ضرور کرنا اور یوں میری تربیت کی لاج رکھ لینا۔‘‘
لیکن آدھا چوزہ اتنی جلدی میں تھا کہ اس نے نہ تو اپنی ماں کی باتوں کا کوئی جواب ہی دیا اور نہ ہی اس کی دعائیں لیں۔ بس اپنی ایک ٹانگ پر پھدکتا ہوا میڈرڈ کی طرف چل پڑا اور ایک بار بھی پلٹ کر اپنی ماں کونہ دیکھا۔
آدھا چوزہ چلتا رہا ،چلتا رہا۔ جب اسے بھوک لگتی تو وہ اِدھر اُدھر منھ مار کر مکا کے چند دانے کھا لیتا اور پھر آگے بڑھ جاتا۔ ایک دن دوپہر بعد وہ ایک کھیت میں سے گزر رہا تھا کہ وہاں اس نے ایک نالی دیکھی جس میں پتّے اور گھاس پھوس اِس بری طرح بھرے ہوئے تھے کہ پانی کا بہنا مشکل ہو گیا تھا۔ نالی نے آدھے چوزہ سے بیچارگی سے کہا ’’میاں آدھے چوزے ، میری ذرا سی مدد کر دو۔ ان پتّوں اورگھاس پھوس کو صاف کر دو۔ میرا دم گھٹا جا رہا ہے اور ان کی وجہ سے میں بہہ نہیں سکتی۔‘‘
چوزے نے کہا ’’تمھاری مدد کروں ؟ ارے بھائی مجھے اور بہت سے کام کرنے ہیں۔ میں بادشاہ سے ملنے میڈرڈ جا رہا ہوں۔‘‘
اتنا کہہ کر آدھا چوزہ اپنی ایک ٹانگ پر پھدکتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
کچھ دیر کے بعد اس کا گزر ایک جنگل سے ہو ا۔ ایک جگہ تھوڑی سی آگ جل رہی ہے جو کچھ ہی دیر میں بجھنے والی ہے۔ کچھ خانہ بدوشوں نے اُسآگ کو جلایا تھا اور پھر چلے گئے تھے۔ آگ نے آدھے چوزے کو دیکھ کر اس سے کانپتی ہوئی کمزور آواز میں کہا ’’میاں آدھے چوزے !خدا کے لئے میری مدد کر دو۔ کچھ سوکھی ٹہنیاں اورسوکھے پتّے میرے اوپر ڈال دو ورنہ میرا دم نکل جائے گا۔‘‘
چوزے نے جواب دیا ’’تمہاری مدد کروں ؟ ارے بھائی مجھے اور بہت سے کام ہیں۔ اگر تم کو جان ایسی ہی پیاری ہے تو خود سوکھی ٹہنیاں اور پتّے جمع کر لو۔ میر ے پاس وقت نہیں ہے۔ میں بادشاہ سے ملنے میڈرڈ جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر آدھا چوزا آگے بڑھ گیا۔
جب رات ہوئی تو آدھا چوزہ ایک درخت کی شاخ پر چڑھ کر مزے سے سو گیا۔ وہاں وہ جنگلی جانوروں کے ہاتھوں سے بچا رہا۔ صبح اُٹھ کر پھر وہ میڈرڈ کی طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ ایک بڑی سڑک پر آ گیا۔ اس نے سوچا کہ شاید اب وہ میڈرڈ کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس سڑک کے کنارے ایک بڑا سا شاہ بلوط کا درخت تھا۔ اس کی گھنی شاخوں میں ہَوا پھنس گئی تھی۔ ہوا نے جب آدھے چوزے کو دیکھا تو چلا کر بولی:
’’میاں آدھے چوزے !میری مدد کر دو۔ میں درخت کی شاخوں میں پھنس کر رہ گئی ہوں اور میرے لئے خود سے نکلنا مشکل ہو رہا ہے۔ خدا کے لئے تم مجھے ان شاخوں سے آزاد ہونے میں میری مدد کرو۔‘‘
چوزے نے ہوا کو جواب دیا ’’کیا؟ میں تمھاری مدد کروں ؟ اری بہن مجھے او ر بہت سے کام کرنے ہیں۔ تم درخت کے پاس آخر گئی ہی کیوں تھیں ؟ اب اپنی غلطی کی سزابھگتو۔ میں اپنی صبح تمہارے لئے برباد نہیں کر سکتا۔ میں بادشاہ سلامت سے ملنے میڈرڈ جا رہا ہوں۔‘‘یہ کہتا ہوا وہ میڈرڈ کی جانب بڑھ گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں اس کو دھو پ میں چمکتی ہوئی میڈرڈ کے مکانوں کی چھتیں اور گرجا گھروں کے مینار نظر آنے لگے۔ یہ خوبصورت منظر دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور پھدکتا ہوا وہ شہر میں داخل ہو گیا۔ وہ سڑکوں اور گلیوں سے گزرتا ہوا بادشاہ کے محل تک جا پہنچا۔ محل کے دروازے پر سرخ اور سنہرے رنگ کی وردیاں پہنے سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ اُن کے فولادی کنٹوپ ،زرہ بکتر اور ہتھیار دھوپ میں چمک رہے تھے۔ اتنے میں ایک فوجی افسر محل میں داخل ہو ااورسب سپاہیوں نے کھٹاک سے اُسے سلامی دی۔ سلامی دیتے ہوئے سپاہیوں کو دیکھ کر آدھا چوزہ اچھل پڑا اور خوش ہو کر بولا ’’واہ بھئی واہ!کیا بات ہے۔ یہ سپاہی مجھے سلامی دے رہے ہیں۔‘‘
آدھے چوزے کا ارادہ تھا کہ بادشاہ سلامت سے ملنے سے پہلے وہ محل، محل کے باغ اور دوسری قابل دید جگہوں کی سیر کر لے۔ لیکن وہ محل کے باورچی خانے کی کھڑکی کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ شاہی باورچی نے اُسے دیکھ لیا۔ باورچی نے لپک کر اس کی اکلوتی ٹانگ پکڑ کر اُسے اٹھا لیا اور بولا ’’اسی کا تو مجھے انتظار تھا۔ بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ آج دسترخوان پر چوزے کا شوربہ ہونا چاہئے اور مرغی خانہ میں ایک بھی چوزہ نہیں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے آدھے چوزے کو اُس پتیلی میں جھونک دیا جو چولھے پر ابھی چڑھائی تھی۔ آدھا چوزہ پتیلی کے ٹھنڈے پانی میں ڈوبنے لگا تو چیخا ’’ارے بھائی پانی!مجھے بچاؤ میرا دم گھٹا جا رہا ہے۔‘‘
پانی نے جواب دیا ’’سنومیاں آدھے چوزے !جب میں پتّوں اور گھاس پھوس کی وجہ سے نالی میں بہنے سے مجبور تھا تو تم نے میری مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب مجھ کو مدد کے لئے پکار رہے ہو؟‘‘
اب پتیلی میں پانی گرم ہونا شروع ہو گیا تھا۔ آدھے چوزے کو گرمی لگی تو وہ اِدھر اُدھر اُچھلنے لگا اور رو رو کر آگ سے گڑگڑانے لگا ’’بی آگ!خدا کے لئے اس طرح مجھے نہ جلاؤ۔ مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘
آگ نے جواب دیا ’’میاں آدھے چوزے !تم وہ دن یاد کرو جب میں بجھنے کو تھی اور تم نے سوکھے پتّے اور ٹہنیاں مجھ پر ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ بھلا بتاؤ ، اب میں تمھاری مدد کیوں کروں ؟‘‘
اب آدھا چوزہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا۔ اتنے میں باورچی نے پتیلی کا ڈھکنا اُٹھایا اوراُسے دیکھ کر بد حواس ہو کر بولا ’’ارے یہ میں نے کیا کیا؟ اس عجیب و غریب پودنے کو میں نے پتیلی میں ڈال رکھا ہے۔ اسے تو بادشاہ سلامت کے دسترخوان پر نہیں رکھ سکتا۔ مجھے اپنی جان تھوڑی گنوانی ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر باورچی نے پتیلی میں ایک کفگیر ڈال کر چوزے کو اُس میں سے نکالا اور باورچی خانے کے باہر اُچھال کر پھینک دیا۔ ابھی وہ آدھا چوزا قلابازیاں کھاتا ہوا زمین تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اسے لپک لیا اور اس زور سے گھمایا کہ اُس کا دم گھٹنے لگا۔
وہ چلّایا ’’اے بی ہوا! خدا کے لئے مجھے ایسے چکر مت دو۔ میں مرا جاتا ہوں۔ میرے اوپر رحم کھاؤ اور مجھ کو زمین پر اُتار دو۔‘‘
ہوا نے جواب دیا ’’واہ میاں آدھے چوزے واہ! وہ د ن تم کتنی جلدی بھول گئے جب میں شاہ بلوط کی گھنی شاخوں میں پھنسی ہوئی تھی اور تم کو مدد کے لئے بلا رہی تھی۔ تم نے میری مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب تم اس کی سزا بھگتو۔‘‘
یہ کہہ کر ہوا نے آدھے چوزے کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا۔ پھر وہ اُسے تیزی سے چکر دیتی ہوئی میڈرڈ کے مکانوں کی چھتوں پر سے ہوتی ہوئی سب سے بڑے گرجا گھر پہنچی او ر اس کے اونچے مینار کی چوٹی پر اسے ٹانگ دیا۔
وہ آدھا چوزہ آج تک اسی طرح اُس مینار کی چوٹی پر کھڑا ہوا ہے۔ اگر کبھی آ پ کا گزر میڈرڈ کی طرف ہو اور آپ شہر کے سب سے بڑے گرجا گھر کی سیر کو جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ آدھا چوزہ اپنی ایک ٹانگ پر کھڑا اپنی ایک آنکھ سے شہر کی چھتوں کو تکا کرتا ہے۔ جب ہوا اپنا رُخ بدلتی ہے تو وہ چوزہ بھی کراہ کر اپنا رُخ بدل لیتا ہے اور آہ بھر کر کہتا ہے ’’کاش میں اپنی ماں کا کہنا مان لیتا اور اپنے بھائی بہنوں کی طرح اچھا چوزہ بن کر سب کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا۔‘‘
٭٭٭
بلینکا فلور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک امیر آدمی تھا جس کے تین بیٹیاں تھیں۔ وہ تینوں پھولوں سے بھی زیادہ خوبصورت تھیں۔ ایک دن وہ آدمی جنگل کی سیر کو گیا جو اُس کے گھر کے قریب ہی تھا۔ وہ سنہری دھوپ او ر چڑیوں کی چہچہاہٹ کے مزے لے رہا تھا کہ اچانک ایک ببر شیر سامنے آ گیا اور دہاڑ کر بولا ’’میں بھوکا ہوں اور تم کو کھا جاؤں گا۔‘‘
وہ شخص ڈر گیا اوراُس نے کہا ’’پیارے ببر شیر!خدا کے لئے مجھے مت کھاؤ۔ میرا گھر قریب ہی ہے۔ وہاں سے تمھارے لئے بہت سا کھانا لا کر دے سکتا ہوں۔‘‘
ببر شیر نے جواب دیا ’’جال میں پھنسی ہوئی ایک چڑیا اُڑتی ہوئی دو چڑیوں سے بہتر ہوتی ہے۔ خیر میں ایک شرط پر تم کو گھر جانے کی اجازت دے سکتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ گھر میں داخل ہوتے وقت جو چیز بھی تم کو پہلے دروازے سے نکلتی ملے وہ میرے لئے لیتے آؤ۔ کیا تم کو یہ شرط منظور ہے ؟‘‘
اُسآدمی نے جواب دیا ’’ہاں یہ شرط مجھے منظور ہے۔‘‘
ببر شیر نے کہا ’’لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو تم کہیں بھی چھپو میں تمھیں ڈھونڈ لوں گا اور مار کر کھا جاؤں گا۔‘‘
یہ کہہ کر ببر شیر زور سے دہاڑا اور اُس نے اپنی دُم کوڑے کی طرح گھمانا شروع کر دی۔ وہ شخص خوف سے لمبے لمبے قدم بڑھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے اُس نے سوچا کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ ذرا سی قیمت کے وعدہ پر میری جان بچ گئی۔ دراصل اس کا کتا گھر پہنچنے پر ہمیشہ اُس سے ملنے باہر آتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اس کتے کو پکڑ کر ببر شیر کے پاس لے جائے گا۔ بے چارہ کتّا! ا س کی بیٹیاں اُس سے کتنی محبت کرتی تھیں۔
لیکن جب وہ گھر پہنچا تو کتے کے بجائے اس کی سب سے چھوٹی بیٹی بلینکا فلورBlancaflorاس سے ملنے کے لئے گھر سے باہر نکل آئی۔ یہ دیکھ کر اُس آدمی کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے بیٹی کو گلے سے لگا کر پیار کیا۔ پھر وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور سارا قصہ سنا کر اس سے رائے مانگی کہ اب کیا کرنا چاہئے۔
اس کی بیوی نے کہا ’’ارے یہ بھی کوئی مشکل بات ہے ؟ ببر شیر کے پاس اپنے کتے کو لے جاؤ۔ ببر شیر کو اس کا کیا پتا کہ تم سے پہلے کون آ کر ملا تھا۔‘‘
وہ شخص بولا ’یہ تو تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے کتے کو اُٹھا لیا اور ببر شیر کے پاس پہنچا۔ ببر شیر غصہ سے دہاڑ کر چیخا ’’تم بڑے ہی جھوٹے ہو۔ تمھاری ملاقات سب سے پہلے کتے سے نہیں بلکہ تمھاری چھوٹی بیٹی بلینکا فلور سے ہوئی تھی۔ جاؤ اور اُسے لے کر آؤ ورنہ میں تم کو مار کر کھا جاؤں گا۔‘‘
وہ آدمی ڈر کے مارے پھر گھر بھاگا اور اپنی تینوں بیٹیوں کے پاس پہنچا جو اپنے کمرے میں بیٹھی ریشمی کپڑے پر سنہرے تاگے سے کڑھائی کر رہی تھیں۔ اُس نے ایک سرد آہ بھری اور سار ا ماجرا کہہ سنایا۔
بڑی بیٹی نے کہا ’’اگر میں بلینکا فلور ہوتی تو میں تو ببر شیر کے پاس ہر گز نہ جاتی۔‘‘
منجھلی بیٹی بولی ’’ہاں بہن! ببر شیر کے پیٹ میں جانے کے لئے میں بھی کبھی راضی نہ ہوتی۔‘‘
مگر چھوٹی بیٹی بلینکا فلور اپنی دونوں بہنوں کی باتیں سن کر کہنے لگی ’’میں تو ضرور جاؤں گی۔ اگر میری جان جانے سے میرے باپ کی جان بچ سکتی ہے تو میں مرنے کے لئے تیار ہوں۔ چلئے ابا جان،جنگل چلتے ہیں۔‘‘
وہ شخص روتا جاتا تھا اور بیٹی کو پیار کرتا جاتا تھا۔ پھر وہ دونوں دُکھے دل کے ساتھ جنگل کی طرف چل دئے۔ جب ببر شیر نے دونوں کو آتے دیکھا تو وہ آگے بڑھا۔ اس نے بلینکا فلور کا ہاتھ آہستہ سے اپنے منھ میں لے لیا اور اُسے ساتھ لے کر اپنے غار میں چلا گیا۔ بلینکا فلور کا باپ غار کے باہر کھڑا روتا رہا۔ اُسے یقین تھا کہ ببر شیر اس کی بیٹی کو پھاڑ کھائے گا اور وہ اب اُسے کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔
ببر شیر لڑکی کا ہاتھ تھامے چلتا رہا یہاں تک کہ وہ غار کے اندر ایک کھلی جگہ جا پہنچے جس کے درمیان میں ایک خوبصورت محل بنا ہوا تھا۔ شہزادی نے ببر شیر سے کہا ’’کس قدر خوبصورت محل ہے ،کس کا ہے یہ؟‘‘
ببر شیر نے کہا ’’یہ محل تمھارا ہی ہے۔‘‘
پھر وہ دونوں محل میں داخل ہو گئے۔ اس محل میں دُنیا جہان کا آرا م و آسائش کا سامان موجود تھا۔ جب دونوں کو بھوک لگی تو سونے کے برتنوں میں اچھے اچھے لذیذ کھانے اور شفاف شیشے کے گلاسوں میں شربت لے کر اَن دیکھے طلسماتی ہاتھ اُن کے سامنے رکھ گئے۔ ان کے بستر پر رکھے تکیوں اور گدّوں میں چڑیوں کے نرم نرم پَر بھرے ہوئے تھے اور پلنگوں پر ریشمی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ روز صبح وہی اَن دیکھے ہاتھ بلینکا فلور کے لئے قیمتی ریشمی کپڑے اور پر تکلف ناشتہ لے آتے تھے۔ ببر شیر اس پر بہت مہربان تھا اور دونوں ہنسی خوشی محل میں رہ رہے تھے۔
دن یوں ہی گزرتے گئے۔ ایک دن بلینکا فلور کمرے میں بیٹھی اپنے لمبے سیاہ بالوں میں سونے کی کنگھی کر رہی تھی تو ایک ننھی سی چڑیا اُڑتی ہوئی اندر آئی او ر چاندی کے ایک شمعدان پر پھدک کر بیٹھ گئی۔ یہ دیکھ کر اُس نے ببر شیر سے حیرت سے پوچھا ’’یہ ننھی چڑیا اندر کیسے آئی؟ اور اس کے یہاں آنے کا کیا مطلب ہے ؟‘‘
ببر شیر نے جواب دیا ’’اس ننھی چڑیا کے آنے کا یہ مطلب ہے کہ کل تمھاری بڑی بہن کی شادی ہے۔‘‘
لڑکی نے ایک آہ بھری اور کہا ’’کاش میں بھی اس کی شادی میں شریک ہو سکتی۔‘‘
اس کی بات سن کر ببر شیر بولا ’’اصطبل سے اُڑن گھوڑا نکالو اور چلی جاؤ لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ جیسے ہی گھوڑا ہنہنائے تو چاہے تم کہیں بھی ہو اور کچھ بھی کر رہی ہو سارے کام چھوڑ کر فوراً اُڑن گھوڑے پر سوار ہو کر واپس آ جانا ورنہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ گی۔‘‘
بلینکا فلور نے اُڑن گھوڑا لیا اور اُس پر سوارہو کر پلک جھپکتے اپنے گھر پہنچ گئی۔ سب اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہر شخص معلوم کرنا چاہتا تھا کہ اِس دَوران میں اُس پر کیا بیتی اور ببر شیر نے اس کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ بہت خوش ہے۔ یہ سن کرسب لوگ بہت خوش ہوئے۔ اس طرح اُس نے بہن کی شادی میں شرکت کی لیکن ایک صبح اُس نے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنی۔ وہ اپنے باپ سے بولی:
’’ا بّا جان، گھوڑا مجھے بلا رہا ہے اور میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
سب کے منع کرنے کے باوجود وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور پل بھر میں اپنے محل میں جا اُتری۔ ببر شیر اُس کو دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ اُس پر مہربان ہو گیا۔ دن یوں ہی ہنسی خوشی گزرنے لگے۔
ایک رات بلینکا فلورسونے کے لئے اپنے بستر پرجا رہی تھی کہ اس کے کمرے میں ایک چڑیا پھڑپھڑاتی ہوئی داخل ہوئی۔ اس چڑیا کا ایک بازو ٹوٹا ہوا تھا۔ وہ اپنا ٹوٹا بازو گھسیٹتی ،چیں چیں کرتی اِدھر اُدھر چکر لگانے لگی۔ بلینکا فلور نے ببر شیر کو آواز دی ’’ببر شیر ، پیار ے ببر شیر ! اس ٹوٹے بازو والی، روتی ،پھڑپھڑاتی چڑیا کے یہاں آنے کا کیا مطلب ہے ؟‘‘
ببر شیر نے اُس لڑکی کو ٹالنا چاہا لیکن اس کے ضد کرنے پر اُس نے کہا ’’اس زخمی چڑیا کے یہاں اس طرح آنے کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘
بلینکا فلور نے اختیار رو پڑی اور سسکیاں لیتی ہوئی بولی ’’خدا کے لئے مجھ کو اپنے باپ کے جنازے میں شرکت کی اجازت دے دو۔‘‘
ببر شیر نے جواب دیا ’’اُڑن گھوڑا لو اور چلی جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ گھوڑاجیسے ہی ہنہنائے فوراً واپس چلی آنا ورنہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ گی۔‘‘
وہ اُڑن گھوڑے پر سوار ہو کر جب گھر پہنچی تو لوگ اس کے باپ کا جنازہ قبرستان لئے جا رہے تھے۔ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئی۔ جب اس کے باپ کا تابوت قبر میں اُتارا جا نے لگا تو وہ غم سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہو گئی۔ اتفاق تو دیکھئے کہ اُڑن گھوڑے نے اسی وقت ہنہنانا شروع کر دیا۔ وہ تو بے ہوش پڑی تھی، بھلا گھوڑے کی آواز کیا سنتی۔ جب وہ نہیں آئی تو اُڑن گھوڑے نے ہوا میں جست لگائی اور اُسے لئے بغیر دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے غائب ہو گیا۔
جب بلینکا فلور کو ہوش آیا تو وہ افسوس سے ہاتھ مل کر رہ گئی۔ دوسرے دن وہ جنگل گئی تاکہ غار میں واپس جا سکے اور ببر شیر کے پاس پہنچ جائے لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ غار کا منھ پہاڑ سے گرے ہوئے پتھروں سے بند ہو چکا تھا۔ وہ رو رو کر ببر شیر کو پکارنے لگی ’’ببر شیر تم کہاں ہو؟‘‘
غار کے اندر سے دھیمی دھیمی گونجتی ہوئی آواز آئی جیسے کوئی بہت دور سے بول رہا ہو ’’اب تم کیا چاہتی ہو۔ خدا کے لئے مجھے سکون سے رہنے دو۔ تمھاری غلطی کی وجہ سے مجھ پر جادو کا اثر ہو گیا ہے۔‘‘
لڑکی نے پوچھا ’’کیا میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ میں تمھیں جادو کے اثر سے آزاد کر دوں ؟‘‘
ببر شیر نے ہلکی سی آواز میں کہا ‘‘ہاں ممکن تو ہے۔ تم لوہے کے جوتے بنوا کر پہن لو۔ جس دن وہ جوتے گھس کر ٹوٹ جائیں گ اُسی دن میں جاد و کے اثر سے آزاد ہو جاؤں گا۔‘‘
بلینکا فلور ایک لوہار کے پاس گئی اور اس سے اپنے پیروں کے ناپ کے لوہے کے جوتے بنانے کو کہا۔ جوتے بن تو گئے لیکن بہت بھاری تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ ان جوتوں کو پہن کر وہ کیسے چل سکے گی اور یہ گھسیں گے کیسے ؟ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے طے کیا کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائے گی۔ سپاہی ہر وقت پریڈ تو کرتے ہی ہیں چنانچہ لوہے کے جوتے بھی جلد ہی گھس کر ٹوٹ جائیں گے۔ بلینکا فلور نے اپنا نام بدل کر اولیور Oliverرکھ لیا اور بادشاہ کی فوج کے سپاہیوں میں نام لکھو ا لیا۔ وہ دیکھنے میں بہت خوش شکل جوان نظر آتا تھا اس لئے فوج کے بڑے افسر نے اس کو بادشاہ کے محل کی حفاظت کرنے والے دستے میں شامل کر لیا۔ محل کی حفاظت کرتے ہوئے اُسے ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ بادشاہ کے لڑکے کی نظر اس پر پڑ گئی۔ شہزادے نے اُسے بڑے غور سے دیکھا تو اسے یقین ہو گیا کہ اَولیور مرد نہیں بلکہ عورت ہے اور پھر شہزاد اس سے بے پناہ محبت کر نے لگا۔ مصیبت یہ تھی کہ اَولیور اپنے لڑکی ہونے کا اقرار بھی نہیں کرتا تھا۔
آخر تھک ہا کر شہزادہ اپنی ماں کے پاس گیا اور بولا ’’امی جان!مجھے یقین ہے کہ اَولیور مرد نہیں بلکہ عورت ہے۔ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ آپ بتائیے کہ میں کیا کروں ؟‘‘
ماں نے جواب دیا ’’بیٹا ،میں ایک ترکیب بتاتی ہوں۔ تم اَولیور کو باغ کی سیر کراؤ۔ اگر وہ عورت ہے تو اپنی فطرت سے مجبور ہو کر وہ پھولوں کا گچھا توڑ لے گا۔‘‘
شہزادے نے اَولیور کو باغ کی سیر کی دعوت دی۔ گلاب کے تختے پھولوں سے لدے ہوئے تھے اور باغ میں ہر طرف رنگ برنگ کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ مگر اَولیور نے پھولوں کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ شہزادے نے اپنی ماں سے جا کر بتایا کہ اُس کی بتائی ہوئی ترکیب تو ناکام رہی۔ ماں نے اُس سے کہا:
’’بیٹا، تم دل تھوڑا مت کرو۔ مجھے ایک اور ترکیب معلوم ہے۔ تم اُولیور کو بازار لے جاؤ۔ اگر وہ عورت ہے تو ضرور وہ قیمتی ریشمی کپڑے اور رِبن چھو کر دیکھے گا۔‘‘
شہزادہ دوسرے دن اَولیور کو بازار لے گیا اور اُن دوکانوں میں اُسے لئے لئے پھرا جہاں سب سے زیادہ قیمتی کپڑا بک رہا تھا۔ دوسری عورتیں تو ریشمی کپڑا اور رنگین ربن پسند کر رہی تھیں لیکن اَولیور نے ایک خنجر پسند کیا بلکہ اس کی دھار پر انگلی رکھ کر اس کی تیزی بھی جانچی۔
شہزادے نے گھر آ کر کہا ’’امّیّ ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اَولیور جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔‘‘
ملکہ نے اپنے بیٹے کو اُداس دیکھ کر مشورہ دیا ’’میرے پاس ایک ایسی ترکیب ہے کہ اس کے ناکام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم اَولیور کو حمام اپنے ساتھ نہانے کے لئے لے جاؤ۔‘‘
لیکن جب شہزادے نے اَولیور سے حمام چلنے کو کہا تو وہ بہانے بنانے لگا کہ اسے بہت سخت نزلہ ہو رہا ہے اور کھانسی نے اُسے پریشان کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر نے اسے پوری گرمیوں بھر نہانے سے منع کیا ہے۔ شہزادہ کو اس کی یہ باتیں سن کر غصہ آگیا اور وہ جھلّا کر بولا:
’’دیکھو اَولیور،اگر تم اس بات کا اقرار نہیں کرتے ہو کہ تم مرد نہیں بلکہ عورت ہو تو میں اپنے ماں باپ سے شکایت کر دوں گا کہ تم لوگوں سے کہتے پھرتے ہو کہ پہاڑ پر رہنے والے خوفناک اژدہے کو تم مار سکتے ہو جس کے کھانے کے لئے ہر ماہ پورے چاند والی رات کو ایک مرد یا عورت کو پہاڑ پر بھیجنا پڑتا ہے۔‘‘
اَولیور نے جواب دیا ’’میں نے تو ایسا دعوی ٰ کبھی نہیں کیا لیکن میں بادشاہ سلامت کا ہر حکم بجا لانے کے لئے ہمیشہ تیار ہوں۔‘‘
شہزادے نے بادشاہ سے شکایت کر دی اور بادشاہ نے اَولیور کو دوسرے دن دربار میں بلا بھیجا۔ بادشاہ نے اُس سے سوال کیا ’’کیوں اَولیور، کیا تم لوگوں سے کہتے پھرتے ہو کہ تم پہاڑ پر رہنے والے خوفناک اژدہے کو مار سکتے ہو؟‘‘
اَولیور نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت!ایسا دعوہ تو میں نے کبھی نہیں کیا لیکن کل پورے چاند کی رات ہے۔ اگر آپ حکم کریں تو میں کل اس شخص کی جگہ پہاڑ پر جانے کے لئے تیار ہوں جسے اژدہے کی غذا بننے کے لئے بھیجا جانے والا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اس ظالم اژدہے کو ہلاک کر دوں۔‘‘
کہنے کو تو اُس نے بادشاہ سے ایسی بات کہہ دی لیکن محل سے نکل کر وہ لڑکی بہت اُداس اور فکر مند تھی کہ نہ جانے کتنے بڑے بڑے بہادر ،سورما جنگجو نوجوان اس اژدہے کو مارنے کی کوشش میں جان گنوا چکے ہیں ، پھر وہ تو ایک لڑکی ہے۔ بھلا وہ کیا کر پائے گی؟ اسی اُدھیڑ بن میں وہ جا رہی تھی کہ راستے میں ایک غریب عورت ملی۔ اس عورت کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ سردی سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اَولیور کی جیب میں چاندی کا صرف ایک ہی سکّہ پڑا ہوا تھا مگر اس کا دل نہیں مانا اوراُس نے وہ سکّہ جیب سے نکال کر اُس بڑھیا کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بڑھیا خو ش ہو کر بولی:
’’بیٹی!تم بہت بڑے دل والی ہو۔ تمھارے پاس ایک ہی سکّہ تھا لیکن تم نے وہ بھی مجھے دے دیا۔ میری بات غور سے سنو اور اس پر عمل کرو۔ بادشاہ سے ایک تازی گھوڑا ، ایک نیزہ اور تیز قسم کی شراب سے بھری ایک مشک مانگ لو۔ کل جب تم پہاڑ پر جاؤ تو شراب سے بھری مشک کا منھ کھول کر اس خوفناک اژدہے کے غار کے آگے رکھ دینا۔ وہ شراب پی کر اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے گا۔ اس وقت تم اپنے نیزے سے اُس کے سر پر ایک زور دار وار کر کے اُسے مار ڈالنا۔‘‘
دوسر ے دن اَولیور نے ایسا ہی کیا۔ جب اژدہا شراب پی کر بد مست ہو گیا تو اس نے نیزے کی ایک ضرب سے اژدہے کو مار ڈالا اور اس کی لاش کو گھوڑے کی کاٹھی سے باندھ کر گھسیٹتا ہوا بادشاہ کے پاس لے گیا۔ جب بادشاہ نے یہ دیکھا کہ وہ اژدہا جو اس کے بہت سے آدمیوں کو چٹ کر چکا تھا مر گیا ہے تو بہت خوش ہوا۔
تین دن اور گزر گئے تو شہزادے نے اَولیور سے کہا ’’دیکھو اگر تم اب بھی اقرار نہیں کرتے ہو کہ تم مرد نہیں بلکہ عورت ہو تو میں اپنے باپ سے جا کر کہوں گا کہ تمھارے حکم سے مرا ہوا اژدہا زندہ ہو کر پھر سے بات کر سکتا ہے۔‘‘
اَولیور نے جواب دیا ’’میں نے تو ایسا دعوہ کبھی نہیں کیا۔ لیکن اگر جھوٹا الزام لگا کر تم مجھے مارنا چاہتے ہو تو میں اس کے لئے بھی تیار ہوں۔‘‘
شہزادہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور اُس سے کہا ’’ ابّا حضور!اَولیور کا دعوہ ہے کہ اس کے حکم سے وہ مردہ اژدہا زندہ ہو کر بات کر سکتا ہے۔‘‘
بادشاہ نے اَولیور کو بلوایا اور پوچھا ’’کیوں اَولیور کیا یہ سچ ہے کہ تم مردہ اژدہے کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہو؟‘‘
اَولیور نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت ! میں نے تو ایسا دعوہ کبھی نہیں کیا اور نہ کبھی کوئی ایسی طلسماتی کوشش ہی کی ہے۔‘‘
مگر اُسے میدان میں لے جا کر کھڑا کر دیا گیا جہاں وہ مردہ اژدہا پڑا ہو ا تھا۔
اَولیور نے آواز دی ‘‘اژدہے ، ارے او ظالم اژدہے۔‘‘
اژدہے کے مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھ کر پوچھا ’’آخر مجھ سے تم چاہتے کیا ہو؟‘‘
شہزادہ زور سے چلایا ’’یہ بتاؤ کہ جس سپاہی نے تم کو مارا ہے وہ مرد ہے یا عورت؟‘‘
اژدہے نے جواب دیا ’’وہ تو ایک عورت ہے۔‘‘
شہزادے نے سپاہیوں کو چلا کر حکم دیا ’’پکڑ لو اس عورت کو۔ دیکھو بھاگنے نہ پائے۔‘‘
جب نوبت یہاں تک پہنچی تو بلینکا فلور نے اپنے پیر زوروں سے زمین پر پٹخے اور چلا کر کہا ’’ببر شیر! پیارے ببر شیر!میری مدد کرو۔‘‘
زمین پر پیر مارنے سے اُس کے لوہے کے جوتے ٹوٹ کر گر گئے۔ ببر شیر کے اوپر سے جادو کا اثر ختم ہو گیا اور وہ اپنی اصلی شکل میں ایک خوبصورت شہزادہ بن کر وہاں آ پہنچا اور بولا:
’’ہاں یہ سپاہی کی وردی پہننے والی ایک عورت تو ضرور ہے لیکن یہ تمہارے لئے نہیں ہے۔‘‘
اُس خوبصورت شہزادے نے اپنی شہزادی کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے ملک واپس چلا گیا۔ وہاں دونوں کی شادی ہو گئی اور وہ ہنسی خوشی ساتھ ساتھ رہنے لگے۔
٭٭٭
تشکر: قمر رازؔ اور عذرا رازی جنھوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید