FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اسلام اور ریاست: چند بنیادی مباحث

 

 

 

                ڈاکٹر انیس احمد

 

 

 

 

اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غور و فکر اور تحقیق کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو ’مذہب‘ نہیں بلکہ ’دین‘ قرار دیتے ہیں:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

’دین‘ قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔ دیگر مذاہب میں اگر ان کے بنیادی معتقدات پر سوال اٹھایا جائے تو نوبت اخراج تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ حق کو شعوری طور پر جانچ پرکھ کر اختیار کیا جائے۔ عقل و فکر کا یہ کردار اتنا اہم ہے کہ اسے سنتِ انبیا ؑ بنا دیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیات ثانی کے بارے میں رب کریم سے سوالات کے ذریعے تقویت ایمان چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفرِحکمت میں حضرت خضر ؑ سے سوالات کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا۔

اس تناظر میں کسی غیرمسلم یا کسی مسلمان کا اسلام میں تصورِ خلافت کے پائے جانے پر استفہام نہ کسی تعجب کا باعث ہونا چاہیے اور نہ یہ ضرورت ہے کہ ایسے سوالات کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجائے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو سوالات اٹھائے جائیں، ان کا جواب ہدایت کے ان دو مستقل مآخذ و مصادر میں تلاش کیا جائے جو قیامت تک تمام انسانیت کے مسائل کا حل واضح اور بیّن طور پر فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس اہم موضوع کا پوری علمی دیانت کے ساتھ معروضی (objective) انداز میں مطالعہ کیا جائے اور تعصب اور مرعوبیت کے ہرسایے سے اس بحث کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلامی تحریکیں آج وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ان کے افکار اور ان کا تاریخی کردار ایک صدی پر محیط ہے۔ دینی مدارس بھی صدیوں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور جو نصاب آج رائج ہے، اس میں تبدیلی اور بہتری کی گنجایش تو بلا شبہہ ہے اور اس کی نشان دہی بھی کی جاتی رہی ہے اور کچھ اصلاحات لائی بھی گئی ہیں مگر جن نتائج کا شجرۂ نسب آج ان سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کوئی مثال بر عظیم کی کم از کم ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین اور ریاست کے تعلق کو معروضی انداز میں دیکھا جائے۔

یہ سوال کہ ’خلافت‘ اسلامی اصطلاح ہے یا نہیں؟ اسے خود قرآن کریم سے کیا جائے اور جو جواب ملے، اسے محلے والوں کی ناراضی یا خوش نودی سے بلند ہو کر صدق دل سے مان لیا جائے۔ کیونکہ انسانی تعبیرات و تشریحات بظاہر کتنی ہی خوش منظر اور متاثر کن نظر آتی ہوں، ان کو اللہ کے آخری پیغام اور آخری ہادی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشاد ات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اگر وہ ان سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو ان کو رد کر دیا جائے گا۔

 

تصورِ خلافت

 

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورۂ نور میں فرمایا گیا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور ۲۴:۵۵)

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔

اس آیت میں آگے چل کر فرمایا جارہا ہے کہ :

وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْءًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ o(النور ۲۴:۵۵)

ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔

استخلاف فی الارض کی یہ قرآنی اصطلاح تقریباً اسی معنی میں سورۂ اعراف میں استعمال ہوئی ہے:

قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَoقَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِءْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o(الاعراف ۷: ۱۲۸۔۱۲۹)

موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخر کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔

سورۂ انعام میں اسی حوالے سے فرمایا گیا:

وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآءُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ o(الانعام ۶:۱۳۳)

تمھارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے، جن کو چاہے، لے آئے جس طرح اس نے تمھیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔

ان تینوں مقامات پر استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اس کا مفہوم اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا ہے۔ ہم نے صرف ان تین مقامات کا ذکر اختصار کی خاطر کیا ہے ورنہ دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف جس اصطلاح سے کرایا وہ خلیفہ ہی کی اصطلاح تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔

 

 

اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت

 

یہ سوال اٹھانا بھی کسی غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں ہے کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث (discourse) یا ردِّبیانیہ (counter narrative) یا صرف بیانیہ (narrative) کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کر لیا جائے۔ یہ بات مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دُہراتے رہے ہیں۔ ان دانش وروں کا اصل مسئلہ وہ تصورِ علم اور تصورِ تحقیق ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کرتے ہیں، چنانچہ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریقِ تحقیق (Empirical Research Methodology) پر ایمان بالغیب لانے کے بعد، اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اسلام سیکولر نظر آتا ہے یا تھیاکریٹک۔ اس لیے ہم نے آغاز میں یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

’جوابی بیانیہ‘ کا مرکزی تصور یہ مفروضہ ہے کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، ان کا مخاطب بھی وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ اپنے اندر صرف جزوی صداقت رکھتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کو ’نصف سچائی‘ (half truth) ہی کہا جا سکتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے مغالطے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پورے بیانیے کو تضادات کی آماج گاہ بنا دیتا ہے، اور صورتِ حال یہ ہو جاتی ہے ؂

خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

بلا شبہہ فرد کی اصلاح اسلام کی دعوت کا اہم ستون اور نقطۂ آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد از اوّل تا آخر اجتماعیت کا حصہ ہے۔ وہ خود اس دنیا میں اپنی کسی مرضی سے وجود میں نہیں آتا۔ اللہ کی مشیت کے مطابق دو افراد کے لیے ایک اجتماعی فیصلہ اور عمل کے نتیجے میں اس کے سفرِحیات کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی طرح اپنی بقا اور ترقی و تکمیل کے لیے اس کا انحصار بنیادی طور پر جینیاتی (genetic)عوامل پر نہیں بلکہ جینیاتی عمل کے ساتھ ساتھ اس کو سماجی اور اداراتی عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرغی کا چوزہ انڈے سے نکلنے کے ساتھ ہی اپنا رزق تلاش کرنے کی صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن انسان کا بچہ ماں کی گود اور اس کے دودھ کا محتاج ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا ورثہ اسے جینیات کے ذریعے نہیں، خاندان، تعلیم اور معاشرے کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، ایک معاشرے، ایک تہذیب و تمدن، ایک معیشت اور ایک ریاست میں نشوونما پاتا اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی دعوت کا مرکز و محور جہاں یہ فرد ہے، وہیں وہ معاشرہ، وہ اجتماع اور وہ ریاست بھی ہے جس سے اسے ہر لمحہ سابقہ درپیش ہے اور اس کی آماج گاہ ہے۔

بلا شبہہ اسلام جو نظامِ زندگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ فرد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے مگر فرد کو جو مشن سونپا گیا ہے، وہ صرف اپنی اصلاح اور تزکیے تک محدود نہیں اور آخرت میں ہر فرد کو فرداً فرداً جو جواب دہی کرنی ہے، وہ صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کی تمام وسعتوں پر محیط ہے۔ اسلام کی دعوت فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کو پوری زندگی حق و باطل کی کش مکش کے درمیان بسر کرنی ہوتی ہے اور جو فرد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتا ہے، وہ پوری زندگی کو اس کی اطاعت اور بندگی میں دینے کا سودا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اس عہد کو خرید و فروخت کے ایک معاملے سے تعبیر کیا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ ط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ oاَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o(التوبہ ۹:۱۱۱۔۱۱۲)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجا لانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ! ان مومنوں کو خوش خبری دے دو۔

سورۂ صف میں اہلِ ایمان کا کردار اس طرح واضح کیا گیا ہے:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ oکَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ oاِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o(الصف ۶۱:۲۔۳)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

اور پھر ان کو یہ بشارت بھی دی کہ:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ oھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ oیٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ oتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ oیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ oوَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o(الصف ۶۱:۸۔۱۳)

یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل و انصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح ، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد با لعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیائے کرام ؑ نے انجام دیا، نبی آخر الزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اُمت کی ذمہ داری ___ ہر ہر فرد کی ہے۔ اُمت کا بحیثیت اُمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامتِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اُمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاستِ عامہ کا نام ہے جو اقامتِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور نمائندگی میں ہونا چاہیے۔

فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہر ادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ oوَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o(انفال ۸:۲۴۔۲۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اسلام کا طرۂ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع ،جماعت اور ریاست کو ایک شتر بے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کر دے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفہ کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملتِ اسلامیہ اور حزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال ؂

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوؤں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے تقاضوں کے صحیح ادراک اور ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔

 

 حاکمیت اعلیٰ کا اختیار

 

اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات (Personal Salvation) کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ آخرت میں جواب دہی بھی نہ صرف انفرادی ہے بلکہ ہر مسلمان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر اس تک صرف ایک آیت ہی پہنچی تھی تو کیا اس نے اسے دوسروں تک پہنچایا؟ اپنے ماحول، معاشرے اور دنیا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت و اختیار کو کہاں تک استعمال کیا؟ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے۔ وہ نماز ہو یا زکوٰۃ کا نظام یا عمرہ اور حج یا روزہ اور جہاد ہو، ہر عبادت اجتماعیت کا پہلو رکھتی ہے اور اجتماعی طور پر معروف کے قیام اور منکر اور فواحش کے انسداد کی تعلیم دیتی ہے۔

قرآن کریم نے توحید کی اساسی تعلیم کے ذریعے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ توحید کا مطالبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت محض اس گوشت کے لوتھڑے تک محدود نہ کر دی جائے جس کا نام قلب ہے بلکہ اس قلب کو مزّکی کرنے کے بعد پورے جسم اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اس کی حکمرانی قائم کی جائے، تاکہ جسمِ انسانی کے ساتھ کاروبارِ حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تسلط، اقتدار، حکم اور حرفِ آخر اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے۔ صرف وہ مقتدرِ اعلیٰ (Sovereign) ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ oمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o(یوسف ۱۲:۳۹۔۴۰)

اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ اکیلا اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم اور تمھارے آبا و اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار (حاکمیت) اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم (صحیح طریق زندگی) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اس آیت مبارکہ نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کے الفاظ استعمال کر کے یہ بات طے کر دی کہ کوئی انسان Sovereignنہیں ہو سکتا۔ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے۔ اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کے کس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدے کا مستحق ہو لیکن بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں، یا نام نہاد ثقافتی دنیا میں عریانی، فحاشی اور صنم پرستی تہذیب کا معیار بن جائے۔

اسلام میں داخلہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے کہ جمعے کے دن مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو رب مان لیا جائے اور بقیہ دنوں میں ذاتی مفاد، شہرت اور دولت، پارلیمان کی رکنیت علامتِ بندگی بن جائے۔

خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام جس میں حکومت اور حکام اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوں۔ یہ نہ تھیاکریسی ہے نہ آمریت، نہ فوجی ڈکٹیٹر شپ، نہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت۔

خلافت، تاریخ کی روشنی میں، انبیائے کرام کی پیروی کرتے ہوئے خالق کائنات کی شریعت کو اس کی زمین پر اور اس کی مخلوق پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہوں یا حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت داؤد علیہ السلام، ان سب کا اسوہ استخلاف فی الارض، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کا خود اس معاملے کو واضح کر دینے کے بعد کسی دانش ورانہ نکتہ سنجی کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف اسلامی ریاست (مطبوعہ لاہور، دار التذکیر ۲۰۰۲ء) کے صفحات ۱۸تا ۲۴کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انھیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں، ان صفحات کا مطالعہ ان کے تصورِ خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دُور کر دے گا۔

مولانا اصلاحی اس حوالے سے خلافت کے آٹھ تضّمنات پر روشنی ڈالتے ہیں:

۱۔ یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔

۲۔ یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔

۳۔ یہ کہ اس زمین پر اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔

۴۔ یہ کہ منشائے تخلیق کے اعتبار سے اس منصب کے اہل سارے انسان ہیں۔

۵۔ اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائی میں اگر انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے تو فساد فی الارض کا ہونا یقینی ہے۔

۶۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے۔

۷۔ یہ کہ خلافت کی اساس وطن، نسل، نسب یا قبیلہ نہیں ہے بلکہ خلافت ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔

۸۔ یہ کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل و مساوات کو یقینی بناتا ہے۔

 

اسلام میں تصورِ قومیت

 

اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علمائے ہند کے دیگر زعما نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا، جب کہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں جمعیت علمائے ہند کے تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے ایسوسی ایٹڈ پریس امریکا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے تصورِ قومیت کی وضاحت اس طرح کی تھی:

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا ہے اور اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ایک قوم ہیں، ہماری نمایاں ثقافت اور تہذیب، زبان اور ادب، فن اور تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا نظام ہے۔ نسبت اور تناسب کا شعور، قانون اور اخلاقی ضابطے، رواج اور جنتری، تاریخ اور روایات، میلان طبع اور اُمنگوں کے اعتبار سے۔ مختصراً زندگی اور زندگی کے متعلق ہمارا اپنا نمایاں نقطۂ نظر ہے بین الاقوامی قانون کے جملہ ضابطوں کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(قائد اعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، امریکی نامہ نگار سے گفتگو، بمبئی، یکم جولائی ۱۹۴۲ء، ص ۶۷)

قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ’خیر اُمت‘ یا ’اُمت وسط‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ اس کا نظریۂ حیات اسے ایک قوم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پاکستان کا وجود میں آنا اس کی روشن دلیل ہے۔ بر عظیم کے پٹھان ہوں یا پنجابی یا سندھی اور بلوچ، ان کی پہچان اور تشخص واحد قوم کی شکل میں پاکستانی ہونا ہے۔

مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر علامہ اقبال کی شدید تنقید اور یہ سوال اُٹھانا کہ ہند میں مسلمان سیّد بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں لیکن ان سب حوالوں کے ساتھ کیا وہ مسلمان بھی ہیں؟ دراصل نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علَم برداروں کے موقف پر یہ بات واضح کرنا تھا کہ ان کی یک جہتی اور ایک قوم ہونے کی اصل بنیاد اسلام ہے۔

قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کر کے اس غلط فہمی کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کی اصلاح کر دی ہے۔ فرمایا گیا:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط (الحج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔

ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کر کے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ کیا لوگ بزعم خود محصلین زکوٰۃ بن جائیں گے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے قائم کرنے اور منکر و فحش کو دُور کرنے میں صرف کرے اس کی تمام انتظامیہ منکر کو مٹانے میں لگ جائے۔

آیت کا واضح مفہوم سیاسی اقتدار کے ذریعے بھلائی کو عام کرنا اور منکر و فحش کو دُور کرنا ہے۔ اگر اسلام ایک انفرادی دین ہے تو پھر قرآنی قوانین و حدود کا اجرا کون کرے گا؟ قاضی کا تقرر کون کرے گا؟ جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ کیا یہ سب کام انفرادی طور پر کیے جائیں گے اور اگر کیے جائیں تو کیا کوئی نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہو سکتا ہے؟ یا اسلام کے ہر حکم کی روح کے مطابق تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار اور ریاست مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہو۔

یہ کہنا کہ شرک، کفر اور ارتداد یقیناًسنگین جرائم ہیں لیکن ان کی سزا کوئی انسان نہیں دے سکتا، قرآن کریم کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ قرآن کریم مسلسل نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ:

وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo’’

ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘ (انفال ۸:۲۹)۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اللہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں۔ی

ٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ (انفال۸:۶۵)

’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو‘‘۔

اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین اور کفار کے خلاف گھوڑے تیار رکھے جائیں ۔

آخر ان تمام احکامات کی ضرورت کیا تھی اگر کفر و شرک کی سزا صرف یوم الحساب کے بعد ہی دی جانی تھی! مشرکین اور کفار کا آخری ٹھکانا تو جہنم ہو گا ہی لیکن اس دنیا میں ان کے خلاف جہاد کا حکم دو ٹوک الفاظ میں دیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ بِءْسَ الْمَصِیْرُ o(التوبہ ۹:۷۳)

’’اے نبی، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘۔

شرک اور کفر ہی نہیں جو لوگ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرتے یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کو بھی اس دنیا میں سزا دے۔ ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کر دیے جائیں۔یہ ذلت و رُسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘(المائدہ ۵:۳۳)۔ اس دنیا میں سزا کا نفاذ کون کرے گا اگر ریاست قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اگر ہر گمراہی کی سزا صرف آخرت میں دی جانی ہو؟

علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلطِ مبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر (mind-set) کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ رائے بلا شبہہ اُمت کے لیے رحمت ہے لیکن اسی وقت تک جب اختلاف ادب کے دائرے میں کیا جائے۔ اسلام کی بنیادوں کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ نکالنا دین کی حکمت سے متعارض رویہ ہے۔

قرآن کریم اور دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، قرآن و سنت کو پارلیمان سے بالا قرار دیتا ہے، اس لیے اگر تمام دانش ور مل کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ پارلیمان حرفِ آخر ہونی چاہیے، تو قیامت تک نہ اُمتِ مسلمہ کا ضمیر اور نہ دستورِ پاکستان اس طرزِ فکر کو درست تسلیم کرے گا۔

 

انتہا پسندی کی تکرار

 

ہمارے ملک کے ابلاغِ عامہ میں، خواہ وہ اخباری صحافت ہو یا برقی ابلاغِ عامہ، گذشتہ دو دہائیوں سے مسلسل ایک بات کی تکرار کی جا رہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب انتہاپسندی پیدا کرتا ہے۔ ایک سوال عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ اگر یہ وہی نصاب ہے جسے مُلّا نظام الدین سیالوی نے مرتب کیا تھا اور جسے دیوبند، سہارن پور اور بریلی کے مدارس میں اور بعض اصلاحات کے ساتھ فرنگی محل اور بعد میں ندوۃ العلماء میں بطور بنیاد کے استعمال کیا گیا تو کیا ان تمام مدارس سے صرف دہشت گرد اور انتہاپسند ہی پیدا ہوئے؟

کیا صورتِ حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان کے بعد جب ہوا کا رُخ بدلا تو جو کل تک مجاہد تھے،وہ دہشت گرد قرار دیے جانے لگے۔ مزید یہ کہ جن مدارس کے طلبہ کو تربیت دے کر طالبان کے نام سے افغانستان کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہی ہوا کا رُخ بدلنے پر شدت پسند اور جدیدیت کے لیے خطرہ بن گئے۔

یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ کیا سیکولر تعلیم اعتدال پسندی، رواداری، صبر و تحمل اور انکساری پیدا کرتی ہے یا سیکولرازم خود ایک انتہاپسندانہ تصور ہے جو اپنی حقانیت کے علاوہ کسی اور بات کو حق نہیں مانتا، اور خصوصاً دین کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مسجد، چرچ یا مندر تک محدود کر دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا اسی کا نام رواداری، برداشت اور تکثیریت (Pluralism)ہے؟

اسی سلسلۂ کلام میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور مذہبی و سیاسی جماعتیں شب و روز انتہاپسندی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر سواے حیرت کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی وہ واحد ادارہ ہیں جنھوں نے فرقہ واریت، مسلک پرستی اور تنگ نظری اور عدم رواداری کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریکاتِ اسلامی اجتہادی تحریکات ہیں جو مروجہ محدود مذہبیت سے ہٹ کر دین کی جامع اور متحرک تصویر پیش کرتی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ انڈونیشیا، ترکی، شام، سوڈان ہو یا ’پاکستان اسلامی تحریکات نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں ہمیشہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے منطقی رد اور علمی محاکمے کے ذریعے ایک متوازن اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جن کی پہچان میں مسلک کا بھی ایک کردار اور رنگ ہے، مثلاً: جمعیت علمائے پاکستان یا جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اہلِ حدیث یا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ، وہ بھی دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اور پاکستان کے دستور میں طے شدہ شورائی اور جمہوری نظام ہی کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ جس دستور کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور جس میں اسلام کے کم سے کم تقاضوں کو سمودیا گیا ہے، اس پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پر عمل کیا جائے اور جو بھی اس دستور کا منکر یا اس سے منحرف ہو اس سے اپنا رستہ جدا رکھیں۔

 

حقیقت پسندی کا تقاضا

 

پاکستان کے تناظر میں تحریکِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے ہی ملک میں اصلاح اور تبدیلی کو درست سمجھا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔علمِ سیاست کا ہر طالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ ریاست مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ تینوں اعضا دستور کے تحفظ کے ذمہ دار اور امین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دستور جس پر ایک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہو، ریاست کو اسلامی قرار دیتا ہو اور حکمرانی کے لیے بھی اسلام پر ایمان اور اسلام کے نفاذ کا عہد، عہد نامۂ صدارت و وزارتِ عظمیٰ میں شامل ہو، تو پھر یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے، ایک خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے دستور سے وفاداری نہیں کہا جا سکتا۔

اسلام حکمرانی کے آداب میں اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اور قاضی بغیر کسی تعصب اور فرقہ پسندی کے عدل اور مکمل عدل کے ساتھ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ریاست اور ریاست کے اہل کاروں کا ایمان دار ہونا ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جتنی کمی ہوگی، ظلم و ناانصافی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک سیکولر نظام اپنے آپ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے ایسے نظام میں خدا خوفی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں رہتا۔ چنانچہ نفسا نفسی، اقرباپروری اور ظلم و استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔

اسلامی ریاست انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی اسلامی ریاست میں ہمیں وہ اصول کارفرما نظر آتے ہیں جو قیامت تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اس کے بانیوں کی نگاہ میں صرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں قرآن و سنت کا نظام رائج ہو اور یہ دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کی شکل میں ایک قابلِ عمل نمونہ پیش کرسکے۔

ایک جانب یہ اصرار کہ نمازِ عید اور جمعہ سربراہِ مملکت پڑھائے اور دوسری جانب یہ تصور کہ ریاست سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے___ ایک گہرے تضاد کا پتا دیتا ہے۔ دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ مناسکِ عبودیت کو مسجد تک محدود نہیں کرتا بلکہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اللہ کی بندگی کا پابند بناتا ہے۔ مقننہ وہی قانون سازی کرسکتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس لیے ریاست کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ملک سے قتل و غارت گری کو ختم کرنے کے لیے اپنی قوتِ نافذہ استعمال کرے۔ وہ ظلم و بغاوت کو دُور کرے۔ وہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور مقاصدِ شریعت جو مقاصدِ انسانیت بھی ہیں کا تحفظ کرتے ہوئے دین، جان، عزت، عقل، نسل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی ریاستی سرپرستی اور نگرانی میں انجام دے۔

اسلامی ریاست کا اپنا تشخص ہے اور وہ روایتی مذہبی ریاست (Theocracy) اور لبرل لادینی قومی ریاست (Liberal Secular Nation State) دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کسی مذہبی گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرے، یا اللہ کے نام پر اپنی حکمرانی قائم کرے۔ اسی طرح یہ لبرل سیکولر ریاست سے بھی مختلف ہے جہاں عوام کی حاکمیت کے نام پر ریاست اخلاق اور اقدار کی ہرقید سے آزاد ہو جائے اور حلال و حرام اور حق و باطل کو انسانی اغراض اور اہوا کا تابع بنا دے۔

مغرب میں جسے ’قومی ریاست‘ (National State)کہا جاتا ہے، وہ اپنا ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہے اور اس کا کوئی ایک متفق علیہ ماڈل بھی نہیں ہے۔ نیز قومی ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں اور تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کے دعووں کے باوجود رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ پھر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنے اقتدار اور اثرات کو دوام دینے کے لیے سیاسی نقشے کی کتر بیونت کی ہے اور مختلف تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مفاد میں ریاستوں کو وجود بخشا ہے اور انھیں قومی ریاستوں کا عنوان دیا ہے۔ عرب دنیا اور افریقہ میں یہ کھیل بڑی چالاکی اور عیاری سے کھیلا گیا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود متعدد قومی ریاستوں پر مذہب کی چھاپ موجود ہے۔ فرانس سیکولرزم کے نام پر ایک نظریاتی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ اسرائیل مُصر ہے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔ نیپال ایک ہندو ریاست اور برما ایک بدھ مت کی علَم بردار ریاست ہے۔ عیسائیت کہیں Liberation Theologyاور کہیں Christian Democracyکے جھنڈے تلے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور بھارت جسے سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کی نقیب ہے مگر ساتھ ساتھ ’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘ ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔

یورپ اور امریکا کی جدید تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس نیشن اسٹیٹ نے عالمی سامراجی نظام کے فروغ اور دنیا کو الم ناک جنگوں کی آگ میں جھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد خود یورپ میں جو ہوائیں چل رہی ہیں، ان کا عنوان Beyond Nation Stateہے اور یورپی یونین پانچ ریاستوں سے ۱۹۵۸ء میں اپنے سفر کا آغاز کر کے آج ۲۸ریاستوں کا ایک Supranational Political Orderقائم کرنے کے سفر میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایک کرنسی اور ایک مرکزی بنک بن گیا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور یورپین کورٹ وجود میں آ چکے ہیں لیکن ہمارے دانش ور ہیں کہ ابھی تک ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی کو نمونہ اور مثالیہ بنانے پر مصر ہیں۔

اسلامی ریاست اللہ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، قرآن و سنت کی بالادستی اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کے ساتھ مشاورت کی بنا پر حکمرانی کا تصور دیتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ محض ایک سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دین کا تقاضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کا ثمرہ ہے۔ اسلام کے نام پر اگر چند گروہ کوئی غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطی پر بھرپور گرفت اور ہر غلط کاری کا سدباب ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے انحرافات کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے تصور ہی کو غیر ضروری قرار دینا ایک ایسی جسارت ہے جس سے دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وہ کون سا مذہب اور نظریہ ہے جس کے نام پر کچھ لوگوں نے غلط کاری نہ کی ہو۔ جو بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر گرفت اور غلطی کے حجم کی مناسبت سے جوابی اقدام حق بجانب ہے لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایسے بودے سہارے لے کر دین کے مسلمات ہی کو مسخ کرنے اور نت نئے بیانیے وضع کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ یہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

https://groups.google.com/forum/#!topic/global-right-path/hhHJBUH93tQ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید