FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

اسلامی معاشیات

 

 

 

                   مجیب صفدر جلالی

انتساب

 

ان عظیم ہستیوں کے نام جن کی وجہ سے میں اس مقام تک پہنچا جہاں تک میری اوقات نہیں میرے والدین ،اور ان کے بعد اس عظیم ہستی کے نام جس نے مجھے اس مقام تک پہنچایا ،عزت مآب جناب شیخ الحدیث استاذ العلماء حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال جلالی صاحب  (پرنسپل و شیخ الحدیث ،جامعہ اسلام آباد) اور میرے تمام اساتذہ اور میرے دوست احباب کے نام جنہوں نے میری ہر طرح سے رہنمائی کی ۔

 

احقر محمد مجیب صفدر جلالیؔ

 

 

 

 

مقدمہ

 

 

انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اسلام نے چند اصول اور چند حدود مقرر کر دیئے ہیں تا کہ دولت کی پیدائش ،استعمال اور گردش کا سارا نظام انھی خطوط کے اندر چلے جو اس کے لیے کھینچ دئیے گئے ہیں ۔دولت کی پیداوار کے طریقے اور اس کی گردش کی صورتیں کیا ہوں ؟ اسلام کو اس سوال سے کوئی بحث نہیں ہے ۔یہ چیزیں تو مختلف زمانوں میں تمدن کے نشوونما کے ساتھ ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہیں ۔ان کا تعین انسانی حالات و ضروریات کے لحاظ سے خود بخود ہو جاتا ہے ۔اسلام جو کچھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمانوں اور حالات میں انسان کے معاشی معاملات جو شکلیں بھی اختیار کریں ان میں یہ اصول مستقل طور پر قائم رہیں اور ان حدود کی لازماً پابندی کی جائے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے زمین اور اس کی سب چیزیں خدا نے نوع انسانی کے لیے بنائی ہیں ،اس لیے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے اس حق میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں ،کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا نہ کسی کو اس معاملے میں دوسروں پر ترجیح حاصل ہو سکتی ہے۔کسی شخص یا نسل یا طبقے پر ایسی کوئی پابندی ازروئے شرع عائد نہیں ہو سکتی کہ وہ رزق کے وسائل میں سے بعض کو استعمال کرنے کا حقدار ہی نہ رہے ،یا بعض پیشوں کا دروازہ اس کے لیے بند کر دیا جائے ۔اسی طرح ایسے امتیازات بھی شرعاً قائم نہیں ہو سکتے جن کی بنا پر کوئی ذریعہ معاش یا وسیلہ رزق کسی مخصوص طبقے یا نسل یا خاندان کا اجارہ بن کر رہ جائے ۔خدا کی بنائی ہوئی زمین پر اس کے پیدا کیے ہوئے وسائل رزق میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب انسانوں کا یکساں حق ہے اور اس کوشش کے مواقع سب کے لیے یکساں کھلے ہونے چاہئیں ۔

قدرت کی جن نعمتوں کو تیار کرنے کا یا کارآمد بنانے میں کسی کی محنت و قابلیت کا کائی دخل نہ ہو وہ سب انسانوں کے لیے مباح عام ہیں ۔ہر شخص کو حق ہے کہ اپنی ضرورت بھر ان سے فائدہ اٹھائے ۔دریاؤں اور چشموں کا پانی ،جنگل کی لکڑی ،قدرتی درختوں کے پھل ،گھاس اور چارہ ہوا اور پانی اور صحرا کے جانور ،سطح زمین پر کھلی ہوئی کانیں ،اس قسم کی چیزوں پر نہ تو کسی کی اجارہ داری قائم ہو سکتی ہے اور نہ ایسی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں کہ بندگان  خدا کچھ دیے بغیر ان سے اپنی ضرورتیں پوری نہ کر سکیں ۔ہاجو لوگ تجارتی اغراض کے لیے بڑے پیمانے پر ان میں سے کسی چیز کو استعمال کرنا چاہیں ان پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے ۔خدا نے جو چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں ،انہیں لے کر بیکار ڈال رکھنا صحیح نہیں ہے۔یا تو ان سے خود فائدہ اٹھاؤ ،ورنہ چھوڑ دو تاکہ دوسرے ان سے متمتع ہوں ۔اسی اصول کی بنا پر اسلامی قانون پر فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی شخص حکومت کی عطا کردہ زمین کو تین سال سے زیادہ مدت تک افتادہ حالت میں نہیں رکھ سکتا ۔اگر وہ اس کو زراعت یا عمارت یا کسی دوسرے کام میں استعمال نہ کرے تو تین سال گزر جانے کے بعد وہ متروکہ زمین سمجھی جائے گی ۔کوئی دوسرا شخص اسے کام میں لے آئے تو اس پر دعویٰ نہ کیا جا سکے گا اور اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ اس زمین کو اس شخص سے لے کر کسی اور کو آبادکاری کے لیے دے دے ۔

جو شخص براہِ راست قدرت کے خزانے میں سے کوئی چیز لے اور اپنی محنت و قابلیت سے اس کو کار آمد بنائے وہ اس چیز کا مالک ہے ۔مثلاً کسی افتادہ زمین کو ،جس پر کسی کے حقوق ملکیت ثابت نہ ہوں ،اگر کوئی شخص اپنے قبضے میں لے لے اور کسی مفید کام میں اسے استعمال کرنا شروع کر دے تو اس کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا اسلامی نظریے کے مطابق دنیا میں تمام مالکانہ حقوق کی ابتدااسی طرح ہوئی ہے ۔پہلے جب زمین پر انسانی آبادی شروع ہوئی تو سب چیزیں سب انسانو کے لیے مباح عام تھیں ۔پھر جس جس شخص نے جس مباح چیز کو اپنے قبضے میں لے کر کسی طور پر کار آمد بنا لیا وہ اس کا مالک ہو گیا،یعنی اسے یہ حق حاصل ہو گیا کہ اس کا استعمال اپنے لیے مخصوص  رکھے اور دوسرے اسے استعمال کرنا چاہیں تو ان سے اس کا معاوضہ لے ۔یہ چیز انسان کے سارے معاشی معاملات کی فطری بنیاد ہے اور اس بنیاد کو اپنی جگہ قائم رہنا چاہیے ۔

جائز شرعی طریقوں سے جو مالکانہ حقوق کسی کو دنیا میں حاصل ہوں وہ بہر حال احترام کے مستحق ہیں ۔کلام اگر ہو سکتا ہے تو اس امر میں ہو سکتا ہے کہ کوئی ملکیت شرعاً صحیح ہے یا نہیں جو ملکیتیں ازروئے شرع ناجائز ہوں انہیں بے شک ختم ہو جانا چاہیے ۔مگر جو ملکیتیں شرعاً صحیح ہوں ،کسی حکومت اور کسی مجلس قانون ساز کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں سلب کر لے،یا ان کے مالکوں کے شرعی حقوق میں کسی قسم کی کمی بیشی کرے ۔اجتماعی بہتری کا نام لے کر کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا جو شریعت کے دئیے ہوئے حقوق کو پامال کرنے والا ہو ۔جماعت کے مفاد کے لیے افراد کی ملکیتوں پر جو پابندیاں شریعت نے خود لگا دی ہیں ان میں کمی کرنا جتنا بڑا ظلم ہے اتنا ہی بڑا ظلم ان پر اضافہ کر نا بھی ہے ۔یہ بات اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ افراد کے شرعی حقوق کی حفاظت کر ے اور ان سے جماعت کے وہ حقوق وصول کرے جو شریعت نے ان پر عائد کیے ہیں ۔

خدا نے اپنی نعمتوں کی تقسیم میں مساوات ملحوظ نہیں رکھی ہے ،بلکہ اپنی حکمت کی بنا پر بعض انسانوں کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔حسن ،خوش آوازی ،تندرستی ،جسمانی طاقتیں ،دماغی قابلیتیں ،پیدائشی ماحول اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب انسانوں کو یکساں نہیں ملیں ۔ایسا ہی معاملہ رزق کا بھی ہے ۔خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو ۔لہذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطہ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں جو انسانوں کے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائیں ۔اسلام جاس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصول رزق کی جد و جہد کے مواقع میں مساوات ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسی قانونی اور رواجی رکاوٹیں باقی نہ رہیں جن کی بنا پر کوئی شخص اپنی قوت و استعداد کے مطابق معاشی جدو جہد نہ کر سکتا ہو۔اور ایسے امتیازات بھی قائم نہ رہیں جو بعض طبقوں نسلوں اور خاندانوں کی پیدائش خوش نصیبی کو مستقل قانونی تحفظات میں تبدیل کر دیتے ہوں ۔یہ دونوں طریقے فطری نامساوات کی جگہ زبردستی ایک مصنوعی نامساوات قائم کرتے ہیں ۔اس لیے اسلام انہیں مٹا کر سوسائٹی کے معاشی نظام  کو ایسی فطری حالت پر لے آنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کے لیے کوشش کے مواقع کھلے ہوں ۔مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ کوشش کے ذرائع اور نتائج میں بھی سب لوگوں کو زبردستی برابر کر دیا جائے،اسلام ان سے متفق نہیں ہے ۔کیونکہ وہ فطری نامساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کر نا چاہتے ہیں ۔فطرت سے قریب تر نظام صرف وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتدا اسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے ۔جو موٹر لیے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے ،جو صرف دو پاوں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے ،اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلنا شروع کر دے ۔سوسائٹی کا قانون نہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ موٹر والے کا مستقل اجارہ موٹر پر قائم کر دے اور لنگڑے کے لیے موٹر کا حصول ناممکن بنا دے ،اور نہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ سب کی دوڑ زبردستی ایک ہی مقام اور ایک ہی حالت میں شروع ہو اور آگے تک انہیں لازماً ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر رکھا جائے ۔برعکس اس کے قوانین ایسے ہونے چاہئیں جن میں اس امر کا کھلا امکان موجود رہے کہ جس نے اپنی دوڑ لنگڑا کر شروع کی تھی وہ اپنی محنت و قابلیت سے موٹر پا سکتا ہو تو ضرور پائے،اور جو ابتدا میں موٹر پر چلا تھا وہ بعد میں اپنی نااہلی سے لنگڑا ہو کر رہ جائے تو رہ جائے۔

اسلام صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی میں یہ معاشی دوڑ کھلی اور بے لاگ ہو ،بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس میدان میں دوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے درد نہ ہوں بلکہ ہمدرد اور مددگار ہوں ۔اور اسلام یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ سوسائٹی میں ایک مستقل ادارہ ایسا موجود رہے جو معذور اور بے وسیلہ لوگو کی مدد کا ضامن ہو ۔جو لوگ معاشی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں وہ اس ادارے سے اپنا حصہ پائیں ۔جو لوگ اتفاقاتِ زمانہ سے اس دوڑ میں گر پڑے ہوں انہیں یہ ادارہ اٹھا کر پھر چلنے کے قابل بنائے ۔اور جن لوگوں کو جدوجہد کے میدان میں اترنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہو انہیں اس ادارے سے سہارا ملے ۔اس مقصد کے لے اسلام نے از رُوئے قانون یہ طے کیا کہ ملک کی تمام جمع شدہ دولت پر ڈھائی فیصدی سالانہ زکوٰۃ وصول کی جائے ۔تمام عشری زمینوں کی زرعی پیداوار کا دس فیصدی حصہ لیا جائے۔بعض معدنیات کی پیداوار کا بیس فیصدی حصہ لے لیا جائے ۔مویشیوں کی ایک خاص تعداد پر بھی ایک خاص تناسب سے سالانہ زکوٰۃ لگائی جائے اور یہ تمام سرمایہ غریبوں ،یتیموں ،بوڑھوں ،معذوروں ،بے روزگاروں ،بیماروں اور دوسرے ہر طرح کے محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے ۔یہ ایک ایسا اجتماعی انشورنس ہے جس کی موجودگی میں اسلامی سوسائٹی کے اندر کوئی شخص زندگی کی ناگزیر ضروریات سے کبھی محروم نہیں رہ سکتا ۔کوئی محنت کش آدمی کبھی اتنا مجبور نہیں ہو سکتا کہ فاقے کے ڈر سے خدمت کی وہی شرائط منظور کر لے جو کارخانہ دار یا زمیندار پیش کر رہا ہو ۔کسی شخص کی طاقت اس سے کم سے کم معیار سے کبھی نیچے نہیں گر سکتی جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے ۔

فرد اور جماعت کے درمیان اسلام ایسا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فرد کی شخصیت اور اس کی آزادی بھی بر قرار رہے اور اجتماعی مفاد کے لیے اس کی آزادی نقصان دہ بھی نہ ہو ،بلکہ لازمی طور پر مفید ہو ۔اسلام کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتا جو فرد کو جماعت میں گم کر دے اور اس کے لیے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے ۔کسی ملک کے تمام ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنا دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام افراد جماعتی شکنجے میں جکڑ جائیں ۔اس حالت میں ان کی انفرادیت کی بقا و ارتقاء سخت مشکل بلکہ غیر ممکن ہے ۔انفرادیت کے لیے جس طرح سیاسی اور معاشی آزادی ضروری ہے اسی طرح معاشی آزادی بھی بہت بڑی حد تک ضروری ہے ۔اگر ہم آدمیت کا بالکل استیصال نہیں کر دینا چاہتے تو ہماری اجتماعی زندگی میں اتنی گنجائش ضرور رہنی چاہیے کہ ایک بندۂ خدا اپنی روزی آزادانہ پیدا کر کے اپنے ضمیر کا استقلال بر قرار رکھ سکے اور اپنی ذہنی و اخلاقی قوتوں کو اپنے رجحانات کے مطابق نشوونما دے سکے ۔راتب بندی کا رزق ،جس کی کنجیاں دوسروں کے ہاتھ میں ہوں ،اگر فراواں بھی ہو تو خوشگوار نہیں ۔کیونکہ اس سے پرواز میں جو کوتاہی آتی ہے محض جسم کی فربہی اس کی تلافی کبھی نہیں کر سکتی۔جس طرح اسلام ایسے نظام کو ناپسند کر تا ہے اسی طرح وہ ایسے اجتماعی نظام کو بھی پسند نہیں کرتا جو افراد کو معاشرت اور معیشت میں بے لگام آزادی دیتا ہے اور انہیں کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اپنی خواہشات یا اپنے مفاد کی خاطر جماعت کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچائیں ۔ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلام نے جو متوسط راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے فرد کو جماعت کی خاطر چند حدود اور داریوں کا پابند بنایا جائے ،پھر اسے اپنے معاملات میں آزاد چھوڑ دیا جائے ان حدود اور ذمے داریوں کا صرف ایک مختصر سا نقشہ ضبط تحریر میں لاتا ہوں ۔

پہلے کسب معاش کو لیجئے،دولت کمانے کے ذرائع میں اسلام نے جتنی باریک بینی کے ساتھ جائز و ناجائز کی تفریق کی ہے دنیا کے کسی قانون نے نہیں کی ۔وہ چن چن کر ان تمام ذرائع کو حرام قرار دیتا ہے جن سے ایک شخص دوسرے اشخاص کو ،یا بحیثیت مجموعی پوری سوسائٹی کو ،اخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر اپنی روزی حاصل کرتا ہے ۔شراب اور نشہ آور چیزوں کا بنانا اور بیچنا ،فحش کاری اور رقص و سرور کا پیشہ،جوا،سٹہ،لاٹری،سوداور دھوکے اور جھگڑے کے سودے ،ایسے تجارتی طریقے جن میں ایک فریق کا فائدہ یقینی اور دوسرے کا مشتبہ ہو،ضرورت کی چیزوں کو روک کر ان کی قیمتیں چڑھانا ،اور اسی طرح بہت سے وہ کاروبار جو اجتماعی طور پر ضرر رساں ہیں ،اسلامی قانون میں قطعی طور پر حرام کر دیئے گئے ہیں ۔اس معاملے میں اگر آپ اسلام کے معاشی قانون کا جائزہ لیں تو حرام طریقوں کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے آئے گی  جو آگے انشاء اللہ میں ضبط تحریر میں لاؤں گا اور ان میں بہت سے وہ طریقے آپ کو ملیں گے جنہیں استعمال کر کے ہی موجودہ سرمایہ داری نظام میں لوگ کروڑ پتی بنتے ہیں ۔اسلام ان سب طریقوں کو ازروئے قانون بند کر تا ہے اور آدمی کو صرف ان طریقوں سے دولت کمانے کی آزادی دیتا ہے جن سے وہ دوسروں کی کوئی حقیقی اور مفید ،خدمت انجام دے کر انصاف کے ساتھ معاوضہ حاصل کرے ۔

حلال ذرائع سے کمائی ہوئی دولت پر اسلام آدمی کے حقوق ملکیت تسلیم کرتا ہے ۔مگر یہ حقوق بھی غیر محدود نہیں ہیں ،وہ آدمی کو پابند کرتا ہے کہ اپنی حلال کمائی کو خرچ بھی جائز ذرائع سے جائز راستوں ہی میں کرے ۔ایسی قیود لگا دی ہیں جن سے آدمی ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی تو بسر کر سکتا ہے مگر عیاشیوں میں دولت اڑا نہیں سکتا ،نہ شان و شوکت کے اظہار میں اس قدر حد سے گزر سکتا ہے کہ دوسروں پر اس کی خدائی کا سکہ مجنے لگے ۔بے جا خرچ کی بعض صورتوں کو تو اسلامی قانون میں صراحتاً ممنوع  ٹھہرایا گیا ہے ،اور بعض دوسری صورتوں کی اگرچہ صراحت نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ اپنی دولت ناروا تصرّفات کر نے سے لوگوں کو حکماً روک دے ۔

جائز اور معقول اخراجات سے جو دولت آدمی کے پاس بچے اسے وہ جمع بھی کر سکتا ہے اور مزید دولت پیدا کرنے میں بھی لگا سکتا ہے ۔مگر ان دونوں حقوق پر پابندیاں ہیں ۔جمع کرنے کی صورت میں اسے نصاب سے زائد دولت پر ڈھائی فیصدی سالانہ زکوٰۃ دینی ہو گی ۔کاروبار میں لگانا چاہے تو صرف جائز کاروبار ہی میں لگا سکتا ہے ،جائز کاروبار خواہ آدمی خود کرے یا کسی دوسرے کو اپنا سرمایۂ روپے،زمین یا آلات و اسباب کی صورت میں دے کر نفع و نقصان کا شریک ہو جائے ،یہ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ان حدود کے اندر کام کر کے اگر کوئی شخص کروڑ پتی بھی بن جائے تو اسلام کی نگاہ میں یہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے بلکہ خدا کا انعام ہے ،لیکن جماعتی مفاد کے لیے وہ اس پر دو شرطیں عائد کرتا ہے ۔ایک یہ کہ وہ اپنے تجارتی مال پر زکوٰۃ اور زرعی پیداوار پر عشر ادا کرے ۔دوسرے یہ کہ وہ اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت میں جن لوگوں کے ساتھ شرکت یا اجرت کا معاملہ کرے ان سے انصاف کرے ،یہ انصاف اگر وہ خود نہ کرے گا تو اسلامی حکومت اسے انصاف پر مجبور کرے گی۔

پھر جو دولت ان جائز حدود کے اندر فراہم ہو اس کو بھی اسلام زیادہ دیر تک سمٹا نہیں رہنے دیتا بلکہ اپنے قانون  وراثت کے ذریعے سے ہر پشت کیک بعد دوسری پشت میں اسے پھیلا دیتا ہے ۔اس معاملے میں اسلامی قانون کا رُجحان دنیا کے تمام دوسرے قوانین کے رُجحانات سے مختلف ہے ،دوسرے قوانین کوشش کرتے ہیں کہ جو دولت ایک دفعہ سمٹ چکی ہے وہ پشت در پشت سمٹی رہے ،برعکس اس کے اسلام ایسا قانون بناتا ہے کہ جو دولت ایک شخص نے اپنی زندگی میں فراہم کی ہو وہ اس کے مرتے ہی اس کے قریبی عزیزوں میں بانٹ دی جائے ،قریبی عزیز نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار بحصہ رسدی اس کے وارث ہوں ،اور اگر کوئی دور کا رشتے دار بھی نہ ہو تو پھر پوری مسلم سوسائٹی اس کی حقدار ہے یہ قانون کسی بڑی سرمایہ داری و زمین داری کو مستقل اور دائم نہیں رہنے دیتا ،پچھلی ساری پابندیوں کے باوجود اگر دولت کے سمٹاؤ سے کوئی خرابی پیدا ہو بھی جائے تو یہ آخری ضرب اس کا ازالہ کر دیتی ہے ۔

 

باب اول

 

علم معاشیات کا تعارف

 

                   فصل اول

 

علم معاشیات :۔

علم معاشیات میں انسان کے اس طرز عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو وہ محدود ذرائع کی مدد سے لا محدود خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے ۔

معاشیات کا معنی و مفہوم :۔

معاشیات کا لفظ معاش ،تعیش،عیشا سے نکلا ہے ۔اس کا مادہ عیش (ع ،ی،ش) ہے ۔

قرآن پاک میں یہ لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔چنانچہ فرمایا:

نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوٰۃ  الدنیا(۱)

ترجمہ: دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم نے تقسیم کر دی ہے ۔

دوسری جگہ فرمایا :

معیشۃ ضنکا(۲)

ترجمہ:زندگی کا جینا ۔

تیسری جگہ فرمایا :

وکم اھلکنا من قریۃ م بطرت معیشتھا(۳)

ترجمہ: اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جن کے وسائل زندگی کو ہم تباہ کر چکے ہیں ۔

چوتھی جگہ فرمایا:

وجعلنا لکم فیھا معایش(۴)

ترجمہ:اور ہم نے اس میں تمہارے لیے سامان زندگی پیدا کر دیا ۔

اور پانچویں جگہ اہل جنت کے لیے فرمایا :

فھو فی عیشۃ راضیۃ(۵)

ترجمہ: اور وہ تو خاطر خواہ آرام میں ہو گا۔

مندرجہ بالا آیات میں یہ لفظ جینے ،سامانِ زندگی اور زندگی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے گویایہ لفظ قرآن میں دولت نہیں بلکہ وسائل زندگی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔اہل لغت نے معیشت کے مختلف معنی بیان کیے ہیں ۔

امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں لکھا ہے۔

’’العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامانِ زیست ،کھانے پینے کی وہ تمام اشیاء جن پر زندگی بسر کی جاتی ہے‘‘۔

بیان اللسان میں اس کے معنی زندگانی ،معاش اور پنشن کے ہیں ۔الغرض معیشت سے مراد وہ اشیاء ہیں جو انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں ،جن پر انسانی زندگی کی بقا کا انحصار ہو اس کو ذریعہ زندگی بھی کہہ سکتے ہیں ۔(۶)

مسلم مفکرین کی بیان کردہ تعریفیں

 

ابوالحسن علی بن محمد الماوردی(متوفی 450ھ) :۔

ابوالحسن علی بن محمد الماوردی(متوفی 450ھ)نے اپنی کتب میں اقتصادی موضوعات پر بھی بحث کی ہے ،مال چونکہ اقتصادیات میں بڑی اہمیت کا  حامل ہے اسی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے مال کو اقتصادیات کی بنیاد قرار دیا ہے ،اقتصادیات میں اس کی تشریح و توضیح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’والاموال ضربان:ظاھرۃ و باطنۃ،فالطاھرۃ:مالا یمکن اخفاۂ کالزرع والشمار والمواشی ،والباطنۃ:ما ا مکن اخفاۂ من الذھب والفضۃ وعروض التجارۃ۔(۷)

ترجمہ: مال کی دوقسمیں ہیں : اموال ظاہرہ اور اموال باطنہ ،اموال ظاہرہ سے مراد ہے وہ مال جس کو چھپایا نہ جا سکے جیسے کھیتی ،پھل اور مویشی وغیرہ اور اموال باطنہ سے وہ مال مراد ہے جنہیں چھپایا جا سکے جیسے سونا ،چاندی اور سامانِ تجارت وغیرہ ۔

امام غزالی (متوفٰی 505ھ)

معاشیات کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے امام غزالی لکھتے ہیں : ’’دنیا میں رہنا بغیر کھائے پیئے ناممکن ہے تو یہاں رہ کر کمانا ضروری اور لازمی ہے لہذا کمانے کے صحیح طریقوں کو جاننا ضروری ہے ‘‘(۸)

ابن خلدون (متوفٰی 808ھ)

ابن خلدون معاشیات کی درج ذیل تعریف بیان کرتے ہیں :’’ان المعاش ہو عبارۃ عن ابتغاء الرزق والسعی فی تحصیلہ۔

ترجمہ: معاش رزق ڈھونڈنے اور اسے حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی جد و جہد کا نام ہے ۔(۹)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(متوفٰی 1176ھ)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علم معیشت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہو الحکمۃ الباحثۃ عن کیفیۃ اقامۃ المعادلات  والمعاونات۔

ارتفاق ثانی کے باب میں افراد معاشرہ کے اشیاء کے باہمی تبادلہ ،ایک دوسرے سے معاشی تعاون اور ذرائع معیشت و آمدن کی حکمت سے بحث کرنے کا نام علم معیشت ہے ۔(۱۰)

معاشیات انسانی طرز عمل کا مطالعہ انفرادی زاویہ سے کرتا ہے یا اجتماعی زاویہ سے :۔

معاشیات الگ الگ افراد کے مسائل کا جائزہ لیتا ہے ،بلکہ یہ ایک معاشرتی علم ہے اور معاشرہ میں رہنے والے افراد کے اجتماعی مسائل کا مطالعہ کرتا ہے یعنی اس چیز کا تجزیہ کرتا ہے کہ ایک قوم جس کی ضروریات بیشمار ہیں لیکن اس کے ذرائع محدود ہیں ،ان محدود ذرائع سے لامحدود خواہشات پوری کرنے کے لیے کیا طرزِ عمل اختیار کرتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ افراد کے اجتماعی طرزِ عمل کے مطالعہ سے ہم کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں جو آئندہ انہی مسائل کو حل کرنے کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں اس کے برعکس اگر معاشیات ایک ایک فرد کے مسائل کا جائزہ لے تو کوئی مفید علم وجود میں نہیں آئے گا اور معاشیات میں انسان کے انفرادی طرز  عمل کی بجائے اجتماعی طرز عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔

 

 

 

                   فصل دوم

 

جزوی معاشیات اور کلی معاشیات کی ضرورت :۔

معاشی نظام اور اقتصادی مسائل کے لیے نہ تو تنہا جزوی معاشیات کافی ہے اور نہ کلی معاشیات،بلکہ دونوں زاویہ ہائے فکر کو باہم ملا کر حالات و مسائل کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ملک مجموعی طور پر ترقی کر رہا ہو لیکن بعض صنعتیں بحران سے دو چار ہوں ،اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ معیشت بحیثیت کل جمود و تعطل کا شکار ہو لیکن بعض صنعتیں ترقی کر رہی ہوں ۔اب ظاہر ہے کہ ان صنعتوں کا جائزہ کلی معاشیات کے زاویہ سے نہیں لیا جا سکتا اور نہ ہی جزوی معاشیات کے زاویہ نظر سے ان صنعتوں کا جائزہ پوری معیشت کے لیے مفید ہو سکتا ہے ،چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں زاویہ ہائے فکر کو باہم اس طرح ملایا جائے کہ معیشت کے دونوں رُخ روشن ہوتے چلے جائیں دونوں طرز کے اس انداز ہائے فکر کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر ایکلے اپنی کتاب ’کلیاتی معاشیات‘ میں لکھتے ہیں درحقیقت کلی معاشیات اور جزوی معاشیات کے نظریے میں کوئی واضح خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا ،معیشت کا حقیق نظریہ عمومی ان دونوں پر حاوی ہو گا ،یہ نظریہ انفرادی طرزِ عمل ،انفرادی پیدا واروں اور آمدنیوں اور قیمتوں کی وضاحت پکڑے گا اور انفرادی نتائج کے مجموعے اور اوسطیں ہی اسے مہیا کریں گے جن سے کلی معاشیات کا تعلق ہے ۔(۱۱)

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کلی معاشیات اور جزوی معاشیات کے بنیادی مقاصد ہم آہنگ ہیں کیونکہ دونوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی آبادی کی فلاح و بہبود میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے اور یہ مقصد صرف اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب تمام موجود ہ مادی وسائل سے ایک طرف تو زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے (جو کہ کلی معاشیات کا موضوع ہے ) اور دوسری طرف ان وسائل کی معیاری تخصیص ہو سکے (جو کہ جزوی معاشیات کا موضوع ہے )۔

الغرض جزوی اور کلی معاشیات کے بحیثیت مجموعی اور انفرادی مطالعے سے ہی ہم اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں اس لیے ان دونوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا  اس لیے ہم ان دونوں کے فائدوں پر بحث کرتے ہیں ۔

کلی معاشیات کے فائدے :۔

کلی معاشیات کا زاویہ فکر بڑا اہم اور مفید ہے ،مثلاً مزدوروں کی تنخواہ،اس کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ اگر جزوی معاشیات کا انداز  فکر اختیار کر کے بعض نتائج اخذ کئے جائیں تو وہ پوری معیشت پر حاوی ہوتے ہیں ،اگر ملک کا ہر آجر اپنے اپنے کار خانے کے مزدوروں کی اجرتوں میں کمی کر دے تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ مزدوروں کی قوتِ خرید کم ہو جائے گی اور وہ پہلے سے کم اشیاء خریدیں گے ،ان پہلوؤں سے بچاؤ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مجموعی حیثیت کی کارکردگی کو ایک مجموعی نظر سے دیکھا اور چلایا جائے ۔

اب تقریباً تمام ملکوں میں معاشی منصوبہ بندی کا رواج بڑھ گیا ہے ،قومی معیشت میں سرکاری شعبہ کا دخل زیادہ ہو گیا ہے اور ایسے حالات میں قومی سطح پر صحیح فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کلی معاشیات کے زاویہ فکر کو اختیار کیا جائے ،اس تصور نے معاشیات کو سیاست میں بہت جگہ دی اور سیاسی صورت حال معاشی سرگرمیوں کو مثبت اور منفی دونوں انداز میں متاثر کرتی ہیں ،سیاسی جماعتوں میں سے جس کا لائحہ عمل عوام کے لیے پر کشش ہو ،عوام اسی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں ،اسی طرح اقتصادی منصوبہ بندی کے مطلوبہ مقاصد ملکی حالات کی ساز گاری کے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکتے اور حالات کے ساز گار ہونے کا انحصار سیاست اور سیاسی رہنماؤں پر ہے ،تمام حکومتوں اور ممالک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عالمی منڈیوں پر قبضہ کر کے زیادہ سے زیادہ اقتصادی فوائد حاصل کیے جائیں سپر پاورز امداد کے بہانے چھوٹے ملکوں میں داخل ہوتی  ہیں اور ملکی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں ،اور بعض اوقات انہیں نگل جاتی ہیں ثابت ہوا کہ معاشیات کی وجہ سے سیاسی نظام دہل جاتے ہیں ۔

جزوی معاشیات کے فائدے :۔

جزوی معاشیات کا زاویہ فکر اپنی جگہ مفید اور کار آمد ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر صارف اور ہر آجر اپنے اپنے فیصلے جزوی معاشیات کے نقطہ نگاہ سے ہی کرتا ہے مثلاً ایک صارف قانون مساوی افادۂ  محنتتم کے مطابق ہی اپنی آمدنی خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ تسکین حاصل کر تا ہے ایک آجر قانون مساوی پیداوار محنتتم کے مطابق ہی عاملین پیدائش کو رکھتا اور انہیں ادا کرتا ہے ایک معیشت کی الگ الگ اکائیوں مثلاً فرموں ،صنعتوں اور تجارتی اداروں میں کوئی نقص موجود ہو تو اس کا ازالہ جزوی معاشیات کی رہنمائی میں کیا جا سکتا ہے ایسے معاملات میں کلی معاشیات دستگیری نہیں کرتی ۔

 معاشیات کی ضرورت و اہمیت :۔

تخلیق کائنات کے ساتھ انسان کی بے شمار خواہشات نے جنم لیا ،جب ایک آرزو پوری ہو جاتی تو دوسری سر اُٹھا لیتی ،اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ جاری رہتا تن ڈھانپنے کے لیے لباس ،بھوک مٹانے کے لیے خوراک،رہائش کے لیے مکان ،بیماری دور کرنے کے لیے علاج اور ذہنی نشوونما اور قدرت کی شناسائی حاصل کرنے کے لیے علمِ معاشیات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ بنیادی اختیارات ہیں اور انہیں حاصل کرنا ہی انسان کا منشا و مقصد ہے ۔

معاشیات کے مطالعہ سے ہمیں علمی اور عملی دونوں قسم کے فائدے حاصل ہوتے ہیں ،ایک انسان کے ذرائع معاش واضح طور پر محدود ہوتے ہیں جبکہ اس کی خواہشات لا محدود ہوتی ہیں ۔لازم ہو گا کہ وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع کو اس طرح استعمال کرے کہ ان سے اس کو زیادہ سے زیادہ مقاصد حاصل ہو سکیں اور اس کی شخصی و خانگی فلاح و سعادت کا حصول ممکن ہو ۔

٭٭٭

 

 

 

باب دوم

 

قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی معاشی نظام

 

 

 

                   فصل سوم

بنیادی حقائق :۔

انسانی معیشت کے بارے میں اولین بنیادی حقیقت ،جسے قرآن مجید بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے ،یہ ہے کہ تمام وہ ذرائع و وسائل جن پر انسان کی معاش کا انحصار ہے ،اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اسی نے ان کو اس طرح بنایا اور قوانینِ فطرت پر قائم کیا ہے کہ وہ انسان کے لیے نافع ہو رہے ہیں ،اوراسی نے انسان کو ان سے انتفاع کا موقع دیا اور ان پر تصرف کا اختیار بخشا ہے :

ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشو ا فی منا کبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور(۱۲)

ترجمہ :وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو رام کر دیا ،پس چلو اس (زمین) کی پہنائیوں میں اور کھاؤ اس (خدا) کا رزق اور اسی کی طرف تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر واپس جانا ہے۔

وھو الذی مد الارض وجعل فیھا رواسی وانھرا  ومن کل الثمرات جعل فیھا زوجین اثنین (۱۳)

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے ،دریا جاری کیئے اور ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کیں ۔

ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیع(۱۴)

ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔

اللہ الذی خلق السموات والارض وانزل من السمآء مآء فاخرج بہ من الثمرت رزقالکم وسخرلکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخرلکم الانھر وسخرلکم الشمس والقمر دائبین وسخرلکم الیل والنھار واٰتٰکم من کل ما سآلتموہُ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا(۱۵)

ترجمہ :اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمیں کو پیدا کیا ،اور آسمان سے پانی برسایا ،پھر اس کے ذریعے سے تمہارے رزق کے لیے پھل نکالے،اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا تا کہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے،اور تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کیا اور سورج اور چاند کو تمہارے مفاد میں ایک دستور پر قائم کیا کہ پیہم گردش کر رہے ہیں ،اور دن اور رات کو تمہارے مفاد میں ایک قانون کا پابند کیا ،اور وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا،اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔

ولقد مکنکم فی الارض وجعلنا لکم فیھا معایش(۱۶)

ترجمہ:ہم نے زمین میں تم کو اقتدار بخشا اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے ذرائع فراہم کیئے۔

افرء یتم ما تحرثون ء انتم تزرعونہ ام نحن الزرعون(۱۷)

ترجمہ :کیا تم نے غور کیا ،یہ کھیتیاں جو تم بوتے ہو انہیں اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں ۔

حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات:۔

اللہ تعالیٰ کی بالا تر ملکیت کے ماتحت اور اس کی عائد کردہ حدود کے اندر قرآن شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے :

لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم (۱۸)

ترجمہ:ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ ،مگر یہ کہ تمہارے درمیان تجارت ہو آپس کی رضا مندی سے۔

واحل اللہ البیع وحرم الربوا(۱۹)

ترجمہ :اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا۔

وان تبتم فلکم رء ُوس اموالکم (۲۰)

ترجمہ :اور اگر تم سود لینے سے توبہ کر لو تو تمہیں اپنے راس المال واپس لینے کا حق ہے۔

اذا تداینتم بدین الیٰ اجل مسمی فاکتبوہُ(۲۱)

ترجمہ :جب آپس میں کسی مقرر مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اس کی دستاویز لکھ لو۔

وان کنتم علیٰ سفر ولم تجدو کاتبا فرھن مقبوضۃ(۲۲)

ترجمہ:اور اگر تم سفر میں ہو اور کاتب نہ پاؤ تو رہن بالقبض رکھو۔

لرجال نسیب مما ترک الوالدٰن والاقربون ولنساء نسیب مما ترک الوالدٰن والاقربون(۲۳)

ترجمہ :مردوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو والدین اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو والدین اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو۔

لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتیٰ تستانسوا(۲۴)

ترجمہ:اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو۔

اولم یروااناخلقنالھم مما عملت ایدینا انعاما فھملھا ملکون(۲۵)

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ان کے لیے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے مویشی پیدا کئے اور یہ ان کے مالک ہیں ۔

والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما(۲۶)

ترجمہ :اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت ،دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔

واٰتوا حقہ یوم حصادہ(۲۷)

ترجمہ :اور فصل کاٹنے کے دن (زمین کی پیداوار میں سے )اللہ کا حق ادا کرو۔

خذ من اموالھم صدقۃ(۲۸)

ترجمہ :اے محبوب ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرو۔

واحل لکم ما ورآء ذلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین (۲۹)

ترجمہ :اور ان (حرام عورتوں ) کے سوا (باقی عورتوں کے معاملے میں )یہ بات تمہارے لیے حلال کر دی گئی کہ تم انہیں اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو،نکاح کرنے والے بن کر نہ کہ نا جائز تعلقات رکھنے والے بن کر۔

واٰتواالنساء صدقٰتھن نحلۃ(۳۰)

ترجمہ :اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو۔

واٰتیتم احدٰھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا(۳۱)

ترجمہ :اور اگر تم نے کسی عورت کو (نکاح کے وقت) ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو (طلاق دیتے وقت)اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔

مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل (۳۲)

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بو یا جائے تو اس سے سات بالیں نکلیں ۔

وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم (۳۳)

ترجمہ :اور یہ کہ تم اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔

وفی اموالھم حق لسآئل والمحروم (۳۴)

ترجمہ :اور ان کے مال میں حق ہے سائل اور محروم کے لئے۔

مذکورہ بالا احکام و ہدایات میں سے کسی کا تصور بھی شخصی ملکیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ،قرآن پاک لازماً ایک ایسی معیشت کا نقشہ پیش کرتا ہے جو اپنے تمام گوشوں میں افراد کے حقوق مالکانہ پر مبنی ہے ،اس میں کہیں اس تصور کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ اشیائے صرف اور وسائل پیداوار میں فرق کر کے صرف مقدم الذکر تک شخصی ملکیت کو محدود رکھا جائے اور موخر الذکر کو اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے ۔اسی طرح اس میں محنت سے کمائی ہوئی دولت اور بلا محنت کمائی ہوئی دولت کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں آتا ۔مثلاً یہ ظاہر بات ہے کہ جو شخص ماں ،باپ اولاد ،بیوی ،شوہر یا بھائی بہن سے کوئی میراث پاتا ہے وہ اس کی محنت سے کمائی ہوئی دولت نہیں ہے ،اور جسے زکوٰۃ دی جاتی ہے اس کے لیے بھی وہ اس کی محنت کی کمائی نہیں ہے

معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل : ۔

قرآن اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے ایک پہلو کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح انسانوں کے درمیان رزق اور وسائل زندگی میں بھی مساوات نہیں ہے ،مختلف تمدنی نطاموں کی مصنوعی بے اعتدالیوں سے قطع نظر ،جہاں تک بجائے خود اس فطر ی عدم مساوات کا تعلق ہے اسے قرآن اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا اور اس کی تقسیم و تقدیر کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور اس کی پوری اسکیم میں کہیں اس تخیل کا نشان نہیں ملتا کہ اس عدم مساوات کو مٹا کر کوئی ایسا نظام قائم کرنا مطلوب ہے جس میں سب انسانوں کو ذرائع معاش بربر ملیں ۔

’’وھوالذی جعلکم خلئف الارض ورفع بعضکم فوق بعض درجت لیبلوکم فی ما اتکم (۳۵)

ترجمہ :اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر بلند درجے دیے تا کہ جو کچھ بھی تم لوگوں کو اس نے دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔

انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض وللا خرۃ اکبر درجت واکبر تفضیلا(۳۶)

ترجمہ :دیکھو،کس طرح ہم نے بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے فرق اور تفضیل میں اور بھی زیادہ ہے۔

اھم یقسمون رحمت ربک نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیٰو ۃ الدنیا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجت لیتخذ بعضھم بعضا سخریا ورحمت ربک خیر مما یجمعون (۳۷)

ترجمہ :کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان کی معیشت تقسیم کی ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر بلند درجے دیئے ہیں تا کہ ان میں سے کچھ لوگ کچھ دوسرے لوگوں سے کام لیں ،اور تیرے رب کی رحمت تو اس مال و دولت سے بھی بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کرتے ہیں ۔

ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیر ا بصیر (۳۸)

ترجمہ : در حقیقت تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔

لہ مقالید السموت والارض یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ بکل شیء علیم (۳۹)

ترجمہ :آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے قبضے میں ہیں جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے،وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر لہ(۴۰)

ترجمہ :اے حبیب ،کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تُلا کر دیتا ہے۔

قرآن یہ ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کو یہ فطری عدم مساوات ٹھنڈے دل سے قبول کرنی چاہیے اور دوسروں کو جو فضیلت خدا نے بخشی ہو اس پر رشک و حسد نہیں کرنا چاہیے ۔

’’ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن وسٔلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شیء علیما (۴۱)

ترجمہ :اور تمنا نہ کرو اس فضیلت کی جو اللہ نے تم میں سے کسی کو کسی پر عطا کی ہو،مردوں کے لیے حصہ ہے ان کی کمائی میں سے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے ان کی کمائی میں سے ،البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو،یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

دو آیتیں جن سے آج کل کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن لوگوں کے درمیان رزق میں مساوات چاہتا ہے ،حسب ذیل ہیں :

’’واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلو ابرادی رزقھم علی ما مملکت ایمانھم فھم فیہ سواء افبنعمۃ اللہ یجحدون(۴۲)

ترجمہ:اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے تو جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دینے والے نہیں ہیں کہ وہ ان کے غلام اس میں برابر ہو جائیں ،پھر کیا اللہ ہی کے احسان کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں ۔

’’ضرب لکم مثلا من انفسکم ھل لکم من ما ملکت ایمانکم من شرکاء فی ما رزقنکم فانتم فیہ سواء تخا فونھم کخیفتکم انفسکم کذلک نفصل الایت لقوم یعقلون(۴۳)

ترجمہ:اللہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے ،کیا تمہارے غلاموں میں سے کچھ غلام اس رزق میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے ایسے شریک ہیں کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو ؟اسی طریقہ سے ہم نشانیاں کھول کر پیش کرتے ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔

لیکن ان دونوں آیتوں کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں ،اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہیں اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اصل معاشی عدم مساوات کو مذموم قرار دینے اور اس کو مٹا کر مساوات قائم کرنے کی کوئی تلقین نہیں کی گئی ہے ،بلکہ اس امر واقع کو جو انسانوں میں پایا جاتا ہے ،شرک کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ،یعنی استدلال یہ ہے کہ جب تم اللہ کے دیے ہوئے رزق میں اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ برابر کا شریک بنانے کے لیے تیار نہیں ہو تو اللہ کے متعلق تم نے یہ کیسا تصور قائم کیا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی خدائی میں اس کا شریک ہے ۔

رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندی حدود:۔

قرآن اس حقیقت کو بھی بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے کہ خدا نے دنیا میں اپنی نعمتیں اسی لیے پیدا کی ہیں کہ اس کے بندے ان سے متمتع ہوں ،خدا کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ انسان ان نعمتوں سے اجتناب کر کے رہبانیت اختیار کرے ،البتہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک میں امتیاز کیا جائے،جائز اور ناجائز طریقوں میں فرق کیا جائے ،تمتع اور انتفاع صرف حلال و طیب تک محدود رہے ،اور اس میں بھی حدِ اعتدال سے تجاوز نہ ہو ،

ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا(۴۴)

ترجمہ:وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے ۔

قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق(۴۵)

ترجمہ:اے حبیب ،ان سے پوچھو،کس نے حرام کر دیا اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور رزق کی عمدہ چیزوں کو؟

وکلوا مما رزقکم اللہ حلٰلا طیبا واتقوا اللہ الذی انتم بہ مومنون(۴۶)

ترجمہ:اور کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تم کو بخشی ہیں حلال اور پاکیزہ ،اور بچے رہو اس خدا کی ناراضی سے جس پر تم ایمان لائے ہو۔

خطوٰت الشیطن انہ لکم عدومبین(۴۷)

ترجمہ:لوگو ،کھاؤ جو کچھ زمین میں ہے حلال اور پاک ،اور شیطان کے طریقوں کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

کلوا واشربوا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین(۴۸)

ترجمہ:کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو ،اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا(۴۹)

ترجمہ:اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی،ہم نے وہ ان پر نہیں لکھی تھی ،مگر صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش (ان پر لازم کی تھی)پس انہوں نے اس کا لحاظ نہ کیا جیسا کہ اس کا حق تھا۔

کسب  مال میں حرام و حلال کا امتیاز:۔

اس غر ض کے لیے قرآن یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا جائے ۔

یا یھا الذین اٰمنوا لا تاکلو ااموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ولا تقتلو اانفسکم ان اللہ کان بکم رحیما (۵۰)

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ ،مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری آپس کی رضا مندی سے ،اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو اللہ تمہارے اوپر رحیم ہے ۔

کسب مال کے حرام طریقے :۔

باطل طریقوں کی پوری تفصیل تو احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے اور قانون اسلامی کی کتابوں میں فقہاء نے بیان کی ہے ،لیکن ان میں سے بعض جن کی صراحت قرآن میں کی گئی ہے ،یہ ہے :

 ولا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون (۵۱)

ترجمہ:اورآپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ،اور نہ ان کو حکام کے سامنے پیش کر و تا کہ کھا جاؤ جانتے بوجھتے لوگوں کے مال گنا ہ کے ساتھ ۔

فان امن بعضکم بعضاً فلیُو د الذی او تمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ(۵۲)

ترجمہ:پس اگر تم میں سے ایک شخص دوسرے پر اعتماد کر کے کوئی امانت اس کے سپر د کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے امانت ادا کرنی چاہیے اور اللہ ،اور اللہ اپنے رب کے غضب سے ڈرنا چاہیے ۔

ومن یغلل یات بما غل یوم القیٰمۃ ثم توفی کل نفس ما کسبت (۵۳)

ترجمہ:اور جو کوئی غلول کرے وہ اپنے خیانت کیے ہوئے مال سمیت قیامت کے روز حاضر ہو گا اور ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا۔

والسارق والسارقۃ فاقطعو ایدیھما (۵۴)

ترجمہ:چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔

ان الذین یا کلون اموال الیتمی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارًا وسیصلون سعیرا(۵۵)

ترجمہ:جو لوگ یتیموں کے مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں عنقریب وہ جہنم کی آگ میں جلیں گے۔

اسی طرح قرآن نے حصول دولت کے جن طریقوں کو ممنوع ٹھہرایا ہے وہ بہت زیادہ ہیں مگر مختصراً یہ ہیں :

٭ دوسرے کا مال اس کی رضا کے بغیر اور بلا عوض لینا یا بالعوض اور برضا یا بلا عوض اور برضا اس طرح لینا کہ رضا مندی کسی دباؤ یا دھوکے کا نتیجہ ہو ۔

٭رشوت

٭غصب

٭خیانت خواہ وہ افراد کے مال میں ہو یا پبلک کے مال میں

٭چوری اور ڈاکہ

٭مال یتیم میں بے جا تصرف

٭ناپ تو ل میں کمی بیشی

٭فحش پھیلانے والے ذرائع کا کاروبار

٭گانے بجانے کا پیشہ

٭قحبہ گری اور زنا کی آمدنی

٭شراب کی صنعت اور اس کی بیع اور اس کی حمل و نقل

٭جوا اور تمام وہ طریقے جن سے کچھ لوگوں کا مال کچھ دوسرے لوگو کی طرف منتقل ہونا محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو

٭بت گری ،بت فروشی اور بت خانوں کی خدمات

٭قسمت بتانے اور فال گیری وغیرہ کا کاروبار

٭سود ،خواہ اس کی شرح کم ہو یا زیادہ اور خواہ وہ شخصی ضروریات کے قرضوں پر ہو یا تجارتی و صنعتی اور زراعتی ضروریات کے قرضوں پر ۔

بخل اور اکتناز کی ممانعت :۔

دولت حاصل کرنے کے غلط طریقوں کو حرام کرنے کے ساتھ قرآن مجید جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو بھی جمع کر کے روک رکھنے کی سخت مذمت کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ بخل ایک بہت بڑی برائی ہے ۔

ویل لکل ھمزۃ لمزۃ،الذی جمع مالا وعددہ،یحسب ان مالہ اخلدہ،کلا لینبذن فی الحطمۃ(۵۶)

ترجمہ:بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عیب چین اور بدگو ہے ،جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ سمھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا ،ہر گز نہیں ،وہ پھینکا جائے گا توڑ ڈالنے والی آگ میں ۔

والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم(۵۷)

ترجمہ:اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک سزا کی خبر دے دو۔

ومن یوق شح نفسہ فاُولئک ھم المفلحون (۵۸)

ترجمہ:اور جو دل کی تنگی سے محفوظ رہے ،ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

ولایحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہ ھو خیر ا لھم بل ھو شر لھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیمۃ(۵۹)

ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے ،بلکہ یہ انکے لیے بہت برا ہے جس مال میں انہوں نے بخل کیا ہے اس کا طوق قیامت کے روز ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔

زرپرستی اور حرص مال کی مذمت :۔

اس کے ساتھ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ زر پرستی ،دولت دنیا کی حرص و ہوس ،اور خوشحالی پر فخر و غرور انسان کی گمراہی اور بالآخر اس کی تباہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ۔

الھکم التکاثر ،حتی زرتم المقابر ،کلا سوف تعلمون (۶۰)

ترجمہ:تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی فکر نے مستغرق کر رکھا ہے ،قبر میں جانے تک تم اسی فکر میں منہمک رہتے ہو ،یہ ہر گز تمہارے لیے نافع نہیں ہے ،جلدی ہی تم کو اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔

وکم اھلکنا من قریۃ بطرت معیشتھا فتلک مسکنھم لم تسکن من بعدھم الا قلیلا وکنا نحن الورثین (۶۱)

ترجمہ:کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جو اپنی معیشت پر اترائیں ،اب دیکھ لو ان کے گھروں کو ،کم ہی کوئی ان کے بعد ان گھروں میں بسا ہے ،اور ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔

وما ارسلنا فی قریۃ من نذیر الا قال مترفوھا انا بما ارسلتم بہ کفرون ،وقالو ا نحن اکثر اموالا واولادا وما نحن بمعذبین (۶۲)

ترجمہ:ہم نے جس بستی میں بھی کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا اس کے دولت مند لوگوں نے اس سے کہا کہ جو پیغامِ رسالت تم لے کر آئے ہو ہم اس کے منکر ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم تم سے زیادہ مال اولاد رکھتے ہیں اور ہم ہر گز عذاب پانے والے نہیں ہیں ۔

بے جا خرچ کی مذمت :۔

دوسری طرف قرآن مجید اس بات کی بھی سخت مذمت کرتا ہے کہ انسان جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو ناجائز کاموں میں اڑائے ،یا اپنے ہی عیش اور لطف و لذت پر اسے صرف کرتا چلا جائے اور اپنا معیارِ زندگی زیادہ سے زیادہ بلند کرنے کے سوا اپنی دولت کا کوئی اور مصرف اس کی نگاہ میں نہ ہو ۔

ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین(۶۳)

ترجمہ:خرچ میں حد سے نہ  گزرو،اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔

ولا تبذر تبذیر ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین وکان الشیطٰن لربہ کفورا(بنی اسرائیل (۶۴)

ترجمہ:فضول خرچی نہ کرو،فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔

وکلوا واشربو ا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین (۶۵)

ترجمہ:کھاؤ اور پیو،مگر حد سے نہ گزرو ،اللہ حد سے گزر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

قرآن کی نگاہ میں انسان کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لے ،اس کے مال پر اس کی اپنی ذات کا اور اس کے متعلقین کا حق ہے جسے ادا کرنے میں اس کو بخل بھی نہ کرنا چاہیے ،لیکن صرف یہی ایک حق نہیں ہے کہ وہ سب کچھ اسی پر لٹا دے اور کوئی دوسرا حق نہ پہچانے ۔

ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا(۶۶)

ترجمہ:اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے ۔

والذین اذا انفقو ا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما(۶۷)

ترجمہ(اور اللہ کے نیک بندے وہ ہیں )جو خرچ میں نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخل ،بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں ۔

 

 

 

 

                   فصل چہارم

 

دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے :۔

معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آد می کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ بچے اسے خود ان کاموں پر اس کو صرف کرنا چاہیے ۔

ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو(۶۸)

ترجمہ:لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (راہ خدا میں ) وہ کیا خرچ کریں ،فرماؤ جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ۔

لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شی ء فان اللہ بہ علیم (۶۹)

ترجمہ :تم نیکی کا مقام ہر گز نہ پا سکو گے جب تک کہ خرچ نہ کرو اپنے مال جو تمہیں محبوب ہیں اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ اللہ کو معلوم ہو گا۔

والذین فی اموالھم حق معلوم لسائل والمحروم (۷۰)

ترجمہ:(اور دوزخ کی آگ سے محفوظ )وہ لوگ ہیں جن کے مالوں میں سے طے شدہ حصہ ہے مدد مانگنے والے اور محروم کے لیے ۔

والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا واٰتو ھم من مال اللہ الذی اٰتٰکم (۷۱)

ترجمہ: اور تمہارے غلاموں میں سے جو معاہدہ کرنا چاہیں ان سے معاہدہ کر لو اگر تم ان کے اندر کوئی بھلائی پاتے ہو،اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے ۔

’’ان مصارف کو قرآن نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی نیکی کہتا ہے بلکہ تاکیداً وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسا نہ کرنے میں معاشرے کی مجموعی ہلاکت ہے ‘‘۔

وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقو بایدیکم الی التھلکۃ واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین (۷۲)

ترجمہ:خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو،اور احسان کرو،اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح :۔

قرآن نے اس تعلیم و ہدایت سے معاشرے کے افراد میں رضا کارانہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک عام روح پھونک دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کو یہ ہدایت کی کہ آپ کم سے کم انفاق کی ایک حد مقرر کر کے ایک فریضہ کے طور پر اسلامی ریاست کی طرف سے اس کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کریں ۔

خذ من اموالھم صدقۃ (۷۳)

ترجمہ: اے حبیب ان کے اموال میں سے ایک صدقہ وصول کرو۔

یہ ’’ایک صدقہ‘‘ کا لفظ اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ عام صدقات ،جو فرد اً فرداً بطور خود لوگ دیتے ہیں ،ان کے علاوہ ایک خاص مقدار صدقہ ان پر فرض کر دی جائے ،اور اس کا تعین رسول اللہ ﷺ خود کریں ،چنانچہ اس حکم کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے مختلف اقسام کی ملکیتوں کے بارے میں ایک کم سے کم حد مقرر فرما دی جس سے کم پر فرض زکوٰۃ عائد نہ ہو گی ،پھر بقدر نصاب یا اس سے زائد ملکیتوں پر مختلف اموال کے معاملے میں زکوٰۃ کی حسب ذیل شرح مقرر فرمائی :۔

٭ سونے چاندی اور زرِ نقد کی صورت میں جو دولت جمع ہو اس پر اڑھائی فیصد سالانہ ۔

٭زرعی پیداوار پر ،جبکہ وہ بارانی زمینوں سے ہو 10دس فیصد ۔

٭زرعی پیداوار پر ،جبکہ وہ مصنوعی آب پاشی سے ہو 5پانچ فیصد ۔

٭معدنیات پر جبکہ وہ نجی ملکیت میں ہوں اور ،دفینوں پر 20بیس فیصد ۔

(مواشی پر ،جو افزائش نسل اور فروخت کی غرض سے پالے جائیں ،زکوٰۃ کی شرح بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ وغیرہ جانوروں کے معاملے مختلف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مضمون کا حصہ نہیں )

یہ مقدار  زکوٰۃ آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے اسی طرح مسلمانوں پر فرض کی ہے جس طرح پانچ نمازیں آپ ﷺ نے اس کے حکم سے فرض کی ہیں ،دینی فریضے اور لزوم کے اعتبار سے ان دونوں کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں ہے ،قرآن مجید اس بات کو اسلامی حکومت کے بنیادی مقاصد میں شمار کرتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرے ۔

الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوٰۃ واٰتوا الزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر(۷۴)

ترجمہ:(یہ اہل ایمان ،جن کو دفاعی جنگ کی اجازت دی جا رہی ہے ،وہ لوگ ہیں )جنھیں اگر ہم نے زمین میں اقتدار بخشا تو یہ نماز قائم کریں گے ،زکوٰۃ دیں گے ،نیکی کا حکم دیں گے ،اور بدی سے روکیں گے ۔

(فرض زکوٰۃ کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام اگرچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے ،مگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی صورت میں ،یا مسلم حکومت کے اس طرف سے غفلت برتنے کی صورت میں ،مسلمانوں پر سے یہ فرض ساقط نہیں ہو جاتا ،بالکل اسی طرح جس طرح نما ز کا فرض ساقط نہیں ہوتا ،کوئی اگر وصول کرنے اور تقسیم کرنے والا نہ ہو تو ہر صاحبِ نصاب مسلمان کو خود اپنے مال سے زکوٰۃ نکالنی اور تقسیم کرنی چاہیے )

نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت :۔

جو لوگ خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنی املاک میں صحیح تصرف نہ کر سکتے ہوں اور ان کو ضائع کر رہے ہوں ،یا بجا طور پر اندیشہ ہو کہ ضائع کر دیں گے ،ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کی املاک ان کے اختیار میں نہ دی جائیں ،بلکہ وہ ان کے سر پرست یا قاضی کے انتظام میں رہیں ،اور انہیں صرف اس وقت سونپی جائیں جب اس امر کا اطمینان ہو جائے کہ وہ اپنے معاملات کو ٹھیک طرح سنبھال سکیں گے :

ولا تو توا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا۰ وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغو االنکاح فان اٰنستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم(۷۵)

ترجمہ:اور اپنے اموال ،جنہیں اللہ نے تمہارے لیے زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے ،نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو،البتہ انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے معقول بات کرو،اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ،یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور تم ان میں ہوش مندی محسوس کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔

اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ شخصی املاک اگرچہ ان اشخاص ہی کی ملک ہیں جو ان پر قانوناً حق  ملکیت رکھتے ہوں ،لیکن وہ با لکل یہ انھیں کی نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ اجتماعی مفاد بھی وابستہ ہے ،اسی بنا پر قرآن نے اموالھم (ان کے مال) کہنے کے بجائے اموالکم (تمہارے مال ) کے الفاظ استعمال کرتا ہے ،اور اسی بنیاد پر وہ سر پرستوں اور قاضیوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ جہاں شخصی املاک میں بے جا تصرف سے معاشرے کا اجتماعی نقصان کیا جا رہا ہو ،یا ایسے نقصان کا معقول اندیشہ ہو ،وہاں مالک کے حقِ ملکیت اور حق  انتفاع کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا حق  تصرف اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔

سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ :۔

جو جائیدادیں اور اموال اور آمدنیاں حکومت کی ملک ہوں ،ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کا صرف محض دولت مند طبقوں کے مفاد میں نہیں بلکہ عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے ،اور خصوصیت کے ساتھ ان کے صرف میں معاشرے کے کمزور طبقات کی بھلائی کا زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے ۔

ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ :۔

ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قرآن اس اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کا بار صرف ان لوگوں پر پڑنا چاہیے ،جو اپنی ضرورت سے زیادہ مال رکھتے ہیں ،اور ان کی دولت کے بھی صرف اس حصے پر یہ بار ڈالا جانا چاہیے جو ان کی ضرورت سے زائد بچتا ہو ۔

ویسئلونک ماذا ینفقون قل  العفو(۷۶)

ترجمہ:اور تم سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ،کہو جو  کچھ تمہاری ضرورت سے بچے ۔

اسلامی نظام معیشت کی خصوصیات :۔

قرآن کے ان نکات میں انسان کی معاشی زندگی کے لیے جو اسکیم مرتب کی گئی ہے اس کے بنیادی اصول اور نمایاں خصائص یہ ہیں :

٭ یہ اسکیم معاشی انصاف ایسے طریقے سے قائم کرتی ہے جس سے ایک طرف ہر طرح کے معاشی ظلم اور بے جا استحصال کا سدِ باب بھی ہو ،اور دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی فضائل کا نشوونما بھی ہو سکے ،قرآن کے پیش نظر ایسا معاشرہ بنانا نہیں ہے جس میں کوئی کسی کے ساتھ خود نیکی نہ کر سکے اور افراد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا یہ کام ایک اجتماعی مشن کے ذریعے سے ہوتا رہے ،کیوں کہ اس طرح کے معاشرے میں اخلاقی فضائل کے نشوونما کا کوئی امکان نہیں رہتا ،قرآن اس کے برعکس وہ معاشرہ بناتا ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رضا کارانہ اور بے غرضانہ فیاضی ،ہمدردی اور احسان کا برتاؤ کریں اور اس کی بدولت ان کے درمیان آپس کی محبت فروغ پائے ،اس غرض کے لیے وہ زیادہ تر انحصار لوگوں کے اندر ایمان پیدا کرنے اور ان کو تعلیم وتربیت کے ذریعہ سے بہتر انسان بنانے کی تدبیروں پر کرتا ہے ،پھر جو کسر باقی رہ جاتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے وہ ان جبری احکام سے کام لیتا ہے جو اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہیں ۔

٭اس میں معاشی اقدار کو اخلاقی اقدار سے الگ رکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے اور معیشت کے مسائل کو مجرد معاشی نقطۂ نظر سے لے کر حل کرنے کے بجائے انہیں اس مجموعی نظام حیات کے تناسب میں رکھ کر حل کیا گیا ہے جس کی عمارت اسلام نے کلیۃً خدا پر ستانہ تصور کائنات و فلسفۂ اخلاق پر استوار کی ہے ۔

٭اس میں زمین کے معاشی وسائل و ذرائع کو نو ع  انسانی پر خدا کا فضل  عام قرار دیا گیا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی ،گروہی یا قومی اجارہ داریوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور اس کے بجائے خدا کی زمین پر بنی نوع انسان کو اکتساب رزق کے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک کھلے مواقع دیے جائیں ۔

٭اس میں افراد کو شخصی ملکیت کا حق دیا گیا ہے مگر غیر محدود نہیں فرد کے حق ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ یہ اسکیم ہر فرد کے مال میں اس کے اقربا،ہمسایوں ،دوستوں ،حاجت مند اور کم نصیب انسانوں ،اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے حقوق بھی قائم کرتی ہے ،ان حقوق میں سے بعض جبری طور پر قابل تنفیذ ہیں اور بعض کو سمجھنے اور ادا کرنے کے لیے خود افراد کو ذہنی و اخلاقی تربیت کے ذریعے سے تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے ۔

٭انسانی زندگی کے معاشی نظام کو چلانے کی فطری صورت اس اسکیم کی رو سے یہ ہے کہ افراد اسے آزادانہ سعی و جہد کے ذریعے سے چلائیں اور ترقی دیں ،لیکن یہ آزادانہ سعی و جہد اس میں بے قید نہیں رکھی گئی ہے ،بلکہ معاشرے کی اور خود ان افراد کی اپنی اخلاقی و تمدنی اور معاشی بھلائی کے لیے اسے بعض حدود سے محدود کیا گیا ہے۔

٭اس میں عورت اور مرد دونوں کو ان کی کمائی ہوئی اور میراث یا دوسرے جائز ذرائع سے پائی ہوئی دولت کا یکساں مالک قرار دیا گیا ہے اور دونوں صنفوں کو اپنے حق ملکیت سے متمتع ہونے کے یکساں حقوق دیئے گئے ہیں ۔

٭اس میں معاشی توازن بر قرار رکھنے کے لیے ایک طرف تو لوگوں کو بخیلی اور رہبانیت سے روک کر خدا کی نعمتوں کے استعمال پر ابھارا گیا ہے ،اور دوسری طرف انہیں اسراف اور فضول خرچی اور عیاشی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔

٭اس میں معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ دولت کا بہاؤ نہ تو غلط ذرائع سے کسی خاص سمت میں چل

؎ پڑے اور نہ جائز ذرائع سے آئی ہوئی دولت کہیں ایک جگہ سمٹ کر بے کار رکی رہ جائے ،اس کے ساتھ وہ یہ انتظام بھی کرتی ہے کہ دولت زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرد ش میں آئے اور اس کی گردش سے خصوصیت کے ساتھ ان عناصر کو حصہ ملے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا مناسب حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہوں ۔

٭یہ اسکیم معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قانون اور ریاست کی مداخلت پر زیادہ انحصار نہیں کرتی ،چند ناگزیر تدابیر کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد وہ اس مقصد کے لیے اپنی تدابیر کا نفاذ افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے سے کرتی ہے تا کہ آزاد سعی و جہد کی معیشت کے منطقی تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی انصاف کا مقصد حاصل ہو سکے ۔

٭ معاشرے کے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے وہ اس کے اسباب کو ختم کر کے ان کے درمیان تعاون اور رفاقت کی روح پیدا کرتی ہے ۔

یہ اصول نبی پاکﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد میں جس طرح عملاً ریاست اور معاشرے کے نظام میں نافذ کیے گئے تھے اس سے ہم کو احکام اور نظائر کی شکل میں بہت سی مزید تفصیلات حاصل ہوتی ہیں ،لیکن یہ بحث اس باب کے موضوع سے خارج ہے اس کے متعلق حدیث ،فقہ ،تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں وسیع مواد موجود ہے جس کی طرف تفصیلات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

 

 

باب سوم

 

موجودہ معاشی بحران کا حل اور اسلامی نظامِ معیشت کے اصول اور مقاصد

 

فصل پنجم

 

  نظمِ معیشت کے مقاصد :۔

اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے ،اب جو اصول اسلام نے ہم کو دیے ہیں ان کے بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ہم ان مقاصد کو اچھی طرح سمجھ لیں جنہیں اسلام کے معاشی نظام میں ملحوظ رکھا گیا ہے ،کیوں کہ اس کے بغیر ان اصولوں کو نہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ،نہ حالات و ضروریات پر ان کا انطباق کیا جا سکتا ہے ،اور نہ تفصیلی احکام کا استخراج ان کی حقیقی روح کے مطابق ہو سکتا ہے ۔

انسانی آزادی :۔

اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف اس حد تک اس پر پابندی عائد کی جائے جس حد تک نوع  انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے ،اسلام انسان کی آزادی کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے ،یہ جواب دہی مشترک نہیں ہے بلکہ ہر شخص فرداً فرداً ذمہ دار ہے اور اس کو فرداً فرداً اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اس جوابدہی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے انتخاب کے مطابق کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے اس لیے اسلام افراد کے لیے اخلاقی اور سیاسی آزادی کے ساتھ ان کی معاشی آزادی کو بھی اہمیت دیتا ہے اگر افراد کو معاشی آزادی حاصل نہ ہو تو ان کی اخلاقی اور سیاسی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے ۔آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو آدمی اپنی معاش کے معاملے میں کسی دوسرے شخص یا ادارے یا حکومت کا دست نگر ہو وہ اگر اپنی کوئی آزادانہ رائے رکھتا بھی ہو تو وہ اپنی اس رائے پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہو سکتا ،اس لیے اسلام معاشی نظام کے لیے ہم کو ایسے اصول دیتا ہے جن سے فرد کے لیے اپنی روزی کمانے کیک معاملے میں زیادہ سے زیادہ آزادی موجود رہے اور اس پر صرف اتنی پابندی عائد کی جائے جتنی حقیقت میں انسانی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے اسی لیے اسلام سیاسی نظام بھی ایسا چاہتا ہے جس میں حکومت لوگوں کی آزاد مرضی سے بنے ،لوگ اپنی مرضی سے اس کو بدلنے پر قادر ہوں ،لوگو کے ،یا ان کے معتمد علیہ نمائندوں کے مشورے سے اس کا نظام چلایا جائے ،لوگوں کو اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو،اور حکومت کو غیر محدود اختیارات حاصل نہ ہوں بلکہ وہ ان کے حدود کے اندر ہی رہ کر کام کرنے کی مجاز ہو جو قرآن و سنت کے بالاتر قانون نے اس کے لیے مقرر کر دیے ہیں اس کے علاوہ اسلام میں خدا کی طرف سے لوگوں کے بنیادی حقوق مستقل طور پر مقرر کر دیے گئے ہیں جنہیں سلب کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے ،یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ افراد کی آزادی محفوظ رہے اور کوئی ایسا جابرانہ نظام مسلط نہ ہونے پائے جس میں انسانی شخصیت کا ارتقاء ٹھٹھر کر رہ جائے ۔

اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی :۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی نظام میں فرد کو اختیاری حسن عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل رہیں تا کہ انسانی زندگی میں فیاضی ،ہمدردی ،احسان اور دوسرے اخلاقی فضائل رو بعمل آسکیں ،اسی بنا پر معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے اسلام صرف قانون پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اس معاملہ میں وہ سب سے بڑ ھ کر جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان ،عبادات،تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعہ سے انسان کی داخلی اصلاح کی جائے اس کے ذوق کو بدلا جائے،اس کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کیا جائے اور اس کے اندر ایک مضبوط اخلاقی حِس پیدا کی جائے ،جس سے وہ خود انصاف پر قائم رہے ،ان ساری تدبیروں سے جب کام نہ چلے تو مسلمانوں کے معاشرے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی دباؤ سے آدمی کو حدود کا پابند رکھے اس سے بھی جب کام نہ چلے تب اسلام قانون کی طاقت استعمال کرتا ہے تا کہ بزور انصاف قائم کیا جائے ،اسلامی نقطۂ نظر سے ہر وہ اجتماعی نظام غلط ہے جو انصاف کے قیام کے لیے صرف قانون کی طاقت پر انحصار کرے اور انسان کو اس طرح باندھ کر رکھ دے کہ وہ اپنے اختیار سے بھلائی کرنے پر سرے سے قادر ہی نہ رہے ۔

تعاون و توافق اور انصاف کا قیام :۔

تیسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے ،اس لیے وہ انسانی معاشرے کو طبقات میں تقسیم نہیں کرتا ،اور فطری طور پر جو طبقات موجود ہیں ان کو طبقاتی نزاع کے بجائے ہمدردی اور تعاون کی راہ دکھاتا ہے انسانی معاشرے کا آپ تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہاں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں ایک قسم کے طبقات وہ جو مصنوعی طور پر ایک ظالمانہ سیاسی ،معاشرتی اور معاشی نظام ناروا طریقے سے پیدا کر دیتے ہیں اور پھر زبردستی ان کو قائم رکھتے ہیں ،مثلاً وہ طبقات جو برہمینت نے پیدا کیے ،یا وہ جو جاگیرداری نظام نے پیدا کیے ،یا وہ جو مغرب کے سرمایہ داری نظام نے پیدا کیے ،اسلام نہ خود ایسے طبقات کو پیدا کرتا ہے اور نہ ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنی اصلاحی اور قانونی تدابیر سے ان کو ختم کر دیتا ہے ،دوسری قسم کے طبقات وہ ہیں جو انسانی قابلیتوں کے فرق اور انسانی حالات کے فرق کی بنا پر فطرتاً پیدا ہوتے ہیں اور فطری طریقے پر ہی بدلتے رہتے ہیں اسلام ایسے طبقات کو نہ زبردستی مٹاتا ہے نہ ان کو مستقل طبقات میں تبدیل کرتا ہے اور نہ انہیں آپس میں لڑاتا ہے بلکہ وہ اپنے اخلاقی ،سیاسی ،معاشرتی اور معاشی نظام کے ذریعے سے ان کے درمیان منصفانہ تعاون پیدا کرتا ہے ان کو ایک دوسرے کا ہمدرد اور مددگار بناتا ہے ،اور تمام لوگوں کے لیے مواقع کی یکسانی بھم پہنچا کر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن میں یہ طبقات فطری طریقے سے تحلیل اور تبدیل ہو تے رہتے ہیں ۔

بنیادی اصول :۔

یہ تین چیزیں ہیں جن کو ہم نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ ہماری سمجھ میں آسکیں گے ،اب اس معاشی نظام کے جو بڑے بڑے اصول ہیں وہ میں مختصر طور پر لکھتا ہوں ۔

شخصی ملکیت اور اس کے حدود:۔

اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کے درمیان ،یا محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اور محنت کے بغیر کمائی ہوئی آمدنی کے درمیان فرق نہیں کرتا ،وہ انسان کو ملکیت کا عام حق دیتا ہے ،البتہ اس کو کچھ حدود سے محدود کردیتا ہے ،اسلام میں یہ تصور موجود نہیں ہے کہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کی حد تک اس کو محدود کر دیا جائے ،اسلامی نقطہ نظر سے ایک شخص جس طرح کپڑے اور برتن اور گھر کا فرنیچر رکھنے کا مجاز ہے اسی طرح وہ زمین اور مشین اور کارخانہ رکھنے کا بھی مجاز ہے ،اسی طرح ایک شخص جس طرح اپنی براہِراست محنت سے کمائی ہوئی دولت کا جائز مالک ہو سکتا ہے اسی طرح وہ اپنے باپ یا ماں یا بیوی یا شوہر کی چھوڑی ہوئی دولت کا بھی مالک ہو سکتا ہے ،اور وہ مضاربت یا شرکت کے اصول پر ایک ایسی کمائی میں حصہ دار بھی بن سکتا ہے جو اس کے دیے ہوئے سامائے پر کام کر کے ایک دوسرے شخص نے اپنی محنت سے حاصل کی ہو ،اسلام ایک طرح کی ملکیت اور دوسری طرح کی ملکیت کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتا کہ یہ ذرائع پیداوار کی ملکیت ہے یا اشیائے صرف کی ملکیت ،یا یہ محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے یا بے محنت حاصل کی ہوئی دولت ،بلکہ وہ اس لحاظ سے فرق کرتا ہے کہ یہ جائز ذرائع سے آئی ہے یا ناجائز ذرائع سے ،اور اس کا استعمال آپ صحیح طریقے سے کرتے ہیں یا غلط طریقے سے ،اسلام میں پوری معاشی زندگی کا نقشہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ انسان کچھ حدود کے اندر اپنی معاش کمانے کے لیے آزاد ہے ،اسلام کی نگا ہ میں انسان کی آزادی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اور اس آزادی پر ہی وہ آدمیت کے نشوونما کی ساری عمارت تعمیر کرتا ہے ،معاش کے ذرائع و وسائل میں شخصی ملکیت کا حق دینا انسان کو اسی آزادی کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے ،اگر شخصی ملکیت کا حق اس سے چھین لیا جائے اور تمام وسائل  معاش پر اجتماعی ملکیت قائم کر دی جائے تو انفرادی آزادی لازماً ختم ہو جاتی ہے ،کیوں کہ اس کے بعد تو معاشرے کے تمام افراد اس ادارے کے ملازم بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں پوری مملکت کے وسائل معاش کا کنٹرول ہو ۔

منصفانہ تقسیم :۔

اسلامی نظام  معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی تقسیم کے بجائے منصفانہ تقسیم چاہتا ہے اس کے پیش نظر ہر گز یہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان ذرائع زندگی کو برابر تقسیم کیا جائے ،قرآن مجید کو جو شخص بھی پڑے گا اس کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی اس کائنات میں کہیں  بھی مساوی تقسیم نہیں پائی جاتی ، مساوی تقسیم ہے ہی غیر فطری چیز ،کیا تمام انسانوں کو یکساں صحت دی گئی ہے ؟کیا تمام انسانوں کو یکساں ذہانت دی گئی ہے ؟کیا تمام انسانوں کا حافظہ یکساں ہیں ؟کیا تمام انسان حسن میں ،طاقت میں ،قابلیت میں برابر ہیں ؟کیا تمام انسان ایک ہی طرح کے حالاتِ پیدائش میں آنکھیں کھولتے ہیں اور دنیا میں کام کرنے کے لیے بھی سب کو ایک ہی طرح کہ حالات ملتے ہیں ؟اگر ان ساری چیزوں میں مساوات نہیں ہے تو ذرائع پیداوار یا تقسیم دولت میں مساوات کے کیا معنی ؟یہ عملاً ممکن ہی نہیں ہے اور جہاں بھی مصنوعی طور پر اس کی کوشش کی جائے گی وہ لازماً نا کام بھی ہو گی اور غلط نتائج بھی پیدا کرے گی اسی لیے اسلام یہ نہیں کہتا ہے کہ وسائل  معیشت اور ثمراتِ معیشت کی مساوی تقسیم ہونی چاہیے بلکہ وہ کہتا ہے کہ منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے اور اس انصاف کے لیے وہ چند قاعدے مقرر کرتا ہے ۔

ان قواعد میں سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع میں اسلام نے حرام اور حلال کی تمیز قائم کی ہے ایک طرف وہ فرد کو یہ حق دیتا ہے کہ آزادانہ طریقے سے سعی و جہد کر کے اپنی معاش حاصل کرے اور جو کچھ کمائے وہ اس کی ملکیت ہے دوسری طرف سعی و جہد کرنے کے طریقوں میں اس نے حرام اور حلال کی حدیں مقرر کر دی ہیں اس کے ضابطہ کی رو سے ایک شخص حلال ذرائع سے اپنی روزی کمانے میں پوری طرح آزاد ہے ،جس طرح چاہے کمائے اور جتنا چاہے کمائے ،اس کمائی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک ہے کوئی اس کی جائز ملکیت کو محدود کرنے کا یا اس سے چھین لینے کا حق نہیں رکھتا ،البتہ حرام ذرائع سے ایک حبہ حاصل کرنے کا بھی وہ مجاز نہیں ہے ،ایسی کمائی سے حاصل کی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک نہیں ہے ،اس کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس کو قید ،جرمانے یا ضبطی مال کی سزا بھی دی جائے گی ،اور ارتکاب  جرم سے اس کو روکنے کی تدابیر بھی اختیار کی جائیں گی ۔

جن ذرائع کو اسلام میں حرام کر دیا گیا ہے وہ یہ ہیں :خیانت ،رشوت ،غصب ،بیت المال میں غبن ،سرقہ ،ناپ تو ل میں کمی ،فحش پھیلانے والے کاروبار ،قحبہ گری ،شراب اور دوسرے مسکرات کی صنعت و تجارت ،سود ،جوا ،سٹہ بیع کے وہ تمام طریقے جو دھوکے یا دباؤ پر مبنی ہوں ،یا جن سے جھگڑے اور فساد کو راہ ملتی ہو ،یا جو انصاف اور مفادِ عامہ کے خلاف ہوں ۔ان ذرائع کو اسلام اَز رُوئے قانون روک دیتا ہے ان کے علاوہ وہ احتکار کو ممنوع ٹھہراتا ہے اور ایسی اجارہ داریوں کو روکتا ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر دولت اور اسی پیدائش کے وسائل سے عام لوگوں کو استفادہ کے مواقع سے محروم کرتی ہوں ۔

ان طریقوں کو چھوڑ کر جائز ذرائع سے جو دولت آدمی کمائے وہ اس کی حلال کمائی ہے ،اس حلال دولت سے وہ خود بھی استفادہ کر سکتا ہے ،ہبہ اور بخشش سے دوسروں کی طرف منتقل بھی کر سکتا ہے ،مزید دولت کمانے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے ،اور اپنے وارثوں کے لیے میراث بھی چھوڑ سکتا ہے ،اس جائز

کمائی پر کوئی پابندی ایسی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر جاکر مزید کمانے سے روک دیتی ہیء ،ایک شخص حلال ذرائع سے کروڑ پتی بن سکتا ہے تو اسلام اس کے راستے میں حائل نہیں ہے ،جتنی ترقی بھی وہ معاشی حیثیت سے کر سکتا ہے کرے ،مگر جائز ذرائع سے کرے اگرچہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بننا آسان کام نہیں ہے ،غیر معمولی ہی کسی شخص پر اللہ کا فضل ہو جائے تو ہو جائے ،ورنہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بن جانے کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے لیکن اسلام کسی کو باندھ کر نہیں رکھتا ،حلال ذرائع سے وہ جتنا بھی کما سکتا ہو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ،کیونکہ بے جا رکاوٹوں اور حد بندیوں سے انسان کے لیے محنت کرنے کا کوئی محرک باقی نہیں رہتا ۔

اس کے بعد جو دولت آدمی کو حاصل ہوتی ہے اس کے استعمال پر پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں :

اس کے استعمال کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اسے اپنی ذات پر خرچ کریاس خرچ پر اسلام ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جن سے وہ آدمی نے اپنے اخلاق اور معاشرے کے لیے کسی طرح نقصان دہ نہ ہوسکے ،وہ شراب نہیں پی سکتا ،زنا نہیں کر سکتا ،جوئے بازی میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتا ،عیاشی کی کوئی خلافِ اخلاق سورت اختیار نہیں کرسکتا ،سونے چاندی کے برتن استعمال نہیں کر سکتا ،حتیٰ کہ اگر رہن سہن میں وہ بہت زیادہ شان و شوکت اختیار کرے تو اس پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس کا کم و بیش کوئی حصہ بچا لے اور اس کو روک رکھے اسلام اس کو پسند نہیں کرتا ،وہ چاہتا ہے کہ جو دولت بھی کسی کے پاس پہنچ گئی ہے وہ رک کر نہ رہ جائے بلکہ جائز طریقوں سے گردش میں آتی رہے رکی ہوئی دولت پر ایک خاص قانون کے مطابق اسلام زکوٰۃ عائد کرتا ہے تاکہ اس کا ایک حصہ لازماً محروم طبقات اور اجتماعی خدمات کے لیے استعمال ہو ،قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جن افعال کی اس میں سخت مذمت کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ کہ آدمی خزانے جمع کرنے کی کوشش کرے ،وہ کہتا ہے کہ جو لوگ سونے اور چاندی کے ذخیرے جمع کرتے ہیں ان کا جمع کیا ہوا سونا اور چاندی جہنم میں ان کو داغنے کے لیے استعمال کیا جائے گا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت خدا نے نوع انسانی کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے اسے بند کر کے رکھ لینے کا کسی کو حق نہیں ہے ،آپ جائز ذرائع سے کمائیے ،اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور پھر جو کچھ بچے اسے کسی نہ کسی طرح جائز طریقے سے گردش میں لائے ۔

اسی لیے اسلام احتکار کو بھی منع کرتا ہے احتکار کے معنی یہ ہیں کہ آپ اشیائے ضرورت کو قصداً روک کر رکھیں تا کہ بازار میں ان کی رسد کم ہو اور قیمتیں چڑھ جائیں یہ حرکت اسلامی قانون میں حرام ہے آدمی کو سیدھی طرح تجارت کرنی چاہیے اگر آپ کے پاس کوئی مال بیچنے کے لیے موجود ہے اور بازار میں اس کی مانگ ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ آپ اسے فروخت کرنے سے انکار کریں جان بوجھ کر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا کرنے کے لیے فروخت سے انکار کر دینا آدمی کو تاجر کے بجائے لٹیرا بنا دیتا ہے ۔

اسی بنا ء پر اسلام بے جا نوعیت کی اجارہ داریوں کا بھی مخالف ہے ،کیوں کہ وہ وسائل معاش سے عام لوگوں کے استفادے میں مانع ہوتی ہیں اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کسب معیشت کے کچھ مواقع اور ذرائع بعض خاص اشخاص یا خاندانوں یا طبقوں کے لیے مخصوص کر دیے جائیں اور دوسرے اگر اس میدان میں آنا چاہیں تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی جائے ،اجارہ داری اگر کسی نوعیت کی جائز ہے تو صرف وہ جو اجتماعی مفاد کے لیے بالکل ناگزیر ہو ،ورنہ اصولا ً اسلام یہ چاہتا ہے کہ جدوجہد کا میدان سب کے لیے کھلا رہے اور ہر شخص کو اس میں ہاتھ پاوں مارنے کے مواقع حاصل رہیں ۔بچی ہوئی دولت کو اگر کوئی شخص مزید دولت کمانے میں استعمال کرنا چاہے تو یہ استعمال صرف ان طریقوں سے ہو سکتا ہے جو کسب  معیشت کے لیے اسلام میں حلال قرار دیئے گئے ہیں حرام طریقے ،جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ،اس غرض کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے ۔

 

 

 

 

                   فصل ششم

 

اجتماعی حقوق:۔

پھر اسلام دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی القربیٰ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی کی کمائی پر اس کی اپنی ذات کے سوا اس کے رشتے داروں کا حق بھی ہے ،معاشرے کے اندر ایک ایک آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنی ضرورت سے زائد دولت رکھتا ہے اور اس کے اپنے رشتہ داروں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ضرورت سے کم دولت مل رہی ہے تو اس شخص کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک ان کی مدد کرے ،کسی قوم میں ایک ایک خاندان کے لوگ اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں تو بحیثیت مجموعی قوم کے بیشتر خاندانوں کو سنبھالنے کا انتظام ہو سکتا ہے اور کم ہی خاندان ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بیرونی امداد کے محتاج ہوں اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید حقوق العباد میں سب سے پہلے ماں ،باپ اور رشتے داروں کے حق کا ذکر کرتا ہے اسی طرح قرآن مجید آدمی کی دولت پر اس کے ہمسایوں کا حق بھی عائد کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر محلے ،ہر گلی اور ہر کوچے میں جو لوگ نسبتاً خوش حال ہوں وہ ان لوگوں کو سنبھالیں جو اسی محلے اور گلی اور کوچے میں نسبتاً بد حال اور دست گیری کے محتاج پائے جاتے ہوں ۔

ان دو ذمہ داریوں کے بعد قرآن مجید ہر کھاتے پیتے آدمی پر یہ ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ وہ اپنی حد  وسع تک ہر اس شخص کی مدد کرے جو مدد مانگے یا مدد کا محتاج ہو القرآن’’ لوگوں کے مالوں میں حق ہے سائل کا اور محروم کا ‘‘ سائل وہ ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتا ہے ،اس سے مراد یہ پیشہ ور بھیک منگے نہیں ہیں جنھوں نے بھیک کو ہی وسیلہ معاش بنا رکھا ہے ،بلکہ اس سے مراد یہ پیشہ ور بھیک منگے نہیں ہیں جنھوں نے بھیک کو ہی وسیلہ معاش بنا رکھا ہے ،بلکہ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو واقعی حاجت مند ہو اور آپ سے آکر درخواست کرے کہ آپ اس کی مدد کریں ،آپ یہ اطمینان ضرور کر لیں کہ یہ واقعی حاجت مند ہے لیکن اگر معلوم ہو جائے کہ وہ حاجت مند ہے ،اور آپ اپنی ضرورت سے زائد روپیہ بھی رکھتے ہیں جس سے اس کی مدد کرنا آپ کے لیے ممکن ہے ،تو پھر آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے مال میں اس کا بھی حق ہے ،رہا محروم تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے تو نہیں آتا مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنا رزق پانے سے یا پوری طرح پانے سے محروم رہ گیا ہے یہ شخص بھی آپ کے مال میں حقدار ہے ۔

ان حقوق کے علاوہ اسلام نے مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا عام حکم دے کر پورے معاشرے اور ریاست کا حق بھی ان کے مالوں میں قائم کر دیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کو ایک فیاض،فراخ دل ،حساس اور ہمدردِ خلائق ہستی ہونا چاہیے ،اور اس کو کسی خود غرضانہ جذبے سے نہیں بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے بھلائی کے ہر کام میں ،دین اور معاشرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے میں کھلے دل سے اپنی دولت خرچ کرنی چاہیے ،یہ ایک زبردست اخلاقی روح ہے جسے اسلام اپنی تعلیم اور تربیت سے اور اسلامی معاشرے کے اجتماعی ماحول سے ہر فرد مسلم میں پیدا کرتا ہے تا کہ وہ کسی جبر سے نہیں بلکہ اپنے دل کی رضا سے اجتماعی فلاح میں مدد گار ہو۔

زکوٰۃ:۔

اس رضا کارانہ انفاق کے بعد ایک چیز اور ہے جسے اسلام میں لازم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے زکوٰۃ جو جمع شدہ سرمایوں پر ،تجارتی اموال پر ،کاروبار کی مختلف صورتوں پر ،زرعی پیداوار پر ،اور مواشی پر اس غرض سے عائد کی جاتی ہے کہ اس سے ان لوگوں کو سہارا دیا جائے جو معاشی حیثیت سے پسماندہ رہ گئے ہیں ،ان دونوں قسم کے انفاقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نماز نفل ہے اور ایک فرض نفل نماز آپ کو اختیار ہے جتنی چاہیں پڑھیں ،جتنی زیادہ روحانی ترقی آپ کرنا چاہتے ہیں ،جتنا کچھ اللہ پاک سے قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں ،اتنے ہی نوافل آپ اپنی مرضی سے ادا کیجئے ،لیکن فرض نماز لازماً آپ کو پڑھنی ہی ہو گی ،ایسا ہی معاملہ انفاق فی سبیل اللہ کا ہے کہ ایک قسم کا انفاق نفل ہے جو آپ اپنی خوشی سے کریں گے ،دوسری قسم کا انفاق وہ ہے جو آپ پر فرض کر دیا گیا ہے اور وہ آپ کو لازماً کرنا ہو گا جب کہ آپ کی دولت ایک حدِ مقرر سے زائد ہو ۔

زکوٰۃ کے متعلق یہ غلط فہمی ہمارے ذہن میں نہیں رہنی چاہیے کہ یہ کوئی ٹیکس ہے ،دراصل یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت ہے اور نماز کی طرح اسلام کا ایک اہم رکن ہے زکوٰۃ اور ٹیکس میں زمین و آسمان کا فرق ہے

ٹیکس وہ ہوتا ہے جو زبردستی کسی انسان پر عائد کیا جاتا ہے اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بخوشی اس کو قبول کرے اس کے عائد کرنے والوں کا کوئی شخص معتقد نہیں ہوتا ،ان کے برحق ہونے پر ایمان نہیں لاتا ،ان کے ڈالے ہوئے اس بار کو زبردستی کی چٹی سمجھتا ہے اس پر ناک بھوں چڑھاتا ہے اس سے بچنے کے لیے ہزار حیلے کرتا ہے ،اس کو ادا نہ کرنے کی تدبیریں نکالتا ہے اور اس سے اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا ،پھر ان دونوں میں اصولی فرق یہ ہے کہ ٹیکس دراصل ان خدمات کے مصارف پورے کرنے کے لیے عائد کیا جاتا ہے جن کا فائدہ خود ٹیکس ادا کرنے والے کی طرف پلٹتا ہے اس کے پیچھے بنیادی تصور یہ کار فرما ہے کہ آپ جن سہولتوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ سے وہ سہولتیں آپ کو بہم پہنچائی جائیں ،ان کے لیے آپ اپنی دولت کے لحاظ سے متناسب چندہ دیں ،یہ ٹیکس درحقیقت ایک طرح کا چندہ ہی ہے جو قانونی جبر کے تحت ان اجتماعی خدمات کے لیے آپ سے لیا جاتا ہے جن کے فوائد سے متمتع ہونے والوں میں آپ خود بھی شامل ہیں ،زکوٰۃ اس کے برعکس ایک عبادت ہے بالکل اسی طرح جیسے نماز ایک عبادت ہے کوئی پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی اس کی عائد کرنے والی نہیں ہے ،بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے جسے ایک مسلمان اپنا معبود برحق مانتا ہے کوئی شخص اگر اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا چاہتا ہو تو وہ زکوٰۃ سے بچنے یا اس میں خورد برد کرنے کی کبھی کوشش نہیں کر سکتا ،بلکہ اگر کوئی خارجی طاقت اس سے حساب لینے اور زکوٰۃ وصول کرنے والی نہ بھی ہو تو ایک مومن اپنی زکوٰۃ کا حساب خود کر کے اپنی مرضی سے نکالے گا ،پھر یہ زکوٰۃ سرے سے اس غرض کے لیے ہی نہیں کہ ان اجتماعی ضروریات کو پورا کیا جائے جن سے متمتع ہونے میں آپ خود بھی شامل ہیں ،بلکہ یہ صرف ان لوگو کے لیے مخصوص کی گئی ہے جو کسی نہ کسی طرح سے دولت کی تقسیم میں اپنا حصہ پانے سے ،یا پورا حصہ پانے سے محروم رہ گئے ہیں ،اور کسی وجہ سے مدد کے محتاج ہیں ،خواہ عارضی طور پر یا مستقل طور پر ،اسطظرح زکوٰۃ اپنی حقیقت ،اپنے بنیادی اصول اور اپنی روح اور شکل کے اعتبار سے ٹیکس سے بالکل ایک مختلف چیز ہے ،یہ آپ کے لیے سڑکیں اور ریلیں اور نہریں بنانے اور ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے نہیں ہے بلکہ چند مخصوص حق داروں کے حقوق ادا کرنے کے لیے خدا کی طرف سے ایک عبادت کے طور پر فرض کی گئی ہے اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کا کوئی فائدہ اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے اجر کے سوا آپ کی ذات کی طرف پلٹ کر نہیں آتا ،بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ اور خراج کیک سوا کوئی ٹیکس نہیں ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی ایک حق ہے ‘‘ دراصل جن ٹیکسوں کو شریعت میں ناروا قرار دیا گیا ہے وہ قیصروں اور کسراوں اور ان کے امراء کے لگائے ہوئے وہ ٹیکس تھے جنہیں بادشاہ اور امیر کی ذاتی ملک بنا لیا جاتا تھا اور جن کی آمد و خرچ کا حساب دینے کے وہ ذمہ دار نہ تھے رہے وہ ٹیکس جو شوریٰ کے طریقے پر چلنے والی حکومت لوگوں کی مرضی اور مشورے سے لگائے ،جن کی آمدنی پبلک کے خزانے میں جمع ہو ،جن کو خرچ بھی لوگوں کے مشورے سے کیا جائے ،اور جن کا حساب دینے کی حکومت ذمہ دار ہو ،تو ایسے ٹیکس عائد کرنے پر شریعت میں قطعاً کوئی پابندی نہیں ہے اگر معاشرے میں اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے کوئی بے جا اونچ نیچ پیدا ہو چکی ہو ،یا حرام  طریقوں سے کمائی ہوئی دولت بعض طبقوں نے بے تحاشا فراہم کر لی ہو تو ایک اسلامی حکومت ضبطی جائیداد کے طریقے اختیار کرنے کے بجائے ٹیکس عائد کر کے اس بیماری کا مداوا کر سکتی ہے اور دوسرے اسلامی قوانین کی مدد سے دولت کے اس ارتکاز کو ختم کر سکتی ہے ،ضبطی جائیداد کا طریقہ استعمال کرنے کے لیے حکمرانوں کو ایسے جابرانہ اختیارات دینا ناگزیر ہو جاتا ہے جنہیں پا کر وہ کسی حد پر روکے نہیں جا سکتے اور ایک ظلم کی جگہ اس سے بدتر ظلم قائم ہو جاتا ہے ۔

زکوٰۃ اور معاشی بہبود :۔

اب سوال ہوتا ہے کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ تو ہے ہی معاشی بہبود کے لیے لیکن اس بات کو خوب سمجھ لیجئے کہ معاشی بہبود کا اگر تصور یہ ہو کہ بحیثیت مجموعی پورے ملک کی معاشی ترقی کے لیے زکوٰۃ کو استعمال کیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے زکوۃ دراصل اس غرض کے لیے ہے کہ معاشرے میں کوئی شخص اپنی لازمی ضروریات زندگی ،غذا ،لباس ،مکان ،علاج اور بچوں کی تعلیم سے محروم نہ رہنے پائے اور ہم اپنے معاشرے کے ان تمام لوگوں کی معاشی ضروریات فراہم کریں جو یا تو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے کے قابل نہ ہوں ،مثلاً یتیم بچے ،بوڑھے اور معذور لوگ ،یا عارضی طور پر بے روزگار ہو گئے ہوں ،یا ذرائع کی کمی کے باعث اپنی روزی کمانے کی کوشش نہ کر سکتے ہوں اور کچھ مدد پا کر اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکیں ،یا کسی نقصان کے چکر میں آ گئے ہوں ،زکوٰۃ اس طرح کے لوگوں کی دست گیری کے لیے مقرر کی گئی ہے ،عام معاشی ترقی کے لیے آپ کو دوسرے ذرائع تلاش کر نے ہوں گے ۔

 

 

 

 

باب چہارم

 

غیر سُودی معیشت

 

 

اب سوال ہوتا ہے کیا ہم بلا سود کے معاشی نظام قائم کر سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً کر سکتے ہںن پہلے صدیوں تک ایسا نظام قائم رہا ہے اور آج بھی اگر آپ اسے قائم کرنا چاہیں اور دوسروں کی اندھی پیروی سے نکل آئیں تو اس کا قائم کرنا مشکل نہیں ہے اسلام کے آنے سے پہلے دنیا کا معاشی نظام اسی طرح سود پر چل رہا تھا،جس طرح آج چل رہا ہے اسلام نے اس کو بدلا اور سود کو حرام کر دیا پہلے وہ عرب میں حرام ہوا ،پھر جہاں جہاں اسلام کی حکومت پہنچتی گئی وہاں سود ممنوع ہوتا چلا گیا اور پورا معاشی نظام اس کے بغیر چلتا رہا یہ نظام صدیوں چلا ہے، اب کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ چل سکے ،اگر ہم میں اجتہاد کی قوت ہو اور ہم ایمانی طاقت بھی رکھتے ہوں اور یہ ارادہ بھی رکھتے ہوں کہ جس چیز کو خدا نے حرام کیا ہے اس کو ختم کریں تو یقینا آج بھی ہم اسے ختم کر کے تمام مالی اور معاشی معاملات چلا سکتے ہیں ۔

اجتماعی معیشت اور نظام  مالیات میں بے شمار خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے ظاہر بات ہے کہ جب ایک آدمی کے لیے سود کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو وہ اپنے ہمسائے کو قرضِ حسن کیوں دے گا ؟اور ایک کاروباری آدمی کے ساتھ نفع و نقصان کی شرکت کیوں اختیار کرے؟اور اپنی قومی ضروریات کی تکمیل کے لیے مخلصانہ اعانت کا ہاتھ کیو بڑھائے ؟اور کیوں نہ اپنا جمع کیا ہوا سرمایہ سا ہو کار کے حوالے کر دے جس سے اس کو گھر بیٹھے ایک لگا بندھا منافع ملنے کی امید ہو ؟آپ انسانی فطرت کے برے میلانات کو ابھر نے اور کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دینے کے بعد یہ توقع نہیں کر سکتے کہ نرے وعظ و تلقین اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعے ہی سے اپ ان کے نشوونما اور نقصانات کو روک سکیں گے ،پھر یاں تو معاملہ صرف اس حد تک بھی محدود نہیں ہے کہ آپ نے ایک برے میلان کو محض  کھلی چھٹی دے رکھی ہو ،اس سے آگے بڑھ کر آپ کا قانون تو الٹا اس کا مدد گار بنا ہوا ہے اور حکومت خود اس برائی پر اجتماعی مالیات کے نظام کو پال اور چلا رہی ہے اس حالت میں آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کس قسم کی جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے اس کی برائیوں کا سد باب کیا جا سکے ؟ان کا سد باب اگر ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ سب سے پہلے اس دروازے کو بند کیا جائے جس سے خرابی آ رہی ہے ۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کوئی غیر سودی نظام  مالیات بن کر تیار ہو لے پھر سود یا تو آپ سے آپ بند ہو جائے گا ،یا اسے قانوناً بند کر دیا جائے گا ،وہ درحقیقت گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا چاہتے ہیں ،جب  تک سود اَزروئے قانون جاری ہے ،جب تک عدالتیں سودی معاہدات کو تسلیم کر کے ان کو بزور نافذ کر رہی ہیں ،جب تک ساہوکاروں کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ سود کا لالچ دے کر گھر گھر سے روپیہ اکھٹا کریں اور پھر آگے اسے سود پر چلائیں ،اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی غیر سودی نظام مالیات وجود میں آئے اور نشوونما پا سکے ،لہذا اگر سود کی بندش اس امر پر موقوف ہے کہ پہلے ایسا کوئی مالی نظام پل کر جوان ہو لے جو موجود ہ سودی نظام کی جگہ لے سکتا ہو ،تو یقین رکھیے کہ اس طرح قیامت تک سود کے بند ہونے کی نوبت نہیں آسکتی ،یہ کام تو جب کبھی کرنا ہو اسی طرح کرنا پڑے گا کہ اول قدم ہی پر سود کو ازروئے قانون بند کر دیا جائے پھر خود بخود غیر سودی نظا م مالیات پیدا ہو جائے گا اور ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے ،آ پ سے آپ اس کے لیے ہر گوشے میں بڑھنے اور پھیلنے کا راستہ بناتی چلی جائے گی۔

سود نفسِ انسانی کی جن بری صفات کا نتیجہ ہے ،ان کی جڑیں اس قدر گہری اور ان کے تقاضے اس قدر طاقت ور ہیں کہ ادھوری کارروائیوں اور ٹھنڈی ٹھنڈی تدبیروں سے کسی معاشرے میں اس بلا کا استیصال نہیں کیا جا سکتا ،اس غرض کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ ساری تدبیریں عمل میں لائی جائیں جو اسلام تجویز کرتا ہے اور اس سرگرمی کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزمائی کی جائے جیسی کہ اسلام چاہتا ہے اسلام سودی کاروبار کی محض اخلاقی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا ،بلکہ ایک طرف وہ اس کو مذمتی حیثیت سے حرام قرار دے کر اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتا ہے دوسری طرف جہاں جہاں اسلام کا سیاسی اقتدار اور حاکمانہ اثر و نفوذ قائم ہو وہاں وہ ملکی قانون کے ذریعے سے اس کو ممنوع قرار دیتا ہے تمام سودی معاہدوں کو کالعدم ٹھہراتا ہے سود لینے اور دینے اور اس کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ بننے کو فوجداری جرم قابل دست اندازی پولیس قرار دیتا ہے اگر کہیں یہ کاروبار معمولی سزاوں سے بند نہ ہو تو اس کے مرتکبین کو قتل اور ضبطی جائیداد تک کی سزائیں دیتا ہے تیسری طرف وہ زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر اور حکومت کے ذریعے سے اس کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کر کے ایک دوسرے نظام مالیات کی داغ بیل ڈال دیتا ہے اور ان سب تدبیروں کے ساتھ وہ تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے عامۃ الناس کی اصلاح بھی کرتا ہے تا کہ ان کے نفس میں وہ صفات اور رجحانات دب جائیں جو سود خوری کے موجب ہوتے ہیں اور اس کے برعکس وہ صفات اور جذبات ان کے اندر نشوونما پائیں جن سے معاشرے میں ہمدردانہ و فیاضانہ تعاون کی روح جاری و ساری ہو سکے ۔

انسداد سود کے نتائج :۔

جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسدا د کرنا چاہتا ہو اسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہو گا ،سود کی یہ قانونی بندش ،جبکہ اس کے ساتھ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کی اجتماعی انتظام بھی ہو ،مالیات کے نقطۂ نظر سے تین بڑے نتائج پر منتج ہو گی ۔

٭… اس کا اولین اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہو گا کہ اجتماعی سرمایہ کی موجودہ فساد انگیز صورت ایک صحیح اور صحت بخش صورت سے بدل جائے گی۔موجودہ صورت میں تو سرمایہ اس طرح جمع ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی نظام بخل اور جمع  مال کے اس میلان کو ،جو ہر انسان کے اندر طبعاً تھوڑا بہت موجود ہے ،اپنی مصنوعی تدبیروں سے انتہائی مبالغے کی حد تک بڑھا دیتا ہے ،وہ اسے خوف اور لالچ ،دونوں ذرائع سے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم حصہ خرچ اور زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرے ،وہ اسے خوف دلاتا ہے کہ جمع کر کیونکہ پورے معاشرے میں کوئی نہیں ہے جو تیرے برے وقت پر کام آئے ،وہ اسے لالچ دیتا ہے کہ جمع کر کیونکہ اس کا اجر تجھے سود کی شکل میں ملے گا ،اس دوہری تحریک کی وجہ سے معاشرے کے وہ تمام افرد جو قدر کفاف سے کچھ بھی زائد آمدنی رکھتے ہیں ،خرچ روکنے اور جمع کرنے پر تل جاتے ہیں ،اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منڈیوں میں اموال  تجارت کی کھپت امکانی حد سے بہت کم ہوتی ہے اور آمدنیاں جتنی کم ہوتی جاتی ہیں ،صنعت و تجارت کی ترقی کے امکانات بھی اس کے مطابق کم اور اجتماع  سرمایہ کے مواقع کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں ،اس طرح چند افراد کے اندوختوں کا بڑھنا اجتماعی معیشت کے گھٹنے کا موجب ہوتا ہے ،ایک آدمی ایسے طریقے سے اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں میں اضافہ کرتا ہے جس سے ہزار آدمی سرے سے کچھ کمانے ہی کے قابل نہیں رہتے کجا کہ کچھ پس انداز کر سکیں ۔

اس کے برعکس جب سود بند کر دیا جائے گا اور زکوٰۃ کی تنظیم کر کے ریاست کی طرف سے معاشرے کے ہر فر د کو اس امر کا اطمینان بھی دلایا جائے گا کہ برے وقت پر اس کی دست گیری کا انتظام موجود ہے تو بخل و زر اندوزی کے غیر فطری اسباب و محرکات ختم ہو جائیں گے ،لوگ دل کھول کر خود بھی خرچ کریں گے اور نادار افراد کو بھی زکوٰۃ کے ذریعے سے اتنی قوتِ خریداری بہم پہنچا دیں گے کہ وہ خرچ کریں ،اس سے صنعت و تجارت بڑھے گی ،صنعت و تجارت کے بڑھنے سے روزگار بڑھے گا ،روزگار بڑھنے سے

آمدنیاں بڑھیں گی ،ایسے ماحول میں اول تو صنعت و تجارت کا اپنا منافع ہی اتنا بڑھ جائے گا کہ اس کو خارجی سرمایہ کی اتنی احتیاج باقی نہ رہے گی جتنی اب ہوتی ہے پھر جس حد تک بھی اسے سرمایہ کی حاجت ہو گی وہ موجود ہ حالت کی بہ نسبت بہت زیادہ سہولت کے ساتھ بہم پہنچ سکے گا ،کیونکہ اس وقت پس انداز کرنے کا سلسلہ بالکل بند نہیں ہو جائے گا ،جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں ،بلکہ کچھ لوگ تو اپنی پیدائشی افتادِ طبع کی بنا پر ہی اندوختہ کرتے رہیں گے ،اور بیشتر لوگ آمدنیوں کی کثرت اور معاشرے کی عام آسودگی کے باعث مجبوراً پس انداز کریں گے ،اس وقت یہ پس اندازی کسی بخل یا خوف یا لالچ کی بنا پر نہ ہو گی ،بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہو گی کہ جو لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کمائیں گے ،اسلام کی جائز کی ہوئی مداتِ خرچ میں خوب دل کھول کر خرچ کرنے کے باوجود ان کے پاس بہت کچھ بچ رہے گا ،اس بچی ہوئی دولت کو لینے والا کوئی محتاج آدمی بھی ان کو نہ ملے گا ،اس لیے وہ اسے ڈال رکھیں گے اور بڑی اچھی شرائط پر اپنی حکومت کو ،اپنے ملک کی صنعت و تجارت کو ،اور ہمسایہ ملکوں تک کو سرمایہ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے ۔

٭…دوسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ جمع شدہ سرمایہ رکنے کے بجائے چلنے کی طرف مائل رہے گا اور اجتماعی معیشت کی کھیتیوں کو ان کی حاجت کے مطابق اور ضرورت کے موقع پر برابر ملتا چلا جائے گا ،موجودہ نظام میں سرمایہ کو کاروبار کی طرف جانے کے لیے جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ سود کا لالچ ہے مگر یہی چیز اس کے رکنے کا سبب بھی بنتی ہے ۔کیونکہ سرمایہ اکثر اس انتظار میں ٹھہرا رہتا ہے کہ زیادہ شرحِ سود ملے تو وہ کام میں لگے نیز یہی چیز سرمایہ کے مزاج کو کاروبار کے مزاج سے منحرف بھی کر دیتی ہے جب کاروبار چاہتا ہے کہ سرمایہ آئے تو سرمایہ اکڑ جاتا ہے اور اپنی شرائط سخت کرتا چلا جاتا ہے اور جب معاملہ برعکس ہوتا ہے تو سرمایہ کاروبار کے پیچھے دوڑتا ہے اور ہلکی شرائط پر ہر اچھے برے کام میں لگنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔لیکن جب سود کا دروازہ ازروئے قانون بند ہو جائے گا اور تمام جمع شدہ رقموں پر الٹی زکوٰۃ اڑھائی فی صدی سالانہ کے حساب سے لگنی شروع ہو گی ،تو سرمایہ کی یہ بد مزاجی ختم ہو جائیگی ،وہ خود اس بات کا خواہش مند ہو گا کہ معقول شرائط پر جلدی سے جلدی کسی کاروبار میں لگ جائے اور ٹھہرنے کی بجائے ہمیشہ کاروبار ہی میں لگا رہے ۔

٭… تیسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ کاروباری مالیات اور مالیاتِ قرض کی مدیں بالکل الگ ہو جائیں گی ،موجودہ نظام میں سرمایہ کی بہم رسانی زیادہ تر ،بلکہ

قریب قریب تمام تر ہوتی ہی صرف قرض کی صورت میں ہے ،خواہ روپیہ لینے والا شخص یا ادارہ کسی نفع آور کام کے لیے یا غیر نفع آور کام کے لیے ،اور خواہ کسی عارضی ضرورت کے لیے لے یا کسی طویل المدت منصوبے کے لیے ،ہر صورت میں سرمایہ صرف ایک ہی شرط پر ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مقررہ شرح سود پر اسے بطورِ قرض حاصل کیا جائے ،لیکن جب سود ممنوع ہو جائیگا تو قرض کی مد صرف غیر نفع آور اغراض کیک لیے ،یا جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے،عارضی ضروریات کے لیے مخصوص ہو جائے گی ،اور اس کا انتظام قرضِ حسن کے اصول پر کرنا ہو گا ۔رہیں دوسری اغراض ،خواہ وہ صنعت و تجارت وغیرہ سے متعلق ہوں یا حکومتوں اور پبلک اداروں کی نفع بخش تجویزوں سے متعلق ،ان سب کے لیے سرمایہ کی فراہمی قرض کے بجائے حصے داری کے اصول پر ہو گی ۔

 

 

 

                   فصل ہفتم

 

غیر سودی مالیات میں فراہمی  قرض کی صورتیں

 

پہلے قرض کے شعبے کو لیجئے ،کیوں کہ لوگ سب سے بڑھ کر جس شک میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ سود کے بند ہو جانے سے قرض ملنا ہی بند ہو جائے گا ،لہذا پہلے ہم یہی دکھائیں گے کہ اس ناپاک رکاوٹ کے دور ہو جانے سے قرض کی فراہمی صرف یہی نہیں کہ بند نہ ہو گی بلکہ موجودہ حالت سے زیادہ آسان ہو گی اور بدرجہا زیادہ بہتر صورت اختیار کر لے گی ۔

شخصی حاجات کے لیے :۔

موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے ،اور یہ وہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے ،اور صاحب جائیداد آدمی بینک سے سودی قرض حاصل کرے دونوں صورتوں میں ہر طالب قرض کو ہر غرض کے لیے ہر مقدار میں روپیہ مل سکتا ہے اگر مہاجن یا بینکر کو اصل و سود کے ملتے رہنے کا اطمینان دلا سکتا ہو ،قطع نظر اس سے کہ وہ گناہوں کے کاموں کے لیے لینا چاہتا ہو،یا فضول خرچیوں کے لیے ،یا حقیقی ضرورتوں کے لیے ،بخلاف اس کے کوئی طالب قرض کہیں سے ایک پیشہ نہیں پا سکتا اگر وہ اصل و سود کے ملنے کا اطمینان نہ دلا سکتا ہو ،چاہے اس کے گھر ایک مردہ لاش ہی بے گور و کفن کیوں نہ پڑی ہو ،پھر موجودہ نظام میں کسی غریب کی مصیبت اور کسی امیر زادے کی آوارگی ،دونوں ہی ساہوکار کے لیے کمائی کے بہترین مواقع ہیں اور اس خود غرضی کے ساتھ سنگ دلی کا یہ حال ہے کہ جو شخص سودی قرض کے جال میں پھنس چکا ہے اس کے ساتھ نہ سود کی تحصیل میں کوئی رعایت ہے نہ اصل کی بازیافت میں ،کوئی یہ دیکھنے کے لییے دل ہی نہیں رکھتا کہ جس شخص سے ہم اصل و سود کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کم بخت کس حال میں مبتلا ہے ،یہ ہیں وہ ’’آسانیاں ‘‘ جو موجودہ نظام شخصی حاجات میں فراہمی قرض کے لیے بہم پہنچاتا ہے اب دیکھیے کہ اسلام کا غیر سودی صدقاتی نظام اس چیز کا انتظام کس طرح کرے گا ۔

اول تو اس نظام میں فضول خرچیوں اور گناہ گاریوں کے لیے قرض کا دروازہ بند ہو جائے گا ،کیوں کہ وہاں سود کے لالچ سے بے جا قرض دینے والا کوئی نہ ہو گا اس حالت میں قرض کا سارا لین دین آپ سے آپ صرف معقول ضروریات تک محدود ہو جائے گا اور اتنی ہی رقمیں لی اور دی جائیں گی جو مختلف انفرادی حالات میں صریح طور پر مناسب نظر آئیں گی ،پھر چونکہ اس نظام  میں قرض لینے والے سے کسی نوعیت کا فائدہ اٹھانا قرض دینے والے کے لیے جائز نہ ہو گا اس لیے قرضوں کی واپسی زیادہ سے زیادہ آسان ہو جائے گی ،کم سے کم آمدنی رکھنے والا بھی تھوڑی تھوڑی قسطیں دے کر بار  قرض سے جلدی اور بآسانی سبکدوش ہو سکے گا ،جو شخص کوئی زمین یا مکان یا اور کسی قسم کی جائیداد رہن رکھے گا اس کی آمدنی سود مین کھپنے کے بجائے اصل میں وضع ہو گی اور اس طرح جلدی سے جلدی رقم قرض کی بازیافت ہو جائے گی ،اتنی آسانیوں کے باوجود اگر شاذ و نادر کسی معاملے میں کوئی قرض ادا ہونے سے رہ جائے گا تو بیت المال ہر آدمی کی پشت پر موجود ہو گا جو ادائیگی قرض میں اس کی مدد کرے گا اور بالفرض اگر مدیون کچھ چھوڑے بغیر مر جائے گا تب بھی بیت المال اس کا قرض ادا کرنے کا ذمے دار ہو گا ان وجوہ سے خوش حال و ذی استطاعت لوگوں کے لیے اپنے کسی حاجت مند ہمسائے کی ضرورت کے موقع پر اسے قرض دینا اتنا مشکل اور ناگوار کام نہ رہے گا جتنا اب موجودہ نظام میں ہے ۔

اس پر بھی اگر کسی بندۂ خدا کو اس کے محلے یا بستی سے قرض نہ ملے گا تو بیت المال کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہو گا ،وہ جائے گا اور وہاں سے بآسانی قرض حاصل کر لے گا لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ بیت المال سے اتمداد ان اغراض کے لیے آخری چارۂ کار ہے اسلامی نقطۂ نظر سے شخصی حاجات میں ایک دوسرے کو قرض دینا معاشرے کے افراد کا اپنا فرض ہے اور ایک معاشرے کی صحت مند ی کا معیار یہی ہے کہ اس کے افراد اپنی اس طرح کی اخلاقی ذمہ داریوں کو خود ہی محسوس اور ادا کرتے رہیں ،اگر کسی بستی کا کوئی باشندہ اپنے ہمسایوں سے قرض نہیں پاتا اور مجبور ہو کر بیت المال کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہ صریحاً اس بات کی علامت ہے کہ اس بستی کی اخلاقی آب و ہوا بگڑی ہوئی ہے اس لیے جس وقت اس قسم کا کائی معاملہ بیت المال میں پہنچے گا تو وہاں صرف اس طالب  قرض کی حاجت پوری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائیگا ،بلکہ فوراً اخلاقی حفظانِ صحت کے محکمے کو اس ’’واردات‘‘ کی اطلاع دی جائے گی اور وہ

اسی وقت اس بیمار بستی کی طرف توجہ کرے گا جس کے باشندے اپنے ایک ہمسائے کی ضرورت کے وقت اس کے کام نہ آئے اس طرح کے کسی واقعہ کی اطلاع ایک صالح اخلاقی نظام میں وہی اضطراب پیدا کرے گی جو ہیضے یا طاعون کے کسی واقعے کی اطلاع ایک مادہ پر ست نظام میں پیدا کیا کرتی ہے ۔

شخصی حاجات کے لیے قرض فراہم کرنے کی ایک اور صورت بھی اسلامی نظام میں اختیار کی جا سکتی ہے ،وہ یہ ہے کہ تمام تجارتی کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر ان کے ملازموں اور مزدوروں کے جو کم سے کم حقوق ازروئے قانون مقرر کیے جائیں ان میں سے ایک حق یہ بھی ہو کہ وہ ان کی غیر معمولی ضرورت کے مواقع پر ان کو قرض دیا کریں نیز حکومت خود بی اپنے اوپر اپنے ملازموں کا یہ حق تسلیم کرے اور اس کو فیاضی کے ساتھ ادا کرے ،یہ منعاملہ حقیقت میں صرف اخلاقی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کی معاشی و سیاسی اہمیت بھی اتنی ہی ہے جتنی اس کی اخلاقی اہمیت ہے آپ اپنے ملازموں اور مزدوروں کے لیے غیر سودی قرض کی سہولت بہم پہنچائیں گے تو صرف ایک نیکی ہی نہیں کریں گے بلکہ ان اسباب میں سے ایک بڑے سبب کو دور کر دیں گے جو آپ کے کارکنوں کو فکر ،پریشانی ،خستہ حالی ،جسمانی آزار اور مادی بربادی میں مبتلا کرتے ہیں ،ان بلاؤں سے ان کی حفاظت کیجئے ،ان کی آسودگی ان کی قوت کار بڑھائے گی اور ان کا اطمینان انہیں فساد انگیز فلسفوں سے بچائے گا ،اس کا نفع بہی کھاتے کی رو سے چاہے کچھ نہ ہو ،لیکن کسی کو عقل کی بینائی میسر ہو تو وہ بہ آسانی دیکھ سکتا ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے ہی کے لیے نہیں ،بلکہ فرداً فرداً ایک ایک سرمایہ دار و کار خانہ دار کے لییے بھی اور ایک ایک معاشی و سیاسی ادارے کے لیے بھی اس کا نفع اس سود سے بہت زیادہ قیمتی ہو گا جو آج مادہ پر ست نظام میں محض احمقانہ تنگ نظری کی بنا پر وصول کیا جا رہا ہے ۔

کاروباری اغراض کے لیے :۔

اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجئے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں، موجودہ زمانے میں ان مقاصد کے لیے یا بینکوں سے براہِ راست قلیل المدت قرضے حاصل کیے جاتے ہیں یا پھر ہنڈیاں بھنائی جاتی ہیں (یہ وہی چیز ہے جس کے لیے ہماری اسلامی فقہ میں ’’سفاتج‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ جن تاجروں کا آپس میں بھی ایک دوسرے سے لین دین ہو اور بینک کے ساتھ بھی معاملہ ہو وہ نقد رقم ادا کیے بغیر بڑی مقدار میں

ایک دوسرے سے مال قرض لے لیتے ہیں اور مہینہ ،دو مہینے ،چار مہینے کے لی فریق ثانی کو ہنڈی لکھ کر دے دیتے ہیں اگر فریق ثانی اس پر مدت مقررہ تک انتظار کر سکتا ہو تو انتظار کر تا ہے اور وقت آنے پر قرض ادا ہو جاتا ہے لیکن اگر دورانِ مدت میں اس کو روپے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ اس ہنڈی کو اس بینک میں داخل کر دیتا ہے جس سے دونوں فریقوں کے لین دین ہو اور اس سے رقم حاصل کر کے اپنا کام چلا لیتا ہے اسی چیز کا نام ہنڈی بھنانا ہے )اور دونوں صورتوں میں بینک ایک ہلکی سی شرح سود اس پر لگاتے ہیں یہ تجارت کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی کام آج نہیں چل سکتا اس لیے جب کاروباری لوگ بندشِ سود کا نام سنتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر روز مرہ کی ان ضروریات کے لیے قرض کیسے ملے گا ؟اگر بینک کو سود کا لالچ نہ ہو تو آخر وہ کیوں ہمیں قرض دے گا اور کیوں ہماری ہنڈیاں بھنائے گا ؟لیکن سوال یہ ہے کہ جس بینک کے پاس تمام رقوم  امانات بلا سود جمع ہوں ،اور جس کے پاس خود ان تاجروں کا بھی لاکھوں روپیہ بلا سود رکھا رہتا ہو ،وہ آخر کیوں نہ ان کو بلا سود قرض دے اور کیوں نہ ان کی ہنڈیاں بھنائے ؟وہ اگر سیدھی طرح اس پر راضی نہ ہو گا تو تجارتی قانون کے ذریعے سے اس کو مجبور کیا جائے گا وہ اپنے کھاتہ داروں کو یہ سہولت بہم پہنچائے ،اس کے فرائض میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے ۔

درحقیقت اس کام کے لیے خود تاجروں کی اپنی رکھوائی ہوئی رقمیں ہی کافی ہو سکتی ہیں لیکن ضرورت پڑجانے پر کوئی مضائقہ نہیں ،اگر بینک اپنے دوسرے سرمایہ میں سے بھی تھوڑا بہت اس غرض کے لییے استعمال کر لے بہر حال اصولاً یہ بات بالکل واجبی بھی ہے کہ جو سود لے نہیں رہا وہ سود دے کیوں ؟ اور اجتماعی معیشت کے نقطۂ نظر سے یہ مفید بھی ہے کہ تاجروں کو اپنی روز مرہ کی ضروریات کے لییے بلا سود قرض ملتا رہے ۔

رہا یہ سوال کہ اگر اس لین دین میں بینک کو سود نہ ملے تو وہ اپنے مصارف کیسے پورے کرے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب چالوں کھاتوں کی ساری رقمیں بینک کے پاس بلا سود رہیں گی تو اس کے لیے انہیں رقموں میں سے دست گرداں قرضے بلا سود دینا کوئی نقصان دہ معاملہ نہ رہے گا کیوں کہ اس صورت میں حساب کتاب اور دفتر داری کے جو تھوڑے بہت مصارف بینک کو برداشت کرنے ہوں گے ان سے کچھ زیادہ ہی فوائد وہ ان رقموں سے حاصل کر لے گا جو اس کے پاس جمع ہوں گی تا ہم اگر بالفرض یہ طریقہ قابلِ عمل نہ ہو تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بینک اپنی اس طرح کی خدمات کے لیے ایک ماہوار یا

ششماہی فیس اپنے تمام تجارت پیشہ کھاتہ داروں پر عائد کر دے جو اس مد کے مصارف پورے کرنے کے لیے کافی ہو،سود کی بہ نسبت یہ فیس ان لوگوں کو زیادہ سستی پڑے گی اس لیے وہ بخوشی اسے گوارا کر لیں گے ۔

حکومتوں کی غیر نفع آور ضروریات کے لیے :۔

تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو کبھی وقتی حوادث کے لیے ،اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے ،اور کبھی جنگ کے لیے لینے ہوتے ہیں ،موجودہ نظام مالیات میں ان سب مقاصد کے لیے روپیہ تمام تر قرض ،اور وہ بھی سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے لیکن اسلامی نظام مالیات میں یہ عین ممکن ہو گا کہ ادھر حکومت کی طرف سے ضرورت کا اظہار ہو اور ادھر قوم کے افراد اور ادارے خود لا لا کر چندوں کے ڈھیر اس کے سامنے لگا دیں اس لیے کہ سود کی بندش اور زکوٰۃ کی تنظیم لوگوں کو اس قدر آسودہ اور مطمئن کر دے گی کہ انہیں اپنے جمع شدہ مال کو اپنی حکومت کو یونہی دے دینے میں کوئی تامل نہ ہو گا اس پر بھی اگر بقدر ضرورت روپیہ نہ ملے تو حکومت قرض مانگے گی اور لوگ دل کھول کر اسے قرضِ حسن دیں گے ،لیکن اگر اس سے بھی ضروریات پوری نہ ہو سکیں تو اسلامی حکومت اپنا کام چلانے کے لیے حسب ذیل طریقے اختیار کر سکتی ہے :

٭… زکوٰۃ و خُمس کی رقمیں استعمال کرے ۔

٭…تمام بینکوں سے ان کی رقوم امانت کا ایک مخصوص حصہ حکماً بطور قرض طلب کر لے جس کا اسے اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا وہ افرادِ قوم سے لازمی فوجی خدمت طلب کرنے اور لوگوں سے ان کی عمارتیں اور موٹریں اور دوسری چیزیں بزور حاصل کرنے کا حق رکھتی ہے ۔

٭…بدرجۂ آخر وہ اپنی ضروریات کے مطابق نوٹ چھاپ کر بھی کام چلا سکتی ہے جو دراصل قوم ہی سے قرض لینے کی ایک دوسری صورت ہے لیکن یہ محض ایک آخری چارۂ کار ہے جو بالکل ناگزیر حالات ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس کی قباحتیں بہت زیادہ ہیں ۔

بین الاقوامی ضروریات کے لیے:۔

اب رہے بین الاقوامی قرضے ،تو اس معاملہ میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خور دنیا میں ہم اپنی قومی ضرورت کے موقع پر کہیں سے ایک پیشہ بلا سود قرض پانے کی توقع نہیں کر سکتے ،اس پہلو میں تو ہم  کو تمام تر کوشش یہی کرنی ہو گی کہ ہم بیرونی قوموں سے کوئی قرض نہ لیں ،کم از کم اس وقت تک تو ہر گز نہ لیں جب تک کہ ہم خود دوسروں کو اس امر کا نمونہ نہ دکھا دیں کہ ایک قوم اپنے ہمسایوں کو کس طرح بلا سود قرض دے سکتی ہے ،رہا قرض دینے کا معاملہ تو جو بحث اس سے پہلے میں کر چکا ہوں اس کے بعد شاید کسی صاحبِ نظر آدمی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہو گا کہ اگر ایک دفعہ ہم نے ہمت کر کے اپنے ملک میں ایک صالح مالی نظام بندشِ سود اور تنظیم زکوٰۃ کی بنیاد پر قائم کر لیا تو  یقیناً بہت جلدی ہماری مالی حالت اتنی اچھی ہو جائے گی کہ ہمیں نہ صرف خود باہر سے قرض لینے کی حاجت نہ ہو گی ،بلکہ ہم اپنے گرد و پیش کی حاجت مند قوموں کو بلا سود قرض دینے کے قابل ہو جائیں گے اور جس روز ہم یہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ دن دور جدید کی تاریخ میں صرف مالی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور تمدنی اور اخلاقی حیثیت سے بھی ایک انقلاب انگیز دن ہو گا ،اس وقت یہ امکان پیدا ہو جائے گا کہ ہمارا اور دوسری قوموں کا تمام لین دین غیر سودی بنیاد پر ہو،یہ بھی ممکن ہو گا کہ دنیا کی قومیں یکے بعد دیگرے باہم ایسے معاہدات طے کرنے شروع کر دیں کہ وہ ایک دوسرے سے سود نہیں لیں گے اور بعید نہیں کہ وہ دن بھی ہم دیکھ سکیں جب بین الاقوامی رائے عام سود خوری کے خلاف بالاتفاق اسی نفرت کا اظہار کرنے لگے جس کا اظہار 1945ء میں بریٹن ووڈس کے معاملے پر انگلستان میں کیا گیا تھا یہ محض ایک خیالی پلاؤ نہیں ہے ،بلکہ فی الواقع آج بھی دنیا کے سوچنے والے دماغ پر سوچ رہے ہیں کہ بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے سے دنیا کی سیاست اور معیشت ،دونوں پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس طریقے کو چھوڑ کر اگر خوش حال ممالک اپنی فاضل دولت کے ذریعے سے خستہ حال اور آفت رسیدہ ممالک کو اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانے کی مخلصانہ و ہمدردانہ کوشش کریں تو اس کا دوہرا فائدہ ہو گا ،سیاسی و تمدنی حیثیت سے بین الاقوامی بدمزگی بڑھنے کے بجائے محبت اور دوستی میں بڑھے گی اور معاشی حیثیت سے ایک خستہ حال دیوالیہ ملک کا خون چوسنے کی بہ نسبت ایک خوش حال اور مال دار ملک کے ساتھ کاروبار کرنا بدر جہا زیادہ نافع ثابت ہو گا ،یہ حکمت کی باتیں سوچنے والے سوچ رہے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں لیکن ساری کسر بس اس بات کی ہے کہ دنیا میں کوئی حکیم قوم ایسی ہو جو پہلے اپنے گھر سے سود خوری کو مٹائے اور آگے بڑھ کر بین الاقوامی لین دین سے اس لعنت کو خارج کرنے کی عملاً ابتدا کر دے ۔

نفع آور اغراض کے لیے سرمایہ کی بہم رسانی :۔

مالیاتِ قرض کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجئے کہ ہمارے پیشِ نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے اس سلسلے میں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں،سودکا انسداد لوگوں کے لیے یہ دروازہ تو قطعی بند کر دے گا کہ وہ محنت اور خطرہ دونوں چیزوں سے بچ کر اپنے سرمائے کو تحفظ اور متعین منافع کی ضمانت کے ساتھ کسی کام میں لگا سیں اور اسی طرح زکوٰۃ ان کے لیے اس دروازے کو بھی بند کر دے گی کہ وہ اپنا سرمایہ روک رکھیں اور اس پر مارِ زربن کر بیٹھ جائیں ،مزید بر آں ایک حقیقی اسلامی حکومت کی موجودگی میں لوگوں کے لیے عیاشیوں اور فضول خر چیوں کا دروازہ بھی کھلا نہ رہے گا کہ ان کی فاضل آمدنیاں ادھر بہہ نکلیں اس کے بعد لامحالہ ان تمام لوگوں کو جو ضرورت سے زائد آمدنی رکھتے ہوں ،اور اگر وہ اپنی پس انداز کردہ رقموں کو کسی نفع آور کام میں لگانے کے خواہشمند ہوں تو ان کے لیے اس چیز کے حصول کا صرف ایک راستہ کھلا ہو گا ،یہ کہ اپنی بچائی ہوئی رقموں کو نفع اور نقصان میں متناسب شرکت کے اصول پر نفع بخش کاموں میں لگائیں ،خواہ حکومت کے توسط سے ،یا بینکوں کے توسط سے ،خود لگا نا چاہیں گے تو ان کو کسی کاروبار میں شرکت کی شرائط آپ طے کرنی ہوں گی جن میں ازروئے قانون اس امر کا تعین ضروری ہو گا کہ فریقین کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کس تناسب سے ہو گی ،علیٰ ہذا القیاس مشترک سرمائے کی کمپنیوں میں بھی شرکت کی صورت صرف یہی ایک ہو گی کہ سیدھے سادھے حصے خرید لیے جائیں ،بانڈ اور اس طرح کی دوسری چیزیں ،جن کے خریدار کو کمپنی سے ایک لگی بندھی آمدنی ملتی ہے ،سرے سے موجود ہی نہ ہوں گی۔

حکومت کے توسط سے لگانا چاہیں گے تو انہیں امورِ نافعہ سے متعلق حکومت کی کسی اسکیم میں حصہ دار بننا ہو گا ،مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ حکومت برق آبی کی کوئی تجویز عمل میں لانا چاہتی ہے وہ اس کا اعلان کر کے پبلک کو اس میں شرکت کی دعوت دے گی جو اشخاص ،یا ادارے ،یا بینک اس میں سرمایہ دیں گے وہ حکومت کے ساتھ اس میں حصہ دار بن جائیں گے اور اس کے کاروبار ی منافع میں سے ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ پاتے رہیں گے نقصان ہو گا تو اس کا بھی متناسب حصہ ان سب پر حکومت پر تقسیم ہو جائے گا ،اور حکومت اس امر کی بھی حقدار ہو گی کہ ایک ترتیب کے ساتھ بتدریج لوگوں کے حصے خود خریدتی چلی جائے یہاں تک کہ چالیس پچاس سال میں برق آبی کا وہ پورا کام خالص سرکاری ملک بن جائے ۔

بینکنگ کی اسلامی صورت :۔

دراصل بینکینگ بھی موجودہ ،تہذیب کی پرورش کی ہوئی بہت سی چیزوں کی طرح ایک ایسی اہم اور مفید چیز ہے جس کو صرف ایک شیطانی عنصر کی شمولیت نے گندہ کر رکھا ہے اول تو وہ بہت سی ایسی جائز خدمات انجام دیتا ہے جو موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی اور کاروباری ضروریات کے لیے مفید بھی ہیں اور ناگزیر بھی ،مثلاً رقموں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا اور ادائیگی کا انتظام کرنا ،بیرونی ممالک سے لین دین کی سہولتیں بہم پہنچانا ،قیمتی اشیاء کی حفاظت کرنا ،اعتماد نامے ،سفری چک اور کمپنیوں کے حصص کی فروخت کا انتظام کرنا ،اور بہت سی وکیلانہ خدمات جنہیں تھوڑے سے کمیشن پر بینک کے سپر د کر کے آج ایک مصروف آدمی بہت سے مصیبتوں سے خلاصی پا لیتا ہے یہ وہ کام ہیں جنہیں بہر حال جاری رہنا چاہیے اور ان کے لیے ایک مستقل ادارے کا ہونا ضروری ہے پھر یہ بات بھی بجائے خود تجارت ،صنعت ،زراعت اور ہر شعبۂ تمدن و معیشت کے لیے نہایت مفید اور آج کے حالات کے لحاظ سے نہایت ضروری ہے کہ معاشرے کا فاضل سرمایہ بکھرا ہوا رہنے کے بجائے ایک مرکزی ذخیرہ میں مجتمع ہو اور وہاں سے زندگی کے ہر شعبے کو آسانی کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ بہم پہنچ سکے ،اس کے ساتھ عام افراد کے لیے بھی اس میں بڑی سہولت ہے کہ جو تھوڑا بہت سرمایہ ان کی ضرورت سے بچ رہتا ہے اسے وہ کسی نفع بخش کام میں لگانے کے مواقع الگ الگ بطور خود ڈھونڈتے پھرنے کے بجائے سب اس کو ایک مرکزی ذخیرے میں جمع کرا دیا کریں اور وہاں ایک قابل اطمینان طریقے سے اجتماعی طور پر ان سب کے سرمائے کو کام پر لگانے اور حاصل شدہ منافع کو ان پر تقسیم کرنے کا انتظام ہوتا رہے ،ان سب پر مزید یہ کہ مستقل طور پر مالیات ہی کا کام کرتے رہنے کی وجہ سے بینک کے منتظمین اور کارکنوں اس شعبۂ فن میں ایک ایسی مہارت اور بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جو تاجروں ،صناعوں اور دوسرے معاشی کارکنوں کو نصیب نہیں ہوتی ،یہ ماہرانہ بصیرت بجائے خود ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ یہ محض ساہوکار کی خود غرضی کا ہتھیار بن کر نہ رہے بلکہ کاروباری لوگوں کے ساتھ تعاون میں استعمال ہو ،لیکن بینکنگ کی ان ساری خوبیوں اور منفعتوں کو جس چیز نے الٹ کر پورے تمدن کے لیے برائیوں اور مضرتوں سے بدل دیا ہے وہ سود ہے اور اس کے ساتھ دوسری بنائے فاسد یہ بھی شامل ہو گئی ہے کہ سود کی کشش سے جو سرمایہ کھچ کھچ کر بینکوں میں مرتکز ہوتا ہے وہ عملاً چند خود غرض سرمایہ داروں کی دولت بن کر رہ جاتا ہے جسے وہ نہایت دشمنِ اجتماع طریقوں سے استعمال کرتے ہیں ،ان دو خرابیوں کو اگر دور کر دیا جائے تو بینکنگ ایک پاکیزہ کام بھی ہو جائے گا ،تمدن کے لییے موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرِ جہا زیادہ نافع بھی ہو گا اور عجب نہیں کہ خود ساہوکاروں کے لیے بھی سود خوری کی بہ نسبت یہ دوسرا پاکیزہ طریق  کار مالی حیثیت سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو ۔

جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ انسداد سود کے بعد بینکوں میں سرمایہ اکٹھا ہونا ہی بند ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ جب سود ملنے کی توقع ہی نہ ہو گی تو لوگ کیوں اپنی فاضل آمدنیاں بینک میں رکھوائیں گے ،حالانکہ اس وقت سود کی نہ سہی نفع ملنے کی توقع تو ضرور ہو گی ،اور چونکہ نفع کا امکان غیر متعین اور غیر محدود ہو گا اس لیے عام شرح سود کی بہ نسبت کم نفع حاصل ہونے کا جس قدر امکان ہو گا اسی قدر اچھا خاصا زیادہ نفع ملنے کا امکان بھی ہو گا ،اس کے ساتھ بینک وہ تمام خدمات بدستور انجام دیتے رہیں گے جن کی خاطر اب لوگ بینکوں کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں لہذا یہ بالکل ایک یقینی بات ہے کہ جس مقدار میں اب سرمایہ بینکوں کے پاس آتا ہے اسی مقدار میں انسداد سود کے بعد بھی آتا رہے گا ،بلکہ اس وقت چونکہ ہر طرح کے کاروبار کو زیادہ فروغ حاصل ہو گا ،روز گار بڑھ جائے گا ،اور آمدنیاں بھی بڑھ جائیں گی ،اس لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت کہیں بڑھ چڑھ کر فاضل آمدنیاں بینکوں میں جمع ہوں گی۔

اس جمع شدہ سرمایہ کا جس قدر حصہ چالوکھاتے یا عندالطلب کھاتے میں ہو گا اس کو تو بینک کسی نفع بخش کام میں نہ لگا سکیں گے ،جس طرح اب بھی نہیں لگا سکتے ،اس لیے وہ زیادہ تر دو بڑے کوموں میں استعمال ہو گا ،ایک روز مرہ کا نقد لین دین ،دوسرے کاروباری لوگوں کو قلیل المدت قرضے بلا سود دینا ،اور ہنڈیاں بلا سود بھُنانا۔

رہا وہ سرمایہ جو لمبی مدت کے لیے بینکوں میں رکھا جائے گا تووہ لازماً دو ہی قسم کا ہو گا ایک وہ جس کے مالک صرف اپنے مال کی حفاظت چاہتے ہوں ،ایسے لوگوں کے مال کو بینک قرض کے طور پر لے کر خود کاروبار میں استعمال کر سکیں گے ،جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں ،دوسرا وہ جس کے مالک اپنے مال کو بینکوں کے توسط سے کاروبار میں لگانا چاہتے ہوں ،ان کے مال کو امانت میں رکھنے کے بجائے ہر بینک کو ان کے ساتھ ایک شراکت نامہ عام طے کرنا ہو گا ،پھر بینک اس سرمایہ کو اپنے دوسرے سرمایوںسمیت مضاربت کے اصول پر تجارتی کاروبار میں ،صنعتی اسکیموں میں ،زراعتی کاموں میں ،اور پبلک اداروں اور حکومتوں کے نفع آور کاموں میں لگا سکیں گے ،اور اس سے بحیثیت مجموعی دو عظیم الشان فائدے ہوں گے ،ایک یہ کہ ساہوکار کا مفاد کاروبار کے مفاد کے ساتھ متحد ہو جائے گا ،اس لیے کاروبار کی ضرورت کے مطابق سرمایہ اس کی پشت پناہی کرتا رہے گا اور وہ اسباب قریب قریب ختم ہو جائیں گے جن کی بنا پر موجودہ سود خور دنیا میں  کساد بازاری کے دورے پڑا کرتے ہیں دوسرے یہ کہ ساہوکار کی مالیاتی بصیرت اور کاروباری لوگوں کی تجارتی و صنعتی بصیرت ،جو آج باہم نبرد آزمائی کرتی رہتی ہیں اس وقت ایک دوسرے کے ساتھ دستیاری اور تعاون کریں گے اور یہ سب ہی کے لیے مفید ہو گا ،پھر جو منافع ان ذرائع سے بینکوں کو حاصل ہوں گے ان کو وہ اپنے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد ،ایک مقرر تناسب کے مطابق اپنے حصے داروں اور کھاتہ داروں میں تقسیم کر دیں گے ،اس معاملے میں فرق صرف یہ ہو گا کہ بحالتِ موجودہ منافع بینکوں کے حصے داروں میں تقسیم ہوتے ہیں اور کھاتہ داروں کو سود دے دیا جاتا ہے ،اس وقت دونوں میں منافع ہی تقسیم ہوں گے ،اب کھاتہ داروں کو ایک متعین شرح کے مطابق سود ملا کرتا ہے اس وقت شرح کا تعین نہ ہو گا بلکہ جتنے بھی منافع ہوں گے ،خواہ کم ہوں یا زیادہ ،وہ سب ایک تناسب کے ساتھ تقسیم ہو جائیں گے ،نقصان اور دیوالہ کا جتنا خطرہ اب ہے اتنا ہی اس وقت بھی ہو گا ،اب خطرہ اور اس کے بالمقابل غیر محدود نفع  کا امکان ،دونوں صرف بینک کے حصہ داروں کے لیے مخصوص ہیں ،اس وقت یہ دونوں چیزیں کھاتہ داروں اور حصہ داروں میں مشترک ہو جائیں گی ۔

رہ گیا بینکینگ کا یہ نقصان کہ نفع کی کشش سے جو سرمایہ ان کے پاس اکٹھا ہوتا ہے اس کی مجتمع طاقت پر عملاً صرف چند ساہوکار قابض و متصرف ہوتے ہیں ،تو اس کے تدارک کے لیے ہم کو یہ کرنا ہو گا کہ مرکزی ساہوکاری کا سارا کام بیت المال یا اسٹیٹ بینک خود اپنے ہاتھ میں رکھے اور قوانین کے ذریعے سے تمام پرائیویٹ بینکوں پر حکومت کا اقتدار اور دخل و ضبط اس حد تک قائم کر دیا جائے کہ ساہوکار اپنی مالیاتی طاقت کا بیجا استعمال نہ کر سکیں ۔

غیرمسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے:۔

اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیر مسلم ممالک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی ،لیکن قرض کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں اور وہ بھی ان کی شرائط پر ،ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یہ تعلق اس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے ،اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سدھارنے کی کوشش کرے گی ،اخلاقی حالت سدھر نے کے معنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کار پرداز اور قوم کے افراد ایمان دار ہوں ،اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں ،اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو جس کے لیے جان و مال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں ،نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ہو اور قوم ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ در حقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں ،یہ صورت حال اگر پیدا ہو جائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آسکتی ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے ،وہ سو فیصدی وصول ہوں گے اور سو فیصدی ہی وہ قوم کی ترقی پر صرف ہوں گے نہ ان کی وصول یابی میں بے ایمانی ہو گی اور ان کے خرچ میں ہی بے ایمانی ہو گی ،اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمایہ کا ایک بڑا حصہ رضا کارانہ چندے کی صورت میں اور ایک اچھا خاصہ حصہ غیر سودی قرض کی صورت میں اور ایک حصہ منافع میں شرکت کے لیے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہو جائے گی میرا اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کی بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ہو جائے گا ۔

بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی ناگزیر صورت پیش آ ہی جائے ،یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہے اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ بھی نہ مل سکے ،تو مجبوراً دوسروں سے سود پر قرض لیا جا سکتا ہے لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کا پھر بھی کوئی جواز نہیں ،ملک میں سود بند کیا جا سکتا ہے اور پورا مالی نظام سود کے بغیر چلایا جا سکتا ہے۔آخر میں دعا ہے پاک پروردگار سے کے وہ اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے سے ہمارے ملک کو ہر طرح کی ترقی سے بہرہ ور فرمائے ۔

آمین بجاہ النبی الکریم الامین

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید